ہجرت نبوی کا تیسرا سال

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کازخمی ہونا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مشرکین کے پہنچنے سے پہلے کچھ اس طرح کی صورت حال بن گئی کہ کچھ مسلمان جومشرکین کے تعاقب میں دورتک چلے گئے تھے اورواپس پلٹتے ہوئے پہچان نہ کر آپس میں گتھم گتھا ہو گئے، اس طرح یہ گروہ مسلمانوں کے مرکزی لشکرسے کافی دورتھا،کچھ مسلمان کفارکے دوطرفہ سخت حملے کامقابلہ نہ کر سکے اورجان بچانے کے لئے محفوظ مقام تک پہنچ کررک گئے ، ایک زیادہ تعدادمیں گروہ وہ تھا جو مشرکین کے قلب میں جنگ کررہاتھامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کاسن کر پریشان تھا،اوراس نے اپنے ہتھیارتک پھینک دیئے تھے،مگرچندصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزعمل سے ان کے ولولے جوان ہوگئے ،اوراب ان کامقصدصرف یہ رہ گیاتھاکہ میدان جنگ میں ثابت قدمی سے جمارہے، اور آخر تک لڑائی کرتے ہوئے شہیدہوجائے، اس دوران جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف نوصحابہ کرام جن میں سات انصاری اوردومہاجر تھے کے ساتھ الگ تھلگ رہ گئے تھے، کچھ دشمنوں کو جن میں عتبہ بن ابی وقاص اورعبداللہ قمیہ وغیرہ بھی شامل تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبہ بن ابی وقاص نے ایک بھاری پتھراٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرپھینکا،پتھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پرآکرلگا

وَكُسِرَتْ رَبَاعِیَتُهُ یَوْمَئِذٍ، وَجُرِحَ وَجْهُهُ، وَكُسِرَتِ البَیْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ

جس کی زور دار ضرب سے خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرٹوٹ گیا (اورخودکے نیچے والی باریک زرہ کی دوکڑیاں آپ کے رخسارمیں چھب گئیں )اورسامنے نیچے کاایک دانت مبارک شہید ہو گیا، نچلا ہونٹ کچلاگیا اور اس سے خون بہنے لگا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا۔[1]

حَتَّى خَلَصَ الْعَدُوُّ إلى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُذِفَ بِالْحِجَارَةِ حَتَّى وَقَعَ لِشِقِّهِ، وَأُصِیبَتْ رَبَاعِیَتُهُ وَشُجَّ فِی وَجْهِهِ، وَكُلِمَتْ شَفَتُهُ، وَكَانَ الَّذِی أَصَابَهُ عُتْبَةُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ

ایک روایت میں ہےکچھ دشمنوں کوجن میں عتبہ بن ابی وقاص اورعبداللہ قیمہ وغیرہ بھی شامل تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے،سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبہ بن ابی وقاص نےایک پتھراٹھاکررسول اللہ کے چہرے پردے مارا، جس سے آپ کے اگلے چاروں دانت شہیدہوگئے اورہونٹ زخمی ہوا،اورسرمبارک میں بھی چوٹ آئی اورخون تمام چہرہ پرجاری ہوگیا۔[2]

اسی وقت عبداللہ بن قمیہ لیثی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پرحملہ کیا

فَقَالَ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ قَمِیئَةَ! فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمْ وَهُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ مَا لَكَ، أَقْمَأَكَ اللهُ،فَسَلَّطَ اللهُ عَلَیْهِ تَیْسَ جَبَلٍ، لَا تَیْسَ، فَلَمْ یَزَلْ یَنْطَحُهُ حَتَّى قَطَعَهُ قِطْعَةً قِطْعَةً

اور کہا میرایہ وارسنبھال اورمیں قمیہ کا بیٹا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے اس کایہ فخریہ قول سن کر فرمایااللہ تجھے ذلیل وخوار کرے،اس بددعاکانتیجہ یہ ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کردیا،جس نے اپنے سینگ مارمار کر اس کاجوڑ جوڑ الگ کردیا ۔[3]

عَائِذٍ مِنْ طَرِیقِ الْأَوْزَاعِیِّ بَلَغَنَا أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ أَخَذَ شَیْئًا فَجَعَلَ یُنَشِّفُ بِهِ دَمَهُ وَقَالَ لَوْ وَقَعَ مِنْهُ شَیْءٌ عَلَى الْأَرْضِ لَنَزَلَ عَلَیْكُمُ الْعَذَابُ مِنَ السَّمَاءِ،ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُونَ

ابن عائد، اوزاعی روایت کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوکر گر پڑے تو کپڑے سے اپناخون پونچھ کر فرماتے تھے کہ اگراس کاایک قطرہ بھی زمین پر گر پڑا تو ان پرآسمان سے عذاب نازل ہو جائے گا، پھرفرمایا الہٰی ! میری قوم کو بخش دے ان کوعلم نہیں ہے۔[4]

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَحْكِی نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَیَقُولُ:رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُونَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےگویارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نظروں کے سامنے ہیں اپنی پیشانی سے خون پونچھتے ہوئے فرماتے جاتے ہیں الہٰی ! میری قوم کو بخش دے ان کوعلم نہیں ہے۔[5]

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِیَتُهُ یَوْمَ أُحُدٍ، وَشُجَّ فِی رَأْسِهِ، فَجَعَلَ یَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ، وَیَقُولُ: كَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِیَّهُمْ، وَكَسَرُوا رَبَاعِیَتَهُ، وَهُوَ یَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ؟

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹ گئے اورزخمی چہرے سے خون بہنے لگاتوآپ اس کوپونچھتے ہوئے (آپ کے منہ سے کفارکے حق میں بددعانکل گئی کہ) وہ قوم کس طرح نجات پائے گی جس نے نبی کے چہرے کوخون سے رنگین کیا ہے جبکہ وہ انکوان کے رب کی طرف بلاتا ہے۔[6]

سالم سے مرسلاروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ ،سہل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے حق میں بددعافرمائی( تینوں فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے )اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۲۸ [7]

ترجمہ:(اے پیغمبر)فیصلہ کے اختیارات میں تمہاراکوئی حصہ نہیں ،اللہ کواختیارہے چاہئے انہیں معاف کرے چاہئے سزا دے۔

 مشرکین کادباؤاورسات انصاریوں کی شہادت:

اس سنہری موقعہ کومشرکین ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہتے تھے،ان سب کارخ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف تھا،وہ سب مل کرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کردینا چاہتے تھےاس لئے وہ اپنادباؤبڑھارہے تھے ، اس سے پہلے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاوہ گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت لئے قریب پہنچتا ، مشرکین کے گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرحملہ کردیا،اورآپ کوقتل کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی،ایک طرف صرف نوصحابہ تھے ،اوردوسری طرف مشرکین کی پوری طاقت تھی، جن کی پوری پوری کوشش تھی کہ آپ تک پہنچ کر آپ کوقتل کرڈالے۔

فقال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من یردهم عنا وهو رفیقی فی الجنة،فقام رجال من الأنصار فاستشهدوا كلهم

جب مشرکین اورقریب پہنچ گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکون ہے جوانہیں ہم سے دور کرےجوانہیں دورکرے گااس کے لئے جنت ہے یایہ فرمایاکہ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مبارک سن کرایک انصاری آگے بڑھااوردشمنوں سے لڑتا ہو شہید ہوگیا۔اب دشمن کچھ اورقریب ہوگیا اورآپ نے پھرپہلے والاجملہ دہرایا،اس طرح چھ انصاری صحابی یکے بعددیگرے شہیدہوتے گئے، آخرمیں ساتویں انصاری عمارة رضی اللہ عنہ بن یزیدبن السکن آگے بڑے اورمشرکین سے قتال کرنے لگے حتی کہ لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو کرگرپڑے، جب تک ثابت قدم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشرکین کاگھیراتوڑکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم باری باری شمع رسالت پرقربان ہوچکے تھے،ساتواں انصاری زخمی ہوکرگرچکاتھااورجان بلب تھا،یہ ساری کاروائی چندلمحوں ہی میں ہوگئی، اب سارادباؤ صرف دوقریشی مہاجرین سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ پرتھاجوعرب کے ماہرترین تیراندازتھے ۔

قَالَ زَعَمَ أَبُو عُثْمَانَ:أَنَّهُ لَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِی بَعْضِ تِلْكَ الأَیَّامِ الَّتِی یُقَاتِلُ فِیهِنَّ، غَیْرُ طَلْحَةَ، وَسَعْدٍ

ابوعثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ اورسعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کے سواکوئی تیسراآدمی نہیں تھا۔[8]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حِینَ غَشِیَهُ الْقَوْمُ:مَنْ رَجُلٌ یَشْرِی لَنَا نَفْسَهُ؟قَالَ: فَقَامَ زِیَادُ بْنُ السَّكَنِ فِی نَفَرٍ خَمْسَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ- وَبَعْضُ النَّاسِ یَقُولُ: إنَّمَا هُوَ عُمَارَةُ بْنُ یَزِیدَ بْنِ السَّكَنِ فَقَاتَلُوا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلًا ثُمَّ رَجُلًا، یُقْتَلُونَ دُونَهُ، حَتَّى كَانَ آخِرُهُمْ زِیَادَ أَوْ عُمَارَةَ،

ابن اسحاق کہتے ہیں جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرہجوم کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہےجومیرے لیے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرے؟زیاد رضی اللہ عنہ بن السکن قریب ہی کھڑے تھے جونہی ان کانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازپڑی وہ اپنے چارانصاری ساتھیوں کے ساتھ لپک کریہ کہتے ہوئے آگے بڑھے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم حاضر ہیں ، بعض کہتے ہیں وہ عمارہ رضی اللہ عنہ بن زیادبن السکن تھے، پھروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنرغہ کرنے والے مشرکین کے گروہ میں گھس گئے اورایسی جانبازی سے لڑے کے ایک ایک کرکے شہید ہو گئے ، آخرمیں زیاد رضی اللہ عنہ یاعمارہ رضی اللہ عنہ چودہ زخم کھا کرگرپڑے،

فَقَاتَلَ حَتَّى أَثَبَتَتْهُ الْجِرَاحَةُ، ثُمَّ فَاءَتْ فِئَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَأَجْهَضُوهُمْ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَدْنُوهُ مِنِّی، فَأَدْنَوْهُ مِنْهُ، فَوَسَّدَهُ قَدِمَهُ، فَمَاتَ وَخَدُّهُ عَلَى قَدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.

پھرمسلمانوں کاایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اوراس نے مشرکین کومارمارکروہاں سے ہٹادیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی گئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیاد رضی اللہ عنہ یاعمارہ رضی اللہ عنہ کی لاش میرے پاس لاؤ،عمارہ رضی اللہ عنہ کی لاش میرے قریب لاؤ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے اٹھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرورکھ دیابولنے کی سکت نہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سراپنے مقدس قدموں پررکھ لیااوروہ اپنے رخساروں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے اقدس کے تلوؤں کوسہلاتے ہوئے روضہ رضواں کوسدھار گئے۔[9]

 سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص اورابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی کارگزاری:

اس نازک ترین وقت پران د ومہاجرین نے بے مثال بہادری وجانبازی کامظاہرہ کیا سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے نشانے پر تیر برسا کراور طلحہ بن عبیداللہ تیمی رضی اللہ عنہ نےتلوارسے بڑی تعداد میں دشمنوں سے لڑکر اور سامنے کی طرف سے آنے والوں تیروں اورواروں کوروک کر مدافعت کی کوشش کررہے تھے،یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن گئے۔

نَثَلَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِنَانَتَهُ یَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ ارْمِ فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ترکش سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے پھیلادیا اور فرمایااے سعد رضی اللہ عنہ !میرے ماں باپ تم پرقربان ہوں کفار پر تیرچلاؤ،اوردعافرمائی الہٰی ان کانشانہ خطانہ ہو۔[10]

 فلم یفد أحدًا ألف مرة على هذا إلّا سعد بن أبی وقاص

اس دن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے۔[11]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے بکھیردیئے اور فرمایا

ارْمِ یَا سَعْدُ، فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی

اے سعد! تیر چلاؤ، تم پرمیرے ماں باپ قربان ہوں ۔[12]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ أَبَوَیْهِ لِأَحَدٍ إِلَّا لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَإِنِّی سَمِعْتُهُ یَقُولُ یَوْمَ أُحُدٍ:یَا سَعْدُ ارْمِ فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایاسعدابن مالک سوامیں نے اورکسی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے والدین کاایک ساتھ ذکرکرتے نہیں سنا،میں نے خودسناکہ احدکے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے سعد!خوب تیربرساؤ میرے باپ اورماں تم پر قربان ہوں ۔[13]

 قَالَ سَعْدٌ: فَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یُنَاوِلُنِی النَّبْلَ وَهُوَ یَقُولُ: ارْمِ، فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی، حَتَّى إنَّهُ لَیُنَاوِلُنِی السَّهْمَ مَا لَهُ نَصْلٌ، فَیَقُولُ: ارْمِ بِهِ

سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تیراٹھااٹھاکردیتے ہیں اورفرماتے ہیں ، تیرچلامیرے ماں باپ تجھ پرفداہوں ،یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایساتیربھی اٹھاکردیاجس میں پھل بھی نہ ہوتاتھا،اورفرمایااس کومار۔[14]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ كَانَ یَرْمِی بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ یَتَتَرَّسُ بِهِ. وَكَانَ رَامِیًا. فَكَانَ إِذَا مَا رَفَعَ رَأْسَهُ یَنْظُرُ أَیْنَ وَقَعَ سَهْمُهُ. فَیَرْفَعُ أَبُوطَلْحَةَ رَأْسَهُ وَیَقُولُ: هَكَذَا بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ لا یُصِیبُكُ سَهْمٌ. نَحْرِی دُونَ نَحْرِكَ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیوم احدمیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تیراندازکررہے تھے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے آڑمیں تھے ،وہ تیراندازتھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپناسراٹھاکردیکھتے تھے کہ ان کاتیرکہاں گرا، توابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپناسراٹھاتے تھے اورکہتے تھے اسی طرح (دیکھتے رہیے)میرے ماں باپ آپ پرفداہوں ، اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کوکوئی تیرنہیں لگے گا،میراسینہ آپ کے سینے سے آگے ہے۔[15]

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ لَهُ أَبَوَیْهِ یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ارْمِ فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی قَالَ فَنَزَعْتُ لَهُ بِسَهْمٍ لَیْسَ فِیهِ نَصْلٌ، فَأَصَبْتُ جَنْبَهُ فَسَقَطَ، فَانْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى نَوَاجِذِهِ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مشرکین میں ایک ایساشخص بھی تھاجس نے کچھ مسلمانوں کوآگ میں جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کوقتل کیاتھا)(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کومیدان میں دیکھا)تو سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایامیرے ماں باپ تم پرقربان ہوں تیر مارو،انہوں نے تعمیل حکم میں اس شخص کوبے پھل کا تیر مارا جو اس کے پہلومیں جالگا،تیرلگتے ہی وہ شخص گرپڑااوراس کاسترکھل گیا(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس شخص کے قتل سے بڑی خوشی ہوئی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہرہوگئیں ۔[16]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمَ أُحُدٍ انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو طَلْحَةَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ عَلَیْهِ بِحَجَفَةٍ لَهُ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلًا رَامِیًا شَدِیدَ النَّزْعِ، كَسَرَ یَوْمَئِذٍ قَوْسَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا، وَكَانَ الرَّجُلُ یَمُرُّ مَعَهُ بِجَعْبَةٍ مِنَ النَّبْلِ، فَیَقُولُ:انْثُرْهَا لِأَبِی طَلْحَةَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے احد روزلوگ شکست کھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے بجائے منتشرہوگئے ،مگرابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اپنی چمڑے کی ڈھال لیکرسپربن گئے،وہ ماہرترین تیراندازتھے اورتیرکوبہت دورتک پہنچانے کے لئے کمان کوخوب کھینچ کرتیرچلاتے تھےاس دن اس کوشش میں کہ دشمن دورہی رہے وہ کمان کو خوب کھینچ کھینچ کر تیر چلا رہے تھے جس کی وجہ سے ان سے دویاتین کمانیں ٹوٹ گئیں ۔[17]

عَنْ أَنَسٍ،قَالَ: وَكَانَ یَجْثُو بَیْنَ یَدَیْهِ فِی الْحَرْبِ، ثُمَّ یَنْثُرُ كِنَانَتَهُ، وَیَقُولُ:

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ جنگ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے تھے، اور کمان کوخوب کھینچ کرتیرچلاتے وقت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبان پریہ شعرتھے۔

 وَجْهِی لِوَجْهِكَ الْوِقَاءُ ۔وَنَفْسِی لِنَفْسِكَ الْفِدَاءُ

میرا چہرہ آپ کے چہرے کے لیے بچاؤ   اور میری ذات آپ کی ذات پر فدا ہو

عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَصَوْتُ أَبِی طَلْحَةَ فِی الْجَیْشِ خَیْرٌ مِنْ فِئَةٍ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافوج میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی آوازسوآدمیوں سے بہترہے۔[18]

اس خیال کے پیش نظرکہ تیرکم نہ پڑجائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے گزرنے والے صحابی کے پاس اگرترکش بھرا ہوا دیکھتے تو فرماتے،ان تیروں کوابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے لئے بکھیردو۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَیُشْرِفُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إِلَى القَوْمِ، فَیَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، لاَ تُشْرِفْ، یُصِیبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ القَوْمِ، نَحْرِی دُونَ نَحْرِكَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کودیکھنے کے لیے سراٹھاکرجھانکتے، توابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے میرے ماں باپ آپ پرفداہوں سرمبارک اوپرنہ اٹھائیے ایسانہ ہوکہ ادھرسے کوئی تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکرلگ جائے، آپ کی حفاظت کے لئے میراسینہ آپ کے سینہ مبارک کے لئے ڈھال ہے۔[19]

 فَقَاتَلَ طَلْحَةُ قِتَالَ الْأَحَدَ عَشَرَ

طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی(زخموں سے چورچورہونے کے باوجود) گیارہ آدمیوں کے برابر تنہا اس زورسے شمشیرزنی کی اورکئی دشمنوں کوپیچھے ہٹنے پرمجبورکردیا۔

ابن عساکرکے مطابق اس وقت ان کی زبان پریہ رجزجاری تھا۔

نحن حماة غالب ومالكِ،نذبّ عن رسولنا المبارك

ہم غالب آنے والے اورقدرت رکھنے والے محافظ ہیں          ہم اپنے رسول مبارک سے دشمنوں کوہنکاتے ہیں

نضرب عنه القوم فی المعارك،ضرب صفاح الكُوم فی المبارك

معرکوں میں مشرکین کومارکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹاتے ہیں          جس طرح بچنے والاآدمی موٹی اونٹنی کوباندھنے کی جگہ پرماتاہے۔[20]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:حَتَّى ضُرِبَتْ یَدُهُ، فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ، فَقَالَ: حَسِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللهِ لَرَفَعَتْكَ الْمَلَائِكَةُ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لڑائی کے دوران دشمن کی تلوارکی ضرب ان کے ہاتھ پرپڑی جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں ،تکلیف کی شدت سے ان کے منہ سے سی کی آوازنکلی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم بسم اللہ کہتے توفرشتے تمہیں اٹھالیتے اورلوگ دیکھتے۔ [21]

حَتَّى ضُرِبَتْ یَدُهُ فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ فَقَالَ حَسَنٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوِ قُلْتَ بِسْمِ اللهِ لَرَفَعَتْكَ الْمَلَائِكَةُ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ

ایک روایت میں ہےیہاں تک کہ ہاتھ پرضرب لگی اورانگلی کٹ گئی توانہوں نے کہاحسن (خوب ہوا)کالفظ نکلا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم بسم اللہ کہتے توفرشتے تمہیں اٹھالیتے اورسب لوگوں کے سامنے تمہیں آسمان پرلے جاتے۔[22]

ثُمَّ رَدَّ اللهُ الْمُشْرِكِینَ

پھراللہ نے مشرکین کوپلٹادیا۔[23]

اس روزانہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إلَى شَهِیدٍ یَمْشِی عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ فَلْیَنْظُرْ إلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجوشخص کسی شہیدکوزمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہئے وہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کودیکھ لے۔[24]

ابن حازم کہتے ہیں اس روزانہیں پینتیس یاانتالیس زخم لگے اوران کی بچلی اورشہادت کی انگلیاں شل ہوگئیں ۔[25]

بعض روایتوں میں ان کے زخموں کی تفصیل بھی دی گئی ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ محض ہاتھ پرچوبیس زخم آئے تھے اوریہ ہمیشہ کے لیے شل ہوگیاتھا،کل بدن پرتلوار،نیزہ اورتیرکے پچھتررخم آئے تھے ،تلوارکی ایک ضرب سے سربھی شدیدزخمی ہوگیاتھا۔

عَنْ قَیْسٍ، قَالَ:رَأَیْتُ یَدَ طَلْحَةَ شَلَّاءَ وَقَى بِهَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں میں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا وہ شل ہوچکاتھا،اسی ہاتھ سے انہوں نے احدکے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچایا تھا۔[26]

طلحہ رضی اللہ عنہ نے جس عدیم النظیرجوش ایمان ،شجاعت وبسالت اورفداکاری کامظاہرہ کیااس کے صلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلحہ خیرکاعظیم الشان لقب مرحمت فرمایا

 سَمَّانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسِبُهُ یَوْمَ أُحُدٍ، طَلْحَةَ الْخَیْرِ

رحمت دارین صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احدکے دن ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایایہ طلحہ رضی اللہ عنہ نہیں خیرہے۔[27]

ویوم العشیرة طلحة الفیاض.ویوم حنین طلحة الجودی

یوم العشیرہ کوانہیں فیاض کالقب عطاہوااورغزوہ حنین پرانہیں جوادکالقب عنایت فرمایا۔[28]

ایک روایت میں ہےاس موقع پررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایماء پرحسان بن ثابت نے یہ اشعارکہے۔

وَطَلْحَة یَوْم الشّعب آسى مُحَمَّدًا ً ،على سَاعَة ضَاقَتْ عَلَیْهِ وَشقت

اورطلحہ رضی اللہ عنہ نے گھاٹی کے دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی،ایسے وقت میں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرتنگ اوردشوارہوگیاتھا

یقیه بكفّیه الرماحَ وأسلمت ،أشاجعه تحت السیوف فشلَّتِ

وہ اپنی ہتھیلیوں کے ذریعے نیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبچاتے تھے اورانہوں نے اپنی انگلیاں تلواروں کے نیچے دے دیں جوشل ہوگئیں ۔[29]

طلحہ رضی اللہ عنہ نے صفحہ تاریخ پرجوداستان وفارقم کی، اس نے انہیں دوسرے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک نہایت محبوب اورمحترم بنادیاتھا،اوروہ ان پررشک کیاکرتے تھے۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا ذَكَرَ یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ كَانَ ذَلِكَ الْیَوْمُ كُلُّهُ لِطَلْحَةَ

ان کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب غزوہ احد کا ذکرفرماتے توکہتے کہ یہ جنگ کل کی کل طلحہ رضی اللہ عنہ کے لئے تھی(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کااصل کارنامہ انہیں نے سرانجام دیاتھا)۔[30]

اورسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں یہ شعرکہے۔

یا طلحةُ بن عُبید الله قد وجبت،لك الجنان وزُوِّجتَ المها العِینِ

اے طلحہ بن عبیداللہ تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی           اورتم نے اپنے یہاں حورعین کاٹھکانہ بنالیا۔[31]

 جھنڈا سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے سپردکرنا:

وَقُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَدَفَعَ اللِّوَاءَ إِلَى عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ

مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی جھنڈا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوعطافرمایا۔[32]

آپ رضی اللہ عنہ نے اور وہاں پرموجوددوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بے مثال بہادری ودلیری کے ساتھ مشرکین کاحملہ روک کران پرحملہ کردیا،تاکہ مشرکین کی صفوں کوچیرکران کے نرغے میں آئے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچاجاسکے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قدم مبارک آگے بڑھاکرصحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب تشریف لائے۔

قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ عَرَفَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،عَرَفْتُ عَیْنَیْهِ تَزْهَرَانِ مِنْ تَحْتِ الْمِغْفَرِ، فَنَادَیْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی: یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، أَبْشِرُوا، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إلَیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ أَنْصِتْ

کعب رضی اللہ عنہ بن مالک فرماتے ہیں مسلمانوں کی شکست اورلوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کی خبر مشہورہونے کے بعدجس شخص نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کرپہچاناوہ میں تھا، کہتے ہیں میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں چمکتی ہوئی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچانا، اوربلندآوازسے بے اختیار چیخ اٹھا مسلمانو! تمہیں بشارت ہو،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح وسلامتتشریف لارہے ہیں ،آپ نے انہیں خاموش رہنے کااشارہ کیاتاکہ مشرکین کوآپ کی موجودگی اورمقام موجودگی کاعلم نہ ہو سکے۔[33]

مگران کی خوشی کی بلندآوازمسلمانوں کے کانوں تک پہنچ گئی، چنانچہ مسلمان آپ کی پناہ میں آنا شروع ہوگئے اوررفتہ رفتہ یہ تعدادتیس تک پہنچ گئی،مشرکین کاگھیراتوڑکرسب سے پہلے عقاب کی طرح سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہاں جھپٹتے،اورپھردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے ہتھیاروں سے اورجن کے پاس ہتھیارنہیں تھے انہوں نے اپنے جسموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف گھیراڈال دیا،اوردشمنوں کے مہلک اورمسلسل حملوں سے مدافعت کرنے لگے، اس ہجوم سے محفوظ رکھنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کمال فداکاری اورجاں نثاری کے ثبوت دیئے ،جس کی مثال بڑی سے بڑی تحریکوں کی تاریخ میں بھی کم نظر آئے گی

 وَتَرَّسَ دُونَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو دُجَانَةَ بِنَفْسِهِ، یَقَعُ النَّبْلُ فِی ظَهْرِه وَهُوَ مُنْحَنٍ عَلَیْهِ، حَتَّى كَثُرَ فِیهِ النَّبْلُ

پشت کی طرف ابودجانہ رضی اللہ عنہ ڈھال بن گئے اور کفارکے جتنے تیررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آتے انہیں اپنی پیٹھ پرلیتے مگروہ حرکت نہیں کرتے تھے جس سے ان کی ساری پیٹھ چھلنی ہوگئی ۔[34]

ثم ألبسنی لأمته ولبس لأمتی، فلقد ضربت حتى جرحت بضع وعشرین جراحة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالباس اورہتھیاراس وقت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے پہن لیاتھا،مشرکین نے انہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کرگھیرلیاجس سے انہیں بیس سے اوپرزخم آئے۔[35]

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: حَدَّثَنِی أَبُو بَكْرٍ قَالَ: كُنْتُ فِی أَوَّلِ مَنْ فَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایااحد دن سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پلٹ گئے تھے(یعنی محافظین کے سواتمام صحابہ آپ کواپنی قیام جگہ پر چھوڑ کر لڑائی کے لئے اگلی صفوں میں چلے گئے تھےپھر دشمنوں کے گھیراوکے بعد)میں پہلاشخص تھاجونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کرآیا۔[36]

فَرَأَیْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ رَجُلًا یُقَاتِلُ عَنْهُ وَیَحْمِیهِ، قُلْتُ: كُنْ طلحة فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی،فَلَمْ أَنْشَبْ، أَنْ أَدْرَكَنِی أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَإِذَا هُوَ یَشْتَدُّ كَأَنَّهُ طَیْرٌ حَتَّى لَحِقَنِی

میں نے دیکھاکہ آپ کے سامنے ایک آدمی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے آپ کی طرف سے لڑرہاہے،میں نے دل ہی دل میں کہاتم طلحہ رضی اللہ عنہ ہو،تم پرمیرے ماں باپ قربان ،اتنے میں ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے گویاپرندے اڑرہے ہوں میرے پاس آگئے، اب ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے، وہاں پہنچ کردیکھاکہ طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بچھے پڑے ہیں ۔ [37]

فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْكُمْ صَاحِبَكُمْ. یُرِیدُ طَلْحَةَ. وَقَدْ نُزِفَ فَلَمْ یُنْظَرْ إِلَیْهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے بھائی کوسنبھالو،آپ کی مرادطلحہ رضی اللہ عنہ سے تھی جن کابکثرت خون بہہ گیاتھا،مگرہم نے ان کونہیں دیکھاتھا۔[38]

عَنِ الزُّبَیْرِ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلم یقول: أَوْجَبَ طَلْحَةُ.

زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سناطلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنے لئے) جنت کوواجب کرلیا۔[39]

قال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ قَدْ قَضَى نَحْبَهُ فَلْیَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجوشخص کسی جنتی کودیکھناچاہتاہے وہ طلحہ بن عبیداللہ کودیکھ لے۔[40]

فَأَقْبَلْنَا عَلَى طلحة نُعَالِجُهُ، وَقَدْ أَصَابَتْهُ بِضْعَةَ عَشَرَ ضَرْبَةً

اب ہم طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اورانہیں سنبھالا اس وقت تک انہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت کرتے ہوئے) دس سے زیادہ زخم آچکے تھے[41]

ابْنَتِی طَلْحَةَ قَالَتَا: جُرِحَ أَبُونَا یَوْمَ أُحُدٍ أَرْبَعًا وَعِشْرِینَ جِرَاحَةً

طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں کہتی ہیں کہ ہمارے والدکوغزوہ احدمیں چوبیس زخم لگے۔[42]

وَأَخْبَرَنِی مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ قَالَ: رَجَعَ طَلْحَةُ یَوْمَئِذٍ بِخَمْسٍ وَسَبْعِینَ أَوْ سَبْعٍ وَثَلاثِینَ ضَرْبَةً رُبِّعَ فِیهَا جَبِینُهُ وَقُطِعَ نَسَاهُ وَشَلَّتْ إِصْبَعُهُ الَّتِی تَلِی الإِبْهَامَ.

موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس روزطلحہ رضی اللہ عنہ پچھتر(۷۵) یاسنتیس(۳۷) زخموں کے ساتھ واپس آئے، جن میں ایک توان کی پیشانی میں چوکورتھا،ان کی رگ نساکٹ گئی تھی اور وہ انگلی بے کارہوگئی تھی جوانگوٹھے کے پاس ہے۔[43]

پھر ان نازک ترین لمحات میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جن میں ابودجانہ رضی اللہ عنہ ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،سہل بن حنیف، ابوسعدخذری کے والد مالک رضی اللہ عنہ بن سنان، قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب، حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ، ام عمارہ رضی اللہ عنہا نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہ اور مازنیہ رضی اللہ عنہا شامل تھے آپہنچی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشرکین کوپیچھے دھکیل دیا۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَدْنُوهُ مِنِّی، فَأَدْنَوْهُ مِنْهُ، فَوَسَّدَهُ قَدِمَهُ، فَمَاتَ وَخَدُّهُ عَلَى قَدَمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازیادکومیرے قریب کر دو، مسلمان دم توڑتے عمارة رضی اللہ عنہ بن یزیدبن السکن بن رافع کو اٹھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاؤں پرٹیک لیاان کا رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر تھا کہ اسی حالت میں انہوں نے دم توڑ دیا ۔[44]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَیْهِ:مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیایاہمارے ساتھیوں نے ہم سے انصاف نہیں کیا(مطلب یہ کہ انہوں نے ہم کوشہادت حاصل کرنے کاموقعہ نہیں دیا)[45]

 کڑیوں کانکالنا:

قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:وَقَدْ رُمِیَ فِی جَبْهَتِهِ وَوَجْنَتِهِ، فَأَهْوَیْتُ إِلَى السَّهْمِ الَّذِی فِی جَبْهَتِهِ لِأَنْزِعَهُ،فَقَالَ لِی أَبُو عُبَیْدَةَ: نَشَدْتُكَ بِاللهِ یَا أَبَا بَكْرٍ إِلَّا تَرَكْتَنِی، قَالَ: فَتَرَكْتُهُ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَیْدَةَ السَّهْمَ بِفِیهِ، فَجَعَلَ یُنَضْنِضُهُ، وَیَكْرَهُ أَنْ یُؤْذِیَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَلَّهُ بِفِیهِ ،ثُمَّ أَهْوَیْتُ إِلَى السَّهْمِ الَّذِی فِی وَجَنَتِهِ لِأَنْزِعَهُ، فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَةَ: نَشَدْتُكَ بِاللهِ یَا أَبَا بَكْرِ إِلَّا تَرَكْتَنِی،فَأَخَذَ السَّهْمَ بِفِیهِ، وَجَعَلَ یُنَضْنِضُهُ، وَیَكْرَهُ أَنْ یُؤْذِیَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَلَّهُ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (کہ جب ہم مشرکین کاگھیراتوڑکر پہنچے تو)میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک اورپیشانی تیروں سے زخمی ہوچ ہیں اور لوہے کی خودکی دوکڑیاں آپ کی پیشانی میں پیوست ہیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ان ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو نکالناچاہاتوابوعبیدہ الجراح نے کہااے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں یہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں ،پھر انہوں نے اپنے دانتوں سے ایک کڑی پکڑی اورآہستہ آہستہ باہرکی طرف نکالناشروع کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور بالآخر انہوں نے وہ کڑی باہرنکال دی لیکن اس کوشش میں خودان کاایک نچلادانت بھی گرگیا،اب میں نے دوسری کڑی نکالنی چاہی توپھر ابوعبیدہ الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !میں تمہیں اللہ کاواسطہ دیتاہوں مجھے دوسری کڑی بھی نکالنے دیں ، پھرانہوں نے پہلی کڑی کی طرح دوسری کڑی کو بھی اپنے دانتوں سے پکڑ کرآہستہ آہستہ باہرنکال دیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچےاور ان کی اس کوشش میں ان کادوسرادانت بھی گرگیااوران کے لئے عیب کی بجائے حسن وجمال کاسبب بن گئے کیونکہ ان کے یہ ٹوٹے ہوئے دانت سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت نظرآتے تھے۔[46]

یہ وہ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے بعدسب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ:عَائِشَةُ، قِیلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ:أَبُو بَكْرٍ، قِیلَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:عُمَرُقِیلَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کوئی ایساہے جس سے آپ محبت کرتے ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے عرض کی مردوں میں سےسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتاہوں ،میں نے عرض کی پھرکس سے ،فرمایاسیدناعمر رضی اللہ عنہ ،میں نے پھرعرض کی پھرکس سے فرمایاابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے۔[47]

جنہیں عاقب اورسیدکی فرمائش پر امین بناکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کی طرف بھیجاتھا،جنہیں آپ نے امین امت کاخطاب فرمایاتھا۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِینٌ، وَأَمِینُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرامت کاایک امین ہوتاہے اورمیری امت کاامین ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں ۔[48]

ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ان دس خوش بخت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے جنت کی بشارت دے دی تھی ۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَشْرَةٌ فِی الْجَنَّةِ: أَبُو بَكْرٍ فِی الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّةِ، وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّةِ، وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِی الْجَنَّةِ، وَابْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّةِ.

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادس صحابی جنتی ہیں ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورسیدناعلی مرتضیٰ جنتی ہیں ،اورزبیربن العوام رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورطلحہ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورابن عوف رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورسعد رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورسعیدبن زید رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ، اورابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔[49]

وَلَمَّا مَصَّ مالك أبو أبی سعید الخدری جُرْحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنْقَاهُ قَالَ لَهُ:مُجَّهُ ، قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَمُجُّهُ أَبَدًا ثُمَّ أَدْبَرَ. فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْیَنْظُرْ إِلَى هَذَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے والد مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سے رستے خون کو چوس کرصاف کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے تھوک دو،انہوں نے عرض کیاواللہ ! میں اسے ہرگزنہیں تھوکوں گااورپھر جا کردشمنوں سے قتال کرنے لگے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی جنتی کودیکھناچاہئے تووہ انہیں دیکھے،آخردشمنوں سے لڑتے لڑتے وہ شہید ہوگئے۔[50]

عتبہ بن ابی وقاص کے بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کی تمناتھی کہ وہ اپنے مشرک بھائی کوقتل کرڈالیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیاہے۔

قال حاطب: لما رأیت ما فعل عتبة برَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قلت لرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أین توجه عتبة؟ فأشار النبی صلى الله علیه وسلم إلى حیث توجه فمضیت حتى ظفرت به، فضربته بالسیف فطرحت رأسه، فنزلت وأخذت فرسه وسیفه

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں وہ منظر دیکھا جو عتبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تو میں عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! عتبہ کس طرف گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کیا تو حاطب فرماتے ہیں کہ میں ان کے پیچھے ہولیا یہاں تک کہ میں نے انہیں پا کر اپنی تلوار سے وار کرکے اس کا سر اس کے تن سے جدا کردیا ا س کے بعد میں نے اس کی تلواراورگھوڑے پرقبضہ کرلیا ۔[51]

سهیل بن حنیف رضی الله عنه، وكان ممن ثبت مع النبی صلى الله علیه وسلم فی هذا الیوم الذی هو یوم أحد. قال بعضهم: وكان بایعه صلى الله علیه وسلم یومئذ على الموت، فثبت معه صلى الله علیه وسلم حتى انكشف الناس عنه،

سہل رضی اللہ عنہ بن حنیف بھی بڑے اچھے تیر انداز تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرموت کی بیعت کی ،اورپھراوپرچڑھے چلے آنے والے دشمنوں پرپل پڑے اورانہیں کافی دورتک دھکیل دیا۔[52]

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف بھی ان لوگوں میں شامل تھے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت کررہے تھے،اس دوران انہوں لڑتے لڑتے منہ پرچوٹ لگی جس سے ان کادانت ٹوٹ گیا

وجرح یَوْمئِذٍ عَبْد الرَّحْمَن بْن عَوْف نَحْو عشْرین جِرَاحَة بَعْضهَا فِی رجله، فعرج مِنْهَا

اس دوران انہیں جسم کے مختلف حصوں پر بیس (۲۰)یااس سے زیادہ زخم آئے،پاؤں کے زخموں کی وجہ سے وہ لنگڑے ہوگئے۔[53]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعافرمائی تھی۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صلى الله علیه وسلم . قَالَتْ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لأَزْوَاجِهِ إِنَّ الَّذِی یُحَافِظُ عَلَیْكُنَّ بَعْدِی لَهُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ. اللَّهُمَّ اسْقِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ مِنْ سَلْسَبِیلِ الْجَنَّةِ.

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوازواج سے فرماتے ہوئے سناکہ میرے بعدجوشخص تم لوگوں کامحافظ ہوگاوہ صادق اورنیکوکارہوگا،اے اللہ! عبدالرحمٰن بن عوف کوسلسبیل جنت سے سیراب کر۔[54]

حَمَلَ هُوَ وَابْنُهُ خَلادٌ حین انكشف المسلمون فقتلا جمیعا

عمروبن جموع رضی اللہ عنہ بھی اپنے بیٹے خلاد رضی اللہ عنہ کوساتھ لئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے، دونوں ثابت قدمی لڑے اورلڑتے لڑتے آخرکارشہیدہوگئے۔ [55]

عمروبن جموع رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے غلام سلیم رضی اللہ عنہ بھی تھے،یہ بھی ان کے ساتھ نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے، عمروبن جموع رضی اللہ عنہ اگرچہ آخری عمر میں مسلمان ہوئے تھے اورمسلمان کی حیثیت سے صرف تین سال زندہ رہے، اس کے باوجودبڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمارہوتے ہیں ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک معجزہ :

عن قتادة: كُنْتَ یَوْم أَحَد أَتْقَى السِّهَامُ بِوَجْهِی دُون وَجْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَكَانَ آخِرِهَا سَهْمًا نَذَرَتْ مِنْهُ حَدَقَتِی فَأَخَذْتهَا بِیَدِی وَسَعَیْت إِلی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا رَآهَا فِی كُفِّی دَمَعَتْ عَیْنَاهُ

اس دن ایک واقعہ یہ بھی ہواقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قبیلہ بنوظفرکے قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوکردشمن کے تیروں کی بوچھاڑ کواپنے جسم پرروک رہے تھے کہ ان کی آنکھ میں دشمن کا تیر آکرلگاجس سے وہ آنکھ کاڈھیلاپپوٹے کے اندرسے نکل کر چہرے پرڈھلک آیاجسے وہ تھام کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر آب دیدہ ہوگئے ،اوران کے حق میں دعافرمائی،

فَقَال:اللهُمَّ قِ قَتَادَة، كَمَا وَقَى وَجْهُ نَبِیّك, فَاجْعَلْهَا أَحْسَن عَیْنَیْهِ وَأَحَدَّهُمَا نَظَرًا،فَكَانَت أَحْسَن عَیْنَیْهِ وَأَحَدُهُمَا أقواهمانَظَرًا

اے اللہ! جس طرح قتادہ نے تیرے نبی کے چہرہ کی حفاظت کی ہے اسی طرح تواس کے چہرہ کومحفوظ رکھ، اوراس کی اس آنکھ کو دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اورتیزنظربنادے ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھلکے ہوئے ڈھیلے کو اپنے ہاتھ مبارک سے اٹھاکرپپوٹے کے اندرکردیا،اس کے بعدان کی دونوں آنکھوں میں یہی آنکھ زیادہ خوبصورت لگتی تھی، اوراس کی بینائی بھی زیادہ تیزتھی۔[56]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ،فقال له:إِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ وَلَكَ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ یُعَافِیَكَ ،فَقَالَ إنّ لِی امْرَأَةً أُحِبّهَا، وَأَخْشَى إنْ رَأَتْنِی أَنْ تَقْذَرَنِی ، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ وَرَدّهَا إلَى مَوْضِعِهَا، وَقَالَ اللهُمّ اكْسِبْهُ جَمَالًا، فَكَانَتْ أَحَسَنَ عَیْنَیْهِ وَأَحَدّهُمَا نَظَرًا، وَكَانَتْ لَا تَرْمَدُ إذَا رَمِدَتْ الْأُخْرَى

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب قتادہ اپنے ڈھلے کوچہرہ پردبائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر تو اس پرصبرکرے توتیرے لئے جنت ہے اوراگرتوچاہئے تواس ڈھلے کواسی جگہ رکھ کرتیرے لئے دعا کروں ،قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ایک بیوی ہے جس سے میں بہت پیار کرتا ہوں اگرمیں ایک آنکھ سے محروم ہوگیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گی ،ان کی یہ بات سن کرآپ نے ان کا ڈھیلا اپنی جگہ پررکھ دیا اور دعا فرمائی اے اللہ اس کوحسن وجمال عطا فرما،اس کے بعدان کی دونوں آنکھوں میں یہی آنکھ زیادہ خوبصورت لگتی تھی اوراس کی بینائی بھی زیادہ تیزتھی دوسری آنکھ کبھی آشوب کرآتی مگریہ آنکھ ہمیشہ آشوب سے محفوظ رہی۔[57]

صحابیات کی کارگزاری :

صحابیہ بھی اس معرکہ میں پیچھے نہیں رہیں اورانہوں نے بھی جاں نثاری میں تاریخ رقم کی۔

وقاتلت أم عمَارَة الْأَنْصَارِیَّة، وَهِی نسیبة بنت كَعْب قتالا شَدِیدا، وَضربت عَمْرو بْن قمئة بِالسَّیْفِ ضربات فوقاه دِرْعَانِ كَانَتَا عَلَیْهِ وضربها عَمْرو بِالسَّیْفِ فجرحها جرحا عَظِیما على عاتقها

نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہ زوجہ زیدبن عاصم(ام عمارہ) رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے بڑی غیرمعمولی بہادری سے مشرکین کی ایک جماعت کے ساتھ لڑائی کررہی تھیں ،وہ لڑتے لڑتے عبداللہ بن قمیہ لیثی جس نے دوزرہیں پہنی ہوئی تھیں کے سامنے آ گئیں اوراس کے آگے دیواربن گئیں ،ابن قمیہ نے انہیں نیزوں کے کچوکوں اورتلوارکے وارسے بارہ زخم لگائے،آخرابن قمیہ نے ان کے کندھے پر تلوار کاوارکیاجس سے انہیں گہرازخم آیااوران کاایک ہاتھ ضائع ہوگیا، ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی تلوارسے اسے کئی مہلک زخم لگائےمگر زرہوں کی وجہ سے بچ گیا۔[58]

قال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی حقها مَا الْتَفَتُّ یَمِینًا وَلا شِمَالا یوم أحد إلا ورأیتها تُقَاتِلُ دُونِی اهـ أی وقد جرحت رَضِیَ الله عَنْهُما اثنی عشر جرحا بین طعنة برمح أو ضربة بسیف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان متعلق فرمایاکہ میں نے دیکھاکہ دائیں بائیں کسی طرف متوجہ ہوئے بغیروہ صرف میرے بچاؤکے لئے لڑتی رہیں اور نیزوں کے کچوکوں اورتلوارکے وارسے ان خاتون کے جسم پربارہ زخم آئے تھے۔[59]

 أُمّ عمارة نسیبة بنت كعب.سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ یَوْمَ أُحُدٍ: مَا الْتَفَتُّ یَمِینًا وَلا شِمَالا إِلا وَأَنَا أَرَاهَا تُقَاتِلُ دُونِی

ام عمارہ رضی اللہ عنہا بنت کعب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغزوہ احدکے دن میں دائیں بائیں جس طرف نظرڈالتا تھا، ام عمارہ ہی ام عمارہ لڑتی نظرآتی تھیں ۔[60]

قَالَتْ أُمُّ عُمَارَةَ: قَدْ رَأَیْتُنِی وَانْكَشَفَ النَّاسُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ فَمَا بَقِیَ إِلا فِی نُفَیْرٍ مَا یُتِمُّونَ عَشْرَةً. وَأَنَا وَابْنَایَ وَزَوْجِی بَیْنَ یَدَیْهِ نَذُبُّ عَنْهُ. وَالنَّاسُ یَمُرُّونَ بِهِ مُنْهَزِمِینَ.وَرَآنِی لا تُرْسَ مَعِی فَرَأَى رَجُلا مُوَلِّیًا مَعَهُ تُرْسٌ فَقَالَ لِصَاحِبِ التُّرْسِ: أَلْقِ تُرْسَكَ إِلَى مَنْ یُقَاتِلُ. فَأَلْقَى تُرْسَهُ فَأَخَذْتُهُ فَجَعَلْتُ أَتَتَرَّسُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ.

عمارہ بن غزیہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ مسلمان انہیں چھوڑکربھاگ رہے ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دس آدمی بھی باقی نہیں ہیں ،میں اورمیرے شوہراوردونوں بیٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ودفاع میں کھڑے ہوگئے،اورلوگ شکست خوردہ حالت میں قریب سے گزررہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ میرے پاس ڈھال نہیں ہے، اتنے میں ایک آدمی پشت پھیرکربھاگتاہوانظرآیاجس کے پاس ڈھال تھی،جب وہ قریب سے گزراتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھال والے سے فرمایاڈھال لڑنے والے کے لیے چھوڑجاؤ،اس نے ڈھال پھینک دی ،میں نے اسے اٹھالیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اسے استعمال کرنے لگی،

وَإِنَّمَا فَعَلَ بِنَا الأَفَاعِیلُ أَصْحَابُ الْخَیْلِ. لَوْ كَانُوا رَجَّالَةً مِثْلَنَا أَصَبْنَاهُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. فَیُقْبِلُ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ فَضَرَبَنِی وَتَتَرَّسْتُ لَهُ فَلَمْ یَصْنَعْ سَیْفُهُ شَیْئًا. وَوَلَّى. وَأَضْرِبُ عُرْقُوبَ فَرَسِهِ فَوَقَعَ عَلَى ظَهْرِهِ.فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ علیه وسلم یصیح: یا بن أُمِّ عُمَارَةَ أُمُّكَ أُمُّكَ! قَالَتْ: فَعَاوَنَنِی عَلَیْهِ حتى أوزدته شَعُوبٌ.

اس موقع پرہمارامقابلہ گھڑسواروں سے ہوا،اگروہ ہماری طرح پیدل ہوتے توان شاء اللہ ہم ہی ان پرغالب آتے، ان میں سے ایک نے مجھ پرحملہ کردیامیں نے اس کاحملہ اپنی ڈھال پرروکا،اوراس کی تلوارمیراکچھ نہ بگاڑسکی،وہ پشت پھیرکرچلاتومیں نے اس گھوڑے کے پاؤں پرحملہ کردیا،جس کی وجہ سے وہ گھوڑے پرسے گرپڑا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ماجرادیکھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آوازسے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوپکارکرکہااے ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے! اپنی ماں کی مددکرو، وہ فوراًمیری مددکے لیےلپکے اورمیں اسے گھاٹی میں دھکیل آئی۔[61]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: جُرِحْتُ یَوْمَئِذٍ جُرْحًا فِی عَضُدِی الْیُسْرَى. ضَرَبَنِی رَجُلٌ كَأَنَّهُ الرَّقْلُ وَلَمْ یُعَرِّجْ عَلَیَّ وَمَضَى عَنِّی. وَجَعَلَ الدَّمُ لا یَرْقَأُ.فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: اعْصِبْ جُرْحَكَ. فَتُقْبِلُ أُمِّی إِلَیَّ وَمَعَهَا عَصَائِبُ فِی حَقْوَیْهَا قَدْ أَعَدَّتْهَا لِلْجِرَاحِ فَرَبَطَتْ جُرْحِی. وَالنَّبِیُّ وَاقِفٌ یَنْظُرُ إِلَیَّ. ثُمَّ قَالَتْ: انْهَضْ بُنَیَّ فَضَارِبِ الْقَوْمَ.فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَمَنْ یُطِیقُ مَا تُطِیقِینَ یَا أُمَّ عُمَارَةَ!

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زیدسے مروی ہے غزوہ احدمیں میرے بائیں بازومیں زخم آگیاتھایہ زخم مجھے کھجور تنے کی طرح ایک لمبے آدمی نے لگایاتھا،لیکن وہ میری طرف متوجہ نہیں ہوابلکہ پاس سے گزرگیا،لیکن زخم کاخون کسی طرح بندنہ ہورہاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازخم پرپٹی باندھ لو،پس میری والدہ میری طرف آئیں ان کے پاس کئی ایک پٹیاں تھیں جوان کے ازارمیں بندھی ہوئی تھیں ،اورانہوں نے یہ زخموں پرباندھنے کی غرض سے ساتھ لے لی تھیں ، انہوں نے ایک پٹی میرے زخم پرباندھ دی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے،میری والدہ نے کہامیرے بیٹے!اٹھواورکفارسے جنگ کرو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام عمارہ رضی اللہ عنہا !کیایہ تمہاری طرح لڑنے کی طاقت رکھتاہے؟

قَالَتْ:وَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِی ضَرَبَ ابْنِی. فَقَالَ رَسُولُ الله: هَذَا ضَارِبُ ابْنِكِ. قَالَتْ:فَأَعْتَرِضُ لَهُ فَأَضْرِبُ ساقه فبرك. قالت: فرأیت رسول الله یَتَبَسَّمُ حَتَّى رَأَیْتُ نَوَاجِذَهُ وَقَالَ: اسْتَقَدْتِ یَا أُمَّ عُمَارَةَ. ثُمَّ أَقْبَلْنَا نَعُلُّهُ بِالسِّلاحِ حَتَّى أتینا على نفسه. فقال النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی ظَفَرَكِ وَأَقَرَّ عَیْنَكِ مِنْ عَدُوِّكِ وَأَرَاكِ ثَأْرَكِ بِعَیْنِكِ .

ام عمارہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اتنے میں وہ شخص سامنے آیاجس نے میرے بیٹے کوزخمی کیاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ وہ شخص ہے جس نے تمہارے بیٹے کوزخمی کیاتھا، پس میں نے یہ سن کراس شخص پرحملہ کردیااوراس کی ٹانگ پرزوردارضرب لگائی، جس کی وجہ سے وہ گھٹنوں  بل بیٹھ گیا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ مسکرارہے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرونی دانت مبارک نظرآنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام عمارہ رضی اللہ عنہا !تم نے اپنے بیٹے کابدلہ لے لیا،پھرہم نے اسلحہ سے حملہ کرکے اسے جہنم کی راہ دکھادی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے تمہیں کامیابی عطافرمائی ،دشمن کی طرف سے تمہاری آنکھوں کوٹھنڈک نصیب فرمائی ،اورتمہاری آنکھوں سے تمہیں انتقال کا منظر دکھایا ۔[62]

 قَالَتْ:اُدْعُ اللهَ أَنْ نُرَافِقَك فِی الْجَنّةِ. قَالَ: اللهُمّ اجْعَلْهُمْ رُفَقَائِی فِی الْجَنّةِ،قَالَتْ: مَا أُبَالِی مَا أَصَابَنِی مِنْ الدّنْیَا

کیمپ میں پہنچ کر نسیبہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ جنت میں ہمیں آپ کاساتھ نصیب ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ ! ان سب کوجنت میں میرا ساتھی بنانا،یہ سن کران کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ رہااور نسیبہ نے کہااب مجھے دنیاکی کسی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں رہی۔[63]

انہوں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاتھاکہ میں دیکھتی ہوں کہ ہرچیزمردوں کے لئے ہے عورتوں کاکہیں ذکر نہیں آتااس پریہ آیت نازل ہوئی

 اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِیْنَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِیْنَ اللهَ كَثِیْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ۝۰ۙ اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۝۳۵ [64]

ترجمہ:بالیقین ! جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیاّکر رکھا ہے۔

اورایک روایت میں ہے۔

أُمَّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا لَا نُذْكَرُ فِی الْقُرْآنِ كَمَا یُذْكَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ یَرُعْنِی مِنْهُ یَوْمًا إِلَّا وَنِدَاؤُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ. قَالَتْ: وَأَنَا أُسَرِّحُ رَأْسِی، فَلَفَفْتُ شَعْرِی، ثُمَّ دَنَوْتُ مِنَ الْبَابِ، فَجَعَلْتُ سَمْعِی عِنْدَ الْجَرِیدِ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} [65]هَذِهِ الْآیَةَ. قَالَ عَفَّانُ: {أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا}[66]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک مرتبہ میں نے عرض کیا اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس طرح مردوں کا ذکر قرآن میں ہوتا ہے ہم عورتوں کا ذکر کیوں نہیں ہوتا، ابھی اس بات کو ایک ہی دن گزرا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اے لوگو! کا اعلان کرتے ہوئے سنا،میں اپنے بالوں میں کنگھی کررہی تھی میں نے اپنے بال لپیٹے اور دروازے کے قریب ہو کر سننے لگی، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’بالیقین ! جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیاّکر رکھا ہے۔‘‘[67]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافی زخمی ہوچکے تھے،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَلَقَدْ رَأَیْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ وَأُمَّ سُلَیْمٍ، وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تُنْقِزَانِ القِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا تُفْرِغَانِهِ فِی أَفْوَاهِ القَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا، ثُمَّ تَجِیئَانِ فَتُفْرِغَانِهِ فِی أَفْوَاهِ القَوْمِ، وَلَقَدْ وَقَعَ السَّیْفُ مِنْ یَدَیْ أَبِی طَلْحَةَ إِمَّا مَرَّتَیْنِ وَإِمَّا ثَلاَثًا

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ اوراپنی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کودیکھا(اس وقت تک پردے کاحکم نازل نہیں ہواتھا)کہ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا ہوا ہے جس کے باعث میں ان کی پازیبیں دیکھتاتھا، وہ جاتیں اوراپنی پیٹھ پرپانی کے مشکیزے اٹھاکرلاتیں ،سپاہیوں کوپلاکرپھرجاتیں اورمشکیزے بھرکران کوپانی پلاتیں ،وہ دوران جنگ یہی کام کرتی رہیں ، اوراس روزابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دویاتین دفعہ تلوارگری۔[68]

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے :

هَذَا كَانَ یَوْمَ أُحُدٍ قَبْلَ أَمْرِالنِّسَاءِ بِالْحِجَ ابِوَتَ حْرِیمِ النَّظَرِإِلَیْهِنَّ

یہ واقعہ غزوہ احدکے موقع پرپیش آیاتھااس وقت عورتوں کوحجاب کاحکم نازل نہیں ہواتھااورنہ ہی ان کی طرف دیکھنے کی حرمت اتری تھی۔[69]

بعدکے کسی غزوے میں عورتوں کااس طرح میدان جنگ میں کام کرناثابت نہیں ، بلکہ غزوہ خیبرکے موقع پرکچھ عورتیں اس مقصدکے لیے گھروں سے نکلیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری کااظہارفرمایا،اورانہیں واپس گھروں کوبھیج دیا،اورپھرکبھی عورتوں کومیدان جنگ میں نہ جانے دیا۔اسی طرح ابوسعدخدری رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیط رضی اللہ عنہا بھی مشکیزہ میں پانی لالا کر زخمیوں کوپلارہی تھیں ،

وَأُمُّ سَلِیطٍ مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،قَالَ عُمَرُ: فَإِنَّهَا كَانَتْ تُزْفِرُ لَنَا القِرَبَ یَوْمَ أُحُدٍ

ام سلیط رضی اللہ عنہا کاتعلق قبیلہ انصار تھااورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ غزوہ احدمیں وہ ہمارے لئے پانی کی مشک بھربھرکرلاتی تھیں [70]

اسی طرح دوسری خواتین بھی مجاہدین کی خدمت کررہی تھیں ۔

عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ:كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَسْقِی وَنُدَاوِی الجَرْحَى، وَنَرُدُّ القَتْلَى إِلَى المَدِینَةِ

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہم (دوسری مسلمان عورتیں کے ساتھ)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ میں )شریک ہوتی تھیں ،مسلمان زخمی فوجیوں کوپانی پلاتے تھے،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے اورجولوگ شہید ہو جاتے انہیں مدینہ منورہ منتقل کرتی تھیں ۔[71]

وانهزمت طائفة منهم حتى دخلت المدینة، فلقیتهم أم أیمن رضی الله عنها فجعلت تحثو التراب فی وجوههم وتقول لبعضهم: هاك المغزل فاغزل به، وهلم سیفك ـ:أی أعطنی سیفك، وفیه أن أم أیمن كانت فی الجیش تسقی الجرحى،أی فقد جاء أن حباب بن العرقة رمى بسهم فأصاب أم أیمن وكانت تسقی الجرحى فوقعت وتكشفت فأغرق عدوّ الله فی الضحك ،

انہی عورتوں میں ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی تھیں انہوں نے جب میدان جنگ سے بھاگے ہوئے مسلمانوں کومدینہ منورہ میں گھستے ہوئے دیکھاتوان چہروں پرمٹی پھینکنے لگیں اورکہنے لگیں تم لوگ یہ سوت کاتنے کاتکلالواورتلوارہمیں دے دو، اس کے بعدتیزی سے میدان جنگ میں پہنچ گئیں اورزخمیوں کوپانی پلانے لگیں ،ان پرحباب بن عرقہ نے تیرچلایاجس سے وہ گرپڑیں اوران کاپردہ کھل گیا،یہ دیکھ کراس نے زوردارقہقہہ لگایا،

فشق ذلك على رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فدفع إلى سعد سهما لا نصل له وقال ارم به،فوقع السهم فی نحر حباب فوقع مستلقیا حتى بدت عورته فضحك صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حتى بدت نواجذه، ثم قال: استقاد لها سعد أجاب الله دعوته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات بہت ناگوارگزری، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوایک بے ریش تیردے کرفرمایااسے چلاؤ ،چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے اس بے ریش تیرکوچلایاجوحبان حلق پرجاکرلگااوروہ چت گرگیا،اوراس کاپردہ کھل گیا،یہ دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنسے کہ جڑکے دانت دکھائی دینے لگے اورفرمایا سعد رضی اللہ عنہ نے ام ایمن کابدلہ چکادیااللہ ان کی دعاقبول فرمائے۔[72]

اللہ کی مدد:

اس نازک ترین موقعہ پراللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بھی مددفرمائی۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُلاَنِ یُقَاتِلاَنِ عَنْهُ، عَلَیْهِمَا ثِیَابٌ بِیضٌ، كَأَشَدِّ القِتَالِ مَا رَأَیْتُهُمَا قَبْلُ وَلاَ بَعْدُ

چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص سے مروی ہے غزوہ احدکے موقع پرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا اورآپ کے ساتھ دواوراصحاب (یعنی جبریل علیہ السلام اورمیکائیل علیہ السلام کوجوانسانی صورت میں )آئے ہوئے تھے،وہ آپ کواپنی حفاظت میں لے کرکفارسےبڑی سختی سے لڑرہے تھے ، انہوں نے سفیدکپڑے پہن رکھے تھے میں نے اس سے پہلے اوراس کے بعدان کوکبھی نہیں دیکھا۔[73]

جب مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بارش کردی

وَقَالَ نَافِعُ بْنُ جُبَیْرٍ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ یَقُولُ: شَهِدْتُ أُحُدًا، فَنَظَرْتُ إِلَى النَّبْلِ یَأْتِی مِنْ كُلِّ نَاحِیَةٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَهَا، كُلُّ ذَلِكَ یُصْرَفُ عَنْهُ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ عبد الله بن شهاب الزهری، یَقُولُ یَوْمَئِذٍ: دُلُّونِی عَلَى مُحَمَّدٍ، لَا نَجَوْتُ إِنْ نَجَا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِهِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ، ثُمَّ جَاوَزَهُ،

تونافع بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے مہاجرین میں سے ایک آدمی کوکہتے ہوئے سناہے ،میں احدکے میدان میں حاضر تھامیں دیکھتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چاروں طرف سے تیرپڑرہے تھے ،آپ درمیان میں کھڑے تھے مگرتیرآپ کولگنے کے بجائے ادھرادھرجاپڑتے تھے، اورمیں نے عبداللہ بن شہاب زہری کودیکھاہے وہ اس دن کہہ رہاتھامجھے بتاؤمحمدکہاں ہے ؟اگروہ بچ کرنکل گیاتومیں نہیں بچوں گا،اس وقت آپ اس کے قریب ہی کھڑے تھے ،یہ شخص آپ کے قریب سے گزرگیامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ دیکھ سکا،

فَعَاتَبَهُ فِی ذَلِكَ صفوان، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَیْتُهُ، أَحْلِفُ بِاللَّهِ، إِنَّهُ مِنَّا مَمْنُوعٌ، فَخَرَجْنَا أَرْبَعَةً، فَتَعَاهَدْنَا، وَتَعَاقَدْنَا عَلَى قَتْلِهِ، فَلَمْ نَخْلُصْ إِلَى ذَلِكَ.

بعدمیں صفوان نے اس کوملامت کی تو بولاواللہ! میں نے اس کونہیں دیکھا،اورمیں قسم کھاکرکہتاہوں کہ اس کارب اس کی حفاظت کررہاتھا،ہم چارآدمی قسم کھا کر اورایک دوسرے سے عہد کر کے نکلے تھے کہ اس کوضرورقتل کردیں گے، مگراس میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔[74]

قَالَ الْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّةِ: سَأَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ، وَهُوَ فِی الشِّعْبِ:هَلْ رَأَیْتَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللهِ رَأَیْتُهُ إِلَى جَنْبِ الْجُبَیْلِ، وَعَلَیْهِ عَسْكَرٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ، فَهَوَیْتُ إِلَیْهِ لِأَمْنَعَهُ، فَرَأَیْتُكَ، فَعَدَلْتُ إِلَیْكَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُقَاتِلُ مَعَهُ،

حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ احدکے روزجس وقت آپ گھاٹی میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایاکیاتم نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کودیکھاہے؟میں نے عرض کیاہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ پہاڑکی طرف کفارکے نرغہ میں تھے،میں نے ان کی مددکوجاناچاہالیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنظرپڑی توادھرآگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتےعبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کرمشرکین سےلڑائی کررہے ہیں ،

قَالَ الْحَارِثُ فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَأَجِدُهُ بَیْنَ نَفَرٍ سَبْعَةٍ صَرْعَى، فَقُلْتُ لَهُ: ظَفِرَتْ یَمِینُكَ، أَكُلَّ هَؤُلَاءِ قَتَلْتُهُ؟ قَالَ: أَمَّا هَذَا لِأَرْطَأَةَ بْنِ عَبْدِ شُرَحْبِیلَ، وَهَذَانِ فَأَنَا قَتَلْتُهُمَا، وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَتَلَهُمْ مَنْ لَمْ أَرَهُ ،قُلْتُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ

حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھرمیں عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تودیکھاکہ مشرکین کی سات لاشیں ان کے سامنے پڑی ہیں انہوں نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیاان سب کوآپ نے قتل کیاہے؟انہوں نے جواب دیاارطاط بن عبدشرجیل اورفلاں فلاں کوتومیں نے ہلاک کیاہے باقی مشرکوں کے قاتل مجھے نظرنہیں آئے،یہ سن کرحارث رضی اللہ عنہ پکاراٹھے اللہ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح فرمایاتھا۔[75]

اطمینان بخش غنودگی :

اس نازک ترین وقت کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ نے غزوہ بدرکی طرح اس غزوہ میں بھی امن وسکون کے لئے بعض صحابہ پراطمینان بخش غنودگی طاری کر دی ،یہ لوگ کھڑے کھڑے اونگنے لگے ،جس سے وہ ان کے دلوں سے کافروں کاخوف وہراس ، دہشت اورگھبراہٹ یکلخت دورہوگئی،البتہ منافقین کے گروہ کوسخت اضطراب تھااورصرف اپنی جان بچانے کی فکردامن گیرتھی ان کواونگھ نہ آئی۔

عَنْ أَبِی طَلْحَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كُنْتُ فِیمَنْ تَغَشَّاهُ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ حَتَّى سَقَطَ سَیْفِی مِنْ یَدِی مِرَارًا یَسْقُطُ وَآخُذُهُ وَیَسْقُطُ فَآخُذُهُ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں ان لوگوں میں شامل تھاجنہیں غزوہ احدکے موقع پراونگھ نے آگھیراتھااوراسی حالت میں میری تلوارکئی مرتبہ (ہاتھ سے چھوٹ کےبے اختیار) گرپڑتی تھی ،میں اسے اٹھالیتا،پھرگرجاتی اورمیں اسے پھراٹھالیتا۔[76]

عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِی طَلْحَةَ، قَالَ: رَفَعْتُ رَأْسِی یَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ، وَمَا مِنْهُمْ یَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلاَّ یَمِیدُ تَحْتَ حَجَفَتِهِ مِنَ النُّعَاسِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ بَعْدِ الغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا}.

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے غزوہ احد دن سراٹھایاتوکیادیکھتاہوں کہ ہرشخص کاسراونگھ کے سبب جھکاجاتاتھا،پس یہی مرادہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا،ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ بَعْدِ الغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا۔ [77]

کیمپ کی طرف واپسی :

مشرکین کی ہرممکن کوشش تھی کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کوگھیرے میں لے کرہمیشہ کے لیےان کاصفایاکردیں اوربعدمیں سکھ چین کی بانسری بجائیں ، مشرکین کی یہ چال بھانپ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کیمپ کی طرف ہٹناشروع کردیاتاکہ مشرکین اپنے مقصدبدمیں کامیاب نہ ہو سکیں ،مشرکین نے مسلمانوں کوواپس کیمپ میں جانے سے روکنے کے لئے تابڑتوڑ حملے کیے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پیچھے ہوئے توابوعامرفاسق کے کھودے ہوئے ایک گڑھے میں گرپڑے، اورآپ کے گھٹنے میں موچ اورخراشیں آگئیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے باہرنکالنے کے لئے زخموں سے چورچور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اندرکودگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آغوش میں لے لیا،اوپرسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے آپ کاہاتھ تھامااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھڑے سے باہرنکل آئے۔ اسی دوران مشرکین میں سے ایک شہسوارعثمان بن عبداللہ بن مغیرہ یہ نعرہ لگا کرکہ یا تو رہے گایامیں رہوں گا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کانعرہ سنااوراس کامقابلہ کرنے کے لئے ٹھہرگئے ،مگراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کی مہلت ہی نہ دی ،اس کاگھوڑاایک گڑھے میں گرپڑااور حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پاؤں پراس زورکی تلوارچلائی کہ اس کے پاؤں کٹ گئے، اورپھراسے اس گڑھے ہی میں ٹھنڈاکرکے اس کے ہتھیاروں پرقبضہ کرلیا ،اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگے،اتنے میں مشرکین کے ایک اورسوارعبداللہ بن جابرنے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیااوران کے کندھے پرتلوارچلاکرانہیں شدیدزخمی کردیا،جب وہ نیچے گرے تومسلمانوں نے انہیں لپک کراٹھالیا،مگر عبداللہ بن جابربھی جانے میں کامیاب نہ ہو سکا ، سرخ موت کی پٹی باندھے ابودجانہ رضی اللہ عنہ اس پرٹوٹ پڑے اوراپنی تلوارسے اس کا سر گردن سے جدا کردیا ۔ اس طرح مٹھی بھرمجاہدین کایہ دستہ گھاٹی میں اپنے کیمپ تک جانے میں کامیاب ہوگیا،پھرباقی ماندہ مجاہدین بھی اسی راستہ سے کیمپ تک پہنچ گئے۔

ابی بن خلف کاقتل:

فَلَمَّا أُسْنِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الشِّعْبِ أَدْرَكَهُ أُبَیُّ ابْن خَلَفٍ وَهُوَ یَقُولُ: أَیْ مُحَمَّدُ، لَا نَجَوْتُ إنْ نَجَوْتَ،فَقَالَ الْقَوْمُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیَعْطِفُ عَلَیْهِ رَجُلٌ مِنَّا؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُ، فَلَمَّا دَنَا،تَنَاوَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْحَرْبَةَ مِنْ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ،قَتَلَنِی وَاَللَّهِ مُحَمَّدٌ!

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھاٹی میں تشریف لاچکے توابی بن خلف جس نے خوداورزرہ پہن رکھی تھی گھوڑے پرسوارہوکرجوش غضب سے مغلوب ہوکریہ کہتاہواگھاٹی کی طرف آیا کہ آج یاتووہ زندہ رہے گایاپھرمیں یعنی ہم دونوں میں سے ایک زندہ بچے گا،اس کایہ خبیث کلمہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم جاکراس کامقابلہ کریں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے میرے سامنے آنے دو،جب وہ بہت قریب پہنچ گیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث رضی اللہ عنہ بن صمہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اسے جھٹکا دیا جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ادھرادھرہوگئے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر ابی بن خلف کے مقابل پہنچے اوراسے بغوردیکھا،اس کی خوداورزرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھلی دکھائی دی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پرایساتاک کرنیزہ ماراکہ وہ اپنے گھوڑے سے گرپڑا، جس سے اس کومعمولی چوٹیں آئیں ، اسی حالت میں وہ واپس بھاگ کرقریش کے پاس پہنچا، اور کہنے لگاواللہ محمدنے مجھے قتل کردیا،انہوں نے اسے دلاسادیاکہ ایسی کوئی بات نہیں ، تمہیں معمولی چوٹوں کے علاوہ کوئی خاص چوٹ نہیں آئی بس صرف تم حوصلہ ہاررہے ہو،ابی بن خلف کہنے لگاوہ مکہ میں مجھے کہہ چکاتھاکہ میں تمہیں قتل کروں گا۔

یہ واقعہ یوں

یَلْقَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكّةَ فَیَقُولُ یَا مُحَمّدُ إنّ عِنْدِی الْعَوْذَ فَرَسًا أَعْلِفُهُ كُلّ یَوْمٍ فَرَقًا مِنْ ذرةٍ أَقْتُلُك عَلَیْهِ ،فَیَقُولُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا أَقْتُلُك إنْ شَاءَ اللهُ،فو الله لَوْ بَصَقَ عَلَیَّ لَقَتَلَنِی

مکہ مکرمہ میں جب اس کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی تووہ بڑی نفرت سے کہتاتھااے محمد!میرے پاس عودنامی گھوڑاہے، جسے میں روزانہ تین صاع دانہ کھلاتاہوں ،اسی گھوڑے پربیٹھ کرمیں تمہیں قتل کروں گا،اس جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا،اس لئے اگروہ مجھ پرتھوک بھی دیتاتوبھی میری جان چلی جاتی بالآخرجب مکی لشکرمقام سرف یابطن رابغ پر پہنچا تو وہاں یہ جہنم رسیدہوا۔[78]

فَجَعَلَ یَخُورُ كَمَا یَخُورُ الثّوْرُ. وَیَقُولُ لَهُ أَصْحَابُهُ: واللّات وَالْعُزّى، لَوْ كَانَ الّذِی بِی بِأَهْلِ ذِی الْمَجَازِ لَمَاتُوا أَجْمَعُونَ!

اس کے ساتھی اس کواٹھاکرلے جانے لگے تویہ بیل کی طرح اونچی اونچی آوازیں نکالتاتھا،اورکہتاتھالات وعزیٰ کی قسم!اس خراش سے جوتکلیف مجھے ہورہی ہے اگروہ ذی المجازکے سارے باشندوں کو ہوتی توسب کے سب مر جاتے۔[79]

قَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنِّی لَأَسِیرُ بِبَطْنِ رَابِغٍ بَعْدَ هَوِیٍّ مِنَ اللیْلِ، إِذَا نَارٌ تَأَجَّجُ لِی فَیَمَّمْتُهَا، وَإِذَا رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنْهَا فِی سِلْسِلَةٍ یَجْتَذِبُهَا یَصِیحُ الْعَطَشَ، وَإِذَا رَجُلٌ یَقُولُ: لَا تَسْقِهِ هَذَا قَتِیلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، هَذَا أبی بن خلف

ایک روایت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رات کے ایک حصہ میں میں وادی رابغ میں جارہاتھاکہ مجھے ایک آگ نظرآئی، میں ادھرگیاتودیکھاکہ ایک آدمی ایک زنجیر گھسیٹتاہوااس میں سے نکل رہاہے اورپیاس پیاس چیخ رہاہے، اورایک اورآدمی بھی نظر آیا جوکہہ رہاتھاکہ اسے پانی نہ پلانااسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیاہے، یہ ابی بن خلف ہے۔[80]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن خلف کوقتل کرنے سے پہلے یابعدکسی کوقتل نہیں کیا۔

آخری حملہ:

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں اپنے مرکزپرپہنچ گئے تومشرکین کاایک دستہ ابوسفیان اورخالدبن ولیدکی قیادت میں وہاں چڑھ دوڑا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں دعافرمائی

اللهمّ إنَّهُ لَا یَنْبَغِی لَهُمْ أَنْ یَعْلُونَا!فَقَاتَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَرَهْطٌ مَعَهُ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ حَتَّى أَهْبَطُوهُمْ مِنْ الْجَبَلِ

اے اللہ !یہ ہم سے اوپرنہ جانے پائیں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ اورمہاجرین کی ایک جماعت نے انہیں لڑکرپہاڑسے نیچے اتاردیا۔[81]

ایک روایت ہے

أَنَّ الْمُشْرِكِینَ صَعِدُوا عَلَى الْجَبَلِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لسعد اجْنُبْهُمْ یَقُولُ: ارْدُدْهُمْ، فَقَالَ: كَیْفَ أَجْنُبُهُمْ وَحْدِی؟ فَقَالَ: ذَلِكَ ثَلَاثًا، فَأَخَذَ سعد سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، فَرَمَى بِهِ رَجُلًا فَقَتَلَهُ، قَالَ: ثُمَّ أَخَذْتُ سَهْمِی أَعْرِفُهُ، فَرَمَیْتُ بِهِ آخَرَ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ أَخَذْتُهُ أَعْرِفُهُ، فَرَمَیْتُ بِهِ آخَرَ فَقَتَلْتُهُ، فَهَبَطُوا مِنْ مَكَانِهِمْ، فَقُلْتُ: هَذَا سَهْمٌ مُبَارَكٌ، فَجَعَلْتُهُ فِی كِنَانَتِی، فَكَانَ عِنْدَ سعد حَتَّى مَاتَ، ثُمَّ كَانَ عِنْدَ بَنِیهِ

جب مشرکین پہاڑپرچڑھ آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایاان کے حوصلے پست کرویعنی انہیں پیچھے دھکیل دو،انہوں نے عرض کیامیں تنہاان کے حوصلے کیسے پست کروں ؟اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باریہی بات دہرائی،بالآخر سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے ایک تیرنکالااورایک شخص پرچلایاجس سے وہ ڈھیرہوگیا، سعد رضی اللہ عنہ نے وہ تیرپھرلیااوراسے ایک دوسرے شخص پرچلایاجس سے اس کابھی کام تمام ہوگیا،اب اسی تیرکولیکرتیسرے شخص پرچلایاوہ بھی نشانے پرلگااوراس نے دم توڑدیا،اپنے تین ساتھیوں کی موت کے بعد مشرکین پہاڑسے نیچے اترگئے،سعد رضی اللہ عنہ نے کہایہ مبارک تیرہے اوراسے ترکش میں رکھ لیا،یہ تیرزندگی بھران کے ساتھ رہا،اورپھران کی اولاد کے پاس رہا۔[82]

زخموں کاعلاج :

فَلَمَّا انْتَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى فَمِ الشِّعْبِ خَرَجَ عَلِیُّ ابْن أَبِی طَالِبٍ، حَتَّى مَلَأَ دَرَقَتَهُ مَاءً مِنْ الْمِهْرَاسِ ، فَجَاءَ بِهِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَشْرَبَ مِنْهُ، فَوَجَدَ لَهُ رِیحًا، فَعَافَهُ ، فَلَمْ یَشْرَبْ مِنْهُ ، وَغَسَلَ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَهُوَ یَقُولُ: اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى مَنْ دَمَّى وَجْهَ نَبِیِّهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑکی گھاٹی پرتشریف لائے توسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے پینے کے لئے پانی بھرکرحاضرکیا،مگربدبوکے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش نہ کیا،اوراپنے چہرے اورسرسے خون کودھویااورفرمایااس شخص پرسخت غضب الٰہی نازل ہوگاجس نے اپنے نبی کے چہرے کوخوب آلودہ کیا۔[83]

كَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا وَجْهَ نَبِیِّهِمْ

ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی چہرے کوخون آلودہ کردیا۔[84]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَحْكِی نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَاءِ ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، وَهُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَیَقُولُ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّهُمْ لاَ یَعْلَمُونَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ مروی ہے جیسےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ رہاہوں نبیوں میں سے ایک نبی حکایة بیان کررہا تھاکہ جب قوم نے انہیں زخموں سے لہولہان کردیا تو وہ اپنے چہرے مبارک سے خون صاف کرتے ہوئے فرمارہے تھے اے اللہ!انہیں معاف فرمادے یہ لوگ نہیں جانتے۔[85]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورزخمی صحابہ رضی اللہ عنہم گھاٹی میں پہنچ گئے

خَرَج النّسَاء إلى الصّحَابَةِ یُعِنْهُمْ, فَكَانَتْ فَاطِمَةُ فِیمَنْ خَرَجَ، فلمَّالَقِیت النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اعْتَنَقَتْهُ, وَجَعَلَتْ تَغْسِل جِرَاحَاتُهُ بِالْمَاءِفَیَزْدَادالدّمُ ، فَلَمَّا رَأَت ذَلِكَ أَخَذَتْ شیئًامِنْ حَصِیرُ أَحْرَقْتَهُ بِالنَّارِ وكمَّدته به حَتَّى لَصَق بِالْجُرْحِ فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ

توعورتیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی مرہم پٹی لئے نکلیں ، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کاسن کر باہرنکلیں اورآکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئیں اور آپ کے زخم دھونے لگیں مگراس سے خون کااخراج کچھ زیادہ ہی ہوگیا،یہ دیکھ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کھجورکے بورے کاٹکڑالیااوراسے جلاکراس کی راکھ سے زخموں کوبھردیا جس سے خون بہنابند ہو گیا ۔[86]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کی صورت حال کا معائنہ کرنے کے لئے گھاٹی کے اوپرٹیلے پر چڑھنا چاہا

وقد كان بُدْنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وظاهر بین درعین، فَلَمَّا ذَهَبَ لِیَنْهَضَ لَمْ یَسْتَطِعْ ، فَجَلَسَ تَحْتَهُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ، فَنَهَضَ بِهِ، حَتَّى اسْتَوَى عَلَیْهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَوْجَبَ طَلْحَةُ حِینَ صَنَعَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ

مگر خون بہنے سے شدید کمزوری،بھاری بدن اوراوپرتلے پہنی ہوئی دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے اوپرنہ چڑھ سکے اوررک گئے،یہ دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسوارکرکے کھڑے ہوگئے اس طرح آپ چٹان پرپہنچ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطلحہ نے (جنت) واجب کرلی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خدمت انجام دی۔[87]

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَطِشَ یَوْمَئِذٍ عَطَشًا شَدِیدًا، ذَهَبَ مُحَمّدٌ إلَى قَنَاةٍ وَأَخَذَ سِقَاءَهُ حَتّى اسْتَقَى مِنْ حِسْیٍ قَنَاةٍ عِنْدَ قُصُورِ التّیْمِیّینَ الْیَوْمَفَأَتَى بِمَاءٍ عَذْبٍ فَشَرِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لِمُحَمّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ بِخَیْرٍ

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشدید پیاس محسوس ہوئی، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ تلاش کرتے ہوئے پانی تک پہنچے، اوروہاں سے میٹھاپانی لے آئے، آپ نے پانی نوش فرمایا اور انہیں دعائے خیردی ۔[88]

أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ فیمن خرج مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَلَمَّا رَأَیْتُ مَثْلَ الْمُشْرِكِینَ بِقَتْلَى الْمُسْلِمِینَ قُمْتُ فَتَجَاوَزْتُ، فَإِذَا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ جِمْعُ اللأْمَةِ یَحُوزُ الْمُسْلِمِینَ، وَهُوَ یَقُولُ: اسْتَوْسِقُوا كَمَا اسْتَوْسَقَتْ جَزَرُ الْغَنَمِ،

کعب رضی اللہ عنہ بن مالک فرماتے ہیں میں ان مسلمانوں میں سے تھاجوگھاٹی سے باہرآئے تھے میں نے دیکھاکہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداکامثلہ کیاجارہاہے ،یہ دیکھ کرمیں رک گیا،پھرآگے بڑھاتوکیادیکھتاہوں کہ مشرک جو بھاری بھرکم زرہ میں ملبوس تھاشہدوں کے درمیان سے گزررہاہے، اوریہ کہتاہواجارہاہے کہ کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیرہوگئے،

قَالَ وَإِذَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَنْتَظِرُهُ وَعَلَیْهِ لَأْمَتُهُ،فَمَضَیْتُ حَتَّى كُنْتُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قُمْتُ أَقْدُرُ الْمُسْلِمَ وَالْكَافِرَ بِبَصَرِی فَإِذَا الْكَافِرُ أَفْضَلُهُمَا عُدَّةً وَهَیْئَةً،قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُهُمَا حَتَّى الْتَقَیَا فَضَرَبَ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ ضَرْبَةً بِالسَّیْفِ فَبَلَغَتْ وَرِكَهُ وَتَفَرَّقَ فوقتین (فِرْقَتَیْنِ)ثُمَّ كَشَفَ الْمُسْلِمُ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ: كَیْفَ تَرَى یَا كَعْبُ؟ أَنَا أَبُو دُجَانَةَ

اورایک مسلمان زرہ پہنے ہوئےاس کی راہ تک رہاہے،میں چندقدم اورآگے بڑھ کراس پیچھے چل پڑا،اورکھڑے ہوکرآنکھوں ہی آنکھوں میں مسلمان اورکافرکوتولنے لگا،میں نے محسوس کیاکہ کافراپنے ڈیل ڈول اورسازوسامان دونوں لحاظ سے مسلمان سےبہترہے، میں دونوں کے ٹکرانےکاانتظارکرنے لگا،بالآخردونوں آپس میں ٹکراگئے اورمسلمان نے کافر کوایسی زوردارتلوارماری کہ وہ پاؤں تک کاٹتی چلی گئی اورمشرک دوٹکڑے ہوکرگرپڑا،پھرمسلمان نے اپناچہراکھولااورکہااے کعب رضی اللہ عنہ !کیسی رہی ؟میں ابودجانہ ہوں ۔[89]

شہداکامثلہ:

دورجاہلیت میں عام رواج تھاکہ جب اس کااپنے دشمن سے غیظ وغضب حدسے تجاوزکرجاتاتووہ انتقام کی آگ کوٹھنڈا کے لئے جودشمن قبضہ میں آتااس کامثلہ کردیتے تھے ، چنانچہ اپنی تاریخ کودوہراتے ہوئے کچھ مشرکین مرداورعورتیں شہداء کے مثلہ میں مشغول ہوگئے،

وَكَانَ عَاصِم قَتَلَهُمَا یَوْمَ أُحُدٍ وَكَانَتْ نَذَرَتْ لَئِنْ قَدَرَتْ عَلَى رَأْسِ عَاصِمٍ لَتَشْرَبَنَّ الْخَمْرَ ُ

عاصم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سلافہ کے دوبیٹے قتل ہوئے تواس نے منت مانی تھی کہ وہ عاصم رضی اللہ عنہ کی کھوپڑی میں شراب پئے گی ۔[90]

ایک روایت ہے

هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ وَالنِّسْوَةُ اللاتِی مَعَهَا، یُمَثِّلْنَ بِالْقَتْلَى مِنْ أَصْحَابِ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یجدّ عَن الْآذَانَ وَالْأُنُفَ، حَتَّى اتَّخَذَتْ هِنْدُ مِنْ آذَانِ الرِّجَالِ وَآنُفِهِمْ خَدَمًا وَقَلَائِدَ ،وَأَعْطَتْ خَدَمَهَا وَقَلَائِدَهَا وَقِرَطَتَهَا وَحْشِیًّا، غُلَامَ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَبَقَرَتْ عَنْ كَبِدِ حَمْزَةَ، فَلَاكَتْهَا ، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تُسِیغَهَا ، فَلَفَظَتْهَا

ہندبنت عتبہ اورعورتوں کوساتھ لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لاشوں  پاس آئی اوران کے ناک کان کاٹنے شروع کیے،یہاں تک کہ ہندہ نے ان کے ہار بنا کر اپنے گلے میں پہنے اور اپنا سارازیوراتارکرجبیربن مطعم کے غلام وحشی کوحمزہ رضی اللہ عنہ کے شہیدکرنے کے انعام میں دیا،اور سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کاجگرمبارک کونکال کراس نے اپنے منہ میں ڈال کرچبایااورنگلناچاہا،لیکن نگل نہ سکی توتھوک دیا[91]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش کامثلہ کرنے کی سختی سے ممانعت فرمائی ۔

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَا أَصَابَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الجِرَاحِ یَوْمَ أُحُدٍ عن سہل ۴۰۷۵

[2] ابن ہشام۷۹؍۲،الروض الانف۳۲۷؍۵،عیون الآثر ۲۰؍۲،البدایة والنہایة۲۶؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۴؍۳

[3] المعجم الکبیر للطبرانی ۷۵۹۶،فتح الباری ۳۶۶؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۶؍۲

[4]فتح الباری ۳۷۲؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۷؍۲

[5] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۶۴۶، مسنداحمد۳۶۱۱

[6] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ عن انس ۴۶۴۵،مسنداحمد۱۳۶۵۷،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۲

[7] آل عمران ۱۲۸

[8] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۶۰،۴۰۶۱ ،صحیح مسلم کتاب الجہادبَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۲۴۲

[9] دلائل النبوة للبیہقی۲۳۴؍۳،ابن ہشام ۸۱؍۲،الروض الانف ۳۳۰؍۵،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۰۳؍۴،مغازی واقدی۲۴۱؍۱،تاریخ الخمیس۴۳۲؍۱

[10] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۵۵

[11] شرح الزرقانی علی المواھب۴۳۱؍۲

[12] مسنداحمد۷۰۹

[13] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ ۴۰۵۹ ،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۶۲۳۳، مسند احمد ۱۰۱۷

[14] ابن ہشام۸۲؍۲

[15] ابن سعد۳۸۳؍۳

[16] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۶۲۳۷، المعجم الکبیرللطبرانی۳۱۵

[17] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۶۴

[18] مسنداحمد۱۲۰۹۵،معجم الصحابة للبغوی۴۵۲؍۲،معرفة الصحابة لابی نعیم۱۱۴۷؍۳

[19] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ ۴۰۶۴،البدایة والنہایة۳۱؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۵۳؍۳

[20] حیاة الصحابة۱۶۲؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۰۵؍۲۵،كمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۷۶؍۷

[21]سنن نسائی کتاب الجہادباب مَا یَقُولُ مَنْ یَطْعَنُهُ الْعَدُوّ۳۱۵۱

[22] فتح الباری۳۶۰؍۷

[23] سنن نسائی کتاب الجہادباب مایقول من یطعنہ العدو ۳۱۵۴،زرقانی۴۲۵؍۲،المعجم الکبیر للطبرانی ۲۱۴،۱۱۶؍۱، فتح الباری ۴۰۶۳، ۳۶۱؍۷

[24] ابن ہشام۸۰؍۲

جُرِحَ یَوْمَ أُحُدٍ تِسْعًا وَثَلَاثِینَ أَوْ خَمْسًا وَثَلَاثِینَ وَشُلَّتْ إِصْبَعُهُ أَیِ السَّبَّابَةُ وَالَّتِی تَلِیهَا

[25] فتح الباری ۳۶۱؍۷

[26] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ ۴۰۶۳

[27] اسدالغابة۸۴؍۳،میزان الاعتدال۱۹۷؍۲

[28] میزان الاعتدال۱۹۷؍۲

[29] تاریخ دمشق لابن عساکر۱۰۶؍۲۵

[30] فتح الباری۳۶۱؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۲۵؍۲

[31] حیاة الصحابہ۱۶۲؍۲

[32] زادالمعاد۱۷۶؍۳،غزوات النبی صلى الله علیه وآله وسلم۵۰؍۱

[33] مصنف عبدالرزاق ۹۷۳۵،المعجم الاوسط ۱۱۰۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۳۵؍۲،دلائل النبوة لابی نعیم۴۸۲؍۱،ابن ہشام ۸۳؍۲،الروض الانف ۳۳۳؍۵،عیون الآثر۲۳؍۲،ابن سعد۳۵؍۲،تاریخ طبری۵۱۸؍۲

[34] ابن ہشام ۸۲؍۲،عیون الآثر۲۲؍۲،الروض الانف۳۳۱؍۵،البدایة والنہایة۳۹؍۳، تاریخ طبری۵۱۶؍۲،زادالمعاد۱۷۷؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۳۴؍۳، شرح الزرقانی علی المواھب۴۳۱؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۶۸؍۳

[35] شرح الزرقانی علی المواہب ۴۳۵؍۲، سبل الہدی والرشادفی سیرة خیر العباد ۲۰۷؍۴، إنارة الدجى فی مغازی خیر الورى صلى الله علیه وآله وسلم۲۹۱؍۱

[36] ابن سعد۱۶۲؍۳

[37] زادالمعاد۱۸۳؍۳

[38] ابن سعد ۱۶۲؍۳

[39] ابن سعد۱۶۳؍۳

[40] ابن سعد ۱۶۴؍۳

[41] ۔زادالمعاد۱۸۳؍۳

[42] ابن سعد۱۶۲؍۳

[43] ابن سعد۱۶۲؍۳

[44] ابن ہشام۸۱؍۲،تاریخ طبری ۵۱۵؍۲

[45] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۶۴۱

[46] صحیح ابن حبان ۴۳۸؍۱۵

[47] صحیح ابن حبان ۶۹۹۸

[48] صحیح ابن حبان۷۰۰۱

[49] صحیح ابن حبان۷۰۰۲

[50] زادالمعاد۱۸۸؍۳ ،دلائل النبوة للبیہقی ۲۶۶؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۵۴۶؍۵

[51]السیرة الحلبیة ۳۱۷؍۲

[52] السیرة الحلبیة۳۱۳؍۲،نور الیقین فی سیرة سید المرسلین ۱۲۴؍۱

[53] جوامع السیرة ۱۲۸؍۱، الدرر فی اختصار المغازی والسیر ۱۵۰؍۱

[54] ابن سعد۹۸؍۳

[55]عیون الاثر ۲۷؍۲

[56] المواھب اللدینة۲۹۹؍۲ ، شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۸؍۲،السیرة الحلبیة ۳۴۲؍۲

[57] شرح الزرقانی علی المواھب۴۳۲؍۲،المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۳۵۲، ۱۵۷؍۱۱، البدایة النھایة۱۶۰؍۶، الروض الانف۸؍۶

[58] الدرر فی اختصار المغازی والسیر ۱۴۹؍۱، جوامع السیرة ۱۲۸؍۱

[59] السیرة الحلبیة ۳۱۴؍۲

[60] ابن سعد۳۰۹؍۸

[61] ابن سعد۳۰۹؍۸

[62] ابن سعد۳۰۹؍۸

[63] مغازی واقدی ۲۷۳؍۱، السیرة الحلبیة ۳۱۴؍۲

[64] الاحزاب۳۵

[65] الأحزاب: 35

[66] الأحزاب: 35

[67] مسند احمد ۲۶۵۷۵، السنن الکبری للنسائی۱۱۳۴۱

[68] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ ۴۰۶۴،کتاب مناقب الانصاربَابُ مَنَاقِبِ أَبِی طَلْحَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۱۱ ،وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ غَزْوِ النِّسَاءِ وَقِتَالِهِنَّ مَعَ الرِّجَالِ ۲۸۸۰، صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ غَزْوَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ۴۶۸۳

[69] شرح النووی علی مسلم۱۸۹؍۱۲

[70]۔صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ ذِكْرِ أُمِّ سَلِیطٍ۴۰۷۱، وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ حَمْلِ النِّسَاءِ القِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِی الغَزْوِ عن عمر ۲۸۸۱

[71] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مُدَاوَاةِ النِّسَاءِ الجَرْحَى فِی الغَزْوِ۲۸۸۲، وبَابُ رَدِّ النِّسَاءِ الجَرْحَى وَالقَتْلَى إِلَى المَدِینَةِعن ربیع ۳۸۸۳

[72] السیرة الحلبیة۳۰۹؍۲

[73] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۵۴،وكِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ الثِّیَابِ البِیضِ۵۸۲۶،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی قِتَالِ جِبْرِیلَ وَمِیكَائِیلَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ۶۰۰۴، مسنداحمد۱۴۶۸، زادالمعاد۱۸۲؍۳،البدایة والنہایة ۲۸؍۴

[74] زادالمعاد۱۸۸؍۳،البدایة والنہایة۳۴؍۴،مغازی واقدی۲۳۸؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۲۶۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۹؍۳

[75] معرفة الصحابہ لابی نعیم۷۷۱؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۲۵۶؍۳۵،الخصائص الكبرى۳۵۵؍۱، السیرة الحلبیة = إنسان العیون فی سیرة الأمین المأمون۳۴۳؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب ۴۵۹؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۲۰۵؍۴، معجم الصحابة لابن قانع۱۷۹؍۱

[76] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ بَعْدِ الغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا یَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاللهِ غَیْرَ الحَقِّ ظَنَّ الجَاهِلِیَّةِ عن انس وابی طلحہ ۴۰۶۸، وکتاب التفسیر سورہ آل عمران بَابُ قَوْلِهِ أَمَنَةً نُعَاسًا۴۵۶۲، صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ غَزْوَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ۶۴۸۳

[77] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۷

[78] ابن ہشام ۸۴؍۲،تاریخ طبری۵۱۹؍۲، البدایة والنھایة ۳۵؍۴،الروض الانف ۶؍۶،عیون الآثر۲۴؍۲، زادالمعاد۱۷۸؍۳

[79] زادالمعاد۱۷۸؍۳،مغازی واقدی ۲۵۲؍۱

[80] زادالمعاد۱۸۸؍۳

[81] ابن ہشام۸۶؍۲،دلائل النبوة للبیہقی ۲۳۷؍۳، الروض الانف ۹؍۶، عیون الآثر۲۴؍۲،تاریخ طبری ۵۲۱؍۲،البدایة والنہایة۴۰؍۴

[82] زادالمعاد۱۸۴؍۳

[83] ابن ہشام۸۵؍۲،الروض الانف۷؍۶،عیون الآثر۲۴؍۲،تاریخ الخمیس ۴۳۷؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۷۰؍۳، السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان۲۲۶؍۱

[84] السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان ۲۲۳؍۱،مغازی واقدی۲۰۴؍۱

[85] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الغَارِ ۳۴۷۷، فتح الباری۳۴۷۷

[86] شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۶؍۲،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَا أَصَابَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الجِرَاحِ یَوْمَ أُحُدٍ ۴۰۷۵، وکتاب الوضوبَابُ غَسْلِ المَرْأَةِ أَبَاهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ۲۴۳، وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ المِجَنِّ وَمَنْ یَتَّرِسُ بِتُرْسِ صَاحِبِهِ ۲۹۰۳،وبَابُ لُبْسِ البَیْضَةِ۲۹۱۱، صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍعن سہل ۴۶۴۲

[87] ابن ہشام۸۶؍۲،تاریخ طبری ۵۲۲؍۲،البدایة النھایة۴۱۴؍۵، عیون الاثر۲۴؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۷۱؍۳،شرح زرقانی علی المواھب ۴۳۶؍۲

[88] مغازی واقدی۲۵۰؍۱

[89]البدایة والنہایة۱۹؍۴،مغازی واقدی۲۶۰؍۱،حیاة الصحابہ۱۷۵؍۲

[90] ابن ہشام ۷۴؍۲، الروض الانف ۳۱۹؍۵،عیون الآثر۶۰؍۲،ابن سعد۴۳؍۲،تاریخ طبری ۵۳۹؍۲،مغازی واقدی ۲۲۸؍۱،فتح الباری ۳۸۴؍۷،تاریخ ابن خلدون۴۳۸؍۲

[91] ابن ہشام۹۱؍۲،البدایة والنھایة۳۷؍۴

Related Articles