ہجرت نبوی کا تیسرا سال

کیاہند نے حمزہ رضی اللہ عنہ کامثلہ کیاتھا

سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش مثلہ کے بارے میں ہرسیرتک یہ کتاب مثلاًتاریخ مسلمانان عالم۳۳۷؍۲،تاریخ اسلام ازعبدالحکیم جالندھری ۶۴، معارف القرآن ازپرویز ۵۳۶؍۴، تاریخ امت ازاسلم حیراج پوری ۱۳۸،سیرت النبی ازعلامہ شبلی ۳۸۳؍۱،اصح السیرازحکیم عبدالروف ۱۵۳وغیرہ میں یہ لکھا ہوا ہےکہ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نےلاش کامثلہ کیاتھا،ناک کان کاٹے اوران کاہاربناکرگلےمیں ڈالا،سینہ چیرکرکلیجہ نکالااوراسےچبایامگرنگل نہ سکی تو تھوک دیا۔

اس کہانی کی اسناد:یہ کہانی ابن ہشام نے اپنی سیرت میں اورابن جریرطبری نے اپنی تاریخ میں محمدبن اسحاق سے نقل کی ہے ،اس روایت کوابن اسحاق کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا،ابن اسحاق سے اس روایت کونقل کرنے والے مورخ سلمة الابرش اورمورخ محمدبن حمیدرازی ہیں ،جن کامختصرتعارف یوں ہے ۔

مورخ سلمة الابرش :

سلمة بن الْفَضْلِ الأبرش الأَنْصارِیّ ، أَبُو عَبْد اللهِ الأزرق الرازی قاضی الری،ضعفه ابن راهویه ،قال الْبُخَارِیّ: عنده مناكیر ،وَقَال النَّسَائی : ضعیف،وقال ابن المدینی: ما خرجنا من الرى حتى رمینا بحدیث سلمة ،ابن معین، قال: سلمة الابرش رازى یتشیع،وقال أبو حاتم: لا یحتج به،وقال أبو زرعة: كان أهل الرى لا یرغبون فیه لسوء رأیه وظلم فیه

اس کاپورانام سلمة بن الفضل ہے ،ابرش کے لقب سے مشہورتھا، اس کی کنیت ابوعبداللہ ارزق تھی ،رازی کی نسبت سے مشہورہے ،یہ رے کاقاضی تھا ، محمدبن اسحاق کی مغازی کایہ ایک راوی ہے۔امام اسحٰق بن راہو رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی بعض احادیث منکرہوتی ہیں ۔امام نسائی رحمہ اللہ کاقول ہے کہ یہ ضعیف ہے۔علی بن المدینی رحمہ اللہ کابیان ہے کہ ہم جس وقت رے سے واپس ہوئے تھے توہم نے ان روایات کوجواس سے سن کرلکھی تھیں لغواورجھوٹ سمجھ کرزمین پرپھینک دیاتھا۔یحیٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ابرش رازی شیعہ تھا۔امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قابل حجت نہیں ۔امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ کاارشادہے کہ رے کے باشندے اسے قطعاًپسندنہ کرتے تھے کیونکہ اس کے خیالات بہت گندے تھے۔[1]

مورخ محمدبن حمیدرازی :

اس کاپورانام محمدبن حمیدہے،رے کاباشندہ تھا،

عن یعقوب القمى،قال یعقوب بن شیبة: كثیر المناكیر، وقال البخاری: فیه نظر.وكذبه أبو زرعة.وقال فضلك الرازی: عندی عن ابن حمید خمسون ألف حدیث، ولا أحدث عنه بحرف،وقال صالح جزرة: كنانتهم ابن حمید فی كل شئ یحدثنا ما رأیت أجرأ على الله منه، كان یأخذ أحادیث الناس فیقلب بعضه على بعض،وقال النسائی: لیس بثقة.وقال صالح جزرة: ما رأیت أحذق بالكذب من ابن حمید ومن ابن الشاذكونى،فضلك الرازی یقول: دخلت على محمد بن حمید وهو یركب الأسانید على المتون

یعقوب قمی(جوشیعہ کتابوں کامصنف ہے)وغیرہ سے روایات نقل کرتاہے ،حفظ الروایات سمجھاجاتاہے ضعیف ہے۔یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بہت منکرروایات بیان کرتاہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس پراعتراض ہے۔اس ہم وطن امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ کاکہناہے کہ کذاب ہے۔ فضلک الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس اس کی پچاس ہزارروایات ہیں جن میں سے ایک بھی بیان کرنابھی پسندنہیں کرتا۔صالح جزرہ رحمہ اللہ کاقول ہے کہ ہم لوگ اس محمدبن حمیدکوہربات میں جھوٹاسمجھتے ہیں میں نے اس شخص سے زیادہ اللہ سے بے خوف کوئی انسان نہیں دیکھا،یہ لوگوں سے احادیث وروایات سنتااوران میں ردوبدل کرتا رہتاتھا۔امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف ہے۔صالح جزرہ رحمہ اللہ کاقول ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں دوشخصوں سے زیادہ جھوٹ کاماہرکوئی نہیں دیکھا ایک محمدبن حمیدمورخ اوردوسراابن الشاذ کوفی۔امام فضلک الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس محمدبن حمیدکے پاس گیاتویہ سنی سنائی کہانیوں کی سندات وضع کررہاتھا۔[2]

اس طرح یہ دونوں راوی قطعاًناقابل اعتبارہیں ۔

xابن اسحاق دعویٰ کاہے کہ اس نے یہ روایت صالح بن کیسان سے سنی،جوچھوٹے درجے کے تابعی ہیں ،اگرچہ ثقہ ہیں لیکن سترہجری کے بعدپیداہوئےاورایک سوچالیس ہجری میں انتقال ہوا،اس طرح یہ خودچشم دیدگواہ نہیں ،اورنہ انہوں نے اوپرکی کوئی سند بیان کی ہے،ممکن ہے ابن اسحاق نے یہ کہانی وضع کرکے ان کی جانب منسوب کی ہو،اگرواقعتا ً انہوں نے یہ روایت بیان کی ہے تب بھی یہ منقطع روایت ہےجوقابل قبول نہیں ہوتی ۔

xاس کہانی کوصالح بن کیسان کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا،اورصالح بن کیسان سے ابن اسحاق کے علاوہ کوئی نقل نہیں کرتا،ابن اسحاق سے سلمة الابرش کے علاوہ کسی نے اسے نقل نہیں کیا،سلمة الابرش سے محمدبن حمیدرازی کے علاوہ اسے کوئی نقل نہیں کرتا،اوراس سے ابن جریرکے علاوہ اسے کوئی نقل کرنے والانہیں ،اورابن جریرکاانتقال اکتیس ہجری میں ہوا،گویاستر ہجری کے بعداس کہانی کی ابتداہوئی، اورتین سودس ہجری تک ہرزمانہ میں صرف ایک فردواحدکے سینہ میں یہ کہانی محفوظ رہی، اوراس فردواحدکے علاوہ کوئی اس کہانی کو جانتا تک نہ تھا،حالانکہ اگرواقعہ پیش آتاتواول تواس کے چشم دیدگواہ ہوتے، پھرجوں جوں زمانہ بڑھتاجاتالوگوں کی زبان پریہ عام ہوتاجاتا۔

اس کہانی کوشروع دورکے لوگوں نے قبول نہیں کیا،اسے مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب لوگ آنکھیں بندکرکے ابن اسحاق اورطبری کی روایات پرایمان لے آئے، اورپھراس پرمکھی پرمکھی ماری جاتی رہی، اور انہوں نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ ، ہند رضی اللہ عنہا اورکاتب وحی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پرکیچڑاچھالنی شروع کردی، اوربعدکے واقعات بھی اس کہانی کی واضح تردیدکرتے ہیں ۔

xفتح مکہ بعدجب وحشی بن حرب نے اسلام قبول کیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہادراورشفیق چچاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے قاتل وحشی بن حرب کودیکھ کر فرمایا تھا کہ کیاتواپناچہرہ مجھ سے نہیں چھپاسکتا، جس کے باعث وہ پھرکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آیا۔

xفتح مکہ کے موقع پروحشی کے مالک بن مطعم نے بھی اسلام قبول کرلیاتھا ،جس نے وحشی بن حرب کوآزادی کالالچ دے کرقتل پرآمادہ کیاتھا،ان کے ساتھ بھی وحشی بن حرب جیسا سلوک نہیں کیا گیاکیونکہ ان کاجرم وحشی بن حرب سے کمترتھا،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرمادیا۔

xفتح مکہ کے موقع پرابوسفیان کی بیوی ہندنے (جن پرالزام ہے کہ انہوں نے ہی اپنے غلام وحشی بن حرب کوآزادی کے بدلے میں حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے قتل پرآمادہ کیا تھااور ان کی شہادت کے بعدان کی لاش کامثلہ کیاتھااورجگرچبایاتھا) اسلام قبول کرلیا،اس روایت کے مطابق اصل مجرم یہی تھیں مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ وحشی بن حرب جیساسلوک نہیں کیا،اورنہ کوئی تنبیہ فرمائی، کیونکہ ان کی طرف اس طرح کی کوئی کہانی منسوب نہ تھی،بیت کے بعدہند رضی اللہ عنہا نے صاف اورواضح الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرواپنی گزشتہ اورموجودہ قلبی کیفیت کابرملااظہارکرتے ہوئے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !زمین پرجتنے خیمے والے بستے ہیں ان میں آپ سے زیادہ میری نظروں میں کوئی ذلیل نہ تھا،لیکن اب روئے زمین کے تمام بسنے والوں میں مجھے آپ سے زیادہ کوئی عزیزنہیں ہے،اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کی قبضہ میں میری جان ہے! میرابھی یہی حال ہے،اب غورکریں اگرکوئی کہانی ان سے منسوب ہوتی، توکیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی فہمائش کرنے کے بجائے اللہ کی قسم اٹھاکرمحبت کا اظہارفرماتے۔

x صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جواس غزوہ میں شریک تھے ان میں سے کوئی ایک فردبھی اس واقعہ کی جانب اشارہ تک نہیں کرتاکہ کس نے کس کامثلہ کیاتھا،اورنہ ہی اس وقت کوئی ایسی حرکت کودیکھنے والاتھا،کیونکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپروانوں کی طرح گھیرے میں لیکرگھاٹی میں چلے گئے تھے،اس طرح مشرک مردوں اورعورتوں میں وہ لوگ جوبعد میں مشرف باسلام ہوئے مثلاًعورتوں میں ہند رضی اللہ عنہا ، ام حکیم رضی اللہ عنہا بنت الحارث بن ہشام، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت الولید بن مغیرہ،اورمردوں میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ ،عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل، حارث رضی اللہ عنہ بن ہشام، خالد رضی اللہ عنہ بن ولید، عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص، صفوان رضی اللہ عنہ بن امیہ اوروحشی رضی اللہ عنہ بن حرب یہ سب جنگ احدکے چشم دیدگواہ ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی بھی ہند رضی اللہ عنہا کی اس کہانی کوبیان نہیں کرتا، ہاں جنگ کے خاتمہ پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اس بات کااقرارضرورکیاتھا

إِلَّا أَنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِی قَتْلَاكُمْ شَیْئًا مِنْ مُثْلَةٍ، وَإِنِّی لَمْ آمُرْ بِذَلِكَ، وَلَمْ أَكْرَهْهُ

ہمارے کچھ افرادنے لاشوں کامثلہ کیاہے لیکن میں نے نہ تواس کاحکم دیاتھااورنہ یہ بات مجھے بری معلوم ہوئی۔

یعنی مثلہ کرنے والے مردبھی تھے اورعورتیں بھی تھیں ،اب کس نے کس لاش کے ساتھ کیساسلوک کیاتھاان شاہدین میں سے کوئی کچھ بیان نہیں کرتا۔

ان باتوں سے تویہی نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ ہندکے بارے میں کہانی واضح کی گئی تاکہ یہ تخیل پیداکیاجاسکے کہ بنوامیہ کوبنوہاشم سے پرانی رقابت تھی اوراسی لئے بنی امیہ اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہے،حالانکہ سابقون اولالون میں سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ، خالد رضی اللہ عنہ بن ابی العاص، سعید رضی اللہ عنہ بن ابی العاص وغیرہ سب اموی تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین صاحبزادیوں کانکاح امویوں سے کیا،آپ کی ازواج میں ایک زوجہ ام حبیبہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں ،جبکہ خاندان بنوہاشم میں سے کسی عورت کو آپ کی زوجیت کاشرف حاصل نہ ہوسکااگریہ عدوات ہے توپھرمحبت کس چیزکانام ہے۔

مشرکین کی واپسی:

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشرکین مکہ کاگھیراتوڑکراوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے گھیرے میں لیکراپنے کیمپ تک پہنچ گئے تو جنگ رک گئی،عین اس موقعے پرجب دشمن اپنے آپ کوفاتح ومنصورسمجھ رہاتھاابی بن خلف کاقتل اورخالدبن ولیدجیسے جرنیل کی پسپائی معمولی واقعہ نہیں ہے ،اس نے دشمن کی اخلاقی قوت پریقیناًاثرکیاہوگا،مگرکیاصرف ابی بن خلف کے قتل اورخالدبن ولیدکی پسپائی کی وجہ سے وہ واپس جانے پرمجبورہوگئے ،جبکہ مجاہدین اس قدرپراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا پھرمجتمع ہوکرجنگ کرنامشکل تھا،اگرکفاراپنی فتح کوکمال تک پہنچانے پراصرارکرتے توان کی کامیابی بعیدنہ تھی ،مگریہ ایک معماہے کہ کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑکرواپس چلے گئے ،بعض کاخیال ہے کہ ابوسفیان کو خوف محسوس ہواکہ اگرمسلمانوں کومدینہ سے کمک پہنچ گئی تووہ کہیں غزوہ بدرکی طرح پھربازی نہ ہاردے، اوراہل مکہ کومنہ دکھانے کے قابل نہ ہو سکے ،اس لئے نہ تو انہوں نے کسی مسلمان کو قید کیانہ ہی مال غنیمت لوٹا،اورنہ ہی انہیں چندمیل کے فاصلے پرمدینہ منورہ پرحملہ کی ہی جرات ہوسکی

ثُمَّ صَرَخَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ، أنعمت فعال إِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ، یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، اعْلُ هُبَل

بس وہ پہاڑپرچڑھ کر باآواز بلند بولا آج بہت اچھا کام ہواہے ،لڑائی ڈول کے برابررہی ہے اورآج کی جنگ بدرکی جنگ کاجواب ہے،اورپھراپنے معبودکانعرہ لگایاہبل تیری شان بلندہو۔[3]

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَقِینَا المُشْرِكِینَ یَوْمَئِذٍ، وَأَجْلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَیْشًا مِنَ الرُّمَاةِ، وَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ، وَقَالَ:لاَ تَبْرَحُوا، إِنْ رَأَیْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَیْهِمْ فَلاَ تَبْرَحُوا، وَإِنْ رَأَیْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَیْنَا فَلاَ تُعِینُونَا فَلَمَّا لَقِینَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَیْتُ النِّسَاءَ یَشْتَدِدْنَ فِی الجَبَلِ، رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ، قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ، فَأَخَذُوا یَقُولُونَ: الغَنِیمَةَ الغَنِیمَةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: عَهِدَ إِلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَ تَبْرَحُوا، فَأَبَوْا، فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ، فَأُصِیبَ سَبْعُونَ قَتِیلًا، وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: أَفِی القَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ:لاَ تُجِیبُوهُ فَقَالَ: أَفِی القَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَةَ؟ قَالَ:لاَ تُجِیبُوهُ فَقَالَ: أَفِی القَوْمِ ابْنُ الخَطَّابِ؟ فَقَالَ: إِنَّ هَؤُلاَءِ قُتِلُوا، فَلَوْ كَانُوا أَحْیَاءً لَأَجَابُوا، فَلَمْ یَمْلِكْ عُمَرُ نَفْسَهُ،

براء بن عازب رضی اللہ عنہ مروی ہے اس جنگ میں ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے، ابوسفیان نے پہاڑی پرسے آوازدی کیاتمہارے ساتھ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو جواب نہ دو (کیونکہ جواب نہ دینے میں بے اعتنائی اوراس کی تذلیل منظور تھی )اس نے پھرکہاکیاتمہارے ساتھ ابن قحافہ(سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ )موجود ہیں ؟(کیونکہ کفاراس وقت بڑے مشتعل تھے اور مسلمانوں خصوصاً اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں دیوانے ہورہے تھے،اس لئے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کوجواب نہ دو، پھراس نے کہاکیاتمہارے ساتھ ابن خطاب (سیدناعمر رضی اللہ عنہ )موجود ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوجواب نہ دو،مسلمانوں کی طرف سے خاموشی دیکھ کر اس نے کہایہ تینوں قتل ہوگئے ہیں ،اگرزندہ ہوتے توجواب دیتے،

فَقَالَ: كَذَبْتَ یَا عَدُوَّ اللَّهِ، أَبْقَى اللَّهُ عَلَیْكَ مَا یُخْزِیكَ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: اعْلُ هُبَلُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَجِیبُوهُ قَالُوا: مَا نَقُولُ؟ قَالَ:قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: لَنَا العُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَجِیبُوهُ قَالُوا: مَا نَقُولُ؟ قَالَ:قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا، وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، وَالحَرْبُ سِجَالٌ، وَتَجِدُونَ مُثْلَةً، لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِی

ابوسفیان کی یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برداشت نہ کرس (اوراسلام کی شجاعت اوربسالت کااظہارکیا) اوربولے،اے اللہ کے دشمن!جھوٹ کہتے ہواللہ نے ابھی انہیں تمہیں ذلیل کرنے کے لئے باقی رکھاہے،پھرابوسفیان اپنے معبود ہبل کی بڑائی کاترانہ گانے لگا،(جب ابوسفیان نے اپنے بتوں کانام فخرومباہات سے اچھالااورشرک کا برملا اظہار کیا تو توحیدکی عظمت کے پیش نظر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایااس کوجواب کیوں نہیں دیتے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کیاجواب دیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اپنے رب حقیقی اورمعبودبرحق کی قوت کااعلان کرو)تم کہواللہ تعالیٰ ہی بلند اور بزرگ ترہے،ابوسفیان نے کہاہماری عزیٰ دیوی ہے، اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوجواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کیاجواب دیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم کہواللہ تعالیٰ ہمارامولیٰ ہے اورتمہاراکوئی مولیٰ نہیں ،ابوسفیان نے کہاآج کی جنگ بدرکی جنگ کاجواب ہے اورہمارے درمیان لڑائی ڈول کی طرح برابرہے،تم اپنی لاشوں کامثلہ کیا ہوا پاؤ گےاس کامیں نے حکم نہیں دیااورمجھے یہ ناگوار بھی نہیں گزرا۔[4]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، الْأَیَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ.قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا سَوَاءً، قَتْلانَا فِی الْجَنَّةِ، وَقَتْلاكُمْ فِی النَّارِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے ابوسفیان نے کہا آج کی جنگ بدرکی جنگ کاجواب ہے، اورلڑائی ہمارے اورتمہارے درمیان ڈول کی طرح برابرہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ،برابر نہیں ، ہمارے مقتول جنت میں ہیں اورتمہارے مقتول جہنم میں ہیں ۔[5]

فَلَمَّا قَالَ: اعْلُ هُبَلُ، قَالَ عُمَرُ: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ. فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، الْأَیَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ ،قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا سَوَاءً، قَتْلانَا فِی الْجَنَّةِ، وَقَتْلاكُمْ فِی النَّارِ. قَالَ: إِنَّكُمْ لَتَزْعُمُونَ ذَلِكَ، لَقَدْ خِبْنَا إِذَنْ وَخَسِرْنَا.

ایک روایت میں جب ابوسفیان نے اپنے معبود ہبل کی بڑائی کاترانہ گانے لگاتوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ تعالیٰ ہی بلند اور بزرگ ترہے،توابوسفیان نے کہاآج کی جنگ بدرکی جنگ کاجواب ہے ، اورلڑائی ڈول کی طرح برابر ہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیانہیں برابرنہیں ہے،ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے جہنم میں ،ابوسفیان نے کہایہ محض تمہاراخیال ہے اگریہ صحیح ہے توہم توپھرگھاٹے اورنقصان میں رہے۔ [6]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا سَوَاءً، أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْیَاءٌ یُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاكُمْ فِی النَّارِ یُعَذَّبُونَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے ابوسفیان کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ ہمارے اورتمہارے درمیان لڑائی برابرنہیں ہے،ہمارے مقتول زندہ ہیں اوراپنارزق کھارہے ہیں ، اورتمہارے مقتول جہنم میں جل رہے ہیں ۔[7]

وَلَمَّا انْصَرَفَ أَبُو سُفْیَانَ وَمَنْ مَعَهُ، نَادَى: إنَّ مَوْعِدَكُمْ بَدْرٌ لِلْعَامِ الْقَابِلِ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلِ مِنْ أَصْحَابِهِ: قُلْ: نَعَمْ، هُوَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ مَوْعِدٌ

جب ابوسفیان اوراس کے ساتھی واپس جانے لگے تواس نے اعلان کیاکہ تم سے آئندہ سال بدرکے مقام پرلڑائی ہوگی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک آدمی کوحکم دیاکہوبہت اچھا ہمارے اورتمہارے درمیان لڑائی کی وہ جگہ مقرر ہو چکی ۔[8]

ابوسفیان کے اس نوٹس سے مسلمانوں کوان سے مقابلہ کے لئے جنگی تیاریوں کوتیزکرنے اوران پرغلبہ حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوا۔

صورت حال کی تحقیق :

ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ: اخْرُجْ فِی آثَارِ الْقَوْم وَانْظُر مَاذَا یَصْنَعُونَ وَمَا یُرِیدُونَ، فَإِنْ كَانُوا قَدْ جَنَّبُوا الْخَیْلَ وَامْتَطُوا الْإِبِلَ فَإِنَّهُمْ یُرِیدُونَ مَكَّةَ، وَإِنْ رَكِبُوا الْخَیْلَ وَسَاقُوا الْإِبِلَ فَهُمْ یُرِیدُونَ الْمَدِینَةَ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنْ أَرَادُوهَا لَأَسِیرَنَّ إِلَیْهِمْ فِیهَا ثُمَّ لَأُنَاجِزَنَّهُمْ، قَالَ عَلِیٌّ: فَخَرَجْتُ فِی أَثَرِهِمْ أَنْظُرُ مَاذَا یَصْنَعُونَ، فَجَنَّبُوا الْخَیْلَ وامتطوا الابل ووجهوا إِلَى مَكَّة

اہل مکہ کی واپسی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوبھیجاکہ ان کے پیچھے جاؤاوردیکھوکہ انہوں نے کدھرکاارادہ کیاہے،اگروہ گھوڑوں کی بجائے اونٹوں پر سوار ہوئے تواس کاارادہ مکہ جانے کاہے،اوراگروہ گھوڑوں پرسوارہیں اوراونٹوں کوپہلومیں خالی لئے جارہے ہیں توان کاارادہ مدینہ منورہ جانے کاہے،اللہ کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگرانہوں نے مدینہ جانے کاارادہ کیاتومیں وہاں جاکرضروران کا مقابلہ کروں گا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں یہ دیکھنے کے لئے ان کے پیچھے گیاکہ ان کا کدھر کا ارادہ ہے؟میں نے دیکھاکہ وہ گھوڑوں سے اترکراونٹوں پرسوارہوگئے ہیں اورمکہ کی طرف لوٹ گئے ہیں ،

وقد كان رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَیَّ ذَلِكَ كَانَ فَأَخْفِهِ حَتَّى تَأْتِیَنِی قال على : فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ قَدْ تَوَجَّهُوا إِلَى مَكَّةَ أَقْبَلْتُ أَصِیحُ، مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَكْتُمَ الَّذِی أَمَرَنِی به رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَا بِی مِنَ الْفَرَحِ، إِذْ رَأَیْتُهُمْ انْصَرَفُوا إِلَى مَكَّةَ عَنِ الْمَدِینَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہدایت کی تھی کہ جوکچھ تم دیکھوجب تک میرے پاس نہ آجاؤہرگزکسی سے بیان نہ کرنامگرجب میں نے ان کومکہ جاتے دیکھ لیاتومیں اس خبرکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے باوجوداس خوشی کی وجہ سے کہ میں نے ان کوبجائے مدینہ منورہ جانے کے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے دیکھاتھاچھپانہ سکااورمیں چلاتاہواآپ کے پاس آیا۔[9]

ان کے چلے جانے کے بعدمسلمان شہداء کی تجہیزوتکفین کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی اپنی میتوں کومدینہ منتقل کرنے لگے ،

وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِمْ وَلَمْ یُغَسَّلُوا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاجو جہاں فوت ہواہے اس کووہیں خون میں لت پت کپڑوں سمت دفن کردو،آپ نے نہ ان کی نمازجنازہ پڑھی اورنہ انہیں غسل دیاگیا۔[10]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رب کے حضوردعاگوئی :

عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِیِّ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ أُحُدٍ وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِیَ عَلَى رَبِّی، فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا،

عبیدبن رفاعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب مشرکین مکہ واپس لوٹ گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کورب کے حضوردعاکرنے کے لئے صفیں سیدھی کرنے کاحکم فرمایا انہوں نے تعمیل حکم میں فورا ًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں سیدھی کرلی،

فَقَالَ:اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِیَ لِمَا أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَیْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لَا یَحُولُ وَلَا یَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ یَوْمَ الْعَیْلَةِ وَالْأَمْنَ یَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیمَانَ وَزَیِّنْهُ فِی قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَیْنَا الْكُفْرَ، وَالْفُسُوقَ، وَالْعِصْیَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِینَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ، وَأَحْیِنَا مُسْلِمِینَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا مَفْتُونِینَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ یُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَیْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَهَ الْحَقِّ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعافرمائی اے اللہ!ساری حمدوثناتیرے لئے ہے،اے اللہ جس چیز کو تو کشادہ کردے اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا،اورجس چیزکوتوتنگ کردے اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا،جس شخص کوتوگمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں سے سکتا،اورجس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا،جس چیزکوتوروک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا،اورجوچیزتودے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا،جس چیزکوتودورکردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا،اورجس چیزکوتوقریب کردے اسے کوئی دورنہیں کرسکتا،اے اللہ!ہمارے اوپراپنی برکتیں ورحمتیں اورفضل ورزق پھیلادے،اے اللہ!میں تجھ سے برقراررہنے والی نعمت کاسوال کرتاہوں جونہ ٹلے اورنہ ختم ہو،اے اللہ!میں تجھ سے فقر دن مددکااورخوف کے دن امن کاسوال کرتاہوں ،اے اللہ!جوکچھ تونے ہمیں عنایت کیاہے اس کے شرسےاورجوکچھ نہیں دیاہے اس کے بھی شرسے تیری پناہ چاہتاہوں ،اے اللہ!ہمارے نزدیک ایمان کومحبوب کردے، اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنمابنادے، اورکفروفسق اورنافرمانی کوناگواربنادے، اورہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے،اے اللہ!ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے موت دے اورمسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ، اوررسوائی اورفتنے سے دوچار کیے بغیرصالحین میں شامل فرما،اے اللہ!توان کافروں کوماراوران پرسختی اورعذاب کرجوتیرے پیغمبرکوجھٹلاتے اورتیری راہ سے روکتے ہیں اور ان پر عذاب کو مسلط کر دے،اے اللہ!ان کافروں کوبھی مارجنہیں کتاب دی گئی ہے۔[11]

یدبن رفاعہ الزرقی رضی اللہ عنہ مروی تب آپ نے یوں دعافرمائی ،

اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِیَ لِمَا أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللهُمَّ ابْسُطْ عَلَیْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لَا یَحُولُ وَلَا یَزُولُ، اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ یَوْمَ الْعَیْلَةِ وَالْأَمْنَ یَوْمَ الْخَوْفِ، اللهُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ، اللهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیمَانَ وَزَیِّنْهُ فِی قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَیْنَا الْكُفْرَ، وَالْفُسُوقَ، وَالْعِصْیَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِینَ، اللهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ، وَأَحْیِنَا مُسْلِمِینَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا مَفْتُونِینَ، اللهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ یُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَیْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَهَ الْحَقِّ

’’اے اللہ !ساری حمدوثناتیرے لئے ہے ،اے اللہ جس چیزکوتوکشادہ کردے اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا،اورجس چیزکوتوتنگ کردے اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا،جس شخص کوتوگمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتااورجس شخص کوتوہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا،جس چیزکوتوروک لے ،اسے کوئی دے نہیں سکتااورجوچیزتودے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا،جس چیزکوتودورکردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتااورجس چیزکوتوقریب کردے اسے کوئی دورنہیں کرسکتا،اے اللہ ،ہمارے اوپراپنی برکتیں ورحمتیں اورفضل ورزق پھیلادے ،اے اللہ میں تجھ سے برقراررہنے والی نعمت کاسوال کرتاہوں جونہ ٹلے اورنہ ختم ہو،اے اللہ ،میں تجھ سے فقرکے دن مددکااورخوف کے دن امن کاسوال کرتاہوں ،اے اللہ،جوکچھ تونے ہمیں عنایت کیاہے اس کے شرسے اورجوکچھ نہیں دیاہے اس کے بھی شرسے تیری پناہ چاہتاہوں ،اے اللہ،ہمارے نزدیک ایمان کومحبوب کردے اوراسے ہمارے دلوں میں خوشنمابنادے اورکفروفسق اورنافرمانی کوناگواربنادے اورہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے ،اے اللہ ،ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے موت دے اورمسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ اوررسوائی اورفتنے سے دوچارکیے بغیرصالحین میں شامل فرما،اے اللہ،توان کافروں کوماراوران پرسختی اورعذاب کرجوتیرے پیغمبرکوجھٹلاتے اورتیری راہ سے روکتے ہیں ،اے اللہ،ان کافروں کوبھی مارجنہیں کتاب دی گئی ۔‘‘[12]

بعد ازاں آپ نے وضوفرمایا

 أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ یَوْمَ أُحُدٍ قَاعِدًا مِنْ الْجِرَاحِ الَّتِی أَصَابَتْهُ، وَصَلَّى الْمُسْلِمُونَ خَلْفَهُ قُعُودًا

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبیٹھ کرظہرکی نمازپڑھائی ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بیٹھ کرآپ کے پیچھے نمازپڑھی ۔[13]

سعدبن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ وامن ہرصورت میں اپنے اصحاب حالات دریافت فرماتے تھےاوران کی خبرگیری کاغایت درجہ اہتمام فرماتے تھے،ادھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ اورفوق العادت محبت رکھتے ،اوراپنی زندگی کی آخری رمق تک بھی آپ کی حفاظت کرتے تھے اورہراس خطرہ کالحاظ رکھتے تھے جس سے آپ کوکوئی ادنیٰ گزندبھی پہنچ سکتاہو،مکی لشکرکی واپسی کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ نظرنہ آئے توآپ نے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ (حاکم)یاابی بن کعب(حافظ ابن عبدالبر)یامحمدبن مسلمہ(واقدی)کوحکم دیاکوئی ایساشخص ہے جوسعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کی خبرمجھے لادے کہ وہ زندہ ہیں یامردہ ،انصارمیں سے ایک شخص نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں جاتاہوں اوردیکھتاہوں کہ سعد رضی اللہ عنہ کہاں ہیں ؟پھریہ انصاری سعد رضی اللہ عنہ کومقتولوں میں تلاش کرتے ہوئے آئے تودیکھاکہ سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہیں اوران کے جسم میں کچھ سانسیں باقی ہیں ،حالت یہ تھی کہ پوراجسم زخموں سے چھلنی تھا،ان کے جسم پرتیروتلوارکے سترسے زیادہ زخم تھے ،میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام پہنچایاپیغام سن کرسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا،

 فَأَبْلِغْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِّی السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: إنَّ سَعْدَ بْنَ الرَّبِیعِ یَقُولُ لَكَ: جَزَاكَ اللهُ عَنَّا خَیْرَ مَا جَزَى نَبِیًّا عَنْ أُمَّتِهِ،

تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام کہنااورکہناکہ سعدبن ربیع عرض کرتاہے کہ اللہ آپ کوہماری طرف سے ایسی جزائے خیردے جوکسی نبی کواس کی امت کی طرف سے نہ دی ہو

وَأَبْلِغْ قَوْمَكَ عَنِّی السَّلَامَ وَقُلْ لَهُمْ: إنَّ سَعْدَ ابْن الرَّبِیعِ یَقُولُ لَكُمْ: إنَّهُ لَا عُذْرَ لَكُمْ عِنْدَ اللهِ إنْ خَلُصَ إلَى نَبِیِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْكُمْ عَیْنٌ تَطْرِفُ قَالَ: ثُمَّ لَمْ أَبْرَحْ حَتَّى مَاتَ،

اورپھراپنی قوم کومیری طرف سے سلام کہنااورکہناکہ سعدبن ربیع تم سے کہتاہےکہ اگرتم لوگوں میں سے ایک شخص بھی زندہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودشمن کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف پہنچی تویادرکھنااللہ تعالیٰ کے پاس تمہاراکوئی عذرقابل قبول نہیں ہوگا،یعنی اگرتم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہوتواس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرنی چاہئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونقصان نہیں پہنچنے دیناچاہئے،محبت وجانثاری کی یہ الفاظ اداکرتے ہی ان کی روح رب کی جنتوں کی طرف پروازکرگئی[14]ایک اورروایت میں ہے کہ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع کردیناکہ یہ میراآخری وقت ہے اورسعدیہ کہتاتھااے اللہ کے رسول ،اللہ آپ کو ہماری اور تمام امت کی طرف سے جزائے خیرعنایت کرے کہ آپ نے ہمیں راستی کاراستہ دکھایا،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کی طرف سے واپس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبردی،جسے سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ اس پررحم کرے ،وہ زندگی میں بھی اورمرتے وقت بھی اللہ اوراس کے رسول کاخیرخواہ رہا(  )

عمرو رضی اللہ عنہ بن جموع کی شہادت :

مشرکین کے پسپاہونے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان احدکاچکرلگایا، عمروبن جموع رضی اللہ عنہ کی خاک وخون میں لتھڑی لاش کودیکھ کرفرمایا

لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لأَبَرَّهُ,مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ،وَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یَطَأُ بِعَرَجَتِهِ فِی الْجَنَّةِ

اللہ کے بندے جب اللہ کی قسم کھاتے ہیں تواللہ ان کی قسم کو ضرور پورا کر دیتاہے ، عمرو رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی بندوں میں شمارہیں میں انہیں جنت میں لنگڑے پاؤں سے چلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔[15]

اس لڑائی میں عمروبن جموع رضی اللہ عنہ برادرنسبتی نقیب محمدی عبداللہ بدری رضی اللہ عنہ اوربیٹے خلادبدری رضی اللہ عنہ نے بھی شہادت پائی تھی ،جب عمروبن جموع رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہندہ بنت عمروبن حرام رضی اللہ عنہ کو بتلایا گیا کہ ان کا جلیل القدرخاوند عمروبن جموع رضی اللہ عنہ شہیدہوگئے ہیں توانہوں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیروعافت معلوم کی ،پھرانہیں بتایاگیاکہ انکابھائی بھی شہیدہوگیاہے، تو تب بھی انہوں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیروعافت ہی معلوم کی ، پھرانہیں بتایاگیاکہ انکا بیٹا بھی شہیدہوگئے ہیں ،توانہوں نے ان سب کی شہادت کاسن کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیروعافیت کامعلوم کیا

حَتَّى إِذَارَأَتْهُ قَالَتْ كُلّ مُصِیبَةٍ بَعْدَك جَلَلٌ تُرِیدُ صَغِیرَةً

جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتوبولیں ، آپ سلامت ہیں توآپ بعدہرمصیبت چھوٹی ہے،یعنی سب سے زیادہ ہم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت وسلامتی مطلوب ہے۔[16]

ہند رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ اونٹ لے کرآئیں تھیں ، اس پراپنے شوہر،بھائی اور فرزندکی لاشیں لادکرمدینہ کی طرف روانہ ہونے لگیں مگراونٹ راستے بیٹھ گیا،انہوں نے بہت مشکل سے اٹھایالیکن اونٹ نے مدینہ طیبہ کی طرف ایک قدم نہ اٹھایا،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاشایدوزن زیادہ ہے ، ہند رضی اللہ عنہا نے جواب دیاجی نہیں !اس پرتواس سے زیادہ بوجھ لاداجاتاہے ،انہوں نے اونٹ کارخ احدکے میدان کی طرف کیاتووہ فوراًچل پڑا، ہند رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواونٹ کے بارے میں بتلایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیاانہوں نے چلتے وقت کچھ کہاتھا؟اس پرہند رضی اللہ عنہا نے کہاجی ہاں !انہوں نے چلتے وقت دعاکی تھی

اللهُمَّ ارْزُقْنِی الشَّهَادَةَ، وَلا تَرُدَّنِی إِلَى أَهْلِی خَائِبًا ،وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لأَبَرَّهُ، مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ

اےاللہ! مجھے شہادت نصیب فرمانا،مجھے میرے اہل وعیال میں واپس نہ لانا،یہ سن کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےانصار میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگرکسی بات پرقسم کھالیں تواللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کردیں ،عمروبن جموع رضی اللہ عنہ ایسے ہی تھے[17]

اس کے بعدان تینوں کواحدکے شہدوں کے درمیان دفن کر دیا گیا۔

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ یَوْمَئِذٍ، حِینَ أَمَرَ بِدَفْنِ الْقَتْلَى: اُنْظُرُوا إلَى عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، فَإِنَّهُمَا كَانَا مُتَصَافِیَیْنِ فِی الدُّنْیَا، فَاجْعَلُوهُمَا فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجب شہداکودفن کرنے کاحکم فرمایاتوعمروبن جموع رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عمروبن حرام کودیکھ کر فرمایایہ دنیامیں اچھے دوست تھے، اس لیے انہیں ایک ہی قبرمیں دفن کردو،چنانچہ عبداللہ بن عمروبن حرام اور عمروبن جموع رضی اللہ عنہ کوایک ہی قبرمیں دفن کیاگیا۔[18]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے لئے دعاکی۔

عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کاجذبہ شہادت :

وَكَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ یُحَدّثُ أَنّهُ لَقِیَهُ یَوْمَ أُحُدٍ أَوّلَ النّهَارِ فَخَلَا بِهِ وَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ یَا سَعْدُ هَلُمّ فَلْنَدْعُ اللهَ وَلِیَذْكُرَ كُلّ وَاحِدٍ مِنّا حَاجَتَهُ فِی دُعَائِهِ وَلَیُؤَمّنّ الْآخَرُ ، قَالَ سَعْدٌ فَدَعَوْت اللهَ أَنْ أَلْقَى فَارِسًا شَدِیدًا بَأْسُهُ شَدِیدًا حَرْدُهُ مِنْ الْمُشْرِكِینَ فَأَقْتُلُهُ وَآخُذُسَلَبَهُ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ آمِنْ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے احدکے دن جنگ شروع ہونے سے پہلے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک طرف بلاکر کہا آؤ ہم دونوں علیحدہ بیٹھ کررب کے حضوردعامانگیں اورایک دوسرے کی دعاپرآمین کہیں ،سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ہم دونوں ایک گوشہ میں جاکربیٹھ گئے ، سب سے پہلے میں نے اس طرح دعامانگی ،اے اللہ !میراآج ایسے دشمن سے مقابلہ ہوجونہایت دلیروبہادرہو،میں غضبناک ہوکراس کامقابلہ کروں اوروہ میرامقابلہ کرے ،پھرتومجھے اس پرفتح نصیب فرما یہاں تک کہ میں اس کوقتل کردوں اور اس کاسامان چھین لوں ،جب میں نے دعاختم کی تو عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے آمین کہی،

ثُمّ اسْتَقْبَلَ عَبْدُ اللهِ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ یَدَیْهِ إلَى السّمَاءِ وَقَالَ اللهُمّ لَقّنِی الْیَوْمَ فَارِسًا شَدِیدًا بَأْسُهُ شَدِیدًا حَرْدُهُ یَقْتُلُنِی وَیَجْدَعُ أَنْفِی وَأُذُنِی، فَإِذَا لَقِیتُك غَدًا تَقُولُ لِی: یَا عَبْدِی: فِیمَ جُدِعَ أَنْفُك وَأُذُنَاك، فَأَقُولُ فِیك یَا رَبّ وَفِی رَسُولِك، فَتَقُولُ لِی: صَدَقْت

پھرعبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپناچہرہ کعبہ کی طرف کیااورہاتھ اٹھاکریوں دعاکی اے اللہ آج میرا ایسے دشمن سے مقابلہ ہوجوبڑاسخت جان،زورآوراورغضبناک ہو،میں صرف اورصرف تیرے دین کی سربلندی کے لئے اس سے قتال کروں اوروہ مجھ سے قتال کرے اور بالآخر وہ مجھے قتل کرکے میری ناک اورکان کاٹے،اوراے میرے رب!جب میں تجھ سے اس حال میں ملوں توتومجھ سے دریافت کرے اے عبداللہ رضی اللہ عنہ ! تیرے کان اور ناک کہاں گئے ، اور میں تیرے حضورعرض کروں اے اللہ!وہ تیری اورتیرے پیغمبرکی راہ میں قربان ہوگئے،میری اس عرض پر میرے رب تویہ فرمائے اے عبداللہ رضی اللہ عنہ تونے سچ کہا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کی اس دعاپرآمین کہی۔[19]

قال سعد: كانت دعوته خیرًا من دعوتی, لقد رأیته أخیر النهار، وأنَّ أنفه وأنه معلقان فی خیط

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کابیان ہےان کی دعامیری دعاسے کہیں بہترتھی میں نے جب میدان جنگ میں ان کو دیکھا تو(ان کی خواہش کے مطابق)ان کی ناک اورکان کٹے ہوئے اور ایک دھاگے میں معلق تھے۔[20]

سعدبن وقاص رضی اللہ عنہ کابیان ہے اللہ نے میری دعابھی قبول فرمائی

وَلَقِیت أَنَا فُلَانًا مِنْ الْمُشْرِكِینَ فَقَتَلْته، وَأَخَذْت سَلَبَهُ

میں نے ایک بہت بڑے کافرکوقتل کیااوراس کاسامان چھینا[21]

اورایک مرسل روایت میں سعدبن مسیب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

وَقَالَ عبد الله بن جحش فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ: اللهُمَّ إِنِّی أُقْسِمُ عَلَیْكَ أَنْ أَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا فَیَقْتُلُونِی، ثُمَّ یَبْقُرُوا بَطْنِی، وَیَجْدَعُوا أَنْفِی، وَأُذُنِی، ثُمَّ تَسْأَلُنِی: فِیمَ ذَلِكَ فَأَقُولُ فِیكَ

عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے یوں دعامانگی تھی اے اللہ !میں تجھے قسم دیتاہوں کہ میں تیرے دشمنوں کامقابلہ کروں ،وہ مجھے قتل کردیں اورمیراسینہ چاک کردیں ،میری ناک اورکان کاٹیں ،پھرجب میں تجھ سے ملوں اوردریافت کرے کہ یہ کیوں ہواتومیں عرض کروں اے اللہ صرف تیری خاطر۔[22]

قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَبَرَّ الله آخِرَ قَسَمِهِ كَمَا أَبَرَّ أَوَّلَهُ

سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اللہ سے امیدکرتاہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کی دعاقبول فرمائی اس طرح دوسری دعابھی قبول فرمائے گا۔[23]

اسی وجہ سے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ مُجَدَّع فِی اللهَ وہ شخص جس ناک اورکان اللہ کی راہ میں کاٹے گئے کے لقب سے مشہور ہوئے ۔

سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کی شہادت :

وَقَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ أَطْلُبُ سَعْدَ بْنَ الرَّبِیعِ، فَقَالَ لِی: إِنْ رَأَیْتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: یَقُولُ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَیْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: فَجَعَلْتُ أَطُوفُ بَیْنَ الْقَتْلَى فَأَتَیْتُهُ، وَهُوَ بِآخِرِ رَمَقٍ، وَفِیهِ سَبْعُونَ ضَرْبَةً، مَا بَیْنَ طَعْنَةٍ بِرُمْحٍ، وَضَرْبَةٍ بِسَیْفٍ، وَرَمْیَةٍ بِسَهْمٍ، فَقُلْتُ: یَا سعد، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ عَلَیْكَ السَّلَامَ، وَیَقُولُ لَكَ: أَخْبِرْنِی كَیْفَ تَجِدُكَ؟

زیدبن ثابت سے مروی ہےغزوہ احدکے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سعدبن ربیع کی خبرلانے کے لئے بھیجا،اورمجھے فرمایااگرتم اسے پاؤتواسے میراسلام کہنا،اوراس سے کہنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرمارہے ہیں کہ تمہاراکیاحال ہے؟فرماتے ہیں میں مقتولوں میں انہیں تلاش کرنے لگا اورآخرانہیں دیکھ لیا،وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، اوران کے جسم پرتیروں ،نیزوں اورتلواروں کے سترزخم تھے،میں نے کہااے سعد رضی اللہ عنہ !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام بھیجاہے، اورپوچھاہے کہ تمہاراکیاحال ہے ؟

فَقَالَ: وَعَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامُ، قُلْ لَهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَجِدُ رِیحَ الْجَنَّةِ، وَقُلْ لِقَوْمِیَ الْأَنْصَارِ: لَا عُذْرَ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ إِنْ خُلِصَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِیكُمْ عَیْنٌ تَطْرِفُ، وَفَاضَتْ نَفْسُهُ مِنْ وَقْتِهِ .

انہوں نے جواب دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیراسلام کہنا،اورانہیں عرض کرنااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں جنت کی خوشبوسونگھ رہاہوں ،اورمیری قوم انصارسے کہناکہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی تکلیف پہنچی، اورتم میں ایک آنکھ بھی جھپکنے والی باقی ہوئی، تویادرکھواللہ کی بارگاہ میں تمہارا کوئی عذرقابل قبول نہیں ہوگا،اس کے بعدان کی روح پروازکرگئی ۔[24]

فَرَجَعْت إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْته، فَرَأَیْت رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ رَافِعًا یَدَیْهِ یَقُولُ: اللهُمّ الْقَ سَعْدَ بْنَ الرّبِیعِ وَأَنْتَ عَنْهُ رَاضٍ!

زیدبن ثابت کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچااورسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کاپوراواقعہ گوش گزارکردیا،میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاقبلہ رخ ہوکرہاتھ اٹھادیئے، اوربڑی دلسوزی سے دعاکی اے اللہ!سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ سے خوش ہوکرملنا۔[25]

 عمرو رضی اللہ عنہ بن ثابت کی شہادت :

وكان یلقب أصیرم ، كَانَ یَأْبَى الْإِسْلَامَ عَلَى قَوْمِهِ.فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى أُحُدٍ، بَدَا لَهُ فِی الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ أَخَذَ سَیْفَهُ، فَعَدَا حَتَّى دَخَلَ فِی عُرْضِ النَّاسِ، فَقَاتَلَ حَتَّى أَثْبَتَتْهُ الْجِرَاحَة،قَالَ: فَبَیْنَا رِجَالٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ یَلْتَمِسُونَ قَتَلَاهُمْ فِی الْمَعْرَكَةِ إذَا هُمْ بِهِ، فَقَالُوا: وَاَللَّهِ إنَّ هَذَا لَلْأُصَیْرِمُ، مَا جَاءَ بِهِ؟ لَقَدْ تَرَكْنَاهُ وَإِنَّهُ لِمُنْكِرٍ لِهَذَا الْحَدِیثَ، فَسَأَلُوهُ مَا جَاءَ بِهِ، فَقَالُوا: مَا جَاءَ بِكَ یَا عَمْرُو؟ أَحَدَبٌ عَلَى قَوْمِكَ أَمْ رَغْبَةً فِی الْإِسْلَامِ؟

عمروبن ثابت کالقب اصیرم تھا،احدکی دن تک یہ اسلام سے منحرف ہی رہےمگرجب حق وباطل کایہ معرکہ پیش آیاتواللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب فرمائی چنانچہ سامان حرب لیکرمیدان احد میں پہنچ گئے اورمشرکین سے خوب قتال کیااوربہت سے آدمی قتل کرکے خودبھی زخمی ہوکرمقتولوں میں گرپڑے،پھربنی عبدالاشہل کے چندلوگ اپنے مقتولوں کوتلاش کرتے پھررہے تھے کہ ان کاگزراصیرم رضی اللہ عنہ کے پاس ہواانہوں نے کہاواللہ!یہ تواصیرم ہے ،پھراصیرم سے لوگوں نےبڑےتعجب سے پوچھااے عمرو!تیرے یہاں آنے کاکیاسبب ہواکیاتوقومی غیرت کی وجہ سے ہمارے ساتھ شریک ہوگیا ہے یااسلام کی رغبت تجھے یہاں کھینچ کریہاں لے آئی ہے؟

قَالَ: بَلْ رَغْبَةً فِی الْإِسْلَامِ، آمَنْتُ بالله وَبِرَسُولِهِ وَأَسْلَمْتُ ،ثُمَّ أَخَذْتُ سَیْفِی، فَغَدَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَاتَلْتُ حَتَّى أَصَابَنِی مَا أَصَابَنِی، ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ أَنْ مَاتَ فِی أَیْدِیهِم، فَذَكَرُوهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ

اصیرم رضی اللہ عنہ نے جواب دیامیں قومی غیرت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اسلام کی محبت میرے یہاں آنے کاسبب بنی،میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایااوراسلام کوقبول کرلیا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے دشمنوں سے قتال کیا،یہاں تک کہ مجھے یہ زخم پہنچے جس میں تم مجھے دیکھ رہے ہو،اسی کے ساتھ ہی ان کی روح بارگاہ الہٰی میں پہنچ گئی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کاذکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا،آپ نے فرمایا البتہ تحقیق وہ اہل جنت میں سے ہے ۔[26]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: كَانَ یَقُولُ: حَدِّثُونِی عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ لَمْ یُصَلِّ قَطُّ فَإِذَا لَمْ یَعْرِفْهُ النَّاسُ سَأَلُوهُ: مَنْ هُوَ؟ فَیَقُولُ: أُصَیْرِمُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے بتلاؤوہ شخص کون ہے کہ جس نے ایک نمازبھی نہیں پڑھی اورجنت میں پہنچ گیا ،جب لوگ حیران ہوئے اوران کے خیال میں کوئی ایساشخص نہ آیاتوابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے پوچھاکہ آپ ہی بتائیں وہ کون شخص ہے ؟ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاوہ اصیرم رضی اللہ عنہ بنو عبداشہل عمروبن ثابت بن وقش ہیں ۔[27]

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب:

وخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا بَلَغَنِی، یَلْتَمِسُ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَوَجَدَهُ بِبَطْنِ الْوَادِی قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ عَنْ كَبِدِهِ، وَمُثِّلَ بِهِ، فَجُدِعَ أَنْفُهُ وَأُذُنَاهُ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِینَ رَأَى مَا رَأَى: لَوْلَا أَنْ تَحْزَنَ صَفِیَّةُ، وَیَكُونُ سُنَّةً مِنْ بَعْدِی لَتَرَكْتُهُ، حَتَّى یَكُونَ فِی بِطُونِ السِّبَاعِ، وَحَوَاصِلِ الطَّیْرِ، وَلَئِنْ أَظْهَرنِی اللهُ عَلَى قُرَیْشٍ فِی مَوْطِنٍ مِنْ الْمَوَاطِنِ لَأُمَثِّلَنَّ بِثَلَاثِینَ رَجُلًا مِنْهُمْ

میدان احدکوچکرلگاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطن وادی میں پہنچے تو حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوشہیدکیاہواپایاان کی لاش کامثلہ کیاگیاتھاان کی ناک اورکان کٹے ہوئے تھے،ان کاپیٹ چاک کیاہوااورجگرباہرنکلاپڑاتھا،یہ دل آزارمنظردیکھ کرآپ کادل بھرآیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پراللہ کی رحمت ہو،جہاں تک میرے علم میں ہے تم صلہ رحمی اورنیکی کے کام کرنے والے تھے ،اگرصفیہ کورنج نہ ہوتااورمیرے بعدلوگ اس کودستورنہ بنالیں گے اگر مجھے تمہاری بہن صفیہ رضی اللہ عنہا کے رنج وغم کاخیال نہ ہوتاتومیں تمہیں اسی حال میں چھوڑدیتا،درندے اورپرندے تمہارے گوشت کوکھاتے اورروزقیامت تم ان کے شکم سے اٹھتے،اگراللہ نے مجھے کافروں پرغلبہ دیاتومیں اس کے عوض ان میں سے تیس کفارومشرکین کاتیرے بدلے میں مثلہ کروں گا،

قَالُوا: وَاَللَّهِ لَئِنْ أَظْفَرَنَا اللهُ بِهِمْ یَوْمًا مِنْ الدَّهْرِ لَنُمَثِّلَنَّ بِهِمْ مُثْلَةً لَمْ یُمَثِّلْهَا أَحَدٌ مِنْ الْعَرَبِ،وَلَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ قَالَ:لَنْ أُصَابَ بِمِثْلِكَ أَبَدًا! مَا وَقَفْتُ مَوْقِفًا قَطُّ أَغْیَظَ إلَیَّ مِنْ هَذَا! ثُمَّ قَالَ: جَاءَنِی جِبْرِیلُ فَأَخْبَرَنِی أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ مَكْتُوبٌ فِی أَهْلِ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ: حَمْزَةُ ابْن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَسَدُ اللهِ، وَأَسَدُ رَسُولِهِ

جب مسلمانوں نے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبداالمطلب کی حالت پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااس قدررنج وملال دیکھاتوکہنے لگے کہ اگرہمیں اللہ نے کسی وقت قریش پرغالب کیاتوہم ان کاایسامثلہ کریں گے کہ عرب میں کسی نے ایسامثلہ نہ کیاہوگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ تمہارے انتقال کاسارنج مجھے کبھی نہ پہنچے گا،میں کبھی ایسی جگہ کھڑانہیں ہواجہاں اس جگہ سے زیادہ مجھے غیض وغضب ہواہو،پھرفرمایاکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبردی ہے کہ حمزہ ساتوں آسمانوں کے لوگوں میں لکھے گئے ہیں حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اللہ اوررسول کے شیرہیں ۔[28]

ابھی آپ وہاں سے ہٹنے ہی نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَخَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ۝۱۲۶وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَلَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ [29]

ترجمہ:اوراگرتم لوگ بدلہ لوتوبس اسی قدرلوجس قدرتم پرزیادتی کی گئی ہولیکن اگرتم صبرکروتویقیناًیہ صبرکرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے ، اے نبی صبرسے کام کیے جاؤ اورتمہارایہ صبراللہ ہی کی توفیق سے ہے ،ان لوگوں کی حرکات پررنج نہ کرواورنہ ان کی چال بازیوں پردل تنگ کرو،اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جوتقویٰ سے کام لیتے ہیں اوراحسان پرعمل کرتے ہیں ۔

چنانچہ آپ نے حکم الہٰی کے مطابق صبرفرمایااورقسم کاکفارہ اداکیا۔

وَرَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَثْلًا شَدِیدًا فَأَحْزَنَهُ ذَلِكَ الْمَثْلُ، ثُمّ قَالَ: لَئِنْ ظَفِرْت بِقُرَیْشٍ لَأُمَثّلَن بِثَلَاثِینَ مِنْهُمْ! فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَخَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ۝۱۲۶وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَلَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ

ایک روایت میں ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کااس طرح مثلہ کیاہواپایاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوشدیدرنج ہوا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراللہ نے مجھے کافروں پرغلبہ دیاتومیں اس کے عوض ان میں سے تیس کفارومشرکین کاتیرے بدلے میں مثلہ کروں گا،ابھی آپ وہاں سے ہٹنے ہی نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ النحل کی آیات ۱۲۶تا۱۲۸ نازل فرمائیں ، اوراگرتم لوگ بدلہ لوتوبس اسی قدرلوجس قدرتم پرزیادتی کی گئی ہولیکن اگرتم صبرکروتویقیناًیہ صبرکرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے ،اے نبی صبرسے کام کیے جاؤ اورتمہارایہ صبراللہ ہی کی توفیق سے ہے ،ان لوگوں کی حرکات پررنج نہ کرواورنہ ان کی چال بازیوں پردل تنگ کرو،اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جوتقویٰ سے کام لیتے ہیں اوراحسان پرعمل کرتے ہیں ۔

فَعَفَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُمَثّلْ بِأَحَدٍ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الہٰی کے مطابق صبرفرمایااورکسی کامثلہ نہیں کیا۔[30]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَیِّدُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَمْزَةُ

اورجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کودیکھا تو رو پڑے اورآپ کی ہچکی بندھ گئی اورفرمایاقیامت کے دن اللہ کے نزدیک تمام شہیدوں کے سردارحمزہ رضی اللہ عنہ ہوں گے[31]

عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَیِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب تمام شہیدوں کے سردارہیں ۔[32]

اورپھرشہداکی نمازجنازہ پڑھنے لگےسب سے پہلے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کاجنازہ لایاگیا

 فَوَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَمْزَةَ فَصَلَّى عَلَیْهِ، وَجِیء بِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَوُضِع إِلَى جَنْبِهِ فصلَّى عَلَیْهِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِیُّ وتُرِكَ حَمْزَةُ، ثُمَّ جِیءَ بِآخَرٍ فوضعَه إِلَى جَنْبِ حَمْزَةَ فَصَلَّى عَلَیْهِ ثُمَّ رُفِعَ وتُرِكَ حَمْزَةُ، حَتَّى صلَّى عَلَیْهِ یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ صَلَاةً

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے جنازے کواپنے سامنے رکھ کرنمازجنازہ اداکی ،پھرایک انصاری کاجنازہ لایاگیااوراسے حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلومیں رکھا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ پڑھی،انصاری رضی اللہ عنہ کاجنازہ اٹھالیاگیالیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کاجنازہ وہیں رہا،اسی طرح سترشخص لائے گئے اورسیدالشہداحمزہ رضی اللہ عنہ کی سترمرتبہ جنازے کی نماز پڑھی گئی۔[33]

وَأَقْبَلَتْ فِیمَا بَلَغَنِی صَفِیَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِتَنْظُرَ إِلَى حَمْزَةَ وَكَانَ أَخَاهَا لأَبِیهَا وَأُمِّهَافقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لابْنِهَا الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ: الْقَهَا فَارْجِعْهَا، لا تَرَى مَا بِأَخِیهَا فَلَقِیَهَا الزُّبَیْرُ ، فَقَالَ لَهَا: یا أمه، ان رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُكِ أَنْ تَرْجِعِی، فَقَالَتْ: وَلِمَ،وَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّهُ مُثِّلَ بِأَخِی وَذَلِكَ فِی اللهِ قَلِیلٌ! فَمَا أَرْضَانَا بِمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ! لأَحْتَسِبَنَّ وَلأَصْبِرَنَّ إِنْ شَاءَ اللهُ

جب صفیہ رضی اللہ عنہا کواپنے حقیقی بھائی کی شہادت کاعلم ہواتووہ تشریف لائیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحبزادے زبیربن العوام رضی اللہ عنہ کوبلاکرارشادفرمایاکہ تم ان کے پاس جاؤاورانہیں واپس لوٹادوتاکہ جوکچھ ان کے بھائی کے ساتھ ہواہے وہ اسے دیکھنے نہ پائیں ،زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اورکہااماں جان!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کوحکم دیا ہے کہ آپ واپس چلی جائیں ،انہوں نے پوچھاکیوں ؟ مجھے معلوم ہواہے کہ میرے بھائی کامثلہ کیاگیاہے اللہ کی راہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے محض اس وجہ سے اگرمجھے ممانعت کی گئی ہے تومیں اس سے خوش نہیں ہوئی ان شاء اللہ میں صبروتحمل سے کام لوں گی،

فَلَمَّا جَاءَ الزُّبَیْرُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، قَالَ: خَلِّ سَبِیلَهَا، فَأَتَتْهُ فَنَظَرَتْ إِلَیْهِ وَصَلَّتْ عَلَیْهِ، وَاسْتَرْجَعَتْ وَاسْتَغْفَرَتْ لَهُ، ثُمَّ امررَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهِ فَدُفِنَ

زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکربیان کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کی اجازت فرما دی،وہ لاش پرگئیں خون کاجوش تھااورعزیزومشفق اوربہادربھائی ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے لیکن إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ کہہ کرچپ ہورہیں اور مغفرت کی دعا مانگی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دفن کرنے کاحکم فرمایا۔[34]

وَقَفَتْ وَأَخَذَتْ ثَوْبَیْنِ، وَكَانَ إِلَى جَنْبِ حَمْزَةَ قَتِیلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكَرِهُوا أَنْ یَتَخَیَّرُوا لِحَمْزَةَ أَوْ لِلْأَنْصَارِیِّ قَالَ: أَسْهِمُوا سَهْمًا فَأَیُّهُمَا طَاوَلَهُ أَجْوَدُ الثَّوْبَیْنِ فَهُوَ لَهُ، فَأَسْهَمُوا بَیْنَهُمَا فَكُفِّنَ حَمْزَةُ فِی ثَوْبٍ وَالْأَنْصَارِیُّ فِی ثَوْبٍ

وہ اپنے بھائی سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے کفن کے لئے دوچادریں لائیں تھیں ، انہوں نے دیکھاکہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس ایک انصاری کی لاش بھی اسی طرح برہنہ پڑی ہوئی ہے،یہ دیکھ کروہ دل میں شرمائیں کہ حمزہ رضی اللہ عنہ تودوکپڑوں میں کفنائے جائیں اورانصاری کے لئے ایک کپڑابھی نہ ہو،انہوں نے دونوں کوناپاتوایک کا قد بڑا نکلا ، مجبوراًکپڑے پرقرعہ ڈالا گیا اور جوکپڑاجس کے حصہ میں پڑاوہ اسی میں کفنایاگیا۔[35]

اس غزوہ میں مشرکین بائیس(۲۲)یاسینتیس (۳۷)آدمی قتل ہوئےفَأُصِیبَ سَبْعُونَ قَتِیلًا اورمسلمانوں میں سترصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا۔[36]

شہیدہونے والوں میں زیادہ ترانصارتھے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:اصْطَبَحَ الخَمْرَ یَوْمَ أُحُدٍ نَاسٌ، ثُمَّ قُتِلُوا شُهَدَاءَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان میں بعض وہ بھی تھے جنہوں نے غزوہ احدکی صبح کوشراب پی تھی(جوابھی تک حرام نہیں ہوئی تھی) اورپھرشہادت کی موت نصیب ہوئی ۔[37]

قال ابن مسعود: ما رأینا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ باكیا أشد من بكائه على حمزة رضی الله عنه،وضعه فی القبلة ثم وقف على جنازته وانتحب حتى نشق أی شهق

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب پرروئے کسی دوسرے پراتنانہیں روئے،آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھااورجنازہ پڑھانے لگے تواس پرسسکیاں لے لے کر روئےاور غشی تک نوبت جاپہنچی۔[38]

بغوی رحمہ اللہ نے المعجم میں لکھا کہ آپ عموماًجنازے پرچارتکبیریں کہتے تھے مگرحمزہ رضی اللہ عنہ پرسترتکبیریں کہیں ۔

أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ،وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِمْ، وَلَمْ یُغَسَّلُوا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ انہیں خون آلودکپڑوں میں انہیں دفن کیاجائے،شہداء احدکوغسل نہیں دیا گیا اوران پرنمازجنازہ نہیں پڑھی گئی۔[39]

دَفْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ مَعَ حَمْزَةَ

عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اورحمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوایک ہی قبرمیں دفن کیا گیا[40]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ یَوْمَ أُحُدٍ قَاعِدًا مِنْ الْجِرَاحِ الَّتِی أَصَابَتْهُ، وَصَلَّى الْمُسْلِمُونَ خَلْفَهُ قُعُودًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن زخموں کی وجہ سے نمازظہربیٹھ کرپڑھی تھی اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کرنمازپڑھی۔[41]

جابر رضی اللہ عنہ کے والدعبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام بھی شہیدہوئے تھے ،مشرکین نے ان کی لاش کامثلہ کردیاتھا۔

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِی جَعَلْتُ أَبْكِی، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْهَوْنِی وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْهَ،

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والدکوشہیدکردیاگیاتوان حالت دیکھ کر میں رونے لگا ، اور بار بار کپڑا ہٹا کران کے چہرہ کودیکھنے لگا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع نہیں کیا،

فَجَعَلَتْ عَمَّتِی فَاطِمَةُ تَبْكِیج

جب عبداللہ رضی اللہ عنہ کودفن کرنے کے لئے اٹھایاگیاتو جابر رضی اللہ عنہ کی پھوپھی (فاطمہ بنت عمر رضی اللہ عنہ )اپنے بھائی کی لاش کودیکھ کررونے لگیں ،

وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَبْكِیهِ أَوْ: مَا تَبْكِیهِ مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان پرنہ روؤ (بلکہ خوشی کااظہارکرو)فرشتے ان پراپنے پروں سے اس وقت تک سایہ کیے رہے جب تک وہ اٹھائے نہ گئے۔[42]

شہداکی تجہیروتکفین :

صحابیات رضی اللہ عنہن موت وحیات دونوں حالتوں میں اہل حاجت مندکی اعانت ومددفرماتی تھیں ، اس وقت بے سروسامانی کایہ عالم تھاکہ کسی شہیدکے لئے کفن کی چادرتک نہ تھی ،

عَنْ خَبَّابٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَلَمْ یَتْرُكْ إِلَّا نَمِرَةً، كُنَّا إِذَا غَطَّیْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غُطِّیَ بِهَا رِجْلاَهُ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَیْهِ الإِذْخِرَ

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے شہادت کے وقت ایک چادرکے سوااورکوئی چیزنہیں چھوڑی،جواتنی چھوٹی تھی کہ جب اس چادرسے(کفن دیتے وقت) اگرسرکوڈھانکتے توپیرکھل جاتے اوراگرپیرڈھانکتے توسرکھل جاتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر ڈھانک دو اور پیروں پرگھاس ڈال دو(چنانچہ ان کے پاؤں اذخرگھاس سے چھپادیئے گئے)۔[43]

أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ یَقُولُ:أَیُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِیرَ لَهُ إِلَى أَحَدٍ قَدَّمَهُ فِی اللَّحْدِ، وَقَالَ:أَنَا شَهِیدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ یَوْمَ القِیَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِمْ وَلَمْ یُغَسَّلُوا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدا کی تدفین شروع کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودوآدمیوں کوایک کپڑے میں لپیٹ کرقبرمیں رکھا،ہرقبرمیں ایک بغلی قبربھی بنوائی گئی ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن کرتے تودریافت فرماتے کہ ان دومیں کون قرآن مجیدکازیادہ عالم تھا،جب آپ کوبتایاجاتاتوآپ اسے بغلی قبرمیں رکھتے ،دفن کرنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں قیامت کے دن ان لوگوں پرگواہ ہوں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام شہداء خون میں لتھڑے ہوئے دفن کیے گئے ،نہ انہیں غسل دیا گیا، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ۔[44]

یہ وہ دردناک منظرتھاکہ بعدمیں بھی یہ واقعہ مسلمانوں کویادآجاتاتوآنکھیں ترہوجاتیں ۔

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَیِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ ، فَقَالَ:إِنِّی فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِیدٌ عَلَیْكُمْ، وَإِنِّی وَاللهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِی الآنَ، وَإِنِّی أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ وَإِنِّی وَاللهِ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِی، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِیهَا

آٹھ برس کے بعدوفات سے ایک دوبرس پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھرسے گزرے توبے اختیارآپ پررقت طاری ہوگئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احدکے شہیدوں پراس طرح نمازپڑھی جیسے کوئی زندوں اورمردوں سے رخصت ہورہاہو،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرتشریف لائے، اورفرمایا مسلمانو!میں تم سے پہلے جاکرتمہارے لئے میرسامان بنوں گااورمیں تم پرگواہ رہوں گا،اورقسم اللہ کی! میں اس وقت اپنے حوض کودیکھ رہاہوں ، اورمجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں ، یا(یہ فرمایاکہ)مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اورقسم اللہ کی! مجھے تم سے یہ خوف نہیں کہ پھرمشرک بن جاؤگے، لیکن اس بات کا ڈرہے کہ تم لوگ دنیاحاصل کرنے میں رغبت کروگے(نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤگے)۔[45]

مشرکین مکہ کے جہنم وصل ہونے والوں کے نام

مِنْ بَنِی أَسَدٍ: عَبْدُ اللهِ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ زُهَیْرِ بْنِ الْحَارِثِ، قَتَلَهُ أَبُو دُجَانَةَ.وَمِنْ بَنِی عَبْدِ الدّارِ: طَلْحَةُ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ یَحْمِلُ لِوَاءَهُمْ، قَتَلَهُ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السّلَامُ،وَعُثْمَانُ بن ابى طَلْحَةَ، قَتَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ،وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، قَتَلَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ،وَمُسَافِعُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، قَتَلَهُ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ،

بنی اسدمیں سے عبداللہ بن حمیدبن زہیربن حارث، انہیں ابودجانہ نے جہنم وصل کیا،بنی عبدالدارمیں سے طلحہ بن ابی طلحہ جس نے مشرکین کاجھنڈااٹھارکھاتھا،اسے سیدناعلی علیہ السلام نے جہنم کاراستہ دکھایا،اورعثمان بن ابی طلحہ، اسے سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب نے موت گھات اتارا،اورابوسعیدبن ابی طلحہ، اسے سعدبن ابی وقاص نے جہنم کی طرف روانہ کیا ،اورمسافع بن طلحہ بن ابی طلحہ، اسے عاصم بن ثابت بن ابی الاقلع نے موت سے ملاقات کرائی،

وَالْحَارِثُ بْنُ طَلْحَةَ، قَتَلَهُ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ، وَكِلَابُ بْنُ طَلْحَةَ، قَتَلَهُ الزّبَیْرُ ابْنُ الْعَوّامِ، وَالْجُلَاسُ بْنُ طَلْحَةَ، قَتَلَهُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ،وَأَرْطَاةُ بْنُ عَبْدِ شُرَحْبِیلَ ، قَتَلَهُ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ علیه السّلام،وقاسط بن شُرَیْحِ بْنِ عُثْمَانَ- ثُمّ حَمَلَهُ صُؤَابٌ- فَیُقَالُ قَتَلَهُ قُزْمَانُ،

اورحارث بن طلحہ، ا عاصم بن ثابت بن ابی الاقلع نے موت کامزہ چکھایا،اورکلاب بن طلحہ، اسے زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام نے دوسری دنیاکی طرف روانہ کیا،اورجلاس بن طلحہ، اسے طلحہ بن عبیداللہ نے موت کی آغوش میں پہنچادیا،اورارطاہ بن شرجیل اسے سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے جہنم واصل کیا، اورقاسط بن شریح بن عثمان جس نے بعدمیں جھنڈااٹھایاتھاکہاجاتاہے کہ اسے قزمان نے موت کاذائقہ چکھایا،

وَأَبُو عَزِیزِ بْنُ عُمَیْرٍ، قَتَلَهُ قُزْمَانُ،وَمِنْ بَنِی زُهْرَةَ: أَبُو الْحَكَمِ بْنُ الْأَخْنَسِ بْنِ شَرِیقٍ، قَتَلَهُ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السّلَامُ، وَسِبَاعُ بْنُ عَبْدِ الْعُزّى الْخُزَاعِیّ، وَاسْمُ عَبْدِ الْعُزّى عَمْرُو بْنُ نَضْلَةَ بْنِ عَبّاسِ بْنِ سُلَیْمٍ وَهُوَ ابْنُ أُمّ أَنْمَارٍ، قَتَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ،وَمِنْ بَنِی مَخْزُومٍ: هِشَامُ بْنُ أَبِی أُمَیّةَ بن المغیرة، قتله قزمان،

اورابوعزیزبن عمیر، ا بھی قزمان نے قتل کیااوربنی زہرہ سے ابوالحکم بن خنس بن شریق، اسے سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے موت سے ملاقات کرائی،اورسباع بن عبدالعزی الخزوعی اوراسم عبدالعزی عمروبن نضلہ بن عباس بن سلیم جوام انمارکابیٹاتھا،اسے سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب نے کفرکامزہ چکھایا،بنی مخزوم سے ہشام بن ابی امیہ بن مغیرہ اسے قزمان نے موت کی نیندسلایا،

والولید ابن الْعَاصِ بْنِ هِشَامٍ، قَتَلَهُ قُزْمَانُ،وَأُمَیّةُ بْنُ أَبِی حُذَیْفَةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ، قَتَلَهُ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَخَالِدُ بْنُ الْأَعْلَمِ الْعُقَیْلِیّ، قَتَلَهُ قُزْمَانُ، وَمِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیّ: عُبَیْدُ بْنُ حَاجِزٍ، قَتَلَهُ أَبُو دُجَانَةَ،وشیبة ابن مَالِكِ بْنِ الْمُضَرّبِ، قَتَلَهُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ، وَمِنْ بَنِی جُمَحٍ: أَبَیّ بْنُ خَلَفٍ، قَتَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ،

اورولیدبن العاص بن ہشام، اسے بھی قزمان نے ٹھنڈاکردیا،اورامیہ بن ابی حزیفہ بن مغیرہ، اسے سیدناعلی رضی اللہ عنہ نےاس دیناسے دوسری دنیامیں پہنچادیا،اورخالدبن الاعلم العقیلی ، اسے قزمان نے اس دنیاکے رنج والام سے نجات دلادی،اوربنی عامربن لوئی سے عبیدبن حاجز، اسے ابودجانہ نے جہنم کی طرف روانہ کیا،اورشیبہ ابن مالک بن مضرب، اسے طلحہ بن عبیداللہ نے زندگی سے نجات دی ،اوربنی جمع سے ابی بن خلف، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جہنم کی طرف روانہ کیا،

وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَیْرِ بْنِ وَهْبِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ جُمَحٍ، وَهُوَأَبُو عَزّةَ، أَخَذَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسِیرًا یَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ یَأْخُذْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوم أُحُدٍ أَسِیرًا غَیْرَهُ، فَقَالَ: یَا مُحَمّدُ، مُنّ علی! فقال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إن المؤمن لا یلدغ من جحر مَرّتَیْنِ، وَلَا تَرْجِعْ إلَى مَكّةَ تَمْسَحْ عَارِضَیْك تَقُولُ: سَخِرْت بِمُحَمّدٍ مَرّتَیْنِ! ثُمّ أَمَرَ بِهِ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ

اورعمروبن عبداللہ بن عمیربن وھب بن حذافہ جوابوعزہ کے نام سے مشہورتھااسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرفتارکرلیاغزوہ احدمیں اس کے علاوہ کسی کوگرفتارنہیں کیاتویہ کہنے لگاکہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!مجھ پررحم فرمائیں ،(کیونکہ یہ غزوہ بدرمیں بھی گرفتارہواتھااوراس کی تنگ دستی اوربیٹیوں کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیرکسی فدیہ کے رہاکردیاتھااوروعدہ لیاتھاکہ وہ دوبارہ مقابلے میں نہیں آئے گامگریہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آیاچنانچہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈساجاتامیں نہیں چاہتاکہ تم مکہ مکرمہ میں جاکرکہوکہ میں نے دوبارمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوغچہ دیا،اور پھرعاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کواس کی گردن ماردینے کاحکم فرمایا۔[46]

شہداء غزوہ احد کے نام یوں ہیں ۔

شہداء مہاجرین

قبیلہ خزرج کے شہداء جنہوں نے جام شہادت نوش فرمایا

عمرورضی اللہ عنہ بن جموح(یہ دونوں گہرے دوست تھے،ایک ہی قبرمیں دفن کیے گئے)

ان کے علاوہ مالک رضی اللہ عنہ بن ایاس اور عمرو رضی اللہ عنہ بن ایاس بھی شمارہوتے ہیں ۔

قبیلہ اوس کے شہداء جنہوں نے جام شہادت نوش فرمایا

مالک رضی اللہ عنہ بن نمیلہ              حارث رضی اللہ عنہ بن عدی خطمی

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ مِمّنْ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ مُخَیْرِیقٌ، وَكَانَ أَحَدَ بَنِی ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْیُونِ،وكَانَ حَبْرًا عَالِمًا، وَكَانَ رَجُلًا غَنِیّاكَثِیرَ الْأَمْوَالِ مِنْ النّخْلِ وَكَانَ یَعْرِفُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِصِفَتِہ،یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، وَاَللَّهِ إنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّ نَصْرَ مُحَمَّدٍ عَلَیْكُمْ لَحَقٌّ،إنَّ الْیَوْمَ یَوْمُ السَّبْتِ ، قَالَ: لَا سَبْتَ لَكُمْ،إنْ قُتِلْتُ هَذَا الْیَوْمَ، فَأَمْوَالِی لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ فِیهَا مَا أَرَاهُ اللهُ،فَلَمَّا اقْتَتَلَ النَّاسُ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا بَلَغَنِی یَقُولُ: مُخَیْرِیقَ خَیْرُ یَهُودٍ، وَقَبَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمْوَالَهُ، فَعَامَّةُ صَدَقَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ مِنْهَا

ابن اسحاق مطابق غزوہ احدکے مقتولین میں قبیلہ بنوثعلبہ بن فیطون کاایک شخص مخیرق بھی تھا،جوبہت عالم اوردولت مندتھااس کے بہت سے کھجوروں کے باغات تھے،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کی علامات نبوت اوراپنے سابق کتابی علم کی بناپرخوب اچھی طرح پہچانتاتھا،جب یہ معرکہ پیش آیاتواس نے اپنی قوم سے کہااے جماعت یہود! واللہ تمہیں اس بات کابخوبی علم ہے کہ تم پرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مددکرناواجب ہے ،اس پراس کی قوم نے جواب دیا آج توہفتہ کادن ہےآج کے دن ہم بھلاکیاکام کرسکتے ہیں ،اپنی قوم کے اس حیلے پرمخیریق نے کہاتم پرہفتہ کادن نہ آئے ،اورپھراپنی تلواراوردوسرے ہتھیارسنبھال کرکہامیں احدمیں جارہاہوں اگرمجھے کچھ ہوجائے تومیراتمام مال ومتاع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہے وہ جس طرح چاہیں اسے خرچ کرڈالیں ،پھروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورآپ کے ساتھ ہوکرکفارسے لڑااورقتل ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامخیریق تمام یہودمیں بہترشخص تھا،اس کی وصیت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اموال پرقبضہ کرکے سب کومستحقین میں خیرات کردیا۔[47]

لما قتل مخیریق بأحد وأوصى إن أصبت فأموالی لرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقبضهارَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وتصدق بها

ایک روایت میں یوں مذکورہےجب وہ غزوہ احدمیں مرنے لگاتب اس نے یہ وصیت کی تھی کہ میری تمام دولت میرے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے وہ اسے جہاں چاہیں خرچ فرمائیں ،اس کی وصیت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اموال پرقبضہ کرکے اس کی تمام دولت تقسیم فرمادی۔[48]

مدینہ طیبہ کی طرف واپسی :

ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا إلَى الْمَدِینَة، فَلَقِیته حمتة بِنْتُ جَحْشٍ، كَمَا ذُكِرَ لِی، فَلَمَّا لَقِیَتْ النَّاسَ نُعِیَ إلَیْهَا أَخُوهَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَحْشٍ، فَاسْتَرْجَعَتْ وَاسْتَغْفَرَتْ لَهُ،ثُمَّ نُعِیَ لَهَا خَالُهَا حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَاسْتَرْجَعَتْ وَاسْتَغْفَرَتْ لَهُ،ثُمَّ نُعِیَ لَهَا زَوْجُهَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، فَصَاحَتْ وَوَلْوَلَتْ!فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ زَوْجَ الْمَرْأَةِ مِنْهَا لَبِمَكَانِ! لِمَا رَأَى مِنْ تَثَبُّتِهَا عِنْدَ أَخِیهَا وَخَالِهَا، وَصِیَاحِهَا عَلَى زَوْجِهَا

شہیدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تدفین اوردعاونماز اورزخمیوں کی مرہم پٹی بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ زخموں سے چورچور،جیتی ہوئی جنگ کے بعد شکست سے نڈھال صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف واپسی کاسفرشروع فرمایا،مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی بہن اور حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی بھانجی اور مسلمانوں کے علم بردار مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حمنہ رضی اللہ عنہا بنت جحش رضی اللہ عنہ احد کی طرف آرہی تھی ،ان کے بھائی ، ماموں اورشوہراس غزوہ میں شہیدہوچکے تھے،راستے میں ان کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں ان کے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبردی انہوں نے کمال ضبط وتحمل سے یہ دردناک خبرسنی اورکہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ اور اپنے بھائی کے لئے دعائے مغفرت کی، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھرانہیں ان کے ماموں حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی شہادت کی خبردی ،اب بھی انہوں نے بڑے ضبط وتحمل سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ پڑھی اوراپنے ماموں کے لئے دعائے مغفرت کی،اب صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں ان کے شوہر مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکی شہادت کی خبر دی اب کے وہ برداشت نہ کرسکیں اور تڑپ کر دھاڑھیں مارکر رونے لگیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس کیفیت کودیکھ کرفرمایاعورت کواپنے خاوندکاایک خاص رنج ہوتا ہے کیونکہ حمنہ کودیکھاکہ بھائی اورماموں کی خبرسے اس قدربے چین نہیں ہوئیں جیسی کہ خاوندکی خبرسے بے چین ہوئیں ۔[49]

وَجَاءَت أُمّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ تَعْدُو نَحْوَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهوعَلَى فَرَسِه ِوَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ آخِذٌ بِلِجَامِهَا ، فَقَالَ له سَعْدٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أُمّی!فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَرْحَبًا بِهَا! فوقف لهافَدَنَتْ حَتّى تَأَمّلَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلّم،فَعَزّاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَمْرِو بْنِ مُعَاذٍ ابْنِهَا

کچھ اورآگے بڑھے تو سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کی والدہ آتی ہوئی نظرآئیں ،ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی لگام تھامی ہوئی تھے انہوں نے دور سے اپنی والدہ کوآتے دیکھا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میری والدہ آ رہی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں مبارک ہواوراحتراماًان کے استقبال کے لئے رک گے،جب وہ قریب پہنچ گئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے بیٹے عمرو رضی اللہ عنہ بن معاذ کی شہادت کی خبردی اورتعزیتی کلمات کہہ کرانہیں تسلی دی اورصبرکی تلقین فرمائی،

فقالت: أمّا إذْ رَأَیْتُك سَالِمًا،فَقَدْ أَشْوَتْ الْمُصِیبَةُ: أی استقلیتها؛وَدَعَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ مَنْ قَتْلَ بِأَحَد ، أَیْ بعْدأقَالَ لأم سَعْدٍ:یَا أُمّ سَعْدٍ، أَبْشِرِی وَبَشّرِی أَهْلِیهِمْ أَنّ قَتَلَاهُمْ قَدْ تَرَافَقُوا فِی الْجَنّةِ جَمِیعًا وَقَدْ شَفَعُوا فِی أَهْلِیهِمْ. قَالَتْ: رَضِینَا یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ یَبْكِی عَلَیْهِمْ بَعْدَ هَذَا؟!

انہوں نے محبت وجان نثاری میں ڈوباہواایساجواب دیاجوایک مسلمان صحابیہ کاہی شیوہ ہو سکتا ہے،عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں نے آپ کوصحیح و سلامت دیکھ لیا تو پھر میرے لئے ہرمصیبت ہیچ ہے،ان کاجواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احدکے لئے دعا فرمائی، اس کے بعدام سعد رضی اللہ عنہ سےفرمایااے ام سعد!خوش ہوجاؤاوردوسرے شہداء کے گھروالوں کوبھی یہ خوشخبری پہنچادوکہ ان سب کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں ، اوران سب کی شفاعت ان کے گھروالوں کے لئے قبول کرلی گئی ہے،فرماتی ہیں کہ ہم اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! راضی اور خوش ہیں ، بھلا اس خوشخبری کے بعد بھی کوئی روئے گا،

ثُمّ قَالَتْ: اُدْعُ یَا رَسُولَ اللهِ لِمَنْ خُلّفُوا، فَقَالَ: اللهُمّ أَذْهِبْ حُزْنَ قُلُوبِهِمْ وَاجْبُرْ مُصِیبَتَهُمْ، وَأَحْسِنْ الْخَلَفَ عَلَى مَنْ خُلّفُوا

ام سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !شہداء کے پسماندگان کے لئے بھی دعافرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ !ان کے دلوں کارنج وغم دور کر دے ، انہیں ان کی مصیبت کانعم البدل عطا فرما اورباقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔[50]

مدینہ منورہ میں آمد:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرشام مدینہ منورہ پہنچ گئے ،شہداکے سوگ میں مدینہ منورہ ماتم کدہ کامنظرپیش کررہاتھا،ہرگھرسے آہ وبکا بلندہورہی تھیں اورہرآنکھ اشک بارتھی ،

 فَذَرَفَتْ عَیْنَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: لَكِنَّ حَمْزَةَ لَا بَوَاكِیَ لَهُ!فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَأُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ إلَى دَارِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ أَمَرَا نِسَاءَهُمْ أَنْ یَتَحَزَّمْنَ،ثُمَّ یَذْهَبْنَ فَیَبْكِینَ عَلَى عَمِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،قَالَ: لَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُكَاءَهُنَّ عَلَى حَمْزَةَ خَرَجَ عَلَیْهِنَّ وَهُنَّ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ یَبْكِینَ عَلَیْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْنَ یَرْحَمْكُنَّ اللهُ، فَقَدْ آسَیْتُنَّ بِأَنْفُسِكُنَّ ، وَنُهِیَ یَوْمَئِذٍ عَنْ النَّوْحِ

لوگوں کی یہ کیفیت دیکھ کرآپ کادل بھرآیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل گئے مگرحمزہ رضی اللہ عنہ پررونے والاکوئی نہیں ،جب انصارنے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دردمیں ڈوبے الفاظ سنے تواپنارنج وغم بھول گئے اوران کے دل سیدالشہدا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دکھ سے بھرگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سن کرسعد رضی اللہ عنہ بن معاذاوراسیدبن حضیرجب بنی عبدالاشہل کے گھروں میں پہنچے توان کی خواتین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دردولت پرحمزہ بن عبدالمطلب پرنوحہ کرنے کے لئے بھیجایہ خواتین جاہلیت کے دستورکے مطابق بین کرتی ہوئی حاضرہوئیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کے رونے کی آوازسنیں توفرمایااللہ انصارپررحم کرے یہ لوگ بڑے ہمدردہیں ان عورتوں کوچاہیے کہ واپس گھروں کوچلی جائیں اورانہیں جاہلیت کی رسموں منہ پرتھپڑمارنے،سروں کے مونڈھنے ،چہروں کو نوچنے اور گریبابوں کوچاک کرنے سے منع فرمایا،اورفرمایاآج سے کسی مرنے والے پرنوحہ نہ کیاجائے۔[51]

گھرپہنچ کر اپنی تلوار فاطمہ رضی اللہ عنہا کوتھمائی اورفرمایا

اغْسِلِی عَنْ هَذَا دَمَهُ یَا بنیّة، فو الله لَقَدْ صَدَقَنِی الْیَوْم، وَنَاوَلَهَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ سَیْفَهُ، فَقَالَ: وَهَذَا أَیْضًا، فَاغْسِلِی عَنهُ دَمه، فو الله لَقَدْ صَدَقَنِی الْیَوْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَئِنْ كُنْتُ صَدَقْتَ الْقِتَالَ لَقَدْ صَدَقَ مَعَكَ سَهْلُ بْنُ حُنَیْفٍ وَأَبُو دُجَانَةَ

اس پر لگا ہوا خون دھودو،اللہ کی قسم !یہ آج میرے لئے بہت صحیح ثابت ہوئی،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے بھی اپنی تلوارانہیں تھمادی کہا کہ اس کاخون بھی دھودو، اللہ کی قسم! یہ آج میرے لئے بہت صحیح ثابت ہوئی،سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم نے بہادری اور ثابت قدمی سے جنگ کی ہے توتمہارے ساتھ سہل رضی اللہ عنہ بن حنیف اور ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے بھی جم کراوربڑی بے جگری سے جنگ کی ہے۔[52]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین ،منافقین مدینہ اوریہودیوں سے خطرات لاحق تھے کہ کہیں اس حالت میں جب کہ مسلمان اورخودحاکم مدینہ اورسالاراعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی گھناونی سازش نہ کر بیٹھیں ،اس لئے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم زخمی ہونے اورتھکاوٹ سے چورچورہونے کے باوجودساری رات خصوصی طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے، مدینہ منورہ کے داخلی اوراندرون راستوں پرپہرہ دیتے رہے ۔

مشرکین کا حمرا ء ا لاسدتک تعاقب

جنگ میں مشرکین مکہ کوفتح ہوئی تھی مگرانہوں نے اس فتح سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایاتھا،وہ چاہتے تواس وقت کیمپ میں محصورزخمی مسلمانوں کومزیدنقصان پہنچاسکتے تھے ، کچھ کوگرفتارکرسکتے تھے ،کیمپ کوروندکرمال غنیمت حاصل کرسکتے تھے، اورکچھ نہیں توچندمیل کے فاصلے پرخالی مدینہ منورہ پربھی حملہ کرسکتے تھے، مگراس وقت انہوں نے مسلمانوں کوجتنی زک پہنچ چکی تھی اسی کوغنیمت سمجھا،اوراس سے پہلے کہ جنگ کاپلڑاپھرمسلمانوں کے حق میں ہوجائے جلدی میں آئندہ سال جنگ کااعلان کرکے چلتے بنے تھے ، مگرخطرہ ابھی برقرارتھا،دشمن ابھی بہت دورنہیں چلاگیاتھا،اس لئے اندیشہ تھاکہ کہیں راستے میں ان کواس طرح کاخیال نہ آجائے اورانہیں اپنی جلدبازی پرافسوس و ندامت ہو، ان عواقب پرغوروفکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرلیاکہ مشرکین مکہ پراپنی قوت کامظاہرہ کرنے اورڈرانے کے لئے ان کاتعاقب کرنا چاہیے،تاکہ مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ احدکے نقصان نے مسلمانوں کونڈھال کردیاہے، اوراگران پردوبارہ حملہ کیاگیاتووہ کامیاب ہوجائیں گے،

قَالَ: فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ (مِنْ) یَوْمِ الْأَحَدِ لِسِتَّ عَشْرَةَ لَیْلَةً مَضَتْ مِنْ شَوَّالٍ، أَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ بِطَلَبِ الْعَدُوِّ،فَأَذّنَ مُؤَذّنُهُ أَنْ لَا یَخْرُجَنّ مَعَنَا أَحَدٌ إلّا أَحَدٌ حَضَرَ یَوْمَنَا بِالْأَمْسِ

چنانچہ دوسرے دن آٹھ شوال تین ہجری بروز اتوارصبح نمازکے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اعلان کردیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دشمن (مشرکین مکہ)کے تعاقب کاحکم دیاہے، اور تاکید فرمائی کہ صرف وہ لوگ ہم رکاب ہوں جوکل کی جنگ میں حاضرتھے،کوئی نیا شخص نہ آئے۔[53]

اس تخصیص سے آپ کامقصددشمن کے مقابلہ میں شدت اوراحدمیں شریک ہونے والوں کی مزیدتعظیم وتوقیرکااظہارفرماناتھا، صحابہ کرام جن کے بھائی بند، عزیز و اقارب شہیدہوچکے تھے اورصدمہ سے چورتھے، اوروہ خود بھی زخموں سے نڈھال تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازپرلبیک کہااوربغیرکسی پس وپیش کے چلنے پرآمادہ ہوگئے،

فَقَالَ لَهُ عبد الله بن أبی: أَرْكَبُ مَعَكَ؟ قَالَ: لَا

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ساتھ چلنے کی اجازت چاہی مگرآپ نے اسے اجازت نہیں دی۔[54]

فَكَلَّمَهُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنَّ أَبِی كَانَ خَلَّفَنِی عَلَى أَخَوَاتٍ لِی سَبْعٍ، وَقَالَ: یَا بُنَیَّ، إنَّهُ لَا یَنْبَغِی لِی وَلَا لَكَ أَنْ نَتْرُكَ هَؤُلَاءِ النِّسْوَةَ لَا رَجُلَ فِیهِنَّ، وَلَسْتُ بِاَلَّذِی أُوثِرُكَ بِالْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفْسِی، فَتَخَلَّفْ عَلَى أَخَوَاتِكَ، فَتَخَلَّفْتُ عَلَیْهِنَّ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ مَعَه

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کل کی جنگ میں میرے والدنے مجھے میری ساتھ بہنوں کے پاس چھوڑدیاتھا، اوریہ کہتاتھاکہ اے فرزند!مجھے اورتمہیں جہادکوترک نہیں کرناچاہیے، اورمیں تجھ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہادکرنے سے زیادہ عزیزنہیں سمجھتا،تواپنی بہنوں کے پاس ٹھہرجاؤکیونکہ ان کے پاس کوئی مردنہیں ہے،اس مجبوری کی وجہ سے میں حاضرنہ ہوسکا،آج مجھے ساتھ روانہ ہونے کی اجازت فرمائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گزارش کو منظور فرمالیااورساتھ چلنے کی اجازت فرمادی اوروہ ساتھ روانہ ہوئے۔[55]

أَنّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، كَانَ شَهِدَ أُحُدًا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ شَهِدْت أُحُدًا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَخٌ لِی، فَرَجَعْنَا جَرِیحَیْنِ ، فَلَمَّا أَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْخُرُوجِ فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ،قُلْتُ لِأَخِی أَوْ قَالَ لِی: أَتَفُوتُنَا غَزْوَةٌ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ وَاَللَّهِ مَا لَنَا مِنْ دَابَّةٍ نَرْكَبُهَا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اصحاب جوبنی عبدالاشہل میں سے تھے کہتے ہیں کہ میں اورمیرابھائی ہم دونوں غزوہ احدمیں زخمی ہوگئے تھے،جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آوازسنی کہ لوگوں کودشمن کی طرف جانےکے لئے بلارہاہے، تومیں نے اپنے بھائی سے کہایااس نے مجھ سے کہاکہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہادمیں ہماری شرکت رہ جائے گی اورہم سخت زخمی ہیں اورکوئی سواری بھی پاس نہیں ہے جس پرسوارہوکردشمن کامقابلہ کریں ،

وَمَا مِنَّا إلَّا جَرِیحٌ ثَقِیلٌ،فَخَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ أَیْسَرَ جُرْحًا، فَكَانَ إذَا غُلِبَ حَمَلْتُهُ عُقْبَةً ، وَمَشَى عُقْبَةً، حَتَّى انْتَهَیْنَا إلَى مَا انْتَهَى إلَیْهِ الْمُسْلِمُونَ

پھرآخرکارہم ہمت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اورمیرازخم میرے بھائی کے زخم سے ہلکاتھاجب اس سے چلانہ جاتاتومیں اس کوسہارادے دیتاتھایہاں تک کہ اسی طرح ہم اس جگہ تک پہنچے جہاں تک مسلمان گئے تھے۔[56]

وَكَانَ اسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ ابْنَ أُمّ مَكْتُومٍ ،وَخَرَجَ وَهُوَ مَجْرُوحٌ فِی وَجْهِهِ، وَمَشْجُوجٌ فِی جَبْهَتِهِ، وَرَبَاعِیَتُهُ قَدْ شظیت وَشَفَتُهُ السُّفْلَى قَدْ كُلِمَتْ فِی بَاطِنِهَا، وَهُوَ مُتَوَهِّنٌ مِنَكَبِهِ، یَعْنِی الأَیْمَنَ، من ضربة ابن قمئة، وَرُكْبَتَاهُ مَجْحُوشَتَانِ

مدینہ منورہ پرعبداللہ بن ام مکتوم کواپناخلیفہ مقررکیا،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پراس حال میں سوارہوئے کہ آپ کاچہرہ مبارک خودکی کڑیوں کی وجہ سے مجروح تھا،پیشانی مبارک پھٹی ہوئی تھی ،دندان مبارک زخمی تھے اورنچلاہونٹ مبارک بھی کٹا ہواتھا،داہنے کندھے میں شدید درد تھا جہاں ابن قمیہ نے تلوار کا وار کیاتھا،گھٹنوں پرگہری خراشیں تھیں ۔[57]

فَانْتَدَبَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، قَالَ: كَانَ فِیهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَالزُّبَیْرُ

ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس جماعت میں سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور زبیربن عوام رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔[58]

فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إلَى حَمْرَاءِ الْأَسَدِ، وَهِیَ مِنْ الْمَدِینَةِ عَلَى ثَمَانِیَةِ أَمْیَالٍ ،فَبَعَثَ ثَلاثَةَ نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ طَلِیعَة فِی آثَارِ الْقَوْمِ، فَلَحِقَ اثْنَانِ مِنْهُمُ الْقَوْم بِحَمْرَاءِ الأُسْدِ.وَهِیَ مِن الْمَدِینَةِ عَلَى عَشْرَةِ أَمْیَالٍ طَرِیقِ الْعَقِیقِ متیاسرة عَن ذِی الْحُلَیْفَةِ إذا أخذتها فِی الْوَادِی.وَلِلْقَوْمِ زَجْلٌ وَهُمْ یَأْتَمِرُونَ بِالرُّجُوعِ وَصَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ یَنْهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ایک بستی حمراء الاسد( عقیق کے راستے پرذوالحلیفہ کے بائیں طرف تقریباً تیرہ کلومیڑ (آٹھ میل) دورایک بستی ہے) تک مشرکین کاتعاقب کیااوریہاں پرپہنچ کرخیمہ زن ہوگئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے روانہ ہونے سے پہلے قبیلہ بنواسلم کے تین آدمی آگے روانہ کیےان میں سے دوآدمی مقام روحاپر مشرکین تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے،یہاں مشرکین باہم مشورہ کررہے تھے ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اوراس کی اصحاب کی کمرتوڑدی ہے،پھران کی مکمل بیخ کنی کرنے سے پہلے ہمیں مکہ واپس نہیں جاناچاہیے، بلکہ اس موقع کو غنیمت جان کرمدینہ منورہ پرحملہ کردینا چاہئے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں سے نجات مل جائے، اوراردگردمیں بھی ہماری دھاک بیٹھ جائے،جبکہ صفوان بن امیہ ان لوگوں کواس رائے کی مخالفت کررہاتھا،

فَقَالَ لَهُمْ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ بْنِ خَلَفٍ: لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّ الْقَوْمَ قَدْ حَرِبُوا، وَقَدْ خَشِینَا أَنْ یَكُونَ لَهُمْ قِتَالٌ غَیْرُ الَّذِی كَانَ، فَارْجِعُوا ، فَبَصَرُوا بِالرَّجُلَیْنِ فَعَطَفُوا عَلَیْهِمَا فعلوهما وَمَضَوْا وَمَضَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ حَتَّى عَسْكَرُوا بِحَمْرَاءِ الأُسْد.فَدفن الرِّجْلَیْنِ فِی قَبْرِ وَاحِد

صفوان بن امیہ نے ان لوگوں سے کہہ رہاتھاایساہرگزنہ سوچو،مجھے اس بات کاخطرہ لگ رہاہے کہ کہیں وہ لوگ بھی تمہارے مقابلے پرنہ آجائیں جوکسی وجہ سے اس جنگ میں حاضر نہیں ہوئے ہوں گے،اس وقت تم فتح یاب ہولہذااسی حالت میں مکہ لوٹ چلو،ابھی بحث ومباحثہ جاری تھاکہ انہوں نے ان دوصحابہ رضی اللہ عنہم کودیکھاتوان پرپل پڑے اورانہیں شہیدکرکے مکہ روانہ ہوگئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مقام حمراء الاسدپہنچے اورپڑاؤڈالا توان دونوں آدمیوں کوایک ہی قبرمیں دفن کیا۔[59]

پڑاؤکے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایااے طلحہ !یہ لوگ ہم سے اس جیسی شکست نہ کھائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ مکہ کوہمارے ہاتھوں فتح نہ کرادے گا،اورسیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکرفرمایااے ابن خطاب !قریش ہم سے گزشتہ شکست جیسی شکست نہ کھائیں گے جب تک ہم رکن یمانی کوجاکرنہ چھولیں گے،

فَأَقَامَ بِهَا الِاثْنَیْنِ وَالثُّلَاثَاءَ وَالْأَرْبِعَاءَ ، وَكَانَ المسلمون یوقدون تلك اللیالی خمسمائة نَارٍ حَتَّى تَرَى مِنَ الْمَكَانِ الْبَعِیدِ. وَذَهَبَ صوت مُعَسْكَرهم وَنِیرَانِهِمْ فِی كُلِّ وَجْهٍ، فَكَبَتَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِذَلِكَ عَدُوَّهُمْ

آپ حمراء الاسدمیں دوشنبہ ،سہ شنبہ اورچہارشنبہ تین دن فروکش رہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رات کوپانچ سو چولھوں میں آگ جلاتے تھے تاکہ دورسے نظرآئےاوران کے لشکرکی آوازاورآگ کی روشنی ہرسمت پھیل جائے، اس طرح مسلمانوں کے پڑاؤ اوران کی آگ کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں ،اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دل میں رعب ڈال دیااورانہوں نے پلٹ کرحملہ کرنے کی جرات نہ کی۔[60]

ابھی آپ حمیراء الاسدمیں ہی تھے کہ شاعر ابوعزہ حمجی گرفت میں آگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر قیدیوں میں اسے فدیہ ادانہ کردینے کی سکت اورلڑکیوں کی کثرت کے باعث بلامعاوضہ اس شرط پر رہاکردیاتھاکہ وہ رسول اللہ کے خلاف کسی طرح کاکوئی تعاون نہیں کرے گا،اوراس نے یہ شرط منظورکرلی تھی مگرعہدشکنی کرکے مسلمانوں کے خلاف جنگ احدمیں خودبھی شریک بھی ہوااوراپنے اشعارسے لوگوں کوبھی خوب بھڑکایا،اب جب دوبارہ گرفتارہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاگیاتوپھراپنی بیٹیوں کاواسطہ دے کرمنت سماجت کرنے لگا،

یَا مُحَمَّدُ أَقِلْنِی، فَقَالَ: لا وَاللهِ، لا تَمْسَحُ عَارِضَیْكَ بِمَكَّةَ تَقُولُ، خَدَعْتُ مُحَمَّدًا مَرَّتَیْن،ثُمَّ أَمَرَ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ

اے محمد! مجھ سے ایک بارپھربڑی غلطی ہوئی ہے،مجھ پرایک مرتبہ پھراحسان کریں اورمیری بچیوں کی خاطرمیری جان بخشی کردیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاواللہ اب ایسانہ ہوگاکہ مکہ لوگ تجھ کودیکھ کرخوش ہوں ،اورتوکہتاپھرے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کودومرتبہ فریب دیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعاصم رضی اللہ عنہ بن ثابت کوحکم فرمایاکہ وہ اس کی گردن ماردیں ،چنانچہ انہوں نے فورااس کی گردن ماردی۔

وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ فِیهِ: قَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ لا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ حجر مَرَّتَیْنِ

اورسعیدبن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔[61]

مدینہ کی طرف لوٹتے ہوئے آپ کو عبدالملک بن مروان کادادامعاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس ہاتھ لگاجومشرکین کی طرف سے جاسوسی کے لئے آیاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور عمار رضی اللہ عنہ بن یاسرکوحکم دیاکہ اس کوتہ تیغ کردیں ،چنانچہ یہ قتل کردیاگیا، تین دن وہاں قیام کے بعدآپ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااس قدرتلخ حالات میں حمراء الاسدتک جاناکمال محمدی کااعلیٰ مظہرہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت،صبرواستقامت اورحسن سیادت کی بے مثل خوبیاں اظہرمن الشمس ہوجاتی ہیں ، اوریہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی سے بڑی شکست سے بھی دل برداشتہ نہیں ہوتے تھے ،اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدرصبرواستقامت اورتحمل وبرداشت حامل اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیسے فرمانبرداراورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پرلبیک کہنے والے تھے۔

قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِی قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِیبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِیهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِیَّةِ أَشْیَاءٌ عَظِیمَةٌ مِنْهَا تَعْرِیفُ الْمُسْلِمِینَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِیَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْیِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِی أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا یَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِی قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ وَالْحِكْمَةُ فِی ذَلِكَ

علماء کہتے ہیں کہ احد واقعہ میں بہت سے فوائداوربہت سی حکمتیں ہیں جواہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ، ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کومعصیت اورمنہیات کے ارتکاب کانتیجہ بدبتلادیاجائے تاکہ آئندہ وہ ایسانہ کریں ،کچھ تیراندازوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی پرمقررفرماکرسخت تاکیدفرمائی تھی کہ ہماری جیت ہویاہارہماراحکم آئے بغیرتم اس گھاٹی سے مت ہٹنامگرانہوں نے نافرمانی کی اورمسلمانوں کی اول مرحلہ پرفتح دیکھ کروہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کوچھوڑکرمیدان میں آگئے،اس نافرمانی کاجوخمیازہ سارے مسلمانوں کوبھگتنا پڑاوہ معلوم ہے، اللہ تعالیٰ نے بتلادیاکہ نافرمانی اورمعصیت کے ارتکاب کانتیجہ ایساہی ہوتاہے،اوران حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہے کہ رسولوں کوآزمایاجاتاہے، اورآخرانجام بھی ان ہی کی فتح ہوتی ہے جیساکہ ہرقل اورابوسفیان کے قصہ میں گزرچکاہے ۔

أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِی الْمُؤْمِنِینَ مَنْ لَیْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ یَتَمَیَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَیْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ یَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَیْنَ الْأَمْرَیْنِ لِتَمْیِیزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِینَ كَانَ مَخْفِیًّا عَنِ الْمُسْلِمِینَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِیحُ تَصْرِیحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِی دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ

اگرہمیشہ رسولوں کے لئے مددہی ہوتی رہے تومومنوں میں غیرمومن بھی داخل ہوسکتے ہیں ، اورصادق اورکاذب لوگوں میں تمیزاٹھ سکتی ہے، اوراگروہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں توبعثت کامقصدفوت ہوجاتاہے، پس حکمت الٰہی کاتقاضافتح وشکست ہردوکے درمیان ہوتاکہ صادق اورکاذب میں فرق ہوتارہے،منافقین کانفاق پہلے مسلمانوں پرمخفی تھااس امتحان نے ظاہرکردیا،اورانہوں نے اپنے قول وفعل سے کھلے طورپراپنے نفاق کو ظاہر کردیا،تب مسلمانوں پرظاہرہوگیاکہ ان کے گھروں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیزکرنالازم ہے۔[62]

نفاق بہت ہی برامرض ہے جس کی مذمت قرآن مجیدمیں متعددمقامات پربڑے زوردارلفظوں میں ہوئی ہے اوران کے لئے دوزخ کاسب سے نچلاوالاحصہ ویل سزاکے لئے تجویزہونابتلاہے ،چنانچہ ہرمسلمان کوہرنمازمیں یہ دعاپڑھنی چاہیے۔

اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ النِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَمِنْ سَیِّئِ الْأَخْلَاقِ

اے اللہ!میں نفاق سے اورآپس کی پھوٹ سے اوربرے اخلاق سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔[63]

فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ ، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ، كَمَا حَدَّثَنِی ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِیُّ، لَهُ مَقَامٌ یَقُومُهُ كُلَّ جُمُعَةٍ لَا یُنْكَرُ، شَرَفًا لَهُ فِی نَفْسِهِ وَفِی قَوْمِهِ، وَكَانَ فِیهِمْ شَرِیفًا، إذَا جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ، قَامَ فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ، أَكْرَمَكُمْ اللهُ وَأَعَزَّكُمْ بِهِ، فَانْصُرُوهُ وَعَزِّرُوهُ، وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا، ثُمَّ یَجْلِسُ

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے،توعبداللہ بن ابی بن ابی بن سلول نے یہ طریقہ اختیارکیاتھاکہ جمعہ کے روزجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ چکتے،تویہ کھڑے ہوکربیان کرتاکہ اے لوگو!یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان موجودہیں تم کواللہ نے ان کے ساتھ بزرگی اورعزت عنایت کی ہے پس تم کولازم ہے کہ ان کی امداداوراعانت کروپھربیٹھ جاتاہرجمعہ کویہ اسی طرح کرتاتھا،

حَتَّى إذَا صَنَعَ یَوْمَ أُحُدٍ مَا صَنَعَ، وَرَجَعَ بِالنَّاسِ، قَامَ یَفْعَلُ ذَلِكَ كَمَا كَانَ یَفْعَلُهُ، فَأَخَذَ الْمُسْلِمُونَ بِثِیَابِهِ مِنْ نَوَاحِیهِ،وَقَالُوا: اجْلِسْ، أَیْ عَدُوَّ اللهِ، لَسْتُ لِذَلِكَ بِأَهْلِ، وَقَدْ صَنَعْتَ مَا صَنَعْتَ، فَخَرَجَ یَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ وَهُوَ یَقُولُ: وَاَللَّهِ لَكَأَنَّمَا قُلْتُ بَجْرًا أَنْ قُمْتُ أُشَدِّدُ أَمْرَهُ،

غزوہ احد بعدجواس نے ایساکیااورکھڑاہواتومسلمانوں نے چاروں طرف سے اس کے دامن کوپکڑکرکہا اے اللہ کے دشمن!بیٹھ جاتواس بات کااہل نہیں ہے اورجیسے کام تونے کیے ہیں وہ سب کومعلوم ہیں ،چنانچہ عبداللہ بن ابی ذلیل وخوارہوکروہاں سے لوگوں کو الانگتا پھلانگتاباہرنکلااوریہ کہتاجاتاتھاکہ میں نے توانہی کے کام کی پختگی چاہتاتھا،میرااورکیامطلب تھا،

فَلَقِیَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِبَابِ الْمَسْجِد، فَقَالَ: مَالك؟ وَیْلَكَ! قَالَ: قُمْتُ أُشَدِّدُ أَمْرَهُ، فَوَثَبَ عَلَیَّ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ یَجْذِبُونَنِی وَیُعَنِّفُونَنِی، لَكَأَنَّمَا قُلْتُ بَجْرًا أَنْ قُمْتُ أُشَدِّدُ أَمْرَهُ ،قَالَ: وَیْلَكَ! ارْجِعْ یَسْتَغْفِرْ لَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَاَللَّهِ مَا أَبْتَغِی أَنْ یَسْتَغْفِرَ لِی

انصارمیں سے ایک شخص مسجدنبوی کے دروازے پراس کوملے اورانہوں نے پوچھاکیاہوا؟کہنے لگامیں توکھڑے ہوکرانہی کے کام کے پختہ ہونے کے لیے تقریر بیان کیا کرتا تھا مگر انہی کے چندصحابیوں نے میرے کپڑے کھینچ کرمجھے روک دیا،ان انصاری رضی اللہ عنہ نے کہامیرے ساتھ چل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرے لیے دعائے مغفرت کراؤں گا،تواس نے بڑی رعونت سے کہا مجھے ان کی دعاکی کچھ حاجت نہیں ۔[64]

[1] میزان الاعتدال ۱۹۲؍۲، تہذیب الکمال فی أسماء الرجال ۳۰۵؍۱۱

[2]ط

[3] عیون الآثر۲۸؍۲

[4] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ ۴۰۴۳،وبَابُ فَضْلِ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۹،البدایة والنہایة۲۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۹؍۳

[5]ط

[6]ط

[7] مسند احمد ۴۴۱۴

[8] ابن ہشام۹۴؍۲،الروض الانف ۱۹؍۶،عیون الآثر۲۸؍۲،البدایة والنہایة۴۳؍۴، شرح الزرقانی علی المواھب ۴۴۴؍۲

[9] تاریخ طبری ۵۲۸؍۲، البدایة والنہایة ۴۳؍۴، السیرة الحلبیة۳۳۳؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۷۶؍۳

[10] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ ۴۰۷۹، السنن الکبری للنسائی۲۰۹۳،صحیح ابن حبان۳۱۹۷،سنن الدارقطنی۴۲۰۷،شرح السنة للبغوی۱۵۰۰،السنن الکبری للبیہقی۶۷۹۵

[11] مسنداحمد۱۵۴۹۲

[12] صحیح بخاری ،مسنداحمد۱۵۴۹۲

[13] ابن ہشام۸۷؍۲ ،عیون الاثر۲۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۷۱؍۳،البدایة والنھایة۴۱۵؍۵

[14] ابن ہشام ۹۴،۹۵؍۲ ،تاریخ طبری۵۲۸؍۲،البدایة والنھایة۴۲۴؍۵،عیون الاثر۲۹؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۷۸؍۳

[15] شرح الزرقانی علی المواھب ۴۴۷؍۲،عیون الآثر۲۷؍۲

[16] ابن ہشام ۹۹؍۲،الروض الانف۲۹؍۶، عیون الآثر۳۳؍۲

[17] عیون الاثر ۲۷؍۲ ،السیرة الحلبیة۳۲۹؍۲

[18] ابن ہشام ۹۷؍۲ ابن ہشام ۹۷؍۲

[19] الروض الانف ۲۶؍۶،عیون الآثر۳۰؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۴۹؍۲

[20] شرح الزرقانی علی المواھب ۴۴۹؍۲، تاریخ الخمیس ۴۴۲؍۱،مستعذب الإخبار بأطیب الأخبار۳۲۹؍۱،ذخائر العقبى فی مناقب ذوى القربى۲۵۵؍۱، الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم والثلاثة الخلفاء۳۸۷؍۱

[21]۔الروض الانف ۲۶؍۶

[22] زادالمعاد۱۸۷؍۳

[23] دلائل النبوة للبیہقی۲۵۰؍۳

[24] زادالمعاد ۱۸۵؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۴۸؍۳،ابن سعد۳۹۶؍۳

[25] مغازی واقدی۲۹۳؍۱

[26] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۰۰؍۴

[27] ابن ہشام۹۰؍۲،عیون الاثر ۲۷؍۲، الروض الانف۱۴؍۶،البدایة والنہایة۴۱؍۴، الاصحابة فی تمیزالصحابة۵۰۱؍۴

[28] ابن ہشام۹۵،۹۶؍۲،تاریخ طبری ۵۲۸؍۲،البدایة والنھایة۴۴؍۴،الروض الانف ۲۱؍۶،مغازی واقدی ۲۹۰؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۷۹؍۳

[29] النحل ۱۲۶تا۱۲۸

[30] مغازی واقدی۲۹۰؍۱

[31]۔المعجم الاوسط۲۳۸؍۴، مستدرک حاکم۲۵۵۷

[32] المعجم الکبیر للطبرانی ۲۹۵۸

[33] مسند احمد ۴۴۱۴ ،مصنف ابن ابی شیبة ۳۶۷۸۳، البدایة والنہایة۴۶؍۴،ابن سعد۱۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۸۱؍۳

[34] تاریخ طبری۵۲۹؍۲،ابن ہشام ۹۷؍۲،الروض الانف۲۴؍۶،البدایة والنہایة۴۷؍۴،السیرة الحلیبة۳۳۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۸۳؍۳

[35] دلائل النبوة للبیہقی۲۸۹؍۳

[36] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۳،و كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ ۳۰۳۹

[37] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۴

[38] السیرة الحلبیة ۳۳۵؍۲

[39]صحیح ابن حبان۳۱۹۷،سنن ابوداودکتاب الجنائزباب فی الشھید یغسل ۳۱۳۵،صحیح بخاری کتاب الجنائزباب من لم یرغسل الشھداعن جابر ۱۳۴۶

[40] ابن ہشام۹۷؍۲

[41] ابن ہشام۸۷؍۲ ،عیون الاثر ۲۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۷۱؍۳،البدایة والنھایة۴۱۵؍۵

[42] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍعن جابر ۴۰۸۰، وکتاب الجنائزبَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ۱۲۴۴ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ وَالِدُ جَابِرٍ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا۶۳۵۴،سنن نسائی کتاب الجنائزباب تَسْجِیَةُ الْمَیِّتِ۱۸۴۳، مسنداحمد۱۴۱۸۷،صحیح ابن حبان۷۰۲۱

[43] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ ۴۰۸۲، وبَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۷،وکتاب الجنائزبَابُ إِذَا لَمْ یَجِدْ كَفَنًا إِلَّا مَا یُوَارِی رَأْسَهُ، أَوْ قَدَمَیْهِ غَطَّى رَأْسَهُ۱۲۷۶،وکتاب الرقاق بَابُ فَضْلِ الفَقْرِ ۶۴۴۸ ،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی كَفَنِ الْمَیِّتِ ۲۱۷۷،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۶۶۲،۶۹؍۴

[44] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ۴۰۷۹ ،وکتاب الجنائز بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ۱۳۴۳، وبَابُ مَنْ یُقَدَّمُ فِی اللحْدِ عن جابر ۱۳۴۷،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ ۳۱۳۶،۳۱۳۸

[45] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۳۴۴، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصِفَاتِهِ عن عقبہ بن عامر ۵۹۷۶

[46] مغازی واقدی۳۰۷؍۱

[47] ابن ہشام۵۱۸؍۱، الروض الانف ۲۰۶؍۴، عیون الآثر۲۴۰؍۱،تاریخ طبری ۵۳۱؍۲ ،البدایة والنھایة۳۶؍۴،دلائل النبوة لابی نعیم۷۸؍۱، امتاع الاسماع ۱۶۰؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۳۴۴؍۲

[48] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۴۰۷؍۸

[49] ابن ہشام ۹۸؍۲،تاریخ طبری ۵۳۲؍۲،الروض الانف ۲۷؍۶،دلائل النبوة للبیہقی ۳۰۱؍۳،البدایة والنھایة۴۴۸؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۹۳؍۳

[50] سیرة الحلبیلة۳۴۵؍۲،مغازی واقدی ۳۱۶؍۱

[51] ابن ہشام۹۹؍۲ ،الروض الانف۲۸؍۶،دلائل النبوة للبیہقی ۳۰۱؍۳، البدایة النہایة۵۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۹۵؍۳

[52] ابن ہشام ۱۰۰؍۲،الروض الانف۳۰؍۶،عیون الآثر۳۵؍۲،البدایة والنہایة۵۴؍۴،تاریخ طبری۵۳۳؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۹۴؍۳

[53] ابن ہشام۱۰۱؍۲،الروض الأنف۳۱؍۶،عیون الأثر۵۳؍۲،السیرة النبویة لابن كثیر۹۸؍۳

[54] زادالمعاد۲۱۶؍۳

[55] ابن ہشام۱۰۱؍۲،الروض الانف ۳۱؍۶،عیون الآثر۵۳؍۲،تاریخ طبری ۵۳۴؍۲

[56] ابن ہشام ۱۰۱؍۲،الروض الانف۳۰؍۶،تاریخ طبری۵۳۴؍۲،البدایة والنہایة ۵۶؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۳۱۴؍۳

[57] ابن سعد ۳۸؍۲،عیون الآثر۵۴؍۲،المغازی واقدی۳۳۶؍۱

[58] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۴۰۷۷

[59] عیون الآثر۵۴؍۲،ابن سعد۳۸؍۲،ابن ہشام۱۰۵؍۲

[60] ابن سعد۳۷؍۲،عیون الآثر۵۴؍۲،مغازی واقدی۳۳۸؍۱

[61] ابن ہشام ۱۰۴؍۲،عیون الاثر۵؍۲،البدایة والنھایة۴۶؍۴

[62] فتح الباری ۳۴۷؍۷

[63] الدعاء للطبرانی۱۳۸۶

[64] ابن ہشام۷۸؍۲،الروض الانف۳۶؍۶

Related Articles