ہجرت نبوی کا دوسرا سال

جنگ سے غائب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کومال غنیمت میں  حصہ

اورمیدان جنگ میں  شامل صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے علاوہ آٹھ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جن میں  تین مہاجرین اورپانچ انصارتھے ۔

مہاجرین میں  سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنی صاحبزادی اوران کی زوجہ رقیہ  رضی اللہ عنہا  کی تیمارداری اوردوسرے کاموں کی غرض سے رہنے دیاتھاچنانچہ سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  ان کی خبرگیری کرتے رہے حتیٰ کہ وہ اسی مرض میں  انتقال فرما گئیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے بارے میں  فرمایاعثمان اللہ اوراس کے رسول کے کام میں  ہے۔ دوسرے طلحہ بن عبیداللہ اورسعیدبن زید  رضی اللہ عنہ  تھے ،ان دونوں  کوآپ نے قریش کے قافلہ کی خبرلانے کے لئے بھیجاتھاچنانچہ وہ شام کے راستے پرچلے گئے اورجب واپس مدینہ پہنچے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بدرکی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ابوامامہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ  انصاری بدرکی طرف روانگی کے لئے تیارہوکرآئے تھے لیکن ان کی والدہ بیمارتھیں  اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اپنی والدہ کے پاس ٹھیرنے کاحکم دیاتھا۔

پانچ انصاریوں  میں  ابولبابہ بن عبدالمنذراوسی  رضی اللہ عنہ  تھے انہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ میں  اپناجانشین بنایاتھا۔

عاصم بن عدی عجلانی  رضی اللہ عنہ  انہیں  اہل عالیہ (مدینہ کے مضافاتی دیہات)پراپناجانشین مقررفرمایا۔

حارث بن حاطب عمری انہیں  اثناء سفرمیں  مقام روحاء سے بنوعمروبن عوف کی طرف واپس فرمادیا کیونکہ آپ کوان کی طرف سے کچھ مشکوک خبرمعلوم ہوئی تھی ۔

حارث بن صمہ اورخورت بن جبیرجوراہ میں  کچھ مضمحل اورپست ہوگئے تھے ۔

ثُمَّ بعرقِ الظُّبْیَةِ قَتَلَ عُقْبَةَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ، فَقَالَ حِینَ قَتَلَهُ: مَنْ لِلصَّبِیَّةِ یَا مُحَمَّد؟قَالَ:النَّارُ

جب آپ مقام بعرقِ الظُّبْیَةِ پرپہنچے توایک جنگی مجرم عقبہ بن ابی معیط کے قتل کاحکم فرمایاوہ اپنے بچوں  کاحوالہ دے کر کہنے لگااےمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم  )بچوں  کے لئے کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآگ۔[1]

فَقَتَلَهُ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ الْأَنْصَارِیُّ،وَیُقَالُ قَتَلَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

حکم کی تعمیل میں  اسی جگہ عاصم بن ثابت  رضی اللہ عنہ  انصاری یاسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب نے اس کی گردن اڑادی۔[2]

یہ دونوں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے شدیدترین دشمنوں  میں  سے تھے،انہوں  نے اپنے قول وفعل سے آپ کی تذلیل وتوہین،سب وشتم اور استہزاوتمسخر اورہاتھوں  وزبان سے ایذارسانی میں  کوئی دقیقہ نہ اٹھارکھاتھااس لئے تمام قیدیوں  میں  صرف ان دونوں  کی گردن ماردینے کاحکم فرمایا۔

ثُمَّ ارْتَحَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إذَا كَانَ بِالرَّوْحَاءِ لَقِیَهُ الْمُسْلِمُونَ یُهَنِّئُونَهُ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ لَهُمْ سَلَمَةُ بْنُ سَلَامَةَ مَا الَّذِی تهنؤننا بِهِ؟ فو الله إنْ لَقِینَاإلَّا عَجَائِزَ صُلْعًا كَالْبُدْنِ الْمُعَقَّلَةِ، فَنَحَرْنَاهَا، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: أَیْ ابْنَ أَخِی، أُولَئِكَ الْمَلَأُ. لْأَشْرَافُ وَالرُّؤَسَاءُ

پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  روانہ ہوئے اورجب آپ مقام رَّوْحَاءِ پرپہنچے تووہاں  آپ کوکچھ مسلمان ملے جنہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اوراصحاب  رضی اللہ عنہم کوفتح کی مبارک باددی،اس پر سلمہ بن سلامہ  رضی اللہ عنہ  نے جونوجوان تھے ان لوگوں  سے کہاکہ ہمیں  کس چیزکی مبارک باددیتے ہواللہ کی قسم ! ہمیں  بڑھوں  سے واسطہ پڑاہم نے انہیں  رسی میں  بندھے ہوئے اونٹوں  کی طرح ذبح کرڈالا،ان کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرائے اورفرمایایہی تومکہ مکرمہ کے اشراف وسادات تھے ۔[3]

ایک روایت ہے کہ یہ سن کر کاچہرہ سرخ ہوگیا گویاکہ انارکے دانے چھوڑ دیئے گئے ہیں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا

لا تَقُل كَذا أولئك الملأ، لو رأیتهم لهبتهم

ایسانہ کہو(یہ تواللہ کی طرف سے تھاکہ اس نے تمہیں  اس طرح کادکھایاتاکہ تمہاری ہمتیں  بڑھ جائیں  ورنہ) یہ سرداران قریش وہ تھے کہ اگرتم انہیں  ان کی جگہ دیکھ لوتودہشت زدہ ہوجاؤ۔[4]

عدی بن حاتم فرماتے ہیں  کہ ایک مدت کے بعدمیں  مکہ مکرمہ گیااوروہاں  بیت اللہ میں  قریش کوبیٹھادیکھاتوواللہ! ان کی ہیبت کے مارے میں  انہیں  سلام بھی نہ کرسکااس وقت مجھے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان یادآگیا۔

فَلَمّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أُسَیْدُ: الْحَمْدُ لِلّهِ الّذِی سَرّك وَأَظْهَرَك عَلَى عَدُوّك! وَاَلّذِی بَعَثَك بِالْحَقّ، مَا تَخَلّفْت عَنْك رَغْبَةً بِنَفْسِی عَنْ نَفْسِك، وَلَا ظَنَنْت أَنّك تُلَاقِی عَدُوّا، وَلَا ظَنَنْت إلّا أَنّهَا الْعِیرُ ، فَقَالَ له رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْت! وَكَانَتْ أَوّلَ غَزْوَةٍ أَعَزّ اللهُ فِیهَا الْإِسْلَامَ، وَأَذَلّ فِیهَا أَهْلَ الشّرْكِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  واپس مدینہ منورہ تشریف لے آےت تو اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کاشکرہے جس نے آپ کو شاندارکامیابی سے ہمکنارکیااورآپ کی آنکھوں  کوٹھنڈک نصیب فرمائی ،اللہ کی قسم! جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہےمیں  اس لئے جنگ بدرسے پیچھے نہیں  رہاتھاکہ آپ کاٹکراوایک طاقتواردشمن سے ہوگابلکہ اس لئے پیچھے رہاکہ بس قافلہ کاہی معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایاتم نے سچ کہا!یہ پہلاغزوہ ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے اسلام کوعزت بخشی ہے اور اہل شرک کوذلیل ورسواکیاگیاہے۔[5]

الغرض منزل بہ منزل فاصلہ طے فرماتے ہوئے آپ اسیران کے ہمراہ مدینہ منورہ میں  مظفرومنصورداخل ہوئے اورہرطرف مسلمانوں  کا رعب چھا گیا اور دشمن ڈرنے لگے۔

مال غنیمت کے مسائل

جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں  فرمادیا

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰكِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۔۔۔ ۝۴۱ [6]

ترجمہ:اور تمہیں  معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں  حصہ اللہ اور اس کے رسُول صلی اللہ علیہ وسلم  اور رشتہ داروں  اور یتیموں  اور مسکینوں  اور مسافروں  کے لیے ہے ۔

یقول بعض العلماء: تقسم الغنیمة على ستة أسهم، منها سهم الكعبة

بعض اہل علم کاکہناہے کہ مال غنیمت چھ حصوں  میں  تقسیم کیاجائے گااورچھٹاحصہ کعبہ کاہوگالیکن برحق بات وہی ہے جوپیچھے بیان کردی گئی ہے۔[7]

مال غنیمت کاخمس تقسیم کرنے میں  فقہا کا اختلاف ہے

إِنَّهُ یُقَسَّمُ الْخُمُسُ عَلَى ثَلَاثَةٍ: الْیَتَامَى، وَالْمَسَاكِینُ، وَابْنُ السَّبِیلِ، وَقَدِ ارْتَفَعَ حُكْمُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ كَمَا ارْتَفَعَ حُكْمُ سَهْمِهِ

احناف کے بقول یہ خمس تین حصوں  میں  تقسیم کیاجائے گاپہلایتیموں  کے لئے ، دوسرا مساکین کے لئے اورتیسرامسافروں  کے لئےاورآپ کے قرابت دارآپ کی زندگی میں  نصرت وحمایت کی وجہ سے حصہ دارہونے کے مستحق تھے ،

إِنَّ الْخُمُسَ یُقَسَّمُ عَلَى خَمْسَةٍ، وَإِنَّ سَهْمَ اللهِ، وَسَهْمَ رَسُولِهِ وَاحِدٌ یُصْرَفُ فِی مَصَالِحِ الْمُؤْمِنِینَ، وَالْأَرْبَعَةُ الْأَخْمَاسُ عَلَى الْأَرْبَعَةِ الْأَصْنَافِ الْمَذْكُورَةِ فِی الْآیَةِ

امام شافعی رحمہ اللہ  کا قو ل ہے  مال غنیمت پانچ حصوں  میں  تقسیم کیاجائے گاپہلاجہاں  مصلحت ہو(یعنی اللہ اوررسول کاحصہ)باقی چار حصے آیت میں  مذکور ہیں ۔

إِنَّهُ مَوْكُولٌ إِلَى نَظَرِ الْإِمَامِ وَاجْتِهَادِهِ، فَیَأْخُذُ مِنْهُ بِغَیْرِ تَقْدِیرٍ

امام مالک رحمہ اللہ  کاخیال ہےتقسیم کامعاملہ کلی طورپرحاکم کی رائے پرموقوف ہے جیسے وہ مناسب سمجھے ویسے ہی اس کا استعمال کرے۔

وَبِهِ قَالَ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ وَبِهِ عَمِلُوا

راجح یہ ہے کہ امام قرطبی  رحمہ اللہ  نے امام مالک  رحمہ اللہ  کی رائے کی موافقت کرتے ہوئے فرمایاچاروں  خلفاء راشدین کا اسی پر عمل تھا اور ادلہ

بھی اس قول کی تائید میں  موجود ہیں [8]

xسوارمال غنیمت سے تین حصے اورپیدل ایک حصہ لے گا۔

 أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، أَسْهَمَ یَوْمَ خَیْبَرَ لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ: لِلْفَرَسِ سَهْمَانِ، وَلِلرَّجُلِ سَهْمٌ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے روزگھڑسوارکوتین حصے دیے،ایک دوحصے گھوڑے کے اورایک حصہ پیدل کودیا۔[9]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَهْمَیْنِ وَلِصَاحِبِهِ سَهْمًا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل مردمجاہدکے لئے ایک حصہ اورگھڑسوارکے لئے تین حصے مقررفرمائے،دوحصے اس کے گھوڑے کے اورایک حصہ اس کااپنا۔[10]

عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ،امام حسن رحمہ اللہ ،امام ابن سیرین رحمہ اللہ ،امام حسین بن ثابت رحمہ اللہ ،امام مالک  رحمہ اللہ ،اہل مدینہ امام ثوری رحمہ اللہ ،اہل عراق امام لیث بن سعد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ ،امام ابوثور رحمہ اللہ ،امام ابویوسف رحمہ اللہ  اورامام محمدبن حسن ان سب کایہی موقف ہے۔

امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  کاموقف ہے کہ گھڑسوارکودوحصے اورپیدل کوایک حصہ ملے گا،ان کی دلیل مجمع بن جاریہ  رضی اللہ عنہ  کی یہ روایت ہے

عَنْ عَمِّهِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَةَ الْأَنْصَارِیِّ،فَقُسِّمَتْ خَیْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَیْبِیَةِ، فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ثَمَانِیَةَ عَشَرَ سَهْمًا، وَكَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ فِیهِمْ ثَلَاثُ مِائَةِ فَارِسٍ فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَیْنِ،وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے غنائم اہل حدیبیہ پرتقسیم فرمائے،آپ نے ان کے اٹھارہ حصے بنائے اورلشکروالوں  کی تعدادپندرہ سوتھی جن میں  تین سوگھوڑ سوار تھے،پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑسوارکودوحصے دیے اورپیدل کوایک حصہ عنایت فرمایا۔[11]

وَأَرَى الْوَهْمَ فِی حَدِیثِ مُجَمِّعٍ أَنَّهُ قَالَ:ثَلَاثَ مِائَةِ فَارِسٍ . وَكَانُوا مِائَتَیْ فَارِسٍ

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجمع رضی اللہ عنہ  کی روایت میں  وہم ہے کہ یہ گھوڑے سوارتین سوبتاتے ہیں  حالانکہ وہ دوسوتھے۔[12]

وهذا الحدیث فی إسناده ضعف

شیخ محمدصبحی حسن حلاق کہتے ہیں اس روایت کی اسنادضعیف ہے۔[13]

حَدِیثُ أَبِی مُعَاوِیَةَ أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَیْهِ

اورابومعاویہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے اوراسی پرعمل ہے۔

أَنَّهُ یُسْهَمُ لِكُلِّ فَرَسٍ سَهْمَانِ بَالِغًا مَا بلغت ولصاحبه سَهْما أَیْ غَیْرَ سَهْمَیِ الْفَرَسِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس حدیث میں  (ان کے لئے)کوئی حجت نہیں  ہے کیونکہ حدیث کامعنی یہ ہے کہ گھڑسوارکواپنے گھوڑے کی وجہ سے دوحصے ملے اوریہ حصے اس کے اپنے مختص حصے کے علاوہ ہیں ۔[14]

وحدیث بن عُمَرَ حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ) وَأَخْرَجَهُ الشَّیْخَانِ وَلَهُ أَلْفَاظٌ فِی الصَّحِیحَیْنِ وَغَیْرِهِ قَوْلُهُ (قَالُوا لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ سَهْمٌ لَهُ وَسَهْمَانِ لِفَرَسِهِ

صحیحین میں  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کی صحیح حدیث میں  ثابت ہونے والاموقف ہی زیادہ راجح ہے۔[15]

إذَا حَضَرَ بِفَرَسَیْنِ فَقَالَ الْجُمْهُورُ لَا یُسْهَمُ إلَّا لِفَرَسٍ وَاحِدٍ وَلَا یُسْهَمُ لَهَا إلَّا إذَا حَضَرَ بِهَا الْقِتَالَ

اگرایک مجاہدگھڑسواردوگھوڑوں  کے ساتھ آئے توجمہوراہل علم کے نزدیک اسے ایک گھوڑے کاہی حصہ دیاجائے گااوروہ بھی اس وقت جب وہ گھوڑالڑائی میں  اس کے پاس موجودہو۔[16]

x میدان جنگ میں طاقت ور اورکمزور،لڑنے والااورنہ لڑنے والاسب مال غنیمت میں  برابرہوں  گے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ: مَنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَلَهُ مِنَ النَّفَلِ كَذَا وَكَذَا. قَالَ: فَتَقَدَّمَ الْفِتْیَانُ وَلَزِمَ الْمَشْیَخَةُ الرَّایَاتِ فَلَمْ یَبْرَحُوهَا، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ قَالَ الْمَشْیَخَةُ: كُنَّا رِدْءًا لَكُمْ لَوِ انْهَزَمْتُمْ لَفِئْتُمْ إِلَیْنَا، فَلَا تَذْهَبُوا بِالْمَغْنَمِ وَنَبْقَى، فَأَبَى الْفِتْیَانُ وَقَالُوا: جَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ {یَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ}

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں غزوہ بدرکے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوایسی ایسی کارگزاریاں  بتائے گااسے ایساایساانعام ملے گا،اب نوجوان تواپنی کارگزاریاں  بتانے میں  لگ گئے اوربوڑھوں  نے مورچے اورجھنڈے سنبھال لیے،اورجب مال غنیمت آیاتوجس کے لئے جووعدہ کیاگیاتھاوہ لینے کے لئے آیا،بوڑھوں  نے کہاتم کوہم پرترجیح نہیں  ہو سکتی ہم تمہارے پشت پناہ بنے ہوئے تھے اگرتمہیں  ہزیمت وشکست ہوتی توہمارے پاس ہی تمہیں  پناہ ملتی،ادھرنوجوانوں  نے اس کاانکارکرتے ہوئے کہاکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے مقررفرمایاہے توآیت’’تم سے انفال کے بارے میں  پوچھتے ہیں ۔ نازل ہوئی۔[17]

فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّوَاءِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب (خواہ کسی نے لڑائی کی ہویانہ کی ہو )کے درمیان مال غنیمت برابرتقسیم فرمادیا۔[18]

فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَوَاقٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے بھی اسی معنی میں  حدیث مروی ہے اوراس میں  یہ لفظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کومسلمانوں  کے درمیان برابربرابرتقسیم فرمادیا۔[19]

عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللهِ الرَّجُلُ یَكُونُ حَامِیَةَ الْقَوْمِ، أَیَكُونُ سَهْمُهُ وَسَهْمُ غَیْرِهِ سَوَاءً؟قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ یَا ابْنَ أُمِّ سَعْدٍ، وَهَلْ تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ إِلا بِضُعَفَائِكُمْ

سعدبن مالک  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ایساآدمی جواپنی قوم کی حفاظت کرنے والاہے ، اس کاحصہ اوراس کے علاوہ کسی اور کا حصہ برابرہوسکتاہے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیری ماں  تجھے گم پائے اے ام سعدکے بیٹے!تمہیں  صرف تمہارے کمزورلوگوں  کی وجہ سے ہی رزق دیاجاتاہے اورتمہاری مدد کی جاتی ہے[20]

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَى سَعْدٌ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ

مصعب بن سعد  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  کاخیال تھاکہ انہیں  باقی ساتھیوں  پرتفوق وامتیاز اور فضیلت وبرتری حاصل ہے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تمہارے کمزورافرادکی وجہ سے ہی تمہاری مددکی جاتی ہے اورتمہیں  رزق دیاجاتاہے۔[21]

أَبَا الدَّرْدَاءِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:ابْغُونِی الضُّعَفَاءَ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ

ابوالدردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ فرماتے تھے ، میرے لیے ضعفاء اور کمزورلوگوں  کوتلاش کروتم لوگ اپنے کمزورلوگوں  ہی کے ذریعے سے رزق دیے جاتے اورمددکیے جاتے ہو۔[22]

الْمُرَادَ مِنْ الْحَدِیثِ وَلَفْظُهَا: قَالَ نَبِیُّ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  إنَّمَا نَصْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِضُعَفَائِهَا؛ بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَاتِهِمْ وَإِخْلَاصِهِمْ

حدیث کامفہوم یوں  بیان کیاگیاہے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے کہ کمزورلوگ دعا و التجا میں  زیادہ پرخلوص ہوتے ہیں  اورعبادت میں  زیادہ خشوع وخضوع کرتے ہیں  کیونکہ ان کے دل دنیاوی آرائش وزیبائش کے تعلق سے خالی ہوتے ہیں ۔[23]

xحکمران کے لئے لشکرکے کچھ حصے کوزائدحصہ عطاکردینابھی جائزہے۔

حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:فَإِذَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی خَمْسِ مِائَةٍ فَأَعْطَانِی سَهْمَ الْفَارِسِ وَالرَّاجِلِ

سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ سو میں  سے مجھے سواراورپیدل دونوں  کاحصہ عطاکیااوران دونوں  کومیرے لئے جمع کردیا۔[24]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے غنائم میں  سےسعدبن ابی وقاص کو ایک تلواراضافی حصے کے طورپرعطاکی،

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:  فَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكَ سَأَلْتَنِی هَذَا السَّیْفَ، وَلَیْسَ هُوَ لِی وَلَا لَكَ، وَإِنَّ اللهَ قَدْ جَعَلَهُ لِی فَهُوَ لَكَ

سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے غزوہ بدرکے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سےفرمایاتونے مجھ سے یہ تلوارمانگی تھی حالانکہ یہ نہ میری ہے نہ تیری اور(اب)اللہ عزوجل نے اسے مجھے دے دیاہے سو(اب)یہ تیری ہے۔[25]

عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، نَفَّلَ فِی الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ بَعْدَ الْخُمُسِ، وَفِی الرَّجْعَةِ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ

حبیب بن مسلمہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،میں  پہلی مرتبہ سریہ میں  گیاتوآپ نے چوتھاحصہ زائدعطافرمایااوردوبارہ گیاتوتیسراحصہ دیا۔[26]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِیَّةً فِیهَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِیرَةً، فَكَانَتْ سِهَامُهُمْ اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا، أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِیرًا وَنُفِّلُوا بَعِیرًا بَعِیرًا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجدکی طرف ایک دستہ روانہ فرمایااس میں  میں  بھی موجودتھابہت سے اونٹ مال غنیمت میں  حاصل ہوئے ،ان میں  سے ہرایک کے حصے میں  بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ مال غنیمت کے طور پر آئے اورپھرانہیں  ایک ایک اونٹ زائددیاگیا۔[27]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ یَبْعَثُ مِنَ السَّرَایَا لِأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً، سِوَى قِسْمِ عَامَّةِ الجَیْشِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دستوں  کوخاص طورپرغنیمت کے حصے کے علاوہ کچھ مزیددیاکرتے تھے ،یہ عام فوجی کی تقسیم میں  شامل نہیں  ہوتا تھا۔[28]

xنفلی طورپرمال دینے سے پہلے خمس نکال لیناضروری ہے۔

عَنْ أَبِی الْجُوَیْرِیَةِ الْجَرْمِیِّ، قَالَ: أَصَبْتُ بِأَرْضِ  الرُّومِ جَرَّةً حَمْرَاءَ فِیهَا دَنَانِیرُ فِی إِمْرَةِ مُعَاوِیَةَ وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ یُقَالُ لَهُ: مَعْنُ بْنُ یَزِید ،فَأَتَیْتُهُ بِهَا فَقَسَمَهَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَعْطَانِی مِنْهَا مِثْلَ مَا أَعْطَى رَجُلًا مِنْهُمْ،ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ لَأَعْطَیْتُكَ،ثُمَّ أَخَذَ یَعْرِضُ عَلَیَّ مِنْ نَصِیبِهِ فَأَبَیْتُ عَلَیْهِ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْكَ

ابوجویریہ جرمی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ کے دورمیں  مجھے رومی علاقے میں  سرخ رنگ کاایک گھڑاملااس میں  دینارتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب میں  سے بنی سلیم کے ایک فردمعن بن یزید  رضی اللہ عنہ ہمارے امیرتھے،وہ گھڑامیں  ان کے پاس لے آیاپس انہوں  نے اسے مسلمانوں  میں  تقسیم کردیااورمجھے بھی اتناہی دیاجتناکہ دوسروں  میں  سے ہر ایک کودیا پھرکہااگرمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے نہ سناہوتاکہ اضافی انعام (نفل)خمس(پانچواں  حصہ) نکالنے کے بعدہی ہوسکتاہےتومیں  تمہیں  بھی دیتا ، پھروہ اپناحصہ مجھے دینے کی کوشش کرتے رہے مگرمیں  نے انکارکردیا۔[29]

عَنْ حَبِیبِ بْنِ  مَسْلَمَةَ الْفِهْرِیِّ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُنَفِّلُ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ

حبیب بن مسلمہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس نکالنے کے بعدثلث اضافی طورپردیاکرتے تھے۔[30]

xحاکم کے لئے ایک خصوصی حصہ بھی ہے لیکن اس کاعام حصہ لشکرکے عام آدمی کے برابرہے۔

یزیدبن عبداللہ فرماتے ہیں  کہ ہم مربد(بصرہ کاایک محلہ )میں  تھے کہ ایک آدمی چمڑے کاایک ٹکڑالیکرہمارے پاس آیاجب ہم نے اسے پڑھاتواس میں  لکھاتھا۔

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى بَنِی زُهَیْرِ بْنِ أُقَیْشٍ

إِنَّكُمْ إِنْ شَهِدْتُمْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَأَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ، وَآتَیْتُمُ ا لزَّكَاةَ، وَأَدَّیْتُمُ الْخُمُسَ مِنَ المَغْنَمِ، وَسَهْمَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  الصَّفِیَّ ، أَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللهِ وَرَسُولِهِ فَقُلْنَا: مَنْ كَتَبَ لَكَ هَذَا الْكِتَابَ، قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہ (مکتوب)محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنوزہیربن اقیش کی طرف ہے

اگرتم گواہی دیتے ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودبرحق نہیں  اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں  اورنمازقائم کرتے ہو،زکوٰة اداکرتے ہواورمال غنیمت سے خمس اورنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کاحصہ اورایک مخصوص حصہ اداکرتے ہوتوپھرتم اللہ اوراس کے رسول کی امان کے ساتھ ایمان رکھنے والے ہو،ہم نے پوچھایہ تمہیں  کس نے لکھ کردیاہے توانہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔[31]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:كَانَتْ صَفِیَّةُ مِنَ الصَّفِیِّ

ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا  صدیقہ فرماتی ہیں ام المومنین صفیہ  رضی اللہ عنہا  خاص حصے میں  سے تھیں ۔[32]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، جُمِعَ السَّبْیُ  یَعْنِی بِخَیْبَرَ  فَجَاءَ دِحْیَةُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَعْطِنِی جَارِیَةً مِنَ السَّبْیِ،قَالَ:اذْهَبْ فَخُذْ جَارِیَةً، فَأَخَذَ صَفِیَّةَ بِنْتَ حُیَیٍّ،فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ، أَعْطَیْتَ دِحْیَةَ، قَالَ یَعْقُوبُ: صَفِیَّةَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَةَ قُرَیْظَةَ، وَالنَّضِیرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ،قَالَ:ادْعُوهُ بِهَافَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:خُذْ جَارِیَةً مِنَ السَّبْیِ غَیْرَهَا وَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب خیبرکی قیدی عورتیں  جمع کی گئیں  تودحیہ کلبی  رضی اللہ عنہ  تشریف لائے اورکہنے لگے اے اللہ کے رسول !مجھے قیدی عورتوں  میں  سے کوئی لونڈی عطافرمادیجئے  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤکوئی ایک لونڈی لے لوتوانہوں  نے صفیہ بنت حیی کوچن لیا،اس پرایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا اے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے صفیہ بنت حیی کودحیہ کے حوالے کردیاہے،یعقوب نے بیان کیاوہ بنونضیراوربنوقریظہ (یہودی قبیلوں )کی سردارہے(سردارکی بیٹی ہے) حالانکہ وہ توآپ کے علاوہ کسی کے لئے زیبا نہیں  ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے بلاؤ،پھرجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (صفیہ بنت حیی)کی طرف دیکھاتودحیہ  رضی اللہ عنہ  سے کہاکہ جاؤقیدیوں  میں  سے اس کے علاوہ کوئی اورلونڈی لے لو،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ  رضی اللہ عنہا  کو آزاد کرکے ان سے شادی کرلی۔[33]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَقَعَ فِی سَهْمِ دِحْیَةَ جَارِیَةٌ جَمِیلَةٌ، فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَیْمٍ تَصْنَعُهَا، وَتُهَیِّئُهَا

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدحیہ کلبی کے حصے میں  ایک بہت خوبصورت لونڈی آئی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو(صفیہ  رضی اللہ عنہا  کودحیہ  رضی اللہ عنہ  سے) سات غلام دے کر کے خرید لیا پھر اسے ام سلیم کی طرف بھیجا کہ وہ اسے بنا سنوار کر تیار کردیں [34]

وَالْأَحَادِیثُ الْمَذْكُورَةُ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ لِلْإِمَامِ أَنْ یَخْتَصَّ مِنْ الْغَنِیمَةِ بِشَیْءٍ لَا یُشَارِكُهُ فِیهِ غَیْرُهُ

امام شوکانی  رحمہ اللہ  کہتے ہیں  یہ احادیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ امام کے لئے غنیمت سے کوئی چیزخاص کرلیناکہ جس میں  کوئی اورشریک نہ ہوجائزہے۔[35]

xغنائم کی تقسیم کے وقت حاضرشخص کوحاکم ویسے ہی کچھ عطاکرسکتاہے۔

عَنْ یَزِیدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِیُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُهُ عَنِ النِّسَاءِ هَلْ كُنَّ یَشْهَدْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟وَهَلْ كَانَ یَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ قَالَ: فَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ:قَدْ كُنَّ یَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا أَنْ یُضْرَبَ لَهُنَّ بِسَهْمٍ فَلَا، وَقَدْ كَانَ یُرْضَخُ لَهُنَّ

یزیدبن ہرمزنے بیان کیانجدہ حروری نے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کولکھااورپوچھاکہ کیاعورتیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جہادمیں  جایاکرتی تھیں ؟اورکیاآپ انہیں  غنیمت میں  سے کوئی حصہ عنایت فرماتے تھے؟ یزید بن ہرمزکہتے ہیں  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کاجواب نجدہ کی طرف میں  نے تحریرکیاتھاکہ عورتیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ غزوہ میں  شریک ہوتی تھیں  اورزخمیوں  کی دواکرتی تھیں ،یہ کہ انہیں  غنیمت میں  کوئی حصہ دیاجائے یہ نہیں  ہوتاتھاتاہم انہیں ( غنیمت کے مال سے) عطیہ وانعام ضرور دیا جاتا تھا۔ [36]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِیُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُهُ، عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ یَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ یُقْسَمُ لَهُمَا؟وَإِنَّهُ لَیْسَ لَهُمَا شَیْءٌ إِلَّا أَنْ یُحْذَیَا

یزیدبن ہرمزنے بیان کیانجدہ حروری نے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کولکھااورپوچھاکہ کیاعورتوں  اورغلام کے لئے کوئی مقررحصہ ہے جب یہ لوگوں  (مجاہدین)میں  موجود ہوں  تو انہوں  نے جواب دیاان کے لئے کوئی مقررحصہ تونہیں  ہے لیکن انہیں  مال غنیمت سے کچھ عطیہ دیاجاسکتاہے۔[37]

عُمَیْرٌ مَوْلَى آبِی اللَّحْمِ، قَالَ:شَهِدْتُ خَیْبَرَ مَعَ سَادَتِی، فَكَلَّمُوا فِیَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِی فَقُلِّدْتُ سَیْفًا، فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ، فَأُخْبِرَ أَنِّی مَمْلُوكٌ، فَأَمَرَ لِی بِشَیْءٍ مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ

عمیر  رضی اللہ عنہ جو آبی اللحم کے غلام تھے بیان کرتے ہیں میں  اپنے مالکوں  کے ساتھ غزوہ خیبرمیں  حاضرہواتوانہوں  نے میرے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بات کی توآپ نے میرے متعلق حکم دیا،میری گردن میں  ایک تلوارلٹکادی گئی میں  اسے گھسیٹنے لگا پھرآپ کوبتایاگیاکہ یہ غلام ہے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے متعلق فرمایااورمجھے گھرکے اسباب میں  سے کچھ بطورانعام دیاگیا۔[38]

حَدَّثَنِی حَشْرَجُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ جَدَّتِه، حَتَّى إِذَا فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِ خَیْبَرَ أَسْهَمَ لَنَا كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ

حشرج بن زیاداپنی دادی سے یہ روایت کرتے ہیں حتی کہ جب اللہ نے آپ کے لیے خیبرفتح کردیاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  بھی حصہ عنایت فرمایاجیساکہ مردوں  کو دیا تھا ۔ [39]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْهَمَ لَهُنَّ كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِیُّ فِی حَدِیثٍ وَحَشْرَجٌ مَجْهُولٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  بھی حصہ عنایت فرمایاجیساکہ مردوں  کودیاتھا،جیساکہ سنن ابوداود اورسنن نسائی میں  ہے اس کی سندمیں  حشرج راوی مجہول ہے۔ [40]

واسناده ضعیف لا تقوم الحجة بمثله

امام خطابی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  اس کی سندضعیف ہے لہذااس کے ساتھ حجت قائم نہیں  ہوسکتی۔[41]

لا یعرف حشرج بن زیاد

امام ذہبی  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں حشرج بن زیادغیرمعروف ہے۔[42]

حدیث حشرج بن زیاد عن جدته: أن النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أسهم لهن یوم خیبر  رواه أحمد وأبو داود. ضعیف

شیخ البانی  رحمہ اللہ  کہتے ہیں حدیث حشرج بن زیاداپنی دادی سے روایت کرتے ہیں  کہ غزوہ خیبرمیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  بھی حصہ عنایت فرمایاجیساکہ مردوں  کودیاتھا ، امام احمد رحمہ اللہ  اورامام ابو داؤد کے مطابق یہ ضعیف روایت ہے۔[43]

وَیُرْضَخُ لِلْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِوَلَا تَقْدِیرَ لِمَا یُعْطُونَهُ،بَلْ ذَلِكَ إلَى اجْتِهَادِ الْإِمَامِ، وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ مِنْهُمْ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ، وَمَالِكٌ، وَالثَّوْرِیُّ، وَاللیْثُ، وَالشَّافِعِیُّ، وَإِسْحَاقُ، وَرُوِیَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ،وَقَالَ أَبُو ثَوْرٍ: یُسْهَمُ لِلْعَبْدِوَرُوِیَ ذَلِكَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، وَالْحَسَنِ، وَالنَّخَعِیِّ، وَحُكِیَ عَنْ الْأَوْزَاعِیِّ: لَیْسَ لِلْعَبِیدِ سَهْمٌ وَلَا رَضْخٌ، إلَّا أَنْ یَجِیئُوا بِغَنِیمَةٍ

ابن قدامہ  رحمہ اللہ  کے بقول عورت اورغلام کو کچھ عطا کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی مقدارمقررنہیں  ہے بلکہ یہ امام پرموقوف ہےاکثراہل علم کایہی موقف ہے جن میں سعیدبن مسیب ،امام مالک  رحمہ اللہ ،امام ثوری  رحمہ اللہ ،امام لیث رحمہ اللہ ،امام شافعی  رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ  اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  شامل ہیں ،ابوثور رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ غلام کے لئے حصہ نکالا جائے گا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ،امام حسن رحمہ اللہ اورامام نخعی رحمہ اللہ  سے بھی اس طرح کی روایت منقول ہے ،امام اوزعی  رحمہ اللہ  کاموقف ہے کہ غلام کانہ توکوئی حصہ مقررہے اورنہ ہی ویسے کوئی عطیہ اسے دیاجائے گاالاکہ وہ مال غنیمت لے کرآئے۔[44]

راجح یہ ہے کہ غلام اورلونڈی کوکچھ عطا کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل حصہ نہیں  دیاجائے گا(اوریہی بات اقرب الی الحدیث ہے)

xامیراگربہترسمجھے تونومسلموں  کی تالیف قلب کے لئے انہیں  ترجیح دے۔

أَنَسًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: قَالَتِ الأَنْصَارُ یَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَأَعْطَى قُرَیْشًا: وَاللهِ إِنَّ هَذَا لَهُوَ العَجَبُ، إِنَّ سُیُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَاءِ قُرَیْشٍ، وَغَنَائِمُنَا تُرَدُّ عَلَیْهِمْ،فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا الأَنْصَارَ، قَالَ: فَقَالَ:مَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْكُمْ، وَكَانُوا لاَ یَكْذِبُونَ، فَقَالُوا: هُوَ الَّذِی بَلَغَكَ، قَالَ:أَوَلاَ تَرْضَوْنَ أَنْ یَرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلَى بُیُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُیُوتِكُمْ؟

انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں مکہ فتح کے دن جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نےقریش کو(غزوہ حنین کی) غنیمت کاسارامال دے دیاتوبعض نوجوان انصاریوں نے کہا(اللہ کی قسم)یہ توانتہائی تعجب والی بات ہے کہ ہماری تلواروں  سے قریش کا خون ٹپک رہاہے اورہماراحاصل کیاہوامال غنیمت صرف انہیں  دیاجارہاہے،اس کی خبرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی توآپ نے انصارکو بلایا ، انس  رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوخبرمجھے ملی ہے کیاوہ صحیح ہے؟انصارلوگ جھوٹ نہیں  بولتے تھے ،انہوں  نے عرض کیاکہ آپ کوصحیح اطلاع ملی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک تاریخی جملہ) فرمایا کیا تم پسندنہیں  کرتے کہ لوگ تودنیا(کاسامان)لے کراپنے گھروں  کولوٹیں  اورتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولے کراپنے گھروں  کو جاؤ ،انہوں  نے کہاکیوں  نہیں ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی أُعْطِی رِجَالًا حَدِیثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ  أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْهَبَ النَّاسُ بِالأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُوا إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں  یہ لفظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  توکچھ نومسلموں  میں  الفت ومحبت ڈالنے کے لئے انہیں  دے رہاہوں ،کیاتمہیں  یہ بات پسندنہیں  ہے کہ لوگ (دنیاوی)اموال لے کراپنے گھروں  کولوٹیں  اورتم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کولے کر۔

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی أُعْطِی قُرَیْشًا أَتَأَلَّفُهُمْ، لِأَنَّهُمْ حَدِیثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِیَّةٍ

ایک اورروایت میں  ہے کہ انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقریش کومیں تالیف قلب کے لئے غنائم دیتاہوں  کیونکہ ان کی جاہلیت (کفر)کازمانہ ابھی تازہ گزراہے۔[45]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  لَمَّا كَانَ یَوْمُ حُنَیْنٍ، آثَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسًا فِی القِسْمَةِ، فَأَعْطَى الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُیَیْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ العَرَبِ فَآثَرَهُمْ یَوْمَئِذٍ فِی القِسْمَةِ،قَالَ رَجُلٌ: وَاللهِ إِنَّ هَذِهِ القِسْمَةَ مَا عُدِلَ فِیهَا، وَمَا أُرِیدَ بِهَا وَجْهُ اللهِ،فَقُلْتُ: وَاللهِ لَأُخْبِرَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَیْتُهُ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: فَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ یَعْدِلِ اللهُ وَرَسُولُهُ، رَحِمَ اللهُ مُوسَى قَدْ أُوذِیَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے(غنیمت کی) تقسیم میں  بعض لوگوں  کوزیادہ دیاجیسےاقرع بن حابس  رضی اللہ عنہ  کوسواونٹ دیئے،اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصین کو دیئے اورکئی عرب کےاشراف لوگوں  کواسی طرح تقسیم میں  زیادہ دیا، توایک آدمی نے کہااس تقسیم میں  عدل نہیں  کیاگیااورنہ ہی اس میں  اللہ کی رضا مقصود ہے،عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں  کہ میں  نے کہامیں  ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبردوں  گاپھرمیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرآپ کوبتلایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب اللہ اوراس کارسول عدل نہیں  کریں  گے توکون عدل کرے گااللہ تعالیٰ موسیٰ  علیہ السلام پررحم فرمائے کہ ان کولوگوں  کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں  نے صبرکیا۔[46]

وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ، وَكَانُوا أَشْرَافًا مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ، یَتَأَلَّفُهُمْ وَیَتَأَلَّفُ بِهِمْ قَوْمَهُمْ

جن عرب وقریش کواس دن تالیف قلب کے لئے ترجیح دی گئی تھی ان میں  سے چندکے نام یہ ہیں ۔

فَأَعْطَى أَبَا سُفْیَانَ ابْن حَرْب مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى ابْنه مُعَاوِیَة مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى حَكِیمَ بن حزَام مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى الْحَارِثَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ كَلَدَةَ، أَخَا بَنِی عبد الدَّار مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى الْحَارِثَ بن هِشَام مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى سُهَیْلَ بن عَمْرو مائَة بَعِیرٍ، وَأَعْطَى حُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ أَبى قیس مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى الْعَلَاءَ بْنَ جَارِیَةَ الثَّقَفِیَّ، حَلِیفَ بنى زهرَة مائَة بَعِیرٍ، وَأَعْطَى عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَةَ بن بدر مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِس التَّمِیمِی مائَة بَعِیرٍ، وَأَعْطَى مَالِكَ ابْن عَوْف النّصرىّ مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى صَفْوَانَ بن أمیّة مائَة بَعِیرٍ،وَأَعْطَى عَلْقَمَةَ بْنَ عُلَاثَةَ مِائَةً،وَأَعْطَى الْعَبَّاسَ بْنَ مردواس دُونَ الْمِائَةِ

ابوسفیان ابن حرب کوسواونٹ عطافرمائے۔اورابوسفیان کے بیٹے معاویہ کوسواونٹ عطافرمائے۔اورحکیم بن حزام کوسواونٹ عنایت فرمائے۔اورحارث بن حارث بن کلدہ جوبنی عبدالدارکے حلیف تھے سواونٹ عطافرمائے۔اورحارث بن ہشام کوایک سواونٹ عطافرمائے۔اورسہیل بن عمروکوایک سواونٹ عنایت فرمائے۔اورحویطب بن عبدالعزی بن ابوقیس کوایک سواونٹ عطافرمائے۔اورعلاءبن جاریة الثقفی جوبنی زہرہ کاحلیف تھاایک سواونٹ عنایت فرمائے۔اورعیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدرکوایک سواونٹ عطافرمائے۔اوراقرع بن حابس تمیمی کوایک سواونٹ عطافرمائے۔اورمالک بن عوف النصری کوایک سواونٹ عنایت فرمائے۔اورصفوان بن امیہ کوایک سواونٹ عنایت فرمائے۔علقمہ بن علاثہ کوسواونٹ عنایت فرمائے۔عباس بن مردواس کوسواونٹ عنایت فرمائے۔

 فَهَؤُلَاءِ أَصْحَابُ الْمِئِینَ وَأعْطى دون الْمِائَة رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ

باقی قریش میں  سے جن لوگوں  کوسواونٹوں  سے کم عنایت کیے ان کے بعض لوگ یہ ہیں ۔

مِنْهُمْ مَخْرَمَةُ بْنُ نَوْفَلٍ الزُّهْرِیُّ، وَعُمَیْرُ ابْن وَهْبٍ الْجُمَحِیُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَمْرٍو أَخُو بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، لَا أَحْفَظُ مَا أَعْطَاهُمْ، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهَا دون الْمِائَة، وَأَعْطَى سَعِیدَ بْنَ یَرْبُوع بن عنكشة بْنَ عَامِرِ بْنِ مَخْزُومٍ خَمْسِینَ مِنْ الْإِبِلِ،وَأَعْطَى السَّهْمِیَّ خَمْسِینَ مِنْ الْإِبِلِ.قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَاسْمُهُ عَدِیُّ بْنُ قَیْسٍ،وَأَعْطَى قَیْسَ بْنَ عَدِیّ مِائَةً من الإبل،وأعطى عثمان ابن وَهْبٍ خَمْسِینَ مِنْ الْإِبِلِ

مخزمہ بن نوفل زہری اورعمیربن وہب الجمحی اورہشام بن عمروجوبنی عامربن لوئی کے بھائی تھے ،یہ مجھ کویادنہیں  کہ آپ نے ان کوکیاکیاعطافرمایامگریہ ضرورہے کہ سواونٹوں  سے کم کم دیئے تھے۔سعیدبن یربوع بن عنکشہ بن عامربن مخزوم کوپچاس اونٹ عطافرمائے۔ اورسہی کوپچاس پچاس اونٹ عطافرمائے،ابن ہشام کہتے ہیں  سہی کانام عدی بن قیس ہے۔اورقیس بن عدی کوسواونٹ عطافرمائے۔اورعثمان ابن وہب کوپچاس اونٹ عطافرمائے۔[47]

xکفارکامسلمانوں  سے چھیناہوامال اگرواپس مل جائے تووہ اس کے اصلی مالک کاہی ہوگا۔

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِینَةِ فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا، وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِینَ (قَالَ أَبُو دَاوُدَ:وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِی ذَرٍّ)فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللیْلُ یُرِیحُونَ إِبِلَهُمْ فِی أَفْنِیَتِهِمْ، فَنُوِّمُوا لَیْلَةً، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ فَجَعَلَتْ تَضَعُ یَدَهَا عَلَى بَعِیرٍ إِلَّا رَغَا حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَیْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِینَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ،فَأَرْسَلَ إِلَیْهَا فَجِیءَ بِهَا وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا فَقَالَ:بِئْسَ مَا جَزَیْتِیهَا  أَوْ جَزَتْهَاإِنِ اللهُ أَنْجَاهَا عَلَیْهَا لَتَنْحَرَنَّهَالَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ، وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ

عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی عضباء اوٹنی کواپنی سواری کے لیے روک لیا،راوی نے بیان کیاکہ اس کے بعدمشرکین نے مدینہ کے باہرچرتے جانوروں  پرڈالاڈالااورعضباء اونٹنی کوبھی لے گئے،جب وہ اسے لے گئے تھے تومسلمانوں  کی ایک عورت کوبھی قید کرکے لے گئے(امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ خاتون ابوذر رضی اللہ عنہ  کی اہلیہ تھی) وہ لوگ رات کے وقت اپنے اونٹوں  کواپنے باڑوں  میں  چھوڑدیتے تھے،ایک رات ان پرنیندطاری کردی گئی تووہ عورت اٹھی (کہ فرارہوجائے)توجس اونٹ پربھی وہ ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتاحتی کہ عضباء اونٹنی کے پاس آئی توگویاایک نرم خواورسفرکی عادی اونٹنی کے پاس آگئی(اوروہ بلبلائی نہیں )تووہ اس پرسوارہوگئی،پھراس نے اپنے لیے یہ نذرمانی کہ اگراللہ تعالیٰ اسے نجات دے دی تووہ اس اونٹنی کوبالضرورذبح کردے گی،چنانچہ جب وہ مدینہ پہنچی تواونٹنی پہچان لی گئی کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہے ،پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کواس کی خبردی گئی، توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بلوایا،اسے لایاگیااوراس کی نذرکے متعلق بتایاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے اسے بہت برابدلہ دیایافرمایاتونے اسے بہت برابدلہ دیاہے،اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے ذریعے سے نجات دی اوریہ اسے نحرکرنے چلی ہے،جس کام میں  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہویاایسی چیزجس کاانسان مالک نہ ہواس میں  نذرنہیں ۔[48]

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ذَهَبَ فَرَسٌ لَهُ، فَأَخَذَهُ العَدُوُّ، فَظَهَرَ عَلَیْهِ المُسْلِمُونَ، فَرُدَّ عَلَیْهِ فِی زَمَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم ،وَأَبَقَ عَبْدٌ لَهُ فَلَحِقَ بِالرُّومِ، فَظَهَرَ عَلَیْهِمُ المُسْلِمُونَ، فَرَدَّهُ عَلَیْهِ خَالِدُ بْنُ الوَلِیدِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےان کاایک گھوڑابھاگ گیاتھااوردشمنوں  نے اس کو پکڑلیاتھاپھرمسلمانوں  کو ان پرغلبہ ہواتوان کا گھوڑاانہیں واپس کردیاگیا،یہ واقعہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمباک کاہے،اسی طرح ان کےایک غلام نے بھاگ کرروم کے علاقے میں  پناہ حاصل کرلی تھی پھرجب مسلمانوں  کواس ملک پربھی غلبہ حاصل ہوا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ  نے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کوان کاغلام واپس لوٹادیا،یہ واقعہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدکاہے۔[49]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ غُلَامًا لِابْنِ عُمَرَ أَبَقَ إِلَى الْعَدُوِّ، فَظَهَرَ عَلَیْهِ الْمُسْلِمُونَ،فَرَدَّهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ وَلَمْ یَقْسِمْ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےان کاایک غلام بھاگ کر دشمنوں  کے پاس چلاگیا پھر مسلمان ان لوگوں  پرغالب آگئے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ غلام عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کوواپس لوٹا دیا اور (بطورغنیمت) تقسیم نہیں  فرمایا۔[50]

اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ  کاموقف ہے کہ جب وہی چیزمل جائے تواصلی مالک ہی اس کازیادہ مستحق ہے ۔سیدنا علی  رضی اللہ عنہ ،امام زہری رحمہ اللہ ،عمروبن دینار رحمہ اللہ  کاموقف یہ ہے کہ دشمن سے ملی ہوئی ہرچیزمال غنیمت کے طورپرتقسیم کی جائے گی اصلی مالک کونہیں  لوٹائی جائے گی۔ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ، سلیمان بن ربیہ،عطا رحمہ اللہ ،امام لیث رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام احمداورفقہائے سبعہ سے یہ روایت کیاگیاہے کہ اگرمعینہ چیزکا مالک اسے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے پالے تووہی اس کازیادہ حق دارہے لیکن اگروہ اسے تقسیم کے بعدپائے تواسے قیمتاًہی لے سکتا ہے ، ان کی دلیل عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی اسی معنی میں  مرفوع روایت ہے لیکن وہ ضعیف ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ,عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:فِیمَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ فَاسْتَنْقَذَهُ الْمُسْلِمُونَ مِنْهُمْ , أَوْ أَخَذَهُ صَاحِبُهُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ فَهُوَ أَحَقُّ فَإِنْ وَجَدَهُ وَقَدْ قُسِمَ فَإِنْ شَاءَ أَخَذَهُ بِالثَّمَنِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرمعینہ چیزکامالک اسے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے پالے تووہی اس کازیادہ حق دارہے لیکن اگروہ اسے تقسیم کے بعدپائے تواسے قیمتاًہی لے سکتاہے۔[51]

الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ مَتْرُوكٌ

امام دارقطنی  رحمہ اللہ  نے اس روایت کونقل کرنے کے بعد خود فرمایا ہے اس میں  حسن بن عمارة راوی متروک ہے۔[52]

امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  کاموقف امام مالک  رحمہ اللہ  کے ہم معنی ہے لیکن بھاگے ہوئے غلام کے متعلق یہ فرماتے ہیں  کہ الْمَالُ لِلسَّیِّدِ وہ ہرصورت میں  صرف مالک ہی کاحق ہے۔[53]

امام شافعی  رحمہ اللہ  کاموقف حدیث کے زیادہ قریب ہے اس لئے یہی راجح ہے۔

xخوراک اورگھاس کے سواتقسیم سے پہلے مال غنیمت کی کسی بھی چیزسے نفع اٹھاناحرام ہے۔

عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیِّ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یَرْكَبْ دَابَّةً مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى إِذَا أَعْجَفَهَا رَدَّهَا فِیهِ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى إِذَا أَخْلَقَهُ رَدَّهُ فِیهِ

رویفع بن ثابت انصاری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کااللہ پراورقیامت پرایمان ہے اسے روانہیں  کہ مسلمانوں  کی غنیمت میں  سے کسی جانور پر سواری کرتارہےحتی کہ جب اسے لاغرکرڈالے تواسے غنیمت میں واپس کردے اورجس کااللہ پراورقیامت پرایمان ہے اسے جائزنہیں  کہ مسلمانوں  کی غنیمت سے کپڑا پہنے اور جب اسے بوسیدہ کردے تووہ اسے بیت المال میں  جمع کرادے۔[54]

وَهُوَ حَدِیثٌ حَسَنٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کہتے ہیں  یہ حدیث حسن ہے۔[55]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كُنَّا نُصِیبُ فِی مَغَازِینَاالعَسَلَ وَالعِنَبَ، فَنَأْكُلُهُ وَلاَ نَرْفَعُهُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ہمیں  غزوات میں  شہداورانگوروغیرہ ہاتھ لگتے توہم انہیں  کھاپی لیتے لیکن اٹھاکرنہ لے جاتے تھے۔[56]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ جَیْشًا غَنِمُوا فِی زَمَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا وَعَسَلًا فَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْهُمُ الْخُمُسُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  ایک لشکرکوغلہ اورشہدبطورغنیمت ملاتواس میں  سے خمس نہیں  لیاگیا۔[57]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی مُجَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى، قَالَ: قُلْتُ: هَلْ كُنْتُمْ تُخَمِّسُونَ  یَعْنِی الطَّعَامَ  فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: أَصَبْنَا طَعَامًا یَوْمَ خَیْبَرَ، فَكَانَ الرَّجُلُ یَجِیءُ فَیَأْخُذُ مِنْهُ مِقْدَارَ مَا یَكْفِیهِ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ

محمدبن ابی مجالدنےعبداللہ بن ابی اوفی  رضی اللہ عنہ  سے پوچھاکیاآپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دورمیں  کھانے پینے کی اشیامیں  سے خمس نکالاکرتے تھے؟انہوں  نے کہاہمیں  خیبرکے روز غلا ملاتو ضرورت مندآتااورجس قدراسے ضرورت ہوتی لے کرچلاجاتا۔[58]

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كُنَّا مُحَاصِرِینَ قَصْرَ خَیْبَرَ، فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِیهِ شَحْمٌ، فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ،فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَحْیَیْتُ مِنْهُ

عبداللہ بن مغفل  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےخیبرکے روزہم خیبر کے قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ مجھے چربی کی ایک تھیلی ملی ،میں  نے اسے اٹھاکرکہاکہ میں  آج اس میں  سے کسی کوکچھ نہیں  دوں  گا،میں  نے پھراچانک دیکھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ کرمسکرا رہے ہیں لہٰذا مجھے شرم آگئی۔[59]

ذَهَبَ الْجُمْهُورُ سَوَاءٌ أَذِنَ الْإِمَامُ أَوْ لَمْ یَأْذَنْ.وَالْعِلَّةُ فِی ذَلِكَ أَنَّ الطَّعَامَ یَقِلُّ فِی دَارِ الْحَرْبِ وَكَذَلِكَ الْعَلَفُ فَأُبِیحَ لِلضَّرُورَةِ. وَالْجُمْهُورُ أَیْضًا عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ وَلَوْ لَمْ تَكُنْ ضَرُورَة،وَقَالَ الزُّهْرِیُّ لَا یَأْخُذْ شَیْئًا مِنَ الطَّعَامِ وَلَا غَیْرِهِ إِلَّا بِإِذْنِ الْإِمَامِ،وَقَالَ الشَّافِعِیُّ وَمَالِكٌ: یَجُوزُ ذَبْحُ الْأَنْعَامِ لِلْأَكْلِ كَمَا یَجُوزُ أَخْذُ الطَّعَامِ، وَلَكِنْ قَیَّدَهُ الشَّافِعِیُّ بِالضَّرُورَةِ إلَى الْأَكْلِ حَیْثُ لَا طَعَامَ

جمہورکاموقف ہے کہ حکمران اجازت دےیا نہ دے دوران جنگ کھانے پینے کی اشیاء وہیں  کھالینااورانہیں  اٹھاکرنہ لے جاناجائزہے،چارے کوبھی اسی پرقیاس کیاجائے گا،نیزبہت زیادہ ضرورت نہ بھی ہوپھربھی کھایا جا سکتا ہے اورغلول وخیانت سے ممانعت کی احادیث سے یہ خاص ہےاور جمہور کا بھی یہی موقف ہے کہ بلا ضرورت کھانے پینے کی چیزیں  لے لینا جائز نہیں ۔امام زہری  رحمہ اللہ  کاموقف ہے کہ کھانے کی کوئی چیزہویااس کے علاوہ کوئی اورحکمران کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں  ۔امام شافعی رحمہ اللہ  اورامام مالک  رحمہ اللہ  کا کہناہے کہ جانوروں  کوکھانے کے لئے ذبح کرنابھی جائزہے جیساکہ حدیث میں  ہے کہ کھاناجائزہے لیکن امام شافعی  رحمہ اللہ  نے جانورذبح کرنے کے لئے ضرورت کی قیدلگائی ہے۔[60]

رُكُوبِ دَوَابِّهِمْ وَلُبْسِ ثِیَابِهِمْ وَاسْتِعْمَالِ سِلَاحِهِمْ فِی حَالِ الْحَرْبِ وَرَدِّ ذَلِكَ بَعْدَ انْقِضَاءِ الْحَرْبِ

ابن حجر رحمہ اللہ  کاموقف ہے دوران جنگ دشمنوں  کے جانوروں  پرسواری ،ان کے کپڑے اوراسلحے کااستعمال بالاتفاق جائزہے لیکن جنگ کے خاتمے پرانہیں  لوٹادیاجائے گا۔[61]

xخیانت کرناحرام ہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔ وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۔۔۔۝۰۝۱۶۱ [62]

ترجمہ:ہرخیانت کرنے والاخیانت کولئے ہوئے قیامت کے دن حاضرہوگا ۔

مال غنیمت میں  خیانت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انتہائی سختی سے ممانعت کرتے اورفرماتے تھے یہ قیامت کے دن اس کے مرتکب پرباعث عار،باعث آگ اورباعث رسوائی ہوگی ۔

 أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  قَامَ فِینَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَكُمْ یَوْمَ القِیَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ،یَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَغِثْنِی،فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَیْئًاقَدْ أَبْلَغْتُكَ،وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِیرٌ لَهُ رُغَاءٌ، یَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ،وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَغِثْنِی، فَأَقُولُ لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ،أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَیَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَغِثْنِی، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَیْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  خطاب فرمایااور خیانت کا ذکرفرمایااس جرم کی ہولناکی کوواضع کرتے ہوئے فرمایامیں  تم میں  سے کسی کوقیامت کے دن اس حال میں  نہ پاؤں  کہ اس کی گردن پربکری لدی ہوئی ہواوروہ چلارہی ہویااس کی گردن پرگھوڑاسوارہواوروہ چلارہاہواوروہ شخص مجھے سے کہے کہ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میری مددفرمایئے، لیکن میں  یہ جواب دے دوں  کہ میں  تمہاری کوئی مددنہیں  کرسکتامیں  تو(اللہ کاپیغام)تم تک پہنچاچکاتھا،اوراس کی گردن پراونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہواوروہ شخص کہے کہ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میری مددفرمایئے لیکن میں  یہ جواب دے دوں  کہ میں  تمہاری کوئی مددنہیں  کرسکتا،میں  تواللہ کاپیغام تمہیں  پہنچاچکاتھا،یا(وہ اس حال میں  آئے کہ)وہ اپنی گردن پرسونا،چاندی ،اسباب لادے ہوئے ہواورمجھ سے کہے اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میری مددفرمایئے لیکن میں  اس سے کہہ دوں  کہ میں  تمہاری کوئی مددنہیں  کرسکتامیں  اللہ تعالیٰ کاپیغام تمہیں  پہنچاچکاتھا،یااس کی گردن پرکپڑے کے ٹکڑے ہواسے حرکت کررہے ہوں  اوروہ کہے کہ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میری مددکیجئے اورمیں  کہہ دوں  کہ میں  تمہاری کوئی مددنہیں  کرسکتامیں  تو(اللہ کاپیغام)پہلے ہی پہنچاچکاتھا۔[63]

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:افْتَتَحْنَا خَیْبَرَ، وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلاَ فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا البَقَرَ وَالإِبِلَ وَالمَتَاعَ وَالحَوَائِطَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِی القُرَى،وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ یُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ، أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِی الضِّبَابِ، فَبَیْنَمَا هُوَ یَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ، حَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ العَبْدَ، فَقَالَ النَّاسُ: هَنِیئًا لَهُ الشَّهَادَةُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَلْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِی أَصَابَهَا یَوْمَ خَیْبَرَ مِنَ المَغَانِمِ، لَمْ تُصِبْهَا المَقَاسِمُ، لَتَشْتَعِلُ عَلَیْهِ نَارًا، فَجَاءَ رَجُلٌ حِینَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَیْنِ، فَقَالَ: هَذَا شَیْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:شِرَاكٌ  أَوْ شِرَاكَانِ  مِنْ نَارٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےجب خیبرفتح ہواتومال غنیمت میں  سونااورچاندی نہیں  ملاتھابلکہ گائے،اونٹ،سامان اورباغات ملے تھے پھرہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھاجوبنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کوہدیہ میں  دیاتھاوہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاکجاوہ اتاررہاتھاکہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آکراس کولگا،بعض صحابہ نے کہاکہ اسے شہادت مبارک ہولیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرگزنہیں  ،قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے خیبرکے دن غنیمت کی تقسیم سے پہلے جوچادر اس نے چرائی تھی وہ آگ بن کراس پربھڑک رہی ہے،یہ سن کرایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک یادوتسمے لے کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیاکہ یہ میں  نے اٹھالیے تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ بھی جہنم کاتسمہ بنتا۔[64]

اس سے ثابت ہواکہ تھوڑے سے مال کی خیانت بھی انسان کے لئے باعث ہلاکت ہوسکتی ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: كَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ كِرْكِرَةُ، فَمَات، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُوَ فِی النَّارِفَذَهَبُوا یَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، فَوَجَدُوا عَبَاءَةً قَدْ غَلَّهَا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامان کی نگہبانی پرایک آدمی تھاجس کانام کرکرہ تھاجب اس کا انتقال ہو گیاتو آپ نے اس کے متعلق فرمایاوہ جہنم میں  ہے، لوگ اس کودیکھنے گئے اورانہوں  نے دیکھاکہ اس نے مال غنیمت سے ایک عبا چرا رکھی تھی۔[65]

عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِیدٌ، فُلَانٌ شَهِیدٌ حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِیدٌفَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَلَّا، إِنِّی رَأَیْتُهُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَةٍ غَلَّهَا – أَوْ عَبَاءَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ، أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےجب خیبرکادن ہواتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کئی صحابہ آئے اورکہنے لگے فلاں  شہیدہے اورفلاں  شہیدہےیہاں  تک کہ ایک شخص کے متعلق کہا کہ وہ بھی شہیدہے، تویہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہرگز نہیں  میں  نے اس کوجہنم میں  دیکھاہے کیونکہ اس نے ایک عباء یاچادرچرائی تھی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابن خطاب!اٹھ اور لوگوں  میں  جاکراعلان کردوکہ جنت میں  صرف مومنین ہی داخل ہوں  گے، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے کہامیں  گیااورلوگوں  میں  جاکراعلان کردیاکہ خبردار ہو جاؤ،جنت میں  وہی جائیں  گے جوایمان دارہیں ۔[66]

چنانچہ جب مال غنیمت حاصل ہوتاتھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  بلال  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیتے تھے کہ لوگوں  میں  اعلان کروکہ اپنااپنامال غنیمت لے کر حاضر ہوں  تو آپ خمس نکالنے کے بعداسے تقسیم فرمادیتے تھے ۔

جن روایات میں  خائن کے مال کوجلانے کاحکم ہے وہ ضعیف ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:  كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ غَنِیمَةً أَمَرَ بِلَالًا فَنَادَى فِی النَّاسِ فَیَجِیئُونَ بِغَنَائِمِهِمْ فَیَخْمُسُهُ وَیُقَسِّمُهُ،فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِكَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ هَذَا فِیمَا كُنَّا أَصَبْنَاهُ مِنَ الغَنِیمَةِ، فَقَالَ:أَسَمِعْتَ بِلَالًا یُنَادِی ثَلَاثًا؟قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَجِیءَ بِهِ؟فَاعْتَذَرَ إِلَیْهِ،فَقَالَ:كُنْ أَنْتَ تَجِیءُ بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَلَنْ أَقْبَلَهُ عَنْكَ

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ کابیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوجب غنیمت حاصل ہوتی توبلال کوحکم دیتے اوروہ اعلان کرتے اورلوگ اپنی اپنی غنیمتیں  لے آئے،پھرآپ اس میں  سے خمس (پانچواں  حصہ)نکالتے اورپھرتقسیم کردیتے،ایک بارایک آدمی اس اعلان اورتقسیم کے بعدبالوں  سے بنی ہوئی ایک لگام لے آیااس نے کہااے اللہ کے رسول!یہ ہمیں  غنیمت میں  ملی تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھاکیاتو نے بلال  رضی اللہ عنہ  کو منادی کرتے سناتھا ؟آپ نے تین بارپوچھاتواس نے کہاسنی تھی،آپ نے فرمایاتو (اس وقت)تجھے یہ لے آنے سے کیارکاوٹ تھی ؟اس نے معذرت چاہی، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااب اسے اپنے پاس رکھو قیامت کے دن لے آنا میں  اسے تجھ سے ہرگز قبول نہیں  کرتا۔[67]

 عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ الْغَالّ وَضَرَبُوهُ

عمروبن شعیب اپنے والدسے وہ داداسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ نے غنیمت میں  خیانت کرنے والے کامال جلایااوراسے ماراپیٹابھی گیا۔[68]

وفی إسناده زهیر بن محمد الخراسانی التمیمی، وزعم أنه مجهول

حسن بن علی رحمہ اللہ  کہتے ہیں اس کی سندمیں  زہیربن محمدالخراسانی التمیمی جومجہول ہے۔[69]

 إِنَّ زُهَیْرًا هَذَا مَجْهُولٌ

امام بیہقی فرماتے ہیں اس روایت میں  زہیرہے اوروہ مجہول ہے۔

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی  رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ضعیف روایت ہے۔

عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ وَجَدْتُمُوهُ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللهِ فَاحْرِقُوا مَتَاعَهُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب بھی کسی خائن کو دیکھو تو اس کامال جلادو۔[70]

إِنَّمَا رَوَى هَذَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، وَهُوَ أَبُو وَاقِدٍ اللیْثِیُّ وَهُوَ مُنْكَرُ الحَدِیثِ،قال البخاری: منكر الحدیث، قال الدارقطنی: ضیعف،قال أحمد: ما أرى به بأسا، قال النسائی: لیس بالقوی،قال ابن عدی: هو من الضعفاء ویكتب حدیثه

امام بیہقی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سندمیں  صالح بن محمدبن زائدہ ابوواقدلیثی راوی ہےاوروہ منکرالحدیث ہے۔امام بخاری  رحمہ اللہ  کہتے ہیں  وہ منکرالحدیث ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ  نے اس روایت کو ضعیف کہاہے،امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے کہااس میں کوئی حرج نہیں ، امام نسائی رحمہ اللہ  نے کہاوہ قوی نہیں ، ابن عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  وہ ضعفاءمیں  سے ہے اس کی حدیثوں  کو لکھا جائے گا ۔[71]

[1] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی قَتْلِ الْأَسِیرِ صَبْرًا   ۲۶۸۶

[2] ابن ہشام۶۴۴؍۱،تاریخ طبری۴۵۹؍۲،الروض الانف ۱۱۵؍۵،عیون الآثر۳۰۹؍۱،البدایة والنہایة ۳۷۲؍۳، شرح الزرقانی علی المواھب ۳۳۴؍۲

[3] ابن ہشام۶۴۳؍۱،البدایة والنھایة ۳۷۲؍۳، الروض الانف ۱۱۴؍۵،تاریخ طبری ۴۵۹؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۷۲؍۲

[4] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۶۴؍۴،إمتاع الأسماع۲۰۲؍۲،المغازی واقدی۱۱۶؍۱

[5] المغازی واقدی۲۱؍۱

[6] الانفال۴۱

[7] الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵۹۰۰؍۸

[8] تفسیرفتح القدیر۳۵۳؍۲

[9] سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ قِسْمَةِ الْغَنَائِمِ ۲۸۵۴

[10] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ سِهَامِ الفَرَسِ ۲۸۶۳،صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ كَیْفِیَّةِ قِسْمَةِ الْغَنِیمَةِ بَیْنَ الْحَاضِرِینَ ۱۷۶۲،جامع ترمذی ابواب السیربَابٌ فِی سَهْمِ الْخَیْلِ۱۵۵۴،سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی سُهْمَانِ الْخَیْلِ ۲۷۳۳، مسنداحمد۵۵۱۸، سنن الدارقطنی ۴۱۹۳، سنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۶۳

[11] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِیمَنْ أَسْهَمَ لَهُ سَهْمًا۲۷۳۶

[12] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِیمَنْ أَسْهَمَ لَهُ سَهْمًا۲۷۳۶

[13] الروضة الند یة۳۴۲؍۲

[14] فتح الباری ۶۸؍۶

[15] تحفة الاحوذی ۱۳۷؍۵،سبل السلام ۴۸۴؍۲،الروضة الندیة ۳۴۲؍۲،الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵۹۰۳؍۸،بدائع الصنائع ۱۲۶؍۷،فتح القدیر۴۹۶؍۵

[16] سبل السلام ۴۸۴؍۲

[17] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی النَّفَلِ۲۷۳۷

[18] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی النَّفَلِ۲۷۳۹

[19] مسند احمد  ۲۲۷۶۲

[20]۔ مسنداحمد۱۴۹۳

[21] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَنِ اسْتَعَانَ بِالضُّعَفَاءِ وَالصَّالِحِینَ فِی الحَرْبِ  ۲۸۹۶

[22] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الِانْتِصَارِ بِرُذُلِ الْخَیْلِ وَالضَّعَفَةِ ۲۵۹۴، مسنداحمد۲۱۷۳۱، صحیح ابن حبان ۴۷۶۷، مستدرک حاکم ۲۵۰۹

[23] نیل الاوطار۳۱۹؍۷

[24]سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی السَّرِیَّةِ تَرُدُّ عَلَى أَهْلِ الْعَسْكَرِ ۲۷۵۲

[25] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی النَّفَلِ  ۲۷۴۰،مسند احمد۱۵۳۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ ۳۰۷۹

[26] صحیح ابن حبان ۴۸۳۵،سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِیمَنْ قَالَ الْخُمُسُ قَبْلَ النَّفْلِ ۲۷۴۸،ابن الجارود۱۰۷۹،مسنداحمد۱۷۴۶۵

[27] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الْأَنْفَالِ۴۵۵۸،موطاامام مالک کتاب الجہاد جَامِعُ النَّفْلِ فِی الْغَزْوِ۱۵ ،سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی نَفْلِ السَّرِیَّةِ تَخْرُجُ مِنَ الْعَسْكَرِ۲۷۴۴

[28] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۵،صحیح مسلم صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الْأَنْفَالِ ۴۵۶۵،سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی نَفْلِ السَّرِیَّةِ تَخْرُجُ مِنَ الْعَسْكَرِ ۲۷۴۶،مسنداحمد۶۲۵۰

[29] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی النَّفْلِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمِنْ أَوَّلِ مَغْنَمٍ ۲۷۵۳، مسند احمد ۱۵۸۶۲،شرح معانی الاثار ۵۲۲۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۰۹

[30] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِیمَنْ قَالَ الْخُمُسُ قَبْلَ النَّفْلِ  ۲۷۴۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ النَّفْلِ ۲۸۵۳،مسنداحمد۱۷۴۶۲،مصنف عبدالرزاق ۹۳۳۳،صحیح ابن حبان ۴۸۳۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۵۱۹، مستدرک حاکم ۲۵۹۹، السنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۰۷،شرح معانی الاثار ۵۲۱۸

[31] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِبَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ  ۲۹۹۹،سنن نسائی كِتَابُ قَسْمِ الْفَیْءِ۴۱۵۱ ،مسنداحمد۲۰۷۴۰

[32] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ ۲۹۹۴

[33] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ مَا یُذْكَرُ فِی الفَخِذِ  ۳۷۱،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ فَضِیلَةِ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُهَا۳۴۹۷،سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ ۲۹۹۸،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْبِنَاءُ فِی السَّفَرِ۳۳۸۲، مسند احمد۱۱۹۹۲

[34] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ  ۲۹۹۷،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الحیوان بالحیوان متفاضلا یدابید ۲۲۷۲

[35] نیل الاوطار۳۲۷؍۷

[36] مسنداحمد۳۲۹۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ النِّسَاءِ الْغَازِیَاتِ یُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا یُسْهَمُ، وَالنَّهْیِ عَنْ قَتْلِ صِبْیَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ۴۶۸۴،جامع ترمذی ابواب السیربَابُ مَنْ یُعْطَى الفَیْءَ ۱۵۵۶،سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ یُحْذَیَانِ مِنَ الغَنِیمَةِ۲۷۲۸

[37] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ النِّسَاءِ الْغَازِیَاتِ یُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا یُسْهَمُ، وَالنَّهْیِ عَنْ قَتْلِ صِبْیَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ۴۶۸۴

[38] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ یُحْذَیَانِ مِنَ الغَنِیمَةِ  ۲۷۳۰

[39] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ یُحْذَیَانِ مِنَ الغَنِیمَةِ  ۲۷۲۹،مسنداحمد۲۲۳۳۲،السنن الکبری للنسائی ۸۸۲۸

[40] تلخیص الحبیر۲۲۴؍۳

[41] معالم السنن ۳۰۷؍۲

[42] میزان الاعتدال ۵۵۱؍۱

[43] ارواء الغلیل ۱۲۳۸،۷۱؍۵

[44] المغنی لابن قدامة ۲۵۴؍۹

[45] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ۳۷۷۸،وکتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ ۳۱۴۶، ۳۱۴۷، صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ ۲۴۳۶، مسنداحمد۱۲۷۳۰

[46] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ ۳۱۵۰،صحیح مسلم کتاب الزکوٰةبَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ ۲۴۴۷،نیل الاوطار۳۳۹۴

[47] ابن ہشام۴۹۳؍۲،مغازی واقدی ۹۴۶؍۵،نیل الاوطار ۱۹۸؍۴، فتح الباری۵۵؍۸

[48] مسنداحمد۱۹۸۶۳،صحیح مسلم کتاب النذر بَابُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ، وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِكُ الْعَبْدُ ۴۲۴۵،سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِبَابٌ فِی النَّذْرِ فِیمَا لَا یَمْلِكُ۳۳۱۶،السنن الکبری للبیہقی۱۸۲۵۴

[49] صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر بَابُ إِذَا غَنِمَ المُشْرِكُونَ مَالَ المُسْلِمِ ثُمَّ وَجَدَهُ المُسْلِمُ  ۳۰۶۷،سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی الْمَالِ یُصِیبُهُ الْعَدُوُّ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، ثُمَّ یُدْرِكُهُ صَاحِبُهُ فِی الْغَنِیمَةِ۲۶۹۹

[50] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی الْمَالِ یُصِیبُهُ الْعَدُوُّ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، ثُمَّ یُدْرِكُهُ صَاحِبُهُ فِی الْغَنِیمَةِ ۲۶۹۸

[51] سنن الدارقطنی۴۲۰۱

[52] سنن الدارقطنی۴۲۰۱

[53] بدایة المجتھد ۱۵۵؍۴

[54] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الرَّجُلِ یَنْتَفِعُ مِنَ الغَنِیمَةِ بِالشَّیْءِ۲۷۰۸،مسنداحمد۱۶۹۹۰،سنن الدارمی۲۵۳۱،صحیح ابن حبان ۴۸۵۰،المعجم الکبیرللطبرانی ۴۴۸۲

[55]فتح الباری۲۵۶؍۶

[56] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا یُصِیبُ مِنَ الطَّعَامِ فِی أَرْضِ الحَرْبِ ۳۱۵۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۹۹۳

[57] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی إِبَاحَةِ الطَّعَامِ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ  ۲۷۰۱،صحیح ابن حبان ۴۸۲۵

[58] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ النُّهْبَى إِذَا كَانَ فِی الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ ۲۷۰۴، مستدرک حاکم۲۵۷۸

[59] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا یُصِیبُ مِنَ الطَّعَامِ فِی أَرْضِ الحَرْبِ ۳۱۵۳،وكِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّیْدِ بَابُ ذَبَائِحِ أَهْلِ الكِتَابِ وَشُحُومِهَا، مِنْ أَهْلِ الحَرْبِ وَغَیْرِهِمْ ۵۵۰۸،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ جَوَازِ الْأَكْلِ مِنْ طَعَامِ الْغَنِیمَةِ فِی دَارِ الْحَرْبِ ۴۶۰۵،مسنداحمد۱۶۷۹۱،سنن الدارمی ۲۵۴۲، سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی إِبَاحَةِ الطَّعَامِ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ ۲۷۰۲،سنن نسائی کتاب الضحایابَابُ ذَبَائِحِ الْیَهُودِ۴۴۴۰

[60] المغنی لابن قدامة۲۷۸؍۹، نیل الاوطار ۳۴۴؍۷

[61] فتح الباری ۲۵۵؍۶

[62] آل عمران ۱۶۱

[63] صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیربَابُ الغُلُولِ ۳۰۷۳،  وکتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ  ۱۴۰۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ  بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ۴۷۳۴

[64] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۳۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ۳۱۰،سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی تَعْظِیمِ الْغُلُولِ۲۷۱۱

[65] صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر بَابُ القَلِیلِ مِنَ الغُلُولِ ۳۰۷۴،مسند احمد۶۴۹۳

[66] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ۳۰۹ ،جامع ترمذی ابواب السیربَابُ مَا جَاءَ فِی الغُلُولِ ۱۵۷۴

[67]سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی الْغُلُولِ إِذَا كَانَ یَسِیرًا یَتْرُكُهُ الْإِمَامُ وَلَا یُحَرِّقُ رَحْلَهُ ۲۷۱۲، مسنداحمد۶۹۹۶

[68] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی عُقُوبَةِ الْغَالِّ۲۷۱۵،مستدرک حاکم ۲۵۹۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۸۲۱۱

[69] الروضة الندیة۴۷۱؍۳

[70] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْحُدُودِبَابُ مَا جَاءَ فِی الغَالِّ مَا یُصْنَعُ بِهِ ۱۴۶۱،مستدرک حاکم۲۵۸۴،السنن الکبری للبیہقی۱۸۲۱۳

[71] میزان الاعتدال۳۰۰؍۲

Related Articles