ہجرت نبوی کا تیسرا سال

 حفصہؓ بنت سیدنا عمرؓ سے نکاح(شعبان تین ہجری)

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا جن کی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ تھی کی شادی خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ سے ہو چکی تھی،ان کے شوہرغزوہ بدرمیں شامل تھے ،جب یہ جنگ کے بعدمدینہ منورہ واپس آئے توبیمارہوگئے اوراسی بیماری میں ان کاانتقال ہوگیااور حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں ۔

أَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یُحَدِّثُ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، حِینَ تَأَیَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَیْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِیِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، تُوُفِّیَ بِالْمَدِینَةِ، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَعَرَضْتُ عَلَیْهِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِی أَمْرِی، فَلَبِثْتُ لَیَالِیَ، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِی أَنْ لاَ أَتَزَوَّجَ یَوْمِی هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ شَیْئًا، فَكُنْتُ عَلَیْهِ أَوْجَدَ مِنِّی عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِیَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْكَحْتُهَا إِیَّاهُ فَلَقِیَنِی أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَیَّ حِینَ عَرَضْتَ عَلَیَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَیْكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ یَمْنَعْنِی أَنْ أَرْجِعَ إِلَیْكَ فِیمَا عَرَضْتَ، إِلَّا أَنِّی قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِیَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا

سالم بن عبداللہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے فرمایا جب حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں اور ان شوہر خنیس رضی اللہ عنہ بن حذافہ سہمی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور شریک بدر تھے مدینہ میں انتقال کر گئے تو میں عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں ،عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں غور کرکے جواب دوں گا میں کئی دن ٹھہرا رہا پھر جب ملا تو کہنے لگا کہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی میں دوسرا نکاح نہ کروں ،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کانکاح جلدازجلدکردیناچاہتے تھے ، پھر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں حفصہ رضی اللہ عنہا کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں ،وہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا مجھ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس طرز سے اس سے بھی زیادہ رنج ہوا جتنا عثمان رضی اللہ عنہ کے انکار سے ہوا تھا،میں کئی راتیں خاموش رہا کہ اتنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خوشی کی انتہاء نہ رہی )میں نے فورا ًان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا، ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے ملے اورکہا اے عمر رضی اللہ عنہ !جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہرکی تھی تومیں نے تمہیں جواب نہیں دیاتھا،اورتم مجھ سے ناراض ہوگئے تھے ؟سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہاہاں (مجھے بہت دکھ ہواتھا)،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے اس لئے تمہیں کوئی جواب نہیں دیاتھاکہ مجھے علم تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرمایا تھا (جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتاتھا)اورمیں آپ کے اس رازکوظاہربھی نہیں کرسکتاتھا،ہاں ، اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کاارادہ ترک فرما دیتے تومیں انہیں قبول کرلیتا۔[1]

حِینَ تَأَیَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَیْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِیِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، تُوُفِّیَ بِالْمَدِینَةِ،قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَعَرَضْتُ عَلَیْهِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِی أَمْرِی، فَلَبِثْتُ لَیَالِیَ، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِی أَنْ لاَ أَتَزَوَّجَ یَوْمِی هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ،فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ یَرْجِعْ إِلَیَّ شَیْئًا، فَكُنْتُ عَلَیْهِ أَوْجَدَ مِنِّی عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِیَ ، فَرَدَّهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَنْ رَاحَ إِلَیْهِ عُمَرُ قَالَ:یَا عُمَرُ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَتَنٍ خَیْرٍ لَكَ مِنْ عُثْمَانَ، وَأَدُلُّ عُثْمَانَ عَلَى خَیْرٍ لَهُ مِنْكَ؟ فَلَبِثْتُ لَیَالِیَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْكَحْتُهَا إِیَّاهُ، فَلَقِیَنِی أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَیَّ حِینَ عَرَضْتَ عَلَیَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَیْكَ؟قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ یَمْنَعْنِی أَنْ أَرْجِعَ إِلَیْكَ فِیمَا عَرَضْتَ، إِلَّا أَنِّی قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِیَ سِرَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قُلْتُ: نَعَمْ وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا جن کی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ تھی کی شادی خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ سے ہو چکی تھی،ان شوہرغزوہ بدر میں شامل تھے ،جب یہ جنگ کے بعدمدینہ منورہ واپس آئے توبیمارہوگئے اوراسی بیماری میں ان کاانتقال ہوگیااور حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں ،ان کی عدت پوری ہونے کے بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہااگرآپ چاہیں تومیں اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کانکاح آپ سے کردوں ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں غور کرکے جواب دوں گا ،میں کئی دن ٹھہرا رہا پھر جب ملا تو کہنے لگا کہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی میں دوسرا نکاح نہ کروں ، سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کانکاح جلدازجلدکردیناچاہتے تھے،اس لئے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اوران سے کہااگرآپ پسند کریں تومیں حفصہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کردوں ،مگرسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوکوئی جواب نہ دیا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خاموشی پرسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جواب سے زیادہ دکھ پہنچا،اس کے بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کوسیدنا عثمان پرپیش کیا مگر انہوں نے مجھ سے رخ پھیر لیا ، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ ! حق تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کوتمہاری بیٹی سے بہتربیوی عطافرمادی اورتمہاری بیٹی کوسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بہترشوہر عطافرمادیا،میں کئی راتیں خاموش رہا کہ اتنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خوشی کی انتہاء نہ رہی )میں نے فورا ًان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا ،شادی کے وقت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمربیس سال تھی،اس طرح حفصہ رضی اللہ عنہا ام المومنین اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خسربن گئے،ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے ملے اورکہا اے عمر رضی اللہ عنہ !جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہرکی تھی تومیں نے تمہیں جواب نہیں دیاتھا اورتم مجھ سے ناراض ہوگئے تھے ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہاہاں (مجھے بہت دکھ ہواتھا) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے اس لئے تمہیں کوئی جواب نہیں دیاتھاکہ مجھے علم تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کاذکرفرمایاتھا(جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتاتھا) اورمیں آپ کے اس رازکوظاہربھی نہیں کرسکتاتھاہاں اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کاارادہ ترک فرمادیتے تومیں انہیں قبول کر لیتا۔[2]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ:طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ، فَحَثَا عَلَى رَأْسِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: مَا یَعْبَأُ اللَّهُ بعمر وابنته بعد هذا، فنزل جبریل الْغَدِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُكَ أَنْ تُرَاجِعَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ رَحْمَةً لِعُمَرَ.

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کوایک طلاق دے دی، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوجب اس بات کاعلم ہواتواپنے سرپرخاک ڈال لی اورکہااللہ تعالیٰ کومیری اورمیری بیٹی کی کچھ بھی پرواہ نہیں ، جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس تشریف لائے اورکہااللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عمر رضی اللہ عنہ سے رجوع فرمالیں ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رجوع فرمالیا۔[3]

وقال:فَإَنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ وَإِنَّهَا زَوْجَتُكَ فِی الجَنَّةِ

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اورجبرائیل علیہ السلام نے کہاوہ کثرت سے روزے رکھنے والی اورقیام کرنے والی ہیں وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی۔[4]

 وماتت فی شعبان سَنَةَ خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ بِالمَدِیْنَةِ فی خلافة معاویة ، وقیل إنها ماتت فی خلافة عثمان،وَصَلَّى عَلَیْهَا وَالِی المَدِیْنَةِ مَرْوَانُ

انہوں نے ماہ شعبان میں ۵۴سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں وفات پائی یہ بھی کہاجاتاہے کہ انہوں نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں وفات پائی،ان کی نمازجنازہ والی مدینہ مروان نے پڑھائی۔[5]

عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کی وفات

ایک روایت میں ثم مات عثمان بن مظعون فی ذی الحجة ، فهول أول من مات من المهاجرین بالمدینة

ذی الحجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون وفات پاگئے وہ مہاجرین مدینہ میں سب سے پہلے وفات پانے والے ہیں ۔[6]

اس روایت میں یہ ذکرنہیں ہے کہ کس سن میں وفات پائی ۔ ایک روایت میں ہے

وَشَهِدَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ بَدْرًا وَمَاتَ فِی شَعْبَانَ عَلَى رَأْسِ ثَلاثِینَ شَهْرًا مِنَ الْهِجْرَةِ

اورعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شریک تھے اورہجرت کے تیسویں مہینے شعبان میں فوت ہوئے۔[7]

عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کابھائی چارہ ابوالہیثم بن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ سے ہواتھااوروہ ان ہاں رہنے لگے تھے ، عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون بڑے عبادت گزار تھے ،آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ ا کرام میں شامل تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت دیکھ کر خود پر از خودپابندیاں عائدکی تھیں ، جس صحابی نے یہ کہاتھا لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ میں تمام عمرشادی نہیں کروں گااورعبادت کرتارہوں گا، وہ عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون ہی تھے ،مگرجیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلاکراس چیزسے منع فرمایا ۔[8]

غزوہ بدرکے چند دنوں بعدوہ بیمارہوگئے،

أَنَّ أُمَّ العَلاَءِ، امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ بَایَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهُمُ اقْتَسَمُوا المُهَاجِرِینَ قُرْعَةً، قَالَتْ: فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ وَأَنْزَلْنَاهُ فِی أَبْیَاتِنَا، فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ غُسِّلَ وَكُفِّنَ فِی أَثْوَابِهِ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ابوالہیثم بن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہتی ہیں ،مہاجرین کے سلسلہ اخوت قائم کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی توہماراقرعہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے نام نکلا،پھرہم نے انہیں اپنے گھرمیں ٹھہرایا،اس کے بعدانہیں ایک بیماری ہوگئی جس میں ان کی وفات ہوگئی،جب وہ وفات پاگئے توہم نے انہیں غسل دیااور ان کے کپڑوں کاکفن دیاگیا اسی اثنامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ [9]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کی پیشانی پربوسہ دیا۔

لَمَّا مُرَّ بِجِنَازَةِ عُثْمَانَ بنِ مَظْعُوْنٍ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَهَبْتَ وَلمْ تَلَبَّسْ مِنْهَا شَیْئاً . یَعْنِی الدُّنْیَا.

اورجب وعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایاگیاتوفرمایاتم دنیاسے اس طرح رخصت ہوئے کہ تمہارا دامن ذرہ برابردنیاسے آلودہ نہ ہونے پایا۔[10]

فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِی عَلَیْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَا یُدْرِیكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ یُكْرِمُهُ اللَّهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هُوَ فَوَاللَّهِ لَقَدْ جَاءَهُ الیَقِینُ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأَرْجُو لَهُ الخَیْرَ، وَوَاللَّهِ مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَاذَا یُفْعَلُ بِی فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لاَ أُزَكِّی بَعْدَهُ أَحَدًا أَبَدًا

میں نے کہا ابو سائب(عثمان رضی اللہ عنہ ) تم پراللہ کی رحمت ہو،تمہارے متعلق میری گواہی ہے کہ اللہ نے تمہیں عزت بخشی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے انہیں عزت بخشی ہے، ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیامیرے ماں باپ آپ علیہ السلام پرقربان ہوں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (اگریہ عزت والے نہ ہوں گے) توپھراللہ کسےعزت دے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجہاں تک ان کاتعلق ہے تویقینی چیز (موت)ان پرآچکی ہے،اوراللہ کی قسم میں بھی ان کے لئے بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم !میں رسول اللہ ہونے کے باوجودحتمی طور پر نہیں جانتاکہ میرے ساتھ کیاکیا جائے گا، ام علاء انصاریہ نے عرض کیااللہ کی قسم! اب میں کسی کی برات بیان نہیں کروں گی۔ [11]

 وَقَالَ:مَا أَدْرِی مَا یُفْعَلُ بِهِ قَالَتْ: وَأَحْزَنَنِی فَنِمْتُ، فَرَأَیْتُ لِعُثْمَانَ عَیْنًا تَجْرِی، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ذَلِكَ عَمَلُهُ

وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نہیں جانتاکہ میرے ساتھ کیاکیاجائے گا،کہتی ہیں مجھے اس بات سے کافی صدمہ ہوا(کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی بات یقین کے ساتھ معلوم نہیں ہے)چنانچہ میں سوگئی اورمیں نے خواب میں دیکھاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے ایک جاری چشمہ ہے،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اوراپنا خواب بیان کیا،خواب سنکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ (جاری چشمہ)ان کاعمل ہے۔[12]

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَیِّتٌ. قَالَ فَرَأَیْتُ دُمُوعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسِیلُ عَلَى خَدِّ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کواس حالت میں بوسہ دیاکہ وہ مردہ تھے ،میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے رخسارپربہہ رہے تھے۔[13]

أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ مَاتَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ

جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی اوراس میں چارتکبیریں کہیں ۔[14]

فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ قُبِرَ هُنَاكَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ. فَوَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَجَرًا عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ: هَذَا فَرَطُنَا، فَكَانَ إِذَا مَاتَ الْمَیِّتُ بَعْدَهُ قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَیْنَ نَدْفِنُهُ؟ فَیَقُولُ رَسُولُ اللهِ:عِنْدَ فَرَطِنَا عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ

جنت البقیع کے شکم میں سپردکی جانے والی سب سے پہلی امانت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کی تھی ان کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ ان کی تدفین کہاں کی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں بقیع میں دفن کیاجائے ،قبرکی کھودائی کے درمیان ایک پتھر برآمدہواجسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرکے سرہانے نصب کردیااورفرمایایہ ہماری علامت ہے، ان کے بعدجب کوئی میت ہوتی توپوچھاجاتااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اسی ہم کہاں دفن کریں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہمارے نشان(عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون)کے پاس۔[15]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ دُفِنَ بِالْبَقِیعِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم سے سب سے پہلے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کودفن کیاگیا[16]

عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ دُفِنَ بِالْبَقِیعِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ.

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سب سے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کوبقیع قبرستان میں دفن کیا گیا۔[17]

عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ: نَزَلَ فِی قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى شَفِیرِ الْقَبْرِ. عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَظْعُونٍ وَقُدَامَةُ بْنُ مَظْعُونٍ وَالسَّائِبُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَمَعْمَرُ بْنُ الْحَارِثِ.

نَزَلَ فِی قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى شَفِیرِ الْقَبْرِ. عَبْدُ اللهِ بْنُ مَظْعُونٍ وَقُدَامَةُ بْنُ مَظْعُونٍ وَالسَّائِبُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَمَعْمَرُ بْنُ الْحَارِثِ

عائشہ بنت سعدسے مروی ہے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبرمیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مظعون اورقدامہ رضی اللہ عنہ بن مظعون اورسائب بن عثمان رضی اللہ عنہ ابن مظعون اورمعمربن حارث اترے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرکے کنارے پرکھڑے تھے۔[18]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدسے اب تک مدینہ کا قبرستان رہاہے ،اس میں تقریباًدس ہزارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدفون ہیں جن میں خاص طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات باستثناء ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا مدفون ہیں ، علاوہ ازیں فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا اوردوسری صاحبزادیاں ، نیزنواسے حسن رضی اللہ عنہ اورمتعدداہل خانہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم ،چچا عباس رضی اللہ عنہ ،خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، ابوسعیدخذری ، نافع مولی عمر رضی اللہ عنہ اور امام مالک مختلف جگہوں پرمدفون ہیں ۔[19]

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًاعن ابن عمر ۴۰۰۵

[2] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًاعن ابن عمر ۴۰۰۵، مسند احمد ۷۴،مسندالبزار۱۱۶،السنن الکبری للنسائی۵۳۴۳،صحیح ابن حبان۴۰۳۹،مسندابی یعلی۷،السنن الکبری للبیہقی۱۳۷۴۹،مستدرک حاکم۴۵۶۹،دراسة نقدیة فی المرویات الواردة فی شخصیة عمر بن الخطاب وسیاسته الإداریة ۲۴۶؍۱

[3] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۸۱۲؍۴،اسدالغابة۶۷؍۷

[4] سیراعلام النبلاء ۴۸۴؍۳،اسدالغابة۶۷؍۷ ،الإصابة فی تمییز الصحابة۸۶؍۸،نساء النبی صلى الله علیه وآله وسلم۷۷؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم۲۳۲۵؍۴

[5] سیراعلام النبلائ۲۲۹؍۲

[6] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۲۱۶؍۱

[7] ابن سعد ۳۰۰؍۳

[8] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَیْهِ ۳۴۰۴

[9]صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ رُؤْیَا النِّسَاءِ۷۰۰۳

[10] ابن سعد۳۰۴؍۳

[11]صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ رُؤْیَا النِّسَاءِ۷۰۰۳

[12] صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ رُؤْیَا النِّسَاءِ۷۰۰۴

[13] ابن سعد۳۰۳؍۳

[14] ابن سعد۳۰۳؍۳

[15] ابن سعد۳۰۰؍۳

[16] ابن سعد۳۰۴؍۳

[17] ابن سعد۱۱۳؍۱

[18] ابن سعد۳۰۵؍۳

[19] جزیرة العرب ندوی ۲۵۱

Related Articles