ہجرت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورةالماعون

اس سورہ میں  اختصارکے ساتھ ان لوگوں  کاذکرہے جومعاشرتی زندگی میں  اچھے اخلاق اوراچھی عادات سے محروم ہیں  جوایک مہذب معاشرے کی علامت سمجھی جاتی ہیں  ۔

کافرجوعلانیہ قیامت کے دن کوجھٹلاتے ہیں  اس لیے اعمال کی جزاسے بے خوف ہوکریتیموں  کے حقوق دبالیتے ہیں  اوران کے ساتھ سختی کامعاملہ کرتے ہیں ،مال ودولت کے لالچ میں غربااورمساکین کونہ خودکھلاتے ہیں  اورنہ دوسروں  کواس کی ترغیب دیتے ہیں  گویاکہ نہ تواللہ کے ساتھ ان کامعاملہ صحیح ہے اورنہ اللہ کے بندوں  کے ساتھ،حالانکہ ایک مہذب معاشرے کے تمام افرادکی ذمہ داری ہے کہ وہ

xمالی اعتبارسے کمزوراورمفلوک الحال لوگوں  کی معاونت کریں ۔

xاللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس مالی عبادت کے تقاضوں  کوپہچانیں اور معاشرے کے تمام افرادکواس سے آگاہ کریں ۔

xمعاشرے میں  ضرورت مندافرادکی عام ضروریات کالحاظ کریں اوران کی ضروریات پوراکرنے میں  بخل سے کام نہ لیں ۔

لیکن یہ اخلاق اس وقت معاشرے کے افرادمیں  پیداہوتے ہیں  جب معاشرے کے افرادیہ سمجھ لیں  کہ یہ نعمتیں  ہم پراللہ کااحسان ہیں  اوران سے فائدہ اٹھاناصرف ہماراہی حق نہیں  ہے بلکہ اس معاشرے کے ہرفردکااس میں  حصہ ہے ،لیکن حریص اوربخیل انسان سے یہ بات ممکن نہیں ، اس لیے آخرت میں  ان اشیاء کے محاسبے کی طرف توجہ دلائی کہ ان نعمتوں  کی بابت آخرت میں  یقیناًجواب طلب کیاجائے گا،اس وقت کے لیے ابھی سے تیاری کی جانی چاہیے۔

منافقین جوبظاہرمسلمان ہیں مگرجن کے دلوں  میں  آخرت اوراس کی جزاوسزاکاکوئی تصورنہیں ،اس لیے وہ ان تین صفات قبیحہ کے حامل ہوتے ہیں ۔

x پہلی صفتیہ ہے کہ وہ نمازسے غافل ہیں ،یہ غفلت دواعتبارسے ہوسکتی ہے ایک یہ کہ نمازاداہی نہ کی جائے دوسری یہ کہ نمازتوپرھی جائے مگراس میں نہ وقت کی پابندی کالحاظ رکھاجائے اور نہ ہی اس میں  خشوع وخضوع اختیارکیاجائے۔

xدوسری صفت یہ کہ ان کے تمام اعمال صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں ۔

xتیسری صفت یہ کہ وہ ایسے بخیل ہیں  کہ عام ضرورت کی چیزبھی دینے سے انکارکردیتے ہیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

أَرَأَیْتَ الَّذِی یُكَذِّبُ بِالدِّینِ ‎﴿١﴾‏ فَذَٰلِكَ الَّذِی یَدُعُّ الْیَتِیمَ ‎﴿٢﴾‏ وَلَا یَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِینِ ‎﴿٣﴾‏ (الماعون)
کیا تونے(اسے بھی) دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کے لیے ترغیب نہیں  دیتا ۔

حیات بعدالموت اورروزمحشراعمال کی جزاوسزاکے عقیدے کونہ ماننے کے نتیجہ میں  بے شمارخرابیاں  پیداہوتی ہیں ،اس سلسلہ میں  اللہ تعالیٰ نے دوایسی چیزیں  بطورنمونہ پیش فرمائیں  ،جن کوہرشریف الطبع اورسلیم الفطرت انسان تسلیم کرتاہے کہ یہ نہایت قبیح اخلاقی روائل ہیں ،فرمایا اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے اس شخص کے حال پرغورکیاہے جو آخرت میں جزائے اعمال کی تکذیب کرتاہے،انبیاء ومرسلین جوکچھ لے کرآئے ان پرایمان نہیں  لاتاکیونکہ وہ حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسز کامنکرہے،اللہ کی شدید پکڑ سے بے خوف ہے اس لئے اس شخص کااخلاقی کرداریہ ہے کہ وہ یتیم کوجوزیادہ محبت وشفقت کامستحق ہے کی پرورش اوراس کیساتھ حسن سلوک کرنے کے بجائے اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث پرناجائزقبضہ کرلیتا ہے یعنی اس کامعاشی استحصال کرتاہے اورقساوت قلبی اورتندخوئی اسے دھکے مارکرباہرنکال دیتاہے ،اوراگرگھرسے باہرنہ بھی کرے تواسے نوکر کی طرح رکھتاہے اورہروقت جھڑکیاں  دیتارہتاہے ،اوراگرکوئی مفلوک الحال یتیم مددمانگنے کے لئے آجائے تواس کی حالت زارپررحم کھانے اوراس کی مالی معاونت کرنے کے بجائے اسے سختی سے دھتکاردیتاہے ،کیونکہ وہ مال حاصل کرنے میں حریص اورمال کواللہ کی راہ میں  خرچ کرنے میں بخیل ہے اس لئے اس کے دل میں  انسانی قدروں  اور اخلاقی ضابطوں  کی کوئی اہمیت ومحبت نہیں ، اس لئے مسکین کو خود کھانا کھلاتاہے اورنہ ہی گھروالوں  یا دوسروں  کواس کارخیرمیں  شامل کرنے کے لئے اکساتا ہےحالانکہ بھوکے کوکھاناکھلاناانسان کی شرافت کاکم سے کم پیمانہ ہے ،جیسے فرمایا

كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۝۱۷ۙوَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۱۸ۙوَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا۝۱۹ۙوَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۝۲۰ۭ [1]

ترجمہ: بلکہ تم یتیم سے عزت کاسلوک نہیں  کرتے اورمسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کونہیں  اکساتے،اور میراث کاسارامال سمیٹ کرکھاجاتے ہواورمال کی محبت میں  بری طرح گرفتارہو۔

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِینَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ‎﴿٥﴾‏ الَّذِینَ هُمْ یُرَاءُونَ ‎﴿٦﴾‏ وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ‎﴿٧﴾‏(الماعون)
ان نمازیوں  کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں  اور برتنے کی چیز روکتے ہیں  ۔

تباہی وبربادی ہے ان منافقوں  کے لئے جونمازپڑھنے والے گروہ یعنی مسلمانوں میں  شامل ہیں ،مگراسلام کادعویٰ کرنے کے باوجودروزمحشرپرایمان نہیں  رکھتے،اوراللہ کی یاد کے لئے نمازسے غافل ہیں  یعنی پڑھنااورنہ پڑھناان کے لئے برابرہی ہے،اوراگرنمودونمائش اورریاکاری کے لئے نماز پڑھتے بھی ہیں  تومسنون وقت کے بجائے مکروہ وقت میں  خشوع وخضواورتدبروغوروفکر کو بلائے طاق رکھ کر چار ٹھونگیں  مارلیتے ہیں ،انہی لوگوں  کے بارے میں  ایک مقام فرمایا

۔۔۔وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ۝۵۴ [2]

ترجمہ: وہ نمازکے لئے نہیں  آتے مگرکسمساتے ہوئے اور(اللہ کی راہ میں )خرچ نہیں  کرتے مگربادل ناخواستہ۔

۔۔۔وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ یُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْكُرُوْنَ اللهَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۱۴۲ۡۙ [3]

ترجمہ:اورجب وہ نمازکے لئے اٹھتے ہیں  توکسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں  ،لوگوں  کو دکھاتے ہیں  اوراللہ کوکم ہی یاد کرتے ہیں ۔

عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ:  سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِینَ، تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِینَ،تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِینَ، یَجْلِسُ أَحَدُهُمْ حَتَّى إِذَا اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ فَكَانَتْ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، أَوْ عَلَى قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا یَذْكُرُ اللهَ فِیهَا إِلَّا قَلِیلًا

اورایسے لوگوں  کی نمازکے بارے میں  علاء بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ فرماتے تھےیہ منافقوں  کی نمازہے،یہ منافقوں  کی نماز ہے ، یہ منافقوں  کی نمازہے،ان میں  سے ایک(عصرکے وقت) بیٹھارہتاہے حتی کہ جب سورج زردہوجاتاہے اور شیطان کے دونوں  سینگوں  کے درمیان یاان سینگوں  کے اوپر پہنچ جاتاہے(یعنی سورج غروب کا وقت قریب ہو جاتا ہے ) تواٹھ کرمرغ کی طرح چارٹھونگیں  مارلیتاہے جن میں  اللہ کا ذکربرائے نام کرتاہے۔[4]

یہ لوگ کوئی بھی نیک کام اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے نہیں  بلکہ دوسروں  کودکھانے کے لئے کرتے ہیں  تاکہ معاشرے میں  ان کے کارخیر کا ڈھنڈورا پیٹا جائے اورلوگ ان کو نیکوکاروں  میں  سمجھیں  ،جیسے فرمایا

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللهَ وَھُوَخَادِعُھُمْ۝۰ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ یُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْكُرُوْنَ اللهَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۱۴۲ۡۙ  [5]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !) بےشک منافق (اپنے نزدیک) تو اللہ کو فریب دے رہے ہیں  حالانکہ وہ انہیں  کو دھوکا دے رہا ہے اور جبکہ وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں  تو ہارے دل سے کھڑے ہوتے ہیں  ( صرف ) لوگوں  کو دکھانے کو اور اللہ کو تو بہت ہی کم یاد کرتے ہیں ۔

فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ:حَدَّثَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ یَوْمُ القِیَامَةِ یَنْزِلُ إِلَى العِبَادِ لِیَقْضِیَ بَیْنَهُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِیَةٌ، فَأَوَّلُ مَنْ یَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ القُرْآنَ، وَرَجُلٌ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ، وَرَجُلٌ كَثِیرُ الْمَالِ، فَیَقُولُ اللَّهُ لِلْقَارِئِ: أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِی؟ قَالَ: بَلَى یَا رَبِّ. قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیمَا عُلِّمْتَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَیَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَیَقُولُ اللَّهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ: إِنَّ فُلاَنًا قَارِئٌ فَقَدْ قِیلَ ذَاكَ،

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جل جلالہ قیامت کے دن بندوں  کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس نزول فرمائے گا،اوراس وقت ہرگروہ گھٹنوں  کے بل گرپڑاہوگا چنانچہ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ایک مردکوبلائے گاجس نے قرآن اپنے سینہ میں  جمع کیاہوگا(یعنی حفظ کیاہوگا)اورایک مردکوبلائے گاجسے اللہ کی راہ میں  قتل کیا گیا ہوگا (یعنی شہیدہوگا)اورایک مردہوگاجوبہت مال رکھتاہوگاپس اللہ تعالیٰ قرآن کے قاری سے فرمائے گامیں  نے اپنے رسول پرجونازل کیاتھاکیامیں  نے تجھے نہیں  سکھلایاتھا،وہ کہے گاہاں  اے پروردگار!اللہ تعالیٰ فرمائے گا جوعلم تونے حاصل کیاتھااس پرعمل بھی کیاتھا؟قاری جواب دے گامیں  راتوں  کواوردن کے وقتوں  میں اس کی قرآت کرتاتھایعنی تہجداورنمازوں  میں  قرآن پڑھتاتھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتونے جھوٹ بولااورفرشتے بھی بول اٹھیں  گے تونے جھوٹ بولا،اللہ تعالیٰ فرمائے گابلکہ تویہ خواہش رکھتاتھاکہ لوگ تجھے قاری کہیں یعنی تو توصرف اپنے نام کی مشہوری چاہتاتھاچنانچہ دنیامیں  تجھے قاری کہاگیا۔

وَیُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَیَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَیْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ؟ قَالَ: بَلَى یَا رَبِّ، قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیمَا آتَیْتُكَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ، فَیَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَیَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ: فُلاَنٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِیلَ ذَاكَ،

فرشتے صاحب مال کوبارگاہ الہٰی میں  پیش کریں  گے اللہ عزوجل اس سے فرمائے گاکیامیں  نے تجھے مال ودولت میں  وسعت نہیں  دی تھی اورکسی کامحتاج نہیں  چھوڑا تھاوہ عرض کرے گاہاں  اے میرے رب!اللہ تعالیٰ فرمائے گاپھراس مال ودولت کاتم نے کیاکیا؟وہ عرض کرے گامیں  نے صلہ رحمی کی اورتیری راہ میں صدقہ خیرات کرتارہا،اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاتونے جھوٹ بولااورفرشتے بھی بول اٹھیں  گے تونے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ فرمائے گااس صلہ رحمی اورصدقہ وخیرت سے تیرامقصدسخی کہلواناتھاچنانچہ دنیامیں  توسخی مشہورہوگیا

وَیُؤْتَى بِالَّذِی قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَیَقُولُ اللَّهُ لَهُ: فِی مَاذَا قُتِلْتَ؟ فَیَقُولُ: أُمِرْتُ بِالجِهَادِ فِی سَبِیلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ، فَیَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَیَقُولُ اللَّهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ: فُلاَنٌ جَرِیءٌ , فَقَدْ قِیلَ ذَاكَ،

پھرفرشتے اس شخص کوبارگاہ الٰہی میں  پیش کریں  گے جسے اللہ کی راہ میں  قتل کیاگیاتھااللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاتوکس لیے قتل کیا گیا تھا؟وہ عرض کرے گااے میرے رب! تونے اپنی راہ میں جہادکاحکم فرمایاتھاچنانچہ میں  نےتیری راہ میں  جہادکیایہاں  تک کہ قتل کیاگیا،اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاتونے جھوٹ بولااورفرشتے بھی بول اٹھیں  گے تونے جھوٹ بولا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتیری خواہش یہ تھی کہ توبہادرکہلائے چنانچہ دنیامیں  توبہادرکہاگیا

ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتِی فَقَالَ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، أُولَئِكَ الثَّلاَثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ یَوْمَ القِیَامَةِ {مَنْ كَانَ یُرِیدُ الحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِیهَا وَهُمْ فِیهَا لاَ یُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِینَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ}.

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنادست مبارک میرے زانوپرمارااورفرمایااے ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ !یہ تین پہلے اشخاص ہیں  جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ سلگائی اوربھڑکائی جائے گی، جیسے فرمایا’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں  کے طالب ہوتے ہیں  ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں  ان کو دے دیتے ہیں  اور اس میں  ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں  کی جاتی،مگر آخرت میں  ایسے لوگوں  کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں  ہے ۔ (وہاں  معلوم ہو جائے گا کہ ) جو کچھ انہوں  نے دنیا میں  بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘‘ [6]

یعنی جوشخص دوسروں  کوسنانے کے لئے نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں  کو سناکرعذاب کرے گا اور اسے ذلیل و حقیرکرے گا۔

مگریہ اتنے بخیل اور حریص ہوتے ہیں  کہ روزمرہ ضرورت کی معمولی چیزجیسے ہنڈیا، کلہاڑی،کدال ، ڈول،ترازووغیرہ اپنے قریبی رشتہ داراورہمسائے تک تودوگھڑی کے لئے مستعارنہیں  دیتے۔

وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ،إِذَا جَلَسَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ قَامَ، فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ، أَكْرَمَكُمُ اللهُ بِهِ، وَأَعَزَّكُمْ بِهِ، فَانْصُرُوهُ وعَزّروه، وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا ثُمَّ جَلَسَ

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے اپنے اسلام کے اظہارکا یہ طریقہ اپنایاجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کاخطبہ ارشادکرنے کے لئے منبرپر بیٹھتے توپہلے خود کھڑا ہو جاتا اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کومخاطب کرکے کہتالوگو!تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں  ،ان کے زریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں  عزت وشرف بخشاہے لہذااب تم پرفرض ہے کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مددکرواورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت وتکریم کرو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان سنواورجوفرمائیں  بجالاؤ،یہ کہہ کرپھربیٹھ جاتا۔[7]

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرماتے۔

دستورالعمل یہودیان

غزوہ بدکے بعدجب ایک زبردست فتح سے مسلمانوں  کی دھاک ہرطرف بیٹھ گئی تھی اوراہل مدینہ نے اپنے سابقہ معاہدات حلیفی جویہودیوں  کے ساتھ منسوخ کرلیے تھے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آس پاس ینبوع تک کے قبائل مثلاًبنی ضمرہ،جہنیہ وغیرہ سے حلیفیاں  کرکے مسلمانوں  کی قوت کوبے حدمضبوط اورمستحکم بنادیاتھا،یہودیوں  کے دوبڑے گروہ آپ کے حریف ورقیب تھے،ان کامل کررہنااورالگ مستقل رہ کرنپنت اورمحفوظ رہناممکن نہ تھااوروہ ہرطرف سے بچھڑکربے یارومددگاراورہرقوی کاشکاربنے ہوئے تھے ،ان حالات نے انہیں  مجبورکیاکہ اپنی مذہبی آزادی اوراندرونی خودمختاری برقراررکھتے ہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ماتحتانہ تعاون کریں ،چنانچہ یہودی قبائل نے من حیث القوم نہیں  بلکہ ہرگروہ نے علیحدہ علیحدہ معاہدہ کیا ،ابن اسحاق سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودوانصارکے درمیان باہمی صلح وامن کے ساتھ رہنے کے لئے ایک معاہدہ تحریرفرمایاجس میں  انہیں  اپنے مذہب اور اپنے مال واسباب پرقائم رکھا گیا ان پرکچھ شرطیں ، پابندیاں  عائدفرمائیں  اورکچھ شرطیں  ان کے مفاد میں  رکھیں ،وہ معاہدہ یہ تھا۔

وَإِنَّ الْیَهُودَ یُنْفِقُونَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ مَا دَامُوا مُحَارِبِینَ

xاوریہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں  گے جب تک وہ مل کرجنگ کرتے رہیں ۔

وَإِنَّ یَهُودَ بَنِی عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ، لِلْیَهُودِ دِینُهُمْ، وَلِلْمُسْلِمَیْنِ دِینُهُمْ، مَوَالِیهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ، إلَّا مَنْ ظَلَمَ وَأَثِمَ، فَإِنَّهُ لَا یُوتِغُ  إلَّا نَفْسَهُ، وَأَهْلَ بَیْتِهِ

x اوربنوعوف کے یہودی،مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت(یاامت)تسلیم کئے جاتے ہیں ،یہودیوں  کوان کادین اورمسلمانوں  کوان کادین،موالی ہوں  کہ اصل،ہاں  جوظلم یاعہدشکنی کاارتکاب کرے تواس کی ذات یاگھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں  نہیں  پڑے گا۔

وَإِنَّ لِیَهُودِ بَنِی النَّجَّارِ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ

xاوربنی النجارکے یہودیوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کو۔

وَإِنَّ لِیَهُودِ بَنِی الْحَارِثِ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ

xاوربنی الحارث کے یہودیوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کو۔

وَإِنَّ لِیَهُودِ بَنِی سَاعِدَةَ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ

xاوربنی ساعدہ کے یہودیوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کو۔

وَإِنَّ لِیَهُودِ بَنِی الْأَوْسِ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ

xاوربنی الاوس کے یہودیوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کو۔

وَإِنَّ لِیَهُودِ بَنِی ثَعْلَبَةَ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ، إلَّا مَنْ ظَلَمَ وَأَثِمَ، فَإِنَّهُ لَا یُوتِغُ إلَّا نَفْسَهُ وَأَهْلَ بَیْتِهِ

xاوربنی ثعلبہ کے یہودیوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کو، ہاں  جوظلم یاعہدشکنی کاارتکاب کرے توخوداس کی ذات یاگھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں  نہیں پڑے گا۔

وَإِنَّ جَفْنَةَ بَطْنٌ مِنْ ثَعْلَبَةَ كَأَنْفُسِهِمْ

xاورجفنہ کوبھی جو(قبیلہ)ثعلبہ کی ایک شاخ ہے وہی حقوق حاصل ہوں  گے جواصل کو۔

وَإِنَّ لِبَنِی الشَّطِیبَةِ مِثْلَ مَا لِیَهُودِ بَنِی عَوْفٍ، وَإِنَّ الْبِرَّ دُونَ الْإِثْمِ

xاوربنی الشطیبہ کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جوبنی عوف کے یہودیوں  کواوروفاشعاری ہونہ کہ عہدشکنی۔

وَإِنَّ مَوَالِیَ ثَعْلَبَةَ كَأَنْفُسِهِمْ

xاورثعلبہ کے موالی کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جواصل کو۔

وَإِنَّ بِطَانَةَ یَهُودَ كَأَنْفُسِهِمْ

xاوریہودیوں  (کے قبائل)کی ذیلی شاخوں  کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں  گے جواصل کو۔

وَإِنَّهُ لَا یَخْرَجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ إلَّا بِإِذْنِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَا یُنْحَجَزُ عَلَى ثَأْرٍ جُرْحٌ، وَإِنَّهُ مَنْ فَتَكَ فَبِنَفْسِهِ فَتَكَ، وَأَهْلِ بَیْتِهِ، إلَّا مِنْ ظَلَمَ، وَإِنَّ اللهَ عَلَى أَبَرِّ هَذَا

xاوریہ کہ ان میں  سے کوئی بھی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر(فوجی کاروائی کے لئے)نہیں  نکلے گااورکسی مار،زخم کابدلہ لینے میں  کوئی رکاوٹ نہیں  ڈالی جائے گی اورجو خونریزی کرے تواس کی ذات اوراس کاگھرانہ ذمہ دارہوگااورنہ ظلم ہوگا،اوراللہ کے ساتھ ہے جواس (دستورالعمل)کی زیادہ سے زیادہ وفاشعارانہ تعمیل کرے۔

وَإِنَّ عَلَى الْیَهُودِ نَفَقَتَهُمْ وَعَلَى الْمُسْلِمِینَ نَفَقَتَهُمْ، وَإِنَّ بَیْنَهُمْ النَّصْرَ عَلَى مَنْ حَارَبَ أَهْلَ هَذِهِ الصَّحِیفَةِ، وَإِنَّ بَیْنَهُمْ النُّصْحَ وَالنَّصِیحَةَ، وَالْبِرَّ دُونَ الْإِثْمِ، وَإِنَّهُ لَمْ یَأْثَمْ امْرُؤٌ بِحَلِیفِهِ، وَإِنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُومِ

xاوریہودیوں  پران کے خرچے کابارہوگااورمسلمانوں  پران کے خرچے کا،اورجوکوئی اس دستوروالوں  سے جنگ کرے توان(یہودیوں  اورمسلمانوں )میں  باہم امدادعمل میں  آئے گی،اوران میں  باہم حسن مشورہ اوربہی خواہی ہوگی،اوروفاشعاری ہوگی نہ کہ عہدشکنی کوئی آدمی اپنے حلیف کی امداد میں  گنہگار نہ ہوگا کیونکہ مدد تو مظلوم ہی کی ہوگی۔

وَإِنَّ الْیَهُودَ یُنْفِقُونَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ مَا دَامُوا مُحَارَبِینَ

xاوریہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں  گے جب تک کہ وہ مل کرجنگ کرتے ہیں ۔

وَإِنَّ یَثْرِبَ حَرَامٌ جَوْفُهَا لِأَهْلِ هَذِهِ الصَّحِیفَةِ

xاوریثرب کاجوف(یعنی میدان جوپہاڑوں  سے گھراہواہو)اس دستوروالوں  کے لئے ایک حرم(اورمقدس مقام)ہوگا۔

وَإِنَّ الْجَارَ كَالنَّفْسِ غَیْرَ مُضَارٍّ وَلَا آثِمٍ

xپناہ گزین سے وہی برتاؤہوگاجواصل(پناہ دہندہ)کے ساتھ نہ اس کوضررپہنچایاجائے اورنہ خودوہ عہدشکنی کرے گا۔

وَإِنَّهُ لَا تُجَارُ حُرْمَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ أَهْلِهَا

xاورکسی پناہ گاہ میں  وہاں  والوں  کی اجازت کے بغیرکسی کوپناہ نہیں  دی جائے گی(یعنی پناہ دینے کاحق پناہ گزین کونہیں )

وانه ماكان بَیْنَ أَهْلِ هَذِهِ الصَّحِیفَةِ مِنْ حَدَثٍ أَوِ اشْتِجَارٍ یُخَافُ فَسَادُهُ فَإِنَّ مَرَدَّهُ إِلَى اللهِ عزوجل وإلى محمد رسول الله وَإِنَّ اللهَ عَلَى أَتْقَى مَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ وَأَبَرِّهِ

xاوریہ کہ اس دستوروالوں  میں  جوکوئی قتل یاجھگڑارونماہوجس سے فسادکاڈرہوتواسے اللہ اوراللہ کے رسول محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے(جن پراللہ کی توجہ اورسلامتی ہو)رجوع کیاجائے گااوراللہ اس شخص کے ساتھ ہے جواس دستورکے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اورزیادہ سے زیادہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔

وَإِنَّهُ لَا تُجَارُ قُرَیْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَهَا

xاورقریش کوکوئی پناہ نہیں  دی جائے گی اورنہ اس کوجوانہیں  مدددے۔

وَإِنَّ بَیْنَهُمُ النَّصْرَ عَلَى مَنْ دَهَمَ یَثْرِبَ

xاوران (یہودیوں  اورمسلمانوں )میں  باہم مددہی ہوگی ،اگرکوئی یثرب پرٹوٹ پڑے۔

وَإِذَا دُعُوا إلَى صُلْحٍ یُصَالِحُونَهُ وَیَلْبَسُونَهُ، فَإِنَّهُمْ یُصَالِحُونَهُ وَیَلْبَسُونَهُ، وَإِنَّهُمْ إذَا دُعُوا إلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَإِنَّهُ لَهُمْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ، إلَّا مَنْ حَارَبَ فِی الدِّینِ، عَلَى كُلِّ أُنَاسٍ حِصَّتُهُمْ مِنْ جَانِبِهِمْ الَّذِی قِبَلَهُمْ

xاوراگران کوکسی صلح میں  مدعوکیاجائے تووہ بھی صلح کریں  گے اوراس میں  شریک رہیں  گے،اوراگروہ کسی ایسے ہی امرکی طرف بلائیں  گے تومومنین کابھی فریضہ ہوگاکہ ان کے ساتھ ایساہی کریں ،بجزاس کے کوئی دینی جنگ کرے،ہرگروہ کے حصے میں  اسی رخ کی(مدافعت)آئے گی جواس کے بالمقابل ہو۔

وَإِنَّ یَهُودَ الْأَوْسِ، مَوَالِیَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ، عَلَى مِثْلِ مَا لِأَهْلِ هَذِهِ الصَّحِیفَةِ مَعَ الْبِرِّ الْمُحْسِنُ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الصَّحِیفَةِ،وَإِنَّ الْبِرَّ دُونَ الْإِثْمِ

xاور(قبیلہ)الاوس کے یہودیوں  کوموالی ہوں  ،وہی حقوق حاصل ہوں  گے جواس دستوروالوں  کواوروہ بھی اس دستوروالوں  کے ساتھ خالص وفاشعاری کابرتاؤکریں  گے ،اوروفاشعاری ہوگی نہ کہ عہدشکنی،

لَا یَكْسِبُ كَاسِبٌ إلَّا عَلَى نَفْسِهِ، وَإِنَّ اللهَ عَلَى أَصْدَقِ مَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ وَأَبَرِّهِ

جوجیساکرے گاویساخودبھرے گااوراللہ اس کے ساتھ ہے جواس دستورکی مندرجات کی زیادہ سے زیادہ صداقت اورزیادہ سے زیادہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔

وَإِنَّهُ لَا یَحُولُ هَذَا الْكِتَابُ دُونَ ظَالِمٍ وَآثِمٍ، وَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ آمِنٌ، وَمَنْ قَعَدَ آمِنٌ بِالْمَدِینَةِ، إلَّا مَنْ ظَلَمَ أَوْ أَثِمَ، وَإِنَّ اللهَ جَارٌ لِمَنْ بَرَّ وَاتَّقَى، وَمُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

xاوریہ حکم نامہ کی ظالم یاعہدشکن کے آڑے نہ آئے گا،اورجوجنگ کونکلے توبھی امن کامستحق ہوگااورجومدینے میں  بیٹھ رہے توبھی امن کامستحق ہوگا،اورنہ ظلم اورعہدشکنی ہوگی اوراللہ بھی اس کانگہبان ہے جووفاشعاری اوراحتیاط(سے تعمیل عہد)کرے،اوراللہ کارسول بھی جن پراللہ کی توجہ اورسلامتی ہو۔[8]

اس معاہدے کانتیجہ یہ ہواکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں  مامون زندگی بسرکرنے،قوت وطاقت اورعسکری وسائل کوفراہم کرنے ، مذہبی،اقتصادی اورمعاشرتی اختلافات کے باوجود ریاست کے دفاع کے لئے سب کومتحداورصف واحدبنانے اوربیرونی حملے اورغارت گری کے خلاف اورداخلی اختلافات کاتصفیہ اورفیصلہ کرنے میں  بھی کامیاب ہوگئے۔

زکوٰة الفطراورنمازعید(شوال ۲ہجری)

رمضان المبارک کے دوروزے باقی تھے کہ صدقہ الفطراورعیدکی نمازکاحکم نازل ہوا۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙوَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭبَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ  [9]

ترجمہ:بیشک اس نے فلاح پالی جوپاک ہوگیااورجس نے اپنے رب کانام یادرکھااورنمازپڑھتارہا،لیکن تم تودنیاکی زندگی کوترجیح دیتے ہواورآخرت بہت بہتر اور بہت بقاوالی ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ :كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَغْدُو إِلَى المُصَلَّى وَالعَنَزَةُ بَیْنَ یَدَیْهِ تُحْمَلُ، وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَیْنَ یَدَیْهِ، فَیُصَلِّی إِلَیْهَا

چنانچہ عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ یکم شوال دوہجری کومسجدنبوی کے باب السلام سے جنوب مغربی کونے میں  تقریباًپندرہ سوفٹ کے فاصلہ پرکھلے میدان میں  صبح کے وقت عیدگاہ تشریف لے گئے ،آپ کے آگے آگے (سترہ کی غرض سے)ایک نیزہ لے جایا گیااوراسے عیدگاہ میں  گاڑدیاگیا،پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کرکے (پہلی)نمازعیدالفطرادافرمائی۔[10]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالاَ:لَمْ یَكُنْ یُؤَذَّنُ یَوْمَ الفِطْرِ وَلاَ یَوْمَ الأَضْحَى

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  اورجابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عیدالفطریاعیدالاضحی کی نمازکے لئے اذان نہیں  دی جاتی تھی۔ [11]

هُوَ مَوْضِعٌ بِالْمَدِینَةِ مَعْرُوفٌ بَیْنَهُ وَبَیْنَ بَابِ الْمَسْجِدِ أَلْفُ ذِرَاعٍ

علامہ ابن حجرعسقلانی نے اخبارالمدینہ سے نقل کیاہےاس عیدگاہ سے مدینہ منورہ کی وہی مشہورجگہ مراد ہے جوباب السلام سے کوئی ایک ہزارذراع کے فاصلہ پرواقع ہے۔ [12]

مدینہ منورہ کے مورخ علامہ سمہودی نے اسی جگہ کو مسجدالمصلٰی قراردیاہے اوراسی مقام پر سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ اور سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے عیدپڑھنے کاذکربھی کیاہے ،بعد میں  عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  نے پہلی مرتبہ اس جگہ مسجدتعمیرکرائی۔[13]

نویں  صدی ہجری تک اسی مسجدمیں  عیدالفطراورعیدالاضحیٰ پڑھائی جاتی رہی لیکن معلوم نہیں  کہ اس جگہ کے بجائے مسجدنبوی میں  کن وجوہ کی بناپرعیدین کی نمازپڑھی جانے لگی ،ممکن ہے کہ مسجدنبوی کشادہ ہونے کی وجہ سے اس میں  عیدکی نمازشروع کی گئی ہوکیونکہ اس میں  پورے شہرکے لوگ سماسکتے ہیں ۔[14]

عیدالفطرکے مسائل

غسل کرنا:

عیدکے دن غسل کرنا،عمدہ لباس پہننااورخوشبوکااستعمال کرنامستحب ہے۔

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ هَذَا یَوْمُ عِیدٍ، جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِینَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإِنْ كَانَ طِیبٌ فَلْیَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَیْكُمْ بِالسِّوَاكِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناً(جمعہ کے دن)کواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کے لئے عیدبنایاہے،پس جوشخص جمعہ کے لئے آئے اس کو چاہیے کہ غسل کرے اوراگرخوشبومیسرہوتواس کواستعمال کرے اورمسواک کولازم کرو۔[15]

  عَنْ نَافِعٍ،أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ یَغْتَسِلُ یَوْمَ الْفِطْرِ، قَبْلَ أَنْ یَغْدُوَ إِلَى الْمُصَلَّى

نافع  رحمہ اللہ  سے مروی ہےبے شک عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  عیدالفطرکے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیاکرتے تھے۔[16]

عیدکے لئے بہترین کپڑے پہن کرجانا:

إنَّهُ یُسْتَحَبُّ أَنْ یَلْبَسَ أَحْسَنَ ثِیَابِهِ

عیدکے لئے بہترین لباس پہن کرجانامستحب ہے۔[17]

وَكَانَ یَلْبَسُ لِلْخُرُوجِ إِلَیْهِمَا أَجْمَلَ ثِیَابِهِ فَكَانَ لَهُ حُلَّةٌ یَلْبَسُهَا لِلْعِیدَیْنِوَالْجُمُعَةِ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ  نے بیان کیا(عیدگاہ)جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سب سے بہترین لباس زیب تن فرماتے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لباس تھاجسے عیدین اورجمعہ کے موقع پر زیب تن فرماتے، [18]

   عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَلْبَسُ یَوْمَ الْعِیدِ بُرْدَةً حَمْرَاءَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم    عیدکے دن سرخ دھاریوں  والی چادر زیب تن فرماتے تھے۔[19]

عیدین میں  کھانا:

عیدالفطرمیں  مسنون طریقہ یہ ہے کہ نمازعیدکے لئے روانہ ہونے سے پہلے طاق تعدادمیں  کھجوریں  کھائی جائیں ۔

  عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یَغْدُو یَوْمَ الفِطْرِ حَتَّى یَأْكُلَ تَمَرَاتٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطرکے دن کھجوریں  تناول فرمائے بغیرنہ نکلتے تھے۔[20]

   أَنَسًا، یَقُولُ: مَا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فِطْرٍ حَتَّى یَأْكُلَ تَمَرَاتٍ ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ وِتْرًا

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی عیدالفطرکے دن تین ،پانچ،سات یااس سے کم یازیادہ تعدادمیں  کھجوریں  تناول کیے بغیرنہ نکلتے ،کھجوروں  کی تعداد بہرصورت طاق ہی ہوتی تھی[21]

نمازعید،عیدگاہ میں  اداکرنا:

عیدکی نمازباہرکھلے میدان عیدگاہ میں  اداکرنارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت(طریقہ)ہے ۔

 عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ یَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطراورعیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے۔[22]

  عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ :كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَغْدُو إِلَى المُصَلَّى وَالعَنَزَةُ بَیْنَ یَدَیْهِ تُحْمَلُ، وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَیْنَ یَدَیْهِ، فَیُصَلِّی إِلَیْهَا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو نیزہ آپ کے آگے لے جایاجاتاتھا ،پھریہ نیزہ عیدگاہ میں  آپ کے سامنے نصب کردیاجاتااورآپ اس کی طرف رخ کرکے نمازادافرماتے تھے۔[23]

  عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّهُ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فِی یَوْمِ عِیدٍ، فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِیدِ فِی الْمَسْجِدِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے [24]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ضعیف روایت ہے۔

وَهَدْیُهُ كَانَ فِعْلَهُمَا فِی الْمُصَلَّى دَائِمًا

علامہ ابن قیم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں ورنہ دائمی سنت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تھی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نمازعیدگاہ میں  ہی ادافرمایاکرتے تھے۔[25]

السُّنَّةُ أَنْ یَخْرُجَ إِلَى الْمُصَلَّى لِصَلاةِ الْعِیدِ، إِلا مِنْ عُذْرٍ، فَیُصَلِّی فِی الْمَسْجِدِ

امام بغوی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں سنت یہ ہے کہ نمازعیدکے لئے عیدگاہ کی طرف نکلاجائے تاہم عذرکی صورت میں  نمازمسجدمیں  ہی اداکی جائے۔[26]

مستورات عیدگاہ میں  ضرورجائیں :

خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدَیْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَیْرِ فَرْقٍ بَیْنَ الْبِكْرِ وَالثَّیِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَیْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں  کوبھی عیدگاہ میں  جانے کاحکم دیاکرتے تھے خواہ وہ غیرشادی شدہ ہوں  یاشادی شدہ ،جوان ہوں  یابوڑھی ،حیض والی ہوں  یادوسری ،البتہ عدت والی عورتیں  یاجن کے جانے سے فتنے کااندیشہ ہویاکوئی اورعذرہوتووہ اس حکم سے متثنیٰ ہیں ۔[27]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں  تک فرمایا کہ ماہواری والی عورتیں  بھی عیدگاہ جائیں ،وہ جائے نمازسے علیحدہ رہیں  لیکن مسلمانوں  کی دعامیں  شریک ہوں ۔

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، قَالَتْ:  أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِی الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى: الْعَوَاتِقَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُیَّضُ فَیَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَیَشْهَدْنَ الْخَیْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِینَ ،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ: إحْدَانَا لَا یَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ؟قَالَ: لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  حکم دیاکہ ہم عورتوں  کوعیدالفطراورعیدالاضحیٰ میں (عیدگاہ)لے جائیں ،جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں  اورپردہ نشین خواتین کوبھی ،ہاں  حیض والی عورتیں  نمازسے الگ رہیں (لیکن)وہ خیراورمسلمانوں  کی دعامیں  شریک ہوں ،ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں  سے کسی ایک کے پاس جلباب (چادر،اوڑھنی)نہ ہو(تووہ کیاکرے)؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی بہن اس کواپنی چادراوڑھادے۔ [28]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الفِطْرِ فَصَلَّى، فَبَدَأَ بِالصَّلاَةِ، ثُمَّ خَطَبَ  بَعْدُ، فَلَمَّا فَرَغَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ، فَأَتَى النِّسَاءَ، فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ یَتَوَكَّأُ عَلَى یَدِ بِلاَلٍ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطرکے دن اٹھے،پہلے نماز پڑھائی پھرخطبہ ارشادفرمایا(خطبہ سے)فارغ ہوکرعورتوں  کے پاس تشریف لے گئے اور بلال  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پرٹیک لگائے وعظ ونصیحت فرمائی۔[29]

قَالَتْ عَائِشَةُ:كَانَتْ الْكَعَابُ تَخْرُجُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خِدْرِهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جوان عورتیں  اپنے پردے سے عیدین کے لئے جاتی تھیں ۔[30]

عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عَطِیَّةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ، جَمَعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ فِی بَیْتٍ، فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ،فَقَامَ عَلَى الْبَابِ فَسَلَّمَ عَلَیْنَافَرَدَدْنَا عَلَیْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ:أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْكُنَّ، وَأَمَرَنَا بِالْعِیدَیْنِ أَنْ نُخْرِجَ فِیهِمَا الْحُیَّضَ، وَالْعُتَّقَ، وَلَا جُمُعَةَ عَلَیْنَا وَنَهَانَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینے تشریف لائے توانصارکی خواتین کوایک گھرمیں  جمع کیااورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کوہماری طرف بھیجا،وہ دروازے پرکھڑے ہوئے ہم کوسلام کیا،ہم نے سلام کاجواب دیاپھرانہوں  نے کہامیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرستادہ ہوں  آپ نے مجھے تمہاری طرف بھیجاہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  (عورتوں  کو)عیدوں  کے بارے میں  حکم دیاکہ ایام والیوں  اورخوخیزلڑکیوں  کوبھی عیدگاہ لے کے چلیں ،جمعہ ہم پرنہیں  ہے اورجنازوں  میں  جانے سے ہمیں  منع فرمایا۔[31]

حكم الألبانی: ضعیف

لیکن یہ ضروری ہے کہ عورتیں  مکمل باپردہ ہوکرعیدگاہ جائیں ،خوشبونہ لگائیں  اورظاہری زیب وزینت سے گریزکریں  ،غیرمحرم مردوں  کے ساتھ اختلاط سے مکمل اجتناب کریں  ۔

عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِی الطَّرِیقِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ: اسْتَأْخِرْنَ، فَإِنَّهُ لَیْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیقَ عَلَیْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیقِ،فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَیَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ

ابواسیدانصاری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  میں  نے مسجدکے باہررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناجب کہ راستے میں  مردوں  اورعورتوں  کااختلاط ہوچکاتھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عورتوں  سے فرمایا پیچھے ہٹ جاؤ تمہارے لئے یہ جائزنہیں  کہ راستے کے درمیان میں  چلو،راستے کے کنارے میں  چلو، چنانچہ عورت دیوارکے ساتھ لگ کرچلاکرتی تھی حتی کہ اس کاکپڑادیوارکے ساتھ اٹک اٹک جاتاتھا،اس لیے کہ وہ دیوارکے ساتھ لگ کرچلتی تھی۔[32]

امام بخاری  رحمہ اللہ نے عورتوں  کے عیدین میں  شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کونقل فرمایاہے جن میں  کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں ،متعددروایات میں  موجودہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ بیویوں  اورصاحبزادیوں  کوعیدین کے لئے نکالتے تھے،یہاں  تک فرمایاکہ حیض والی بھی نکلیں  اورنمازسے دوررہ کرمسلمانوں  کی دعاؤں  میں  شرکت کریں  اوروہ بھی نکلیں  جن کے پاس چادرنہ ہو،چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں  ان کوچادریادوپٹہ دے دیں  ،بہرحال عورتوں  کاعیدگاہ میں  شرکت کرناایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعارہے جس سے شوکت اسلام کامظاہرہ ہوتاہے اورمردوعورت اوربچے میدان عیدگاہ میں  اللہ کے سامنے سجدہ ریزہوکردعائیں  کرتے ہیں ،جن میں  سے کسی ایک کی بھی دعااگرقبولیت کادرجہ حاصل کرلے توتمام حاضرین کے لئے باعث صدبرکت ہوسکتی ہے،اس بارے میں  کچھ لوگوں  نے فرضی شکوک وشہبات اورمفروضہ خطرات کی بنا پرعورتوں  کاعیدگاہ میں  جانامکروہ قراردیاہےمگریہ جملہ مفروضہ باتیں  ہیں  جن کی شرعاًکوئی اصل نہیں  ہے،عیدگاہ کے منتظمین کافرض ہے کہ پردے کاانتظام کریں  اور ہر فسادوخطرہ کے انسدادکے لئے پہلے ہی سے بندوبست کررکھیں ۔

وَمَا فِی مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِیثِ قَاضِیَةٌ بِمَشْرُوعِیَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدَیْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَیْرِ فَرْقٍ بَیْنَ الْبِكْرِ وَالثَّیِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَیْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ، وَالْقَوْلُ بِكَرَاهَةِ الْخُرُوجِ عَلَى الْإِطْلَاقِ رَدٌّ لِلْأَحَادِیثِ الصَّحِیحَةِ بِالْآرَاءِ الْفَاسِدَةِ

علامہ شوکانی  رحمہ اللہ نے اس بارے میں  مفصل مدلل بحث کے بعدفرمایاہے یعنی احادیث اس میں  فیصلہ دے رہی ہیں  کہ عورتوں  کوعیدین میں  مردوں  کے ساتھ عیدگاہ میں  شرکت کرنا مشروع ہے اوراس بارے میں  شادی شدہ اورکنواری اوربوڑھی اورجوان اورحائضہ وغیرہ کاکوئی امتیازنہیں  ہے جب تک ان میں  سے کوئی عدت میں  نہ ہویاان کے نکلنے میں  کوئی فتنہ کاڈرنہ ہویاکوئی اورعذرنہ ہوتوبلاشک جملہ مسلمان عورتوں  کوعیدگاہ میں  جانامشروع ہے،پھرفرماتے ہیں مطلقاًعورتوں  کے لئے عیدگاہ میں  جانے کومکروہ قراردینایہ اپنی فاسدرایوں  کی بناپراحادیث صحیحہ کوردکرناہے۔[33]

آج کل جوعلماءعیدین میں  عورتوں  کی شرکت ناجائزقراردیتے ہیں ان کواتناغورکرنے کی توفیق نہیں  ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں  بے تحاشابازاروں  میں  اتی جاتی ،میلوں  عرسوں  میں  شریک ہوتیں  اوربہت سی غریب عورتیں  جومحنت مزدوری کرتی ہیں  جب ان سارے حالات میں  یہ مفاسدمفروضہ سے بالاترہیں  توعیدگاہ کی شرکت میں  جبکہ وہاں  جانے کے لئے باپردہ وباادب ہوناضروری ہے کون سے فرضی خطرات کاتصورکرکے ان کے لئے عدم جوازکافتویٰ لگایاجاسکتاہے ۔

شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ صاحب مبارک پوری دام فیضہ فرماتے ہیں  عورتوں  کاعیدگاہ میں  عیدکی نمازکے لئے جاناسنت ہے،شادی شدہ ہوں  یاغیرہ شادی شدہ جوان ہوں  یاادھیڑ یابوڑھی،

 عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُخْرِجُ الأَبْكَارَ، وَالعَوَاتِقَ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ، وَالحُیَّضَ فِی العِیدَیْنِ، فَأَمَّا الحُیَّضُ فَیَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى، وَیَشْهَدْنَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ لَمْ یَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: فَلْتُعِرْهَا أُخْتُهَا مِنْ جَلاَبِیبِهَا

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عیدین میں  دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں  کوعیدگاہ جانے کاحکم دیتے تھے حیض والی عورتیں  نمازسے الگ رہتیں  اور مسلمانوں  کی دعامیں  شریک رہتیں ،ایک عورت نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرکسی عورت کے پاس چادرنہ ہوتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادرمیں  لے جائے۔[34]

جو لوگ کراہت کے قائل ہیں  یاجوان یابوڑھی کے درمیان فرق کرتے ہیں  درحقیقت وہ صحیح حدیث کواپنی فاسداورباطل رایوں  سے ردکرتے ہیں ،حافظ رحمہ اللہ  نے فتح الباری میں  اور ابن حزم رحمہ اللہ  نے اپنی محلی میں  بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں  عورتوں  کوعیدگاہ میں  سخت پردہ کے ساتھ بغیرکسی قسم کی خوشبو لگائے اوربغیربجنے والے زیوروں  اور زینت کے لباس کے جاناچاہیے تاکہ فتنہ کاباعث نہ بنیں

 لَا دَلِیلَ عَلَى مَنْعِ الْخُرُوجِ إِلَى الْعِیدِ لِلشَّوَابِّ مَعَ الْأَمْنِ مِنَ الْمَفَاسِدِ مِمَّا أَحْدَثْنَ فِی هَذَا الزَّمَانِ بَلْ هُوَ مَشْرُوعٌ لَهُنَّ وَهُوَ الْقَوْلُ الرَّاجِحُ

یعنی امن کی حالت میں  جوان عورتوں  کوشرکت عیدین سے روکنااس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں  ہے بلکہ وہ مشروع ہے اورقول راجح یہی ہے۔[35]

عورتوں  کابے پردہ ہوکراورسولہ سنگھارکرکے عیدیاجمعہ کی نمازکے لئے جاناثواب کے بجائے گناہ کاکام ہے جوعورتیں  پردے کے احکام ماننے کے لئے تیارنہیں  ان کا نماز عید یا نمازجمعہ میں  شریک ہونے کاکیامطلب؟اصل چیز تو احکام شریعت کی پابندی ہے نہ کہ دکھلاوے یارسم کے طورپربعض نمازوں  میں  حاضری۔

  تکبیرات عید:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ     [36]

ترجمہ:اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں  چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں  بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں  کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں  سرفراز کیا ہےاس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔

عَنِ الزُّهْرِیِّ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ، فَیُكَبِّرُ حَتَّى یَأْتِیَ الْمُصَلَّى، وَحَتَّى یَقْضِیَ الصَّلَاةَ، فَإِذَا قَضَى الصَّلَاةَ، قَطَعَ التَّكْبِیرَ

امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ  نے زہری  رحمہ اللہ  سے روایت نقل کی ہے یقینارسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطرکے دن تکبیریں  کہتے ہوئے عیدگاہ کی طرف روانے ہوتے،نمازاداکرنے تک تکبیروں  کاسلسلہ جاری رکھتے،جب نمازادافرمالیتے توتکبیریں  کہناترک کردیتے۔[37]

تکبیرات کے الفاظ یہ ہیں ۔

اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ كَبِیرًا۔[38]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  كَانَ یُصَلِّی صَلاةَ الْغَدَاةِ یَوْمَ عَرَفَةَ، ثُمَّ یَسْتَنِدُ إِلَى الْقِبْلَةِ، فَیَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَللَّهِ الْحَمْدُ.

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایام تشریق کی آخری عصرتک یہ تکبیرات کہتے تھے اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالٰہ الااللہ،واللہ اکبروللہ الحمد۔[39]

عن ابن مسعود رضى الله عنه: أنه كان یكبر أیام التشریق: الله أكبر , الله أكبر , لا إله إلا الله , والله أكبر , الله أكبر , ولله الحمد

امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ  نے ابوالاحوص  رحمہ اللہ  سے روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود ایام تشریق میں  یہ تکبیرات کہاکرتے تھے اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالٰہ الااللہ،واللہ اکبروللہ الحمد۔[40]

عباس  رضی اللہ عنہ اس طرح تکبیرات کہاکرتے تھے

الله أكبر كبیراً , الله أكبر كبیراً , الله أكبر وأجل , الله أكبر ولله الحمد

 جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی التَّطَوُّعِ:اللهُ أَكْبَرُ كَبِیرًا – ثَلَاثَ مِرَارٍ – وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِیرًا – ثَلَاثَ مِرَارٍ – وَسُبْحَانَ اللهِ  بُكْرَةً وَأَصِیلًا – ثَلَاثَ مِرَارٍ

جبیربن معطم  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ تکبیرات کہتے ہوئے سنااللہ اکبرکبیرادو مرتبہ والحمدللہ کثیرادو مرتبہ وسبحان اللہ بکرة واصیلا دومرتبہ ۔ [41]

مردوں  کوعیدگاہ کوجاتے ہوئے بلندآوازسے تکبیریں  کہنی چائیں اورعورتوں  کوبھی تاہم عورتیں  تکبیرات اس طرح پڑھیں  کہ ان کی آوازمردوں  تک نہ پہنچے۔[42]

 عورتوں  کابھی تکبیرات کہنا:

وَكَانَتْ مَیْمُونَةُ: تُكَبِّرُ یَوْمَ النَّحْرِ وَكُنَّ النِّسَاءُ یُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِیزِ لَیَالِیَ التَّشْرِیقِ مَعَ الرِّجَالِ فِی المَسْجِدِ

ام المومنین میمونہ  رضی اللہ عنہا  دسویں  تاریخ میں  تکبیرکہتی تھیں  اورعورتیں  ابان بن عثمان  رضی اللہ عنہ  اورعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کے پیچھے ایام تشریق مسجدمیں  مردوں  کے ساتھ تکبیرکہتیں  تھیں ۔[43]

بیماری کے دنوں  والی عورتیں  بھی تکبیرات کہیں :

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، قَالَتْ:كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ یَوْمَ العِیدِ حَتَّى نُخْرِجَ البِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا، حَتَّى نُخْرِجَ الحُیَّضَ، فَیَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، فَیُكَبِّرْنَ بِتَكْبِیرِهِمْ، وَیَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ یَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الیَوْمِ وَطُهْرَتَهُ

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ہمیں  روزعید(عیدگاہ کی طرف)نکلنے کاحکم دیاجاتاتھایہاں  تک کہ کنواری لڑکیاں  اورحیض والی عورتیں  بھی پردہ میں  باہرآتی تھیں  ،یہ سب مردوں  کے پیچھے پردہ میں  رہتیں ،جب مردتکبیرکہتے تویہ بھی کہتیں  اورجب وہ دعاکرتے تویہ بھی کرتیں اوراس دن کی برکت اورگناہوں  کی معافی کی امیدرکھتیں ۔[44]

عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عَطِیَّةَ  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ، جَمَعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ فِی بَیْتٍ، فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ،فَقَامَ عَلَى الْبَابِ فَسَلَّمَ عَلَیْنَافَرَدَدْنَا عَلَیْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ:أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْكُنَّ، وَأَمَرَنَا بِالْعِیدَیْنِ أَنْ نُخْرِجَ فِیهِمَا الْحُیَّضَ، وَالْعُتَّقَ، وَلَا جُمُعَةَ عَلَیْنَا وَنَهَانَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینے تشریف لائے توانصارکی خواتین کوایک گھرمیں  جمع کیااورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کوہماری طرف بھیجا،وہ دروازے پرکھڑے ہوئے ہم کوسلام کیا،ہم نے سلام کاجواب دیاپھرانہوں  نے کہامیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرستادہ ہوں  ،آپ نے مجھے تمہاری طرف بھیجاہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  (عورتوں  کو)عیدوں  کے بارے میں  حکم دیاکہ ایام والیوں  اورخوخیزلڑکیوں  کوبھی عیدگاہ لے کے چلیں ،جمعہ ہم پرنہیں  ہے اورجنازوں  میں  جانے سے ہمیں  منع فرمایا۔[45]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، قَالَتْ:وَالْحُیَّضُ یَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَیُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ

ام عطیہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہئں  اورکہاحیض والیاں  لوگوں  کے پیچھے ہوں  اورلوگوں  کے ساتھ تکبیریں  کہیں ۔[46]

یعنی عورتوں  کے لیے ایام مخصوصہ میں  بھی تکبیرات اوراللہ کاذکرمباح اورمشروع ہےاس کے لیے طہارت ضروری نہیں  ہے۔

نمازعیدین :

عیدین کی نمازاداکرنااہل اسلام پرفرض ہےاس بارے میں  چندایک دلائل ذیل ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ  [47]

ترجمہ: پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

أَنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ صَلَاةَ یَوْمِ النَّحْرِ

امام قرطبی رحمہ اللہ  نے حضرات ائمہ قتادہ،عطائ،عکرمہ  رحمہ اللہ  سے نقل کیاہےاس سے  مراد قربانی کے دن نمازعیدہے۔[48]

قوله عزّ وجلّ:فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ،وفی هذه الصلاة ثلاثة أقوال: أحدها:إِنَّهَا صَلَاةُ الْعِیدِ

حافظ ابن جوزی  رحمہ اللہ  نے’’پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘کی تفسیرمیں  تحریر کیا ہے  اس نمازکے بارے میں  تین اقوال ہیں  اور ان میں  سے پہلاقول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز عید ہے۔[49]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نمازعیداداکرنے کاحکم دیاہے،

عَنْ أَبِی عُمَیْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،أَنَّ رَكْبًا جَاءُوا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَشْهَدُونَ أَنَّهُمْ رَأَوُا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ یُفْطِرُوا، وَإِذَا أَصْبَحُوا أَنْ یَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ

عمیربن انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےانہوں  نے اپنے چچاؤں  سے جوکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں  سے تھے روایت بیان کی ہے کہ سواروں  کی ایک جماعت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  آئی اورانہوں  نے کل شام(شوال کا)چانددیکھنے کی گواہی دی، توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ روزہ افطارکردواورکل صبح (نماز عیدکے لئے) عیدگاہ آجاؤ۔[50]

 عیداورجمعہ:

عیداگرجمعے کے دن ہوتولوگ اسے (نعوذباللہ)نحوست کاباعث سمجھتے ہیں حالانکہ یہ

قِرَانٍ السَّعْدَیْنِ

دوسعادتوں  کاجمع ہوناہے۔

جمعہ بھی مسلمانوں  کی ہفتہ واری عیدکادن ہے ،دوعیدوں  کاجمع ہوجانامزیدسعادت کاباعث ہے نہ کہ نحوست کا،البتہ ایسے موقع پریہ رخصت ہے کہ اگرکوئی شخص جمعہ المبارک کے خطبہ ونمازمیں  حاضر نہ ہوسکے توگناہ نہیں  ہوگاتاہم اس کے لئے نمازظہرکی ادائیگی ضروری ہے ،علاوہ ازیں  امام وخطیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمعے کے خطبے اورنماز کا اہتمام کرے تاکہ جوجمعہ پڑھناچاہیں  وہ پڑھ لیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: اجْتَمَعَ عِیدَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ قَالَ:مَنْ شَاءَ أَنْ یَأْتِیَ الْجُمُعَةَ فَلْیَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ یَتَخَلَّفَ فَلْیَتَخَلَّفْ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  دوعیدیں (عیداورجمعہ)اکٹھی ہوگئیں  توآپ نے لوگوں  کونماز(عید)پڑھائی اورپھرفرمایا جوجمعہ کے لئے آنا چاہئے آجائے اورجونہ آناچاہے نہ آئے۔[51]

مُدَاوَمَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فِعْلِهَا، وَهَذَا دَلِیلُ الْوُجُوبِ

امام ابن قدامہ  رحمہ اللہ  نمازعیدین کے وجوب کے دلائل کاذکرکرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کااس کوہمیشہ اداکرناوجوب کی واضح دلیل ہے۔[52]

نمازعیدین اسلام کے ظاہری شعائرمیں  سے ہے۔

وَلِهَذَا رَجَّحْنَا أَنَّ صَلَاةَ الْعِیدِ وَاجِبَةٌ عَلَى الْأَعْیَانِ

امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اسی وجہ سے ہم نے اسی قول کوترجیح دی ہے کہ یہ سب پرواجب ہے۔[53]

نمازعیدکاوقت:

عیدکی نمازکاوقت وہی ہے جونمازچاشت(اشراق)کاہے۔یعنی جب سورج دونیزوں  کے برابربلندہوجائے۔

یَزِیدُ بْنُ خُمَیْرٍ الرَّحَبِیُّ، قَالَ:   خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ بُسْرٍ، صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِی یَوْمِ عِیدِ فِطْرٍ، أَوْ أَضْحَى،  فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ،فَقَالَ:إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ ، وَذَلِكَ حِینَ التَّسْبِیحِ

یزیدبن خمیرالرجی رحمہ اللہ  سے مروی ہےرسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ  عیدالفطریاعیدالاضحیٰ میں  لوگوں  کے ساتھ (عیدگاہ کی طرف )نکلے،انہوں  نے امام کے دیر کرنے پر ناپسندیدگی کااظہارکیا اورفرمایاہم تواس وقت فارغ بھی ہوچکے ہوتے تھے۔[54]

قَالَ السُّیُوطِیُّ أَیْ حِینَ یُصَلِّی صَلَاةَ الضُّحَى

امام سیوطی  رحمہ اللہ  اس کی شرح میں  لکھتے ہیں  وہ نمازچاشت اداکرنے کاوقت تھا۔[55]

وَقْتَ صَلَاةِ السُّبْحَةِ وَهِیَ النَّافِلَةُ إِذَا مَضَى وَقْتُ الْكَرَاهَةِ

یہ روایت نمازعید جلداداکرنے کی مشروعیت اورزیادہ تاخیرکرنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے۔[56]

عَنِ البَرَاءِ، قَالَ:  خَطَبَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ:إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِی یَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّیَ، ثُمَّ نَرْجِعَ، فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَیْسَ مِنَ  النُّسُكِ فِی شَیْءٍ

براء  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں  خطبہ ارشاد فرمایا یقیناً پہلا کام جس کے ساتھ ہم اپنے اس دن کا آغازکرتے ہیں  وہ یہ ہے کہ ہم نمازاداکرتے ہیں  پھرواپس جا کر قربانی کرتے ہیں  جس شخص نے اسی طرح کیااس نے ہماری سنت کوپالیااورجس نے نمازسے پہلے ذبح کردیاتویہ ایک ایساگوشت ہوگاجسے اس نے اپنے گھروالوں  کے لئے جلدی سے تیارکرلیاہے،یہ قربانی قطعاًنہیں ۔ [57]

إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِی یَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّیَ وَهُوَ دَالٌّ عَلَى أَنَّهُ لَا یَنْبَغِی الِاشْتِغَالُ فِی یَوْمِ الْعِیدِ بِشَیْءٍ غَیْرِ التَّأَهُّبِ لِلصَّلَاةِ وَالْخُرُوجِ إِلَیْهَا وَمِنْ لَازِمِهِ أَنْ لَا یُفْعَلَ قَبْلَهَا شَیْءٌ غَیْرُهَا فَاقْتَضَى ذَلِكَ التَّبْكِیرَ إِلَیْهَا

حافظ ابن حجر   رحمہ اللہ  تحریرکرتے ہیں  یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عید کے دن نمازعیداوراس کے لئے روانگی کے علاوہ کسی اورکام میں  مشغول ہونامناسب نہیں  اوراس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ نماز عیدسے پہلے دوسراکوئی اورکام نہ کیاجائے اوراس کاتقاضایہ ہے کہ نمازعیدجلد اداکی جائے۔[58]

البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نمازعیدالفطرقدرے تاخیرسے ادافرماتے تھے۔

وَكَانَ یُؤَخِّرُ صَلَاةَ عِیدِ الْفِطْرِ، وَیُعَجِّلُ الْأَضْحَى

امام ابن قیم  رحمہ اللہ  نے تحریرکیاہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نماز عیدالفطر(قدرے)تاخیرسے اداکرتے تھے اورنماز عید الاضحی جلدی ادافرماتے تھے۔[59]

نمازعیدین سے پہلے اذان واقامت یااورکوئی ندانہیں :

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نمازعیدین بغیراذان اوراقامت کے ادافرماتے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:  صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَیْنِ الْعِیدَیْنِ بِغَیْرِ أَذَانٍ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نمازایک دومرتبہ نہیں  متعددمرتبہ بلااذان واقامت کے پڑھی۔[60]

أَخْبَرَنِی عَطَاءٌ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَیْرِ أَوَّلَ مَا بُویِعَ لَهُ، أَنَّهُ لَمْ یَكُنْ یُؤَذَّنُ لِلصَّلَاةِ یَوْمَ الْفِطْرِ، فَلَا تُؤَذِّنْ لَهَاقَالَ: فَلَمْ یُؤَذِّنْ لَهَا ابْنُ الزُّبَیْرِ یَوْمَهُ، وَأَرْسَلَ إِلَیْهِ مَعَ ذَلِكَ:إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ، وَإِنَّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ یُفْعَلُ،قَالَ: فَصَلَّى ابْنُ الزُّبَیْرِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ

امام مسلم نے عطا رحمہ اللہ  سے روایت نقل کی ہےجب عبداللہ بن الزبیر  رضی اللہ عنہ  کی بیعت ہوئی تو عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے انہیں  پیغام بھیجاعیدالفطرکی نمازکے لئے اذان نہ دی جاتی تھی تم بھی اس کے لئے اذان نہ دینا، توعبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ نے اذان نہیں  دلوائی اوریہ بھی کہلابھیجاکہ خطبہ نمازکے بعد ہونا چاہیے اوروہ یہی کرتےتھے،سوعبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ نے بھی نمازخطبہ سے پہلے پڑھی۔[61]

جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِیُّ،   أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ یَوْمَ الْفِطْرِ، حِینَ یَخْرُجُ الْإِمَامُ، وَلَا بَعْدَ مَا یَخْرُجُ، وَلَا إِقَامَةَ، وَلَا نِدَاءَ، وَلَا شَیْءَ، لَا نِدَاءَ یَوْمَئِذٍ، وَلَا إِقَامَةَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعیدالفطرکے دن نمازکے لئے اذان نہیں ،نہ امام کے نکلنے کے وقت اورنہ اس کے نکلنے کے بعداورنہ تواقامت ہے اورنہ ندااورنہ کچھ اور،اس دن ندانہیں  ہے اورنہ اقامت۔[62]

یَقُولُ مَالِكٌ، وَالْأَوْزَاعِیُّ، وَالشَّافِعِیُّ، وَأَصْحَابُ الرَّأْیِ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  كَانَ یُصَلِّی الْعِیدَ بِلَا أَذَانٍ وَلَا إقَامَةٍ،   فَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ،أَنَّ النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  صَلَّى الْعِیدَیْنِ بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلَا إقَامَةٍ .  وَعَنْ جَابِرٍ مِثْلُهُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِمَا.وَقَالَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ:صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعِیدَ غَیْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَیْنِ، بِلَا أَذَانٍ وَلَا إقَامَةٍ

امام مالک  رحمہ اللہ ،امام اوزاعی  رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،اوردوسرے اصحاب الرائے کہتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازعیدبغیراذان اوراقامت کے اداکی،جیساکہ عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عیدین کی نماز بغیراذان اوراقامت کے اداکی،جابر  رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے ، اورجابر  رضی اللہ عنہ بن سمرہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نمازایک دومرتبہ نہیں  متعددمرتبہ بلااذان واقامت کے پڑھی ۔[63]

أَنَّهُ ، سَمِعَ غَیْرَ وَاحِدٍ مِنْ عُلَمَائِهِمْ یَقُولُ: لَمْ یَكُنْ فِی عِیدِ الْفِطْرِ وَلَا فِی الْأَضْحَى، نِدَاءٌ، وَلَا إِقَامَةٌ، مُنْذُ زَمَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْیَوْمِ، قَالَ مَالِكٌ وَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِی لَا اخْتِلَافَ فِیهَا عِنْدَنَا

امام مالک  رحمہ اللہ  اس بارے میں  فرماتے ہیں میں  نے اپنے کئی علماء سے سناکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کرآج تک عیدالفطراورعیدالاضحی میں  نہ اذان ہے اورنہ اقامت ، اس کے بعد فرماتے ہیں  اوریہ ایسی سنت ہے کہ اس کے بارے میں  ہمارے ہاں  کوئی اختلاف نہیں ۔[64]

وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: یُنَادَى لَهَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِیِّ.وَسُنَّةُ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  أَحَقُّ أَنْ تُتَّبَعَ

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ  نے اس بارے میں  بڑاعمدہ،موثراورمختصرتبصرہ کچھ اس طرح کیاہے بعض حضرات کی رائے میں  نمازعیدین کے لئے نمازکھڑی ہورہی ہے کے الفاظ کے ساتھ آوازلگائی جائے اوریہ امام شافعی  رحمہ اللہ کاقول ہےمگر اتباع کاسب سے زیادہ حق سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاہے[65]

وَكَانَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْتَهَى إِلَى الْمُصَلَّى أَخَذَ فِی الصَّلَاةِ مِنْ غَیْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ وَلَا قَوْلِ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَالسُّنَّةُ: أَنَّهُ لَا یُفْعَلُ شَیْءٌ مِنْ ذَلِكَ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ  اس بارے میں  تحریرکرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدگاہ تشریف لے آتے تواذان،اقامت اور الصَّلاةَ جَامِعَةٌکے الفاظ کہے بغیرنمازشروع کردیتے اورسنت یہی ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کی جائے۔[66]

نمازعیدکی رکعتیں :

عَنْ عُمَرَ قَالَ: صَلاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَیْرُ قَصْرٍ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنمازسفردورکعت ہے،نمازعیدالاضحی دورکعت ہے ،نماز عیدالفطردورکعت ہے اورنمازجمعہ دورکعت ہے ،یہ تمام نمازیں  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مکمل ہیں  ان میں  کوئی کمی اورنقص نہیں ۔[67]

عیدین میں  تکبیرات زائدہ کی تعداداوروقت:

نمازعیدین دیگرنمازوں  کی طرح دورکعت نمازہے البتہ اس میں  تکبیرات زائدہ ہیں  ،ان تکبیرات کی تعداداوروقت کے بارے میں  مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں  تکبیرتحریمہ کے بعداورقرات سے پہلے سات تکبیریں  کہی جائیں  اوردوسری رکعت میں  کھڑے ہونے کے بعداورقرات سے پہلے پانچ تکبیریں  کہی جائیں  ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِی عِیدٍ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ تَكْبِیرَةً، سَبْعًا فِی الْأُولَى، وَخَمْسًا فِی الْآخِرَةِ،وَلَمْ یُصَلِّ قَبْلَهَا، وَلَا بَعْدَهَا

عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے(نماز)عیدمیں  بارہ تکبیریں  کہیں ،سات پہلی (رکعات)میں ،اورپانچ دوسری میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عیدسے پہلے یا بعد میں  کوئی نمازنہ پڑھی۔[68]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:قَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:التَّكْبِیرُ فِی الْفِطْرِ سَبْعٌ فِی الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِی الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَیْهِمَا

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا(عید)الفطرمیں  پہلی (رکعت )میں  سات تکبیریں  اوردوسری میں  پانچ ہیں  اورقرات دونوں (رکعت کی تکبیروں )کے بعدہے۔[69]

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:عَلِیٌّ یُكَبِّرُ فِی الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ وَالِاسْتِسْقَاءِ سَبْعًا فِی الْأُولَى، وَخَمْسًا فِی الْأُخْرَى

جعفربن محمد رحمہ اللہ  سے مروی ہے انہوں  نے اپنے باپ سے نقل کیاہے کہ انہوں  نے فرمایا سیدناعلی  رضی اللہ عنہ (عید)الاضحی اور(عید)الفطراور(نماز)استسقاء میں  پہلی (رکعت) میں  سات اوردوسری میں  پانچ تکبیریں  کہتے۔[70]

عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؛ أَنَّهُ قَالَ:  شَهِدْتُ الْأَضْحَى وَالْفِطْرَ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ. فَكَبَّرَ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِیرَاتٍ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ. وَفِی الآخِرَةِ خَمْسَ تَكْبِیرَاتٍ  قَبْلَ الْقِرَاءَةِ

نافع  رحمہ اللہ  سے روایت ہے  میں  نے ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی اقتدامیں  عیدالاضحی اور عیدالفطراداکی توانہوں  نے پہلی رکعت میں  قرات سے پہلے سات تکبیریں  اوردوسری رکعت میں  قرات سے پہلے پانچ تکبیریں  کہیں ۔ [71]

ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، الْفِطْرَ فَكَبَّرَ فِی الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، وَفِی الثَّانِیَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ

امام ابن شیبہ  رحمہ اللہ  نے ثابت بن قیس  رحمہ اللہ  سے روایت کی ہے میں  نے عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کی امامت میں (عیدنماز)الفطرپڑھی توانہوں نے پہلی(رکعت)میں  قرات سے پہلے سات تکبیریں  کہیں  اوردوسری میں  قرات سے پہلے پانچ۔[72]

تکبیرات زائدہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا:

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِیِّ قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْهِ مَعَ التَّكْبِیرِ

وائل بن حجرحضرمی  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوتکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرتے دیکھا۔[73]

 وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ مَعَ تَحَرِّیهِ لِلِاتِّبَاعِ یَرْفَعُ یَدَیْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِیرَةٍ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ  تحریرکرتے ہیں  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  اتباع سنت کی شدت کی وجہ سے ہرتکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔[74]

سالت محمدبن اسماعیل(البخاری)ھذاالحدیث، فقال لیس فی ھذاالباب شئی اصح منہ وبہ اقول انتھی

علامہ شوکانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام ترمذی رحمہ اللہ  نے کتاب العلل المفردة میں  فرمایا اس حدیث کے بارے میں  میں  نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا توانہوں  نے فرمایاکہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے زیادہ کوئی حدیث صحیح نہیں  ہے اورمیرابھی یہی مذہب ہے۔

حنفیہ کامسلک اس بارے میں  یہ ہے کہ پہلی رکعت میں  تکبیرتحریمہ کے بعدقرات سے پہلے تین تکبیریں  کہی جائیں  اوردوسری رکعت میں  قرات کے بعدتین تکبیریں ،بعض صحابہ سے یہ مسلک بھی نقل کیاگیاہے جیساکہ نیل الاوطار۲۹۹پرمنقول ہے مگراس بارے کی روایات ضعف سے خالی نہیں  ہیں  ،

فمن شاءفلیرجع الیہ

جوتحقیق کرناچاہے وہ دیکھ سکتاہے۔

وَأَمَّا مَا ذَهَبَ إِلَیْهِ أَهْلُ الْكُوفَةِ فَلَمْ یَرِدْ فِیهِ حَدِیثٌ مَرْفُوعٌ غَیْرَ حَدِیثِ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا یَصْلُحُ لِلِاحْتِجَاجِ

جیساکہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے تصریح فرمائی ہے مولاناعبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں  کوفہ والوں  کے مسلک کے ثبوت میں  کوئی حدیث مرفوع واردنہیں  ہوئی صرف ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے جوقابل حجت نہیں  ہے۔[75]

یكبر فِی الأولى سبعا قبل الْقِرَاءَة،وَالثَّانیِة خمْسا قبل الْقِرَاءَة، وَعمل الْكُوفِیّین أَن یكبر اربعا كتكبیر الْجَنَائِز فِی الأولى قبل الْقِرَاءَة وَفِی الثَّانِیَة بعْدهَا، وهما سنتَانِ، وَعمل الْحَرَمَیْنِ أرجح

حجة الہندشاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اسی بارے میں  بہت ہی بہترفیصلہ دیاہے چنانچہ آپ کے الفاظ مبارک یہ ہیں  پہلی رکعت میں  قرات سے پہلے سات تکبریں  اوردوسری رکعت میں  قرات سے پہلے پانچ تکبیریں  کہنی چاہئیں  مگرکوفہ والوں  کاعمل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں  تکبیرات جنازہ کی طرح قرات سے پہلے چارتکبیرکہی جائیں  اوردوسری رکعت میں  قرات کے بعدیہ دونوں  طریقے سنت ہیں  مگرحرمین شریفین یعنی مدینہ والوں  کاعمل جوپہلے بیان ہواترجیح اس کوحاصل ہے(کوفہ والوں  کاعمل مرجوح ہے)۔[76]

عیدکی دورکعتوں  میں  قرات:

نمازعیدین میں  سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعدقرات کے بارے میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ذیل دوطریقے ثابت ہیں ،امام کوچاہیے کہ وہ سنت پر عمل کرتے ہوئے پہلی رکعت میں   سورۂ الاعلی اوردوسری رکعت میں  سورۂ الغاشیہ  پڑھے۔یاسورۂ ق اورسورۂ القمر پڑ ھے۔

 عَنْ عُبَیْدِاللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ؛؛  أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللیْثِیَّ: مَا كَانَ یَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟  فَقَالَ:كَانَ یَقْرَأُ فِیهِمَا ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ، وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

عبیداللہ بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمربن خطاب نے ابوواقدلیثی  رضی اللہ عنہ  سے پوچھاعیدالاضحی اورعیدالفطرمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کیا پڑھاکرتے تھے؟تو انہوں  نے کہاآپ پہلی رکعت میں  سورۂ ق اوردوسری رکعت میں  سورۂ القمر پڑھاکرتے تھے۔[77]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْعِیدَیْنِ، وَفِی الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَهَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ ، قَالَ:وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدُ وَالْجُمُعَةُ، فِی یَوْمٍ وَاحِدٍ، یَقْرَأُ بِهِمَا أَیْضًا فِی الصَّلَاتَیْنِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم دونوں  عیدوں  اورجمعہ میں  پہلی رکعت میں  سورۂ الاعلی اوردوسری رکعت میں  سورۂ الغاشیہ پڑھتے،انہوں  نے (یہ بھی )کہاکہ جب عیداورجمعہ ایک دن میں  اکھٹے ہوجاتے توآپ دونوں  نمازوں  میں  انہی دونوں  سورتوں  کی تلاوت فرماتے   [78]

 نمازعیدپڑھنے کاطریقہ :

نمازعیدین کاطریقہ وہی ہے جوعام نمازکاہے،فرق صرف اتناہے کہ عیدین کی نمازکی پہلی رکعت میں  سوہ فاتحہ سے پہلے اورتکبیراولیٰ کے بعدسات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں  کہی جاتی ہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ یَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَیْءٍ یَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ، فَیَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ فَیَعِظُهُمْ، وَیُوصِیهِمْ، وَیَأْمُرُهُم ، فَإِنْ كَانَ یُرِیدُ أَنْ یَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أَوْ یَأْمُرَ بِشَیْءٍ أَمَرَ بِهِ  ثُمَّ یَنْصَرِفُ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطراورعیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتےپہلے نمازعیداداکرتے پھر (بغیر منبر کے)خطبہ ارشادفرماتے تھے جس میں  پندو نصائح اوراحکامات صادرفرماتے(اس دوران )لوگ اپنی اپنی صفوں  میں  بیٹھے رہتے،اگرکوئی لشکرروانہ کرناچاہتے یاحکم دیناچاہتے توکردیتے، اس کے بعد آپ واپس تشریف لے آتے[79]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:شَهِدْتُ العِیدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ، فَكُلُّهُمْ كَانُوا یُصَلُّونَ قَبْلَ الخُطْبَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کےساتھ عیدکےموقعوں پرحاضرہواوہ سب نماز(عید)خطبہ سے پہلے اداکرتے تھے ۔ [80]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نمازعیدکے بعدخطبہ ارشادفرمایاکرتے تھے۔

خطبہ عیدین سننا ضروری ہے ،بعض لوگ خطبہ سنے بغیراٹھ کے چلے جاتے ہیں  حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورت تک کوتاکیدی طورپرعیدگاہ میں  محض خطبہ سننے اور دعامیں  شریک ہونے کے لئے ارشادفرمایاہے۔

نمازعیدسے پہلے یابعدکوئی نفلی نمازنہیں :

نمازعید کی صرف دورکعتیں  ہیں  ان سے پہلے یابعد میں  کوئی نفلی نمازنہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:  أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى یَوْمَ الفِطْرِ رَكْعَتَیْنِ لَمْ یُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطرکے دن دو رکعت نمازادافرمائی ،اس سے پہلے یابعدمیں  کوئی(اورنفلی)نمازنہ پڑھی۔[81]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو فَیَقُولُ:  اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ عِیشَةً تَقِیَّةً، وَمِیتَةً سَوِیَّةً، وَمَرَدًّا غَیْرَ مُخْزٍ

بعض لوگ عید کے دن یہ دعا’’ اے اللہ ! میں  آپ سے تقویٰ والی زندگی، عمدہ موت اور شرمندگی سے پاک لوٹائے جانے کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ پڑھتے ہیں مگراس کا پڑھنا ثابت نہیں  ،اس کادارومدارمن گھڑت روایت پرہے۔[82]

نهشل بن سعید كذاب

ابن روہویہ اورطیالسی کہتے ہیں اس میں  ایک راوی نہشل بن سعید کاذب (جھوٹا) ہے۔ [83]

ایسے ہی عیدالفطراورعیدالاضحیٰ کی راتوں  کی فضیلت کے بارے میں  علیحدہ سے کوئی خاص حدیث ثابت نہیں ۔

أنه لا یدل على مشروعیة افتتاح خطبة العید بالتكبیر فإن إسناده ضعیف فیه رجل ضعیف وآخر مجهول فلا یجوز الاحتجاج به على سنیة التكبیر فی أثناء الخطبة.

خطبہ عیدکے دوران خطیب کاتکبیرات کہناٹھیک نہیں  ،اس لئے کہ جس روایت پراس کادارومدارہے اس میں  ایک راوی ضعیف اوردوسرامجہول ہے۔[84]

مبارکبادکاطریقہ :

عیدین میں  نمازعیدکے بعدمعانقہ کرنے کی جورسم ہے یہ ایک عام رواج ہے ،مسنون طریقہ نہیں ،مسنون طریقہ صرف سلام ومصافحہ ہے ،تاہم یہ قومی رواج ایساہے جس میں  شریعت کی خلاف ورزی کاکوئی پہلونہیں ،اس لئے قومی رواج کے طورپرمعانقہ(بغل گیرہوکرملنے)میں  کوئی حرج نہیں  ہے،البتہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم عیدکے موقعے پرایک دوسرے سے ملاقات پریہ کہاکرتے تھے

تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ ،فَقَالَ نَعَمْ تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ

اللہ تعالیٰ ہمارااورتمہاراعمل قبول فرمائے  اور دوسرا ساتھی کہتاتھاہاں  اللہ تعالیٰ ہمارااورتمہاراعمل قبول فرمائے۔[85]

اس لئے عیدکی ملاقات میں  یہ الفاظ پڑھ لئے جائیں ۔

عیدکے دن روزہ:

عیدالفطراورعیدالاضحی کے دونوں  دنوں  میں  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے،ان دودنوں  میں  کسی بھی قسم کے روزے رکھنے کے حرام ہونے پرعلماء کا اجماع ہے خواہ کوئی شخص یہ روزے نذرکے پوراکرنے کی نیت سے رکھے یانفلی روزوں  کی نیت سے یاکفارہ کی نیت سے یاکسی اورنیت سے۔

  عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ  عَنْهُ، قَالَ:نَهَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الفِطْرِ وَالنَّحْرِ

ابوسعیدالخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطراورعیدالاضحیٰ کے دن روزے سے منع فرمایاہے۔[86]

  عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ، مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، قَالَ:شَهِدْتُ العِیدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ:  هَذَانِ یَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِهِمَا: یَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِیَامِكُمْ، وَالیَوْمُ الآخَرُ تَأْكُلُونَ فِیهِ مِنْ نُسُكِكُمْ

ابن ازہرکے غلام ابوعبیدسے مروی ہےمیں  عیدکے موقع پرسیدنا عمربن خطاب  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حاضر ہوا انہوں  نے فرمایاان دودنوں  میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا،تمہارے روزے چھوڑنے کادن(روزوں  سے فارغ ہونے کادن)اوردوسرادن جس میں  تم اپنی قربانیوں  (کے گوشت)سے کھاتے ہو۔[87]

   عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمَیْنِ: یَوْمِ الْفِطْرِ، وَیَوْمِ الْأَضْحَى

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوروزوں  سے منع فرمایاعیدالفطراورعیدالاضحی کے دنوں  کے۔[88]

وَالْحِكْمَةُ فِی النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الْعِیدَیْنِ أَنَّ فِیهِ إعْرَاضًا عَنْ ضِیَافَةِ اللهِ تَعَالَى لِعِبَادِهِ

علامہ شوکائی ان دودنوں  کے روزوں  کی ممانعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں ان دودنوں  میں  روزے رکھنے کی ممانعت میں  حکمت یہ ہے کہ اس میں  اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں  کے لئے(تیارکردہ)ضیافت سے اعراض ہے۔[89]

عیدگاہ کوپیدل آناجانا:

عیدگاہ کوپیدل جانااورپیدل ہی واپس آنااورراستہ تبدیل کرناسنت ہے۔

   عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ یَوْمُ عِیدٍ خَالَفَ الطَّرِیقَ

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم عیدکے دن جاتے وقت ایک راستہ اختیارکرتے اورواپسی کے لئے دوسراراستہ اختیارفرماتے۔[90]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَخْرُجُ إِلَى الْعِیدَیْنِ مِنْ طَرِیقٍ، وَیَرْجِعُ مِنْ طَرِیقٍ أُخْرَى

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عیدکے دن جاتے وقت ایک راستہ اختیارکرتے اورواپسی کے لئے دوسراراستہ اختیارفرما تے۔[91]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق علمائے امت نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کی حکمت کے بارے میں  بیس سے زیادہ اقوال ہیں ۔

ذَلِكَ أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ لِیَشْهَدَ لَهُ الطَّرِیقَانِ

ان میں  سے ایک یہ ہے   روزقیامت دونوں  راستے آپ کے حق میں  گواہی دیں  گے۔

وَقِیلَ سُكَّانُهُمَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ

دوسراقول یہ ہےدونوں  راستوں   کے جن وانس آپ کے حق میں  گواہی دیں  ۔

وَقِیلَ لِأَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقِفُ فِی الطُّرُقَاتِ فَأَرَادَ أَنْ یَشْهَدَ لَهُ فریقان مِنْهُم

تیسراقول یہ ہےدونوں  راستوں   کے فرشتے آپ کے حق میں  گواہی دیں ۔

وَقِیلَ لِإِظْهَارِ شِعَارِ الْإِسْلَامِ فِیهِمَا

چوتھاقول یہ ہےا سلامی شعائرکااظہاردونوں  راستوں  میں  ہوجائے۔

  وَقِیلَ لِإِظْهَارِ ذِكْرِ الله ِ

پانچواں  قول  یہ ہے   دونوں  راستوں  میں  ذکرالہٰی کااظہارہوجائے وغیرہ۔[92]

نمازعیدفوت ہوجائے تو:

اگرکسی کوبوجہ عذریابلاعذرعیدکی نمازنہ مل سکے یابیماری کی وجہ سے عیدگاہ نہ جاسکے تواسے دورکعت تنہااداکرلینی چائیں ،نیزگاوں ،دیہات اورگوٹھ میں  بھی نماز عید پڑھنی چاہیےاورعورتیں  بھی ایساہی کریں  اوروہ لوگ بھی جوگھروں  اوردیہاتوں  وغیرہ میں  ہوں  اورجماعت میں  نہ آسکیں (وہ بھی ایساہی کریں )کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے هَذَا عِیدُنَا أَهْلَ الإِسْلاَمِ

اسلام والو!یہ ہماری عیدہے

وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمْ ابْنَ أَبِی عُتْبَةَ بِالزَّاوِیَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِیهِ، وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ المِصْرِ وَتَكْبِیرِهِمْ،وَقَالَ عِكْرِمَةُ:أَهْلُ السَّوَادِ یَجْتَمِعُونَ فِی العِیدِ، یُصَلُّونَ رَكْعَتَیْنِ كَمَا یَصْنَعُ الإِمَامُ، وَقَالَ عَطَاءٌ:إِذَا فَاتَهُ العِیدُ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ

انس  رضی اللہ عنہ  بن مالک کے غلام ابن ابی عتبہ زوایہ نامی گاؤں  میں  رہتے تھے انہیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاتھاکہ وہ اپنے گھروالوں  اوربچوں  کوجمع کرکے شہروالوں  کی طرح نمازعیدپڑھیں  اورتکبیرکہیں ،عکرمہ نے شہرکے قرب وجوارمیں  آبادلوگوں  کے لئے فرمایاکہ جس طرح امام کرتاہے یہ لوگ بھی عیدکے دن جمع ہو کر دو رکعت نمازپڑھیں ،عطاءنے کہاکہ اگرکسی کی عیدکی نماز(جماعت)چھوٹ جائے تودورکعت(تنہا)پڑھ لے۔[93]

عیدکے روزجہادی کھیل اوربے ہودگی سے پاک اشعارکہنا:

وَكَانَ یَوْمَ عِیدٍ، یَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالحِرَابِ

عیدکے روزنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے کچھ لوگ مسجدمیں  ڈھالوں  اوربرچھیوں  سے کھیلا کرتے تھے۔[94]

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِی جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِی الأَنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الأَنْصَارُ یَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَزَامِیرُ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِی یَوْمِ عِیدٍ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِیدًا وَهَذَا عِیدُنَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  تشریف لائے تومیرے پاس انصارکی دولڑکیاں  وہ اشعارگارہی تھیں  جوانصار(اوس اورخزرج)نے بعاث کی جنگ کے موقع پرکہے تھے،عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایاکہ یہ گانے والیاں  نہیں  تھیں ،  سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں  یہ شیطانی باجے اوریہ عیدکادن تھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر!ہرقوم کی عیدہوتی ہے اورآج یہ ہماری عیدہے۔[95]

وَحَدَّثَنَاهُ یَحْیَى بْنُ یَحْیَى، وَأَبُو كُرَیْبٍ، جَمِیعًا عَنْ أَبِی مُعَاوِیَةَ، عَنْ هِشَامٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِیهِ: جَارِیَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ

امام مسلم  رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ہم سے یہی روایت یحییٰ  اورکریب دونوں  نے ابومعاویہ سے اس نے ہشام نے اسی اسنادسے روایت کیاہے کہ وہ دولڑکیاں  تھیں  جودف بجارہی تھیں  ۔[96]

اس روایت سے لوگ گانے گانے اورموسیقی کوجائزقراردیتے ہیں حالانکہ دف آلہ موسیقی نہیں  بلکہ وہی دف آلہ موسیقی ہے جس کے ساتھ گھنگروبندھے ہوئے ہوں ،یعنی ٹھپ ٹھپ کی آوازہی نہ ہوچھن چھن کی آوازیں  بھی اس میں  شامل ہوں  ،

یُقَالُ لَهُ أَیْضًا الْكِرْبَالُ وَهُوَالَّذِی لَا جَلَاجِلَ فِیهِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وضاحت سے لکھاہے کربال (چھلنی)بھی کہاجاتاہے (جس سے آٹاچھاناجاتاہے)جس کے ساتھ گھنگروبندھے ہوئے نہ ہوں ۔

اسی طرح طبل بھی حرام ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَیْسِ،ثُمَّ قَالَ:إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَیَّ، أَوْ حُرِّمَ الْخَمْرُ، وَالْمَیْسِرُ، وَالْكُوبَةُ قَالَ: وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ،قَالَ سُفْیَانُ: فَسَأَلْتُ عَلِیَّ بْنَ بَذِیمَةَ عَنِ الكُوبَةِ، قَالَ: الطَّبْلُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبدالقیس کے وفدسے فرمایاپھر فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حرام کردی ہے یا مجھ پر حرام کردی گئی ہے شراب، جو اور باجا وغیرہ اور فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے، سفیان کہتے ہیں  کہ میں  نے علی بن بذیمہ سے کو بہ کے بارے میں  دریافت کیا تو انہوں  نے کہا کہ طبل کو کہتے ہیں ۔[97]

عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ ,أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ رَبِّی حَرَّمَ عَلَیَّ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْقِنِّینَ وَالْكُوبَةَ

قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے رب نے میرے اوپرحرام ٹھیرایاہے شراب،جوئے،گانے بجانے والیوں  اورکوبہ(طبل)کو۔[98]

اسی طرح گھنٹی اورگھنگروشیطانی سازہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الْجَرَسُ مَزَامِیرُ الشَّیْطَانِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا گھنٹی شیطان کا باجہ ہے۔[99]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رُفْقَةً فِیهَا كَلْبٌ وَلَا جَرَسٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایافرشتے اس قافلے کے ہمراہی نہیں  ہوتے جس میں  کتااورگھنٹی ہو۔[100]

اوروہ عشقیہ شعروشاعری بھی نہیں  گارہی تھیں ۔

وَفِی حَدِیثِ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهَا: وَعِنْدِی جارِیتان تُغَنِّیانِ بغِناءِ بُعاثَ أَی تُنْشِدانِ الأَشعارَ الَّتِی قیلَتْ یومَ بُعاث، وَهُوَ حربٌ كَانَتْ بَیْنَ الأَنصار، وَلَمْ تُرِدِ الغِناء المعروفَ بَیْنَ أَهلِ اللهْوِ واللعِبِ

لسان العرب میں  ہےام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کی حدیث میں  ہے کہ میرے پاس دوجاریہ بعاث کے شعارگاتی تھیں  یعنی تُغَنِّیانِ کے معنی ہیں  کہ وہ شعرسناتی تھیں  جوجنگ بعاث کے دن کہے گئے تھے اورجنگ بعاث انصار(اوس اورخزرج)کے مابین ہوئی تھی ،اس سے وہ غنامرادنہیں  جواہل لہوولعب کے نزدیک معروف ہے۔[101]

اورعمدة القاری میں  ہے کہ وہ پیشہ ورگانے والی نہ تھیں ۔

أَی: لَیْسَ الْغناء عَادَة لَهما وَلَا هما معروفتان بِهِ. وَقَالَ القَاضِی عِیَاض: أَی: لیستا مِمَّن تغنی بعادة الْمُغَنِّیَات من التشویق والهوى ۔۔۔ وَلَا مِمَّن اتَّخذهُ صَنْعَة وكسباکہ وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ

سے مرادیہ ہے کہ غناان کی عادت نہ تھی اورنہ ہی وہ اس نسبت سے معروف تھیں  ،قاضی عیاض رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ وہ دونوں  گانے والیوں کے طریقہ پرنہیں  گاتی تھیں ۔[102]

الْغِنَاءَ یُطْلَقُ عَلَى رَفْعِ الصَّوْتِ وَعَلَى التَّرَنُّمِ الَّذِی تُسَمِّیهِ الْعَرَبُ النَّصْبَ ۔۔۔وَلَا یُسَمَّى فَاعِلُهُ مُغَنِّیًا

اورفتح الباری میں  ہےغناکااطلاق بلندآوازسے ترنم کے ساتھ شعرپڑھنے پرہوتاہے اسے عرب نصب کہتے ہیں  مگروہ ایساکرنے والے کو(مغنی) گانے والانہیں  کہتے تھے ۔[103]

وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِی الْغِنَاءِ، فَأَبَاحَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَهِیَ رِوَایَةٌ عَنْ مَالِكٍ وَحَرَّمَهُ أَبُو حَنِیفَةَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ وَمَذْهَبُ الشَّافِعِیِّ كَرَاهَتُهُ وَهُوَ الْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ مَالِكٍ،وَاحْتَجَّ الْمُجَوِّزُونَ بِهَذَا الْحَدِیثِ، وَأَجَابَ الْآخَرُونَ بِأَنَّ هَذَا الْغِنَاءَ إِنَّمَا كَانَ فِی الشَّجَاعَةِ وَالْقَتْلِ وَالْحِذْقِ فِی الْقِتَالِ وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا لَا مَفْسَدَةَ فِیهِ بِخِلَافِ الْغِنَاءِ الْمُشْتَمِلِ عَلَى مَا یَهِیجُ النُّفُوسَ عَلَى الشَّرِّ وَیَحْمِلُهَا عَلَى الْبَطَالَةِ وَالْقَبِیحِ

امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایاگا نے میں  علماءکااختلاف ہے،  اہل حجازکی ایک جماعت اس کو مباح کہتی ہے اورامام مالک رحمہ اللہ  کی ایک روایت بھی یہی ہے اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اوراہل عراق نے حرام کہاہے اورامام شافعی رحمہ اللہ  کے مذہب میں  مکروہ ہے اورامام مالک  رحمہ اللہ کایہی مذہب مشہورہے، اورجن لوگوں  نے مباح کہاہے ان کی دلیل یہی حدیث ہے،اورجن لوگوں  نے منع کیاہے انہوں  نے جواب دیاہے کہ یہ گاناشجاعت اوربہادری اورجرات بڑھانے والاتھااوراس میں  کوئی مفسدہ نہ تھا بخلاف اس گانے کے جوشراورزناکی رغبت دلانے والاہے،

قَالَ الْقَاضِی إِنَّمَا كَانَ غِنَاؤُهُمَا بِمَا هُوَ مِنْ أَشْعَارِ الْحَرْبِ وَالْمُفَاخَرَةِ بِالشَّجَاعَةِ وَالظُّهُورِ وَالْغَلَبَةِ وَهَذَا لَا یُهَیِّجُ الْجَوَارِیَ عَلَى شَرٍّ وَلَا إِنْشَادُهُمَا لِذَلِكَ مِنَ الْغِنَاءِ الْمُخْتَلَفِ فِیهِ ، وَإِنَّمَا هُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالْإِنْشَادِ، وَلِهَذَا قَالَتْ وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ أَیْ لَیْسَتَا مِمَّنْ یتغنى بِعَادَةِ الْمُغَنِّیَاتِ مِنَ التَّشْوِیقِ وَالْهَوَى وَالتَّعْرِیضِ بِالْفَوَاحِشِ وَالتَّشْبِیبِ بِأَهْلِ الْجَمَالِ وَمَا یُحَرِّكُ النُّفُوسَ وَیَبْعَثُ الهوى والغزل كما قیل الغنا فیه الزنى وَلَیْسَتَا أَیْضًا مِمَّنِ اشْتُهِرَ وَعُرِفَ بِإِحْسَانِ الْغِنَاءِ الَّذِی فِیهِ تَمْطِیطٌ وَتَكْسِیرٌ وَعَمَلٌ یُحَرِّكُ السَّاكِنَ وَیَبْعَثُ الْكَامِنَ وَلَا مِمَّنِ اتَّخَذَ ذَلِكَ صَنْعَةً وَكَسْبًاالغنا رقیة الزنا

اورقاضی عیاض رحمہ اللہ  نے کہاہے کہ ان لڑکیوں  کا گانااشعارجنگ اورفخرشجاعت اورظہورکاغلبہ تھااوراس میں  لڑکیوں  کے فسادکاوہم بھی نہیں  تھااوریہ گانااس قسم میں  نہ تھاجس میں  اختلاف ہے،اوریہ توصرف شعروں  کاذرابلندآوازسے پڑھناتھا اوراسی لیے ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ وہ کچھ گانے والیاں  نہ تھیں  کہ جوفحش کاشوق دلاتی ہیں  اورشورش ،شباب اورجوش جوانی کویاددلاتی ہیں  اورنہ ان کے اشعارایسے تھے جن سے شرورپیداہوں  کہ ان کوغزل کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ مثل مشہورہے غنازناکامنترہےاوران لڑکیوں  کا گانا ایسانہ تھاجس میں  کنکرے اورتانیں  ہوں  اورآوازوں  کا ملانااورلفظوں  کاگھٹانابڑھانا

وَالْعَرَبُ تُسَمِّی الْإِنْشَادَ غِنَاءً وَلَیْسَ هُوَ مِنَ الْغِنَاءِ الْمُخْتَلَفِ فِیهِ بَلْ هُوَ مُبَاحٌ وَقَدِ اسْتَجَازَتِ الصَّحَابَةُ غِنَاءَ الْعَرَبِ الَّذِی هُوَ مُجَرَّدُ الْإِنْشَادِ وَالتَّرَنُّمِ وَأَجَازُوا الْحُدَاءَ وَفَعَلُوهُ بِحَضْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی هَذَا كُلِّهُ إِبَاحَةُ مِثْلَ هَذَا وَمَا فِی مَعْنَاهُ وَهَذَا وَمِثْلُهُ لَیْسَ بِحَرَامٍ

اورعرب کاقاعدہ یہ ہے کہ صرف شعروں  کے پڑھنے کوگاناکہتے ہیں  الغرض یہ گاناوہ ہرگزنہیں  جس میں  اختلاف ہے بلکہ یہ مباح ہے اورصحابہ کرام رحمہ اللہ  نے اس کوروارکھاہے کہ یہ صرف شعروں  کاپڑھناہے جس میں  فسق کاکوئی مضمون نہیں  اورانہوں  نے ان اشعارکاجواونٹوں  کے چلانے کے لیے پڑھے جاتے ہیں  جائزرکھاہے اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے روبرویہ اشعارپڑھے گئے الغرض یہ سب مباح ہیں  حرام نہیں ۔[104]

مگرپھربھی لوگ گانے اورموسیقی کوجائزقراردیتے ہیں ،انہی لوگوں کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ے فرمایا

قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِیُّ،وَاللهِ مَا كَذَبَنِی: سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  لَیَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ، یَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِیرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ

ابومالک اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاور واللہ وہ جھوٹ بیان نہیں  کرتے کہ انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب میری امت میں  ایسی قوم پیدا ہوگی جو زنا ، ریشم ، شراب اور باجوں  کو حلال سمجھے گی ۔[105]

اس لیے ہمیں  ان لغویات سے دوررہناچاہیےالبتہ اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ اگرپڑھنے والی چھوٹی بچیاں  ہوں  ، نیزاشعارخلاف شریعت نہ ہوں  اورعیدکاموقع ہوتوایسے اشعارپڑھنے یاسننے میں  کوئی حرج نہیں ۔

نفلی روزے :

ویسے توفرض روزے اپنی اہمیت اورافادیت واجروثواب میں  اپنی نظیرنہیں  رکھتے مگران کے ساتھ ساتھ نفلی روزے کی بھی بہت فضیلت ہے ،نفلی روزے انسان کے گناہوں  کاکفارہ اورقرب الٰہی وخشیت وتقویٰ کے متقاضی ہوتے ہیں ،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض روزوں  کے ساتھ نفلی روزوں  کی بھی تاکیدفرمائی ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللهِ بَعَّدَ اللهُ وَجْهَهُ مِنَ النَّارِ سَبْعِینَ خَرِیفًا

جیسے ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سناجس نے اللہ کی راہ میں  ایک دن کاروزہ رکھااللہ تعالیٰ اسے سترسال کی مسافت کے برابرجہنم کی آگ سے دورکردے گا۔[106]

جس طرح فرض روزے خاص ایام اورشرائط کے ساتھ رکھے جاتے ہیں  جورب کریم نے مقررکردیئے ہیں  اسی طرح نفلی روزے کے بھی شریعت مطہرہ نے کچھ شرائط وآداب اورایام مقررکیے ہیں ۔شوال کے چھ روزے اورذوالحجہ کی نوتاریخ کاروزہ رکھنامستحب ہے ۔

شوال کے چھ روزے:

عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِیَامِ الدَّهْرِ

ابوایوب انصاری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوآدمی رمضان کے روزے رکھے پھراس کے بعدشوال کے چھ روزے رکھے تویہ عمل ساراسال کے روزوں  کی مانندہوگا ۔[107]

ان روزوں  کوساراسال کے روزوں  کی ماننداس لئے کہاگیاہے کہ کیونکہ ایک نیکی کابدلہ دس گناہوتاہے لہذارمضان کے روزے دس ماہ کے  برابرہوئے اورچھ شوال کے دوماہ کے برابرہوئے،

عَنْ ثَوْبَانَ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ، مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا

جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزادکردہ غلام ثوبان  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے عیدالفطرکےبعد چھ روزے رکھے تویہ پورے سال کے روزوں  کی طرح ہوں  گے کیونکہ جس نے ایک نیکی کی اس کے لئے اس کی مثل دس گنااجرہوگا۔[108]

شوال کے روزے ابتداء میں ،درمیان میں  یاآخر میں  پے درپے یاالگ الگ ہرطرح جائزاوردرست ہیں  کیونکہ شوال کے روزوں  کی ترتیب کی شرط نہیں  ہے۔

 یوم عرفہ کاروزہ :

یعنی نوذوالحجہ کاروزہ ۔

عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ صَامَ یَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ، وَسَنَةٌ بَعْدَهُ

ابوقتادہ بن نعمان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناہےجوکوئی عرفہ کے دن کا روزہ رکھے اس کے ایک سال آگے اورایک گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہوجائیں  گے۔[109]

عاشورہ کاروزہ :

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ؟فَقَالَ:یُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ

ابوقتادہ انصاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یوم عاشورا(دس محرم)کے روزے کے بارے میں  دریافت کیا؟توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک گزشتہ سال کے گناہ مٹادیتاہے۔[110]

سومواراورجمعرات کاروزہ :

عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ الْغَازِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صِیَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كَانَ یَتَحَرَّى صِیَامَ الِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ

ربیعہ بن الغاز رحمہ اللہ سے مروی ہے میں  نے ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے روزوں  کے بارے میں  دریافت کیا، انہوں  نے فرمایانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سوموار اور جمعرات کوروزہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔[111]

عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِی الْقُرَى فِی طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ یَصُومُ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ: لِمَ تَصُومُ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ، وَأَنْتَ شَیْخٌ كَبِیرٌ؟ فَقَالَ: إِنَّ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَصُومُ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ

اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام سے مروی ہےمیں اسامہ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ ان کا مال تلاش کرتے ہوئے وادی قری تک گیاپس (میں  نے دیکھا کہ) وہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں  تو میں  نے ان سے پوچھا کہ آپ ان دنوں  میں  روزہ کیوں  رکھتے ہیں  حالانکہ آپ بوڑھے ہیں ؟ انہوں  نے کہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنے کے متعلق دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پیر اور جمعرات کے دن بندوں  کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ۔[112]

ایام بیض کے روزے:

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضرمیں  کسی بھی حالت میں  ایام بیض یعنی چاندکی تیرہ،چودہ اورپندرہ تاریخ کوروزہ نہیں  چھوڑتے تھے۔

عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَیْسِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:   كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِیضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ ، وَقَالَ هُنَّ كَهَیْئَةِ الدَّهْرِ

ملحان قیس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہم سے فرمایاکرتے تھے کہ ایام بیض یعنی تیرہ ،چودہ اورپندرہ تاریخ کے روزے رکھاکریں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہ ہمیشہ کے روزوں  کی مانندہیں ۔[113]

اوراللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں  نازل فرمائی

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۔۔[114]

ترجمہ: جواللہ کے حضورنیکی لے کرآےگااس کے لیے دس گنااجرہے۔

تیرہ ،چودہ اورپندرہ تاریخ کے ایام کوایام بیض (سفیدراتوں  کے دن)اس لحاظ سے کہاجاتاہے کہ ان راتوں  میں  چاندتقریباًساری رات چمکتاہے ،ان دنوں  کے روزوں  میں  تفاؤل یہ ہے کہ جس طرح ان راتوں  کااندھیرااجالے سے بدلاہواہوتاہے ایسے ہی اللہ عزوجل روزے دارکی سیاہ کاریوں  کوسفیدی اورچمک سے بدل دے گااورنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ حکم ترغیب وتشویق کے معنیٰ میں  ہے۔

 ماہ ذوالحجہ کے روزے:

ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے روزے رکھنامستحب ہیں  ۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیهَا أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الْأَیَّامِ یَعْنِی أَیَّامَ الْعَشْرِ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ؟قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَیْءٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاذوالحجہ کے دس دنوں  سے بڑھ کرکوئی دن نہیں  جس کانیک عمل اللہ تعالیٰ کوزیادہ محبوب ہوں ،لوگوں  نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں ؟فرمایاجہادفی سبیل اللہ بھی نہیں  مگریہ کہ کوئی شخص اپنی جان مال کے ساتھ جہادمیں  چلاجائے اورپھردونوں  میں  کچھ واپس نہ آئے یعنی شہیدہوجائے۔ [115]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ یہ تھی کہ میدان عرفات میں  یوم عرفہ کاروزہ نہ رکھتے تھے۔

عَنْ مَیْمُونَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ النَّاسَ شَكُّوا فِی صِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَرَفَةَ،فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ بِحِلاَبٍ وَهُوَ وَاقِفٌ فِی المَوْقِفِ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ

ام المومنین میمونہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا عرفہ کے دن کچھ لوگوں  کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا،اس لئے انہوں  نے آپ کی خدمت میں  دودھ بھیجا،آپ اس وقت عرفات میں  وقوف فرماتھے ،آپ نے وہ دودھ پی لیااورسب لوگ دیکھ رہے تھے۔[116]

حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِی هُرَیْرَةَ، فِی بَیْتِهِ فَحَدَّثَنَا،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ

عکرمہ کہتے ہیں  میں ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے گھرپرتھاانہوں  نے بیان کیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے کہ عرفہ کے روزعرفات میں  روزہ رکھاجائے۔[117]

حكم الألبانی:ضعیف

ویسے تویہ اللہ کی رحمت ہوگی کہ بندوں  میں  سے جسے چاہئے اورجہاں  سے چاہئے جنتوں  میں  داخل کرے مگراللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے ساتھ معاملہ ہی بالکل علیحدہ رکھاہے ،قیامت کے دن روزہ داروں  کے لئے مخصوص دروازہ ہوگاجس سے وہ جنت میں  داخل ہوں  گے ۔

عَنْ سَهْلٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِی الجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الرَّیَّانُ، یَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ یَوْمَ القِیَامَةِ، لاَ یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ،  یُقَالُ: أَیْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَیَقُومُونَ لاَ یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ

سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجنت میں  ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں  ،اس سے قیامت کے دن (خاص)روزہ رکھنے والے ہی  داخل ہوں  گے ،ان کے علاوہ کوئی اورداخل نہیں  ہوگا،کہا جائے گاکہ روزہ رکھنے والے کہاں  ہیں  ؟  پھروہ اس دروازے سے داخل ہوں  گے اورجب روزہ رکھنے والوں  میں  آخری داخل ہوجائے گاتووہ دروازہ بندکردیاجائے گا اور پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہیں  ہوگا۔[118]

عاشورہ کاروزہ:

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الجَاهِلِیَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِینَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےقریش زمانہ جاہلیت میں  عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی روزہ رکھتے تھے جب مدینہ منورہ آئے تو وہاں  خود اس کا روزہ رکھا اور دوسروں  کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا،جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا۔[119]

  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ فَرَأَى الیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ:مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللهُ بَنِی إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ:فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے توآپ نے یہودیوں  کوعاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ اس دن (روزہ رکھنے ) کی کیا وجہ ہے ؟تووہ کہنے لگے کہ یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں  اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام  اوران کی قوم کونجات عطافرمائی اور فرعون اوراس کی قوم کوغرق فرمایاچنانچہ موسیٰ   علیہ السلام  نے شکرانے کاروزہ رکھا،اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ،تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم زیادہ حقدارہیں  اور تم سے زیادہ موسیٰ   علیہ السلام کے قریب ہیں ،اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےروزہ  رکھااورروزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔ [120]

  عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الأَنْصَارِ:مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَلْیُتِمَّ بَقِیَّةَ یَوْمِهِ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا، فَلیَصُمْ، قَالَتْ: فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْیَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ العِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَیْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى یَكُونَ عِنْدَ الإِفْطَارِ

ربیع بنت معوذبن عفراء  رضی اللہ عنہ  فرماتی ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح کوانصارکی ان بستیوں  کی طرف جومدینہ منورہ کے اردگردتھیں  قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو لوگوں  میں  اعلان کردینے کے لئے روانہ کیاکہ جس آدمی نے صبح روزہ رکھاتووہ اپنے روزے کوپورا کر لے اورجس نے صبح کوافطارکرلیاہو(روزہ نہ رکھاہو)تواسے چاہئے کہ باقی دن روزہ پوراکرلے(کچھ کھائے نہ پیئے) فرماتی ہیں اس کے بعدہم(اس دن کا)روزہ رکھتے تھے اورہم اپنے چھوٹے بچوں  کوبھی روزہ رکھواتے تھے اورہم انہیں  مسجدکی طرف لے جاتے اورہم ان کے لئے روٹی کی گڑیابناتے،اورجب ان بچوں  میں  سے کوئی کھانے کی وجہ سے روتا توہم انہیں  وہ گڑیادے دیتے تاکہ وہ افطاری تک ان کے ساتھ کھیلتے رہیں ،اس طرح وہ کھیل میں  لگ کرروزہ بھول جاتے یہاں  تک کہ ان کاروزہ پوراہوجاتا ۔[121]

روزوں  کی اتنی فضیلت دیکھ کرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے علاوہ صحابیات  رضی اللہ عنہن  کوبھی روزوں  کابہت شوق وجذبہ تھا۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ: أَنْشَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةً فَأَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللهَ لِی بِالشَّهَادَةِ، فَقَالَ:اللهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ،قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا ثَانِیًا، فَأَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللهَ لِی بِالشَّهَادَةِ. فَقَالَ: اللهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ، قَالَ: فَسَلَّمْنَا وَغَنِمْنَا، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ غَزْوًا ثَالِثًا، فَأَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أَتَیْتُكَ مَرَّتَیْنِ قَبْلَ مَرَّتِی هَذِهِ فَسَأَلْتُكَ أَنْ تَدْعُوَ اللهَ لِی بِالشَّهَادَةِ، فَدَعَوْتَ اللهَ أَنْ یُسَلِّمَنَا وَیُغَنِّمَنَا فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا. یَا رَسُولَ اللهِ، فَادْعُ اللهَ لِی بِالشَّهَادَةِ. فَقَالَ:اللهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ . قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا

ابو امامہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک لشکر ترتیب دیا (جس میں  میں  بھی تھا) میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میرے حق میں  اللہ سے شہادت کی دعاء کر دیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دعاء کی کہ اے اللہ ! انہیں  سلامت رکھ اور مال غنیمت عطاء فرما،چنانچہ ہم مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس آگئے،(دو بارہ لشکر ترتیب دیا تو میں  پھرحاضرخدمت ہوااور عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میرے حق میں  اللہ سے شہادت کی دعاء کر دیجئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دعاء کی کہ اے اللہ ! انہیں  سلامت رکھ اور مال غنیمت عطاء فرما،چنانچہ ہم مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس آگئے،تیسری مرتبہ جب لشکر ترتیب دیا تو میں  نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں  اس سے پہلے بھی دو مرتبہ آپ کے پاس آچکا ہوں  ، میں  نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ اللہ سے میرے حق میں  شہادت کی دعاء کر دیجئے لیکن آپ نے سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے لہٰذا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! اب تو میرے لیے شہادت کی دعا فرما دیں  لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے،

 ثُمَّ أَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مُرْنِی بِعَمَلٍ، قَالَ:عَلَیْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ،  قَالَ: فَمَا رُئِیَ أَبُو أُمَامَةَ وَلَا امْرَأَتُهُ وَلَا خَادِمُهُ إِلَّا صُیَّامًا.  قَالَ: فَكَانَ إِذَا رُئِیَ فِی دَارِهِمْ دُخَانٌ بِالنَّهَارِ قِیلَ اعْتَرَاهُمْ ضَیْفٌ نَزَلَ بِهِمْ نَازِلٌ، قَالَ: فَلَبِثْتٌ بِذَلِكَ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ أَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَمَرْتَنَا بِالصِّیَامِ فَأَرْجُو أَنْ یَكُونَ قَدْ بَارَكَ اللهُ لَنَا فِیهِ یَا رَسُولَ اللهِ، فَمُرْنِی بِعَمَلٍ آخَرَ قَالَ:اعْلَمْ أَنَّكَ لَنْ تَسْجُدَ لِلَّهِ  سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَ اللهُ لَكَ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِیئَةً

اس کے بعد میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے کہ اللہ مجھے اس سے نفع دے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کر لوتاکہ تم روزے کی حالت میں  ملوچنانچہ آپ  علیہ السلام کے فرمان کے بموجب انہوں  نے متصل روزے رکھنے کولازم کرلیا،ان کے ساتھ ان کی خادمہ اوربی بی نے بھی اس عمل صالح میں  شرکت کی اورروزہ ان کے گھرکی امتیازی علامت بن گیا،اگرکسی دن ان کے گھرمیں  دھواں  اٹھتاتولوگ سمجھ جاتے کہ آج امامہ  رضی اللہ عنہ  کے گھرمیں  کوئی مہمان آیاہے ورنہ اس گھرمیں  دن کاکھاناکیونکرپک سکتاتھا، امامہ رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  کہ ایک عرصہ تک میں  اس پر عمل کرتا رہاجب تک اللہ کو منظور ہوا پھر میں  بارگاہ رسالت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! آپ نے مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمیں  اس کی برکتیں  عطاء فرمائی ہیں  اب مجھے کوئی اور عمل بتا دیجئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس بات پریقین رکھو کہ اگر تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو اللہ اس کی برکت سے تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور ایک گناہ معاف کر دے گا۔[122]

صحابیات  رضی اللہ عنہن  نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے مردوں  کی جانب سے بھی روزے رکھتی تھیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أُمِّی مَاتَتْ وَعَلَیْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَقْضِیهِ عَنْهَا؟ قَالَ:  نَعَمْ، قَالَ: فَدَیْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ یُقْضَى

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کی اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں  کاانتقال ہوگیااوراس کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں  کیامیں  ان کی طرف سے قضارکھ سکتاہوں ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ ہاں  ضرور،اللہ تعالیٰ کاقرض اس بات کازیادہ مستحق ہے کہ اسے اداکردیاجائے۔[123]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّی مَاتَتْ وَعَلَیْهَا صَوْمُ نَذْرٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک صحابیہ  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری ماں  کاانتقال ہوگیاہے اوراس پرنذرکاایک روزہ واجب تھا۔[124]

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ:قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَاتَتْ أُمِّی وَعَلَیْهَا صَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک صحابیہ  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری ماں  کاانتقال ہوگیاہے اوراس پرپندرہ دن کے روزے واجب تھےکیامیں  ان کو پورا کردوں  آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  اجازت عطا فرمائی۔[125]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ امْرَأَةً، جَاءَتْ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّهُ كَانَ عَلَى أُمِّهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِیهِ عَنْهَا ،فَقَالَ:لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَیْنٌ أَكُنْتِ قَاضِیَتَهُ؟قَالَتْ: نَعَمْ،قَالَ:فَدَیْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ یُقْضَى

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اوراس نے عرض کی میری ماں  کاانتقال ہوگیاہے اوراس پرایک ماہ کے روزے واجب تھےکیامیں  اس کی طرف سے قضاکرسکتی ہوں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرتیری والدہ پر قرض ہوتاتوکیاتواسےاداکرتی ؟اس نے عرض کی کہ ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتواللہ تعالیٰ کاقرضہ زیادہ اہم ہے کہ اسے اداکیاجائے۔[126]

صحابیات  رضی اللہ عنہن پے درپے روزہ رکھتی تھیں  جس کی وجہ سے ان کے خاوندوں  کوتکلیف ہوتی تھی،چنانچہ ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  پیش کیاگیا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِی صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ، یَضْرِبُنِی إِذَا صَلَّیْتُ، وَیُفَطِّرُنِی إِذَا صُمْتُ، وَلَا یُصَلِّی صَلَاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ، قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا قَوْلُهَا یَضْرِبُنِی إِذَا صَلَّیْتُ، فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَیْنِ وَقَدْ نَهَیْتُهَا، قَالَ: فَقَالَ:لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ، وَأَمَّا قَوْلُهَا: یُفَطِّرُنِی، فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، فَلَا أَصْبِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ:لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، وَأَمَّا قَوْلُهَا: إِنِّی لَا أُصَلِّی حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّا أَهْلُ بَیْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَا ذَاكَ، لَا نَكَادُ نَسْتَیْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ:فَإِذَا اسْتَیْقَظْتَ فَصَلِّ

ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک خاتون نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئی جبکہ ہم بھی آپ کے پاس ہی تھے ،اس نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میراشوہرصفوان بن معطل جب میں  نماز پڑھتی ہوں  تومجھے مارتاہے اورجب روزہ رکھتی ہوں  توتڑوادیتاہے اورخودفجرکی نمازسورج چڑھے پڑھتاہے،صفوان بھی وہیں  تھے ،چنانچہ آپ نے ان سے جوکچھ عورت نے کہاتھااس کے بارے میں  پوچھاتوانہوں  نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اس کایہ کہناکہ جب میں  نمازپڑھتی ہوں  تویہ مارتاہے ،یہ دراصل دودوسورتیں  پڑھتی ہے اورمیں  نے اس کواس (لمبی)قرات سے روکاہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرایک سورت کی قرات ہوتوبھی لوگوں  کوکافی ہے،اوراس کایہ کہناکہ یہ میرا روزہ تڑوادیتاہے تواس کی حالت یہ ہے کہ یہ روزے ہی رکھے جاتی ہے اورمیں  جوان آدمی ہوں  صبرنہیں  کرسکتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس روزفرمایاکوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیرروزہ نہ رکھے، اوراس کایہ کہناکہ میں  سورج چڑھے نمازپڑھتاہوں  توحقیقت یہ ہے کہ ہماراگھرانااس بات میں  معروف ہے اورہم لوگ سورج نکلنے سے پہلے اٹھ ہی نہیں  سکتے،توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب جاگاکروتونمازپڑ ھ لیاکرو۔[127]

اللہ رب العزت سے دعاہے کہ وہ ہمیں  فرض روزوں  کے ساتھ نفلی روزے بھی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے (أَمِینِ)

[1]الفجر۱۷تا۲۰ 

[2] التوبة۵۴

[3] النسائ۱۴۲

[4]  سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ ۴۱۳،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ اسْتِحْبَابِ التَّبْكِیرِ بِالْعَصْرِ۱۴۱۲، مسند احمد ۱۲۹۲۹

[5] النسائ۱۴۲

[6]جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ۲۳۸۲،السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۳۶ 

[7] ابن ہشام۱۰۵؍۲

[8] ابن ہشام۵۰۳؍۱،الروض الانف۱۷۶؍۴، البدایة والنہایة۲۷۵؍۳

[9] الاعلیٰ ۱۴تا۱۷

[10] صحیح بخاری کتاب العید ین بَابُ حَمْلِ العَنَزَةِ أَوِ الحَرْبَةِ بَیْنَ یَدَیِ الإِمَامِ یَوْمَ العِیدِ۹۷۳

[11]صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ المَشْیِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِیدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ۹۶۰،صحیح مسلم کتاب العید ین کتاب صلاة العیدین باب  صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۲۰۴۹،سنن ابوداود کتاب العیدین بَابُ تَرْكِ الْأَذَانِ فِی الْعِیدِ ۱۱۴۸،جامع ترمذی ابواب العیدین بَابُ أَنَّ صَلاَةَ الْعِیدَیْنِ بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ ۵۳۲،مسنداحمد ۱۴۳۲۹

[12] فتح الباری ۴۴۹؍۲

[13] وفاء الوفا۹۲؍۲

[14] آثارالمدینہ ۱۲۳

[15] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الزِّینَةِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۰۹۸،المعجم الاوسط للطبرانی۷۳۵۵

[16] موطاامام مالک کتاب العیدین باب الْعَمَلُ فِی غُسْلِ الْعِیدَیْنِ، وَالنِّدَاءِ فِیهِمَا، وَالْإِقَامَةِ ۲

[17] الاوسطفی السنن والاجماع والاختلاف ۲۶۴؍۴،بدائع الصنائع ۲۷۹؍۱، المغنی ۲۷۴؍۲

[18] زادالمعاد۴۲۶؍۱

[19] مجمع الزوائد ابواب العیدین بَابُ اللِّبَاسِ یَوْمَ الْعِیدِ ۱۹۸؍۲،المعجم الاوسط للطبرانی۷۶۰۹

[20] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ الأَكْلِ یَوْمَ الفِطْرِ قَبْلَ الخُرُوجِ ۹۵۳،مستدرک حاکم ۱۰۸۹

[21] مستدرک  حاکم۱۰۹۰

[22] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ الخُرُوجِ إِلَى المُصَلَّى بِغَیْرِ مِنْبَرٍ۹۵۶،صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب  صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۲۰۵۳

[23] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ حَمْلِ العَنَزَةِ أَوِ الحَرْبَةِ بَیْنَ یَدَیِ الإِمَامِ یَوْمَ العِیدِ  ۹۷۳

[24] ایک دفعہعیدکے روزبارش ہوگئی تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  مسجد ہی میں  نمازعیدپڑھائی۔ سنن ابی داود کتاب العیدین بَابُ یُصَلِّی بِالنَّاسِ الْعِیدَ فِی الْمَسْجِدِ إِذَا كَانَ یَوْمُ مَطَرٍ ۱۱۶۰

[25] زادالمعاد ۴۲۵؍۱

[26] شرح السنة ۲۹۴؍۴

[27] نیل الاوطار۳۴۲؍۳

[28]   صحیح مسلم کتاب صلاة   ا لعیدین بَابُ ذِكْرِ إِبَاحَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدَیْنِ إِلَى الْمُصَلَّى وَشُهُودِ الْخُطْبَةِ، مُفَارِقَاتٌ لِلرِّجَالِ۲۰۵۶،صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ إِذَا لَمْ یَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ فِی العِیدِ۹۸۰،۱   ۹۸

[29] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ یَوْمَ العِیدِ ۹۷۸

[30] مسنداحمد ۲۵۸۳۰

[31] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدِ۱۱۳۹

[32] سنن ابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی مَشْیِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِی الطَّرِیقِ۵۲۷۲

[33] نیل الاوطار۳۴۲؍۳

[34] جامع ترمذی ابواب العیدین  بَابٌ فِی خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی العِیدَیْنِ۵۳۹

[35] تحفة الاحوذی ۷۷؍۳

[36] البقرة ۱۸۵

[37] مصنف ابن ابی شیبہ ۵۶۲۱،۴۸۷؍۱

[38] فتح الباری ۴۶۲؍۲

[39] سنن الدارقطنی ۱۶۳۷،شرح السنة للبغوی۱۹۲۴،ارواء الفلیل۱۲۴؍۳،المغنی لابن قدامة۲۹۲؍۲

[40] ارواء الفلیل ۱۲۵؍۳

[41] مسند احمد ۱۶۷۳۹

[42] سنن الدارقطنی، مصنف ابن ابی شیبة     

[43] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ التَّكْبِیرِ أَیَّامَ مِنًى، وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ

[44] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ التَّكْبِیرِ أَیَّامَ مِنًى، وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ  ۹۷۱

[45] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدِ۱۱۳۹

[46] سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الْعِیدِ۱۱۳۸

[47] الکوثر۲

[48] تفسیرالقرطبی۲۱۹؍۲۰

[49] زاد المسیرفی علم التفسیر۴۹۸؍۴

[50]سنن ابوداودکتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابٌ إِذَا لَمْ یَخْرُجِ الْإِمَامُ لِلْعِیدِ مِنْ یَوْمِهِ یَخْرُجُ مِنَ الْغَدِ ۱۱۵۷

[51] سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَابَابُ مَا جَاءَ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۱۳۱۲

[52] المغنی ۲۷۲؍۲

[53] مجموع الفتاویٰ ۱۶۱؍۲۳

[54]سنن ابی داودکتاب الصلاة بَابُ وَقْتِ الْخُرُوجِ إِلَى الْعِیدِ۱۱۳۵

[55] عون المعبود۳۴۲؍۳

[56] عون المعبود۳۴۲؍۳

[57] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ التَّبْكِیرِ إِلَى العِیدِ  ۹۶۸

[58]  فتح الباری  ۷  ۴۵؍۲

[59] زادالمعاد۴۲۷؍۱

[60] صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب  صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۵۱،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ تَرْكِ الْأَذَانِ فِی الْعِیدِ۱۱۴۸

[61] صحیح مسلم کتاب العیدین باب كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۲۰۵۰

[62] صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۴۹

[63] المغنی لابن قدامة۲۸۰؍۲

[64] موطاامام مالک کتاب العیدین باب الْعَمَلُ فِی غُسْلِ الْعِیدَیْنِ، وَالنِّدَاءِ فِیهِمَا، وَالْإِقَامَةِ۱

[65]۔المغنی لابن قدامة ۲۸۱؍۲

[66] زادالمعاد۴۲۷؍۱

[67] مسنداحمد ۲۵۷،سنن نسائی كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ باب عَدَدُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۱۵۶۷،صحیح ابن خزیمہ ۱۴۲۵,مصنف ابن ابی شیبة ۵۸۵۱

[68] مسنداحمد ۶۶۸۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ مَا جَاءَ فِی كَمْ یُكَبِّرُ الْإِمَامُ فِی صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۱۲۷۸،مصنف ابن ابی شیبة۵۶۹۴ ، مصنف عبدالرزاق ۵۶۷۷

[69] سنن ابو داود تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابُ التَّكْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ  ۱۱۵۱

[70] المصنف عبدالرزاق۵۶۷۸،المحلی ۲۹۵؍۳

[71] موطا امام مالک کتاب العیدین باب مَا جَاءَ فِی التَّكْبِیرِ، وَالْقِرَاءَةِ فِی صَلاَةِ الْعِیدَیْنِ۶۱۹

[72] المصنف ابن ابی شیبة۵۷۲۳

[73] مسنداحمد۱۸۸۴۸

[74] زادالمعاد۴۲۷؍۱

[75] تحفة الاحوذی۷۱؍۳

[76] حجة اللہ البالغہ۴۹؍۲

[77] صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب مایقرا بہ فی صلاة العیدین۲۰۵۹

[78] صحیح مسلم کتاب الجمعہ بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ   ۲۰۲۸

[79] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ الخُرُوجِ إِلَى المُصَلَّى بِغَیْرِ مِنْبَرٍ  ۹۵۶،صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۵۳

[80]صحیح   بخاری  کتاب العیدین بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِیدِ  ۹۶۲،صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین باب كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۴۴   

[81] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِیدِ ۹۶۴

[82] مسنداحمد۱۹۴۰۲

[83] سلسلة احادیث الضعیفة ۲۲۴؍۲

[84] تمام المنة ۳۵۱؍۱

[85] فتح الباری ۴۴۶؍۲

[86] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ الفِطْرِ ۱۹۹۱، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الْأَضْحَى۲۶۷۴

[87] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ الفِطْرِ  ۱۹۹۰،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الْأَضْحَى ۲۶۷۱

[88] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الْأَضْحَى ۲۶۷۶

[89] نیل اوطار ۳۰۹؍۴

[90]صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ مَنْ خَالَفَ الطَّرِیقَ إِذَا رَجَعَ یَوْمَ العِیدِ   ۹۸۶

[91]مسنداحمد۵۸۷۹    

[92] فتح الباری ۴۷۲؍۲

[93] صحیح بخاری العیدین بَابٌ إِذَا فَاتَهُ العِیدُ یُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، وَكَذَلِكَ النِّسَاءُ، وَمَنْ كَانَ فِی البُیُوتِ وَالقُرَى ،سنن الکبری للبیہقی۶۲۳۷

[94] صحیح بخاری   کتاب العیدین بَابُ الحِرَابِ وَالدَّرَقِ یَوْمَ العِیدِ ۹۵۰

[95] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ سُنَّةِ العِیدَیْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ ۹۵۲،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ بَابُ الرُّخْصَةِ فِی اللعِبِ الَّذِی لَا مَعْصِیَةَ فِیهِ فِی أَیَّامِ الْعِیدِ۲۰۶۱

[96] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ بَابُ الرُّخْصَةِ فِی اللعِبِ الَّذِی لَا مَعْصِیَةَ فِیهِ فِی أَیَّامِ الْعِیدِ۲۰۶۲

[97] سنن ابوداودكِتَاب الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِی الْأَوْعِیَةِ۳۶۹۶

[98] السنن الکبری للبیہقی ۲۰۹۹۶

[99] صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ كَرَاهَةِ الْكَلْبِ وَالْجَرَسِ فِی السَّفَرِ۵۵۴۸

[100] صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ  بَابُ كَرَاهَةِ الْكَلْبِ وَالْجَرَسِ فِی السَّفَرِ۵۵۴۶

[101] لسان العرب ۱۳۷؍۱۵

[102] عمدة القاری ۲۷۴؍۶

[103] فتح الباری۴۴۲؍۲

[104] شرح النووی علی مسلم۱۸۲؍۶

[105] صحیح بخاری كِتَابُ الأَشْرِبَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَسْتَحِلُّ الخَمْرَ وَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ۵۵۹۰

[106] مصنف عبد الرزاق۹۶۸۵، صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ  بَابُ فَضْلِ الصَّوْمِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۴۰ ، صحیح مسلم  کتاب الصیام   بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ فِی سَبِیلِ اللهِ لِمَنْ یُطِیقُهُ، بِلَا ضَرَرٍ وَلَا تَفْوِیتِ حَقٍّ  ۱۱۵۳

[107] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَیَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ إِتْبَاعًا لِرَمَضَانَ۲۷۵۸

[108] سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب صیام سنة ایام من شوال ۱۷۱۵

[109] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَرَفَةَ۱۷۳۱، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صِیَامِ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۲۷۴۷

[110] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صِیَامِ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۲۷۴۶

[111] سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ صِیَامِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۱۷۳۹

[112] سنن ابوداودکتاب الصیام بَابٌ فِی صَوْمِ الِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۲۴۳۶،مسنداحمد۲۱۷۸۱        

[113] سنن ابو داودکتاب الصوم  بَابٌ فِی صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ۲۴۴۹

[114]۔الانعام ۱۶۰

[115] سنن ابوداودکتاب الصیامبَابٌ فِی صَوْمِ الْعَشْرِ۲۴۳۸

[116] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ۱۹۸۹، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ الْفِطْرِ لِلْحَاجِّ بِعَرَفَاتٍ یَوْمَ عَرَفَةَ۲۶۳۶

[117] سنن ابوداودکتاب الصیام بَابٌ فِی صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ۲۴۴۰

[118] صحیح  بخاری کتاب الصیام بَابٌ الرَّیَّانُ لِلصَّائِمِینَ ۱۸۹۶ ،صحیح مسلم  كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ۲۷۱۰

[119] صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۰۰۲،سنن ابوداودكِتَاب الصَّوْمِ بَابٌ فِی صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۴۴۲، مسنداحمد۲۴۲۳۰

[120]صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۰۰۴،وکتاب مناقب الانصار  بَابُ إِتْیَانِ الیَهُودِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حِینَ قَدِمَ المَدِینَةَ ۳۹۴۲،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۶۵۶

[121]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ صَوْمِ الصِّبْیَانِ ۱۹۶۰،وبَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ عن سلمہ بن اکوع ۲۰۰۷،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ مَنْ أَكَلَ فِی عَاشُورَاءَ فَلْیَكُفَّ بَقِیَّةَ یَوْمِهِ  ۲۶۶۹،۲۶۷۰

[122] مسند احمد ۲۲۱۴۰

[123] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ ۱۹۵۳،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ قَضَاءِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۶۹۳،مسنداحمد۱۹۷۰ 

[124]صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ۱۹۵۳ 

[125]صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ ۱۹۵۳ 

[126]سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِیُّهُ  ۳۳۱۰،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ قَضَاءِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۶۹۳

[127] سنن ابوداودکتاب الصیام بَابُ الْمَرْأَةِ تَصُومُ بِغَیْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا ۲۴۵۹، مسند احمد ۱۱۷۵۹،صحیح ابن حبان ۱۴۸۸،مستدرک حاکم ۱۵۹۴

Related Articles