ہجرت نبوی کا دوسرا سال

غزوہ قرقرة الکدر(بنی سلیم)

أَنّهُ بَلَغَهُ أَنّ بِهَا جَمْعًا مِنْ غَطَفَانَ وَسُلَیْمٍ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِیَّ، أَوْ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ،فَبَلَغَ مَاءً مِنْ مِیَاهِهِمْ، یُقَالُ لَهُ: الْكُدْرُ،  فَأَقَامَ عَلَیْهِ ثَلَاثَ لَیَالٍ ثُمَّ رَجَعَ إلَى الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا

ماہ شوال کے شروع میں  یاغزوہ بدرکے سات دن بعدیاپندرہ محرم تین ہجری کو آپ کوخبرملی کہ قبیلہ بنی سلیم اورغطفان ایک بھاری جمعیت کے ساتھ مسلمانوں  سے جنگ کے لئے تیار ہورہے ہیں ،اس اجتماع کی اطلاع پاکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں  سباع بن عرفطہ غفاری  رضی اللہ عنہ  یاابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہا  (عمروبن قیس بن زائدہ) کواپناقائم مقام مقرر فرمایا اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کوسفیدعلم عطا فرما کر بنفس نفیس دوسوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کی طرف خروج فرمایا،جب آپ چشمہ کدرپرپہنچے تومعلوم ہواکہ یہ لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خروج کی خبرپاکرپہلے ہی منتشرہوچکے ہیں ، حسب دستورآپ نے تین روزوہاں  قیام فرمایااوربغیرکسی مقابلے کے پندرہ دن بعد واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔[1]

وَأَرْسَلَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِی أَعْلَى الْوَادِی، وَاسْتَقْبَلَهُمْ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَطْنِ الْوَادِی، فَوَجَدَ رِعَاءً مِنْهُمْ غُلامٌ یُقَالُ لَهُ: یَسَارٌ، فَسَأَلَهُ عَنِ النَّاسِ؟ فَقَالَ: لا عِلْمَ لِی بِهِمْ، إِنَّمَا أُورِدُ لِخَمْسٍ، وَهَذَا یَوْمُ رَبعِیٌّ، وَالنَّاسُ ارْتَفَعُوا فِی الْمِیَاهِ، وَنَحْنُ عزابٌ فِی الْغَنَمِ، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ ظَفَرَ بِالنَّعَمِ، فَانْحَدَرَ بِهِ إِلَى الْمَدِینَة، وَاقْتَسَمُوا غَنَائِمَهُمْ بِصرار عَلَى ثَلاثَةِ أَمْیَالٍ مِنَ المدینة، وكانت النعم خمسمائة بَعِیرٍ

بعض روایت میں  ہےاس چشمہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کے تعاقب میں  ایک سریاروانہ فرمایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بطن وادی میں  ٹھیرے رہے،وہ لو گ غنیمت میں  پانچ سوسے زائداونٹ اورایک یسارنامی غلام پکڑکر لے آیاجس کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بعدمیں  آزاد فرمادیااورپانچ سو اونٹوں  اوردوسرے جانوروں  کومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرمقام صرارمیں  مجاہدین میں  تقسیم فرمادیا۔[2]

ابی عفک یہودی کاقتل

وَكَانَ أَبُو عَفَكٍ مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ شَیْخًا كَبِیرًا قَدْ بَلَغَ عِشْرِینَ وَمِائَةَ سَنَةٍ. وكان یهودیا. و كَانَ یُحَرّضُ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. ویقول الشعر. فَقَالَ سَالِمُ بْنُ عُمَیْرٍ. وَهُوَ أَحَدُ الْبَكّائِینَ وقد شهد بدرا:عَلَیّ نَذْرٌ أَنْ أَقْتُلَ أَبَا عَفَكٍ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ. فَأَمْهَلَ فَطَلَبَ لَهُ غِرّةً حَتّى كَانَتْ لَیْلَةٌ صَائِفَةٌ.فَنَامَ أَبُو عَفَكٍ بِالْفِنَاءِ وسَالِمُ بْنُ عُمَیْرٍ. فَأَقْبَلَ فَوَضَعَ السّیْفَ عَلَى كَبِدِهِ حَتّى خَشّ فِی الْفِرَاشِ. وَصَاحَ عَدُوّ اللهِ.فَثَابَ إلَیْهِ أُنَاسٌ مِمّنْ هُمْ عَلَى قَوْلِهِ، فَأَدْخَلُوهُ مَنْزِلَهُ وَقَبَرُوهُ.

قبیلہ بنی عوف بن عمرو کاایک بوڑھاابوعفک جومذہباًیہودی تھاجوایک سوبیس برس کاتھاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام کاسخت دشمن تھااورہمیشہ دوسروں  کواپنے اشعار اور گفتگوکے ذریعہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف اشتعال دلایاکرتاتھا، اس کی اسلام دشمنی میں  انتہاپسندی اور فتنہ انگیزیوں  کے باعث سالم بن عمیرنے جوبکثرت رونے والوں  میں  سے تھے اورغزوہ بدرمیں  شریک تھے نے کہامجھ پریہ نذرہے کہ یاتومیں  عفک کوقتل کروں  گایااس کے لئے مرجاؤں  گا،وہ ٹھہرے ہوئے اس کی غفلت کے انتظارمیں  تھے،گرمی کی ایک رات کوابوعفک میدان میں  سویا،سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ کواس کاعلم ہوگیاوہ سامنے آئے اورتلواراس کے سینے پررکھ کراس زورسے دبائی کہ سینہ چیرتی ہوئی اس کے بسترمیں  گھس گئی ،اللہ کاوہ دشمن وہ زورسے چلایااوراس کے ماننے والے دوڑتے چلے آئے اوراس کوگھرلے گئے اوردفن کردیا۔[3]

إنّ شَیْخًا مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ یُقَالُ لَهُ أَبُو عَفَكٍ، وَكَانَ شَیْخًا كَبِیرًا، قَدْ بَلَغَ عِشْرِینَ وَمِائَةَ سَنَةٍ حِینَ  قَدِمَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ،وَكَانَ یُحَرِّضُ عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَقُولُ الشِّعْرَفَلَمّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى بَدْرٍ رَجَعَ وَقَدْ ظفّره الله بما ظفّره،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  مَنْ لِی بِهَذَا الْخَبِیثِ؟ فَقَالَ سَالِمُ بْنُ عُمَیْرٍ، وَهُوَ أَحَدُ الْبَكّائِینَ مِنْ بَنِی النّجّارِ: عَلَیّ نَذْرٌ أَنْ أَقْتُلَ أَبَا عَفَكٍ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ،فَأَمْهَلَ فَطَلَبَ لَهُ غِرّةً، حَتّى كَانَتْ لَیْلَةٌ صَائِفَةٌ، فَنَامَ أَبُو عَفَكٍ بِالْفِنَاءِ فِی الصّیْفِ فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقْبَلَ سَالِمُ بْنُ عُمَیْرٍ، فَوَضَعَ السّیْفَ عَلَى كَبِدِهِ حَتّى خَشّ فِی الْفِرَاشِ، وَصَاحَ عَدُوّ اللهِ فَثَابَ إلَیْهِ أُنَاسٌ مِمّنْ هُمْ عَلَى قَوْلِهِ، فَأَدْخَلُوهُ مَنْزِلَهُ وَقَبَرُوهُ

ایک روایت میں  ہےابوعفک ایک سوبیس سال کابوڑھا یہودی تھاجوعصماء یہودیہ کی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں  اشعارکہتاتھااورلوگوں  کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر اکساتارہتاتھا،جب اس نے اخلاقیات کی ہرحدودکوپارکرلیاتوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  غزوہ بدرسے کامیاب وکامران واپس ہوئے تورسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکون ہے جومیرے لئے یعنی محض میری عزت وحرمت کے لئے اس خبیث کاکام تمام کردے؟سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ  جوبنی النجارمیں  سے تھےنےجواللہ تعالیٰ کے خوف سے بہت رونے والے تھے اوران پرگریہ وزاری کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی عرض کیااے اللہ کےرسول   صلی اللہ علیہ وسلم میں  نے پہلے ہی یہ نذرمانی ہوئی ہے کہ ابوعفک کوقتل کردوں  گا یا اس کوشش میں  خود قتل ہوجاؤں  گا،چنانچہ شوال ہی میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ  کوابوعفک یہودی کے قتل کرنے کے لئے روانہ فرمایا،گرمیوں  کے دن تھے سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ  رات کوتلوارلے کرابوعفک کے گھرکی طرف روانہ ہوئے، جب اندرداخل ہوئے تودیکھاکہ وہ بڑی غفلت کی نیند سویاہواہے ، سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ  نے وقت ضائع کیے بغیرتلواراس کے سینے پررکھی اوراتنے زورسے دبایاکہ سینہ چیرتی ہوئی بسترتک پہنچ گئی،ابوعفک نے موت کی آخری چیخ بلندکی جسے سن کر لوگ اس کی طرف دوڑے مگران کے پہنچنے تک وہ جہنم کے گڑھے میں  پہنچ چکاتھا۔[4]


غزوہ بنی قینقاع

پندرہ شوال یوم شنبہ دوہجری

غزوہ بدر کے بعدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکے تینوں  قبائل کے ساتھ باہمی امن اوربھائی چارہ کامعاہدہ فرمایاتھا،اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جوعہدکی پابندی فرماتے تھے ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ان کی طرف سے کوئی بات خلاف معاہدہ نہ ہونے پائے اورمحبت ویگانیت کی فضاقائم رہے ،مگریہودیوں  کی پوری تاریخ ہی جھوٹے پروپیگنڈے ، عیاری ومکاری ،سازشوں اورعہدشکنی سے بھری ہوئی ہے،جولوگ پیغمبروں  کوناحق قتل کرڈالیں  اورانہیں  اللہ سے خوف نہ لگے،جو اللہ سے کیے ہوئے بے شمار عہدوں کی پرواہ نہ کریں  وہ انسانوں  سے کیے ہوئے معاہدوں  کی کیاپرواہ کرتے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل یہ اپنی مطلب برداری کے لئے اوس وخزرج میں  باہمی دشمنیاں  بھڑکاتے رہتے تھے،مگر جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے تواللہ کی رحمت اوردین اسلام کی برکتوں  سے دونوں  قبائل اسلام قبول کرکے اپنی پرانی رنجشیں  بھلاکر باہم شیرو شکر ہوگئے اور یہود کٹ کررہے گئے،چنانچہ یہوداپنی فطری جبلیت کے تحت بہت جلد اس معاہدے سے منحرف ہوگئے اوردونوں  قبائل کوپھرسے بھڑکانے لگے تاکہ دونوں  قبائل کی مشترکہ طاقت میں  دراڈ پڑجائے ،مدینہ منورہ میں  پھرسے ہنگامے پھوٹ پڑیں  جس سے دین اسلام کوضعف پہنچے،اس کوشش میں  بہت سے یہودی مشہور ہیں  ، مثلا ًحیی بن اخطب، ابویاسرسلام بن مثکم ،کنانہ بن ربیع ،کعب بن اشرف معبداللہ بن صوریا،ابن صلوبا،مخریق (یہ بعدمیں  مسلمان ہوگئے)لبیدبن اعصم (جس کے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیاتھا )مالک بن صلت (جس نے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اوران پرنازل کتاب قرآن مجیدسے بغض وعداوت میں  یہاں  تک کہہ ڈالا تھا کہ اللہ نے آج تک کسی بشرپرکوئی کلام نازل نہیں  کیا،اس طرح اس نے اپنے انبیاء اوران پرنازل تمام کتابوں  کاانکارکردیا)عبداللہ بن ابی الحقیق (جس کی کنیت ابو رافع تھی )

وَمَرَّ شَاسُ بْنُ قَیْسٍ، وَكَانَ شَیْخًا قَدْ عَسَا ، عَظِیمَ الْكُفْرِ شَدِیدَ الضَّغَنِ عَلَى الْمُسْلِمِینَ، شَدِیدَ الْحَسَدِ لَهُمْ،عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ. فِی مَجْلِسٍ قَدْ جَمَعَهُمْ، یَتَحَدَّثُونَ فِیهِ،فَغَاظَهُ مَا رَأَى مِنْ أُلْفَتِهِمْ وَجَمَاعَتِهِمْ، وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِهِمْ عَلَى الْإِسْلَامِ، بَعْدَ الَّذِی كَانَ بَیْنَهُمْ مِنْ الْعَدَاوَةِ فِی الْجَاهِلِیَّةِ،. فَقَالَ: قَدْ اجْتَمَعَ مَلَأُ  بَنِی قَیْلَةَ بِهَذِهِ الْبِلَادِ، لَا وَاَللَّهِ مَا لَنَا مَعَهُمْ إذَا اجْتَمَعَ مَلَؤُهُمْ بِهَا مِنْ قَرَارٍفَأَمَرَ فَتًى شَابًّا مِنْ یَهُودَ كَانَ مَعَهُمْ، فَقَالَ: اعْمِدْ إلَیْهِمْ، فَاجْلِسْ مَعَهُمْ، ثُمَّ اُذْكُرْ یَوْمَ بُعَاثَ  وَمَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنْشِدْهُمْ بَعْضَ مَا كَانُوا تَقَاوَلُوا فِیهِ مِنْ الْأَشْعَارِ فَغَضِبَ الْفَرِیقَانِ جَمِیعًا، وَقَالُوا: قَدْ فَعَلْنَا، مَوْعِدُكُمْ الظَّاهِرَةُ- وَالظَّاهِرَةُ: الْحرَّةُ- السِّلَاحَ السِّلَاح

انہی لوگوں میں  ایک نہایت عمررسیدہ شخص شاس بن قیس بھی تھا جوبڑا ہی متعصب یہودی تھااورمسلمانوں  کے خلاف بڑابغض وعنادرکھتاتھا،یہ مسلمانوں  پرطعن وتشنیع کرتا رہتا اور لوگوں  کواسلام سے برگشتہ اورانہیں  مرتدکرنے میں  بہت انہماکی رکھتاتھا،اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اوس وخزرج کی ایک مشترکہ جماعت کے پاس سے گزرا جو بڑے آرام سے بیٹھے دین ودنیاکی باتیں  کررہے تھے،دونوں  قبائل کے لوگوں  کواس طرح الفت ویگانیت سے بیٹھادیکھ کراس کے دل میں  آگ لگ گئی، اس نے یہ موقعہ غنیمت جانا اوران میں  عصبیت کابیج بونے کاخیال کیا، عصبیت چاہے زبان کی ہو، علاقہ کی ہو یا قوم کی ہونہایت ہی خطرناک سوچ ہے،اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیت کو پسند نہیں  فرمایا چنانچہ شاش بن قیس نے اپنے ساتھی کواشارہ کیاکہ وہ اس مجلس میں  جاکربیٹھے اورموقعہ پاکرجنگ بعاث اوراس جنگ سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ چھیڑدے اور دونوں  قبائل نے ایک دوسرے کے بارے میں  جوکچھ کہاہے اس کابھی ذکرکردے،یہ جنگ اوس اورخزرج کے درمیان ہوئی تھی اوراوس کاغلبہ رہاتھااوردونوں  قبیلوں  کے سرداریعنی اوس کاسردارابواسیدبن حضیربن سماک شہلی اورخزرج کاسردارعمروبن معمان بیاضی دوں  قتل ہوگئے تھے مگراب یہ دونوں  قبیلے یعنی اوس اورخزرج مسلمان ہیں  اور ان کی آپس میں  محبت اورالفت ہے،اس کے یہودی ساتھی نے جوشاش بن قیس سے کم نہ تھابڑی خوبصورتی سے جنگ بعاث ،دوسرے واقعات اوردونوں  قبائل کی ایک دوسرے کے خلاف باتوں  کاذکرچھیڑدیا ،جس سے دونوں  قبائل میں  جوآرام وسکون سے باتوں  میں  مصروف تھے .عصبیت کی آگ بھڑک اٹھی،اوردونوں  طرف کے لوگ ایک دوسرے پراپنافخرجتلانے لگے ،اورایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور معاملہ یہاں  تک پہنچ گیاکہ ایک فریق نے جنگ کے لئے اپنے قبیلہ اوس کو پکارا تو دوسرے فریق نے اپنے قبیلہ خزرج کوپکارا،چنانچہ دونوں  طرف کے لوگ اپنے جنگی ہتھیارلے کرحرہ کی طرف دوڑ پڑے

 فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إلَیْهِمْ فِیمَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُهَاجِرِینَ حَتَّى جَاءَهُمْ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، اللهَ اللهَ، أَبِدَعْوَى الْجَاهِلِیَّةِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ بَعْدَ أَنْ هَدَاكُمْ اللهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَكْرَمَكُمْ بِهِ، وَقَطَعَ بِهِ عَنْكُمْ أَمْرَ الْجَاهِلِیَّةِ، وَاسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَلَّفَ بِهِ بَیْنَ قُلُوبِكُمْ،فَعَرَفَ الْقَوْمُ أَنَّهَا نَزْغَةٌ  مِنْ الشَّیْطَانِ، وَكَیْدٌ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَبَكَوْا وَعَانَقَ الرِّجَالُ مِنْ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، ثُمَّ انْصَرَفُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَامِعِینَ مُطِیعِینَ، قَدْ أَطْفَأَ اللهُ عَنْهُمْ كَیْدَ عَدُوِّ اللهِ شَأْسِ بْنِ قَیِّسْ

مگرعصبیت کی اس خونریز جنگ سے قبل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبرہوگئی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم فوراًاپنے مہاجرین صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ ان کے پاس پہنچ گئے اور فرمایااے گروہ مسلم ! اللہ کویادکرو،اللہ کویادکرو،کیااسلام قبول کرنے کے بعداورمیرے ہوتے ہوئے جاہلیت وعصبیت کے دعوے کرتے ہو،جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں  اسلام کے ذریعہ سے ہدایت سے سرفرازفرمایاہے اور تم سے جاہلیت کے معاملات کاٹ کراورکفروشرک سے نکال کرتمہارے دلوں  کوآپس میں  جوڑ چکا ہے ، کیاتم پھرکفرکی طرف لوٹ جاؤگے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کردونوں  فریقوں  کو احساس ہواکہ یہ تو یہودیوں  کی ایک خطرناک سازش،مکروفریب اورشیطانی چال تھی،جب انہیں  اپنی غلطی کااحساس ہوا تو اپنی حماقت پررونے اورایک دوسرے کو پکڑ پکڑکرگلے لگانے لگے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں  کے دشمن شاش بن قیس یہودی کی عیاری ومکاری کی آگ کوٹھنڈا فرما دیا تھا ۔[5]

پھردونوں  فریق باہم الفت ومحبت کے جذبے میں  ڈوب کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ واپس مدینہ لوٹ آئے ،اسی شاش بن قیس کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی ۔

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُهَدَاۗءُ۝۰ۭ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۹۹ [6]

ترجمہ:کہو اے اہل کتاب !یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم خود ( اس کے راہِ راست ہونے پر ) گواہ ہو ،تمہاری حرکتوں  سے اللہ غافل نہیں  ہے ۔

اورانصارکی شان میں  یہ آیت نازل فرمائی ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ۝۱۰۰وَكَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَفِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ۝۰ۭ وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ۝۱۰۱ۧیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ [7]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!اگرتم نے ان اہل کتاب میں  سے ایک گروہ کی بات مانی تویہ تمہیں  ایمان سے پھرکفرکی طرف پھیرلے جائیں  گے، تمہارے لئے کفرکی طرف جانے کااب کیاموقع باقی ہے جب کہ تم کواللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں  اورتمہارے درمیان اس کارسول موجودہے؟جواللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گاوہ ضرورراہ راست پالے گا،اے لوگو!جوایمان لائے ہواللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے تم کوموت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ تم مسلم ہو،سب مل کراللہ کی رسی کو(یعنی دین کو)مضبوط پکڑلواورتفرقہ میں  نہ پڑو،اللہ کے اس احسان کویادرکھوجواس نے تم پرکیاہے،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑدیئے اوراس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے،تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ نے تم کواس سے بچالیا،اس طرح اللہ اپنی نشانیاں  تمہارے سامنے روشن کرتاہے شایدکہ ان علامتوں  سے تمہیں  اپنی فلاح کاسیدھاراستہ نظرآئے۔

جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدرکے لئے تشریف لے گئے تویہی یہودی اور عبداللہ بن ابی بن سلول جوبڑاحسین وجمیل،گدازجسم اورفصیح البیان شخص تھا جس کے ساتھ اوس وخزرج کے تین سو ساتھی تھے، جنہیں  یقین تھاکہ قریش کاکیل کانٹے سے لیس بڑا لشکر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے اصحاب کو دنیاسے مٹادیں  گے ، اس لئے وہ اس مقابلے کی خبرکے بے چینی سے منتظرتھےکہ کب یہ اطلاع ملتی ہے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں  سمیت کفارسے لڑتے ہوئے فناہو گئے ہیں ،اس لئے انہوں  نے مسلمانوں  کی شکست اوررسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پروپیگنڈاکیاتھاجس سے مسلمانوں  میں  بڑااضطراب پیدا ہوا مگرجب انہیں  قریش مکہ کی عبرت ناک شکست اورقلیل التعدادبے سروساماں  مسلمانوں  کی فتح ونصرت کی خبر ہوئی تو ان کے دلوں  میں  مزیدبغض وعنادپیداہوگیا،یہود نے اپنی عیاری ومکاری ، چالبازیوں  کے زریعہ باربارکھلم کھلاعہدشکنی کامظاہرہ کیا،جب یہ سامنے ہوتے تودوستی اور محبت کادم بھرتے اورپیٹھ پیچھے اسلام کاگلاگھوٹنے کی سازشیں  کرتے،مشرکوں  سے بھی سلام وپیام جاری تھا،غزوہ بدرمیں  مسلمانوں  کی فتح ہوئی توان کے لئے یہ دورخی پالیسی دشوار ہوگئی ،اب ان کے سینوں  میں  غیرت کی آگ سلگنے لگی،دل حسدوبغض سے پکنے لگے،ان کی عقلیں  حیران تھیں ،محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )نے ہم سے معاہدہ کرلیا،صلح ودوستی سے ہم کوہموار کرلیا، پھردیکھتے ہی دیکھتے اپنے دین کواتناچمکادیاکہ گھرگھراسلام کاچراغ روشن ہوگیا،یہی نہیں  وہ ہتھیارلگاکرمیدان میں  آتے ہیں  مشرکوں  اورظالموں  سے ٹکر بھی لیتے ہیں  اوراللہ ان کوفتح مندبھی کرتاہے،اس طرح عرب قبائل پران کی دھاک بیٹھ جاتی ہے،سارے لوگ ان سے ڈرنے اورلرزنے لگتے ہیں  ، یہودی بھلااس کوٹھنڈی آنکھوں  کیسے دیکھ سکتے تھےیہ توان کے لئے خطرہ کی گھنٹی تھی،اب وہ کھل کرسامنے آگئے،ریااورنفاق کانقاب انہوں  نے اتارپھینکا،اب وہ مسلمانوں  کے لئے ننگی تلواربن گئے اوران کی کھلے بندوں  مخالفت کرنے لگے،لوگوں  کوان کے خلاف جوش دلاتے ،اشعارمیں  ان کی ہجوکرتے ،کڑوی کسیلی باتوں  سے ان کادل چھیدتے،الغرض انہوں  نے معاہدہ کی کوئی پرواہ نہیں  کی ،صلح کاکوئی احترام نہ کیا،سب سے زیادہ شریر عبداللہ بن سلام  رضی اللہ عنہ  کے قبیلہ بنی قینقاع کے لوگ تھے جن کاپیشہ زرگری تھااس لئے ان کے پاس کافی مال ودولت تھاجس سے انہوں  نے سامان جنگ اکھٹاکر رکھاتھا، اس قبیلہ کے لوگ نہایت بہادرو دلیر تھے اوران میں  لڑنے والے مردوں  کی تعداد تقریباًسات سوتھی ،یہ لوگ مدینہ منورہ کے مضافات میں  ایک قلعہ میں  رہتے تھے،چنانچہ مسلمان مردوں  میں  سے جب کوئی اپنی ضرورت سے ان کے بازارمیں  جاتاتویہ اس شخص کامذاق اڑاتے اورکسی نہ کسی طرح انہیں  تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ،پھر ان کادائرہ مسلمان عورتوں  کی طرف بھی بڑھ گیااورانہوں  نے مردوں  اور عورتوں  کے ساتھ اس طرح کا یکساں  معاملہ کرنا شروع کردیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کویہودکے  اس طرزعمل کی خبرملتی رہتی تھی مگرکچھ عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاموشی اختیارفرمائی کہ شایدان کے دلوں  میں  کچھ خوف پیدا ہو جائے اوراپنی غلیظ حرکتوں  سے بازآجائیں

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَهُمْ بِسُوقِ (بَنِی)  قَیْنُقَاعَ،ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، احْذَرُوا مِنْ اللهِ مِثْلَ مَا نَزَلَ بِقُرَیْشٍ مِنْ النِّقْمَةِ، وَأَسْلِمُوا فَإِنَّكُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ أَنِّی نَبِیٌّ مُرْسَلٌ،تَجِدُونَ ذَلِكَ فِی كِتَابِكُمْ وَعَهْدِ اللهِ إلَیْكُمْ،قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، إنَّكَ تَرَى أَنَّا قَوْمُكَ! لَا یَغُرَّنَّكَ أَنَّكَ لَقِیتَ قَوْمًا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِالْحَرْبِ، فَأَصَبْتَ مِنْهُمْ فُرْصَةً، إنَّا وَاَللَّهِ لَئِنْ حَارَبْنَاكَ لَتَعْلَمَنَّ أَنَّا نَحْنُ النَّاسَ

مگریہ سلسلہ جب درازہونے لگاتو شوال کی پندرہ یا سولہ تاریخ بروزشنبہ کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں  کووعظ ونصیحت کرنے کے لئے ان کے بازاربنی قینقاع میں  تشریف لے گئے اورسب یہودکوجمع فرما کر ایک ہمدرداورخیرخواہ کی طرح ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے گروہ یہود! اللہ سے ڈرو،جیسے غزوہ بدرمیں  قریش پراللہ کاعذاب نازل ہواہے کہیں  تم پر بھی ایسا عذاب نازل نہ ہو جائے ،اسلام قبول کرلو تم خوب اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہوکہ میں  اللہ کا سچا نبی اوراس کارسول ہوں    جس کوتم اپنی کتاب (توریت) میں  لکھا ہواپاتے ہواوراللہ نے تم سے اس کا عہدبھی لیاہواہے، بنی قینقاع جوطاقت کے نشے میں  چور تھے آپ کی بات کی کوئی پرواہ نہ کی اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وعظ پر مشتعل ہوگئے اوراپنی کتابی معلومات ،اپنی عددی کمتری،اورمسلمانوں  کے ساتھ بودوباش  کے باوجود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو درشتی سے جواب دیااورادب واحترام کی حدودتجاوزکرکے اپنی بہادری کی بڑائی مارنے لگے،کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم قریش کوقتل کرکے کسی دھوکے میں  نہ رہناوہ لوگ لڑائی کے فنون سے بالکل ناواقف اورجاہل تھے،ان پرتم نے غلبہ پالیا،اللہ کی قسم!تم نے اگرہم سے جنگ کی توتم کوہماری کیفیت معلوم ہوگی کہ ہم کیسے ہیں ۔[8]

عہدشکنی اوردشمنی کاکھلااعلان تھا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوکوئی اورجواب دینے کے بجائے اپناغصہ ضبط کرلیااورواپس تشریف لے آئے،اب مسلمانوں  اوریہودیوں  کے تعلقات بگڑگئے مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے کوئی تادیبی کاروائی نہ ہونے کے سبب یہودیوں  کی جرات اوربڑگئی اور انہوں  نے مدینہ منورہ میں  ہنگامے کھڑے کر لئے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوتلقین فرمائی کہ اگرتم نے ان اہل کتاب میں  سے ایک گروہ کی بات مانی جو مسلمانوں  سے ان نعمتوں  کی وجہ سے حسدرکھتے ہیں  جن سے اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنے فضل وکرم سے نوازاہے تویہ تمہیں  ایمان سے پھرکفرکی طرف پھیرلے جائیں  گے، اورتمہارے درمیان اس کارسول موجودہے؟جیسے فرمایا

وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا۝۰ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۰۹ [9]

ترجمہ:ہل کتاب میں  سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ کسی طرح تمہیں  ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں  اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے، اس کے جواب میں  تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں  تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے، مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

تمہارے لئے کفرکی طرف جانے کااب کیاموقع باقی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ رات دن اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر آیات نازل فرمارہاہےاوروہ ان آیات کوتم پرتلاوت فرمارہے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ۝۰ۚ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۸ [10]

ترجمہ:تمہیں  کیا ہو گیا ہے کہ تم پر ایمان نہیں  لاتے حالانکہ رسول تمہیں  رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو ۔

جواللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گاوہ ضرورراہ راست پالے گا،اے لوگو!جوایمان لائے ہواللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ: اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ،  قَالَ: أَنْ یُطَاعَ فَلَا یُعْصَى ،وَأَنْ یُذْكَرَ فَلَا یُنْسَى، وَأَنْ یُشْكَرَ فَلَا یُكْفَرَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے’’ اللہ سے ڈروجیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے۔‘‘ کے بارے میں  فرمایااللہ سے ڈرنے کاحق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اورنافرمانی نہ کی جائے،اسے یادرکھاجائے اوربھولانہ جائے  اوراس کاشکراداکیاجائے اورکفرنہ کیاجائے۔[11]

تم کوموت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ تم مسلم ہو،یعنی تمہاری زندگی کاخاتمہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین سلام پرہی ہوکیونکہ جس شخص کی جس حالت میں  موت واقع ہوگی اسے اسی کے مطابق قبرسے اٹھایاجائے گا،

عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ النَّاسَ كَانُوا یَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ، وَابْنُ عَبَّاسٍ جَالِسٌ مَعَهُ مِحْجَنٌ ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}  وَلَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ، لَأَمَرَّتْ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ عَیْشَهُمْ، فَكَیْفَ مَنْ لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا الزَّقُّومُ

مجاہد رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ لوگ بیت اللہ کاطواف کررہے تھے،عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما بھی اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اورآپ کے پاس ایک چھڑی بھی تھی،آپ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت کریمہ’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ تم مسلم ہو۔ ‘‘ کی تلاوت کی اورفرمایا اوراگر(جہنم کے)تھوہرکے درخت کاایک قطرہ گرا دیا جائے تووہ تمام روئے زمین کے لوگوں  کی زندگی تلخ کردے توان لوگوں  کاکیاحال ہوگاجن کاکھاناہی تھوہرہوگا۔ [12]

 عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ یَقُولُ: لَا یَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ یُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ

اورجابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو وصال سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں  سے جس شخص کو بھی موت آجائے وہ اس حال میں  ہو کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔[13]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ اللهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِی، فَإِنْ ذَكَرَنِی فِی نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِی نَفْسِی، وَإِنْ ذَكَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْهُمْ،  وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا  وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا  وَإِنْ أَتَانِی یَمْشِی أَتَیْتُهُ هَرْوَلَةً

اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں  اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں  جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے، اور میں  اس کے ساتھ ہوں  جب وہ مجھے یاد کرےاگر وہ مجھے اپنے دل میں  یاد کرتا ہے تو میں  بھی اس کو اپنے دل میں  یاد کرتا ہوں ،اور اگر مجھے جماعت میں  یاد کرے تو میں  بھی اسے ایسی جماعت میں  یاد کرتا ہوں  جو ان سے بہتر ہے(یعنی فرشتوں  کے مجمع میں )اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں  ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں  اس سے دونوں  ہاتھوں  کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں   اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں  اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔[14]

سب مل کراللہ کی رسی کو(یعنی دین کو)مضبوط پکڑلو،یعنی اجتماعیت اختیار کرو اورتفرقہ بازی میں  نہ پڑو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ اللهَ یَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا، وَیَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا  فَیَرْضَى لَكُمْ، أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا،  وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(وَأَنْ تُنَاصِحُوا مَنْ وَلَّى اللهُ أَمَرَكُمْ)وَیَكْرَهُ لَكُمْ،  قِیلَ وَقَالَ،وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں  سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں  کو ناپسند کرتا ہےجن باتوں  سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں ، تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرواور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہواورجن کواللہ تعالیٰ نے تمہاراحکمران بنادے ان کی خیرخواہی کرو  اور تم سے جن باتوں  کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو  اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں ۔[15]

خط کشیدہ الفاظ السنن الکبری للبیہقی میں  ہیں ۔

اورقبیلہ اوس وخزرج جن میں  سوبرس سے برابرلڑائی چلی آتی تھی کے بارے میں  فرمایا اللہ کے اس احسان کو یادرکھوجواس نے تم پرکیاہے،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑدیئے اوراس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۝۶۲ۙوَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۶۳ [16]

ترجمہ:وہی توہے جس نے اپنی مددسے اورمومنوں  کے ذریعہ سے تمہاری تائیدکی اورمومنوں  کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑدیئے،تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کرڈالتے توان لوگوں  کے دل نہ جوڑسکتے تھے مگروہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں  کے دل جوڑے،یقیناًوہ بڑازبردست اور داناہے۔

تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ نے تم کوجہنم سے بچالیااورایمان کی ہدایت سے نوازا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ حنین کامال غنیمت تقسیم فرمایا اورکچھ لوگوں  کواللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت کے مطابق کچھ زیادہ عطافرمادیاتو توکچھ لوگوں  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اعتراض کیاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  خطبہ دیتے ہوئے فرمایا

یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ  اللهُ بِی  ،  وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فَأَلَّفَكُمُ اللهُ بِی،  وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللهُ بِی،  كُلَّمَا قَالَ شَیْئًا قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ

اے گروہ انصار! کیا میں  نے تم کو گمراہ نہیں  پایا تھا؟ تو اللہ نے میری وجہ سے تمہیں  ہدایت بخشی، اور تم میں  نا اتفاقی تھی تو اللہ نے میری وجہ سے تم میں  الفت پیدا کردی،  کیا تم فقیر نہیں  تھے؟ تو اللہ نے میری وجہ سے تمہیں  مالدار بنایا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کچھ فرماتے تو انصار عرض کرتے کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے۔[17]

اس طرح اللہ اپنی نشانیاں  تمہارے سامنے روشن کرتاہے شایدکہ ان علامتوں  سے تمہیں  اپنی فلاح کاسیدھاراستہ نظرآئے۔

قُلْ لِّـلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ۝۱۲قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا۝۰ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ۝۰ۭ وَاللهُ یُـؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ۝۱۳ [18]

ترجمہ:ان سے کہہ دوکہ قریب ہے وہ وقت جب تم مغلوب ہوجاؤگے اورجہنم کی طرف ہانکے جاؤگے اورجہنم بڑاہی براٹھکانہ ہے،تمہارے لئے ان دوگروہوں  میں  ایک نشان عبرت تھاجو(بدرمیں )ایک دوسرے سے نبردآزماہوئے ،ایک گروہ اللہ کی راہ میں  لڑرہاتھااوردوسراگروہ کافرتھا،دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافرگروہ مومن گروہ سے دوچندہے مگر(نتیجے نے ثابت کردیاکہ)اللہ اپنی فتح ونصرت سے جس کوچاہتاہے مدددیتاہے،وہ دیدہ بینارکھنے والوں  کے لئے اس میں  بڑاسبق پوشیدہ ہے۔

أَنَّ امْرَأَةً مِنْ الْعَرَبِ قَدِمَتْ بِجَلَبٍ  لَهَا، فَبَاعَتْهُ بِسُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعَ، وَجَلَسَتْ إلَى صَائِغٍ بِهَا، فَجَعَلُوا یُرِیدُونَهَا عَلَى كَشْفِ وَجْهِهَا، فَأَبَتْ، فَعَمِدَ الصَّائِغُ إلَى طَرَفِ ثَوْبِهَا فَعَقَدَهُ إلَى ظَهْرِهَا فَلَمَّا قَامَتْ انْكَشَفَتْ سَوْأَتُهَا، فَضَحِكُوا بِهَا، فَصَاحَتْ،فَوَثَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ عَلَى الصَّائِغِ فَقَتَلَهُ، وَكَانَ یَهُودِیًّا، وَشَدَّتْ الْیَهُودُ عَلَى الْمُسْلِمِ فَقَتَلُوهُ، فَاسْتَصْرَخَ أَهْلُ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمِینَ عَلَى الْیَهُودِ، فَغَضِبَ الْمُسْلِمُونَ،فَوَقَعَ الشَّرُّ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ بَنِی قَیْنُقَاعَ

ایک مجمل روایت ہے ایک عورت اپناچہرہ ڈھانپ کر بنوقینقاع کے بازارمیں  دودھ بیچنے کے لئے آئی ، دودھ بیچ کروہ ایک یہودی زرگرکے پاس اپنی پازیب فروخت کرنے کے لئے آبیٹھی ، یہودی زرگرنے اس عرب عورت سے اپناچہرہ کھولنے کے لئے کہامگراس عورت نے اپناچہرہ کھولنے سے انکارکردیایہودی زرگرنے اس عورت کو باتوں  میں  لگاکربڑی خوبصورتی سے اس کے دامن کواٹھاکراس کی پشت پرباندھ دیااورعورت کواس کی مطلق خبرنہ ہوئی،جب وہ جانے کے لئے کھڑی ہوئی تویہودی زرگرکی بدمعاشی کی وجہ سے اس کاسترکھل گیاجس پر یہودیوں  نے اس عورت پرقہقہے لگانے شروع کردیئے اوراس عورت کی خوب ہنسی اڑائی،اپنی ایسی تذلیل دیکھ کرعرب عورت نے چیخ وپکارمچاناشروع کردیا ،ایک مسلمان نے جب ایک عورت کی دھائی سنی تواس نے اس زرگرپرحملہ کرکے جہنم وصل کردیا،یہودیوں  نے ایک اکیلے مسلمان کواپنے ساتھی کو قتل کرتے دیکھا تویکبارگی سب اس پرٹوٹ پڑے اوراس مسلمان کوبھی شہیدکرڈالا،اس مسلمان کے گھروالوں  نے دوسرے مسلمانوں  سے یہودیوں  کے خلاف مددچاہی  جس کے نتیجے میں  مسلمانوں  اور یہودیوں  کے مابین بلوہ ہوگیا۔[19]

اس روایت کوابن اسحاق ،طبری اورابن سعدنے روایت نہیں  کیا،اس روایت میں  نہ تواس عورت ، زرگراوراس مسلمان کانام جس نے یہودی کوقتل کیاتھابھی نہیں  ہے،اس لئے یہ مجمل روایت شک وشبہ سے بالاترنہیں ۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضبط وصبرکاپیمانہ لبریزہوگیا

 فقال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أنا أخاف من بنی قینقاع

تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے بنی قینقاع سے اندیشہ ہے۔[20]

فَسَارَ إِلَیْهِمْ وَلِوَاؤُهُ بِیَدِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ المطلب، وكان أبیض، وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ ثُمَّ سار إلیهم ، فَحَاصَرَهُمْ أَشَدَّ الْحِصَارِ، حَتَّى قَذَفَ اللهُ فِی قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ،فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لِرَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمْوَالَهُمْ، وَأَنَّ لَهُمُ النِّسَاءَ وَالذُّرِّیَةَ ،وَاسْتَعَمَل عَلَى كِتَافِهِمُ الْمُنْذِرَ بْنَ قُدَامَة السُّلَمِیَّ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپناسفیدجھنڈاسیدالشہداءحمزہ بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  کوعطا فرمایا اورمدینہ میں  ابولبابہ بن عبدالمنذرانصاری  رضی اللہ عنہ  کو اپناقائم مقام بنایااوربنی قینقاع کی طرف خروج فرمایا ، آپ بروز جمعہ پندرہ شوال دوہجری کوان کے علاقہ میں  پہنچے مگریہ لوگ لڑنے کے بجائے بزدلوں  کی طرح قلعہ بند ہو گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کاسختی سے محاصرہ کرلیا جوپندرہ شوال سے یکم ذی القعدہ تک جاری رہا اس دوران نہ کوئی قلعہ کے اندرجاسکااورنہ ہی کوئی اندرسے  باہرآسکا، جب قلعہ میں  جمع راشن اور پانی وغیرہ ختم ہوگیااور وہ لوگ بھوکے پیاسے رہنے لگےاوراللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ان کے دلوں  میں  رعب ڈال دیا،تو مجبور وبے بس ہو کراس شرط پرقلعہ کادروازہ کھول دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان ومال ،آل واولاداورعورتوں  کے بارے میں  جوفیصلہ کریں  گے وہ انہیں  منظورہوگا اور خودکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حوالے کردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشکیں  کسنے پر منذربن قدامہ  رضی اللہ عنہ  السلمی کومامورفرمایا تاکہ عہدشکنی اور گستاخی کے بارے میں  کوئی فیصلہ کیاجائے جس کی سزاقتل ہوسکتی تھی،

 فَقَامَ إلَیْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیّ ابْنُ سَلُولَ، حِینَ أَمْكَنَهُ اللهُ مِنْهُمْ فَقَالَ یَا مُحَمّدُ أَحْسِنْ فِی مُوَالِیّ وَكَانُوا حُلَفَاءَ الْخَزْرَجِ، قَالَ فَأَبْطَأَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟فَقَالَ یَا مُحَمّدُ أَحْسِنْ فِی مُوَالِیّ قَالَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ،فَأَدْخَلَ یَدَهُ فِی جَیْبِ دِرْعِ رَسُولِ اللهِ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْنِی، وَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتّى رَأَوْا لِوَجْهِهِ ظُلَلًا ثُمّ قَالَ وَیْحَك أَرْسِلْنِی، قَالَ لَا وَاَللهِ لَا أُرْسِلَك حَتّى تُحْسِنَ فِی مُوَالِیّ أَرْبَعِ مِائَةِ حَاسِرٍ وَثَلَاثِ مِائَةِ دَارِعٍ قَدْ مَنَعُونِی مِنْ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ تَحْصُدُهُمْ فِی غَدَاةٍ وَاحِدَةٍ إنّی وَاَللهِ امْرِئِ أَخْشَى الدّوَائِرَ  قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُمْ لَك

جب اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان پرغلبہ وقدرت عطا فرمادی تورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول نے ان عہدشکن اورشریر لوگوں  سے(جن سے خزرج کے حلیفانہ تعلقات تھے) اظہاربیزاری کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے الحاح وزاری سے ان گستاخوں  کی درگزرکرنے اورجان بخشی کی گزارش کرنے لگااس نے گزارش کی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میرے موالی کے ساتھ احسان فرمائیں  اوریہ سب بنی خزرج کے حلفاءتھے مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا،تواپنی درخواست کودوبارہ دہرایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میرے موالی کے ساتھ احسان فرمائیں ،اس باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اظہار ناراضگی اور ناپسنددگی کی وجہ سے اپناچہرہ مبارک اس کی طرف سے پھیرلیا(جس کی طرف غصہ و ناپسنددیدگی سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اپناچہرہ پھیرلیں  اس کے انجام کااندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے )مگراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناراضگی کی کوئی پرواہ نہ کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ کی جیب میں  ہاتھ ڈال کرآپ کوگرفت میں  لے لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے چہرہ کارنگ بدل گیااورآپ نے غضبناک ہوکر کہامجھے چھوڑدومگراس پراب بھی کوئی اثرنہ ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر فرمایاتجھ پرافسوس مجھے چھوڑلیکن یہ رئیس المنافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ کے باوجود اپنی درخواست پراصرارکرتا رہا اورکہتارہاکہ میرے حلیفوں  کے بارے میں  مجھ پراحسان کریں ، یہ چارسوخوبصورت جسموں  والے جوان اورتین سوزرہ پوشوں  جنہوں  نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایاتھا جنہیں  آپ ایک ہی دن میں  تہہ تیغ کردیں  گے ، واللہ مجھے دوسری جماعتوں  کے اٹھ کھڑے ہونے کاخطرہ ہے،بالآخر تنگ آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی درخواست منظورفرمالی۔[21]

فكلم فیهم عَبْد الله بْن أَبِی رَسُول اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وألح عَلَیْهِ فَقَالَ: خَلّوهُمْ، لَعَنَهُمْ اللهُ، وَلَعَنَهُ مَعَهُمْ! وتَرَكَهُمْ مِنْ الْقَتْلِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ یَخْرُجُوا مِنَ الْمَدِینَةِ، وَلَا یُجَاوِرُوهُ بِهَا، فَخَرَجُوا إِلَى أَذْرُعَاتٍ مِنْ أَرْضِ الشَّامِ، فَقَلَّ أَنْ لَبِثُوا فِیهَا حَتَّى هَلَكَ أَكْثَرُهُمْ

عمربن قتادہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےعبداللہ بن ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ان کی جان بخشی پر بہت اصرارکیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاانہیں  چھوڑدواللہ ان پراوران کے ساتھ اس شخص پربھی لعنت کرے،پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی جان بخشی کر دی اورحکم دیاکہ انہیں   مدینہ منورہ سے جلاوطن کر دیا جائے اور عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  کوان کی جلاوطنی کانگران مقرر فرمایاچنانچہ تین دن کے اندر یہ لوگ اپنے بال بچوں  سمیت مدینہ سے نکل گئے اور شام کے مقام اذرعات پہنچے، یہاں  کاموسم انہیں  راس نہ آیا اورکچھ ہی دنوں  میں  اکثرکی موت واقع ہوگئی۔[22]

وَوَجَدُوا فِی حُصُونِهِمْ سِلَاحًا كَثِیرًاوَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سِلَاحِهِمْ ثَلَاثَ قِسِیّ، قَوْسٌ تُدْعَى الْكَتُومَ كُسِرَتْ بِأُحُدٍ، وَقَوْسٌ تُدْعَى الرّوْحَاءَ، وَقَوْسٌ تُدْعَى الْبَیْضَاءَ، وَأَخَذَ دِرْعَیْنِ مِنْ سِلَاحِهِمْ، دِرْعًا یُقَالُ لَهَا الصّغْدِیّةُ وَأُخْرَى فِضّةُ، وَثَلَاثَةَ أَسْیَافٍ، سَیْفٌ قلعىّ ، وسیف یقال له بتّاروَسَیْفٌ آخَرُ، وَثَلَاثَةَ أَرْمَاح ،وَقَسّمَ مَا بَقِیَ عَلَى أَصْحَابِهِ، وَأَعْطَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ دِرْعًا لَهُ مَذْكُورَةً، یُقَالُ لَهَا السّحْلُ،فَكَانَ أَوَّل مَا خُمِّسَ بَعْدَ بَدْرٍوَكَانَ الَّذِی تَوَلَّى جَمْعَ الْغَنَائِمِ محمد بن مسلمة

ان کے اموال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہتھیاروں  کا بڑاذخیرہ بھی ملا،پندرہ روزبعدآپ واپس مدینہ تشریف لے آئے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کے پانچ حصے فرماکر ایک حصہ خمس جن میں  تین کمانیں ،جن میں  ایک کانام  الْكَتُومَ تھاجس کاوصف یہ تھاکہ جب اس سے تیرپھینکاجاتاتواس کی آوازنہ ہوتی تھی یہ کمان غزوہ احدمیں  ٹوٹ گئی تھی ،دوسری کمان کانام الرّوْحَاءَتھا،تیسری کانام  الْبَیْضَاءَ تھا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے سامان جنگ میں  سےدوزرہیں  لیں  جن میں  ایک کانام الصّغْدِیّةُ تھاجس کے متعلق کہاگیاہے کہ یہ داود علیہ السلام  کی زرہ تھی جسے آپ نے جالوت کے قتل کے وقت پہن رکھا تھا ، دوسری کانام فِضّةُ تھا ، تین تلواریں  لیں  جن میں ایک کانام  سَیْفٌ دوسری کانام  بتّاراورایک اورتلوارتھی اورتین نیزے لئے، اورباقی چارحصے دوسرے غازیوں  میں  تقسیم کر دیئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک زرہ محمدبن مسلمہ کوعطافرمائی،اورایک زرہ سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کوعنایت فرمائی جس کو السّحْلُ کہاجاتاتھا ،غزوہ بدرکے بعدیہ پہلا خمس تھا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے لیا ۔اس کے علاوہ مال غنیمت میں  سے بھی خمس نکالاگیا،غنائم جمع کرنے کا کام محمدبن مسلمہ  رضی اللہ عنہ  نے سرانجام دیا۔[23]

مگرجن لوگوں  کے دلوں  میں  ایمان کی حرارت تھی انہوں  نے ان لوگوں  سے حلیفانہ تعلقات کے باوجود اظہار بیزاری،نفرت اوربرات کااعلان کیا۔

عُبَادَةَ ابْن الصَّامِتِ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتَوَلَّى اللهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِینَ، وَأَبْرَأُ مِنْ حِلْفِ هَؤُلَاءِ الْكُفَّارِ وَوِلَایَتِهِمْ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ کے دشمنوں  سے بری اوربیزارہوکراللہ اور اس کے رسول کی طرف آتاہوں  اوراللہ اوراس کے رسول اوراہل ایمان کواپنادوست اورحلیف بناتاہوں  اورکافروں  کی دوستی اور عہد سے بری اور علیحدگی اختیارکرتاہوں ۔[24]

ان کے اورعبداللہ بن ابی کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۵۱فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِیْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ۝۰ۭ فَعَسَى اللهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَ۝۵۲ۭ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ۝۰ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ۝۰ۭ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ۝۵۳یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۰ۡیُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۵۴اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ۝۵۵وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۵۶ۧ [25]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!یہودیوں  اورعیسائیوں  کواپنارفیق نہ بناؤ،یہ آپس ہی میں  ایک دوسرے کے رفیق ہیں  اوراگرتم میں  سے کوئی ان کواپنارفیق بناتاہے تواس شماربھی پھرانہی میں  ہے یقیناًاللہ ظالموں  کواپنی رہنمائی سے محروم کردیتاہے،تم دیکھتے ہوکہ جن کے دلوں  میں  نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں  دوڑدھوپ کرتے پھرتے ہیں  کہتے ہیں  ہمیں  ڈرلگتاہے کہ کہیں  ہم کسی مصیبت کے چکرمیں  نہ پھنس جائیں ،مگربعیدنہیں  کہ اللہ جب تمہیں  فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اوربات ظاہرکرے گاتویہ لوگ اپنے اس نفاق پرجسے یہ دلوں  میں  چھپائے ہوئے ہیں  نادم ہوں  گے اوراس وقت اہل ایمان کہیں  گے کیایہ وہی لوگ ہیں  جواللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں  کھاکریقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں ؟ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اورآخرکاریہ ناکام ونامرادہوکررہے،اے لوگوجوایمان لائے ہو!اگرتم میں  سے کوئی اپنے دین سے پھرتاہے (توپھرجائے)اللہ اوربہت سے لوگ ایسے پیداکردے گاجواللہ کومحبوب ہوں  گے اوراللہ ان کومحبوب ہوگاجومومنوں  پرنرم اورکفارپرسخت ہوں  گے ،جواللہ کی راہ میں  جدوجہدکریں  گے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں  گے ،یہ اللہ کافضل ہے جسے چاہتاہے عطاکرتاہے اللہ وسیع ذرائع کامالک ہے اورسب کچھ جانتاہے، تمہارے رفیق توحقیقت میں  صرف اللہ اوراللہ کارسول اوروہ اہل ایمان ہیں  جونمازقائم کرتے ہیں ،زکواة دیتے ہیں  اوراللہ کے آگے جھکنے والے ہیں  اورجواللہ اوراس کے رسول اوراہل ایمان کواپنارفیق بنالے اسے معلوم ہوکہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔

دلیراوربہادریہودی قبیلہ بنوقینقاع کے جلاوطن ہونے سے اسلام کوبڑافائدہ ہوا،لوگوں  کے دلوں  پرمسلمانوں  کارعب ودبدبہ قائم ہوگیااوراردگردکے قبائل بنی نضیراوربنی قریظہ بھی ڈرکرخاموش ہورہے ۔

یہودیوں  کے سوالات :

یہودی رسول اللہ سے محض حسد،بغض اورتعصب کی بناپربکثرت ایسے سوالات کرتے رہتے تھے جن کامقصدحق وباطل میں  شکوک وشہبات پیداکرنا ہوتا تھاچنانچہ ایک مرتبہ دو یہودی آپ کی خدمت میں  حاضرہوئے اوراللہ تعالیٰ کے اس کلام کے متعلق سوال کیا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍؚ۔۔۔۝۱۰۱  [26]

ترجمہ:اورہم نے موسیٰ کونونشانیاں  عطافرمائی تھیں ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ، یُحَدِّثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ یَزِیدُ الْمُرَادِیِّ: قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُشْرِكُوا بِاللهِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُواوَلَا تَزْنُوازنانہ کرنا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَمْشُوا بِبَرِیءٍ إِلَى ذِی سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَهُ، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً -أَوْ قَالَ: لَا تَفِرُّوا مِنَ الزَّحْفِ -شُعْبَةُ الشَّاكُّ،وَأَنْتُمْ یَا یَهُودُ، عَلَیْكُمْ  خَاصَّةً أَنْ لَا تَعْدُوا فِی السَّبْتِ، فَقَبَّلَا یَدَیْهِ وَرِجْلَیْهِ  وَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِیٌّ،قَالَ:فَمَا یَمْنَعُكُمَا أَنْ تَتَّبِعَانِی؟  قَالَا لِأَنَّ دَاوُدَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، دَعَا أَلَّا یَزَالَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِ نَبِیٌّ،  وَإِنَّا نَخْشَى إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا یَهُودُ

یزیدمرادی سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  جواب دیاکہ وہ نو نشانیاں  یہ تھیں ،اللہ کاکسی کوشریک نہ بناناچوری نہ کرنا اورجس کاقتل کرنااللہ نے حرام کیاہے اسے قتل نہ کرنابجز حق کے، اورجادوگری نہ کرنااورسودنہ کھانااورجرم سے مبراکسی کی شکایت بادشاہ کے پاس نہ لے جانااور پارساعورت کوزناکی تہمت نہ لگانااوراے یہود!خاص طورپرہفتہ کے دن کے بارے میں  غلوسے کام نہ لینا،  یہ جواب سنکردونوں  یہودیوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وپاؤں  مبارک چوم لئے اورکہاہم گواہی دیتے ہیں  کہ آپ واقعی ہی اللہ کے پیغمبر ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پھر تمہیں  اسلام قبول کرنے سے کیاامرمانع ہے؟انہوں  نے عرض کیاداود علیہ السلام کی دعاتھی کہ میری نسل میں  ضرورنبی ہوگئےاورہمیں  خطرہ ہے کہ اگرہم اسلام لے آئے تویہودی ہمیں  قتل کرڈالیں  گے۔ [27]

ضعیف روایت ہے اس کی سندمیں  عبداللہ بن سلمہ ضعیف راوی ہے۔

قَالُوا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَلامَةِ النَّبِیِّ،قَالَ:تَنَامُ عَیْنَاهُ، وَلا یَنَامُ قَلْبُهُ قَالُوا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَى نَفْسِهِ؟قَالَ: كَانَ یَشْتَكِی عِرْقَ النَّسَا، فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یُلائِمُهُ إِلا أَلْبَانَ كَذَا وَكَذَا – قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُهُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ- فَحَرَّمَ لُحُومَهَاقَالُوا: صَدَقْتَ

ایک مرتبہ یہودنے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیاکہ نبی کی کیاپہچان ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کی آنکھیں  توسوتی ہیں  مگردل نہیں  سوتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال بھی کیاگیاکہ توریت نازل ہونے سے پہلے اسرائیل ( یعقوب  علیہ السلام )نے اپنے اوپرکونساکھاناحرام کرلیاتھا؟آپ نے فرمایاتم سے اس ذات اقدس کی قسم کھاکرکہتاہوں  کہ کیاتمہیں  معلوم نہیں  ہے کہ اسرائیل یعنی یعقوب  علیہ السلام  بہت بیمارپڑگئے اورآپ کی بیماری طویل ہوگئی تھی ،پس انہوں  نے نذرمانی کہ اگراللہ تعالیٰ انہیں  اس بیماری سے شفاعطافرمائے گاتووہ اپناسب سے زیادہ پسندیدہ مشروب اورسب سے زیادہ پسندیدہ کھاناخودپرحرام کرلیں  گے،اورآپ کامرغوب کھانااونٹ کاگوشت تھااورمرغوب مشروب اس کادودھ تھا اس پروہ مان گئے کہ ہاں  یہ صحیح ہے۔ [28]

ایک مرتبہ یہودنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوغصہ دلانے کے لئے کہااس شخص میں  بجزعورتوں  اورنکاح میں  دلچسپی کے اورکوئی بلندہمتی کی بات نہیں  ہے اگروہ واقعی سچے نبی ہوتے تونبوت کی گراں  ترذمہ داری انہیں  عورتوں  میں  انہماک سے بازرکھتی،حالانکہ سلیمان  علیہ السلام  کی سوبیویاں  اورنوسوباندیاں  تھیں ،اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۭ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ۝۳۸ [29]

ترجمہ:تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں  اور ان کو ہم نے بیوی بچوں  والا ہی بنایا تھا اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اِذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا،ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَیْنَا أَنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَرْثٍ، وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِیبٍ، إِذْ مَرَّ الیَهُودُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالَ: مَا رَأْیُكُمْ إِلَیْهِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ یَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَیْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا: سَلُوهُ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَمْسَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْهِمْ شَیْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ یُوحَى إِلَیْهِ، فَقُمْتُ مَقَامِی فَلَمَّا نَزَلَ الوَحْیُ، قَالَ:{وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ، قُلْ: الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} [30]

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک کھیت میں  حاضر تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت کھجورکے ایک تنے پرٹیک لگائے ہوئے تھے،اتنے میں  کچھ یہودی آپ کے پاس سے گزرے ،کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ان سے روح(حیات) کے متعلق سوال کرو(کہ اس کی حقیقت کیاہے)ان میں  سے کسی نے اس پرکہاکہ ایساکیوں  کرتے ہو؟دوسرایہودی بولاکہیں  وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں  جوتم کوناپسندہو،رائے اس پرٹھیری کہ روح کے بارے میں  پوچھناچاہیےچنانچہ انہوں  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کچھ دیرخاموش رہے اوراس بات کاکوئی جواب نہ دیا ، میں  سمجھ گیاکہ اس وقت آپ پروحی نازل ہورہی ہے،اوراللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرماء’’یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں  کہویہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے مگرتم لوگوں  نے علم سے کم ہی بہرہ پایاہے۔‘‘[31]

چونکہ تورات میں  بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیاگیاہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک چیزہے اسی لئے یہودی معلوم کرناچاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی تورات کے مطابق ہے یانہیں ؟یاروح کے سلسلہ میں  یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور ازکار باتیں  کہتے ہیں ۔

روح کے بارے میں  ستراقوال ہیں  ،حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے کتاب الروح میں  ان پرخوب روشنی ڈالی ہے،عام طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں  روح سے مراد جان ہے یعنی لوگوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح حیات کے متعلق پوچھاتھاکہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اوراس کاجواب یہ دیاگیاکہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے لیکن ربط عبارت کونگاہ میں  رکھ کردیکھاجائے تو صاف محسوس ہوتاہے کہ یہاں  روح سے مرادروح نبوت یاوحی ہے،جیسے ان آیات میں  بیان ہوئی ہے۔

یُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۝۲  [32]

ترجمہ:وہ اس رُوح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعہ نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں  کو) آگاہ کردو ، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں  ہے، لہذا تم مجھی سے ڈرو ۔

رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ۝۰ۚ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ۝۱۵ۙ [33]

ترجمہ:وہ بلنددرجوں  والامالک عرش ہے اپنے بندوں  میں  سے جس پرچاہتاہے اپنے حکم سے روح نازل کردیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے ۔

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۝۰ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِیْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۲ۙ [34]

ترجمہ:اور اسی طرح (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں  کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر اس رُوح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں  اپنے بندوں  میں  سے جسے چاہتے ہیں ،یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو۔

اورسلف میں  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ،قتادہ  رحمہ اللہ اورحسن بصری  رحمہ اللہ  نے بھی یہی تفسیراختیارکی ہے اورصاحب روح المعانی حسن  رحمہ اللہ  اورقتادہ  رحمہ اللہ  کایہ قول نقل کرتے ہیں  کہ روح سے مرادجبرائیل  علیہ السلام  ہیں  اور سوال دراصل یہ تھاکہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں  اورکس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پروحی کاالقاء ہوتاہے۔

أَنَّ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ حِبْرٌ مِنْ أَحْبَارِ الْیَهُودِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا مُحَمَّدُ فَدَفَعْتُهُ دَفْعَةً كَادَ یُصْرَعُ مِنْهَا فَقَالَ: لِمَ تَدْفَعُنِی؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَقُولُ یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ الْیَهُودِیُّ: إِنَّمَا نَدْعُوهُ بِاسْمِهِ الَّذِی سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اسْمِی مُحَمَّدٌ الَّذِی سَمَّانِی بِهِ أَهْلِی، فَقَالَ الْیَهُودِیُّ: جِئْتُ أَسْأَلُكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیَنْفَعُكَ شَیْءٌ إِنْ حَدَّثْتُكَ؟ قَالَ: أَسْمَعُ بِأُذُنَیَّ، فَنَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعُودٍ مَعَهُ، فَقَالَ:سَلْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک یہودی عالم آیااوربولااے محمدالسلام علیک !میں  نے اس یہودی عالم کو اس زور سے دھکادیاکہ وہ گرتے گرتے بچا، یہودی عالم نے پوچھاتم مجھے دھکاکیوں  دیتے ہو؟میں  نے کہاتونام لینے کے بجائے اے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کیوں  نہیں  کہتا؟اس نے کہا ہم ان کواس نام سے پکارتے ہیں  جونام ان کے گھروالوں  نے رکھاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابیشک میرانام محمد علیہ السلام ہے جومیرے اہل خاندان نے رکھاہے،یہودی عالم نے کہا میں  آپ سے کچھ سوال کرنے آیاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوکچھ میں  تمہیں  بتاؤں  گاکیاتمہیں  اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا؟اس نے کہامیں  اپنے کانوں  سے سن رہا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی لکڑی سے زمین پرایک لکیرکھینچی اورفرمایاپوچھو

 فَقَالَ الْیَهُودِیُّ: أَیْنَ یَكُونُ النَّاسُ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُمْ فِی الظُّلْمَةِ دُونَ الْجِسْرِ قَالَ: فَمَنْ أَوَّلُ النَّاسِ إِجَازَةً؟ قَالَ:فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِینَ قَالَ الْیَهُودِیُّ: فَمَا تُحْفَتُهُمْ حِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ؟ قَالَ:زِیَادَةُ كَبِدِ النُّونِ، قَالَ: فَمَا غِذَاؤُهُمْ عَلَى إِثْرِهَا؟ قَالَ:یُنْحَرُ لَهُمْ ثَوْرُ الْجَنَّةِ الَّذِی كَانَ یَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِهَا قَالَ: فَمَا شَرَابُهُمْ عَلَیْهِ؟ قَالَ:مِنْ عَیْنٍ فِیهَا تُسَمَّى سَلْسَبِیلًا قَالَ: صَدَقْتَ.

یہودی عالم نے کہاجس دن زمین وآسمان بدل جائیں  گے اس دن سب کہاں  ہوں  گے؟رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ پل صراط کے قریب تاریکی میں  ہوں  گے،اس نے پوچھاسب سے پہلے (جنت میں  جانے کی)اجازت کس کوملے گی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا فقراء مہاجرین کو،اس نے پوچھاکہ جب وہ جنت میں  داخل ہوں  گے تو(سب سے پہلے)ان کوتحفتاً کیاچیزدی جائے گی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامچھلی کی کلیجی،اس نے پوچھا اس کے بعدانہیں  کیاغذادی جائے گی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ان کے لئے وہ بیل ذبح کیاجائے گاجوجنت کے اطراف میں  چرتاہوگا،اس نے پوچھاان کوپینے کے لئے کیا چیز دی جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس چشمہ کاپانی جس کانام سلسبیل ہے،یہودی عالم نے کہاآپ نے سچ فرمایا

قَالَ: وَجِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنْ شَیْءٍ لَا یَعْلَمُهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ. قَالَ:یَنْفَعُكَ إِنْ حَدَّثْتُكَ؟ قَالَ: أَسْمَعُ بِأُذُنَیَّ. قَالَ: جِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنِ الْوَلَدِ؟ قَالَ:مَاءُ الرَّجُلِ أَبْیَضُ، وَمَاءُ الْمَرْأَةِ أَصْفَرُ، فَإِذَا اجْتَمَعَا، فَعَلَا مَنِیُّ الرَّجُلِ مَنِیَّ الْمَرْأَةِ، أَذْكَرَا بِإِذْنِ اللهِ، وَإِذَا عَلَا مَنِیُّ الْمَرْأَةِ مَنِیَّ الرَّجُلِ، آنَثَا بِإِذْنِ اللهِ. قَالَ الْیَهُودِیُّ: لَقَدْ صَدَقْتَ، وَإِنَّكَ لَنَبِیٌّ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَذَهَبَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ سَأَلَنِی هَذَا عَنِ الَّذِی سَأَلَنِی عَنْهُ، وَمَا لِی عِلْمٌ بِشَیْءٍ مِنْهُ، حَتَّى أَتَانِیَ اللهُ بِهِ

پھراس نے کہامیں  آپ سے ایسی بات پوچھنے آیاہوں  کہ روئے زمین پراسے سوائے ایک دوآدمیوں  کے یانبی کے کوئی نہیں  جانتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں  تمہیں  بتادوں  گاتوکیااس سے تمہیں  کوئی فائدہ پہنچے گا ؟  اس نے کہا میں  اپنے کانوں  سے سن رہاہوں ،میں  آپ سے یہ سوال کرنے آیاہوں  کہ لڑکا یالڑکی کس طرح پیداہوتے ہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامردکاپانی سفیدہوتاہے اورعورت کا پانی زردہوتاہےجب وہ دونوں  جمع ہوتے ہیں  تو اگر مردکاپانی عورت کے پانی پرغالب آجاتاہے تواللہ کے حکم سے لڑکاپیداہوتاہے اگرعورت کاپانی مردکے پانی پرغالب آتا ہے تواللہ کے حکم سے لڑکی پیداہوتی ہے،اس یہودی نے کہاآپ سچ فرماتے ہیں  بیشک آپ نبی ہیں  یہ کہہ کروہ چلاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوسوالات اس نے مجھ سے پوچھے تھے مجھے ان کاعلم نہیں  تھااللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے ان سوالات کے جوابات سے مطلع فرمایا ۔ [35]

یہودیوں  کی شرارتیں :

پردہ کاحکم نازل ہونے سے پہلے کاذکرہے ،

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الیَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَیْكُمْ ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْكُمُ السَّامُ وَاللعْنَةُ،قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَهْلًا یَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُواقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قُلْتُ: وَعَلَیْكُمْ

ام المومنین عائشہ سے مروی ہےایک مرتبہ یہودیوں  کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہاالسَّامُ عَلَیْكُمْ(یعنی تم کو موت آئے)عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  میں  سمجھ گئی کہ یہ کیاکہہ رہے ہیں  ،میں  نے کہا تمہیں  موت آئے اورتم پراللہ کی لعنت اوراس کاغضب نازل ہو  سیدہ عائشہ فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے عائشہ رہنے دو(ایسے نہ کہو)بیشک اللہ ہرکام میں  نرمی پسندکرتاہے ،تم بھی نرمی کواپنے اوپرلازم کرلو،سختی اورتندکلامی سے پرہیزکرو،عائشہ  رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے نہیں  سناکہ انہوں  نے کیاکہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے نہیں  سناکہ میں  نے وَعَلَیْكُمْ کہہ دیاتھایعنی میں  نے اسی چیزکولوٹادیاتھا،میری بددعا ان کے حق میں  قبول ہوگی،ان کی بددعامیرے حق میں  قبول نہیں  ہوگی۔[36]


غزوہ سویق

پانچ ذی الحجہ دوہجری

مدینہ منورہ میں  یہوداورمنافقین اپنی ریشہ دانیوں  میں  سرگرم تھے تومکہ مکرمہ میں  صفوان بن امیہ اورابوسفیان اپنی قوم کی طاقت وقوت کااظہارکرکے ان کے مردہ جسموں  میں  ایک روح پھونکناچاہتے تھے، غزوہ بدرکے بعدابوسفیان نے یہ نذرمانی تھی

نَذَرَ أَنْ لَا یَمَسَّ رَأْسَهُ مَاءٌ مِنْ جَنَابَةٍ حَتَّى یَغْزُوَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ نہ کرکے اپنے بدلے نہ لے گااس وقت تک سرمیں  تیل نہیں  ڈالے گااورنہ غسل جنابت کرے گا۔[37]

فَخرج فِی مِائَتی رَاكِبٍ مِنْ قُرَیْشٍ، لِیَبَرَّ یَمِینَهُ، فَسَلَكَ النَّجْدِیَّةَ، حَتَّى نَزَلَ بِصَدْرِ قَنَاةٍ إلَى جَبَلٍ یُقَالُ لَهُ: ثَیْبٌ ، مِنْ الْمَدِینَةِ عَلَى بَرِیدٍ أَوْ نَحْوِهِ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ اللیْلِ، حَتَّى أَتَى بَنِی النَّضِیرِ تَحْتَ اللیْلِ، فَأَتَى حُیَیَّ ابْنَ أَخْطَبَ، فَضَرَبَ عَلَیْهِ بَابَهُ، فَأَبَى أَنْ یَفْتَحَ لَهُ بَابَهُ وَخَافَهُ، فَانْصَرَفَ عَنْهُ إلَى سَلَّامِ بْنِ مِشْكَمٍ، وَكَانَ سَیِّدَ بَنِی النَّضِیرِ فِی زَمَانِهِ ذَلِكَ، وَصَاحِبَ كَنْزِهِمْ  ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْهِ، فَأَذِنَ لَهُ،فَقَرَّاهُ وَسَقَاهُ، وَبَطَنَ  لَهُ مِنْ خَبَرِ النَّاسِ،فَأَتَوْا نَاحِیَةً مِنْهَا، یُقَالُ لَهَا: الْعَرِیضُ، فَحَرَقُوا فِی أَصْوَارٍ مِنْ نَخْلٍ بِهَا، وَوَجَدُوا بِهَا رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ وَحَلِیفًا لَهُ فِی حَرْثٍ لَهُمَا، فَقَتَلُوهُمَا، ثُمَّ انْصَرَفُوا رَاجِعِینَ ، وَنَذِرَ بِهِمْ النَّاس

چنانچہ غزوہ بدرکے دوماہ بعد وہ اپنی نذرپوری کرنے کے لئے دوسوشتر سواروں  کے ہمراہ نکل کرمدینہ منورہ سے تقریباًآٹھ میل دورایک پہاڑثَیْبٌ کے دامن میں  وادی قَنَاةٍ کے سرے پرایک نہرکے کنارے پراترا،یہ مقام مدینہ منورہ سے ایک منزل کے قریب فاصلہ پرہےمگردوسومسلح سواروں  اور کافی مقدارمیں  زادراہ ہونے کے باوجوداسے مدینہ منورہ پرشب خون مارنے کی ہمت نہ ہوئی،اس لئے جب رات ہوئی توخفیہ طورپریہودیوں  کے محلہ بنونضیرمیں  آکرطاقتواریہودی قبیلے کے سردارحیی بن اخطب(جوام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا  کاباپ تھا ) کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر اس نے مسلمانوں  کے خوف سے دروازہ کھولنے سے انکارکردیا،وہاں  سے مایوس ہوکروہ بنونضیرکے مشہور سردار اور خزانچی سلام بن مشکم کے درپر آیا اس نے ابوسفیان کاخندہ پیشانی سے استقبال کیا، اس نے ابوسفیان کی خوب خاطرتواضع کی اورمسلمانوں  کی موجودہ صورت حال سے ضروری اطلاعات بہم پہنچائیں  ، ابوسفیان نے سلام بن مشکم سے کیارازسنے تاریخ ان کی تفصیلات کے متعلق خاموش ہے، اس طرح ابوسفیان کی اپنے دیرینہ رفیق عبداللہ بن ابی سے کوئی ملاقات ہوئی یانہیں اس سلسلہ میں  بھی تاریخ سے کوئی راہبری نہیں  ملتی لیکن ابوسفیان جیسے ذہن شخص سے یہ توقع نہیں  کرنی چاہیے کہ انہوں  نے اس سنہری موقع کو کھودیاہوگا،الغرض یہ کہ اس خیال وقیاس کے مطابق ابوسفیان کاسفارتی سفردوپہلوؤں  سے خاص طورپر کامیاب ہوا،اولاً،مدینہ کی اسلامی ریاست میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوریہودمدینہ کے درمیان عہدنامے کی موجودگی کے باوجود یہود کو توڑنے اورانہیں  ریاست کے اندر گڑبڑ پھیلانے پراکسانے میں  کامیاب ہوئے ،دوم،نام نہادمسلمانوں  میں  ایک گروہ پیداکرنے میں  کامیاب ہوئے جوریاست کے اہم راز فاش کرنے اوراہم مواقع پرسبوتاژ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں  میں  منافق کے نام سے مردود قرار پایا ، ابوسفیان ساری صورت حال سے باخبر ہو کر پچھلی رات واپس اپنے ساتھیوں  کے پاس آیااورچندسواروں  کومدینہ منورہ کی طرف بھیجا جنھوں  نے مدینہ کے مضافاتی مقام الْعَرِیضُ  پرحملہ کردیااور کھجوروں  کاایک باغ جلا ڈالااورمعبدبن عمرو انصاری اور ان کے ایک حلیف کوجواس باغ میں  کھیتی باڑی کرتے تھے اورسورہے تھے قتل کرکے واپس بھاگ گئے،

فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی طَلَبِهِمْ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ بَشِیرَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، وَهُوَ أَبُو لُبَابَةَ حَتَّى بَلَغَ قَرْقَرَةَ الْكُدْرِ، ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا، وَقَدْ فَاتَهُ أَبُو سُفْیَانَ وَأَصْحَابُهُ،وَقَدْ رَأَوْا أَزْوَادًا مِنْ أَزْوَادِ الْقَوْمِ قَدْ طَرَحُوهَا فِی الْحَرْثِ یَتَخَفَّفُونَ مِنْهَا لِلنَّجَاءِ،فَسُمِّیَتْ غَزْوَةَ السَّوِیقِ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ، حَیْنَ رَجَعَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَطْمَعُ لَنَا أَنْ تَكُونَ غَزْوَةً؟ قَالَ: نَعَمْ.

جب اس واقعہ کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ پرابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہا  کو اپنا قائم مقام بنایا اور دوسومہاجرین وانصارکی جمعیت لیکرکفارکی تلاش میں  قرقرالکدرتک تشریف لے گئے لیکن وہ بھاگ جانے میں  کامیاب ہو گئے،کفارکے پاس زادراہ کی کثرت تھی جو بھاگنے میں  مانع ہورہی تھی اس لئے بوجھ کم کرنے کے لئے بھاگتے ہوئے کافی مقدار میں  ستواور دوسرا سامان پھنکتے چلے گئے ، مسلمان ان کے تعاقب میں  تھے ،انہوں  نے گرے ہوئے ستواٹھالئے جوان کے کام آیا اس طرح اس غزوہ کانام ہی غزوہ سویق (ستو) پڑگیاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لڑائی کئے بغیر بخیروعافیت واپس مدینہ تشریف لے آئےتوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہماری کفارومشرکین سے مڈبھیڑتونہیں  ہوئی ،کیاہمیں  جہاد کا ثواب ملے گا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  ضرورملے گا۔[38]

عیدالاضحی(دس ذی الحجہ دوہجری)

غزوہ سویق سے آپ نوذلحجہ کوواپس مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أَضْحًى إِلَى البَقِیعِ، فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ،ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْهِهِ وَقَالَ:إِنَّ أَوَّلَ نُسُكِنَا فِی یَوْمِنَا هَذَا، أَنْ نَبْدَأَ بِالصَّلاَةِ، ثُمَّ نَرْجِعَ، فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَافَقَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَإِنَّمَا هُوَ شَیْءٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَیْسَ مِنَ النُّسُكِ فِی شَیْءٍ،فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی ذَبَحْتُ وَعِنْدِی جَذَعَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ؟ قَالَ: اذْبَحْهَا، وَلاَ تَفِی عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ،قَالَ:اذْبَحْهَا، وَلاَ تَفِی عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ

براءبن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدس ذلحجہ کونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  عیدالالضحیٰ کے دن بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور دورکعت نمازعیدپڑھائیں ،پھرہماری طرف چہرہ مبارک کرکے فرمایا سب سے مقدم عبادت ہمارے اس دن کی یہ ہے کہ پہلے ہم نمازپڑھیں  پھر(نمازاورخطبے سے لوٹ)کرقربانی کریں  ،جوایساکرے گا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیااورجس نے نمازعیدالاضحی سے قبل قربانی کرلی تووہ محض گوشت کی بکری ہے جواس نے اپنے اہل وعیال کے لئے ذبح کی ہے ،قربانی سے اس کاکوئی تعلق نہیں  ، آپ کایہ ارشادسن کر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہا  انصاری کھڑے ہوگئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آج کادن کھانے پینے کادن ہے لہذامیں  نے جلدی سے قربانی کرلی میں  نے خود بھی گوشت کھایااوراپنے اہل وعیال اورپڑوسیوں  کوبھی کھلایا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ محض گوشت کی بکری ہے ،انہوں  نے عرض کیامیرے پاس ایک دنبہ کابچہ ہے جو گوشت کے لحاظ سے بکری سے زیادہ ہے بلکہ دوبکریوں  سے زیادہ مجھے محبوب ہے کیاوہ قربانی کے لئے کافی ہے ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخیرتم اسی کوذبح کرلولیکن تمہارے بعدکسی کی طرف سے ایسی پٹھیاجائزنہ ہوگی[39]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ذَبَحَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مُوجَأَیْنِ

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے آپ نے دو مینڈھے قربانی کیے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوبھی قربانی کاحکم فرمایا،مسلمانوں  کی یہ پہلی عیدالاضحی تھی۔[40]

 سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کی فضیلت:

سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُكَلِّمْنَهُ وَیَسْتَكْثِرْنَهُ، عَالِیَةً أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِه،فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللهُ سِنَّكَ یَا رَسُولَ اللهِ

سعدبن ابووقاص اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  ایک دن سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت چاہی ،اس وقت قریش کی کچھ عورتیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی باتیں  کر رہی تھیں اوراپنی آوازوں  کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسے بلندکررہی تھیں ،جب ان قریشی عورتوں  نے سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کورسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگتے ہوئے سنا تو فوراً پردے کے پیچھے چھپ گئیں ،اب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کواندرآنے کی اجازت مرحمت فرمائی،جب سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  حجرے کے اندرداخل ہوئے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت مسکرا رہے تھے، سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااللہ تعالیٰ آپ کوہنساتارہے

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلاَءِ اللاتِی كُنَّ عِنْدِی، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الحِجَابَ،فَقَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ یَهَبْنَ یَا رَسُولَ اللهِ،ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: یَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِی وَلاَ تَهَبْنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِیهًا یَا ابْنَ الخَطَّابِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا لَقِیَكَ الشَّیْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّكَ

رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اس بات پرتعجب ہواکہ یہ عورتیں  جومیرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں  تمہاری آوازسنتے ہی پردہ کے پیچھے چلی گئیں ،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ زیادہ حق دارہیں  کہ آپ سے ڈریں ،پھرسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے ان عورتوں  سے کہااے اپنی جان کی دشمنو!کیاتم مجھ سے ڈرتی ہو اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں  ڈرتیں ؟عورتوں  نے جواب دیاہاں اے عمر!تم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت ہو( یعنی تم رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سختی کرتے ہو)رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے خطاب کے بیٹے !قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں  میری جان ہے شیطان جس کسی راستہ میں  تم سے ملتاہے تو اس کوچھوڑکردوسرے راستہ پر چلا جاتاہے[41]

منذربن ابواسید رضی اللہ عنہ  کی پیدائش:

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: أُتِیَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَیْدٍ جَالِسٌ، فَلَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشَیْءٍ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَأَمَرَ أَبُو أُسَیْدٍ بِابْنِهِ، فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَاسْتَفَاقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیْنَ الصَّبِیُّ، فَقَالَ أَبُو أُسَیْدٍ: قَلَبْنَاهُ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:مَا اسْمُهُ،قَالَ: فُلاَنٌ، قَالَ:وَلَكِنْ اسْمُهُ المُنْذِرَ، فَسَمَّاهُ یَوْمَئِذٍ المُنْذِرَ

سہل  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب ابواسید رضی اللہ عنہ  کے ہا ں  بچہ پیداہواتواس کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایاگیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بچہ)کواپنی ران پرلٹایا، ابواسید رضی اللہ عنہ  بھی وہیں  بیٹھے ہوئے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے کوئی چیزتھی ، آپ اس میں  مشغول ہوگئے ابواسید رضی اللہ عنہ  کے اشارے پربچے کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے اٹھا کر گھربھیج دیاگیا جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے فارغ ہوئے توپوچھاوہ بچہ کہاں  ہے؟ابواسید رضی اللہ عنہ  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم نے اسے واپس گھربھیج دیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کاکیانام ہے ؟ابواسید رضی اللہ عنہ  نے بچے کانام بتلایا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کانام منذرہے ، ابواسید رضی اللہ عنہ  نے اسی دن اپنے بچے کانام بدل کر منذر رکھ دیا۔[42]

 فاطمہ  رضی اللہ عنہا  بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح:

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی ،سب سے پیاری بیٹی فاطمہ  رضی اللہ عنہا  جن کی چال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی ماندتھی جوان ہوچکی تھیں

عن علباء بن أحمر الیشكری أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَطَبَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَقَالَ: یَا أَبَا بَكْرٍ انْتَظِرْ بِهَا الْقَضَاءَ،فَذَكَرَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: رَدَّكَ یَا أَبَا بَكْرٍ،ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ لِعُمَرَ: اخْطُبْ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَهَا فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لأَبِی بَكْرٍ: انْتَظِرْ بِهَا الْقَضَاءَ، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ لَهُ: رَدَّكَ یَا عُمَرُ،ثُمَّ إِنَّ أَهْلَ عَلِیٍّ قَالُوا لِعَلِیٍّ: اخْطُبْ فَاطِمَةَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَهَا فَزَوَّجَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَاعَ عَلِیٌّ بَعِیرًا لَهُ وَبَعْضَ مَتَاعِهِ فَبَلَغَ أَرْبَعَمِائَةٍ وَثَمَانِینَ ، فَقَالَ له النبی:  اجْعَلُ ثُلُثَیْنِ فِی الطِّیبِ وَثُلُثًا فِی الْمَتَاعِ

علباءبن احمدیشکری سے مروی ہےہجرت مدینہ کے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے فاطمة الزھراءرضی اللہ عنہا کے لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام نکاح دیاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ میں  اس کے عقدکے لئے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا منتظر ہوں ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے اس بات کاذکرسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ سے کیاانہوں  نے کہااے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  یہ جواب درحقیقت انکارہے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ سے کہاکہ آپ پیغام نکاح دیں ،سوانہوں  نے بھی پیغام نکاح دیالیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  بھی مثل سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کے جواب دیاکہ میں  اللہ کے فیصلے کامنتظرہوں ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے کہااے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ !تمہیں  بھی انکارہوگیا، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب بھی جوان ہوچکے تھے اس کے بعد سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے ان کے اہل خانہ نے کہاکہ تم فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو پیغام نکاح دو، انہوں  نے کہاکہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے بعدمیرے لئے کیاگنجائش باقی رہ جاتی ہے؟لیکن انہیں  کہاگیاکہ تم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قرابت دارہو(یعنی تمہارے حق میں  قرابت کی وجہ سے قبولیت کی زیادہ امیدہے)سوانہوں  نے پیغام نکاح دیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کانکاح ان کے ساتھ کردیا،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے نکاح کی تیاری کے لئے ایک اونٹ اورگھریلوسامان چارسواسی (۴۸۰)درہم میں  فروخت کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ ان میں  سے دوثلث خوشبواورایک ثلث سامان خریدنے میں  صرف کردو۔[43]

عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ علیا خطب فاطمة فقال له النبی مَا تُصْدِقُهَا؟ قَالَ: مَا عِنْدِی مَا أَصْدُقُهَا،قَالَ: فَأَیْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِیَّةُ الَّتِی كُنْتُ مَنَحْتُكَ؟ قَالَ: عِنْدِی ، قَالَ: أَصْدِقْهَا إِیَّاهَا.قَالَ: فَأَصْدَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، قَالَ عِكْرِمَةُ: كَانَ ثَمَنُهَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ

عکرمہ سے مروی ہےسیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا کے لئے پیغام نکاح دیا،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ مہرکس قدر دو گے؟انہوں  نے کہامہردینے کے لئے تومیرے پاس کچھ نہیں  ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ تمہاری خطمیہ نامی زرع کہاں  ہےجومیں  نے تمہیں  تحفہ دی تھی؟انہوں  نے کہاکہ وہ تومیرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ وہی مہرکے طورپردے دو، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے وہ زرع مہرکے طورپردے دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کانکاح ان کے ساتھ فرمادیا، عکرمہ کہتے ہیں  اس زرع کی قیمت چاردرہم تھی ۔[44]

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے جب میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی شادی کی درخواست کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایااپنی زرہ بیچ دواوراس کی قیمت میرے پاس لے آؤتاکہ میں  تمہارے اوراپنی بیٹی فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے لیے(ایساسامان وغیرہ)تیارکروں  جوتم دونوں  کے لیے اچھارہے ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  نے اپنی زرہ اٹھائی اوراسے بیچنے کے لیے بازارکی طرف چل نکلا،وہ زرہ میں  نے چارسودرہم کے عوض عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ ڈالی جب میں  نے ان سے درہم لے لیے اورانہوں  نے مجھ سے زرہ لے لی تووہ کہنے لگے اے ابوالحسن رضی اللہ عنہ !کیااب میں  زرہ کاحقداراورتم درہم کے حق دارنہیں  ہو؟میں  نے کہاہاں  کیوں  نہیں ،اس پرانہوں  نے کہاپھریہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے، میں  نے زرہ بھی لے لی اوردرہم بھی لے لیے اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آگیامیں  نے زرہ اوردرہم دونوں  چیزیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیں  اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوبتایاکہ عثمان  رضی اللہ عنہ  نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیاہے چنانچہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لیے دعائے خیرکی۔

عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ الْیَشْكُرِیِّ عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ الْیَشْكُرِیِّ أَنَّ [عَلِیًّا تَزَوَّجَ فَاطِمَةَ فَبَاعَ بَعِیرًا لَهُ بِثَمَانِینَ وَأَرْبَعِ مِائَةِ دِرْهَمٍ،  فقال النبی: اجْعَلُوا ثُلُثَیْنِ فِی الطِّیبِ وَثُلُثًا فِی الثِّیَابِ

علباءبن احمدیشکری سے مروی ہے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے جب فاطمہ  رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیاتونکاح کی تیاری کے سلسلے میں  اپناایک اونٹ چارسواسی( ۴۸۰) درہم کافروخت کیااوررقم لے کرحاضرہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس رقم کادوثلث خوشبواورایک ثلث کپڑوں  پرصرف کرو۔[45]

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجاؤاور سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کومیرے پاس بلالاؤ۔۔۔اوراپنے ہی آدمی انصارمیں  سے، چنانچہ میں  گیااوران کوبلالایاجب سب حضرات اپنی اپنی جگہ پربیٹھ گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  تمہیں  گواہ بناتاہوں  کہ میں  نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کانکاح سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  سے چارسومثقال چاندی کے عوض کردیاہے۔[46]

عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ قَالَ:قَالَ عَلِیٌّ: لَقَدْ تَزَوَّجْتُ فَاطِمَةَ وَمَا لِی وَلَهَا فِرَاشٌ غَیْرُ جِلْدِ كَبْشٍ نَنَامُ عَلَیْهِ بِاللیْلِ وَنَعْلِفُ عَلَیْهِ النَّاضِحَ بِالنَّهَارِ. وَمَا لِی وَلَهَا خَادِمٌ غَیْرُهَا

مجالدعامرسے اوروہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں  کہ انہوں  نے فرمایاکہ میں  نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیااورحال یہ تھاکہ میرے اوران کے لئے دنبہ کی ایک کھال کے سوااورکوئی بسترنہ تھا،ہم رات کواس پرسوجاتے اوردن کواسی پراونٹ کے لئے چارہ رکھ دیتے اوراس وقت ہمارے پاس کوئی خادم بھی نہ تھا۔[47]

مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: تَزَوَّجَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَاطِمَةَ بِنْت رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فِی رَجَبٍ بَعْدَ مَقْدَمَ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  الْمَدِینَةَ بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ وَبَنَى بِهَا مَرْجِعَهُ مِنْ بَدْرٍ  وَفَاطِمَةُ یَوْمَ بَنَى بِهَا عَلِیٌّ بِنْتُ ثَمَانِیَ عَشْرَةَ سَنَةً

محمدبن عمربن علی اپنے والدسے نقل کرتے ہیں  کہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کافاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے ساتھ نکاح ماہ رجب میں  ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پانچ ماہ کے بعدہوااوررخصتی غزوہ بدرسے واپسی پرہوئی،اس وقت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی عمراٹھارہ سال تھی۔

وهی ابنة خمس عشرة سنة وخمسة أشهر أو ستة أشهر ونصف وسنة یومئذ إحدى وعشرون سنة وخمسة أشهر

ایک روایت میں  ہےاس وقت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی عمر اکیس سال پانچ ماہ اورفاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی عمرپندرہ سال پانچ ماہ کی تھی۔[48]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کاجہیزتیارکیاجائے۔

عَنْ عِكْرِمَةَ. قَالَ:لَمَّا زَوَّجَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  عَلِیًّا فَاطِمَةَ كَانَ فِیمَا جُهِّزَتْ بِهِ سَرِیرٌ مَشْرُوطٌ وَوِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ وَتَوْرٌ مِنْ أَدَمٍ وقربة، قال: وجاؤوا بِبَطْحَاءَ فَطَرَحُوهَا فِی الْبَیْت

عکرمہ سے منقول ہے   جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے علی  رضی اللہ عنہ اورفاطمہ  رضی اللہ عنہا  کانکاح کیاتوجہیزمیں  علاوہ دیگرسامان کے ایک بنی ہوئی چارپائی،کھجورکی چھال سے بھراہواایک تکیہ ایک لگن اورمشکیزہ دیا،لوگ بطحاءمیں  آئے اور جملہ سامان گھرپہنچادیا۔[49]

عَنْ عَلِیٍّ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهُ بِخَمِیلَةٍ وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ، وَرَحَیَیْنِ وَسِقَاءٍ وَجَرَّتَیْنِ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کوجہیزکے ساتھ روانہ کیاجس میں  کھجورکے پتوں  سے بناہواپلنگ،ایک لحاف ، ایک چمڑے کاگدااورچمڑے کاتکیہ جن میں  کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی ،دوچکیاں ،ایک مشکیزہ اوردومٹی کے گھڑے تھے۔[50]

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ: فَلَمَّا تَزَوَّجَ عَلِیٌّ فَاطِمَةَ قَالَ لِعَلِیٍّ: اطْلُبْ مَنْزِلا، فَطَلَبَ عَلِیٌّ مَنْزِلا فَأَصَابَهُ مُسْتَأْخِرًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَلِیلا. فَبَنَى بِهَا فِیهِ،فَلَمَّا كَانَ لَیْلَةَ الْبِنَاءِ قَالَ: لا تُحْدِثْ شَیْئًا حَتَّى تَلْقَانِی، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ بِإِنَاءٍ فَتَوَضَّأَ فِیهِ ثُمَّ أَفْرَغَهُ عَلَى عَلِیٍّ ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ بَارِكْ فِیهِمَا وَبَارِكْ عَلَیْهِمَا وَبَارِكْ لَهُمَا فِی نَسْلِهِمَا

ابوجعفرسے روایت ہےجب عروسی کاوقت آیاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایاکہ وہ کرایہ کاکوئی مکان حاصل کر لیں ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے ایک گھرتلاش کرلیااورنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی منتقلی کے کچھ ہی عرصے کے بعدوہ اپنے نئے مکان میں  منتقل ہوگئے اوراسی مکان میں  رخصتی عمل میں  آئی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی شب عروسی کوسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایاکہ پہلے مجھ سے مل لینا پھر اپنی اہلیہ سے کوئی بات کرنا،پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور پانی منگواکر وضوفرمایا پھر وہ پانی علی  رضی اللہ عنہ  پرڈال دیا اوریہ دعافرمائی اے اللہ!ان دونوں  میں  ان دونوں  کے اوپر اوران دونوں  کی نسل میں  برکت عطافرما۔[51]

 سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کاولیمہ:

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم فرمایاتواس میں  سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوایک اونٹنی اورایک اونٹنی مزیدخمس میں  سے عنایت فرمائی تھی ۔

أَنَّ عَلِیًّا قَالَ: كَانَتْ لِی شَارِفٌ مِنْ نَصِیبِی مِنَ المَغْنَمِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِیَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِی قَیْنُقَاعَ أَنْ یَرْتَحِلَ مَعِیَ، فَنَأْتِیَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِیعَهُ الصَّوَّاغِینَ، وَأَسْتَعِینَ بِهِ فِی وَلِیمَةِ عُرْسِی، فَبَیْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَیَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ، وَالغَرَائِرِ، وَالحِبَالِ، وَشَارِفَایَ مُنَاخَتَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، رَجَعْتُ حِینَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ، فَإِذَا شَارِفَایَ قَدْ اجْتُبَّ أَسْنِمَتُهُمَا، وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَیْنَیَّ حِینَ رَأَیْتُ ذَلِكَ المَنْظَرَ مِنْهُمَا، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ فَقَالُوا: فَعَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ وَهُوَ فِی هَذَا البَیْتِ فِی شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ،

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےغزوہ بدرکے مال غنیمت سے میرے حصہ میں  ایک جوان اونٹنی آئی تھی اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی ایک جوان اونٹنی خمس کے مال میں  سے عطا فرمائی تھی،جب ارادہ ہواکہ میں  فاطمہ  رضی اللہ عنہا  بنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت کروں  تو بنی قینقاع(قبیلہ یہود) کے صاحب سے جو سنار تھے میں  نے یہ طے کیاکہ وہ میرے ساتھ چلے اورہم دونوں  اذخر گھاس(جنگل سے)لائیں ،میراارادہ یہ تھاکہ میں  وہ گھاس لاکرسناروں  کو فروخت کردوں  گا اوراس کی رقم سے میں  اپنی شادی کاولیمہ کروں  گا،ابھی میں  ان دونوں  اونٹنیوں  کاسامان پالان ،بوریاں اور رسیاں  وغیرہ جمع کررہاتھااورمیری دونوں  اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے گھرکے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ،جب میں سارا سامان اکٹھا کرکے واپس آیاتو کیادیکھتاہوں  کہ میری دونوں  اونٹنیوں  کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں  اوران کے پیٹ چیرکراندرسے ان کی کلیجی نکال لی گئی ہیں ،(یہ حیران کن منظر)دیکھ کراپنے آنسووں  پرکنٹرول نہ کرسکااوربے اختیاررودیا،میں  نے پوچھاکہ یہ سب کچھ کس نے کیاہے ؟تولوگوں  نے کہا حمزہ  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب نے اور حمزہ  رضی اللہ عنہ  چندشراب خورانصاریوں  کے ساتھ اسی گھرمیں  موجودہیں ، حمزہ  رضی اللہ عنہ  اوران کے ساتھیوں  کوایک گانے والی عورت نے ایک شعرسنایاتھا اے حمزہ ! صحن میں  بیٹھی ان موٹی موٹی اونٹنیوں کوذبح کرنے کے لئے اٹھو،(یہ سن کر) حمزہ  رضی اللہ عنہ اپنی تلوارلے کر اٹھے اوران اونٹنیوں کے کوہانوں  کو کاٹ دیا اوران کی کھوکھوں  کو پھاڑ ڈالا ، اوران کے کلیجے نکال دیئے

فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَعَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَجْهِی الَّذِی لَقِیتُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ؟، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَیْتُ كَالیَوْمِ قَطُّ، عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَیَّ، فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِی بَیْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ، فَارْتَدَى، ثُمَّ انْطَلَقَ یَمْشِی وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ البَیْتَ الَّذِی فِیهِ حَمْزَةُ،

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  نے یہ خطرناک منظردیکھاتومیں  اسی وقت وہاں  سے واپس آگیااورسیدھا نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر آیا،آپ کی خدمت میں اس وقت زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے کے آثارسے سمجھ گئے کہ میں  کسی بڑے صدمے میں  ہوں ،اس لئےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےدریافت فرمایا اے علی  رضی اللہ عنہ  کیاہوا؟میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  نے آج کے دن جیساصدمہ کبھی نہیں  دیکھا ، حمزہ  رضی اللہ عنہ   نے میری اونٹنیوں  پرظلم کردیا،دونوں  کے کوہان کاٹ ڈالےاوران کی کھوکھیں  پھاڑڈالیں ،ابھی بھی وہ اسی گھرمیں  کئی یاروں  کے ساتھ شراب کی مجلس جمائے ہوئے موجودہیں ،  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کراپنی چادرمانگی اوراسے اوڑھ کرپیدل ہی چل پڑے ،میں  اور زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے،آکرجب وہ گھرآگیاجس میں  حمزہ  رضی اللہ عنہ  موجود تھے،

فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنُوا لَهُمْ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَلُومُ حَمْزَةَ فِیمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ، مُحْمَرَّةً عَیْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِیدٌ لِأَبِی؟ فَعَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَیْهِ القَهْقَرَى، وَخَرَجْنَا مَعَهُ

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اندرآنے کی اجازت مانگی تواندرموجودلوگوں  نے آپ کواجازت دے دی،وہ لوگ شراب پی رہے تھے،حمزہ  رضی اللہ عنہ نے جوکچھ کیاتھااس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  اس فعل پرملامت کرناشروع کی ،حمزہ  رضی اللہ عنہ  کی آنکھیں  شراب کے نشے سے مخموراورسرخ ہورہی تھیں ،انہوں  نے نظراٹھاکرآپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف دیکھا پھرنظر ذرااوراوپراٹھائی ،پھروہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھٹنوں  کی طرف دیکھاپھرنگاہ اٹھاکرآپ کی ناف کی طرف دیکھنے لگے،پھرآپ کے چہرہ مبارک پرجمادی ،پھر کہنے لگے کہ تم سب میرے باپ کے غلام ہو،یہ حال دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومعلوم ہواکہ حمزہ  رضی اللہ عنہ  نشہ میں  مبتلاہیں  توالٹے پاوں  باہرتشریف لائے اورہم بھی آپ کے ساتھ باہر نکل آئے ۔[52]

اس وقت تک ام الخبائث شراب حرام نہیں  ہوئی تھی،دونوں اونٹنیاں  توولیمہ میں  کام نہ آسکیں  پھرسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ولیمہ کاکھانا جوکا دلیہ ، کھجور اور کھجور،ستواور(گھی سے بناہواحلوہ) حسیس تیارفرمایا۔

ایک روایت ہے کہ آپ  رضی اللہ عنہ  کے ولیمہ میں  سعد  رضی اللہ عنہ  کی طرف سے دنبہ ذبح کیاگیاتھا اور انصارکی ایک جماعت کی طرف سے مکی کا دلیہ تیارکیاگیاتھا۔

فَجَاءَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  إِلَیْهَا فَقَالَ: إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُحَوِّلَكِ إِلَیَّ، فَقَالَتْ لِرَسُولِ اللهِ: فَكَلِّمْ حَارِثَةَ بْنَ النُّعْمَانِ أَنْ یَتَحَوَّلَ عَنِّی،  فَقَالَ رَسُولُ اللهِ:قَدْ تَحَوَّلَ حَارِثَةُ عَنَّا حَتَّى قَدِ اسْتَحْیَیْتُ مِنْهُ،فَبَلَغَ ذَلِكَ حَارِثَةَ فَتَحَوَّلَ  وَجَاءَ إِلَى النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ بَلَغَنِی أَنَّكَ تُحَوِّلُ فَاطِمَةَ إِلَیْكَ وَهَذِهِ مَنَازِلِی وَهِیَ أَسْقَبُ بُیُوتِ بَنِی النجار بك. وإنما أنا وما لی لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ.وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ الْمَالُ الَّذِی تَأْخُذُ مِنِّی أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی تدع  فقال رسول الله صَدَقْتَ. بَارَكَ اللهُ عَلَیْكَ. فَحَوَّلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  إِلَى بَیْتِ حَارِثَةَ

فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی رخصتی کے بعدنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس تشریف لائے اورفرمایامیں  تمہیں  اپنے قریب ہی رکھناچاہتاہوں ،فاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے کہاآپ حارثہ بن نعمان سے کہیں  کہ وہ اپنا مکان تبدیل کرلیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے پہلے ہی اس سے مکان تبدیل کروا چکا ہوں  اب ان سے کچھ کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے،کسی نہ کسی طرح یہ خبر حارثہ بن نعمان  رضی اللہ عنہ  تک جا پہنچی کہ آپ مکان لیناچاہتے ہیں ،وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں  نے یہ سناہے کہ آپ بنو نجار فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کواپنے قریب بلاناچاہتے ہیں ،یہ میرے گھرہیں  اوریہ بنونجارکے گھروں  میں  سے آپ کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں (سوآپ ان میں  سے جوچاہیں  قبول فرمالیں )میں  اور میرا مال سب اللہ اوراس کے رسول کے لئے ہیں ،اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !جومال آپ مجھ سے لے لیں  گے وہ اس چھوڑدینے والے مال سے زیادہ محبوب ہوگا،ان کے جذبہ ایثاروقربانی کودیکھ کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے صحیح کہااللہ تجھے برکت دے،چنانچہ حارثہ بن نعمان  رضی اللہ عنہ  وہ مکان چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئے اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  اور فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کواس مکان میں  لااتارا۔[53]

[1] ابن ہشام ۴۳؍۲،الروض الانف ۲۷۰؍۵،عیون الآثر۳۴۲؍۱،مغازی واقدی۱۸۳؍۱

[2] عیون الآثر۳۴۷؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۱۷۲؍۴، مغازی واقدی۱۸۳؍۱،امتاع الاسماع ۳۵۰؍۸

[3] ابن سعد۲۱؍۲،مغازی واقدی۱۷۵؍۱

[4] ابن سعد۲۱؍۲،مغازی واقدی ۱۷۵؍۱،الروض الانف ۵۴۸؍۷،عیون الآثر ۳۴۱؍۱، شرع زرقانی المواھب ۳۴۷؍۲

[5]ابن ہشام ۵۵۵،۵۵۶؍۱

[6] آل عمران۹۹  

[7] آل عمران۱۰۰تا۱۰۳

[8] ابن ہشام۴۷؍۲،تاریخ طبری ۴۷۹؍۲،البدایة والنھایة ۳؍۴،عیون الاثر۳۴۳؍۱،ابن خلدون ۴۳۲؍۲

[9] البقرة۱۰۹

[10] الحدید۸

[11] تفسیرابن ابی حاتم ۷۲۲؍۳

[12] مسند احمد ۲۷۳۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ جَهَنَّمَ  بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ۲۵۸۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۲۵،صحیح ابن حبان۷۴۷۰، مستدرک حاکم۳۱۵۸،سنن الکبری للنسائی ۱۱۰۰۴

[13] مسنداحمد۱۴۱۲۵

[14] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ۷۴۰۵، صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ  بَابُ الْحَثِّ عَلَى ذِكْرِ اللهِ تَعَالَى۶۸۰۵

[15] صحیح مسلم كِتَابُ الْأَقْضِیَةِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ۴۴۸۱

[16] الانفال۶۲،۶۳

[17] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۳۳۰،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۶

[18] آل عمران ۱۲،۱۳

[19] ابن ہشام ۴۷،۴۸؍۲،الروض الانف ۲۷۷؍۵،عیون الآثر ۳۴۳؍۱، البدایة والنہایة۵؍۴،شرح الزرقانی علی الموھب۳۵۰؍۲

[20] عیون الآثر۳۴۴؍۱

[21] ابن ہشام۴۸؍۲ ،الروض الانف ۲۷۷؍۵، البدایة والنہایة۵؍۴،عیون الآثر۳۴۳؍۱،مغازی واقدی ۱۷۷؍۱

[22] شرح الزرقانی علی المواھب۳۵۲؍۲، مغازی واقدی ۱۷۸؍۱، زادالمعاد ۱۱۵؍۳،ابن ہشام ۴۸؍۲

[23] ابن ہشام ۴۷تا۴۹؍۲،ابن سعد۲۲؍۲،مغازی واقدی ۱۷۸؍۱، زادالمعاد۱۱۵؍۳

[24] ابن ہشام ۴۹؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۳۵۲؍۲

[25] المائدة ۵۱تا۵۶

[26]بنی اسرایل۱۰۱ 

[27] مسنداحمد۱۸۰۹۲

[28]مسنداحمد۲۴۸۳،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرَّعْدِ ۳۱۱۷ 

[29] الرعد۳۸

[30] الإسراء: 85

[31] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بنی اسرائیل بَابُ وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ۴۷۲۱ ،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ سُؤَالِ الْیَهُودِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ وقَوْلِهِ تَعَالَى یَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ۷۰۵۹

[32] النحل ۲

[33] المومن ۱۵

[34] الشوریٰ ۵۲

[35] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ بَیَانِ صِفَةِ مَنِیِّ الرَّجُلِ، وَالْمَرْأَةِ وَأَنَّ الْوَلَدَ مَخْلُوقٌ مِنْ مَائِهِمَا۷۱۶

[36] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ  الرِّفْقِ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ۶۰۲۴، وبَابُ لَمْ یَكُنِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلاَ مُتَفَحِّشًا۶۰۳۰

[37] ابن ہشام ۴۴؍۲،الروض الانف ۳۸۹؍۵، عیون الآثر۳۴۵؍۱،البدایة والنہایة۴۱۶؍۳

[38] ابن ہشام ۴۴،۴۵؍۲، زادالمعاد۱۷۰؍۳

[39] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ اسْتِقْبَالِ الإِمَامِ النَّاسَ فِی خُطْبَةِ العِیدِ۹۷۶، وبَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِی خُطْبَةِ العِیدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَیْءٍ وَهُوَ یَخْطُبُ۹۸۳، وبَابُ الأَكْلِ یَوْمَ النَّحْرِ عن براء۹۵۴، صحیح مسلم  کتاب الاضاحی بَابُ وَقْتِهَا ۵۰۷۰

[40] سنن ابو داؤد کتاب  الضحایا بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَایَا ۲۷۹۵

[41] صحیح بخاری فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ القُرَشِیِّ العَدَوِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۶۸۳، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ عن سعدبن ابی وقاص۶۲۰۲

[42]صحیح بخاری کتاب الاداب بَابُ تَحْوِیلِ الِاسْمِ إِلَى اسْمٍ أَحْسَنَ مِنْه۶۱۹۱ 

[43] ابن سعد۱۶؍۸

[44] ابن سعد۱۷؍۸،مسنداحمد۶۰۳

[45] ابن سعد۱۸؍۸

[46] تاریخ مسعودی

[47] ابن سعد۱۸؍۸

[48] شرح الزرقانی علی المواہب ۳۵۸؍۲

[49] ابن سعد۱۹؍۸

[50] مسنداحمد۸۱۹

[51] ابن سعد۱۷؍۸

[52] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب  فَرْضِ الخُمُسِ ۳۰۹۱، صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ، وَبَیَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِیرِ الْعِنَبِ، وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِیبِ، وَغَیْرِهَا مِمَّا یُسْكِرُ ۵۱۲۷،سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابٌ فِی بَیَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ، وَسَهْمِ ذِی الْقُرْبَى  ۲۹۸۶

[53] ابن سعد۱۹؍۸

Tags:
Related Articles