ہجرت نبوی کا تیسرا سال

نزول سورۂ آل عمران181 تا 200

لَّقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِیرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ ‎﴿١٨١﴾‏ ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ ‎﴿١٨٢﴾(آل عمران)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گےاور ان کا انبیاء کو بلاوجہ قتل کرنا بھی ، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو !یہ تمہارے پیش کردہ اعمال کا بدلہ ہےاور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔

جب بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوجہادفی سبیل اللہ یاقرض حسنہ کے طورپر یتیموں ،مسکینوں ، محتاجوں ، بیواؤں ، مسافروں ، قیدیوں پر خرچ کرنے کی ترغیب فرماتا تویہودی جو خود کواہل کتاب کہتے تھے ،جن کادعوی ٰ تھاکہ وہ اللہ کے بہت قریب ہیں ، اوراللہ نے ان کے ہرگناہ کومعاف فرمارکھاہے ،اس لئے وہ جہنم میں ہرگزداخل نہیں ہوں گے ، مگران کی حالت یہ تھی کہ وہ دنیاوی مال ودولت پاکرحدسے گزرچکے تھے،اس مال کوپانے کے لئے اللہ کی کتاب میں تحریف کرناان کاشیوہ تھا ،اور منافقین جنہیں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی عظیم نعمت کااحساس ہی نہیں تھا،وہ آخرت کی بے انتہااورکبھی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کوچھوڑکربس دنیاوی چندروزہ جاہ ومنصب کے فراق میں مرے جارہے تھےکب خاموش رہے سکتے تھے،یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھوں میں ہرطرح کے خزانوں کی کنجیاں ہیں ، اوروہ ان خزانوں کواپنے ہاتھوں سے اپنی مخلوق میں ہروقت بانٹتاہی رہتاہے،کے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے نازیباکلمات کہتے کہ جی ہاں اللہ میاں مفلس ہوگئے ہیں ، اوراب وہ بندوں سے قرض مانگ رہے ہیں ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کواللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اورفرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۔۔۔۝۰۝۲۴۵ [1]

ترجمہ:تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ ۔

۔۔۔وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ۝۱۸ [2]

ترجمہ:اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسن دیا ہے ان کو یقیناً کئی گناہ بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اَجر ہے ۔

تو یہودیوں نےاس کامذاق اڑاتے ہوئے کہا

یَا مُحَمَّدُ، افتَقَرَ رَبُّكَ. یَسأل عِبَادَهُ الْقَرْضَ؟

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کیاتیرارب فقیرہوگیاہے جواپنے بندوں سے قرض مانگ رہاہے۔

اس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

 لَقَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَاۗءُ۝۰ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْۢبِیَاۗءَ بِغَیْرِ حَقٍّ۝۰ۙ وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۱۸۱ نازل فرمائی۔[3]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ بَیْتَ الْمدارِسِ فَوَجَدَ مِنْ یَهُودَ أُنَاسًا كَثِیرًا قَدِ اجْتَمَعُوا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ: فَنْحَاصُ وَكَانَ مِنْ عُلَمَائِهِمْ وَأَحْبَارِهِمْ وَمَعَهُ حَبْرٌ یُقَالُ لَهُ أُشْیَعُ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: وَیْحَكَ یَا فَنْحَاصُ، اتَّقِ اللَّهَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِهِ تَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَكُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِیلِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہےسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ یہودیوں  مدرسے میں گئے،یہاں کامعلم فِنْحَاص بن عازوراء تھااوراس کے ماتحت ایک بہت بڑاعالم اشیع تھا،لوگوں کامجمع تھااوروہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایااےفِنْحَاصاللہ سے ڈراورمسلمان ہوجا،اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ،وہ تمہارے پاس حق لے کر آئے ہیں ، ان کی صفات توراة وانجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجودہیں ،

فَقَالَ فَنْحَاصُ: وَاللَّهِ یَا أَبَا بَكْرٍ مَا بِنَا إِلَى اللَّهِ مِنْ فَقْرٍ وَإِنَّهُ إِلَیْنَا لَفَقِیرٌ، وَمَا نَتَضَرَّعُ إِلَیْهِ كَمَا یَتَضَرَّعُ إِلَیْنَا، وَإِنَّا عَنْهُ لَأَغْنِیَاءُ، وَلَوْ كَانَ عَنَّا غَنِیًّا مَا اسْتَقْرَضَ مِنَّا كَمَا یَزْعُمُ صَاحِبُكُمْ، یَنْهَاكُمْ عَنِ الرِّبَا وَیُعْطِیَنَا، وَلَوْ كَانَ غَنِیًّا عَنَّا مَا أَعْطَانَا الرِّبَا، فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ، فَضَرَبَ وَجْهَ فَنْحَاصَ ضَرْبًا شَدِیدًا وَقَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْلَا الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مِنَ الْعَهْدِ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ یَا عَدُوَّ اللَّهِ. فَأَكْذِبُونَا مَا اسْتَطَعْتُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ. فَذَهَبَ فَنْحَاصُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَبْصِرْ مَا صَنَعَ بِی صَاحُبُكَ.

فِنْحَاص نے جواب میں کہا اے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سن اللہ کی قسم!اللہ ہمارامحتاج ہے ہم اس محتاج نہیں ،اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتاہے، بلکہ ہم تواس سے بے پرواہ ہیں ہم غنی اورتونگرہیں ،اگروہ غنی ہوتاتوہم سے قرض طلب نہ کرتا،جیسے کہ تمہارا پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ رہاہے،ہمیں توسودسے روکتاہے اورخودسوددیتاہے،اگرغنی ہوتاتوہمیں سودکیوں دیتا،اس پرسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوسخت غصہ آیااورفِنْحَاصکے منہ پرزورسے مارا اور فرمایااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگرتم یہودسے معاہدہ نہ ہوتاتومیں تجھ اللہ کے دشمن کاسرکاٹ دیتا،جاؤ،اپنی حسب توفیق جھٹلاتے ہی رہواگرسچے ہو، فِنْحَاص نے جاکراس واقعہ کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی،اورکہادیکھیں آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ کیاکیاہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی بَكْرٍ:مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ قَالَ قَوْلًا عَظِیمًا، یَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ فَقِیرٌ وَأَنَّهُمْ عَنْهُ أَغْنِیَاءُ، فَلَمَّا قَالَ ذَاكَ غَضِبْتُ لِلَّهِ مِمَّا قَالَ، فَضَرَبْتُ وَجْهَهُ، فَجَحَدَ ذَلِكَ فَنْحَاصُ وَقَالَ: مَا قُلْتُ ذَلِكَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِیمَا قَالَ فَنْحَاصُ رَدًّا عَلَیْهِ وَتَصْدِیقًا لِأَبِی بَكْرٍ: {لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِیرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَاءُ} [4]الْآیَةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ اسے کیوں مارا؟سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس اللہ کے دشمن نے بڑی غلط بات کی ہے،یہ اپنے زعم میں کہتاہے کہ اللہ فقیرہے اورہم توغنی ہیں ،جب اس نے یہ کہاتومجھے بہت شدیدغصہ ہوااورمیں نے فِنْحَاص کے منہ پرتھپڑماردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفِنْحَاصسے کہاتم اس بارے میں کیاکہتے ہو،مگرفِنْحَاص اپنے قول سے مُکر گیاکہ میں نے توایساکہاہی نہیں ،اسی وقت اللہ تعالیٰ نے سیدناابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی سچائی اورفِنْحَاص کے مکر وفریب کو جھٹلاتے ہوئے ، یہ آیت ’’یقینااللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کاقول بھی سناجنہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ فقیرہےاورہم تونگرہیں ۔‘‘نازل فرمائی [5]

جس میں فرمایااللہ نے ان لوگوں کابدترین اورقبیح ترین قول سنا کہ اللہ فقیرہے اورہم غنی ہیں ،ان کی یہ بدزبانی بھی ہم ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیں گے، اوراس سے پہلے جووہ پیغمبروں کواپنی سرکشی اورعنادکی وجہ سےناحق قتل کرتے رہے ہیں وہ بھی ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہے،اورجب فیصلہ کاوقت آئے گااس وقت ہم ان سے کہیں گے کہ لواب ذلیل ورسواکن عذاب جہنم کامزاچکھو،یہ تمہارے اپنے اعمال کانتیجہ ہے،ورنہ اللہ تواپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے، جیسے فرمایا

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۱۰ۧ [6]

ترجمہ:یہ ہے اس کا نتیجہ جو خود تیرے ہاتھوں نے پہلے سے مہیا کر رکھا تھا ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَیْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ یَأْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِی بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالَّذِی قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٨٣﴾‏ فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِیرِ ‎﴿١٨٤﴾‏ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ‎﴿١٨٥﴾‏(آل عمران)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے، آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو مجھ سے پہلے تمہارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی لائے جسے تم کہہ رہے ہو پھر تم نے انہیں کیوں مار ڈالا ،پھر بھی یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے وہ رسول جھٹلائے گئے جو روشن دلیلیں صحیفے اور منور کتاب لے کر آئے ،ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے ۔

یہود کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے عہدلیاہے کہ ہم کسی کورسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسےآسمان سے آکر آگ کھا لے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی کذب بیانی جواب میں ارشادفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو!اللہ تعالیٰ مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے رسول مبعوث فرمائے جواپنی رسالت کی صداقت و حقانیت میں اپنے ساتھ واضح دلائل اوربراہین لے کرآ ئے تھے، اوروہ معجزہ بھی لائے تھے جس کاتم ذکر کرتے ہو،یعنی نبی کی دعاسے آسمان سے آگ کاآکرصدقات اور قربانیوں کوجلادینا،پھراگردعوت حق قبول کرنے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں تم سچے ہوتوتم ان رسولوں پرایمان کیوں نہ لائے اورانہیں کیوں جھٹلایااورانہیں کیوں ناحق قتل کیا؟ یعنی دعوت حق قبول کرنے کے لئے یہ شرط لگانے میں تم جھوٹے ہو،بلکہ اللہ کے ساتھ کفرکرنااوررسولوں کی تکذیب کرناتمہاراوتیرہ رہاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کوتبلیغ فرماتے مگرانہوں نے دین اسلام قبول نہ کرنے کی گویاقسم کھارکھی تھی ،انہیں اس وعظ ونصیحت سے کچھ فائدہ نہ ہوتادیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملال ہوتے تواللہ تعالیٰ نے تسلی فرمائی، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سےبددل نہ ہوں اگریہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو بہت سے اولوالعزم انبیاء ومرسلین تم سے پہلے جھٹلائے جاچکے ہیں ، جوان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں ،دلائل وبراہین ،آسمان سے نازل صحیفے اوراحکام شرعی کوروشن کرنی والی کتابیں لائے تھے،آخرکارایک وقت مقررہ پرہرشخص کوموت کا ذائقہ چکھناہے ،اورقبرکے دروازے سے داخل ہوناہے جیسے ایک مقام پرفرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [7]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہےاور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

پھراللہ تعالیٰ جب چاہے گاقیامت قائم کرے گااوردنیامیں جس نے اچھایابراجوعمل کیاہوگااللہ تعالیٰ ہرایک کو اس کے اعمال کے مطابق پوراپورااجر دے گا اورکسی پرکوئی ظلم نہیں کیاجائے گا،کامیاب دراصل وہ ہے جودنیامیں اپنے رب کوراضی کرلے ،جس کے نتیجے میں وہ دردناک عذاب جہنم سے بچ جائےاوراللہ اسے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے لبریزجنت میں داخل کردے،ایسی نعمتیں جوکسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اورنہ کسی بشرکے دل میں ان کاتصورگزراہے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الجَنَّةِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیاسے اورجوکچھ دنیامیں ہے سب سے بہترہے۔[8]

رہی یہ دنیاتویہ محض ایک ظاہر فریب چیزہے،جیسے فرمایا

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ [9]

ترجمہ:مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔

وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُهَا۝۰ۚ وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۶۰ۧ [10]

ترجمہ:تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟۔

قَالَ: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا، أَخَا بَنِی فِهْرٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللهِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ – وَأَشَارَ یَحْیَى بِالسَّبَّابَةِ – فِی الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ؟

مستوربن شداد رضی اللہ عنہ جوبنی فہرمیں سے تھےسے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھےاللہ کی قسم ! دنیا آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے کوئی تم میں سے یہ انگلی دریا میں ڈالے ، اوریحییٰ نے کلمہ کی انگلی سے اشارہ کیاپھردیکھے توکتنی تری دریامیں سے لاتاہے(یعنی جتناپانی انگلی میں لگارہتاہے وہ گویادنیاہے اوروہ دریا آخرت ہے ) ۔[11]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ.

اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگردنیااللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مچھر کے پَر کے برابرعزت رکھتی تووہ کفارکوایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ [12]

عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِینَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَیِّتَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِینَ أَلْقَوْهَا، قَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَالدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا.

اورمستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں چندسواروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ تھا،اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جسے راہ میں پھینک دیاگیاتھا، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیاسمجھتے ہویہ اپنے مالک کے نزدیک ذلیل ہے،لوگوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ذلیل ہے جب تواس کوپھینک دیاگیاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !البتہ دنیااللہ کے نزدیک اس بکری سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسایہ اپنے مالکوں کے سامنے ذلیل ہے[13]

عَنْ قَتَادَةَ: وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ : هِیَ مَتَاعٌ مَتْرُوكٌ أَوْشَكَتْ وَاللهِ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ أَنْ تَضْمَحِلَّ عَنْ أَهْلِهَا، فَخُذُوا مِنْ هَذَا الْمَتَاعِ طَاعَةَ اللهِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

امام قتادہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کاارشاد’’اوردنیاکی زندگی توصرف دھو کی جنس ہے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں یہ سامان ہے جسے چھوڑدیاجائے گااس ذات گرامی کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں !قریب ہے کہ یہ دنیا،دنیاوالوں سے روٹھ جائے ،لہذاجس قدرممکن ہودنیاکے اس سامان کواللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کردو،وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ ۔[14]

جوشخص آخرت کوبھول کر اس دنیا کی چکاچوند اورظاہری دل فریبیوں میں الجھ گیاوہ ناکام ونامرادہوا،اس لئے اللہ تعالیٰ سے نیکیوں کی توفیق مانگ کرطاقت بھر نیکیاں جمع کر لیں ، قیامت کے دن یہی زادراہ کام آئے گا۔

لَتُبْلَوُنَّ فِی أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ‎﴿١٨٦﴾‏وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا ۖ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ ‎﴿١٨٧﴾‏ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّیُحِبُّونَ أَن یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٨٨﴾‏ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٨٩﴾‏(آل عمران)
یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی، اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کو بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی ،اور اگر تم صبر کرلو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا، ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے،وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لیے تو دردناک عذاب ہے، آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

آزمائش لازمی ہے اورصبروضبط بھی ضروری ہے:اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کومخاطب کرتے ہوئے آگاہ فرمایاکہ تمہاری مال اورجان دونوں کے ذریعہ آزمائش کی جائے گی تاکہ ان کے نفوس اس قسم کے شدائدبرداشت کرنے کے لئے امادہ ہوں اورجب ان پرسختیاں آن پڑیں توان پرصبرکریں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۔۔۔۝۰۝۱۵۵ۙ [15]

ترجمہ:اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔

أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى قَطِیفَةٍ فَدَكِیَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ وَرَاءَهُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِی بَنِی الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، قَالَ: حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ، فَإِذَا فِی المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِینَ وَالمُشْرِكِینَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالیَهُودِ وَالمُسْلِمِینَ، وَفِی المَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِیَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِمْ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَیْهِمُ القُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَیُّهَا المَرْءُ إِنَّهُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِنَا بِهِ فِی مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَیْهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ فَاغْشَنَا بِهِ فِی مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَالیَهُودُ، حَتَّى كَادُوا یَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَنُوا،

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےمروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پرفدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے بعدسوارہوئے اوراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کواپنے پیچھے بٹھایااوربنوحارث بن خزرج میں سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے، یہ غزوہ بدرسے پہلے کا واقعہ ہے، راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں مسلمان اورمشرکین یعنی بت پرست اوریہودی سب ہی طرح کے لوگ موجودتھے، اس میں (رئیس المنافقین)عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی موجود تھا،اسی مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،سواری کی(ٹاپوں سے گرداڑی اور)مجلس والوں پرپڑی توعبداللہ بن ابی نے چادرسے اپنی ناک بندکرلی اوربطورتحقیرکہنے لگاکہ ہم پرگردنہ اڑاؤ،اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اورانہیں سلام کیا،پھرآپ سواری سے اترگئے اورمجلس والوں کواللہ کی طرف دعوت پیش کی اورقرآن کی چندآیات پڑھ کرسنائیں ،اس پرعبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا جوکلام آپ نے پڑھ کرسنایاہے اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہوسکتا اگرچہ یہ کلام بہت اچھاہے پھربھی ہماری مجلسوں میں آ آ کرآپ ہمیں تکلیف نہ دیاکریں ،اپنے گھربیٹھیں ،اگرکوئی آپ کے پاس جائے تواسے اپنی باتیں سنایاکریں ،(یہ سن کر)عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہاضروراے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہماری مجلسوں میں ضرور تشریف لایاکریں ،ہم آپ کی تشریف آوری کوبہت پسند کرتے ہیں ،اس کے بعدمسلمان ، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کوبرابھلاکہنے لگے ،اورقریب تھاکہ فساداورلڑائی کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموش اورٹھنڈا کردیا اور آخرسب لوگ خاموش ہو گئے،

 ثُمَّ رَكِبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ یُرِیدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَیٍّ قَالَ: كَذَا وَكَذَا ، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ عَنْهُ، فَوَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْكَ الكِتَابَ لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالحَقِّ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْكَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البُحَیْرَةِ عَلَى أَنْ یُتَوِّجُوهُ فَیُعَصِّبُوهُ بِالعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَى اللَّهُ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِی أَعْطَاكَ اللَّهُ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَیْتَ، فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ یَعْفُونَ عَنِ المُشْرِكِینَ، وَأَهْلِ الكِتَابِ، كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَیَصْبِرُونَ عَلَى الأَذَى، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا} [16]الآیَةَ،

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پرسوارہوکروہاں سے چلے آئے اورسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ یہاں تشریف لے گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکرکیااے سعد!تم نے سنا ابوحباب کیاکہہ رہاتھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادعبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں ،سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اسے معاف فرمادیں اوراس سے درگزرکریں ،اس ذات کی قسم جس نے آپ پرکتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجاہے جواس نے آپ پرنازل کیاہے، اس شہر (مدینہ منورہ)کے لوگ اس پرمتفق ہوچکے تھے کہ اس کوتاج پہنادیں اورعمامہ اس کے سرپرباندھ دیں ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جوآپ کواس نے عطا کیاہے ،اس باطل کوروک دیاتواب وہ چڑگیاہے، اوراس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیاجوآپ نے ملاحظہ فرمایا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشرکین اوراہل کتاب سے درگزرکیاکرتے تھے، اوران کی اذیتوں پرصبرکیاکرتے تھے ،اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِیْرًا۝۰۝۱۸۶          [17]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہودونصاریٰ اورمشرکین سے مختلف اندازسے طعن و تشنیع، الزامات، بیہودہ طرزکلام اورتکلیف دہ باتیں سنوگے،اگران سب حالات میں تم عفوودرگزر اور صبر اورپرہیزگاری کی روش پرقائم رہوتویہ بڑے حوصلہ کاکام ہے، عفوو در گزرکایہی حکم اس آیت میں فرمایا

وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا۝۰ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ۝۰۝۱۰۹ [18]

ترجمہ:اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بناء پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے، اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے ۔

یہود و نصاریٰ کو زجر و توبیح کرتے ہوئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان یہود ونصاریٰ کووہ عہدبھی یاد دلاؤجواللہ نے پیغمبروں کی وساطت سے ان سے لیا تھا ،کہ وہ تورات وانجیل کی تعلیمات کولوگوں میں پھیلائیں گے تاکہ لوگوں کے عقائدواعمال کی اصلاح ہوسکے،اور پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی جوصفات اورپیش گوئی ان کتابوں میں درج ہیں انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے، اورانہیں پوشیدہ نہیں رکھیں گے ، مگر انہوں نے دنیاوی اغراض ومفادات کی خاطراپنے عہدکوبالائے طاق رکھ کر کتاب الٰہی کوپس پشت ڈال دیا، اور اسےخسیس ترین معاوضہ پر بیچ ڈالا،کتنابراکاروبارہے جویہ کر رہے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أَلْجَمَهُ اللَّهُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس سے علم کی بات پوچھی گئی اوراس نے اسے چھپالیا (اور بتایا نہیں )تواللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے آگ کی لگام دے گا۔[19]

تم ان لوگوں کوجہنم کے المناک عذاب سے محفوظ نہ سمجھوجواپنے کرتوتوں پرخوش ہیں ، اورچاہتے ہیں کہ ان کے ایسے کاموں کا ڈھنڈوراپیٹا جائے جو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں ،اوراس حق کی وجہ سے ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جائیں کی جائے جوانہوں نے کبھی نہیں بولا،وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں عذاب سے نجات اور سلامتی حاصل ہوگئی ہے،بلکہ وہ توعذاب کے مستحق ہوگئے ہیں ، ان کے لیے دردناک سزاتیارہے جس میں انہیں ڈالاجائے گا،

عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ عَلَى رَجُلٍ نَذْرٌ فِیمَا لَا یَمْلِكُ، وَلَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِیَتَكَثَّرَ بِهَا لَمْ یَزِدْهُ اللهُ إِلَّا قِلَّةً، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینِ صَبْرٍ فَاجِرَةٍ

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی آدمی پر ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے،اور جس نے اپنے آپ کو دنیا میں کسی چیز سے قتل کر ڈالا قیامت دن وہ اسی سے عذاب دیا جائے گا،اور جس نے اپنے مال میں زیادتی کی خاطر جھوٹا دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ اس کا مال اور کم کر دے گا، اور یہی حال اس آدمی کا ہوگا جو حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائے گا۔[20]

عَنْ أَسْمَاءَ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِی ضَرَّةً، فَهَلْ عَلَیَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِی غَیْرَ الَّذِی یُعْطِینِی؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:المُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ یُعْطَ كَلاَبِسِ ثَوْبَیْ زُورٍ

اسماء بنت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتی ہیں ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ایک سوکن ہے، اگر میں اس کے (جلانے کو) اپنے شوہر کی طرف سے جس قدر وہ مجھے دیتا ہے اس سے زیادہ بڑھا کر بتلاؤں تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص تکلف کے ساتھ ایسی چیز کا ظاہر کرے جو اسے دی ہی نہیں گئی تووہ اس طرح ہے جیسے کوئی دوجھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہو۔[21]

أَنَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ قَالَ: اذْهَبْ یَا رَافِعُ، لِبَوَّابِهِ، إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أُوتِیَ، وَأَحَبَّ أَنْ یُحْمَدَ بِمَا لَمْ یَفْعَلْ مُعَذَّبًا، لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَا لَكُمْ وَهَذِهِ؟ إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ فِی أَهْلِ الْكِتَابِ، ثُمَّ تَلا ابْنُ عَبَّاسٍ: {وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ} [22]هَذِهِ الْآیَةَ، وَتَلا ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا} [23]، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَأَلَهُمِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْءٍ فَكَتَمُوهُ إِیَّاهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَیْرِهِ، فَخَرَجُوا قَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدِ أخْبَرُوهُ بِمَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ، وَاسْتَحْمَدُوا بِذَلِكَ إِلَیْهِ، وَفَرِحُوا بِمَا أَتَوْا مِنْ كِتْمَانِهِمْ إِیَّاهُ مَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ

حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف سے مروی ہے ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع! عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پاس جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ اگر ہم میں سے ہر شخص کو جو خود کو ملنے والی نعمتوں پر خوش ہو اور یہ چاہے کہ جو کام اس نے نہیں کیا اس پر بھی اس کی تعریف کی جائےعذاب ہوگا تو پھر ہم سب ہی عذاب میں مبتلا ہوں گے؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا اس آیت سے کیا تعلق؟ اس آیت کا نزول تو اہل کتاب کے متعلق ہوا ہے، پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی’’ اس وقت کو یاد کیجئے جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ وعدہ لیا تھا کہ تم اس کتاب کو لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرو گے۔‘‘پھر یہ آیت تلاوت کی’’جو لوگ خود کو ملنے والی نعمتوں پر اتراتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، ان کے متعلق آپ یہ گمان نہ کریں ۔‘‘ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تھی لیکن انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے چھپایا اور دوسروں کو بتا دیا،جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے تو ان کا خیال یہ تھا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دے دیا ہے اور اس پر وہ داد چاہتے تھے اور اس بات پر اترا رہے تھے کہ انہوں نے بڑی احتیاط سے اس بات کو چھپا لیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھی۔[24]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رِجَالًا مِنَ المُنَافِقِینَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الغَزْوِ تَخَلَّفُوا عَنْهُ، وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَیْهِ، وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا، فَنَزَلَتْ: (لَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا) الآیَةَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کچھ لوگ منافق تھے تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد پر تشریف لے جانے لگے تو یہ لوگ الگ ہو گئے اور بہت خوش ہوئے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے،پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے تو یہ لوگ حاضر ہو کر عذر کرنے لگے اور حلف اٹھانے لگے اور کہنے لگے کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کے لئے کوشش کر رہے تھے ،اور وہ چاہتے تھے کہ جہاد کرنے والوں کے ساتھ ان کی بھی تعریف کی جائے ،اس وقت یہ آیت ’’تم ان لوگوں کوعذاب سے محفوظ نہ سمجھوجواپنے کرتوتوں پرخوش ہیں اورچاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہوجوفی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں ۔‘‘نازل ہوئی۔[25]زمین وآسمان اوران میں موجودتمام مخلوق کا مالک اللہ ہے، اوروہی اپنی قدرت کاملہ اورانوکھی ربوبیت کے ذریعہ سے ان پرتصرف کرتاہے،کوئی اس کے دائرہ اختیارسے باہرنہیں اور کوئی اسے عاجزولاچارنہیں کرسکتا ، اس لئے ابھی وقت ہے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرکے اللہ کے غضب سے بچنے کی کوشش کرلواورجہنم کے دردناک عذابوں سے اپنابچاؤکرلو۔

الَّذِینَ یَذْكُرُونَ اللَّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿١٩١﴾‏ رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ ‎﴿١٩٢﴾‏ رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُنَادِی لِلْإِیمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ‎﴿١٩٣﴾‏ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ ‎﴿١٩٤﴾‏(آل عمران)
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے، اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے یقیناً تو نے اسے رسوا کیا اور ظالموں کا مددگار کوئی نہیں ، اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ پس ہم ایمان لائے، یا الٰہی ! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کردے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر،اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

مظاہرکائنات دلیل رب ذوالجلال ،دعوت غوروتدبر:خاتمہ کلام میں فرمایاجوہوشمندلوگ ہمواراوروسیع زمین اوربغیرسوتونوں کے بلندوبالاوسیع سات آسمانوں کی تخلیق اور صدیوں پرمحیط کائنات کالگابندھانظام جس میں ذراخلل واقع نہیں ہوتامیں غور و تدبرکرتے ہیں ان لوگوں کے لیے اس میں خالق کائنات کی بہت سی نشانیاں ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ۝۱۰۵وَمَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ۝۱۰۶ [26]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے،ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِی مَیْمُونَةَ، فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً، ثُمَّ رَقَدَ، فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ، قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: {إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الأَلْبَابِ}، ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ فَصَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ أَذَّنَ بِلاَلٌ، فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےپہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی ساتھ تھوڑی دیرتک بات چیت کی پھر سوگئے،جب رات کاتیسراحصہ باقی رہاتوآپ اٹھ کربیٹھ گئے اورآسمان کی طرف نظرکی اور آیت’’آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں اوررات دن کے ہیرپھیرمیں یقیناعقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ تلاوت کی،اس کے بعدآپ کھڑے ہوئے اوروضوکیااورمسواک کی ،پھرگیارہ رکعتیں تہجداوروترپڑھیں ،جب بلال رضی اللہ عنہ نے (فجرکی) اذان دی توآپ نے دو رکعت (فجرکی سنت)پڑھی اور باہر مسجدمیں تشریف لائے اورفجرکی نمازپڑھائی۔[27]

(یہی گیارہ رکعتیں رمضان میں لفظ تراویح کے ساتھ موسوم ہوئیں ، پس تراویح کی یہی گیارہ رکعات سنت نبوی ہیں )

عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُبَیْدُ بْنُ عُمَیْرٍ، عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ لِعُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ: قَدْ آنَ لَكَ أَنْ تَزُورَنَا، فقَالَ: أَقُولُ یَا أُمَّهْ كَمَا قَالَ الْأَوَّلُ: زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا، قَالَ: فَقَالَتْ: دَعُونَا مِنْ رَطَانَتِكُمْ هَذِهِ، قَالَ ابْنُ عُمَیْرٍ: أَخْبِرِینَا بِأَعْجَبِ شَیْءٍ رَأَیْتِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَكَتَتْ ثُمَّ قَالَتْ: لَمَّا كَانَ لَیْلَةٌ مِنَ اللَّیَالِی، قَالَ:یَا عَائِشَةُ ذَرِینِی أَتَعَبَّدُ اللَّیْلَةَ لِرَبِّی قُلْتُ: وَاللَّهِ إِنِّی لَأُحِبُّ قُرْبَكَ، وَأُحِبُّ مَا سَرَّكَ،

عطاء سے روایت ہےعبداللہ بن عمراورعبیدبن عمیر،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضرہوئے ہمارے اورآپ مابین پردہ تھاآپ نے فرمایاعبید!تم ہم سے ملنے کے لیے کیوں نہیں آتے؟انہوں نے کہاکسی شاعرنے کہاہے

زُر غِبًّا تَزْدَدْ حُبّا …

وقفے کے بعدملاقات کرواس سے محبت میں اضافہ ہوتاہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہاآپ یہ فرمائیں کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ تعجب انگیزبات کون سی دیکھی ہے؟ توآپ رونے لگ گئیں اورفرمانے لگیں کہ آپ کی توہربات ہی تعجب انگیزتھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کومیرے پاس تشریف لائے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجسداطہرمیرے جسم کوچھونے لگا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے چھوڑدوتاکہ میں اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں ،میں نے عرض کی اللہ کی قسم !میں آپ قرب کوپسندکرتی ہوں اوراس بات کوبھی پسندکرتی ہوں کہ آپ اپنے رب عزوجل کی عبادت کریں ،

قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ، ثُمَّ قَامَ یُصَلِّی، قَالَتْ: فَلَمْ یَزَلْ یَبْكِی حَتَّى بَلَّ حِجْرَهُ، قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ یَزَلْ یَبْكِی حَتَّى بَلَّ لِحْیَتَهُ، قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ یَزَلْ یَبْكِی حَتَّى بَلَّ الْأَرْضَ، فَجَاءَ بِلَالٌ یُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَآهُ یَبْكِی، قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ تَبْكِی وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ؟، قَالَ:أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا، لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَیَّ اللَّیْلَةَ آیَةٌ، وَیْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ یَتَفَكَّرْ فِیهَا {إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ … } الْآیَةَ كُلَّهَا [28]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشکیزے کی طرف کھڑے ہوگئے ،وضوفرمایااوربہت زیادہ پانی استعمال نہ کیا، پھرکھڑے ہوکرنمازپڑھناشروع کردی، اوررونے لگے حتی کہ آنسوؤں سے داڑھی مبارک ترہوگئی،پھرسجدہ کیااورسجدے میں اس قدرروئے کہ زمین ترہوگئی، پھرپہلو بل لیٹ گئے اوررونے لگے حتی کہ بلال رضی اللہ عنہ نے آکرصبح کی اذان شروع کردی، بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کیوں روتے ہیں اللہ تعالیٰ نے توآپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادیے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں اللہ کاشکرگزاربندہ نہ بنوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلال تم پرافسوس!میں کیوں نہ روؤں جبکہ آج رات مجھ پریہ آیت’’آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں اوررات دن کے ہیرپھیرمیں یقیناعقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘نازل کی گئی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاافسوس ہے اس پرجویہ آیت پڑھے پھراس پرغورنہ کرے۔[29]

جواٹھتے بیٹھتے اورلیٹتے ہر حال میں اپنے خالق ،مالک اوررازق رب کو یاد کرتے ہیں ،

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَتْ بِی بَوَاسِیرُ، فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاَةِ، فَقَالَ:صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہامجھے بواسیرکامرض تھااس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازکے بارے میں دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکھڑے ہوکرنماز پڑھا کرو،اگراس کی طاقت نہ ہوتوبیٹھ کراوراس کی بھی نہ ہو تو پہلوکے بل لیٹ کرپڑھ لو۔[30]

اورآسمان وزمین کی ساخت اوراس کے حکیمانہ نظام اوران کی تخلیق کے مقصدمیں غوروتدبرکرتے ہیں ، جن سے خالق کائنات کی عظمت وقدرت، اس کاعلم واختیاراوراس کی رحمت وربوبیت کی صحیح معرفت انہیں حاصل ہوتی ہے تووہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں ، اے میرے پروردگار !اس عظیم الشان کائنات کو تو نے فضول اوربے مقصد نہیں بنایاہے،توپاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے،بلکہ اس کائنات کی تخلیق کا مقصد بندوں کا امتحان ہے ، جواس امتحان میں سرخروہوگیااس کے لئے رب کی خوشنودی اور انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتیں ہیں ، اورجواپنے نفس کا غلام بن گیااس کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے، پس اے ہمارے رب!ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطافرما،اورہمیں اپنی طاقت وقوت کے ساتھ دوزخ کے دردناک اوررسواکن عذاب سے بچالے، جسے تونے دوزخ میں پھینک دیااسے درحقیقت بڑی ذلت ورسوائی میں ڈال دیا، اور پھرایسے ظالموں کاکوئی مددگارنہ ہوگاجوانہیں اللہ کے عذاب سے بچاسکے،اے ہمارے مالک!ہم نے ایک پکارنے والے(محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پکار کو سناجوباآوازبلندایمان کی طرف دعوت دیتاتھا اور کہتا تھاکہ لوگواپنے رب وحدہ لاشریک پرایمان لاؤ ،ہم نے جلدی سے آگے بڑھ کر صدق دل سے ان کی دعوت قبول کرلی اوران کی اتباع وفرمانبرداری اختیارکرلی ،پس اے ہمارے آقا ! ہماری عاجزانہ التجاہےجوگناہ ہم سے سرزدہوئے ہیں ان سے درگزرفرما ،جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور فرما دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر،اے ہمارے پالنے والے معبود!جووعدے تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر، اور قیامت کے دن ہمیں ساری مخلوقات کے سامنے رسوائی میں نہ ڈالنا،بے شک تواپنے وعدے کے خلاف کرنے والانہیں ہے۔

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِینَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ وَأُوذُوا فِی سَبِیلِی وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ‎﴿١٩٥﴾(آل عمران)
پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو اس لیے وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا اور بالیقین انہیں جنتوں میں لے جاؤں گاجن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہ ہے ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔

رب کریم نے ان کی دعائے عبادت اوردعائے طلب دونوں دعائیں قبول فرمالیں اورجواب میں ارشاد فرمایامیں تم میں سے کسی کاعمل چاہے خواہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت، وہ عمل چھوٹاہویابڑا ضائع کرنے والانہیں ہوں ،بلکہ مردوعورت دونوں کو اس کے عمل کے مطابق اجرملے گا،

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ أَبِی سَلَمَةَ، رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أنها قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَسْمَعُ اللَّهَ ذَكَرَ النِّسَاءَ فِی الْهِجْرَةِ بِشَیْءٍ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ{فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ} [31]

ایک مرتبہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلہ میں عورتوں کانام نہیں لیا؟جس پریہ آیت نازل ہوئی

 فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ۝۰ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ۝۱۹۵ ) [32]۔[33]

میری نگاہ میں تم مردوعورت یکساں ہو،میرایہ دستورنہیں کہ مردوعورت ، آقا اور غلام ،کالے اورگورے کوایک دوسرے پرترجیح دوں اور انصاف کے اصول اورفیصلے کے معیارالگ الگ بناؤں ، لہذا جن لوگوں نے میری رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے گھربار، کاروبار، مال ومتاع، عزیزواقارب چھوڑے اورجودین اسلام قبول کرنے پر اپنے گھروں سے نکالے گئے اورانہیں اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے پر ظلم وستم کانشانہ بنایاگیا،جیسے فرمایا

۔۔۔ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللهِ رَبِّكُمْ۔۔۔ ۝۱ [34]

ترجمہ: اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ہو۔

وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۸ۙ [35]

ترجمہ:اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے تھے۔

اورمیرے دین کی سربلندی کے لیے کفارسے لڑے اورشہیدہو گئےمیں ان کے سب قصور معاف کردوں گامگرقرض معاف نہیں ہوگا،

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَامَ فِیهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ أَنَّ الْجِهَادَ فِی سَبِیلِ اللهِ، وَالْإِیمَانَ بِاللهِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللهِ، تُكَفَّرُ عَنِّی خَطَایَایَ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِی سَبِیلِ اللهِ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ، مُقْبِلٌ غَیْرُ مُدْبِرٍ،

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خطبہ پڑھنے کوکھڑے ہوئے اوران سے بیان کیاکہ تمام اعمال سے افضل عمل اللہ تعالیٰ پرایمان لانااور اللہ کی راہ میں جہادہے،ایک شخص کھڑاہوااوربولااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں اللہ کی راہ میں ماراجاؤں توکیامیرے گناہ معاف ہوجائیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،اگرتواللہ کی راہ میں صبرکے ساتھ ماراجائے اورتیری نیت خالص اللہ کے لئے ہواورتوسامنے رہے اورپیٹھ نہ موڑے،

 ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَیْفَ قُلْتَ؟قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللهِ أَتُكَفَّرُ عَنِّی خَطَایَایَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ، مُقْبِلٌ غَیْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّیْنَ، فَإِنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَالَ لِی ذَلِكَ،

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتونے کیاکہا؟وہ بولااگرمیں اللہ کی راہ میں ماراجاؤں تومیرے گناہ معاف ہوجائیں گے؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اگرتوخالص نیت سےصبرکرکے ماراجائے اورتیرامنہ سامنے ہواورپیٹھ نہ موڑے مگرقرض معاف نہ ہوگا،کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس بات کابیان کیاہے۔[36]

اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گاجن کے گھنے سایہ داردرختوں کے نیچے نتھرے پانی،دودھ،شہداورمختلف اقسام کی شرابوں کی نہریں بہتی ہوں گی،اوردیگرایسی ایسی نعمتیں ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھانہیں ،کسی کان نے سنانہیں اورکسی انسان کے دل میں جن کاکوئی تصورنہیں ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں  لئے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی (کے) کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل پر (ان کا) تصور گزرا ،اگر تم چاہو تو یہ آیت کریمہ (اس کے استدلال میں ) پڑھ لو ’’ پس کوئی نہیں جانتا جو آنکھ کی ٹھنڈک کے سامان ان کے لئے پوشیدہ رکھے گئے ہیں ۔‘‘[37]

یہ ہے اللہ کے ہاں ان کے اعمال کی جزاہے اوربہترین جزااللہ ہی کے پاس ہے۔

لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی الْبِلَادِ ‎﴿١٩٦﴾‏ مَتَاعٌ قَلِیلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ‎﴿١٩٧﴾‏ لَٰكِنِ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَیْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ‎﴿١٩٨﴾‏(آل عمران)
تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہےاس کے بعد ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے،لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ کی طرف سے اور نیک کاروں کے لیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے ۔

دنیاکی ظاہری شان وشوکت ایک دھوکہ ہے:اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوتسلی فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !دنیاکے ملکوں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا تجارت وکاروبارکے سلسلہ میں آناجانا،ان کی شان وشوکت ،ٹھاٹھ باٹھ اوردولت وثروت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے،اسی مضمون کو ایک اور مقام پرفرمایا

مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ۝۴ [38]

ترجمہ:اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔

 اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۶۹ۭمَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ               [39]

ترجمہ:جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے،دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں پھر ہماری طرف ان کو پلٹنا ہے پھر ہم اس کفر کے بدلے جس کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

نُمَـتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [40]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں دنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں ، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔

فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا۝۱۷ۧ [41]

ترجمہ: اے نبی ! ان کافروں کو اک ذرا کی ذرا ! اِن کے حال پر چھوڑ دیجئے۔

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَـنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ۝۶۱ [42]

ترجمہ:بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیا ت دنیا کا سرو سامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟۔

یہ لوگ دنیاکی آسائشوں اورسہولتوں کاتھوڑاسالطف حاصل کرلیں مگرانجام کاران سب کوزنجیروں میں جکڑ کر ، گلے میں طوق ڈال کر منہ کے بل گھسیٹتے ہوئےجہنم میں ڈال دیا جائے گا، جوبدترین جائے قرارہے،اوراس کےبرعکس جولوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسرکرتے ہیں ، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے انواع واقسام کی نہریں بہتی ہیں ،ان باغوں میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،ان کے لئےاللہ کی طرف سے یہ سامان ضیافت ہے، اور جوکچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے،اللہ انہیں اجرعظیم اوردائمی فوزوفلاح عطافرمائے ،

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَالْمَوْتُ خَیْرٌ لَهُ،وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْنِی ، فَإِنَّ اللهَ یَقُولُ:{ وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝وَیَقُولُ: وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۝

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہرمومن لیے موت بہترہے،اورہرکافرکے لیے بھی موت بہترہےجوشخص (اس بات میں ) میری تصدیق نہ کرے(توسن لے)اللہ تعالیٰ نے فرمایاہےاورجوکچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہترہےاور فرمایا یہ ڈھیل جوہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کویہ کافراپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ہم توانہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارگناہ سمیٹ لیں ،پھران کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزاہے (کافرمرجانے کے بعدمزیدگناہ نہیں کرسکتااس لحاظ سے موت اس کے حق میں بھی بہتر ہے ) ۔[43]

‏ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْهِمْ خَاشِعِینَ لِلَّهِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِیلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿١٩٩﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٢٠٠﴾‏(آل عمران)
یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا اور ان کی طرف جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں  ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے، اے ایمان والو ! تم  ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہواوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو

یہودونصاریٰ میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں بھلائی کی توفیق عطاکی گئی ہے، جو اللہ وحدہ لاشریک پرایمان رکھتے ہیں ،اس کتاب قرآن مجید پرایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اوراس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جواس سے پہلے خودان کی طرف بھیجی گئی تھی،اس مضمون کومتعددمقامات پرفرمایا

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۵۲وَاِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِـمِیْنَ۝۵۳اُولٰۗىِٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا۝۵۴ [44]

ترجمہ:جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں ،اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں ،انہیں ان کے صبر کا دوگنا اجروثواب دیاجائے گا۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۔۔۔ ۝۱۲۱ۧ [45]

ترجمہ:جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں ۔

لَیْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللهِ اٰنَاۗءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۝۱۱۳یُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۔۔۔۝۰۝۱۱۴ [46]

ترجمہ:مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں ، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں ،اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙوَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹۞ [47]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانویا نہ مانوجن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں پاک ہے ہمارا رب اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھااور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔

وہ اللہ عزوجل کے سامنے خشوع وخضوع، عاجزی اورگریہ وزاری کرتے رہتے ہیں اوراللہ کی آیات کوتھوڑی سی قیمت پربیچ نہیں دیتےبلکہ علم کوبغیرطمع کے پھیلاتے ہیں ۔یہ صفات یہودیوں کے بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں

مِمَّنْ آمَنُ مِنْ أَحْبَارِ الْیَهُودِ وَلَمْ یَبْلُغُوا عَشْرَةَ أنفُس ، وَأَمَّا النَّصَارَى فَكَثِیرٌ مِنْهُمْ مُهْتَدُونَ وَیَنْقَادُونَ لِلْحَقِّ

جویہودی ایمان لائے ان کی تعداددس تک بھی نہیں پہنچتی البتہ عیسائی بڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے اورانہوں نے دین حق کواپنایا۔[48]

اوریہوددشمنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا۝۰ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۸۲ [49]

ترجمہ: تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ،یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے۔

یہی لوگ ہیں جن کا اجرعظیم ان کے رب کے پاس ہے،جیسے صحابہ کرام ہجرت کرکے حبشہ پہنچے اورنجاشی کے دربارمیں پہنچےاوراپنے دین کے بارے میں بیان کیا

قَالَتْ: فَقَالَ لَهُ النَّجَاشِیُّ: هَلْ مَعَكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ عَنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ؟ قَالَتْ:فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: نَعَمْ،فَقَالَ لَهُ النَّجَاشِیُّ: فَاقْرَأْهُ عَلَیَّ،قَالَتْ: فَقَرَأَ عَلَیْهِ صَدْرًا مِنْ:[50]: قَالَتْ: فَبَكَى وَاَللَّهِ النَّجَاشِیُّ حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْیَتُهُ وَبَكَتْ أَسَاقِفَتُهُ حَتَّى أَخْضَلُّوا مَصَاحِفَهُمْ، حِینَ سَمِعُوا مَا تَلَا عَلَیْهِمْ

تونجاشی نے جعفر رضی اللہ عنہ سے سوال کیاجوکچھ تمہارے نبی پرنازل ہوتاہے اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے یعنی تم کویادہے؟جعفر رضی اللہ عنہ نے کہاہاں یادہے ، نجاشی نے کہاتومجھے پڑھ کرسناؤ،چنانچہ جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی تلاوت شروع کی،اورنجاشی نے اس کوسن کرروناشروع کیایہاں تک کہ نجاشی کی داڑھی پرسے آنسوگرنے لگے ،اورجس قدرعلماء ومشایخ اس گردبیٹھے ہوئے تھے سب پرگریہ طاری ہوااوراس قدرروئے کہ جوکتابیں ان کے آگے کھلی ہوئی تھیں وہ سب آنسوؤں سے ترہوگئیں ۔[51]

عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلَهُ: {وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لِمَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ} : مِنَ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَهُمْ مُسْلِمَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ

ابن ابونجیح نے مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیاہے کہ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لِمَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ سے مرادیہودونصاریٰ مسلمان ہیں ۔[52]

وَقَالَ عَباد بْنُ مَنْصُورٍ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِیَّ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا أُنزلَ إِلَیْكُمْ وَمَا أُنزلَ إِلَیْهِمْ خَاشِعِینَ لِلَّهِ] } الْآیَةَ. قَالَ: هُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ الَّذِینَ كَانُوا قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعُوهُ ، وَعَرَفُوا الْإِسْلَامَ ، فَأَعْطَاهُمُ اللهُ تَعَالَى أَجْرَ اثْنَیْنِ، لِلَّذِی كَانُوا عَلَیْهِ مِنَ الْإِیمَانِ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِالَّذِی اتَّبَعُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبادبن منصورکہتے ہیں میں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے آیت ’’یقینااہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جواللہ تعالیٰ پرایمان لاتے ہیں اورتمہاری طرف جواتاراگیااوران کی طرف جونازل ہوااس پربھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ بارے میں پوچھا، توانہوں نے فرمایااس سے مرادمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے وہ اہل کتاب ہیں جنہوں نے آپ کی اتباع کی،اور(یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے)اسلام کوپہچان لیاتھا، تواللہ تعالیٰ نے انہیں دوگنااجروثواب عطافرمایاایک ثواب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے(کی شریعت پر)ایمان لانے کی وجہ سے ،اوردوسرامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی وجہ سے۔[53]

حَدَّثَنِی أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثَلاَثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، آمَنَ بِنَبِیِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِیهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ

ابوبردہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین شخص ہیں جن لئے دوگنااجرہے ، ایک وہ جو اہل کتاب سے ہواوراپنے نبی پراورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اور (دوسرے)وہ غلام جواپنے آقا اور اللہ (دونوں )کاحق اداکرے، اور (تیسرے)وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہوجس سے شب باشی کرتاہے اوراسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے ،تعلیم دے توعمدہ تعلیم دے ،پھراسے آزادکرکے اس سے نکاح کرلے،تواس کے لئے دوگنا اجرہے۔[54]

اوراللہ حساب چکانے میں دیرنہیں لگاتا ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: {سَرِیعُ الْحِسَابِ}قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: یَعْنِی: سَرِیعَ الْإِحْصَاءِ سَرِیعُ الْحِسَابِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’یقینااللہ تعالیٰ جلدحساب لینے والاہے۔‘‘کے معنی ہیں کہ وہ جلدشمارکرنے والاہے۔[55]

اے لوگوجوایمان لائے ہو!شہوات ولذات کے ترک کرنے اور دشمن کے مقابلے میں ان سے بڑھ کرپامردی دکھاؤ،دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح ڈٹ جاؤ،

قَالَ الْحَسَنُ: أُمِرُوا أَنْ یَصْبِرُوا عَلَى دِینَهِمُ الَّذِی ارْتَضَاهُ اللهُ لَهُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَلَا نَدْعُو لِسَرَّاءٍ وَلَا لِضَرَّاءٍ، وَلَا لِشِدَّةٍ وَلَا لِرَخَاءٍ حَتَّى یَمُوتُوا مُسْلِمِینَ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کوحکم دیاگیاہے کہ وہ اپنے اس دین پرثابت قدم رہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پسندفرمایاہے اوروہ دین اسلام ہے،اسے خوشی غمی اورتنگ دستی وخوش حالی میں بھی نہ چھوڑیں حتی کہ حالت اسلام ہی میں فوت ہوں ۔[56]

مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ، یَقُولُ: {وَرَابِطُوا}[57] قَالَ: الَّذِی یَقْعُدُ بَعْدَ الصَّلَاةِ

محمد بن کعب کہتے ہیں ’’مُرَابَطَةُ ‘‘ معنی عبادت کی جگہ پرہمیشہ ثابت قدمی کامظاہرہ کرناہےاس کے معنی ایک نمازکے بعددوسری نمازکے انتظارکے بھی بیان کیے گئے ہیں ۔[58]

اس کے علاوہ سختی میں وضو کرنا اورنمازوں کاانتظارکرنابھی رباط ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا یَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَایَا، وَیَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوا بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ:إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیامیں تم کونہ بتاؤں وہ باتیں جن سے گناہ مٹ جائیں (یعنی معاف ہوجائیں یالکھنے والوں  دفترسے مٹ جائیں )اور(جنت میں )درجے بلندہوں ؟لوگوں نے کہاکیوں نہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !بتلائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسختی اورتکلیف میں وضو کو پورا کرنا(جیسے جاڑے کی شدت میں یابیماری میں )اورمسجدتک قدموں کابہت ہونا(اس طرح کہ مسجدگھرسے دورہواور باربار جائے )اورایک نمازکے بعددوسری نمازکاانتظارکرنا، یہی رباط ہے(یعنی نفس کوعبادت کے لئے روکنااورجہادمیں شامل ہونا)۔[59]

وَقِیلَ: الْمُرَادُ بِالْمُرَابَطَةِ هَاهُنَا مُرَابَطَةُ الْغَزْوِ فِی نُحور الْعَدُوِّ، وَحِفْظُ ثُغور الْإِسْلَامِ وَصِیَانَتُهَا عَنْ دُخُولِ الْأَعْدَاءِ إِلَى حَوْزَة بِلَادِ الْمُسْلِمِینَ

ایک قول یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یہاں مُرَابَطَةِ سے مراددشمن مقابلے میں مورچوں میں جمے رہنااوراسلام کی سرحدوں کی حفاظت ہے تاکہ دشمن انہیں عبورکرکے مسلمانوں کے علاقوں میں داخل نہ ہوں ۔[60]

متعدداحادیث میں اس کی ترغیب اوراس پربہت زیادہ ثواب ملنے کاذکرہے،

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللَّهِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْهَا، وَالرَّوْحَةُ یَرُوحُهَا العَبْدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَوِ الغَدْوَةُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْهَا

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحدپرایک دن کاپہرہ دنیاومافیھاسے بڑھ کرہے،جنت میں کسی کے لئے ایک کوڑے جتنی جگہ دنیاومافیھاسے بڑھ کرہے،اورجوشخص اللہ کے راستے میں شام کوچلے یاصبح کوتووہ دنیاومافیھاسے بہتر ہے۔[61]

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَهْرٍ وَقِیَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَیْهِ عَمَلُهُ الَّذِی كَانَ یَعْمَلُهُ، وَأُجْرِیَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ

سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھےاللہ کی راہ میں ایک دن رات پہرہ چوکی دیناایک مہینہ بھرروزے رکھنے سے اور عبادت سے افضل ہے،جومرجائے گاتواس کایہ کام برابرجاری رہے گا(یعنی اس کاثواب مرنے کے بعدبھی

موقوف نہ ہوگابلکہ بڑھتاہی چلاجائے گا)اوراس کارزق جاری رہے گا(جوشہدوں کوملتاہے)اورفتنہ سےبچ جائے گا۔[62]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَجْرَى عَلَیْهِ أَجْرَ عَمَلِهِ الصَّالِحِ الَّذِی كَانَ یَعْمَلُ، وَأَجْرَى عَلَیْهِ رِزْقَهُ، وَأَمِنَ مِنَ الْفَتَّانِ، وَبَعَثَهُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ آمِنًا مِنَ الْفَزَعِ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جل شانہ کی راہ میں ایک رات کاپہرہ ایک ہزارراتوں کی عبادت سے افضل ہے ، جوتمام راتیں قیام میں اورتمام دن صیام میں گزارے جائیں ۔[63]

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَیْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:كُلُّ مَیِّتٍ یُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِی مَاتَ مُرَابِطًا فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ یَنْمُو عَمَلُهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَیَأْمَنُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ نے فرمایاہرمرنے والے کاعمل (اس کے مرنے پر)ختم ہوجاتاہے مگرمورچہ بندکہ اس کاعمل قیامت تک کے لیے بڑھتارہتاہے،اوروہ قبرکے عذاب سے(یامنکرونکیرکے سوال جواب)سے امن میں رہتاہے۔[64]

 عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، تَرْفَعُ الْحَدِیثَ، قَالَتْ:مَنْ رَابَطَ فِی شَیْءٍ مِنْ سَوَاحِلِ الْمُسْلِمِینَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ، أَجْزَأَتْ عَنْهُ رِبَاطَ سَنَةٍ

ام الدرداء رضی اللہ عنہا سےمروی ہے جوشخص مسلمانوں کی سرحدکے کسی کنارے پرتین دن تیاری میں گزارے اسے سال بھرتک کی اورجگہ کی اس تیاری کااجرملتاہے۔[65]

أَبُو عَلِیٍّ الْجَنَبِیُّ یَقُولُ:قَالَ:حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَیْنٍ دَمَعَتْ أَوْ بَكَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللَّهِ، وَحُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَیْنٍ سَهِرَتْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ

ابوعلی جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس آنکھ پرجہنم کی آگ حرام ہے جواللہ ڈرسے روئے، اوراس آنکھ پربھی جواللہ کی راہ میں شب بیداری کرے۔[66]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الخَمِیصَةِ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِیكَ فَلاَ انْتَقَشَ، طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِی الحِرَاسَةِ، كَانَ فِی الحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِی السَّاقَةِ كَانَ فِی السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ یُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ یُشَفَّعْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااشرفی کابندہ اورروپے کابندہ اورکمبل کابندہ تباہ ہوااگراس کوکچھ دیاجائے تب توخوش جونہ دیاجائے توغصہ ہوجائے،ایساشخص تباہ سرنگوں ہوااس کوکانٹالگے تواللہ کرے پھرنہ نکلے، مبارک وہ بندہ جواللہ راستے میں (غزوہ کے موقع پر)اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے،اس کے سرکے بال پراگندہ ہیں ،اوراس کے قدم گردوغبارہیں ،اگراسے چوکی پہرے پرلگادیاجائے تووہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگارہے، اوراگرلشکرکے پیچھے (دیکھ بھال کے لئے)لگادیاجائے تواس میں بھی پوری تندہی اورفرض شناسی سے لگارہے ،(اگرچہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہوکہ)اگروہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تواسے اجازت بھی نہ ملے، اوراگرکسی کی سفارش کرے تواس کی سفارش بھی قبول نہ کی جائے۔[67]

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ: كَتَبَ أَبُو عُبَیْدَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَذْكُرُ لَهُ جُمُوعًا مِنَ الرُّومِ وَمَا یَتَخَوَّفُ مِنْهُمْ، فَكَتَبَ إِلَیْهِ عُمَرُ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ مَهْمَا یَنزلْ بِعَبْدٍ مُؤْمِنٍ مِنْ مَنزلة شِدَّةٍ یَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَهَا فَرَجَا، وَإِنَّهُ لَنْ یَغْلِبَ عُسْر یُسْرَیْنِ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى یَقُولُ فِی كِتَابِهِ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}.

زیدبن اسلم سے روایت ہے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی طرف خط لکھاجس میں انہوں نے رومیوں  خوفناک لشکرجرارکی اطلاع دی، توسید ناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے خط کاجواب دیتے ہوئے لکاکہ مومن پرجوبھی سختی نازل ہوتواللہ تعالیٰ اس کے بعدآسانی فرمادیتاہے، اورمشکل کبھی دوآسانیوں پرغالب نہیں آتی، اوراللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایاہے’’اے لوگوجوایمان لائے ہو!صبرسے کام لو،باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ،حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہواوراللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔‘‘[68]

 محمد بن إبراهیم بن أبی سكینة، قَالَ: أَمْلَى عَلَیَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هذه الأبیات بطرسوس، وودعته للخروج،وأنشدهامَعِی إِلَى الْفُضَیْلِ بْنِ عِیَاضٍ فِی سَنَةِ سَبْعِینَ وَمِائَةٍ، وَفِی رِوَایَةٍ: سَنَةَ سَبْعٍ وَسَبْعِینَ وَمِائَةٍ:

محمدبن ابراہیم بن ابوسکینہ سے روایت ہے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے طرطوس میں مجھے یہ اشعارلکھوائے جبکہ میں انہیں جہادکے لیے روانہ ہونے کے لیے الوداع کہہ رہاتھا،آپ نے یہ اشعارلکھوائے اورمیرے ہاتھ انہیں فضیل بن عیاض کی خدمت میں ارسال کرادیایہ ۱۷۰ہجری یا۱۷۷ہجری کاواقعہ ہے اشعاریہ ہیں ۔

یَا عابدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ أبْصَرْتَنا ، لَعَلمْتَ أنكَ فِی العبادِة تلعبُ

اے کبھی مکہ اورکبھی مدینہ میں عبادت کرنے والے اگرتوہماراحال دیکھے توتجھے یقین آجائے گاکہ تونے عبادت کوایک کھیل بنارکھاہے۔

مَنْ كَانَ یَخْضِبُ خدَّه بدموعِه ،فَنُحورنا بِدِمَائِنَا تَتَخضَّب

وہ جس نے اپنے رخسار(اللہ کی یادمیں )اپنے آنسوؤں سے ترکرلیے ہیں ،میدان جنگ میں آکرہمیں دیکھے کہ ہماری گردنیں (اس کی محبت میں )خون سے رنگین ہورہی ہیں ۔

أَوْ كَانَ یُتْعِبُ خَیْلَه فِی باطلٍ ، فخُیولنا یومَ الصبِیحة تَتْعبُ

یاوہ جواپنے گھوڑے کوباطل کاموں میں تھکادیتاہے اگرہمیں آکردیکھے توہمارے گھوڑے تومیدان جنگ میں تھکتے ہیں ۔

ریحُ العبیرِ لَكُمْ ونحنُ عبیرُنا ،وَهجُ السنابِك والغبارُ الأطیبُ

عطرکی مہک تمہارے لیے ہے ہماراعطرتومیدان جنگ میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھاہواپاکیزہ گرووغبارہے۔

ولَقَد أَتَانَا مِنْ مَقَالِ نَبِیِّنَا ،قَوْلٌ صَحیح صَادِقٌ لَا یَكْذبُ

ہمارے پاس ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کایہ صحیح اورسچافرمان پہنچاہے جس کوجھٹلایانہیں جاسکتا۔

لَا یَسْتَوِی وَغُبَارَ خَیْلِ اللهِ فِی ،أَنْفِ امْرِئٍ ودخانَ نَارٍ تَلْهَبُ

اللہ رستے میں جہادکرنے والے گھوڑوں کے ٹاپوں سے اٹھنے والاغباراورجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کادھواں کسی شخص کی ناک میں جمع نہیں ہوسکتا۔

هَذَا كِتَابُ اللهِ یَنْطق بَیْنَنَا ، لَیْسَ الشهیدُ بمَیِّت لَا یَكْذبُ

یہ اللہ کی کتاب ہمارے پاس شہادت دے رہی ہے کہ شہیدمردہ نہیں ہے اوراس بات کوجھٹلایانہیں جاسکتا۔

قَالَ: فَلَقِیتُ الفُضیل بْنَ عِیَاضٍ بِكِتَابِهِ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،فَلَمَّا قَرَأَهُ ذَرِفَتْ عَیْنَاهُ، وَقَالَ: صَدَق أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَنَصَحَنِی ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتَ مِمَّنْ یَكْتُبُ الْحَدِیثَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاكْتُبْ هَذَا الْحَدِیثَ كرَاءَ حَمْلِكَ كِتَابَ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَیْنَا

محمدبن ابراہیم بن ابوسکینہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک کایہ خط فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کومسجدحرام میں پہنچایاجب انہوں نے اس خط کوپڑھاتوان کی آنکھیں اشکبارہوگئیں اور فرمانے لگے ابوعبدالرحمٰن(عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ )نے سچ کہااورمجھے نصیحت کی ہے،پھرانہوں نے کہاآپ کاتبین حدیث میں سے ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں ،پھرانہوں نے کہااچھایہ حدیث لکھواوریہ معاوضہ ہے ابوعبدالرحمٰن اس خط کاجوآپ ہمارے پاس لے کرآئے ہیں ،

وَأَمْلَى عَلَیّ الفُضیل بْنُ عِیَاضٍ: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلمنی عَمَلًا أَنَالُ بِهِ ثَوَابَ الْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ،فَقَالَ: هَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تُصَلِّی فَلَا تَفْتُر وتصومَ فَلَا تُفْطِر؟فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا أضْعَفُ مِنْ أَنْ أَسْتَطِیعَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَوالَّذی نَفْسِی بِیَدِه لَوْ طُوقْتَ ذَلِكَ مَا بلغتَ الْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ ، أَوَمَا عَلمتَ أَنَّ الْفَرَسَ الْمُجَاهِدَ لیَسْتَنُّ فِی طِوَله فَیُكْتَبُ لَهُ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتُ

پھرفضیل بن عیاض نے مجھے یہ حدیث لکھوائی کہ ہم نے منصوربن معتمرنے یہ حدیث بیان کی انہوں نے ابوصالح سے اورانہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ایک ایساعمل سکھادیں جس میں سے اللہ کے رستے میں جہادکرنے والے مجاہدین کے اجروثواب کوپالوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتجھ میں اس بات کی طاقت ہے کہ ساری رات نمازپڑھتارہے اورکبھی نہ اکتائے،اورساری زندگی روزے رکھتارہے اور کبھی ناغہ نہ کرے؟ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں بہت کمزورہوں مجھے اس کی استطاعت نہیں ہے، پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات گرامی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اگرتمہیں اس بات کی طاقت بھی ہوتوپھربھی تم مجاہدین فی سبیل اللہ کے اجروثواب کونہیں پاسکتے، کیاتمہیں معلوم نہیں کہ مجاہدین کاگھوڑااپنی چراگاہ میں رسی بندھے ہوئے بشاشت سے اچھلتا کودتا ہے تواس کے عوض بھی نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔[69]

باطل پرستوں  مقابلہ میں پامردی دکھاؤ،حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہواوراپنے تمام امورواحوال میں اللہ سے ڈرتے رہو ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:: اتَّقِ اللَّهَ حَیْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّیِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ سے ڈروجہاں کہیں بھی ہواورگناہ بعدنیکی کرتے رہو،نیکی اسے مٹادے گی اورلوگوں کے ساتھ حسن خلق کے ساتھ پیش آؤ۔[70]

یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کواس وقت فرمائی تھی جب انہیں یمن روانہ فرمایاتھا۔

امید ہے کہ دنیاوآخرت میں فلاح پاؤگے،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ القُرَظی: أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ فِی قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ:{وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ }وَاتَّقُوا اللهَ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ غَدًا إِذَا لَقِیتُمُونِی

محمدبن کعب قرظی سے روایت ہے ’’اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہوتاکہ تم مرادکوپہنچو۔‘‘کے معنی یہ ہیں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم مجھ سے ڈرتے رہوتاکہ کل جب میری ملاقات کے لیے آئے توکامیاب ہوجاؤ۔[71]

[1] البقرة۲۴۵

[2] الحدید۱۸

[3] تفسیرابن کثیر۱۷۶؍۲

[4] آل عمران: 181

[5] آل عمران۱۸۱۔ تفسیر ابن ابی حاتم ۴۵۸۹، ۸۲۸ ؍۳

[6] الحج۱۰

[7] الرحمٰن ۲۶،۲۷

[8] صحیح بخاری کتاب بداالخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۵۰، مسنداحمد ۱۵۵۶۴

[9] الاعلیٰ۱۶،۱۷

[10] القصص۶۰

[11] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۷۱۹۷،جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی هَوَانِ الدُّنْیَا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۲۳۲۳، سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَثَلُ الدُّنْیَا ۴۱۰۸،مسنداحمد۵۴۲؍۲۹

[12]جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی هَوَانِ الدُّنْیَا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۲۳۲۰

[13]۔جامع ترمذی ابواب الزھدبَابُ مَا جَاءَ فِی هَوَانِ الدُّنْیَا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۲۳۲۱، سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَثَلُ الدُّنْیَا ۴۱۱۱

[14] تفسیرابن ابی حاتم۸۳۳؍۳

[15] البقرة۱۵۵

[16] آل عمران: 186

[17] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة آل عمران بَابُ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا ۴۵۶۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابٌ فِی دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى اللهِ، وَصَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِینَ ۴۶۵۹، مسنداحمد۲۱۷۶۷

[18] البقرة۱۰۹

[19] سنن ابوداودکتاب العلم بَابُ كَرَاهِیَةِ مَنْعِ الْعِلْمِ ۳۶۵۸، جامع ترمذی کتاب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِی كِتْمَانِ العِلْمِ ۲۶۴۹،سنن ابن ماجہ المقدمة بَابُ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ۲۶۱

[20] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ قَتْلِ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ، وَأَنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِی النَّارِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ۳۰۳

[21] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ باب المُتَشَبِّعِ بِمَا لَمْ یَنَلْ، وَمَا یُنْهَى مِنَ افْتِخَارِ الضَّرَّةِ ۵۲۱۹،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ النَّهْیِ عَنِ التَّزْوِیرِ فِی اللِّبَاسِ وَغَیْرِهِ وَالتَّشَبُّعِ بِمَا لَمْ یُعْطَ۵۵۸۴،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی الْمُتَشَبِّعِ بِمَا لَمْ یُعْطَ۴۹۹۷

[22] آل عمران: 187

[23] آل عمران: 188

[24] مسند احمد ۲۷۱۲، صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا۴۵۶۸،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ۷۰۳۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۱۴،السنن الکبری للنسائی۱۱۰۲۰

[25] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا۴۵۶۷،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ۷۰۳۳

[26] یوسف ۱۰۵،۱۰۶

[27] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة آل عمران بَابُ قَوْلِهِ إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللیْلِ وَالنَّهَارِ لآیَاتٍ لِأُولِی الأَلْبَابِ ۴۵۶۹،صحیح مسلم کتاب صلوٰة المسافرین وقصرھابَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ۱۷۹۹

[28] آل عمران: 190.

[29] صحیح ابن حبان۶۲۰

[30] صحیح بخاری کتاب تقصیر الصلوٰة بَابُ إِذَا لَمْ یُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۱۱۷ ، سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی صَلَاةِ الْقَاعِدِ ۹۵۲،سنن الدارقطنی۱۴۲۵، تفسیرابن ابی حاتم ۴۶۵۸،۸۴۲؍۳

[31] آل عمران: 195

[32] آل عمران۱۹۵

[33] مستدرک حاکم۳۱۷۴، تفسیر طبری ۴۸۷؍۷، تفسیرابن کثیر۱۹۰؍۲،تفسیرالقرطبی ۳۱۸؍۴

[34] الممتحنة۱

[35] البروج۸

[36] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ كُفِّرَتْ خَطَایَاهُ إِلَّا الدَّیْنَ۴۸۸۰،جامع ترمذی ابواب الجہاد بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یُسْتَشْهَدُ وَعَلَیْهِ دَیْنٌ۱۷۱۲،سنن نسائی کتاب الجہاد باب مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللهِ تَعَالَى وَعَلَیْهِ دَیْنٌ۳۱۵۷،۳۱۵۸

[37] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۴۴

[38] المومن۴

[39] یونس ۶۹،۷۰

[40] لقمان۲۴

[41] الطارق۱۷

[42] القصص۶۱

[43] تفسیرطبری۴۹۶؍۷

[44] القصص ۵۲تا۵۴

[45] البقرة۱۲۱

[46] آل عمران۱۱۳،۱۱۴

[47] بنی اسرائیل۱۰۷تا۱۰۹

[48] تفسیرابن کثیر۱۹۳؍۲

[49] المائدة۸۲

[50] كهیعص 19

[51] ابن ہشام

[52] تفسیرابن ابی حاتم۸۴۶؍۳

[53] تفسیرابن کثیر۱۹۵؍۲

[54] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ تَعْلِیمِ الرَّجُلِ أَمَتَهُ وَأَهْلَهُ ۹۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۷

[55] تفسیرابن ابی حاتم۸۴۷؍۳

[56] تفسیرابن ابی حاتم۸۴۷؍۳

[57] آل عمران: 200

[58] تفسیرابن ابی حاتم۸۵۰؍۳

[59] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ۵۸۷، السنن الکبری للبیہقی۴۹۶۹

[60] تفسیرابن کثیر۱۹۷؍۲

[61] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ فَضْلِ رِبَاطِ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ۲۸۹۲، مسند احمد ۲۲۸۷۲،السنن الکبری للبیہقی۱۷۸۸۷

[62] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۴۹۳۸،سنن نسائی کتاب الجہاد باب فَضْلُ الرِّبَاطِ۳۱۶۹

[63]سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِی سَبِیلِ اللهِ۲۷۶۷

[64] مسنداحمد۲۳۹۵۱، صحیح ابن حبان۴۶۲۴، سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی فَضْلِ الرِّبَاطِ۲۵۰۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا۱۶۲۱

[65] مسنداحمد۲۷۰۴۰

[66] مسنداحمد۱۷۲۱۳

[67] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللهِ۲۸۸۷

[68] تفسیرطبری۵۰۳؍۷

[69] تاریخ دمشق۴۵۰؍۳۲

[70] جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی مُعَاشَرَةِ النَّاسِ۱۹۸۷،مسنداحمد۲۱۳۵۴

[71] تفسیر طبری۵۱۰؍۷

Related Articles