ہجرت نبوی کا دوسرا سال

کیامردے سنتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجیدمیں  کہیں  نہیں  فرمایاکہ مردے سنتے ہیں اوراللہ کے برگزیدہ بندے قبروں  میں  دفن ہونے کے بعد بندوں  کی فریادسنتے اورحاجات پوری کرتے ہیں ،یہ سراسرباطل اورکافرانہ ومشرکانہ خیال ہے جس کی شرعاکوئی اصل نہیں  ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی ہمیں  اس کی کوئی تعلیم نہیں  دی اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی اس عقیدے کے حامل نہیں  تھے مگردین سے لاعلمی کے باعث ایک کثیرخلقت یہ عقیدہ رکھتے ہیں  کہ اللہ کے برگزیدہ بندے قبروں  میں  سنتے ہیں  اور پکارنےوالے کی پکارسن کر اس کی داررسی بھی کرتے ہیں ۔

چنانچہ بریلوی عوام کے امام مولوی احمدرضاخاں  لکھتے ہیں  بعدمرنے کے سمع اورادراک عام لوگوں  کایہاں  تک کہ کفار کا زائد ہو جاتا ہے ۔[1]

جبکہ دیوبندی عالم سرفرازخاں  لکھتے ہیں  لیکن ادراک وشعوروسماع میں  مردے اورزندہ برابرہیں ۔[2]

یعنی بریلوی اوردویوبندی دونوں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں  کہ مردے قبروں  میں  سننے ہیں  مگریہ عقیدہ سراسرقرآنی عقیدے کے خلاف ہے ۔

xجولوگ اس قسم کاعقیدہ رکھتے ہیں وہ اپنے حق میں  حدیث قلیب بدر کوپیش کرتے ہیں کہ اگرمردے نہیں  سن سکتے توپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشرکین کے مقتولین کوکنوئیں  میں  ڈال کر انہیں  اللہ کے عذاب کاوعدہ کیوں  یاددلایا،حالانکہ مقتولین بدرکوسناناوقتی طورپرخصوصیات رسالت میں  سے تھااس پردوسرے مردوں  کوقیاس نہیں  کیاجاسکتا،اس لئے تمام اصحاب رسول اس واقعہ کوخصوصیات رسالت ہی تسلیم کرتے تھے اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جن کی توحید اوراطاعت رسول بے مثل تھی وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق قبروں  میں  مردوں  کے سننے کے قائل نہیں  تھےجس میں  کئی مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مخاطب کرکے فرمایاگیا

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۸۰ [3]

ترجمہ:تم مردوں  کونہیں  سناسکتے ،نہ بہروں  تک اپنی پکارپہنچاسکتے ہو جو پیٹھ پھیرکربھاگے جا رہے ہوں  ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۲۲ [4]

ترجمہ:زندہ اورمردے برابرنہیں  ہو سکتے ،اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے مگر(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)تم ان لوگوں  کونہیں  سناسکتے جوقبروں  میں  مدفون ہیں ۔

ایک مقام پرفرمایا

فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۵۲ [5]

ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)تم مردوں  کونہیں  سکتے ،نہ ان بہروں  کواپنی پکارسناسکتے ہوجوپیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہوں ۔

دوسری دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْمَیِّتَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ إِنَّهُ یَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک میت ان دفن کرنے والوں  کے جوتوں  کی آوازسنتی ہے جب وہ واپس پلٹتے ہیں ۔[6]

اس روایت میں  بھی یہ نہیں  کہاگیاکہ مردے قبرپرموجود اصحاب کی گفتگو سنتے ہیں  یا انہیں  گفتگو سنائی جاتی ہے،یامرنے والاآنے والوں  کی آہٹ سنتاہے بلکہ خاص اوراستثنائی صورت میں  فرمایا گیا کہ جب دفن کرنے والے پلٹتے ہیں  تب (وقتی طورپر) ان کے جوتوں  کی آوازسنتے ہیں تاکہ مرنے والے کومعلوم ہوجائے کہ دنیاسے اس کارابطہ منقطع ہو چکاہے اورجن اہل و عیال ، عزیزو اقارب اوررفیقوں  کی محبت میں  توحلال وحرام ، جائزوناجائز کام کرتارہا،جن کے لئے مال ودولت جمع کرتا رہااورجن جتھوں  کی طاقت پر تمہیں  فخروغرورتھاوہ تجھے اس اندھیری کوٹھری میں  بے یارومددگار چھوڑکرواپس جا رہے ہیں ، اب تواکیلاہی منکرنکیر کے سوالات کے جوابات دے گا۔

یہ لوگ قبرستان میں  جاکردعا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْمَقَابِرِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَكُمْ لَاحِقُونَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قبرستان تشریف لے گئے وہاں  پہنچ کر قبرستان والوں  کو سلام کرتے ہوئے فرمایا اے جماعت مومنین کے مکینو ! تم پر سلام ہو انشاء اللہ ہم بھی تم سے آکر ملنے والے ہیں ۔[7]

کہنے والی روایات سے بھی بڑے شدومدسے استدلال کرتے ہیں  حالانکہ یہ محض خطاب ہے جس سے مردوں  کاسنناثابت نہیں  ہوتاکیونکہ محض خطاب سے کسی کاسنناثابت نہیں  ہوتا،جیساکہ جب ابراہیم  علیہ السلام  اپنی قوم کے بتوں  کوتوڑنے کے لئے ان کے مندرمیں  گھس گئے توانہوں  نے بتوں  کومخاطب ہو کر کہا

فَرَاغَ اِلٰٓى اٰلِـهَــتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ۝۹۱ۚمَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ۝۹۲  [8]

ترجمہ:ان کے پیچھے وہ چپکے سے ان کے معبودوں  کے مندرمیں  گھس گیااوربولاآپ لوگ کھاتے کیوں  نہیں  ہیں  ؟کیاہوگیاآپ لوگ بولتے بھی نہیں ؟ ۔

کیاکوئی مسلمان یہ نظریہ رکھتاہے کہ بت کھاتے یاسنتے ہیں ۔

عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ:إِنِّی أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّی رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ

خلیفہ دوم سیدناعمر  رضی اللہ عنہ    حجراسودکے پاس پہنچے اوراسے بوسہ دیااورفرمایامجھے علم ہے کہ توایک پتھرہے ،تونہ نفع دے سکتاہے اورنہ نقصان اگرمیں  نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوتیرابوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھاہوتاتوہرگزبوسہ نہ لیتا۔ [9]

کیاکوئی مسلمان یہ عقیدہ رکھتاہے کہ حجراسودسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کاخطاب سن رہاتھا۔

اسی طرح چانددیکھنے کی دعاہے

اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالْإِیمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّی وَرَبُّكَ اللهُ

اے اللہ اس کو ہم پرامن وایمان اورسلامتی واسلام کے ساتھ نکال،اے چاند!میرااورتیرارب اللہ ہے۔[10]

کیا کوئی مسلمان یہ کہہ سکتاہے کہ چاندہماری دعاکوسنتاہے۔

دراصل قبرستان میں  جاکر سلام کہناسلام تحیتہ نہیں سلام دعاہےاوردعامیں  کسی کاسنناضروری نہیں ،اسی طرح ایک روایت ہے

قَالَتْ عَائِشَةُ:  إِنَّ رَبَّكَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِیَ أَهْلَ الْبَقِیعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ،قَالَتْ: قُلْتُ: كَیْفَ أَقُولُ لَهُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ قُولِی:السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ، وَیَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہارارب تمہیں  حکم دیتاہے کہ تم جاکراہل بقیع کے لئے بخشش کی دعاکرو،عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  !میں  کس طرح دعاکروں ؟ فرمایاجاکرکہنا  اے مومنوں  اورمسلمانوں  کے گھروالو!جوہم سے پہلے جاچکے ہیں  اورجوبعد میں  جانے والے ہیں  سب پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اورہم بھی ان شاءاللہ تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں ۔[11]

الغرض یہ سلام بطوردعاہے اس سے یہ ثابت نہیں  ہوتاکہ قبر میں  مردے سنتے ہیں ،

علامہ طحاوی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں  ’’السلام علیکم اے قبروں  والو! ۔‘‘میں دراصل میت کوخطاب نہیں  ہوتاکیونکہ میت توخطاب کی اہل ہی نہیں ،آگے فرماتے ہیں  اس سے مقصوددعاہوتی ہے نہ کہ خطاب۔[12]

ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے

 عَن النَّبِی مَا من رجل یمر بِقَبْر أَخِیه الْمُؤمن كَانَ یعرفهُ فَیسلم عَلَیْهِ إِلَّا عرفه ورد عَلَیْهِ السَّلَام

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص بھی اپنے مومن بھائی کی قبرکے پاس سے گزرتاہے جس کووہ دنیامیں  پہچانتاتھاجب بھی وہ اسے سلام کہتاہے تووہ اس کوپہچان لیتاہے اوراس کے سلام کاجواب دیتاہے۔ [13]

الجامع الصغیرمیں  یہ روایت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے واسطے سے ہے ،اس سلسلے میں  شیخ البانی کہتے ہیں ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  والی روایت کی سندمیں  عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم متروک راوی ہے ،دوسری سندجواس کی متابعت میں  پیش کی جاتی ہے اس میں  تین عیب ہیں  ،یہ موقوف ہے ،اس میں  انقطاع ہے کیونکہ زیدبن اسلم کاابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے سماع ثابت نہیں ،اس کی سندمیں  محمدبن قدامہ الجوہری ضعیف راوی ہے ،اس روایت کاشاہدعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کے حوالے سے بیان کیاجاتاہے جسے حافظ عبدالبرنے شرح المؤطامیں  بیان کیاہے اس کی سندمیں  حافظ ابن عبدالبرکاشیخ اوراستادعبداللہ عبیدبن محمداورانہوں  املاکروانے والی فاطمہ بنت الریان المخروی المستملی کومیں  نہیں  جانتا،میرے خیال میں  ربیع بن سلمان سے بیان کرنے میں  یہ خاتون متفردہی نہیں  بلکہ شاذہیں  کیونکہ ربیع بن سلمان کا دوسرا شاگرد ابوالعاص الاصم جوکہ حافظ اورثقہ ہے اس روایت کو ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مسندبتاتاہے ، امام عقیلی رحمہ اللہ  نے ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی اس حدیث کی تخریج کی ہے

قَالَ أَبُو رزین یَا رَسُول الله إِن طریقی على الْمَوْتَى فَهَل من كَلَام أَتكَلّم بِهِ إِذا مَرَرْت عَلَیْهِم قَالَ قل السَّلَام عَلَیْكُم یَا أهل الْقُبُور من الْمُسلمین وَالْمُؤمنِینَ أَنْتُم لنا سلف وَنحن لكم تبع وَإِنَّا إِن شَاءَ الله بكم لاحقون ،قَالَ أَبُو رزین یَا رَسُول الله یسمعُونَ قَالَ یسمعُونَ وَلَكِن لَا یستطیون أَن یجیبوا، قَالَ یَا أَبَا رزین أَلا ترْضى أَن یرد عَلَیْك بعددهم من الْمَلَائِكَة

ابورزین  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! میراراستہ مردوں  کے پاس سے گزرتاہے پس کیامیں  ان کے پاس سے گزرتے ہوئی کوئی کلام کیا کروں ؟ فرمایاتم یہ کہوسلام ہوتم پراے اہل قبور!جومسلمان اورمومن ہو ،تم ہمارے پیش روہواورہم تمہارے تابع ہیں  اورہم بھی ان شاءاللہ تم سے ملنے والے ہیں ، ابورزین نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  !کیاوہ سنتے ہیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  سنتے ہیں  مگروہ جواب دینے کی طاقت نہیں  رکھتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابورزین !کیاتم اس بات پرراضی نہیں  کہ جتنے مردوں  کوسلام کہواتنی ہی تعدادمیں  فرشتے تمہیں  جواب دیں ۔[14]

محمد بن أشعث عن أبی سلمة لا یعرف وعنه منجم بن بشیر،قال العقیلی حدیثه غیر محفوظ

سرفرازخاں  کہتے ہیں بعض حضرات نے اس پراعتراض کیاہے کہ اس کی سندمیں  راوی محمد بن اشعث مجہول ہے ،امام عقیلی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  کہ اس کی حدیث محفوظ نہیں  ہے [15]

بجاہے مگردیگرصحیح روایات اورامت کاتعامل اس سے استدلال کامویدہے۔[16]

شیخ البانی  رحمہ اللہ  اس روایت کونقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں

منكر.أخرجه العقیلی فی الضعفاء ،محمد بن الأشعث مجهول،والنجم بن بشیر أورده ابن أبی حاتم ولم یذكر فیه جرحا ولا تعدیلا

یہ منکرہے عقیلی نے اس روایت کو ضعفاءمیں  شمارکیاہےکیونکہ محمدبن اشعث مجہول ہے،  اورنجم بن بشیرکاتذکرہ ابن ابی حاتم نے کیاہے لیکن اس کے متعلق جرح وتعدیل کچھ بھی بیان نہیں  کیا۔[17]

xاس کے بارے ان کی ایک دلیل یہ ہے

ابْنِ مَسْعُودٍ مَرْفُوعًا لَا یَزَالُ الْمَیِّتُ یَسْمَعُ الْأَذَانَ مَا لَمْ یُطَیَّنْ قَبْرُهُ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیت اس وقت تک اذان سنتی رہتی ہے جب تک اس کی قبرکولیپ نہ دیا جائے۔[18]

وَإِسْنَادُهُ بَاطِلٌ فَإِنَّهُ مِنْ رِوَایَةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ الطَّایَكَانِیِّ وَقَدْ رَمَوْهُ بِالْوَضْعِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس کی سندصحیح نہیں ، اس کی سندمیں  ایک راوی محمدبن القاسم طایکانی ہے جس پرحدیث گھڑنے کی تہمت ہے۔[19]

هَذَا حَدِیثٌ مَوْضُوعٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهِ محن.أما الْحَسَن فَإِنَّهُ لَمْ یسمع من ابْن مَسْعُود،وَأَمَّا كثیر بْن شنظیر فَقَالَ یَحْیَى: لَیْسَ بشئ،وَأَمَّا أَبُو مقَاتل فَقَالَ ابْن مهدى: وَالله مَا تحل الرِّوَایَة عَنْهُ، غَیْر أَن الْمُتَّهم بِوَضْع هَذَا الْحَدِیث مُحَمَّد بْن الْقَاسِم فَإِنَّهُ كَانَ علما فِی الْكَذَّابین الوضاعین، قَالَ أَبُو عَبْد اللهِ الْحَاكِم: كَانَ یضع الحَدِیث

امام ابن جوزی رحمہ اللہ  اس روایت کونقل کرکے لکھتے ہیں یہ روایت موضوع ہے اس کی سندمیں  حسن کاعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے سماع ثابت نہیں ، نیزکثیربن شنظیرکے متعلق یحییٰ کاقول ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں ،ابومقاتل کے بارے میں  ابن مہدی فرماتے ہیں  کہ اس سے روایت لیناحلال نہیں ،اورمحمدبن قاسم پراس حدیث کوگھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے کیونکہ اسے جھوٹوں  اورمن گھڑت باتیں  بنانے والوں  میں  ایک نشانی سمجھاجاتاتھا، ابوعبداللہ حاکم فرماتے ہیں  کہ یہ حدیث گھڑاکرتاتھا۔.[20]

حدیثیں  گھڑنے والے راویوں  کے علاوہ یہ روایت خودسماع موتیٰ کے خلاف ہے کیونکہ اس سے تویہ ثابت ہوتاہے کہ اگرقبرپرلیپائی کردی جائے تومیت کا سننا ختم ہوجاتاہے۔

xاللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوتعلیم فرمائی ہے

 اِنَّ اللهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۝۰ۭ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا۝۵۶ [21]

ترجمہ:اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پردرودبھیجتے ہیں  ،اے لوگوجوایمان لائے ہوتم بھی ان پردرودوسلام بھیجو ۔

چنانچہ فرمان الٰہی کے مطابق کثرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   پر درود و سلام پڑھنا چاہیے ،

وَعَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَلَّى عَلَیَّ ، وَمَنْ صَلَّى عَلَیَّ نَائِیًا أَبْلَغْتُهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص میری قبرکے پاس مجھ پرسلام پڑھے تومیں  اس سلام کوسن لیتاہوں اور جو مجھ پر دور سے درود بھیجے تو وہ مجھے کرا دیا جاتا ہے۔[22]

مگریہ موضوع روایت ہے ،اس روایت کاراوی محمدبن مروان السدی کذاب اوروضاع ہے ،جس کاکام ہی جھوٹی حدیثیں  گھڑناتھا ۔

لا یكتب عنه بحال. ومحمد بن مروان السدی متروك الحدیث، متهم بالكذب،

امام ازدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کسی حال میں  اس کی حدیثیں  نہیں  لکھی جائیں  گی اور محمد بن مروان السدی متروک الحدیث اور جھوٹ سے ساتھ بھی متہم ہے ۔

وقال ابن حبان:لا یجوز الاحتجاج به بحال

امام ابن حبان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کسی حال میں  بھی اس کی احادیث قابل احتجاج نہیں  ۔

وقال العقیلی: لا أصل له من حدیث الأعمش، ولیس بمحفوظ

امام عقیلی  رحمہ اللہ فرماتےہیں اعمش سے ان کی احادیث کی کوئی اصل نہیں  اور ان کی احادیث محفوظ ومصون بھی نہیں ۔

روى الخطیب بإسناده عن عبد الله بن قتیبة قال:سألت ابن نمیر عن هذا الحدیث؟ فقال: دع ذا، محمد بن مروان لیس بشیء.

خطیب بغدادی رحمہ اللہ  اس روایت کواپنی سندسے عبداللہ بن قتیبہ سے بیان کرتے ہیں  کہ انہوں  نے ابن نمیرسے اس روایت کے متعلق پوچھاتوانہوں  نے جواب دیااس روایت کوچھوڑو(اس کے راوی) محمدبن مروان کی کوئی حیثیت نہیں ۔

وقال شیخ الإسلام ابن تیمیة حدیث موضوع

ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کہتے ہیں  یہ حدیث بالاجماع من گھڑت ہے۔

موضوع

شیخ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں   یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے۔[23]

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ  اپنی کتاب الموضوعات میں  بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں

الحَدِیث. فِیهِ: مُحَمَّد بن مَرْوَان السّدیّ – كَذَّاب

اس حدیث میں  محمدبن مروان السدی ہے جوکذاب ہے۔[24]

عَن أبی الدَّرْدَاء قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْثرُوا الصَّلَاة عَلیّ یَوْم الْجُمُعَة فَإِنَّهُ یَوْم مشهود تشهده الْمَلَائِكَة وَإِن أحدا لَا یُصَلِّی عَلیّ إِلَّا عرضت عَلیّ صلَاته حَتَّى یفرغ مِنْهَا  ،قَالَ قلت وَبعد الْمَوْت؟قَالَ إِن الله حرم على الأَرْض أَن تَأْكُل أجساد  الْأَنْبِیَاء فنبی الله حَیّ یرْزق

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجمعہ والے دن مجھ پرکثرت سے درودپڑھاکرویہ ایسادن ہے جس میں  فرشتے حاضرہوتے ہیں ،کوئی آدمی بھی جہاں  کہیں  بھی ہوجومجھ پر درودپڑھتاہے مجھ تک اس کی آوازپہنچ جاتی ہے، ہم نے کہاآپ کی وفات کے بعدبھی؟فرمایامیری وفات کے بعدبھی،بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپرانبیاء کے جسموں  کوکھاناحرام کردیاہے پس اللہ کے انبیاء اپنی قبروں  میں  زندہ ہیں  اور انہیں  رزق مہیا کیا جاتاہے۔[25]

لیکن یہ روایت صحیح نہیں  ہے ،

وقال العراقی إن إسناده لا یصح

امام عراقی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  بلاشبہ اس کی سندصحیح نہیں ۔[26]

اسنادی لحاظ سے یہ روایت دووجوہ کی بناپردرست نہیں ،

۱۔سعیدبن ابی مریم اورخالدبن یزیدکے درمیان انقطاع ہے ،یعنی سعیدبن ابی مریم نے یہ حدیث خالدسے نہیں  سنی کیونکہ خالدبن یزید۱۳۹ہجری میں  فوت ہوئے اورسعیدبن ابی مریم ان کے پانچ سال بعدپیداہوالہذایہ روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔

۲۔پھرسعیدبن ابی ہلال اورابودردواء  رضی اللہ عنہ  کے درمیان بھی انقطاع ہے،سعیدبن ابی ہلال سترہجری میں  مصرمیں  پیداہوئے جبکہ ابودرداء  رضی اللہ عنہ  سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے دورخلافت کے آخرمیں  فوت ہوچکے تھے لہذا سترہجری میں  پیداہونے والے آدمی کی ابودرداء  رضی اللہ عنہ  سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے وہ توان کی پیدائش سے پہلے ہی رحلت فرماچکے تھے،

 سعید بن أبی هلال اللیثی المصری عن جابر رضی الله عنه وهو مرسل

امام صلاح الدین العلائی  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں سعیدبن ابی ہلال کی روایت جابر  رضی اللہ عنہ  سے مرسل ہے۔[27]

اورجابر  رضی اللہ عنہ  سے ان کی روایت مرسل ہے توجابر  رضی اللہ عنہ  سے پہلے وفات پانے والے ابو درداء  رضی اللہ عنہ  سے ان کی روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے لہذایہ ضعیف روایت ہے ۔

الغرض یہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں  کہ قبرپریا جہاں  کہیں  بھی کوئی درودوسلام پڑھتاہے اس کی آوازآپ صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچ جاتی ہے یاآپ براہ راست اسے سنتے ہیں  بلکہ یہ بیان کیاگیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچایاجاتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی اختلافی مسئلہ کے حل کے لئے قیامت تک کے لئے تمام بنی آدم کی ہدایت ورہنمائی والی کتاب قرآن مجیدمیں  فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧ [28]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہواطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں  کی جوتم میں  صاحب امرہوں ،پھراگرتمہارے درمیان کسی معاملہ میں  نزاع ہوجائے تواسے اللہ اوررسول کی طرف پھیردواگرواقعی اللہ اورروزآخر پر ایمان رکھتے ہویہی ایک صحیح طریق کارہے اورانجام کے اعتبارسے بھی بہتر ہے ۔

ایک مقام پرفرمایا

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳۱ [29]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! لوگوں  سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں  اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں  سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کے ردمیں  کئی آیات نازل فرمائیں

۔۔۔ وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۝۱۳ۭاِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۴ۧ [30]

ترجمہ:اسے چھوڑ کرجن دوسروں  کوتم پکارتے ہووہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں  ہیں  ،انہیں  پکارو تو وہ تمہاری دعائیں  سن نہیں  سکتے اورسن لیں  تواس کاتمہیں  کوئی جواب نہیں  دے سکتے اور قیامت کے روزتمہارے شرک کا انکار کردیں  گے۔

اس آیت کے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ یہ توبتوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ہے قبرمیں  مدفون بزرگوں  کے بارے میں  نہیں ،مگریہ کسی روایت میں  نہیں  لکھا ہوا کہ اللہ تعالیٰ روزقیامت بتوں  کو زندہ کرکے انہیں  زبان عطافرمائے گا اوروہ اپنی پرستش کرنے والوں  کاانکارکریں  گے ،حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں  انبیاء صالحین ،  فرشتوں  اور کئی طرح کی مخلوقات کی عبادت کی جاتی ہے اس لئے وہی اپنے عبادت کرنے والوں  کاانکاراوراپنی لاعلمی کااظہارکریں  گے ۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸ فَكَفٰى بِاللهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹ [31]

ترجمہ:جس روزہم ان سب کوایک ساتھ (اپنی عدالت میں )اکٹھاکریں  گے ،پھران لوگوں  سے جنہوں  نے شرک کیاہے کہیں  گے کہ ٹھیرجاؤتم بھی اورتمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ،پھرہم ان کے درمیان سے اجنبیت کاپردہ ہٹادیں  گے اوران کے شریک کہیں  گے تم ہمارے عبادت تونہیں  کرتے تھے ہمارے اورتمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ(تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو)ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبرتھے ۔

یعنی مشرکین کوان کے معبود اورمشرکین اپنے معبودوں  کوخوب پہچان لیں  گے،لیکن قبروں  میں  مدفون انسان چاہے کتناہی نیک وعبادت گزارہومرنے کے بعداس کانامہ اعمال بند کر دیا جاتاہے اور دنیا سے اس کا رابطہ مکمل طورپر منقطع ہوجاتاہے،اس لئے اندھی عقیدت میں کون اس کی عبادت کر رہاہے،رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے کون نذرونیاز پیش کررہا ہے ، کون جانورذبح اورکون دیگیں  چڑھارہاہے،کون دھوم دھام سے عرس منارہاہے اس سے بالکل بے خبرہوتاہے اس لئے روزقیامت وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی عبادت کرنے والوں  کا انکار اور اپنی لاعلمی کااظہارکردیں  گے۔

  وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [32]

ترجمہ: آخر اس شخص سے زیادہ بہکاہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں  اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں  گے۔

یعنی جن مدفون بزرگوں  کوپکاراجارہاہے وہ اللہ کے ہاں  اس عالم میں  ہیں  کہ کوئی آوازبراہ راست ان تک نہیں  پہنچتی اورنہ ہی کوئی فرشتہ اس تک آوازپہنچاتاہے،اس طرح وہ مکمل طورپراس پکارسے بے خبرہیں  اوراگر انہیں  خبرہوبھی جائے تواس کا جواب دینے کی قدرت نہیں  رکھتے اورجب قیامت کے روز سب انسان جمع کیے جائیں  گے تووہ بزرگ جن کی عبادت کی جارہی ہے ان کی عبادت کے منکر اور دشمن ہوجائیں  گے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۹۴اَلَهُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِهَآ۝۰ۡاَمْ لَهُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِهَآ۝۰ۡاَمْ لَهُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِهَآ۝۰ۡاَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۭ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ۝۱۹۵ [33]

ترجمہ:تم لوگ اللہ کو چھوڑکرجنہیں  پکارتے ہووہ تومحض بندے ہیں  جیسے تم بندے ہو،ان سے دعائیں  مانگ دیکھویہ تمہاری دعاؤں  کا جواب دیں  اگران کے بارے میں  تمہارے خیالات صحیح ہیں ،کیایہ پاؤں  رکھتے ہیں  کہ ان سے چلیں ؟کیایہ ہاتھ رکھتے ہیں  کہ ان سے پکڑیں ؟کیایہ آنکھیں  رکھتے ہیں  کہ ان سے دیکھیں ؟کیایہ کان رکھتے ہیں  کہ ان سے سنیں ؟اے نبی !ان سے کہوکہ بلالواپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں  کوپھرتم سب مل کرمیرے خلاف تدبیریں  کرواورمجھے ہرگزمہلت نہ دو۔

یعنی جن انسانوں  کومرنے کے بعدپکاراجاتاہے اس کی قبرکوکوئی بھی شکل دے دی جائے خواہ نوح   علیہ السلام کی قوم کی طرح بتوں  میں  ڈھال لیں ،یاڈھیری کی شکل دے دیں  وہ نہ چل سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں اورنہ ہی جواب دے سکتے ہیں ۔

ایک مقام پرفرمایا

وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ۝۱۹۷وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْا۔۔۔۝۰۝۱۹۸ [34]

ترجمہ:تم جنہیں  اللہ کوچھوڑکرپکارتے ہووہ نہ تمہاری مددکرسکتے ہیں  اورنہ خوداپنی مدد کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں  سیدھی راہ پر آنے کے لئے کہوتووہ تمہاری بات سن بھی نہیں  سکتے۔

یعنی جونہ سن سکتاہواوراپنی مددتک نہ کرسکتاہووہ تمہاری مشکل کشائی کیاکرے گا ۔

 اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ۝۰ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۝۵۷ [35]

ترجمہ:جن کویہ لوگ پکارتے ہیں  وہ تو خوداپنے رب کے حضورر سائی حاصل کرنے کاوسیلہ تلاش کررہے ہیں  کہ کون اس سے قریب ترہوجائے اوروہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کاعذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔

کیااس آیت میں  واضح بات بیان نہیں  کی گئی کہ جن کومشکل کشائی کے لئے پکاراجارہاہے وہ محض مٹی پتھر کے بت نہیں  بلکہ گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ مدفون انسان ہیں ۔

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭاَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ [36]

ترجمہ: اور وہ دوسری ہستیاں  جنہیں  اللہ کوچھوڑکرلوگ پکارتے ہیں  وہ کسی چیزکی بھی خالق نہیں  ہیں  بلکہ خودمخلوق ہیں ،مردہ ہیں  نہ کہ زندہ اوران کوکچھ معلوم نہیں  ہے کہ انہیں  کب (دوبارہ زندہ کرکے)اٹھایاجائے گا۔

کیایہ الفاظ صاف طورپرنہیں  بتلارہے کہ جن کو پکارا جا رہا ہے وہ وفات یافتہ انسان ہیں اورکسی چیزکے مالک نہیں  ہیں ،اورجوکسی چیزکامالک ہی نہ ہوتووہ عطاکیاکرے گا،اللہ نے انہیں  مردہ کہاہے اورکیامردے مشکل کشائی کرتے ہیں ،ان مدفون مردوں  کوتوخودنہیں  معلوم کہ اللہ تعالیٰ انہیں  کب دوبارہ زندہ فرمائے گا۔

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَبِبَالِغِهٖ۝۰ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۝۱۴  [37]

ترجمہ:اسی کوپکارنابرحق ہے ،رہیں  وہ دوسری ہستیاں  جنہیں  اس کوچھوڑکریہ لوگ پکارتے ہیں  وہ ان کی دعاؤں  کاکوئی جواب نہیں  دے سکتے ،انہیں  پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلاکراس سے درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جا،حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والانہیں ،بس اسی طرح کافروں  کی دعائیں  بھی کچھ نہیں  ہیں  مگر ایک تیربے ہدف۔

یعنی جاجت روائی ومشکل کشائی کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں  ہیں  اوراسی سے ہی دعائیں  مانگناحق ہے ،دوسری کوئی ہستی کچھ بھی نہیں  کرسکتی ،ایک مقام پر فرمایا

اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۲۲ۙمِنْ دُوْنِ اللهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِیْمِ۝۲۳ [38]

ترجمہ:(حکم ہوگا)گھیرلاؤسب ظالموں  اوران کے ساتھیوں  اوران معبودوں  کوجن کی وہ اللہ کوچھوڑکربندگی کیاکرتے تھے پھران سب کوجہنم کاراستہ دکھاؤ۔

اوراللہ تعالیٰ نے شرک کی تمام قسمیں  یعنی شرک احتیاز(اللہ کے علاوہ غیراللہ کوبھی کسی چیزکاتنہامالک سمجھنا)شرک شیاع(حصہ داری کاشرک)شرک اعانت(مددکرنے میں  اللہ کاشریک بنانا)اورشرک شفاعت(سفارش میں  اللہ کاشریک ٹھیرانا)ان چاروں  کی نفی کرتے ہوئے فرمایا

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۚ لَا یَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِیْرٍ۝۲۲وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ۔۔۔۝۰۝۲۳  [39]

ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے)کہوکہ پکاردیکھواپنے ان معبودوں  کوجنھیں  تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو،وہ نہ آسمانوں  میں  ذرہ برابرچیزکے مالک ہیں  نہ زمین میں ،وہ آسمان وزمین کی ملکیت میں  شریک بھی نہیں  ہیں ،ان میں  سے کوئی اللہ کامددگاربھی نہیں  ہے اوراللہ کے حضورکوئی شفاعت بھی کسی کے لئے نافع نہیں  ہوسکتی بجز اس شخص کے جس کے لئے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

ایک جگہ معبودان باطلہ کی بے بسی وبے کسی یوں  بیان فرمائی

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [40]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑکرایسے معبودبنالیے جوکسی چیز کو پیدانہیں  کرتے بلکہ خودپیداکیے جاتے ہیں ،جوخوداپنے لئے بھی نفع یانقصان کااختیارنہیں  رکھتے ،جونہ مارسکتے ہیں  نہ جلاسکتے ہیں نہ مرے ہوئے کوپھراٹھاسکتے ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ یُنْشِرُوْنَ۝۲۱ [41]

ترجمہ:کیاان لوگوں  کے بنائے ہوئے ارضی الٰہ ایسے ہیں  کہ(بے جان کوجان بخش کر) اٹھا کھڑا کرتے ہیں ۔

ہروہ شخص جس نے پسندکیاکہ اللہ کے بجائے اس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں  کے ساتھ ہوگاجنہوں  نے اس کی بندگی کی،چنانچہ فرمایا

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ۝۰ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ۝۹۸لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَاۗءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۹۹  [42]

ترجمہ: بیشک تم اورتمہارے وہ معبودجنہیں  تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہوجہنم کاایندھن ہیں وہیں  تم کوجاناہے ،اگریہ واقعہ الٰہ ہوتے تووہاں  نہ جاتے اب سب کوہمیشہ اسی میں  رہناہے۔

اوریہ بات بھی غورطلب ہے کہ جن مدفون برگوں  کی اندھی عقیدت میں عبادت کی جاتی ہے،انہیں  صاحب تصرف جان کر اللہ کے بجائے پکارکو سننے والا،مشکلات کودورکرنے والا،حاجتوں  کوپوری کرنے والا،بگڑے کام سنوارنے والا، رزق اوراولاددینے والاسمجھاجاتاہے ،یعنی شرک فی الدعاء کرتے ہیں مگرپہلے تو ہمیں  یہ علم ہوناچاہے کہ مرنے کے بعداللہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا کیونکہ مرنے کے بعدقبرمیں کسی کاکیاحشرہوتاہے یہ کسی کومعلوم نہیں  ہے،عثمان بن مظعون جوسابقون اولون میں  شمارہوتے ہیں ، جنہوں  نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے دوباراپناگھربارچھوڑکرحبشہ اورپھرتیسری بار مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہجرت گناہوں  کومٹادیتی ہے ،جنہوں  نے مسجدنبوی کی تعمیرمیں  حصہ لیا، جو حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدرمیں  شامل ہوئےاوراس معرکے میں  شامل صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔۔۔  ۝۱۱۹  [43]

ترجمہ:وہ مجھ سے راضی ہوگئے اورمیں  ان سے راضی ہوگیا۔

قَالَ:مِنْ أَفْضَلِ المُسْلِمِینَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا

ایک روایت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاغزوہ بدرمیں  شریک ہونے والے مجاہدین تمام مسلمانوں  سے افضل ہیں ۔[44]

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ  لَكُمُ الجَنَّةُ ، أَوْ: فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں اے اہل بدرتم جوچاہو کروتمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ، یایہ فرمایامیں  نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔[45]

مِنْ حَدِیثِ جَابِرٍ مَرْفُوعًا لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاجوشخص غزوہ بدرمیں  حاضرہواوہ ہرگزجہنم میں  نہ جائے گا۔[46]

مگر جب عثمان  رضی اللہ عنہ  بن مظعون فوت ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں  تشریف لائے۔

فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللهِ عَلَیْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِی عَلَیْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : وَمَا یُدْرِیكِ أَنَّ اللهَ أَكْرَمَهُ؟ فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ، فَمَنْ یُكْرِمُهُ اللهُ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا هُوَ فَوَاللهِ لَقَدْ جَاءَهُ الیَقِینُ، وَاللهِ إِنِّی لَأَرْجُو لَهُ الخَیْرَ، وَوَاللهِ مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللهِ مَاذَا یُفْعَلُ بِی،فَقَالَتْ: وَاللهِ لاَ أُزَكِّی بَعْدَهُ أَحَدًا أَبَدًا

تو ابوالہیثم بن تیہان انصاری  رضی اللہ عنہ  کی اہلیہ ام اعلاء انصاریہ  رضی اللہ عنہا  نے کہا ابو سائب تم پر اللہ کی رحمت ہوتمہارے متعلق میری گواہی ہے کہ اللہ نے تمہیں  عزت بخشی ہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہیں  کیسے معلوم ہواکہ اللہ نے انہیں  عزت بخشی ہے؟ام علاء نے کہامیرے ماں  باپ آپ پرقربان ہوں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! اگریہ عزت والے نہ ہوں  گے تو پھر اللہ کسے عزت دے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جہاں  تک ان کا تعلق ہے تو یقینی چیز(موت)ان پرآچکی ہے اوراللہ کی قسم میں  بھی ان کے لئے بھلائی کی امیدرکھتاہوں  اور اللہ کی قسم !میں  رسول اللہ ہونے کے باوجود حتمی طور پرنہیں  جانتاکہ میرے ساتھ کیاکیاجائے گا،ام علاء  رضی اللہ عنہا نے عرض کیااللہ کی قسم اب میں  کسی کی برات بیان نہیں  کروں  گی۔[47]

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ حِینَ مَاتَ، فَانْكَبَّ عَلَیْهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَكَأَنَّهُمْ رَأَوْا أَثَرَ الْبُكَاءِ فِی عَیْنِهِ،ثُمَّ حَنَى عَلَیْهِ الثَّالِثَةَ، أَذْهِبْ علیك  أَبَا السَّائِبِ، فقد حرجت مِنْهَا وَلَمْ تَلَبَّسْ مِنْهَا بِشَیْءٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں  جب عثمان بن مظعون کی وفات ہوگئی تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اوران کے سرکے پاس کھڑے ہوگئے ،رنج وغم کے آثارآپ کے چہرے پرنمایاں  تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میت کی پیشانی پرتین باربوسہ دیااور گلوگیرہوکرفرمایا ابوالسائب میں  تم سے جداہوتاہوں  تم دنیاسے اس طرح رخصت ہوئے کہ تمہارادامن ذرہ برابراس سے آلودہ نہ ہونے پایا۔[48]

توبعد کے بزرگان دین چاہئے انہوں  نے کتنے ہی نیک اعمال کیے ہوں ،دین کی اشاعت کے لئے بہت زیادہ کام کیاہومگروہ سب مل کربھی صحابی رسول کادرجہ تونہیں  پاسکتے ،جب اتنی فضیلت والے صحابی رسول کی برات نہیں  کی جاسکتی تودوسرے لوگوں  کی برات کیسے کہی جاسکتی ہے؟دوسری بات یہ کہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایت کے مطابق منکرنکیرکے سوالات اورصالح انسانوں  کے صحیح جوابات کے بعدفرشتے ان کوجنت کالباس پہناکر،جنت کا بستر بچھاکراورجنت کانظارہ کراکرقیامت تک کے لئے سلادیتے ہیں اب وہ روزقیامت ہی بیدار کیے جائیں  گے ،

سرفرازعلی خاں  لکھتے ہیں  کہ نیندکی حالت میں  ادراک و شعور ایک گونہ معطل ہوجاتاہے اورانسان بے بس اوربے اختیارہوتاہے۔[49]

چنانچہ جب اللہ نے ان صالح انسانوں  کوخوب گہری ،پرسکون نیندسلادیااوران کی روحوں  کوعلین میں  پہنچادیاتو پھر وہ پکارنے والوں  کی پکارکیسے سن سکتے اور کیامشکل کشائی کر سکتے ہیں ؟ مگر علم سے بے بہرہ عوام نے یہودکی طرح ابن الوقت علماء کے مسلسل پروپیگنڈے سے متاثرہوکر ان قبروں  والوں  کو جن کااس دنیاسے ربطہ منقطع ہوچکاہے ،ان کے جسم وروح میں  جدائی ہوگئی ہے ،جن کے اعضانے کام کرناچھوڑدیاہے بے شمار خدائی صفات کاحامل گرداناشروع کردیا اور اللہ کوچھوڑکران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نذرونیاز چڑھانے، منتیں  ماننا،اپنی حاجات ومشکلات میں  انہیں  پکارنااورسجدے کرنا شروع کردیا ۔

حق وصداقت کے راستے پرچلنے والے راسخ عقیدہ علماء کرام نے لوگوں  کو اس شرک سے روکنے کی بھرپورکوشش کی مگربعض لوگ یہ کہہ کرایک طرف ہوگئے کہ چلوتم ادھرہواچلے جدھر کی یعنی ہم تووہ کرتے ہیں  جو اکثریت کرتی ہے۔قبرمیں  جب منکرنکیرسوال کریں  گے اوروہ صحیح جواب نہیں  دے سکے گا تو وہ یہی جواب دے گا۔

قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ، فَقُلْتُ مِثْلَهُ، لاَ أَدْرِی،

میں  نے لوگوں  کوایک بات کہتے ہوئے سناتھاتومیں  نے بھی وہی بات کہہ دی (مزید)مجھے کچھ علم نہیں ۔[50]

حالانکہ اللہ کے ہاں  حق وباطل کامعیار اکثریت نہیں  دلائل وبراہین ہوتے ہیں  ،اوراللہ کے ہاں  توتقویٰ کی قدروقیمت  ہے چاہے وہ چند لوگ ہی کیوں  نہ ہوں ،اوراہل حق ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں جیسے فرمایا

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۱۱۶ [51]

ترجمہ: اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرتم ان لوگوں  کی اکثریت کے کہنے پر چلوجو زمین میں  بستے ہیں  تووہ تمہیں  اللہ کے راستہ سے بھٹکادیں  گے ،وہ تومحض گمان پر چلتے اورقیاس آرائیاں  کرتے ہیں  ، درحقیقت تمہارا رب زیادہ بہترجانتاہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹاہواہے اورکون سیدھی راہ پرہے ۔

بعض لوگوں  نے مشرک قوموں  کے قول کی طرح یہ کہاکہ ہم تووہ کرتے ہیں  جوہمارے بزرگ صدیوں  سے گرتے چلے آ رہے ہیں اور کیا ہمارے بزرگ بہکے ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یَهْتَدُوْنَ۝۱۰۴   [52]

ترجمہ:اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ آؤاس قانون کی طرف جواللہ نے نازل کیاہے اورآؤپیغمبرکی طرف تووہ جواب دیتے ہیں  کہ ہمارے لئے توبس وہی طریقہ کافی ہے جس پرہم نے اپنے باپ داداکوپایاہے ،کیایہ باپ دادا ہی کی تقلیدکیے جائیں  گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں  اورصحیح راستہ کی انہیں  خبرہی نہ ہو۔

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یَهْتَدُوْنَ۝۱۷۰ [53]

ترجمہ:اُن سے جب کہاجاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں  ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں  کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں  کی پیروی کیے جائیں  گے؟۔

مشرکین مکہ کی عورتیں  اور مردجب ننگے  ہوکربیت اللہ کا طواف کرتے تھے تووہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کواسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے۔

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللهُ اَمَرَنَا بِهَا۔۔۔۝۰۝۲۸  [54]

ترجمہ:یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں  تو کہتے ہیں  ہم نے اپنے باپ داداکواسی طریقہ پرپایاہے اوراللہ ہی نے ہمیں  ایسا کرنے کاحکم دیاہے ۔

وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ۝۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ [55]

ترجمہ:اِسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں  بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا اس کے کھاتے پیتے لوگوں  نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقشّ قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُكُمْ۔۔۔۝۰۝۴۳ [56]

ترجمہ:اِن لوگوں  کو جب ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتی ہیں  تو یہ کہتے ہیں  کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں  سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ۔

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ۝۲۱ [57]

ترجمہ:اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں  کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ،کیا یہ انہی کی پیروی کریں  گے خواہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں  نہ بلاتا رہا ہو۔

بعض لوگ جونمازپڑھتے ہیں  اوررکوع سے سراٹھاتے ہوئے کہتے ہیں

 سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ

اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی ۔

یعنی ہم نے رکوع میں  اللہ کی جوحمدوثنابیان کی اوراس کی بارگاہ میں جو دعائیں  کی ہیں  وہ اللہ وحدہ لاشریک نے سن لیں مگراپنی تکالیف اورپریشانیوں  میں اللہ کے بارے میں  بدگمانی کرتے ہوئےکہتے ہیں  کہ ہم توبہت گنہگارہیں  اللہ کی بارگاہ بہت اونچی ہے،وہ ہماری پکار اور دعاؤں  کو نہیں  سنتا اوریہ اللہ کے مقرب بندے ہیں اللہ ان کی سنتا ہے اس لئے ہم ان کو اپنی مشکلات وپریشانیوں  میں  انہیں  پکارتے ہیں  تاکہ یہ ہماری بات اللہ تک پہنچا دیں  ،کیاایسے عقیدے کے حامل انسان کے ایمان کےبارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ،ایسے عقیدے کے حامل تومشرکین بھی تھے، قرآن مجیدنے مشرکین کے قول نقل کیے ہیں

 ۔۔۔وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللهِ زُلْفٰى۔۔۔۝۰ ۝۳  [58]

ترجمہ: وہ لوگ جنہوں  نے اس کے سوادوسرے سرپرست بنارکھے ہیں  (اوراپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں  کہ)ہم توان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں  کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں  ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۸  [59]

ترجمہ: یہ لوگ اللہ کے سواان کی پرستش کررہے ہیں  جوان کونہ نقصان پہنچاسکتے ہیں  نہ نفع،اورکہتے یہ ہیں  کہ یہ اللہ کے ہاں  ہمارے سفارشی ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً۝۰ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ۝۰ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۸ [60]

ترجمہ: پھر کیوں  نہ ان ہستیوں  نے ان کی مددکی جنہیں  اللہ کوچھوڑکرانہوں  نے تقرب الی اللہ کاذریعہ سمجھتے ہوئے معبودبنالیاتھا؟بلکہ وہ توان سے کھوئے گئے اوریہ تھاان کے جھوٹ اوران بناوٹی عقیدوں  کاانجام جوانہوں  نے گھڑ رکھے تھے ۔

حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اپنی دعاؤں  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کووسیلہ نہیں  بناتے تھے کہ اے اللہ اپنے نبی کے واسطے،اپنے حبیب کے واسطے ہمارایہ کام کر دے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچاعباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب کوآگے بڑھاتے تھے ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ:اللهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا،

عبداللہ بن انس  رضی اللہ عنہ ، انس  رضی اللہ عنہ  بن مالک سے روایت کرتے ہیں جب لوگ قحط میں  مبتلاہوتے توسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  بن الخطاب ،عباس  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوصلوٰة الاستسقاء کے لئے آگے بڑھاتے اورعرض کرتے اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کودعاکے لئے آگے بڑھاتے تھے پس تو ہمیں  سیراب کردیتاتھااب ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا کو تیری بارگاہ میں  دعاکے لئے آگے بڑھا رہے ہیں ہمیں  سیراب کردے ۔[61]

وَأَمَّا الْعَبَّاسُ  رَضِیَ اللهُ عَنْهُ  فَإِنَّهُ قَالَ: اللهُمَّ إنَّهُ لَمْ یَنْزِلْ بَلَاءٌ مِنْ السَّمَاءِ إلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ یَنْكَشِفْ إلَّا بِتَوْبَةٍ، وَقَدْ تَوَجَّهَتْ بِی الْقَوْمُ إلَیْك لِمَكَانِی مِنْ نَبِیِّك، وَهَذِهِ أَیْدِینَا إلَیْك بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِینَا إلَیْك بِالتَّوْبَةِ فَاسْقِنَا الْغَیْثَ فَأَرَخَّتْ السَّمَاءُ مِثْلَ الْجِبَالِ حَتَّى أَخْصَبَتْ الْأَرْضُ  أَخْرَجَهُ الزُّبَیْرُ بْنُ بَكَّارٍ فِی الْأَنْسَابِ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ اورعباس  رضی اللہ عنہ  دونوں  منبرپرتشریف لے گئے جب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ یہ دعاپوری کرچکے توعباس  رضی اللہ عنہ  نے بارگاہ رب العزت میں  عرض کیا الٰہی:مصیبت اوربلائیں  گناہوں  کے سبب سے نازل ہوتی ہیں  اوروہ توبہ کے بغیردورنہیں  ہوتیں  اب لوگوں  نے تیرے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تعلق رکھنے اورآپ کاقریبی ہونے کی وجہ سے مجھے تیری جناب میں  متوجہ کیاہے یہ ہمارے ہاتھ تیرے حضوراٹھے ہوئے ہیں  ،گناہوں  سے لبریزہیں  ،ہم تیری جناب میں  توبہ کے ذریعے سے فریادرسی کے طلبگارہیں ،تیرے حضورسرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں  اورپیشانیاں  تیرے آگے جھکی ہوئی ہیں  لہذاہمیں  بارش سے سیراب فرمادے پس پھرکیاتھاکہ پہاڑوں  کی مانندبادل اٹھے اورآسمان پرچھاگئے ،خوب بارش برسی،زمین سرسبزوشاداب ہوکرلہلہانے لگی اورلوگوں  میں  زندگی آگئی ،اس واقعے کوزبیربن بکارنے اپنی کتاب الانساب میں  ذکرکیاہے۔[62]

بعض لوگوں  نے اس سے یہ استدلال کیاہے کہ کسی کی ذات کاوسیلہ پکڑناجائزہے کیونکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے بھی عباس  رضی اللہ عنہ کوطلب بارش کے لیے وسیلہ بنایااوراس کے توسل سے بارش کے لیے دعامانگی حالانکہ یہ استدلال سراسرلغواورمردودہے اس لیے کہ یہ لوگ زندہ ومردہ اورحاضروغائب کی ذات بلکہ ان کے ناموں  کابھی وسیلہ پکڑتے ہیں  جبکہ اس حدیث سے توصرف زندہ انسانوں  کی دعاکووسیلہ بناناثابت ہوتاہے ،ان کے ناموں  کووسیلہ بناناثابت نہیں  ہوتا،اگران حضرات کی طرح کی شخصیت کاوسیلہ اورتوسل پکڑنا جائز ہوتا تو پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدبھی جائزہوتاکیونکہ آپ کی ذات اقدس جس طرح حالت زندگی میں  محترم اورعزت والی تھی اسی طرح وفات کے بعدبھی محترم اورعزت والی ہے ،جس طرح یہ لوگ فوت شدگان اولیاءکی ذات کووسیلہ بناتے ہیں  اس طرح سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات کو وسیلہ بناتے حالانکہ اس طرح نہیں  ہواہے ،مزیدیہ کہ اگرشخصیت کاوسیلہ جائزہوتاتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ اپنے گھربیٹھ کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  یاعباس  رضی اللہ عنہ  کی شخصیت کووسیلہ پکڑتے اورعباس  رضی اللہ عنہ  کو ساتھ لے کرکھلی جگہ جاکراستسقاکی شکل وصورت اختیارنہ کرتے ،لہذاثابت ہواکہ سیدناعمرنے عباس  رضی اللہ عنہ  کی دعا کو وسیلہ وذریعہ بنایاتھا،قرآن وسنت میں  صرف تین قسم کاوسیلہ جائزہے۔

اللہ تعالیٰ کے اسماوصفات کوواسطہ اور وسیلہ بناناجس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلِلهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۔۔۔  ۝۱۸۰ [63]

ترجمہ:اللہ اچھے ناموں  کا مستحق ہے اس کو اچھے ہی ناموں  سے پکارو ۔

جیسے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے یہ دعاپڑھنی مروی ہے

اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِی

اے اللہ! میں  تجھ سے باوسیلہ تیری رحمت کے جس نے تمام چیزوں  کوگھیررکھاہے اپنے کل گناہوں  کی معافی طلب کرتا ہوں ۔[64]

اپنے نیک اعمال کوواسطہ بناناجس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں  کی دعاقرآن کریم میں  ذکرفرمائی

۔۔۔  رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۶ۚ  [65]

ترجمہ:مالک ! ہم ایمان لائے ہماری خطاؤں  سے در گزر فرما اور ہمیں  آتشِ دوزخ سے بچا لے ۔

اسی طرح غارمیں  بندہونے والے تین نیک آدمیوں  کاواقعہ ہے۔[66]

زندہ نیک وصالح آدمی کی دعاکوواسطہ اوروسیلہ بناناجس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاکے ذریعے سے بارش طلب کی جاتی تھی ،ان کے علاوہ کسی قسم کاوسیلہ اورواسطہ جائزنہیں  ۔

اور اللہ تعالیٰ نے واضح طور فرمایاہے کہ میرے بندے کہیں  مجھے دورسمجھ کرپریشان نہ ہوجانامیں  ہروقت تیرے ساتھ ہوں  وہ ہروقت اپنے بندوں  کی پکارکوبغیرکسی واسطے اور وسیلے کے براہ راست سنتا اورپکارنے والے کی پریشانی ومشکلات کودورکرتاہے

 وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ۝۰ۭ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶ [67]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! میرے بندے اگرتم سے میرے متعلق پوچھیں  توانہیں  بتادوکہ میں  ان سے قریب ہی ہوں  ، پکارنے والا جب مجھے پکارتاہے ،میں  اس کی(براہ راست) پکارسنتااورجواب دیتاہوں  ، لہذا انہیں  چاہیے کہ میری دعوت پرلبیک کہیں  اورمجھ پرایمان لائیں  ، (یہ بات تم انہیں  سنادو) شاید کہ وہ راہ راست پا لیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۝۶۰ۧ [68]

ترجمہ: تمہارارب کہتاہے مجھے پکارومیں  تمہاری دعائیں  قبول کروں  گا،جولوگ گھمنڈمیں  آکرمیری عبادت سے منہ موڑتے ہیں  ضروروہ ذلیل وخوارہوکرجہنم میں  داخل ہوں  گے ۔

ایک مقام پرفرمایا

وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی۝۷ [69]

ترجمہ:تم چاہے اپنی بات پکارکر کہووہ توچپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تربات بھی جانتاہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶ [70]

ترجمہ:ہم نے انسان کوپیداکیاہے اوراس کے دل میں  ابھرنے والے وسوسوں  تک کوہم جانتے ہیں  ،ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝۸۳ۙوَاَنْتُمْ حِیْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۝۸۴ۙوَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۝۸۵ [71]

ترجمہ:اب اگرتم کسی کے محکوم نہیں  ہواوراپنے اس خیال میں  سچے ہوتوجب مرنے والے کی جان حق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اورتم آنکھوں  دیکھ رہے ہوتے ہوکہ وہ مررہاہے ، اس وقت اس کی نکلتی جان کوواپس کیوں  نہیں  لے آتے؟اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں  مگرتم کونظرنہیں  آتے۔

چنانچہ اس کی مثال خولہ بنت ثعلبہ  رضی اللہ عنہا  کی ہے جن سے ان کے شوہرنے ظہارکیاتھااوروہ صبح سویرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھنے آئی تھیں  کہ اسلام میں  اس کاکیاحکم ہے ، اورانہوں  ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے چھوٹے سے حجرے میں  اتنی آہستگی سے گفتگوکی کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  وہاں  موجودہوتے بھی ان کا شکوہ نہ سن سکیں ، مگرسمیع وبصیررب نے جو بندوں  کی شہ رگ کے بھی قریب ہے اوردل میں  ابھرنے والے وسوسوں  کوبھی جانتا ہے وہ ہر وقت اپنے بندوں  کی دعاؤں  کوسنتاہے نے فوراً آیات نازل فرمائیں

قَدْسَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِیْٓ اِلَى اللهِ۝۰ۤۖ وَاللهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۱ [72]

ترجمہ:اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جواپنے شوہرکے معاملہ میں  تم سے تکرارکررہی تھی اوراللہ سے فریادکیے جاتی ہے،اللہ تم دونوں  کی گفتگو سن رہاہے ،وہ سب کچھ سننے اوردیکھنے والاہے۔

اوراللہ تعالیٰ جس کے خزانوں  میں  کوئی کمی نہیں اوروہ کسی مانگنے والے کا  ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے شرماتاہے ،

عَنْ سَلْمَانَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ رَبَّكُمْ حَیِیٌّ كَرِیمٌ، یَسْتَحْیِی مِنْ عَبْدِهِ أَنْ یَرْفَعَ إِلَیْهِ یَدَیْهِ، فَیَرُدَّهُمَا صِفْرًا،  أَوْ قَالَ: خَائِبَتَیْن

سلمان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ حیاداراورسخی ہے ،جب کوئی بندہ اپنے دونوں  ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتاہے توناکام اورخالی ہاتھ لوٹانے سے اسے شرم آتی ہے۔[73]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَیْسَ فِیهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِیعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ  یَدَّخِرَهَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ یَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاجب کوئی مسلم دعاکرتاہے جس میں  کوئی گناہ کی بات نہیں  ہوتی اورنہ رشتہ داروں  کے حقوق بربادکرنے کی بات ہوتی ہے تواللہ ایسی دعاکوضرورقبول فرماتاہے ، یاتواس دنیاہی میں  اس کی دعاقبول فرماتاہے اوراس کا مقصد پوراہوجاتاہے اور یاآخرت میں  اس کے لئے ذخیرہ بناتاہے اور یا اس پرکوئی مصیبت یابرائی آنے والی ہوتی ہے جسے وہ اس دعاکی بدولت دورفرمادیتاہے۔[74]

قبروں  کواونچااورپختہ بنانے کی ممانعت:

مگربعض مسلمان اس آیت کوسن اور پڑھ کربھی اللہ کوچھوڑکر غیر اللہ کو پکارنا ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں  اورسمجھتے ہیں  کہ یہ اونچی اورپختہ قبروں  والے ہماری بگڑی سنوارنے اورمشکل کشائی پرقادر ہیں  اوران کا ادراک وقوت زندوں  سے بھی بڑھ جاتی ہے خواہ مردہ کافرہی ہو،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  کوپختہ بنانے یازمین سے زیادہ بلندکرنے سے منع فرمایاہے،

عَنْ أَبِی الْهَیَّاجِ، قَالَ:قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ:أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِی عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،لَا تَدَعَنَّ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَهُ، وَلَا صُورَةً فِی بَیْتٍ إِلَّا طَمَسْتَهَا

ابوالہیاج اسدی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ان سے ارشادفرمایاکیامیں  تجھے اس کام پرنہ بھیجوں  جس کام پرمجھے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھیجا تھا کہ جاؤکوئی بلندقبرہو(خواہ اس کی پوجاہوتی ہویانہ ہوتی ہو) تواسےبرابرکردواور کوئی تصویرنہ چھوڑومگراس کومٹادو۔[75]

أَنَّ ثُمَامَةَ بْنَ شُفَیٍّ، حَدَّثَهُ قَالَ:كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَیْدٍ بِأَرْضِ الرُّومِ بِرُودِسَ، فَتُوُفِّیَ صَاحِبٌ لَنَا، فَأَمَرَ فَضَالَةُ بْنُ عُبَیْدٍ بِقَبْرِهِ فَسُوِّیَ، ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَأْمُرُ بِتَسْوِیَتِهَا

ثمامہ بن شفی بیان کرتے ہیں ہم فضالہ بن عبید  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ سرزمین روم کے مقام رودس میں  تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کی وفات ہوگئی توفضالہ رضی اللہ عنہ  نے حکم دیاکہ ان کی قبرزمین کے برابرکردی جائے،پھرکہنے لگے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہے کہ آپ حکم دیتے تھے کہ قبریں  زمین کے برابرکردی جائیں ۔[76]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شُرَحْبِیلَ، أَنَّ عُثْمَانَ،أَنَّ عُثْمَانَ، خَرَجَ فَأَمَرَ بِتَسْوِیَةِ الْقُبُورِ، فَسُوِّیَتْ إِلَّا قَبْرَ أُمِّ عَمْرٍو، وَأَبِیهِ عُثْمَانَ فَقَالَ: مَا هَذَا الْقَبْرُ؟ فَقَالُوا: قَبْرُ أُمِّ عَمْرٍو، فَأَمَرَ بِهِ فَسُوِّیَ

عبداللہ بن شرجیل  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نکلے اورقبروں  کوبرابرکرنے کاحکم دیاپس قبریں  برابرکردی گئیں  سوائے آپ کی دخترام عمروکے، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے سوال کیاکہ یہ قبر کیوں  چھوڑدی گئی؟عرض کیاگیاکہ یہ قبرام عمروکی ہے،آپ نے اس کوبھی برابرکرنے کاحکم دیاپس وہ برابرکردی گئی۔[77]

فَسُنَّتُهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  تَسْوِیَةُ هَذِهِ الْقُبُورِ الْمُشْرِفَةِ كُلِّهَا

اس لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت طیبہ یہ ہے کہ ان بلندوبالاتمام قبروں  کوہموارکردیاجائے۔[78]

وَكَانَ هَدْیُهُ أَنْ لَا تُهَانَ الْقُبُورُ وَتُوطَأَ، وَأَلَّا یُجْلَسَ عَلَیْهَا، وَیُتَّكَأَ عَلَیْهَا، وَلَا تُعَظَّمَ بِحَیْثُ تُتَّخَذُ مَسَاجِدَ فَیُصَلَّى عِنْدَهَا وَإِلَیْهَا، وَتُتَّخَذَ أَعْیَادًا وَأَوْثَانًا

اورآپ کی سنت یہ تھی کہ قبروں  کی توہین نہ کی جائے اورنہ انہیں  رونداجائے اورنہ بیٹھک یاتکیہ لگایاجائے اورنہ (اس شدت )سے عزت کی جائے کہ انہیں  سجدہ گاہیں  بنالیا جائےاوران کے پاس یاان کی طرف نمازپڑھی جانے لگے،میلے شروع ہوجائیں  اورانہیں  بت بنالیں  گویاان کی پوجاہورہی ہے۔[79]

 عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْهِ، وَأَنْ یُبْنَى عَلَیْهِ

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  کوپختہ کرنے ،ان پر(بطورسوگ یامجاوربن کر) بیٹھنے اورعمارت تعمیرکرنے سے منع فرمایا ہے۔[80]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبْنَى عَلَى  الْقَبْرِ، أَوْ یُزَادَ عَلَیْهِ، أَوْ یُجَصَّصَ

جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے قبرپرعمارت بنانے سے یااس کوپکاکرنے یااس پرلکھنے سے منع فرمایا ہے۔[81]

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ: فِی مَرَضِهِ الَّذِی هَلَكَ فِیهِ:الْحَدُوا لِی لَحْدًا، وَانْصِبُوا عَلَیَّ اللبِنَ نَصْبًا، كَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عامربن سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  کہ سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  نے مرض الموت میں  فرمایا میرے لئے لحدبنانااوراس پرکچی انٹیں  لگاناجس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے بنائی گئی تھی۔[82]

وَكَانَتْ قُبُورُ أَصْحَابِهِ لَا مُشْرِفَةً، وَلَا لَاطِئَةً، وَهَكَذَا كَانَ قَبْرُهُ الْكَرِیمُ، وَقَبْرُ صَاحِبَیْهِ، فَقَبْرُهُ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی قبریں  نہ ہی بلندوبالاتھیں  اورنہ ہی بالکل ہموارتھیں ،اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرمبارک اورآپ کے صاحبین  رضی اللہ عنہما  کی قبریں  ہیں ۔[83]

ائمہ کرام کاعقیدہ :

كانوا یكرهون الأجر على قبورهم

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  وہ پکی قبروں  کو ناپسندکرتے تھے۔[84]

امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  قبرپرقبہ یامکان بنانے کوحرام سمجھتے تھے،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صلّى اللهُ تعالى علیهِ وآله وسلم عَنْ تَجْصِیصِ الْقَبْرِ، وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْهِ، وَأنْ یُبْنَى عَلَیْهِ بِنَاءٌ

جیسے جابر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پکی قبربنانے،قبر پر بیٹھنے اور اس پر گنبد وغیرہ تعمیر کرنے سے منع فرمایا۔[85]

لَا یُجَصَّصُ الْقَبْرُ وَلَا یُطَیَّنُ وَلَا یُرْفَعُ عَلَیْهِ بِنَاءٌ فَیَسْقُطَ وَلَا بَأْسَ بِوَضْعِ الْأَحْجَارِ لِتَكُونَ عَلَامَةً

امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں قبرکونہ توپختہ بنایاجائے ،نہ مٹی سے لیپی جائے اورنہ ہی قبرپرکوئی عمارت تعمیرکی جائےالبتہ نشانی کے طور پہ قبر پر پتھر رکھنے میں  کوئی مضائقہ نہیں ۔ [86]

امام مالک  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  میں  قبروں  کوپختہ بنانے ،ان پرعمارت تعمیرکرنے اوران پرپتھرلگانے کوناجائز سمجھتا ہوں ۔[87]

وَأُحِبُّ أَنْ لَا یُبْنَى، وَلَا یُجَصَّصَ فَإِنَّ ذَلِكَ یُشْبِهُ الزِّینَةَ وَالْخُیَلَاءَ، وَلَیْسَ الْمَوْتُ مَوْضِعَ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، وَلَمْ أَرَ قُبُورَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ مُجَصَّصَةً عَنْ طَاوُسٍ: إنَّ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُبْنَى الْقُبُورُ أَوْ تُجَصَّصَ  وَقَدْ رَأَیْت مِنْ الْوُلَاةِ مَنْ یَهْدِمَ بِمَكَّةَ مَا یُبْنَى فِیهَا فَلَمْ أَرَ الْفُقَهَاءَ یَعِیبُونَ ذَلِكَ

امام شافعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں   مجھے یہ بات محبوب ہے کہ قبروں  پرنہ توعمارتیں  بنائی جائیں  اورنہ ان کو پکا کیا جائے کیونکہ یہ سب زینت اور بڑائی کے لئے ہوتا ہے اور موت کے لئے ان میں  کوئی چیزروانہیں ،میں  نے انصاراورمہاجرین کی قبروں  کودیکھاہے وہ ہرگزپختہ نہ تھیں ،طاوس رحمہ اللہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبرپرعمارت بنانے اوراس کوپکاکرنے سے منع فرمایاہے اورمیں  نے حکام کوقبروں  پرتعمیرشدہ عمارت گراتے ہوئے دیکھاہے اورفقہااسے برانہیں  سمجھتے تھے۔[88]

ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  فُسْطَاطًا عَلَى قَبْرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ:انْزِعْهُ یَا غُلاَمُ، فَإِنَّمَا یُظِلُّهُ عَمَلُهُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےانہوں  نے عبدالرحمٰن کی قبرپرخیمہ دیکھاتوفرمایااے لڑکے!اس کوالگ کردےاس لئے کہ ان کاعمل ہی اس پرسایہ کرے گا۔[89]

اس کے علاوہ دوردرازکی مسافت طے کرکے قبروں  کی زیارت کے لئے جانابھی منع ہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِی، وَمَسْجِدِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا تین مسجدوں  کے سواکسی کے لئے کجاوے نہ باندھے جائیں  مسجدحرام،مسجدبیت المقدس اور میری مسجد(یعنی مسجدنبوی)۔[90]

صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم ،تابعین رحمہ اللہ  اورائمہ کبار رحمہ اللہ  میں  اس بارے میں  کوئی اختلاف نہیں  کہ مخصوص قبراورانبیاء کے آثاروغیرہ کی زیارت کے لئے سفرحال حرام ہے،

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: فَلَقِیتُ بَصْرَةَ بْنَ أَبِی بَصْرَةَ الْغِفَارِیَّ، فَقَالَ: مِنْ أَیْنَ جِئْتَ؟ قُلْتُ: مِنَ الطُّورِ، قَالَ: لَوْ لَقِیتُكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِیَهُ لَمْ تَأْتِهِ،قُلْتُ لَهُ: وَلِمَ؟ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  لَا تُعْمَلُ الْمَطِیُّ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِی وَمَسْجِدِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے ہوئی انہوں  نے پوچھاآپ کہاں  سے آرہے ہیں ؟فرمایاکوہ طورسے،ابوبصرہ  رضی اللہ عنہ  نے ارشادفرمایاکہ اگرمیری ملاقات تمہارے کوہ طورجانے سے پہلے ہو جاتی تومیں  تمہیں  وہاں  نہ جانے دیتا ،میں  نے انہیں  پوچھاکیوں  نہ جانے دیتے؟انہوں  نے کہامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناہے آپ فرمارہے تھے کہ صرف تین مسجدوں  کی طرف سواریوں  کوثواب کی نیت سے چلایا جائے مسجد حرام ، مسجدنبوی،مسجداقصٰی۔[91]

عَنْ قَزَعَةَ قَالَ: أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى الطُّورِ، فَأَتَیْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَدَعْ عَنْكَ الطُّورَ وَلَا تَأْتِهِ

مقزعہ رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  عبداللہ ابن عمر  رضی اللہ عنہ  کے پاس آیااورعرض کی کہ میں  کوہ طورپرجاناچاہتاہوں ،عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاکہ مسجدحرام،مسجدنبوی اورمسجداقصٰی کے علاوہ کہیں  بھی قصداًجانامنع ہے اس لئے تم کوہ طورپرجانے کاارادہ ترک کردو۔[92]

سهیل بن أبى سهیل قال: رآنى الحسن بن الحسن بن على بن أبى طالب عند القبر، فنادانى، وهو فى بیت فاطمة یتعشى فقال: هلم إلى العشاء،  فقلت: لا أریده، فقال: مالى رأتیك عند القبر؟ فقلت: سلمت على النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فقال: إذا دخلت المسجد فسلم ،ثم قال: إن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ تعالى عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ قال:لا تتخذوا بیتى عیداً، ولا تتخذوا بیوتكم مقابر، لَعَنَ اللهُ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ، وصلوا على فإن صلاتكم تبلغنى حیثما كنتم ما أنتم ومن بالأندلس إلا سواء،

سہیل بن ابی سہیل کہتے ہیں مجھے حسن بن حسن بن علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرکے پاس دیکھ کربلایااوروہ خودفاطمہ  رضی اللہ عنہا  بنت رسول اللہ کے گھر میں  رات کاکھاناکھارہے تھے مجھے کھانے کی دعوت دی،میں  نے عرض کی کہ مجھے کھانے کی خواہش نہیں  ہے، پھرفرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرکے پاس تم کیاکررہے تھے؟ میں  نے عرض کی کہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پرسلام پڑھ رہاتھا،ارشادفرمایاجب بھی مسجدمیں  داخل ہوسلام کہہ لیاکرو،پھرارشادفرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے کہ میری قبرپر جمگھٹا نہ بنالینااورنہ اپنے گھروں  کوقبرستان بنانا،اللہ یہودونصاریٰ پرلعنت فرمائے کہ انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کوسجدہ گاہ بنایا،مجھ پر درود پڑھا کروتم جہاں  بھی ہوتمہارادرودمجھ تک پہنچایاجائے گاتم خواہ اندلس میں  ہو یا مدینے میں  دونوں  یکساں  ہیں ۔[93]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیدًا، وَصَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِی حَیْثُ كُنْتُمْ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں  کو قبرستان نہ بناؤ اورمیری قبرکوتم میلے کی جگہ نہ بنانااورمجھ پردرودبھیجوبے شک تمہارادرودمجھ تک پہنچادیاجاتاہے تم جہاں  کہیں  بھی ہو۔[94]

قبروں  پرچادریں  چڑھانا:

پس قبریں  اس لئے نہیں  ہیں  کہ وہاں  میلے لگائے جائیں ،عرس کیاجائے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی قبرکے لئے عرس اورمیلے کی نہی فرمادی ہے،اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اینٹ،پتھراورگارے کی تعمیرشدہ چیزوں  پرغلاف اورچادریں  چڑھانے سے منع فرمایاہے،

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ، وَقَدْ سَتَرْتُ بِقِرَامٍ لِی عَلَى سَهْوَةٍ لِی فِیهَا تَمَاثِیلُ، وَرَأَیْتُ الْكَرَاهِیَةَ فِی وَجْهِهِ، فَأَتَى النَّمَطَ حَتَّى هَتَكَهُ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ اللهَ لَمْ یَأْمُرْنَا فِیمَا رَزَقَنَا أَنْ نَكْسُوَ. الْحِجَارَةَ وَاللبِنَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   غزوہ (تبوک)پرتشریف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدم موجودگی میں ) میں  نے( حجرے کے) طاق پرایک پردہ لٹکا دیا جس پر تصویریں  بنیں  ہوئی تھیں ،جب رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   غزوہ سے واپس تشریف لائے اوردروازے پرپردہ پڑا ہوادیکھاتوچہرہ مبارک متغیرہوگیااورآپ نے اس پردہ کو کھینچ کر پھاڑ دیا اور فرمایااللہ نے ہمیں  مٹی اورپتھروں  کوکپڑا پہنانے کاحکم نہیں  دیا۔[95]

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ سَلْمَانُ:دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فِی ذُبَابٍ، وَدَخَلَ رَجُلٌ النَّارَ فِی ذُبَابٍ،قَالُوا: وَمَا الذُّبَابُ؟، فَرَأَى ذُبَابًا عَلَى ثَوْبِ إِنْسَانٍ، فَقَالَ: هَذَا الذُّبَابُ ، قَالُوا: وَكَیْفَ ذَاكَ؟  قَالَ: مَرَّ رَجُلَانِ مُسْلِمَانِ عَلَى قَوْمٍ یَعْكِفُونَ عَلَى صَنَمٍ لَهُمْ، فَقَالُوا لَهُمَا: قَرِّبَا لِصَنَمِنَا قُرْبَانًا،  قَالَا: لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَیْئًا قَالُوا: قَرِّبَا مَا شِئْتُمَا وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا تَرَى؟ قَالَ أَحَدُهُمَا: لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَیْئًا، فَقُتِلَ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ،فَقَالَ الْآخَرُ: بِیَدِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَأَخَذَ ذُبَابًا فَأَلْقَاهُ عَلَى الصَّنَمِ فَدَخَلَ النَّارَ

طارق بن شہاب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک شخص صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں  جاپہنچااورایک جہنم میں  چلاگیاصحابہ کرام نے ایک آدمی کے کپڑوں  پر بیٹھی مکھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا کیا یہی مکھی اور مزید پوچھا وہ کیسے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادو مسلمانوں  کا گزر مشرک بستی سے ہوا جن ایک بت تھا تو انہوں  نے ان دونوں  سے کہا کہ ہمارے بت کیلئے چڑھاوا چڑھاوے بغیر آپ کا راستہ مسدود ہے،اس نے کہامیں  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں  ٹھیراتا،انہوں  نے کہاکسی بھی چیزکاچڑھاواچڑھادوچاہئے وہ ایک مکھی ہی کیوں  نہ ہو،ان میں  سے ایک نے اپنے ساتھی سے پوچھا تمہاری کیارائے ہے؟ اس نے جواب دیامیں  اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں  ٹھیراتاانہوں  نے یہ سنتے ہی اس کوقتل کردیااوروہ سیدھاجنت میں  چلاگیا،دوسرے نے ایک مکھی پکڑی اور اس بت پربھینٹ کردی وہ جہنم میں  داخل ہوگیا۔[96]

قارئین کرام ذراغورفرمائیں  کہ جس شخص نے صنم اورقبرپرایک مکھی کاچڑھاوادیاتووہ دوزخ کا ایندھن بناتواس شخص کاکیاحال ہوگاجواونٹ ،گائے اوربکری وغیرہ کواس نیت سے موٹاتازہ کررہاہے کہ ان کوغیراللہ کے نام ذبح کرکے تقرب الی اللہ حاصل کرے گا،یہ غیراللہ خواہ کوئی فوت شدہ ولی ہویادوردرازمقام پرکوئی بزرگ یاکوئی طاغوت اورمشہدہویاکوئی شجروحجروغیرہ ہواس امت کے مشرکین اس قسم کے چڑھاووں  کوقربانی سے بھی افضل خیال کرتے ہیں  اوربعض غالی قسم کے لوگ توغیراللہ کے نام چڑھاوا دے کراصل قربانی بھی نہیں  کرتے اورسمجھتے ہیں  کہ ہم نے حق اداکردیایہ اس بات کانتیجہ ہے کہ وہ اپنے ان غیراللہ کوجن کی وہ عبادت کرتے ہیں  ان کی اس قدرتعظیم اوران کی طرف راغب ہوتے ہیں  کہ جیسے دنیاومافیہاکی نعمتیں  حاصل کرلی ہوں  ،اس مصیبت اورشرک کاآج خوب دوردورہ ہے۔

قبروں  کوچومناچاٹنا:

ائمہ اربعہ اورتمام علمائے سلف وخلف کامتفقہ فیصلہ ہے کہ چومناچاٹناچھوناصرف حجراسوداوررکن یمانی کے لئے ہے،

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمْ أَرَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُ مِنَ البَیْتِ إِلَّا الرُّكْنَیْنِ الیَمَانِیَیْنِ

جیسے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوصرف دونوں  یمانی ارکان ( حجراسوداوررکن یمانی) کے بیت اللہ کی کسی اورچیزکوچھوتے ہوئے کبھی بھی نہیں  دیکھا۔[97]

پس استلام صرف ان ہی دوکے لئے ہے ان کے علاوہ مساجدہوں  یامقابراولیاءوصلحاءہوں  یاحجرات ومغارات رسل ہوں  یااورتاریخی یادگاریں  ہوں  کسی کوچومناچاٹنا یا چھونا ہرگز ہرگزجائزنہیں  بلکہ ایسا کرنا بدعت ہےاوربدعت کے بارے میں  جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے خطبہ میں  فرمایاکرتے تھے۔

مَنْ یهْدِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا هَادِیَ لَهُ إِنَّ أَصَدَقَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْیِ هَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ

جسے اللہ راہ ہدایت نصیب فرمادے اسے کوئی گمراہ نہیں  کرسکتااورجسے وہ اپنی حکمت کے تحت گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں  دے سکتا،سب سے سچی بات اللہ کاکلام ہے اورسب سے بہترہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہدایت ہے اورتمام کاموں  میں  سب سے براکام دین میں  نکلی ہوئی نئی بات ہے اورہرنئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی جہنم میں  ہے۔[98]

قبروں  پرچراغ جلانا:

اس کے علاوہ قبروں  پرچراخ جلائے جاتے ہیں  اورقبرپرآگ جلاناجاہلیت کی رسم ہے،

وَنَهَى رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ، وَإِیقَادِ السُّرُجِ عَلَیْهَا، وَاشْتَدَّ نَهْیُهُ فِی ذَلِكَ حَتَّى لَعَنَ فَاعِلَهُ. وَنَهَى عَنِ الصَّلَاةِ إِلَى الْقُبُورِ،وَنَهَى أُمَّتَهُ أَنْ یَتَّخِذُوا قَبْرَهُ عِیدًا وَلَعَنَ زُوَّرَاتِ الْقُبُورِ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں  کوسجدہ گاہ بنانے اوران پرچراغ جلانے کی ممانعت فرمائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کوسختی سے روکاایساکرنے والوں  پرآپ نے لعنت کی ہے اورقبروں  کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنے سے منع فرمایاہے، نیزآپ نے اپنی امت کواس بات سے بھی روکاہے کہ وہ آپ کی قبرکوعید(میلہ عرس وغیرہ لگانے کامرکز)بنالے اورقبروں  کی زیارت کرنے والی عورتوں  پرلعنت کی۔[99]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ فِی الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِیَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُهَرِیقَ دَمَهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کے نزدیک تین شخص نہایت ہی مبغوض ہیں  کج روی کرنے والا،اسلام میں  جاہلیت کاطریقہ ڈھونڈنے والااورمسلمانوں  کاخون ناحق طلب کرنے والاکہ اس کاخون بہائے۔[100]

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِینَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ

اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں  پرلعنت فرمائی ہے جوقبروں  پرزیارت کی غرض سے جاتی ہیں  اور(ان لوگوں  پربھی)جولوگ انہیں  سجدہ گاہ بناتے ہیں  اور وہاں  چراغ جلاتے ہیں (یاچراغاں  کرتے ہیں )۔[101]

حكم الألبانی: ضعیف

قبروں  پرجانورذبح کرنا:

نذرونیازعبادت ہے اورعبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک  کے لئے خاص ہے، دورجاہلیت میں مشرکین کے معبودوں  کے نصب ، تھان اوراستھان چار سو پھیلے ہوئے تھے جس کی وہ بڑی تعظیم کرتے تھے اوروہاں  وہ غیراللہ کے تقرب کے لئے جانوروں  کی قربانیاں  کرتے تھے ،قرآن مجیدنے غیراللہ کی نذرکوحرام قراردیاہے

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ۝۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ۔۔۔۝۳ [102]

ترجمہ:تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ،وہ جو گلا گھٹ کر ،یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۷۳ [103]

ترجمہ:اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھاؤ ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔

مثلاًکوئی شخص یہ کہے کہ یہ جانورفلاں  ولی یافلاں  بزرگ کے لئے ہے ،پس جب ذہن میں  غیراللہ میں  سے کوئی بھی مرادہوتوخواہ اس کانام لے یانہ لے اسی کاتصورکیاجائے ،وہ ذبیحہ جوعیسائی مسیح علیہ السلام کے نام پرذبح کرتے ہیں  خواہ وہ صرف گوشت کھانے کے لئے ہی کیوں  نہ ہووہ اوراس مذکورہ ذبیحہ میں  کوئی فرق نہیں ،پس اگرکوئی عیسائی صرف کھانے کے لئے کسی جانورکوذبح کرے یامسیح اورزہرہ کے تقرب کے لئے کرے تودونوں  کی حرمت میں  کوئی شک نہیں  ہے ،اسی طرح جوشخص اسلام کادعویٰ کرتاہے اورپھرکسی ولی یابزرگ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانورذبح کاتاہے تووہ بھی حرام ہوگااگرچہ اللہ کانام لے کرذبح کرے کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے ،یہ عبادت غیراللہ سے استعانت سے بڑھ کرکفرہے جیساکہ امت مسلمہ میں  سے منافقین کاگروہ اس کے ارتکاب میں  پیش پیش ہے ،جوکواکب وغیرہ کے تقرب کے لئے ایساکرتے ہیں  یہ لوگ مرتدین کے حکم میں  ہیں  اوران کاذبیحہ کسی صورت میں  بھی جائزنہیں  ،جنات کے لئے جانورذبح کرنابھی اسی قبیل سے ہے،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا عَقْرَ فِی الْإِسْلَامِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسلام میں  عقر(جانوروں  کوقبرپرذبح کرنا)نہیں  ہے۔[104]

اور امام عبدالرزاق   رحمہ اللہ  عَقْرَکی تشریح  یوں  کرتے ہیں

كَانُوا یَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاةً

وہ لوگ قبرکے نزدیک گائے یابکری ذبح کیاکرتے تھے۔[105]

اورامام مسلم رحمہ اللہ  نے اس سلسلہ میں  ایک باب باندھاہے

بَابُ تَحْرِیمِ الذَّبْحِ لِغَیْرِ اللهِ تَعَالَى وَلَعْنِ فَاعِلِهِ

جواللہ کے علاوہ کسی اورکی تعظیم کے لئے جانورذبح کرے وہ شخص ملعون اورذبیحہ حرام ہے۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النِّسَاءِ حِینَ بَایَعَهُنَّ أَنْ لَا یَنُحْنَ، فَقُلْنَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ نِسَاءً أَسْعَدْنَنَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ أَفَنُسْعِدُهُنَّ فِی الْإِسْلَامِ؟  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا إِسْعَادَ فِی الْإِسْلَامِ، وَلَا شِغَارَ، وَلَا عَقْرَ فِی الْإِسْلَامِ، وَلَا جَلَبَ فِی الْإِسْلَامِ، وَلَا جَنَبَ،  وَمَنْ انْتَهَبَ فَلَیْسَ مِنَّا

اورانس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں  سے بیعت لیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ نوحہ نہیں  کریں  گی، اس پر عورتوں  نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! زمانہ جاہلیت میں  کچھ عورتوں  نے ہمیں  پرسہ دیا تھا کیا ہم انہیں  اسلام میں  پرسہ دے سکتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اسلام میں  اس کی کوئی حیثیت نہیں  ، نیز اسلام میں  وٹے سٹے کے نکاح کی جس میں  مہر مقرر نہ کیا گیا ہو کوئی حیثیت نہیں  ہے، اسلام میں  فرضی محبوباؤں  کے نام لے کر اشعار میں  تشبیہات دینے کی کوئی حیثیت نہیں  ، اسلام میں  کسی قبیلے کا حلیف بننے کی کوئی حیثیت نہیں  ، زکوة وصول کرنے والے کا اچھا مال چھانٹ لینا یا لوگوں  کا زکوة سے بچنے کے حیلے اختیار کرنا بھی صحیح نہیں  ہے،اور جو شخص لوٹ مار کرے وہ ہم میں  سے نہیں  ہے۔[106]

عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ، قَالَ:كُنْتُ عِنْدَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُسِرُّ إِلَیْكَ،قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُسِرُّ إِلَیَّ شَیْئًا یَكْتُمُهُ النَّاسَ،غَیْرَ أَنَّهُ قَدْ حَدَّثَنِی بِكَلِمَاتٍ أَرْبَعٍ،قَالَ: فَقَالَ: مَا هُنَّ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟ قَالَ: قَالَ:لَعَنَ اللهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ،وَلَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ  لِغَیْرِ اللهِ،   وَلَعَنَ اللهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا

عامربن واثلہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں  میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے پاس بیٹھاتھاکہ ایک شخص آیااورکہنے لگاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کوکچھ چیزیں  خفیہ بتاتے تھے؟یہ سنتے ہی سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  غضبناک ہوگئے اورفرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے کوئی ایسی چیزنہیں  بتائی جو اوروں  کونہ بتائی ہو،ہاں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے چارباتیں  بتائیں ،اس نے پوچھا وہ کیا ہیں  اے امیر المومنین ؟فرمایاجوشخص اپنے والدین پرلعنت کرے اللہ اس پرلعنت نازل کرے،اورجواللہ کے علاوہ کسی اورکی تعظیم کے لئے ذبح کرے اللہ اس پر لعنت کرے، اوراللہ اس پرلعنت کرے جوکسی بدعتی کوپناہ دے۔

(مُحْدِثًا کے معنی ایساعمل جس کاشریعت میں  کوئی ثبوت نہ ہویعنی بدعت،اور مُحْدَثًا کے معنی ایسے شخص کے ہیں  جومجرم کوپناہ دے یااس کی حوصلہ افزائی اوراس کوبچانے کی کوشش کرے،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں  یہ گناہ کبیرہ اپنے مراتب فعل کے لحاظ سے کبیرہ بھی ہوسکتاہے اورصغیرہ بھی ،اگرعمل فی نفسہ بڑاہوگاتویہ کبیرہ کہلائے گاورنہ صغیرہ ہوگا) وَلَعَنَ اللهُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ

اورجوشخص زمین کی حدبندی کے نشانات کومٹائے۔

(یہ وہی نشانات وعلامات ہیں  جوزمین یاگھروں  کوآپس میں  تقسیم کرتے وقت لگائے جاتے ہیں ،تغییرنشان کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اوراپنے شریک کارکے حق میں  جوعلامت اورنشانی ہے اسے آگے یاپیچھے کرکے اس کاحق غصب کرلے ،یہ بہت بڑاظلم ہے جس کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

مَنْ ظَلَمَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ طُوِّقَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِینَ

جوشخص اپنے دوسرے بھائی کی ایک بالشت زمین ناحق لے لیتاہے قیامت کے دن سات زمینیں  بصورت  طوق اس کی گردن میں  ڈال دی جائیں  گی۔

(زمین کے سات طبق کتاب وسنت سے ثابت ہیں ،ان کا انکار کرنے والاقرآن وحدیث کامنکرہے)

وَفِیهِ أَنَّ الْأَرَضِینَ السَّبْعَ أَطْبَاقٌ كَالسَّمَوَاتِ، وَهُوَ ظَاهِرُ قَوْله تَعَالَى:وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ  خِلَافًا لِمَنْ قَالَ: إنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ: سَبْعُ أَرَضِینَ  سَبْعَةُ أَقَالِیمَ

امام شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس سے ثابت ہواکہ آسمانوں  کی طرح زمین کے بھی سات طبق ہیں  جیسا کہ آیت قرآنی ’’ زمینیں  بھی ان آسمانوں  ہی کی مانندہیں ۔‘‘میں  مذکورہے ،اس میں  ان کی بھی تردیدہے جوسات زمینوں  سے ہفت اقلیم مرادلیتے ہیں  جوصحیح نہیں ۔[107]

اللہ اس پرلعنت فرمائے۔[108]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوقَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْهِ،قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَهَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ؟قَالَ:نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاهُ، وَیَسُبُّ أُمَّهُ فَیَسُبُّ أُمَّهُ

عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکبیرہ گناہوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے ہی ماں  باپ کوگالی دے،صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی شخص اپنے والدین کوکیسے گالی دے سکتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ ہاں (وہ اس طرح کہ)جب کوئی شخص کسی دوسرے کے والدین کوگالی دیتاہے تووہ بھی جواب میں  اس کے والدین کوگالی دے گا(توگویاپہلے شخص نے اپنے ہی والدین کوگالی دی)۔[109]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَقْرَ فِی الْإِسْلَامِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسلام میں  قبرپرجانورذبح کرنامنع ہے۔[110]

مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادکے باوجودمزاروں  پرجانوروں  کی قربانیاں  ہو رہی ہیں ۔

اس کے بعدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کواونٹوں  پرلدوایااوراسیران بدرکے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے

وَجَعَلَ عَلَى النّفَلِ عَبْدِ اللهِ بْنُ كَعْبِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبداللہ بن کعب مازانی انصاری  رضی اللہ عنہ  کومال غنیمت کی نگرانی کے لئے مقرر فرمایا۔[111]

صالح شقران. غلام رَسُولِ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لعبد الرَّحْمَن بْن عوف فَأَعْجَبَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَأَخَذَهُ مِنْهُ بِالثَّمَنِ، وَكَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا , وَهُوَ صَالِحُ بْنُ عَدِیٍّ، شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ مَمْلُوكٌ فَاسْتَعْمَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَسْرَى وَلَمْ یُسْهَمْ لَهُ، فَجَزَاهُ كُلُّ رَجُلٍ لَهُ أَسِیرٌ، فَأَصَابَ أَكْثَرَ مِمَّا أَصَابَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ مِنَ الْمُقَسَّمِ

صالح سقران جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غلام تھےیہ عبدالرحمٰن ابن عوف کے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوپسندآئے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ قیمتاً لے لیا،وہ حبشی تھےان کانام صالح بن عدی تھا، بحالت غلامی غزوہ بدرمیں  حاضرہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  قیدیوں  پرعامل بنایااور ان کے لیے حصہ مقرر نہیں  تھا ہر شخص نے اپنے ہی مقررہ حصہ سے ان کو دیا تو اسی وجہ سے ان کاحصہ باقیوں  کی نسبت زیادہ ہوا ۔[112]

حَتَّى إذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّفْرَاءِ قُتِلَ النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ، قَتَلَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام صَّفْرَاءِ پرپہنچے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قریش کے اکابرین میں  ایک جنگی مجرم نضربن حارث کوجس نے جنگ میں  کفارکاپرچم اٹھارکھاتھاکوقتل کاحکم فرمایا،حکم کی تعمیل میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے اس کی گردن اڑادی۔[113]

عُبَیْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ فمات بِالصَّفْرَاءِ

اسی جگہ پر عبیدہ بن حارث  رضی اللہ عنہ  زخموں  کی تاب نہ لاکرانتقال کرگئے۔[114]

فَدَفَنَهُ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصّفْرَاءِ

اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں صّفْرَاءِمیں  ہی دفن کردیا۔[115]

ویروى أن رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لما نزل بأصحابه بالتاربین قَالَ لَهُ أصحابه: إنا نجد ریح المسك،قال: وما یمنعكم؟ وهاهنا قبر أَبِی مُعَاوِیَة

بعدمیں  ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اصحاب کرام  رضی اللہ عنہم  کے ہمراہ مقام تاربین پرنزول فرمایا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم یہاں  مشک کی خوشبوپاتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس میں  حیرانی کی کوئی بات نہیں  کیایہاں  ابومعاویہ ( عبیدہ بن الحارث کی کنیت تھی)کی قبرہے۔[116]

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ:  لَمَّا كَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قُتِلَ أَخِی عُمَیْرٌ، وَقَتَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ وَأَخَذْتُ سَیْفَهُ، وَكَانَ یُسَمَّى ذَا الْكَتِیفَةِ، فَأَتَیْتُ بِهِ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اذْهَبْ فَاطْرَحْهُ فِی الْقَبَضِ،قَالَ: فَرَجَعْتُ وَبِی مَا لَا یَعْلَمُهُ إِلا اللهُ مِنْ قَتْلِ أَخِی، وَأَخْذِ سَلَبِی، قَالَ: فَمَا جَاوَزْتُ إِلا یَسِیرًا حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ،  فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اذْهَبْ فَخُذْ سَیْفَكَ

سعدبن ابی وقاص سے مروی ہے بدروالے دن جب میرے بھائی عمیر  رضی اللہ عنہ  قتل کیے گئے میں  نے سعید بن عاص کوقتل کیااوراس کی تلوارجسے ذَالْكَ تِیفَةِ کہاجاتا تھا لے لی،اور اسے لے کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤاسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ،میں  نے تعمیل حکم توکرلی لیکن اللہ ہی کومعلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گزری ، ایک طرف بھائی کے قتل کاصدمہ دوسری طرف اپناحاصل کردہ سامان واپس ہونے کاصدمہ،ابھی میں  چندقدم ہی چلاہوں  گاکہ سورہ انفال نازل ہوئی، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایاجاؤ اوروہ تلوارجوتم ڈال آئے ہولے لو۔[117]

عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شَفَانِی اللَّهُ الْیَوْمَ مِنَ المُشْرِكِینَ، فَهَبْ لِی هَذَا السَّیْفُ. قَالَ: إِنَّ هَذَا السَّیْفَ لَیْسَ لَكَ وَلا لِی ضَعْهُ قَالَ: فَوَضَعْتُهُ. ثُمَّ رَجَعْتُ، قُلْتُ: عَسَى أَنْ یُعْطَى هَذَا السَّیْفُ الْیَوْمَ مَنْ لَمْ یُبْلِ بَلائِی، قَالَ: إِذَا رَجُلٌ یَدْعُونِی مِنْ وَرَائِی قَالَ: قُلْتُ: قَدِ أنْزِلَ فِیَّ شَیْءٌ؟ قَالَ:كُنْتَ سَأَلْتَنِی السَّیْفَ، وَلَیْسَ هُوَ لِی، وَإِنَّهُ قَدْ وُهِبَ لِی، فَهُوَ لَكَ قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {یَسْأَلُونَكَ عَنِ  الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} [118]

سعدبن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں  سے بچا لیااب آپ یہ تلوارمجھے دے دیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنویہ نہ تمہاری ہے اورنہ میری ،اسے بیت المال میں  جمع کردو،میں  نے تعمیل حکم میں  وہ تلوار بیت المال میں  جمع کرا دی،میرے دل میں  خیال آیاکہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں  کی اسے یہ تلوارانعام میں  مل جائے گی،یہ خیال کرکے میں  جارہاتھاکہ کسی نے مجھے پیچھے سے پکارامیں  لوٹا اور پوچھااے اللہ کےر سول  صلی اللہ علیہ وسلم !کہیں  میرے بارے میں  کوئی وحی نازل نہیں  ہوئی؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  تم نے مجھ سے تلوارمانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی ،اب وہ مجھے دیدی گئی ہے اورمیں  تمہیں دے رہاہوں ،پس آیت نازل ہوئی ’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں  کہویہ انفال تواللہ اوراس کے رسول کے ہیں ۔ ‘[119]

أَبَا أُسَیْدٍ مَالِكَ بْنَ رَبِیعَةَ یَقُولُ: أَصَبْتُ سَیْفَ ابْنِ عَائِذٍ یَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ السَّیْفُ یُدْعَى بِالْمَرْزُبَانِ، فَلَمَّا أَمْرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ یَرُدُّوا مَا فِی أَیْدِیهِمْ مِنَ النَّفَلِ، أَقْبَلْتُ بِهِ فَأَلْقَیْتُهُ فِی النَّفَلِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَمْنَعُ شَیْئًا یُسْأَلُهُ، فَرَآهُ الْأَرْقَمُ بْنُ أَبِی الْأَرْقَمِ الْمَخْزُومِیُّ، فَسَأَلَهُ رَسُولَ اللهِ [صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ

ابواسیدمالک  رضی اللہ عنہ  بن ربیعہ کہتے ہیں  مجھےابن عائذکی تلوارملی جسےمَرْزُبَانِ کہاجاتاتھا،جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں  کوحکم دیاکہ جوکچھ جس کسی کے پاس ہووہ جمع کرا دےمیں  بھی گیااوروہ تلواررکھ آیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عادت مبارک تھی کہ اگرکوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکارنہ کرتے تھے،ارقم بن ابی ارقم مخزومی رضی اللہ عنہ  نے اس تلوارکودیکھ کر آپ سے اسی کاسوال کیا تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوعطافرما دی۔[120]

[1] ملفوظات اعلی حضرت ۱۳۳

[2] سماع الموتٰی ۲۲۱

[3] النمل۸۰

[4] فاطر۲۲

[5] الروم ۵۲

[6] صحیح  ابن حبان ۳۱۱۳، صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا  بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۷،صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ ۱۳۷۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمَشْیِ فِی النَّعْلِ بَیْنَ الْقُبُورِ ۳۲۳۱، سنن نسائی کتاب الجنائز باب الْمَسْأَلَةُ فِی الْقَبْرِ۲۰۵۳،مسنداحمد۱۲۲۷۱

[7] مسنداحمد۸۸۷۸

[8] الصافات ۹۱،۹۲

[9] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ مَا ذُكِرَ فِی الحَجَرِ الأَسْوَدِ ۱۵۹۷

[10] مسند احمد ۱۳۹۷

[11] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا۲۲۵۶، مسند احمد ۲۵۸۵۵

[12] قبرپرستی اورسماع موتیٰ ازخواجہ قاسم ص۷۹

[13]کتاب الروح ۱۲؍۱،الجامع الصغیر۱۱۹۸۹

[14] شرح الصدور۲۰۱؍۱

[15] لسان  المیزان ۸۴؍۵

[16] سماع موتیٰ ۲۲۶

[17] السلسلة الضعیفة۱۱۴۷

[18] التلخیص الحبیر۳۰۶؍۲

[19] التلخیص الحبیر ۳۰۶؍۲

[20] الموضوعات ۲۳۸؍۳

[21] الاحزاب ۵۶

[22] مشکوٰة  المصابیح باب الصَّلَاةُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وفضلها الْفَصْل الثَّالِث۹۳۴، شعب الایمان۱۴۸۱،۱۴۰؍۳

[23] سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة وأثرہا السیئ فی الأمة ۳۶۶؍۱

[24] تلخیص كتاب الموضوعات لابن الجوزی۹۰؍۱

[25] جلاء الافہام۸۶؍۱

[26] القول البدیع فی الصلاة علی الحبیب الشفیع۱۶۴؍۱

[27] جامع التحصیل۲۴۵،۱۸۵؍۱

[28] النسائ۵۹

[29] آل عمران۳۱

[30] فاطر۱۳،۱۴

[31] یونس۲۸،۲۹

[32] الاحقاف۵،۶

[33] الاعراف ۱۹۴،۱۹۵

[34] الاعراف۱۹۷،۱۹۸

[35] بنی اسرائیل ۵۷

[36] النحل۲۰،۲۱

[37] الرعد۱۴

[38] الصافات۲۲،۲۳

[39] سبا ۲۲، ۲۳

[40] الفرقان۳

[41] الانبیائ۲۱

[42] الانبیائ۹۸،۹۹

[43] المائدة۱۱۹ 

[44] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا عن رفاعہ  ۳۹۹۲

[45]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا۳۹۸۳

[46] فتح الباری ۳۹۸۲،۳۰۵؍۷

[47] صحیح بخاری کتاب التعبیر بَابُ رُؤْیَا النِّسَاءِ  ۷۰۰۳

[48] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۵؍۳

[49] سماع موتیٰ ۳۲۱،۳۲۲

[50] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱

[51] الانعام ۱۱۶

[52] المائدة۱۰۴

[53] البقرة ۱۷۰

[54] الاعراف ۲۸

[55] الزخرف۲۳

[56] سبا۴۳

[57] لقمان۲۱

[58] الزمر۳

[59] یونس۱۸

[60] الاحقاف۲۸

[61] صحیح بخاری کتاب استسقاءبَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا   ۱۰۱۰

[62] سبل السلام۴۵۲؍۱،مرعاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح۱۹۲؍۵

[63] الاعراف۱۸۰

[64] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابٌ فِی الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ۱۷۵۳

[65]آل عمران۱۶

[66] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَیْهِ۵۹۷۴

[67] البقرة۱۸۶

[68] المومن ۶۰

[69] طہ ۷

[70] ق۱۶

[71] الواقعة ۸۳تا۸۵

[72] المجادلة۱

[73] سنن ابن ماجہ کتاب الدعاءبَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الدُّعَاءِ۳۸۶۵

[74] مسنداحمد۱۱۱۳۳

[75] سنن نسائی کتاب الجنائز باب تَسْوِیَةُ الْقُبُورِ إِذَا رُفِعَتْ ۲۰۳۳،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی تَسْوِیَةِ الْقَبْرِ ۳۲۱۸،مسنداحمد۱۰۶۴

[76] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَةِ الْقَبْرِ۲۲۴۲ ،سنن نسائی کتاب الجنائز باب تَسْوِیَةُ الْقُبُورِ إِذَا رُفِعَتْ ۲۰۳۲

[77] مصنف ابن ابی  شیبہ۱۱۷۹۵

[78] زادالمعاد۵۰۵؍۱

[79] زادالمعاد۵۰۳؍۱

[80] صحیح مسلم  کتاب الجنائز بَابُ النَّهْیِ عَنْ تَجْصِیصِ الْقَبْرِ وَالْبِنَاءِ عَلَیْهِ۲۲۴۵، سنن نسائی کتاب الجنائز باب الْبِنَاءُ عَلَى الْقَبْرِ۲۰۳۰، مسند احمد۱۴۱۴۸، مصنف ابن ابی شیبہ۱۱۷۶۴

[81] سنن نسائی کتاب الجنائزباب الزِّیَادَةُ عَلَى الْقَبْرِ۲۰۲۹

[82] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی اللحْدِ وَنَصْبِ اللبِنَ عَلَى الْمَیِّتِ۲۲۴۰

[83] زادالمعاد۵۰۳؍۱

[84] اغاثة  اللھفان ۱۹۶؍۱

[85] صحیح مسلم كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ تَجْصِیصِ الْقَبْرِ وَالْبِنَاءِ عَلَیْهِ ۲۲۴۵،اغاثة  اللھفان ۱۹۶؍۱

[86] تفسیر القرطبی ۳۸۱؍۱۰

[87] تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد

[88] الام للشافعی۳۱۶؍۱

[89] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الجَرِیدِ عَلَى القَبْرِ

[90] مسنداحمد۱۱۴۱۷،صحیح بخاری کتاب  التہجدبَابُ مَسْجِدِ بَیْتِ المَقْدِسِ ۱۱۹۷

[91] موطاامام مالک کتاب السہو باب مَا جَاءَ فِی السَّاعَةِ الَّتِی فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ ،سنن نسائی کتاب الجمعة  باب ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِی یُسْتَجَابُ فِیهَا الدُّعَاءُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۴۳۱

[92] أخبار مكة للفاکہی ۱۱۹۳

[93] إغاثة اللهفان ۱۹۱؍۱

[94] سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ زِیَارَةِ الْقُبُورِ۲۰۴۲

[95] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَا وُطِئَ مِنَ التَّصَاوِیرِ۵۹۵۴ ،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ باب تحریم تصویرصورة الحیوان ۵۵۲۰،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی الصُّوَرِ۴۱۵۳

[96] شعب الایمان۶۹۶۲

[97] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ مَنْ لَمْ یَسْتَلِمْ إِلَّا الرُّكْنَیْنِ الیَمَانِیَیْنِ ۱۶۰۹،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ اسْتِحْبَابِ اسْتِلَامِ الرُّكْنَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ فِی الطَّوَافِ دُونَ الرُّكْنَیْنِ الْآخَرَیْنِ۳۰۶۱،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ اسْتِلَامِ الْأَرْكَانِ ۱۸۷۴

[98] السنن الکبری للنسائی۱۷۹۹،صحیح ابن خزیمة۱۷۸۵،المعجم الکبیرللطبرانی۸۵۲۱

[99] زادالمعاد۵۰۳؍۱

[100] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ مَنْ طَلَبَ دَمَ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ ۶۸۸۲

[101] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی زِیَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ۳۲۳۶

[102] المائدة۳

[103] البقرة۱۷۳

[104] سنن ابوداودکتاب الجنائز باب کراھیة الذبح عندالقبر ۳۲۲۲

[105] سنن ابوداودکتاب    الجنائز بَابُ كَرَاهِیَةِ الذَّبْحِ عِنْدَ الْقَبْرِ۳۲۲۲

[106] صحیح ابن حبان ۳۱۴۶، مسنداحمد۱۳۰۳۲

[107] مسنداحمد۲۶۲۲۴،صحیح بخاری کتاب  المظالم بَابُ إِثْمِ مَنْ ظَلَمَ شَیْئًا مِنَ الأَرْضِ۲۴۵۳،صحیح مسلم کتاب المساقاة  بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ وَغَصْبِ الْأَرْضِ وَغَیْرِهَا۴۱۳۷

[108] صحیح مسلم کتاب الاضاحی بَابُ تَحْرِیمِ الذَّبْحِ لِغَیْرِ اللهِ تَعَالَى وَلَعْنِ فَاعِلِهِ۵۱۲۴،سنن نسائی کتاب الضحایا باب من ذبح لغیراللہ عزوجل ۴۴۲۸

[109] مسنداحمد۶۵۲۹

[110] سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابُ كَرَاهِیَةِ الذَّبْحِ عِنْدَ الْقَبْرِ۳۲۲۲، مسند احمد ۱۳۰۳۲

[111] ابن سعد۳۹۲؍۳،ابن ہشام۶۴۳؍۱ ،الروض الانف ۱۱۴؍۵،تاریخ طبری ۴۵۸؍۲،تاریخ ابن خلدون ۴۳۰؍۲

[112] ابن سعد۳۶؍۳

[113] ابن ہشام ۶۴۲؍۱، تاریخ طبری ۴۵۹؍۲،تاریخ ابن خلدون۳۹۱؍۲

[114] مغازی واقدی۱۴۵؍۱،ابن ہشام۷۰۶؍۱

[115] ابن اسحاق۳۰۸؍۱

[116] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۲۰؍۳

[117] مسنداحمد۱۵۵۶

[118] الأنفال: 1

[119]‘مسنداحمد۱۵۳۸

[120] ابن ہشام۶۴۲؍۱،الروض الانف ۱۱۳؍۵،تفسیرابن کثیر۷؍۴

Related Articles