ہجرت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ الانفال

تاریخ اسلام میں  ہونے والے غزوات کی بنیاداورابتداغزوہ بدرمیں مسلمانوں  میں  جواخلاقی کمزوریاں  اورخامیاں  ظاہرہوئیں  ان کی نشان دہی اور ان کے ازالے کاذکرکیاگیا،جنگ کے دوران جومال غنیمت ہاتھ لگ جائے اس کے بارے میں  وضاحت فرمائی گئی کہ یہ سب اموال اللہ اوراس کے رسول کے ہیں  لہذاوہ جیسے چاہیں  اسے تقسیم کریں  اورجومال وہ تمہیں  دے دیں  اسے اللہ کی عطا سمجھ کر بخوشی قبول کریں ،اپنے سے کئی گنابڑے لشکرکوذلت آمیزشکست اورتمہاری یہ عظیم فتح تمہاری مختصر جماعت کی محنت وکاوش کاثمرنہیں  بلکہ یہ فتح صرف اورصرف اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ کی مددسے ہی ہے لہذا ہمیشہ اللہ پرتوکل اوراس کے رسول کی اطاعت ہی کواپنی دنیاوآخرت کی نجات کاذریعہ سمجھیں ،اورجس مقصدکی وجہ سے تمہیں  فتح دی گئی ہے اسے اپنامقصدحیات بنالیں  ، مشرکین ،منافقین ،یہوداورجنگی قیدیوں  کوعبرت اموزخطاب کیاگیااورمسلمانوں  کوجنگ اورصلح کے اصول بتاکر تلقین کی گئی کہ تاریک دورکے طریقوں  اوررسم ورواج سے مکمل طورپراجتناب کریں تاکہ دوسری اقوام پرتمہارے اخلاق حسنہ کابہترین اثر پڑے اور تمہارے مشن دعوت حقہ کوپھیلانے کی سچائی واضح ہو سکے ،اوراس کی سچائی ثابت کرنے کے لئے خوداپنے آپ کو پیش کرسکو ،پھراسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات اور جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں  قیام پذیرہوں  ان کی قانونی حیثیت متعین کردی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِكُمْ ۖ وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١﴾(الانفال)
 یہ لوگ آپ سے غنیمتوں  کا حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ غنیمتیں  اللہ کی ہیں  اور رسول کی ہیں ، سو تم اللہ سے ڈرو ، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو ۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !مجاہدین تم سے غنیمتوں (وہ مال واسباب جوجنگ میں  دشمن پرفتح یاغلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہواسے مال غنیمت کہتے ہیں  اوروہ مال جوغیرمسلم چھوڑ کر چلے جائیں  جیسے بنونضیربنوقینقاع اوربنوقریظہ وغیرہ مدینہ میں  اپنے اموال واملاک چھوڑکرخیبرچلے گئے تھے یابغیرلڑائی یاجزیہ وخراج سے جومال ملے اسے مال فے کہا جاتا ہے ) کے متعلق استفسارکرتے ہیں کہ ان کوکیسے تقسیم کیاجائے اورکن لوگوں  میں  تقسیم کیاجائے،فرمایاآپ ان سے کہہ دیں کہ جنگ کے بعدجومال واسباب مجاہدین کے ہاتھ آتاہے وہ ان کی ملکیت نہیں  بلکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ملکیت ہے،اس لئے یہ تم پرمنحصرنہیں  کہ اپنی من مرضی کرواورحاصل کردہ مال کواپنی جانفشانی کاثمرہ سمجھ کر مالک ومختیاربن بیٹھواور جس طرح چاہواسے تقسیم کرلو،بلکہ جس نے یہ غنائم بخشے ہیں  اس کے حکم سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جہاں  چاہیں  گے خرچ کریں  گے ،چنانچہ تم پرفرض ہے کہ جب اللہ اوراس کا رسول جو فیصلہ فرمادیں اور جومال عنایت کر دیں  توان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کا عطیہ سمجھ کرہنسی خوشی قبول کرلواوراپنے دلوں  میں اللہ کاخوف پیدا کر کے اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو ،آپس کے معاملات کی اصلاح میں  حسن اخلاق اوربراسلوک کرنے والوں  سے درگزر کابہت دخل ہے ،جس سے دلوں  کابغض ونفرت دور ہو جاتی ہے اس لئے فرمایاکہ آپس کے بغض وعناد،قطع تعلقی اورایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کے بجائے آپس کی مودت محبت اورمیل جول کے ذریعے سے اصلاح کرواس طرح تم میں  اتفاق پیداہوگااورقطع تعلق،مخاصمت اورآپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جونقصان پہنچاہے اس کاازالہ ہوجائے گا ، کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت کاتقاضاکرتاہے اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت نہیں  کرتاوہ مومن نہیں  ،جس کی اطاعت الٰہی اوراطاعت رسول ناقص ہے اس کا ایمان بھی اتناہی ناقص ہے،اس لئے فرمایااگرتم مومن ہونے کے دعوے دارہوتوہرحال میں اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِیمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ‎﴿٣﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ ‎﴿٤﴾‏(الانفال )
’’ بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیںاور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ،جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں،سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں، ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔‘‘

اس حکم کے ساتھ ہی تسلی وتشفی کے لئے کامل اہل ایمان کی صفات بیان فرمائیں کہ مومن توصرف وہ ہیں  کہ جب ان کے سامنے اللہ وحدہ لاشریک کاذکرکیاجاتاہے تواللہ تعالیٰ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، آیات الہٰی کوحضورقلب کے ساتھ غورسے سنتے ہیں  تاکہ وہ ان میں  غوروفکرکریں  اس طرح ان کے ایمان میں  تازگی پیداہوجاتی ہے اوروہ اس کی تصدیق میں  آگے بڑھتے ہیں ،اللہ کاذکرسن کران کے دلوں  میں نیکیوں  میں  رغبت پیداہوتی ہے ،رب کے اکرام وتکریم کے حصول کاشوق پیدا ہوتا ہے ،

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴  [1]

ترجمہ:جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں  سے بعض لوگ(مذاق کے طور پر مسلمانوں  سے )پوچھتے ہیں  کہ کہو، تم میں  سے کس کے ایمان میں  اس سے اضافہ ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں  ان کے ایمان میں  تو فی الواقع(ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں ۔

دل میں  عذاب سے خوف اورمعاصی سے ڈرپیداہوتاہے ،اسی وجہ سے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں  کرتے اورنہ حدودسے تجاوزکرتے ہیں ،تمام فرائض اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں ،توکل ہی انسانوں  کوتمام اعمال پرامادہ کرتاہے ،توکل کے بغیراعمال وجودمیں  آتے ہیں  نہ تکمیل پاسکتے ہیں  ،اس لئے مومن کوئی بھی کام کرتاہے اس کے اسباب سے اعراض وگریزنہیں  کرتامگراس کابھروسہ ظاہری اسباب یعنی اپنی محنت،تدبیروغیرہ پرنہیں  ہوتابلکہ ان کویہ یقین کامل ہوتاہے کہ اصل کارفرمامشیت الہٰی ہی ہے اس لئے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں  ہوگی یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں  کرسکیں  گے اوراس یقین واعتمادکی بنیادپرپھروہ اللہ کی مددواعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں  ہوتے ،اس لئے فرمایاوہ اپنے رب  وحدہ لاشریک پرکامل اعتمادرکھتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَوْلُهُ:{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ} [2]قَالَ: الْمُنَافِقُونَ لَا یَدْخُلُ قُلُوبَهُمْ شَیْءٌ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ عِنْدَ أَدَاءِ فَرَائِضِهِ، وَلَا یُؤْمِنُونَ بِشَیْءٍ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ، وَلَا یَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ، وَلَا یُصَلُّونَ إِذَا غَابُوا، وَلَا یُؤَدُّونَ زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ. فَأَخْبَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَنَّهُمْ لَیْسُوا بِمُؤْمِنِینَ، ثُمَّ وَصَفَ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَ: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ} [ا[3] فَأَدُّوا فَرَائِضَهُ، {وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِیمَانًا}[4] یَقُولُ: تَصْدِیقًا، {وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ} [5] یَقُولُ: لَا یَرْجُونَ غَیْرَهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے آیت کریمہ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں  جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں  روایت ہےمنافقوں  کے دل فرائض اداکرتے ہوئے اللہ کے ذکرسے خالی ہوتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کی آیات پران کاایمان نہیں  ہوتا نہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت پران کاتوکل ہوتاہے،نہ وہ علیحدگی میں  نمازاداکرتے ہیں اورنہ ہی اپنے مالوں  کی زکوة اداکرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  خبردی ہے کہ یہ مومن نہیں  ہیں ، پھراللہ تعالیٰ نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا’’ سچے مومن توصرف وہ ہیں  کہ جب اللہ کاذکرکیاجائے توان کے دل ڈرجاتے ہیں ۔‘‘اوروہ اس کے عائدکردہ فرائض کواداکرتے ہیں ’’اورجب ان پراس کی آیتیں  تلاوت کی جاتی ہیں  تووہ ان کاایمان اوربڑھادیتی ہیں ۔‘‘ان کی تصدیق میں  اوراضافہ ہوجاتاہے’’اوروہ اپنے پروردگارہی پربھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ اوراس کے سواکسی اورسے امیدنہیں  رکھتے۔[6]

أَنْبَأَ سُفْیَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ السُّدِّیَّ، یَقُولُ فِی قَوْلِهِ: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ} قَالَ: هُوَ الرَّجُلُ یُرِیدُ أَنْ یَظْلِمَ، أَوْ قَالَ: یَهِمَّ بِمَعْصِیَةٍ  فَیُقَالُ لَهُ: اتَّقِ اللهَ    فَیَجِلَ قَلْبُهُ

سفیان ثوری فرماتے ہیں  میں  نے سدی کوبیان کرتے ہوئے سناوہ اس آیت کریمہ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں  جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں  فرمارہے تھےمومن وہ شخص ہے کہ جب وہ کوئی ظلم یامعصیت کاارادہ کرےاوراس سے یہ کہاجائے کہ اللہ سے ڈرجاؤتواس کادل اللہ تعالیٰ کے خوف سے دہل جائے۔[7]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، فِی قَوْلِهِ:  {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ} قَالَ: الْوَجَلُ فِی الْقَلْبِ كَإِحْرَاقِ السَّعَفَةِ، أَمَا تَجِدُ لَهُ قَشْعَرِیرَةً؟ قَالَ: بَلَى. قَالَ: إِذَا وَجَدْتَ ذَلِكَ فِی الْقَلْبِ فَادْعُ اللَّهَ، فَإِنَّ الدُّعَاءَ یَذْهَبُ بِذَلِكَ

ابو درداء رضی اللہ عنہ آیت کریمہ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں  جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  کہ دل کانپنے سے مرادیہ ہے کہ جس طرح کھجورکی شاخ جلتی ہے اس طرح اس کے تن بدن میں  ایک سوزش سی پیداہوجاتی ہے اوراس پرکپکپی طاری ہوجاتی ہے ،جب تیری یہ کیفیت ہوتواس وقت اللہ سے دعامانگ کیونکہ ایسے وقت کی دعاقبول ہوتی ہے۔[8]

اوربشری تقاضے سے اگران سے کوئی برائی سرزدہوجاتی ہے تواس پر اصرار کرنے کے بجائے اللہ سے اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں ،جوفرض اورنفل نمازجیسی اعلیٰ عبادت کومقررہ اوقات پرحضورقلب کے ساتھ قائم کرتے ہیں ،

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ، قَوْلُهُ: {یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ} إِقَامَتُهَا: الْمُحَافَظَةُ عَلَى مَوَقِیتُهَا، وَإِسْبَاغِ الطُّهُورِ فِیهَا، وَتَمَامُ رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا، وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ فِیهَا وَالتَّشَهُّدِ وَالصَّلَاةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَهَذَا إِقَامَتُهَا

مقاتل بن حیان نے آیت’’جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں  کہاہے کہ اقامت صلاة سے مرادیہ ہے کہ نمازکواوقات کے مطابق اداکیاجائے، طہارت کاخوب خوب اہتمام کیاجائے، رکوع وسجودصحیح طریقے سے اداکیے جائیں ، نمازمیں  قرآن مجیدکی اچھی طرح تلاوت کی جائے،اورتشہدمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی پردرودشریف کاخاص اہتمام کیاجائے، یہ ہے اقامت صلاة کامفہوم۔[9]

اوراللہ کے حق کی ادائیگی کے ساتھ وہ بندوں  کے حقوق کوبھی نہیں  بھولتے اس لئےاللہ نے اپنی رحمت سے جومال ان کوعنایت فرمایا ہے اسے بیویوں  ،اولادوں  ،عزیز واقارب ، غلاموں  ، بیواؤں  ، یتیموں  ،محتاجوں  اور بھلائی کے دوسرے کاموں  پرخرچ کرتے ہیں  ، اس طرح بتدریج ان کے ایمان میں  اضافہ ہوتاچلاجاتاہے ،کیونکہ انہوں  نے اسلام اورایمان ، اعمال باطنہ وظاہرہ،علم وعمل اورحقوق اللہ اورحقوق العبادکی ادائیگی کوجمع کیااس لئے وہی حقیقی مومن ہیں ،ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات بلندہوں  گے،

ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۝۱۶۳ [10]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے یہاں  بڑے مختلف درجوں  کے ہیں ، اور اللہ پوری طرح دیکھنے والا ہے ان تمام کاموں  کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَهْلَ عِلِّیِّینَ لَیَرَاهُمْ مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُمْ (كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ  الدُّرِّیَّ فِی أُفُقِ السَّمَاءِ) قَالُوا یَا رَسُولَ اللهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الأَنْبِیَاءِ لاَ یَبْلُغُهَا غَیْرُهُمْ، قَالَ:بَلَى وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ  رِجَالٌ آمَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا المُرْسَلِینَ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک اعلی درجے والے اپنے سے نچلے درجے والے لوگوں  کودیکھیں  گے،جس طرح تم روشن ستارے کوآسمان کے کناروں میں  دیکھتے ہو، صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توانبیائے کرام ہوں  گے اوردوسرے لوگ ان کے درجات کونہیں  پاسکیں  گے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیوں  نہیں !اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! یہ تووہ لوگ ہوں  گے جواللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لائے اورجنہوں  نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں  کی تصدیق کی[11]

خط کشیدہ الفاظ مسند احمد میں  ہیں ۔

أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّهُ سَمِعَهُ یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَیَرَوْنَ أَهْلَ عِلِّیِّینَ، كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّیَّ فِی أُفُقِ السَّمَاءِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَمِنْهُمْ وَأَنْعَمَا

ایک اورروایت ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااہل جنت علیین والے لوگوں  کواس طرح دیکھیں  گے جس طرح تم آسمان کے کنارے پرروشن تارے کودیکھتے ہو بلاشبہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بھی انہی بلنددرجات والے لوگوں  میں  ہوں  گے اوران کے لیے یہ کیاخوب قسمت کی بات ہے۔[12]

ان کے گناہوں  کی بخشش ہوگی اورجنتوں  کابہترین رزق کوجسے نہ توکسی آنکھ نے نہیں  دیکھا ہے ،نہ کسی کان نے سناہے اورنہ کسی کاوہم وخیال تک پہنچ سکتاہے ہمیشہ کے لئے ان کے مقدرمیں  لکھ دیاجائے گا۔

عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ:كَیْفَ أَصْبَحْتَ یَا حَارِثُ؟قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا،قَالَ:انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ، فَإِنَّ لِكُلِّ شَیْءٍ حَقِیقَةً، فَمَا حَقِیقَةُ إِیمَانِكَ؟فَقَالَ: عَزَفَت نَفْسِی عَنِ الدُّنْیَافَأَسْهَرْتُ لَیْلِی، وَأَظْمَأْتُ نَهَارِی وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّی بَارِزًا وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ یَتَزَاوَرُونَ فِیهَاوَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ یَتَضاغَوْن فِیهَا،فَقَالَ:یَا حَارِثُ، عَرَفْتَ فَالْزَمْ ثَلَاثًا

حارث بن مالک انصاری  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے حارث رضی اللہ عنہ ! تمہاری صبح کس حال میں  ہوئی؟میں  نے عرض کیامیری سچے مومن ہونے کی حالت میں  صبح ہوئی ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سمجھ لوکہ کیاکہہ رہے ہو؟ہرچیزکی حقیقت ہواکرتی ہے،جانتے ہوایمان کی حقیقت کیا ہے؟عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں  نے اپنی خواہشات دنیاسے الگ کرلیں ،راتیں  اللہ تعالیٰ کی یادمیں  جاگ کراوردن اللہ کی راہ میں  بھوکا پیاسارہ کر گزارتا ہوں گویامیں  اللہ کے عرش کواپنی نگاہوں  کے سامنے دیکھتارہتاہوں اورگویاکہ میں  اہل جنت کودیکھ رہاہوں  کہ وہ آپس میں  ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں  ، اور گویاکہ میں  اہل دوزخ کودیکھ رہاہوں  کہ وہ دوزخ میں  جل جھن رہے ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےحارث! تونے حقیقت جان لی پس اس حال پرہمیشہ قائم رہناتین مرتبہ یہی فرمایا۔[13]

كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَیْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ لَكَارِهُونَ ‎﴿٥﴾‏ یُجَادِلُونَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَأَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ یَنظُرُونَ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذْ یَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَیُرِیدُ اللَّهُ أَن یُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٧﴾‏ لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٨﴾‏(الانفال )
’’ جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی ،وہ اس حق کے بارے میں، اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکنے کے لیے جاتا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں ،اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو ! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے، تاکہ حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں۔‘‘

جب یہ بات ظاہرہوگئی کہ قافلہ توبچ کرنکل چکاہےاوراب لشکرقریش سے ہی آمناسامناناگزیرہے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں  صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم سے مشاورت فرمائی توکچھ لوگ اپنی معاشی بے سروسامانی ،قلت تعداداورقلت اسلحہ کودیکھ کربحث کرنے لگے کہ ان حالات میں  لشکر قریش سے جنگ نہیں  کرنی چاہیے ،ان حالات میں  اگر ہم نے جنگی سروسامان سے آراستہ اتنے بڑے لشکرسے ٹکرلے لی تویہ ہمارے حق میں  نہایت نقصان دہ ثابت ہوگااورکفرکازوراوربڑھ جائے گا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایااس مال غنیمت کے معاملہ میں  بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اس وقت پیش آئی تھی جبکہ تیرارب تجھے قریش کے لشکرسے فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لئے مدینہ منورہ سے نکال لایا تھا، اورمومنوں  میں  سے چندلوگ اپنی بے سروسامانی اورقلت تعدادکودیکھ کرلشکرقریش سے لڑنامناسب نہیں  سمجھ رہاتھا اوراس سلسلہ میں  تجھ سے بحث وتکرارکررہا تھا ، بالآخر اکثر مسلمانوں  کی رائے سے یہ طے ہوا کہ نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے مدینہ منورہ سے باہرنکل کر لشکرقریش سے مردانہ وار مقابلہ کرناچاہیے،چنانچہ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ معرکہ ہوکررہے گاتواس وقت جنگ سے گریزکرنے والوں  کے دلوں  کی کیفیت یہ تھی کہ گویاوہ آنکھوں  دیکھتے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں  ،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ موقع یادکروجب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ لشکرقریش یاقافلہ قریش میں  سے ایک پرتمہیں  فتح سے نوازے گا مگرتم لوگوں  کی خواہش یہ تھی کہ قافلہ قریش تمہارے ہاتھ لگ جائے تاکہ بغیرجنگ وجدال کے وافرمال واسباب مل جائے،مگراللہ تعالیٰ کی مصلحت یہ تھی کہ مسلمانوں  کی اس وقت زیادہ تیاری اوراہتمام کے نہ ہونے کے باوجود شوکت وشان والی ، قوت وگھمنڈ والی ،جنگجو جماعت سے مڈبھیڑ ہو جائے اور مسلمان کفارکی فوج جس کے اندر بڑے سرداراور بہادر شہسوارشامل تھے سے آمناسامناہوجائے تاکہ تمہارارب اپنے کلمات سے حق کوصداقت کے شواہدوبراہین کے ساتھ ظاہرکرکے سچا وثابت کردے اورباطل کے بطلان پر دلائل اور شواہدقائم کرکے کافروں  کی جڑہی کاٹ ڈالےتاکہ کفارکی ہمت ٹوٹ جائے اوردین حق نکھرکر سامنے آجائے،اورتمام دینوں  پراونچاہوجائے خواہ مجرموں  کویہ کتناہی ناگوارہو۔

إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّی مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِینَ ‎﴿٩﴾‏ وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿١٠﴾‏(الانفال )
’’اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لیے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے ۔‘‘

چنانچہ دعوت اسلام اوراسلامی ریاست کوبچانے کے لئےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ۳۱۳ بے سروساماں  اورنہتےمومنین کوساتھ لے کرلشکرقریش سے مقابلہ کرنے کے لئےمیدان بدرمیں  آگئے،مسلمانوں  کے مدمقابل مشرکین مکہ کالشکرایک ہزارافرادپرمشتمل تھااوران کے پاس اسلحہ اورخوراک کی بھی فراوانی تھی،اگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم صرف دعاؤں  پرہی گزاراکرتے تومدینہ منورہ میں  بیٹھ کردعائیں  مانگی جاسکتی تھیں  کہ اے اللہ!لشکرقریش کوراستے میں  ہی موت سے ہمکنارفرمادے،لیکن یہ اللہ اوراس کے رسول کی سنت نہیں ،جوکچھ بھی ان کے پاس تھاخواہ وہ افرادی قوت تھی یاحربی قوت ،سب کومیدان بدرمیں  صف آراکردیاگیااورجوکچھ کیاجاسکتاتھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کرگزرے اورانتظام واہتمام کرنے کے بعدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عریش (ہیڈکوارٹر)میں  نہایت الحاح وزاری کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں  ہاتھ اٹھادیئے یہاں  تک کہ چادرمبارک کندھوں  سے اترگئی ، اس ساری تگ ودواوربھاگ دوڑکودیکھ کررحمت باری نے دعاؤں  کوقبول فرمایااورتمہاری پکارکے جواب میں  بشارت سنائی کہ میں  تمہاری مددکے لئے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار ایک ہزارفرشتے بھیج رہاہوں جوتمہارے شانہ بشانہ جنگ میں  عملاًحصہ لیں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: وَأَمَدَّ اللهُ نَبِیَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِینَ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَكَانَ جِبْرِیلُ فِی خَمْسِمِائَةٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُجَنِّبة، وَمِیكَائِیلُ فِی خَمْسِمِائَةٍ مُجَنِّبة

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اورمومنوں  کی ایک ہزارفرشتوں  کے ساتھ مددفرمائی،جن میں  پانچ سوفرشتوں  کی قیادت جبریل  علیہ السلام  کررہے تھے اورپانچ سوکی قیادت میکائیل  علیہ السلام کے پاس تھی۔[14]

تمہاری مددکے لئےفرشتوں  کوبھیجنے کی بات اللہ نے تمہیں  صرف اس لئے بتائی ہے تا کہ تمہیں  فتح ونصرت کی خوشخبری ہواورتمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں ورنہ مددتوجب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، فتح کثرت تعداد اور سازوسامان سے حاصل نہیں  ہوتی ،یقیناًاللہ غالب اورحکمت والا ہے۔

إِذْ یُغَشِّیكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّیُطَهِّرَكُم بِهِ وَیُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ وَلِیَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ‎﴿١١﴾(الانفال)
’’ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے۔‘‘

اطمنان بخش غنودگی :یہ کفرواسلام کی پہلی جنگ تھی،بیشک مجاہدین کے قلوب یقین محکم سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ کی مددایک ہزارملائکہ کی شکل میں  شامل حال تھی مگر پھربھی دلوں  میں  کچھ گھبراہٹ تھی کہ نتیجہ جانے کیانکلتاہے،کیاہم جنگی سروسامان سےآراستہ لشکر کفارکوجن کی پشت پرتمام قبائل عرب کھڑے ہیں  شکست دے سکیں  گے وغیرہ ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  پرایک غنودگی بھیج دی جس سے مسلمانوں  کے دلوں  سے تمام گھبراہٹ اوروسوسے نکل گئے اوران پراطمینان وسکون کی ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: النُّعَاسُ فِی الْقِتَالِ مِنَ اللهِ، وَفِی الصَّلَاةِ مِنَ الشَّیْطَانِ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں میدان جنگ میں  اونگھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی ہوتی ہے مگرنمازمیں  اونگھ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔[15]

غزوہ احدکے موقعہ پربھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  پر اطمینان بخش اونگھ ڈال دی تھی ،جیسے فرمایا

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ ۔۔۔۝۱۵۴ [16]

ترجمہ:اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں  سے کچھ لوگوں  پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کر دی کہ وہ اونگھنے لگے۔

اوریہ بھی اللہ کافضل وکرم اور اس کالطف و رحم تھا کہ رات کو اس نے آسمان سے تمہارے اوپرپانی برسا یا تاکہ تمہیں  پاک کرے اورتمہارے دلوں میں  شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں  کو دورکرے اورتمہاری ہمت بندھائے، اوراس بارش کے ذریعہ سے غبارجم گیا، ریتلی زمین سخت ہوگئی جس سے تمہارے قدم اچھی طرح جم گئے اورتمہاری نقل وحرکت آسان ہوگئی اورمشرکین جونشیب میں سخت زمین پرتھے ان کی طرف پانی کھڑاہوگیاجس سے کیچڑاورپھسلن ہوگئی اورانہیں  چلناپھرنادشوارہوگیا۔

إِذْ یُوحِی رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّی مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ‎﴿١٢﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَمَن یُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿١٣﴾‏ ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ ‎﴿١٤﴾‏ (الانفال )
’’ اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو ،یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی،اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے،سو یہ سزا چکھو اور جان رکھو کہ کافروں کے لیے جہنم کا عذاب مقرر ہی ہے۔‘‘

اوروہ وقت جبکہ تمہارارب فرشتوں  کواشارہ کررہاتھاکہ میری مدد،نصرت اورتائید تمہارے ساتھ ہے ،پس تم اہل ایمان کے دلوں  کودشمن کے مقابلے میں  مضبوط کرواوران کے  دلوں  کوجرات سے لبریزکردواورانہیں  جہادکی ترغیب دو،میں  بھی ان کافروں  کے دلوں  میں  دہشت اوررعب ڈالے دیتاہوں  پس تم ان کی فخرو غرورسے تنی گردنوں  اورسروں  پرمارو،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَضَرْبَ الرِّقَابِ۔۔۔ ۝۴ [17]

ترجمہ:ان کی گردنیں  مارو۔

اورہاتھوں اورپیروں  کے جوڑجوڑپرتاک تاک کرچوٹ لگاؤتاکہ یہ معذور ہو جائیں ، یہ سزاانہیں  اس لئے دی جارہی ہے کہ انہوں  نے اپنے رب اللہ وحدہ لاشریک کے پسندیدہ دین اسلام کوقبول کرنے سے انکارکردیا اوراس کے سچے رسول کی مخالفت کی ہے ،اوریادرکھوجوشخص بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کرے گاتواللہ اس کودردناک عذاب دے گا، یہ ہے تم لوگوں  کے اعمال کی سزا،اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کرنے والو!(اس دنیاکے)فوری عذاب کا مزا چکھ لو، اور اس کے بعدحق کی تکذیب کرنے والوں  کے لیے دوزخ کادردناک عذاب ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ ‎﴿١٥﴾‏ وَمَن یُوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿١٦﴾‏(الانفال )

’’ اے ایمان والو ! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستشنٰی ہے ، باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا، اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوشجاعت ایمانی ،اللہ کے معاملے میں  قوت اوردلوں  وجسموں  کومضبوط کرنے والے اسباب فراہم کرنے کاحکم دیااورفرمایااے مسلمانوایک بات ہمیشہ یادرکھناجب تمہارے پاس جدیداسلحہ اورتجربہ کارمستقل فوج بھی ہے تو جب دشمن کے مدمقابل صف آرا ہوجاؤ،فوجیں  ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہی ہوں ،جنگجوایک دوسرے کے قریب آچکے ہوں پھرچاہے کیساہی گھمسان کارن پڑے جان بچانے کے لئے پیٹھ پھیرکرنہیں  بھاگنابلکہ دشمنوں  سے لڑنے کے لئے ثابت قدمی سے ڈٹ جانا اور ان کی قوت اورحملے کاصبرسے مقابلہ کرنا،کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت ،اہل ایمان کے دلوں  کی مضبوطی اوردشمنوں  کوخوف زدہ کرنے کاباعث ہوگی ،ہاں  دوصورتیں  اس سے مستثنیٰ ہیں  ایک یہ کہ لڑائی میں  جنگی چال کے طورپریادشمن کودھوکے میں  ڈالنے کی غرض سے کوئی گروہ لڑتالڑتاایک طرف پھرجائے جس سے دشمن یہ سمجھے کہ شایدیہ شکست خوردہ ہوکربھاگ رہاہے لیکن وہ یک دم پینترابدل کراچانک دشمن پرحملہ کردے ،دوسرے یہ کہ دشمن کے شدیددباؤپر کوئی مجاہدلڑتالڑتاتنہارہ جائے توبہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہوجائے تاکہ اپنی جماعت کی طرف کمک حاصل کرے اوراس کی مددسے دوبارہ حملہ کرے ،جیساکہ صحیح احادیث میں  واردہواہے کہ کسی عذرکے بغیرمیدان جنگ سے فرارہوناسب سے بڑاگناہ ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:الشِّرْكُ بِاللهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ مَالِ الْیَتِیمِ وَأَكْلُ الرِّبَا وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسات گناہوں  سے جوتباہ کردینے والے ہیں  بچتے رہو!صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون سے گناہ ہیں  ؟ فرمایااللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھیرانااورجادوکرنااورکسی کی ناحق جان لیناکہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیاہےاور یتیم کامال کھانااورسودکھانااورلڑائی میں  سے بھاگ جانا   اورپاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں  پرتہمت لگانا۔[18]

باقی اورجوایساکرے گاوہ اللہ کے غضب میں  آجائے گااوراس کا ٹھکانادوزخ ہوگاجوبہت ہی بری جگہ ہے۔

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٧﴾‏ ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَیْدِ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٨﴾‏ (الانفال )
’’سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا، اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ پھینکی،اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،(ایک بات تو) یہ ہوئی اور (دوسری بات یہ ہے) اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا تھا۔‘‘

جب غزوہ بدرمیں  مشرکین کوعبرتناک شکست ہوئی اورمسلمانوں  نے ان کوچن چن کرقتل کیاتواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس ضمن میں  مسلمانوں  کوخودفریبی سے نکالنے کے لئے فرمایا یہ نہ سمجھ لینا کہ مشرکین کے بڑے بڑے سترسرداروں  کوقتل کرنے کاکارنامہ تمہاراہے ،ایساہرگزنہیں بلکہ یہ اللہ کی غائبانہ مددکانتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں  یہ طاقت حاصل ہوئی ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــةٌ۔۔۔۝۰۝۱۲۳ [19]

ترجمہ:اور اللہ بدر کی لڑائی میں  تمہاری مدد کر چکا ہے حالانکہ تم کمزور تھے ۔

اوراللہ تعالیٰ نے صرف غزوہ بدرہی میں  نہیں  بلکہ مختلف مواقع پرتمہاری مددکرچکاہے،جیسے فرمایا

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ۝۰ۙ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۝۲۵ۚ [20]

ترجمہ:اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے، ابھی غزوۂ حنین کے روز ( اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں  اپنی کثرتِ تعداد کا گھمنڈ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور  زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

ایک مقام پرفرمایا

 ۔۔۔كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۝۲۴۹  [21]

ترجمہ: بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے، اللہ صبر کرنے والوں  کا ساتھی ہے۔

اوراے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  ! لڑنے والے مسلمان ہی تھے اورتلواریں  اورنیزے بھی انہوں  نے چلائے تھے لیکن یہ میں  لڑرہاتھااورغصہ سے شَاهَتْ الْوُجُوهُ کہہ کر جوخاک کی مٹھی تم نے کفارکی طرف پھینکیں  تھیں  وہ تمہارے ہاتھ سے تمہارے بازوکے ذریعہ سے میں  نے پھینکی تھیں  جس سے ان کی طاقت ٹوٹ گئی،ان کے ہاتھ شل ہوگئے ان کے اندر کمزوری اوربزدلی ظاہرہوئی جس سے وہ شکست کھاگئے کیونکہ جو کچھ ہوتاہے سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتاہے،تم نے ممکن حدتک اسباب ووسائل اختیارکیے اورپھران مادی اسباب پربھروسہ کرنے کے بجائے اسباب پیدا کرنے اوراس میں  تاثیررکھنے والی ذات پر کیا اس لئے یہ تائیدونصرت اللہ کاانعام ہے،اس لئے ہمیشہ یادرکھو

۔۔۔ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِیْعًا۔۔۔۝۰۝۱۶۵   [22]

ترجمہ:ساری طاقتیں  اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں  ہیں  ۔

‏ إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِیَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٩﴾(الانفال )
’’اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا اور اگر باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے نہایت خوب ہے اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کام کریں گے اور تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیادہ ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

تمہارے خواہش کے مطابق حق وباطل کوواضح کردیاگیاہے، تم اپنی طاقت وجمعیت کے غرورمیں  سے حق کومٹانے اورحزب اللہ کوفناکرنے کے لیےنکلے تھےمگرخودہی بے سروساماں  مجاہدین کے ہاتھوں  عبرت ناک شکست کھائی، یاد رکھو حق ہمیشہ ہی سربلندرہاہے اورہمیشہ ہی سربلندرہے گا ،

۔۔۔وَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْیَا۔۔[23]

ترجمہ:۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔

لہذاتمہارے لئے بہتریہی ہے کہ اسلام کے خلاف معاندانہ کاروائیوں  کے بجائے دائرہ اسلام میں  داخل ہوجاؤ،دنیاوآخرت میں کامیاب رہوگے،اور اگراپنے فخر و غرور میں  دین باطل کوزندہ کرنے کی کوشش میں  تم نے دوبارہ ایسی حماقت کی توہم بھی تمہیں  اس سے زیادہ ذلیل ورسواکریں  گے جیسااب تم ہوچکے ہواوردنیامیں  تمہارا کہیں  ٹھکانہ نہ ہوگا ، اللہ ہمیشہ سچ کے ساتھ ہوتاہے،ابوجہل اوررؤسائے قریش نے مکہ سے راونگی کے وقت بیت اللہ کاغلاف پکڑکر اللہ تعالیٰ سے دعامانگی تھی

  وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ  [24]

ترجمہ: اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں  نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

اورروایت ہے کہ یہ بھی کہا:

اللهم أعن أَعَزَّ الْفِئَتَیْنِ

اے اللہ !ان دونوں  گروہوں  میں  جوحق پرہواسے سر بلندفرما۔[25]

اورغزوہ بدرکے دن ابوجہل نے کہاتھا

اللهمّ  أَقْطَعَنَا لِلرَّحِمِ، وَآتَانَا بِمَا لَا یُعْرَفُ، فَأَحِنْهُ  الْغَدَاةَ

اے اللہ ! ہم میں  سے جورشتوں  ناتوں  کوتوڑنے والاہواورغیرمعروف چیزلے کرآیاہواسے ہلاک کردے ۔[26]

پس اللہ تعالیٰ نے یہی کیااوریہ اوراس کالشکرشکست فاش سے دوچار ہوئے۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِی صُعَیْرٍ الْعُذْرِیُّ، قَالَ: كَانَ الْمُسْتَفْتِحَ أَبُو جَهْلٍ فَإِنَّهُ قَالَ حِینَ الْتَقَى الْقَوْمُ: اللَّهُمَّ أَیُّنَا كَانَ أَقْطَعَ لِلرَّحِمِ، وَآتَانَا بِمَا لَا نَعْرِفُ، فَاحْنِهِ الْغَدَاةَ، فَكَانَ ذَلِكَ اسْتِفْتَاحَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ} [27] إِلَى قَوْلِهِ {وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ} [28]

عبداللہ بن ثعلبہ سے مروی ہےابوجہل نے کعبہ کے غلاف کوپکڑکرکہااے اللہ!وہ قطعہ رحمی کرنے والاہے اوراس چیزکی دعوت دیتاہے جسے ہم نہیں  جانتے،  پس اللہ تعالیٰ نے یہی کیااوریہ اوراس کالشکرشکست فاش سے دوچارہوئے،اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’(ان کافروں  سے کہہ دو)اگرتم فیصلہ چاہتے تھے تولوفیصلہ تمہارے سامنے آ گیا ہے ۔‘‘ نازل فرمائی۔ [29]

وَذَكَرَ الْأُمَوِیُّ أَنَّ أَوَّلَ مَنْ نَحَرَ لَهُمْ حِینَ خَرَجُوا مِنْ مَكَّةَ أَبُو جَهْلٍ نَحَرَ لَهُمْ عَشْرًا

اوراموی بیان کرتے ہیں ابوجہل نے(حلیف قبائل پرمشتمل) لشکرکے مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے سے پہلے نیک فال کے طورپردس اونٹ ذبح کیے۔[30]

جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوفتح ونصرت سے ہمکنارکیاتوان کی دعا کے جواب میں فرمایاتم حق اورباطل کے درمیان فیصلہ طلب کررہے تھے توتمہاری خواہش کے مطابق حق وباطل کوواضح کردیاگیاہے،

عَنِ السُّدِّیِّ، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ حِینَ خَرَجُوا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ  أَخَذُوا بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ  وَاسْتَنْصَرُوا اللهَ، وَقَالُوا: اللهُمَّ انْصُرْ أَعَزَّ الْجُنْدَیْنِ وَأَكْرَمَ الْفِئَتَیْنِ  وَخَیْرَ الْقَبِیلَتَیْنِ، فَقَالَ اللهُ: {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ}یَقُولُ: نَصَرْتُ مَا قُلْتُمْ ،وَهُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  مشرکین جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف مکہ مکرمہ سے نکلنے لگےتوانہوں  نے غلاف کعبہ کوپکڑلیااوراللہ تعالیٰ سے مددطلب کرنے لگےاور کہنے لگے اے اللہ!دونوں  لشکروں  میں  سے اعلی،دونوں  جماعتوں  میں  سے زیادہ معزز اوردونوں  قبیلوں  میں  سے بہترکوفتح ونصرت عطافرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اگرتم فیصلہ چاہتے تھے تولوفیصلہ تمہارے سامنے آگیاہے۔‘‘ تم نے جوکہااس کے مطابق میں  نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوفتح ونصرت عطافرمادی ہے۔[31]

تم اپنی طاقت وجمعیت کواکٹھاکرکے بڑے کروفر سے دین حق اوراس کے ماننے والوں  کومٹانے نکلے تھےمگرخودہی بے سروساماں  مجاہدین کے ہاتھوں  عبرت ناک شکست کھائی ، یاد رکھو حق ہمیشہ ہی سربلندرہاہے اورہمیشہ ہی سربلندرہے گا لہذا تمہارے لئے بہتریہی ہے کہ اسلام کے خلاف معاندانہ کاروائیوں  کے بجائے دائرہ اسلام میں  داخل ہو جاؤ دنیاوآخرت میں کامیاب رہوگے،اور اگراپنے فخر و غرور میں  دین باطل کوزندہ کرنے کی کوشش میں  تم نے دوبارہ ایسی حماقت کی توہم بھی تمہیں  اس سے زیادہ ذلیل ورسواکریں  گے جیسااب تم ہوچکے ہواوردنیامیں  تمہارا کہیں  ٹھکانہ نہ ہوگا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا۔۔۔۝۸ [32]

ترجمہ: لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں  گے۔

اللہ ہمیشہ سچ کے ساتھ ہوتاہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُونَ ‎﴿٢١﴾‏ ۞ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِینَ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِیهِمْ خَیْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٢٣﴾(الانفال)
’’اے ایمان والو ! اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اس (کا کہنا ماننے) سے روگردانی مت کرو سنتے جانتے ہوئے، اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ سنتے( سناتے کچھ) نہیں،بے شک بدترین خلائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جوبہرے ہیں گونگے ہیں جوکہ (ذرا) نہیں سمجھتے، اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنادے تو ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے ۔‘‘

اللہ کی نگاہ میں  بدترین مخلوق :جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہے،اس لئے انہیں  حکم فرمایاکہ وہ ایمان کے تقاضوں  کوپوراکریں ،چنانچہ فرمایااے ایمان لانے والو! اپنے رب  اللہ رب العالمین اور اس کے بھیجے ہوئے رسُول کی اطاعت کرو،وہ جس کام کاحکم دیں  اسے خوش دلی سے بجالاؤاورجس سے روک دیں  اس سے رک جاؤ اوراللہ تعالیٰ کی کتاب ،اس کے اوامر،اس کی وصیتوں  اوراس کی نصیحتوں  کی جوتلاوت کی جاتی ہےاسے سننے کے بعد اس سے روگردانی نہ کرو، اورمنافقین کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں  نے کہا کہ ہم نے دعوت حق کوسنا مگراحکام کی اطاعت سے منہ موڑجاتے ہیں  ،یعنی مجردخالی خولی دعوؤں  پراکتفانہ کروجن کی کوئی حقیقت نہیں ،کیونکہ ایمان محض تمناؤں  اوردعوؤں  سے مزین ہونے کانام نہیں  ہے بلکہ ایمان وہ ہے جودل میں  جاگزیں  ہواوراعمال اس کی تصدیق کریں ،یقینًا اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں  جونہ حق سنتے ہیں نہ حق بولتے ہیں  اورنہ کسی ایسی چیزکوسمجھ سکتے ہیں  جوان کوفائدہ دیتی ہے اورنہ اسے اس چیزپرترجیح دیے سکتے ہیں  جوانہیں  نقصان پہنچاتی ہے، ایک مقام پرایسے لوگوں  کو جانوروں  سے تشبیہ دی گئی ہے،

 وَمَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱ [33]

ترجمہ:یہ لوگ جنہوں  نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں  کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں  سنتے، یہ بہرے ہیں  ، گونگے ہیں  ، اندھے ہیں  اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں  نہیں  آتی۔

ایک مقام پرانہیں  جانوروں  سے بھی بدترقرار دیاگیاہے۔

۔۔۔ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ [34]

ترجمہ: ان کے پاس دل ہیں  مگر ہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں  ہیں  مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ،ان کے پاس کان ہیں  مگر وہ ان سے سنتے نہیں  ، وہ جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں  جو غفلت میں  کھوئے گئے ہیں  ۔

اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں  حق پرستی اورحق کے لئے کام کرنے کا کچھ بھی جذبہ ہے تو وہ ضرور انہیں  صحیح فہم عطافرمادیتاجس سے وہ حق کوقبول کرلیتے اوراسے اپنالیتے ،لیکن خیرکی طلب کے بغیر اگر وہ ان کو سُنوادے توکسی طوربھی حق کی طرف التفات نہیں  کریں  گے اورنہ اپنی سرکشی اوربغاوت سے باز آئیں  گے اور بے رُخی کے ساتھ منہ پھیرکربھاگ کھڑے ہوں  گے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ (الانفال )
’’اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ ،جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔ ‘‘

دل رب کی انگلیوں  میں  ہے:اگرتمہیں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرکامل یقین ہے توپھراس کے مبعوث کیے ہوئے پیغمبرسیدالامم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرجان نثاری کرنابھی سیکھو اور یاد رکھو تمہارامعاملہ اللہ کے ساتھ ہے جوتمہاری خواہشیں ،اغراض ومقاصداورخیالات سے خوب باخبرہے، اورایک مقررہ دن تم سب اسی کے روبروجمع کیے جاؤگے جس کے آنے میں  کوئی شک وشبہ نہیں ،جہاں  وہ نیکوکاروں  کوان کی نیکی کی جزااوربدکاروں  کوان کی بدی کی سزادے گا،اس لئے اللہ اوراس کے رسول کی بات پرلبیک کہو،انہوں  نے جوحکم دیاہے اس کی تعمیل کرواوراس کی تعمیل کے لئے سبقت کرواوراس کی طرف لوگوں  کواچھے طورپردعوت دواورانہوں  نے جس چیزسے روکاہے اس سے بازرہواوراس سے اجتناب کرواسی میں  تمہاری دنیاوآخرت کی بھلائی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اللہ اوررسول کی پکارپرلبیک نہ کہنے پرڈراتے ہوئے فرمایاکہ جب اللہ کاحکم پہلی بارتمہارے پاس آئے تواس کو ٹھکرانے سے بچوکیونکہ پھراگراس کے بعداس کاارادہ کروگے تواللہ تعالیٰ اس کے اورتمہارے درمیان حائل ہوجائے گااورتمہارے دلوں  میں  اختلاف پیدا ہو جائے گاکیونکہ اللہ تعالیٰ بندے اوراس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتاہے جیسے چاہتاہے اسے ادل بدل کرتاہے اورجیسے چاہتاہے اس میں  تصرف کرتاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ} قَالَ: یَحُولُ بَیْنَ الْمُؤْمِنِ وَالْكُفْرِ، وَبَیْنَ الْكَافِرِ وَالْإِیمَانِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  آیت کریمہ’’ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں کہ اللہ مومن اورکفرکے درمیان اورکافراورایمان کے درمیان حائل ہوجاتاہے۔[35]

وَقَالَ السُّدِّیُّ: یَحُولُ بَیْنَ الْإِنْسَانِ وَقَلْبِهِ، فَلَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یُؤْمِنَ وَلَا یَكْفُرَ إِلَّا بِإِذْنِهِ

سدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  اس کی معنی یہ ہیں  کہ اللہ تعالیٰ انسان اوراس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیرنہ ایمان لاسکتاہے اورنہ کفراختیار کر سکتا ہے ۔[36]

اورایک مقررہ دن تم اسی کی سمیٹے جاؤ گےجس کے آنے میں  کوئی شک وشبہ نہیں  ۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكْثِرُ أَنْ یَقُولَ:یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَى دِینِكَ، فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللهِ، آمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ، فَهَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا؟ قَالَ: فَقَالَ:نَعَمْ، إِنَّ القُلُوبَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ یُقَلِّبُهَا كَیْفَ یَشَاءُ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اکثردعافرمایاکرتے تھے’’اے دلوں  کے پھیرنے والے میرے دل کواپنے دین پرثابت رکھ۔‘‘توہم نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ پراورآپ پرنازل وحی پرایمان لاچکے ہیں کیاپھربھی آپ کوہماری نسبت خطرہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،اللہ کی انگلیوں  میں  سے دو انگلیوں  کے درمیان دل ہیں  وہ جس طرح چاہتاہے ان کاتغیروتبدل کرتارہتاہے۔[37]

النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِیَّ یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا وَهُوَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، إِنْ شَاءَ أَنْ یُقِیمَهُ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَنْ یُزِیغَهُ أَزَاغَهُ ، وَكَانَ یَقُولُ:یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِینِكَ، وَالْمِیزَانُ بِیَدِ الرَّحْمَنِ یَخْفِضُهُ وَیَرْفَعُهُ

نواس بن سمعان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جتنے بھی دل ہیں  وہ اللہ رب العالمین کی انگلیوں  میں  سے دو انگلیوں  کے درمیان ہیں  اگر وہ کسی دل کو سیدھا رکھنا چاہے تو سیدھا رکھتا ہے اور اگر ٹیڑھا کرنا چاہے تو ٹیرھا کر دیتا ہے،اور نبی کریم یہ دعاء فرماتے تھے اے دلوں  کو پلٹنے والے! ہمارے دلوں  کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما اور میزان عمل رب رحمان کے ہاتھ میں  ہے، وہ اسےجھکاتااوراونچی کرتا ہے۔[38]

النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  وَالْمِیزَانُ بِیَدِ الرَّحْمَنِ، یَرْفَعُ أقْوَامًا وَیَخْفِضُ آخَرِینَ، إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

نواس بن سمعان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناترازورحمٰن کے ہاتھ میں  ہے بلندکرتاہے کتنی قوموں  کواورزیرکرتاہےکتنی قوموں  کوقیامت تک ۔[39]

ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھاکہ کیادل پلٹ جاتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی جواب دیا،

أُمَّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُكْثِرُ فِی دُعَائِهِ أَنْ یَقُولَ:اللهُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَى دِینِكَ ،قَالَتْ : قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوَ إِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ؟ قَالَ:نَعَمْ، مَا مِنْ خَلْقِ اللهِ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ بَشَرٍ إِلَّا أَنَّ قَلْبَهُ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ، فَإِنْ شَاءَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ، فَنَسْأَلُ اللهَ رَبَّنَا أَنْ لَا یُزِیغَ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا، وَنَسْأَلُهُ أَنْ یَهَبَ لَنَا مِنْ لَدُنْهُ رَحْمَةً، إِنَّهُ هُوَ الْوَهَّابُ

ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دعاؤں  اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے’’ اے دلوں  کو پھیرنے والے اللہ میرے دل کو اپنے دین پرثابت قدمی عطاء فرما۔‘‘میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیا دلوں  کو بھی پھیراجاتاہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں  ، اللہ نے جس انسان کو بھی پیدا فرمایا اس کا دل اللہ کی دوانگلیوں  کے درمیان ہوتا ہے پھر اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو وہ اسے سیدھا رکھتا ہے اور اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو اسے ٹیڑھا کر دیتا ہے، اس لئے ہم اللہ سے دعاء کرتے ہیں  کہ پروردگار ہمیں  ہدایت عطا فرمانے کے بعد ہمارے دلوں  کو ٹیڑھا نہ کیجئے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں  کہ اپنی جان سے ہمیں  رحمت عطاء فرمائیے، بیشک وہ رحمت عطا فرمانیوالا ہے۔[40]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ كُلَّهَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، یُصَرِّفُ كَیْفَ یَشَاءُ،ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ، اصْرِفْ قُلُوبَنَا إِلَى طَاعَتِكَ

عبداللہ بن عمروبن عاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا تمام انسانوں  کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں  میں  سے دوانگلیوں  کے درمیان ہیں  جس طرح چاہتاہے انہیں  الٹ پلٹ کرتارہتاہے،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی’’ اے دلوں  کے پھیرنے والے اللہ!ہمارے دلوں  کواپنی اطاعت کی طرف پھیر لے۔‘‘ [41]

‏ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٢٥﴾‏(الانفال)
اور تم ایسے وبال سے بچو ! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں  پر واقع نہ ہوگا جو تم میں  سے ان گناہوں  کے مرتکب ہوئے ہیں  اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

برائیوں  سے نہ روکناعذاب الٰہی کاسبب ہے:اورمسلمانوں  کوحکم فرمایاکہ تم خودبھی نیک عمل کیاکریں اورلوگوں  کوبھی نیکی کی ترغیب دیتے رہیں  کیونکہ بدکاری پھیلنے پراللہ کا عذاب ظلم کرنے والوں  اورخاموش رہنے والوں دونوں  کواپنی لپیٹ میں  لے لے گا ،پس تم خاموش نہ رہواوراس عذاب سے جوبالخصوص تم میں  سے ظلموں  کونہیں  بلکہ خاموشی اختیارکرنے والے بھی آلودہ عذاب ہوں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی تَفْسِیرِ هَذِهِ الْآیَةِ: أَمَرَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ أَلَّا یُقِرُّوا الْمُنْكَرَ بَیْنَ ظَهْرَانِیهِمْ إِلَیْهِمْ فَیَعُمَّهُمُ اللهُ بِالْعَذَابِ

ابن عباس  رضی اللہ عنہ  نے اس آیت کی تفسیرمیں  فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں  کوحکم دیاہے کہ وہ اپنے معاشرے میں  برائی کوباقی نہ رہنے دیں  ورنہ سب کواللہ تعالیٰ اپنے عذاب کی لپیٹ میں  لے لے گا۔[42]

جیسے اللہ تعالیٰ نے اصحاب سبت کے بارے میں  فرمایا

وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨاۙ اللهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا۝۰ۭ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۝۱۶۴فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕیْــسٍؚبِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵ [43]

ترجمہ:اور انہیں  یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں  سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ تم ایسے لوگوں  کو کیوں  نصیحت کرتے ہو جنہیں  اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہےتو انہوں  نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں  اور اس اُمید پر کرتے ہیں  کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں ،آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں  یاد کرائی گئی تھیں  تو ہم نے ان لوگوں  کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں  کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں  پر سخت عذاب میں  پکڑ لیا۔

اس لئے اس عذاب سے ڈرتے رہواورجان رکھوکہ جوکوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتاہے اوراس کی رضاکوترک کردیتاہے تواللہ تعالیٰ اس کوسخت عذاب دیتاہے ۔

عَنْ حُذَیْفَةَ،  أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَیُوشِكَنَّ اللهُ أَنْ یَبْعَثَ  عَلَیْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلاَ یُسْتَجَابُ لَكُمْ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے کہ یاتوتم اچھی باتوں  کاحکم اوربری باتوں  سے منع کرتے رہوگے یااللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گاپھرتم اس سے دعائیں  مانگوگے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا۔[44]

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ القَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالوَاقِعِ فِیهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِینَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَافَكَانَ الَّذِینَ فِی أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ،فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِی نَصِیبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَافَإِنْ یَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِیعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَیْدِیهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِیعًا

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی حدود پرقائم رہنے والے اوراس میں  گھس جانے والے(یعنی خلاف کرنے والے)کی مثال ایسے لوگوں  کی سی ہے جنہوں  نے ایک کشتی کے سلسلے میں  قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں  بعض لوگوں  کوکشتی کے اوپرکاحصہ ملااوربعض کونیچے کا،پس جولوگ نیچے والے تھے انہیں  (دریا سے) پانی لینے کے لئے اوپروالوں  کے اوپرسے گزرناپڑتا،انہوں  نے سوچا کہ کیوں  نہ ہم اپنے ہی حصہ میں  ایک سوراخ کرلیں  تاکہ اوپروالوں  کوہم کوئی تکلیف نہ دیں ،اب اگراوپروالے بھی نیچے والوں  کومن مانی کرنے دیں  گے توکشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں  گے اوراگراوپروالے نیچے والوں  کاہاتھ پکڑلیں  تویہ خودبھی بچیں  گے اورساری کشتی بھی بچ جائے گی۔[45]

عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ  رَجُلٍ یَكُونُ فِی قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیهِمْ بِالْمَعَاصِی، یَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ یُغَیِّرُوا عَلَیْهِ، فَلَا یُغَیِّرُوا، إِلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَمُوتُوا

جریربن عبداللہ بجلی  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناجوکوئی ایسی قوم میں  ہوکہ ان میں  اللہ کی نافرمانیاں  کی جارہی ہوں  اوروہ لوگ ان کی اصلاح اوران کے بدلنے پر قادرہوں اس کے باوجودوہ ان کی اصلاح نہ کریں  اورانہیں  نہ بدلیں  تواللہ تعالیٰ ان سب کوان کے مرنے سے پہلے عذاب دے گا۔ [46]

وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِیلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِی الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن یَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَیَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿٢٨﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ یَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَیُكَفِّرْ عَنكُمْ سَیِّئَاتِكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿٢٩﴾‏(الانفال )
’’ اور اس حالت کو یاد کرو ! جب کہ تم زمین میں قلیل تھے، کمزور شمار کئے جاتے تھے،اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں، سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو ،اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرواور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو، اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے، اور اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے، اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ ‘‘

اللہ اوراس کے رسول کی خیانت نہ کرو:اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں  کے لئے خصوصی انعامات اوران کے حصول کاطریقہ بھی بیان فرمایاکہ دیکھو مکہ مکرمہ کی پرخطرزندگی میں  تم محکوم ومجبورتھےاورہروقت ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں  ظالم مشرک لوگ تمہیں  نوچ کھوسٹ نہ لیں تواللہ تعالیٰ تمہیں  وہاں سے نکال کرمدینہ منورہ میں  امن کی جگہ پرلے آیا،اپنی مددسے تم کوتقویت دی اورفقراورتنگ دستی کوختم کرکےپاکیزہ چیزوں  کارزق عطافرمایا ،تمہارے ہاتھوں  سے تمہارے دشمن کوشکست فاش دی ،تم نے ان سے مال غنیمت حاصل کیاجس کے ذریعے سے تم مال دارہوگئے ،اس لئے رب کی عظیم نعمت اورکامل احسان پر زبانی نوعیت کانہیں  بلکہ عملی طورپراحسان مانو، اور ہرحالت میں اللہ اوراس کے رسول کی اخلاص وجانثاری کے ساتھ اطاعت کرواورتم پر جوذمہ داریاں  ڈالی جائیں  اسے اخلاص نیت سے پورا کرو،پھراس راہ میں جوبھی مصائب ومشکلات درپیش ہوں  ان پرصبرکرو اوراللہ پربھروسہ کرکے مردانہ وارمقابلہ کرو،وہی مسبب الاسباب تم پرمزیداحسان کرے گااور ان مشکلات میں ایسی ہی آسانیاں  فراہم کرے گا جیسے پہلے کرچکاہے ،اوریادرکھودنیاکی یہ زندگی ہمیشہ نہیں  رہنی ، ہمارا عارضی طور پر عطا کردہ مال ودولت ،اولاداورمرتبہ وحیثیت محض تمہارے امتحانات ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق متعین کردیئے ہیں ،اگرتم میں  کوئی عقل اوررائے ہے توان کی محبت میں  گرفتارہوکرراہ راست سے تجاوز نہ کرجانا،اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم کوچھوٹی سے فانی اورختم ہوجانے والی لذت پر ترجیح نہ دینا،جیسے فرمایا

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۝۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۱۵ [47]

ترجمہ:تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں  ، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

۔۔۔وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً۔۔۔۝۰۝۳۵ [48]

ترجمہ:اور ہم اچھے اور برے حالات میں  ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں  ۔

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹ [49]

ترجمہ:اےلوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ، جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں  ۔

 یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۴ [50]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو! تمہاری بیویوں  اور تمہاری اولاد میں  سے بعض تمہارے دشمن ہیں  ان سے ہوشیار رہو۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِیمَانِ،أَنْ یَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ یُحِبَّ المَرْءَ لاَ یُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ یَكْرَهَ أَنْ یَعُودَ فِی الكُفْرِ كَمَا یَكْرَهُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین خصلتیں  ایسی ہیں  کہ جس میں  یہ پیداہوجائیں  اس نے ایمان کی مٹھاس کوپالیا، اول یہ کہ اللہ اوراس کارسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں ،دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضاکے لئے محبت رکھے،تیسرے یہ کہ وہ کفرمیں  واپس لوٹنے کوایسابراجانے جیسا کہ آگ میں  ڈالے جانے کوبراجانتاہے۔[51]

وَفِی قَوْلِهِ حَلَاوَةُ الْإِیمَانِ اسْتِعَارَةٌ تَخْیِیلِیَّةٌ شَبَّهَ رَغْبَةَ الْمُؤْمِنَ فِی الْإِیمَانِ بِشَیْءٍ حُلْوٍ وَأَثْبَتَ لَهُ لَازِمَ ذَلِكَ الشَّیْءِ وَأَضَافَهُ إِلَیْهِ وَفِیهِ تَلْمِیحٌ إِلَى قِصَّةِ الْمَرِیضِ وَالصَّحِیحِ لِأَنَّ الْمَرِیضَ الصَّفْرَاوِیَّ یَجِدُ طَعْمَ الْعَسَلِ مُرًّا وَالصَّحِیحُ یَذُوقُ حَلَاوَتَهُ عَلَى مَا هِیَ عَلَیْهِ وَكُلَّمَا نَقَصَتِ الصِّحَّةُ شَیْئًا مَا نَقَصَ ذَوْقُهُ بِقَدْرِ ذَلِكَ فَكَانَتْ هَذِهِ الِاسْتِعَارَةُ مِنْ أَوْضَحِ مَا یُقَوِّی اسْتِدْلَالَ الْمُصَنِّفِ عَلَى الزِّیَادَةِ وَالنَّقْص

علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایمان کی حلاوت کے لئے لفظ حلاوت بطوراستعارہ استعمال فرماکرمومن کی ایمانی رغبت کومیٹھی چیزکے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اوراس کے لازمہ کوثابت کیاگیاہے اوراسے اس کی طرف منسوب کیا،اس میں  مریض اورتندرست کی تشبیہ پربھی اشارہ کیاگیاہے کہ صفرادی مریض شہدکوبھی چکھے گاتواسے کڑوالگنے لگے گا اورتندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا،گویاجس طرح صحت خراب ہونے سے شہدکامزہ خراب معلوم ہونے لگتاہے اسی طرح معاصی کاصفراجس کےمزاج پرغالب ہے اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہوگی ،ایمان کی کمی یازیادتی کوثابت کرنے کے لیے مصنف کایہ نہایت واضح اورقوی تراستدلال ہے۔[52]

وَقَالَ الشَّیْخُ مُحْیِی الدِّینِ هَذَا حَدِیثٌ عَظِیمٌ أَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الدِّینِ وَمَعْنَى حَلَاوَةِ الْإِیمَانِ اسْتِلْذَاذُ الطَّاعَاتِ وَتَحَمُّلُ الْمَشَاقِّ فِی الدِّینِ وَإِیثَارُ ذَلِكَ عَلَى أَعْرَاضِ الدُّنْیَا وَمَحَبَّةُ الْعَبْدِ لِلَّهِ تَحْصُلُ بِفِعْلِ طَاعَتِهِ وَتَرْكِ مُخَالَفَتِه

شیخ محی الدین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے ،اس میں  پہلی چیزاللہ تعالیٰ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت قراردے گئی ہے جس سے ایمانی محبت مرادہے،اللہ تعالیٰ کی محبت کامطلب یہ کہ توحیدالوہیت میں  اسے وحدہ لاشریک لہ یقین کرکے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں  لائی جائیں  اورکسی بھی (دیگرمعبود)نبی،ولی،فرشتے،جن ،بھوت،دیوی،دیوتا،انسان وغیرہ کواس کی عبادت کے کلاموں  میں  شریک نہ کیاجائے،کیونکہ کلمہ توحیدکایہی تقاضاہے۔[53]

 وفی ھذہ الکمة نفی واثبات ،نفی الالوہیة عماسوی اللہ تعالیٰ من المرسلین حتیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  والملائکة حتیٰ جبرئیل فضلاعن غیرہم من الاولیاءوالصالحین واثباتھالہ وحدہ لاحق فی ذٰلک لاحدمن المقربین اذافھمت ذٰلک فتامل ھذہ الالوھیة التی اثبتھاکلھالنفسہ المقدسة ونفی عن محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجبرئیل وغیرھماان یکون لھم مثقال حبة من خردل منھا

علامہ نواب صدیق حسن خاں   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس کلمہ طیبہ میں  نفی اوراثبات ہے ،اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس کے سواہرچیزکے لیے الوہیت کی نفی ہے حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجبرئیل علیہ السلام  تک کے لیے بھی نفی ہے ،پھر دیگر (معبود) اولیاوصلحاکاتوذکرہی کیاہے ،الوہیت خالص اللہ کے لیے ثابت ہے اورمقربین میں  سے کسی کے لیے اس کاکوئی حصہ نہیں  ہے،جب تم نے یہ سمجھ لیاتوغورکروکہ یہ الوہیت وہ ہے جس کواللہ تعالیٰ نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیاہے اوراپنے ہرغیرحتیٰ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )وجبرئیل  علیہ السلام تک سے اس کی نفی کی ہے ،ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابربھی الوہیت کاکوئی حصہ حاصل نہیں  ہے۔[54]

اس حدیث میں  دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں  سے محبت خالص اللہ کے لیے ہواوردشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو،اس میں  نفسانی اغراض کاشائبہ بھی نہ ہو۔

تیسری خصلت اسلام وایمان پراستقامت ہے،حالات کتنے ہی ناسازگارہوں  ایک سچامومن دولت ایمان کوہاتھ سے نہیں  جانے دیتا،اسلامی تاریخ میں  ایسی بہت سی مثالیں  موجودہیں کہ مخلص مسلمین نے جام شہادت توش فرمایامگرارتدادکے لیے تیارنہ ہوئے۔

ایک اورروایت ملاحظہ فرمائیں

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِیمَانِ: أَنْ یَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ یُحِبَّ المَرْءَ لاَ یُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ یَكْرَهَ أَنْ یَعُودَ فِی الكُفْرِ كَمَا یَكْرَهُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاجس شخص میں  یہ تین باتیں  ہوں  گی وہ ایمان کامزہ پالے گا،ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اوراس کے رسول ان کے ماسواسے زیادہ عزیزہوں ،اوردوسرے یہ کہ جوکسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اورتیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفرسے نجات دی ہو،پھردوبارہ کفراختیارکرنے کووہ ایسابراسمجھے جیساکہ آگ میں  گرجانے کوبراسمجھتاہے۔[55]

وھذاالحدیث بمعنیٰ حدیث ذق طعم الایمان من رضی باللہ رباوبالاسلام دیناوبمحمد صلی اللہ علیہ وسلم رسولا،وذٰلک انہ لایصح المحبة للہ ورسولہ حقیقة وحب الآدمی فی اللہ ورسولہ وکراھة الرجوع الی الکفرلایکون الالمن قوی الایمان یقینہ واطمانت بہ مفسہ وانشرح لہ صدرہ وخالط لحمہ ودمہ وھذاھوالذی وجدحلاوتہ والحب فی اللہ من ثمرات حب اللہ

نواب صدیق حسن خاں   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں یہ دوسری حدیث (ذق طعم الایمان)ہی کے معنی میں  ہے جس میں  واردہے کہ ایمان کامزہ اس نے چکھ لیاجواللہ سے ازروئے رب ہونےکے راضی ہوگیااورجس نے اسلام کوبحیثیت دین کے پسند کرلیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوبحیثیت رسول کے مان لیااس نے ایمان کامزہ حاصل کرلیا،اوریہ نعمت اسی خوش نصیب انسان کوحاصل ہوتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کر دیا ہو اوراس سے اس کانفس مطمئن ہوگیااوراس کاسینہ کھل گیااورایمان ویقین اس کے گوشت پوست اورخون میں  داخل ہوگیا،یہی وہ خوش نصیب ہے جس نے ایمان کی حلاوت پائی اوراللہ کے لیے اس کے نیک بندوں  کی محبت ہی کی محبت کاپھل ہے۔[56]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کاتقاضایہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام پرعمل کیاجائے اورجن کاموں  سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایاہے ان سے اجتناب کیاجائے ،خواہ تکلیف ہویاراحت،خوشی ہویارنج ہرحال میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے افعال کی اتباع اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں  کی اقتداءکی جائے اوراپنے نفس کی خوہشوں  اورتقاضوں  پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کوترجیح دی جائے ،

من احب سنتی فقداحبنی

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔[57]

قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا بُنَیَّ، إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِیَ لَیْسَ فِی قَلْبِكَ غِشٌّ لأَحَدٍ فَافْعَلْ ، ثُمَّ قَالَ لِی: یَا بُنَیَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِی، وَمَنْ أَحْیَا سُنَّتِی فَقَدْ أَحَبَّنِی، وَمَنْ أَحَبَّنِی كَانَ مَعِی فِی الجَنَّةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایااے بیٹے!اگرتم اس پرقادرہوکہ اس حال میں  صبح اورشام کروکہ تمہارے دل میں  کسی کی خلاف کھوٹ نہ ہوتوایساکرلو،پھرفرمایااے بیٹے!یہ میری سنت ہے جس نے میری سنت کوزندہ کیااس نے مجھے زندہ کیااورجس نے مجھے زندہ کیاوہ میرے ساتھ جنت میں  ہوگا۔[58]

عن عبداللہ بن عمر tیدیرناقتہ فی مکان فسئل فقال لاادری الاانی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یفعلہ ففعلتہ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  ایک مقام پراونٹنی پرسوارہوکردائرہ بنارہے تھے(یعنی گول چکرلگارہے تھے)ان سے پوچھاگیااس طرح گول چکرلگانے کی کیاحکمت ہے ؟انہوں  نے فرمایا مجھے کچھ پتہ نہیں  ہے ،میں  نے اس مقام پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوچکرلگاتے دیکھاتھااسی طرح چکرلگارہاہوں ۔[59]

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ، أَنَّهُ قَالَ: لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَأَیْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ یَصْنَعُهَاقَالَ: وَمَا هِیَ یَا ابْنَ جُرَیْجٍ، قَالَ: رَأَیْتُكَ لاَ تَمَسُّ مِنَ الأَرْكَانِ إِلَّا الیَمَانِیَّیْنِ، وَرَأَیْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِیَّةَ، وَرَأَیْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَیْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ وَلَمْ تُهِلَّ أَنْتَ حَتَّى كَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَةِ،

عبیدبن جریج  رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ انہوں  نے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے پوچھااے ابوعبدالرحمٰن!میں  نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھاہے جوآپ کے اصحاب میں  سے اورکوئی نہیں  کرتا ، عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ نے پوچھااے ابن جریج رحمہ اللہ  وہ کیاکام ہیں ؟ انہوں  نے کہامیں  نے دیکھاہے کہ آپ کعبہ کے چارکونوں  میں  سے صرف دوکونوں  (حجراسوداوررکن یمانی)کومس کرتے ہیں  ،اورمیں  نے آپ کوبغیربالوں  کے کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھاہے ،اورمیں  نے آپ کوزردرنگ کا خضاب لگاتے ہوئے دیکھاہے،اورمیں  نے دیکھاکہ آپ مکہ میں  تھے لوگوں  نے چانددیکھتے ہی احرام باندھ لہااورآپ نے یوم ترویہ(آٹھ ذوالحجہ)سے پہلے احرام نہیں  باندھا،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَمَّا الأَرْكَانُ: فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمَسُّ إِلَّا الیَمَانِیَّیْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِیَّةُ: فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَلْبَسُ النَّعْلَ الَّتِی  لَیْسَ فِیهَا شَعَرٌ وَیَتَوَضَّأُ فِیهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا  وَأَمَّا الصُّفْرَةُ: فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا  وَأَمَّا الإِهْلاَلُ: فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  نے کہاارکان کی وجہ یہ ہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوصرف دورکنوں (حجراسوداوررکن یمانی)کومس کرتے ہوئے دیکھاہے،اوررہی بغیربالوں  کے کھال کی جوتی تومیں  نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس چمڑے کی جوتی پہنتے تھے جس میں  بال نہیں  ہوتے تھے اوراسی میں  وضوکرتے تھے تومیں  بھی ایسے چمڑے کی جوتی پہننا پسندکرتاہوں ،اوررہازدردرنگ کاخضاب تواس کی وجہ یہ ہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوزردرنگ کاخضاب لگاتے ہوئے دیکھاہے تومجھے بھی زردرنگ کاخضاب لگانے سے محبت ہے،اوررہاآٹھ ذوالحجہ کواحرام باندھناتومیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواسی دن احرام باندھتے ہوئے دیکھاہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کولے کرروانہ ہوتی ۔[60]

عَنْ أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِی الْقُرْآنِ، وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ؟فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ إِلَیْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ شَیْئًا، فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَیْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ

امیہ بن عبداللہ بن خالدکہتے ہیں  کہ انہوں  نے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے پوچھاکہ وطن میں  اورحالت جنگ میں  نمازپڑھنے کاطریقہ توقرآن میں  مذکورہے لیکن سفرمیں  نمازپڑھنے کا طریقہ (یعنی قصرکرنا) ہمیں  قرآن میں  نہیں  ملا،   عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوہماری طرف مبعوث کیا،ہمیں  کسی چیزکاعلم نہیں ہم وہی کرتے ہیں  جوہم نے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کوکرتے ہوئے دیکھاہے۔[61]

زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلرُّكْنِ: أَمَا وَاللَّهِ، إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّی رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ، فَاسْتَلَمَهُ ،ثُمَّ قَالَ: فَمَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ إِنَّمَا كُنَّا رَاءَیْنَا بِهِ المُشْرِكِینَ وَقَدْ أَهْلَكَهُمُ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: شَیْءٌ صَنَعَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُكَهُ

زیدبن اسلم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے حجراسودکومخاطب ہوکرکہااللہ کی قسم !مجھے یقیناعلم ہے تومحض ایک پتھرہے،نفع دیتاہے نہ نقصان!اوراگرمیں  نے یہ نہ دیکھاہوتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تجھے بوسہ دیاہے تومیں  تجھے بوسہ نہ دیتاپھرحجراسودکوبوسہ دیا، پھرفرمایااب ہمیں  رمل کرنے کی کیاضرورت ہے ہم تومشرکین کو(اپنی قوت)دکھانے کے لیے رمل کرتے تھے اوراب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کوختم کردیاہے ،پھرفرمایارمل وہ کام ہے جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیاہے اورجس کام کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیاہوہم اس کوترک کرناناپسندکرتے ہیں ۔[62]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَتَبَّعُ فِی الصَّحْفَةِ، یَعْنِی الدُّبَّاءَ، فَلاَ أَزَالُ أُحِبُّهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ میں  نے دیکھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پیالہ میں  کدوتلاش کررہے ہیں  ،میں  اس وقت سے کدوسے محبت کرتاہوں ۔[63]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَأُتِیَ بِدَابَّةٍ لِیَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِی الرِّكَابِ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: {سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ} [64]، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَكَ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی، فَإِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. ثُمَّ ضَحِكَ فَقِیلَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، مِنْ أَیِّ شَیْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ. ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَیِّ شَیْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ یَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی یَعْلَمُ أَنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَیْرِی

علی بن ربیعہ کہتے ہیں  میں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے ہاں  حاضرتھا کہ سوارہونے کے لئے آپ کے سامنے سواری لائی گئی،آپ نے جب اپناپاؤں  رکاب میں  ڈال لیاتوکہابسم اللہ ، پھرجب ٹھیک طرح سے اس پربیٹھ گئے توکہاالحمدللہ پھرکہا’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس کوہمارے تابع کیااورہم ازخوداس کواپناتابع نہ بناسکتے تھے اوربلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں ۔‘‘ پھرکہاالحمدللہ تین بار،پھرکہااللہ اکبرتین بار،پھرکہا’’اے اللہ!توپاک ہے میں  نے اپنی جان پرظلم کیاہے تومجھے معاف فرمادے بلاشبہ تیرے سوااورکوئی نہیں  جوگناہوں  کوبخش سکے۔‘‘پھرآپ رضی اللہ عنہ  ہنسے،آپ سے کہاگیااےامیرالمومنین!آپ کس بات پرہنسے ہیں ؟فرمایامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا تھا کہ آپ نے ایسے ہی کیاتھاجیسے کہ میں  نے کیاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہنسے(بھی )تھےتومیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کس بات پرہنسے تھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابلاشبہ تیرے رب کواپنے بندے پرتعجب آتاہے جب وہ کہتاہے (الٰہی)میرے گناہ بخش دے ،بندہ جانتاہے کہ میرے سواگناہوں  کوکوئی بخش نہیں  سکتا۔[65]

قَالَ سَهْلُ  بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَامَةُ حُبِّ اللَّهِ: حُبُّ الْقُرْآنِ.. وَعَلَامَةُ حُبِّ الْقُرْآنِ حُبُّ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،.. وَعَلَامَةُ حُبِّ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حُبُّ السُّنَّةِ.. وَعَلَامَةُ حُبِّ السُّنَّةِ حُبُّ الْآخِرَةِ.. وَعَلَامَةُ حُبِّ الْآخِرَةِ بُغْضُ الدُّنْیَا.. وَعَلَامَةُ بُغْضِ الدنیا ألا یدّخر منها إلا زادا

قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں  سہل بن عبداللہ نے کہاکہ اللہ سے محبت کی علامت قرآن سے محبت کرناہے اورقرآن مجیدسے محبت کی علامت نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرناہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی علامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے محبت کرناہے اورسنت سے محبت کی علامت آخرت سے محبت کرناہے اورآخرت سے محبت کی علامت دنیاسے بغض رکھنااوردنیاسے بغض رکھنے کی علامت یہ ہے کہ قدرضرورت کے علاوہ دنیاکے مال کوذخیرہ نہ کیاجائے ،اورعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے کہاکہ جوشخص قرآن مجیدسے محبت رکھتاہے وہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتاہے۔[66]

عَنْ أَنَسٍ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کوئی شخص ایمان دارنہ ہوگاجب تک اس کے والداوراس کی اولاداورتمام لوگوں  سے زیادہ اس کے دل میں  میری محبت نہ ہوجائے۔[67]

عقل مندشخص تمام اشیاء کے درمیان موازنہ کرتاہے اور بہترین چیزکوترجیح دیتاہے اور تقدیم کی مستحق چیزکومقدم رکھتاہے ،اگرایسانہیں  کروگے تو یہی مال واولاد اور جاہ ومنصب عذاب الہٰی کاباعث بن جائیں  گی،اگراپنی خواہش نفس پراللہ تعالیٰ کے فرمان کواولیت دوگے تواللہ بھی تمہیں  بے پایاں  ثواب دے گا،وہ تمہارے صغیرہ وکبیرہ گناہوں  کوبخش دے گا اورتمہارے دلوں  میں صحیح وغلط کی تمیزپیداکردے گاجو قدم قدم پرتمہارے لئے باعث بصیرت بن جائے گی ،جس کی روشنی میں  چلنے سے تم بے خوف وخطرمنزل کی طرف گامزن رہوگے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَیَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۲۸ۙۚ [68]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اللہ تمہیں  اپنی رحمت کا دوہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں  وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں  تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

وَإِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِیُثْبِتُوكَ أَوْ یَقْتُلُوكَ أَوْ یُخْرِجُوكَ ۚ وَیَمْكُرُونَ وَیَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَیْرُ الْمَاكِرِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٣١﴾(الانفال)
’’ اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے ! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کردیں ،اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھااور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ، اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں، یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں۔‘‘

وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب منکرین حق(رؤسائےقریش)کویقین ہوگیاکہ صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم کے بعداب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ ہجرت کرجائیں  گے توانہیں  خطرہ محسوس ہواکہ اگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہاں  اپنے ساتھیوں  میں  پہنچ گئے تووہ ایک قوت بن کرکھڑے ہوجائیں  گے اورپھراس خطرہ کوٹالنا ہمارے قابوسے باہرہوجائے گا،چنانچہ آپ کے معاملہ میں  آخری فیصلہ کرنے کے لئے رؤسائے قریش اورابلیس ملعون نجدکے ایک شیخ کی شکل میں  حاضرہوکردارالندوہ میں  بیٹھ کر باہم مشاور ت کرنے لگے،

احْبِسُوهُ فِی وِثَاقٍ، ثُمَّ تَرَبَّصُوا بِهِ رَیْبَ الْمَنُونِ، حَتَّى یَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ مِنَ الشُّعَرَاءِ: زُهَیْرٌ وَالنَّابِغَةٌ، إِنَّمَا هُوَ كَأَحَدِهِمْ، قَالَ: فَصَرَخَ عَدُوُّ اللهِ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ فَقَالَ: وَاللهِ مَا هَذَا لَكُمْ بِرَأْیٍ، وَاللهِ لَیُخْرِجَنَّهُ رَبُّهُ مِنْ مَحْبِسِهِ  إِلَى أَصْحَابِهِ، فَلَیُوشِكَنَّ أَنْ یَثِبُوا عَلَیْهِ حَتَّى یَأْخُذُوهُ مِنْ أَیْدِیكُمْ، فَیَمْنَعُوهُ مِنْكُمْ،  فَمَا آمَنُ عَلَیْكُمْ أَنْ یُخْرِجُوكُمْ مِنْ بِلَادِكُمْ،قَالَ: فَانْظُرُوا فِی غَیْرِ هَذَا

ابوالبختری نے کہامیری رائے یہ ہم کہ اس شخص ( صلی اللہ علیہ وسلم  )کوہتھکڑیوں  میں  جکڑکرکسی تنگ وتاریک کوٹھڑی میں  قید کردوپھراس کی موت کاانتظارکروجس طرح کہ اس سے پہلے کے شعراءزہیراورنابغہ پرموت آئی تھی کیونکہ یہ بھی انہی جیساایک شاعرہی توہے ،یہ سن کر اللہ کایہ دشمن شیخ نجدی ( ابلیس)چیخاکہ نہیں  ،واللہ!تمہاری یہ رائے نہایت غیر موزوں  ہے اللہ کی قسم !اس کارب اسے قیدسے نکال کراس کے ساتھیوں  کے پاس پہنچادے گا اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ساتھی تم پرحملہ کرکے اسے تمہارے ہاتھوں  سے چھین لیں  گے اوراس کی حفاظت کریں  گےاورمجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ تمہیں  تمہارے علاقے سے نکال دیں  گے ،  قریشیوں  نے کہاشیخ نے سچ کہاہے لہذااس کے علاوہ اوررائے سوچو،

 أَخْرِجُوهُ مِنْ بَیْنِ أَظْهُرِكُمْ تَسْتَرِیحُوا مِنْهُ ، فَإِنَّهُ إِذَا خَرَجَ لَنْ یَضُرَّكُمْ مَا صَنَعَ وَأَیْنَ وَقَعَ، إِذَا غَابَ عَنْكُمْ أَذَاهُ وَاسْتَرَحْتُمْ،  وَكَانَ أَمْرُهُ فِی غَیْرِكُمْ،فَقَالَ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ: وَاللهِ مَا هَذَا لَكُمْ بِرَأْیٍ، أَلَمْ تَرَوْا حَلَاوَةَ [قَوْلِهِ]  وَطَلَاوَةَ لِسَانِهِخوبی کلام وَأَخْذَ الْقُلُوبِ مَا تَسْمَعُ  مِنْ حَدِیثِهِ؟  وَاللهِ لَئِنْ فَعَلْتُمْ، ثُمَّ اسْتَعْرَضَ الْعَرَبَ، لَیَجْتَمِعَنَّ عَلَیْكُمْ  ثُمَّ لَیَأْتِیَنَّ إِلَیْكُمْ حَتَّى یُخْرِجَكُمْ مِنْ بِلَادِكُمْ، وَیَقْتُلَ أَشْرَافَكُمْ،   قَالُوا: صَدَقَ وَاللهِ، فَانْظُرُوا بَابًا غَیْرَ هَذَا

پھر ہشام ابن عمرو نے یہ رائے دی اسے اپنے پاس سے نکال دواس طرح تم اس سے آرام میں  ہوجاؤگےاورجب وہ نکل جائے گاتوتمہیں  کوئی نقصان نہ ہوگاکہ وہ کیاکرتاہے اورکہاں  جابستاہےکیونکہ اس طرح اس کی ایذاتم سے ختم ہوجائے گی تم آرام پالوگے  اوراس کامعاملہ اب دوسروں  لوگوں  سے ہوگا، یہ سن کرشیخ نجدی نے کہا،واللہ!تمہاری یہ رائے بھی نہایت غیرموزوں  ہےکیاتم نے اس کی شیرینی گفتاراوراس کی بات کے دلوں  پراثراندازہونے کی کیفیت کونہیں  دیکھا؟واللہ!اگرتم نے ایساکیاتومجھے یہ ڈرہے کہ وہ عرب کے جس قبیلے میں  ٹھہرے گاتووہ اس کی شیریں  کلام کی وجہ سے اس کی پیروکاربن جائیں  گے پھروہ انہیں  لے کرتم پرحملہ آورہوگا اورتمہیں  تمہارے علاقے سے نکال باہرکرے گا اورتمہارے سرداروں  کوقتل کردے گا، قریشیوں  نے کہاواللہ!شیخ نے سچ کہاہے لہذااس کے علاوہ اوررائے سوچو،

قَالَ: فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ، لَعَنَهُ اللهُ، وَاللهِ لَأُشِیرَنَّ عَلَیْكُمْ بِرَأْیٍ مَا أَرَاكُمْ تَصْرِمُونَهُ  بَعْدُ مَا أَرَى غَیْرَهُ،  قَالُوا: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: نَأْخُذُ مِنْ كُلِّ قَبِیلَةٍ غُلَامًا شَابًّا وَسِیطًا نَهِدًا ثُمَّ یُعْطَى كُلُّ غُلَامٍ مِنْهُمْ سَیْفًا صَارِمًا ثُمَّ یَضْرِبُونَهُ ضَرْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَإِذَا قَتَلُوهُ تَفَرَّقَ دَمُهُ فِی الْقَبَائِلِ [كُلِّهَا ] فَلَا أَظُنُّ هَذَا الْحَیَّ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ یَقْوَوْنَ عَلَى حَرْبِ قُرَیْشٍ كُلِّهَا فَإِنَّهُمْ إِذَا رَأَوْا ذَلِكَ قَبِلُوا الْعَقْلَ، وَاسْتَرَحْنَا وَقَطَعْنَا عَنَّا أَذَاهُ،قَالَ: فَقَالَ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ: هَذَا وَاللهِ الرَّأْیُ ،الْقَوْلُ مَا قَالَ الْفَتَى لَا رَأْیَ غَیْرَهُ

چنانچہ ابوجہل لَعَنَهُ اللهُ  نے کہا واللہ!میری رائے ہے اورمیں  نہیں  سمجھتاکہ کسی نے اب تک اس رائے کااظہارکیاہواوراس کے سواکوئی اوررائے ہوبھی نہیں  سکتی،لوگوں  نے پوچھاتمہارے کیارائے ہے؟اس نے کہامیری رائے یہ ہے کہ ہرقبیلے میں  سے ایک جواں  مرد،نوعمر،قوی،شریف النسب لے لیں ،ان میں  سے ہرایک کے ہاتھ میں  ننگی تلواردے دیں پھریہ سب جواں  مرداس پراس طرح یک بارگی حملہ کریں گویایہ ایک ہی شخص کاوارہواوراس طرح جب یہ اسے قتل کردیں  گے تو اس طرح اس کا خون تمام قبیلوں  اور خاندانوں  میں  پھیل جائے گا اورمیں  سمجھتاہوں  کہ خاندان بنوہاشم سارے قریش سے جنگ نہ کرسکے گااوروہ خون بہالینے پرراضی ہوجائے گااس طرح ہم اس سے آرام پالیں  گے اوراس کی مصیبت ختم ہوجائے گی،شیخ نجدی نے کہا واللہ!یہ رائے نہایت مناسب ہے اس جوان نے بالکل صحیح رائے دی ہے، میرے نزدیک بھی اس کے سواکوئی اوررائے قابل قبول نہیں  ہوسکتی۔[69]

چنانچہ اس سلسلہ میں  نوجوان بھی نامزد ہوگئے اور طے پایا کہ آج رات بھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے گھر کا محاصرہ رکھا جائے اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کرکے قصہ تمام کردیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایاوہ تمہارے خلاف اپنی چالیں  چل رہے تھے اور اللہ قادر مطلق ان کے مقابلے میں  اپنی تدبیرکر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتراورمضبوط ومستحکم تدبیرکرنے والا ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ تمہیں  ان خونخواردرندوں  کے چنگل سے بچاکر بحفاظت مدینہ منورہ لے آیااورمشرکین اپنامنہ ہی پیٹتے رہ گئے، جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں  تو کہتے تھے کہ ہاں ہم نے سُن لیا ہےاورہٹ دھرمی سے کہتے تھےاگر ہم چاہیں  تو ایساکلام ہم بھی تصنیف کر سکتے ہیں ، یہ تو وہی پرانے وقتوں  کی دقیانوسی،بے سنداوربے سروپا کہانیاں  ہیں  جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں  اورمحمد  صلی اللہ علیہ وسلم انہی کوپڑھ کرلوگوں  کوسناتے رہتے ہیں ،

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰى عَلَیْہِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۶ [70]

ترجمہ:کہتے ہیں  یہ پرانے لوگوں  کی لکھی ہوئی چیزیں  ہیں  جنہیں  یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ،اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں  کا بھید جانتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔

مگرجب اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے میں  فرمایاکہ اپنے تمام معبودوں ،علماءاورشعراءسمیت سب مل کراس جیسی ایک ہی سورت بنالاؤتوسب عاجز ولاچار ہوگئے ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [71]

ترجمہ:کیا یہ کہتے ہیں  کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں  تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں  ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں  معبود سمجھنے میں  )سچے ہو۔

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۳ [72]

ترجمہ:اور اگر تمہیں  اس امر میں  شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں  تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ ، اپنے سارے ہم نواؤں  کو بلا لو ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس کی چاہو مدد لے لو اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ ۔

اَمْ یَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸ [73]

ترجمہ: کیا یہ لوگ کہتے ہیں  کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو اگر تم اپنے اس الزام میں  سچے ہو تو ایک سورۂ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک اللہ کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٣٢﴾‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِیهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ‎﴿٣٣﴾‏(الانفال )
’’اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے ، اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے، اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔‘‘

مشرکین کی جہالت کوبیان فرمایاکہ چاہیے تویہ تھاکہ اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے کہ اےاللہ !سیدالامم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جودعوت پیش کررہے ہیں  اگریہ واقعی حق ہے اورتیری طرف سے نازل ہواہے توہمیں  اس کی ہدایت دےاوراس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما،لیکن کیونکہ وہ اس دعوت کوبری طرح جھٹلاچکے تھے اوراس کے نتیجے میں  ابھی تک امن وامان میں  تھے اس لئے سمجھتے تھے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم جودین پیش کررہے ہیں  وہ سچادین نہیں  ہے،اگریہ دعوت سچی ہوتی تویقینًاہم پرکوئی عذاب نازل ہوگیاہوتااس لئے چیلنج کے اندازمیں  کہتے تھے کہ اے اللہ!محمد  صلی اللہ علیہ وسلم جودعوت پیش کررہے ہیں اگریہ واقعی تیری طرف سے نازل ہوئی ہے توہم پرآسمان سے پتھربرسادے یاہم پرکوئی دردناک عذاب نازل فرما دے ۔

جیسے قوم شعیب نے کہاتھا

فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۸۷ۭ [74]

ترجمہ:اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔

ابوجہل جوایک آزمودہ کارجنگجوتھا کی دعاقبول ہوئی اوروہ غزوہ بدرمیں  دوبچوں  کے ہاتھوں  ذلت کی موت مرا،نصربن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی

سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۝۱ۙ [75]

ترجمہ: مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے (وہ عذاب )جو ضرور واقع ہونے والا ہے۔

ایک مقام پرانہی کے بارے میں فرمایا

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ۝۱۶ [76]

ترجمہ:اور یہ کہتے ہیں  کہ اے ہمارے رب ! یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں  جلدی سے دے دے۔

عمروبن عاص غزوہ احدمیں  اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکرکہہ رہاتھاکہ اے اللہ !اگرمحمد  صلی اللہ علیہ وسلم کالایاہوادین حق ہے تومجھے میرے گھوڑے سمیت زمین میں  دھنسادے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب تک کسی بستی میں  پیغمبرموجودہوتاہے اس وقت تک بستی والوں  کی مہلت ہوتی ہے،یعنی پیغمبر کا وجود تو حفظ وامان کی ضمانت ہوتاہے، اس لئے جب آپ ان کے درمیان موجودتھے اللہ تعالیٰ نےان پرعذاب نازل نہیں  کیا اورآپ کی ہجرت کے بعد ضعیف صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی وہاں  موجود تھے جواپنے رب سے استغفارکرتے رہتے تھے،چنانچہ فرمایااللہ تعالیٰ کایہ قاعدہ نہیں  ہے کہ لوگ اپنے رب سے اپنے گناہوں  کی بخشش کے لئے استغفار کر رہے ہوں  اوروہ ان کوعذاب دے دے،بلکہ اللہ کاقاعدہ تویہ ہے کہ جب لوگ اس کی بارگاہ میں  استغفارکرتے ہیں  تووہ ان پررحم اوربخشش فرماتاہے،

قَالَ أَبُو جَهْلٍ: اللهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ،آفَنَزَلَتْ:وَمَا كَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِیهِمْ، وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُونَ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوجہل نے کہاتھا’’ اے اللہ !اگریہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے توہم پرآسمانوں  سے پتھربرسادے یاپھرکوئی اورہی دردناک عذاب لے آ۔‘‘ تواس پرآیت’’ حالانکہ اللہ ایسانہیں  کرے گاکہ انہیں  عذاب دے اس حال میں  کہ آپ ان میں  موجودہیں  اورنہ اللہ ان پرعذاب لائے گااس حال میں  کہ وہ استغفارکررہے ہوں ۔‘‘ نازل ہوئی۔[77]

ایک روایت میں  ہےابوجہل نے کہاتھا

اللهُمَّ إِنْ كانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ  أَیْ مَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ فَأَمْطِرْ عَلَیْنا حِجارَةً مِنَ السَّماءِ كَمَا أَمْطَرْتهَا عَلَى قَوْمِ لُوطٍ، أَوِ ائْتِنا بِعَذابٍ أَلِیمٍ، أَیْ بَعْضِ مَا عَذَّبْتُ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا

اے اللہ !اگریہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم  پیش کررہے ہیں    توہم پرآسمانوں  سے پتھربرسادے  جیسے قوم لوط پربرسائے تھے  یاپھرکوئی اورہی دردناک عذاب لے آ، یابعض کے بقول جیسے پچھلی اقوام پرعذاب نازل کیاتھا۔[78]

ولم یقولوا: إن كان هذا هو الحق من عندك فأهدنا إلیه

اس نے یہ نہیں  کہاکہ اے اللہ!اگریہ تیری طرف سے حق ہےتوہمیں  اس کی طرف ہدایت عطافرما۔[79]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:  سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  إِنَّ إِبْلِیسَ قَالَ لِرَبِّهِ: بِعِزَّتِكَ وَجَلَالِكَ لَا أَبْرَحُ أُغْوِی بَنِی آدَمَ مَا دَامَتِ الْأَرْوَاحُ فِیهِمْ،فَقَالَ لَهُ اللهُ: فَبِعِزَّتِی وَجَلَالِی لَا أَبْرَحُ أَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِی

استغفارکی فضیلت میں  ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناہےابلیس نے کہااے اللہ! مجھے تیری عزت وجلال کی قسم !جب تک تیرے بندوں  کے جسم میں  روح ہے میں  انہیں  بہکاتارہوں  گا،اللہ عزوجل نے فرمایامجھے بھی میری جلالت اورمیری بزرگی کی قسم !جب تک وہ مجھ سے استغفارکرتے رہیں  گے میں  بھی انہیں  بخشتارہوں  گا۔[80]

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَیْدٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:الْعَبْدُ آمِنٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ، مَا اسْتَغْفَرَ اللهَ

فضالہ بن عبید  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابندہ اللہ کے عذابوں  سے امن میں  رہتاہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا رہے۔[81]

وَمَا لَهُمْ أَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِیَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِیَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَیْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِیَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ ۚ فَسَیُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِینَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ یُحْشَرُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ لِیَمِیزَ اللَّهُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَیَرْكُمَهُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَهُ فِی جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏(الانفال )
’’اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں،اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے، اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا، سو اپنے کفر کے سبب اس عذاب کا مزہ چکھو،بلا شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہوجائیں گے، پھر مغلوب ہوجائیں گےاور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے الگ کردے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملادے پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کردے ،پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے، ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں۔‘‘

پھرمشرکین مکہ کوجھنجوڑاگیاکہ اب تک تم صرف اللہ کے رسول کی وجہ سے بچے ہوئے تھے مگراب جبکہ تم میں  رسول موجودنہیں اورتم محض زبردستی بیت اللہ کے متولی بن بیٹھے ہوتواب کیوں  نہ تم پرعذاب نازل کیاجائے،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسجدحرام اس لئےبنائی ہےکہ اس میں  اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کوقائم کیاجائے اوراس میں  خالص اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ،پس بیت اللہ کے مجاورو متولی ہونے کامستحق توصرف اللہ کاتقویٰ رکھنے والے ،پرہیزگاراوروہ لوگ ہوسکتے ہیں  جنہوں  نے اپنے دین کواللہ کے لئے خالص کیاہے جن کاتم لوگ راستہ روکے بیٹھےہو،ایک مقام پرفرمایا

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ۝۰ۚۖ وَفِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۷ [82]

ترجمہ:مشرکین کا یہ کام نہیں  ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں  کے مجاور و خادم بنیں  درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں ، ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں  انہیں  ہمیشہ رہنا ہے۔

اورجب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کومسجدحرام پرقدرت عطافرمائی توفرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔۔۔۝۰۝۲۸ [83]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو!مشرکین ناپاک ہیں  لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں ۔

اس طرح تم بیت اللہ کے متولی نہیں  بلکہ تم لوگوں  نے خودکوبیت اللہ کا مالک ومختیار سمجھ لیاہے کہ جس کوچاہو اس میں آنے دو اورجس کوچاہواس میں  آنے سےروک دو ،جس کو چاہوطواف کی اجازت دواورجس کوچاہواجازت نہ دو،اورتمہاری نمازجوکہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عبادت ہے بیت اللہ کے طواف کے دوران میں  سیٹیاں بجانے،تالیاں  پیٹنے اور ایک بے معنی شوروغل اورلہوولعب کے سواکچھ نہیں جوکہ جہلااورکم عقل لوگوں  کافعل ہے،جب تمہاری نمازکایہ حال ہے توبقیہ عبادات کاکیاحال ہوگا؟بتاؤان میں  سے کون سی چیزایسی ہے جس کی بناپرتم اپنے آپ کومومنوں  سے زیادہ بیت اللہ کا مستحق سمجھتے ہو،اللہ کے مومن بندے تووہ ہیں جواپنی نمازوں  میں  خشوع وخضوع اختیارکرتے ہیں  اورجولغوباتوں  سے اعراض کرتے ہیں ،

 الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ۝۲ۙوَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللغْوِ مُعْرِضُوْنَ۝۳ۙ [84]

ترجمہ:ایمان لانے والوں  نے جو اپنی نماز میں  خشوع اختیار کرتے ہیں ،لغویات سے دور رہتے ہیں ۔

اوران میں  وہ تمام اوصاف حمیدہ اورافعال پسندیدہ موجودہیں  جوان کے رب نے بیان فرمائے ہیں ،تمہیں  طرح طرح کے دلائل اور مثالوں  سے سمجھایا گیا ، رسول نے دعوت حق پہنچاکرتم پراتمام حجت کردیامگرتم نے کفروشرک کاراستہ چھوڑکرراہ راست پرچلناپسندنہ کیابلکہ دعوت حق کودبانے کے لئے اہل تقویٰ پرچڑھ دوڑے تواب غزوہ بدرمیں  تمہاری عبرتناک شکست سے عذاب الہٰی نازل ہوچکاہےتوکیاتم اس سے سبق حاصل نہیں  کرتے مگراس سے نصیحت لینے کے بجائے تم لوگ ہماراہی عطاکیاہوامال ودولت،طاقت وقابلیت ہماری طرف آنے والے راستہ کو روکنے کے لئے خرچ کرتے ہو،مگریادرکھوسوائے حسرت اور مغلوبیت کے سواتمہارے ہاتھ کچھ نہیں  لگے گا اور روز جزا تمہاری یہ ساری کاوشیں  تمہارے لئے باعث پچھتاوابن جائیں  گی جہاں تم جہنم کے گہرے گڑہوں  میں  گرادیئے جاؤگے،اے لوگو!ابھی زندگی کی مہلت باقی ہے ،اللہ جوغفوررحیم ہے اور معاف کردینے کوپسندکرتاہے اس سے بخشش چاہوورنہ تمہاراانجام گزشتہ قوموں  سے مختلف نہیں  ہوگا۔

لِیَمِیزَ اللَّهُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَیَرْكُمَهُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَهُ فِی جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏(الانفال)
آپ ان کافروں  سے کہہ دیجئے ! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں  تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہوچکے ہیں  سب معاف کر دئیے جائیں  گےاور اگر اپنی وہی عادت رکھیں  گے تو (کفار) سابقین کے حق میں  قانون نافذ ہوچکا ہے ۔

اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے کفارکی اس غلط فہمی کوبھی دورفرمایاکہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب پرظلم وستم کے پہاڑتوڑے،انہیں  ہجرت پرمجبورکیا،اوراب غزوہ بدرمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل بھی ہوچکے ہیں  ،اتنے بڑے گناہوں  کے بعداب ہمارے لئے اورکوئی چارہ نہیں  کہ اپنی پرانی ڈگرپرہی قائم رہیں  کیونکہ اللہ اب ہمیں  کیوں  معاف فرمائے گاتوفرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان کافروں  سے کہوابھی وقت ہے اگرتم کفرکی روش سے بازآجاؤاوراللہ وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کردواوراعمال صالحہ اختیارکرلوتوہماری رحمت کے دروزے کھلے ہوئے ہیں  ،جن جرائم کاتم ارتکاب کرچکے ہوہم انہیں  معاف فرمادیں  گے ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِی الجَاهِلِیَّةِ؟ قَالَ:مَنْ أَحْسَنَ فِی الإِسْلاَمِ لَمْ یُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِی الجَاهِلِیَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِی الإِسْلاَمِ أُخِذَ بِالأَوَّلِ وَالآخِرِ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے جوگناہ (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت کے زمانہ میں  کئے ہیں  کیاان کامؤاخذہ ہم سے ہوگا؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص اسلام کی حالت میں  نیک اعمال کرتارہااس سے جاہلیت کے گناہوں  کامؤاخذہ نہ ہوگا(اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا)اورجوشخص مسلمان ہوکربھی برے کام کرتا رہا اس سے دونوں  زمانوں  کے گناہوں  کامؤاخذہ ہوگا۔[85]

لیکن اگرتم اپنے فخروغروراورتعصبات میں  مبتلاہوکراپنے باطل معبودوں  کی حمایت میں دوبارہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابل ہوگے توہم پھر تمہاراحال پچھلی قوموں  جیساکردیں  گے ،جب ان پرہماراعذاب نازل ہواتوان کے باطل معبودان کے کچھ کام نہ آئےاوران کانام ونشان مٹ گیا،اسی طرح تمہیں  بھی صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گااورتمہاراکوئی نام لیوابھی باقی نہ رہے گا،یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں  ۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَیَكُونَ الدِّینُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٣٩﴾‏ وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِیرُ ‎﴿٤٠﴾‏(الانفال ۳۹،۴۰)
’’اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ نہ رہے اور دین اللہ کا ہی ہوجائے، پھر اگریہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتا ہے، اور اگر روگردانی کریں تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے، وہ بہت اچھا کارساز ہے اور بہت اچھا مددگار۔‘‘

کفروشرک فتنے کے اختتام تک جہادجاری رکھو:اور فرمایااے لوگوجوایمان لائے ہو!دشمنان دین سے اس وقت تک جنگ کرویہاں  تک کہ کفرو شرک کافتنہ باقی نہ رہے اورکفاراسلام کے احکام کے سامنے سرنگوں  نہ ہوجائیں  ،جیسے فرمایا

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ۝۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۹۳ [86]

ترجمہ:تم ان سے لڑتے رہو یہاں  تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آجائیں  تو سمجھ لو کہ ظالموں  کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى یَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَةَ، وَیُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے حکم دیاگیاہے کہ میں  لوگوں  سے لڑائی کروں  حتی کہ وہ کلمہ لاالٰہ الااللہ وان محمدرسول اللہ کہہ دیں   اورجب وہ یہ کلمہ کہہ دیں  گے  تومجھ سے اپنے خون اوراموال بچالیں  گے مگرجوان کاحق ہوا پھران کاحساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہوگا۔[87]

پھراگروہ کفروشرک سے بازآ جائیں  توبے شک اللہ ان کے اعمال کودیکھتا ہے اوراللہ سے ان کی کوئی چیزچھپی نہیں  رہ سکتی ،وہ تودلوں  کے چھپےبھیداورآنکھوں  کی خیانت کوبھی جانتا ہے،

 یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹  [88]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

اور اگروہ اطاعت سے منہ موڑکرکفروسرکشی میں  سرگرم ہوجائیں  توجان رکھوکہ اللہ تمہاراسرپرست ہے اوروہ بہترین حامی ومددگارہے۔

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٤١﴾‏ (الانفال)
’’جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو  اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں، اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘

مال غنیمت کی تقسیم کاقانون: سابقہ تمام امتوں  میں  مال غنیمت حرام رہاہےاس کاطریقہ یہ ہوتاتھاکہ جنگ ختم ہونے کے بعدکفارسے حاصل کردہ سارامال ایک جگہ ڈھیر کردیاجاتاتھا،پھرآسمان سے آگ آتی اوراس سارے مال کوجلاکرراکھ کردیتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سےامت محمدیہ کے لئے اسے حلال فرمادیا،اس کی تقسیم کی تفصیل بیان فرمائی کہ کفارکاجومال واسباب تم فتح یاب ہوکرحق کے ساتھ حاصل کروخواہ وہ تھوڑاہویازیادہ،قیمتی ہویامعمولی کچھ خیانت کیے بغیر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  (یاامیر) کے سامنے لاکر رکھ دو،پھراس سارے مال کے پانچ حصے کرو، چارحصے ان سب لوگوں  میں  تقسیم کردیے جائیں  جنہوں  نے جنگ میں  حصہ لیاہو،ان میں  پیادہ کوایک حصہ ملے گااورسوارکوتین حصے ملیں  گے،ایک سوارکااوردوحصے گھوڑے کے لیے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَهْمَیْنِ وَلِصَاحِبِهِ سَهْمًا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت سے)گھوڑے کے دوحصے لگائے تھے اوراس کے مالک کاایک حصہ۔ [89]

اس کے بعدہرمعرکہ کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اعلان فرمادیاکرتے تھے

  فَقَالَ:إِنَّ هَذِهِ مِنْ غَنَائِمِكُمْ،  وَإِنَّهُ لَیْسَ لِی فِیهَا إِلَّا نَصِیبِی مَعَكُمْ إِلَّا الْخُمُسُ،  وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْكُمْ فَأَدُّوا الْخَیْطَ وَالْمَخِیطَ وَأَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ وَأَصْغَرَ وَلَا تَغُلُّوا فَإِنَّ الْغُلُولَ نَارٌ وَعَارٌ

یہ غنائم تمہارے ہی لئے ہیں  اور میری اپنی ذات کاان میں  کوئی حصہ نہیں  ہے بجزخمس کے، اوروہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پرصرف کردیاجاتاہےلہٰذا اگر کسی کے پاس سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ لے آئےیا اس سے بڑی اور چھوٹی چیز ہو تو وہ بھی واپس کر دے اور مال غنیمت میں  خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت دنیا و آخرت میں  خائن کے لئے آگ اور شرمندگی کا سبب ہوگی۔ [90]

جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۱۶۱ [91]

ترجمہ: اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِیقٍ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَلْقَیْنِ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِوَادِی الْقُرَى وَهُوَ یَعْرِضُ فَرَسًافَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا تَقُولُ فِی الْغَنِیمَةِ؟ قَالَ: لِلَّهِ خُمُسُهَا  وَأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ لِلْجَیْشِ، قُلْتُ: فَمَا أَحَدٌ أَوْلَى بِهِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ:  لَا , وَلَا السَّهْمُ تَسْتَخْرِجُهُ مِنْ جَنْبِكَ،لَیْسَ أَنْتَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ أَخِیكَ الْمُسْلِمِ

عبداللہ بن شفیق نے بلقین کے ایک شخص سے روایت کیاہے میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوااس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وادی قریٰ میں  تشریف فرماتھے میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مال غنیمت کے بارے میں  آپ کیافرماتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کاپانچواں  حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہےاورباقی چارحصے لشکرکے لیے ہیں ،میں  نے عرض کی ان میں  سے کوئی کسی دوسرے کی نسبت زیادہ حق دارنہیں ؟  فرمایانہیں حتی کہ وہ تیربھی جسے تم اپنے پہلوسے نکالو،اپنے مسلمان بھائی کی نسبت تم اس کے زیادہ حق دارنہیں  ہو۔[92]

عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَعِیرٍ مِنَ المَغْنَمِ فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ الْبَعِیرِثُمَّ قَالَ:وَلَا یَحِلُّ لِی مِنْ غَنَائِمِكُمْ مِثْلُ هَذَا إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِیكُمْ

عمروبن عبسہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کومال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف (رخ کرکے)نمازپڑھائی،  پھرسلام پھیرنے کے بعداونٹ کے پہلوسے اون لی اور فرمایا تمہاری غنیمتوں  میں  سے میرے لئے اس کے برابربھی جائزنہیں  مگرخمس، اوروہ بھی تمہاری طرف لوٹادیاجاتاہے۔ [93]

باقی ایک حصہ جسے خمس کہتے ہیں کے پھرپانچ حصے کیے جائیں  گےان میں  سے ایک حصہ رسول کاہوگا(یعنی بیت المال کی ملکیت ہے)جوکسی تعین کے بغیرعام مسلمانوں  کے مصالح پرخرچ کیاجائے گا ،خمس کا دوسرا حصہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داریعنی بنوہاشم اوربنوعبالمطلب جن میں  ان کے مال دار اور محتاج مردوعورتیں  سب شامل ہیں  ۔

کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپناساراوقت تبلیغ دین کے لئے صرف کرتے تھے اس لئے معاشی ضروریات کے کوئی کام نہیں  کرسکتے تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی معاشی ضروریات کے لئے خمس کے ایک حصہ کابندوبست فرمایا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک توآپ کے اہل وعیال اوروہ رشتہ دارجن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی ، ان کی ضروریات خمس سے پوری ہوتی تھیں لیکن آپ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین کے دورخلافت میں یہ حصہ خاندان نبوت کے فقرامیں  تقسیم کر دیا جاتا تھا)خمس کا تیسراحصہ یتیموں  کے لئے مختص کیا گیا جو کم سن ہوں  اور خوداپنے مصالح کی دیکھ بھال کرنے سے عاجزہوں  اوروہ کسی ایسی ہستی سے محروم ہوں  جوان کے مصالح کا انتظام کرے ،خمس کاچوتھاحصہ محتاجوں  اورتنگ دستوں  کے لئے ہے ،اورخمس کاآخری حصہ مسافروں  کی بہبودکے لئے ہے۔

اگرتم اللہ تعالیٰ پر اوراس تائیدونصرت پرایمان رکھتے ہوجس کی بدولت تمہیں  یوم الفرقان( غزوہ بدر)میں  فتح نصیب ہوئی ،جس میں  مسلمانوں  اورکافروں  کے لشکربھڑگئے تھے اورمسلمانوں  کوفتح وغلبہ عطافرماکر فیصلہ کردیاگیاکہ اسلام ہی حق ہے اورکفروشرک باطل تواللہ کے اس حصہ کو بخوشی اداکرو ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:{یَوْمَ الْفُرْقَانِ}یَعْنِی بِالْفُرْقَانِ یَوْمَ بَدْرٍ، فَرَّقَ اللهُ فِیهِ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے’’جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا۔‘‘ سے مرادبدرکادن ہے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حق وباطل میں  فرق کردیاتھا۔[94]

اوریادرکھواللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے،جوکوئی اللہ تعالیٰ کامقابلہ کرتاہے تواللہ تعالیٰ ہی غالب آتاہے ۔

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّیَقْضِیَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَیِّنَةٍ وَیَحْیَىٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٤٢﴾(الانفال )
’’ جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا، اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہوجاتے ،لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہوچکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وہ بھی دلیل پر (یعنی حق جان کر)ہلاک ہواورجو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر(حق پہچان کر)زندہ رہے ،بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

یادکرووہ وقت جبکہ تم وادی کے اس جانب پڑاؤکیے ہوئے تھے جوالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا کہلاتاتھااورمدینہ منورہ سے قریب تھا اورمشرکین کالشکرپوری تیاریوں  کے ساتھ دوسری  جانب پڑاؤہوئے کیے ہوئےتھے جوالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کہلاتاتھااورمدینہ سے نسبتًادورتھااورابوسفیان کاتجارتی قافلہ یہاں  سے دورمغرب کی جانب نشیب(ساحل) کی طرف تھا،اگرکہیں  پہلے سے تمہارے اوران کے درمیان باقاعدہ جنگ کااعلان ہوچکاہوتا توبہت ممکن تھاکہ دشمن کی کثرت تعدادوکثرت اسباب اوراپنی قلیل تعداداور بے سروسامانی کودیکھ کرتمہارے ارادے پست ہوجاتے اورتم لڑائی کے بغیرہی پسپائی اختیارکرلیتے لیکن چونکہ اس جنگ کابرپاہونااللہ تعالیٰ نے روزازل سے ہی مقدر کر دیا تھا اس لیے ایسے اسباب پیداکردیئے گئے کہ دونوں  فریق مقام بدرپرایک دوسرے کے مقابل صف آراہوجائیں  تاکہ اسلام اورمسلمانوں  کوعزت اوربلندی حاصل ہو اور مشرکوں کوپستی وذلت ملے اورتاکہ جسے ہلاک ہوناہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہواوراس پرواضح ہوچکاہوکہ مشرکین کاراستہ گمراہی اورباطل کاراستہ ہےاورجسے زندہ رہناہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہےاوراسے یقین کامل ہوکہ اسلام حق ہے ،یقینا ًاللہ سننے اورجاننے والاہے،اس کی سلطنت میں  اندھادھندکام نہیں  ہورہاہے۔

إِذْ یُرِیكَهُمُ اللَّهُ فِی مَنَامِكَ قَلِیلًا ۖ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِیرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٤٣﴾‏ وَإِذْ یُرِیكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَیْتُمْ فِی أَعْیُنِكُمْ قَلِیلًا وَیُقَلِّلُكُمْ فِی أَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿٤٤﴾(الانفال۴۳تا ۴۴)
’’جب کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی، اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہوجاتےاور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا، وہ دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاہ ہے ، جبکہ اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا اور سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔‘‘

سترہ رمضان المبارک بروزجمعہ دونوں  لشکر آمنے سامنے صف آراہوگئے،ایک لشکر اللہ وحدہ لاشریک کانام سر بلندکرنے کے لئے آیاتھااورایک لشکرطاغوتی نظام کی حفاظت کے لئے کمربستہ تھااورپورے کروفرکے ساتھ اللہ کی جماعت(حزب اللہ) کومٹانے آیاتھا، اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے تمہیں  خواب میں  لشکرقریش کو ایک ہزارہونے کے باوجودتھوڑا دکھا یاتھا،جیسے فرمایا

قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا۝۰ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ۝۰ۭ وَاللہُ یُـؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ۝۱۳ [95]

ترجمہ:تمہارے لیے ان دو گروہوں  میں  ایک نشان عبرت تھا، جو( بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ،ایک گروہ اللہ کی راہ میں  لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا ،دیکھنے والے بچشمِ سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر(نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کی چاہتا ہےمدد کر دیتا ہے ،دیدۂ بینا رکھنے والوں  کے لیے اس میں  بڑا سبق پوشیدہ ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَقَدْ قُلِّلُوا فِی أَعْیُنِنَا یَوْمَ بَدْرٍ حَتَّى قُلْتُ لِرَجُلٍ إِلَى جَنْبِی: تَرَاهُمْ سَبْعِینَ؟ قَالَ أُرَاهُمْ مِائَةً ، قَالَ: فَأَسَرْنَا رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْنَا: كَمْ هُمْ؟ قَالَ: كُنَّا أَلْفًا

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدرکے دن کافرہماری آنکھوں  میں  اس قدرتھوڑی تعدادمیں  دکھائے گئے کہ میں  نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے آدمی سے یہ پوچھ رہاتھاکہ کافروں  کی تعدادسترہوگی؟اس نے کہانہیں  ایک سوکی تعدادمیں  ہوں  گے،حتی کہ ہم نے ان میں  سے ایک آدمی کوپکڑکرپوچھاکہ تمہاری تعدادکتنی ہے؟ اس نے جواب دیاہم ایک ہزارہیں ۔[96]

اس بناپرآپ نے اصحاب کرام  رضی اللہ عنہم  کو خوشخبری دی جس سے وہ مطمئن اوران کے دل مضبوط ہوگئے،اگر کہیں  وہ تمہیں  اسلحہ سے لیس لشکرقریش کی تعداد زیادہ دکھا دیتااورپھرآپ اس خبرکواپنے اصحاب  رضی اللہ عنہم  کودے دیتے تو ضرور تم لوگوں  کے ارادے پست ہو جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں  باہمی اختلاف کھڑا ہوجاتااوریہ اختلاف تمہاری کمزوری کاباعث بن جاتا لیکن اللہ نے اپنے لطف وکرم سے تمہیں  پست ہمتی اوراختلاف سے بچایا، یقیناًوہ سینوں  کے چھپے ہوئے بھید تک جانتا ہے،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [97]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت اللہ نے مجاہدین کی نگاہوں  میں  دشمنوں  کو تھوڑا دکھایا اور دشمنوں  کی نگاہوں  میں  تمہیں  کم کر کے پیش کیاتاکہ دونوں  فریق ایک دوسرے کوکم سمجھ کرلڑائی کے لئے میدان میں  کودپڑیں  اور خوب جم کرلڑیں تاکہ اللہ تعالیٰ جس امرکا فیصلہ کر چکاتھاپوراکردکھائے یعنی مشرکین کی طاقت وقوت کوپاش پاش کردے ،

 عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ:{لِیَقْضِیَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا}  أَیْ لِیُؤَلِّفَ بَیْنَهُمْ عَلَى الْحَرْبِ  لِلنِّقْمَةِ مِمَّنْ أَرَادَ الِانْتِقَامَ، مِنْهُ وَالْإِنْعَامَ عَلَى مَنْ أَرَادَ إِتْمَامَ النِّعْمَةِ عَلَیْهِ مِنْ أَهْلِ وِلَایَتِهِ

محمدبن اسحاق نے آیت کریمہ’’تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہےکہ اس کے معنی یہ ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں  جنگ کوبرپاکردیاتاکہ جس سے وہ انتقام لیناچاہیے اس سے انتقام لے لے اورجن دوستوں  کووہ انعام واکرام سے نوازناچاہیے نوازدے۔[98]

اور آخرکار مخلوق کے تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٤٥﴾‏وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِیحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ خَرَجُوا مِن دِیَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ ‎﴿٤٧﴾‏(الانفال )
’’اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کی یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ،اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ،اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے والا ہے۔‘‘

آداب جہادوقتال : اسلام نے جہادکوفرض قراردیاہے مگریہ عام جنگوں  کی طرح علاقے فتح کرنے کے لئے نہیں  ہے جس میں  بچوں ،نوجوانوں ،بوڑھوں  اورعبادت گاہوں  میں  رہنے والوں  کا قتل وغارت کیاجاتاہے،عزت داروں  کوذلیل کیاجاتاہے،عورتوں  کی عزتیں  پامال کی جاتی ہیں ،ہرے بھرےدرختوں  کوکاٹااورتیارکھیتوں  کوآگ لگائی جاتی ہے ،گھروں  میں  لوٹ مارکی جاتی ہے،ہنستے بستےشہروں  کوجلاکرنیست وبابودکردیاجاتاہےبلکہ اس کے برعکس جہادایک عبادت ہے اوردوسری عبادات کی طرح اس کواداکرنا چاہیے،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوجنگ کے آداب اوردشمنوں  سے مقابلے کے وقت شجاعت وبہادری کی تعلیم دیتے ہوئےفرمایااے مسلمانو! جب جہادکے لئے نکلوتوکفارکی طرح غرور و تکبر،اپنی طاقت وشوکت ، کثرت تعداداورسروسامان کارعب جمانے کے لئے نہیں  کہ ہمارے مقابلہ میں  کون کھڑاہوسکتاہےبلکہ انتہائی تواضع ،اللہ تعالیٰ کی رضاکی طلب اور اس کے دین کوپھیلانے کی پاکیزہ نیت رکھتے ہوئے روانہ ہوناچاہیے ،کیونکہ جہاددنیوی منفعت کے لئے نہیں  ہوتابلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں  ہوتاہے جس کا مقصد انسانوں  کو ظلم واستبداد کے پنجے سے چھڑاناہوتاہے، اس لئےجب جہادفی سبیل اللہ کے لئے نکلوتو کثرت سے اپنے رب کاذکرکرتے ہوئے چلوتاکہ اگر مسلمان تھوڑے ہوں  تواللہ کی مدد کے طالب رہیں  اوراللہ بھی کثرت ذکرکی وجہ سے تمہاری طرف متوجہ رہے اوراگرمسلمان تعدادمیں  زیادہ ہوں  توکثرت کی وجہ سے ان کے اندرعجب اورغرورپیدانہ ہو بلکہ اصل توجہ اللہ کی امدادپرہی رہے، اوراپنے تمام احوال میں اللہ اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے قدم بڑھاناہے تاکہ تھوڑی سی نافرمانی اللہ کی مددسے محرومی کا باعث نہ بن جائے ،آپس میں  تنازع اوراختلاف نہ کروجس سے تمہارے دل تشتت اورافراق کا شکار ہو جائیں ،پھرتم بزدل بن جاوگے ، تمہارے عزائم کمزورہوجائیں  گے ، تمہاری طاقت منتشر، بکھرجائے گی اورتم سے فتح ونصرت کاوہ وعدہ اٹھالیاجائے گاجواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت سے مشروط ہے بلکہ اتحادواتفاق کوہرحالت میں  برقرار رکھوتاکہ تمہاری طاقت متحدرہے اوردشمن خائف رہے ورنہ دشمن تمہاری اس کمزوری کا فائدہ اٹھائے گا،پھرجب فوجیں  صف آرا ہوجائیں  اورگھمسان کی جنگ شروع ہوجائے اورکتنے ہی کٹھن مراحل سے گزرناپڑے تواس وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدمی اوراستقلال کامظاہرہ کریں کیونکہ اس کے بغیرمیدان جنگ میں  ٹھیرناممکن ہی نہیں  ،

عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ،ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا قَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَاسْأَلُوا اللهَ الْعَافِیَةَ، فَإِذَا لَقِیتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوفِ

سالم ابوالنضر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوئے اورخطبہ ارشاد فرمایالوگو!دشمن سے مڈ بھیڑکی آرزومت کرواوراللہ سے عافیت مانگاکروتاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کاموقعہ پیداہوجائے توصبرکرو(یعنی جم کرلڑو)اوریقین جان لوکہ جنت تلواروں  کے سائے تلے ہے۔[99]

اور صبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوٹے یعنی اس دوران اپنے اعصاب کومضبوط رکھتے ہوئے اپنے جذبات وخواہشات کوقابومیں  رکھو، جلدبازی ،گھبراہٹ اورہراس طمع اور نامناسب جوش سے بچو،ٹھنڈے دل اورجچی تلی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرو،خطرات اورمشکلات سامنے ہوں  توتمہارے قدموں  میں  لغزش نہ آنے پائے ،اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں  توغیظ وغضب کاہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزدنہ کرانے پائے ، مصائب کاحملہ ہواورحالات بگڑتے نظرآرہے ہوں  تواضطراب میں  تمہارے حواس پراگندہ نہ ہوجائیں  ،حصول مقصدکے شوق سے بیقرارہوکریاکسی نیم پختہ تدبیرکوسراسری نظرمیں  کارگردیکھ کرتمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں  اوراگرکبھی دنیاوی فوائدومنافع اورلذت نفس کی ترغیبات تمہیں  اپنی طرف لبھارہی ہوں  توان کے مقابلے میں  تمہارانفس اس درجہ کمزورنہ ہوکہ بے اختیار اس کی طرف کھنچ جاؤ،جولوگ ان تمام حیثیات سے صابرہوں  میری تائیدانہی کوحاصل ہے،اوران لوگوں  کے سے رنگ ڈھنگ اختیارنہ کروجوگھروں  سے اتراتے اورلوگوں  کواپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اورجن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، یعنی دوران جنگ بھی اسلام کی تعلیمات کے خلاف کوئی قدم نہیں  بڑھانا،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ، قَالَ:  لَمَّا خَرَجَتْ قُرَیْشٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى بَدْرٍ، خَرَجُوا بِالْقِیَانِ وَالدُّفُوفِ،  فَأَنْزَلَ اللهُ: {وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا} الْآیَة

محمدبن کعب کہتے ہیں  جب قریش مکہ سے میدان بدرکی طرف روانہ ہوئے تووہ گانے بجانے والی عورتوں  اورموسیقی کے آلات کے ساتھ نکلے تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’ان لوگوں  جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں  میں  خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں  سے چلے۔‘‘ نازل فرمائی تھی۔[100]

وَخَرَجَ النّسَاءُ مَعَهُنّ الدّفوف، یحرّضن الرجال ویذكّرنهم قتلى بدر فى كُلّ مَنْزِلٍ

اورعورتیں  بھی دف کیے ہوئے ان کے ساتھ روانہ ہوئیں  اورہرمنزل پرلوگوں  کوغزوہ بدرکاتذکرہ کرتے ہوئے بھڑکاتی رہیں ۔[101]

اور اللہ ان کے عملوں  کو احاطے میں  لئے ہوئے ہے

‏ وَإِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّی جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَیْهِ وَقَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِّنكُمْ إِنِّی أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٤٨﴾‏(الانفال)
’’ جبکہ ان کے اعمال کو شیطان انہیں زینت دار دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا میں خود بھی تمہارا حمایتی ہوں ،لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے ۔‘‘

ذرا اس وقت کاخیال کرو جب کہ شیطان بنوکنانہ کے سردارسراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں  نمودارہوااوراس نے سرداران قریش کے کرتوت ان کی نگاہوں  میں  خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور انہیں  فتح وغلبہ کی بشارت دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم تعداد،جنگی سازوسامان اورہیئت کے اعتبارسے اتنے طاقتورہوکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے رفقاءتمہارا مقابلہ نہیں  کرسکتے اورانہیں اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا، مگرجب میدان بدرمیں  دونوں  گروہ مدمقابل ہوئےاوراس نے لشکرقریش کے مدمقابل جبرائیل  علیہ السلام  کوایک ہزار ملائکہ کی صف آراہوتے دیکھاتواس نے سمجھ لیاکہ آج مشرکین کی خیر نہیں  تو وہ اُلٹے پاؤں  یہ کہتاہوا بھاگ کھڑاہوا کہ میں  تمہارا ساتھ نہیں  دے سکتا، میں  تمہارے مدمقابل اللہ کی وہ مخلوق دیکھ رہا ہوں  جو تم لوگ نہیں  دیکھتے، یعنی میں  ان فرشتوں  کودیکھ رہاہوں  جن کاکوئی مقابلہ نہیں  کرسکتا،میں  تواللہ سے ڈرتاہوں  کہ کہیں  وہ مجھے اس دنیاہی میں  عذاب نہ دے دے اور اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے،جیسے فرمایا

كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ۝۰ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَآ اَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْهَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۷ۧ [102]

ترجمہ:ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کُفر کر ! اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے ، تو وہ کہتا ہے کہ میں  تجھ سے برئ الذمہ ہوں  مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے،پھر دونوں  کا انجام یہ ہونا  ہے کہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں  جائیں  اور ظالموں  کی یہی جزا ہے۔

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ كَرِیزٍ؛أَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَا رؤی الشَّیْطَانُ یَوْمًا هُوَ فِیهِ أَصْغَرُ، وَلاَ أَدْحَرُ، وَلاَ أَحْقَرُ، وَلاَ أَغْیَظُ مِنْهُ یَوْمِ عَرَفَةَ ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِمَا یرَى مِنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَةِ، وَتَجَاوُزِ اللهِ عَنِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ، إِلَّا مَا رِأىَ من یَوْمَ بَدْرٍ،  فقِیلَ: وَمَا رَأَى  من یَوْمَ بَدْرٍ؟ فقَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ رَأَى جِبْرِیلَ علیه السلام وهو یَزَعُ الْمَلاَئِكَةَ

طلحہ بن عبیداللہ بن کریزسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس قدرابلیس عرفہ کے دن حقیروذلیل ورسوااوردرماندہ ہوتاہے اتناکسی اوردن نہیں  دیکھاگیاکیونکہ وہ دیکھتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام معافی اورعام رحمت نازل ہوتی ہے ،ہرایک کے گناہ عموماًمعاف ہوجاتے ہیں  ،ہاں  غزوہ بدرکے دن اس کی ذلت ورسوائی کاکچھ مت پوچھو، لوگوں  نے کہاغزوہ بدرمیں  کیادیکھاتھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب اس نے دیکھاکہ فرشتوں  کی فوجیں  جبرائیل  علیہ السلام کی ماتحتی میں  آرہی ہیں ۔ [103]

إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَٰؤُلَاءِ دِینُهُمْ ۗ وَمَن یَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٤٩﴾‏ وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ یَتَوَفَّى الَّذِینَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ ‎﴿٥٠﴾‏ ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ ‎﴿٥١﴾(الانفال)
’’جب منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں میں روگ تھا کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ بلا شک و شبہ غلبے والا اور حکمت والا ہے، کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو، یہ بسبب ان کاموں کے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔‘‘

جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کےدلوں  کو روگ لگا ہوا ہےکہہ رہے تھے کہ ان لوگوں  کی تعداداوران کی جنگی سازوسامان تودیکھولیکن پھربھی لشکرقریش کے ساتھ مقابلہ کرنے چلے ہیں  جوتعدادمیں  ان سے کہیں  زیادہ ہیں  اورسامان حرب ووسائل سے بھی بڑھ کرہیں ،معلوم ہوتاہے اِن کے دین نے ان کو دھوکے اورفریب میں  ڈال دیا ہے ، اس لئےیہ موٹی سی بات ان کی سمجھ میں  نہیں  آرہی،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ:{إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ} وَذُكِرَ لَنَا أَنَّ أَبَا جَهْلٍ عَدُوَّ اللهِ لَمَّا أَشْرَفَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ ، قَالَ: وَاللهِ لَا یَعْبُدُ اللهَ بَعْدَ الْیَوْمِ، قَسْوَةً وَعُتُوًّا

قتادہ رحمہ اللہ نے آیت کریمہ’’جب منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں  میں  روگ تھا کہ انہیں  تو ان کے دین نے دھوکے میں  ڈال دیا ہےجو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ بلا شک و شبہ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘کے بارے میں  کہا ہم سے یہ بیان کیاگیاہے اللہ کے دشمن ابوجہل نے جب محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو دیکھا  توقساوت وسرکشی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہاواللہ! یہ لوگ آج کے بعداللہ کی عبادت نہیں  کر سکیں  گے۔[104]

عَنْ عَامِرٍ، فِی هَذِهِ الْآیَةِ:إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرِضٌ غَرَّ هَؤُلَاءِ دِینُهُمْ ،قَالَ: كَانَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ تَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ، فَخَرَجُوا مَعَ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَ بَدْرٍفَلَمَّا رَأَوْا قِلَّةَ الْمُسْلِمِینَ، قَالُوا:غَرَّ هَؤُلَاءِ دِینُهُمْ

اورعامرشعبی رحمہ اللہ  اس آیت کریمہ’’جب منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں  میں  روگ تھا کہ انہیں  تو ان کے دین نے دھوکے میں  ڈال دیا ہے۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں  کہ اہل مکہ میں  سے کچھ لوگوں  نے اسلام کے بارے میں  گفتگوکی اوربدرکے دن وہ مشرکوں  کے ساتھ نکلے اورجب انہوں  نے مسلمانوں  کی قلت تعدادکودیکھاتوکہاان لوگوں  کوان کے دین نے دھوکے میں  ڈال رکھاہے۔[105]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ غالب ہےکوئی طاقت اس کی طاقت پرغالب نہیں  آسکتی اوروہ اپنی قضاوقدرمیں حکمت والاہے، کاش! تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں  کی رُوحیں  قبض کر رہے تھے،اس وقت وہ ان کے چہروں  اور ان کے کولہوں  پربری طرح ضربیں  لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھےلو اب جلنے کی سزا بھگتو، یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں  نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا ورنہ اللہ تو اپنے بندوں  پر ظلم کرنے والا نہیں  ہے،بلکہ وہ توعادل ہے جوہرقسم کے ظلم وجورسے پاک ہے، ایک مقام پرفرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْهِمْ۝۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳  [106]

ترجمہ: کاش تم ظالموں  کو اس حالت میں  دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں  ڈبکیاں  کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں  کہ لاؤ نکالو اپنی جان ، آج تمہیں  ان باتوں  کی پاداش میں  ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں  سرکشی دکھاتے  تھے۔

ایک مقام پرفرمایا

فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ۝۲۷ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَهُمْ۝۲۸ۧ [107]

ترجمہ:پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے اِن کی روحیں  قبض کریں  گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں  پر مارتے ہوئے انہیں  لے جائینگے ؟ یہ اسی لیے تو ہوگا کہ انہوں  نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے اور اس کی رضا کا راستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا اسی بنا پر اس نے اِن کے سب اعمال ضائع کر دیے۔

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَیْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ،فَیَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ  وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں ثُمَّ یَجِیءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ   فَیَقُولُ: أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِیثَةُ، اخْرُجِی إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ، قَالَ: فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِهِ، فَیَنْتَزِعُهَا كَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَیَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ یَدَعُوهَا فِی یَدِهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ حَتَّى یَجْعَلُوهَا فِی تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَیَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِیحِ جِیفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں  والے فرشتے اتر کر آتے ہیں  جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں ، پھر ملک الموت آکر اس  کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں  اور اس سے کہتے ہیں اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل،یہ سن کر اس کی روح جسم میں  دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں  جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں  فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں  نہیں  چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں  لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے ۔ [108]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا،یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا  یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپروردگار فرماتاہے اے میرے بندو!میں  نے اپنے نفس پرظلم حرام کیاہےاورمیں  نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہےپس تم ایک دوسرے پرظلم مت کرو،اے میرے بندو!یہ تمہارے ہی اعمال ہیں  جومیں  نے شمارکررکھے ہیں  پس جواپنے اعمال میں  بھلائی پائے اس پراللہ کی حمدکرےاورجواس کے برعکس پائے تووہ اپنے آپ کوہی ملامت کرے۔[109]

‏ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَفَرُوا بِآیَاتِ اللَّهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٥٢﴾‏ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٥٣﴾(الانفال)
’’مثل فرعونیوں کے حال کے اور ان سے اگلوں کے، کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں سے کفر کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں پکڑ لیا ،اللہ تعالیٰ یقیناً قوت والا اور سخت عذاب والا ہے،یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی، اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

کفاراللہ کے ازلی دشمن ہیں :یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلی اقوام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں  نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا تو اللہ نے ان کی سرکشی اوربغاوت کے سبب ان پرعذاب نازل کردیا، اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے،اورایک بنیادی قاعدہ بیان فرمایاکہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کاراستہ اختیارکرکے اوراللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال واخلاق کونہیں  بدل لیتی اللہ تعالیٰ اس پراپنی دین ودنیاکی نعمتوں  کادروازہ بندنہیں  فرماتا،ایک مقام پرفرمایا

 اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۝۱۱ [110]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں  بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں  بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں  ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں  ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں  میں  اللہ تعالیٰ گناہوں  کی وجہ سے اپنی نعمتیں  سلب فرمالیتاہے اوراللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں  سے اجتناب کیاجائے اوراطاعت الہٰی کاراستہ اختیارکیاجائے،اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والاہے۔

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوا ظَالِمِینَ ‎﴿٥٤﴾‏ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الَّذِینَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ الَّذِینَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِی كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا یَتَّقُونَ ‎﴿٥٦﴾(الانفال )
’’ مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں،پس ان کے گناہوں کے باعث ہم نے انہیں برباد کیا  اور فرعونیوں کو ڈبو دیا،یہ سارے ظالم تھے، تمام جانداروں سے بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو کفر کریں، پھر وہ ایمان نہ لائیں ،جن سے تم نے عہد پیمان کرلیا پھر بھی وہ اپنے عہد و پیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے۔‘‘

زمین کی بدترین مخلوق :آلِ فرعون اور ان سے پہلی اقوام کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ اسی ضابطہ کے مطابق تھاجوبیان کیاگیاہے،اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ان میں  پیغمبرمبعوث فرمائے جنہوں  نے رسالت کاحق اداکردیا،اللہ تعالیٰ نے انہیں  سوچنے ،سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت عطافرمائی مگر انہوں  نے اس سے کوئی فائدہ نہیں  اٹھایااور دین حق کی تکذیب اورپیغمبروں  کامذاق ہی اڑاتے رہے ،آخر ایک وقت مقررہ پرہم نے ان کے کفروشرک اوردعوت حق کی تکذیب کی پاداش میں  انہیں  مختلف قسم کے عذاب نازل کرکےصفحہ ہستی سے مٹادیا اوران اقوام کے آثاروکھنڈرات تم اپنے چاروں  طرف دیکھتے ہو،اور آل فرعون کوبنی اسرائیل کے سامنےان کے کفروشرک اورتکذیب حق کے سبب سمندرمیں  غرق کر دیااورفرعون کی لاش کورہتی دنیاتک کے لئے عبرت کانشانہ بنادیاورنہ اللہ توکسی پرظلم نہیں  کرتا،

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [111]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا ، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں  کے حق میں  ظالم نہیں  ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۱۸۲ۚ [112]

ترجمہ:یہ تمہاے اپنے ہاتھوں  کی کمائی ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں  کے لیے ظالم نہیں  ہے۔

ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاكَ وَأَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ [113]

ترجمہ:یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں  نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں  پر ظلم کرنے والا نہیں  ہے۔

مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۲۹ۧ [114]

ترجمہ:میرے ہاں  بات پلٹی نہیں  جاتی اور میں  اپنے بندوں  پر ظلم توڑنے والا نہیں  ہوں ۔

یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں  سب سے بدترین وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں  (خصوصاً) یہودی جن کے ساتھ تو نے باہمی تعاون ومددگاری کامعاہدہ کیاتھا مگر وہ اس معاہدہ کی کوئی پرواہ نہیں  کرتے بلکہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں  اور ذرا اللہ کا خوف نہیں  کرتے۔

یعنی یہودیوں  میں  تین خصلتیں  جمع ہیں ،کفر،عدم ایمان اورخیانت۔

فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِیَانَةً فَانبِذْ إِلَیْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا سَبَقُوا ۚ إِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُونَ ‎﴿٥٩﴾‏(الانفال)
 ’’پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں، ہوسکتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کریں،اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ،کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے، یقیناً وہ عاجز نہیں کرسکتے۔

پس اگر یہ لوگ تمہیں  لڑائی میں  مل جائیں  اورتمہارے اوران کے درمیان عہدومیثاق نہ ہو تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دُوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں  ان کے حواس باختہ ہو جائیں ،توقع ہے کہ کہ بد عہدوں  کے اس انجام سے وہ سبق لیں  گے،

عَنِ السُّدِّیِّ:{فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ} [115] یَقُولُ: نَكِّلْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ مَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْعَدُوِّ، لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ أَنْ یَنْكُثُوا فَیُصْنَعَ بِهِمْ مِثْلُ ذَلِكَ

سدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  اس آیت’’پس جب کبھی تو لڑائی میں  ان پر غالب آجائے انہیں  ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں ۔‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ شایدوہ اس خوف کی وجہ سے عہدشکنی نہ کریں  کہ کہیں  ان کے ساتھ بھی اسی طرح نہ کیاجائے جیسے ان کے ساتھ کیاگیاہے۔[116]

اور اگر کبھی تمہیں  کسی قوم سے بدعہدی اوروعدہ خلافی کا خطرہ ہو تومخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے انہیں  باقاعدہ مطلع کردوکہ آئندہ ہمارے اورتمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں  تاکہ دونوں  فریق اپنے اپنے طورپراپنی حفاظت کے ذمہ دارہوں  اورکوئی فریق علمی اورمغالطے میں  نہ ماراجائے، یقیناً اللہ نقص عہدکرنے والوں  کو پسند نہیں  کرتا ،

سُلَیْمَ بْنَ عَامِرٍ، یَقُولُ: كَانَ بَیْنَ مُعَاوِیَةَ وَبَیْنَ أَهْلِ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ یَسِیرُ فِی بِلاَدِهِمْ، حَتَّى إِذَا انْقَضَى العَهْدُ أَغَارَ عَلَیْهِم، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَى دَابَّةٍ أَوْ عَلَى فَرَسٍ، وَهُوَ یَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ، وَفَاءٌ لاَ غَدْرٌوَإِذَا هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ ،  فَسَأَلَهُ مُعَاوِیَةُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلاَ یَحُلَّنَّ عَهْدًا، وَلاَ یَشُدَّنَّهُ حَتَّى یَمْضِیَ أَمَدُهُ أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ، قَالَ: فَرَجَعَ مُعَاوِیَةُ بِالنَّاسِ

سلیم بن عامر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کاتب وحی امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  اوررومیوں  کے درمیان معاہدہ تھاجب اس کی مدت ختم ہونے کوہوئی تو امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں  جمع کرنی شروع کردیں  تاکہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں  پرحملہ کردیاجائے،ناگہاں  ایک مردآیااوراس نے کہااللہ اکبر!تم کووفاکرنی چاہیے نہ کہ عہدشکنی ،دیکھاتووہ صحابی رسول عمروبن عبسہ  رضی اللہ عنہ تھے،امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ نے اس کاسبب دریافت کیاتوانہوں  نے فرمایامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بیان کرتے ہوئے سناکہ جس کسی کاکسی قوم کے درمیان عہدہوتووہ اس عہدکونہ توڑے اورنہ شدت کرے یعنی اس میں  کچھ تغییرنہ کرے یہاں  تک کہ عہدکی مدت گزرجائے یاوہ عہداس کی طرف برابر پھینک دے یعنی ان کوآگاہ کردے کہ ہمارے اورتمہارے درمیان صلح نہیں  تاکہ علم وصلح میں  دونوں  برابرہوجائیں ، جس پر امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  نے اپنی فوجیں  واپس بلالیں  ۔ [117]

اپنے رب کے ساتھ کفرکرنے والے اوراس کی آیات کوجھٹلانے والے اس غلط فہمی میں  نہ رہیں  کہ وہ بازی لے جائیں  گے اورہم پرقدرت حاصل کرلیں  گے، جیسے فرمایا

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۴ [118]

ترجمہ:اور کیا وہ لوگ جو بری حرکتیں  کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں  گے؟بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں  ۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ وَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝۰ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۵۷ۧ  [119]

ترجمہ:جو لوگ کفر کر رہے ہیں  ان کے متعلق اس غلط فہمی میں  نہ رہو کہ وہ زمین میں  اللہ کو عاجز کر دیں  گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ۔

یقیناً وہ اللہ کی جماعت کو شکست نہیں  دے سکتے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۵۶ۧ  [120]

ترجمہ: بیشک اللہ کی جماعت ہی سدا غالب رہنے والی ہے۔

اوراللہ کاکلمہ ہمیشہ بلندرہنے والا ہے ،

۔۔۔ وَكَلِمَةُ اللهِ هِیَ الْعُلْیَا۔۔[121]

ترجمہ: اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے۔

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِینَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ یَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللَّهِ یُوَفَّ إِلَیْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٦٠﴾‏(الانفال )
’’تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے، جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔‘‘

طاقت کاحصول :اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں  کوبتایاکہ تمہارے دشمن بہت زیادہ ہیں  ،وہ تمہیں  اورتمہارے دین کوختم کرنے کے لئے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں  دیں  گے ،اس لئے اپنی آزادی اورملکی سالمتی واستحکام کیلئے جنگی استعدادبڑھاؤاور ہمہ وقت تمہارے پاس مختلف انواع کااسلحہ میزائیل،ٹینک،ہرطرح کی توپیں ،مشین گنیں  ، بندوقیں ،ایٹم بم،ہوائی وبحری جنگی جہاز ، آبدوزیں ،دفاعی قلعہ بندیاں ،مورچے،نقل وحمل کی گاڑیاں ،دیگردفاعی آلات حرب اورایک تجربہ کار مستقل فوج تیاررکھو تاکہ دشمن پر تمہاری دھاک بیٹھ جائے اوروہ تمہاری طرف ٹیڑھی،میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے،اوراگردشمن کوئی کاروائی کرناچاہے تو فوراًجنگی کاروائی کی جاسکے ،یہ نہ ہوکہ خطرہ سر پر آنے کے بعدگھبراہٹ میں  جلدی جلدی رضاکاراوراسلحہ اورسامان رسدجمع کرنے کی کوشش کرواوراس اثنامیں  کہ یہ تیاری مکمل ہودشمن اپناکام کرجائے ،

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم یَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ:  {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ} أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ

عقبہ بن عامرسے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ منبرپرفرمارہے تھےخبردار!قوت سے مرادتیراندازی ہے،  خبردار!قوت سے مرادتیراندازی ہے، خبردار!قوت سے مرادتیراندازی ہے۔[122]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الخَیْلُ لِثَلاَثَةٍ: لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِی لَهُ أَجْرٌ: فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِی مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِی طِیَلِهَا ذَلِكَ فِی المَرْجِ وَالرَّوْضَةِ، كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ، وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِیَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِ، كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ یُرِدْ أَنْ یَسْقِیَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، فَهِیَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّیًا وَتَعَفُّفًا، وَلَمْ یَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِی رِقَابِهَا وَلاَ ظُهُورِهَا، فَهِیَ لَهُ سِتْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِئَاءً وَنِوَاءً، فَهِیَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الحُمُرِ، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیَّ فِیهَا إِلَّا هَذِهِ الآیَةَ الفَاذَّةَ الجَامِعَةَ: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ، وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ}[123]

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا گھوڑا تین قسم کے آدمیوں  کے پاس ہو سکتا ہے، ایک شخص کیلئے باعث اجر ہےاورایک شخص جس کے لئے باعث ستر ہے،اور ایک شخص کیلئے جرم کا سبب ہے، ِ باعث ثواب ہےاس شخص کے لیے ہے جو اس کو اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے کیلئے پالے اور کسی چراگاہ یا باغ میں (چرنے کے لیے) اس کو لمبی رسی میں  باندھ دےتو اس پر چراگاہ یا باغ کا جو جو حصہ اس رسی کے اندرجوبھی کھایا اتنے ہی تنکوں  کے برابر نیکیاں  اس کے مالک کو ملیں  گی،اور اگر اتفاق سے وہ اپنی رسی توڑ ڈالے اورایک ٹیلہ یا دو ٹیلہ پھاند جائے تو اس قدموں  کے نشانات اوراس کی لیدوغیرہ بھی اس کے لیے نیکیاں  بن جائیں  گی،اور اگر وہ گھوڑا کسی نہرکے پاس سے گزرا اور اس نے اس سے پانی پی لےاگرچہ مالک نےاسے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہوتب بھی اسے نیکیاں  ملیں  گی،الغرض یہ گھوڑااس شخص کے لیے باعث اجرہے،اور وہ شخص جس نےگھوڑے کو غنااورعفت کے حصول کی غرض سے باندھااوراس کی گردن اورپشت کے بارے میں  وہ اللہ کے حق کونہ بھولاتویہ اس کے لیے سترپوشی کاموجب ہوگا ،اورجس شخص نے اسے فخر،ریاکاری اورمسلمانوں  کی دشمنی کے لیے باندھا تویہ اس کے لیے باعث گناہ ہوگا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے گدھوں  کی بابت پوچھا گیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاان کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے مجھ پرصرف یہ ایک جامع اورمنفردآیت نازل فرمائی ہے’’ جو ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘[124]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْخَیْلُ ثَلَاثَةٌ، فَفَرَسٌ لِلرَّحْمَنِ، وَفَرَسٌ لِلْإِنْسَانِ، وَفَرَسٌ لِلشَّیْطَانِ، فَأَمَّا فَرَسُ الرَّحْمَنِ: فَالَّذِی یُرْبَطُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَعَلَفُهُ وَرَوْثُهُ وَبَوْلُهُ، وَذَكَرَ مَا شَاءَ اللَّهُ، وَأَمَّا فَرَسُ الشَّیْطَانِ: فَالَّذِی یُقَامَرُ أَوْ یُرَاهَنُ عَلَیْهِ، وَأَمَّا فَرَسُ الْإِنْسَانِ: فَالْفَرَسُ یَرْتَبِطُهَا الْإِنْسَانُ یَلْتَمِسُ بَطْنَهَا، فَهِیَ تَسْتُرُ  مِنْ فَقْرٍ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں بعض گھوڑے تو رحمان کےاور بعض انسان کے لیےاور بعض شیطان کے لیے ہوتے ہیں ، رحمان کا گھوڑا تو وہ ہوتا ہے جسے اللہ کے راستہ میں  باندھا جائےاس کا چارہ، اس کی لید اور اس کا پیشاب اورکچھ دوسری چیزوں  کابھی ذکرفرمایا(قیامت کے دن ترازومیں  نیکیوں  کے پلڑے میں  رکھاجائے گا)اورشیطان کا گھوڑا وہ ہوتا ہے جسے جوئےاورگھڑسواری کے طور پر رکھا جائے،اور انسان کا گھوڑا وہ ہوتا ہے جسے انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لئے روزی کی تلاش میں  باندھتا ہےاور وہ اسے فقروفاقہ سے بچاتا ہے۔[125]

پھرلڑائی کے لئے اٹھنے والے ہاتھ کواپنی قوت بازوسے توڑ کر پھینک دوتاکہ آئندہ کوئی دشمن تمہیں  نرم چارہ سمجھنے کی غلطی نہ کرے،تمہاری مضبوط طاقت کاایک فائدہ یہ بھی ہوگاکہ اللہ کی زمین پر امن قائم رہے گا اور تم آزادی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زمین پراللہ کے قوانین کونافذکرسکو گے، اوراللہ کی راہ میں  جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا یعنی قیامت کے روزاس کااجرکئی گناکرکے اداکیاجائے گاحتی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں  خرچ کیے گئے مال کاثواب سات سوگناتک ،بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھاکردیاجائے گااور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گایعنی تمہارے کئے اس کے اجروثواب میں  کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی،جیسے فرمایا

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱ [126]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  صرف کرتے ہیں  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہےجیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیاں  نکلیں  اور ہر بالی میں  سو دانے ہوں  ، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے ، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٦١﴾‏وَإِن یُرِیدُوا أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٦٢﴾‏ وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَّا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَیْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٦٣﴾‏(الانفال)
’’اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو بھی صلح کی طرف جھک جا، اور اللہ پر بھروسہ رکھ، یقیناً وہ سننے جاننے والا ہے ،اگر وہ تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے،ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا، یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمتوں والا ہے۔‘‘

اور اگرحالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں  اور دشمن بھی صلح کی خواہش ظاہرکرے توبہادرانہ اوردلرانہ طورپر اس کے لئے تیارہوجاؤ،اس طرح تمہیں  اخلاقی برتری حاصل ہوگی کیونکہ نیتوں  کاحال اللہ ہی جانتاہے اس لئے شک وشبہ میں  مت پڑو کہ دشمن کی نیت ٹھیک نہیں  اوراس شبہ میں  خونریزی کوطویل کرو،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهُ سَیَكُونُ بَعْدِی اخْتِلافٌ، أَوْ أَمْرٌ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ السِّلْمَ، فَافْعَلْ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایامیرے بعدبہت اختلاف وغیرہ رونماہوگالہذااگرتم صلح کی کوشش کرسکو  توضرورکرو۔[127]

اگردشمن کاواقعی ہی کوئی غلط ارادہ ہے اوروہ مہلت حاصل کرنا چاہتا ہے تواللہ پربھروسہ کرو وہی تمہیں دشمن کے مکروفریب سے محفوظ رکھے گااوراس مکروفریب کا ضرر انہی کی طرف لوٹائے گا،اللہ تعالیٰ نے اپنااحسان یاددلایاکہ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں  کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی، اور مومنوں  کے دلوں  میں  صدیوں  سے جوپرانی جوعداوتیں  تھیں  اسے محبت والفت میں  تبدیل فرمادیا،پہلے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ ایک دوسرے کاجانثارمضبوط جتھابن گئے ،یہ اللہ کی قدرت اورمشیت تھی ورنہ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں  کے دل نہ جوڑ سکتے تھے ،یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے، جیسے فرمایا

۔۔۔ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۔۔۔۝۰۝۱۰۳ [128]

ترجمہ: اللہ کے اس احسان کویادرکھوجواس نے تم پرکیاہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ،تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ، قَسَمَ فِی النَّاسِ فِی المُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ یُعْطِ الأَنْصَارَ شَیْئًافَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ یُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ  اللهُ بِی، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فَأَلَّفَكُمُ اللهُ بِی، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللهُ بِی، كُلَّمَا قَالَ شَیْئًا، قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ،قَالَ: لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ: جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا أَتَرْضَوْنَ أَنْ یَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالبَعِیرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ، لَوْلاَ الهِجْرَةُ  لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِیًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِیَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا،الأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أُثْرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِی عَلَى الحَوْضِ

عبداللہ بن زیدبن عاصم  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ حنین کے موقع پراللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوجوغنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزورایمان کے لوگوں  میں (جوفتح مکہ کے بعدایمان لائے تھے)کردی اور انصار کو اس میں  سے کچھ نہیں  دیااس بات پر انصارکو ملال ہواکہ وہ مال جورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسروں  کودیاانہیں  کیوں  نہیں  دیا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بعدانہیں  خطاب کیااورفرمایا اے انصاریو!کیامیں  نے تمہیں  گمراہ نہیں  پایاتھاپھرتم کومیرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اورتم میں  آپس میں  دشمنی اورنااتفاقی تھی تواللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں  باہم الفت ومحبت پیداکی اورتم محتاج تھے اللہ نے میرے ذریعہ غنی کیا،آپ کے ایک ایک جملے پرانصارکہتے جاتے تھے کہ اللہ اوراس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مندہیں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ اگرتم چاہتے تومجھ سے اس اس طرح بھی کہہ سکتے تھے(کہ آپ آئے تولوگ آپ کوجھٹلارہے تھے لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی  وغیرہ)کیاتم اس پرخوش نہیں  ہو کہ جب لوگ اونٹ بکریاں  لے جارہے ہوں  گے توتم اپنے گھروں  کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوساتھ لیے جارہے ہوگے؟  اگرہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں  بھی انصارکاایک آدمی بن جاتا،لوگ خواہ کسی گھاٹی یاوادی میں  چلیں میں توانصارکی وادی اورگھاٹی میں  چلوں  گا،انصاراس کپڑے کی طرح ہیں  یعنی استرجوہمیشہ جسم سے لگارہتاہے اوردوسرے لوگ اوپرکے کپڑے کی طرح ہیں  یعنی ابرہ،تم لوگ(انصار)دیکھوگے کہ میرے بعدتم پردوسروں  کوترجیح دی جائے گی،تم ایسے وقت میں  صبرکرنا یہاں  تک کہ مجھ سے حوض پرآملو۔[129]

یقیناً وہ بڑا زبردست اوراپنے تمام افعال اوراحکام میں  حکمت والا ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن یَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ ۚ وَإِن یَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ یَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن یَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ ۚ وَإِن یَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُوا أَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِینَ ‎﴿٦٦﴾‏(الانفال)
’’اےنبی ! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں،اے نبی ! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ، اگر تم میں بیس بھی صبر والے ہوں گےتو وہ دو سو پر غالب رہیں گے، اور اگر تم ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس واسطے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں،اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘

ایک مجاہددس کفارپربھاری :اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوجہادکی ترغیب دی اورفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہل ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے،یعنی وہ مسلمانوں  کاحامی وناصرہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! مومنوں  کوجہادکے لئےخوب ترغیب دو، تاکہ ان کے عزائم مضبوط ہوں  اوران کے ارادوں  میں  نشاط پیدا ہو اور مسلمانوں  کوبشارت دی کہ اگر تم میں  سے بیس آدمی ثابت قدمی سے لڑنے والے ہوں  تو وہ دو سو پر غالب آئیں  گے اور اگر سو آدمی ثابت قدمی سے لڑنے والے ہوں  گے تو منکرین حق کے ہزار آدمیوں  پر غالب ہوں  گے چاہے وہ افرادی قوت اور سازوسامان سے زیادہ ہوں  یعنی ایک اوردس کاتناسب ہوگا کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں  جو یہ شعور نہیں  رکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے جہادفی سبیل اللہ کرنے والے مجاہدین کے لئے کیااجروثواب تیار کر رکھا ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  صف بندی کے وقت اورمقابلے کے وقت مجاہدین کا دل بڑھاتے رہتے،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، قَالَ: یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِیُّ: یَا رَسُولَ اللهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا یَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ؟ قَالَ: لَا وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ:فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا، فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ، فَجَعَلَ یَأْكُلُ مِنْهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِی هَذِهِ إِنَّهَا لَحَیَاةٌ طَوِیلَةٌ، قَالَ: فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے روزفرمایااٹھوجنت میں  جانے کے لئےجس کی چوڑائی تمام آسمانوں  اورزمین کے برابرہے،عمیربن حمام انصاری  رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  !جنت کی چوڑائی آسمانوں  اورزمین کے برابرہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،انہوں  نے کہاواہ سبحان اللہ!آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ایساکیوں  کہتاہے؟وہ بولے کچھ نہیں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  !میں  نے اس امیدسے کہاکہ میں  بھی جنت کے لوگوں  میں  سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتوجنت والوں  میں  سے ہے،یہ سن کرانہوں  نے چندکھجوریں  اپنے ترکش سے نکالیں  اوراس کوکھانے لگے،پھرکہنے لگے اگرمیں  اپنی کھجوریں  کھانے تک زندہ رہوں  تویہ بڑی زندگی ہوگی ، چنانچہ جتنی کھجوریں  باقی تھیں  وہ پھینک دیں  اورکفارسے لڑتے ہوئے شہیدہوگئے۔[130]

مگریہ حکم مسلمانوں  پرگراں  گزراکیوں  کہ اس آیت میں  ان پریہ فرض قرار دیا گیا تھاکہ ایک مسلمان دس کافروں  کے مقابلے سے نہ بھاگےتواللہ تعالیٰ نے اس میں  تخفیف کردی اورفرمایاکہ تمہارے اورکفارکے درمیان ایک اوردس کی نسبت توبرقرارہے مگرکیونکہ ابھی تم لوگوں  کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں  ہوئی ہے اورابھی تک تمہارا شعور اورتمہاری سمجھ بوجھ کاپیمانہ بلوغ کی حدکونہیں  پہنچاہے اس لئے سردست اگر تم میں  سے سو آدمی صبروثبات سے لڑنے والےہوں  گے تو وہ دو سودشمنوں  پر اور ہزار آدمی ثابت قدمی سے لڑنے والے ہوں  گے تو اللہ کے حکم سے دوہزارپر غالب آئیں  گےیعنی اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں  توتمہیں  کوئی تامل نہیں  ہوناچاہیے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:فَلَمَّا خَفَّفَ اللهُ عَنْهُمْ مِنَ العِدَّةِ نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خُفِّفَ عَنْهُم

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایاتعدادکی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں  کے صبرمیں  کمی ہوگئی۔[131]

اور اللہ تعالیٰ کی مدداورتائید صبر کرنے والے لوگوں  کے ساتھ ہے۔

مَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ ۚ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّهُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٦٧﴾‏ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿٦٨﴾‏ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٦٩﴾‏(الانفال )
 ’’نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہئیں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہوجائے،تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی،پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘

غزوہ بدرسے پہلے سورہ محمدمیں  جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں ،

فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝۰ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا۝۴ [132]

ترجمہ:پس جب اِن کافروں  سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں  مارنا ہے یہاں  تک کہ جب تم ان کوا چھی طرح کچل دو تب قیدیوں  کو مضبوط باندھو ، اس کے بعد (تمہیں  اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے، یہ ہے تمہارے کرنے کا کام۔

اس آیت میں  میں  جنگی قیدیوں  سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تودے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کواچھی طرح کچل دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکرکی جائے ،اس فرمان کی روسے مسلمانوں  نے غزوہ بدرمیں  جوقیدی گرفتارکیے اوراس کے بعدان سے جوفدیہ وصول کیاوہ تھاتواجازت کے مطابق مگر غلطی یہ ہوئی کہ دشمن کی طاقت کوکچل دینے کی جوشرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پوراکرنے سے پہلے ہی مسلمان دشمنوں  کوقیدکرنے اورمال غنیمت جمع کرنے میں  مشغول ہوگئے ، اسی بات کواللہ تعالیٰ نے ناپسندفرمایاکیونکہ اگراس موقعہ پرسترکفار کواسیرنہ کیاجاتابلکہ مجاہدین میدان چھوڑکربھاگنے والے کفارکاتعاقب کرتے تو اسی موقع پر قریش کی طاقت ٹوٹ جاتی اوربعدکے حالات مسلمانوں  کے حق میں  کافی بہترہوتے،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں  کو تنبیہ فرمائی فرمایاکہ کسی نبی کے لئے یہ شایاں  نہیں  ہے کہ اللہ کی زمین میں  کفارکی طاقت کوجواللہ کی روشنی کوبجھانااوراس کے پسندیدہ دین کومٹاناچاہتے ہیں اچھی طرح کچل دینے سے پہلےانہیں  اسیرکرے، مگر دشمن کی قوت وشوکت کو مکمل طورپر کچل دینے کے بجائے تم پربارباردنیاکے مال ومتاع کالالچ غالب آ جاتاہے،پہلے دشمن کے لشکرسے مدمقابل ہونے کے بجائے مال سے لدے ہوئے قافلے پر حملہ کرنا چاہامگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت سے تمہیں  لشکرقریش کے مدمقابل لاکھڑاکیا،ایک ہزارملائکہ سے تمہیں  مددبہم پہنچائی اورتمہیں  فتح ونصرت سے ہمکنارکیامگر جب اللہ نے تمہیں  دشمن کا سر کچل دینے کاسنہری موقعہ دیاتواللہ کے دشمنوں  کے سرگردنوں  سے اتارنے کے بجائے تم لوگوں  کی ایک بڑی تعداد مال غنیمت لوٹنے اور فدیہ کی خاطر قیدیوں  کو پکڑنے میں  مشغول ہوگئی مگرکئی ایسے بھی تھے جواس فعل کواچھی نظرسے نہیں  دیکھ رہے تھے،

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْعَرِیشِ، وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ قَائِمٌ عَلَى بَابِ الْعَرِیشِ، الَّذِی فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مُتَوَشِّحَ السَّیْفِ، فِی نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ یَحْرُسُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَخَافُونَ عَلَیْهِ كَرَّةَ الْعَدُوِّ، وَرَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ- فِیمَا ذُكِرَ لِی- فِی وَجْهِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الْكَرَاهِیَةَ لِمَا یَصْنَعُ النَّاسَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاَللَّهِ لَكَأَنَّكَ یَا سَعْدُ تَكْرَهُ مَا یَصْنَعُ الْقَوْمَ،قَالَ: أَجَلْ وَاَللَّهِ یَا رَسُولَ اللهِ، كَانَتْ أَوَّلَ وَقْعَةٍ أَوْقَعَهَا (اللهُ) بِأَهْلِ الشِّرْكِ.فَكَانَ الْإِثْخَانُ فِی الْقَتْلِ بِأَهْلِ الشِّرْكِ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ اسْتِبْقَاءِ الرِّجَالِ

مروی ہےجب مسلمان کفارکوگرفتارکرنے لگے تواس وقت اس خیال سے کہ کہیں  دشمن آپ پرپلٹ نہ پڑیں  سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  چند انصارکے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کے لئے عریش کے پاس کھڑے تھےلوگوں  کی یہ کاروائی دیکھ کران کاچہرہ متغیرہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے سعد  رضی اللہ عنہ !شایدلوگوں  کی کاروائی تم کواچھی نہیں  معلوم ہوئی ،سعد  رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہاں  اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ پہلاموقعہ ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو غالب کیاہےمیرے نزدیک ان کے قیدکرنے سے قتل کرنابہترتھا۔[133]

اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں  مال غنیمت پر جھگڑا شروع کر دیا اگر اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر مقررنہ ہوچکی ہوتی اور تمہارے لئے غنائم کاحلال نہ کردیاگیا ہوتا (جوپچھلی امتوں  میں  حرام تھا ) اور اے امت مسلمہ ! تم سے عذاب کونہ اٹھالیا گیاہوتاتواس پر تمہیں سخت سزادیتے مگراللہ نے اپنی رحمت سے تمہاری اس دنیاطلبی کی غلطی کو معاف فرما دیا

فَقَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ كَادَ لَیَمَسُّنَا فِی خِلَافِ ابْنِ الْخَطَّابِ عَذَابٌ عَظِیمٌ، وَلَوْ نَزَلَ الْعَذَابُ مَا أَفْلَتَ إِلَّا عُمَرُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرغزوہ بدرکے روز(قیدیوں  کے فدیہ کے معاملے میں )عذاب نازل ہوتاتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے سواکوئی نہ بچتا۔[134]

لہذااب اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان غنائم کوحلال کردیاہے لہذا ان غنائم کوجوحلال اور پاکیزہ ہیں  کھاؤاور اپنے تمام معاملات میں  اللہ سے ڈرتے رہواوراس کی عطاکی ہوئی نعمتوں  پرشکراداکرتے رہو،بیشک جوکوئی خلوص نیت سے توبہ کرکے اس کی بارگاہ میں  سرجھکاتا ہے تورحیم وکریم رب اس کے تمام گناہوں  کوبخش دیتاہے۔

قَالَ: أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی،  نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ،وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ،  وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ انصاری سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے پانچ چیزیں  ایسی دی گئی ہیں  جومجھ سے پہلے کسی کونہیں  دی گئی تھیں ، ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مددکی گئی ہے،اورتمام زمین میرے لئے سجدہ گاہ اورپاکی کے لائق بنائی گئی ،پس میری امت کاجوانسان نمازکے وقت کو ( جہاں  بھی)پالے اسے وہاں  ہی نماز ادا کرلینی چاہیے،اورمیرے لئے غنیمت کامال حلال کیاگیاہے،مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے بھی حلال نہ تھااورمجھے شفاعت عطاکی گئی،اورتمام انبیاءاپنی اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں  تمام انسانوں  کے لئے عام طور پر نبی بناکر بھیجاگیاہوں ۔[135]

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّمَن فِی أَیْدِیكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن یَعْلَمِ اللَّهُ فِی قُلُوبِكُمْ خَیْرًا یُؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٧٠﴾‏ وَإِن یُرِیدُوا خِیَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٧١﴾‏ (الانفال)
’’اے نبی ! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا اور پھر گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، اور اگر وہ تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کرچکے ہیں، آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا ،اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! تم لوگوں  کے قبضہ میں  جو قیدی ہیں  ان سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں  میں  ایمان واسلام لانے کی نیت اوراسے قبول کرنے کاجذبہ ہے توجوفدیہ تم سے لیاگیاہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس سے بڑھ چڑھ کرتمہیں  اسلام قبول کرنے کے بعدعطافرمائے گا اور تمہاری خطائیں  معاف فرمادے گااورتمہیں  انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل فرمائے گا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ یَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدرکے دن اہل جاہلیت کافدیہ چارسومقررفرمایاتھا۔[136]

چنانچہ ایساہی ہواجب عباس  رضی اللہ عنہ  مسلمان ہوگئے تواللہ تعالیٰ نے انہیں  دنیاوی مال ودولت سے بھی خوب نوازا،

عَنْ أَنَسٍ،أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَیْنِ، فَقَالَ:انْثُرُوهُ فِی المَسْجِدِ،فَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِیَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَهُ العَبَّاسُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَعْطِنِی إِنِّی فَادَیْتُ نَفْسِی وَفَادَیْتُ عَقِیلًا قَالَ:خُذْ،فَحَثَا فِی ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ یُقِلُّهُ فَلَمْ یَسْتَطِعْ، فَقَالَ: اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ یَرْفَعْهُ إِلَیَّ، قَالَ:لاَ،قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَیَّ،قَالَ: لاَ،فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ یُقِلُّهُ فَلَمْ یَرْفَعْهُ ، فَقَالَ: فَمُرْ بَعْضَهُمْ یَرْفَعْهُ عَلَیَّ، قَالَ:لاَ،قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَیَّ، قَالَ: لاَ، فَنَثَرَ مِنْهُ ،ثُمَّ احْتَمَلَهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَمَا زَالَ یُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِیَ عَلَیْنَا، عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ ،  فَمَا قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے یہاں  بحرین سے خراج کاروپیہ آیا (جوابن الحضرمی رضی اللہ عنہ نے بھیجاتھا)توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ اسے مسجدمیں  پھیلا دو،بحرین کاوہ مال ان تمام اموال میں  سب سےزیادہ تھاجواب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے یہاں  آچکے تھے،اتنے میں  عباس  رضی اللہ عنہ  تشریف لائے اورکہنے لگے اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے بھی عنایت فرمایئے(میں  زیربارہوں )کیونکہ میں  نے (غزوہ بدرکے موقع پر)اپنابھی فدیہ اداکیاتھااورعقیل  رضی اللہ عنہ  کابھی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اچھا لے لیجئے،چنانچہ انہوں  نے اپنے کپڑے میں  روپیہ بھرلیا(لیکن اٹھ  نہ سکا)تواس میں  سے کم کرنے لگے لیکن کم کرنے کے بعدبھی نہ اٹھ سکاتوعرض کیاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی کوحکم دیں  کہ اٹھانے میں  میری مددکرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ ایسانہیں  ہوسکتا،انہوں  نے کہاپھرآپ خودہی اٹھوادیں ،فرمایاکہ یہ بھی نہیں  ہوسکتا ، پھرعباس  رضی اللہ عنہ نے اس میں  سے کچھ کم کیالیکن اسےبھی نہ اٹھاسکے توکہاکہ کسی کوحکم دیجئے کہ وہ اٹھادے،  فرمایاکہ نہیں  ایسانہیں  ہوسکتا،انہوں  نے کہاپھرآپ ہی اٹھادیں ،  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ یہ بھی نہیں  ہوسکتا،آخراس میں  سے انہیں  پھرکم کرناپڑااورتب کہیں  جاکے اسے اپنے کندھے پراٹھاسکے، اورلے کرجانے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت تک انہیں  برابردیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں  سے چھپ نہ گئے،ان کے حرص پرآپ نے تعجب فرمایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت تک وہاں  سے نہ اٹھے جب تک وہاں  ایک درہم بھی باقی رہا۔[137]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال میں  سے اپنی اہل کوپھوٹی کوڑی بھی نہ دی ،پھرنمازکے لئے آگے بڑھے اورنمازپڑھائی ،اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے، لیکن اگر وہ تمہیں  دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں  یعنی صرف زبانی کلامی اسلام قبول کرکے دھوکہ دینے کی نیت رکھتے ہوں  تو اس سے پہلے انہوں  نے کفروشرک کاارتکاب کرکے کیاحاصل کیاہے ، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں  دی کہ وہ تیرے قابو میں  آ گئے،اوراگرآئندہ بھی کفروشرک کے راستے بھی گامزن رہے توانہیں  مزیدذلت ورسوائی کے سواکچھ حاصل نہ ہوگا ،اللہ اپنے ازلی ابدی علم سے سب کچھ جانتا اور اس کاکوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَایَتِهِم مِّن شَیْءٍ حَتَّىٰ یُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُم مِّیثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٧٢﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِیرٌ ‎﴿٧٣﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ ‎﴿٧٤﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِی كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٧٥﴾‏(الانفال)
’’جولوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی ،یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے فریق ہیں، اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لیے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں، ہاں اگر وہ دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ خوب دیکھتا ہے، کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہوجائے گا، جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ، اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیںاور رشتے ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘

جن لوگوں  نے دعوت حق کو قبول کیا اوراپنے ایمان کی سلامتی کے لئےاپنے گھربار،عزیزواقارب چھوڑکر ہجرت کی اوردین کی سربلندی کے لئے فی سبیل اللہ اپنی جانیں  لڑائیں  اور اپنے مال کھپائے اور مدینہ منورہ میں جن لوگوں  (انصار)نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور مہاجرین کواپنے دلوں  اورگھروں  میں  جگہ دی اور اپنی ضرورت پران کی حاجت کومقدم رکھا وہی دراصل ایک دوسرے کے حمایتی اورمددگار ہیں ،

عَنْ جَرِیرٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ أَوْلِیَاءُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ، وَالطُّلَقَاءُ مِنْ قُرَیْشٍ، وَالْعُتَقَاءُ مِنْ ثَقِیفٍ، بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

جریربن عبداللہ بجلی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامہاجرین وانصارایک دوسرے کے رفیق ہیں ، طلقائ(فتح مکہ کے دن مسلمان ہونے والے جن سے کوئی تعرض نہ کیاگیا)قریش سے اورعتقائ(آزادکردہ)ثقیف سے، یہ سب لوگ قیامت تک ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔[138]

اللہ تعالیٰ نے متعددمقامات پر مہاجرین وانصارکی ان الفاظ میں تعریف فرمائی ،

 وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۰۰  [139]

ترجمہ:وہ مہاجر و انصار جنہوں  نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں  سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں  راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئےاللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیّا کر رکھے ہیں  جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی اور وہ ان میں  ہمیشہ رہیں  گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے ۔

لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ  ۔۔۔۝۱۱۷ۙ [140]

ترجمہ:اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں  نے بڑی تنگی کے وقت میں  نبی کا ساتھ دیا ۔

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۸ۚوَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ [141]

ترجمہ:نیز وہ مال ان غریب مہاجرین کے لیئے ہے جو اپنے گھروں  اور جائدادوں  سے نکال باہر کیے گے ہیں  ،یہ لوگ اللہ کا فضل اور کی خشنودی چاہتے ہیں  اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں ، یہی راستباز لوگ ہیں ،(اور وہ ان لوگوں  کے لیئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں  مقیم تھے،یہ ان لوگوں  سے محبت کرتے ہیں  جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں  اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں  میں  محسوس نہیں  کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں  کو ترجیح دیتے ہیں  خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں  ۔

رہے وہ لوگ جنہوں  نے دعوت حق کوقبول توکیا مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام) میں  آ نہیں  گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں  ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ نہ آ جائیں اورعملی طورپرجہادمیں  حصہ نہ لیں ،

عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ:وَقَالَ:إِنِّی بَرِیءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیمُ بَیْنَ ظَهْرَانَیِ الْمُشْرِكِینَ

جریر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کاذمہ دارنہیں  ہوں  جومشرکین کے درمیان رہتاہو۔[142]

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَمَّرَ أَمِیرًا عَلَى جَیْشٍ أَوْ سَرِیَّةٍ أَوْصَاهُ فِی خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا، ثُمَّ قَالَ:اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِیدًا، وَإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلَالٍ، فَأَیَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ إِلَیْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ إِلَیْهِ فَأْقَبْل مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی کولشکریاسریہ پرامیرمقررکرتےتواسے اوراس کے ساتھیوں  کوخاص طورپر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اوربھلائی کاحکم فرماتے، پھرفرماتے اللہ تعالیٰ کانام لے کرجہادکرو،اللہ کے راستے میں  ان سے لڑوجنہوں  نے اللہ کونہیں  مانااورلوٹ کے مال میں چوری نہ کرواوراقرارنہ توڑواورمثلہ نہ کرواوربچوں  کوقتل نہ کرواورجب اپنے دشمن سے ملوتوانہیں  تین باتوں  کی طرف بلاؤ،پھران تین باتوں  میں  سے جومان لیں  توبھی اسے قبول کر اور (ان کومارنے اورلوٹنے سے)ان سے بازرہو،پھرانہیں  اسلام کی دعوت دواگر وہ اس دعوت کومان لیں  تواسے تسلیم کرلواور (ان کومارنے اورلوٹنے سے)ان سے بازرہو۔

ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِینَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِینَ، وَعَلَیْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِینَ، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا أَنْ یَتَحَوَّلُوا مِنْهَا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ یَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ، یَجْرِی عَلَیْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِی یَجْرِی عَلَى الْمُسْلِمِینَ، وَلَا یَكُونُ لَهُمْ فِی الْغَنِیمَةِ وَالْفَیْءِ شَیْءٌ إِلَّا أَنْ یُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ،

پھر اورانہیں  دارالکفرسے داراسلام کی طرف آنے کی دعوت دواورانہیں  بتاؤکہ اگروہ ہجرت کرلیں  توجوحقوق مہاجرین کے ہیں  وہی حقوق ان کے بھی ہوں  گےاورنفع اورنقصان دونوں  میں مہاجرین کے مثل ہوں  گےاوراگر دارالکفر سے نکلنا منظورنہ کریں  اوراپنے گھروں  ہی میں  رہناپسندکریں  توان سے کہہ دوکہ ان کی حیثیت مسلمان اعراب کی سی ہوگی اورجوحکم مسلمانوں  پرنافذہے ان پربھی نافذہو گا  مگران کولوٹ اورصلح کے مال سے کچھ حصہ نہیں  ملے گاہاں  یہ اوربات ہے کہ وہ کسی فوج میں  شرکت کریں  اورکوئی معرکہ سرکریں

فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْیَةَ فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِیِّكَ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِیِّهِ، وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَبِیكَ وَذِمَمَ أَصْحَابِكَ؛

اگروہ اسلام قبول کرنے سے انکارکریں  توان سے جزیہ مانگ،اگروہ جزیہ دیناقبول کرلیں  توتم بھی اسے تسلیم کرلو اوران سے جنگ کرنے سے بازرہواوراگروہ جزیہ بھی نہ دیں  تواللہ سے مددمانگ کران سے لڑواورجب توکسی قلعہ والوں  کوگھیرے اوروہ تجھ سے اللہ یااس کے رسول کی پناہ مانگیں توانہیں اللہ اوررسول کی پناہ نہ دے لیکن اپنی اوراپنے والد اوراصحاب کی پناہ دے

فَإِنَّكُمْ إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ آبَائِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ؛ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِی أَتُصِیبُ حُكْمَ اللَّهِ فِیهِمْ أَمْ لَا

اس لیے کہ اگرتم سے اپنی اوراپنے ساتھیوں  کی پناہ ٹوٹ جائے تواس سےبہترہے کہ اللہ اوراس کے رسول کی پناہ ٹوٹے، اورجب توکسی قلعہ والوں  کوگھیرےاوروہ تجھ سے یہ چاہیں  کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پرتوان کوباہرنکالے توان کواللہ کے حکم پرمت نکال،اس لئے کہ تجھے نہیں  معلوم کہ اللہ تعالیٰ کاحکم تجھ سے اداہوتاہے یانہیں ۔[143]

ہاں  اگرکوئی قوم ان کے خلاف لڑائی کرےاوریہ اس لڑائی میں  تم سے مدد مانگیں  تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن اگر کسی قوم سے تمہارا صلح اورجنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو تومسلمانوں  کی حمایت کے مقابلے میں معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے،اللہ تمہارے احوال اوررویوں  کوجانتاہے، جو لوگ منکرِ حق ہیں  وہ ایک دوسرے کے دوست اورمددگار ہیں  ،ایک دوسرےکی جائزوناجائز حمایت کرتے ہیں ،چنانچہ اگر تم نے ایمان کی بنیادپرایک دوسرے کی حمایت اورکافروں  سے عدم موالات نہ کی تو زمین میں  فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا،یایہ کہ اگرتم وراثت میں  کفرو ایمان کونظراندازکرکے محض قرابت کومدنظررکھوگے تواس سے بڑافتنہ اورفسادپیداہوگا،یایہ کہ اگرتم نے مشرکوں  سے علیحدگی اختیارنہ کی اورایمان داروں  سے دوستیاں  نہ رکھیں  توایک فتنہ برپاہوجائے گا،یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا، لوگوں  میں  زبردست فسادبرپاہوگا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاانسان اس کے ساتھ ہوگاجس کے ساتھ محبت رکھتاہے۔[144]

ایک روایت میں  ہے جوکسی جماعت سے محبت رکھے وہ ان میں  سے ہی ہے،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَیْفَ تَقُولُ فِی رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ یَلْحَقْ بِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ کااس شخص کے بارے میں  کیاارشادہے جو ایک جماعت سے محبت رکھتاہے لیکن ان سے میل نہیں  ہوسکاہے یعنی اس قوم کے سے عمل نہ کرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ انسان اس کے ساتھ ہے جس سے محبت رکھتاہے۔[145]

عَنْ عَلِیٍّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِی الْجَنَّةِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  وَلَا یُحِبُّ رَجُلٌ قَوْمًا إِلَّا حُشِرَ مَعَهُمْ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص کسی قوم سے محبت رکھتاہو اس کاحشربھی انہی کے ساتھ ہوگا۔[146]

انہی مہاجرین اورانصارکی فضیلت اوران کے ایمان کی گارنٹی میں  فرمایاجو لوگ دعوت حق پرایمان لائے اور جنہوں  نے اللہ کی راہ میں  گھر بار چھوڑے اوردین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی اور جنہوں  نے مہاجرین کو اپنے گھروں  میں  پناہ دی اوران کی ہرممکن مدد کی وہی سچے مومن ہیں ،اللہ تعالیٰ کی طرف سےان کے لیے بخشش ومغفرت ہے اوراللہ کی تیارکردہ جنتوں  میں  بہترین رزق ہے،اور جو لوگ بعد میں  ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر دین اسلام کی سربلندی کے لئےجدو جہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں  شامل ہیں ، مگر اللہ کی کتاب میں  خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں  ،

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أُتِیَ فِی مِیرَاثِ یَهُودِیٍّ وَلَهُ وَارِثٌ مُسْلِمٌ

معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدومختلف مذاہب والے آپس میں  ایک دوسرے کے وارث نہیں  ہوسکتے نہ مسلمان کافرکاوارث اورنہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔[147]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِیَّ إِلَّا أَنْ یَكُونَ عَبْدَهُ أَوْ أَمَتَهُ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکوئی مسلمان کسی نصاریٰ کاوارث نہیں  ہوسکتا۔[148]

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ یَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ

اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مسلمان کافرکا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں  بن سکتاالا یہ کہ اس کا غلام یا لونڈی ہو۔[149]

وَكَانَ عَقِیلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ یَرِثْ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِیٌّ شَیْئًا، لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَیْنِ، وَكَانَ عَقِیلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَیْنِ

چنانچہ اسی فرمان کی روشنی میں  جب ابوطالب کاانتقال ہواتو عقیل ابوطالب کے وارث ہوئے تھے اورجعفر رضی اللہ عنہ اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کیونکہ مسلمان تھے اس لئے انہوں نے ابوطالب کا کچھ ترکہ نہیں  پایا،یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

مال غنیمت کی تقسیم

حَتَّى إذَا خَرَجَ مِنْ مَضِیقِ الصَّفْرَاءِ نَزَلَ عَلَى كَثِیبٍ بَیْنَ الْمَضِیقِ وَبَیْنَ النَّازِیَةِ یُقَالُ لَهُ: سَیْرٌ إلَى سَرْحَةٍ بِهِ.فَقَسَمَ هُنَالِكَ النَّفَلَ الَّذِی أَفَاءَ اللهُ عَلَى الْمُسْلِمِینَ مِنْ الْمُشْرِكِینَ عَلَى السَّوَاءِ

یہاں  تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام مضیق صفراء کی تنگ وادی سے نکل کر توصفراء کی گھاٹی اورالنازیہ کے درمیان سیرنامی ریت کے ایک سرخ ٹیلے پرایک بڑے درخت کے پاس ٹھیرے یہیں  مال غنیمت تقسیم فرمایا۔[150]

مال غنیمت میں  ڈیڑھ سواونٹ ،دس گھوڑے ،بہت سااستعمالی سامان ،ہتھیار،چمڑے کے بستر ، کپڑے ،دباغت شدہ کھالیں  ہاتھ آئیں ،چونکہ اس معرکہ میں  دویاتین گھوڑے بھی شامل تھے ان کاحصہ بھی لگایاگیایعنی گھوڑے کاحصہ پیدل کادوگنا،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْهَمَ لِرَجُلٍ وَلِفَرَسِهِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ: سَهْمًا لَهُ وَسَهْمَیْنِ لِفَرَسِهِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجاہداوراس کے گھوڑے کے لئے تین حصے مقررفرمائے تھے،ایک حصہ مجاہد کااوردوحصے اس کے گھوڑے کے(اس طرح ہر سوار کو پیدل سپاہی کے مقابلے میں  تین گنازیادہ مال دیاگیا)۔[151]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَتَنَفَّلَ سَیْفَهُ ذاالفَقَار یَوْمَ بَدْرٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مال غنیمت میں  سے (نبیہ بن حجاج )کی تلوار ذوالفقار لے لی۔[152]

وَتَنَفَّلَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  سَیْفًا ذَا الْفَقَّارِ وَكَانَ لِمُنَبِّهِ بْنِ الْحَجَّاجِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شمشیرذوالفقاراپنے حصوں  سے زیادہ لے لی جومنبہ بن الحجاج کی تھی۔[153]

وَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله علیه وسلم سَهْمَهُ مَعَ الْمُسْلِمِینَ وَفِیهِ جَمَلُ أَبِی جَهْلٍ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپناحصہ مسلمانوں  کے ساتھ لیاجس میں  ابوجہل کااونٹ بھی تھا۔[154]

صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے مطابق ابوجہل کاسامان معاذبن حارث  رضی اللہ عنہ ،معاذبن عمروبن الجموع کو دلوایا گیا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَفَّلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ سَیْفَ أَبِی جَهْلٍ كَانَ قَتَلَهُ

اورسنن ابوداود میں  عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے(غزوہ)بدرکے دن ابوجہل کی تلوارکاعطیہ دیااس لئے کہ میں  نے ابوجہل کوقتل کیاتھا۔[155]

یہ منقطع روایت ہے ،اس حدیث کی سندمیں  ابوعبیدہ نے عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے نہیں  سنا۔[156]

حكم الألبانی: ضعیف

[1] التوبة۱۲۴

[2] الأنفال: 2

[3]لأنفال: 2

[4] الأنفال: 2

[5] الأنفال: 2

[6] تفسیرطبری۲۸۵؍۱۳،تفسیرابن ابی حاتم۱۶۵۵؍۵

[7] تفسیرابن ابی حاتم۱۶۵۵؍۵، تفسیر طبری۳۸۷؍۱۳

[8] تفسیرطبری۳۸۷؍۱۳

[9] تفسیرابن ابی حاتم۱۶۵۷؍۵

[10] آل عمران۱۶۳

[11] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۵۶،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ تَرَائِی أَهْلِ الْجَنَّةِ أَهْلَ الْغُرَفِ، كَمَا یُرَى الْكَوْكَبُ فِی السَّمَاءِ۷۱۴۴،مسنداحمد۱۱۵۸۸

[12] مسنداحمد۱۱۵۸۸،سنن ابوداود كِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ باب۳۹۸۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۶۵۸،سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم باب فَضْلُ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۹۶

[13] المعجم الکبیرللطبرانی۳۳۶۷

[14] تفسیرطبری۴۲۴؍۱۳، التفسیر المظهری۲۸؍۴،التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۲۶۵؍۹، الأساس فی التفسیر۲۱۳۱؍۴

[15] تفسیرابن ابی حاتم۱۶۶۴؍۵، تفسیرطبری۴۱۹؍۱۳

[16] آل عمران۱۵۴

[17] محمد۴

[18]صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الیَتَامَى ظُلْمًا، إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا  ۲۷۶۶ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا  ۲۶۲

[19] آل عمران۱۲۳

[20] التوبة۲۵

[21] البقرة۲۴۹

[22] البقرة۱۶۵

[23]۔  التوبة۴۰

[24] الانفال۳۲

[25]البدایة النہایة ۳۴۵؍۳

[26] ابن ہشام ۶۲۸؍۱، تاریخ طبری ۴۴۹؍۲،عیون الاثر ۳۰۰؍۱، البدایة والنھایة ۲۸۴؍۳

[27] الأنفال: 19

[28] الأنفال: 19

[29]مستدرک حاکم۳۲۶۴

[30] البدایة والنہایة ۳۱۷؍۳

[31] تفسیرطبری۴۵۳؍۱۳

[32] بنی اسرائیل۸

[33] البقرة  ۱۷۱

[34] الاعراف۱۷۹

[35] تفسیرطبری۴۶۸؍۱۳

[36] تفسیرطبری۴۷۱؍۱۳

[37] جامع ترمذی ابواب القدربَابُ مَا جَاءَ أَنَّ القُلُوبَ بَیْنَ أُصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ۲۱۴۰ ،مسند احمد ۱۲۱۰۷

[38] مسنداحمد۱۷۶۳۰

[39] صحیح ابن حبان ۹۴۳،سنن ابن ماجہ المقدمہ بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۹۹ ،مستدرک حاکم ۱۹۲۶

[40] مسنداحمد۲۶۵۷۶،جامع ترمذی کتاب الدعوات باب دعاءیَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا۳۵۲۲

[41] مسند احمد ۶۵۶۹،صحیح مسلم کتاب القدرباب تصریف اللہ تعالیٰ القلوب کیف یشائ۶۷۵۰

[42] تفسیرطبری۴۷۴؍۱۳

[43] الاعراف۱۶۴،۱۶۵

[44] مسند احمد ۲۳۳۲۷، جامع ترمذی کتاب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَمْرِ بِالمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ  ۲۱۶۹

[45] صحیح بخاری کتاب الشرکة بَابٌ هَلْ یُقْرَعُ فِی القِسْمَةِ وَالِاسْتِهَامِ فِیهِ۲۴۹۳، مسنداحمد ۱۸۳۷۹،صحیح ابن حبان ۲۹۸

[46] سنن ابوداود کتاب الملاحم بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ۴۳۳۹،مسند احمد ۱۹۲۳۰

[47] التغابن۱۵

[48] الانبیائ۳۵

[49] المنافقون۹

[50] التغابن۱۴

[51] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ حَلاَوَةِ الإِیمَانِ۱۶،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالٍ مَنِ اتَّصفَ بِهِنَّ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِیمَانِ۱۶۵، مسند احمد ۱۲۰۰۲،صحیح ابن حبان ۲۳۷

[52] فتح الباری ۶۰؍۱

[53] فتح الباری ۶۱؍۱

[54] الدین الخالص ۱۸۲؍۱

[55] صحیح بخاری   كِتَابُ الإِیمَانِ بَابُ حَلاَوَةِ الإِیمَانِ۱۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ خِصَالٍ مَنِ اتَّصفَ بِهِنَّ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِیمَانِ

[56] سراج الوھاج۳۶

[57] تہذیب تاریخ دمشق۱۴۵؍۳

[58] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْعِلْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ البِدَعِ۲۶۷۸

[59] نسیم الریاض ۳۳۷؍۳

[60] صحیح بخاری كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ فِی النَّعْلَیْنِ، وَلاَ یَمْسَحُ عَلَى النَّعْلَیْنِ۱۶۶

[61] سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ۱۰۶۶، السنن الكبرى للنسائی۱۹۰۵،صحیح ابن خزیمة ۹۴۶،مستدرک حاکم ۹۴۶،مسنداحمد۵۳۳۳

[62] صحیح بخاری كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الرَّمَلِ فِی الحَجِّ وَالعُمْرَةِ۱۶۰۵

[63] جامع ترمذی  أَبْوَابُ الأَطْعِمَةِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی أَكْلِ الدُّبَّاءِ۱۸۵۰

[64] الزخرف: 14

[65] سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَكِبَ۲۶۰۲

[66] الشفا بتعریف حقوق المصطفى۶۳؍۲

[67] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِیمَانِ۱۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ، وَالْوَالِدِ والنَّاسِ أجْمَعِینَ، وَإِطْلَاقِ عَدَمِ الْإِیمَانِ عَلَى مَنْ لمْ یُحِبَّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةَ ۱۶۸، سنن ابن جاجہ کتاب السنة بَابٌ فِی الْإِیمَانِ ۶۷، مسنداحمد۱۲۸۱۴،سنن الدارمی۲۷۸۳، صحیح ابن حبان۱۷۹، مستدرک حاکم ۳۸۰۵

[68] الحدید۲۸

[69] تفسیرطبری۴۹۵؍۱۳،تفسیرابن ابی حاتم۱۶۸۷؍۵

[70] الفرقان۵،۶

[71] ھود۱۳

[72] البقرة۲۳

[73] یونس۳۸

[74] الشعرائ۱۸۷

[75] المعارج۱

[76] ص۱۶

[77] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ وَإِذْ قَالُوا اللهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ۴۶۴۸

[78] ابن ہشام۶۷۰؍۱،الروض الانف۱۵۵؍۵

[79] نور الیقین فی سیرة سید المرسلین۵۰؍۱

[80] مسند احمد ۱۱۲۴۴،مستدرک حاکم۷۶۷۲

[81] مسنداحمد۲۳۹۵۳

[82] التوبة۱۷

[83] التوبة۲۸

[84] المومنون۲،۳

[85] صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدین باب قَالَ اللهُ تَعَالَى إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ۶۹۲۱،صحیح مسلم کتاب الایمان  بَابُ هَلْ یُؤَاخَذُ بِأَعْمَالِ الْجَاهِلِیَّةِ؟۳۱۸،مسنداحمد۳۸۸۶،سنن الدارمی ۱

[86] البقرة۱۹۳

[87] صحیح بخاری  كِتَابُ الإِیمَانِ بَابٌ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ ۲۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى یَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ۱۲۸،عن جابر ،مسنداحمد۱۴۲۰۹

[88] المومن۱۹

[89] صحیح بخاری   كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ سِهَامِ الفَرَسِ ۲۸۶۳

[90] مسنداحمد۲۲۶۹۹

[91] آل عمران۱۶۱

[92] السنن الکبری للبیہقی۱۲۸۶۲

[93] صحیح ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الْإِمَامِ یَسْتَأْثِرُ بِشَیْءٍ مِنَ الفَیْءِ لِنَفْسِهِ۲۷۵۵

[94] تفسیر طبری ۵۶۱؍۱۳

[95] آل عمران ۱۳

[96] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۰۹؍۵،تفسیرطبری۵۷۲؍۱۳

[97] المومن۱۹

[98] تفسیرطبری۵۷۳؍۱۳، تفسیر ابن  ابی حاتم۱۷۱۰؍۵،ابن ہشام ۶۷۳؍۱

[99] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابٌ كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ۲۹۶۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّی لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ ۴۵۴۲،سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ تَمَنِّی لِقَاءَ الْعَدُوِّ۲۶۳۱،مسنداحمد۱۹۱۱۴

[100] تفسیر طبری ۵۸۱؍۱۳،الدر المنثور۷۷؍۴

[101] مغازی واقدی۱۹۹؍۱

[102] الحشر۱۶،۱۷

[103] موطاامام مالک کتاب الحج باب جَامِعُ الْحَجِّ۲۸۳

[104] تفسیرطبری۱۳؍۱۳

[105] تفسیر طبری ۱۳؍۱۳

[106] الانعام۹۳

[107] محمد۲۷،۲۸

[108] مسند احمد ۱۸۵۳۴

[109] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲،صحیح ابن حبان۶۱۹

[110] الرعد۱۱

[111] حم السجدة۴۶

[112] آل عمران۱۸۲

[113] الحج۱۰

[114]ق ۲۹

[115] الأنفال: 57

[116] تفسیرطبری۲۳؍۱۴، تفسیرابن ابی حاتم۱۷۲۰؍۵

[117] جامع ترمذی  أَبْوَابُ السِّیَرِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی الغَدْرِ ۱۵۸۰،مسندابوداودطیالسی۱۲۵۱،سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الْإِمَامِ یَكُونُ بَیْنَهُ، وَبَیْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَیَسِیرُ إِلَیْهِ۲۷۵۹، السنن الکبری للنسائی۸۶۷۹،صحیح ابن حبان۴۸۷۱،مسند احمد ۱۹۴۳۶

[118] العنکبوت۴

[119] النور۵۷

[120] المائدة۵۶

[121]۔ التوبة۴۰

[122] مسنداحمد۱۷۴۳۲،تفسیرطبری۳۲؍۱۴،تفسیرابن ابی حاتم۱۷۲۲؍۵

[123] الزلزلة: 8

[124] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ ۴۹۶۲،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ۲۲۹۲ ،موطاامام مالک كِتَابُ الْجِهَادِ باب التَّرْغِیبُ فِی الْجِهَادِ

[125] مسنداحمد۳۷۵۶

[126] البقرة۲۶۱

[127] مسنداحمد   ۶۹۵

[128] آل عمران ۱۰۳

[129] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فی شوال سنة ثمان ۴۳۳۰، صحیح مسلم کتاب الزکاةبَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۳۶،مسنداحمد۱۶۴۷۰

[130] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِ۴۹۱۵، مسنداحمد ۱۲۳۹۸، مستدرک حاکم ۵۷۹۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۹۱۵

[131] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الانفال باب قولہ الآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیكُمْ ضُعْفًا۴۶۵۳ ، سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی التَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ ۲۶۴۶

[132] محمد۴

[133] ابن ہشام ۶۲۸؍۱

[134] تفسیر  الدر المنثور ۱۰۸؍۴، تفسیر المنار ۷۸؍۱۰،تفسیر المراغی۳۷؍۱۰،التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۶۸؍۱۰

[135] صحیح بخاری کتاب التیمم باب ۱،ح۳۳۵، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَباب المساجدومواضع الصلاة ۱۱۶۳، سنن الدارمی ۱۴۲۹

[136] سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی فِدَاءِ الْأَسِیرِ بِالْمَالِ ۲۶۹۱

[137] صحیح بخاری کتاب الجزیہ والموادعہ بَابُ مَا أَقْطَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ البَحْرَیْنِ، وَمَا وَعَدَ مِنْ مَالِ البَحْرَیْنِ وَالجِزْیَةِ، وَلِمَنْ یُقْسَمُ الفَیْءُ وَالجِزْیَةُ۳۱۶۵،وكِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ القِسْمَةِ، وَتَعْلِیقِ القِنْوِ فِی المَسْجِدِ۴۲۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۳۰۲۸

[138] مسنداحمد۱۹۲۱۵

[139] التوبة۱۰۰

[140] التوبة۱۱۷

[141] الحشر۸،۹

[142]المعجم الکبیر للطبرانی ۲۲۶۴ 

[143] مسنداحمد۲۳۰۳۰، صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ تَأْمِیرِ الْإِمَامِ الْأُمَرَاءَ عَلَى الْبُعُوثِ، وَوَصِیَّتِهِ إِیَّاهُمْ بِآدَابِ الْغَزْوِ وَغَیْرِهَا۴۵۲۲

[144] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۶۱۶۸،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۶۷۱۸

[145]صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۶۱۶۹ 

[146] المعجم  الاصغیر للطبرانی۸۷۴

[147] مستدرک حاکم۸۰۰۶

[148] مستدرک حاکم۸۰۰۷

[149] صحیح بخاری کتاب الفرائض بَابٌ لاَ یَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ۶۷۶۴،صحیح مسلم  كِتَابُ الْفَرَائِضِ  بَابٌ لاَ یَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ۴۱۴۰ ، سنن ابوداودکتاب الفرائض بَابُ هَلْ یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ؟۲۹۰۹،سنن ابن ماجہ کتاب الفرائض بَابُ مِیرَاثِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ ۲۷۳۱، جامع ترمذی ابواب الفرائض بَابُ مَا جَاءَ فِی إِبْطَالِ الْمِیرَاثِ بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَالكَافِرِ ۲۱۰۸، مسنداحمد۲۱۷۴۷،سنن الدارمی۳۰۴۱،مستدرک حاکم۸۰۰۸

[150] ابن ہشام۶۴۲؍۱،الروض الانف۱۱۴؍۵

[151] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی سُهْمَانِ الْخَیْلِ ۲۷۳۳

[152] جامع ترمذی ابواب السیر بَابٌ فِی النَّفَلِ ۱۵۶۱، تفسیرابن کثیر۶۰؍۴

[153] ابن سعد۱۳؍۲

[154] ابن سعد۱۳؍۲

[155] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابُ مَنْ أَجَازَ عَلَى جَرِیحٍ مُثْخَنٍ یُنَفَّلُ مِنْ سَلَبِهِ۲۷۲۲،مشکوٰة المصابیح ۴۰۰۴

[156] ضعیف ابوداود۲۷۲۲

Related Articles