ہجرت نبوی کا نواں سال

سیدناابوبکرصدیق ؓ کوامیرحج بناکر مکہ روانہ کرنا(ذی الحجہ،یوم الحج الاکبر) (نوہجری(مارچ۶۳ ء)

قَالَ: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ:ثُمَّ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُنْصَرَفَهُ مِنْ تَبُوكَ بَقِیَّةَ رَمَضَانَ وَشَوَّالًا وَذَا الْقَعْدَةِ ،ثُمَّ بَعَثَ أبا بكر أَمِیرًا عَلَى الْحَجِّ سَنَةَ تِسْعٍ لِیُقِیمَ لِلْمُسْلِمِینَ حَجَّهُمْ،

ابن اسحاق کہتے ہیں  تبوک سے واپسی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے باقی دن اورشوال ،ذوالقعدہ کاپورامہینہ مدینہ طیبہ میں  گزارا،پھر ذی الحجہ نوہجری میں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوامیرحج مقررفرماکرمکہ مکرمہ روانہ کیاتاکہ وہ مناسک حج قائم کرائیں  ۔[1]

وَبَعَثَ مَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعِشْرِینَ بَدَنَةً قَلَّدَهَا وَأَشْعَرَهَا بِیَدِهِ، عَلَیْهَا نَاجِیَةَ بْنَ جُنْدُبٍ الْأَسْلَمِیَّ، وَسَاقَ أبو بكر خَمْسَ بَدَنَاتٍ

آٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اپنے بیس قربانی کے جانورروانہ فرمائے،ان کے لیے قلادے ڈالے اوراپنے دست مبارک سے کوہانوں  کوچیرالگایااورناجیہ رضی اللہ عنہ بن جندب کوان کانگراں  مقررفرمایا۔[2]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:فَتَلْتُ قَلَائِدَ بُدْنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدَیَّ، ثُمَّ أَشْعَرَهَا وَقَلَّدَهَا، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا إِلَى الْبَیْتِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِینَةِ، فَمَا حَرُمَ عَلَیْهِ شَیْءٌ كَانَ لَهُ حِلًّا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  اپنے ہاتھوں  سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں  کے ہاربٹاکرتی تھی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کوہانوں  کوچیرالگاتے پھرہارڈالتے اوربیت اللہ کی طرف بھیجتے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خودمدینہ میں  قیام کرتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکوئی چیزجوپہلے حلال تھی حرام نہ ہوتی (اورآپ بددستوراسی حال میں  رہے،حالت احرام کی پابندیوں  میں  کوئی پابندی آپ نے اپنے اوپرعائدنہیں  کی)۔[3]

فَخَرَجَ فِی ثَلَاثِمِائَةِ رَجُلٍ مِنَ الْمَدِینَةِ،وَسَاقَ أبو بكر خَمْسَ بَدَنَاتٍ،

خود سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے قربانی کے پانچ جانورساتھ لئے، اور تین سوحاجیوں  کا قافلہ لے کر مدینہ منورہ سےمکہ مکرمہ کے لیےروانہ ہوئے۔[4]

اب عرب کانظام ونسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں  آگیاتھااورتمام مزاحم طاقتیں  بے بس ہوچکی تھیں  ،اس لئے عرب کومکمل دارالاسلام بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ التوبہ میں  ہدایات نازل فرمائیں  کہ

x عرب سے شرک کوقطعاًمٹادیاجائے اورقدیم مشرکانہ نظام کاکلی استیصال کرڈالاجائے، تاکہ مرکزاسلام ہمیشہ کے لئے خالص اسلامی مرکزبن جائے اورکوئی دوسراعنصراس کے اسلامی مزاج میں  نہ توخلل اندازہوسکے، اورنہ کسی خطرے کے موقع پراندرونی فتنہ کاموجب بن سکے،اسی غرض کے لئے مشرکین سے برات اوران کے ساتھ معاہدوں  کے اختتام کااعلان کیاگیا۔

xکعبہ کاانتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں  آجانے کے بعدیہ بالکل نامناسب تھاکہ جوگھرخالص اللہ کی پرستش کے لئے وقف کیاگیاہے اس میں  بددستورشرک ہوتارہے، اوراس کی تولیت بھی مشرکین کے قبضہ میں  رہے ،اسی لئے حکم دیاگیاکہ آئندہ کعبہ کی تولیت اہل توحیدکے قبضہ میں  رہنی چاہیے، اوربیت اللہ کے حدودمیں  شرک وجاہلیت کی تمام رسمیں  بھی بزوربندکردینی چائیں  ،بلکہ ان مشرکین اس گھرکے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں  ،تاکہ بنائے ابراہیمی کے آلودہ شرک ہونے کاکوئی امکان ناقی نہ رہے۔

xعرب کی تمدنی زندگی میں  رسوم جاہلیت کے جوآثارابھی تک باقی تھے ان کاجدیداسلامی دورمیں  جاری رہناکسی طرح درست نہ تھا،اس لئے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی ،نسی کاقاعدہ ان رسوم میں  سب سے زیادہ بدنماتھا،اس لئے اس پربراہ راست ضرب لگائی گئی اوراسی ضرب سے مسلمانوں  کوبتادیاگیاکہ بقیہ آثارجاہلیت کے ساتھ انہیں  کیاکرناچاہیے۔

xعرب میں  اسلام کامشن پایہ تکمیل کوپہنچ جانے کے بعددوسرااہم مرحلہ جوسامنے تھاوہ یہ تھاکہ عرب کے باہردین حق کادائرہ اثرپھیلایاجائے،اس معاملہ میں  روم وایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سدراہ تھی، اورناگزیرتھاکہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو،نیزآگے چل کردوسرے غیرمسلم سیاسی وتمدنی نظاموں  سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آناتھا،اس لئے مسلمانوں  کوہدایت کی گئی کہ عرب کے باہرجولوگ دین حق کی پیرونہیں  ہیں  ان کی خودمختارانہ فرماں  روائی کوبزورشمشیرختم کردو،تاآنکہ وہ اسلامی اقتدارکے تابع ہوکررہناقبول کرلیں  ،جہاں  تک دین پرایمان لانے کاتعلق ہے ان کواختیارہے کہ ایمان لائیں  یانہ لائیں  ، لیکن ان کویہ حق نہیں  کہ اللہ کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں  ، اورانسانی سوسائیٹیوں  کی زمام کاراپنے ہاتھ میں  رکھ کراپنی گمراہیوں  کوخلق خداپراوران کی آنے والی نسلوں  پرزبردستی مسلط کرتے رہیں  ،زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کاانہیں  اختیاردیاجاسکتاہے وہ بس اسی حدتک ہے کہ خوداگرگمراہ رہناچاہتے ہیں  تورہیں  ،بشرطیکہ جزیہ دے کراسلامی اقتدارکے مطیع بنے رہیں  ۔

xمومنین صادقین میں  اب تک جوتھوڑابہت ضعف عزم باقی تھااس کاعلاج بھی ضروری تھاکیونکہ اسلام عالمگیرجدوجہدکے مرحلے میں  داخل ہونے والاتھا،اوراس مرحلہ میں  جبکہ اکیلے مسلم عرب کوپوری غیرمسلم دنیاسے ٹکراناتھا،ضعف ایمان سے بڑھ کرکوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لئے نہ ہوسکتاتھا،اس لئے جن لوگوں  نے تبوک کے موقع پرسستی اورکمزوری دکھائی تھی ان کونہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ،پیچھے رہ جانے والوں  کے اس فعل کوکہ وہ بالاعذرمعقول پیچھے رہ گئے بجائے خودایک منافقانہ طرز عمل،اورایمان میں  ان کے ناراست ہونے کاایک بین ثبوت قراردیاگیا،اورآئندہ کے لئے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کردی گئی کہ اعلائے کلمة اللہ کی جدوجہد اور کفر واسلام کی کشمکش ہی وہ اصلی کسوٹی ہے جس پرمومن کادعوائے ایمان پرکھاجائے گا،جواس آویزش میں  اسلام کے لئے جان ومال اوروقت ومحنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کاایمان معتبرہی نہ ہوگا،اوراس پہلوکی کسرکسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہوسکے گی۔جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورکفارکے درمیان طے شدہ عہدوپیمان کو برابری کی بنیادپر توڑنے کاحکم دیاگیا تھا۔

نزول سورہ التوبہ ۱تا۳۷

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِینَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١﴾‏ فَسِیحُوا فِی الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِی الْكَافِرِینَ ‎﴿٢﴾‏ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِیءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِینَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِینَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٣﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِینَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوكُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاهِرُوا عَلَیْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٤﴾(التوبة )
’’اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہےان مشرکوں  کے بارے میں  جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا، پس (اے مشرکو ! ) تم ملک میں  چار مہینے تک تو چل پھر لو،جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں  ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں  کو رسوا کرنے والا ہے ، اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں  کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں  سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں  بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں  سکتے، اور کافروں  کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے، بجز ان مشرکوں  کے جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے اور انہوں  نے تمہیں  ذرا سا بھی نقصان نہیں  پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہےتو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ پرہیزگاروں  کو دوست رکھتا ہے۔‘‘

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:آخِرُ آیَةٍ نَزَلَتْ: {یَسْتَفْتُونَكَ قُلْ: اللَّهُ یُفْتِیكُمْ فِی الكَلاَلَةِ}، [5] وَآخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةٌ

ابن اسحاق کہتے ہیں  میں  نے براء رضی اللہ عنہ سے سناوہ فرماتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۂ النساء کی آخری آیت’’لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں  فتویٰ پوچھتے ہیں  ۔‘‘۔ نازل ہوئی اور سورۂ توبہ کی اکثرآیات آخرمیں  نازل ہوئی تھیں  ۔[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری آیت یہ نازل ہوئی تھی جس کے چند دن بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوگیا،

 وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللهِ۝۰ۣۤ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۲۸۱ۧ [7]

اس دن کی رسوائی ومصیبت سے بچوجبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگےوہاں  ہرشخص کواس کی کمائی ہوئی نیکی یابدی کاپوراپورابدلہ مل جائے گااورکسی پرظلم ہرگزنہ ہوگا۔

سورہ انفال میں  گزرچکاہے

 وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰی سَوَاۗءٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِیْنَ۝۵۸ۧ [8]

ترجمہ:اور اگر کبھی تمہیں  کسی قوم سے خیانت(نقص عہد اورغداری) کا اندیشہ ہو توعلی الاعلان اس کامعاہدہ اس کی طرف پھینک دواوراسے خبردارکردوکہ اب ہمارا تمہارا کوئی معاہدہ باقی نہیں  ہے، یقیناً اللہ خائنوں  کو پسند نہیں  کرتا ۔

اسی ضابطہ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کایہ اعلان عام ان تمام قبائل کے خلاف کیاگیا،جوعہدوپیمان کے باوجودہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں  کرتے رہے تھے اورموقع پاتے ہی پاس عہدکوبالائے طاق رکھ کردشمنی پراترآتے تھے،یہ کیفیت بنی کنانہ اوربنی ضمرہ اور شاید ایک آدھا اورقبیلہ کے سواباقی تمام ان قبائل کی تھی جواس وقت تک شرک پرقائم تھے، قبیلہ خزاعہ ،قبیلہ مدلج اوردوسرے سب قبائل کے لئے بھی یہی اعلان تھا،اس اعلان برات سے عرب میں  شرک اورمشرکین کاوجودگویاعملاًخلاف قانون (Outlaw) ہو گیا ، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیرحکم آچکاتھا،اس لئے ان کے لئے سارے ملک میں  کوئی جائے پناہ نہ رہی۔اعلان برات ۱۰ذی الحجہ ۹ہجری کوہواتھااوران لوگوں  کواس وقت سے ۱۰ربیع الثانی ۱۰ہجری تک چارمہینہ کی مہلت دی گئی تھی کہ اس دوران اپنی پوزیشن پراچھی طرح غور کرلیں  ،لڑناہے تولڑائی کے لئے تیارہوجائیں  ،ملک چھوڑناہے تواپنی جائے پناہ تلاش کرلیں  اوراگراسلام قبول کرناہے توسوچ سمجھ کرقبول کرلیں  ،اگردونوں  صورتوں  میں  سے کوئی بھی اختیارنہیں  کروگے توحربی کافرشمارہوگے جن سے لڑنامسلمانوں  کے لئے ضروری ہوگا،تاکہ جزیرہ عرب کفروشرک کی تاریکیوں  سے صاف ہو جائے ، تمام لوگوں  کے لئے یہ اطلاع عام ہے کہ اللہ اوراس کا رسول حج اکبر(قربانی کادن)کے دن سے مشرکین سے بری الذمہ ہے،

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ یَوْمِ الحَجِّ الأَكْبَرِ، فَقَالَ: یَوْمُ النَّحْرِ.

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج اکبرکے دن کے بارے میں  دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ یوم نحر(دس ذوالحجہ)ہے۔[9]

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِیٌّ یَوْمَ النَّحْرِ فِی أَهْلِ مِنًى بِبَرَاءَةَ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے چنانچہ ہمارے ساتھ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بھی یوم نحرہی میں  سورت برات کااعلان کیایعنی یوم حج اکبرسے مرادیوم النحر(دس ذوالحجہ)کادن ہے۔[10]

اسی دن منٰی میں  اعلان برات سنایاگیا،دس ذوالحجہ کوحج اکبرکادن اسی لئے کہاگیاکہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اوراہم مناسک اداکیے جاتے ہیں  اورعوام عمرے کو حج اصغرکہاکرتے تھے ،اس لئے عمرے سے ممتازکرنے کے لئے حج کوحج اکبرکہاگیا،عوام میں  جویہ مشہورہے کہ جوحج جمعہ والے دن آئے وہ حج اکبرہے یہ بے اصل بات ہے، فرمایاتم ملک میں  چارمہینے اورگھوم پھرلواس کے بعدکوئی معاہدہ ومیثاق نہیں  ،یہ مہلت اس لئے نہیں  دی جارہی کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں  ہےبلکہ اس سے مقصدصرف تمہاری بھلائی اورخیرخواہی ہے تاکہ جوتوبہ کرکے مسلمان ہوناچاہے وہ مسلمان ہوجائے ،ورنہ یادرکھوکہ تمہاری بابت اللہ کی جوتقدیر و مشیت ہے اسے تم ٹال نہیں  سکتے، اوراللہ کی طرف سے مسلط ذلت ور سوائی سے تم بچ نہیں  سکتے ،اگرتم توبہ کرلویہ توتمہارے لئے بہترہے اوراگرنہ مانو تو جان لوکہ تم اللہ کے قبضہ قدرت میں  ہوتم اس سے بھاگ نہیں  سکتے،اورکافروں  کودنیامیں  قتل ،اسیری ،جلاوطنی اورآخرت میں  جہنم کے عذاب کی خوشخبری سنادو، سوائے ان مشرکین جن سے آپ کامعاہدہ ہے اوروہ اپنے عہد پر قائم ہیں  اوران سے کسی ایسے فعل کاارتکاب نہیں  ہواجونقص عہدکاموجب ہو،اس لئے مسلمانوں  پربھی لازم ہے کہ وہ بھی اس عہدکی اس کی مدت تک پاسداری کریں  ،بے شک اللہ ان لوگوں  کوپسندکرتاہے جو جنہوں  نے اپنی ذمہ داریوں  کااداکیا،شرک ، خیانت اوردیگرگناہوں  سے بچے رہے ۔

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِینَ حَیْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٥﴾‏ وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِینَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ یَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُونَ ‎﴿٦﴾‏كَیْفَ یَكُونُ لِلْمُشْرِكِینَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِینَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٧﴾(التوبة )
’’پھر حرمت والے مہینوں  کے گزرتے ہی مشرکوں  کو جہاں  پاؤ قتل کروانہیں  گرفتار کرو ،ان کا محاصرہ کرلو اور ان کی تاک میں  ہر گھاٹی میں  جا بیٹھو ، ہاں  اگر وہ توبہ کرلیں  اور نماز کے پابند ہوجائیں  اور زکوة ادا کرنے لگیں  تو تم ان کی راہیں  چھوڑ دو، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے،اگر مشرکوں  میں  سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تواسے پناہ دے دے یہاں  تک کہ وہ کلام اللہ سن لے، پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے، یہ اس لیے کہ یہ لوگ بےعلم ہیں ،مشرکوں  کے لیے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیاہے، جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں  تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں  سے محبت رکھتا ہے ۔‘‘

پس جب پناہ کے یہ چارمہینے گزرجائیں  اوراس دوران نہ تووہ ملک سے نکلیں  اورنہ اسلام ہی قبول کریں  تواللہ کے ان دشمنوں  کوجہاں  کہیں  بھی پاؤقتل کردو،ان کوقیدی بنا و اور ان کواللہ کی زمین پراس طرح نہ چھوڑوکہ وہ کھلے دندناتے پھرتے رہیں  ، بلکہ جہاں  جہاں  ان کے حصار،قلعے اورپناہ گاہیں  ہیں  وہاں  پران کی تاک میں  بیٹھو حتی کہ تمہاری اجازت کے بغیران کے لئے نقل وحرکت ممکن نہ رہے ،اگروہ اپنے شرک سے توبہ کرلیں  اور بررضاوخوشی حقوق اللہ اداکرنے کے لئے نمازپڑھنے لگیں  اور حقوق العبادزکوٰة ادا کرنے لگیں  توپھران کوچھوڑدواب وہ تمہارے برابرکے مسلمان ہیں  ،ان کے وہی حقوق ہیں  جو تمہارے ہیں  اوران کے ذمے وہی فرائض ہیں  جوتمہارے ہیں  ،بے شک اللہ توبہ کرنے والوں  کاشرک اوران کے دیگرکم ترگناہ بخش دیتاہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى یَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَةَ، وَیُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیاگیاہےکہ لوگوں  سے جنگ کروں  جب تک کہ وہ اس بات کا اقرار کرلیں  کہ اللہ کے سواکوئی اورمعبود نہیں  ہے اوریہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں  اورنمازاداکرنے لگیں  اورزکوٰة دیں  ،جس وقت وہ یہ کرنے لگیں  گے تومجھ سے اپنی جان ومال کومحفوظ کرلیں  گے سوائے اسلام کے حق میں  (رہاان کے دل کاحال تو)ان کاحساب اللہ کے ذمہ ہے۔[11]

وَفِیهِ دَلِیلٌ عَلَى قَبُولِ الْأَعْمَالِ الظَّاهِرَةِ وَالْحُكْمِ بِمَا یَقْتَضِیهِ الظَّاهِرُ وَالِاكْتِفَاءُ فِی قَبُولِ الْإِیمَانِ بِالِاعْتِقَادِ الْجَازِم

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث سے معلوم ہواکہ اعمال ظاہری کوقبول کیاجائے گااورظاہری حال ہی پرحکم لگایاجائے گااورپختہ اعتقادکوقبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھاجائے گا۔[12]

وَیُؤْخَذُ مِنْهُ تَرْكُ تَكْفِیرِ أَهْلِ الْبِدَعِ الْمُقِرِّینَ بِالتَّوْحِیدِ الْمُلْتَزِمِینَ لِلشَّرَائِعِ وَقَبُولُ تَوْبَةِ الْكَافِرِ مِنْ كُفْرِهِ مِنْ غَیْرِ تَفْصِیلٍ بَیْنَ كُفْرٍ ظَاهِرٍ أَوْ بَاطِنٍ

اورعلامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیاجائے گاکہ جواہل بدعت توحیدکے اقراری اورشرائع کاالتزام کرنے والے ہیں  ان کی تکفیرنہ کی جائے گی اوریہ کہ کافرکی توبہ قبول کی جائے گی، اوراس کی تفصیل میں  نہ جائیں  گے کہ وہ توبہ ظاہری کررہاہے یااس کے دل سے بھی اس کاتعلق ہے(کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے)۔[13]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  تمہیں  نمازوں  کے قائم کرنے اورزکوة دینے کاحکم کیاگیاہے جوزکوة نہ دے اس کی نمازبھی نہیں  ،اسی آیت سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہ ارتدادکے زمانہ میں  استدلال کیاتھا،فتنہ پرپاکرنے والاایک گروہ کہتاتھاکہ ہم اسلام کے منکرنہیں  ،نمازبھی پڑھنے کے لئے تیارہیں  مگرزکوٰة ادانہیں  کریں  گے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخرایسے لوگوں  کے خلاف تلوارکیسے اٹھائی جاسکتی ہے ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کاحوالہ دے کرفرمایاکہ ہمیں  توان لوگوں  کوچھوڑدینے کاحکم صرف اس صورت میں  دیاگیاتھاجبکہ یہ شرک سے توبہ کریں  ، نماز قائم کریں  اور زکوٰة اداکریں  مگرجب یہ تین شرطوں  میں  سے ایک شرط پراڑائے دیتے ہیں  توپھرانہیں  ہم کیسے چھوڈدیں  ،

فَقَالَ: وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَال

چنانچہ فرمایااللہ کی قسم! میں  ہراس شخص سے جنگ کروں  گاجو نماز اور زکوة کے درمیان فرق کرے گا (یعنی نمازتوپڑھے گامگر زکوة اداکرنے سے انکارکردے)کیونکہ زکوٰة مال کاحق ہے۔[14]

دوران جنگ اگرمشرکین میں  سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اس کی خواہش پوری کرکے اسے پناہ دے دیں  تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے اوراسلام پراچھی طرح غور و فکر کرلے ،ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اورقبول اسلام کی توفیق مل جائے، اگر وہ اسلام قبول کرلے توبہترورنہ اسے اس کے مستقرتک بخیریت پہنچادیں  ،پناہ کے طلب گاروں  کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ بے علم لوگ ہیں  ،ممکن ہے اللہ اوررسول کی باتیں  ان کے علم میں  آئیں  اورمسلمانوں  کااخلاق وکرداروہ دیکھیں  تواسلام کی حقانیت وصداقت کے وہ قائل ہوجائیں  ، اوراسلام قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں  ،جس طرح صلح حدیبیہ کے بعدبہت سے کافرجن میں  عروہ بن مسعود،مکرزبن حفص اورسہیل بن عمرووغیرہ بھی تھے یکے برددیگرے امان طلب کرکے مدینہ آتے جاتے رہے توانہیں  مسلمانوں  کے اخلاق وکردارکے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں  بڑی مددملی اوربہت سے لوگ مسلمان ہوگئے ،آخران مشرکین کے لئے اللہ اوراس کے رسول کاعہدکیسے قائم رہے سکتاہے ، کیا انہوں  نے واجبات ایمان کوقائم کیایاانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کواذیت دیناچھوڑدی ہے، بلکہ انہوں  نے حق کے خلاف جنگ کی اورباطل کی مدد کی ، کیا انہوں  نے زمین میں  فسادپھیلانے کی بھرپورکوشش کرکے اپنے آپ کواس بات کامستحق نہیں  ٹھہرالیاکہ اللہ تعالیٰ ان سے بری الذمہ ہو ، اللہ اوراس کے رسول کے ہاں  ان کے لئے کوئی عہداورذمہ نہ ہو،سوائے ان مشرکین کے یعنی بنی کنانہ،بنی خزاعہ اوربنی ضمرہ جن کے ساتھ آپ نے مسجدحرام کے پاس معاہدہ کیا ،چنانچہ جب تک وہ اپنے عہدپرقائم رہیں  آپ بھی اپنے عہد پر قائم رہیں  ،بے شک اللہ اہل تقویٰ کوپسندکرتاہے۔

كَیْفَ وَإِن یَظْهَرُوا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوا فِیكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ یُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٨﴾‏ اشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَن سَبِیلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٩﴾‏ لَا یَرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ ‎﴿١٠﴾‏ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿١١﴾‏ وَإِن نَّكَثُوا أَیْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنتَهُونَ ‎﴿١٢﴾(التوبة)
’’ان کے وعدوں  کا کیا اعتبار، ان کا اگر تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں  نہ عہد و پیمان کا، اپنی زبانوں  سے تمہیں  پرچا رہے ہیں  لیکن ان کے دل نہیں  مانتے ان میں  اکثر فاسق ہیں ، انہوں  نے اللہ کی آیتوں  کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راہ سے روکا، بہت برا ہے جو یہ کر رہے ہیں ، یہ تو کسی مسلمان کے حق میں  کسی رشتہ داری کا یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں  کرتے، یہ ہیں  ہی حد سے گزرنے والے، اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں  اور نماز کے پابند ہوجائیں  اور زکوة دیتے رہیں  تو تمہارے دینی بھائی ہیں ،ہم تو جاننے والوں  کے لیے اپنی آیتیں  کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں ،اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں  توڑ دیں  اور تمہارے دین میں  طعنہ زنی کریں  تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ،ان کی قسمیں  کوئی چیز نہیں  ،ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔‘‘

اوردوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہدوپیمان کیسے ہوسکتاہے جبکہ ان کاحال یہ ہے کہ اگرمسلمانوں  پرقدرت وغلبہ حاصل کرلیں  توانہیں  ختم کرنے میں  کوئی کسرنہ اٹھارکھیں  گے، اورکسی رشتے اورتعلق کالحاظ نہ کریں  گے، اور نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا ،بلکہ وہ مسلمانوں  کوبدترین عذاب سے دوچارکریں  گے ،وہ آپ سے ڈرکر بظاہرتو صلح کی شرطیں  طے کرتے ہیں  مگرآپ کوان کے بارے میں  دھوکے میں  نہیں  رہناچاہیے کیونکہ وہ آپ کے حقیقی دشمن ہیں  ، اورآپ کے ساتھ دلی بغض وعنادرکھتے ہیں  اس لئے ان کے دلوں  میں  ان شرائط کی پاسداری کاکوئی خیال نہیں  ہوتا،ان میں  سے اکثر ایسے لوگ ہیں  جنہیں  نہ اخلاقی ذمہ داریوں  کااحساس ہے اور نہ اخلاق کی پابندیوں  کے توڑنے میں  کوئی باک ہے،ان لوگوں  نے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول پر ایمان لانے اوراللہ کے احکامات پرعمل کرنے کے بجائے دینوی زندگی کے چندروزہ فائدے کوچن لیاہے، اوردعوت حق کوروکنے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگادیا،اوران لوگوں  پرعرصہ حیات تنگ کردیاجواس نظام کوحق پاکراس کے متبع بنے تھے،بلاشبہ یہ توبہت ہی گرے ہوئے کام کرتے رہے ہیں  ،ان لوگوں  کاکردارتویہ ہے کہ ایمان اوراہل ایمان سے عداوت کی بناپریہ نہ توکسی قرابت داری کالحاظ کرتے ہیں  اورنہ کسی عہدکوپوراکرنے کا،یہ ہمیشہ مسلمانوں  پرزیادتیاں  ہی کرتے رہے ہیں  ،اللہ نے ان کومہلت دی ہوئی ہے پس اگریہ کفرو نفاق سے توبہ کرکے ایمان کی طرف لوٹ آئیں  ،اللہ کوواحدلاشریک مان کراس کی عبودیت کے لئے نمازقائم کریں  اورمستحقین کی فلاح وبہبودکے لئے زکوٰة اداکریں  توان تینوں  کاموں  کے بعدمعاشرتی ،تمدنی اورقانونی حیثیت سے تمہارے بھائی شمارہوں  گے ، اورجاننے والوں  کے لئے ہم اپنے احکام واضح اورممیزکرتے ہیں  ،اگراسلام قبول کر لینے کے بعدمرتدہوجائیں  اوردین اسلام کے خلاف صف آراہوجائیں  توکفرکے ان پیشواؤں  (قائدین کفر) سے جنگ کرو،کیونکہ ان کے عہدومیثاق کے ایفاکاکوئی بھروسہ نہیں  ،شایدوہ تلوارکے زورسے ہی بازآجائیں  ،

ثنا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، أَنَّهُ كَانَ فِی عَهْدِ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ إِلَى النَّاسِ حِینَ وَجَّهَهُمْ إِلَى الشَّامِ ،قَالَ: إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ قَوْمًا مُحَوَّقَةً رُءُوسِهِمْ فَاضْرِبُوا مَقَاعِدَ الشَّیْطَانِ مِنْهُمْ بِالسُّیُوفِ، فَوَاللهِ لَأَنْ أَقْتُلَ رَجُلًا مِنْهُمْ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَ سَبْعِینَ مِنْ غَیْرِهِمْ وَذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ یَقُولُ:فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ

ولیدبن مسلم نے کہاکہ ہم سے صفوان بن عمرونے عبدالرحمٰن بن جبیربن نفیرسے روایت کیاہے کہ وہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہدمیں  ان لوگوں  میں  شامل تھے جنہیں  شام کی طرف روانہ کیاگیاتھا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھاتم وہاں  ایسے لوگوں  سے ملوگے جن کے سردرمیان سے مونڈے ہوئے ہوں  گے، توان کی شیطانی گرہوں  پرتلواریں  مارو،اللہ کی قسم ! مجھے ان میں  سے ایک کوقتل کرنادوسرے سترکافروں  کے قتل کرنے سے زیادہ پسندہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے توکفرکے سرداروں  سے جنگ کرو [15]

‏ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٣﴾‏قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَیْدِیكُمْ وَیُخْزِهِمْ وَیَنصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٤﴾‏ وَیُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَیَتُوبُ اللَّهُ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿١٥﴾(التوبة)
’’تم ان لوگوں  کی سرکوبی کے لیے کیوں  تیار نہیں  ہوتے جنہوں  نے اپنی قسموں  کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں  ہیں  اور خود ہی اول بار انہوں  نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو،ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں  تمہارے ہاتھوں  عذاب دے گا، انہیں  ذلیل اور رسوا کرے گا، تمہیں  ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں  کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دل کا غم و غصہ دور کرے گا، اور وہ جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے، اللہ جانتا بوجھتا حکمت والا ہے۔‘‘

تمام مشرک قبائل کومعاہدات کی منسوخی کاچیلنج دیاجاچکاتھااورمشرکین پرحج کے دروازے بندکردیئے گئے تھے ،صلح حدیبیہ اورفتح مکہ کے بعدجولوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے اکثرعزیزواقارب اپنے کفرپرجمے ہوئے تھے ،ان نئے مسلمانوں  کے لئے بڑی آزمائش کاموقع تھاکہ وہ اپنے بھائی بندوں  کے خلاف تلواراٹھائیں  ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوجہادکی رغبت دینے اوردین کے معاملے میں  کسی رشتہ وقرابت اورکسی دینوی مصلحت کالحاظ نہ کرنے کی پرزورتلقین کی، فرمایاتم ان لوگوں  سے کیوں  نہیں  لڑتے جنہوں  نے اپنے عہدوں  کوتوڑدیااورتمہارے خلاف دشمن کی اعانت کی ،یعنی جب قریش نے بنوخزاعہ کے خلاف(جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبدالمطلب کے زمانہ سے حلیف چلاآ رہا تھا) بنوبکرکی مددکی(جوصلح حدیبیہ کے موقع پرقریش کاحلیف بناتھا ) اورصرف ایمان کی دشمنی کی بناپردارالندوہ میں  بیٹھ کر رسول کوجلاوطن ،قید یاقتل کرنے کی تجویزوں  پر غور و فکرکیا،اورسازش تیارکرکے قتل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی،مگران کی سازش سے اللہ کی تدبیرکہیں  بہترتھی ،جیسے فرمایا

وَاِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰ [16]

ترجمہ:وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں  سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں  یا قتل کر ڈالیں  یا جلاوطن کر دیں  وہ اپنی چالیں  چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔

۔۔۔ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہِ رَبِّكُمْ۔۔۔۝۰۝۱ [17]

ترجمہ: اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں  کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لاؤ۔

وَاِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْہَا۔۔۔۝۷۶ [18]

ترجمہ:اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں  کہ تمہارے قدم اس سر زمین سے اکھاڑ دیں  اور تمہیں  یہاں  سے نکال باہر کریں  ۔

جنہوں  نے ہجرت کے بعدرئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو دھمکی بھیجی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ سے نکال دو،اپنے فخروغرورمیں  مبتلاہوکرغزوہ بدر کے برپاکرنے والے بھی یہی لوگ تھے ،کیاتم ان سے قتال کرنے سے ڈرتے ہو حالانکہ اگرتم مومن ہوتواللہ اس بات کازیادہ حق دار ہے کہ تم اس کے غیض وغضب سے ڈرو،ان سے لڑائی کرو،اللہ قادرہے کہ ان پراپناکوئی عذاب نازل کردے مگراللہ ان کوتمہارے ہاتھوں  سے قتل اور ذلیل ورسواکرے گا،اوراپنی رحمت خاص سے تمہیں  ان پر غالب کردے گا ، اور بہت سے مومنوکوجن کے دل کفارکے خلاف غیظ وغضب سے لبریزہیں  ٹھنڈے کرے گا،اوران (بنوخزاعہ)کاغصہ فروکردے گا،اوران برسرپیکارکفارمیں  سے جسے چاہئے گااسلام کوان کے دلوں  میں  آراستہ کردے گااورتوبہ کی توفیق عطاکرکے اس کی توبہ قبول فرمالے گا،اللہ سب کچھ جانتاہے کہ بندوں  کے لیے کیابہترہے اوروہ اپنے کونی اورشرعی افعال واقوال میں  حکمت والاہے۔

 أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِینَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٦﴾‏(التوبة)
کیا تم سمجھ بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں  سے انہیں  ممتاز نہیں  کیا جو مجاہد ہیں  اور جنہوں  نے اللہ کے اور رسول کے اور مومنوں  کے سوا کسی کو ولی دوست نہیں  بنایا، اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو۔

یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے کہ وہ کھرے اورکھوٹے کوالگ الگ کرنے کے لئے اپنے بندوں  کو آزمائش میں  ڈالتاہے،جیساکہ قرآن مجیدمیں  متعددمقامات پر فرمایا

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۴۲ [19]

ترجمہ:کیاتم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ یونہی جنت میں  چلے جاؤگے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تودیکھاہی نہیں  کہ تم میں  کون وہ لوگ ہیں  جواس کی راہ میں  جانیں  لڑانے والے ہیں  اوراس کی خاطرصبرکرنے والے ہیں  ۔

مَا كَانَ اللهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔۔۔۝۰۝۱۷۹ [20]

ترجمہ:اللہ مومنوں  کواس حالت میں  ہرگزنہ رہنے دے گاجس میں  تم اس وقت پائے جاتے ہووہ پاک لوگوں  کوناپاک لوگوں  سے الگ کرکے رہے گا۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ۝۳ [21]

ترجمہ: کیاتم لوگوں  نے یہ گمان کررکھاہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑدیئے جائیں  گے کہ ہم ایمان لائے اوران کی آزمائش ہوگی ہی نہیں  حالانکہ ہم ان سب لوگوں  کی آزمائش کر چکے ہیں  جو ان سے پہلے گزرے ہیں  ، اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں  اور جھوٹے کون۔

چنانچہ سابقون اولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مکہ مکرمہ میں  خوب آزمائش کی گئی ،پھرہجرت کے موقع پران کاامتحان ہوااوروہ سرخرور ہے ، انصارنے اپناحق اخوت نبھایااورثابت کردیاکہ وہ ایک مسلمان ہی کواپناحقیقی بھائی اوررفیق سمجھتے ہیں  ، پھرحق وباطل کاپہلامعرکہ غزوہ بدربپاہوا،اورصحابہ کرام نے ثابت کردیاکہ ان کی نظرمیں  قوم ،قبیلہ،علاقہ اورقرابت کی کوئی وقعت نہیں  ،وہ صرف اللہ کے سپاہی ہیں  اوراللہ کاکلمہ سربلندکرنے کے لئے اپنے گھروں  کوخیربادکہہ کرآئے ہیں  ، چنانچہ اب ان لوگوں  کوجوصلح حدیبہ اورفتح مکہ کے بعدمسلمان ہوئے تھے فرمایا کیاتم لوگوں  نے یہ سمجھ لیاہے کہ بغیرامتحان وآزمائش کے یونہی چھوڑدیئے جائیں  گے حالانکہ اللہ نے تم میں  سے ان لوگوں  کومعلوم نہیں  کیا جنہوں  نے جہاد کیا اوراللہ اوراس کے رسول اور مومنوں  کے سواکسی کودوست نہیں  بنایایعنی انہوں  نے کفارکواپنادوست نہیں  بنایا، مسلمانوں  کوچونکہ اللہ اوررسول کے دشمنوں  سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے بھی منع کیا گیاتھالہذایہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا جس سے مخلص مومنوں  کو دوسروں  سے ممتازکیاگیا،اللہ کوکوتوپہلے ہی ہرچیز کا علم ہے ،لیکن جہادکی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص ،فرمابرداراورنافرمان بندے نمایاں  ہوکرسامنے آجاتے ہیں  جنہیں  ہرشخص دیکھ اورپہچان لیتاہے۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِینَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِی النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ‎﴿١٧﴾‏ إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن یَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِینَ ‎﴿١٨﴾(التوبة)
’’لائق نہیں  کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں  کو آباد کریں درآں  حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں  ،ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں  اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ، اللہ کی مسجدوں  کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں  ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ،نمازوں  کے پابند ہوں ، زکوة دیتے ہوں ، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں ، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں  ۔‘‘

اللہ کے گھریعنی مسجدحرام کوتعمیریاآبادکرنایہ ایمان والوں  کاکام ہے نہ کہ ان کاجوکفروشرک کاارتکاب اوراس کااعتراف کرتے ہیں  ،

عَنِ السُّدِّیِّ، قَوْلُهُ: وَأَمَّا شَاهِدِینَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ فَإِنَّ النَّصْرَانِیَّ یُسْأَلُ: مَا أَنْتَ؟ فَیَقُولُ: نَصْرَانِیُّ،وَالْیَهُودِیُّ فَیَقُولُ: یَهُودِیُّ،صَابِئٌ ،فَیَقُولُ: صَابِئٌ ،وَالْمُشْرِكُ یَقُولُ إِذَا سَأَلْتَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: مُشْرِكٌ

سدی رحمہ اللہ نے آیت کریمہ’’درآں  حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں  ۔‘‘کے بارے میں  کہاہے اگرآپ کسی نصرانی سے پوچھیں  کہ تمہارادین کیاہے؟ تووہ کہے گامیں  نصرانی ہوں  کسی یہودی سے یہ سوال پوچھیں  تووہ کہے گامیں  یہودی ہوں  ، اگرکسی صابی سے پوچھیں  تووہ کہے گامیں  صابی ہوں  ، اوراگرکسی مشرک سے پوچھیں  تمہارادین کیاہے؟تووہ جواب دے گاکہ میں  مشرک ہوں  ۔[22]

جیسے مشرکین تلبیہ میں  کہا کرتے تھے

لَبَّیْكَ لَا شَرِیكَ لَكَ إِلَّا شَرِیكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ

اے اللہ !میں  حاضرہوں  ،تیراکوئی شریک نہیں  مگروہ تیرا شریک ہے جس کاتومالک ہے اورجس کاوہ مالک ہے اس کابھی توہی مالک ہے۔[23]

ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں  جیسے طواف وعمرہ اورحاجیوں  کی خدمت وغیرہ ان کےشرک کی وجہ سےضائع ہوگئے اورانہوں  نے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں  رہناہے،جیسے فرمایا

وَمَا لَہُمْ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللہُ وَہُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِیَاۗءَہٗ۝۰ۭ اِنْ اَوْلِیَاۗؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۴ [24]

ترجمہ:لیکن اب کیوں  نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں  حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولّی نہیں  ہیں  ، اس کے جائز متولّی تو صرف اہل تقوٰی ہی ہو سکتے ہیں  مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں  جانتے۔

اس لیے فرمایامسجدوں  کےتووہ لوگ مجاوریاخادم ہوسکتے ہیں  جن کے دلوں  میں  خشیت الٰہی ہو،جو اللہ وحدہ لاشریک کو اپناخالق ومالک اوررازق جانتے ہوں  ،جویقین محکم رکھتے ہوں  کی تمام قدرتیں  اورتمام اختیارات صرف اللہ وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت میں  ہیں  ،جویوم آخرت کے دن کے حساب کتاب اوراس کی جزاوسزاپریقین کامل رکھتے ہوں  ، اور اظہار عبودیت کے لئے نمازقائم کرتے ہوں  اورمستحقیق کی فلاح وبہبودکے لئے زکوٰة اداکرتے ہوں  ،اس آیت کریمہ میں  اللہ تعالیٰ نے مسجدوں  کوآبادکرنے والوں  کے ایمان کی گواہی دی ہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَعْتَادُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِیمَانِ،

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم دیکھوکہ ایک آدمی مسجدمیں  پابندی سے آتاہے توتم اس کے ایمان کی گواہی دو۔[25]

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الْأَوْدِیِّ , قَالَ: أَدْرَكْتُ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ یَقُولُونَ: إِنَّ الْمَسَاجِدَ بُیُوتُ اللهِ فِی الْأَرْضِ وَإِنَّهُ حَقٌّ عَلَى اللهِ أَنْ یُكْرِمَ زَائِرَهُ فِیهَا

عمروبن میمون رحمہ اللہ سے روایت ہے ہمیں  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خبردی مسجدیں  زمین میں  اللہ کے گھرہیں  ، اوراللہ تعالیٰ کایہ حق ہے کہ جواس کے گھرمیں  اس کی زیادت کے لیے آئے وہ اس کی عزت کرے۔[26]

اوروہ اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے نہ ڈریں  ،انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں  گے ۔

أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۚ لَا یَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٩﴾‏ الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ‎﴿٢٠﴾‏یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُّقِیمٌ ‎﴿٢١﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿٢٢﴾(التوبة)
’’ کیا تم نے حاجیوں  کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کردیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں  جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں ، اور اللہ تعالیٰ ظالموں  کو ہدایت نہیں  دیتا ،جو لوگ ایمان لائے،ہجرت کی ،اللہ کی راہ میں  اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں  بہت بڑے مرتبہ والے ہیں ، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں ، انہیں  ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں  کی، ان کے لیے وہاں  دوامی نعمت ہے،وہاں  یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ، اللہ کے پاس یقیناً بہت بڑے ثواب ہیں  ۔‘‘

حاجیوں  کوپانی پلاناجہادکامقابلہ نہیں  کرسکتا:مشرکین حاجیوں  کوپانی پلانے اورمسجدحرام کی دیکھ بھال کاجوکام کرتے تھے اس پرانہیں  بڑافخرتھا،اوراس کے مقابلے میں  وہ ایمان وجہادفی سبیل اللہ کوکوئی اہمیت نہیں  دیتے تھے جس کااہتمام مسلمانوں  کے اندرتھا،

حَدَّثَنِی النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیرٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُبَالِی أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أُسْقِیَ الْحَاجَّ، وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَالِی أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَقَالَ آخَرُ: الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ أَفْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ، فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، وَقَالَ: لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَلَكِنْ إِذَا صَلَّیْتُ الْجُمُعَةَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَیْتُهُ فِیمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ،[27] الْآیَةَ إِلَى آخِرِهَا،

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےان ہی ایام میں  ایک دن میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبرکے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ (تین آدمی مسجدنبوی میں  جمع ہوئے)ایک شخص نے کہااگرمیں  اسلام لانے کے بعدکوئی عمل نہ کروں  سوائے حاجیوں  کے پانی پلانے کے تومجھے کوئی پرواہ نہیں  (یہی نیکی کیاکم ہے)،دوسرے نے کہااگرمیں  اسلام لانے کے بعدکوئی عمل نہ کروں  سوائے مسجدحرام کے آباد کرنے کی تومجھے کوئی پرواہ نہیں  (یہی عمل کافی ہے،دوسرے عمل اس کاکیامقابلہ کریں  گے)،تیسرے آدمی نے کہاجہادفی سبیل اللہ ان دونوں  کاموں  سے افضل ہے،(وہ لوگ زور زورسے یہ باتیں  کررہے تھے)سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے جب انہیں  اس طرح باہم تکرارکرتے ہوئے سناتوانہیں  ڈانٹا اورکہاجمعہ کے دن منبررسول کے پاس آوازبلندنہ کرو،اوریہ جمعہ کادن تھا،لیکن میں  جمعہ کی نمازکے بعداس بات کوجس میں  تم نے اختلاف کیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں  گا،تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’کیا تم لوگوں  نے حاجیوں  کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں  ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں  برابر نہیں  ہیں  اور اللہ ظالموں  کی رہنمائی نہیں  کرتا ۔‘‘[28]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ} قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حِینَ أُسِرَ یَوْمَ بَدْرٍ، لَئِنْ كُنْتُمْ سَبَقْتُمُونَا بِالْإِسْلَامِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ، لَقَدْ كُنَّا نَعْمُرُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَنَسْقِی الْحَاجَّ، وَنَفُكُّ الْعَانِیَ، قَالَ اللهُ: {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ} إِلَى قَوْلِهِ: {الظَّالِمِینَ}أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِی الشِّرْكِ وَلَا أَقْبَلُ مَا كَانَ فِی الشِّرْكِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت’’کیا تم لوگوں  نے حاجیوں  کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں  ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں  برابر نہیں  ہیں  اور اللہ ظالموں  کی رہنمائی نہیں  کرتا ۔‘‘ کی شان نزول میں  روایت ہےیہ عباس بن عبدالمطلب کے بارے میں  اس وقت نازل ہوئی تھی جب انہیں  بدرکے دن قیدی بنالیاگیاتھااورانہوں  نے کہاتھاکہ اگرتم ہم سے اسلام ،ہجرت اور جہادمیں  سبقت لے گئے ہوتوکیاہواہم بھی تومسجدحرام کوآبادرکھتے،حاجیوں  کوپانی پلاتےاورفدیہ دے کرقیدیوں  کوچھڑاتے رہے ہیں  ،تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے اس آیت کونازل کیااورفرمایا تمہارے یہ تمام اعمال حالت شرک میں  تھےاورشرک کے ساتھ میں  کسی عمل کوقبول نہیں  کرتا۔[29]

قَالَ: سَمِعْتُ الضَّحَّاكَ، یَقُولُ فِی قَوْلِهِ:{أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ} الْآیَةَ، أَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى الْعَبَّاسِ وَأَصْحَابِهِ الَّذِینَ أُسِرُوا یَوْمَ بَدْرٍ یُعَیِّرُونَهُمْ بِالشِّرْكِ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: أَمَا وَاللهِ لَقَدْ كُنَّا نَعْمُرُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَنَفُكُّ الْعَانِیَ وَنَحْجِبُ الْبَیْتَ وَنَسْقِی الْحَاجَّ

اورضحاک بن مزاحم نے اس آیت’’کیا تم لوگوں  نے حاجیوں  کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں  ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں  برابر نہیں  ہیں  اور اللہ ظالموں  کی رہنمائی نہیں  کرتا۔‘‘کے شان نزول کواس طرح روایت کیاہے مسلمان آئے اورانہوں  نے عباس رضی اللہ عنہ اوران کے دوسرے ساتھیوں  کو جوغزوہ بدرمیں  قیدی بنالیے گئے تھے شر ک کرنے کی وجہ سے طعنہ دیا،ان کے جواب میں  عباس رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !ہم بھی مسجدالحرام کوآبادکرتے فدیہ دے کرقیدیوں  کوچھڑاتے بیت اللہ کی دربانی کرتےاورحاجیوں  کو پانی پلاتے ہیں  ، تواس کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کونازل فرمایا۔ [30]

کیاتم سقایت حاج اورعمارت مسجدحرام کوایمان باللہ اورجہادفی سبیل اللہ کے برابرسمجھتے ہو؟یادرکھو!اللہ کے نزدیک یہ برابرنہیں  بلکہ مشرک کاکوئی عمل بھی مقبول نہیں  ،چاہے وہ صورة خیرہی ہو،واضح کیاگیاکہ ایمان باللہ ،ایمان بالآخرت اورجہادفی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت والے عمل ہیں  ،اللہ ان لوگوں  کوہدایت نہیں  دیتاجن کاوصف ہی ظلم ہو،وہ لوگ جوایمان لائے اورانہوں  نے ہجرت کی اوراللہ کے راستے میں  مال وجان سے جہادکیاان کے لئے بڑادرجہ ہے،ان کارب انہیں  اپنی رحمت اوراپنی رضامندی کی بشارت دیتاہے جوجنت میں  سب سے بڑی اورنہایت جلیل القدرنعمت ہوگی،جنت میں  ان کے لئے پائیدارعیش وآرام کے بے شمار سامان ہیں  جن میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے ،یقیناًاللہ کے پاس خدمات کاصلہ دینے کوبے شمارنعمتیں  ہیں  ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِیَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِیمَانِ ۚ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِیرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَیْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِی سَبِیلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ یَأْتِیَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٢٤﴾(التوبة)
’’اے ایمان والو ! اپنے باپوں  کو اور اپنے بھائیوں  کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں ،تم میں  سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گناہ گار ظالم ہے ،آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں  اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں  جنہیں  تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں  اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں  تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے،اللہ تعالیٰ فاسقوں  کو ہدایت نہیں  دیتا ۔‘‘

ترک موالات ومودت کاحکم :اے مومنو!ایمان کے تقاضوں  کے مطابق عمل کرو،جوایمان کے تقاضوں  کوپوراکرتاہے اس کے ساتھ موالات رکھوجوان تقاضوں  کو پورا نہیں  کرتاان سے عداوت رکھوحتی کہ وہ تمہارے باپ یابھائی ہوں  ، اگروہ ایمان کے مقابلے میں  کفرکوترجیح دیں  توانہیں  اپنارفق نہ سمجھو اگراللہ کے فرمان کے بعد اللہ کے دشمنوں  کو دوست بنانے کی جسارت کروگے تو تم ہی ظالم ہو،کیونکہ کفارکودوست بنانا،کفارکی اطاعت اوران کی محبت کواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت ومحبت پرمقدم رکھنے کا موجب ہے اورمسلمان اللہ اوراس کے رسول کی محبت کوہرچیزپرمقدم رکھتاہے اوریہ دین کی اساس ہے،جیسے فرمایا

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۔۔۔۝۲۲ۧ [31]

ترجمہ:تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں  وہ ان لوگوں  سے محبت کرتے ہوں  جنوں  نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں  ، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  میں  اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے، وہ ان کو ایسی جنتوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَوْذَبٍ، قَالَ: جَعَلَ أَبُو أَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ یَنْصِبُ الْآلِهَةَ لِأَبِی عُبَیْدَةَ یَحِیدُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ الْجَرَّاحُ قَصَدَهُ أَبُو عُبَیْدَةَ فَقَتَلَهُ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیهِ هَذِهِ الْآیَةَ حِینَ قَتَلَ أَبَاهُ: {لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ}[32] إِلَى آخِرِهَا.

اورعبداللہ بن شوذب سے روایت ہےابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کاوالدغزوہ بدرکے روزابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف نیزہ سیدھاکررہاتھااورابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے والدسے اعراض کررہے تھے جب جراح بازنہ آیاتواس کے بیٹے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے اقتل کردیا،جب انہوں  نے اپنے والدکوقتل کردیاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں  وہ ان لوگوں  سے محبت کرتے ہوں  جنوں  نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں  ، یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  میں  اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخسی ہے، وہ ان کو ایسی جنتوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی، ان میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے، اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں  خبردار رہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں  ۔‘‘ نازل فرمائی۔[33]

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کہہ دیں  اگرتمہارے باپ ،مائیں  ،بھائی ، بیٹے، بیویاں  اوردیگرعمومی رشتہ دار، اوروہ مال جس کے حصول میں  مشقت برداشت کرتے ہواوراسے مرغوب بھی رکھتے ہو،اورسوداگری جس میں  نقصان ہونے سے ڈرتے ہو، اور تمہاری خواہشات اورپسندکے مطابق خوبصورت ،سجاوٹ اورآرام دہ حویلیاں  (جوبیشک ضروری ہیں  اوران کی اہمیت وافادیت ہے اگر)تمہیں  اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اور جہادفی سبیل اللہ اورہجرت سے زیادہ عزیزومحبوب ہیں  یعنی جہاد میں  مانع ہوجائیں  ، اوریہ بات اللہ کوسخت ناپسندیدہ اوراس کی ناراضی کاباعث ہے اس لئے تم فاسق (اللہ کی ہدایت سے محروم) اورظالم قرار پاؤ گے ، توپھر اللہ کاعذاب نازل ہونے کاانتظارکرو جسے کوئی ٹال نہیں  سکتا،اللہ تعالیٰ دائرہ اطاعت سے باہرنکلنے والے اوراللہ اوراس کے رسول کی محبت پرمذکورہ بالااشیاء کی محبت کوترجیح دینے والوں  کو ہدایت سے نہیں  نوازتا،

حَدَّثَنِی أَبُو عَقِیلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هِشَامٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الآنَ یَا عُمَر

زہرہ بن معبدنے اپنے دادا(عبداللہ بن ہشام)سے روایت کیاہےایک موقع پرہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے آپ اپنے نفس کے سواہرچیزسے زیادہ محبوب ہیں  ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  ،اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں  ہوسکتا) جب تک میں  تمہیں  تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں  ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیاپھراللہ کی قسم!اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں  ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  اے عمر رضی اللہ عنہ ! اب تمہاراایمان پوراہواہے۔[34]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِین

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں  جب تک میں  اس کواس کے والد،اس کی اولادسے اورتمام لوگوں  سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں  ۔[35]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سب سے بلندوبالاہے ،استادہویاپیر،مرشدیاامام مجتہدسب سے مقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے ،محبت کے یہی معنیٰ ہیں  ،یہ نہیں  کہ زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکارلیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام مبارک سن کرانگلیوں  کوچوم لیایانسبتاًعقائدتصنیف کرلئے، یہ سب رسمی اوربدعی طریقے اللہ کے ہاں  کام آنے والے نہیں  ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے اپنی جلیل القدرکتاب قرآن مجیدمیں  صاف ارشادفرمایاہے،

 قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳۱ [36]

ترجمہ:اگراللہ کی محبت کادعویٰ ہے تومیرے قدم بہ قدم چلواس صورت میں  اللہ بھی تم کواپنامحبوب بنالے گا اور تمہارے گناہوں  کوبخش دے گااللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے۔

دُعُواكُلِّ قَوْلٍ عِنْدَقَوْلِ مُحَمَّدِ

جہاں  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادسے کسی بھی امام یامجتہدیاپیرومرشدبھی کا قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرائے وہاں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک کومقدم رکھو،اورمخالف طورپرسارے اقوال کوچھوڑدوبس صرف اتنی ہی بات ہے جومقلدین جامدین کو پسندنہیں  ، گوامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جوبڑے امام بزرگ ہیں  نے خودصاف فرمادیاہے،

قَالَ إِذَا صَحَّ الْحَدِیثُ فَهُوَ مَذْهَبِی

جب صحیح حدیث مل جائے اورمیراقول اس کے خلاف ہو،تومیرے قول کوچھوڑدواورصحیح حدیث پرعمل کروکیونکہ میرامذہب یہی ہے جوحدیث سے ثابت ہے ۔[37]

اور جہادکی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایااورجہادفی سبیل اللہ سے عزیزترہیں  توپھرانتظارکرویہاں  تک کہ اللہ اپنافیصلہ تمہارے سامنے لے آئے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا تَبَایَعْتُمْ بِالْعِینَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِیتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَیْكُمْ ذُلًّا لَا یَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِینِكُمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب تم کسی کومدت معینہ پراصلی قیمت سے زیادہ قیمت پرادھاردینا اختیار کر لو گےاورگایوں  کی دمیں  پکڑ کرکھیتی باڑی پرراضی وقانع ہوجاؤگے اور جہادفی سبیل اللہ چھوڑ بیٹھوگے تواللہ تعالیٰ تم پرایسی ذلت مسلط فرمادے گاجس سے تم اس وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں  لوٹو گے۔[38]

اوراللہ فاسق لوگوں  کی رہنمائی نہیں  کیاکرتا۔

‏ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِی مَوَاطِنَ كَثِیرَةٍ ۙ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُم مُّدْبِرِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ ثُمَّ أَنزَلَ اللَّهُ سَكِینَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِینَ ‎﴿٢٦﴾‏ثُمَّ یَتُوبُ اللَّهُ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢٧﴾(التوبة )
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں  میں  تمہیں  فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں  اپنی کثرت پرنازہوگیاتھا،لیکن اس نے تمہیں  کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے، پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پراور مومنوں  پر اتاری اور اپنے لشکر بھیجے جنہیں  تم دیکھ نہیں  رہے تھے اور کافروں  کو پوری سزا دی، ان کفار کا یہی بدلہ تھا، پھر اس کے بعد بھی جس پر چاہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی توجہ فرمائے گا، اللہ ہی بخشش و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: “ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْ بَرَاءَةَ: {لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِی مَوَاطِنَ كَثِیرَةٍ}، [39]

مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے سورۂ  برات کی نازل ہونے والی پہلی آیت’’اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔‘‘ہے۔[40]

جولوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان برات کی خطرناک پالیسی پرعمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں  جنگ کی آگ بھڑک اٹھے گی، اوراس کامقابلہ کرنا مشکل ہو گا ،ان سے فرمایاکہ ان اندیشوں  میں  مت پڑو،اللہ سبحانہ وتعالیٰ تواس سے بھی زیادہ سخت خطرناک موقعوں  پر جب تم قلیل التعداداوربے سروساماں  تھے تمہاری مدد کرکے کفار پر غالب کرچکاہے، اورابھی حال ہی میں  غزوہ حنین کے شدید موقع پر بھی اس کی مددکودیکھ چکے ہو،حالانکہ تمہیں  اپنی کثرت تعدادپرگھمنڈتھاکہ آج ہم پرکوئی غالب نہیں  آسکے گا ،مگر تمہاری کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی،دشمن کے یک بارگی حملہ کے دباؤ میں  آکرمجاہدین کے پاؤں  اکھڑگئے وہ شکست کھاکربھاگ نکلے، اورزمین کی کشادگی اور وسعت کے باوجودانہیں  بھاگنے کاراستہ نہیں  مل رہا تھا،مشکل کی اس گھڑی میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورمجاہدین پرسکینت نازل فرمائی ،اورمددکے لئے فرشتوں  کے لشکر اتارے جو مجاہدین کوثابت قدم رکھتے اورانہیں  فتح ونصرت کی بشارت دیتے تھے،

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ:إِنَا لَمَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَالنَّاسُ یَقْتَتِلُونَ إِذْ نَظَرْتُ إِلَى مِثْلِ الْبِجَادِ الْأَسْوَدِ یَهْوِی مِنَ السَّمَاءِ حَتَّى وَقَعَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ، فَإِذَا نَمْلٌ مَنْثُورٌ قَدْ مَلَأَ الْوَادِی فَلَمْ تَكُنْ إِلَّا هَزِیمَةُ الْقَوْمِ، فَمَا كُنَّا نَشُكُّ أَنَّهَا الْمَلَائِكَةُ

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  غزوئہ حنین میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھالوگوں  کے شکست کھانے سے پہلے میں  نے دیکھاکہ آسمان سے کوئی چیز اتررہی ہے ،اس نےچیونٹیوں  کی طرح میدان کو گھیرلیااوراسی وقت مشرکین کے قدم اکھڑگئےاللہ کی قسم! ہمیں  کوئی شک نہیں  کہ وہ آسمانی مددتھی ۔[41]

قَالَ: سَمِعْتُ یَزِیدَ بْنَ عَامِرٍ السُّوَائی وَكَانَ شَهِدَ حُنَیْنًا مَعَ الْمُشْرِكِینَ ثُمَّ أَسْلَمَ بَعْدُ فَكُنَّا نَسْأَلُهُ عَنِ الرُّعْبِ الَّذِی أَلْقَى اللهُ فِی قُلُوبِ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَ حُنَیْنٍ،فَكَانَ یَأْخُذُ الْحَصَاةَ فَیَرْمِی بِهَا فِی الطَّسْت فَیَطِنُّ، فَیَقُولُ كُنَّا نَجِدُ فِی أَجْوَافِنَا مِثْلَ هَذَا

یزیدبن عامرسوائی غزوہ حنین میں  کفارکے ساتھ تھے ،بعدمیں  انہوں  نے اسلام قبول کرلیاجب ان سے دریافت کیاجاتاکہ غزوہ حنین میں  تمہارے دلوں  کارعب وخوف سے کیا حال تھا؟ تووہ طشت میں  کنکریاں  رکھ کربجاتے اورکہتے یہی آوازہمیں  ہمارے دل سے آرہی تھی ،کلیجہ بے طرح اچھل رہا تھا اوردل دہل رہاتھا۔[42]

اللہ نے کفارکوشکست ،قتل ،ان کے اموال واولاداوران کی عورتوں  پرمسلمانوں  کے قبضہ کے ذریعے سے عذاب کامزہ چکھادیا،جان لوکہ اللہ تعالیٰ کفارکودنیامیں  بھی عذاب دے گا اور آخرت میں  بھی سخت عذاب میں  مبتلاکرے گا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیاضی وکریم النفسی کے برتاؤکے نتیجہ میں  اکثر لوگوں  نے توبہ کرلی اوراسلام قبول کر لیا تو اللہ بے انتہامغفرت اوربے پایاں  رحمت کامالک ہے ،اس لئے یہ مت سمجھوکہ مشرکین عرب تمہیں  تہس نہس کر ڈالیں  گے، بلکہ اب بھی تمہیں  یہی توقع رکھنی چاہیے کہ اللہ تمہاری مددپرقادرہے اورکفارومشرکین تمہاراکچھ نہیں  بگاڑ سکیں  گے، بلکہ جب انہیں  نظام جاہلیت کے فروغ وبقاکی کوئی امیدان لوگوں  کو باقی نہ رہے گئی، اوروہ سہارے ختم ہوجائیں  گے جن کی وجہ سے یہ اب تک جاہلیت کوچمٹے ہوئے ہیں  توخودبخودیہ اسلام کے دامن رحمت میں  پناہ لینے کے لئے آجائیں  گے ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٨﴾‏(التوبة)
اے ایمان والو ! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں  ، وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں  ، اگر تمہیں  مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں  دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے،اللہ علم و حکمت والا ہے۔

مشرک ناپاک ہے :اہل ایمان کوحقیقت حال سے آگاہ فرمایااورجوبات سورۂ کے آغازمیں  اعلان برات کے اندازمیں  ذکرکی گئی تھی اس کوواضح اوردوٹوک الفاظ میں  یوں  فرمایا،اے مومنو! مشرکین کے اعتقادات، اخلاق، اعمال اوران کاجاہلانہ طریق زندگی ناپاک ہے،اوراس شخص سے بڑھ کرناپاک اورکون ہوسکتاہے جواللہ تعالیٰ کے ساتھ خودساختہ معبودوں  کی پرستش کرتاہے، جونہ تونفع دے سکتے ہیں  اورنہ نقصان اورنہ کچھ اورفائدہ دے سکتے ہیں  ، اوراسی نجاست کی بناپرآئندہ کے لئے ان کاحج وزیارت بندہی نہیں  بلکہ مسجدحرام میں  ان کا داخلہ بھی بندکردیاگیاہے، جبکہ مومن ناپاک نہیں  ہوتا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَهُ فِی بَعْضِ طَرِیقِ المَدِینَةِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَانْخَنَسْتُ مِنْهُ، فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:أَیْنَ كُنْتَ یَا أَبَا هُرَیْرَةَقَالَ: كُنْتُ جُنُبًا، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ وَأَنَا عَلَى غَیْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ:سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ المُسْلِمَ لاَ یَنْجُسُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمدینہ منورہ کے کسی راستے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی،اوراس وقت میں  جنابت کی حالت میں  تھا،میں  پیچھے رہ کرلوٹ گیااورغسل کرکے واپس آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !کہاں  چلے گئے تھے؟میں  نے عرض کیامیں  جنابت کی حالت میں  تھااس لیے میں  نے آپ کے ساتھ بغیرغسل کے بیٹھنابراجانا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسبحان اللہ!مسلمان ہرگز ناپاک نہیں  ہوتا(کیونکہ اس کی نجاست عارضی ہے) ۔[43]

اگر مشرکین کومسجدحرام کے قریب جانے سے روک دینے کی وجہ سے تمہارے اوران کے درمیان دنیاوی امورمیں  قطع تعلق کی بنا پر فقرواحتیاج کے لاحق ہونے کاڈرہو، تواس مفلسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں  ،انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ اپنی مشیت وحکمت سے تمہیں  غنی کردے گا،

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ:{إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً}وَذَلِكَ أَنَّ النَّاسَ قَالُوا: لَتُقْطَعَنَّ عَنَّا الْأَسْوَاقُ ،وَلَتَهْلِكَنَّ التِّجَارَةُ وَلَیَذْهَبَنَّ مَا كُنَّا نُصِیبُ فِیهَا مِنَ الْمَرَافِقِ ،فَنَزَلَ: {وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیكُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ}فَفِی هَذَا عِوَضٌ مِمَّا تَخَوَّفْتُمْ مِنْ قَطْعِ تِلْكَ الْأَسْوَاقِ. فَعَوَّضَهُمُ اللهُ بِمَا قُطِعَ عَنْهُمْ مِنْ أَمْرِ الشِّرْكِ،مَا أَعْطَاهُمْ مِنْ أَعْنَاقِ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنَ الْجِزْیَةِ

محمدبن اسحاق نے آیت کریمہ’’اے ایمان لانے والو!مشرکین ناپاک ہیں  لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں  ۔‘‘کے بارے میں  کہاہے لوگ کہتے تھے کہ اس طرح توہم بازاروں  اورمارکیٹوں  سے کٹ جائیں  گے،ہماری تجارت تباہ ہوجائے گی، اورجوسہولتیں  ہمیں  حاصل ہیں  ہم ان سے محروم ہوجائیں  گے تواللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’اور اگر تمہیں  تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں  کہ اللہ چاہے تو تمہیں  اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ نازل فرمادی، یعنی اگراہل شرک سے تعلقات منقطع ہونے کی صورت میں  تمہیں  کساد بازاری کاخدشہ ہے، تواس کے عوض اللہ تعالیٰ تمہیں  اہل کتاب کی گردنیں  جھکاکرتمہیں  جزیہ دلادے گا۔[44]

اللہ جوالرزاق المتین ہےاپنی حکمت ومشیت کے تحت جب رزق کا ایک دروازہ بندکرتاہے تو بے شماردوسرے دروازے کھول دیتاہے،اورایسی ایسی جگہوں  سے رزق عطا فرماتاہے جہاں  سے کسی کوگمان بھی نہیں  ہوتا، یقیناً اللہ تعالیٰ بے انتہافضل وکرم اوربہت بڑے جودوسخاکامالک ہے ،خاص طورپراس شخص کے لئے جو محض اللہ کی خاطرکسی چیز کو ترک کرتاہے ،اللہ تعالیٰ نے اپناوعدہ پوراکردیااور فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں  کوحاصل ہوااورپھربہ تدریج ساراعرب بھی مسلمان ہوگیا،اورحج کے موسم میں  حاجیوں  کی ریل پیل پھراسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے بھی کہیں  زیادہ ہوگئی، اورجومسلسل روزافزوں  ہی ہے،اللہ علام الغیوب اورحکمت والا ہے۔

قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلَا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَن یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ‎﴿٢٩﴾(التوبة)
ان لوگوں  سے لڑوجو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں  لاتے ،جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں  جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں  ان لوگوں  میں  سے جنہیں  کتاب دی گئی ہے، یہاں  تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں  ۔

مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعداس آیت میں  یہودونصاریٰ سے قتال کاحکم دیاگیاکہ اگروہ اسلام قبول نہ کریں  تو جنگ کرو،اہل کتاب کے خلاف جواللہ کوزبانی طورتو مانتے ہیں  لیکن اللہ وحدہ لاشریک تسلیم کرنے کے بجائے عیسیٰ علیہ السلام کو(نعوذباللہ) اللہ کابیٹاان کی والدہ کواللہ کی بیوی تسلیم کرتے ہیں  ،ان دونوں  کویاایک کواللہ کی صفات و اختیارات شریک کرتے ہیں  ، اس لئے ان کاایمان باللہ قابل اعتبار نہیں  ہے،اسی طرح آخرت کوبھی تسلیم کرتے ہیں  کہ مرنے کے بعدزندہ کیے جائیں  گے، مگراس سے آخرت کاعقیدہ مکمل نہیں  ہوجاتا،اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی ہونا چاہیے کہ اس دن اللہ کی بارگاہ میں  جب تک اللہ مالک یوم الدین خودکسی کو اجازت نہ فرمائے کسی بڑے یا چھوٹے کی کوئی سفارش، کوئی فدیہ یاکوئی کفارہ کام نہیں  آئے گا،اللہ کی بارگاہ میں  صرف ایمان وعمل ہی قابل قبول ہوگا،اس عقیدے کے بغیرآخرت کاماننا کوئی معنی نہیں  رکھتا ، کیونکہ یہودونصاریٰ نے اس پہلو سے بھی اپنے عقیدے کو داغدار کیاہے، لہذاان کاآخرت پر ایمان کاعقیدہ بھی غیرمعتبرہے،اورنہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع کرتے ہیں  نہ اس دین حق کوقبول نہیں  کرتے، اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں  کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں  ، مگرحقیقت میں  انہوں  نے اپنے دین میں  تغیروتبدل اورتحریف کی ہوئی ہیں  ، وہ لوگوں  کوباطل نظریات کی دعوت دیتے ہیں  ،اس لئے یہودو نصاریٰ اورمجوس وغیرہ سے جنگ کروتاکہ ان کی خودمختاری وبالادستی ختم ہوجائے ،اوروہ ذلت وخواری کے ساتھ جزیہ کی ایک متعین رقم دے کرمسلمانوں  کی ماتحتی میں  رہناقبول کرلیں  ،یہی وجہ ہے کہ اہل ذمہ کی عزت کرناجائزنہیں  اورنہ انہیں  مسلمانوں  پرکوئی فوقیت دی جائے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَبْدَءُوا الْیَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَهُمْ فِی طَرِیقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْیَقِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہودونصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کروجب ان سے کوئی راستے میں  مل جائے تواسے تنگی پرمجبورکرو۔ [45]

یعنی ابتدامیں  ان کوسلام کرناحرام ہے، اوراگروہ سلام کریں  توجواب میں  صرف وعلیکم کہیں  ،یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے توہین وتذلیل کی تمام معروف شرطیں  ان پر عائد کردی تھیں  ،

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْم الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: كَتَبْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، حِینَ صَالَحَ نَصَارَى مِنْ أَهْلِ الشَّامِ:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ، هَذَا كِتَابٌ لِعَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ نَصَارَى مَدِینَةِ كَذَا وَكَذَا، إِنَّكُمْ لَمَّا قَدِمْتُمْ عَلَیْنَا سَأَلْنَاكُمُ الْأَمَانَ لِأَنْفُسِنَا وَذَرَارِینَا وَأَمْوَالِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا وَشَرَطْنَا لَكُمْ عَلَى أَنْفُسِنَا أَلَّا نُحْدِثَ فِی مَدِینَتِنَا وَلَا فِیمَا حَوْلَهَا دَیْرًا وَلَا كَنِیسَةً، وَلَا قِلایة وَلَا صَوْمَعة رَاهِبٍ، وَلَا نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْهَا، وَلَا نُحْیِیَ مِنْهَا مَا كَانَ خُطَطَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَلَّا نَمْنَعَ كَنَائِسَنَا أَنْ یَنْزِلَهَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی لَیْلٍ وَلَا نَهَارٍ، وَأَنْ نُوَسِّعَ أَبْوَابَهَا لِلْمَارَّةِ وَابْنِ السَّبِیلِ، وَأَنْ یَنْزِلَ مَنْ مَرَّ بِنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ نُطْعِمُهُمْ، وَلَا نأوی فِی كَنَائِسِنَا وَلَا مَنَازِلِنَا جَاسُوسًا، وَلَا نَكْتُمَ غِشًّا لِلْمُسْلِمِینَ،

عبدالرحمٰن بن غنم اشعری سے روایت ہے جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے شام کے عیسائیوں  سے مصالحت کی تومیں  نے یہ دستاویزلکھی تھی۔

اللہ کے نام سے جوبے انتہامہربان اوررحم فرمانے والاہے، یہ امیرالمومنین ،اللہ کے بندے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے لیے فلاں  فلاں  شہرکے نصاری کی طرف سے معاہدہ ہے،جب تم ہمارے پاس آئے توہم نے تم سے اپنی جانوں  ،اولادوں  ،مالوں  اوراہل ملت کے لیے امن طلب کیا ،اورتم سے یہ شرط طے کی کہ ہم اپنے شہراوراس کے گروپیش میں  کوئی گرجا،کنیسہ نہیں  بنائیں  گے ، نہ کسی راہب کی خانقاہ بنائیں  گے، نہ کسی خراب گرجاوغیرہ کی مرمت ہی کریں  گے،اورمسلمان جہاں  رہائش پذیرہیں  وہاں  نئے بھی نہیں  بنائیں  گے،اوردن یویارات ہم کسی وقت بھی اپنے کنیسوں  میں  داخل ہونے والے کسی مسلمان کومنع نہیں  کریں  گے،مسافروں  اورراہ چلتے لوگوں  کے لیے ان کے دروازوں  کوکھلارکھیں  گے،جومسلمان ہمارے پاس آئے گاہم تین دن تک اس کی مہمان نوازی کریں  گے،ہم اپنے گرجوں  اورگھروں  میں کسی جاسوس کوجگہ نہیں  دیں  گے،مسلمانوں  سے دھوکے فریب کی کوئی بات نہیں  چھپائیں  گے ،

وَلَا نُعَلِّمَ أَوْلَادَنَا الْقُرْآنَ، وَلَا نُظْهِرَ شِرْكًا، وَلَا نَدْعُوَ إِلَیْهِ أَحَدًا؛ وَلَا نَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ ذَوِی قَرَابَتِنَا الدُّخُولَ فِی الْإِسْلَامِ إِنْ أَرَادُوهُ، وَأَنْ نُوَقِّرَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنْ نَقُومَ لَهُمْ مِنْ مَجَالِسِنَا إِنْ أَرَادُوا الْجُلُوسَ، وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِی شَیْءٍ مِنْ مَلَابِسِهِمْ، فِی قَلَنْسُوَةٍ، وَلَا عِمَامَةٍ، وَلَا نَعْلَیْنِ، وَلَا فَرْقِ شَعْرٍ، وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ، وَلَا نَكْتَنِیَ بكُنَاهم، وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ، وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّیُوفَ، وَلَا نَتَّخِذَ شَیْئًا مِنَ السِّلَاحِ، وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا، وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِیمَنَا بِالْعَرَبِیَّةِ، وَلَا نَبِیعَ الْخُمُورَ،

ہم اپنی اولادکوقرآن نہیں  سکھائیں  گے،شرک کااظہارنہیں  کریں  گےاورنہ کسی کواس کی دعوت دیں  گے،اگرہمارے رشتے داروں  میں  سے کوئی اسلام کوقبول کرناچاہے گاتوہم اسے منع نہیں  کریں  گے،ہم مسلمانوں  کی عزت کریں  گے،جب وہ بیٹھناچاہیں  تواپنی مجلسوں  سے ان کے لیے اٹھ کھڑے ہوں  گے،ہم ٹوپی،عمامہ،جوتوں  اوربالوں  کے سٹائل وغیرہ کسی چیزمیں  بھی مسلمانوں  کی مشابہت اختیارنہیں  کریں  گے،ہم ان کی زبان نہیں  بولیں  گےاوران کی کنیتیں  نہیں  رکھیں  گے،زین والے گھوڑے پرسوارنہیں  ہوں  گے،تلوارنہیں  لٹکائیں  گے،کوئی بھی اسلحہ نہیں  لیں  گےاورنہ اسے اپنے ساتھ رکھیں  گے،اپنی انگوٹھیوں  پرعربی نقش نہیں  کرائیں  گے، شرابیں  نہیں  بیچیں  گے،

وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِیمَ رُءُوسِنَا، وَأَنْ نَلْزَمَ زِینا حَیْثُمَا كُنَّا، وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِیرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ الصَّلِیبَ عَلَى كَنَائِسِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَلَا كُتُبَنَا فِی شَیْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِینَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نَضْرِبَ نَوَاقِیسَنَا فِی كَنَائِسِنَا إِلَّا ضَرْبًا خَفِیًّا، وَأَلَّا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا بِالْقِرَاءَةِ فِی كَنَائِسِنَا فِی شَیْءٍ مِنْ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَا نُخْرِجَ شَعَانِینَ وَلَا بَاعُوثًا، وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ مَوْتَانَا، وَلَا نُظْهِرَ النِّیرَانَ مَعَهُمْ فِی شَیْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِینَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نُجَاوِرَهُمْ بِمَوْتَانَا، وَلَا نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِیقِ مَا جَرَى عَلَیْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِینَ، وَلَا نَطَّلِعَ عَلَیْهِمْ فِی منازلهم.

اپنے سروں  کے اگلے بالوں  کوکٹوادیں  گے،جہاں  کہیں  بھی ہوں  گے صفائی کاخیال رکھیں  گے،زنار(وہ پیٹی جسے نصرانی کمراورپیٹ پرباندھتے ہیں  )اپنی کمروں  پر ضرور لٹکائے رکھیں  گے،صلیب کانشان اپنے گرجوں  پرظاہرنہیں  کریں  گے،اپنی صلیبوں  اورکتابوں  کومسلمانوں  کے راستوں  اوربازاروں  میں  ظاہرنہیں  کریں  گے،اپنے گرجوں  میں  ناقوس بہت آہستہ آوازمیں  بجائیں  گے،مسلمانوں  کی موجودگی میں  ہم اونچی آوازسے اپنی کتابوں  کونہیں  پڑھیں  گے،ہم اپنے مذہبی شعارمثلا ًشعانین(نصاری کی ایک اتوارکے دن عیدجس میں  عیسیٰ علیہ السلام کے بیت المقدس میں  داخل ہونے کی یادمنائی جاتی ہے) اورباعوث (عیسائیوں  کے ہاں  بارش کے لیے عبادت اوردعاوغیرہ)راستوں  میں  انجام نہیں  دیں  گے،ہم اپنے مردوں  پراونچی آوازمیں  بین نہیں  کریں  گے،اورنہ ان کے ساتھ مسلمانوں  کے رستوں  اوربازاروں  میں  آگ لے کرچلیں  گے، قبرستان میں  مسلمانوں  کے پڑوس میں  اپنے مردوں  کودفن نہیں  کریں  گے،مسلمانوں  کے حصے میں  آئے ہوئے غلام ہم نہیں  لے گے، ہم مسلمانوں  کی خیرخواہی توکرتے رہیں  گے لیکن ان کے گھروں  میں  نہیں  جھانکیں  گے،

قَالَ: فَلَمَّا أَتَیْتُ عُمَرَ بِالْكِتَابِ، زَادَ فِیهِ وَلَا نَضْرِبُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ، شَرَطْنَا لَكُمْ ذَلِكَ عَلَى أَنْفُسِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَاوَقَبِلْنَا عَلَیْهِ الْأَمَانَ فَإِنْ نَحْنُ خَالَفْنَا فِی شَیْءٍ مِمَّا شَرَطْنَاهُ لَكُمْ وَوَظَفْنا عَلَى أَنْفُسِنَا فَلَا ذِمَّةَ لَنَا وَقَدْ حَلَّ لَكُمْ مِنَّا مَا یَحِلُّ مِنْ أَهْلِ الْمُعَانَدَةِ وَالشِّقَاقِ

راوی کابیان ہے جب میں  یہ معاہدہ لکھ کرسیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضرہواتوآپ نے اس میں  یہ اضافہ بھی فرمادیاہم کسی بھی مسلمان کونہیں  ماریں  گے،ہم تمہاری طرف سے اپنے لیے اوراپنے اہل قبلہ وملت کے لیے ان شرائط کوقبول کرتے ہیں  ،اورامان کوقبول کرتے ہیں  ،اگرہم نے ان میں  سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی جوہم نے لگائی ہیں  اوراپنے اوپرلاگوکی ہیں  توپھرہم سے آپ کاذمہ دورہوجائے گا،اورہم اس سزاکے مستحق ہوں  گے جوعہدشکنی کرنے والے معاندین اوراختلاف بڑھانے والے کوملتی ہے ۔[46]

تقریبا ًاسی طرح کامضمون( المحلی بالاثار۴۱۵؍۵)میں  بھی ہے۔

قَالَتِ الْیَهُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِیحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ یُؤْفَكُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٣١﴾‏یُرِیدُونَ أَن یُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَیَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن یُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ‎﴿٣٣﴾(التوبة)
’’یہود کہتے ہیں  عزیز اللہ کا بیٹا ہےاور نصرانی کہتے ہیں  مسیح اللہ کا بیٹا ہےیہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے، اگلے منکروں  کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں  غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں ، ان لوگوں  نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں  اور درویشوں  کو رب بنایا ہےاور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں  صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے، وہ چاہتے ہیں  کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں  اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں ، اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں  پر غالب کر دےاگرچہ مشرک برا مانیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ان خبیث اقوال کاذکرفرمایاکہ یہ خودکوکہتے تواہل کتاب ہیں  ، مگران کی فطری کجی کی وجہ سے ان کے اعتقادات میں  اتنی خرابی پیداہوگئی کہ اللہ کو وحدہ لاشریک ماننے کے بجائے یہودیوں  کے بعض فرقوں  نے عقیدہ گھڑلیا کہ عزیر علیہ السلام اللہ کابیٹاہے، اورنصاریٰ کاعقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم اللہ کابیٹاہے،حالانکہ ان لوگوں  کے پاس اس عقیدہ کی صداقت اورحجت کی کوئی دلیل نہیں  ہے، دراصل وہ اپنے اس قول میں  پہلی مشرک قوموں  سے مشابہت رکھتے ہیں  جنہوں  نے کفروضلالت میں  مبتلا ہو کر گمراہانہ عقیدے ایجادکرلئے تھے ،اللہ انہیں  ہلاک کرے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:قَاتَلَهُمُ اللهُ، یَقُولُ: لَعَنَهُمُ اللهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت’’ اللہ کی مار ان پر۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان پرلعنت کرے۔[47]

یہ واضح حق کوباطل کی طرف موڑدیتے ہیں  ،اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں  نے اپنے دینی راہنماؤں  کو اللہ کے سوا الٰہ بنا لیاہے،یعنی جوحقوق واختیارات اللہ تعالیٰ کوحاصل ہیں  وہ انہوں  نے اپنے احبار(پروہتوں  ،علمائ) اور رہبان یعنی گوشہ نشین لوگوں  کودے دیئے ہیں  ،وہ ان کے لئے ان امور کوحلال کرتے ہیں  جن کواللہ نے حرام ٹھہرایاہے اوریہ ان کوحلال سمجھ لیتے ہیں  ،اوران امورکوحرام کرتے ہیں  جن کواللہ نے حلال ٹھہرایاہے اوریہ ان کی تقلیدمیں  ان امور کو حرام قرار دے دیتے ہیں  ،یعنی ان کے احبار اوررہبان ان کے لئے ایسی شریعت مشروع کرتے ہیں  جوانبیاء ورسل کے دین کے منافی ہے اوریہ ان کی تقلیدکرتے ہیں  ،

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:یَا عَدِیُّ اطْرَحْ هَذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنُقِكَ، فَطَرَحْتُهُ فَانْتَهَیْتُ إِلَیْهِ وَهُوَ یَقْرَأُ سُورَةَ بَرَاءَةَ فَقَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ}، [48] حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا، فَقُلْتُ: إنَّا لَسْنَا نَعْبُدُهُمْ، فَقَالَ:أَلَیْسَ یُحَرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللهُ فَتُحَرِّمُونُهُ، ویُحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَتَسْتَحِلُّونَهُ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورمیرے گلے میں  سونے کی صلیب لٹکی ہوئی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عدی! اس بت کو اپنی گردن سے دور کر دو، پھر میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت برات کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا’’ انہوں  نے اپنے عالموں  اور درویشوں  کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے۔‘‘یہاں  تک کہ آپ تلاوت سے فارغ ہوگئے،میں  نے کہا ہم ان علماء اوربزرگوں  کی عبادت تونہیں  کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاایسانہیں  تھاکہ تم اللہ کی حلال کردہ چیزوں  کوان کے کہنے پرحرام سمجھتے تھے،اوراللہ کی حرام کردہ چیزوں  کوان کے کہنے پرحلال سمجھتے تھے ؟میں  نے عرض کیاواقعی ایساہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہی ان کی عبادت ہے ۔[49]

قَالَ حُذَیْفَةُ بْنُ الْیَمَانِ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَغَیْرُهُمَا فِی تَفْسِیرِ:اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ، إِنَّهُمُ اتَّبَعُوهُمْ فِیمَا حَلَّلُوا وَحَرَّمُوا

حذیفہ بن یمان،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اوردیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اس آیت کی تفسیرمیں  اسی طرح مروی ہےانہوں  نے حلال وحرام میں  اپنے علماء ومشایخ کی باتوں  کو اختیار کرلیاتھا۔[50]

وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ: یُوشِكُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَیْكُمْ حِجَارَةٌ مِنَ السَّمَاءِ، أَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُونَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میں  کسی بات پرتکرارہوئی توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا(تمہارایہی حال رہاتو)قریب ہے کہ تم پرآسمان سے پتھربرسیں  گے، میں  تمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان سنارہاہوں  اورتم(اس کے مدمقابل) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی بات کرتے ہو۔[51]

نیز یہ اپنے مشائخ وعبادکے بارے میں  غلوسے کام لیتے ہیں  ،ان کی تعظیم کرتے ہیں  ،ان کی قبروں  کوبت بنادیتے ہیں  جن کی اللہ کے سواعبادت کی جاتی ہے ،جہاں  جانورذبح کرنے کی منتیں  مانی جاتی ہیں  ،دعائیں  مانگیں  جاتی ہیں  اورمشکلات وپریشانیوں  میں  ان کومددکے لئے پکاراجاتا ہے، اور انہوں  نے مسیح علیہ السلام ابن مریم کوبھی معبود بنالیا ہے، حالانکہ انہیں  حکم دیاگیاتھاکہ اللہ وحدہ کے سواکسی کی عبادت واطاعت نہ کریں  ،جسے وہ حرام کردے وہ حرام ہے اوروہ جسے حلال فرما دے حلال ہے ،اسی کے احکام بجالانے کے لائق ہیں  ،اسی کی ذات کوعبادت، محبت اور دعاکے لئے مخصوص کریں  ، مگرانہوں  نے اللہ کے حکم کودورپھینک دیا،اوراللہ کے ساتھ شرک کیاجس پراللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں  فرمائی، اللہ ان چیزوں  سے پاک ومقدس ہے اوراس کی عظمت وشان ان کے شرک اوربہتان طرازی سے بہت بلندہے ،یہ یہودونصاریٰ اوردیگرمشرکین چاہتے ہیں  کہ اپنی جاہلانہ باتوں  سے دین حق کومٹادیں  ، مگران کی سازشیں  ،شراتیں  اورفسادحق کوکوئی نقصان نہیں  پہنچاسکتیں  ،اللہ کی مشیت ہرچیزپرغالب ہے وہ اپنے دین کوغالب کرکے رہے گا،اللہ ہی نے محمدرحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کودین حق اورہدایت کے ساتھ بھیجاہے تاکہ وہ لوگوں  پرحق کو واضح کر دے، اوراس دین اسلام کوتمام ادیان پرغالب کرے، اگرچہ مشرکین سازشیں  اورفسادبرپاکریں  ،

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ زَوَى لِی الْأَرْضَ، فَرَأَیْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِیَ لِی مِنْهَا، وَأُعْطِیتُ الْكَنْزَیْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ، وَإِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی لِأُمَّتِی أَنْ لَا یُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا یُسَلِّطَ عَلَیْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّی قَالَ: یَا مُحَمَّدُ إِنِّی إِذَا قَضَیْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا یُرَدُّ، وَإِنِّی أَعْطَیْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَیْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، یَسْتَبِیحُ بَیْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَیْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ مَنْ بَیْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى یَكُونَ بَعْضُهُمْ یُهْلِكُ بَعْضًا، وَیَسْبِی بَعْضُهُمْ بَعْضًا

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے لئے مشرق ومغرب کی زمین لپیٹ دی گئی،میں  نے اس کاپورب اورپچھم دیکھا اورمیری امت کی عمل داری وہاں  تک پہنچے گی جہاں  تک اسے میرے لیے لپیٹاگیاہے،اورمجھے سرخ وسفید (سونا چاندی)دوخزانے دئیے گئے ہیں  ،میں  نے اپنے پروردگارسےدعاکی کہ میری امت کوعام قحط سے ہلاک نہ فرمائے،اوران پران کے اپنے اندرکے علاوہ باہرسے کوئی دشمن مسلط نہ فرمائے جوانہیں  ہلاک کرکے رکھ دے(یعنی بالکل نیست ونابودہوجائیں  )میرے پروردگارنے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں  جب کوئی فیصلہ کرتاہوں  تو پھراسے رد نہیں  کیاجاتا اورمیں  نے تیری یہ دعائیں  قبول کیں  میں  (تیری امت کے) ان لوگوں  کوعام قحط سے ہلاک نہیں  کروں  گا،اور ان کے اپنے اندرکے علاوہ باہرسے کوئی دشمن مسلط نہیں  کروں  گاجوانہیں  ہلاک کرکے رکھ دے اگرچہ سب ملکوں  والے ان پرچڑھ دوڑیں  (توانہیں  ہلاک نہیں  کرسکیں  گے)البتہ یہ آپس میں  ایک دوسرے کو ہلاک کریں  گے اورایک دوسرے کوقیدکریں  گے۔[52]

فَكَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ: قَدْ عَرَفْتُ ذَلِكَ فِی أَهْلِ بَیْتِی، لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمُ الخیرَ والشرفَ والعزَّوَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ كَافِرًا الذُّلَّ وَالصَّغَارَ وَالْجِزْیَةَ

تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے تھےمیں  نے تویہ بات خوداپنے گھرمیں  بھی دیکھ لی ،جومسلمان ہوااسے خیرو برکت، عزت وشرافت ملی اورجوکافررہااسے ذلت،نفرت ولعنت کے ساتھ جزیہ دیناپڑا۔[53]

سُلَیْمَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا یَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ كَلِمَةَ الْإِسْلَامِ، بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیلٍ، إِمَّا یُعِزُّهُمُ اللَّهُ فَیَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا، أَوْ یُذِلُّهُمْ فَیَدِینُونَ لَهَا

سلیم بن عامر رحمہ اللہ کہتے ہیں  میں  نے مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سناکہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روئے زمین پرکوئی کچاپکاگھرایساباقی نہیں  رہے گاجس میں  اللہ تعالیٰ کلمہ اسلام داخل نہ کردے، وہ عزت والوں  کوعزت عطافرمائے گااورذلیلوں  کوذلیل کرے گا،جنہیں  عزت عطافرماناچاہے گاانہیں  اسلام نصیب فرمائے گا، اورجنہیں  ذلیل کرناچاہے گاوہ اسے قبول نہیں  کریں  گے لیکن انہیں  اس کی ماتحتی میں  آناپڑے گا۔[54]

نور خداہے کفرکی حرکت پرخندہ زن        پھونکوں  سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا۔(مولاناظفرعلی خان)

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ كَثِیرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَیَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِینَ یَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٣٤﴾‏ یَوْمَ یُحْمَىٰ عَلَیْهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ‎﴿٣٥﴾(التوبة)
’’اے ایمان والو ! اکثر علماء اور عابد، لوگوں  کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں  اور اللہ کی راہ میں  خرچ نہیں  کرتے انہیں  دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ،جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں  تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں  اور پہلو اور پیٹھیں  داغی جائیں  گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں  کا مزہ چکھو۔‘‘

یہودکے احباراورنصاریٰ کے رہبان ومشائخ کوزمانہ جاہلیت میں  بڑارسوخ حاصل تھا،ان کے تحفے ،ہدئے ،خراج،چراغی مقررتھی جوبغیرمانگے انہیں  پہنچ جاتی تھی مگران کی دولت جمع کرنے کی ہوس ختم ہونے کانام نہ لیتی تھی ،فرمایاجن علماودرویشوں  کوتم نے حلال کوحرام اور حرام کوحلال کرنے کے اختیارات سونپ رکھے ہیں  ان میں  سے اکثر کاحال یہ ہے کہ اپنے جاہ ومنصب سے فائدہ اٹھاکر لوگوں  کامال باطل طریقوں  سے اینٹھنے کے لئے رشوتیں  کھاتے ہیں  ،نذرانے لوٹتے ہیں  ، اوراپنی اغراض کی خاطرکلام اللہ میں  تحریف وتغیرکرکے لوگوں  کی خواہشات کے مطابق مسئلے بتلاتے ہیں  ، اوریوں  خودبھی حق سے رکتے ہیں  اورحق وباطل کوغلط ملبط کرکےلوگوں  کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں  ،اوریہی حال آجکل اکثر مسلمان علماء کابھی ہے، جومال ودولت اورحیثیت کی ہوس میں  اپنی اور لوگوں  کی خواہشات کے مطابق فتوے دیتے ہیں  اورانہیں  راہ حق سے روکتے ہیں  ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، الیَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ:فَمَنْ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یقیناًاپنے سے پہلی امتوں  کی ایک ایک بالشت اورایک ایک گزمیں  اتباع کروگے، یہاں  تک کہ اگروہ کسی گوہ کے سوراخ میں  داخل ہوئے ہوں  گے توتم اس میں  بھی ان کی اتباع کروگے،ہم نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود و نصاریٰ مرادہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراورکون لوگ۔[55]

گوہ کے بل میں  گھسنے سے مرادیہ ہے کہ تم اندھادھندیہودونصاریٰ کی تقلید کرنے لگو گے ، اچھی ہویابری ہرحال میں  ان کی چال چلناپسندکروگے،فکراورتامل،قوت اجتہادی اوراختراعی کامادہ تم سے نکل جائے گا،اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَأْخُذَ أُمَّتِی بِأَخْذِ القُرُونِ قَبْلَهَا، شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كَفَارِسَ وَالرُّومِ؟ فَقَالَ:وَمَنِ النَّاسُ إِلَّا أُولَئِكَ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاقیامت اس وقت تک قائم نہیں  ہوگی جب تک میری امت اس طرح پچھلی امتوں  کے مطابق نہیں  ہوجائے گی جیسے بالشت بالشت کے اورہاتھ ہاتھ کے برابرہوتاہے ،(یعنی کھانے پینے،لباس ،معاشرت،نشت وبرخاست اوردوسری رسمیں  )لوگوں  نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگلی امتوں  سے کون مرادہیں  ؟فارسی اوررومی ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے سوااورکون ہوسکتے ہیں  ۔ [56]

قال عبد الله بن المبارك رحمه الله:وَهَل أفْسَدَ الدِّینَ إِلَّا المُلوكُ ، وَأحبارُ سُوءٍ وَرُهْبَانُها

جیساکہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایادین کوبادشاہوں  ،علمائے سوئ اورمشائخ ہی نے توخراب کیاہے۔[57]

جولوگ مال ودولت جمع کرتے ہیں  اورانہیں  اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ نہیں  کرتے توانہیں  دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیں  ،روز قیامت ان کے مال پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گا،پھران لوگوں  کی پیشانیوں  ،ان کے پہلوؤں  اوران کے پیٹھوں  کوداغاجائے گا، اور کہاجائے گایہی وہ مال ہے جس کوتم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنے کے بجائے سینت سینت کررکھتے تھے، اب اس کی محبت کامزہ چکھو،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: هَذَا قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا نَزَلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهرًا لِلْأَمْوَالِ،أَیُّمَا مَالٍ أَدَّیْتَ زَكَاتَهُ فَلَیْسَ بِكَنْزٍ وَإِنْ كَانَ مَدْفُونًا فِی الْأَرْضِ، وَأَیُّمَا مَالٍ لَمْ تُؤَدِّ زَكَاتَهُ فَهُوَ كَنْزٌ یُكْوَى بِهِ صَاحِبُهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  یہ زکوٰة کے حکم سے پہلے کاحکم ہے ،زکوٰة کا حکم نازل ہونے کے بعدزکوٰة کواللہ تعالیٰ نے مال کی طہارت کاذریعہ بنا دیا ہے، اس لئے علما فرماتے ہیں  کہ جس مال سے زکوٰة اداکردی جائے وہ اگرساتوں  زمین کے نیچے بھی ہوتووہ کنزنہیں  ہے اورجس مال کی زکوٰة ادانہ کی جاتی ہو وہ گوزمین پرظاہر پھیلا پڑاہووہ کنز (خزانہ) ہے جس پر وعیدہے۔[58]

عَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فِی قَوْلِهِ: {وَالَّذِینَ یَكْنزونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا یُنْفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللَّهِ} قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَبّا لِلذَّهَبِ، تَبّا لِلْفِضَّةِ” یَقُولُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ علیه وسلم وَقَالُوا: فَأَیُّ مَالٍ نَتَّخِذُ؟ فَقَالَ: عُمَرُ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَا أَعْلَمُ لَكُمْ ذَلِكَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابَكَ قَدْ شَقَّ عَلَیْهِمْ وَقَالُوا: فأیَّ مَالٍ نَتَّخِذُ؟ قَالَ:لِسَانًا ذَاكِرًا، وَقَلْبًا شَاكِرًا وَزَوْجَةً تُعِینُ أَحَدَكُمْ عَلَى دِینِهِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب یہ آیت کریمہ’’ جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں  اور انہیں  اللہ کی راہ میں  خرچ نہیں  کرتے ۔‘‘ نازل ہوی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسونے چاندی والوں  کے لیے ہلاکت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایایہ سن کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرشاق گزرااورانہوں  نے دریافت کیاپھرہم کس قسم کامال رکھیں  ؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں  تمہیں  یہ بات معلوم کرکے بتاتاہوں  ، انہوں  نےعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کویہ بات شاق گزری ہے اوروہ پوچھتے ہیں  کہ پھرہم کس طرح کامال رکھیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاذکرکرنے والی زبان ،شکرکرنے والادل، اوردین کے کاموں  میں  مدددینے والی بیوی۔[59]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ، لَا یُؤَدِّی مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ، صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِیَ عَلَیْهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ، فَیُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِینُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِیدَتْ لَهُ، فِی یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى یُقْضَى بَیْنَ الْعِبَادِ، فَیَرَى سَبِیلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں  کرتاتوقیامت والے دن اس کے مال کو جہنم کی تختیاں  بنا دیا جائے گا،جس سے اس کے دونوں  پہلوؤں  ،پیشانی اور کمرکوداغاجائے گا،اورجب وہ ٹھنڈے ہوجائیں  گے توپھرگرم کیے جائیں  گے، یہ دن پچاس ہزار سال کاہوگااور لوگوں  کے فیصلے ہوجانے تک اس کایہی حال رہے گا، اس کے بعد جنت یاجہنم میں  اسے لے جایاجائے گا ۔[60]

عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ تَرَكَ بَعْدَهُ كَنْزًا مُثِّلَ لَهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهُ زَبِیبَتَانِ یَتْبَعُهُ، فَیَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟، فَیَقُولُ: أَنَا كَنْزُكَ الَّذِی خَلَّفْتَ بَعْدَكَ، فَلَا یَزَالُ یَتْبَعُهُ حَتَّى یُلْقِمَهُ یَدَهُ فَیَقْضِمُهَا، ثُمَّ یَتْبَعُهُ سَائِرَ جَسَدِهِ

ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے پیچھے کوئی خزانہ چھوڑجائے گا،تواس کاوہ خزانہ قیامت کے دن ایک زہریلا اژدھابن کرجس کی آنکھوں  پرنقطے ہوں  گے اس کے پیچھے لگ جائے گا،یہ شخص بھاگتاہوااس سے پوچھے گاتوکون ہے؟ وہ کہے گامیں  تیراجمع کیاہوامال اورمرنے کے بعدچھوڑاہواخزانہ ہوں  ،آخراسے پکڑلے گااوراس کاہاتھ چباجائے گااورپھرباقی جسم بھی چباجائے گا۔[61]

یعنی اللہ کی جس نعمت کاحق ادانہ کیاجائے وہ باعث وبال ہے۔

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِذَا كَنَزَ النَّاسُ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ فَاكْنِزُوا هَذِهِ الْكَلِمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِی الْأَمْرِ، وَالْعَزِیمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ حُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِیمًا، وَلِسَانًا صَادِقًا، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ، إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ

شداد رضی اللہ عنہ بن اوس فرماتے ہیں  میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےکہ جب لوگ سوناچاندی جمع کرنے لگیں  توتم ان کلمات کابکثرت وردکیاکرو’’ اے اللہ!میں  تجھ سے کام کی ثابت قدمی اوربھلائیوں  کی پختگی اورتیری نعمتوں  کاشکر اورتیری عبادتوں  کی اچھائی اورسلامتی والادل اورسچی زبان اور تیرے علم میں  جوبھلائی ہےاورتیرے علم میں  جوبرائی ہے اوراس کی پناہ اورجن برائیوں  کوتوجانتاہے،ان سے استغفارطلب کرتاہوں  بیشک توتمام غیب کاجاننے والا ہے۔‘‘[62]

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی كِتَابِ اللَّهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّینُ الْقَیِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِیهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِینَ كَافَّةً كَمَا یُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٣٦﴾‏إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ ۖ یُضَلُّ بِهِ الَّذِینَ كَفَرُوا یُحِلُّونَهُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّیُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُیِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٣٧﴾(التوبة)
’’مہینوں  کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں  بارہ کی ہے،اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہےان میں  سے چار حرمت و ادب کے ہیں ، یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں  میں  اپنی جانوں  پر ظلم نہ کرو، اور تم تمام مشرکوں  سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں  اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں  کے ساتھ ہے،مہینوں  کا آگے پیچھے کردینا کفر کی زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں  ڈالے جاتے ہیں  جو کافر ہیں ، ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں  اور ایک سال اسی کو حرمت والا کرلیتے ہیں ، کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں  تو موافقت کرلیں  پھر اسے حلال بنالیں  جسے اللہ نے حرام کیا ہے، انہیں  ان کے برے کام بھلے دکھائی دیئے گئے ہیں  اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں  فرماتا۔‘‘

عربوں  میں  بھی حرمت والے مہینوں  میں  قتال وجدال اورلوٹ مارکوسخت ناپسندیدہ سمجھاجاتاتھا،لیکن مسلسل تین مہینے ان کی حرمت کوملحوظ رکھتے ہوئے قتل وغارت سے اجتناب ان کے لئے بہت مشکل کام تھا،اس لئے اس کاحل انہوں  نے یہ نکالاکہ جس حرمت والے مہینے میں  وہ قتل وغارت گری کرناچاہتے اس میں  وہ کرلیتے اوراعلان کردیتے کہ اس کی جگہ فلاں  مہینہ حرمت والاہوگا،دوسراطریقہ یہ تھاکہ حرمت والے مہینوں  میں  حج کو ہمیشہ ایک ہی موسم میں  رکھنے کے لئے قمری سال کوشمسی سال کے مطابق کرنے کے لئے اس میں  کبیسہ کاایک مہینہ بڑھادیتے تھے ،اس طرح ۳۳سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں  میں  ہوتارہتا تھا، اور چونتیسویں  سال اصلی نو،دس ذی الحجہ کواداہوتاتھا ،اس تقدیم وتاخیر کونسی کہاجاتاتھا ،اس بارے میں  فرمایاگیاکہ جب سے اللہ نے اس عظیم الشان کائنات کانظام تخلیق فرمایاہے، اس وقت سے سال کے بارہ ہی مہینے رکھے ہیں  ، ان میں  چار مہینے حرام مقررفرمائے گئے ہیں  جن میں  قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے ،ان میں  تین پے درپے مہینے ذی القعدہ،ذی الحجہ اورمحرم حج بیت اللہ کے لئے اوررجب کو عمرہ کے لئے حرام کیا گیا ہے،اللہ نے ان مہینوں  جو ترتیب رکھی ہے وہی صحیح اورمکمل عددہے، لہذاجن مصالح کی بناپران مہینوں  کوحرام قراردیاگیاہے ان میں  بدامنی پھیلا کر ضائع مت کرو ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِـاِلْحَادٍؚبِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۲۵ۧ [63]

ترجمہ: جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گااسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں  گے ۔

اگرکفارومشرکین ان حرمت والے مہینوں  میں  ان کی حرمت پامال کرکے تم سے قتال کریں  ، توجس طرح وہ متفق ہوکرتم سے لڑائی کرتے ہیں  اسی طرح تم بھی باہم مل کران سے لڑائی کرو،اورجان رکھوکہ اللہ کی مددونصرت تقویٰ شعارلوگوں  ہی کے ساتھ ہے، اور نسی توکفرمیں  ایک مزیدکفرانہ حرکت ہے، کیونکہ انہوں  نسی کواپنی طرف سے گھڑکراللہ کی شریعت اوردین قراردے دیا،حالانکہ اللہ اوراس کارسول اس سے بری ہیں  ،انہوں  نے دین کوبدل ڈالا،حلال کوحرام اورحرام کوحلال قراردے ڈالا،انہوں  نے بزعم خوداللہ تعالیٰ اوراس کے بندوں  کے ساتھ فریب کیا،اللہ کے بندوں  پران کے دین کوگڈمڈکردیا،اللہ کے پاکیزہ دین میں  حیلہ سازی اورفریب کاری کواستعمال کیا، جس سے یہ کفارگمراہی میں  مبتلاکیے جاتے ہیں  کسی سال ایک مہینے کو حلال کرلیتے ہیں  اورکسی سال اس کوحرام کردیتے ہیں  ، تاکہ اللہ کے مقررکردہ حرام مہینوں  کی تعدادبھی پوری کرلیں  اور اللہ کاحرام کیاہواحلال بھی کرلیں  ،شیطان نے ان کے برے اعمالوں  کومزین کردیاہے اوروہ اس پرخوش ہیں  اوراللہ ان لوگوں  کوہدایت نصیب نہیں  کرتاجوکفرکے رنگ میں  رنگے گئے ہوں  ۔

 سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوسورۂ برات کے اعلان کے لئے روانہ کرنا

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَرَاءَةٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ لِیُقِیمَ لِلنَّاسِ الْحَجَّ، قِیلَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ بَعَثْتُ بِهَا إلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَ: لَا یُؤَدِّی عَنِّی إلَّا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَیْتِی، ثُمَّ دَعَا عَلِیَّ ابْن أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ، فَقَالَ لَهُ: اُخْرُجْ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ مِنْ صَدْرِ بَرَاءَةٍ، وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ یَوْمَ النَّحْرِ إذَا اجْتَمَعُوا بِمِنًى، أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ كَافِرٌ، وَلَا یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَمَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَهُوَ لَهُ إلَى مُدَّتِهِ،

ابوجعفرمحمدبن علی رحمہ اللہ سے مروی ہے جب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے حج کے لئے جانے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرسورۂ برات نازل ہوئی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس کے اعلان کے لئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کوہدایت لکھ کربھیجیں  کہ وہ لوگوں  میں  حج کے روزاس کااعلان کردیں  ،عرب میں  یہ رسم تھی کہ معاہدہ کوجب منسوخ کرکے واپس کیاجاتاتوصرف وہی شخص اسے واپس کر سکتا تھاجوواپس کرنے والے کاقریبی عزیزہو،خاندان سے باہرکے کسی شخص کاکیاہوااعلان قبول نہیں  کیاجاتاتھااس لئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  اس کااعلان میری طرف سے میرے گھرکاکوئی آدمی کرے گا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوبلاکرفرمایاجاؤجب لوگ قربانی کے لئے منیٰ میں  جمع ہوں  توسورت براة کے ابتدائی حصہ کااعلان کر دو اورمنادی کردوکہ کوئی کافرجنت میں  داخل نہیں  ہوگا،نہ اس سال کے بعدکوئی مشرک حج کر سکے گا نہ کسی کوننگے بدن بیت اللہ کاطواف کرنے کی اجازت ہوگی،اورجس شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعہدکسی مدت مقررہ تک ہے وہ عہداس مدت تک برقرارہے،

فَخَرَجَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ عَلَى نَاقَةِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ، حَتَّى أَدْرَكَ أَبَا بَكْرٍ بِالطَّرِیقِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ بِالطَّرِیقِ قَالَ: أَأَمِیرٌ أَمْ مَأْمُورٌ؟ فَقَالَ: بَلْ مَأْمُورٌ، ثُمَّ مَضَیَا. فَأَقَامَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّاسِ الْحَجَّ، وَالْعَرَبُ إذْ ذَاكَ فِی تِلْكَ السَّنَةِ عَلَى مَنَازِلِهِمْ مِنْ الْحَجِّ، الَّتِی كَانُوا عَلَیْهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، حَتَّى إذَا كَانَ یَوْمُ النَّحْرِ، قَامَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِاَلَّذِی أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ كَافِرٌ، وَلَا یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا یطوف بِالْبَیْتِ عُرْیَان، وَمَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَهُوَ لَهُ إلَى مُدَّتِهِ،

چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب آپ کی مشہوراونٹنی عضباء پر سوار ہوکر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے روانہ ہوئےاورراستہ ہی میں  سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جاملے،امام نسائی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں  کہ ہم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کرنے کے لئے آئے ، جب مقام بالعرج یاوادی بِضَجَنَانَ میں  صبح کی نمازکے لئے اقامت کہی گئی اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیرکہہ کرنماز شروع کرنے لگے توپیچھے سے ناقہ کی آواز سنی توتکبیرکہنے سے رک گئے اور بولے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جدعا کی آوازہے شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودحج کے لئے تشریف لے آئے ہیں  ،اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  توپھرہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھیں  گے ،اونٹنی قریب آئی تومعلوم ہوا کہ اس پرسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سوار ہیں  ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیاامیرحج مقررہوکر یا تابع ہوکرآئے ہیں  ؟انہوں  نے کہا نہیں  بلکہ مجھے اس لئے بھیجاہے کہ میں  لوگوں  کے سامنے سورہ برات (التوبہ) کی تلاوت کروں  اور ہر معاہدہ والے کواس کے معاہدہ کی تحریر واپس کردوں  ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں  کوحج کرایا،اورتمام قبائل اپنی اپنی انہی جگہوں  پراترے ہوئے تھے جہاں  جاہلیت کے زمانہ میں  اترتے تھے،جب قربانی کاروزہواتوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے لوگوں  کوجمع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کااعلان کیا،اور فرمایا اے لوگو!جنت میں  کافرنہ داخل ہوگااورنہ اس سال کے بعدمشرک بیت اللہ کاحج کرنے پائے گااورنہ برہنہ ہوکرکوئی شخص بیت اللہ کاطواف کرسکے گااورجس شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعہدکسی مقررہ مدت تک ہے وہ اس مدت تک پوراکیاجائے گا،

وَأَجَّلَ النَّاسَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ مِنْ یَوْمِ أَذَّنَ فِیهِمْ، لِیَرْجِعَ كُلُّ قَوْمٍ إلَى مَأْمَنِهِمْ أَوْ بِلَادِهِمْ ، ثُمَّ لَا عَهْدٌ لِمُشْرِكِ وَلَا ذِمَّةٌ إلَّا أَحَدٌ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ إلَى مُدَّةٍ، فَهُوَ لَهُ إلَى مُدَّتِهِ. فَلَمْ یَحُجَّ بَعْدَ ذَلِكَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَمْ یَطُفْ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ. ثُمَّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.

اورآج سے لوگوں  کوچارمہینہ تک مہلت ہے تاکہ سب اپنے اپنے شہروں  میں  پہنچ جائیں  ، پھرکسی مشرک کے لیے عہداورذمہ داری نہیں  ہے سواان لوگوں  کے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامدت معینہ تک عہدہے تووہ عہداس مدت تک رہے گا،پس اس سال کے بعدکوئی مشرک حج کونہ آئے اورنہ برہنہ ہوکربیت اللہ کاطواف کرے،اس کے بعدسیدناعلی رضی اللہ عنہ اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  واپس چلے گئے۔[64]

ہم مکہ مکرمہ میں  آئے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آٹھ ذوالحج سے پہلے خطبہ دیاجس میں  لوگوں  کواحکام حج سکھائے ،وہ فارغ ہوئے توسیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اورلوگوں  کے سامنے سورت براة پڑھی حتی کہ اس کوختم کردیا، جب ہم قربانی کے دن واپس آئے توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے پھرخطبہ دیااورلوگوں  کوطواف افاضہ اور قربانی ذبح کرنے کاطریقہ سکھایا،وہ فارغ ہوئے توسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر سورت براة کی ابتدائی حصہ کی تلاوت فرمائی،بارہ ذوالحجہ کوسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے تیسری مرتبہ خطبہ ارشاد فرمایا اور لوگوں  کوکنکر مارنے اورمکہ کی طرف واپسی کے احکام بتائے ،ان کے فارغ ہونے کے بعدسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرسورت براة کی ابتدائی حصہ کی تلاوت کی ۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: بَعَثَنِی أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فِیمَنْ یُؤَذِّنُ یَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى:لاَ یَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ، وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَیَوْمُ الحَجِّ الأَكْبَرِ یَوْمُ النَّحْرِ، وَإِنَّمَا قِیلَ الأَكْبَرُ مِنْ أَجْلِ قَوْلِ النَّاسِ: الحَجُّ الأَصْغَرُ، فَنَبَذَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى النَّاسِ فِی ذَلِكَ العَامِ، فَلَمْ یَحُجَّ عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ الَّذِی حَجَّ فِیهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُشْرِكٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے (حجة الوداع سے پہلے والے حج کے موقع پر)دسویں  ذی الحجہ کے دن بعض دوسرے لوگوں  کے ساتھ مجھے منیٰ میں  یہ اعلان کرنے بھیجاتھاکہ اس سال کے بعدکوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اورکوئی شخص بیت اللہ کاطواف ننگے ہوکرنہ کرے، اورحج اکبرکادن دسویں  تاریخ ذی الحجہ کادن ہے ،اسے حج اکبراس لیے کہاگیاکہ لوگ (عمرہ کو)حج اصغرکہنے لگے تھے، توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سال مشرکوں  سے جوعہد لیا تھا اسے واپس کردیا،اوردوسرے سال حجة الوادع میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیاتوکوئی مشرک شریک نہیں  ہوا ۔[65]

عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیع: سَأَلْنَا عَلِیًّا: بِأَیِّ شَیْءٍ بُعِثْتَ؟ قَالَ: بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ، وَلَا یَحُجُّ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا.وَمَنْ كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ وَمَنْ لَمْ یَكُنْ لَهُ عَهْدٌ، فَأَجَلُهُ إِلَى أَرْبَعِ أَشْهُرٍ

زیدبن یثبع سے مروی ہے ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاآپ حج میں  کس کام کے لئے آئے تھے، بولے میں  حج میں  چارباتوں  کااعلان کرنے آیاتھا،ایماندارکے سواکوئی شخص جنت میں  داخل نہیں  ہوگا،کوئی ننگاآدمی بیت اللہ کاطواف نہیں  کرے گا، اس سال کے بعدمومن اورکافر مسجدالحرام میں  جمع نہیں  ہوں  گے ،جس کامعاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت معین تک ہے اس کامعاہدہ اس مدت تک پوراکیاجائے گااورجس کامعاہدہ معین مدت کے لئے نہیں  ،اس کو صرف چارمہینہ کی اجازت ہے ۔

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی امدادکے لئے مقررکردیئے کہ باری باری منادی کردیں  ۔

ایک روایت میں  ہے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ ذواالحلیفہ پہنچ کرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملے اورکہاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کے اعلان کے لئے بھیجاہے

فقال: أدرك أبا بكر، فحیثما لقیته فخذ منه الكتاب فأدركته فأخذته منه، فرجع أبو بكر فقال: یا رسول الله نزل فی شیء. قال: لا أنت صاحبی فی الغار، وصاحبی على الحوض، ولكن جبریل قال لی لا یؤدی عنك إلا أنت أو رجل منك

توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کویہ خیال ہواکہ شاید میرے بارے میں  کوئی حکم نازل ہواہے اس لئے فوراًہی مدینہ واپس ہوئےاورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیرے بارے میں  کوئی حکم نازل ہواہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں  ،تم تومیرے غارکے ساتھی ہواورحوض کوثرپربھی میرے ساتھ ہوگے،لیکن جبریل علیہ السلام نے مجھے کہاکہ برات کااعلان سوائے میرے یامیرے خاندان کے کسی شخص کے سوااورکوئی نہیں  کرسکتااس لئے آیات برات سنانے کے لئے میں  نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوبھیجاہے۔[66]

قربانی کاگوشت تین دن سے زیادہ رکھنا:

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِیَ فِی بَیْتِهِ مِنْهُ شَیْءٌ فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِی؟ قَالَ:كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِینُوا فِیهَا

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے تم میں  سے قربانی کی توتیسرے دن وہ اس حالت میں  صبح کرے کہ اس کے گھر میں  قربانی کے گوشت میں  سے کچھ باقی نہ ہو،دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم اس سال بھی وہی کریں  جوپچھلے سال کیاتھا(تین دن سے زیادہ قربانی کاگوشت نہ رکھیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب کھاؤ،کھلاؤاورجمع کرو،پچھلے سال توچونکہ لوگ تنگی میں  مبتلاتھے اس لیے میں  نے چاہاکہ تم لوگوں  کی مشکلات میں  ان کی مددکرو۔[67]

مدینہ واپسی تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازپڑھتے رہے اوردونوں  ایک ساتھ مدینہ منورہ واپس ہوئے ۔

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی درخواست:

أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ، انْكِحْ أُخْتِی عَزَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتُحِبِّینَ ذَلِكِ؟فَقَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللهِ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِیَةٍ، وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِی فِی خَیْرٍ أُخْتِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِنَّ ذَلِكِ لَا یَحِلُّ لِی، قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِیدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِی سَلَمَةَ، قَالَ:بِنْتَ أَبِی سَلَمَةَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ رَبِیبَتِی فِی حِجْرِی مَا حَلَّتْ لِی، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِی وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَیْبَةُ فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَیَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کرلیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اسے پسندکرتی ہو؟ میں  نے کہاہاں  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ کے لیے مخل ہونے والی نہیں  ہوں  ، اوریہ بات زیادہ پسندکرتی ہوں  کہ اس خیرمیں  میری بہن بھی شریک ہوجائے(یعنی آپ کی زوجہ بن کروہ بھی فضیلت اوردرجات علیاحاصل کرے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ میرے لئے حلال نہیں  ،میں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم باتیں  کررہے تھے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے،میں  نے کہا ہاں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگروہ ربیبہ(بیوی کی بیٹی)نہ بھی ہوتی تب بھی میرے لئے جائزنہ ہوتی ،کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے،اس کے باپ کواورمجھے ثوبیہ نے دودھ پلایاتھاتم اپنی بیٹیاں  اوربہنیں  مجھ پرپیش نہ کیاکرو۔[68]

عوف رضی اللہ عنہ بن مالک اوران کے ساتھیوں  کی بیعت:

عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِیُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِیَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ:أَلَا تُبَایِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟وَكُنَّا حَدِیثَ عَهْدٍ بِبَیْعَةٍ، فَقُلْنَا: قَدْ بَایَعْنَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ، ثُمَّ قَالَ:أَلَا تُبَایِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟ فَقُلْنَا: قَدْ بَایَعْنَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ، ثُمَّ قَالَ:أَلَا تُبَایِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: فَبَسَطْنَا أَیْدِیَنَا وَقُلْنَا: قَدْ بَایَعْنَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ، فَعَلَامَ نُبَایِعُكَ؟ قَالَ:عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَتُطِیعُوا وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِیَّةً وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَیْئًافَلَقَدْ رَأَیْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ یَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا یَسْأَلُ أَحَدًا یُنَاوِلُهُ إِیَّاهُ

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  ایک دن جبکہ ہم نویاآٹھ یاسات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کیوں  نہیں  کرتے؟ہم کچھ عرصہ پہلے بیعت کرچکے تھے، لہذاہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم توبیعت کرچکے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کیوں  نہیں  کرتے؟ہم نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم توبیعت کرچکے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کیوں  نہیں  کرتے؟ہم نے اپنے ہاتھ بڑھادئیے اورعرض کیاہم توبیعت کرچکے ہیں  اب کس بات پربیعت کریں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس بات پرکہ اللہ کی عبادت کرو گےاوراس کے ساتھ کسی قسم کاشرک نہیں  کروگے،پانچوں  نمازیں  پڑھوگے اوراطاعت کرتے رہوگے،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ آوازسے فرمایااورلوگوں  سے کوئی چیز نہ مانگو گے (تم لوگوں  نے بیعت کی)اس کے بعدان کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ اگران کاکوڑابھی گرجاتا(یعنی اونٹ پرسے)تووہ کسی سے یہ نہیں  کہتے تھے کہ اسے اٹھادو(بلکہ خودسواری سے اتر کر اٹھاتے اورپھرسوارہوجاتے)[69]

شاہ حبشہ کی غائبانہ نمازجنازہ :

اسی سال اصحمہ شاہ حبشہ کاانتقال ہوا،

عطاء بن جابر: لما مات النجاشیّ قال النبی صلّى اللَّه علیه وسلم:قد مات الیوم عبد صالح یقال له أصحمة، فقوموا فصلّوا على أصحمة، فصفّنا خلفه.

عطابن جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجس دن شاہ حبشہ نجاشی کی موت واقع ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج ایک صالح شخص کی موت واقع ہوئی ہے جسے اصحمہ کہاجاتاتھاصفیں  بناؤاوراس کی نمازجنازہ پڑھوچنانچہ ہم نے صفیں  بنائیں  اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس کی نمازجنازہ پڑھی۔[70]

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ مَاتَ النَّجَاشِیُّ:مَاتَ الیَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَى أَخِیكُمْ أَصْحَمَةَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس روزنجاشی شاہ حبشہ کی وفات ہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج ایک مردصالح اس دنیاسے چلاگیااٹھواوراپنے بھائی اصحمہ کی نمازجنازہ پڑھ لو۔[71]

أبی هریرة: أصبحنا ذات یوم عند رسول الله صلى الله علیه وسلم، فأتاه جبریل، فقال: إن أخاك أصحمة النجاشی، قد توفی، فصلوا علیه، فوثب ووثبنا معه حتى جاء المصلى، فصف بهم

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع تھے کہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اورانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی کہ تمہارابھائی شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی فوت ہوگیاہے اس کی نمازجنازہ پڑھو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو ان کی دیکھا دیکھی میں  ہم بھی فوراً کھڑے ہوگئے یہاں  تک کہ جنازہ گاہ تک پہنچےاوراس کے لیے نمازجنازہ پڑھی۔[72]

قاله الحافظ، وصلى علیه وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ

حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازجنازہ پڑھی اور چارتکبیریں  کہیں  ۔[73]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِیَ فِی الْیَوْمِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ، فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى، وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس روزنجاشی کاانتقال ہوا اسی روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فوت ہونے کی خبردی ہم اس کی نمازجنازہ کے لیے گئے اوراس کی نمازجنازہ پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ پرچارتکبیرات کہیں  ۔[74]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَفَّ بِهِمْ بِالْمُصَلَّى فَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ گاہ میں  اس کی صف بندی کرائی اور نمازجنازہ کی چارتکبیرات کہیں  ۔[75]

یعنی جب کسی صاحب علم وفضل یااہم شخصیت کی دوسرے شہریاملک میں  وفات ہوجائے تواس کی نمازجنازہ غائبانہ پڑھنی جائزہے۔

ام کلثوم رضی اللہ عنہا کاانتقال :

اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ام کلثوم رضی اللہ عنہا زوجہ عثمان رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوااس سے آپ کوبڑاصدمہ پہنچا،

فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَ عِنْدِیَ ثَالِثَةٌ زَوَّجْتُهَا عُثْمَانَ

ان کی وفات کے بعدآپ نے فرمایا تھا عثمان رضی اللہ عنہ ! اگرمیرے پاس تیسری لڑکی ہوتی تومیں  اس کوبھی تجھ سے بیاہ دیتا۔[76]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى القَبْرِ، فَرَأَیْتُ عَیْنَیْهِ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ:هَلْ فِیكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَةَ؟ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَنَا، قَالَ:فَانْزِلْ فِی قَبْرِهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (ام کلثوم رضی اللہ عنہا )کے جنازہ میں  حاضرتھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پربیٹھے ہوئے تھے انہوں  نے کہا کہ میں  نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسورواں  تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  کوئی ایسا شخص ہے جس نے آج رات اپنی بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو؟ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  ہوں  ،آپ نے فرمایااس کی قبر میں  اترو،اوروہ ان کی قبرمیں  اترے اوران کودفن کیا۔[77]

ایک اعرابی کاقبول اسلام

عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی عَامِرٍ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَأَلِجُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: اخْرُجِی إِلَیْهِ فَإِنَّهُ لَا یُحْسِنُ الِاسْتِئْذَانَ، فَقُولِی لَهُ: فَلْیَقُلِ السَّلَامُ عَلَیْكُمْ آَدْخُلُ؟ قَالَ: فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ ذَلِكَ فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ، آَدْخُلُ؟ قَالَ: فَأَذِنَ، أَوْ قَالَ: فَدَخَلْتُ،

ربعی بن حراش قبیلہ بنی عامرکے کسی آدمی سے روایت کرتے ہیں  کہ انہوں  نے آپ کی خدمت میں  حاضری کے لئے اجازت طلب کی(مگر السلام علیکم کہنے کے بجائے کہا) کیا میں  اندرگھس آؤں  ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باندی سے کہااس شخص کواجازت حاصل کرنے کاسلیقہ نہیں  آتا،جااوراسے بتاکہ پہلے السلام علیکم کہنا چاہیے،اس کے بعدیوں  کہناچاہیے کیامیں  حاضر ہو سکتا ہوں  ؟ وہ شخص کہتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات میں  نے بھی سن لی تواسی کے مطابق میں  نے عرض کیاالسلام علیکم،کیامیں  حاضرہوسکتاہوں  ،وہ کہتے ہیں  کہ ان کواجازت مل گئی ،یایہ کہ میں  اندرچلاآیا(راوی کوشک ہے)

فَقُلْتُ: بِمَ أَتَیْتَنَا بِهِ؟ قَالَ: لَمْ آتِكُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ، أَتَیْتُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ ـ قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ ـ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنْ تَدَعُوا اللَّاتَ وَالْعُزَّى، وَأَنْ تُصَلُّوا بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، وَأَنْ تَصُومُوا مِنَ السَّنَةِ شَهْرًا، وَأَنْ تَحُجُّوا الْبَیْتَ، وَأَنْ تَأْخُذُوا مِنْ أَمْوَالٍ أَغْنِیَائِكُمْ فَتَرُدُّوهَا عَلَى فُقَرَائِكُمْ ،

اورپوچھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کیادین لے کرآئے ہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لایا ہوں  سب بہترہی بہتر ہے ۔ یہ لے کرآیاہوں  کہ ایک اللہ کی عبادت کروجس کاکوئی شریک نہیں  (شعبہ رحمہ اللہ راوی حدیث کہتے ہیں  کہ مجھے خیال ہے کہ وحدہ لاشریک لہ کے الفاظ آپ نے فرمائے تھے،اوریہ کہ لات وعزی بتوں  کویک لخت ترک کردو،اورشب وروزمیں  پانچ نمازیں  اداکرو،سال بھرمیں  ایک مہینہ کے روزے رکھو،بیت اللہ کاحج کرواوراپنے مالداروں  سے روپیہ لے کراپنے غریبوں  میں  تقسیم کرو،

قَالَ: فَقَالَ: هَلْ بَقِیَ مِنَ الْعِلْمِ شَیْءٌ لَا تَعْلَمُهُ؟ قَالَ: قَدْ عَلِمَ اللَّهُ خَیْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَا یَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، الْخَمْسَ {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}، [78]

اس نے پوچھااچھاکوئی علم ایساباقی ہے جوآپ نہ جانتے ہوں  ؟َّآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی توبہت عمدہ عمدہ سی باتیں  باقی ہیں  جواللہ تعالیٰ نے مجھے بتائی ہیں  ،ہاں  علم کاایک حصہ ایسابھی ہے جوسوائے اللہ کے اورکوئی نہیں  جانتااس کے بعدیہ آیت تلاوت فرمائی’’قیامت کاعلم صرف اللہ کوہے،وہی بارش بھیجتاہے،وہی جانتاہے کہ ماؤں  کے رحم میں  کیاہے،یہ کوئی نہیں  جانتاکہ کل اسے کیاکرناہے اورنہ یہ جانتاہے کہ وہ کس ملک اورکس بستی میں  مرے گا،اللہ ہی جاننے والاخبردارہے۔‘‘[79]

اجازت حاصل کرنے کے لیے صرف السلام علیکم کہناہی کافی نہیں  بلکہ اس کے ساتھ پوچھناچاہیے کہ کیامیں  اندرداخل ہوسکتاہوں  ؟

 

[1] دلائل النبوة للبیہقی۲۹۳؍۵

[2] مغازی واقدی۱۰۷۷؍۳

[3] صحیح مسلم بَابُ اسْتِحْبَابِ بَعْثِ الْهَدْیِ إِلَى الْحَرَمِ لِمَنْ لَا یُرِیدُ الذَّهَابَ بِنَفْسِهِ وَاسْتِحْبَابِ تَقْلِیدِهِ وَفَتْلِ الْقَلَائِدِ وَأَنَّ بَاعِثَهُ لَا یَصِیرُ مُحْرِمًا وَلَا یَحْرُمُ عَلَیْهِ شَیْءٌ بِذَلِكَ۳۱۹۸

[4] عیون الاثر۲۸۴؍۲

[5]النساء: 176

[6] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة براة ابُ قَوْلِهِ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ مِنَ المُشْرِكِینَ ۴۶۵۴

[7] البقرة۲۸۱

[8] الانفال ۵۸

[9] جامع ترمذی ابواب الحج بَابُ مَا جَاءَ فِی یَوْمِ الحَجِّ الأَكْبَرِ۹۵۷

[10] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة براة بَابُ قَوْلِهِ فَسِیحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ وَأَنَّ اللهَ مُخْزِی الكَافِرِینَ۴۶۵۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ لَا یَحُجُّ الْبَیْتَ مُشْرِكٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَبَیَانُ یَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ۳۲۸۷

[11] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ۲۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى یَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ۱۲۹

[12] فتح الباری ۷۷؍۱

[13] فتح الباری ۷۷؍۱

[14] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ ۱۴۰۰،صحیح مسلم کتاب بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى یَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ۱۲۴

[15] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۶۱؍۶

[16] الانفال۳۰

[17] الممتحنة۱

[18] بنی اسرائیل۷۶

[19] آل عمران۱۴۲

[20] آل عمران ۱۷۹

[21] العنکبوت۲،۳

[22] تفسیرطبری۱۶۵؍۱۴

[23] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ التَّلْبِیَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا۲۸۱۵

[24] الانفال۳۴

[25] جامع ترمذی کتاب یفسیر بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ۳۰۹۳،مسنداحمد۱۱۷۲۵،مستدرک حاکم۷۷۰

[26] تفسیرعبدالرزاق۴۴۲؍۲

[27] التوبة: 19

[28] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ تَعَالَى۴۸۷۱،تفسیرطبری۱۶۹؍۱۴،تفسیرعبدالرزاق۱۳۸؍۲

[29] تفسیرطبری۱۷۰؍۱۴

[30] تفسیر طبری۱۷۲؍۱۴

[31] المجادلة۲۲

[32]، المجادلة: 22

[33] السنن الكبرى للبیہقی۱۷۸۳۵

[34] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذر وبَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۶۳۲

[35] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِیمَانِ۱۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ، وَالْوَالِدِ والنَّاسِ أجْمَعِینَ، وَإِطْلَاقِ عَدَمِ الْإِیمَانِ عَلَى مَنْ لمْ یُحِبَّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةَ۱۶۸،سنن الدارمی ۲۷۸۳،مسنداحمد۱۲۸۱۴

[36] آل عمران ۳۱

[37] اصول الدین عندالامام ابی حنیفہ ص:۶

[38] سنن ابوداود کتاب البیوع بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ العِینَةِ۳۴۶۲

[39]التوبة: 25

[40] تفسیرطبری۲۷۰؍۱۴،الدر المنثور۱۵۸؍۴

[41] الخصائص الکبری ۴۴۷؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۱۴۶؍۵،امتاع الاسماع۳۳۲؍۳،زادالمعاد ۴۱۴؍۳

[42]مغازی واقدی۹۰۶؍۳ ، دلائل النبوة للبیہقی ۱۴۴؍۵، امتاع الاسماع ۳۳۲؍۳،الخصائص الکبری ۴۴۶؍۱،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۳۲۸؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۵۲۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۳۱؍۳

[43] صحیح بخاری كِتَابُ الغُسْلِ بَابُ عَرَقِ الجُنُبِ، وَأَنَّ المُسْلِمَ لاَ یَنْجُسُ۲۸۳

[44] تفسیرطبری۱۹۷؍۱۴

[45] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ۵۶۶۱،جامع ترمذی ابواب السیر بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْلِیمِ عَلَى أَهْلِ الكِتَابِ ۱۶۰۲

[46] تفسیرابن کثیر۱۳۳؍۴

[47] تفسیرطبری۲۰۷؍۱۴

[48]التوبة: 31

[49] المعجم الکبیر للطبرانی ۲۱۸

[50] تفسیرابن کثیر۱۳۵؍۴

[51] أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن ۳۲۸؍۷

[52] صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ ۷۲۵۸،سنن ابوداودکتاب الفتن والملاحم بَابُ ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا۴۲۵۲،جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی سُؤَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا فِی أُمَّتِهِ ۲۱۷۶،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ مَا یَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ ۳۹۵۲

[53] مسند احمد ۱۶۹۵۷

[54] مسنداحمد۲۳۸۱۴

[55] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۷۳۲۰،وکتاب احادیث الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۴۵۶،صحیح مسلم کتاب العلم بَابُ اتِّبَاعِ سُنَنِ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى ۶۸۸۱،مسند احمد ۱۱۸۰۰

[56] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۷۳۱۹

[57] التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة۱۲۲۹؍۱،طالب العلم بین أمانة التحمل ومسؤولیة الأداء۲۷؍۱،سهام الإسلام۱۶۲؍۱، إغاثة اللهفان فی مصاید الشیطان۵۹۳؍۱

[58] تفسیرابن کثیر۱۳۹؍۴

[59] مسنداحمد۲۳۱۰۱،المعجم الاوسط ۲۲۷۴،تفسیرابن کثیر۱۳۹؍۴

[60] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ۲۲۹۰

[61] صحیح ابن حبان۳۲۵۷

[62] مصنف ابن ابی شیبة ۲۹۳۵۸، مسنداحمد۱۷۱۱۴، صحیح ابن حبان۹۳۵،الدعاء للطبرانی ۶۳۱،المعجم الکبیرللطبرانی۷۱۳۵

[63] الحج۲۵

[64] ابن ہشام۵۴۶؍۲،الروض الانف ۴۲۵؍۷،دلائل النبوة للبیہقی۲۹۳؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۶۹؍۴

[65]صحیح بخاری کتاب الجزیة والموادعة بَابٌ كَیْفَ یُنْبَذُ إِلَى أَهْلِ العَهْدِ ۳۱۷۷ ، صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ لَا یَحُجُّ الْبَیْتَ مُشْرِكٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَبَیَانُ یَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ۳۲۸۷

[66] شرح الزرقانی علی المواھب۶۲؍۵

[67] صحیح بخاری کتاب الاضاحی بَابُ مَا یُؤْكَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْهَا۵۵۶۹

[68] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ تَحْرِیمِ الرَّبِیبَةِ، وَأُخْتِ الْمَرْأَةِ۳۵۸۸

[69] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة باب کراہتہ المسلتہ للناس ۲۴۰۳

[70] الاصابة فی تمیزالصحابة۳۴۷؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۵؍۵

[71] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ مَوْتِ النَّجَاشِیِّ۳۸۷۷

[72] شرح الزرقانی على المواهب۱۲۷؍۱۰

[73] شرح الزرقانی علی المواھب۱۲۶؍۱۰

[74] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ۲۲۰۴،صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الرَّجُلِ یَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَیِّتِ بِنَفْسِهِ۱۲۴۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْمُسْلِمِ یَمُوتُ فِی بِلَادِ الشِّرْكِ ۳۲۰۴،دلائل النبوة للبیہقی۴۱۰؍۴،البدایة والنہایة ۹۸؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۸۹؍۱۱

[75] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ۱۳۲۸

[76] ابن سعد ۴۱؍۳

[77] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ۱۲۸۵، وبَابُ مَنْ یَدْخُلُ قَبْرَ المَرْأَةِ ۱۳۴۲

[78]لقمان: 34

[79] سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ كَیْفَ الِاسْتِئْذَانُ ۵۱۷۷، مسنداحمد ۲۳۱۲۷

Related Articles