ہجرت نبوی کا دوسرا سال

قیدیوں  کی پیشی

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ أَقْبَلَ بِالْأُسَارَى فَرَّقَهُمْ بَیْنَ أَصْحَابِهِ،وَقَالَ: اسْتَوْصُوا بِالْأُسَارَى خَیْرًا

مدینہ منورہ پہنچنے کے بعدتمام قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پیش کیے گئے ،اسیران جنگ کے پاس کپڑے نہ تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب کوکپڑے دلوائے اور دو دو چار چارقیدی صحابہ میں  تقسیم کیے اورارشادفرمایاکہ قیدیوں  کو آرام سے رکھیں ۔[1]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمَ بَدْرٍ أُتِیَ بِأُسَارَى، وَأُتِیَ بِالعَبَّاسِ وَلَمْ یَكُنْ عَلَیْهِ ثَوْبٌ،(وَكَانَ الْعَبَّاسُ ضَخْمًا طَوِیلًا)فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُ قَمِیصًا  فَوَجَدُوا قَمِیصَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ یَقْدُرُ عَلَیْهِ، فَكَسَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیَّاهُ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےغزوہ بدرسے قیدی (مشرکین مکہ)لائے گئے جن میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچاعباس بن عبدالمطلب بھی تھے ان کی حالت یہ تھی کہ تن پر قمیص بھی نہ تھی(غالباًباندھنے میں  پھٹ گیاہوگا)  انہیں  اس حالت میں دیکھ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لئے قمیص تلاش کی(اورعباس لمبے قدکے تھے) اس لیے عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) کی قمیص ہی ان کے بدن پرآسکی،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبداللہ بن ابی سے قمیص لیکر عباس  رضی اللہ عنہ کوپہنادی۔[2]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:فَلِذَلِكَ نَزَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَمِیصَهُ الَّذِی أَلْبَسَهُ، قَالَ ابْنُ عُیَیْنَةَ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یُكَافِئَهُ

جابر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے(عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد)اپنی قمیص اتارکراسے پہنائی تھی، ابن عیینہ نے کہاکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  جواس کااحسان تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چاہاکہ اسے اداکردیں ۔[3]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مطابق صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم قیدیوں  سے سلوک کرتے کہ ان کوروٹی کھلاتے اورخودکھجوریں  کھاکررہ جاتے۔

وَكَانَ أَبُو عَزِیزِ بْنُ عُمَیْرِ بْنِ هَاشِمٍ أَخُو مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ لِأَبِیهِ وَأُمِّهِ فِی الْأُسَارَى، قَالَ أَبُو عَزِیزٍ: مرَّ بِی أَخِی مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یَأْسِرُنِی فَقَالَ: شُدَّ یَدَیْكَ بِهِ فَإِنَّ أُمَّهُ  ذَاتُ مَتَاعٍ لَعَلَّهَا تَفْدِیهِ مِنْكَ،قَالَ أَبُو عَزِیزٍ فَكُنْتُ فِی رَهْطٍ مِنَ الْأَنْصَارِ حِینَ أَقْبَلُوا بِی مِنْ بَدْرٍ، فَكَانُوا إِذَا قَدَّمُوا غَدَاءَهُمْ وَعَشَاءَهُمْ خَصُّونِی بِالْخُبْزِ وَأَكَلُوا التَّمْرَ لِوَصِیَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیَّاهُمْ بِنَا، مَا تَقَعُ فِی یَدِ رَجُلٍ مِنْهُمْ كسرة خبزة إِلَّا نَفَحَنِی بِهَا فَأَسْتَحِی فَأَرُدُّهَا فَیَرُدُّهَا عَلَیَّ مَا یَمَسُّهَا

ان قیدیوں  میں  مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی ابوعزیزبن عمیربھی تھے، ابو عزیر کہتے ہیں  میرے بھائی مصعب  رضی اللہ عنہ بن عمیراورانصارمیں  سے ایک شخص مجھے گرفتارکرنے آئے،میرے بھائی مصعب  رضی اللہ عنہ نے اس انصاری سے کہاتم اس کوگرفتارکرکے اپنے پاس رکھواس کی ماں  مال دار عورت ہے شایدتم سے فدیہ دے کرچھڑالے،ابوعزیزکہتاہے میں  نے مصعب  رضی اللہ عنہ سے کہاتمہارابھائی پناہی ہے؟مصعب  رضی اللہ عنہ  نے کہاتومیرابھائی نہیں  ہے بلکہ میرابھائی یہ انصاری ہے اوریہ انصاری ابوالیسرتھے، ابوعزیز کابیان ہے کہ جب بدرسے قیدیوں  کولے کرچلے تومیں  انصارکے چندلوگوں  میں  مقیدتھااوروہ جب کھانے کاوقت ہوتاتومجھے روٹی کھلاتے اورخودکھجوروں  پرگزارہ کرتے،ان میں  سے جس کے ہاتھ کوئی روٹی کاٹکڑابھی لگتاوہ مجھ کو دے دیتے،مجھے روٹی کھاتے ہوئے شرم آتی تھی اورمیں  روٹی ان کودے دیناچاہتاتھامگروہ اس کوہاتھ تک نہ لگاتے آخرمجھی کوکھانی پڑتی۔[4]

قیدیوں  کے بارے میں  مشاورت:

قیدیوں  سے عرب میں  مختلف قسم کاسلوک کیاجاتاتھا،وہ وحشیانہ اندازمیں قتل بھی کردیئے جاتے تھے اورغلام بھی بنالئے جاتے تھے خاص طورپرعورتیں  اوربچے،مالی فدیہ کابھی رواج تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حسب تقاضائے مصلحت جنگی قیدیوں  میں  سے بعض کوازراہ احسان رہافرمادیاکرتے تھےبعض کوقتل کروا دیتے اوربعض کومسلمان قیدیوں  کے عوض میں  رہاکردیتے تھے ۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں  کے بارے میں  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے ان کی  رائے دریافت فرمائی اورابتدا خودیہ ارشادفرمایا

یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ قَدْ أَمْكَنَكُمْ مِنْهُمْ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَةُ، أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ فِدْیَةً، فَتَكُونَ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ  فَعَسَى اللهُ أَنْ یَهْدِیَهُمْ لِلْإِسْلَامِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا تَرَى یَا بْنَ الْخَطَّابِ؟قُلْتُ: لَا وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَرَى الَّذِی رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّی أرى أن تمكنا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، فَتُمَكِّنُ عَلِیًّا مِنْ عَقِیلٍ فَیُضْرَبُ عنقه، وتمكنی مِنْ فُلَانٍ (نَسِیبًا لِعُمَرَ) فَأَضْرِبُ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِیدُهَاوَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ:انْظُرْ وَادِیًا كَثِیرَ الْحَطَبِ فَأَضْرِمْهُ عَلَیْهِمْ

اے لوگو!تحقیق اللہ نے تم کوان پرقدرت دی ہے،سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہمارے چچاکی اولاداورہمارے خاندان ہی کے افراد ہیں ،میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں  فدیہ کے عوض رہافرمادیں  تاکہ اس مال سے کفارسے مقابلہ کرنے کے لئے سامان حرب جمع کیاجائےاورشایدکہ کل اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوجائے اورانہیں  اسلام کی توفیق عطافرمائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابن خطاب تمہاری کیارائے ہے؟سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میری وہ رائے نہیں  ہے جوسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے دی ہے میری رائے تویہ ہے کہ آپ حکم دیجئے کہ ان سب کی گردن اڑادی جائے،مسلمان خوداپنے قریبی عزیزوں  کوقتل کریں  مثلاًعقیل کوسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے حوالے کیا جائے مجھے میرافلاں  عزیزدے دیا جائے کیونکہ یہ کفرکے سرداراورمہرے ہیں  ،سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کی رائے بھی سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  جیسی ہی تھی عبداللہ بن رواحہ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس میدان میں  بکثرت درخت ہیں  ان میں  آگ لگوادیں  اورانہیں  جلوادیں ۔[5]

مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی رائے پسندآئی اورسیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی رائے کو ناپسند فرمایا

 فَقَالَ: إِنَّ اللهَ لَیُلِینُ قُلُوبَ رِجَالٍ فِیهِ، حَتَّى تَكُونَ ألین من اللین، وَإِنَّ اللهَ لَیَشُدُّ قُلُوبَ رِجَالٍ فِیهِ حَتَّى تَكُونَ أَشَدَّ مِنَ الْحِجَارَةِ، وَإِنَّ مَثَلَكَ یَا أبا بكر كمثل إبراهیم قَالَ: فَمَنْ تَبِعَنِی فَإِنَّهُ مِنِّی وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِیمٌ،وَمَثَلَكَ یَا أَبَا بَكْرٍ كَمَثَلِ عِیسَى قَالَ:إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ،وَإِنَّ مَثَلَكَ یَا عُمَرُ كَمَثَلِ نُوحٍ قَالَ:رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِینَ دَیَّاراً

اورفرمایابعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں  اوربعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھرسے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں  اوراے ابوبکر!تمہاری مثال ابراہیم  علیہ السلام جیسی ہے کہ اللہ سے عرض کرتے ہیں  کہ’’ میرے تابعدارتومیرے ہیں  ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اوربخشش کے ماتحت ہیں ۔‘‘اورتمہاری مثال عیسی علیہ السلام  جیسی ہے جوکہیں  گے’’ اے اللہ!اگرتوانہیں  عذاب دے تووہ تیرے بندے ہیں  اوراگرتوانہیں  بخش دے توتوعزیزوحکیم ہے۔‘‘  اوراے عمر!تمہاری مثال نوح   علیہ السلام  جیسی ہے جنہوں  نے اپنی قوم پربددعاکی’’ یااللہ زمین پرکسی کافرکوبستاہواباقی نہ رکھ۔‘‘[6]

لَوْ كَانَ المُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ حَیًّا، ثُمَّ كَلَّمَنِی فِی هَؤُلاَءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ

اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمطعم بن عدی زندہ ہوتا(یہ وہی شخص ہے جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کوطائف سے واپسی کے بعداپنی حمایت میں  لے کرمکہ میں  داخل ہواتھامگریہ غزوہ بدر سے سات ماہ پہلے مر چکا تھا ) اوروہ مجھ سے ان قیدیوں  کے بارے میں  سوال کرتاتومیں  اس کی خاطرسب قیدیوں  کورہاکردیتا(تاکہ اس کا احسان کابدلہ پوراہوجاتا)۔[7]

 عَنْ عَامِرٍ قَالَ:وَكَانَ یُفَادِی بِهِمْ عَلَى قَدْرِ أَمْوَالِهِمْ

جب قیدیوں  سے فدیہ لینے کاتصفیہ کر لیا گیا توعامرکہتے ہیں اس کاانحصارقیدیوں  کی مالی حالت کے مطابق رکھاگیا۔[8]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ یَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدرکے موقع پراہل جاہلیت (مشرک قیدیوں )کافدیہ چارسو(درہم فی کس) مقرر کیا تھا۔[9]

عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: كَانَ فِدَاءُ أُسَارَى بَدْرٍ أَرْبَعَةَ آلافٍ إِلَى مَا دُونَ ذَلِكَ. فَمَنْ لَمْ یَكُنْ عِنْدَهُ شَیْءٌ أُمِرَ أَنْ یُعَلِّمَ غِلْمَانَ الأَنْصَارِ الْكِتَابَةَ

الشعبی رحمہ اللہ  سے مروی ہےغزوہ بدرکے قیدیوں  کافدیہ چارہزارسے کم تھاجس کے پاس نہ تھااسے حکم دیاگیاکہ وہ انصارکے بچوں  کولکھواناسکھادے۔[10]

فَمَنْ لَمْ یَكُنْ لَهُ فِدَاءٌ دَفَعَ إِلَیْهِ عَشَرَةَ غِلْمَانٍ مِنْ غِلْمَانِ الْمَدِینَةِ فَعَلَّمَهُمْ. فَإِذَا حَذَقُوا فَهُوَ فِدَاؤُهُ

چنانچہ جس کے پاس فدیہ نہ تھا مدینہ کے بچوں  میں  سےدس بچے اس کے سپردکئے گئے اس نے انہیں  لکھنا سکھایا جب وہ ماہرہوگئے تووہی اس کا فدیہ ہوگیا۔[11]

اورجوصاحب ثروت تھے ان سے اس سے بھی زیادہ رقم وصول کی گئی۔

مطلب بن حنطب اورصیفی بن ابی رفاعہ جو نادارتھے انہیں  بلا زرفدیہ اداکیے رہاکردیاگیا۔

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَكَانَ مِمَّنْ تَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أُسَارَى بَدْرٍ بِغَیْرِ فِدَاءٍ الْمُطَّلِبُ بْنُ حَنْطَبٍ الْمَخْزُومِیُّ، وَكَانَ مُحْتَاجًا، فَلَمْ یُفَادَ، فَمَنَّ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَصَیْفِیُّ بْنُ عَابِدٍ الْمَخْزُومِیُّ، أَخَذَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَفِ

ابن اسحاق کہتے ہیں مطلب بن حنطب اورصیفی بن ابی رفاعہ جو نادارتھے اورفدیہ اداکرنے کی سکت نہیں  رکھتے تھے وہ بلا زرفدیہ اداکیے رہاکردیئے گئے۔[12]

بغیرفدیہ اداکیے رہائی پانے والاابوعزہ بھی تھا۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: كَانَ أَبُو عَزَّةَ الْجُمَحِیُّ أُسِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّنِی ذُو بَنَاتٍ وَحَاجَةٍ، وَلَیْسَ بِمَكَّةَ أَحَدٌ یَفْدِینِی، وَقَدْ عَرَفْتَ حَاجَتِی، فَحَقَنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَمَهُ وَأَعْتَقَهُ , وَخَلَّى سَبِیلَهُ، فَعَاهَدَهُ أَنْ لَا یُعِینَ عَلَیْهِ بِیَدٍ وَلَا لِسَانٍ , وَامْتَدَحَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ عَفَا عَنْهُ. فَذَكَرَ الشِّعْرَ، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّتَهُ مَعَ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ الْجُمَحِیِّ، وَإِشَارَةَ صَفْوَانَ عَلَیْهِ بِالْخُرُوجِ مَعَهُ فِی حَرْبِ أُحُدٍ وَتَكَفُّلَهُ بَنَاتِهِ، وَإِنَّهُ لَمْ یَزَلْ بِهِ حَتَّى أَطَاعَهُ، فَخَرَجَ فِی الْأَحَابِیشِ مِنْ بَنِی كِنَانَةَ، قَالَ: فَأُسِرَ أَبُو  عَزَّةَ یَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمَّا أُتِیَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنْعِمْ عَلَیَّ , خَلِّ سَبِیلِی،فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَتَحَدَّثُ أَهْلُ مَكَّةَ أَنَّكَ لَعِبْتَ بِمُحَمَّدٍ مَرَّتَیْنِ ، فَأَمَرَ بِقَتْلِهِ

ابن اسحاق کہتے ہیں اسیران میں  ابوعزہ عمروبن عبداللہ بن عثمان بھی فدیہ کی استطاعت نہ تھی اس نے آپ کی خدمت میں  عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کومعلوم ہے کہ میں  نادار اور عیال دارہوں  مجھ پر احسان فرمائیں ،آپ نے اس کی درخواست قبول کرکے اسے بلافدیہ لئے رہاکردیامگریہ شرط فرمائی کہ ہمارے مقابلے میں  کسی کی مددنہ کرنا ابوعزہ نے اس شرط کو منظور کر لیا اورآپ کی شان میں  کچھ مدحیہ اشعاربھی کہے مگراسلام قبول نہ کیا، جب وہ مکہ مکرمہ پہنچاتوساتھیوں  سے کہنے لگامیں  نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرجادوکردیا اور حسب سابق اپنے اشعارسے آپ کوقلبی اذیت پہنچانے لگا،جب معرکہ احدبرپاہواتویہ مشرکوں  کے ساتھ ہوکرمیدان جنگ میں  آیااوراپنے اشعارسے کفارکو مسلمانوں  کے قتل پربھڑکانے لگااسی جنگ میں  وہ گرفتارہوکرپیش خدمت ہواتونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گردن اڑادینے کاحکم فرمایا،اس نے کہامجھے آزادکردیں  اورچھوڑدیجئے میں  پھر توبہ کرتاہوں ، رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  اہل مکہ کویہ کہنے کاموقعہ نہیں  دیناچاہتاکہ ہم نے محمدکودومرتبہ دھوکادیااوراس کے قتل کاحکم دیا۔[13]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاَللَّهِ لَا تَمْسَحْ عَارِضَیْكَ بِمَكَّةَ بَعْدَهَا وَتَقُولُ: خَدَعْتُ مُحَمَّدًا مَرَّتَیْنِ ،اضْرِبْ عُنُقَهُ یَا زُبَیْرُ. فَضَرَبَ عُنُقَهُ،فَضَرَبَ عُنُقَهُ

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کی قسم!اب ایسانہیں  ہوگاکہ اہل مکہ تجھ کودیکھ کرخوش ہوں  اورتوکہتاپھرے کہ میں  نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کودومرتبہ دھوکادیا اے زبیر  رضی اللہ عنہ !اس کی گردن ماردوزبیر  رضی اللہ عنہ نے فوراًاس کی گردن ماردی۔

قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یُلْدَغُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَیْنِ،اضْرِبْ عُنُقَهُ یَا عَاصِمُ ابْن ثَابِتٍ ، فَضَرَبَ عُنُقَهُ

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں  ڈساجاتااے عاصم اس کی گردن ماردوانہوں  نے اس کی گردن ماردی۔ [14]

أَنَّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ائْذَنْ لَنَا، فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ،فَقَالَ:لاَ تَدَعُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا

جب قیدیوں  سے فدیہ لیاجارہاتھاتو انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !عباس بن عبدالمطلب ہمارے بھانجے ہیں  اگرآپ اجازت دیں  تو ہم ان کا فدیہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن آپ نے اس بات کونا پسند فرمایا اورارشاد کیا کہ ان سے(فدیہ میں  سے)ایک درہم بھی نہ چھوڑاجائے۔[15]

فَافْدِ نَفْسَكَ وَابْنَیْ أَخَوَیْكَ نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَعَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَحَلِیفَكَ عُتْبَةَ بْنَ عَمْرٍو ،وَقَالَ: مَا ذَاكَ عِنْدِی یَا رَسُولَ اللهِ ،قَالَ:فَأَیْنَ الْمَالُ الَّذِی دَفَنْتَهُ أَنْتَ وَأُمُّ الْفَضْلِ فَقُلْتَ لَهَا إِنْ أُصِبْتُ فِی سَفَرِی هَذَا فَهَذَا الْمَالُ لِبَنِی الْفَضْلِ وَعَبْدِ اللهِ وَقُثَمٍ،فَقَالَ وَاللهِ إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ إن هذا شئ مَا عَلِمَهُ إِلَّا أَنَا وَأُمُّ الْفَضْلِ، فَفَدَى الْعَبَّاسُ نَفْسَهُ وَابْنَیْ أَخِیهِ وَحَلِیفَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  فرمایاکہ اپنا، اپنے بھتیجے عقیل اوراپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ بھی اداکرو، عباس  رضی اللہ عنہ نے اپنی ناداری کاعذرپیش کیااور کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس مال کہاں  ہے؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اچھاوہ مال کہاں  ہے جوتم نے اورام فضل نے مل کردفن کیاتھااورام فضل سے کہاتھا کہ اگر میں  اپنے اس سفرمیں  کامیاب رہاتویہ مال بنوالفضل اورعبداللہ اورقثم کا ہے؟عباس  رضی اللہ عنہ نے حیران ہوکرعرض کیااللہ کی قسم! اس رقم کاحال میرے اور ام فضل کے سوا کوئی اورنہیں  جانتاپھر عباس  رضی اللہ عنہ  نے اپنااوراپنے بھتیجے کا فدیہ دے کر رہائی حاصل کی۔[16]

فَافْتَدَى نَفْسَهُ بِمِائَةِ أُوقِیَّةٍ مِنْ ذَهَبٍ،وَكَلَّفَهُ أَنْ یَفْدِیَ ابْنَیْ أخویه عقیل بن أبی طالب ونوفل ابن الْحَارِثِ فَأَدَّى عَنْهُمَا ثَمَانِینَ أُوقِیَّةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عباس  رضی اللہ عنہ پرسواوقیہ(ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے)اورعقیل بن ابی طالب پراسی اسی اوقیہ فدیہ لگایاتمام قیدیوں  میں  سب سے زیادہ فدیہ عباس  رضی اللہ عنہ ہی کاتھا، عباس  رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکیاقرابت کی وجہ سے آپ نے میرافدیہ اس قدر زائد تجویز کیاہے ؟اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی۝۰ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۷۰  [17]

ترجمہ:اے نبی !تم لوگوں  کے قبضہ میں  جوقیدی ہیں  ان سے کہواگراللہ کومعلوم ہواکہ تمہارے دلوں  میں  کچھ خیرہے تووہ تمہیں  اس سے بڑھ چڑھ کردے گاجوتم سے لیاگیاہے اورتمہاری خطائیں  معاف کرے گا،اللہ درگزرکرنے والاہے اوررحم فرمانے والاہے۔

فَأَعْطَانِی اللهُ مَكَانَ الْعِشْرِینَ الْأُوقِیَّةَ فِی الْإِسْلَامِ عِشْرِینَ عَبْدًا، كُلُّهُمْ فِی یَدِهِ مَالٌ یَضْرِبُ بِهِ، مَعَ مَا أَرْجُو مِنْ مَغْفِرَةِ اللهِ، عَزَّ وَجَلَّ

عباس  رضی اللہ عنہ بعدمیں  فرمایاکرتے تھے کہ کاش اس وقت مجھ سے بڑھ چڑھ کرفدیہ لیاجاتااللہ تعالیٰ نے مجھ سے جتنالیااس سے زائداوربہترمجھے عطافرمایا،بیس اوقیہ سونے کے بدلے میں  بیس غلام عطافرمائے،یہ وعدہ اللہ نے دنیامیں  ہی پورافرمادیااوردوسراوعدہ مغفرت کاتھامیں روزقیامت اللہ سے مغفرت کاامیدوارہوں ۔ان شاءاللہ۔ [18]

نوفل بن حارث اگرچہ عہدرسالت کے مکہ دورمیں  قبول اسلام کی سعادت حاصل نہ کرسکے لیکن ان کے دل میں  ہمیشہ سرورعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت موجزن رہی،انہوں  نے نہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کی اورنہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوستایاتاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے،

لَمَّا أَخْرَجَ الْمُشْرِكُونَ مَنْ كَانَ بِمَكَّةَ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ إِلَى بَدْرٍ كُرْهًا قَالَ فِیهِمْ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ فأنشأ یقول:

غزوہ بدرمیں  لشکرکفارمیں  شامل ہوناانہیں  سخت ناپسندتھالیکن مشرکین نے انہیں  اتنامجبورکیاکہ وہ بال ناخواستہ ان کے ساتھ ہولیے،اس وقت بھی ان کی زبان پراس قسم کے شعرجاری تھے۔

حرام علی حرب أحمد إنی ، أرى أحمد منی قریبا أواصره

میرے لیے احمد صلی اللہ علیہ وسلم  سےجنگ کرناحرام ہے           ،یونکہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم  میرے قریبی عزیزہیں

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ: لَمَّا أُسِرَ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ بِبَدْرٍ،(وَكَانَ أَسَنَّ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ) قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:افْدِ نَفْسَكَ یَا نَوْفَلُ: افْدِ نَفْسَكَ یَا نَوْفَلُ، قَالَ: مَا لِی شَیْءٌ أَفْدِی بِهِ نَفْسِی یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: افْدِ نَفْسَكَ بِرِمَاحِكَ الَّتِی بِجَدَةَ ،قَالَ: وَاللهِ مَا عَلِمَ أَحَدٌ أَنَّ لِی بِجُدَّةَ رِمَاحًا بَعْدَ اللهِ غَیْرِی، أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، فَفَدَى نَفْسَهُ بِهَا، وَكَانَتْ أَلْفَ رُمْحٍ

عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہےجب نوفل بن حارث کو(جوبنی ہاشم میں  اسلام قبول کرنے والوں  میں  سب سے زیادہ سن رسیدہ تھے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پیش کیا گیاتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااےنوفل! فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کرلو،نوفل نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس فدیہ کے لائق کوئی چیزنہیں  ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجدہ والے نیزے مجھے فدیہ میں  دے دو،نوفل نے کہااللہ کی قسم !میرے علاوہ ان کے مطالق کوئی نہیں  جانتاتھامیں  گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں  اوراس طرح نوفل بن حارث نے ایک ہزار نیزے فدیہ میں  پیش کئے۔[19]

وَقَالَ أَیْضًا نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ لَمَّا أَسْلَمَ:

جب انہوں  نے اسلام قبول کرلیاتو اپنے اخلاص فی الدین کااظہاران اشعارمیں  کیا۔

إِلَیْكُمْ إِلَیْكُمْ إِنَّنِی لَسْتُ مِنْكُمُ ، تَبَرَّأْتُ مِنْ دِینِ الشِّیُوخِ الأَكَابِرِ

دورہودورہومیں  تمہاری جماعت میں  داخل نہیں ،میں  قریش کے شیوخ اوراکابرکے دین سے بیزارہوں

شَهِدْتُ عَلَى أَنَّ النَّبِیَّ مُحَمَّدًا ، أَتَى بِالْهُدَى مِنْ رَبِّهِ وَالْبَصَائِرِ

میں  نے شہادت دی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نبی ہیں  ،اوراللہ کی طرف سے ہدایت اوربصیرت لائے ہیں

وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ یَدْعُو إِلَى التُّقَى ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ لَیْسَ بِشَاعِرِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرہیزگاری کی برف بلاتے ہیں ،اوراللہ کے رسول شاعرنہیں  ہیں

عَلَى ذَاكَ أَحْیَا ثُمَّ أُبْعَثُ مُوقِتًا ، وَأَثْوِی عَلَیْهِ مَیِّتًا فِی الْمَقَابِرِ

میں  اسلام پرہی زندہ رہوں گااوراسی پرقبرکے اندرموت کی حالت میں  سوؤں  گااورپھراسی پرقیامت کے دن اٹھوں  گا۔[20]

وَشَهِدَ نَوْفَلٌ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتْحَ مَكَّةَ وَحُنَیْنًا وَالطَّائِفَ،وَثَبَتَ یَوْمَ حُنَیْنٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

پھرنوفل  رضی اللہ عنہ  فتح مکہ ،حنین اورطائف میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہم رکاب رہے، یہ غزوہ حنین میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ثابت قدم رہے۔[21]

أَنَّهُ اسْتَعَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی التَّزْوِیجِ فَأَنْكَحَهُ امْرَأَةً، فَالْتَمَسَ شَیْئًا فَلَمْ یَجِدْهُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا رَافِعٍ وَأَبَا أَیُّوبَ بِدِرْعِهِ فَرَهَنَاهُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْیَهُودِ بِثَلَاثِینَ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ، فَدَفَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیَّ

نوفل  رضی اللہ عنہ  کی معاشی حالت کمزورتھی اس لئے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم  بسااوقات ان کی خبرگیری فرمایاکرتے تھے ،ان کونکاح کی خواہش ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک خاتون سے شادی کرادی، ایک دفعہ تنگدستی اتنی غالب ہوئی کہ گھرمیں  کھانے پینے کی کوئی بھی چیزنہیں  تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخبرہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابورافع رضی اللہ عنہ اورابوایوب انصاری  رضی اللہ عنہ  کے ذریعے اپنی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھوائی اوراس کے عوضٗ تیس صاع جولے کرنوفل  رضی اللہ عنہ  کوعطافرمائے۔[22]

قیدیوں  میں  سہیل بن عمروبھی تھا،یہ فصیح اللسان شاعراورخطیب تھااورعام مجمعوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف تقریریں  کرتاتھا

قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ , دَعْنِی أَنْزِعُ ثَنِیَّةَ سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فَلَا یَقُومُ خَطِیبًا فِی قَوْمِهِ أَبَدًا،  فَقَالَ:دَعْهَا، فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسُرَّكَ یَوْمًا

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !سہل بن عمرو کے نچلے دودانت نکلوا دیجئے تاکہ یہ پھرکبھی اپنی قوم میں  خطبات نہ کرسکے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر  رضی اللہ عنہ !جانے دوعجب نہیں  کہ اللہ تعالیٰ تم کوان سے کوئی خوشی دکھلائے۔[23]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا أُمَثّلُ بِهِ فَیُمَثّلَ اللهُ بِی وَإِنْ كُنْت نَبِیّا

اورایک روایت ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرمیں  اس کاعضوبگاڑدوں  توگومیں  نبی ہوں  لیکن اس کے بدلے میں  اللہ تعالیٰ میرے بھی اعضاء بگاڑدے گا۔[24]

چنانچہ صلح حدیبیہ جس کواللہ تعالیٰ نے فتح مبین قراردیا انہیں  کی کوششوں  سے ہوئی اوریہ فتح مکہ کے روز مسلمانوں  میں  شامل ہوگئے۔

لَمْ یَزَلِ الْوَلِیدُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ عَلَى دَیْنِ قَوْمِهِ وَخَرَجَ مَعَهُمْ إِلَى بَدْرٍ فَأُسِرَ یَوْمَئِذٍ.أَسَرَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ، فَقَدِمَ فِی فِدَائِهِ أَخَوَاهُ خَالِدٌ وَهِشَامٌ ابْنَا الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ فَتَمَنَّعَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ حَتَّى افْتَكَّاهُ بِأَرْبَعَةِ آلافٍ، فَجَعَلَ خَالِدٌ یُرِیدُ أَلا یَبْلُغَ ذَلِكَ فَقَالَ هِشَامٌ لِخَالِدٍ: إِنَّهُ لَیْسَ بِابْنِ أُمِّكَ. وَاللهِ لَوْ أَبَى فِیهِ إِلا كَذَا وَكَذَا لَفَعَلْتُ،وَكَانَتِ الشِّكَّةُ دِرْعًا فَضَفَاضَةً وَسَیْفًا وَبَیْضَةً. فَأُقِیمَ ذَلِكَ مِائَةَ دِینَارٍ وَطَاعَا بِهِ وَسَلَّمَاهُ. فَلَمَّا قُبِضَ ذَلِكَ، خَرَجَا بِالْوَلِیدِ حَتَّى بَلَغَا بِهِ ذَا الْحُلَیْفَةِ فَأَفْلَتَ مِنْهُمَا فَأَتَى النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَأَسْلَمَ

ولیدبن ولیداپنی قوم ہی کے دین پررہے،ان کے ساتھ بدرگئےاوراسی روز عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں  گرفتارہوئے تھے،فدیے کے لیے ان کے دوبھائی خالدوہشام فرزندان ولیدابن المغیرہ آئے مگرعبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  نے انکارکردیاتاوقتیکہ وہ چارہزاردرہم ادانہ کردیں ،خالدکواتنی بڑی رقم دینے میں  تردد ہوا توہشام نے خالدسے کہاکہ ولیدتمہاری ماں  کابیٹانہیں (یعنی تمہاراعلاتی بھائی ہے اس لیے پہلوتہی کرتے ہو)اللہ کی قسم !اگرعبداللہ بغیراتنی اتنی رقم کے (ان کے رہاکرنے سے)انکارکردیں  تو ضرور مہیا کردنگا،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رہائی کے سلسلہ میں  ولید بن المغیرہ کے اسلحہ کے بغیرجوایک کشادہ تلواراورخودپرمشتمل تھافدیہ لینے سے انکارکردیااوراسے سودینار کا قرار دیا گیا،دونوں  راضی ہوگئے اوررقم اداکردی،ولیداپنے بھائیوں  کے ساتھ گھرروانہ ہوئے لیکن ذوالحلیفہ پہنچ کرپھرمدینہ بھاگ آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  پہنچ کراسلام قبول کرلیااورپھربھائیوں  کے پاس پہنچ گئے،

فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: هَلا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَفْتَدِیَ وَتُخْرِجَ مَأْثُرَةَ أَبِینَا مِنْ أَیْدِینَا فَاتَّبَعْتَ مُحَمَّدًا إِذْ كَانَ هَذَا رَأْیَكَ؟ فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأُسْلِمَ حَتَّى أَفْتَدِیَ بِمِثْلِ مَا افْتَدَى بِهِ قَوْمِی وَلا تَقُولُ قُرَیْشٌ إِنَّمَا اتَّبَعَ مُحَمَّدًا فِرَارًا مِنَ الْفِدَى، ثُمَّ خَرَجَا بِهِ إِلَى مَكَّةَ وَهُوَ آمَنٌ لَهُمَا فَحَبَسَاهُ بِمَكَّةَ مَعَ نَفَرٍ مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ كَانُوا أَقْدَمَ إِسْلامًا مِنْهُ: عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ هِشَامٍ. وَكَانَا مِنْ مُهَاجِرَةِ الْحَبَشَةِ. فَدَعَا لَهُمَا رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ بَدْرٍ وَدَعَا بَعْدَ بَدْرٍ لِلْوَلِیدِ بْنِ الْوَلِیدِ مَعَهُمَا، فَدَعَا ثَلاثَ سِنِینَ لِهَؤُلاءِ الثَّلاثَةِ جَمِیعًا،قَالَ: ثُمَّ أَفْلَتَ الْوَلِیدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنَ الْوَثَاقِ فَقَدِمَ الْمَدِینَةَ

خالد نے کہا کہ اگرتم نے اسلام ہی قبول کرناتھاتوفدیہ دینے سے قبل کیوں  مسلمان نہیں  ہوگئے،تم نے فدیہ اداکرایا اور والدکی نشانیاں ہمارے ہاتھ سے نکلوادیں ،ولیدنے جواب دیاکہ میں  اس وقت اس لئے مسلمان نہیں  ہواکہ میں  بھی اپنے قبیلے کے دیگرافرادکی طرح فدیہ اداکرکے رہائی چاہتا تھا تاکہ قریش کویہ طعن کرنے کاموقع نہ ملے کہ ولیدفدیہ کے خوف سے مسلمان ہوگیا،بھائیوں  نے راستہ میں  انہیں  کچھ نہ کہامگرمکہ پہنچتے ہی ان کوبنی مخزوم کی ایک جماعت کے ساتھ قیدکردیاجوپہلے اسلام لائے تھے ،ان میں  عیاش بن ابی ربیعہ اورسلمہ بن ہشام مہاجرین حبشہ تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرسے پہلے ان کے لیے دعافرمائی اورغزوہ بدرکے بعدان کے ساتھ ولید بن الولیدکوبھی دعامیں  شریک فرمایارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی اورچنددیگرافرادکی رہائی کے لئے تقریباً تین سال تک قنوت نازلہ میں  دعافرماتے رہے، پھرکسی طرح ولیدبن الولیدبیڑیوں  سے نکل کر مدینہ منورہ آگئے۔[25]

كَانَ عَمْرُو بْنُ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْب ٍمِنْ أَسْرَى بَدْرٍقَالَ: فَقِیلَ لِأَبِی سُفْیَانَ: افْدِ عَمْرًا ابْنَكَ،قَالَ: أَیُجْمَعُ  عَلَیَّ دَمِی وَمَالِی! قَتَلُوا حَنْظَلَةَ، وَأَفْدِی عَمْرًا! دَعُوهُ فِی أَیْدِیهِمْ یُمْسِكُوهُ مَا بَدَا لَهُمْ،قَالَ: فَبَیْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ، مَحْبُوسٌ بِالْمَدِینَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إذْ خَرَجَ سَعْدُ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ أَكَّالٍ، أَخُو بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ثُمَّ أَحَدُ بَنِی مُعَاوِیَةَ مُعْتَمِرًا وَمَعَهُ مُرَیَّةٌ لَهُ، وَكَانَ شَیْخًا مُسْلِمًا، فِی غَنَمٍ لَهُ بِالنَّقِیعِ ، فَخرج من هُنَالك مُعْتَمِرًا، وَلَا یَخْشَى الَّذِی صُنِعَ بِهِ، لَمْ یَظُنَّ أَنَّهُ یُحْبَسُ بِمَكَّةَ، إنَّمَا جَاءَ مُعْتَمِرًا. وَقَدْ كَانَ عَهِدَ قُرَیْشًا لَا یَعْرِضُونَ لِأَحَدٍ جَاءَ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا إلَّا بِخَیْرٍ، فَعَدَا عَلَیْهِ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ بِمَكَّةَ فَحَبَسَهُ بِابْنِهِ عَمْرٍو،وَمَشَى بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ خَبَرَهُ وَسَأَلُوهُ أَنْ یُعْطِیَهُمْ عَمْرَو بْنَ أَبِی سُفْیَانَ فَیَفُكُّوا بِهِ صَاحِبَهُمْ، فَفَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. فَبَعَثُوا بِهِ إلَى أَبِی سُفْیَانَ، فَخَلَّى سَبِیلَ سَعْدٍ

قیدیوں  میں  عمروبن ابوسفیان بھی تھاقریش نے ابوسفیان سے کہاتوبھی اپنے بیٹے عمروکوفدیہ بھیج کررہاکروالے،ابوسفیان نے کہااس کے آنے سے کیامیرامال اورجولوگ قتل ہوئے ہیں  سب آجائیں  گے،جہاں  حنظلہ قتل ہواوہاں  عمروکوبھی جانے دوجب تک اس کوچاہیں  قیدمیں  رکھیں ،عمروبن ابی سفیان مدینہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس قیدہی تھاکہ ایک صحابی  رضی اللہ عنہ   سعدبن نعمان  رضی اللہ عنہ بن اکال انصاری جوبنی معاویہ میں  سے تھے  عمرہ کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ گئے، عمر رسیدہ مسلمان تھا اور مقان نقیع سے ہی عمرہ کی نیت سے نکل پڑا اور انہیں  اطمینان تھاکہ مکہ میں  ان سے کسی طرح کی بدسلوکی نہیں  کی جائے گی کیونکہ قریش کاتمام عرب سے معاہدہ تھاکہ اگرکوئی شخص حج یاعمرہ کوآئے تو اس سے بدسلوکی نہیں  کی جائے گی،جب سعدبن نعمان مکہ مکرمہ پہنچے توابوسفیان نے اپنے بیٹے عمروکے معاوضہ میں  ان کوگرفتارکرلیاجب یہ خبرسعدبن نعمان کی قوم بنی عمروبن عوف کوپہنچی تووہ فریاد لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ عمروبن ابی سفیان کورہاکردیں  توہماراآدمی سعدبن نعمان  رضی اللہ عنہ رہاہوجائے گا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی درخواست منظورفرمالی اور عمروبن ابوسفیان کوان کے حوالے کردیا،ان لوگوں  نے عمروبن ابوسفیان کوان کے حوالے کرکے  سعدبن نعمان  رضی اللہ عنہ  اوران کے لڑکے کورہاکروالیا۔[26]

دامادرسول ابوالعاص بن الربیع  رضی اللہ عنہ  بن عبدشمس کاتعلق بنوامیہ سے تھا،ان کی والدہ ہالہ بنت خویلدام المومنین خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  کی بہن تھیں ،اس طرح آپ ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے بھانجے تھے،قریش کے دوسرے افرادکی طرح تجارت پیشہ تھے ،آپ  رضی اللہ عنہا  بڑے سخی ،امانت داراورشجاع تھے،قریش مکہ کے بڑے لوگوں  میں  تھے اوران کاشمار گنے چنے لوگوں  میں  ہوتا تھا ،ان خصائل کی بناپرام المومنین خدیجہ  رضی اللہ عنہ  کوبہت محبوب تھے اوروہ انہیں  اپنے بیٹے جیساہی سمجھتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بڑی صاحبزادی زینب  رضی اللہ عنہا جواپنے حسب ونسب میں  ممتازتھیں  اوران کی تربیت بھی خدیجہ  رضی اللہ عنہ  الکبری اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے زیرسایہ ہوئی تھی،حسن وجمال کے ساتھ مال ودولت بھی تھی اس لئے وہ بھی اپنے فضائل میں  یکتاتھیں  ، سرداران مکہ کی خواہش تھی کہ یہ گوہرنایاب ان کے بیٹوں  کے نصیب میں  آجائے مگرام المومنین خدیجہ  رضی اللہ عنہ  نے اپنی بڑی بیٹی زینب کانکاح اپنے بھانجے ابوالعاص بن الربیع  رضی اللہ عنہ  سے کر دیا اور شادی کے تحفہ کے طورپراپنی بیٹی کوایک بیش قیمت ہارعطاکیا،دونوں  میاں  بیوی میں  شدیدمحبت کارشتہ استوارتھا،چونکہ ابوالعاص ایک متمول شخص تھےاس لیےدنیوی لحاظ سے بھی دونوں  نہایت خوش حالی کی زندگی بسرکرتے تھے،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: رَأَیْتُ عَلَى زَیْنَبَ ابْنَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَمِیصَ حَرِیرٍ سِیَرَاءَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک بارمیں  نے زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرایک دھاری دارقمیص جوریشم کی بنی ہوئی تھی دیکھی ،وہ اس کوزیب تن کیے ہوئے تھیں ۔[27]

اس باہمی محبت والفت کے صلہ میں  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اولادصالحہ عطافرمائی تھی ،ان میں  آپ کاایک صاحبزادہ علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی العاص بن الربیع بن عبدالعزی بن عبدشمس تھا،اس علی  رضی اللہ عنہ  کوماں  کی نسبت سے علی الزینبی  رضی اللہ عنہ بھی کہاجاتاہے،

وكان علیّ مسترضعا فِی بنی غاضرة،فضمه رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلیه،ولما دخل رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مكَّة یَوْم الفتح أردف علیًا خلفه،وقال ابن عساكر: ذكر بعض أهل العلم بالنسب أنه قتل یوم الیرموك

عرب کے رسم ورواج کے مطابق انہیں دودھ پلانے کے لیے قبیلہ بنی غاضرہ میں  بھیجاگیاتھا،شیرخوارگی سے فراٖغت کے بعدسرورعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اپنے ساتھ ملالیاتھا،اس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ نواسہ سروردوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرنگرانی پرورش پاتارہااورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی نے ان کی تعلیم وتربیت فرمائی تھی،فتح مکہ کے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اپنی سواری کے پیچھے بٹھایاہواتھا، ابن عساکرکہتے ہیں  نسب کے اہل علم کہتے ہیں  یہ جنگ یرموک میں  شہیدہوئے تھے۔[28]

اورایک صاحب زادی امامہ بنت ابی العاص  رضی اللہ عنہا  تھیں ،ان کی ولادت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دورمبارک میں  ہوئی اوران کی پرورش بھی سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زیرسایہ ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی اس نواسی سے بہت محبت فرمایاکرتے تھے ،

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ الأَنْصَارِیِّ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُصَلِّی وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِی العَاصِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا

ابوقتادہ انصاری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازپڑھتے تھے اورابوامامہ بنت زینب  رضی اللہ عنہا اپنی نواسی کوجوابوالعاص کی بیٹی تھی اٹھائے ہوئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑی ہوتے تواس کواٹھالیتے اورپھرجب سجدہ کرتے تواس کوزمین پربیٹھادیتے۔[29]

اپنی نواسی امامہ کواٹھانے کے واقعات احادیث میں  متعددبارمذکورہوئے ہیں  جس سے معلوم ہوتاہے کہ سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوان سے انتہائی محبت تھی ،اسی محبت وشفقت کے سلسلہ میں  محدثین نے ایک اورروایت بھی نقل کی ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أُهْدِیَ لِرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قِلَادَةٌ مِنْ جَزْعٍ مُلَمَّعَةٌ بِالذَّهَبِ ،وَنِسَاؤُهُ مُجْتَمِعَاتٌ فِی بَیْتٍ كُلُّهُنَّ ، وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ جَارِیَةٌ تَلْعَبُ فِی جَانِبِ الْبَیْتِ بِالتُّرَابِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  كَیْفَ تَرَیْنَ هَذِهِ؟  فَنَظَرْنَا إِلَیْهَا، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا رَأَیْنَا أَحْسَنَ مِنْ هَذِهِ قَطُّ، وَلَا أَعْجَبَ،فَقَالَ: ارْدُدْنَهَا إِلَیَّ . فَلَمَّا أَخَذَهَا قَالَ: وَاللهِ لَأَضَعَنَّهَا فِی رَقَبَةِ أَحَبِّ أَهْلِ الْبَیْتِ إِلَیَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَظْلَمَتْ عَلَیَّ الْأَرْضُ بَیْنِی وَبَیْنَهُ خَشْیَةَ أَنْ یَضَعَهَا فِی رَقَبَةِ غَیْرِی مِنْهُنَّ، وَلَا أَرَاهُنَّ إِلَّا أَصَابَهُنَّ مِثْلَ الَّذِی أَصَابَنِی، وَوَجَمْنَا جَمِیعًا سُكُوتًا، فَأَقْبَلَ بِهَا حَتَّى وَضَعَهَا فِی رَقَبَةِ أُمَامَةَ بِنْتِ أَبِی الْعَبَّاسِ، فَسُرِّیَ عَنَّا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  ایک مرتبہ سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  ایک نہایت قیمتی ہارآیااتفاق سے ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن بھی وہاں  موجودتھیں ،اورامامہ  رضی اللہ عنہ بھی اسی گھرمیں  ایک طرف کھیل کودمیں  مصروف تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاردیکھ کرفرمایاکہ یہ ہارکس طرح کاہے؟ عرض کیاگیاکہ یہ ایک نہایت عمدہ ،بہترین اورقیمتی قسم کاہارہے اس جیساہارہم نے توکبھی نہیں  دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس ہارکوپکڑکرفرمایامیں  اپنے اہل بیت میں  سے جومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اس کے گلے میں  اسے ڈالوں  گا،عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی لسان مبارک سے یہ الفاظ سن کرہرزوجہ محترمہ انتظاربھری نظروں  سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف دیکھنے لگی کہ معلوم نہیں  آج کس محبوب شخصیت کے گلے میں  یہ ہارپڑتاہے اورکون پاکیزہ شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نگاہ محبت کاہدف ٹھیرتی ہے،اتنے میں  تمام ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن نے دیکھاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی نواسی کوبلایااوراپنے ہاتھوں  سے اس کے گلے میں  وہ ہارڈال دیااورتمام دیکھنے والوں  نے یہ دیکھااورمحسوس کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنی اس نواسی سے کس قدرمحبت ہے۔[30]

وتوفی أبو العاص سنة اثنتی عشرة

ابوالعاص بارہ ہجری میں  انتقال فرماگئے۔[31]

وَأَوْصَى أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ بِابْنَتِهِ أُمَامَةَ إِلَى الزُّبَیْرِ وَبِتَرِكَتِهِ

اپنی وفات سے قبل انہوں  نے زبیربن عوام  رضی اللہ عنہ کواپنی اس صاحب زادی کی کفالت ونگرانی کی وصیت فرمائی تھی۔[32]

آٹھ ہجری میں فاطمہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے انتقال کے وقت سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کووصیت فرمائی تھی کہ اگرآپ میری وفات کے بعدشادی کرناچاہیں  تومیری ہمشیرہ کی صاحب زادی امامہ بنت ابی العاص  رضی اللہ عنہ  سے نکاح کرنا چنانچہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے ان سے شادی فرمائی ،مگرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی ان سے کوئی اولادنہیں  ہوئی ، ان دونوں  کے علاوہ کتابوں  میں  ایک اوربچے کاذکرملتاہے جوصغیرسنی ہی میں  انتقال کرگیاتھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دواور صاحبزادیوں  رقیہ  رضی اللہ عنہا  اور ام کلثوم  رضی اللہ عنہا  کانکاح ابولہب کے دولڑکوں  سے بھی طے پاچکاتھا

وكانت رقیة عند عتبة بن أبی لهب، وكانت أم كلثوم عند أبی عتیبة ابن أبی لهب

رقیہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانکاح عتبہ بن ابولہب سے اورام کلثوم  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانکاح عتیبہ بن ابولہب سے ہوچکاتھا۔[33]

وَكَانَتْ رُقَیَّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  عِنْدَ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی لَهَبٍ ،وَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ عُتَیْبَةُ بْنُ أَبِی لَهَبٍ

رقیہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانکاح عتبہ بن ابولہب سے ہوچکاتھا اورام کلثوم  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانکاح عتیبہ بن ابولہب سے طے پاچکاتھا۔[34]

مگررخصتی ابھی نہیں  ہوئی تھی، اسی طرح چندسال بیت گئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت سے پوری دنیامیں  ظلمتوں  میں  ڈوبے لوگوں  کووہاں  سے نکالنے اوران کی رہنمائی کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو مبعوث فرمایا ،آپ کی دعوت اسلام پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اہلیہ  رضی اللہ عنہا کے ہمراہ بیٹیوں  نے بھی قبول اسلام میں  سبقت حاصل کرلی۔

وَثَبَتَ أَبُو الْعَاصِ عَلَى شِرْكِهِ

مگر زینب  رضی اللہ عنہا کے شوہر ابوالعاص  رضی اللہ عنہ  اپنے شرکیہ آبائی دین پرہی قائم رہے۔

بعدمیں  سلیم الفطرت لوگوں  کی ایک قلیل تعداد بھی ان پاکیزہ نفوس کے ہمراہ کھڑی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعلان نبوت اورنعرہ حق کے ساتھ ہی حق وباطل کی کشمکش شروع ہوگئی اورقریش مکہ چھچھوری حرکتوں  پراترآئے ،

قال لهما أبوهما أبو لهب، وأمهما أم جمیل بنت حرب بن أمیة حمالة الحطب: فارقا ابنتی محمد،ففارقاهما قبل أن یدخلا بهما

سب سے پہلے آپ کے حقیقی چچا ابولہب اورام جمیل بنت حرب بن امیہ  حمالة الحطب نے اپنے بیٹوں  کوحکم دیاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹیوں  کوطلاق دے دیں  ،  انہوں  نےباپ کی آوازپرلبیک کہا اوررخصتی سے پہلے طلاق دے دی۔[35]

وَعَنْ قَتَادَةَ بْنِ دَعَامَةَ قَالَ:تَزَوَّجَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُتَیْبَةُ بْنُ أَبِی لَهَبٍ،وَكَانَتْ رُقَیَّةُ عِنْدَ أَخِیهِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی لَهَبٍ،  فَلَمْ یَبْنِ بِهَا حَتَّى بُعِثَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ} قَالَ أَبُو لَهَبٍ لِابْنَیْهِ: عُتْبَةَ، وَعُتَیْبَةَ: رَأْسِی فِی رُءُوسِكُمَا حَرَامٌ، إِنْ لَمْ تُطَلِّقَا ابْنَتَیْ مُحَمَّدٍ، وَقَالَتْ أُمُّهُمَا بِنْتُ حَرْبِ بْنِ أُمَیَّةَ  وَهِیَ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ: طَلِّقَاهُمَا یَا بَنِیَّ، فَإِنَّهُمَا صَبَأَتَافَطَلَّقَاهُمَا

اورقتادہ بن دعامہ سے روایت ہے ام کلثوم  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانکاح عتیبہ بن ابولہب سے  اوررقیہ رضی اللہ عنہا  بنت رسول اللہ کانکاح عتبہ سے طے پاچکاتھا، جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کونبوت سے سرفرازکیاگیااورسورۂ  المسدنازل ہوئی توابولہب نے اپنے دونوں  بیٹوں  عتبہ اورعتیبہ کودھمکی دی کہ اگرتم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی بیٹیوں  کوطلاق نہ دی تومیں  تمہارا چہرہ دیکھنابھی پسندنہیں  کروں  گا،اوران کی ماں  بنت حرب بن امیہ جوحَمَّالَةُ الْحَطَبِہے نے کہااے میرے بیٹو!محمدکی بیٹیاں  صابی ہوگئی ہیں  اس لیے تم انہیں  طلاق دے دو چنانچہ انہوں  نے طلاق دے دی۔ [36]

فِیمَا  بَلَغَنِی. ثُمَّ مَشَوْا إلَى عُتْبَةَ بْنِ أَبِی لَهَبٍ، فَقَالُوا لَهُ: طَلِّقْ بِنْتَ مُحَمَّدٍ وَنَحْنُ نُنْكِحُكَ أَیَّ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ شِئْتَ، فَقَالَ: إنْ زَوَّجْتُمُونِی بِنْتَ أَبَانَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، أَوْ بِنْتَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَارَقْتُهَا فَزَوَّجُوهُ بِنْتَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ وَفَارَقَهَا، وَلَمْ یَكُنْ دَخَلَ بِهَا،فَمَشَوْا إلَى أَبِی الْعَاصِ فَقَالُوا لَهُ: فَارِقْ صَاحِبَتَكَ وَنَحْنُ نُزَوِّجُكَ أَیَّ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ شِئْتَ، قَالَ:لَا وَاَللَّهِ، إنِّی لَا أُفَارِقُ صَاحِبَتِی، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِامْرَأَتِی امْرَأَةً مِنْ قُرَیْشٍ

ایک میں  روایت ہےقریش کے لوگ ابولہب کے بیٹے عتبہ کے پاس گئے اورکہاکہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی کوچھوڑدوتم قریش کی جس عورت سے چاہوگے ہم تیری شادی اس سے کرادیں  گے،عتبہ نے کہا کہ اگرتم مجھے سعیدبن عاص یااس کے بیٹے ابان کی لڑکی دلوادوتومیں  تمہاری بات مان کرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کی لڑکی کوچھوڑدوں  گا،چنانچہ قریش نے اس کی مرضی کی لڑکی اسے دلوادی اور اس نے حسب وعدہ رخصتی ہونے سے قبل طلاق دے دی اوراپنے فخر وغرور وہٹ دھرمی کی بناپر گھرآئی بیش قیمت دولت کوٹھکرادیا،قریش مکہ نے ابوالعاص  رضی اللہ عنہ  پربھی دباوڈالاکہ وہ بھی اپنی اہلیہ کو طلاق دے کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم  )کواپنے آبائی دین سے انحراف کے جرم کامزہ چکھا دیں پھرقریش کی جس عورت سے وہ جس سے چائیں  گے اس سے ان کی شادی کردی جائے گی،مگر اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود ابوالعاص  رضی اللہ عنہ  نے اپنی چہیتی بیوی کوطلاق دینے سے انکار کردیا اور کہااللہ کی قسم ! میں  ہرگزایسانہ کروں  گاکہ اپنی بیوی کوچھوڑکرقریش کی کسی عورت سے شادی کروں ۔[37]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بھی یہی خواہش تھی کہ ان کی چہیتی مسلمان بیٹی ایک مشرک کے گھرنہ رہے مگرکیونکہ نکاح کی حرمت کاحکم نازل نہیں  ہواتھااس لئے خاموش رہے،اس طرح یہ قریش مکہ کی پہلی شکست تھی، حق وباطل کی خوفناک کشمکش میں  تیرہ برس بیت گئے اورآخررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان پرمدینہ منورہ ہجرت فرمائی،جس طرح مشرکین مکہ نے حبشہ تک مسلمانوں  کاتعاقب کیاتھااسی طرح انہیں  یہاں  پربھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور سازشیں  کرنے لگے،جس کے نتیجے میں سترہ رمضان المبار ک دو ہجری کو غزوہ بدربرپاہوا، اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے سامان جنگ سے لیس مشرکین مکہ کوذلت آمیز شکست سے ہمکنارکیااور بے سروساماں  قلیل مسلمانوں  کوفتح عظیم سے نوازا ، کفارکے سترنامی جنگجومارے گئے،کچھ فرار ہونے میں  کامیاب ہوئے اوربہت سے گرفتارہوئے جس میں  دامادرسول ابوالعاص  رضی اللہ عنہ  بھی قیدہوکرمسجدنبوی میں  لائے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیدیوں  کے بارے میں  مشورہ فرمایااورآخریہ طے پایاکہ ان قیدیوں  سے ایک ہزارسے چارہزاردرہم تک فدیہ وصول کیاجائے،

لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِی فِدَاءِ أُسَرَائِهِمْ، بَعَثَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی فِدَاءِ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ بِمَالٍ، وَبَعَثَتْ فِیهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ خَدِیجَةُ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِی الْعَاصِ حِینَ بَنَى عَلَیْهَاقَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِیدَةً، وَقَالَ: إنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِیرَهَا، وَتَرُدُّوا عَلَیْهَا مَالَهَا، فَافْعَلُوافَقَالُوا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللهِ، فَأَطْلَقُوهُ، وَرَدُّوا عَلَیْهَا الَّذِی لَهَا،وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخَذَ عَلَیْهِ، أَوْ وَعَدَ  رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، أَنْ یُخَلِّیَ سَبِیلَ زَیْنَبَ إلَیْهِ، أَوْ كَانَ فِیمَا شَرَطَ عَلَیْهِ فِی إطْلَاقِهِ، وَلَمْ یَظْهَرْ ذَلِكَ مِنْهُ وَلَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیُعْلَمُ مَا هُوَ، إلَّا أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ أَبُو الْعَاصِ إلَى مَكَّةَ وَخُلِّیَ سَبِیلُه

جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں  کے چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادی زینب  رضی اللہ عنہا جومکہ مکرمہ میں  اپنے خاوند کے گھرپرتھیں  اپنے شوہرکی رہائی کے لئے اپناوہ ہارجوان کی والدہ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا نے انہیں  تحفہ کے طورپردیا تھا مدینہ منورہ روانہ کردیا،جب وہ ہاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظروں  کے سامنے آیا(توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنی محبوب بیوی خدیجہ  رضی اللہ عنہ  یاد آگئیں  جس نے اپناسب کچھ اسلام اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے قربان کردیاتھا ، واقعات کی رفتارنے ایک عجیب رقت انگیزصورت پیداکردی تھی،وہ حق پرست خاتون جس نے اپنی ساری دولت،محبت اورتوانائیاں  دعوت دین کی تائیدمیں  صرف کردی تھیں  آج جب نخل اسلام پروان چڑھا اور اس کی سب سے پہلی فتح پراس باوفا،جانثاراورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے رنج وغم میں  دلداری کرنے والی خاتون کاہارجواس نے نہایت محبت وشفقت سے اپنی بیٹی زینب  رضی اللہ عنہا کودیاتھاایک قیدی کے فدیہ میں  پیش ہورہاہے )جس سےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پررقت طاری ہوگئی،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم  اس موقع پرام المومنین خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی وفاداری ،خلوص اورجانثاری کی بناپرخوداپنی رائے سے بھی یہ ہارواپس کرسکتے تھے اورابوالعاص کوکسی فدیہ کے بغیررہائی دلواسکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسانہیں  کیاکیونکہ اس معاملہ کاتعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات سے تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی اوردامادکامعاملہ تھالہذاضابطہ اورقاعدہ کی پابندی اورآک کل کی اصطلاح میں  جمہوری تقاضے کوپیش نظررکھااورمعاملہ مسلمانوں  کے سامنے رکھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرتم مناسب سمجھو تو زینب  رضی اللہ عنہا کے قیدی کوبغیرفدیہ ہی رہاکردواوراس کامال واپس کردو،صحابہ کرام نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! سر تسلیم خم ہے،انہوں  نے ابوالعاص کومع اس ہارکے رخصت کیا ،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی رہائی سے قبل ایک شرط لگائی کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ کران کی بیٹی زینب  رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ میں ان کے پاس روانہ کردیں  گے جسے انہوں  نے تسلیم کرلیا

عَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ مَكَانَهُ، فَقَالَ: كُونَا بِبَطْنِ یَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَیْنَبُ،فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِیَانِی بِهَا. فَخَرَجَا مَكَانَهُمَا، وَذَلِكَ بَعْدَ بَدْرٍ بِشَهْرِ أَوْ شَیْعِهِ،فَلَمَّا قَدِمَ أَبُو الْعَاصِ مَكَّةَ أَمَرَهَا بِاللُّحُوقِ بِأَبِیهَا، فَخَرَجَتْ تَجَهَّزَ،قَالَتْ: بَیْنَا أَنَا أَتَجَهَّزُ بِمَكَّةَ لِلُّحُوقِ بِأَبِی لَقِیَتْنِی هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ،فَقَالَتْ:یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ، أَلَمْ یَبْلُغْنِی أَنَّكَ تُرِیدِینَ اللُّحُوقَ بِأَبِیكَ؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا أَرَدْتُ ذَلِكَ،فَقَالَتْ: أَیْ ابْنَةَ عَمِّی، لَا تَفْعَلِی، إنْ كَانَتْ لَكَ حَاجَةٌ بِمَتَاعِ مِمَّا یَرْفُقُ بِكَ فِی سَفَرِكَ أَوْ بِمَالٍ تَتَبَلَّغِینَ بِهِ إلَى أَبِیكَ، فَإِنَّ عِنْدِی حَاجَتَكَ، فَلَا تَضْطَنِی مِنِّی، فَإِنَّهُ لَا یَدْخُلُ بَیْنَ النِّسَاءِ مَا بَیْنَ الرِّجَالِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے زیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہا اورانصارمیں  سے ایک شخص کو ابوالعاص کے ساتھ روانہ کیااورفرمایاکہ تم مقام بطن یاجج میں  ٹھیرجانااورجب زینب  رضی اللہ عنہا تمہارے پاس آئیں  توانہیں  یہاں  لے آناچنانچہ یہ دونوں  اشخاص روانہ ہوئے یہ غزوہ بدرسے ایک مہینہ بعدکاواقعہ ہے، جب ابوالعاص مکہ مکرمہ پہنچے توانہوں  نے زینب  رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان کوطلب فرمانے کاذکرکیااوروہ سامان سفرکی تیاری میں  مصروف ہوگئیں ، زینب  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  جب میں  مکہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضرہونے کے لیے سامان سفرتیارکررہی تھی توہندبنت عتبہ میرے پاس آئی اورکہنے لگی اے محمدکی بیٹی !میں  نے سناہے کہ تم اپنے والدکے پاس جاناچاہتی ہو؟ میں  نے کہامیراتوکوئی ارادہ نہیں  ہے ، ہندہ نے کہااے میرے چچاکی بیٹی !مجھ سے کیوں  چھپاتی ہومیں  اس لیے کہہ رہی ہوں  کہ اگرسامان سفرمیں  سے کسی چیزکی تم کوضرورت ہوتومیرے پاس آجانامیں  تمہیں  دے دوں  گی،مردوں  کے معاملات عورتوں  میں  داخل نہیں  ہوتےیعنی مردوں  میں  جوجنگ ہوئی اس سے یہ لازم نہیں  کہ ہم عورتیں  بھی آپس میں  رنج کریں ۔

قَالَتْ: وَاَللَّهِ مَا أَرَاهَا قَالَتْ ذَلِكَ إلَّا لِتَفْعَلَ، قَالَتْ: وَلَكِنِّی خِفْتُهَا، فَأَنْكَرْتُ أَنْ أَكُونَ أُرِیدُ ذَلِكَ، وَتَجَهَّزْتُ

زینب  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ میری رائے میں  جیساہند نے کہاتھاویساہی کرتی مگرپھربھی مجھ کواس سے اندیشہ ہوااورمیں  نے اس سے صاف انکارکردیاکہ میراسفرکرنے کاکوئی ارادہ نہیں  ہے،

فَلَمَّا فَرَغَتْ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَهَازِهَا قَدَّمَ لَهَا حَمُوهَا كِنَانَةُ بْنُ الرَّبِیعِ أَخُو زَوْجِهَا بَعِیرًا، فَرَكِبَتْهُ، وَأَخَذَ قَوْسَهُ وَكِنَانَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ بِهَا نَهَارًا یَقُودُ بِهَا، وَهِیَ فِی هَوْدَجٍ لَهَا، وَتَحَدَّثَ بِذَلِكَ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فَخَرَجُوا فِی طَلَبِهَا حَتَّى أَدْرَكُوهَا بِذِی طُوًى، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَبَقَ إلَیْهَا هَبَّارُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَالْفِهْرِیُّ،فَرَوَّعَهَا هَبَّارٌ بِالرُّمْحِ وَهِیَ فِی هَوْدَجِهَا، وَكَانَتْ الْمَرْأَةُ حَامِلًا- فِیمَا یَزْعُمُونَ- فَلَمَّا رِیعَتْ طَرَحَتْ ذَا بَطْنِهَا

جب زینب  رضی اللہ عنہا سفرکی تیاری سے فارغ ہوئیں  توان کے جیٹھ کنانہ جوابوالعاص کے بھائی تھے سواری کااونٹ لائے اور زینب  رضی اللہ عنہا اس پرسوارہوئیں ،کنانہ (جوبہت اچھے تیر انداز تھے) نے تیروکمان اپنے ساتھ لیااوراونٹ کوہنکاتے ہوئے دوپہر میں  روانہ ہوئے (کیونکہ دوپہرکے وقت زیادہ گرمی ہونے کی وجہ سے عرب لوگ کم سفرکرتے تھے ،اس وقت سفرکرنے سے شایدان کامقصدیہ بھی تھاکہ لوگوں  کوزینب  رضی اللہ عنہا کے مدینہ منورہ جانے کا علم نہ ہو)جبکہ زینب ہودج میں  تھی،قریش کے لوگ ان کی تلاش میں  دوڑے یہاں  تک کہ مقام ذی طویٰ میں  ان کو جالیا،اورپہلاشخص جوکنانہ کے قریب پہنچاوہ ہباربن اسودبن مطلب بن اسدبن عبدالعزیٰ فہری تھااس نے اپنے نیزے سے زینب  رضی اللہ عنہا کو جواونٹ کے ہودج میں  سوارتھیں  ڈرایا،زینب  رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں  اس کے خوف سے ان کاحمل ساقط ہو گیا۔

وَبَرَكَ حَمُوهَا كِنَانَةُ، وَنَثَرَ كِنَانَتَهُ، ثُمَّ قَالَ: وَاَللَّهِ لَا یَدْنُو مِنِّی رَجُلٌ إلَّا وَضَعْتُ فِیهِ سَهْمًا،فَتَكَرْكَرَ  النَّاسُ عَنْهُ، وَأَتَى أَبُو سُفْیَانَ فِی جُلَّةٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَ: أَیُّهَا الرَّجُلُ، كُفَّ عَنَّا نَبْلَكَ حَتَّى نُكَلِّمَكَ، فَكَف،فَأَقْبَلَ أَبُو سُفْیَانَ حَتَّى وَقَفَ عَلَیْهِ، فَقَالَ: إنَّكَ لَمْ تُصِبْ، خَرَجْتَ بِالْمَرْأَةِ عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ عَلَانِیَةً، وَقَدْ عَرَفْتَ مُصِیبَتَنَا وَنَكْبَتَنَا، وَمَا دَخَلَ عَلَیْنَا مِنْ مُحَمَّدٍ،فَیَظُنُّ النَّاسُ إذَا خَرَجْتَ بِابْنَتِهِ إلَیْهِ عَلَانِیَةً عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ مِنْ بَیْنِ أَظْهُرِنَا، أَنَّ ذَلِكَ عَنْ ذُلٍّ أَصَابَنَا عَنْ مُصِیبَتِنَا الَّتِی كَانَتْ، وَأَنَّ ذَلِكَ مِنَّا ضَعْفٌ وَوَهْنٌ، وَلَعَمْرِی مَا لَنَا بِحَبْسِهَا عَنْ أَبِیهَا مِنْ حَاجَةٍ، وَمَا لَنَا فِی ذَلِكَ مِنْ ثَوْرَةٍ  ، وَلَكِنْ ارْجِعْ بِالْمَرْأَةِ،حَتَّى إذَا هَدَأَتْ الْأَصْوَاتُ، وَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنْ قَدْ رَدَدْنَاهَا، فَسُلَّهَا سِرًّا، وَأَلْحِقْهَا بِأَبِیهَا،قَالَ:فَفَعَلَ. فَأَقَامَتْ لَیَالِیَ، حَتَّى إذَا هَدَأَتْ الْأَصْوَاتُ خَرَجَ بِهَا لَیْلًا حَتَّى أَسْلَمَهَا إلَى زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَصَاحِبِهِ، فَقَدِمَا بِهَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

کنانہ نے یہ دیکھ کرمارے غصہ کے کمان میں  تیر رکھا اور کہا جو شخص آگے بڑھے گامیں  اس تیرسے اس کاکام تمام کردوں  گا،قریش تیرکودیکھتے ہی پیچھے ہٹ گئے اورابوسفیان چندبزرگان قریش کولے کرکنانہ کے پاس آیااورکہااے شخص تواپنے تیرکواپنے پاس رکھ اورہماری ایک بات سن لے،کنانہ نے کہاکہہ کیاکہتاہے ؟ابوسفیان کنانہ کے قریب آئے کہایہ تونے اچھاکام نہیں  کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی کواعلانیہ سب کے سامنے لے جارہاہے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے جورنج وغم ہمیں  پہنچاہے اس کوتوخوب جانتاہے،اگرتواس کواعلانیہ لے جائے گاتوقریش یہ سمجھیں  گے کہ یہ بھی ہمیں  ایک اورذلت اورندامت پہنچی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی ہم میں  سے چلی گئی اورہم اس کوروک نہ سکے،اس سے ہماراضعف ثابت ہوتاہے،اورقسم ہے مجھ کواپنی جان کی کہ اس عورت کے روکنے سے ہماراکوئی فائدہ نہیں  ہے اورنہ ہم اس سے کوئی بدلہ نکالناچاہتے ہیں ،فقط اتنامطلب ہے کہ تواس کواس وقت لے کراپنے گھرواپس چلا،دوچاردن کے بعدجب یہ شوروغوغا ذرا کم ہوجائے گااس وقت چپکے سے (تاکہ قریش کوبزدلی کاطعنہ نہ ملے) اس کواس کے باپ تک پہنچادینا،کنانہ ذہین آدمی تھے ،موقع کی نزاکت کوسمجھ گئےاس لیے ابوسفیان کی اس بات کوقبول کرلیا(کنانہ بن الربیع نے ابوسفیان کابتلایاہواطریقہ استعمال کیا) اورپھردوچارروزکے بعدجب شوروشغف میں  کمی ہوگئی تورات کے وقت زینب  رضی اللہ عنہا کوزیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ  اوران کے ساتھی کے پاس پہنچادیا۔

جب زینب  رضی اللہ عنہا  اونٹ سے گرپڑیں  اورہندبنت عتبہ نے جب یہ واقعہ سناتوجلدی سے دوڑتی ہوئی آئیں  اورقوم کومخاطب کرکے کہنے لگیں  تمہیں  عورتوں  سے لڑتے ہوئے شرم نہیں  آتی؟

این کانت شجاعتکم یوم بدر؟

جنگ بدرمیں  تمہاری شجاعت کہاں  گئی تھی ؟

پھروہ زینب  رضی اللہ عنہا اورلوگوں  کے درمیان حائل ہوگئیں  ،مجھے گلے لگایااورمیرے ہاتھ پاؤں  دبانے لگی ،میراخون وغیرہ پونچھایہاں  تک کہ مدینہ منورہ میں  اباجان محمد صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچنے کے معاملہ کوامن وامان سے مرتب کیا۔

کنانہ بن ربیع نے اس واقعہ کے متعلق شعرکہے۔

عَجِبْتُ لِهَبَّارٍ وَأَوْبَاشِ قَوْمِهِ ،یُرِیدُونَ إخْفَارِی بِبِنْتِ مُحَمَّدِ

میں  ہباراوراس کی قوموں  کے اوباشوں  سے تعجب کرتاہوں           کہ محمدکی صاحبزادی کے متعلق میرے عہدکوتوڑناچاہتے ہیں

وَلَسْتُ أُبَالِی مَا حَیِیتُ عَدِیدَهُمْ ، وَمَا اسْتَجْمَعْتُ قَبْضًا یَدِی بِالْمُهَنَّدِ

میں  جب تک زندہ رہوں  ان کی دھمکیوں  کوکچھ خاطرمیں  نہیں  لاتا جب تک میں  اپنے ہاتھ میں  شمشیرہندی کوقبضہ کیے ہوئے ہوں

اورزیدبن حارثہ اوران کے ساتھی ان کولے کربخیروعافیت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئےاور زینب  رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ رہنے لگیں ۔[38]

فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: هِیَ أَفْضَلُ بَنَاتِی، أُصِیبَتْ فِیَّ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی منقبت میں  فرمایایہ میری بیٹیوں  میں  افضل ہے میرے لیے اسے تکلیف پہنچی۔[39]

فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:هِیَ خَیْرُ بَنَاتِی، أُصِیبَتْ فِیَّ

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ میری بیٹیوں  میں  سب سے اچھی بیٹی ہےمیرے لیے اسے تکلیف پہنچی۔[40]

اس وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دامادابوالعاص کی بہت تعریف وتحسین فرمایاکرتے تھے ،

وَقَالَ المِسْوَرُ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ، فَأَثْنَى عَلَیْهِ فِی مُصَاهَرَتِهِ، فَأَحْسَنَ قَالَ:حَدَّثَنِی وَصَدَقَنِی، وَوَعَدَنِی فَوَفَى لِی

مسور سے مروی ہےمیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دامادکاذکرفرمایااور(حقوق)دامادی (کی ادائیگی میں )ان کی بڑی تعریف کی اورفرمایاکہ انہوں  نے مجھ سے جب بھی کوئی بات کہی توسچ کہی اوروعدہ کیاتواس میں  پورے نکلے۔[41]

سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان سے یہ الفاظ ایک بہت بڑی اہمیت اورفضیلت کے حامل ہیں  اورابوالعاص کے عمدہ کردارکی ترجمانی کرتے ہیں ۔

عمیربن وہب جوشیاطین قریش میں  سے بڑاشیطان اوراسلام کے شدیدترین دشمنوں  میں  شمارہوتاتھاجس نے مکہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کے اصحاب کوایذائیں  پہنچائی تھیں اس کابیٹابھی قیدیوں  میں  شامل تھا وہ اپنے بیٹے کوچھڑانے کے لئے مدینہ نہیں  آیاتھا،مکہ مکرمہ میں  مقام حجرمیں صفوان بن امیہ اورعمیربن وہب نے اس دوران ایک سازش کی

فَقَالَ صَفْوَانُ: وَاَللَّهِ إنْ فِی الْعَیْشِ بَعْدَهُمْ خَیْرٌ ،قَالَ لَهُ عُمَیْرٌ: صَدَقَتْ وَاَللَّهِ، أَمَا وَاَللَّهِ لَوْلَا دَیْنٌ عَلَیَّ لَیْسَ لَهُ عِنْدِی قَضَاءٌ وَعِیَالٌ أَخْشَى عَلَیْهِمْ الضَّیْعَةَ بَعْدِی، لَرَكِبْتُ إلَى مُحَمَّدٍ حَتَّى أَقْتُلَهُ، فَإِنَّ لِی قِبَلَهُمْ عِلَّةً: ابْنِی أَسِیرٌ فِی أَیْدِیهِمْ،قَالَ: فَاغْتَنَمَهَا صَفْوَانُ وَقَالَ: عَلَیَّ دَیْنُكَ، أَنَا أَقْضِیهِ عَنْكَ، وَعِیَالُكَ مَعَ عِیَالِی أُوَاسِیهِمْ مَا بَقُوا، لَا یَسَعُنِی شَیْءٌ وَیَعْجِزُ عَنْهُمْ، فَقَالَ لَهُ عُمَیْرٌ: فَاكْتُمْ شَأْنِی وَشَأْنَكَ، قَالَ: أَفْعَلُ،قَالَ: ثُمَّ أَمَرَ عُمَیْرٌ بِسَیْفِهِ، فَشُحِذَ لَهُ وَسُمَّ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةَ

صفوان نے عمیرسے کہا اکابرقریش جوبدرمیں  مقتول ہوچکے ہیں کے بعدزندگی میں  کوئی خوبی باقی نہیں  رہی ہے،عمیرنے بھی اس کی تائیدکی اورکہااگرمجھ پرقرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال کی کثرت نہ ہوتی تومیں  ابھی سوارہوکر مدینہ منورہ جاتااورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم  )کوقتل کردیتاکیونکہ میرابیٹابھی اس کے پاس قیدہے،صفوان نے اس کی اس بات کو غنیمت سمجھااورفوراًکہامیں  تیرےقرض کاذمہ لیتاہوں  اور تیرے اہل وعیال کے اخراجات بھی میں  اپنے اہل وعیال کے ساتھ برداشت کروں  گاتوجااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کردے،عمیرنے بھی اس پیشکش کوقبول کر لیا، عمیرنے کہاتواس رازکوکسی پرظاہرنہ کرنا،صفوان نے کہامیں  کسی سے کچھ نہیں  کہوں  گا،اس کے بعدعمیرنے اپنی تلوار کو تیز کرواکرزہرمیں  بجھوائی اورتیارہوکرمدینہ روانہ ہوگیا

فَبَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی نَفَرٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ یَتَحَدَّثُونَ عَنْ یَوْمِ بَدْرٍ، وَیَذْكُرُونَ مَا أَكْرَمَهُمْ اللهُ بِهِ، وَمَا أَرَاهُمْ مِنْ عَدُوِّهِم،إذْ نَظَرَ عُمَرُ إلَى عُمَیْرِ بْنِ وَهْبٍ حِینَ أَنَاخَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ مُتَوَشِّحًا السَّیْفَ، فَقَالَ: هَذَا الْكَلْبُ عَدُوُّ اللهِ عُمَیْرُ بْنُ وَهْبٍ، وَاَللَّهِ مَا جَاءَ إلَّا لِشَرٍّوَهُوَ الَّذِی حَرَّشَ  بَیْنَنَا، وَحَزَرْنَا  لِلْقَوْمِ یَوْمَ بَدْرٍ،ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ، هَذَا عَدُوّ اللهِ عُمَیْرُ بْنُ وَهْبٍ قَدْ جَاءَ مُتَوَشِّحًا سَیْفَهُ، قَالَ: فَأَدْخَلَهُ عَلَیَّ

جب وہ مدینہ پہنچاتوسیدنا عمربن خطاب  رضی اللہ عنہ  اور دیگر چند صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم آپس میں  غزوہ بدرہی کے بارے میں  گفتگوکررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  پرکیسے رحمت وکرم کیا اور دشمنوں  کوکیسے نیست ونابودکیا،اچانک انہوں  نے دیکھاکہ عمیراپنااونٹ مسجدکے سامنے بٹھائے اورتلوارحمائل کئے ہوئے ہے،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اسے دیکھتے ہی فرمایاکہ واللہ! یہ کتااللہ کادشمن ہے اور ضرور کسی بدنیتی ہی سے آیاہے،یہ وہی شخص ہے جوروزبدرہماری تعدادکاتخمینہ دشمنوں  کوبتلارہاتھا، پھرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اورکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کادشمن عمیربن وہب آیاہے اوراس کے ساتھ تلوارہے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیااس کوسامنے پیش کرو،

فَأَقْبَلَ عُمَرُ حَتَّى أَخَذَ بِحِمَالَةِ سَیْفِهِ فِی عُنُقِهِ فَلَبَّبَهُ بِهَا، وَقَالَ لِرِجَالٍ مِمَّنْ كَانُوا مَعَهُ مِنْ الْأَنْصَارِ: اُدْخُلُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاجْلِسُوا عِنْدَهُ، وَاحْذَرُوا عَلَیْهِ مِنْ هَذَا الْخَبِیثِ، فَإِنَّهُ غَیْرُ مَأْمُونٍ،ثُمَّ دَخَلَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعُمَرُ آخِذٌ بِحِمَالَةِ سَیْفِهِ فِی عُنُقِهِ، قَالَ: أَرْسِلْهُ یَا عُمَرُ، اُدْنُ یَا عُمَیْرُ،فَدَنَا ثُمَّ قَالَ: انْعَمُوا صَبَاحًا، وَكَانَتْ تَحِیَّةُ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ بَیْنَهُمْ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَكْرَمَنَا اللهُ بِتَحِیَّةِ خَیْرٍ مِنْ تَحِیَّتِكَ یَا عُمَیْرُ، بِالسَّلَامِ: تَحِیَّةُ أَهْلِ الْجَنَّة، فَقَالَ: أَمَا وَاَللَّهِ یَا مُحَمَّدُ إنْ كُنْتُ بِهَا لَحَدِیثُ عَهْدٍ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے عمیرکی گردن میں  پڑی تلوارکے تسمہ کومضبوطی سے پکڑلیاجو انصار ساتھ تھے ان سے کہا اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  لے جاؤ،مگرہوشیاررہنایہ نہایت مکارشخص ہے اس کابھروسہ نہیں ،یہ انتہادرجہ کاخبیث ہے،جب سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ عمیرکواسی ہیئت سے پکڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  لائےتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے عمر  رضی اللہ عنہ !اس کوچھوڑدواوراے عمیرتومیرے قریب آجا،عمیررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب آیااورکہاتم لوگوں  نے اچھی صبح کی ،یہ دعائیہ کلمہ جاہلیت کی رسم سے تھاجب ایک دوسرے سے ملتے تویہی کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے عمیر!االلہ تعالیٰ نے ہمیں  ایک ایسی دعا(سلام)کی عزت سے نوازاہے جوتمہاری دعا(سلام)سے بہتر ہے،اورجواہل جنت کی دعا ہے،عمیرنے کہاواللہ! اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم  )یہ تمہاری نئی باتیں  ہیں ،

قَالَ: فَمَا جَاءَ بِكَ یَا عُمَیْرُ؟ قَالَ: جِئْتُ لِهَذَا الْأَسِیرِ الَّذِی فِی أَیْدِیكُمْ فَأَحْسِنُوا فِیهِ،قَالَ: فَمَا بَالُ السَّیْفِ فِی عُنُقِكَ؟ قَالَ: قَبَّحَهَا اللهُ مِنْ سُیُوفٍ، وَهَلْ أَغْنَتْ عَنَّا شَیْئًا؟قَالَ: اُصْدُقْنِی، مَا الَّذِی جِئْتَ لَهُ؟قَالَ:مَا جِئْتُ إلَّا لِذَلِكَ،قَالَ: بَلْ قَعَدْتَ أَنْتَ وَصَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ فِی الْحِجْرِفَذَكَرْتُمَا أَصْحَابَ الْقَلِیبِ مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ قُلْتُ: لَوْلَا دَیْنٌ عَلَیَّ وَعِیَالٌ عِنْدِی لَخَرَجْتُ حَتَّى أَقْتُلَ مُحَمَّدًا، فَتَحَمَّلَ لَكَ صَفْوَانُ بِدَیْنِكَ وَعِیَالِكَ، عَلَى أَنْ تَقْتُلَنِی لَهُ، وَاَللَّهُ حَائِلٌ بَیْنَكَ وَبَیْنَ ذَلِك

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھااے عمیر!تم کس لیے یہاں  آئے ہو؟عمیرنے کہا میں  اس قیدی کے لئے آیاہوں  جوآپ کے پاس قیدہے آپ اس کے تعلق سے احسان فرمائیں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا تمہارے گلے میں  تلوارکیوں  حائل ہے؟عمیر نے کہااللہ ان تلواروں  کوبربادکرے کہ یہ کچھ کام نہ آسکیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسچ سچ کہہ دوکہ کس ارادے سے آئے ہو؟ عمیرنے کہاسوائے قیدی کے کسی اور ارادے سے نہیں  آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاتونے اور صفوان نے حجراسودکے پاس بیٹھ کرصلاح نہیں  کی تھی، تونے بدرکے مقتولوں  کاذکرنہیں  کیاتھااوریہ نہیں  کہاتھاکہ اگرمیرے اوپراس قدرقرض نہ ہوتاجس کومیں  ادانہیں  کرسکتااوراہل وعیال کی کثرت نہ ہوتی تومیں  جاکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کردیتا،صفوان نے تیراقرض اپنے ذمہ لے لیااورتیرے اہل وعیال کے خرچ کابھی متکفل ہواہے،تاکہ تومجھے قتل کردے اوراللہ تمہاری اس گفتگوکاشاہدہے،

قَالَ عُمَیْرٌ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، قَدْ كُنَّا یَا رَسُولَ اللهِ نُكَذِّبُكَ بِمَا كُنْتُ تَأْتِینَا بِهِ مِنْ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَمَا یَنْزِلُ عَلَیْكَ مِنْ الْوَحْیِ، وَهَذَا أَمْرٌ لَمْ یَحْضُرْهُ إلَّا أَنا وَصَفوَان، فو الله إنِّی لَأَعْلَمُ مَا أَتَاكَ بِهِ إلَّا اللهُ، فَالْحَمْدُ للَّه الَّذِی هَدَانِی لِلْإِسْلَامِ، وَسَاقَنِی هَذَا الْمَسَاقَ، ثُمَّ شَهِدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَقِّهُوا أَخَاكُمْ فِی دِینِهِ. وَأَقْرِئُوهُ الْقُرْآنَ، وَأَطْلِقُوا لَهُ أَسِیرَهُ، فَفَعَلُوا، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنِّی كُنْتُ جَاهِدًا عَلَى إطْفَاءِ نُورِ اللهِ، شَدِیدَ الْأَذَى لِمَنْ كَانَ عَلَى دِینِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَأْذَنَ لِی، فَأَقْدَمَ مَكَّةَ، فَأَدْعُوهُمْ إلَى اللهِ تَعَالَى، وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِلَى الْإِسْلَامِ، لَعَلَّ اللهَ یَهْدِیهِمْ وَإِلَّا آذَیْتُهُمْ فِی دِینِهِمْ كَمَا كُنْتُ أُوذِی أَصْحَابَكَ فِی دِینِهِمْ؟قَالَ: فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَحِقَ بِمَكَّةَ

عمیرنے یہ سنتے ہی کہابیشک میں  گواہی دیتاہوں  کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ جوآسمانی خبریں  بیان فرماتے تھے ہم ان کوجھٹلایاکرتے تھےلیکن یہ بات توایسی ہے کہ اس وقت میرے اورصفوان کے سواکوئی اور موجودہی نہ تھا ، اللہ کی قسم! اب میں  جان گیاہوں  کہ یہ خبرآپ کوسوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اورذریعہ سے نہیں  ملی،اللہ کاشکرہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت کی اوراس پاکیزہ راستہ پرمجھے چلایا،پھرعمیرنے حق کی گواہی دی اورصدق دل سے مسلمان ہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے ارشادفرمایااپنے بھائی کودین کی تعلیم دو،قرآن پڑھاؤ اوراس کی خاطراس کا قیدی بھی رہا کر دو،چنانچہ صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم نے عمیر  رضی اللہ عنہ کواسلام کی تعلیم دی،پھرعمیر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں  نے اللہ کے نورکوبجھانے کی بہت کوششیں  کیں  اوراسلام قبول کرنے والوں  کوطرح طرح سے ستایااب مجھے اجازت عطافرمائیں  کہ مکہ مکرمہ جاکرلوگوں  کودین اسلام کی طرف دعوت دوں  شایداللہ تعالیٰ ان لوگوں  کوہدایت نصیب فرمائے اوراللہ کے دشمنوں  کواس طرح ستاؤں  جس طرح اسلام قبول کرنے سے قبل میں مسلمانوں  کوستاتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اجازت دے دی اوروہ مکہ واپس چلے گئے۔

وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ حِینَ خَرَجَ عُمَیْرُ ابْن وَهْبٍ، یَقُولُ: أَبْشِرُوا بِوَقْعَةٍ تَأْتِیكُمْ الْآنَ فِی أَیَّامٍ، تُنْسِیكُمْ وَقْعَةَ بَدْرٍ وَكَانَ صَفْوَانُ یَسْأَلُ عَنْهُ الرُّكْبَانَ، حَتَّى قَدِمَ رَاكِبٌ فَأَخْبَرَهُ عَنْ إسْلَامِهِ، فَحَلَفَ أَنْ لَا یُكَلِّمَهُ أَبَدًا، وَلَا یَنْفَعَهُ بِنَفْعِ أَبَدًا، فَلَمَّا قَدِمَ عُمَیْرٌ مَكَّةَ، أَقَامَ بِهَا یَدْعُو إلَى الْإِسْلَامِ، وَیُؤْذِی مَنْ خَالَفَهُ أَذًى شَدِیدًا، فَأَسْلَمَ عَلَى یَدَیْهِ نَاسٌ كَثِیرٌ

جب عمیربن وہب ارادہ بدلیکر مدینہ منورہ روانہ ہوئے توصفوان بن امیہ کومکہ میں  عمیر  رضی اللہ عنہ کابڑاانتظارتھااوروہ مکہ مکرمہ میں  لوگوں  سے کہتا پھرتا تھااے لوگوں  چنددنوں  بعدمیں  تم کوایسی بشارت سناؤں  گاجوتم کوبدرکاصدمہ بھلادے گی،اور صفوان بن امیہ مدینہ منورہ سےہرایک آنے والے سے عمیر  رضی اللہ عنہ  کاحال دریافت کرتایہاں  تک کہ جب اس کو عمیربن وہب کے اسلام قبول کرنے کی خبرہوئی توآگ بگولہ ہوگیااورقسم کھائی کہ میں زندگی بھرنہ توعمیرسے بات چیت کروں  گااورنہ ہی اسے کوئی نفع پہنچاؤں  گا،اس کے بعداس کی اورصفوان کی بات چیت بندہوگئی، جبعمیربن وہب  رضی اللہ عنہ  مکہ مکرمہ پہنچے توانہوں  نے دین اسلام کی تبلیغ شروع کردی اورانہوں نے اسلام دشمن لوگوں  کوخوب ستایا اور بہت سے لوگ ان کی وجہ سے مسلمان ہوئے۔[42]

فَلَمَّا كَانَ الغد قال عمر: غدوت الى النبی  وَهُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا یَبْكِیَانِ،قَالَ:قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْكِیكَ أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَیْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ تَبَاكَیْتُ لِبُكَائِكُمَا،فَقَالَ رَسُولُ الله  لِلَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِیبَةٍ

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مشورہ اورپھرقیدیوں  کی رہائی کے بعد سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے ( مگر یہ دیکھ کرحیران ہوئے)کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اور سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  بیٹھے ہوئے رورہے ہیں ، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ دونوں  کس بات پررورہے ہیں ؟اگرکوئی رونے کی بات ہے تومیں  بھی رونے لگوں  گااوراگرکوئی ایسی بات نہ ہوگی توبھی آپ دونوں  صاحبان کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی بنالوں  گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  اس واقعہ کی وجہ سے رورہاہوں  جوتمہارے ساتھیوں  سے فدیہ لینے کی وجہ پیش آیا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک درخت (جوآپ کے قریب ہی تھا)کی طرف اشارہ کرکے فرمایا میرے سامنے ان لوگوں  کاعذاب لایاگیا(جنہوں  نے فدیہ لے کرچھوڑنے کامشورہ دیا تھا ) وہ عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا۔[43]

مکہ معظمہ میں  شکست کی خبر

میدان جنگ سے جان بچاکرفرارہونے والے لوگوں  کامذمت سے سرجھکاہواتھااوروہ مکہ مکرمہ میں  شکست خودہ داخل ہونے سے پہلوتہی کررہے تھے

وَكَانَ أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ مَكَّةَ (بمصاب) قُرَیْش الجیسمان بْنُ عَبْدِ اللهِ الْخُزَاعِیُّ  فَقَالُوا: مَا وَرَاءَكَ؟قَالَ: قُتِلَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَأَبُو الْحَكَمِ بْنُ هِشَامٍ، وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَزَمَعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَنُبَیِّهٌ وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الْحَجَّاجِ، وَأَبُو الْبَخْتَرِیِّ بْنُ هِشَامٍ، فَلَمَّا جَعَلَ یُعَدِّدُ أَشْرَافَ قُرَیْشٍ،قَالَ: وَصَفْوَانُ بْنُ أُمَیّةَ فِی الْحِجْرِ جَالِسٌ  یَقُول: لَا یَعْقِلُ هَذَا شَیْئًا مِمّا یَتَكَلّمُ بِهِ، سَلُوهُ عَنّی  ! فَقَالُوا: صَفْوَانُ بْنُ أُمَیّةَ، لَك بِهِ عِلْمٌ؟فَقَالَ: هُوَ ذَاكَ جَالِسًا فِی الْحِجْرِ، وَقَدْ رَأَیْتُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ حِینَ قُتِلا

مگر کب تک باہررہ سکتے تھے آخرہمت کرکے سب سے پہلے مکہ میں  جنگ بدر سے جان بچاکر جیسمان بن عبداللہ خزاعی پہنچا ،،مشرکین مسلمانوں  کے خلاف ایک اچھی خبرکے بے چینی سے منتظرتھے اس لئے فوراً جیسمان خزاعی کو گھیرلیااوربڑی بیتابی سے پوچھابتلاؤکیاخبرلائے ہو؟اس نے کہاقتل ہوگئےعتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ،ابوالحکم بن ہشام (ابوجہل)امیہ بن خلف ،زمعہ بن الاسود،الحجاج کے بیٹے نبیہ اورمنبہ اورابوالبختری بن ہشام غرضیکہ تمام اشراف قریش کے نام لئے،صفوان بن امیہ اس وقت حجر اسود کے پاس مجلس میں  بیٹھاہواتھاتوقع کے برخلاف یہ مایوس کن خبر سنکر بولااس شخص کی بات کچھ سمجھ میں  نہیں  آئی شایدیہ شخص دیوانہ ہوگیاہے اس لئے ایسی بہکی بہکی باتیں  کررہا ہے ، پھر دوسرے لوگوں  کواشارہ کرکے کہنے لگا بطورامتحان کے اس سے دریافت توکروکہ صفوان بن امیہ اس وقت کہاں  ہے؟ جیسمان خزاعی نے کہاحجرکے سامنے مجلس میں  بیٹھاہواشخص ہی تو صفوان بن امیہ ہے،میں  نے اپنی آنکھوں  سے اس کے باپ اوربھائی کوقتل ہوتے ہوئے دیکھاہے۔[44]

وَقَدْ سَرَّنَا مَا جَاءَنَا مِنَ الْخَبَرِ، إِذْ أَقْبَلَ أَبُو لَهَبٍ یَجُرُّ رِجْلَیْهِ بِشَرٍّ، حَتَّى جَلَسَ عَلَى طُنُبِ الْحُجْرَةِ ، فَكَانَ ظَهْرُهُ إِلَى ظَهْرِی، فَبَیْنَا هُوَ جَالِسٌ إِذْ  قَدِمَ أَبُو سُفْیَانَ بن الحرث، فَقَالَ: أَبُو لَهَبٍ هَلُمَّ إِلَیَّ، فَعِنْدَكَ الْخَبَرُ  فَقَالَ: وَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ لَقِینَا القوم فمنحناهم أكتافنا یقتلوننا كیف شاءوا، ویأسرونا كَیْفَ شَاءُوا، وَایْمُ اللهِ مَعَ ذَلِكَ مَا لمت الناس، لقینا رجالا بِیضٌ عَلَى خَیْلٍ بُلْقٍ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، والله ماتَلِیقُ شَیْئًا وَلا یَقُومُ لَهَا شَیْءٌ

اتنے میں  ابولہب بھی بری طرح پاؤں  گھسیٹتاہواآیااورحجرہ کی ایک جانب میں  آکربیٹھ گیااوراس کی پشت میری پشت کی طرف تھی ،وہ بیٹھاہی ہواتھاکہ لوگ کہنے لگےلویہ ابوسفیان بن حرث بن عبدالمطلب(مغیرہ) آگئے،ابولہب نے ابوسفیان کوبلاکراپنے پاس بٹھلایااوربدرکاحال دریافت کیا،ابوسفیان نے کہااللہ کی قسم کوئی خبرنہیں  مگریہ کہ ایک قوم سے ہمارامقابلہ ہوااورہم نے اپنے مونڈھے ان کے حوالے کردیئے وہ جس طرح چاہتے تھے ہم پرہتھیارچلاتے تھے اورجس طرح چاہتے تھے ہمیں  اسیرکرتے تھے ، اورمیں  لوگوں  کو ملامت نہیں  کرتااللہ کی قسم سفیدابلق گھوڑوں  پرسوارجوآسمان وزمین کے درمیان معلق تھے ہمارے مقابل تھے اللہ کی قسم! وہ کسی چیزکوباقی نہیں  چھوڑتے تھے اور کوئی چیزان کے سامنے نہیں  ٹھیرتی تھی،

قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَرَفَعْتُ طُنُبَ الْحُجْرَةِ بِیَدَیَّ، ثُمَّ قُلْتُ: تِلْكَ وَاَللَّهِ الْمَلَائِكَةُ، قَالَ:فَرَفَعَ أَبُو لَهَبٍ یَدَهُ فَضَرَبَ بِهَا وَجْهِی ضَرْبَةً شَدِیدَة. قَالَ: وثاورته  فَاحْتَمَلَنِی فَضَرَبَ بِی الْأَرْضَ، ثُمَّ بَرَكَ عَلَیَّ یَضْرِبُنِی، وَكُنْتُ رَجُلًا ضَعِیفًا، فَقَامَتْ أُمُّ الْفَضْلِ إلَى عَمُودٍ مِنْ عُمُدِ الْحُجْرَةِ، فَأَخَذَتْهُ فَضَرَبَتْهُ بِهِ ضَرْبَة فلعت  فِی رَأْسِهِ شَجَّةً مُنْكَرَةً،وَقَالَتْ: اسْتَضْعَفَتْهُ أَنْ غَابَ عَنْهُ سَیِّدُهُ،فَقَامَ مولّیا ذلیلا، فو الله مَا عَاشَ إلَّا سَبْعَ لَیَالٍ حَتَّى رَمَاهُ اللهُ بِالْعَدَسَةِ فَقَتَلَتْهُ

ابورافع کہتے ہیں اپنے ہاتھوں  سے حجرہ کی جانت اٹھا کر میں  نے کہااللہ کی قسم!وہ فوج یقیناًفرشتوں  کی تھی،یہ سنتے ہی ابولہب نے مشتعل ہوکرمیرے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسیدکیاابورافع کہتے ہیں  میں  نے بھی اس کومارا،وہ مجھ سے چمٹ گیااورمجھے پچھاڑکرمارنے کے لئے میرے سینے پرچڑھ بیٹھااورمیں  کمزوربدن کا انسان تھا،ام فضل رضی اللہ عنہا  نے یہ دیکھتے ہی خیمے کاایک کھمبا اٹھاکرابولہب کے سرپراس زورسے مارا جس سے اس کاسرزخمی ہوگیااورکہاکہ اس کاآقا( عباس  رضی اللہ عنہ )موجودنہیں  ہیں  اس لئے تونے اس کوکمزورسمجھا ، ابولہب نے جویہ صورت دیکھی توسر جھکاکرچلاگیامگرابھی سات دن ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے طاعون کی قسم کی ایک بیماری میں  مبتلا کر دیا اوروہ اسی میں  مر گیا ۔[45]

أَنَّ الْعدسةَ قرحَةٌ كَانَتِ الْعَرَبُ تَتَشَاءَمُ بِهَا، وَیَرَوْنَ أَنَّهَا تَعْدِی أَشَدَّ الْعَدْوَى، فَلَمَّا أَصَابَتْ أَبَا لَهَبٍ تَبَاعَدَ عَنْهُ بَنُوهُ، وَبَقِیَ بَعْدَ مَوْتِهِ ثَلاثا لا تُقْرَبُ جِنَازَتُهُ وَلا یُحَاوَلُ دَفْنُهُ، فَلَمَّا خَافُوا السُّبَّةَ فِی تَرْكِهِ حَفَرُوا لَهُ ثُمَّ دَفَعُوهُ بِعُودٍ فِی حُفْرَتِهِ وَقَذَفُوهُ بِالْحِجَارَةِ مِنْ بَعِیدٍ حَتَّى وَارَوْهُ

طاعون کی اس بیماری کواہل عرب منحوس سمجھتے تھے اس لئے اس کے مرنے کے بعدتین دن تک قریش کے ایک بڑے سردارکی لاش بے گوروکفن گھرمیں  پڑی رہی ،اس پرنہ اس کی اولادروئی اورنہ ہی اس کے حمایتی بلکہ اس کی لاش سے دورہی رہے کہ کہیں  یہ بیماری انہیں  نہ لگ جائے، آخرلاش سڑنے اوربوپھیلنے لگی تواس کی اولادکومکہ کی عورتوں  کی ملامت سے خطرہ محسوس ہواتوانہوں  نے کچھ دورایک گڑھا کھودا اور دور سے ہی لکڑیوں  کی مدد سے لاش کودھکیلتے ہوئے اس گڑھے میں  ڈال دیااور اوپرسے مٹی اورپتھرڈال کر گڑھا برابرکردیااس طرح قریش کے اس خوبصورت،دولت مندسردارکو نہ غسل دیاگیااورنہ ہی کفن ہی نصیب ہوا۔[46]

اس کی سرداری جس سے اس کی گردن اکڑی ہوئی تھی اوروہ دولت جسے وہ گن گن کررکھتاتھا اس کے کچھ کام نہ آئی۔

فتح کے اسباب:

تین سوتیرہ پیدل آدمیوں  کاجوپوری طرح مسلح بھی نہ تھے ایک ہزارکی جمعیت پرجس میں ایک سومسلح سواربھی شامل تھےغلبہ پاناتائیدربانی کے سواکسی طرح ممکن نہ تھاتاہم اس کے کچھ ظاہری اسباب بھی تھے۔

۱۔مسلمانوں  کی قیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں  تھی جس پرمسلمانوں  کوپورابھروسہ تھاوہ جاں  نثاری کے جذبہ کے ساتھ میدان میں  آئے تھے اوران کواپنی فتح کایقین تھا۔

۲۔قریش میں  اتحادمفقودتھا،قائدلشکرعتبہ لڑائی کے خلاف تھامگرابوجہل نے اس کولڑنے کے لیے مجبورکیاتھا،میدان جنگ میں  کفارقریش ایک سپہ سلارکے ماتحت ہوکرنہیں  لڑتے تھے بلکہ ہرنامورسرداراپنے آپ کوسالارفوج سمجھتاتھا۔

۳۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں  کوپوری تنظیم کے ساتھ حرکت میں  لائے تھے جبکہ کفارمیں  نظلم وضبط موجودنہ تھا۔

۴۔لڑائی سے ایک روزپہلے رات کوبارش ہوگئی تھی ،چونکہ مسلمان اونچی جگہ پرتھے اس لئے وہ جگہ اوربہترہوگئی جبکہ کفارمکہ نشیب میں  تھے اس لئے ان کی قیام گاہ میں  کیچڑہوگئی اوران کے مسلح سواروں  کوچلنے پھرنے میں  دشواری ہوئی۔

۵۔لڑائی کے وقت سورج مسلمانوں  کی پشت پرتھااورکفارکے سامنے تھااس کے باعث ان کی آنکھیں  خیرہ ہوگئی تھیں ۔

۶۔کفارمکہ مسلمانوں  سے مرعوب ہوگئے تھے اوران کی تعدادان کودگنی نظٖرآتی تھی۔

۷۔شروع کے انفرادی مقابلہ میں  کفارمکہ کے تین مشہورسردارعتبہ،ولیداورشیبہ مارے گئے اس سے اس کے حوصلے پست ہوگئے تھے۔

۸۔مسلمان رات بھرآرام سے سوکرتازہ دم اٹھے تھے اس کے برعکس قریش بے اطمینانی کی وجہ سے پریشان رہے تھے۔

غزوہ بدرکے نتائج:

۱۔یہ معرکہ اسلام کی شوکت وہیبت اوردبدبہ کاسنگ بنیادبنا،اللہ تعالیٰ کے نزدیک غزوہ بدرکی اہمیت اتنی تھی کہ جن اشخاص نے اس میں  حصہ لیاتھاوہ قطعی طورپرجنتی قراردیئے گئے۔

۲۔ سورۂ  آل عمران کے پیش نظرغزوہ بدرسراسرمعجزہ تھی ،اس جنگ میں  اللہ تعالیٰ کی وہ پیشگوئیاں  پوری ہوئیں  جومسلمانوں  سے مکہ مکرمہ میں  کی گئی تھیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمادیاتھاکہ فلاں  کافرکی فلاں  قتل گاہ ہے ،میدان جنگ میں  یہ پیشگوئی درست ثابت ہوئی۔

۳۔فتح بدرنے اسلام کوفوقیت وبرتری بخشی اورباطل کومٹاکردنیابھرمیں  اشاعت دین کے دروازے کھول دیئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اب صرف واعظ نہ تھے بلکہ اسلام کی حفاظت کرنے والے سربکف مجاہدبھی تھے،غزوہ بدرمیں  تاجداررسل  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پروانوں  نے تاریخ کے صفحات پردینی غیرت اورقومی حمیت کے لازوال نقش ثبت کئے ،حق وصداقت کاغیرت افروزدرس دے گئے کہ دنیامیں  وہی قوم زندہ رہتی ہے جواللہ تعالیٰ کی راہ میں  دل کی خوشی سے خون کی زکوٰة اداکرسکے،اس جنگ سے سارے عرب پرموحدین کی دھاک بیٹھ گئی اور قبائل نے خوب جان لیاکہ مسلمان ترنوالہ نہیں  ہیں ۔

۴۔قریش کے بڑے بڑے سردارجہنم وصل ہوئے ،اس کے جہنم رسیدہونے سے جہاں  ایک طرف قریش کی قوت ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی وہاں  مسلمانوں  کوبہت تقویت حاصل ہوئی۔

۵۔مدینہ منورہ میں  اسلامی اقتدارکے پاؤں  جم گئے ،مدینہ کے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی بظاہراسلام قبول کرلیا۔

۶۔قریش کی معاشی حالت گرگئی ،مدینہ منورہ کی شاہراہ بندہوجانے سے شامی تجارت کاسلسلہ رک گیا۔

۷۔فتح بدرسے مسلمانوں  کے حوصلے بہت بڑھ گئے اورانہیں  تائیدایزدی کایقین ہوگیایہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بھی دشمن کی کثرت سے مرعوب نہ ہوئے۔

۸۔غزوہ بدرکی فتح کے نتیجہ میں  یہودی اورزیادہ حاسدہوگئے اوران کی سازشوں  کی وجہ سے ہروقت خدشہ رہنے لگا۔

۹۔غزوہ بدرکے بعدپہلی مرتبہ صلح وجنگ سے متعلق قوانین مرتب کرنے کی ضرورت پیش آئی اوراس طرح اسلام میں  بین الاقوامی قوانین کی بنیادپڑی۔

۱۰۔اس جنگ سے یہ ثابت ہوگیاکہ فتح وکامرانی کے لیے سازوسامان اورفوج کی تعدادہی ضروری نہیں  بلکہ اللہ کی راہ میں  عزم راسخ اوریقین محکم ہی اصل کامیابی ہے۔

مکہ مکرمہ میں  شکست کی خبر

جس وقت مکہ مکرمہ میں  قریش کی بدترین شکست اورہزیمت کی خبرپہنچی توایک تہلکہ مچ گیاقریش کوجب اپنے عزیزواقارب کے قتل کاحال معلوم ہواتوگھرگھرصف ماتم بچھ گئی ، ہرگھرسے انتقام کی آوازیں  اٹھنے لگیں ،جنگ بدرکے لئے عمروبن الحضرمی کابہانہ بناتھااب تقریبا ًسترسروں  کابدلہ لینے کامقصدوجودمیں  آگیا،بڑے بڑے سرداروں  کے مرجانے کے بعدجنگ کی قیادت ابوسفیان کے ہاتھ آئی جواسلام دشمنی میں  اپنے پیش روؤں  سے کسی طورکم نہ تھااس کے علاوہ یہ بنوعبدشمس سے تعلق رکھتے تھے اوریہ گھرانہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کاپراناحریف تھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجدہاشم اورابوسفیان کے بزرگ امیہ کے درمیان برتری کی جنگ شروع ہوگئی تھی جوعبدالمطلب کی عظیم شخصیت تک بنوامیہ کی ناکامی کی صورت میں  قائم رہی اوربنوعبدشمس ،بنوہاشم پربرتری حاصل نہ کرسکے ،عبدالمطلب کی وفات کے بعدبنوعبدمناف میں  کوئی اتنی بڑی شخصیت نہ تھی اس لئے برتری اوربزرگی کاتاج ابوسفیان کے والد حرب بن امیہ کے سرپررکھاگیا،اس خاندان کی اس فتح پرابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے یعنی خاندان کی خواہش عزوجاہ ابھی پوری نہ ہوئی تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کادعویٰ کردیا،بنوشمس کے اکثرافرادنے اس دعویٰ میں  اپنی سیاسی پسپائی کی جھلک دیکھی اوراسلام دشمنی ان میں  سے اکثرکادین وایمان قرارپائی،کچھ ایسے صالح اورنیک نہادبزرگ ان میں  بھی تھے جنہوں  نے اسلام کوگروہی سیاست سے بلندہوکردیکھااوراس کی عالمگیرسچائیوں  کوقبول کرنے میں  مطلقاًہچکچاہٹ محسوس نہیں  کی،سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ  کانام نامی اس فہرست کاطغراہے،لیکن مجموعی طورپراس خانوادے نے اسلام کواپنی گروہی سیاست کی عینک سے دیکھا اورمدتوں  تک اپنے آپ کواس سے محروم رکھا،ابوسفیان اسی ذاتی عداوت کومکہ کی عمومی عداوت میں  ضم کرکے مکہ کے سرداربنے اوران کاپہلافرض یہ قرارپایاکہ وہ مکہ کے سترافرادکابدلہ مدینے والوں  سے لیں ، لوگ ایک ماہ تک اپنے عزیزواقارب پر گریہ وزاری کرتے رہے ،بعدمیں  ابوسفیان نے رئیس جنگ کی حیثیت سے مقتولین پرماتم کرنے اورواویلاکرنے کوسرکاری طورپرمنع کردیا

لَا تَفْعَلُوا فَیَبْلُغُ مُحَمَّدًاوَأَصْحَابه، فیشتموا بِكُمْ، وَلَا تَبْعَثُوا فِی أَسْرَاكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنُوا بِهِمْ لَا یَأْرَبُ  عَلَیْكُمْ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ فِی الْفِدَاءِ

کوئی شخص مقتول ہونے والے پرگریہ وزاری نہ کرے چونکہ اگرتمہارے رنج والم اورگریہ وزاری کی یہ خبرمحمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کوپہنچے گی تووہ خوش ہوں  گی اورنہ ہی کوئی اپنے قیدی کوچھڑانے کے لئے فدیہ اداکرے کہیں  محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم ) فدیہ کی مقدارکوبڑھانہ دیں ۔[47]

فَكَانَ أَبُو سُفْیَانَ نَذَرَأَنْ لَا یَمَسَّ رَأْسَهُ مَاءٌ مِنْ جَنَابَةٍحَتَّى یَغْزُوَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اپنے اس حکم کوموثربنانے اوراہل مکہ کے جذبات کوآہ وبکاسے ہٹا کر انتقام پرمرکوزکردینے کے لئے ابوسفیان نے اہالیان مکہ کے سامنے قسم کھائی جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ نہ کرکے اپنے بدلے نہ لے گا اس وقت تک سرمیں  تیل نہیں  ڈالے گااورنہ غسل جنابت کرے گا۔[48]

ظاہرہے اس قسم کی وجہ سے ابوسفیان مکہ کے معاشرتی حلقوں  میں  مکی انتقام کے سمبل کی حیثیت اختیارکرگئے ہوں  گے ،اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کیاگیاکہ مکہ کے تجارتی قافلوں  کاتمام منافع مصارف جنگ کے لئے وقف کردیاجائے ،مکہ کوبدرمیں  یہ تجربہ ہوگیاتھاکہ مدینہ کی ریاست ایک ہزارکے لشکرپربھاری ہے اس لئے لشکر کی تعداد اوراس کے سازوسامان میں  اضافہ ضروری ہے اوراس کے لئے وسیع ترذرائع کی تلاش ناگزیرتھی

قَالَ: وَكَانَ الْأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ قَدْ أُصِیبَ لَهُ ثَلَاثَةٌ مِنْ وَلَدِهِ، زَمَعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَعَقِیلُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَالْحَارِثُ بْنُ زَمَعَةَ، وَكَانَ یُحِبُّ أَنْ یَبْكِیَ عَلَى بَنِیهِ، فَبَیْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إذْ سَمِعَ نَائِحَةً مِنْ اللیْلِ، فَقَالَ لِغُلَامِ لَهُ:وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ: اُنْظُرْ هَلْ أُحِلَّ النَّحْبُ، هَلْ بَكَتْ قُرَیْشٌ عَلَى قَتْلَاهَا؟لَعَلِّی أَبْكِی عَلَى أَبِی حَكِیمَةَ، یَعْنِی زَمَعَةَ فَإِنَّ جَوْفِی قَدْ احْتَرَقَ.قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ إلَیْهِ الْغُلَامُ قَالَ: إنَّمَا هِیَ امْرَأَةٌ تَبْكِی عَلَى بَعِیرٍ لَهَا أَضَلَّتْهُ،قَالَ: فَذَاكَ حِینَ یَقُولُ الْأَسْوَدُ

اس جنگ میں  اسودبن عبدالمطلب (جونابیناتھا)کے تین جوان بیٹے بھی قتل ہوئے تھے،اس کا دل ان کے رنج والم میں  پھٹاجاتاتھالیکن قریش نے ان پرآہ وزاری پرپابندی لگادی تھی،ایک رات وہ لیٹاہواتھاکہ اسے دورسے کسی عورت کے رونے کی آوازسنائی دی، اس نے اپنے غلام کوپتہ کرنے کے لئے اس طرف بھیجاکہ شایدقریش نے مقتولین کے ورثاکورونے کی اجازت دے دی ہواوروہ بھی اپنے بیٹے ابوحکیمہ پرروکر دل کابوجھ ہلکاکرسکے،مگراس کی توقع کے برعکس غلام نے آکرخبردی کہ قریش نے ایسی کوئی اجازت نہیں  دی اور وہ عورت تواپنے گمشدہ اونٹ پررورہی تھی،اس خبرپراسودبن عبدالمطلب چپ نہ رہ سکااوربے اختیارکہنے لگا۔

أَتَبْكِی أَنْ یَضِلَّ لَهَا بَعِیرٌ ، وَیَمْنَعُهَا مِنْ النَّوْمِ السُّهُودُ

کیاوہ اس بات پرروتی ہے کہ اس کااونٹ گم ہوگیاہے،اوراس پربے خوابی نے اس کی نیندحرام کررکھی ہے

فَلَا تَبْكِی عَلَى بَكْرٍ وَلَكِنْ، عَلَى بَدْرٍ تَقَاصَرَتْ الْجُدُودُ

تواونٹ پرنہ روبلکہ ،بدرپرروجہاں  قسمتیں  پھوٹ گئیں

عَلَى بَدْرٍ سَرَاةِ بَنِی هُصَیْصٍ ،وَمَخْزُومٍ وَرَهْطِ أَبِی الْوَلِیدِ

بدرپرروجہاں  ہصیص،بنی مخزوم اورابوالولیدکے قبیلے کے سربرآوردہ آفرادہیں

وَبَكِّی إنْ بَكَّیْتِ عَلَى عَقِیلٍ،وَبَكِّی حَارِثًا أَسَدَ الْأُسُودِ

اگرروناہی ہے توعقیل پررو، اورحارث پرروجوشیروں  کاشیرتھا

وَبَكِّیهِمْ وَلَا تَسَمِی جَمِیعًا ، وَمَا لِأَبِی حَكِیمَةَ مِنْ نَدِیدِ

توان لوگوں  پررواورسب کانام نہ لے،اورابوحکیمہ کاتوکوئی ہمسرہی نہ تھا

أَلَا قَدْ سَادَ بَعْدَهُمْ رِجَالٌ ، وَلَوْلَا یَوْمُ بَدْرٍ لَمْ یَسُودُوا

ان کے بعدایسے ایسے لوگ سردارہوں  گے ،کہ اگربدرکادن نہ ہوتاتووہ سردارنہ ہوسکتے تھے۔[49]

وَانْسَلَّ مِنْ اللیْلِ فَقَدِمَ الْمَدِینَةَ، فَأَخَذَ أَبَاهُ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ، فَانْطَلَقَ بِهِ،ثُمَّ بَعَثَتْ قُرَیْشٌ فِی فِدَاءِ الْأُسَارَى

لیکن قریش کے اس اعلان کے باوجودمطلب بن ابی وواعہ اپنے والدکو چھڑانے کے لئے چار ہزاردرہم لیکرقریش سے چھپ کرمدینہ منورہ روانہ ہوگیااوراپنے والدابووواعہ کافدیہ دے کرچھڑالایا،اس کے بعداورلوگوں  نے بھی فدیہ بھیج بھیج کراپنے قیدیوں  کو چھڑانا شروع کردیا۔[50]

ماہ شوال اورذی قعدہ میں  آپ مدینہ منورہ میں  مقیم رہے اوراس عرصہ میں  اسیران بدرفدیہ لے کررہاکئے گئے۔

منافقین کاقبول اسلام:

جب منافقین نے غزوہ بدرمیں  کفارکے چوبیس نامورسرداروں  کے قتل،سترقیدیوں اورآلات حرب سے لیس طاقتوارلشکرکی بدترین اورذلت آمیز شکست ، اوربے سروساماں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اوراصحاب رسول کوفتح منددیکھاتومدینہ اورنواح میں ہرطرف مسلمانوں  کارعب چھاگیا

قَالَ ابْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ المُشْرِكِینَ وَعَبَدَةِ الأَوْثَانِ: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ، فَبَایَعُوا الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلاَمِ فَأَسْلَمُوا

عبداللہ بن ابی(رئیس المنافقین) اوراس کے گروہ کے دوسرے لوگوں  نے جن میں  تین سومرداورسترعورتیں  تھیں  آپس میں  مشورہ کیاکہ چونکہ اب اسلام غالب ہوگیاہے اورہمارااس طرح علیحدہ رہنا ہمارے لئے خطرناک ہوسکتاہے لہذاعافیت اسی میں  ہے کہ ہم بھی مسلمانوں  میں  شامل ہوجائیں  ،یہ مشورہ کرکے وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورآپ کے ہاتھ پر (بظاہر)مسلمان ہونے کی بیعت کرلی۔[51]

[1] ابن ہشام۶۴۵؍۱،الروض الانف ۱۱۸؍۵،تاریخ طبری ۴۶۰؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۶۶؍۴،تاریخ الخمیس۳۸۷؍۱،السیرة النبویة والدعوة فی العهد المدنی۲۸۱؍۱

[2] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الكِسْوَةِ لِلْأُسَارَى۳۰۰۸

[3] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الكِسْوَةِ لِلْأُسَارَى۳۰۰۸

[4] ابن ہشام ۶۴۵؍۱،الروض الانف ۱۱۸؍۵،عیون الآثر۳۰۹؍۱،تاریخ طبری۴۶۰؍۲،البدایة والنہایة۳۷۳؍۳

[5] البدایة والنہایة ۳۶۲؍۳،تاریخ طبری ۴۷۶؍۲، السنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۴۴، تفسیرالقرطبی۵۲؍۸ ،تفسیرابن کثیر۷۷؍۴

[6] البدایة والنہایة۳۶۲؍۳،تاریخ طبری ۴۷۶؍۲، تفسیر القرطبی ۵۱۶؍۲

[7] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا مَنَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الأُسَارَى مِنْ غَیْرِ أَنْ یُخَمِّسَ عن جبیر ۳۱۳۹،السنن الصغیرللبیہقی ۲۸۱۹

[8] ابن سعد۱۶؍۲

[9] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی فِدَاءِ الْأَسِیرِ بِالْمَالِ۲۶۹۱

[10] ابن سعد۱۶؍۲

[11] ابن سعد۱۶؍۲، عہدنبوی کے میدان جنگ ۲۴

[12] السنن الکبری للبیہقی۱۲۸۴۰

[13] السنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۴۱

[14] ابن ہشام ۱۰۴؍۲

[15] صحیح بخاری  كِتَاب العِتْقِ بَابُ إِذَا أُسِرَ أَخُو الرَّجُلِ، أَوْ عَمُّهُ، هَلْ یُفَادَى إِذَا كَانَ مُشْرِكًا عن انس ۲۵۳۷

[16] تفسیر القرطبی۵۲؍۸،البدایة والنہایة ۳۶۵؍۳،تاریخ طبری۴۶۱؍۲،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۸۴۹

[17] الانفال ۷۰

[18] تفسیرابن کثیر۸۸؍۴

[19] ابن سعد ۳۴؍۴،تاریخ طبری۵۰۲؍۱۱

[20] ابن سعد۳۴؍۴

[21] مستدرک حاکم۵۰۷۴

[22] مستدرک حاکم۵۰۷۳

[23] دلائل النبوة للبیہقی ۳۶۷؍۶

[24]مغازی واقدی ۱۰۷؍۱،ابن ہشام ۶۴۹؍۱

[25] ابن سعد ۹۷؍۴

[26] ابن ہشام۶۵۰؍۱،تاریخ طبری۴۶۶؍۲

[27] السنن الكبرى للنسائی۹۵۰۳

[28] اسد الغابة ۱۱۸؍۴،الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۹؍۴

[29] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ إِذَا حَمَلَ جَارِیَةً صَغِیرَةً عَلَى عُنُقِهِ فِی الصَّلاَةِ ۵۱۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ جَوَازِ حَمْلَ الصِّبْیَانِ فِی الصَّلَاةِ۱۲۱۲،سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ الْعَمَلِ فِی الصَّلَاةِ۹۱۷،صحیح ابن حبان۱۱۰۹

[30] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۳۹۱،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۰؍۷،الإصابة فی تمییز الصحابة۲۵؍۸

[31] اسدالغابة۱۸۲؍۶

[32] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۳۹۲

[33]نسب قریش۲۲؍۱

[34] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۲۱۷؍۹

[35] اسدالغابة۱۱۴؍۷

[36] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۸؍۶

[37] تاریخ طبری۶۶۷؍۲ ، ابن ہشام۶۵۱؍۱،البدایة والنهایة ۳۷۹؍۳

[38] تاریخ طبری ۶۶۷؍۲، ابن ہشام۶۵۳؍۱،البدایة والنھایة ۳۱۲؍۳

[39] دلائل النبوة للبیہقی۱۵۶؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۱۸؍۴، البدایة والنہایة۴۰۰؍۳، مستدرک   حاکم ۲۸۱۲،۶۸۳۶،السیرة النبویة لابن کثیر۵۱۸؍۲

[40] معرفة الصحابة لابی نعیم۷۳۴۸،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۲۱۳؍۹

[41] صحیح بخاری كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ فِی المَهْرِ عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ

[42] ابن ہشام۶۶۳؍۱،تاریخ طبری۴۷۲تا۴۷۴،البدایة والنھایة۳۱۳؍۳

[43] تاریخ طبری۴۷۴؍۲

[44] ابن ہشام۶۴۶؍۱،مغازی واقدی ۱۱۹؍۱،عیون الآثر ۳۱۰؍۱،تاریخ طبری ۴۶۱؍۲،البدایة والنہایة۳۷۵؍۳

[45] ابن ہشام ۶۴۷؍۱،الروض الانف۱۲۰؍۵،عیون الآثر ۳۱۲؍۱، البدایة والنہایة۳۷۶؍۳، ابن سعد۵۵؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۲۰؍۲

[46] عیون الآثر۳۱۲؍۱،شرح زرقانی علی المواھب ۳۴۱؍۲

[47] ابن ہشام ۶۴۸؍۱،مغازی واقدی ۱۲۳؍۱،الروض الانف ۱۲۲؍۵،عیون الآثر۳۱۲؍۱، البدایة والنہایة۳۷۷؍۳

[48] ابن ہشام ۴۴؍۲،الروض الانف۳۸۹؍۵،عیون الآثر۳۴۵؍۱، البدایة والنہایة ۴۱۶؍۳

[49] ابن ہشام۶۴۸؍۱،الروض الانف ۱۲۲؍۵،عیون الآثر ۳۱۲؍۱، البدایة والنہایة۳۷۷؍۳،تاریخ طبری ۴۶۴؍۲

[50] ابن ہشام ۶۴۸؍۱،الروض الانف ۱۲۴؍۵،تاریخ طبری ۴۶۵؍۲،البدایة والنہایة۳۷۷؍۳

[51] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ آل عمران بَابُ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا عن اسامہ ۴۵۶۶، وکتاب الاداب بَابُ كُنْیَةِ المُشْرِكِ عن اسامہ ۶۲۰۷

Related Articles