ہجرت نبوی کا تیسرا سال

عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ عنہ کاقرضہ

عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ عنہ کے جنگ میں شہیدہونے کے بعدجب جابر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں آئے توقرض خواہوں نے بارباران سے قرضہ کا تقاضاکیامگر جابر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی کچھ نہیں تھاکہ وہ اس قرضہ سے دامن چھڑالیں ،دوسری طرف چھ بہنوں کی ضروریات بھی ان کے ذمہ تھیں جس سے جابر رضی اللہ عنہ پریشان رہنے لگے ،

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یَقُولُ: لَقِیَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِی: یَا جَابِرُ مَا لِی أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ اسْتُشْهِدَ أَبِی، وَتَرَكَ عِیَالاً وَدَیْنًا، قَالَ: أَفَلاَ أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِیَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلاَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْیَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: یَا عَبْدِی تَمَنَّ عَلَیَّ أُعْطِكَ. قَالَ: یَا رَبِّ تُحْیِینِی فَأُقْتَلَ فِیكَ ثَانِیَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّی أَنَّهُمْ إِلَیْهَا لاَ یُرْجَعُونَ

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کرفرمایااے جابرمیں تجھے شکستہ خاطرپاتاہوں تجھے کیاہواہے؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میراوالداس غزوہ میں شہیدہوگئے ہیں اورآل وعیال کے علاوہ قرض کابوجھ بھی چھوڑگئے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں تجھے ایک خوشخبری نہ سناؤں ،میں عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں مجھے خوشخبری ضرورسنائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے جابر!اللہ تعالیٰ نے کسی بھی شخص سے پردے میں کلام کرتاہے مگراللہ تعالیٰ نے تیرے والدکوزندہ کیا اور بالمشافہ کلام فرمایا، اوران سے پوچھااے میرے بندے !اپنی کوئی تمنامیرے سامنے پیش کرو،توتیرے والدنے عرض کیااے میرے پروردگار!میری تمنایہ ہے کہ پھرزندہ ہوں ، اور تیری راہ میں دوبارہ ماراجاؤں ،اللہ عزوجل نے فرمایایہ تولکھ دیاگیاہے کہ مرنے کے بعداس دنیامیں واپسی نہیں اس لئے یہ تو نہیں ہو سکتا۔[1]

صحیح بخاری کی کئی روایات کامجموعہ ہے کہ جب قرض خواہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کاسختی سے اپنے قرض کامطالبہ کیاتو

فَدَقَقْتُ البَابَ، فَقَالَ:مَنْ ذَا ،فَقُلْتُ: أَنَا، فَقَالَ:أَنَا أَنَاكَأَنَّهُ كَرِهَهَا

جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورحجرے کادروازہ کھٹکھٹایا،اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکون ہے؟ جابر رضی اللہ عنہ نے (اپنانام بتلانے کے بجائے کہا) میں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں میں (کیاہوتاہے)یعنی آپ نے اس طرح جواب دینے کوپسندنہ فرمایا،

جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ یہودیوں سے سفارش کریں کہ تاکہ وہ کچھ قرضہ معاف کردیں یاقرض کی ادائیگی میں کچھ مہلت ہی دے دیں ،

فَطَلَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ فَلَمْ یَفْعَلُوا،فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُمْ أَنْ یَقْبَلُوا تَمْرَ حَائِطِی وَیُحَلِّلُوا أَبِی، فَأَبَوْا، فَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اذْهَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَكَ أَصْنَافًا، العَجْوَةَ عَلَى حِدَةٍ، وَعَذْقَ زَیْدٍ عَلَى حِدَةٍ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَیَّ،فَفَعَلْتُ، ثُمَّ أَرْسَلْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،فَغَدَا عَلَیْنَا حِینَ أَصْبَحَ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے سفارش کی کہ وہ اپناکچھ قرضہ معاف کردیں لیکن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کوتسلیم نہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے قرضہ عوض جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے تمام پھل لے لواورمیرے والدکومعاف کردیں مگرقرض خواہ یہودی اس پیشکش پربھی راضی نہ ہوئے،تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہاتم (اپنے باغ میں )جاؤ اورکھجوروں کی اقسام علیحدہ علیحدہ کردو،عجوہ علیحدہ،عذق زیدعلیحدہ،لین علیحدہ،جب ایساکرچکوتومجھے بولالینا،جابر رضی اللہ عنہ نے حکم کے مطابق باغ میں جاکرتمام کھجوروں کی اقسام کوعلیحدہ علیحدہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلوایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم صبح کوتمہارے باغ میں آئیں گے

فَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ،فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكَلِّمُ الیَهُودِیَّ، فَیَقُولُ: أَبَا القَاسِمِ لاَ أُنْظِرُهُ،فَلَمَّا رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِی النَّخْلِ، ثُمَّ جَاءَهُ فَكَلَّمَهُ فَأَبَى، فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِیلِ رُطَبٍ، فَوَضَعْتُهُ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَل ،ثُمَّ قَالَ:أَیْنَ عَرِیشُكَ یَا جَابِرُ؟فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:افْرُشْ لِی فِیهِ،فَفَرَشْتُهُ، فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ،فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَى فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَ فَكَلَّمَ الیَهُودِیَّ فَأَبَى عَلَیْهِ

دوسرے دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ( ان کے باغ میں ) تشریف لے گئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت)پھرایک یہودی سے قرض خواہ سے مہلت دینے کے لئے کہا،لیکن اس باربھی اس نے مہلت دینے سے انکار کردیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھاتوآپ کھڑے ہوگئے اورکھجورکے باغ میں چار اطراف میں چکرلگایااورپھراس یہودی کے پاس آکر(دوبارہ )مہلت کے لئے کہا،اس نے پھرمہلت دینے سے انکارکردیا، جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ تازہ کھجوریں پیش کیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمائیں ،(کھجوریں کھاکر)آپ نے فرمایاتمہاری جھونپڑی کہاں ہے ؟ میں نے اپنی جھونپڑی بتائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اس میں )بچھوناکردومیں نے لیٹنے کے لئے بچھونابچھادیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھونپڑی میں تشریف لے گئے اور(بچھونے پر)سوگئے،جب کچھ دیربعد(نیندسے)بیدارہوئے تو جابر رضی اللہ عنہ نے پھرآپ کی خدمت میں کچھ کھجوریں پیش کیں آپ نے کھجوروں کو تناول فرمایا، اور اس یہودی سے پھر(تیسری بار)مہلت دینے کے لئے کہا،مگراب کی باربھی اس نے حسب سابق انکارکردیا،

فَمَشَى حَوْلَ بَیْدَرٍ مِنْ بَیَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَیْدَرًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَیْهِ ، ثُمَّ قَالَ:كِلْ لِلْقَوْمِ، فَكِلْتُهُمْ حَتَّى أَوْفَیْتُهُمُ الَّذِی لَهُمْ وَبَقِیَ تَمْرِی كَأَنَّهُ لَمْ یَنْقُصْ مِنْهُ شَیْءٌ،فَجَاءَ جَابِرٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَهُ بِالَّذِی كَانَ، فَوَجَدَهُ یُصَلِّی العَصْرَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَخْبَرَهُ بِالفَضْلِ، فَقَالَ:أَخْبِرْ ذَلِكَ ابْنَ الخَطَّابِ،فَقَالَ:أَشْهَدُ أَنِّی رَسُولُ اللهِ،فَقَالَ:ائْتِ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَأَخْبِرْهُمَا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرکھجور جوڈھیرلگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اورپھلوں میں برکت کی دعافرمائی،پھر آپ نے (کھجوروں کی) سب سے بڑی ڈھیری کے گردتین چکرلگائے اوراس پربیٹھ گئے،اور فرمایااے جابر!اب ان قرض خواہوں کوناپ ناپ کر دینا شروع کرو ،یہ فرماکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے،جابر رضی اللہ عنہ نے ناپ ناپ کر(کھجوریں )دیناشروع کیں یہاں تک کہ ان کاپوراقرضہ چکتاہوگیاجبکہ(اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان میں ایسی برکت ڈالی کہ) کھجوروں کاڈھیر اسی طرح باقی تھا جیسے ان میں سے کچھ لیاہی نہ گیاہو،جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرکرنے کے لئے(کہ قرضہ اترچکاہے اورکھجوریں بھی اسی طرح باقی ہیں ) روانہ ہوگئے،جب وہ (مسجدنبوی میں )پہنچے تواس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازعصرادافرمارہے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو جابر رضی اللہ عنہ نے سارامعاملہ آپ کے گوش گزارکیاتو فرمایاابن خطاب یعنی سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو بھی اس کی خبر دے دو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں گواہی دیتاہوں کہ میں اللہ کارسول ہوں ، پھر جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کوبھی اس کی اطلاع کردو،

فَذَهَبَ جَابِرٌ إِلَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ عَلِمْتُ حِینَ مَشَى فِیهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیُبَارَكَنَّ فِیهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ:اسْمَعْ، وَهُوَ جَالِسٌ، یَا عُمَرُ فَقَالَ: أَلَّا یَكُونُ؟قَدْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ وَاللهِ، إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ ، وَأَنَا وَاللهِ رَاضٍ أَنْ یُؤَدِّیَ اللهُ أَمَانَةَ وَالِدِی، وَلاَ أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِی بِتَمْرَةٍ، فَسَلِمَ وَاللهِ البَیَادِرُ كُلُّهَا حَتَّى أَنِّی أَنْظُرُ إِلَى البَیْدَرِ الَّذِی عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّهُ لَمْ یَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً

جابر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تمہارے باغ میں )تشریف لے گئے تھے میں اسی وقت ہی سمجھ گیاتھا کہ بیشک کھجوروں میں برکت ہوجائے گی،کچھ دیربعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !جابر رضی اللہ عنہ کی بات سنو ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،اللہ کی قسم بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ،جابر رضی اللہ عنہ نے جب سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواطلاع دی توانہوں نے فرمایاہم پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ ایسا (ہی) ہوگا،جابر رضی اللہ عنہ کابیان ہےمیں تواسی پرہی راضی تھاکہ اللہ قرض اداکردے اورمیں اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجوربھی لے کرنہ جاؤں لیکن (قرض اداکرنے کے بعدبھی) کھجوروں کی تمام ڈھیریاں ویسی کی ویسی ہی تھیں حتی کہ وہ ڈھیری بھی جس میں سے قرضہ اداکیا گیا تھا سالم تھی گویا کہ اس میں سے ایک کھجوربھی کم نہیں ہوئی،یہی وہ ڈھیری تھی جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے۔[2]

مضامین سورۂ الصف

اس سورہ کاموضوع جہادوقتال ہے ۔

xاللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس کرنے کے بعدمسلمانوں کوسختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنے عہدکی پابندی کیاکریں اورجوکچھ زبان سے کہیں اسے کرکے بھی دکھائیں ،پھراہل ایمان کوجہادکی ترغیب دلائی گئی کہ مسلمانوں کو امت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ اوردین الٰہی کی نصرت کے لیے کفرکے مقابلے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی ماندڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے۔

xمسلمانوں کوتنبیہ کی گئی کہ اپنے رسول اوراپنے دین کے ساتھ وہ روش اختیارنہیں کرنی چاہیے جوموسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیارکی ،وہ عوائے ایمان کے باوجود موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت پرکمربستہ رہے،اور عیسیٰ علیہ السلام سے کھلی کھلی نشانیوں کودیکھ لینے کے باوجودان کوجھٹلانے سے بازنہ آئے ،اس کاوبال یہ ہواکہ ان سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی گئی۔

xیہودونصاریٰ اوران کے ساتھ گٹھ جوڑکرنے والے منافقین جو اہل ایمان کومٹانے اوردعوت حق کوروکنے کاعزم رکھتے ہیں کوخبردارکیاکہ تمہاری ہرطرح کی مخالفتوں اور سازشوں کے باوجودرسول برحق کالایاہوا دین پوری آب وتاب کے ساتھ سارے ادیان پرغالب آکررہے گااگرچہ تم لوگوں کویہ کتناہی ناگوارکیوں نہ ہو۔

xمسلمانوں کودنیاوآخرت کی کامیابی کی بنیادبتائی کہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت اور اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد ہی میں کامیابی کارازپنہاں ہے،اس کے علاوہ کوئی ایساعمل نہیں جوانسانیت کوفوزوفلاح سے ہمکنارکرسکے۔

xاہل ایمان کوتلقین کی گئی کہ عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پرلبیک کہتے ہوئے ان کے حواریوں نے جیسے ان کاساتھ دیاتھااسی طرح اہل ایمان پربھی لازم ہے کہ اپنے نبی کی تائیدو حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت مسلمانوں کے شامل حال رہے۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت اورپیش گوئی کاذکرہے جوپہلے انبیاء اپنی قوموں کوسنایاکرتے تھے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا بَیْنَنَا، قُلْنَا: أَیُّكُمْ یَأْتِی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَسْأَلَهُ: أَیُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ وَهِبْنَا أَنْ یَقُومَ مِنَّا أَحَدٌ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْنَا رَجُلًا رَجُلًا حَتَّى جَمَعَنَا فَجَعَلَ بَعْضُنَا یُشِیرُ إِلَى بَعْضٍ، فَقَرَأَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ: {كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ} [غافر: 35] قَالَ: فَتَلَاهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مروی ہے ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دن بیٹھے آپس میں یہ تذکرہ کررہے تھے کہ کوئی جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرے کہ اللہ تعالیٰ کوسب سے محبوب عمل کونساہے؟اگرہمیں ایسے عمل کی خبرہوجائے توہم ضروراس پرعامل ہوجائیں ،ابھی باتیں ہی ہورہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبلابھیجااوریہ سورۂ تلاوت فرمائی {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ:كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ ۔[3]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢﴾‏ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٣﴾‏ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ ‎﴿٤﴾(الصف)
زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے، اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ،تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں ۔

اللہ وحدہ لاشریک ہی کائنات کی ہرچیزکاخالق ،مالک اورمتصرف ہے،اورزمین وآسمان کی ہر چیز اپنے خالق کے سامنے سرافگندہ اوراپنے رب کی حمدوتسبیح بیان کررہی ہے ، جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [4]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔

وہ ہرچیزپرغالب ہے اوراس کاہرکام حکمت سے لبریزہوتاہے،منافقین کوتنبیہ فرمائی اے لوگوجوایمان لائے ہو!تم اپنے منہ سے وہ بات کیوں کہتے ہوجس کی پاسداری نہیں کرتے ہو؟جیسے فرمایا

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۴۴ [5]

ترجمہ:کیا تم (دوسرے) لوگوں سے نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم کتاب (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟۔

ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاتھا

 وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰی مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ۝۰ۭ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۝۸۸ [6]

ترجمہ: اور میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تمہیں روکتا ہوں ان کاخودارتکاب کروں میں تواصلاح کرناچاہتاہوں جہاں تک بھی میرابس چلے۔

مزیدتاکیدکے طور پرفرمایااللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جسے پورا نہیں کرتے ،یعنی اگرایمان کادعویٰ کرتے ہوتوتمہارے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوناچاہیے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:آیَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافق کی تین نشانیاں ہیں ( اگرچہ وہ نمازپڑھتاہواورروزہ رکھتا ہواورمسلمان ہونے کادعویٰ کرتا ہو )یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولےاورجب وعدہ کرے تواس کی خلاف ورزی کرےاور جب کوئی امانت اس سپردکی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔[7]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى یَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں وہ خالص منافق ہےاورجس میں ان چارمیں سے ایک ہواس میں ایک خصلت نفاق ہے جب تک اسے نہ چھوڑےیہ کہ جب امانت اس کے سپردکی جائے تواس میں خیانت کرےاورجب بولے توجھوٹ بولےاورجب عہدکرے تواس کی خلاف ورزی کرےاور جب لڑے تواخلاق ودیانت کی حدیں توڑڈالے ۔[8]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِنَا وَأَنَا صَبِیٌّ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَخْرُجُ لِأَلْعَبَ، فَقَالَتْ أُمِّی: یَا عَبْدَ اللَّهِ تَعَالَ أُعْطِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِیَهُ؟ قَالَتْ: أُعْطِیهِ تَمْرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِی كُتِبَتْ عَلَیْكِ كَذْبَةٌ

عبداللہ بن عامربن ربیعہ سے مروی ہےہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ میں ابھی بچہ تھا،میں کھیلنے کے لیے باہرنکلا،میری امی نے کہااے عبداللہ!آؤمیں تمہیں کچھ دوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اسے کیادیناچاہتی ہو؟انہوں نے کہا میں اسے کھجوردیناچاہتی ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اگرایسانہ کرتی توتمہاراایک جھوٹ لکھاجاتا۔[9]

جہادایک انتہائی نیک عمل جواللہ عزوجل کو بہت محبوب ہے فرمایا کہ اللہ کوتووہ لوگ پسند ہیں جواللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مضبوط تنظیم کے ساتھ اس طرح صف بستہ ہوکرلڑتے ہیں گویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوارہیں ،

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {كَأَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ}قَالَ:مُثَبَّتٌ لَا یَزُولُ مُلْصَقُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’گویاسیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں ۔‘‘ بارے میں فرماتے ہیں وہ ثابت قدم ہوتے ہیں کہ ان کے پاؤں ڈگمگاتے نہیں اورپھرایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں ۔[10]

‏ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ یَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِی وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٥﴾‏وَإِذْ قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَأْتِی مِن بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٦﴾‏(الصف)
’’ اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں (بخوبی) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں، پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کردیا اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا،اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے( میری قوم) بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوںمجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوںاور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوںجن کا نام احمد ہے، پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگےیہ تو کھلا جادو ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایایہ یہودی آپ کے ساتھ جو برتاؤ کررہے ہیں وہ کوئی انوکھی بات نہیں ،بنی اسرائیل کی توپوری تاریخ ہی انبیاء کی تکذیب سے بھری پڑی ہے، انہوں نے تو موسیٰ علیہ السلام کی بھی نافرمانی کی تھی اور عیسیٰ علیہ السلام کابھی انکارکیا تھا،فرمایااورموسیٰ کی وہ بات یادکرو جب اس نے اپنی قوم کے کرتوتوں پرانہیں زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہی تھی کہ اے میری قوم کے لوگو!اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکرتم کیوں اپنے اقوال وافعال کے ذریعے مجھے اذیت دیتے ہواورمیری طرف جسمانی عیوب کی تہمت لگاتے ہو جو مجھ میں نہیں ،حالانکہ تم خوب جانتے ہوکہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ؟اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں یہودیوں کی بہت سی تکلیف دہ باتوں کا تذکرہ فرمایا ہے،

وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۵۱ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۵۲وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۵۳وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ۝۰ۭ فَتَابَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۵۴وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۵ [11]

ترجمہ:یاد کروجب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھےاس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو، یاد کرو (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے) ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو، یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے، اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے، یاد کرو جب تم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علاینہ خدا کو(تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست کڑکے نے تم کو آلیا۔

وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ۝۰ۭ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا۝۰ۭ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۶۰وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّـاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا۝۰ۭ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِىْ ھُوَاَدْنٰى بِالَّذِىْ ھُوَخَیْرٌ۝۰ۭ اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ۝۰ۭ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّـبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۶۱ۧاِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۶۳ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۶۴وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕیْنَ۝۶۵ۚفَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۶۶وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً۝۰ۭ قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا۝۰ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ۝۶۷ [12]

ترجمہ: یاد کرو، جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے، اس وقت یہ ہدایت کردی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں ، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کریں ، تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو ؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا،آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے، یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگےیہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے، یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے،یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا، اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقوٰی کی روش پر چل سکو گے مگر اس کے بعد تم اپنے عہد سے پھرگئے،اس پر بھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا ورنہ تم کبھی کے تباہ ہوچکے ہوتے، پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑےاس طرح ہم نے ان کے انجام کو اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنا کر چھوڑا ، پھر وہ واقعہ یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کہنے لگے کیا تم ہم سے مزاق کرتے ہو ؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ۔

یَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ۝۰ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ۝۰ۚ وَاٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا۝۱۵۳ [13]

ترجمہ:یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰ سے کرچکے ہیں ، اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی، پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا، ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو صریح فرمان عطا کیا۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝۰ۤۖ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۰یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۝۲۱قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ۝۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْهَا۝۰ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۝۲۲قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ۝۰ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۝۰ۥۚ وَعَلَی اللهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۲۳قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۝۲۴قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۵قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَـنَةً۝۰ۚ یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۶ۧ [14]

ترجمہ:یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی،اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا،اے برادران قوم ! اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے ،انہوں نے جواب دیا اے موسیٰ علیہ السلام ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں ،ان ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا انہوں نے کہا کہ ان جبّاروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو،لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ،اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب!میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی، پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے،اللہ نے جواب دیا اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گےان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ۔

وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّهُمْ۝۰ۚ قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَـمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ۝۰ۭ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ۝۱۳۸اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۳۹قَالَ اَغَیْرَ اللهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّهُوَفَضَّلَكُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۱۴۰وَاِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ۝۰ۚ یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ۝۰ۭ وَفِیْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۝۱۴۱ [15]

ترجمہ:بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی کہنے لگے، اے موسیٰ علیہ السلام ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ، موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو،یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے،پھر موسیٰ نے کہا کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے،اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ۔

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً۝۰ۚ وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۱۴۲وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ۝۰ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْكَ۝۰ۭ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَـبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا۝۰ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۴۳قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّى اصْطَفَیْتُكَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِكَلَامِیْ۝۰ۡۖ فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۱۴۴وَكَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ۝۰ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا۝۰ۭ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ۝۱۴۵سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰــتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا۝۰ۚ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا۝۰ۚ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ۝۱۴۶وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ۝۰ۭ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۴۷ۧوَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِـیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ۝۰ۭ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَلَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا۝۰ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِـمِیْنَ۝۱۴۸وَلَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْهِمْ وَرَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا۝۰ۙ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۱۴۹وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۝۰ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْ۝۰ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ۝۰ۚ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗٓ اِلَیْهِ۝۰ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَكَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ۝۰ۡۖ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ۝۱۵۰قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ۝۰ۡۖ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۵۱ۧ [16]

ترجمہ:ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہِ سینا پر ) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدّت پورے چالیس دن ہوگئی ، موسیٰ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا ،اور جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیاتو اس نے التجاکی کہ اے رب! مجھے یارائے نظردے کہ میں تجھے دیکھوں ، فرمایا تو مجھے نہیں دیکھ سکتا،ہاں ذراسامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے توالبتہ تو مجھے دیکھ سکے گا،چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کگا کر گر پڑاجب ہوش آیا توبولا پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والامیں ہوں ،فرمایا اے موسیٰ !میں نے تمام لوگوں پرترجیح دے کرتجھے منتخب کیاکہ میری پیغمبری کرےاورمجھ سے ہم کلام ہوپس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکربجالا،اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا، میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ ان کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپروائی کرتے رہے،ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئےکیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پاسکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں ؟ موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی، کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے،پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے،ادھر سے موسیٰ غصّے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا، آتے ہی اس نے کہا بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد ! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے ؟ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی( ہارون علیہ السلام ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا، ہارون نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر،تب موسیٰ نے کہا اے ربّ !مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔

فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۝۰ۥۚ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا۝۰ۥۭ اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ۝۸۶قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ۝۸۷ۙفَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِیَ۝۸۸ۭاَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِـــعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۸۹ۧوَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ۝۰ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ۝۹۰قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عٰكِفِیْنَ حَتّٰى یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰى۝۹۱قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْٓا۝۹۲ۙاَلَّا تَتَّبِعَنِ۝۰ۭ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۝۹۳قَالَ یَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَاْسِیْ۝۰ۚ اِنِّىْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ۝۹۴قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ۝۹۵قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ۝۹۶قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۝۰۠ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ۝۰ۚ وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًا۝۰ۭ لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا۝۹۷اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللهُ الَّذِیْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸ [17]

ترجمہ:موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا جا کر اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے ؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی ؟ انہوں نے جواب دیا ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا ،پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی لوگ پکار اٹھے یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کاخدا،موسیٰ علیہ السلام اسے بھول گیا،کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے ؟ ہارون علیہ السلام ( موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے)پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ لوگو، تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑگئے ہو، تمہارا رب تو رحمان ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو،مگر انہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ علیہ السلام ہمارے پاس واپس نہ آجائے،موسیٰ علیہ السلام ( قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون علیہ السلام کی طرف پلٹا اور) بولا ہارون علیہ السلام ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو ؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ؟ہارون علیہ السلام نے جواب دیا اے میری ماں کے بیٹے!میری ڈاڑھی نہ پکڑنہ میرے سر کے بال کھینچ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا،موسیٰ علیہ السلام نے کہا اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے ؟اس نے جواب دیا میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اس کو ڈال دیا میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا،موسیٰ علیہ السلام نے کہا اچھا تو جا اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے باز پرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے،لوگو! تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہےہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَیِیًّا سِتِّیرًا، لاَ یُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَیْءٌ اسْتِحْیَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَقَالُوا: مَا یَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ، إِلَّا مِنْ عَیْبٍ بِجِلْدِهِ: إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ: وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ یُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى، فَخَلاَ یَوْمًا وَحْدَهُ، فَوَضَعَ ثِیَابَهُ عَلَى الحَجَرِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِیَابِهِ لِیَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الحَجَرَ، فَجَعَلَ یَقُولُ: ثَوْبِی حَجَرُ، ثَوْبِی حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَرَأَوْهُ عُرْیَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا یَقُولُونَ، وَقَامَ الحَجَرُ، فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ، ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِیهًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسی علیہ السلام نہایت آبرودار،شرمیلے اورستر کوسختی سے ڈھاپنے والے تھے، ان کے جسم کے کسی عضو کو حیاوشرم کی وجہ سے دیکھنا ممکن نہ تھا،ایک مرتبہ بنواسرائیل کے کچھ لوگوں نے انہیں اذیت پہنچانی چاہی (چنانچہ مشہور کردیاگیا) کہ موسی علیہ السلام جواس قدر جسم کوچھپا کر رکھتے ہیں (ضرور ان کے بدن میں کچھ عیب ہے) یاتو ان کے جسم پر برص ہے یاخصیتین بڑھے ہوئے ہیں (اس وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ان تمام بہتانوں سے پاک صاف کرنا چاہا،سو ایک دن موسیٰ نے تنہائی میں جا کر کپڑے اتار کر پتھر پر رکھ دیئے پھر غسل کیا ،جب غسل سے فارغ ہوئے تو اپنے کپرے لینے چلے مگر وہ پتھر ان کے کپڑے لے کا بھاگا،موسیٰ اپنا عصا لے کر پتھر کے پیچھے چلے اور کہنے لگے اے پتھر! میرے کپڑے دے، اے پتھر! میرے کپڑے دے حتیٰ کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچ گیا، انہوں نے برہنہ حالت میں موسیٰ کو دیکھا تو اللہ کی مخلوقات میں سب سے اچھا اور ان تمام عیوب سے جو وہ منسوب کرتے تھے انہوں نے بری پایا،وہ پتھر ٹھر گیا اور موسیٰ نے اپنے کپڑے لے کر پہن لئے، پھر موسیٰ نے اپنے عصا سے اس پتھر کو مارنا شروع کیا پس بخدا موسیٰ کے مارنے کی وجہ سے اس پتھر میں تین یا چار یا پانچ نشانات ہو گئے،یہی اس آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے انہیں اس بات سے (جو وہ موسیٰ کے بارے میں کہتے تھے) بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے۔[18]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ:رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، لَقَدْ أُوذِیَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ( غزوہ حنین کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پررحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھربھی صابر رہے۔ [19]

اوراس طرح اہل ایمان کو ادب سکھایاکہ اللہ کے نبی کوایذانہ پہنچائیں ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوْا۝۰ۭ وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِیْهًا۝۶۹ۭ [20]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ کو اذیتیں دی تھی،پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برات فرما ئی اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھا۔

مگرجب بنی اسرائیل نے علم کے باوجودحق سے اعراض کیا اور فسق ، کفراورظلم ان کی عادت ثانیہ بن گئی تواللہ تعالیٰ نے ان کی کج روی کی سزاکے طور پر ان کے دلوں پرمہر لگا دی اوران کومستقل طورپرہدایت سے پھیردیا،اللہ تعالیٰ تو اپنی سنت کے مطابق ان لوگوں کو ہدایت دیتاہے جوہدایت کے طالب ہوتے ہیں ،مگرجوخودہی فسق ونافرمانی کی راہ کاانتخاب کرلیں ان کووہ اطاعت وفرمانبرداری کی توفیق نہیں دیاکرتا ، جیسے فرمایا

وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِیْرًا۝۱۱۵ۧ [21]

ترجمہ: مگرجو شخص رسول کی مخالفت پرکمربستہ ہواوراہل ایمان کی روش کے سواکسی اورروش پرچلے درآں حالے کہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہوتواس کوہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جوبدترین جائے قرار ہے۔

بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کاذکرفرمایاکہ عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات یادکرو جواس نے واضح طور پر اپنی قوم کہی تھی کہ اے میری قوم! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ،میں تمہارے سامنے کوئی نرالادین پیش نہیں کررہا بلکہ جوشریعت موسیٰ علیہ السلام لائے تھے وہی پیش کررہاہوں ،اور میں ان پر نازل شدہ الہامی کتاب تورات کی تردیدو تکذیب نہیں کرتابلکہ اس کی تصدیق کرتاہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھ پرانجیل نازل فرمائی ہے جووہی تعلیمات پیش کر رہی ہے جوتورات میں پیش کی گئی تھیں لہذا مجھ پر ایمان لاؤاورمیری اطاعت کرو ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے تورات میں ایک رسول احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بشارت دی تھی اسی طرح میں بھی اپنے بعد ایک رسول خاتم النبیین احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی دینے والا ہوں ،

وَقَدْ رَوَى خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ:أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِكَ، قَالَ:نَعَمْ أَنَا دَعْوَةُ أَبِی إِبْرَاهِیمَ وبشرى عِیسَى

خالدبن معدان سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے بارے میں کچھ بتلائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں ابراہیم علیہ السلام کی دعااورعیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کامصداق ہوں ۔[22]

مگر انہوں نے حق سے عنادکی وجہ سے عیسیٰ علیہ السلام کے دعوائے نبوت اورمعجزات کو صریح دھوکااورفریب قراردیا۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ یُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٧﴾‏ یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨﴾‏ هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ‎﴿٩﴾‏(الصف)
’’اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ(افترا) باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہےاور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیںاور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں،وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔‘‘

اب بھلااس شخص سے بڑاظالم اورکون ہوگاجوعزیز علیہ السلام ،عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کی اولادقراردے،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۔۔۔۝۳۰ [23]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭ [24]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔

یااس کے مقرب فرشتوں کواللہ کی اولادقراردے،جیسے فرمایا

وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ اَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ۝۰ۭ سَـتُكْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْــَٔــلُوْنَ۝۱۹ [25]

ترجمہ:انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے ؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی۔

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنَاثًا۝۰ۭ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۝۴۰ۧ [26]

ترجمہ:کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا ؟ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙ [27]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے،سبحان اللہ وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔

غیراللہ کواس وحدہ لاشریک کاشریک ٹھہرائے ، جیسے فرمایا

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِیْلًا۝۵۶اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـیْلَةَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ۝۰ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۝۵۷ [28]

ترجمہ:ان سے کہو، پکار دیکھو ان معبودوں کو جن کو تم اللہ کے سوا اپنا (کارساز) سمجھتے ہووہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں ،جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔

جوجانوراس نے حلال قرار دیئے ہیں ان کوحرام باورکرائے ،جیسے فرمایا

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ [29]

ترجمہ:اور یہ وہ تمہاری زبانیں جھو ٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔

مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ وَاَكْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۱۰۳ [30]

ترجمہ:اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبَہ اور نہ وصیْلہ اور نہ حام ،مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ( کہ ایسے وہمیّات کو مان رہے ہیں )۔

وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا۝۰ۚ وَاِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَہُمْ فِیْہِ شُرَكَاۗءُ۝۰ۭ سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ۝۱۳۹قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاۗءً عَلَی اللہِ۝۰ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِیْنَ۝۱۴۰ۧ [31]

ترجمہ:اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام لیکن اگر وہ مردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ،یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا،یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام ٹھیرا لیا، یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہرگز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے،یقیناً وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔

اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کوجھوٹامدعی قراردے اوراللہ کی نازل کردہ کتاب کوپیغمبرکی تصنیف کردہ ٹھہرائے حالانکہ اسے اللہ کی بندگی اوراطاعت کی دعوت دی جا رہی ہو؟ جیسے فرمایا

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰى عَلَیْہِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵ [32]

ترجمہ:کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ وَقَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكٌ مُّفْتَرًى۝۰ۭ وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝۰ۙ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۴۳ [33]

ترجمہ:ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن ) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا،ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہیں نے کہہ دیا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔

وَلَمَّا جَاۗءَہُمُ الْحَقُّ قَالُوْا ھٰذَا سِحْـرٌ وَّاِنَّا بِہٖ كٰفِرُوْنَ۝۳۰ [34]

ترجمہ:مگر جب وہ حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔

مگروہ اسلام کے دلائل وبراہین کوحق جاننے کے باوجود محض اپنے تعصبات اور بغض وعنادکی وجہ سے اسے قبول کرنے سے انکار کردیں ، اور بہتان اورافتراپردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرکے اس پاکیزہ دعوت کاراستہ روکنے کی لاحاصل کوشش کریں ، ایسے ظالموں کو جو ظلم پرقائم رہیں اورحق قبول کرنے کو تیارہی نہ ہوں اللہ تعالیٰ راہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشا کرتا،یہ کفارومشرکین اور منافقین اپنی طعن وتشنیع کی باتوں سے قرآن مجیدکے واضح دلائل وبراہین کوجھٹلاتے اوراس کا راستہ روکنے کی کوششیں کرتے ہیں مگر اللہ رب العزت نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ اس دعوت حق کو دنیامیں پورا پھیلا کراورتمام دینوں پر غالب کرکے رہے گایعنی اس دین حق کے مقابلے میں وہ سارے ادیان بے حقیقت بن کررہ جائیں گے خواہ کافروں کویہ کتناہی ناگوار ہو ،جیسے فرمایا

هُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۳۳ [35]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کوکتناہی ناگوارہو۔

هُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللهِ شَهِیْدًا۝۲۸ۭ [36]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسےپوری جنس دین پر غالب کر دے اوراس حقیقت پراللہ کی گواہی کافی ہے۔

پچھلی بات کومزید تاکید کے طورپرفرمایاوہ اللہ ہی توہے جس نے اپنے رسول کو عمل صالح اوردین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ وہ اس دین کوحجت اوردلیل کے ذریعے نظام زندگی کے ہر شعبے پرغالب کر دے خواہ مشرکین کویہ کتناہی ناگوارہواوروہ اس کاراستہ روکنے کے ہرممکن جتن اختیار کر لیں مگر لامحالہ یہ غالب ہوکررہے گااوریہ پشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِیكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿١٠﴾‏ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١١﴾‏ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَیُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١٢﴾‏ وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِیبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٣﴾‏(الصف)
’’اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے، اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم میں ہو،اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہوں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اور تمہیں ایک دوسری (نعمت) بھی دے گا جسے تم چاہتے ہووہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے ایمان والوں کو خوشخبری دے دو ۔‘‘

سوفیصدنفع بخش تجارت :اے لوگوجوایمان لائے ہومیں تمہیں سوفیصدنفع بخش وہ تجارت بتاؤں جوتمہیں دنیامیں سربلندی عطاکرے،اورآخرت میں جہنم کے دردناک عذاب سے بچاکر اللہ کی تیارکردہ لازوال انواع واقسام کی نعمتوں بھری جنت میں داخل کردے؟وہاں تمہارے درجات بلندفرمادےتووہ تجارت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت پراس کے رسول پرایمان لاؤاوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو اورمرتے دم تک اس پراستقامت اختیارکرو ،اور اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے جہاد کرنے پرتل جاؤ اگرتم اس تجارت کواختیارکرلوگے تو یہ تمہاری دنیاوی اوراخروی زندگی کے لئے کامیابی وکامرانی کی نویدثابت ہوگی ،اگرتم محض ایمان کے زبانی دعوے پر اکتفانہ کروبلکہ جس چیز پرایمان لائے ہو اس کوپھیلانے اوراس کی سربلندی کے لئے ہرطرح کی قربانیاں برداشت کرنے کوکمربستہ ہوجاؤگے تواللہ ارحم الرحمین تمہارے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہیں ایسے گھنے سایوں والے درختوں پرمشتمل باغوں میں داخل کرے گاجن کے درختوں کے نیچے دودھ ، خالص شہد،مختلف اقسام کی شرابوں اورپانی کی شفاف نہریں رواں دواں ہوں گی،جن میں نہ بوہوگی اورنہ جن کاذائقہ متغیرہوگا،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۱۵ [37]

ترجمہ:پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔

اورابدی قیام کی جنتوں میں بلندوبالادرجے اور سونے ، چاندی اورصاف وشفاف جواہرات سے تیارکیے ہوئے محلات عطا فرمائے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ جنت کے سودرجات ہیں اورہردودرجوں کے درمیان اتنافاصلہ ہے جتنازمین وآسمان کے درمیان ہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے راستے میں جہادکرنے والوں کے لیے تیارکیاہے،اس لئے جب اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہوتو فردوس مانگوکیونکہ وہ جنت کاسب سے درمیانی درجہ ہے اورجنت کے سب سے بلنددرجے پرہے، مجھے خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپر صرف رحمن کا عرش ہے اور یہیں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں ۔[38]

دنیاوی زندگی کی ترقی کے مقابلے میں یہ بڑی کامیابی ہے ، جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ۝۰ۭ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۱ [39]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے رہیں ،ان سے (جنت کاوعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اورکون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکالیاہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اوروہ دوسری چیزیعنی دنیاکامال واسباب جوتم چاہتے ہووہ بھی تمہیں دے گا ، اگرتم اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے تووہ بھی تمہیں عنقریب فتح و نصرت سے نوازے گا ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْكُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [40]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا ۔

 الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللهُ۝۰ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللهِ كَثِیْرًا۝۰ۭ وَلَیَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۴۰ [41]

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں ، اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ،اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱۳۹ [42]

ترجمہ: دل شکستہ نہ ہو،غم نہ کروتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔

اے نبی ! اہل ایمان کو دنیاوی فتح ونصرت اور آخرت میں کامیابی وکامرانی کی بشارت دے دو۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّینَ مَنْ أَنصَارِی إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِی إِسْرَائِیلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَیَّدْنَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِینَ ‎﴿١٤﴾‏(الصف)
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں، پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے ۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ کے دین کوعالم میں پھیلانے اوراس کی سربلندی کے لئے جہادفی سبیل اللہ کے لئے ہرلمحہ تیاررہو ،اللہ اوراس کارسول جب بھی اور جس وقت بھی اور جس حالت میں تمہیں جہادفی سبیل اللہ کے لئے پکارے تواس پکارپرفوراًجان ومال ،اقوال وافعال کے ذریعے سے لبیک کہو،جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کر کے کہاتھا اللہ کے دین کولوگوں تک پہنچانے میں کون میری معاونت کرے گا ؟ان بارہ حواریوں نے جواب دیاتھاہم اللہ کے پاکیزہ دین کوپھیلانے میں اللہ قادرمطلق کے مددگار ہیں ، جیسےفرمایا

فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَى اللهِ۝۰ۭ قَالَ الْحَوَارِیُوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ۝۰ۚ اٰمَنَّا بِاللهِ۝۰ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۵۲ [43]

ترجمہ:جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟ حواریوں نے جواب دیا ہم اللہ کے مددگار ہیں ، ہم اللہ پر ایمان لائے آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینے والے) ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایام حج میں ایک ایک قبیلہ میں جاکریہی فرمایاکرتے تھے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِی الْمَوْقِفِ، فَقَالَ:أَلَا رَجُلٌ یَحْمِلُنِی إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ مَنَعُونِی أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّی

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو موقف (وقوف عرفات کی جگہ) میں لوگوں  سامنے پیش کیا اور فرمایاکیاکوئی شخص ہے جومجھے اپنی قوم کی طرف لے جائے ؟کیونکہ قریشیوں نے یقیناًمجھے میرے پروردگار کا کلام (پیغام) پہنچانے سے روک دیاہے۔[44]

اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرا گروہ یہودنے ان کی رسالت اورواضح معجزات کا انکار کر دیا اور ان کی والدہ پربہتان تراشی کی،پھرجب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا تو ان ایمان لانے والے گروہ میں کئی فرقے بن گئے ، جن میں فرقہ یعقوبیہ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں زمین پرظہور فرمایا تھا ، نسطوریہ فرقے نے کہاکہ وہ اللہ کے بیٹے تھے،اللہ نے جب تک چاہااسے ہمارے درمیان رکھااوراب اللہ نے اپنے بیٹے کو آسمان پرواپس بلالیاہے ،جبکہ تیسرا فرقہ جوصحیح راہ پرتھا نے کہاکہ وہ اللہ کے بندے اوررسول تھے،پھرہم نے صحیح عقیدے کے حامل جماعت کوقوت بخشی اوران کو دشمنوں پرفتح ونصرت سے بہرہ مندکیا اوروہی غالب ہوکر رہے،لہذااے امت محمد!تم بھی اللہ کے مددگاربنو،اس کے دین کی سربلندی کے لئے کھڑے ہو جاؤ ، پھرجس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے لوگوں کی مددفرمائی تھی تمہاری بھی غائب سے مددفرمائے گااورتمہیں تمہارے دشمنوں پرفتح ونصرت سے ہمکنارکردے گا۔

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِیمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِیهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِیَامَهُ فَرِیضَةً، وَقِیَامَ لَیْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِیهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِیهِ فَرِیضَةً كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ،

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے (یعنی ماہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے)یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے،یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے، جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے)اور جس شخص نے ماہ رمضان میں (بدنی یا مالی ) فرض ادا کی تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں (یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے )

وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ یَزْدَادُ فِیهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِیهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَیْءٌ ، قَالُوا: لَیْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا یُفَطِّرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ: یُعْطِی اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ، وَاسْتَكْثِرُوا فِیهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَیْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَیْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ: فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهمَا: فَتُسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَشْبَعَ فِیهِ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِی شَرْبَةً لَا یَظْمَأُ حَتَّى یَدْخُلَ الْجَنَّةَ

اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے) اورصبر جس کا ثواب بہشت ہے،ماہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے لہٰذا اس ماہ میں محتاج و فقراء کی خبر گیری کرنی چاہیے،اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح ) مومن کا (ظاہر اور معنوی ) رزق زیادہ کیا جاتا ہے، جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار کرائے تو اس کا یہ عمل اس گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہو گا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو،ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ (اس کے بعد) پیاسا نہیں ہو گایہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو جائے، اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے، اور اس کے آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لیے ہی مخصوص ہیں کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔[45]

 خنساء رضی اللہ عنہ کافسخ نکاح:

عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِیَّةِ، أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْیَ ثَیِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ،فَأَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهُ

خنساء رضی اللہ عنہا بنت خذام انصاریہ جوبیوہ تھیں ان کانکاح ان کے والدنے کسی سے کردیامگروہ اس نکاح کوپسندنہیں کرتی تھیں چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرتمام روائیدادسنائی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کومستردفرمادیا۔[46]

[1] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۱۰

[2] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ الكَیْلِ عَلَى البَائِعِ وَالمُعْطِی ۲۱۲۷، وکتاب فی الاستقراض بَابٌ إِذَا قَضَى دُونَ حَقِّهِ أَوْ حَلَّلَهُ فَهُوَ جَائِزٌ ۲۳۹۵، وبَابُ إِذَا قَاصَّ أَوْ جَازَفَهُ فِی الدَّیْنِ تَمْرًا بِتَمْرٍ أَوْ غَیْرِهِ۲۳۹۶، وبَابُ الشَّفَاعَةِ فِی وَضْعِ الدَّیْنِ۲۴۰۵ ،وكِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِیضِ عَلَیْهَا بَابُ إِذَا وَهَبَ دَیْنًا عَلَى رَجُلٍ۲۶۰۱، وکتاب الصلح بَابُ الصُّلْحِ بَیْنَ الغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ المِیرَاثِ وَالمُجَازَفَةِ فِی ذَلِكَ۲۷۰۹، وکتاب الوصایابَابُ قَضَاءِ الوَصِیِّ دُیُونَ المَیِّتِ بِغَیْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الوَرَثَةِ۲۷۸۱،وکتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۵۳، وکتاب الاطعمہ بَابُ الرُّطَبِ وَالتَّمْرِ۵۴۴۳، وكِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ إِذَا قَالَ: مَنْ ذَا؟ فَقَالَ: أَنَاعن جابر ۶۲۵۰

[3] مسنداحمد۲۳۷۸۹

[4] بنی اسرائیل۴۴

[5] البقرة۴۴

[6] ھود۸۸

[7] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ ۳۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ ۲۱۱

[8] صحیح بخاری کتاب الایمانبَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ ۳۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ ۲۱۰

[9] مسنداحمد۱۵۷۰۲،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی التَّشْدِیدِ فِی الْكَذِبِ ۴۹۹۱

[10] تفسیرابن ابی حاتم ۳۳۵۴؍۱۰

[11] البقرة۵۱تا۵۵

[12] البقرة ۶۰تا۶۷

[13] النساء ۱۵۳

[14] المائدة۲۰تا۲۶

[15] الاعراف۱۳۸تا۱۴۱

[16] الاعراف۱۴۲تا۱۵۱

[17] طہ۸۶تا۹۸

[18] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ ۳۴۰۴،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۱۴۶

[19] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۳۳۵ ،وکتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۵۰،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ ۲۴۴۷

[20] الاحزاب۶۹

[21] النساء۱۱۵

[22] تفسیر السمرقندی۔بحر العلوم ۴۴۳؍۳، تفسیرطبری۶۱۳؍۲۲ ،تفسیرالرازی۔مفاتیح الغیب = التفسیر الكبیر ۴۸۱؍۳،تفسیرالقرطبی۱۳۱؍۲

[23] التوبة۳۰

[24] مریم۸۸

[25] الزخرف۱۹

[26] بنی اسرائیل۴۰

[27] الانبیائ۲۶

[28] بنی اسرائیل۵۶،۵۷

[29] النحل۱۱۶

[30] المائدة۱۰۳

[31] الانعام۱۳۹،۱۴۰

[32] الفرقان۵

[33] سبا۴۳

[34] الزخرف۳۰

[35] التوبة۳۳

[36] الفتح۲۸

[37] محمد۱۵

[38] صحیح بخاری کتاب الجہادوالسیربَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، یُقَالُ: هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی۲۷۹۰

[39] التوبة۱۱۱

[40] محمد۷

[41] الحج۴۰

[42] آل عمران۱۳۹

[43] آل عمران ۵۲

[44] سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقُرْآنِ ۴۷۳۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ باب ۲۹۲۵،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۲۰۱،السنن الکبری للنسائی۷۶۸۰،مستدرک حاکم۴۲۲۰، مسنداحمد۱۵۱۹۲

[45] صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷،الدعوات الکبیر۵۳۲،شعب الایمان ۳۳۳۶،فضائل الاوقات للبیہقی۳۷، أمالی المحاملی روایة ابن یحیى البیع۲۹۳قال الأعظمی: إسناده ضعیف علی بن زید بن جدعان ضعیف

[46]صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ إِذَا زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِیَ كَارِهَةٌ فَنِكَاحُهُ مَرْدُودٌ عن خنسآ ء ۵۱۳۸ 

Related Articles