ہجرت نبوی کا تیسرا سال

واقعہ رجیع

ابوسفیان غزوۂ احدسے جاتے ہوئے جنگ کی دھمکی دے گیاتھاان حالات میں دشمن کے ارادوں اوران کی تیاریوں سے باخبررہنااشدضروری تھا،

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِیَّةً عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ ، فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالهَدَأَةِ، وَهُوَ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ، ذُكِرُوا لِحَیٍّ مِنْ هُذَیْلٍ، یُقَالُ لَهُمْ بَنُو لَحْیَانَ،فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِیبًا مِنْ مِائَتَیْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنَ المَدِینَةِ، فَقَالُوا: هَذَا تَمْرُ یَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ

چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نانا عاصم رضی اللہ عنہ بن ثابت انصاری کی سرکردگی میں دس صحابہ رضی اللہ عنہم کاایک دستہ دے کرکفارکی جاسوسی کے لئےروانہ کیاجب یہ لوگ مکہ مکرمہ اورعسفان کے درمیان مقام رجیع پر پہنچے تواس دستہ کی خبر کسی طرح قبیلہ ہذیل کے ایک ذیلی قبیلے بنولحیان کوہوگئی یاعضل اورقارہ کے وفدنے سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق بدعہدی اورغداری کی اوربنولحیان کواطلاع بھیجی کہ تمہاراشکارآپہنچاہے،بنولحیان نے اہل حق کے اس مختصر دستہ کوپکڑنے کے لئے تقریبا ًدو سوتیراندازوں کوان کے تعاقب میں روانہ کیاجن میں سے سواعلی درجے کے قادراندازتھے،یہ لوگ ان کے پاؤں کے نشانات دیکھتے دیکھتے اس مقام پرپہنچے جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم آرام کرنے کے لئے اترے تھے ،انہوں نے وہاں بیٹھ کر کھجوریں کھائیں اوراپنے راستے پرچل دیئے تھے ، مشرکین کھجورکی گٹھلیاں دیکھ کرپہچان گئے کہ یہ مدینہ کی کھجوریں ہیں ،چنانچہ وہ مسلمانوں کے تعاقب میں مزیدتیزچلنے لگے اورتھوڑے ہی فاصلے پر انہیں جالیا،

فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ القَوْمُ، فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَیْدِیكُمْ، وَلَكُمُ العَهْدُ وَالمِیثَاقُ، وَلاَ نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا، قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِیرُ السَّرِیَّةِ: أَمَّا أَنَا فَوَاللهِ لاَ أَنْزِلُ الیَوْمَ فِی ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّكَ، فَأَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ، وَمَا أُصِیبُوا فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّی أَحْمِی لَكَ الْیَوْمَ دِینَكَ فَاحْمِ لَحْمِی،وَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ

عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اوران ساتھیوں نے ان کوآتے دیکھاتودوڑکرپناہ کے لئے ایک قریبی ٹیلے پرچڑھ گئے ، دشمن تعدادمیں زیادہ تھے اس نے ٹیلے کامحاصرہ کرلیا اورکہنے لگے کہ اگرتم نیچے اترآؤ اور اپنی گرفتاری دے دوتوہم تم سے حلفیہ عہد کرتے ہیں کہ ہم کسی آدمی کوقتل نہیں کریں گے، سریہ کاامیرعاصم رضی اللہ عنہ بن ثابت نے ان کی بات ماننے سے انکارکردیااورکہامیں تو کسی مشرک کی امان میں نہیں اتروں گا،پھراللہ تعالیٰ سے دعاکی اے اللہ !ہماری خبراپنے نبی تک پہنچاد ے، اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ عنہ کی دعاقبول فرمائی اور اسی وقت بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی خبردی اورآپ نے اسی وقت صحابہ کو خبردی اوراس وقت انہوں نے ایک اور دعا مانگی،اے اللہ! میں آج تیرے دین کی حفاظت کررہاہوں تو کافروں سے میرے جسم کی حفاظت فرمانا۔یہ کہہ کریہ رجزپڑھتے ہوئے دشمنوں میں گھس گئے

مَا عِلَّتِی وَأَنَا جَلْدُ نَابِلُ ،وَالْقَوْسُ فِیهَا وَتَرٌ عُنَابِلُ

میں کمزورنہیں ہوں ،صاحب قوت اورقادراندازہوں ، اورمیری کمان کی تانت بہت مضبوط ہے

تَزِلُّ عَنْ صَفْحَتِهَا المعابل  ،الموت حقٌّ والحیاة باطلُ

چوڑے تیر،کمان کے اوپرسے پھسلتے ہیں             ، موت حق ہے اورزندگی باطل

وَكُلُّ مَا حَمَّ الْإِلَهُ نَازِلُ،بِالْمَرْءِ وَالْمَرْءُ إِلَیْهِ آیِلُ

اورجوکچھ انسان کے مقدرمیں ہے وہ ہوکررہے گا   ،اورآدمی اپنے رب کی طرف ضرورلوٹے گا

إِنْ لَمْ أُقَاتِلْكُمْ فَأُمِّی هَابِلُ

اگرمیں تم سے نہ لڑوں پس میری ماں مجھ کوگم کردے

وَقَالَ عَاصِمٌ أَیْضًا:

أَبُو سُلَیْمَانَ وَرِیشُ الْمُقْعَدِ ،وَضَالَةٌ مِثْلُ الْجَحِیمِ الْمُوقَدِ

میں ابوسلمان ہوں اورمیرے پاس مقعدجیسے نامورتیرگرکاتیرہے، اوریہ تیرشعلہ جوالہ کی مثل ہے

إِذَا النَّوَاحِی افْتُرِشَتْ لَمْ أُرْعَدِ ، وَمُجْنَأٌ مِنْ جِلْدِ ثَوْرٍ أَجْرَدِ

اورجب لڑائی کاتنورگرم ہوجائے تومجھ پرکپکپی طاری نہیں ہوتی             اورمیرے پاس بیل کی کھال کی عمدہ ڈھال ہے

أَنَا أَبُو سُلَیْمَانَ وَمِثْلِی رَامَا ،وَرِثْتُ مَجْدِی مَعْشَرًا كِرَامَا

میں ابوسلمان ہوں اورمجھ جیساشجاع اب لڑائی پرتل گیا ،میری قوم بھی معززہے اورمیراخاندان بھی

أَجْرَدِ وَمُؤْمِنٌ بِمَا عَلَى مُحَمَّدِ

اورمیں ان تمام چیزوں پرایمان لاچکاہوں جن پرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں ۔[1]

فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِی سَبْعَةٍ،ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ وَقُتِلَ صَاحِبَاهُ، فَنَزَلَ إِلَیْهِمْ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ بِالعَهْدِ وَالمِیثَاقِ، مِنْهُمْ خُبَیْبٌ الأَنْصَارِیُّ، وَابْنُ دَثِنَةَ، وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِیِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: هَذَا أَوَّلُ الغَدْرِ، وَاللهِ لاَ أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِی فِی هَؤُلاَءِ لَأُسْوَةً یُرِیدُ القَتْلَى، فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ یَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ فَانْطَلَقُوا بِخُبَیْبٍ، وَابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ

صحابہ رضی اللہ عنہم گرفتاری سے انکارپرجنگ شروع ہوگئی اورکفارنے ان بیکس مسلمانوں پرچاروں طرف سے تیروں اور برچھیوں سے حملہ کردیا،مسلمانوں نے کچھ دیرتک نہایت ثابت قدمی سے مقابلہ کیا مگرجلدہی (بچاؤکی جگہ نہ ہونے کے باعث) امیردستہ سمیت سات آدمیوں کو شہید کردیااورٹیلے پرصرف تین صحابہ خبیب رضی اللہ عنہ بن عدی اوسی بدری ، زید بن وثنہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ رضی اللہ عنہ بن طارق باقی رہ گئے، مشرکین نے انہیں اس عہدوپیمان پر پھرگرفتاری کی پیشکش کی کہ وہ کسی کوقتل نہیں کریں گے،تینوں صحابہ ان کے عہدو پیمان پربھروسہ کرکے ٹیلے سے نیچے اترآئے ،جب مشرکین نے ان پر قابوپالیاتواپنی کمانوں کی تانتیں کھول کراس سے انہیں مضبوطی سے باندھ لیا،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن طارق نے اپنے ساتھیوں سے کہایہ ان لوگوں کی پہلی وعدہ خلافی ہے ، اللہ کی قسم میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گامجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ ان لوگوں کاارادہ ہمیں قتل کرنے کاہے ،جب یہ لوگ مقام ظہران پرپہنچے توعبداللہ رضی اللہ عنہ بن طارق نے مشرکین کے ساتھ چلنے سے انکارکردیا بلکہ میں توانہیں حضرت کااسوہ اختیارکروں گا،ان کی مرادشہداء سےتھی دشمنوں نے انہیں ساتھ چلنے کے لئے مجبورکیااور آگے کی طرف کھینچالیکن وہ اپنی جگہ سے ہلنے پرراضی نہ ہوئے جس پرمشرکین نے انہیں وہیں شہید کر کے دفن کردیا،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن طارق کی قبرظہران میں موجودہے،اب ان لوگوں نے باقی دوصحابہ خبیب رضی اللہ عنہ بن عدی اوسی بدری اور زید رضی اللہ عنہ بن دثنہ کو مکہ مکرمہ لاکر فروخت کردیا ،

فَابْتَاعَ خُبَیْبًا بَنُو الحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَ خُبَیْبٌ هُوَ قَتَلَ الحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ یَوْمَ بَدْرٍ ، فَلَبِثَ خُبَیْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِیرًا، أَنَّهُمْ حِینَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى یَسْتَحِدُّ بِهَا، فَأَعَارَتْهُ،فَأَخَذَ ابْنًا لِی وَأَنَا غَافِلَةٌ حِینَ أَتَاهُ قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالمُوسَى بِیَدِهِ، فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَیْبٌ فِی وَجْهِی فَقَالَ: تَخْشَیْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ

خبیب رضی اللہ عنہ بن عدی کو حجیر بن ابی اہاب تیمی نے جو بنونوفل کے عقبہ بن حارث بن عامربن نوفل کاحلیف تھا اور حجیر بن ابی اہاب تیمی،حارث بن عامرکاماں جایابھائی تھا اپنے مقتول باپ حارث بن عامر کے بدلے قتل کرنے کے لئے خریدلیا، اورزید رضی اللہ عنہ بن دثنہ کوصفوان بن امیہ نے اپنے مقتول باپ امیہ بن خلف کے بدلے قتل کرنے کے لئے خریدلیا ، صفوان نے تواپنے قیدی کے قتل میں تاخیر مناسب نہ سمجھی اور زید رضی اللہ عنہ کواپنے غلام نسطاس کے ساتھ حرم سے باہرتغیم میں قتل کرنے کے لئے بھیج دیااور نسطاس نے انہیں شہید کر دیا(نسطاس نے بعدمیں اسلام قبول کر لیا )مگر خبیب رضی اللہ عنہ کومحترم مہینوں کے گزرنے تک قیدی بناکر رکھا گیا،آخرکفار خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل پربھی متفق ہوگئےجب وہ لوگ ان کے قتل کے لئے جمع ہوئے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے حارث بن عامرکی بیٹی زینب سے (جو بعد میں مسلمان ہوگئی ) زیرناف بالوں کومونڈنے کے لئے ایک استرامانگا لڑکی نے انہیں استرا لاکردے دیا،اسی دوران خبیب رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کے بیٹے کو(جواس کے قریب ہی کھڑا تھا ) اپنی گود میں لے لیااورحارث کی لڑکی کوخبربھی نہ ہوئی ، جب اس نے اپنے بچے کو خبیب رضی اللہ عنہ کے زانو پر بیٹھا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھاکہ خبیب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں (اس کا دیا ہوا ) استرا ہے تووہ ڈرگئی(کہ اب یہ اس کے بچے کی گردن کاٹ ڈالیں گے) خبیب رضی اللہ عنہ اس لڑکی کے چہرے سے اس کی دلی گھبراہٹ کوپہچان گئے، اور اس لڑکی سے کہاکیاتمہیں اس بات کااندیشہ ہے کہ میں اس بچے کوقتل کرڈالوں گاگھبراؤنہیں انشا اللہ میں ایساکوئی کام نہیں کروں گاہم لوگ غدر نہیں کرتے،

وَاللهِ مَا رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ وَاللهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ یَوْمًا یَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِی یَدِهِ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِی الحَدِیدِ، وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍوَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللهِ رَزَقَهُ خُبَیْبًا، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الحَرَمِ لِیَقْتُلُوهُ فِی الحِلِّ، قَالَ لَهُمْ خُبَیْبٌ: ذَرُونِی أَرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ فَتَرَكُوهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَیْنِ، أَمَا وَاللهِ لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنِّی إِنَّمَا طوَّلت جَزَعًا مِنَ الْقَتْلِ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الصَّلَاةِ،وقَالَ خُبَیْب حین صلبه

حارث کی لڑکی زینب بارہا کہتی تھی کہ میں نے خبیب رضی اللہ عنہ سے بہترکوئی قیدی نہیں دیکھااللہ کی قسم !وہ زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اورمیں نے ان ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا جس میں سے وہ کھا رہے تھےجبکہ مکہ میں اس زمانہ میں کوئی پھل نہیں آرہاتھاوہ رزق اللہ ہی کی طرف سے تھا اوراللہ ہی نے خبیب رضی اللہ عنہ کو دیاتھا،مشرکین مکہ خبیب رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے کے لئے حدودحرم سے باہر تنعیم میں لے گئےوہاں خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہامجھے قتل کرنے سے پہلے صرف اتنی سی مہلت دے دو کہ میں ہلکی سی دورکعت نماز پڑھ لوں ، مشرکین نے ان یہ درخواست منظورکرلی اور انہیں نمازکے لئے چھوڑدیا انہوں نے دو رکعت نمازپڑھی،اس کے بعدانہیں مخاطب ہوکر کہااللہ کی قسم !میں نمازکوطویل کرتامگرمجھے یہ خوف رہاکہ کہیں تم یہ گمان نہ کرنے لگوکہ میں موت کے خوف سے ایسا کررہا ہوں ۔

اس کے بعدیہ شجاع ترین مردمومن سولی کے نیچے جاکرکھڑاہوگیااورفی البدیہہ یہ اشعارپڑھے۔

لَقَدْ جَمَّعَ الْأَحْزَابُ حَوْلِی وَأَلَّبُوا ،قَبَائِلَهُمْ وَاستَجْمَعُوا كُلَّ مَجْمَعِ

ان گروہوں نے اپنے اپنے قبائل کو میرے گرجمع کرلیاہے اوردعوت دے کرتمام قبائل کومجمع کیا ہے

إِلَى اللهِ أَشْكُو كُرْبَتِی بَعْدَ غُرْبَتِی ،وَمَا جَمَعَ الْأَحْزَابُ لِی حَوْلَ مَصْرَعِی

میں صرف اللہ سے اپنی اجنبیت اوراپنے دکھ کی شکایت کرتاہوں اوراس بندوبست کی جولشکروں نےمیرے قتل کے لیے کیاہے

وَقَدْ جَمَعُوا أَبْنَاءَهُمْ وَنِسَاءَهمْ، وَقُرِّبْتُ مِنْ جِذْعٍ طَوِیلٍ مُمَنَّعِ

اور اپنی عورتوں اوربچوں کومیرے قتل کاتماشادکھانے لائے ہیں ،اورمجھے ایک اونچے تنے قریب کردیاگیاہے

وَكُلُّهُمُ مُبْدِی الْعَدَاوَةِ جَاهِدٌ ،عَلَیَّ لِأَنِّی فِی وَثَاقٍ مُضَیَّعِ

یہ تمام لوگ مجھ سے برملا اپنی عداوت بیان کر رہے ہیں ،اورمجھ پرزورآزمائی کررہے ہیں کیونکہ میں رسیوں سے بندھاہو بے بس ہوں

فَذَا الْعَرْشِ صَبِّرنِی عَلَى مَا یُرَادُ بِ ، فَقَدْ بَضَّعُوا لَحْمِی وَقَدْ یَاسَ مَطْمَعِی

عرش اعلیٰ کے مالک نے مجھے اس مصیبت پر صابربنادیاہےجس کامیرے ساتھ ارادہ کیاجاتاہے۔انہوں نے میرے گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالنے کاارادہ کیاہے اورمجھے ناامیدی ہوگئی ہے

وَقَدْ خَیَّرُوِنی الْكُفْرَ وَالْمَوْتُ دُونَهُ ،وَقَدْ ذَرَفَتْ عَیْنَایَ مِنْ غَیْرِ مَجْزَعِ

انہوں نے مجھے کفریاموت کے قبول کرنے میں اختیاردیاہے،میری آنکھیں نمناک ہیں لیکن یہ بے صبری کے آنسونہیں ہیں

وَمَا بِی حِذَارُ الْمَوْتِ إنِّی لَمَیِّتٌ ،وَلَكِنْ حِذَارِی جَحْمُ نَارٍ مُلَفَّعِ

موت کامجھے ڈرنہیں ہے بے شک میں مرنے والاہوں ،ڈرہے توجہنم کی شعلہ بارخون چوسنے والی آگ کا

وَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا   ،عَلَى أَیِّ شِقٍّ كَانَ فِی اللهِ مَصْرَعِی

جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیاجارہاہوں تومجھے پرواہ نہیں ، کہ مجھے کس پہلوپرپچھاڑکرماراجاتاہے

وَذَلِكَ فِی ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ یَشَأْ ، یُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ

اوریہ قتل مجھ کوخاص اللہ کے معاملہ میں نصیب ہواہے،اگروہ چاہے تومیرے جسم کے پارہ پارہ کیے ہوئے جوڑوں پربرکت نازل فرماسکتاہے۔[2]

پھراللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح دعا فرمائی

اللهُمَّ إِنَّا قَدْ بَلَّغْنَا رِسَالَةَ رَسُولِكَ، فَبِلِّغْهُ الْغَدَاةَ مَا یُصنع بِنَا ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ احْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بِدَدًا وَلَا تُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا

اے اللہ! ہم نے تیرے رسول کاپیغام ان لوگوں تک پہنچادیاہےتواپنے رسول برحق کومیرے حال کی خبرپہنچادے، پھر کہا اے اللہ! ان کوگن لے ،ان کوعلیحدہ علیحدہ مار اوران میں  کسی کونہ چھوڑ۔

مشرکین خبیب رضی اللہ عنہ کی بددعاسے اتنے خوفزدہ ہوئے کہ ان میں سے اکثرپہلوکے بل زمین پرلیٹ گئے ،بعض ایک دوسرے کے پیچھے چھپتے پھرتے تھے،کچھ لوگ کانوں میں انگلیاں دے کربھاگنے لگے اوربعض درختوں کی آڑمیں جاچھپے کیونکہ یہی طریقے ان کے نزدیک بددعاسے بچنے کے تھے،یہ منظراتناعبرتناک اوردردانگیزتھاکہ اس موقعہ پر موجود لوگوں کومدت العمرتک یادرہا۔

فَقَالَ مُعَاوِیَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ: لَقَدْ حَضَرْت دَعْوَتَهُ وَلَقَدْ رَأَیْتنِی وَإِنّ أَبَا سُفْیَانَ لَیُضْجِعَنِی إلَى الْأَرْضِ فَرَقًا مِنْ دَعْوَةِ خُبَیْبٍ، وَلَقَدْ جَبَذَنِی یَوْمَئِذٍ أَبُو سُفْیَانَ جَبْذَةً، فَسَقَطْت عَلَى عَجْبِ ذَنَبِی فَلَمْ أَزَلْ أَشْتَكِی السّقْطَةَ زَمَانًا

معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت خبیب رضی اللہ عنہ نے بددعاکی میں وہاں موجودتھا اس بددعاکے اثرسے محفوظ رہنے کے لیےمیرے والد ابوسفیان نے مجھ کواس زورسے دھکادیا کہ میں سرین کے بل زمین پر گر پڑاپھرمجھ کوایسی سختی سے گھسیٹاکہ میرابدن چھل گیااورمیں اس صدمے سے کئی دن تک صاحب فراش رہا۔[3]

فَكَانَ مُعَاوِیَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ یَقُولُ: حَضَرْتُهُ یَوْمَئِذٍ فِیمَنْ حَضَرَهُ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ، فَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یُلْقِینِی إلَى الْأَرْضِ فَرْقًا مِنْ دَعْوَةِ خُبَیْبٍ، وَكَانُوا یَقُولُونَ: إنَّ الرَّجُلَ إذَا دُعِیَ عَلَیْهِ، فَاضْطَجَعَ لِجَنْبِهِ زَالَتْ عَنْهُ

معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اپنے والدابوسفیان کے ساتھ وہاں موجودتھا جس وقت خبیب رضی اللہ عنہ نے بددعاکی تواس بددعاکے اثرسے محفوظ رہنے کے لیے میں زمین پرلیٹ گیا کیونکہ میں نے لوگوں سے سناتھاکہ اگرکوئی کسی پربددعاکرے اوروہ لیٹ جائے تواس بددعاکااثرنہیں ہوتا۔[4]

نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الدّیلِیّ، قَالَ: حَضَرْت یَوْمَئِذٍ دَعْوَةَ خُبَیْبٍ، فَمَا كُنْت أَرَى أَنّ أَحَدًا مِمّنْ حَضَرَ یَنْفَلِت مِنْ دَعْوَتِهِ، وَلَقَدْ كُنْت قَائِمًا فَأَخْلَدْت إلَى الْأَرْضِ فَرَقًا مِنْ دَعْوَتِهِ

نوفل بن معاویہ الدیلی کہتے ہیں جس روزخبیب رضی اللہ عنہ نے بددعاکی تھی میں وہاں موجودتھاجب خبیب رضی اللہ عنہ نے یہ بددعاکی تواکثر لوگ جوکھڑے تھے خبیب رضی اللہ عنہ کی بددعاسے بچنے کے لیے پہلوکے بل زمین پرلیٹ گئے۔[5]

وَقَالَ حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ: لَقَدْ رَأَیْتنِی أَتَوَارَى بِالشّجَرِ فَرَقًا مِنْ دَعْوَةِ خُبَیْبٍ

حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام کہتے ہیں کہ میں خبیب رضی اللہ عنہ کی بددعاکے خوف سے درختوں کی آڑمیں جاچھپا۔

جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ یَقُولُ: لَقَدْ رَأَیْتنِی یَوْمَئِذٍ أَتَسَتّرُ بِالرّجَالِ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُشْرِفَ لِدَعْوَتِهِ

جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم کہتے تھے جب میں نےخبیب رضی اللہ عنہ کی بددعاسنی تواس کے اثر سے بچنے کے لیے دوسرے آدمیوں کے پیچھے چھپنے لگا۔

وَقَالَ حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزّى: لَقَدْ رَأَیْتنِی أَدْخَلْت إصْبَعِی فِی أُذُنِی وَعَدَوْت هَرَبًا فَرَقًا أَنْ أَسْمَعَ دُعَاءَهُ، وكذلك قال جماعة منهم

حویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیٰ کہتے ہیں میں اپنے کانوں میں انگلیاں دے کربڑے زورسے بھاگا کہ خبیب رضی اللہ عنہ کی بددعانہ سن سکوں ،ان کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی ایساہی کیا ۔[6]

وكان سَعِیدَ بْنَ عَامِرِ بْنِ حِذْیَمٍ ثم الْجُمَحِیَّ تُصِیبُهُ غَشْیَةٌ فَسَأَلَهُ عُمَرُ رضی الله عنه:یَا سَعِیدُ مَا هَذَا الَّذِی یُصِیبُكَ؟أَبِك جُنّةٌ؟فَقَالَ: وَالله یَا أَمِیر الْمُؤمنِینَ مَا بى مَا بَأْسٍ، وَلَكِنِّی كُنْتُ فِیمَنْ حَضَرَ خُبَیْبَ بْنَ عَدِیٍّ حِینَ قُتِلَ، وَسَمِعْتُ دَعْوَتَهُ، فَوَاللهِ مَا خَطَرَتْ عَلَى قَلْبِی وَأَنَا فِی مَجْلِسٍ قَطُّ إِلَّا غُشِیَ عَلَیَّ! فَزَادَتْهُ عِنْدَ عُمَرَ خَیْرًا

سعید رضی اللہ عنہ بن عامرکوکبھی کبھی غشی دورے پڑتے تھے ، ایک دفعہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھااے سعید رضی اللہ عنہ !تمہیں یہ دورے کیوں پڑتے ہیں ؟کیاتمہیں جنون ہوگیاہے؟ توانہوں نے کہااللہ کی قسم !اے امیرالمومنین مجھے کوئی بیماری نہیں ہے، میں خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت تماشائیوں میں موجودتھامجھے جب کبھی خبیب رضی اللہ عنہ کی بددعایادآجاتی ہے تومیں کپکپاکربے حوش ہوجاتاہوں اوریہ میرے بس کی بات نہیں ۔[7]

اسی طرح وہاں موجود دوسرے سب لوگوں میں بھی بھگدڑمچ گئی تھی ۔

ثُمَّ قَالَ: فَقَامَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ

اس کے بعدعقبہ بن حارث اٹھا اور انہیں شہید کردیا۔[8]

الَّذِی قَتَلَ خُبَیْبًا، هُوَ أَبُو سِرْوَعَةَ

صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں  خبیب رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والاابوسروعة تھا۔[9]

وَاسْمُهُ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ

اوراس کانام عقبہ بن حارث تھا،

فَقَالُوا أَبُو سِرْوَعَةَ أَخُو عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِابوسروعة عقبہ بن حارث کابھائی وَذكر بن إِسْحَاقَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ مَا أَنَا قَتَلْتُ خُبَیْبًا لِأَنِّی كُنْتُ أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَكِنْ أَبَا مَیْسَرَةَ الْعَبْدَرِیَّ أَخَذَ الْحَرْبَةَ فَجَعَلَهَا فِی یَدَیَّ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدَیَّ وَبِالْحَرْبَةِ ثُمَّ طَعَنَهُ بِهَا حَتَّى قَتَلَهُ

ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاابن اسحاق کی ایک حسن صحیح روایت میں ہے کہ عقبہ بن حارث نے خبیب رضی اللہ عنہ کوقتل نہیں کیاتھاکیونکہ وہ چھوٹاتھاانہیں ابومیسرہ عبدری نے قتل کیاتھا،اس نے نیزہ پکڑااورعقبہ کے ہاتھ میں دیاپھرنیزے سمیت اس کاہاتھ پکڑااورخبیب رضی اللہ عنہ کومارااورانہیں قتل کردیا۔[10]

وَأَخْرَجُوهُ مِنْ الْحَرَمِ لِیَقْتُلُوهُ. وَاجْتَمَعَ رَهْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ فِیهِمْ أَبُو سُفْیَانَ ابْن حَرْبٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو سُفْیَانَ حِینَ قَدِمَ لِیُقْتَلَ: أَنْشُدُكَ اللهَ یَا زَیْدُ، أَتُحِبُّ أَنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنَا الْآنَ فِی مَكَانِكَ نَضْرِبُ عُنُقَهُ، وَأَنَّكَ فِی أَهْلِكَ؟ قَالَ: وَاَللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ مُحَمَّدًا الْآنَ فِی مَكَانِهِ الَّذِی هُوَ فِیهِ تُصِیبُهُ شَوْكَة تؤذیه، وأنّى جَالِسٌ فِی أَهْلِی، یَقُولُ أَبُو سُفْیَانَ: مَا رَأَیْتُ مِنْ النَّاسِ أَحَدًا یُحِبُّ أَحَدًا كَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا، ثُمَّ قَتَلَهُ نِسْطَاسُ

ایک روایت میں ہے قریش ان کوقتل کرنے لئے حرم سے باہرلے گئے اور ان کے قتل کاتماشا دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوگئے، اس مجمع میں ابوسفیان ابن حرب بھی تھا اس نے کہااے زید رضی اللہ عنہ !تم یہ بات پسندکرتے ہوکہ تم اپنے عزیزوں میں خوشی کے ساتھ ہوتےاورتمہارے بجائے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اس جگہ ہوتے کہ ہم ان کی گردن مارتے،زید رضی اللہ عنہ نے کہامیں تویہ بھی نہیں چاہتا کہ میں اپنے عزیزوں میں چین وسکون سے بیٹھارہوں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرمیں کانٹابھی چھب جائے جوانہیں ایذادے،ابوسفیان نے اس جواب کوسن کرکہاکہ جیسامیں نے محمدکے اصحاب کومحمدکاجانثاردیکھاہے ایساکسی کےجانثار نہیں دیکھا پھرصفوان کے آزادکردہ غلام نسطاس نے انہیں قتل کردیا۔[11]

کفارمکہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کی نعش کاسولی پرلٹکاہواہی چھوڑدیا۔

فكان خبیب أو (أَوَّلَ) مَنْ سَنَّ هَاتَیْنِ الرَّكْعَتَیْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ للمسلمین

خبیب رضی اللہ عنہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے قتل ہونے سے پہلے دورکعتیں پڑھیں ۔[12]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرخبیب رضی اللہ عنہ کے اس فعل کی اطلاع ملی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوپسندفرمایا۔

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَعَثَهُ عَیْنًا وَحْدَهُ قَالَ جِئْتُ إِلَى خَشَبَةِ خُبَیْبٍ فَرَقَیْتُ فِیهَا وَأَنَا أَتَخَوَّفُ الْعُیُونَ، فَأَطْلَقْتُهُ، فَوَقَعَ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ اقْتَحَمْتُ فانتبذت قَلِیلًا، ثُمَّ التفتُّ فَلَمْ أَرَ شَیْئًا فَكَأَنَّمَ ا بلعته الْأَرْضُ فَلَمْ تُذكر لِخُبَیْبٍ رِمَّةٌ حَتَّى السَّاعَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ اورمقداد رضی اللہ عنہ کو ان کی نعش اتارلانے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایاجب یہ دونوں تنعیم پہنچے تو دیکھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ کی نعش کے چاروں طرف چالیس افرادپہرہ دینے کے لئے موجودہیں ، جب وہ لوگ کچھ غافل ہوئے توان دونوں نے نعش کوسولی سے اتار کر گھوڑے پر رکھا چالیس دن گزرنے کے باوجودان کی لاش تروتازہ تھی اوراس پرکوئی تغیرنہیں آیاتھا، مشرکین جب ہوش میں آئے اورلاش جس کی حفاظت کے لئے وہ مقرر تھے گم پایاتو تلاش میں دوڑےاوربالآخرانہیں جاپکڑا، زبیر رضی اللہ عنہ نے لاش کوگھوڑے سے اتارکرزمین پررکھا فورا ًزمین اس جگہ سے شق ہوئی اورلاش کونگل گئی اس وجہ سے خبیب رضی اللہ عنہ ابْتَلَعَتْهُ الأَرْضُ کے نام سے مشہورہیں ۔[13]

وقال لهم: أنا الزبیر بن العوام وصاحبی المقداد بن الأسود أسدان رابضان یذبان عن شبلهما، فإن شئتم ناضلتكم، وإن شئتم نازلتكم، وإن شئتم انصرفتم، فانصرفوا عنهماوقدما على رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المدینة وكان عنده صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جبریل علیه السّلام، فقال له جبریل: یا محمد إن الملائكة تباهی بهذین الرجلین من أصحابك

اب زبیر رضی اللہ عنہ قریش کی طرف متوجہ ہوئے اور للکار کرکہااے مشرکین قریش! میں عوام کابیٹازبیرہوں اوریہ میراساتھی مقدادبن الاسودکندی ہے ہم اپنے گھروں کولوٹ رہے ہیں اورتمہاراکوئی نقصان نہیں کیااگرتم تیروں سے لڑناچاہتے ہوتوہم تیروں سے لڑیں گے ،تلواروں سے لڑناچاہتے ہوتوہم بھی تلواروں سے لڑیں گے واللہ!جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم تمہیں اپنے نزدیک نہیں پھٹکنے دیں گے ،مشرکین نے جب دیکھاکہ یہ مردان حق مرنے مارنے پرآمادہ ہیں تووہ ان سے کوئی تعرض کیے بغیرواپس چلے گئے زبیر رضی اللہ عنہ اورمقداد رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورساراواقع بیان کیااس وقت جبریل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجودتھے انہوں نے کہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہارے ان دونوں ساتھیوں پرفخرکرتے ہیں ۔[14]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَعَثَهُ عَیْنًا وَحْدَهُ قَالَ جِئْتُ إِلَى خَشَبَةِ خُبَیْبٍ فَرَقَیْتُ فِیهَا وَأَنَا أَتَخَوَّفُ الْعُیُونَ، فَأَطْلَقْتُهُ، فَوَقَعَ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ اقْتَحَمْتُ فانتبذت قَلِیلًا، ثُمَّ التفتُّ فَلَمْ أَرَ شَیْئًا فَكَأَنَّمَا بلعته الْأَرْضُ فَلَمْ تُذكر لِخُبَیْبٍ رِمَّةٌ حَتَّى السَّاعَةِ

ایک روایت میں ہےبیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوس بھیجا اور یہ کہتا ہے کہ جب میں تخت صلیب کے قریب پہنچ کر اوپر چڑھ گیا اور مجھے ڈر بھی تھا کوئی دیکھ نہ لے لیکن باوجود خوف کے میں نے آخر کار اسے کھول ہی دیا تو نعش زمین پر گری تو میں نیچے اُتر آیا اور انتظار کرتارہا پھر میں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ بھی نہ تھاجیسے کہ خبیب کی نعش کو ایک جھٹکے میں زمین اُگل گئی ہے۔[15]

فَلَمَّا قُتِلَ عَاصِمٌ أَرَادَتْ هُذَیْلٌ أَخْذَ رَأْسِهِ، لِیَبِیعُوهُ مِنْ سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ شُهَیْدٍ، وَكَانَتْ قَدْ نَذَرَتْ حِینَ أَصَابَ ابْنَیْهَا یَوْمَ أُحُدٍ: لَئِنْ قَدَرَتْ عَلَى رَأْسِ عَاصِمٍ لَتَشْرَبَنَّ فِی قِحْفِهِ الْخَمْرَ

عاصم رضی اللہ عنہ کے شہیدہونے کے بعدہذیل کے لوگوں نے یہ ارادہ کیاکہ عاصم رضی اللہ عنہ کے سرکومکہ معظمہ میں لے جاکر سلافہ بنت سعیدکے ہاتھ فروخت کردیں کیونکہ جب عاصم رضی اللہ عنہ نے اس کے دو لڑکوں کو غزوئہ احد میں قتل کیاتھاتواس نے نذرمانی تھی کہ اگرمجھے موقعہ ملاتومیں عاصم کی کھوپڑی میں شراب پیؤں گی۔[16]

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ الطَّبَرِیُّ: وَجعِلَتْ لِمَنْ جَاءَتْ بِرَأْسِهِ مِائَةَ نَاقَةٍ

ابوجعفرطبری کہتے ہیں سلافہ نے اعلان کیاتھاجوعاصم کاسرلائے گااس کو۱۰۰اونٹ بطورانعام دیئے جائیں گے[17]

فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ، فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَى أَنْ یَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَیْئًا

ایک روایت میں ہے جب یہ لوگ ان کی لاش پرپہنچے تو(اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش کی حفاظت کایہ بندوبست فرمایاکہ) بھڑوں ایک جتھا نے ان کی لاش کوہرطرف سے گھیرلیاجس کی وجہ سے کوئی مشرک ان کے قریب بھی نہ جاسکااورنہ ان کے جسم کا کوئی ٹکڑاکاٹ سکے ۔[18]

فَكَانَ عُمَرُلَمَّا بَلَغَهُ خَبَرُه ُیَقُولُ: یَحْفَظُ اللهُ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ بَعْدَ وَفَاتِهِ كَمَا حَفِظَهُ فِی حَیَاتِهِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب کبھی عاصم رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوتاتوفرماتے اللہ تعالیٰ بعض مرتبہ اپنے خاص بندوں کی مرنے کے بعدبھی حفاظت فرماتے ہیں جیسے زندگی میں اس کی حفاظت فرماتے تھے۔[19]

وَقَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ یَبْكِی خُبَیْبًا:

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبیب رضی اللہ عنہ اوران کے رفقائے کرام کے مرثیے میں بڑے بلندپایہ شعرکہے ہیں ۔

مَا بَالُ عَیْنِكِ لَا تَرْقَا مَدَامِعُهَا ،سَحًّا عَلَى الصَّدْرِ مِثْلَ اللُّؤْلُؤِ الْقَلِقِ

حسان !کیاوجہ ہے تیرے آنسونہیں رک رہے؟،بلکہ تیرے سینے پرمضطرب موتیوں کی طرح بے تحاشاگررہے ہیں ؟

عَلَى خُبَیْبٍ فَتَى الْفِتْیَانِ قَدْ عَلِمُوا ، لَا فَشِلٍ حِینَ تَلْقَاهُ وَلَا نَزِقِ

کیاکروں ؟خبیب رضی اللہ عنہ کی یادآرہی ہے جوسوجوانوں کاایک جوان تھا،وہ جنگ میں بزدل نہ تھااورملاقات کے وقت بدخلق نہ تھا

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ أَیْضًا یَبْكِی خُبَیْبًا:

ابن اسحاق کہتے ہیں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل پریہ مرثیہ لکھا

یَا عَیْنُ جُودِی بِدَمْعٍ مِنْكِ مُنْسَكِبٍ ، وَابْكِی خُبَیْبًا مَعَ الْفِتْیَانِ لَمْ یَؤُبْ

اے آنکھ !ذراسخاوت کراوراپنے آنسوخوب برسا،اورخبیب رضی اللہ عنہ پرروجوجوانوں سمیت واپس نہ آیا۔

صَقْرًا تَوَسَّطَ فِی الْأَنْصَارِ مَنْصِبُهُ ، سَمْحَ السَّجِیَّةَ مَحْضًا غَیْرَ مُؤْتَشِبِ

وہ توشکراتھاانصارمیں اس مامرتبہ بہت بلندتھا،بہت فراغ طبیعت اورخالص النسب تھاذرہ بھربھی کھوٹ نہیں تھی

قَدْ هَاجَ عَیْنِی عَلَى عِلَّاتِ عَبْرَتِهَا ، إِذْ قیل نضّ إلَى جِذْعٍ من الْخشب

میری آنکھ بے تحاشاآنسوبرسانے لگی ،جب پتہ چلاکہ اسے لکڑی کے ایک تنے (سولی)پرچڑھادیاگیا۔[20]

 بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت:

مکاتب اس غلام یالونڈی کوکہتے ہیں جس کومالک یہ کہہ دے کہ اگرتواتناروپیہ اتنی قسطوں میں اداکردے توتوآزادہے،چنانچہ دورجاہلیت میں لونڈیوں اورغلاموں کوآزادہونے کے لئے کچھ مال اپنے آقاؤں کودیناپڑتاتھااورتاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اورعورتوں میں بریرہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کاواقعہ روایات میں مذکورہے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْنِی بَرِیرَةُ فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِی عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فِی كُلِّ عَامٍ وَقِیَّةٌ، فَأَعِینِینِی، فَقُلْتُ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ، وَیَكُونَ وَلاَؤُكِ لِی فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ بَرِیرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ فَأَبَوْا ذَلِكَ عَلَیْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَیْهِمْ فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ یَكُونَ الوَلاَءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:خُذِیهَا وَاشْتَرِطِی لَهُمُ الوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:أَمَّا بَعْدُ، مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَیْسَتْ فِی كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِی كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا (جوابھی تک ایک لونڈی تھیں ) آئیں اورکہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالکوں سے نواوقیہ چاندی پرمکاتبت کرلی ہے(نواوقیہ کاذکرراوی کاوہم ہے ،صحیح یہی کہ پانچ اوقیہ پرمعاملہ ہواتھا)شرط یہ مقررہوئی ہےکہ میں ہرسال ایک اوقیہ چاندی اپنے مالکوں کو ادا کروں گی ،اب آپ بھی میری کچھ مددکیجئے،عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااس پرمیں نے اس سے کہاکہ اگرتمہارے مالک یہ پسندکریں کہ یک مشت ان کاسب روپیہ میں ان لئے (ابھی) مہیاکردوں اورتمہاراترکہ میرے لئے ہوتومیں ایساکرسکتی ہوں ، بریرہ رضی اللہ عنہا اپنےمالکوں کے پاس گئیں اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی تجویزان کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے اس سے انکارکردیا، پھربریرہ رضی اللہ عنہا ان کے یہاں واپس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عائشہ رضی اللہ عنہا کے )گھربیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے کہاکہ میں نے توآپ کی صورت ان کے سامنے رکھی تھی مگروہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ ترکہ توہماراہی رہے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی اورعائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ کوحقیقت حال کی خبرکی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اسے خریدکرآزادکردو اورانہیں ترکہ کی شرط لگانے دو ،حق وراثت توآزادکرنے والے ہی کاہے،عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایساہی کیاپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کرلوگوں کے مجمع میں تشریف لے گئے اوراللہ کی حمدوثناکے بعدفرمایاکہ امابعد!کچھ لوگوں کوکیا ہوگیا ہے کہ وہ(خریدوفروخت میں )ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کتاب اللہ میں کوئی اصل نہیں ہےجوکوئی ایسی شرط لگائے جس کی کتاب اللہ میں اصل نہ ہووہ باطل ہوگی خواہ کوئی ایسی سوشرطیں کیوں نہ لگائے، اللہ تعالیٰ کاحکم سب پرمقدم ہے اوراللہ کی شرط ہی بہت مضبوط ہے اورولاء تواسی کی ہوتی ہے جوآزادکرے[21]

ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا بنت خزیمہ سے نکاح(تین ہجر ی)

ماں کی جانب سے یہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں ،

وَهِیَ الَّتِی یُقَالُ لَهَا أُمُّ الْمَسَاكِینِ لِكَثْرَةِ صَدَقَاتِهَا عَلَیْهِمْ وَبِرِّهَا لَهُمْ وَإِحْسَانِهَا إِلَیْهِمْ ،وَكَانَتْ قَبْلَهُ عِنْدَ الطُّفَیْلِ بْنِ الْحَارِثِ فَطَلَّقَهَاثُمَّ خَلَّفَ عَلَیْهَا أَخُوهُ عُبَیْدَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَقِیلَ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ فَقُتِلَ عَنْهَا یَوْمَ أُحد، مَاتَتْ فِی حَیَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقِیلَ لَمْ تَلْبَثْ عِنْدَهُ إِلَّا شَهْرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَةً حتَّى توفیت رضی الله عنہا

جاہلیت میں ان کالقب ام المساکین تھاکیونکہ وہ مساکین پرحدسے زیادہ مہربان تھیں اورانہیں ہمیشہ صدقہ وخیرات سے نوازتی رہتی تھیں لیکن ان کی طرف سے یہ صدقات ماہ رمضان میں خصوصاًبہت بڑھ جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنے سے قبل ا ن کاپہلانکاح طفیل بن حارث بن عبدالمطلب سے ہواتھاانہوں نے انہیں طلاق دیدی تھی،طفیل بن حارث سے طلاق بعدان سے ان کے بھائی عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب بن عبدمناف نے نکاح کرلیا،طفیل بن حارث سے طلاق کے بعدوہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن جحش کے عقدمیں آئی تھیں (جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاداورام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں )جوغزوہ احدمیں شہیدہو گئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک اس وقت ۵۵سال اور ان کی عمرتقریباًتیس سال تھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی وفات پاگئیں اوریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں صرف دو،تین ماہ وہ زندہ رہیں ۔[22]

ابان رضی اللہ عنہ بن العاص کاقبول اسلام

ان کی دوبھائی خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص اورعمرو رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص دعوت حق کے آغازہی میں اسلام قبول کرچکے تھے مگران کے بھائی ابان ابھی تک اسلام سے دور تھے،

أن سعید بن العاص قال:فخرج تاجرا إلى الشام. فذكر قصة طویلة اتفقت له مع راهب یقال له یكا وصف له صفة النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ واعترف بنبوته وقال له: أقرئ الرجل الصالح السلام، فرجع أبان فجمع قومه، وذكر لهم ذلك، ورحل إلى المدینة فأسلم

سعید رضی اللہ عنہ بن عاص سے مروی ہے جب میں تجارت سلسلے میں شام گیاراستے میں ایک راہب بھی ساتھ ہوگیاجس کانام یکاتھا،اس نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کاذکرکیا اوران کی نبوت کابھی اعتراف کیا،اورکہااس صالح شخص کومیراسلام کہنا،ابان شام سے واپس آیااوراپنی قوم کوجمع کیااوراس راہب کی باتیں بتلائیں اورپھرمدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پربیعت کرکے دعوت اسلام کوقبول کرلیا۔[23]

مضامین سورةالطلاق

عرب معاشرے میں عورتوں کی حالت بڑی خراب تھی،ان کے کوئی حقوق ہی نہ تھے ،خاوندکی طرف سے طلاقوں کی کوئی حدنہیں تھی ، خاوند بار بار طلاقیں دیتے اور بار بار رجوع کر لیتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے عورت کواس عذاب سے نجات دینے اورایک بہترین اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے سورہ بقرہ میں عائلی قوانین بیان کردیے گئے تھے،جواس طرح تھے۔

x خاونداپنی بیوی کوصرف تین طلاقیں دے سکتاہے۔

xایک طلاق کی صورت میں دوران عدت میں خاوندرجوع کرسکتاہے جبکہ دوطلاقوں کی صورت میں دوران عدت میں خاوند تجدید نکاح کرسکتاہے، لیکن اگرتین طلاقیں دے چکا ہو توخاوندکے لیے رجوع یاتجدیدنکاح کاحق باقی نہیں رہتاتا آنکہ بیوی کسی اورخاوند سے نکاح کرے اوروہ خاونداپنی مرضی سے طلاق دے دے۔

xجوعورت نکاح بعد خَلَوْتُ صَحِیحَة کرچکی ہو،اس کی طلاق کی صورت میں عدت تین حیض ہوگی اوراگرخَلَوْتُ صَحِیحَة سے قبل ہی طلاق واقع ہوجائے تواس کے لیے کوئی عدت نہیں ۔

xاگرایسی عورت کوطلاق ہویااس کاخاوندمرجائے جس کوحیض نہ آتاہوتواس کی عدت چارماہ دس دن ہوگی۔

چنانچہ اس سلسلے میں جومسائل جواب طلب تھے یاان میں عمل کے دوران میں کوئی ابہام محسوس کیاگیا، عائلی قوانین کی تکمیل کے لیے ان کی مزیدوضاحت کردی گئی،اور مردکوطلاق کاجواختیاردیاگیاہے اسے استعمال کرنے کے حکیمانہ اورمسنون طریقے کاذکرکیاگیا تاکہ حتی المقدورعلیحدگی اورطلاق سے بچاجاسکے اوراگرخاوندبیوی کے درمیان علیحدگی لازم ہوچکی ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ رہے توطلاق دینے یاعلیحدگی کابہترین اورطلاق حکیمانہ اندازکیاہوناچاہیے کیونکہ طلاق ایسی ضرورت ہے جوناگزیر حالات میں ہی پوری ہونی چاہیے کیونکہ طلاق کے بعدخاندان کی بنیادوں میں دراڑیں اوراولادکی تعلیم و تربیت اوراس سے متعلقہ بے شمار معاملات معاشرتی زندگی میں پریشانیوں کاباعث بن جاتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔[24]

امام حاکم نے اس روایت کوصحیح کہاہے اورامام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے ،مگرابوحاتم،دارقطنی اوربیہقی نے اس کامرسل ہوناراجح کہاہے،شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی غالباً اسی وجہ سے ان دونوں روایات کوضعیف سنن ابی داودمیں درج کیاہے۔

سورۂ کے اختتام پراللہ کے مقررکردہ اورنازل کردہ احکام کی پامالی اورمخالفت سے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے اورعبرت کے لیے ان امتوں کاذکرکیاگیاہے جنہوں نے سرکشی اور بغاوت کی روش اختیارکی تووہ عبرتناک عذاب اورسزاؤں کی مستحق ہوگئیں ،آخری آیت میں ارض وسماء کی تخلیق میں قدرت الہیہ کی طرف اشارہ کیاگیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُیُوتِهِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللَّهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ‎﴿١﴾‏ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِیمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ یُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ‎﴿٢﴾(الطلاق)
’’اے نبی ! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھواور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے ،پس جب یہ عورتیں اپنی عدت کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو اور اللہ کی رضامندی کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو، یہی ہے وہ جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے، اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔‘‘

سورۂ کاآغازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخطاب سے ہے اورپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کومسئلہ طلاق سمجھایاگیا،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَفْصَةَ فَأَتَتْ أَهْلَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ فَقِیلَ لَهُ:رَاجِعْهَا فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ وَإِنَّهَا مِنْ أَزْوَاجِكَ فِی الْجَنَّةِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کوطلاق دی اوروہ اپنے می میں آگئیں ،اس پریہ آیت’’اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے (ان کی عدّت کے حِساب سے) طلاق دیا کرو۔‘‘نازل ہوئی،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیاکہ ان سے رجوع کرلیں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والی اوربہت زیادہ نمازپڑھنے والی ہیں ،وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اورجنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں ۔[25]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی امت سے کہوکہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے کاپختہ ارادہ کرلو تو ان کی عدت کے دنوں کے آغازمیں انہیں طلاق دیا کرو،یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تواس سے ہم بستری کیے بغیرطلاق دو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مُرْهُ فَلْیُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِیُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِیضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِی أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے میں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کوطلاق دے دی،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اس مسئلہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعبداللہ کوکہوکہ اپنی عورت سےرجوع کرے ،پھراس کوٹھہرارکھے یہاں تک کہ وہ عورت اپنے حیض سےپاک ہوجائے،پھرجب اسےدوسراحیض آئے اوروہ دوسرے حیض سے پاک ہوجائے تب اگرعبداللہ کاجی چاہے اس کورکھے یاطلاق دے بشرطیکہ اس دوسرے حیض کے بعدبھی اس کے پاس نہ جائے ،یہی (طہر کی)وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کاحکم دیاہے ۔[26]

یعنی طلاق دینے کاصحیح وقت طہرکی حالت ہے جس میں جماع نہ کیاگیاہو۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} قَالَ: لَا یُطَلِّقْهَا وَهِیَ حَائِضٌ وَلَا فِی طُهْرٍ قَدْ جَامَعَهَا فِیهِ وَلَكِنْ: تَتْرُكُهَا حَتَّى إِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ، طَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’توان کی عدت( دنوں کے آغاز)میں انہیں طلاق دو۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے شوہراپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق نہ دے اورنہ ایسی حالت طہرمیں جس میں اس نے اس سے جماع کیاہواسے وہ چھوڑدے حتی کہ جب اسے حیض آئے اورپھروہ پاک ہوجائےتواسے ایک طلاق دے دے۔ [27]

اور عدّت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمارکیا کرو تاکہ عورت اس کے بعدنکاح ثانی کرسکے،یااگرتم ہی رجوع کرناچاہو(پہلی اوردوسری طلاق کی صورت میں )توعدت کے اندر رجوع کر سکو ، اورتمام امورمیں اپنے معبودحقیقی رب العالمین کاتقویٰ اختیارکرو اورمطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ،اورطلاق دیتے ہی غصے میں مطلقہ کواپنے گھرسے مت نکالواورنہ ہی عورت خودہی بگڑکرگھرچھوڑدےبلکہ عدَّ ت تک اسے شوہرکےگھرمیں ہی رہنے دو،اس وقت تک رہائش اورنان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے ،البتہ تیسری طلاق کے بعدرہائش اورنفقہ خاوندکی ذمہ داری نہیں ،کیونکہ خاونداب اس سے رجوع کرکے اپنا گھرآبادنہیں کرسکتااس لئے اسے فورا ًخاوند کے مکان سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا،

فَأَتَیْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَیْسٍ فَحَدَّثَتْنِی،أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ، وَإِنَّ زَوْجِی فُلَانًاأَرْسَلَ إِلَیَّ بِطَلَاقِی،وَإِنِّی سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَیَّ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَیْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِیقَاتٍ، قَالَتْ:فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا مَا كَانَتْ لَهُ عَلَیْهَا رَجْعَةٌ فَإِذَا لَمْ یَكُنْ لَهُ عَلَیْهَا رَجْعَةٌ فَلَا نَفَقَةَ وَلَا سُكْنَى

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ میں خالد کی لڑکی ہوں اور فلاں کی اہلیہ ہوں  اور اس نے مجھ کو طلاق کہلوائی ہے اور میں اس لوگوں سے خرچہ اور رہائش کے واسطے مکان مانگ رہی ہوں اور وہ انکار کرتے ہیں ، شوہر کی جانب کے لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس عورت کے شوہر نے اس کو تین طلاقیں دے کر بھیجا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نفقہ یعنی خرچ اوررہنے کے لئے جگہ اس عورت کوملتی ہے جس سے مردرجوع کرسکےاورتین طلاق کے بعدرجوع نہیں کرسکتاتونفقہ اور رہائش بھی نہیں ملے گی ۔[28]

بعض روایات میں حاملہ عورت کے لئے بھی نفقہ اور رہائش کی صراحت ہے،اسی طرح دوران عدت عورت بھی گھرسے باہرنکلنے سے احتراز کرے الایہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ درپیش ہو۔

ماذا نشزَت الْمَرْأَةُ أَوْ بَذَت عَلَى أَهْلِ الرَّجُلِ وَآذَتْهُمْ فِی الْكَلَامِ وَالْفِعَالِ

ہاں اگر وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں یابدزبانی اوربداخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کوتکلیف ہو تو دونوں صورتوں میں گھرسے باہرنکال دینا جائز ہو گا،

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں (حرام کردہ امور) ہیں ،جن کواللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقررکرکے مشروع کیا ہےاوران حدودکاالتزام کرنے اوران پرٹھہرنے کاحکم دیاہے، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس کے دینی ودنیاوی نقصانات خود تجاوز کرنے والے کوہی بھگتنے پڑیں گے،تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ مردکے دل میں عورت کی رغبت پیدافرمادے اوروہ رجوع کرنے پرآمادہ ہو جائے یامیاں بیوی میں موافقت کی کوئی اور صورت پیدا کر دے،پھر جب وہ اپنی عدت کی مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں حسن معاشرت اورصحبت جمیلہ کے طورپرروک لو یا دستورکے مطابق ان سے جُدا ہو جاؤ، اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحبِ عدل ہوں ،

عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ، سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ یَقَعُ بِهَا، وَلَمْ یُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا، وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا، فَقَالَ:طَلَّقْتَ لِغَیْرِ سُنَّةٍ، وَرَاجَعْتَ لِغَیْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا، وَعَلَى رَجْعَتِهَا، وَلَا تَعُدْ

مطرف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مروی ہے ایک شخص نےعمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ایک آدمی اپنی بیوی کوطلاق دیتاہے اورپھراس سے مباشرت کرلیتاہے مگر طلاق دینے یااس سے رجوع کرنے پرگواہ نہیں بناتا،انہوں نے کہاتونے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت ہی رجوع کیا،بیوی کوطلاق دیتے وقت گواہ بناؤاوررجوع وقت بھی اورپھرایسے نہ کرنا ۔[29]

اور گواہوں کوسچی گواہی دینے کاحکم فرمایا کہ اے گواہ بننے والو!کسی رورعایت اورلالچ کے بغیراللہ کے لئے کسی کمی بیشی کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیا کرو ، ہر اس شخص کو جواللہ وحدہ لاشریک اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہوان باتوں کی نصیحت کی جاتی ہے ، جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا یعنی جو شخص اوپربیان کیے ہوئے ارشادکے مطابق کام کرے گااللہ اس کے لیے شدائداورآزمائشوں سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا ۔

وَیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ۚ وَمَن یَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ‎﴿٣﴾‏ (الطلاق)
اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہواور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا، اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔

ةاوراللہ تعالیٰ متقی شخص کے لئے ایسی ایسی جگہوں سے رزق پہنچائے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو،جیسےفرمایا

۔۔۔اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙیُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ۙوَّیُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا۝۱۲ۭ [30]

ترجمہ: اپنے رب سے معافی مانگو ! بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے،وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا (قحط وتنگدستی جاتی رہے گی اورفراخی حاصل ہوگی)تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِیقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے بکثرت استغفار کاالتزام کیااللہ تعالیٰ اس کے لئے ہرتنگی سے نکلنے کی راہ اورہرغم سے راحت کا سامان پیدافرمادے گااورایسے ایسے مقامات سے رزق مہیا فرمائے گاجس کااسے وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔[31]

حكم الألبانی : ضعیف

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنِ انْقَطَعَ إِلَى اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ كُلَّ مُؤْنَةٍ وَرَزَقَهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ، وَمَنِ انْقَطَعَ إِلَى الدُّنْیَا وَكِلَهُ اللَّهُ إِلَیْهَا

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ہرطرف سے کھنچ کر اللہ کاہوجائے،اللہ اس کی ہرمشکل میں اسے کفایت کرتاہے اوربے گمان روزیاں دیتاہے اورجواللہ سے ہٹ کردنیاہی کا ہو جائے اللہ بھی اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے۔ [32]

جوکوئی دین اوردنیاکے معاملات میں اللہ پر بھروسا کرتاہے تو وہ اس معاملہ میں اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے، اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے،اس کی قضاوقدرکانافذہونالازمی امرہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے جس سے یہ چیز تجاوز کرتی ہے نہ کوتاہی کرتی ہے، جیسے فرمایا

۔۔۔وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [33]

ترجمہ:جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا، فَقَالَ: یَا غُلاَمُ إِنِّی أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ یَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ یَنْفَعُوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَضُرُّوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَیْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ آپ کی سواری پرآپ کے پیچھے بیٹھے ہواتھا جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لڑکےمیں تمہیں چند باتیں سکھاتاہوں سنو،تم اللہ کویادرکھووہ تمہیں یادرکھے گا،اللہ کے احکام کی حفاظت کروتواللہ کواپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پاؤگے،جب کچھ مانگناہواللہ ہی سے مانگو،جب مددطلب کرنی ہواسی سے مددچاہو،یادرکھو تمام امت مل کرتمہیں نفع پہنچاناچاہے اوراللہ کومنظورنہ ہوتوذراسابھی نفع نہیں پہنچا سکتے،اور اسی طرح سارے کے سارے جمع ہوکر تجھے کوئی نقصان پہنچاناچاہیں توبھی نہیں پہنچاسکتے اگرتقدیرمیں نہ لکھاہوتو،قلمیں اٹھ چکیں اورصحیفے خشک ہوگئے ۔[34]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ، فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ، لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ، أَوْشَكَ اللَّهُ لَهُ، بِالْغِنَى، إِمَّا بِمَوْتٍ عَاجِلٍ، أَوْ غِنًى عَاجِلٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے انتہائی شدیدحاجت آپڑے اوراس نے اسے لوگوں پر پیش کردیاتواس کی وہ حاجت دورنہ ہوگی،اورجس نے اسے اللہ پرپیش کیا تو عنقریب اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کردے گا،یاتوجلدہی موت آجائے گی(اوردنیا بکھیڑوں سے جان چھوٹ جائے گی)یاجلدہی غنی ہوجائے گا (اورکسی کی احتیاج نہ رہے گی)۔[35]

وَاللَّائِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ یُسْرًا ‎﴿٤﴾‏ ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنزَلَهُ إِلَیْكُمْ ۚ وَمَن یَتَّقِ اللَّهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّئَاتِهِ وَیُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا ‎﴿٥﴾‏(الطلاق)
’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوںاگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہےاور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہواور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا، یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔‘‘

عَنْ عَمْرِو بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: قَالَ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِدَدًا مِنْ عِدَدِ النِّسَاءِ لَمْ تُذْكَرْ فِی الْكِتَابِ الصِّغَارُ وَالْكُبَّارُ، وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَاللَّائِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ}[36]

عمروبن سالم سے روایت ہےابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی ،کمسن

لڑکیاں ،عمررسیدہ عورتیں اورحمل والی عورتیں اس جواب میں یہ آیت ’’ْ نازل ہوئی۔[37]

اور تمہاری عمررسیدہ عورتیں جنہیں حیض آنابندہوگیاہو ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لا حق ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ان کی عدّت تین قمری مہینے ہے، اور وہ عورتیں جو سن بلوغت کوپہنچ گئی ہوں مگر ابھی حیض آناشروع نہ ہواہویاچھوٹی لڑکیاں جنہیں ابھی حیض نہیں آیاان کے لئےبھی یہی حکم ہے،اوروہ عورتیں جن کوحیض آتاہے تواللہ تعالیٰ نے ان کی عدت بیان فرمائی۔

 وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ۔۔۔۝۲۲۸ۧ [38]

ترجمہ:جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو ، وہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔

اور حاملہ عورتوں کی عدّت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضِع حمل ہو جائےچاہے دوسرے روزہی وضع حمل ہوجائے،

أَنَّ سُبَیْعَةَ بِنْتَ الحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ ابْنِ خَوْلَةَ، وَهُوَ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّیَ عَنْهَا فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ وَهِیَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَیْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ لَهَا: مَا لِی أَرَاكِ تَجَمَّلْتِ لِلْخُطَّابِ، تُرَجِّینَ النِّكَاحَ؟ فَإِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَیْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَتْ سُبَیْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِی ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی حِینَ أَمْسَیْتُ، وَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَفْتَانِی بِأَنِّی قَدْ حَلَلْتُ حِینَ وَضَعْتُ حَمْلِی، وَأَمَرَنِی بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِی

سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہ سےمروی ہے میں سعدابن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی ان کاتعلق بنی عامربن لوئی سے تھااوروہ غزوہ بدرمیں شرکت کرنے والوں میں سے تھے،پھرحجةالوداع کے موقع پران کی وفات ہوگئی تھی اوراس وقت وہ حمل سے تھیں ،سعدبن خولہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے کچھ ہی دن بعدان کے یہاں بچہ پیداہوا،نفاس کے دن جب وہ گزارچکیں تونکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے انہوں نے اچھے کپڑے پہنے،اس وقت بنوعبدالدارکے ایک صحابی ابوالسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے یہاں گئے اوران سے کہامیراخیال ہے کہ تم نے نکاح کاپیغام بھیجنے والوں کے لئے یہ زینت کی ہے،کیانکاح کرنے کاخیال ہے؟لیکن اللہ کی قسم !جب تک (سعد رضی اللہ عنہ کی وفات پر)چارمہینے اوردس دن نہ گزرجائیں تم نکاح کے قابل نہیں ہوسکتیں ،سبیعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جب ابوالسنابل نے مجھ سے یہ بات کہی تومیں نے شام ہوتے ہی کپڑے پہنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکراس کے بارے میں میں نے آپ سے مسئلہ معلوم کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا میں بچہ پیداہونے کے بعدعدت سے نکل چکی ہوں اوراگرمیں چاہوں تو نکاح کرسکتی ہوں ۔[39]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا فَعِدَّتُهَا أَنْ تَضَعَ مَا فِی بَطْنِهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے ہرحاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کاوضع حمل تک ہے۔[40]

دیگرعورتیں جن کے شوہروفات پاجائیں ان کی عدت چارماہ دس دن ہے،

 وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا۝۰۝۲۳۴ [41]

ترجمہ: تم میں سے جو لوگ مر جائیں ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چارمہینے دس دن روکے رکھیں ۔

جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے ہرمعاملہ میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے اور اس کے تھوڑے عمل پر بڑا اجردیتاہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَمَنْ یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا}[42] یَقُولُ: نَجَاتُهُ مِنْ كُلِّ كَرْبٍ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَیَرْزُقُهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کاقول’’ جو شخص اللہ سے ڈرے اس ہرمعاملہ میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ فرمایااللہ تعالیٰ اسے دنیااورآخرت کی ہرتکلیف سے نجات دے دیتا ہے اورایسی جگہوں سے رزق عطافرماتاہے جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا۔[43]

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَیْهِنَّ حَتَّىٰ یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَیْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ‎﴿٦﴾‏ لِیُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا یُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَیَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا ‎﴿٧﴾(الطلاق)
’’تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان (طلاق والی) عورتوں کو رکھواور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو، پھر اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو اور باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرواور اگر تم آپس میں کشمکش کرو تو اس کے کہنے سے کوئی اور دودھ پلائے گی، کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہواسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔‘‘

طلاق کے بعدحسن سلوک کی ہدایت :مطلقہ رجعیہ کوزمانۂ عدت میں جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسرہو اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں نان ونفقہ یارہائش میں اوراپنے قول وفعل کے ذریعہ سے انہیں تکلیف مت دو ، اور اگر مطلقہ حاملہ ہوں توخواہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہویاقطعی طورپرالگ کردینے والی ہو ان پر اس وقت تک خرچ کرواوررہائش مہیاکرو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے،

عَنْ جَابِرٍ , عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت کوتین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس لئے زمانہ عدت میں سکونت اورنفقہ کاحق ہے۔[44]

جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی اورپاسداری ہم پرلازم ہے ،اسی طرح حقوق العبادرکھنابھی انتہائی ضروری ہے،حقوق العبادمیں خواتین حقوق بھی شامل ہیں ،جس طرح حقوق اللہ کی محافظت نہ کرنے والوں پراللہ کاعذاب آتارہاہےاسی طرح حقوق العباد(خواتین کے حقوق)کوادانہ کرنے والوں کوبھی سخت تنبیہ کی گئی ہے،پھر اگرمطلقہ عورتیں حمل سے فارغ ہونے کے بعد تمہارے بچے کو دودھ پلانے پرراضی ہوں تو انہیں دودھ پلانے کی اجرت اداکرو ، اور اُجرت اور دیگرمعاملات کو بھلے طریقے سے باہمی گفت و شنید سے طے کر لو، جیسے فرمایا

۔۔۔لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ۔۔۔ ۝۲۳۳ [45]

ترجمہ: نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے ، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے۔

لیکن اگر تم آپس میں اجرت طے نہ کرسکو توکسی دایہ کے ساتھ معاملہ طے کرلوجو بچے کو دودھ پلا لے گی ، جیسےفرمایا

۔۔۔فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔۔۔۝۰۝۲۳۳ [46]

ترجمہ: اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو وہ معروف طریقے پر ادا کرو۔

دولت مند آدمی اپنی حیثیت کے مطابق دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت دے اور جو مالی حیثیت سے کمزور ہو تو اللہ نے اسے جو دیا ہے وہ اسی کے مطابق خرچ کرے ، اللہ نے جس کو جنتا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اُسے مکلف نہیں کرتا بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے، جیسےفرمایا

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۝۵ۙاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۝۶ۭ [47]

ترجمہ:پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے،بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ الْحَاجَةِ، خَرَجَ إِلَى الْبَرِیَّةِ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى، فَوَضَعَتْهَا، وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا. فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدِ امْتَلَأَتْ. قَالَ: وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا. قَالَ: فَرَجَعَ الزَّوْجُ، قَالَ: أَصَبْتُمْ بَعْدِی شَیْئًا؟ قَالَتْ امْرَأَتُهُ: نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا. قَامَ إِلَى الرَّحَى. فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ یَرْفَعْهَا، لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص اپنے اہل وعیال کے پاس آیاجب اس نے ان کی غربت دیکھی توجنگل کی طرف نکل گیااس کی بیوی نے جب یہ دیکھاتووہ چکی کی طرف گئی اوراسے (تیارکرکے)رکھ دیانیزتندوربھڑکایاپھرکہااے اللہ!ہمیں رزق عطافرما،چنانچہ اس نے دیکھاکہ اچانک چکی کاٹب بھرگیاہے،وہ تندورکی طرف گئی تو اسے بھی (بکری کی بھنی ہوئی رانوں سے)بھراپایا،جب اس کاخاوندواپس آیاتواس نے پوچھاکیامیرے جانے کے بعدتمہیں کوئی چیزمیسرآئی ہے؟اس کی بیوی نے کہا ہاں ، ہمارے رب کی طرف سے (رزق)ملاہے،پھروہ چکی کی طرف گیا(اورپاٹ اٹھالیا)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکرکیاگیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اگروہ اسے نہ اٹھاتاتوقیامت کے دن تک وہ(چکی)گھومتی رہتی ۔[48]

‏ وَكَأَیِّن مِّن قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِیدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا ‎﴿٨﴾‏ فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا ‎﴿٩﴾‏(الطلاق)
’’اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا (سخت) عذاب، پس انہوں نے اپنے کرتوت کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار ان کا خسارہ ہی ہوا۔‘‘

اللہ کی نازل کردہ شریعت پرچلنے میں ہی کامیابی ہے:مسلمانوں کومتنبہ کیاگیاکہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی نہ کریں ،فرمایاکتنی ہی سرکش قوموں تھیں جنہوں نے اپنے رب اوراس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی توہم نے ان سے سخت دنیاوی محاسبہ کیااوران کوبری طرح سزادی،اورایک عرصہ تک ڈھیل دینے کے بعدبھی جب وہ راہ راست اختیارکرنے پرتیارنہ ہوئے توآخرکاران پرعذاب نازل کیااس وقت ان کی کثرت اورقوت اوران کے باطل معبودان کے کچھ کام نہ آئے اورانہوں نے اپنے کرتوتوں کا مزا چکھ لیااوران کاانجام کارگھاٹاہی گھاٹاہے۔

‏ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ الَّذِینَ آمَنُوا ۚ قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَیْكُمْ ذِكْرًا ‎﴿١٠﴾‏ رَّسُولًا یَتْلُو عَلَیْكُمْ آیَاتِ اللَّهِ مُبَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّهِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا ‎﴿١١﴾(الطلاق)
’’ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل مند ایمان والو، یقیناً اللہ نے تمہاری طرف نصیحت اتار دی ہے(یعنی) رسول جو تمہیں اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ کر سناتا ہے تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے، اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیںجن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، بیشک اللہ نے اسے بہترین روزی دے رکھی ہے۔‘‘

مگردنیاوی عذاب کے ساتھ معاملہ ختم نہیں ہوگیابلکہ اللہ نےآخرت میں ان کے لیے سخت عذاب مہیاکررکھاہے ،پس اے صاحب عقل لوگوجوایمان لائے ہواپنے تمام معاملات میں اللہ سے ڈرو ، اللہ نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل کردیا ہے،جیسےفرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [49]

ترجمہ:رہا یہ ذکرتو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔

اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کردیاہے جوتم کواللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات پڑھ کر سناتاہےتاکہ ایمان لانے والوں اوراعمال صالحہ اختیار کرنے والوں کو کفروشرک کی تاریکیوں سے نکال کرراہ راست پر لے آئے،جیسےفرمایا

 الۗرٰكِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔۔۔ ۝۱ۙ [50]

ترجمہ:ا،ل،ر،اے محمدؐ ! یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ۔

اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۔۔۔۝۲۵۷ۧ [51]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔

(یعنی کفروجہالت سے ایمان وعمل کی طرف) اب جوکوئی اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائے اورایمان کے تقاضوں کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کرے تو اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے گھنے سایہ داردرختوں کے نیچے انواع اقسام کی نہریں بہتی ہوں گی،اورایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جوکسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اورنہ کسی بشرکے دل میں ان کاتصورہی آیاہے،یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق تیارکر رکھا ہے۔

اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا ‎﴿١٢﴾‏(الطلاق)
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اوراپنی عظیم الشان سلطنت کاذکرفرمایاتاکہ مخلوق اس کی عظمت وعزت کاخیال کرکے اس کے فرمان کوقدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے،فرمایااللہ وحدہ لاشریک وہ قادرمطلق ہستی ہے جس نے بغیرستونوں کے بلندوبالاوسیع وعریض تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے،جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاتھا

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙ [52]

ترجمہ:کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے۔

ایک مقام پرفرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰۝۴۴ [53]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں جو ان میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔

أَنَّهَا سَبْعُ أَرَضِینَ طباقا بعضها فوق بعض،بَیْنَ كُلِّ أَرْضٍ وَأَرْضٍ مَسَافَةٌ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالسَّمَاءِ، وَفِی كُلِّ أَرْضٍ سُكَّانٌ مِنْ خَلْقِ اللهِ

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں کہ جمہورکاقول ہےاورآسمانوں کی طرح سات زمینیں بھی پیدافرمائیں جن کے درمیان بعدومسافت ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آبادہے۔[54]

اس کی تائیداس روایت سے بھی ہوتی ہے،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَیْرِ حَقِّهِ، طُوِّقَهُ فِی سَبْعِ أَرَضِینَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ بن عمروبن نفیل مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص بالشت برابرزمین ناحق لے لے اللہ تعالیٰ قیامت روز اس کو ساتوں زمین کاطوق پہنادے گا۔[55]

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِینَ

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے ناحق کسی زمین کاتھوڑاساحصہ بھی لے لیاتوقیامت دن اسے سات زمینوں تک دھنسایاجائے گا۔[56]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَیْرِ حَقِّهِ، طُوِّقَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرتا ہے قیامت دن سات زمینوں سے اس ٹکڑے کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔[57]

جس طرح ہرآسمان پراللہ کاحکم نافذاورغالب ہے،اسی طرح ساتوں زمینوں پربھی اسی وحدہ لاشریک کاحکم چلتاہے،آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ مخلوق کی تدبیرفرماتاہے،یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہےتاکہ تم جان لوکہ اللہ ہر چیز پرقدرت رکھتاہے اوریہ کہ اللہ کاعلم ہرچیزپرمحیط ہے،کوئی چیزاس کے علم سے باہرنہیں ۔

 

[1] حیاة الصحابة۱۳۴؍۲،البدایة والنہایة۶۴؍۴

[2] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۴۴۱؍۲،اسدالغابة۱۵۴؍۲،سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۴۰۰؍۱،الوافی بالوفیات۱۷۸؍۱۳،تاریخ اسلام بشار۱۵۲؍۱،سیراعلام النبلائ۴۳۲؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۱۳۱؍۳

[3] امتاع الاسماع۲۷۷؍۱۳، مغازی واقدی۳۵۹؍۱

[4] ابن ہشام ۱۷۳؍۲،الروض الانف۱۳۲؍۶،سیراعلام النبلائ۱۵۴؍۳،معجم الصحابة للبغوی۲۶۶؍۲،الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم والثلاثة الخلفاء ۴۰۶؍۱

[5] مغازی واقدی۳۶۰؍۱

[6] مغازی واقدی ۳۵۹؍۱،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۴۵۶؍۱

[7] ابن ہشام ۱۷۳؍۱،الروض الانف ۱۶۷؍۱،معجم الصحابة للبغوی۲۶۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۳۱؍۳،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۴۵۶؍۱

[8] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ هَلْ یَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ یَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَیْنِ عِنْدَ القَتْلِ۳۰۴۵

[9] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ ۴۰۸۷

[10] فتح الباری ۳۸۵؍۷

[11] ابن ہشام۱۷۲؍۲ ،ابن سعد۴۳؍۲، تاریخ طبری۵۴۲؍۲

[12] البدایة والنہایة۷۴؍۴

[13] البدایة والنہایة ۷۶،۷۷؍۴

[14] السیرة الحلبیة = إنسان العیون فی سیرة الأمین المأمون۲۳۵؍۳، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۴۵۸؍۱

[15] البدایة والنہایة۷۶؍۴

[16] ابن ہشام۱۷۲؍۲،الروض الانف ۱۲۸؍۶، عیون الآثر۶۰؍۲، البدایة والنہایة ۷۴؍۴،ابن سعد۴۳؍۲،تاریخ طبری ۵۳۹؍۲،فتح الباری ۳۸۴؍۷،دلائل النبوة لابی نعیم ۵۰۹؍۱

[17]۔ابن سعد ۳۵۲؍۳، عیون الآثر۶۱؍۲

[18] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ هَلْ یَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ یَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَیْنِ عِنْدَ القَتْلِ۳۰۴۵

[19] شرح زرقانی علی المواھب ۴۹۰؍۲،فتح الباری ۳۸۴؍۷

[20] ابن ہشام۱۷۷؍۲،الروض الانف۱۳۸؍۶

[21] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ شُرُوطًا فِی البَیْعِ لاَ تَحِلُّ۲۱۶۸، وکتاب المُكَاتِبِ بَابُ اسْتِعَانَةِ المُكَاتَبِ وَسُؤَالِهِ النَّاسَ ۲۵۶۳

[22] تاریخ طبری۵۹۵؍۱۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۵۹؍۳،البدایة والنہایة ۱۰۳؍۴،ابن سعد۹۱؍۸،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۳؍۳

[23] الاصابة فی تمیزالاصحابة۱۶۸؍۱

[24] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الطَّلَاقِ۲۱۷۸، مستدرک حاکم ۲۷۹۴

[25] تفسیر ابن ابی حاتم ۳۳۵۹؍۱۰

[26] صحیح بخاری کتاب الطلاق باب یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۵۲۵۱،سنن نسائی کتاب الطلاقبَابُ: وَقْتِ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِی أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ۳۴۱۸

[27] تفسیر طبری ۴۳۶؍۲۳

[28]مسنداحمد۲۷۱۰۰، ۲۷۳۴۸،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ الرُّخْصَةِ فِی ذَلِكَ۳۴۳۲

[29] سنن ابوداود کتاب الطلاق بَابُ الرَّجُلِ یُرَاجِعُ، وَلَا یُشْهِدُ ۲۱۸۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الرَّجْعَةِ ۲۰۲۶

[30] نوح۱۰تا۱۲

[31] سنن ابوداودکتاب الوتربَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۱۸، مسنداحمد ۲۲۳۴

[32] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۶۰؍۱۰

[33] الفرقان۲

[34] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب ۱۵۱۴،ح۲۵۱۶،مسند احمد ۲۶۶۹

[35] مسنداحمد۳۸۶۹،سنن ابوداودکتاب الزکاٰة بَابٌ فِی الِاسْتِعْفَافِ۱۶۴۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِبَابُ مَا جَاءَ فِی الهَمِّ فِی الدُّنْیَا وَحُبِّهَا۲۳۲۶

[36] الطلاق: 4

[37] تفسیرطبری۴۵۱؍۲۳

[38] البقرة۲۲۸

[39] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا ۳۹۹۱ ،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ ۳۷۲۲ ، سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی عِدَّةِ الْحَامِلِ ۲۳۰۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۴۶۸

[40] تفسیرابن ابی حاتم۲۳۹۱،۴۵۲؍۲،تفسیرطبری ۵۰۷۱،۷۹؍۵

[41] البقرة۲۳۴

[42] الطلاق: 2

[43] تفسیرطبری۴۴۶؍۲۳

[44] سنن الدارقطنی ۳۹۴۹،مسندابن الجعد۲۰۷

[45] البقرة۲۳۳

[46] البقرة۲۳۳

[47] الم نشرح۵،۶

[48]مسند احمد ۱۰۶۵۸

[49] الحجر۹

[50] ابراہیم۱

[51] البقرة۲۵۷

[52] نوح۱۵

[53] بنی اسرائیل۴۴

[54] تفسیر القرطبی ۱۷۴؍۱۸

[55] صحیح مسلم كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ وَغَصْبِ الْأَرْضِ وَغَیْرِهَا۴۱۳۳

[56] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ إِثْمِ مَنْ ظَلَمَ شَیْئًا مِنَ الأَرْضِ۲۴۵۴

[57] مسنداحمد۹۵۸۲

Related Articles