ہجرت نبوی کا تیسرا سال

نزول سورۂ آل عمران121 تا180

غزوہ احدمیں جتنے اہم واقعات پیش آئے غزوہ احدکے بعد ان میں سے ہر ایک پرچندجچے تلے فقروں میں نہایت سبق آموزتبصرہ کیاگیا۔

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِینَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٢١﴾‏إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِیُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٢٢﴾‏ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٢٣﴾(آل عمران)
اے نبی ! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے، اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے، جب تمہاری دو جماعتیں پس ہمتی کا ارادہ کرچکی تھیں ، ا للہ تعالیٰ ان کا ولی اور مددگار ہے اور اسی کی پاک ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے، جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے اس لیے اللہ ہی سے ڈرو ! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو۔

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !مسلمانوں کے سامنے اس موقع کاذکرکروجب تم اپنے گھرسے نکلے تھے اوراحدکے میدان میں مسلمانوں کوبنفس نفیس باقاعدہ جنگ کے لیے مناسب مقامات پرمامور کر رہے تھے،اللہ تعالیٰ سننے والااورجاننے والاہے،وہ تمہاری حفاظت کرتاہے،تمہارے معاملات سنوارتاہے اورتمہیں اپنی مددسے نوازتاہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام سے فرمایاتھا۔

 قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝۴۶ [1]

ترجمہ:ڈرو مت ، میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔

یادکروجب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت واپسی کے بعداوس وخزرج کے دوقبائل بنوحارثہ اوربنوسلمہ بھی پست ہمتی کاارادہ کرچکے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدمی کی توفیق بخشی،اس لئے فرمایا اللہ ان کی مددپرموجودتھا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۔۔۔۝۲۵۷ۧ [2]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔

اورمومنوں کواللہ ہی پربھروسہ رکھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کواپنااحسان یاددلایااورانہیں اپنی مددیاددلائی جوغزوہ بدرکے موقع پرہوئی ،فرمایااس سے پہلے اللہ تعالیٰ غزوہ بدرمیں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مددکرکے کفارکوذلیل وخوار اور تمہیں عزت اورتاریخی غلبہ عطاکرچکاتھا،حالانکہ اس وقت تم کفارکے مقابلے میں قلیل التعداداورجنگی اسلحہ کے لحاظ سے بھی بے سروساماں تھے۔

عِیَاضًا الْأَشْعَرِیَّ، قَالَ: شَهِدْتُ الْیَرْمُوكَ وَعَلَیْنَا خَمْسَةُ أُمَرَاءَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَابْنُ حَسَنَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، وَعِیَاضٌ وَلَیْسَ عِیَاضٌ هَذَا بِالَّذِی حَدَّثَ سِمَاكًا قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ إِذَا كَانَ قِتَالٌ فَعَلَیْكُمْ أَبُو عُبَیْدَةَ، قَالَ: فَكَتَبْنَا إِلَیْهِ إِنَّهُ قَدْ جَاشَ إِلَیْنَا الْمَوْتُ، وَاسْتَمْدَدْنَاهُ،

عیاض اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردارتھے،ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ،یزیدبن ابوسفیان رضی اللہ عنہ ،ابن حسنہ رضی اللہ عنہ ،خالدبن ولید رضی اللہ عنہ اور عیاض رضی اللہ عنہ اورخلیفتہ المسلمین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاحکم تھاکہ لڑائی وقت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سردارہوں گے،اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظرآنے لگے توہم نے خلیفہ وقت کوخط لکھاکہ ہمیں موت نے گھیررکھاہےامدادکیجئے،

فَكَتَبَ إِلَیْنَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَنِی كِتَابُكُمْ تَسْتَمِدُّونِی، وَإِنِّی أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ هُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا: اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَاسْتَنْصِرُوهُ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِكُمْ، فَإِذَا أَتَاكُمْ كِتَابِی هَذَا فَقَاتِلُوهُمْ، وَلا تُرَاجِعُونِی،

ہماری گزارش کے جواب میں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کامکتوب گرامی آیاجس میں تحریرتھاکہ تمہاراطلب امدادکاخط پہنچاتمہیں ایک ایسی ذات بتاتاہوں جوسب سے زیادہ مددگاراورسب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے،وہ ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے، جس نے اپنے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مددبدروالے دن کی تھی،بدری لشکرتوتم سے بہت ہی کم تھا،میرایہ خط پڑھتے ہی جہادشروع کردو،اوراب مجھے کچھ نہ لکھنااورنہ کچھ پوچھنا،

قَالَ: فَقَاتَلْنَاهُمْ فَهَزَمْنَاهُمْ وَقَتَلْنَاهُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَیْنَا عِیَاضٌ أَنْ نُعْطِیَ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ عَشْرَةً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَیْدَةَ: مَنْ یُرَاهِنِّی؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ. قَالَ: فَسَبَقَهُ، فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَةَ تَنْقُزَانِ وَهُوَ خَلْفَهُ عَلَى فَرَسٍ عَرَبِیٍّ

اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ،ہمتیں جواں ہوگئیں ،پھرہم نے جم کرلڑناشروع کیا،الحمداللہ دشمن کوشکست ہوئی اوروہ بھاگے،ہم نے بارہ میل تک ان کاتعاقب کیا ، بہت سامال غنیمت ہمیں ملاجوہم نے آپس میں بانٹ لیا ،پھرابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میرے ساتھ کون دوڑلگائے گا؟ایک نوجوان نے کہااگرآپ ناراض نہ ہوں تومیں حاضر ہوں ، چنانچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے،میں نے دیکھاان کی دونوں زلفیں ہوامیں اڑرہی تھیں ، اوروہ اس نوجوان پیچھے گھوڑادوڑائے چلے جارہے تھے۔[3]

لہذاتم کوچاہیے کہ صبراور اللہ کاتقویٰ اختیارکرو۔

لأن من اتقى ربه فقد شكره،ومن ترك التقوى فلم یشكره

جس نے اپنے رب کاتقویٰ اختیارکیااس نے رب کی بے شمارنعمتوں اوراس فضل وکرم کا شکراداکیا ، اورجس نے اپنے رب کاتقویٰ ترک کردیااس نے رب کی عطافرمائی ہوئی ان گنت نعمتوں کا شکرادانہیں کیا۔[4]

اس واقعہ کے بعدامیدہے کہ تم اللہ کاتقویٰ اختیارکروگے۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِینَ أَلَن یَكْفِیَكُمْ أَن یُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِینَ ‎﴿١٢٤﴾‏ بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَیَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِینَ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ ‎﴿١٢٦﴾‏ لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَوْ یَكْبِتَهُمْ فَیَنقَلِبُوا خَائِبِینَ ‎﴿١٢٧﴾‏ لَیْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ أَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ یَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٢٩﴾‏(آل عمران)
 (اور یہ شکر گزاری باعث نصرت و امداد ہو) جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر اللہ تعالیٰ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا، کیوں نہیں بلکہ اگر تم صبر کرو پرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا جو نشان دار ہوں گے ،اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینان قلب کے لیے ہے ورنہ مدد تو اللہ کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے، (اس امداد الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور (سارے کے سارے) نامراد ہو کر واپس چلے جائیں ، اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ،آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں کولے کرلشکرسے علیحدہ ہوگیاتوباقی سات سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم لشکرمیں رہے گئے،جب انہوں نے کیل کانٹوں سے لیس کفارکا تین ہزارکالشکردیکھاتوان کے حوصلے پست ہونے لگے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایاتھاکیاتمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزارفرشتے اتار کر تمہاری مددکرے؟بے شک،اگرتم صبر کرو اور اللہ کاتقویٰ اختیارکرو،توجس وقت دشمن تم پرحملہ آورہوں گے اسی وقت تمہارارب تین ہزارنہیں بلکہ پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مددکرے گا،پانچ ہزارفرشتے اتارکرتمہیں کمک پہنچانے کی یہ بات اللہ نے تمہیں اس لیے بتادی ہے کہ تم خوش ہوجاؤاوراس بشارت سےتمہارے دل مطمئن ہوجائیں ،ورنہ اللہ کوقدرت ہے کہ فرشتوں کواتارے بغیربلکہ تمہارے لڑے بغیربھی تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنارکردے۔جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔ وَلَوْ یَشَاۗءُ اللهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّیَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ۔۔۔ ۝۴ [5]

ترجمہ: اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا ، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے ۔

اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والااورداناوبیناہے،اوریہ مددوہ تمہیں اس لیے دے گاتاکہ کفرکی راہ چلنے والوں کاایک بازوکاٹ دے،یعنی وہ قتل ہوجائیں یاان کوایسی بدترین شکست سے ہمکنارکرے کہ وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ پسپاہوجائیں ۔

حَدَّثَنِی سَالِمٌ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مِنَ الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنَ الفَجْرِ یَقُولُ:اللَّهُمَّ العَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا بَعْدَ مَا یَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {لَیْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ}[6]– إِلَى قَوْلِهِ – {فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} [7]

سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نمازمیں جب دوسری رکعت رکوع سے سراٹھاتے تو کہہ لیتے توکفارپربددعاکرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پرلعنت کر،اس کے بعد سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ کہتےاس پریہ آیت کریمہ ’’اے پیغمبر!آپ کے اختیارمیں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہئے توان کی توبہ قبول کرلے یاعذاب دے۔‘‘ نازل ہوئی۔[8]

سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ یَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ “ یَدْعُو عَلَى صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ، وَسُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَالحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَزَلَتْ {لَیْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ} [9]– إِلَى قَوْلِهِ {فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ}[10]

سالم بن عبداللہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض کفارکانام لے کربددعاکرتے تھےاے اللہ فلاں پرلعنت فرما، اے اللہ حارث بن ہشام پرلعنت فرما،اے اللہ سہیل بن عمروپرلعنت فرما،اے اللہ صفوان بن امیہ پرلعنت فرما،اس پریہ آیت کریمہ ’’اے پیغمبر!آپ اختیارمیں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہئے توان کی توبہ قبول کرلے یاعذاب دےکیونکہ وہ ظالم ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی ۔ [11]

بالاخراللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت نصیب فرمائی اوران لوگوں نے دعوت اسلام قبول کرلی ۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِیَتُهُ یَوْمَ أُحُدٍ، وَشُجَّ فِی رَأْسِهِ، فَجَعَلَ یَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ، وَیَقُولُ: كَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِیَّهُمْ، وَكَسَرُوا رَبَاعِیَتَهُ، وَهُوَ یَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ؟

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاغزوہ احدمیں دانت ٹوٹااورسرپرزخم آیااس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کوپونچھ رہے تھے اورفرماتے تھے،وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کوزخمی کردیا،اوراس کادانت توڑاحالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلاتاہے۔[12]

گویاکفارکی ہدایت سےناامیدی ظاہرکی تواللہ تعالیٰ نے فرمایااے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا و آخرت کے کل اموراللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ،آپ کوکسی فیصلہ کا اختیار نہیں ،جیسےمتعددمقامات پرفرمایا

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [13]

ترجمہ:بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۲۷۲ [14]

ترجمہ:اے نبی ! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے، ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [15]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

اللہ کواختیارہے کہ انہیں توبہ کی توفیق بخش دے اوروہ برائی کے بعدبھلائی کرنے لگیں ، یاچاہے توانہیں کفروسرکشی کی بناپرعذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ،زمین اورآسمانوں میں جوکچھ ہے سب اللہ کی ملک اوراس کی مخلوق ہیں ،اوراس کی تدبیرکے تابع ہیں ،وہ جس کوچاہتاہے ہدایت عطا کر دیتاہے، اوراس پراحسان کرکے اس کے گناہوں کی مغفرت فرما دیتاہے ،اورجس کوچاہتاہے اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتاہے،جواسے برائیوں کے پراکساتاہے، اس طرح اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کے سبب عذاب دیتاہے،وہ معاف کرنے والااوررحیم ہے،اس کی رحمت اس کے غضب پرغالب ہے،اس لئے وہ اپنے بندوں پرایسے انداز سے رحمت فرمائے گاجوکسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿١٣٠﴾‏ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِینَ ‎﴿١٣١﴾‏ وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿١٣٢﴾‏۞ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿١٣٣﴾‏ الَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٣٤﴾(آل عمران)
اے ایمان والو ! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤاور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے،اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔

سودخورجہنمی ہیں :زمانہ جاہلیت میں سودکایہ رواج عام تھاکہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اورمقروض سودادانہ کرسکتاتومزیدمہلت دے دی جاتی تھی ،لیکن اس کے ساتھ سودمیں بھی اضافہ ہوجاتاتھا،اس طرح سوددرسودملاکراصل رقم کئی گنابڑھ جاتی اورمقروض اسے اداکرنے کے قابل ہی نہ رہتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااے لوگوجوایمان لائے ہو!سودکم ہویازیادہ ،مفردہویامرکب،مطلقاًحرام ہے، اس لئے سودکھاناچھوڑدو،اورطمع دنیامیں مبتلاہونے کے بجائےاللہ کے عذاب سے ڈرو،امیدہے کہ تم فلاح پاؤگے،اس ہولناک آگ سے بچوجوکافروں کے لیے مہیاکی گئی ہے، اوراللہ تعالیٰ کے اوامرپرعمل اوراس کے نواہی سے اجتناب کرکےاللہ اور رسول کی اطاعت کرو،کیونکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت حصول رحمت کاسبب ہے ،اس لئے فرمایاتوقع ہے کہ تم پررحم کیاجائے گا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

 ۔۔۔وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ۚ [16]

ترجمہ:مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے،اور اُسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے ، زکوٰة دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے ۔

اوراس راہ کی طرف دوڑوجوتمہارے رب کی بخشش ومغفرت اورلازوال انواع واقسام کی نعمتوں سے بھری اس جنت کی طرف جاتی ہے، جس کی چوڑائی زمین اورآسمانوں سے بھی بڑھ کر ہے،جب چوڑائی کایہ عالم ہے توپھرلمبائی کیاہوگی ،جیسے پر فرمایا

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ۝۰۔۔۔ ۝۲۱ [17]

ترجمہ: دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیاکی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ۔

عن أبی هریرة رَضِیَ اللهُ, قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ قَوْلَهُ تَعَالَى: {جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ} فَأَیْنَ النَّارُ؟قَالَ:أرَأیْتَ اللیْلَ إِذَا جَاءَ لَبسَ كُلَّ شَیْءٍ، فَأیْنَ النَّهَار؟ قَالَ: حَیْثُ شَاءَ اللهُ ،قَالَ: وَكَذِلَكَ النَّارُ تَكُونُ حَیْثُ شَاءَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااوراس نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ کاارشادہے جنت جس کی چوڑائی زمین اورآسمانوں سے بھی بڑھ کر ہے ،توسوال یہ ہے کہ پھرجہنم کہاں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم نے دیکھاہے کہ جب رات آتی ہے توہرچیزپرچھاجاتی ہے تواس وقت دن کہاں ہوتاہے؟ اس نے جواب دیاجہاں اللہ چاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسی طرح جہنم کوبھی اللہ تعالیٰ جہاں چاہتاہے رکھتاہے۔[18]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، جَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ – أُرَاهُ – فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور اس رسول پر ایمان لائے، اور نماز پڑھے، اور رمضان کے روزے رکھے، تو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کر دے گا، خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کرے یا جس سر زمین میں پیدا ہوا ہو وہیں جما رہے،صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم لوگوں میں اس بات کی بشارت نہ سنادیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں ، وہ اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کیلئے مقر کئے ہیں ، دونوں درجوں کے درمیان اتنا فصل ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان، پس جب اللہ تعالیٰ سے مانگناہوتوفردوس مانگو،کیونکہ وہ جنت کاسب سے درمیانی درجہ ہے اورجنت کے سب سے بلنددرجے پرہے،اس کے اوپرپروردگارکاعرش ہے،اوروہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔[19]

اوروہ انمول جنت ان متقین کے لیے تیارکی گئی ہے جو اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئےاپنے پاکیزہ مال خواہ وہ تنگ دست ہوں یاخوش حال ہرموقع پر اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۷۴ؔ [20]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں ۔

جب انہیں کسی سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جوان کے غصے کاموجب ہوتی ہے تووہ غصے کوضبط کرجاتے ہیں ،اورلوگوں کے قصورمعاف کردیتے ہیں ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ ۔۔۔ ۝۴۰ [21]

ترجمہ:پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَةِ، وَلَكِنَّ الشَّدِیدَ الَّذِی یَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپہلوان وہ نہیں ہے جوکشتی لڑنے میں غالب ہوجائے، بلکہ اصلی پہلوان تووہ ہے جوغصہ کی حالت میں اپنے آپ پرقابوپائے ،بے قابونہ ہوجائے۔ [22]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنْ مَالِهِ؟ قَالَ: قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنْ مَالِ وَارِثِهِ قَالَ:اعْلَمُوا أَنَّهُ لَیْسَ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنْ مَالِهِ، مَا لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا قَدَّمْتَ، وَمَالُ وَارِثِكِ مَا أَخَّرْتَ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا تَعُدُّونَ فِیكُمُ الصُّرَعَةَ؟قَالَ: قُلْنَا: الَّذِی لَا یَصْرَعُهُ الرِّجَالُ، قَالَ: قَالَ لَا، وَلَكِنِ الصُّرَعَةُ: الَّذِی یَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کامال پیاراہو ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں کوئی ایسانہیں جسے مال زیادہ پیارانہ ہو،ے فرمایاپھراس کامال وہ ہے جواس نے(موت سے ) پہلے (اللہ کے راستہ میں خرچ)کیااوراس کے وارث کامال وہ ہے جووہ چھوڑکرمرا،پھرفرمایاتم اپنے درمیان کس کوپہلوان شمارکرتے ہو؟ہم نے کہاپہلوان وہ ہے جس کومردنہ پچھاڑسکیں ، فرمایاوہ کچھ نہیں ،پہلوان وہ ہے جوغصہ کے وقت اپنے آپ جذبات کوسنبھال لے۔[23]

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ فَقَالَ تَدْرُونَ مَا الرَّقُوبُ قَالُوا الَّذِی لَا وَلَدَ لَهُ فَقَالَ الرَّقُوبُ كُلُّ الرَّقُوبِ الرَّقُوبُ كُلُّ الرَّقُوبِ الرَّقُوبُ كُلُّ الرَّقُوبِ الَّذِی لَهُ وَلَدٌ فَمَاتَ وَلَمْ یُقَدِّمْ مِنْهُمْ شَیْئًا قَالَ تَدْرُونَ مَا الصُّعْلُوكُ قَالُوا الَّذِی لَیْسَ لَهُ مَالٌ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصُّعْلُوكُ كُلُّ الصُّعْلُوكِ الصُّعْلُوكُ كُلُّ الصُّعْلُوكِ الَّذِی لَهُ مَالٌ فَمَاتَ وَلَمْ یُقَدِّمْ مِنْهُ شَیْئًا قَالَ ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا الصُّرَعَةُ قَالُوا الصَّرِیعُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصُّرَعَةُ كُلُّ الصُّرَعَةِ الصُّرَعَةُ كُلُّ الصُّرَعَةِ الرَّجُلُ یَغْضَبُ فَیَشْتَدُّ غَضَبُهُ وَیَحْمَرُّ وَجْهُهُ وَیَقْشَعِرُّ شَعَرُهُ فَیَصْرَعُهُ غَضَبُهُ

ایک صحابی سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ خطبہ ارشادفرما رہے تھے وہ بھی حاضر تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ رقوب کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جس کی کوئی اولاد نہ ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کامل رقوب کا لفظ دہرا کر فرمایا کہ یہ وہ ہوتا ہے جس کی اولاد ہو لیکن وہ اس حال میں فوت ہوجائے کہ ان میں سے کسی کو آگے نہ بھیجے، پھر پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو صعلوک کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جس کے پاس کچھ بھی مال و دولت نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامل صعلوک وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال ہو، لیکن وہ اس حال میں مرجائے کہ اس نے اس میں سے آگے کچھ نہ بھیجا ہو، پھر پوچھا صرعہ کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا وہ پہلوان جو کسی کو پچھاڑ دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکامل صرعہ یہ ہے کہ انسان کو غصہ آئے، اور اس کا غصہ شدید ہو کر چہرہ کا رنگ سرخ ہوجائے، اور رونگٹے کھڑے ہوجائیں ، تو وہ اپنے غصے کو پچھاڑ دے۔[24]

جَارِیَةُ بْنُ قُدَامَةَ السَّعْدِیُّ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْ لِی قَوْلًا یَنْفَعُنِی، وَأَقْلِلْ عَلَیَّ لَعَلِّی أَعِیهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَغْضَبْ، فَأَعَادَ عَلَیْهِ حَتَّى أَعَادَ عَلَیْهِ مِرَارًا كُلُّ ذَلِكَ یَقُولُ:لَا تَغْضَبْ

حارثہ بن قدامہ رضی اللہ عنہ نے خدمت نبوی میں حاضرہوکرعرض کیا اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے کوئی نفع کی بات بتلائیں جو مختصر ہو تاکہ میں اسے یادرکھ سکوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغصہ نہ کر ،اس نے پھرپوچھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھریہی جواب دیا،کئی مرتبہ یہی کہاغصہ نہ کر[25]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِی، قَالَ:لاَ تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ:لاَ تَغْضَبْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں ،آپ نے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو، اس نے کئی بار عرض کیا تو آپ یہی فرماتے رہے کہ غصہ نہ کرو۔[26]

ایک روایت میں ہے وہ سائل سفیان بن عبداللہ ثقفی تھے۔

کیونکہ بہت سے ظالمانہ کام انسان غصے میں کرگزرتاہے اوربعدمیں اکثرنادم وپریشان ہوتاہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: كَانَ یَسْقِی عَلَى حَوْضٍ لَهُ، فَجَاءَ قَوْمٌ فَقَالَ: أَیُّكُمْ یُورِدُ عَلَى أَبِی ذَرٍّ وَیَحْتَسِبُ شَعَرَاتٍ مِنْ رَأْسِهِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، فَجَاءَ الرَّجُلُ فَأَوْرَدَ عَلَیْهِ الْحَوْضَ فَدَقَّهُ، وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ قَائِمًا فَجَلَسَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ، فَقِیلَ لَهُ: یَا أَبَا ذَرٍّ، لِمَ جَلَسْتَ، ثُمَّ اضْطَجَعْتَ؟ قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا:إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ

ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ اپنے ایک حوض پر پانی پی رہے تھے کہ کچھ لوگ آئے، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ تم میں سے کون ابوذر رضی اللہ عنہ پاس جا کر ان کے سر کے بال نوچے گا؟ ایک آدمی نے اپنے آپ کو پیش کیا اور حوض کے قریب پہنچ کر انہیں مارا،ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کوغصہ آیاپہلے کھڑے تھے پہلے بیٹھے پھر لیٹ گئے،کسی نے ان سے پوچھا اے ابوذر رضی اللہ عنہ ! آپ پہلے بیٹھے ، پھر لیٹے کیوں ؟ فرمایامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھےجب تم میں سے کسی کوغصہ آئے اوروہ کھڑاہواہوتوبیٹھ جائے ،اس طرح اگراس کاغصہ فروہوجائے (تو بہتر ) ورنہ لیٹ جائے۔[27]

اگرکسی کوغصہ آجائے تواسے چاہیے کہ ہرطرح سے پرسکون ہونے کی کوشش کرے، اور وضو کرلینابہترین حال ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ صَنْعَانِیٌّ مُرَادِیٌّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: إِذْ أُدْخِلَ عَلَیْهِ رَجُلٌ فَكَلَّمَهُ بِكَلَامٍ أَغْضَبَهُ، قَالَ: فَلَمَّا أَنْ غَضِبَ قَامَ، ثُمَّ عَادَ إِلَیْنَا وَقَدْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ عَطِیَّةَ وَقَدْ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیْطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْیَتَوَضَّأْ

ابووائل صنعانی مرادی کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمدسعدی رحمہ اللہ کے ہاں گئے ،ایک آدمی نے ان سے کوئی بات کی توانہیں غصہ آگیاتووہ اٹھے اور وضو کیاپھر(وضوکرکے)واپس آئے، اوربیان کیاکہ مجھے میرے والدنے میرے داداعطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے بلاشبہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتاہے، اورشیطان کوآگ سے پیداکیاگیاہے ،اورآگ کوپانی سے بجھایا جاتا ہے، سوجب تم میں سے کسی کوغصہ آجائے تواسے چاہئے کہ وہ وضو کر لے۔ [28]

عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ كَظَمَ غَیْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ یُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَتَّى یُخَیِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ مَا شَاءَ

سہل بن معاذاپنے والدسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص باوجود قدرت کے اپناغصہ ضبط کرلے ،اسے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گاکہ وہ جس حورکوچاہے پسندکرلے۔[29]

حَدَّثَنِی أَبُو كَبْشَةَ الأَنَّمَارِیُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ثَلاَثَةٌ أُقْسِمُ عَلَیْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِیثًا فَاحْفَظُوهُ قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلاَ ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلِمَةً فَصَبَرَ عَلَیْهَا إِلاَّ زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلاَ فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلاَّ فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا

ابی کبشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھے میں تین باتوں پرقسم کھاتاہوں اورایک بات تم سےبیان کرتا ہوں تاکہ یادرکھو،کسی بندہ کے صدقہ دینے سے مال نہیں گھٹتا،کسی شخص پرظلم ہواوروہ اس پرصبرکرے تواللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھادیتا ہے،کسی بندے نے اپنے اوپرسوال کادروازہ کھول دیاتواللہ تعالیٰ اس پرمحتاجی کادروازہ کھول دیتا ہے۔[30]

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یُشْرِفَ لَهُ الْبُنْیَانُ، وَتُرْفَعَ لَهُ الدَّرَجَاتُ، فَلْیَعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ، وَلْیُعْطِ مَنْ حَرَّمَهُ وَیَصِلْ مَنْ قَطَعَهُ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص یہ چاہے کہ اس کی بنیادبلندہو،اوراس کے درجے بڑھیں ، تو اسے ظالموں سے درگزرکرناچاہیے،اورنہ دینے والوں کودیناچاہیے ،اورتوڑنے والوں سے جوڑناچاہیے۔[31]

ایسے ہی اوصاف کے حامل نیک لوگ اللہ کوبہت پسندہیں ۔

﴾‏ وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ یُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿١٣٥﴾‏ أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ ‎﴿١٣٦﴾‏ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١٣٧﴾‏ هَٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِینَ ‎﴿١٣٨﴾‏(آل عمران)
جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے، تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ؟عام لوگوں کے لیے تو یہ (قرآن) بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔

استغفارکرنا:اورجن کاحال یہ ہے کہ اگربہ تقاضائے بشری کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتاہے ،یاکسی گناہ کاارتکاب کرکے وہ اپنے اوپرظلم کربیٹھتے ہیں ، تومعاًاللہ انہیں یادآجاتاہے، اورفوراًاپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ، اوراس سے اپنے عیوب پرپردہ پوشی کاسوال کرتے ہیں ۔

أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِی، فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِی أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِی، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا، أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ، فَاغْفِرْهُ؟ فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِی أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِی، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَابَ ذَنْبًا، قَالَ: قَالَ: رَبِّ أَصَبْتُ أَوْ قَالَ أَذْنَبْتُ آخَرَ، فَاغْفِرْهُ لِی، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِی أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِی ثَلاَثًا، فَلْیَعْمَلْ مَا شَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئےسناآپ فرمارہے تھےایک بندے نے بہت گناہ کیے اورکہااے میرے رب!میں تیراہی گنہگاربندہ ہوں تومجھے بخش دے،اللہ رب العزت نے فرمایامیرابندہ جانتاہے کہ اس کاکوئی رب ضرورہے جوگناہ معاف کرتاہے اورگناہ کی وجہ سے سزابھی دیتاہے، میں نے اپنے بندے کوبخش دیا،پھربندہ رکارہاجتنااللہ نے چاہا،اور پھراس نے گناہ کیااورعرض کیامیرے رب!میں نے دوبارہ گناہ کرلیااسے بھی بخش دے،اللہ تعالیٰ نے فرمایامیرابندہ جانتاہے کہ اس کارب ضرورہے جوگناہ معاف کرتاہے اوراس کے بدلے میں سزابھی دیتاہے، میں نے اپنے بندے کوبخش دیا،پھرجب تک اللہ نے چاہابندہ گناہ سے رکارہااورپھراس نے گناہ کیااوراللہ کے حضورمیں عرض کیااے میرے رب!میں نے پھرگناہ کرلیاہے تومجھے بخش دے،اللہ تعالیٰ نے فرمایامیرابندہ جانتاہے کہ اس کاایک رب ضرورہے جوگناہ معاف کرتاہے ورنہ اس کی وجہ سے سزابھی دیتاہے،میں نے اپنے بندے کوبخش دیاتین مرتبہ پس اب جوچاہے عمل کرے۔[32]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قُلْنَا یَا رَسُولَ اللهِ: مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ رَقَّتْ قُلُوبُنَا، وَزَهِدْنَا فِی الدُّنْیَا، وَكُنَّا مِنْ أَهْلِ الآخِرَةِ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَآنَسْنَا أَهَالِینَا، وَشَمَمْنَا أَوْلاَدَنَا أَنْكَرْنَا أَنْفُسَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِی كُنْتُمْ عَلَى حَالِكُمْ ذَلِكَ لَزَارَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ فِی بُیُوتِكُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللَّهُ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ كَیْ یُذْنِبُوا فَیَغْفِرَ لَهُمْ قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ مِمَّ خُلِقَ الخَلْقُ؟ قَالَ: مِنَ الْمَاءِ، قُلْتُ: الْجَنَّةُ مَا بِنَاؤُهَا؟ قَالَ: لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَمِلاَطُهَا الْمِسْكُ الأَذْفَرُ، وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالیَاقُوتُ، وَتُرْبَتُهَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ دَخَلَهَا یَنْعَمُ وَلاَ یَبْأَسُ، وَیَخْلُدُ وَلاَ یَمُوتُ، لاَ تَبْلَى ثِیَابُهُمْ، وَلاَ یَفْنَى شَبَابُهُمْ ثُمَّ قَالَ: ثَلاَثٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِینَ یُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ یَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَیَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِی لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِینٍ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہماراکیاحال ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں توہمارے دل نرم اوردنیاسے بیزارہوتے ہیں ، اورہم اہل آخرت میں سے ہوتے ہیں ،پھرجب ہم آپ کی مجلس سے نکل جاتے ہیں اوراپنی عورتوں اوربچوں سے پیارکرتے ہیں یعنی ان میں مصروف ہوجاتے ہیں تودلوں کی یہ حالت باقی نہیں رہتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم اسی حال میں رہوجس حال میں میرے پاس سے نکلتے ہوتوتمہارے گھروں میں فرشتے تم سے ملاقات کریں ،اوراگرتم گناہ نہ کروتواللہ تعالیٰ تمہارے سواایسی مخلوق کولائے جوگناہ کریں ، اوران کے استغفارکے بعداللہ ان کے گناہوں کومعاف کرے،راوی نے پھرعرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مخلوق کس چیزسے پیداکی گئی؟فرمایاپانی سے،میں نے عرض کی جنت کس چیزسے بنی ہے؟ فرمایااس کی ایک اینٹ چاندی کی ہے اورایک اینٹ سونے کی ہے ، اس کاگارامشک اذفرہے ،اس کے کنکرموتی اوریاقوت ہیں ،اس کی خاک زعفران کی ہے،جواس میں داخل ہوگاعیش وعشرت میں ہوگااوراسے کوئی تکلیف نہ ہوگی، اوروہ اس میں ہمیشہ رہے گاموت نہ آئے گی،نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے ،اورنہ جوانی فناہوگی،پھرفرمایاتین اشخاص کی دعاپھیری نہیں جاتی یعنی ضرورقبول کی جاتی ہے،امام عادل کی، اورصائم کی جب وہ افطارکرے، اورمظلوم کی کہ اللہ تعالیٰ اس کوبدلی کے اوپربلندکرلیتاہے یعنی آسمان پرجاتی ہے، اوراس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں ،اوراللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے مجھے اپنی عزت کی قسم! میں ضرورتیری مددکروں گااگرچہ کچھ دیربعدکروں ۔[33]

عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَقُولُ: كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا نَفَعَنِی اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ یَنْفَعَنِی، وَإِذَا حَدَّثَنِی أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِی صَدَّقْتُهُ، قَالَ: وَحَدَّثَنِی أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ یُذْنِبُ ذَنْبًا، فَیُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ} [34]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

اسماء بن حکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا، تو اللہ تعالیٰ مجھ کو اس پر عمل کی توفیق بخشتا جس قدر چاہتا، اور جب کوئی اور مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا تو میں اس کو قسم دیتا ،جب وہ قسم کھا لیتا تو مجھے یقین آجاتا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، انکا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے، اور پھر اچھی طرح وضو کر کھڑے ہو کردو رکعت نماز پڑھے ،اور پھر اللہ سے معافی چاہے، اور اللہ اس کو بخش نہ دے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد قرآن کی یہ آیت کریمہ ’’ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ‘‘پڑھی۔[35]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ، فَیُحْسِنُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ یَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، یَدْخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَاءَ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے جوشخص کامل(مسنون) وضوکر أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ پڑھے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندرداخل ہوجائے۔[36]

بعض احادیث میں کلمہ شہادت أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ بعدیہ کلمات پڑھنے کاذکربھی ملتا ہے، اللهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِینَ، وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِینَ اے اللہ!مجھے بہت توبہ کرنے والوں اورپاک رہنے والوں میں بنادے۔[37]

لہذاکلمہ شہادت کے ساتھ ان الفاظ کوبھی پڑھناجائزہے، لیکن وضوکے بعددعاپڑھتے ہوئے آسمان کی طرف منہ کرنا اور انگلی سے اشارہ کرناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، لہذااس عمل سے اجتناب کرناچاہیے۔

عَن أَنَس؛ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیه وَسَلَّم فقال: یارسول اللَّهِ إِنِّی أُذْنِبُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیه وَسَلَّم: إِذَا أَذْنَبْتَ فَاسْتَغْفِرْ رَبَّكَ قَالَ: فَإِنِّی أَسْتَغْفِرُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأُذْنِبُ قَالَ: فَإِذَا أَذْنَبْتَ فَعُدْ فَاسْتَغْفِرْ رَبَّكَ قَالَ: فَإِنِّی أَسْتَغْفِرُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأُذْنِبُ قَالَ: فَإِذَا أَذْنَبْتَ فَعُدْ فَاسْتَغْفِرْ رَبَّكَ فَقَالَهَا فِی الرَّابِعَةِ فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ حَتَّى یَكُونَ الشَّیْطَانُ هُوَ الْمَحْسُورُ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااور کہااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے گناہ ہوگیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم سے کوئی گناہ سرزدہوگیاہے تواللہ تعالیٰ سےتوبہ کرلے،اس نے کہامیں نے توبہ کی مگرپھرگناہ سرزدہوگیا،فرمایااگرتم سے کوئی قصورہوگیاہے توپھراللہ تعالیٰ سےاستغفار کرلے،اس نے کہامجھ سے پھرگناہ ہوگیااسی طرح چوتھی مرتبہ کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااستغفارکیے جا،یہاں تک کہ شیطان تھک جائے ،پھرفرمایاگناہ کوبخشنااللہ ہی کے اختیارمیں ہے۔[38]

کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوااورکون ہے جوگناہ معاف کرسکتاہو،جیسے فرمایا

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ۔۔۔۝۱۰۴ [39]

ترجمہ:کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے؟۔

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [40]

ترجمہ:اگر کوئی شخص بُرا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے، اور اس کے بعد اللہ سے د رگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ:ارْحَمُوا تُرْحَمُوا، وَاغْفِرُوا یَغْفِرِ اللَّهُ لَكُمْ، وَیْلٌ لِأَقْمَاعِ الْقَوْلِ، وَیْلٌ لِلْمُصِرِّینَ الَّذِینَ یُصِرُّونَ عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ یَعْلَمُونَ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبرپرفرمایالوگو!تم اوروں پررحم کرواللہ تم پررحم فرمائے گا، لوگو! تم دوسروں کی خطائیں معاف کرواللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کوبخش دے گا، باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے،جان کر گناہ پرجم جانے والوں کی ہلاکت ہے۔ [41]

امام عبدالرزاق نےانس بن مالک سے حدیث کوبیان کیاہے

حِینَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ}[42]] بَكَى عَدُوُّ اللَّهِ

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ’’اورجن کاحال یہ ہے کہ اگرکبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتاہے یاکسی گناہ کاارتکاب کرکے وہ اپنے اوپرظلم کربیٹھتے ہیں تومعااللہ انہیں یادآجاتاہے اوراس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔‘‘توابلیس بہت رویاتھا۔[43]

اوروہ دیدہ ودانستہ اپنے بداعمالیوں پراڑےنہیں رہتے،ایسے پرہیزگار لوگوں کی جزاء ان کے رب کے پا س یہ ہے کہ وہ ان کے قصوروں کومعاف کردے اورانہیں ایسے لازوال انواع واقسام کی نعمتوں سے بھرے باغوں میں داخل کرے جن کے گھنے سایہ داردرختوں کے نیچے نتھرے پانی، دودھ، شہد اور مختلف ذائقوں کی شرابوں کی نہریں بہتی ہوں گی اوروہاں وہ ہمیشہ شاہانہ شان سے رہیں گے، نیک عمل کرنے والوں کے لیے کیسااچھابدلہ ہےکہ انہوں نے اللہ کی خاطرتھوڑاعمل کیامگران کوبہترین اجرعطاکیاگیا،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بہت سے دورگزرچکے ہیں ، اللہ کی زمین میں گھوم پھرکردیکھ لوکہ ان لوگوں کاکیاانجام ہوا جنہوں نےاللہ کے احکام وہدایات کوجھٹلایا،تباہی وبربادی کافروں ہی کامقدرٹھہری اور اللہ نےپرہیزگارلوگوں کوفتح ونصرت سے سرفرازفرمایا ،یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اورصریح تنبیہ ہے اورجواللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اورنصیحت ہے

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٣٩﴾‏ إِن یَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٤٠﴾‏۔وَلِیُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٤١﴾‏ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِینَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ ‎﴿١٤٢﴾‏ وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَیْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ‎﴿١٤٣﴾(آال عمران)
تم نہ سستی کرو اور نہ غم گین ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو،اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہوچکے ہیں ، ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں ، (شکست احد) اس لیے تھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہر کردے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا، (یہ بھی وجہ تھی) کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو بالکل الگ کردے اور کافروں کو مٹا دے،کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں ، جنگ سے پہلے تم شہادت کی آرزو میں تھے اب اسے اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نےمسلمانوں کاحوصلہ بڑھانے،ان کے عزائم مضبوط اوران کے ارادوں کوبلندکرنے کے لئے فرمایا کہ غزوہ احدکے نتیجے پردل شکستہ نہ ہواورغم نہ کرو،اگرتم بھس بھرے شیرنہیں بلکہ عملی طورپرمومن ہوتواللہ کی مددتمہارے شامل حال رہے گی، اورتم ہی سربلنداور غالب رہوگے، بالآخرتم ہی فتح ونصرت سے سرفرازکیے جاؤگے،جیسے ایک مقام پر فرمایا

وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۵۶ۧ [44]

ترجمہ:اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔

اس وقت اگر تمہارے سترساتھی شہید اورکچھ زخمی ہوئے ہیں ، تواس سے پہلے غزوہ بدرمیں ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کوبھی لگ چکی ہے،یعنی زخم کھانے کے اعتبارسے تم اوروہ برابرہو،جب اس شدیدچوٹ کوکھاکرکافرپست ہمت نہیں ہوئے تواس چوٹ پرتم کیوں ہمت ہارو،جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ كَـمَا تَاْلَمُوْنَ۝۰ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ۔۔۔۝۱۰۴ۧ [45]

ترجمہ:اگر تم تکلیف اُٹھا رہے ہو تو تمہاری طرف وہ بھی تکلیف اُٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کے اُمیدوار ہو جس کے وہ اُمیدوار نہیں ہیں ۔

جنگ میں فتح یاشکست،قوموں کاعروج وزوال توزمانہ کے نشیب وفرازہیں ، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ،اگرآج کامیابی ایک گروہ کے لئے ہے توکل کسی اورگروہ کے لئے بھی ہوسکتی ہے،غزوہ احدمیں تمہیں اس لیے ہزیمت کاسامناکرناپڑا کہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں یعنی جنگ کی شدتوں اورمصیبتوں پرصبرواستقامت کامظاہرہ کرنے والے کون ہیں ،اوران لوگوں کوچھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی راستی کےگواہ ہیں ،یعنی کچھ لوگوں کوشہادت کے مرتبہ پرفائزکرکے عزت بخشناچاہتاتھا،کیونکہ ظالم لوگ اللہ کوپسندنہیں ہیں ،اوروہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کرکافروں کی سرکوبی کردیناچاہتاتھا،کیاتم لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ بغیرقتال اورآلام ومصائب میں مبتلاہوئے بغیر یونہی جنت میں چلے جاؤگے؟ جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللهِ۝۰۝۲۱۴ [46]

ترجمہ:پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲ [47]

ترجمہ:کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟۔

حالانکہ ابھی تو اللہ نے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارکر یہ دیکھاہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اوراس کی خاطرصبرواستقامت کامظاہرہ کرنے والے ہیں ،تم میں سے کچھ لوگ توغزوہ بدرمیں شامل نہ ہونے پراحساس محرومی رکھتے تھے،اورچاہتے تھے کہ کبھی میدان کارزارگرم ہوتووہ کفارکی سرکوبی کے لئے جہادمیں حصہ لیں اوراللہ کی راہ میں شہیدہوں ،اورانہی لوگوں نے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر کفارسےلڑنے کامشورہ دیاتھا !اورانہی کے اصرارپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے باہرنکل کرلڑنے کافیصلہ فرمایاتھا،جنگ کوئی عام کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتاہے توحقیقت کھلتی ہے کہ انسان ایمان اوربہادری کے کس معیارپرہے، اس لئے اس کی آرزونہیں کرنی چاہیے۔

عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ،إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَیَّامِهِ الَّتِی لَقِیَ فِیهَا، انْتَظَرَ حَتَّى مَالَتِ الشَّمْسُ،ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا قَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللهَ العَافِیَةَاللہ تعالیٰ عافیت مانگو فَإِذَا لَقِیتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ،ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِیَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْهِمْ

ابوالنضرسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد موقع پرجس میں لڑائی بھی ہوئی تھی سورج کے ڈھلنے تک جنگ شروع نہیں کی،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو!دشمن سے ملنے کی تمنامت کرو،مگرجب اس سے مڈبھیڑہوجائے توپھرصبروثبات سے کام لو،اورجان لوکہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے،پھر(یہ)دعافرمائی اے اللہ! کتاب کونازل کرنے والے !بادلوں کوچلانے والے! لشکروں کوپسپاکرنے والے! انہیں پسپاکردے اورہمیں ان پرنصرت اورغلبہ عطافرما ۔[48]

مگر یہ اس وقت کی بات تھی جب موت تمہارے سامنے نہ آئی تھی ،لواب تلواروں کی چمک،نیزوں کی تیزی،تیروں کی یلغار،جاں بازوں کی صف آرائی اورلاشوں کے گرنے پر تم نے موت کوقریب سے دیکھ لیا ،اب تمہیں کیاہوگیاتم نے صبرکیوں چھوڑدیا؟۔

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَیْهِ فَلَن یَضُرَّ اللَّهَ شَیْئًا ۗ وَسَیَجْزِی اللَّهُ الشَّاكِرِینَ ‎﴿١٤٤﴾‏ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن یُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن یُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِی الشَّاكِرِینَ ‎﴿١٤٥﴾‏(آل عمران)
 (حضرت)محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھرجائے اپنی ایڑیوں پر توہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ،بغیر اللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے، دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دے دیں گے ، اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔

جب غزوہ احدمیں کچھ مسلمان شکست کھاگئے اورکچھ شہیدہوگئے تو

نَادَى الشَّیْطَانُ: أَلَا إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتل

شیطان نے اعلان کردیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئے ہیں ،

وَرَجَعَ ابْنُ قَمِیئَةَ إِلَى الْمُشْرِكِینَ فَقَالَ لَهُمْ: قتلتُ مُحَمَّدًا

اورابن ابی قمیہ مشرکین کے پاس آکرکہنے لگاکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوشہیدکردیاہے۔

توبہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات اترگئی اورانہیں یقین کامل ہوگیاکہ واقعی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئے ہیں ،اورانہوں نے خیال کیاکہ ایساکچھ بعیدبھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ بہت سے انبیائے کرام کوشہیدکردیاگیاتھا،اس افواہ کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت کمزوری وبزدلی اورجنگ سے دوں ہمتی پیداہوگئی، تواس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اے لوگو!محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سواکچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ،یعنی ان کاامتیازبھی وصف رسالت ہی ہے، وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف نہیں ہیں کہ انہیں موت سے دوچارنہ ہوناپڑے،ان سے پہلے اوررسول بھی اپنافرض منصبی اداکرکے اس دنیاسے جا چکے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ مَر عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ یَتَشَحَّطُ فِی دَمِهِ،فَقَالَ لَهُ: یَا فُلَانُ أشعرتَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِل؟ فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: إِنْ كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِل فَقَدْ بَلَّغَ،فَقَاتِلُوا عَنْ دِینِكُمْ،فَنَزَلَ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ

ابن ابونجیح نے اپنے باپ سے روایت کیاہے ایک مہاجرکاایک نصاری پاس سے گزرہواجبکہ وہ خاک وخون میں تڑپ رہاتھا تواس نے کہااے فلاں !کیاتجھے یہ معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توشہیدہوگئے ہیں ؟اس حالت میں بھی انصاری نے یہ سن کرکہاکہ اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جام شہادت نوش فرماگئے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دین کوپہنچادیا لہذاجاؤاوراپنے دین کوبچانے کے لیے جہادکرو، تواس موقعہ پریہ آیت کریمہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ نازل ہوئی۔ [49]

جولوگ اس افواہ سے متاثرہوئے تھے ان کوخطاب فرمایااگربالفرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعی مرجائیں یاکسی جنگ میں قتل کردیے جائیں ، توکیاتم دین اسلام کوچھوڑکرکفرکی طرف پلٹ جاؤ گے؟یعنی مرتدہوجاؤگے، یاد رکھو ! جو دین سےپھرے گاوہ اللہ کاکچھ نقصان نہ کرے گابلکہ اپناہی نقصان کرے گااللہ تعالیٰ اپنے دین کوضرورقائم کرے گااوراپنے مومن بندوں کوغلبہ عطافرمائے گا۔

أَنَّ عَائِشَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ یُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَتَیَمَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَشًّى بِثَوْبِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَیْهِ فَقَبَّلَهُ وَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، وَاللَّهِ لاَ یَجْمَعُ اللَّهُ عَلَیْكَ مَوْتَتَیْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِی كُتِبَتْ عَلَیْكَ، فَقَدْ مُتَّهَا،فَقَالَ: اجْلِسْ یَا عُمَرُ ،فَأَبَى عُمَرُ أَنْ یَجْلِسَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیاسے رحلت فرماگئے توسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنی قیام گاہ سے گھوڑے پرآئے اورآکراترے، پھر مسجد اندرگئے کسی سے آپ نے کوئی بات نہیں کی،اس کے بعدآپ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ،نعش مبارک ایک یمنی چادرسے ڈھکی ہوئی تھی ،آپ نے چہرہ کھولااورجھک کرچہرہ مبارک کوبوسہ دیااوررونے لگے،پھرکہامیرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں اللہ کی قسم !اللہ تعالیٰ آپ پردومرتبہ موت طاری نہیں کرے گا،جوایک موت آپ کے مقدرمیں تھی وہ آپ پرطاری ہوچکی ہے،شدت جذبات سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کی وفات کاانکارکررہے تھے،سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مسجدمیں آکرسیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کہااے سیدناعمر رضی اللہ عنہ !بیٹھ جاؤ،لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکارکیا،اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں کھڑے ہوئے اورخطبہ مسنونہ کے بعدفرمایا

أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ یَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ، قَالَ اللهُ: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۝۰ۭ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللهَ شَـیْـــًٔـا۝۰ۭ وَسَیَجْزِی اللهُ الشّٰكِرِیْنَ۝۱۴۴

امابعد!تم میں جوبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاتھاتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی ہے اورجواللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاتھاتو(اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والاہے اوراس کوکبھی موت نہیں آئے گی،اللہ تعالیٰ نے خودفرمایاہے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں ،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں ،پھرکیااگروہ مرجائیں یاقتل کردیے جائیں توتم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ یاد رکھو!جوالٹاپھرے گاوہ اللہ کاکچھ نقصان نہ کرے گا،البتہ اللہ کے شکرگزاربندے بن کررہیں گے انہیں وہ اس کی جزادے گا۔‘‘

وَقَالَ: وَاللهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الآیَةَ حَتَّى تَلاَهَا أَبُو بَكْرٍ،فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا یَتْلُوهَا،أَنَّ عُمَرَ قَالَ:وَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلاَهَا فَعَقِرْتُ، حَتَّى مَا تُقِلُّنِی رِجْلاَیَ، وَحَتَّى أَهْوَیْتُ إِلَى الأَرْضِ حِینَ سَمِعْتُهُ تَلاَهَا، عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیااللہ کی قسم !ایسامحسوس ہواکہ جیسے پہلے سے لوگوں کومعلوم ہی نہیں تھاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اورجب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی توسب نے اس کی تلاوت سیکھی،اب یہ حال تھاکہ جوبھی سنتاتھاوہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتاتھا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !مجھے اس وقت ہوش آیاجب میں نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کواس آیت کی تلاوت کرتے سناجس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سناکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہواکہ میرے پاؤں میرابوجھ نہیں اٹھاپائیں گے اورمیں زمین پرگرجاؤں گا۔[50]

البتہ اللہ کے شکرگزاربندے بن کررہیں گے تواللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزاعطافرمائے گا،غزوہ احد میں کمزوری اوربزدلی کامظاہرہ کرنے والے مجاہدین کے حوصلوں میں اضافہ کے لئے فرمایاکوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیرنہیں مرسکتا،ہرشخص کی موت کاایک وقت لکھاہواہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ۔۔۔۝۰۝۱۱ [51]

ترجمہ:کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے ۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۔۔۔۝۰۝۲ [52]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی۔

۔۔۔فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۳۴ [53]

ترجمہ:جب وہ(مقررہ) وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرتا ہے اور نہ ایک گھڑی جلدی کرتا ہے۔

بزدلوں کوحوصلہ اورجہادکی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاموت توبنداورمضبوط قلعوں میں بھی اپنے وقت پرآکررہے گی ،پھر میدان جنگ سےبھاگنے اوربزدلی دکھانے سے کیاحاصل ہوگا۔

عَنْ حَبِیبِ بْنِ صُهْبَانَ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَهُوَ حُجْرُ بْنُ عَدِیّ: مَا یَمْنَعُكُمْ أَنْ تعبُروا إِلَى هَؤُلَاءِ الْعَدُوِّ، هَذِهِ النُّطْفَةُ؟ یَعْنِی دِجْلَة، {وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلا بِإِذْنِ اللهِ كِتَابًا مُؤَجَّلا} ثُمَّ أَقْحَمَ فَرَسَهُ دِجْلَةَ، فَلَمَّا أَقْحَمَ أَقْحَمَ النَّاسُ، فَلَمَّا رَآهُمُ الْعَدُوُّ قَالُوا: دیوان، فهربوا

حبیب بن صہبان سے روایت ہےحجربن عدی نامی ایک مسلمان نے کہاکہ دجلہ عبورکر دشمن تک پہنچنے میں آخرتمہیں کون سی بات مانع ہے؟پھرانہوں نے اس آیت کریمہ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلا بِإِذْنِ اللهِ كِتَابًا مُؤَجَّلا کی تلاوت کی، اوریہ کہہ کرانہوں نے دریائے دجلہ میں اپناگھوڑاڈال دیا ،جب انہوں نے اپنا گھوڑا ڈالا تودیگرسب لوگوں نے بھی اپنے اپنے گھوڑے ڈال دیے،دشمن نے(بہادری اورجانفروشی کا) یہ منظر دیکھا تو کہا،یہ توجن اوربھوت ہیں (ان کاکون مقابلہ کرسکتاہے)، پھروہ میدان جنگ چھوڑکرفرارہوگئے۔[54]

جوشخص ثواب دنیاکے فوائدومنافع کے ارادہ سے کام کرے گا،تواس کوہم دنیاہی میں اس کاصلہ دے دیں گے،لیکن آخرت میں وہ خالی ہاتھ رہے جائے گا، اورجواخروی زندگی کے فوائدومنافع کے ارادہ سے کام کرے گا،اس کی سعی وعمل کے نتیجہ میں اللہ اسے دنیاو آخرت دونوں میں بہترین صلہ عطافرمائے گا ، جیسے فرمایا

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۝۲۰ [55]

ترجمہ:جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں ، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸ [56]

ترجمہ: جو کوئی (اس دنیا میں ) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہشمند ہو اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں ، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر۔

اوراللہ کی نعمتوں پرصبروشکرکرنے والوں کوہم ان کی جزاضرورعطاکریں گے۔

وَكَأَیِّن مِّن نَّبِیٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّیُّونَ كَثِیرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ ‎﴿١٤٦﴾‏ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِی أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٤٧﴾‏ فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٤٨﴾‏(آل عمران)
بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں ،انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ سست رہے اور نہ دبے، اللہ صبر کرنے والوں کو( ہی) چاہتا ہے، وہ یہی کہتے رہے کہ اے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بےجا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے، اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

مجاہدین احدسے خطاب:اہل ایمان کی تسلی کے لئے فرمایاحق وباطل کی کشمکش کامعاملہ توشروع سے چلاآرہاہے،اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر بہت سے خداپرستوں نے دشمنان دین سے جنگ کی،اللہ کی راہ میں جومصیبتیں ان پرپڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے،نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اورنہ اپنی قلت تعداداوربے سروسامانی اورنہ کفارکی کثرت التعداداورجنگی اسلحہ جات دیکھ کران کے آگےسرنگوں ہوئے،بلکہ انہوں نے ہرطرح کے حالات میں صبرکیااورثابت قدم رہے ،

عَنْ قَتَادَةَ: {فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا} یَقُولُ: مَا عَجَزُوا، وَمَا تَضَعْضَعُوا لِقَتْلِ نَبِیِّهِمْ {وَمَا اسْتَكَانُوا} یَقُولُ: مَا ارْتَدُّوا عَنْ نُصْرَتِهِمْ وَلَا عَنْ دِینِهِمْ، بَلْ قَاتَلُوا عَلَى مَا قَاتَلَ عَلَیْهِ نَبِیُّ اللهِ حَتَّى لَحِقُوا بِاللهِ

قتادہ اورربیع بن انس نے بیان کیاہے’’لیکن نہ توانہوں نے ہمت ہاری ۔‘‘ معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے نبی کے شہیدہونے کی وجہ سے ہمت نہ ہاری اور’’اورنہ سست رہے۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ نہ اپنی بصیرت اوراپنے دین سے مرتدہوئے، بلکہ انہوں نے بھی اس طرح جہادکیاجس طرح اللہ کے نبی نے جہادکیاتھا،حتی کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ گئے ۔[57]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ فِی قَوْلِهِ: {وَمَا اسْتَكَانُوا} [58]قَالَ: تَخْشَعُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’اورنہ سست رہے۔‘‘کے معنی یہ ہیں انہوں نے جزع فزع کا اظہار نہیں کیا۔[59]

وَقَالَ السُّدِّی وَابْنُ زَیْدٍ: وَمَا ذَلُّوا لِعَدُوِّهِمْ

سدی رحمہ اللہ اورابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ اپنے دشمن کے سامنے عاجزودرماندہ نہیں ہوئے۔[60]

ایسے ہی صابروں کواللہ پسندکرتاہے،انتہائی مشکل مقامات پران کی دعابس یہ تھی کہ اے ہمارے رب!ہماری غلطیوں اورکوتاہیوں سے درگزرفرما،ہمارے کام میں تیرے حدودسے جوکچھ تجاوزہوگیاہواسے معاف کردے،ہمارے قدم جمادے اورکافروں کے مقابلہ میں ہماری مددفرما،اللہ نے ان کی دعاؤں کوشرف قبولیت بخشااور انہیں دنیامیں فتح وظفر سے نوازا،اوراس سے کہیں بہترثواب آخرت بھی عطاکیا،اللہ کوایسے ہی نیک عمل پسندہیں ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تُطِیعُوا الَّذِینَ كَفَرُوا یَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِینَ ‎﴿١٤٩﴾‏ بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَیْرُ النَّاصِرِینَ ‎﴿١٥٠﴾‏ سَنُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ۖ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۚ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِینَ ‎﴿١٥١﴾‏(آل عمران)
اے ایمان والو ! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے پلٹا دیں گے (یعنی تمہیں مرتد بنادیں گے) پھر تم نامراد ہوجاؤ گے،بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہ ہی بہترین مددگار ہے،ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری ،ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور ان ظالموں کی بری جگہ ہے۔

اے لوگوجوایمان لائے ہو!کفارکی چاہت تویہی ہے کہ وہ تمہیں دین اسلام سے ہٹادیں ،اس لئےاگرتم کفارکی اطاعت کروگے،ان کاکہامان لوگے تووہ تم کوایمان سے ہٹاکرکفرکی طرف لوٹادیں گے، اورتم دنیاوآخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو کررہ جاؤ گے،غزوہ احدکی ہزیمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض یہوداورمنافقین مسلمانوں میں یہ خیال پھیلانے کی کوشش کررہے تھے کہ اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ہی اللہ کے رسول ہوتے تواللہ کی حمایت ونصرت ان کے ساتھ ہوتی اوروہ کفارسے شکست نہ کھاتے،اس لئے بہتریہی ہے کہ تم یہ دین چھوڑکراپنے آباؤاجدادکے دین کی طرف پلٹ آؤ،اللہ تعالیٰ نے فرمایایہودومنافقین جوباتیں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ صحیح نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہاراحامی ومددگارہے اوروہ بہترین مددکرنے والاہے،اوراللہ تعالیٰ نے مومنوں کوبشارت دیتے ہوئے فرمایاعنقریب وہ وقت آنے والاہے جب ہم منکرین حق کے دلوں سے رعب بیٹھادیں گے، اوروہ مسلمانوں کے خوف سے لرزاں وترساں رہیں گے۔

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے پانچ چیزیں ایسی عطاکی گئی ہیں جومجھ سے قبل کسی نبی کونہیں دی گئیں ،ایک مہینہ کی مسافت سے رعب ذریعہ میری مددکی گئی ہے،اورتمام زمین میرے لئے سجدہ گاہ اورپاکی کے لائق بنائی گئی ،پس میری امت کاجوانسان نمازکے وقت کو(جہاں بھی)پالے اسے وہاں ہی نمازاداکرلینی چاہیے،اورمیرے لئے غنیمت کا مال حلال کیاگیاہے ،مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے بھی حلال نہ تھا،اورمجھے شفاعت عطاکی گئی، اورتمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لئے عام طورپرنبی بناکربھیجاگیاہوں ۔[61]

اس لیےکہ انہوں نےا پنی خواہشات نفس اوراپنے فاسدارادوں  مطابق اپنےعقائد واعمال میں اللهُ وَحْدَ هُ لاَ شَرِیكَ کے ساتھ انکی خدائی میں دوسروں کوشریک ٹھہرایا ہوا ہےجن کے شریک ہونے پراللہ نے کوئی سندنازل نہیں کی، ان کفارومشرکین کاظلم اورتعدی کےسبب آخری ٹھکاناجہنم ہے اور بہت ہی بری ہے وہ قیام گاہ جوان ظالموں کو نصیب ہوگی۔

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنكُم مَّن یُرِیدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٥٢﴾‏ ۞ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ یَدْعُوكُمْ فِی أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٥٣﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا، اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے ،جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی کی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے ، بس تمہیں غم پر غم پہنچا تاکہ تم فوت شدہ چیز پر غم گین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔

اللہ نے تائیدونصرت کاجووعدہ تم سے کیاتھاوہ تواس نے پوراکردیا،جنگ کےابتدامیں اللہ کے حکم سے تم ہی کفارومشرکین کوقتل کررہے تھے اوران پرغالب تھے، مگرجب تم نے کمزوری دکھائی،

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْفَشَلُ:الْجُبْنُ

ابن جریج کہتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے’’الْفَشَلُ ‘‘ معنی بزدلی کے ہوتے ہیں ۔[62]

اوراپنے کام میں باہم اختلاف کیا،کسی نے کہااب جبکہ دشمن شکست کھاکربھاگ رہاہے لہذااب ہمارا یہاں درے پرٹھہرنے کاکیاکام ہے،اورکوئی کہتا تھا کہ ہم تواسی مقام پرڈٹے رہیں گے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں متعین فرمایاہے، اورجونہی کہ وہ چیزاللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتارتھےیعنی مال غنیمت ،توتم اپنے سردارکے حکم کی خلاف ورزی کربیٹھے،اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ مال غنیمت کے طالب تھے اورکچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے،تب اللہ نے تمہیں کفار کے مقابلہ میں پسپاکردیاتاکہ تمہاری آزمائش کرے،اورحق یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے پھربھی تمہاری غلطیوں کو معاف ہی کردیا،کیونکہ مومنوں پراللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے،جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ان مجاہدین کے لئے عفوعام کااعلان فرمادیاتوپھرکسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ البَیْتَ، فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا، فَقَالَ: مَنْ هَؤُلاَءِ القُعُودُ؟ قَالُوا: هَؤُلاَءِ قُرَیْشٌ. قَالَ: مَنِ الشَّیْخُ؟ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّی سَائِلُكَ عَنْ شَیْءٍ أَتُحَدِّثُنِی؟ قَالَ: أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا البَیْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ یَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُهُ تَغَیَّبَ عَنْ بَدْرٍ، فَلَمْ یَشْهَدْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَیْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ یَشْهَدْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَبَّرَ،

عثمان بن موہب سے مروی ہے ایک شخص مصر والوں میں سے آیا اور اس نے حج کیا بیت اللہ کا تو ایک جگہ چند لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر کہا یہ کون لوگ ہیں ؟کسی نے کہا یہ قریش ہیں ، اس نے پوچھا ان کا شیخ کون ہے؟ لوگوں نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، میں آپ سے ایک بات پوچھتاہوں آپ مجھ سے صحیح واقعات بیان کریں ،اس گھرکی حرمت کی قسم دے کرمیں آپ سے پوچھتاہوں کیاآپ کومعلوم ہے کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد موقع پرراہ فراراختیارکی تھی؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں ! ایسا ہی ہوا تھا،اس شخص نے پوچھاآپ کویہ بھی معلوم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شریک نہیں تھے؟کہاکہ ہاں یہ بھی ہواتھا،اس شخص نے پوچھااورآپ کویہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان(صلح حدیبیہ)میں بھی پیچھے رہ گئے تھےاورحاضرنہ ہوسکے تھے؟ انہوں نے کہاکہ ہاں یہ بھی صحیح ہے،اس پراس شخص نے (مارے خوشی کے)اللہ اکبرکہا،

 قَالَ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ لِأُخْبِرَكَ وَلِأُبَیِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِی عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ یَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا تَغَیُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مَرِیضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ وَأَمَّا تَغَیُّبُهُ عَنْ بَیْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ، فَبَعَثَ عُثْمَانَ، وَكَانَتْ بَیْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ الیُمْنَى:هَذِهِ یَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى یَدِهِ، فَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ اذْهَبْ بِهَذَا الآنَ مَعَكَ

لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہایہاں آؤمیں تمہیں بتاؤں گا اورجوسوالات تم نے کیے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کروں گا،غزوہ احدمیں فرارسے متعلق جوتم نے کہاتومیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کردی ہے،غزوہ بدرمیں ان کے نہ ہونے کے متعلق جوتم نے کہاہے تواس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی(رقیہ رضی اللہ عنہا )تھیں اوروہ بیمارتھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکہ تمہیں اس شخص کے برابرثواب ملے گاجوغزوہ بدرمیں شریک ہوگااوراسی کے برابرمال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا،بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کاجہاں تک سوال ہے تووادی مکہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہردل عزیزہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بجائے اسی کوبھیجتے،اس لئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کووہاں بھیجناپڑا،اوربیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ مکرمہ میں تھے، (بیعت لیتے وقت)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کواٹھاکرفرمایاکہ یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کاہاتھ ہے اوراسے اپنے (بائیں )ہاتھ پر مار کر فرمایاکہ یہ بیعت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے ،اب جاسکتے ہوالبتہ میری باتوں کویادرکھنا۔[63]

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ پریہ اعتراضات کرنے والاکوئی خارجی تھاجوواقعات کی ظاہری سطح کوبیان کرکے ان کی برائی کرناچاہتاتھا،مگرجسے اللہ عزت عطافرمائے اس کی برائی کرنے والاخودبراہے،غزوہ احدکے موقع پرعام مسلمانوں میں کفارکے اچانک حملہ کی وجہ سے گھبراہٹ پھیل گئی تھی ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پرکھڑے ہوئے تھے اوردوایک صحابہ کے ساتھ کفارکے تمام حملوں کاانتہائی پامردی سے مقابلہ کررہے تھے ،تھوڑی دیرکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوآوازدی اورپھرتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردجمع ہوگئے،اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس غلطی کومعاف فرمادیا،اوراپنی معافی کاخودقرآن مجیدمیں اعلان کیا،اکثرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم منتشرہوگئے تھے اورانہیں میں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے،مسلمانوں کواس غزوہ میں اگرچہ نقصان بہت اٹھاناپڑالیکن یہ نہیں کہاجاسکتاکہ مسلمانوں نے غزوہ احدمیں شکست کھائی کیونکہ نہ تومسلمانوں نے ہتھیارڈالے، اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ چھوڑا،فوج یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اگرچہ تھوڑی دیرکے لیے انتشار پیداہوگیاتھالیکن پھریہ سب حضرات بھی جلدہی میدان میں آگئے،یہ بھی نہیں ہواکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان چھوڑدیاہو،بلکہ غیرمتوقع صورت حال سے گھبراہٹ اورصفوں میں انتشارپیداہوگیاتھا،جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکاراتووہ فوراًسنبھل گئے، اورپھرآکرآپ کے چاروں طرف جمع ہوگئے، اورآخرمیں کفارکوفرارکاراستہ اختیار کرنا پڑا ، عظیم نقصانات کے باوجودآخری فتح مسلمانوں کوہی نصیب ہوئی ،سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق سوالات کرنے والامخالفین میں سے تھا،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سوالات کوتفصیل کے ساتھ حل فرمادیا،مگرجن لوگوں کوکسی سے ناحق بغض ہوجاتاہے وہ کسی بھی طورمطمئن نہیں ہوسکتے،آج تک ایسے کج فہم لوگ موجودہیں جوسیدناعثمان رضی اللہ عنہ پرطعن کرناہی اپنے لیے دلیل فضیلت بنائے ہوئے ہیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاًخلفائے راشدین ہمارے ہراحترام کے مستحق ہیں ، ان کی بشری لغزشیں سب اللہ کے حوالہ ہیں ، اللہ تعالیٰ یقیناًان کومعاف کر چکا ہے۔

یادکروجب تم میدان جنگ سے تیزی سےبھاگے چلے جارہے تھے، اورخوف ودہشت مارےکسی کی طرف پلٹ کردیکھنے تک کاہوش تمہیں نہ تھا،اوراللہ کا رسول تمہارے پیچھے تم کوپکاررہاتھا،اللہ کے بندوں میری طرف آؤ، اللہ کے بندومیری طرف آؤ۔اس وقت تمہاری اس روش کابدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیاکہ تم کورنج پررنج دیے یعنی شکست کاغم اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہیدہونے کی خبرپرغم،سترمقتولوں اورمجروحوں کاغم، مال غنیمت سے محرومی کاغم ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْغَمُّ الْأَوَّلُ: بِسَبَبِ الْهَزِیمَةِ، وَحِینَ قِیلَ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ لَیْسَ لَهُمْ أنْ یَعْلُونا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلاغم توشکست کے سبب(اس وقت تھاجب یہ افواہ پھیلادی گئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئے ہیں )اوردوسراغم اس وقت تھاجب مشرکوں نے آلیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعابھی کی تھی اے اللہ !انہیں یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ ہم سے اونچے ہوں ۔[64]

وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: الْغَمُّ الْأَوَّلُ: بِسَبَبِ الْهَزِیمَةِ، وَالثَّانِی: حِینَ قِیلَ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ أَعْظَمَ مِنَ الْهَزِیمَةِ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پہلاغم شکست کے سبب سے تھااوردوسرااس افواہ کی وجہ سے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئے ہیں اوریہ

غم تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے شکست سے بھی زیادہ اندوہ ناک تھا۔[65]

وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَقَتَادَةُ: الْغَمُّ الْأَوَّلُ: سَمَاعُهُمْ قَتْلَ مُحَمَّدٍ، وَالثَّانِی: مَا أَصَابَهُمْ مِنَ الْقَتْلِ وَالْجِرَاحِ

امام مجاہداورقتادہ کاقول ہے کہ پہلاغم اس افواہ کی وجہ سے تھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں ، اور دوسرابعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شہیداوربعض کے زخمی ہونے کی وجہ سے تھا۔[66]

وَقَالَ السُّدِّی: الْغَمُّ الْأَوَّلُ: بِسَبَبِ مَا فَاتَهُمْ مِنَ الْغَنِیمَةِ وَالْفَتْحِ،وَالثَّانِی: بِإِشْرَافِ الْعَدُوِّ عَلَیْهِمْ

سدی کہتے ہیں کہ پہلاغم فتح وغنیمت سے محرومی کی وجہ سے تھا،اوردوسرادشمن کے غالب آجانے کی وجہ سے۔[67]

تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جومال غنیمت تمہارے ہاتھ سے جائے یاجومصیبت تم پرنازل ہواس پرملول نہ ہو،بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبرہے۔

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا یَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ ۖ یَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَیْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ یُخْفُونَ فِی أَنفُسِهِم مَّا لَا یُبْدُونَ لَكَ ۖ یَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِی بُیُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِینَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِیَبْتَلِیَ اللَّهُ مَا فِی صُدُورِكُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿١٥٤﴾‏(آل عمران)
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی ، ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے؟آپ کہہ دیجئے کہ کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے ، یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتےکہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے، آپ کہہ دیجئے گو تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے ، اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پاک کرنا تھا اور اللہ تعالیٰ سینوں کے بھید سے آگاہ ہے۔

تلواروں کے سایہ میں ایمان کی جانچ:اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پراپنے احسان کوجتلایاکہ اس سراسیمگی کے بعداللہ تعالیٰ نے تم پراپنافضل فرمایااورلشکراسلام کےمیدان جنگ میں ثابت قدم رہنے والے لوگوں پرایسی اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے،جیسے غزوہ بدرمیں اونگھ نازل ہوئی تھی۔

 اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ ۝۱۱ۭ [68]

ترجمہ:اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیّت طاری کر رہا تھا۔

عَنْ أَبِی طَلْحَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كُنْتُ فِیمَنْ تَغَشَّاهُ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ حَتَّى سَقَطَ سَیْفِی مِنْ یَدِی مِرَارًا یَسْقُطُ وَآخُذُهُ وَیَسْقُطُ فَآخُذُهُ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ان لوگوں میں تھاجنہیں غزوہ احدکے موقع پراونگھ نے آگھیراتھااوراسی حالت میں میری تلوارکئی مرتبہ(ہاتھ سے چھوٹ کربے اختیار)گرپڑی تھی ، میں اسے اٹھالیتاپھرگرجاتی، اورمیں اسے پھراٹھالیتا۔[69]

عَنْ أَبِی طَلْحَةَ، قَالَ: رَفَعْتُ رَأْسِی یَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ، وَمَا مِنْهُمْ یَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلاَّ یَمِیدُ تَحْتَ حَجَفَتِهِ مِنَ النُّعَاسِ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے غزوہ احدکے دن اپنے سرکواٹھایاتوکیادیکھتاہوں کہ ان میں سے ہرشخص اونگھ کی وجہ سے اپنی ڈھال کے نیچے کی طرف جھک رہاہے[70]

مگرمنافقین خوف ودہشت کے مارے ہلکان ہورہے تھے،انہیں اپنی جانوں کی فکر تھی،وہ اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگے جوسراسرخلاف حق تھے،اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیااب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح ونصرت کاامکان ہے؟یایہ کہ کیاہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اورمانی جاسکتی ہے ؟اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاان سے کہوکسی کاکوئی حصہ نہیں ،فتح ونصرت کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں اسی کی طرف سے مددآئے گی ،کامیابی وکامرانی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اورامرونہی بھی اسی کاہوگا،دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جونفاق چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پرظاہرنہیں کرتے،اورآپس میں کہتے ہیں کہ اگراس واقعہ میں ہم سے رائے اورمشورہ لیاگیا ہوتا توہم یہاں نہ مارے جاتے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: قَالَ الزُّبَیْرُ: لَقَدْ رَأَیْتُنِی مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ اشْتَدَّ الْخَوْفُ عَلَیْنَا، أَرْسَلَ اللَّهُ عَلَیْنَا النَّوْمَ، فَمَا مِنَّا مِنْ رَجُلٍ إِلَّا ذَقْنُهُ فِی صَدْرِهِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنِّی لَأَسْمَعُ قَوْلَ مُعَتِّبِ بْنِ قُشَیْرٍ، مَا أَسْمَعُهُ إِلَّا كَالْحُلْمِ: لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا، فَحَفَظَهَا مِنْهُ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سخت خوف کے وقت اللہ نے غنودگی نازل فرمائی اور ہمیں اس قدرنیندآنے لگی کہ ہماری تھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیرکے یہ الفاظ سنے کہ اگرہمیں کچھ بھی اختیارہوتاتویہاں قتل نہ ہوتے۔[71]

قال ابن القیم فی الآیة الأولى: فسر هذا الظن بأنه سبحانه لَا یَنْصُرُ رَسُولَهُ، وَأَنَّ أَمْرَهُ سَیَضْمَحِلُّ، وفسر بأن ما أصابه لم یكن بقدر الله وَحِكْمَتَهُ.فَفُسِّرَ بِإِنْكَارِ الْحِكْمَةِ، وَإِنْكَارِ الْقَدَرِ، وَإِنْكَارِ أَنْ یُتِمَّ أَمْرَ رَسُولِهِ،وَیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ وَهَذَا هُوَ ظَنُّ السَّوْءِ الَّذِی ظَنَّهُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِی (سُورَةِ الْفَتْحِ)حَیْثُ یَقُولُ: {وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِینَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّینَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَیْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِیرًا} [الفتح: 6، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا ظَنَّ السَّوْءِلِأَنّهُ ظَنُّ غَیْرِ مَا یَلِیقُ به سبحانه، مَا یَلِیقُ بِحِكْمَتِهِ وَحَمْدِهِ بِوَعْدِهِ الصَّادِقِ

امام ابن قیم رحمہ اللہ اول الذکرآیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں لوگوں کے جس جاہلانہ ناحق گمان کاذکرہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ گمان کرنے لگے تھے کہ اللہ سبحان وتعالیٰ اپنے رسول کی مددنہیں کرے گا،اوراس کی دعوت اورمشن جلدہی ختم ہوجائے گا،اوراس کی ایک تفسیریہ بھی ہے کہ منافقین اورمشرکین یہ گمان کرنے لگے تھے کہ مسلمانوں پرجومصیبت آئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیراورحکمت سے نہیں تھی، گویاوہ لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمت ،تقدیراوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کاانکارکرنے اورسمجھنے لگے تھے، کہ یہ دین باقی ادیان پرغالب نہیں آئے گا ، منافقین اورمشرکین کایہی وہ غلط گمان ہے جس کاذکرسورۂ الفتح کی آیت میں ہواہے’’اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق بُرے گمان رکھتے ہیں برائی کے پھیر میں خود ہی آگئے ، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘کیونکہ ایساگمان اللہ تعالیٰ کی شان،مرتبہ،اس کی حکمت،تعریف وبزرگی اورسچے وعدہ کے خلاف ہے،

فمن ظن أنه یدیل وَالْبَاطِلَ عَلَى الْحَقِّ إدَالَةً مُسْتَقِرَّةً یَضْمَحِلُّ مَعَهَا الحق، أو أَنْكَرَ أَنْ یَكُونَ ما جرى بِقَضَائِهِ وَقَدَرِهِ، أو أنكر أن یكون قدره لِحِكْمَةٍ بَالِغَةٍ یَسْتَحِقُّ عَلَیْهَا الْحَمْدَ، بل زعم أن ذلك لمشیئةمُجَرَّدَةٍ، فذَلِكَ ظَنُّ الَّذِینَ كَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ،وَأَكْثَرُ النَّاسِ یَظُنُّونَ بِاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ السَّوْءِ فِیمَا یَخْتَصُّ بِهِمْ وَفِیمَا یَفْعَلُهُ بِغَیْرِهِمْ،، وَلَا یَسْلَمُ عَنْ ذَلِكَ إلَّا مَنْ عَرَفَ اللهَ وَعَرَفَ أَسْمَاءَهُ وَصِفَاتِهِ،، وَعَرَفَ مُوجِبَ حَمْدِهِ وَحِكْمَتِهِ.فَلْیَعْتَنِ اللبِیبُ النَّاصِحُ لِنَفْسِهِ بِهَذَا الْمَوْضِعِ، وَلْیَتُبْ إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَلِیَسْتَغْفِرْهُ كُلَّ وَقْتٍ مِنْ ظَنِّهِ بِرَبِّهِ ظَنَّ السَّوْءِ

پس جوشخص یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ باطل کوحق پرہمیشہ غالب رکھے گااوراس نتیجے میں حق مٹ جائے گایاجوشخص یہ سمجھے کہ فلاں فیصلہ اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرت سے نہیں ہوایاجوانسان یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرحکمت تامہ پرمبنی اور قابل تعریف نہیں بلکہ یہ محض مشیت ہے توایساعقیدہ رکھنے اورایسی باتیں کرنے والے کافرہیں اوران کے لیے جہنم کاعذاب ہے،بہت سے لوگ اپنے اوردوسروں سے متعلقہ کاموں میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوئ ظن رکھتے ہیں ،اس بدگمانی سے وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جواللہ تعالیٰ کی ذات،اس کے اسماء وصفات اوراس کی حکمت وتعریف کے اسباب کوپہچانتے ہیں ،پس جوعقل مندشخص اپنی بھلائی چاہتاہے اسے چاہیے کہ مذکورہ بالاامورکاخیال رکھے اوراللہ تعالیٰ کے حضوراپنی بدگمانی اوربدظنی کی معذرت پیش کرکے توبہ واستغفارکرے،

وَلَوْ فَتَّشْتَ مَنْ فَتَّشْتَهُ لَرَأَیْتَ عِنْدَهُ تَعَتُّبًا عَلَى الْقَدَرِ وَمَلَامَةً لَهُ وَاقْتِرَاحًا عَلَیْهِ خِلَافَ مَا جَرَى بِهِ، وَأَنّهُ كَانَ یَنْبَغِی أَنْ یَكُونَ كَذَا وَكَذَا، فَمُسْتَقِلٌّ وَمُسْتَكْثِرٌ، وَفَتِّشْ نَفْسَكَ هَلْ أَنْتَ سَالِمٌ مِنْ ذَلِكَ

اگرآپ غورکریں توپتہ چلے گاکہ اکثرلوگ تقدیرکے شاکی اورراہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں ، وہ تقدیرکاشکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ فلاں کام یوں ہوناچاہیے تھااورفلاں یوں ،کسی شخص میں یہ نقص تھوڑاہے اورکسی میں زیادہ،آپ بھی اپناجائزہ لیں کہ آپ کی کیاصورت حال ہے ؟کیاآپ ایسی بدگمانی سے بچے ہوئے ہیں ؟

فَإِنْ تَنْجُ مِنْهَا تَنْجُ مِنْ ذِی عظیمَةٍ،  وَإِلَّا فَإِنِّی لَا إِخَالُكُ نَاجِیًا

اگرآپ اس سے بچے ہوئے ہیں توآپ ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات پاچکے ہیں وگرنہ میں نہیں سمجھتاکہ آپ کے لیے کوئی راہ نجات ہو۔[72]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ أَوْ أَفْضَلُ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ، وَفِی كُلٍّ خَیْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا یَنْفَعُكَ، وَلَا تَعْجَزْ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَیْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّی فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاقتور مومن اللہ نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے،ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو،اورصرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہو، اور اس سے عاجزوکاہل ہوکرنہ بیٹھارہ،اور اگر تجھے کوئی مصیبت ،پریشانی لاحق ہو جائے تو یہ نہ کہو کاش!اگر میں ایسا ایسا کرلیتاتویوں ہوجاتا، بلکہ یوں کہہ یہ اللہ تعالیٰ کافیصلہ ہے، اس نے جوچاہاسوکیا،اس لیے کہ اگرکہنا شیطانی عمل دخل کاسبب بنتاہے۔[73]

اللہ تعالیٰ نے ان کی تردیدمیں فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دوموت کاتوایک وقت مقررہے،جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی اگروہ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو خوداپنے گھروں سے نکل کراپنی موت کی جگہ پرپہنچ جاتے ،اورہزیمت کا جومعاملہ پیش آیایہ تواس لیے تھا تاکہ وہ تمہارے سینوں میں جونفاق ،ایمان اورضعف ایمان ہے اسے آزمالے، اورتمہارے دلوں کوشیطانی وسوسوں اوران سے پیداہونے والی مذموم صفات سے پاک کردے،اللہ تمہارے دلوں کے تمام خیالات اورارادوں کو خوب جانتاہے۔

آج کل بھی ایسے نام نہادمسلمان موجودہیں جونمازروزہ کرتے ہیں مگروقت آنے پراسلام اورمسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ، ایسے لوگوں سے ہروقت چوکنا رہنا ضروری ہے،نفاق بہت بڑامرض ہے جس کی مذمت قرآن مجیدمیں کئی جگہ بڑے زوردارلفظوں میں ہوئی ہےاوران کے لیے دوزخ کاسب سے نچلاوالاحصہ ،ویل،سزاکے لیے تجویزہونابتلایاہے،ہرمسلمان کوپانچوں وقت یہ دعاپڑھنی چاہیے۔

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو یَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ النِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَمِنْ سَیِّئِ الْأَخْلَاقِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاکیاکرتے تھےاے اللہ!میں نفاق سے اورآپس کی پھوٹ سے اوربرے اخلاق سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔[74]

آمِینَ یارَبِّ الْعَالَمِینَ

‏ إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ ‎﴿١٥٥﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِی الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِیَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِی قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿١٥٦﴾‏ وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ ‎﴿١٥٧﴾‏وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿١٥٨﴾‏(آل عمران)
تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور تحمل والا ہے، اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اوراپنے بھائیوں کے حق میں جب کہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں ہوں کہاکہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے نہ مرتے اور نہ مارے جاتے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالیٰ ان کی دلی حسرت کا سبب بنا دے، اللہ تعالیٰ جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے، قسم ہے اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کئے جاؤ یا اپنی موت مرو تو بیشک اللہ تعالیٰ کی بخشش و رحمت اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کر رہے ہیں ، بالیقین خواہ تم مرجاؤ یا مار ڈالے جاؤ جمع تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی کئے جاؤ گے۔

تم میں سے جولوگ غزوہ احدکے دن پیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان کی اس لغزش اورکوتاہی کاسبب یہ تھاکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی، جس کے سبب شیطان ان کے قدم ڈگمگانے میں کامیاب ہوگیا ، اللہ نے ان سب مومنین صادقین کی قابل مواخذہ لغزشوں کو معاف کردیا،بیشک اللہ خطاکاروں ،گناہ گاروں کوتوبہ واستغفارکی توفیق عطافرماکر بہت درگزرکرنے والااورجوکوئی اس کی نافرمانی کرتاہے، اسے سزادینے میں جلدی نہیں کرتا۔

عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ: لَقِیَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَةَ، فَقَالَ لَهُ الْوَلِیدُ: مَا لِی أَرَاكَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَبْلِغْهُ أَنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنِ، قَالَ عَاصِمٌ: یَقُولُ یَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ أَتَخَلَّفْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَلَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَخَبَّرَ ذَلِكَ عُثْمَانَ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَّا قَوْلُهُ إِنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنَ، فَكَیْفَ یُعَیِّرُنِی بِذَنْبٍ، وَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: {إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ} [75] ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنِّی تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ: فَإِنِّی كُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِی، وَمَنْ ضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِهِ فَقَدْ شَهِدَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنِّی لَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ: فَإِنِّی لَا أُطِیقُهَا وَلا هُوَ، فَائْتِهِ فَحَدِّثْهُ بِذَلِكَ

شقیق سےمروی ہے کہ ولیدبن عقبہ نے ایک مرتبہ عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا آخرتم امیرالمومنین سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس قدرکیوں بگڑے ہوئے ہو؟عبدالرحمٰن نے کہااس سے کہہ دوکہ میں غزوہ احدسے فرارنہیں ہوا،غزوہ بدرمیں غیرحاضرنہیں رہا،اورنہ سنت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ترک کی،ولیدنے جاکریہ واقعہ عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایاکہ قرآن کہہ رہاہے ،اللہ نے غزوہ احدکی لغزشوں سے درگزرفرمایا،پھرجس کی خطاکواللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیااس عذرلانے کاکیاسوال ہے؟پھر یہ آیت تلاوت فرمائی،إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ اوریہ بات کہ میں  ٖزوہ بدرمیں شریک نہیں تھاتوغزوہ بدر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اوراپنی بیوی رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھایہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں رحلت فرماگئیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال غنیمت میں سے پوراحصہ دیااورظاہرہے کہ حصہ انہیں ملتاہے جوجنگ میں موجودہو،پس حکماًمیری موجودگی ثابت ہوگئی،رہی سنت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تواس کی طاقت نہ مجھ میں ہے اورنہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ میں ،جاؤانہیں یہ جواب بھی پہنچادو۔[76]

اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کوکفارکے اس فاسداعتقادکی مشابہت اختیارکرنے سے منع فرمایااورفرمایاا ے لوگوجوایمان لائے ہو!کافروں کی سی باتیں نہ کروجن کے عزیزواقارب اگرکبھی سفر پرجاتے ہیں یاجنگ میں شریک ہوتے ہیں اوروہاں انہیں موت آجاتی ہے، تواپنے دینی یانسبی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگروہ ہمارے پاس ہوتے تونہ مارے جاتے اورنہ قتل ہوتے، حالانکہ یہ ان کاغلط خیال ہے، موت تومضبوط قلعوں کے اندربھی آجاتی ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۔۔۔۝۰۝۷۸ [77]

ترجمہ:رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔

اللہ تعالیٰ اس طرح کے باطل خیالات کوان کے دلوں میں حسرت وافسوس کاسبب بنادیتاہے،اوروہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ،ورنہ موت وحیات تو اللہ وحدہ لاشریک ہی کے ہاتھ میں ہے،اوراسی کے حکم سےقضاوقدر نافذ ہوتی ہے،تمہاری احتیاط سے اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیرنہیں بدل سکتی، اوروہی تمہاری تمام حرکات پر نگراں ہے،اوروہ تمہارے اعمال اورتمہاری تکذیب کابدلہ ضروردے گا،اگرتم اللہ کی راہ میں شہیدہو جاؤیاطبعی موت مرجاؤ،تواللہ کی جورحمت اوربخشش تمہارے حصہ میں آئے گی وہ دنیاکے سارے مال واسباب سے زیادہ بہتر ہے ،جنہیں یہ لوگ جائزوناجائزطریقوں سے جمع کرتے ہیں ،اورخواہ تم طبعی موت مرویامیدان جنگ میں مارے جاؤ،بہرحال ایک وقت مقررہ پر سب کوسمٹ کرجانااللہ ہی کی طرف ہے،اللہ کے سواکوئی جائے فرارنہیں ،سوائے اس کے کہ اس کی رسی کومضبوطی سے تھام لیاجائے۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ ‎﴿١٥٩﴾‏ إِن یَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن یَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِی یَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٦٠﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتےسو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں ، بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ؟ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سراپارحمت وشفقت تھے:اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی امت پراپنے احسان کاذکرفرمایااے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو،اوران سے نہایت مہربانی اورشفقت سے پیش آتے ہو،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلَهُ:فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ،یَقُولُ: فَبِرَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ

قتادہ آیت کریمہ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت باعث آپ ان پررحم دل ہیں ۔‘‘ کےبارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ آپ ان کے لیے نرم دل ہوگئے ہیں ۔[78]

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: هَذَا خُلُقُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ اللهُ بِهِ

اورحسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ اخلاق ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کومبعوث فرمایاہے۔ [79]

جیسے فرمایا

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۸ [80]

ترجمہ:دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

لیکن اس کے برعکس اگر تم سخت کلام اورسنگ دل ہوتے ،تویہ لوگ تمہارے قریب ہونے کے بجائےتمہارے پاس سے منتشرہو جاتے،لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے گردجمع کردیاہے، اوران کی تالیف قلب کے لیے آپ کے دل کونرم بنادیاہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ هَذِهِ الآیَةَ الَّتِی فِی القُرْآنِ: {یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا}قَالَ فِی التَّوْرَاةِ: یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِی وَرَسُولِی، سَمَّیْتُكَ المُتَوَكِّلَ، لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیظٍ،وَلاَ سَخَّابٍ بِالأَسْوَاقِ ، وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَةَ بِالسَّیِّئَةِ، وَلَكِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قرآن مجیدمیں یہ جو آیت ہے’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !بیشک ہم نے آپ کوگواہی دینے والا،خوش خبری دینے والااورڈرانے والابناکربھیجا ہے۔‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم متعلق بھی یہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں بھی فرمایاہے اے نبی!بے شک ہم نے آپ کوگواہی دینے والا،اوربشارت دینے والا،اوران پڑھوں (عربوں )کی حفاظت کرنے والابناکربھیجاہے، آپ میرے بندے ہیں اورمیرے رسول ہیں ،میں نے آپ کانام متوکل رکھا،آپ نہ بدخوہیں اورنہ سخت دل ، اورنہ بازاروں میں شورکرنے والے،اورنہ برائی کابدلہ برائی سے دیں گے،بلکہ معافی اوردرگزرسے کام لیں گے۔[81]

اس لئے آپ ان ساتھ نرمی کاسلوک کیاکریں ،اورمیرے بندوں کے قصوروں کومعاف کرتے رہاکریں ، چنانچہ جولوگ شکست کھاکرپہلے ہی مدینہ لوٹ آئے تھے ،ان سے کسی قسم کی سختی اوربدزبانی سے پیش نہ آئے، بلکہ ان سے نرم گفتگوفرمائی اوران کی غلطی کومعاف فرمایادیا،اس سے آپ کے کرم اورحسن سلوک میں اوراضافہ ہوگیا،اوران میں سے جولوگ غلط کام کریں ان کے لئے بخشش کی دعامانگتے رہا کریں ،انبیاء کومشورے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ نبی کوتوبراہ راست اللہ کی طرف سے حکم آتاہے،اس لئے ان کومخلوق سے مشورے کی کیا ضرورت؟مسلمانوں کی تربیت کے لئے فرمایاجولوگ دین کاکام کررہے ہیں انتظامی امورمیں یاان امورمیں جومشاورت اورفکرونظرکے محتاج ہیں ان کوبھی شریک مشورہ رکھیں ، کیونکہ مشاورت میں بے شماردینی اوردنیاوی مصالح ہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ احزاب اورغزوہ حدیبیہ کے موقع پرصحابہ کرام سے مشاورت فرمائی، اوردوسرے مواقع پربھی مشاورت فرمایاکرتے تھے، اورجب منافقین نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرتہمت لگائی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اوراسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تھا،اورکچھ عرصہ بعدمسجدنبوی میں صحابہ کرام کومخاطب کرکے فرمایاتھا

أشِیروا عَلَیَّ مَعْشَرَ الْمُسْلِمینَ فِی قَوْمٍ أبَنُوا أهلِی ورَمَوهُم، وایْمُ اللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أهْلِی مِنْ سُوءٍ، وأبَنُوهم بمَنْ -واللهِ-مَا عَلِمْتُ عَلَیْهِ إِلَّا خَیْرًا

اے مسلمانو!مجھے مشورہ دوکہ میں ان لوگوں کاکیاکروں جومیرے گھروالوں کوبدنام کررہے ہیں ، اللہ کی قسم ! میرے گھروالوں میں کوئی برائی نہیں اورجس شخص کے ساتھ تہمت لگارہے ہیں ،اللہ کی قسم! میرے نزدیک تووہ بھی بھلاآدمی ہے۔[82]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس سے مشورہ طلب کیاجائے اسے امین سمجھا جاتاہے۔[83]

پھرجب تمہاراعزم کسی رائے پرمستحکم ہوجائے،اورجتنے اسباب مہیاکرسکتے ہوکرلو ،توپھراپنی طاقت اوراپنی دوربینی پربھروسہ چھوڑکراللہ تعالیٰ کی قوت وقدرت پربھروسہ کرو،اللہ کووہ لوگ پسندہیں جواسی کے بھروسے پرکام کرتے ہیں ،اگراللہ تمہاری مددپرہوتوکوئی سپرپاور تم پرغالب آنے والی نہیں ،خواہ ان کے پاس کتنی افرادی طاقت اورکتناہی جنگی سروساماں ہو،اوروہ تمہیں چھوڑدے تواس کے بعدکون ہے جوتمہاری مددکرسکتاہے؟ پس جوسچے مومن ہیں ان کو اللہ وحدہ لاشریک ہی پربھروسہ رکھناچاہیے۔

وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ ۚ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿١٦١﴾‏ أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَن بَاءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿١٦٢﴾‏ هُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٦٣﴾‏ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَكِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿١٦٤(آل عمران)
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا پھر ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے،کیا پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے ؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے، اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے الگ الگ درجے ہیں اور ان کے تمام اعمال کو اللہ بخوبی دیکھ رہا ہے، بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘

ایک نبی کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے،

وَقَوْلُهُ:{وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَالْحَسَنُ، وَغَیْرُ وَاحِدٍ: مَا یَنْبَغِی لِنَبِیٍّ أَنْ یَخُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،مجاہد،حسن اورکئی ائمہ تفسیر آیت کریمہ ’’ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کے یہ شیایان شان نہیں کہ وہ خیانت کرے۔[84]

ثنی ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ} نَزَلَتْ فِی قَطِیفَةٍ حَمْرَاءَ فُقِدَتْ یَوْمَ بَدْرٍ،قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: أَخَذَهَا قَالَ: فَأَكْثَرُوا فِی ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ وَمَنْ یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے۔‘‘ کی تفسیرمیں روایت ہے کہ یہ ایک سرخ چادر بارے میں نازل ہوئی ہے جوبدرکے دن گم ہوگئی تھی ، بعض لوگوں نے کہاکہ شایداسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیاہو،جب انہوں نے یہ بات کہی تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’کسی نبی کایہ کام نہیں ہوسکتاکہ وہ خیانت کرجائے،اورجوکوئی خیانت کرے تووہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روزحاضرہوجائے گا۔‘‘ نازل فرمائی ۔[85]

اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں  لئے وعیدفرمائی جوکوئی مال غنیمت میں خیانت کرے گا تواس روزاس خیانت شدہ مال کوخواہ وہ کوئی حیوان ہویامال ومتاع وغیرہ اپنی پیٹھ پراٹھائے ہوئے آئے گا،اوراس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیاجائے گا، خیانت کی وعیدمیں متعدد احادیث ہیں ۔

عَنْ أَبِی مَالِكٍ الْأَشْجَعِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَعْظَمُ الْغُلُولِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ذِرَاعٌ مِنَ الْأَرْضِ، تَجِدُونَ الرَّجُلَیْنِ جَارَیْنِ فِی الْأَرْضِ أَوْ فِی الدَّارِ، فَیَقْتَطِعُ أَحَدُهُمَا مِنْ حَظِّ صَاحِبِهِ ذِرَاعًا، فَإِذَا اقْتَطَعَهُ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِینَ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ابی مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے بڑاخیانت کرنے والاوہ شخص ہے جوپڑوسی کے کھیت کی زمین یااس کے گھرکی زمین دبالے،اگرایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کرلے گا،توساتوں زمینوں کاطوق اسے پہنایاجائے گا۔[86]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا أَعْرِفَنَّ أَحَدَكُمْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُ شَاةً لَهَا ثُغَاءٌ، یُنَادِی: یَا مُحَمَّدُ، یَا مُحَمَّدُ فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا قَدْ بَلَّغْتُكَ وَلَا أَعْرِفَنَّ أَحَدَكُمْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلَ جَمَلًا لَا رُغَاءٌ، یَقُولُ: یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا قَدْ بَلَّغْتُكَ وَلَا أَعْرِفَنَّ أَحَدَكُمْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُ فَرَسًا لَهُ حَمْحَمَةٌ، یُنَادِی: یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا قَدْ بَلَّغْتُكَ وَلَا أَعْرِفَنَّ أَحَدَكُمْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُ قِشْعًا مِنْ أَدَمٍ یُنَادِی: یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا قَدْ بَلَّغْتُكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے اس شخص کوپہچانتاہوں جوچلاتی ہوئی بکری کواٹھائے ہوئے قیامت دن آئے گا،اورمیرانام لے لے کرمجھے پکارے گا، میں کہہ دوں گاکہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تیرے کام نہیں آسکتامیں تو پہنچا چکاتھا،اسے بھی میں پہچانتاہوں جواونٹ کواٹھائے ہوئے آئے گاجوبول رہاہوگا،یہ بھی کہے گاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں کہوں گامیں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں توتبلیغ کرچکاتھا،اورمیں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کولادے ہوئے آئے گاجوہنہنارہاہوگا،وہ بھی مجھے پکارے گااورمیں کہوں گامیں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیزکامالک نہیں ہوں ، میں توپہنچاچکاتھاآج کچھ کام نہیں آسکتا،اوراس شخص کوبھی میں پہچانتاہوں جوکھالیں لئے ہوئے حاضرہوگا،اورکہہ رہاہوگا یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کہوں گامیں اللہ کے پاس کسی نفع کااختیارنہیں رکھتامیں تجھے حق وباطل بتاچکاتھا۔[87]

عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ یُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِیَّةِ قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: ابْنُ الْأُتْبِیَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَ، فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِیَ لِی، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، وَقَالَ:مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَیَجِیءُ فَیَقُولُ هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِیَ لِی، أَلَا جَلَسَ فِی بَیْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِیهِ فَیَنْظُرَ أَیُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ لَا یَأْتِی أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشَیْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا جَاءَ بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، إِنْ كَانَ بَعِیرًا فَلَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً فَلَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَیْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ حَتَّى رَأَیْنَا عُفْرَةَ إِبِطَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ

ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد ایک شخص ابْنُ اللُّتْبِیَّةِ یاابْنُ الْأُتْبِیَّةِ کوصدقہ وصول کرنے کے لئے عامل بناکربھیجا،پھرجب وہ واپس آئے توکہاکہ یہ تم لوگوں کاہے(یعنی بیت المال کا)اوریہ مجھے ہدیہ میں ملاہے،اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرکھڑے ہوئے،اللہ کی حمدوثنابیان کی اورفرمایاعامل کوکیاہواہے کہ ہم اسے بھیجتے ہیں پھروہ آکرکہتاہے یہ آپ کاہے اوریہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، وہ اپنے والدیااپنی والدہ کے گھرمیں کیوں نہ بیٹھارہا،پھردیکھتاوہاں بھی اسے ہدیہ ملتاہے یا نہیں ؟اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس مال(زکوٰة)میں سے اگرکوئی شخص کچھ بھی (ناجائز)لے لے گا،توقیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا،اگراونٹ ہے تووہ اپنی آواز نکالتاہواآئے گا،گائے ہے تووہ اپنی اوراگربکری ہے تووہ اپنی آوازنکالتی ہوگی،پھرآپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی،(اورفرمایا)اے اللہ !میں نے تیراحکم یقیناً پہنچادیا،اے اللہ!کیامیں نے تیراحکم یقیناً پہنچادیا،تین مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔[88]

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الیَمَنِ، فَلَمَّا سِرْتُ أَرْسَلَ فِی أَثَرِی فَرُدِدْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِی لِمَ بَعَثْتُ إِلَیْكَ؟ لاَ تُصِیبَنَّ شَیْئًا بِغَیْرِ إِذْنِی فَإِنَّهُ غُلُولٌ، {وَمَنْ یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ القِیَامَةِ}، لِهَذَا دَعَوْتُكَ، فَامْضِ لِعَمَلِكَ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی اورتحصیل دار بناکربھیجا،جب میں روانہ ہونے لگاتومجھے بلابھیجامیں آپ کی خدمت میں حاضرہوا تو فرمایا تجھے معلوم ہے میں نے تجھے کیوں بلوایا ہے؟ فرمایاتم میرے حکم بغیر رعایاسےکوئی چیزیعنی تحفہ وہدیہ نہ لینا ،یہ خیانت ہے اورہرخائن اپنی خیانت کولئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا،میں نے اس لئے تمہیں بلوایاتھا،اب اپنے کام کی طرف روانہ ہوجاؤ۔ [89]

عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَمِیرَةَ الْكِنْدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ لَنَا عَلَى عَمَلٍ، فَكَتَمَنَا مِنْهُ مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَهُ، فَهُوَ غُلٌّ، یَأْتِی بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْوَدُ قَالَ مُجَالِدٌ: هُوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْبَلْ عَنِّی عَمَلَكَ، فَقَالَ:وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ:وَأَنَا أَقُولُ ذَلِكَ الْآنَ، مَنْ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ، فَلْیَجِئْ بِقَلِیلِهِ وَكَثِیرِهِ، فَمَا أُوتِیَ مِنْهُ أَخَذَهُ، وَمَا نُهِیَ عَنْهُ انْتَهَى

عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہرمرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!ہم جسے عامل بنائیں اورپھروہ ہم سے ایک سوئی یااس سے بھی ہلکی چیزچھپائے تووہ خیانت ہے ، جسے لے کروہ قیامت کے دن حاضرہوگا،یہ سن کرایک سانولے رنگ کاجوان انصاری( سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ) کھڑےہوگئےگویامیں انہیں دیکھ رہاہوں ،اور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں توعامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں ،عرض کیاآپ نے جواس طرح فرمایاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں !اب سنوہم جسےکوئی کام سونپیں اسے چاہیے کہ تھوڑابہت جواسے دیاجائے وہ لے لے، اورسب کچھ لائے اورجس سے روک دیاجائے اس سے رک جائے۔[90]

عَنْ أَبِی رَافِعٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ رُبَّمَا ذَهَبَ إِلَى بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَیَتَحَدَّثُ مَعَهُمْ حَتَّى یَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَبَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا إِلَى الْمَغْرِبِ إِذْ مَرَّ بِالْبَقِیعِ فَقَالَ:أُفٍّ لَكَ، أُفٍّ لَكَ، مَرَّتَیْنِ، فَكَبُرَ فِی ذَرْعِی، وَتَأَخَّرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ یُرِیدُنِی، فَقَالَ:مَا لَكَ؟ امْشِ، قَالَ: قُلْتُ: أَحْدَثْتُ حَدَثًا یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:وَمَا ذَاكَ؟، قُلْتُ: أَفَّفْتَ بِی، قَالَ:لَا، وَلَكِنَّ هَذَا قَبْرُ فُلَانٍ بَعَثْتُهُ سَاعِیًا عَلَى بَنِی فُلَانٍ، فَغَلَّ نَمِرَةً فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلَهَا مِنْ نَارٍ

ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًنمازعصر بعد بنوعبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے اوران سے باتیں کرتے ،یہاں تک کہ مغرب کی نمازکے لئے لوٹتے،ایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی مغرب کی نمازکے لئے جارہے تھے اورہم بقیع کے سامنے سے نکلے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے لئے افسوس ہے،اس کے لئے افسوس ہے، میرے دل میں آپ کے اس کہنے سے ایک خوف پیداہوااورمیں پیچھے ہٹ گیااورسمجھاکہ آپ نے مجھ پراف کیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھے کیا ہوا چلتا کیوں نہیں ؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے کوئی قصورسرزدہوگیاہے ؟آپ نے فرمایاتجھے کیسے معلوم ہوا،میں نے عرض کیاآپ نے مجھ کواف کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے تجھ کونہیں کہا،یہ فلاں شخص کی قبرہےجس کومیں نے صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجااس نے ایک کھال چرالی،اب اس کے لئے ویسی ہی کھال جہنم میں آگ کی بنائی گئی ہے ۔[91]

عَنِ ابْنِ بُرَیدة، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إنَّ الْحَجَرَ لَیُرْمَى بِهِ فِی جَهَنَّمَ فَیَهْوِی سَبْعِینَ خَرَیِفًا مَا یَبْلُغُ قَعْرَهَا، وَیُؤْتَى بِالْغُلُولِ فَیُقْذَفُ مَعَهُ، ثُمَّ یُقَالُ لَمَنْ غَلَّ ائْتِ بِهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {وَمَنْ یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ}.

ابن بریدہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرکوئی پتھرجہنم میں ڈالاجائے توسترسال تک گرتارہے تب بھی تہہ کونہیں پہنچتا ،خیانت کواسی طرح جہنم میں پھینک دیاجائے گا،پھرخیانت کرنے والے سے کہاجائے گاجااسے لے آ،یعنی معنی ہیں اللہ اس فرمان کے ’’ہرخیانت کرنے والاخیانت کولیے ہوئے قیامت کے دن حاضرہوگا۔‘‘[92]

حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: فُلانٌ شَهِیدٌ، فُلانٌ شَهِیدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ فَقَالُوا: فُلانٌ شَهِیدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَلَّا إِنِّی رَأَیْتُهُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ: أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ: فَخَرَجْتُ ، فَنَادَیْتُ: أَلا إِنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے جب خیبرکادن ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئے اورکہنے لگے فلاں شہیدہے اورفلاں شہیدہے،یہاں تک کہ ایک شخص پرگزرے توکہایہ شہیدہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرگزنہیں ،میں نے اس کوجہنم میں دیکھاایک چادریاعباکی چوری میں (یعنی چوری کی وجہ سے)،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے خطاب کے بیٹے!اٹھ اورلوگوں میں پکاردےکہ جنت میں وہی جائیں گے جوایمان دارہیں (یعنی چور،خائن نہ جائیں گے) ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں نکلا اور میں نے لوگوں میں پکاردیاخبردارہوجاؤجنت میں وہی جائیں گے جوایمان دارہیں ۔[93]

پھرہرمتنفس کواس کی کمائی کاپوراپورابدلہ مل جائے گااورکسی پرکچھ ظلم نہ ہوگا،یعنی کسی کی برائیوں میں اضافہ اوران کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی ، بھلایہ کیسے ہوسکتاہے کہ جوشخص ہمیشہ اللہ کی رضاپرچلنے والاہووہ اس شخص کے سے کام کرے جواللہ کے غضب میں گھرگیاہواورجس کاآخری ٹھکاناجہنم ہوجوبدترین ٹھکانا ہے؟جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا۝۰ۭؔ لَا یَسْـتَوٗنَ۝۱۸۬ [94]

ترجمہ: بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرف ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں درجات اورمنزلت میں بدرجہافرق ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۔۔۔۝۱۳۲ [95]

ترجمہ:ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے ۔

لِلنَّاسِ دَرَجَاتٌ بِأَعْمَالِهِمْ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ

حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں اہل خیراوراہل شرکے درجات مختلف ہوں گے۔[96]

وَقَالَ أَبُو عبیدةَ وَالْكِسَائِیُّ: مَنَازِلُ، یَعْنِی: مُتَفَاوِتُونَ فِی مَنَازِلِهِمْ وَدَرَجَاتِهِمْ فِی الْجَنَّةِ وَدَرَكَاتِهِمْ فِی النَّارِ

اورابوعبیدہ اورکسائی فرماتے ہیں (کہ اہل خیرکے جنت میں )منازل اوردرجات متفاوت ہوں گے، جبکہ اہل شرکے جہنم میں طبقات مختلف ہوں گے۔[97]

اوراللہ سب کے اعمال پرنظررکھتاہے،اوراسی کے مطابق انہیں پوراپوراصلہ عطافرمائے گا،نہ تو کسی کی نیکی میں کمی کرے گااورنہ کسی کی برائی میں اضافہ کرے گا،ویسے تواللہ تبارک وتعالیٰ کے بے شماراحسانات ہیں کہ ہم انہیں شمارکرناچاہیں تونہیں کرسکیں گے،لیکن بہت کم ایساہواکہ اللہ تعالیٰ نے اپناکوئی احسان جتلایاہو،اس مقام پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص احسان جتلایاکہ درحقیقت اہل ایمان پرتواللہ نے یہ بہت بڑااحسان کیاہے کہ ان کے درمیان خودانہی میں سے ایک ایساپیغمبراٹھایا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا۝۱۱۰ۧ [98]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔

متعددمقامات پرارشادفرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۰۝۲۰ [99]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [100]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۔۔۔۝۱۳۰ [101]

ترجمہ:اے گروہ جن وانس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے ؟ ۔

جس کے چاربنیادی کام ہیں جواس کی آیات انہیں سناتا اور ان کے الفاظ اورمعانی سکھاتاہے،انہی کی زندگیوں کوسنوارتاہے ،ان کوشرک ،گناہ،رذائل اوردیگربرے اخلاق واطوارسے پاک کرتاہےیعنی تزکیہ نفس کرتاہے، اوران کواللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اوردانائی(حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِیبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَیْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٦٥﴾‏ وَمَا أَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٦٦﴾‏ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا ۚ وَقِیلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ یَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِیمَانِ ۚ یَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَیْسَ فِی قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا یَكْتُمُونَ ‎﴿١٦٧﴾‏ الَّذِینَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٦٨﴾‏(آل عمران)
 (کیا بات ہے)کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اورتمہیں جو کچھ اس دن پہنچا جس دن دو جماعتوں میں مڈ بھیڑ ہوئی تھی وہ سب اللہ کے حکم سے تھااور اس لیے تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہری طور پر جان لے اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے، جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کافروں کو ہٹاؤ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر کے بہت نزدیک تھے، اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کی بابت کہا کہ اگر وہ بھی ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے کہہ دیجئے ! کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی جانوں سے موت کو ہٹا دو ۔

جب غزوہ احدمیں مسلمانوں کوہزیمت کاسامناکرناپڑاتوعام مسلمانوں کوسخت صدمہ پہنچا،اورانہوں نے حیران ہوکرپوچھناشروع کیا کہ ہمیں ہزیمت کاسامناکیوں کرنا پڑا ؟ جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے گئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے بھی پانچ ہزارفرشتوں کی ذریعہ مددکاوعدہ فرمایاتھا پھرہم کفارسےشکست کیوں کھا گئے؟اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حیرانی کودورکرنے کے لئے فرمایااگراس غزوہ میں تمہارے سترساتھیوں نے جام شہادت نوش کیاہے تو غزوہ بدرمیں تم نے سترسرکردہ کفارکومارا تھا، اورسترہی کو اسیرکیاتھا ،یعنی فریق مخالف اس سے دوگنانقصان اٹھاچکاہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو!ہزیمت کایہ داغ تمہاری نفس کی کمزوری اور نافرمانی کانتیجہ ہے، اگرتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے(یعنی گھاٹی کوخالی نہ کرتے)اورصبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے اورآپس میں نزاع واختلاف نہ کرتے توتم جیتی ہوئی جنگ نہ ہارتے ، اگراللہ تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنارکرسکتاہے تووہ تمہیں شکست دلوانے کی بھی قدرت رکھتا ہے،اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی سے بچو،

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَابْنُ جُرَیْجٍ، وَالرَّبِیعُ بْنُ أَنَسٍ، والسدیِّ:قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ: أَیْ: بِسَبَبِ عِصْیَانِكُمْ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ أَمَرَكُمْ أَنْ لَا تَبْرَحُوا مِنْ مَكَانِكُمْ فَعَصَیْتُمْ

محمدبن اسحاق،ابن جریج،ربیع بن انس اورسدی رحمہ اللہ نے قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ اس یہ معنی بیان کیے ہیں ، یہ اس سبب سے کہ تم نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیاتھاکہ تم نے اس جگہ کونہیں چھوڑنامگرتم نے نافرمانی کی اوراس جگہ کوچھوڑدیا۔[102]

جونقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچاوہ اللہ کی قضاوقدرسے ہی پہنچا،اوریہ نقصان اس لیے تھاتاکہ اللہ تعالیٰ ثابت قدم،غیرمتزلزل مومنین اورمنافقین کوایک دوسرے سے ممتازکردے ،اورجب ان منافقین(عبداللہ بن ابی ابن سلول اوراس کے ساتھیوں ) سے کہاگیاآؤاللہ کے دین کی سربلندی اوراللہ کی رضاوخوشنودی کے حصول کے لئے جنگ کرو، یا کم از کم اپنے حرم اورشہرکوکافروں کے حملوں سے روکو یعنی کم ازکم مدافعت ہی کرو،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعِكْرِمَةُ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیر، وَالضَّحَّاكُ، وَأَبُو صَالِحٍ، وَالْحَسَنُ، والسُّدِّی: یَعْنِی كَثروا سَوَادَ الْمُسْلِمِینَ

ابن عباس رضی اللہ عنہ ،عکرمہ،سعیدبن جبیر،ضحاک،ابوصالح،حسن اورسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کامفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوکران کی تعدادہی میں اضافے کاسبب بنو۔[103]

وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ: ادْفَعُوا بِالدُّعَاءِ

اورحسن بن صالح فرماتے ہیں کہ دعاکے ساتھ کافروں کے حملوں کوروکو۔[104]

وَقَالَ غَیْرُهُ: رَابِطُوا

اوردیگرکئی ائمہ تفسیرنے کہاہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ دشمن کے مقابلے کے لیے مورچوں پرجمے رہو۔[105]

توانہوں نے صاف انکارکردیا،اوریہ عذرپیش کیاکہ اگرہمیں علم ہوتاکہ آج تمہارے اور کفار کے درمیان جنگ ہوگی توہم ضرورتمہارے ساتھ چلتے،لیکن ہم سمجھے کہ لڑائی نہیں ہوگی ،

قَالَ مُجَاهِدٌ: یَعْنُونَ لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكُمْ تَلْقَوْنَ حَرْبًا لَجِئْنَاكُمْ، وَلَكِنْ لَا تَلْقَوْنَ قِتَالًا

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے کہنے کامقصدیہ تھاکہ اگرہمیں یہ خبرہوتی کہ تم لڑائی کروگے توہم آجاتے لیکن تم لڑائی نہیں کرو گے۔[106]

اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایایہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اس وقت وہ ایمان کی بہ نسبت کفرسے زیادہ قریب تھے،وہ اپنی زبانوں سے مسلمانوں سےوہ باتیں کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ،یعنی اس کے صحیح ہونے کااعتقادنہیں رکھتے،حالانکہ انہیں یہ یقین کامل تھاکہ کفار کایہ لشکرجرارجومدینہ منورہ میں امنڈآیاہے غزوہ بدرمیں اپنے قتل ،زخمی اورقیدی ہونے والے آدمیوں کابدلہ لینے کے لیے آیاہے، اس لیے زبردست معرکہ آرائی کرے گا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااورجوکچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں یعنی مسلمانوں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونقصان پہنچانے کے لئے خیال کرتے ہیں کہ ہمارے نہ جانے سے مسلمانوں کی جماعت میں ضعف پیداہوگا ،اور کفاررکوفائدہ پہنچے گا، اللہ ان کے ارادوں کو خوب جانتاہے،یہ وہی لوگ ہیں جوخودتوجہادفی سبیل اللہ سےجی چراکراپنے گھروں میں بیٹھے رہے، اوران کے جوبھائی بندلڑنے گئے اورشہید ہوگئے تواللہ کی قضاوقدر پر اعتراض کرکے کہنے لگے کہ اگروہ ہماراجہادفی سبیل اللہ پرنہ جانے کامشورہ مان لیتے توشہیدنہ ہوتے،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {الَّذِینَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا} [107]الْآیَةَ،ذُكِرَ لَنَا أَنَّهَا نَزَلَتْ فِی عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیٍّ

ربیع اورقتادہ فرماتے ہیں یہ آیت’’یہ وہی لوگ ہیں جوخودتوبیٹھے رہے اوران جوبھائی بندلڑنے گئے اورمارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیاکہ اگروہ ہماری بات مان لیتے تونہ مارے جاتے۔‘‘اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی بن سلول اوراس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[108]

قَالَ مُجَاهِدٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فِی عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سلول

مجاہد رحمہ اللہ نے جابربن عبداللہ کی روایت کوبیان کیاہے کہ یہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[109]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو!اگرتم لوگ اپنے اس قول میں سچے ہوتوجب خودتمہاری موت کاوقت آئے تو اسے ٹال کردکھادینایعنی تقدیرسے کسی کو مفرنہیں ،اللہ تعالیٰ نے جس کی جہاں اورجیسی موت لکھی ہوئی ہے ،وہ وہاں اوراسی صورت میں آکررہے گی،اس لئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے لڑنے سے گریزوفرارکسی کوموت کے شکنجے سے نہیں بچاسکتی۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ ‎﴿١٦٩﴾‏ فَرِحِینَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِینَ لَمْ یَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿١٧٠﴾‏ ۞ یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٧١﴾‏(آل عمران)
جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فضل جو انہیں دے رکھا ہے ان سے وہ بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان کو نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم گین ہونگے، وہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس سے بھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے اجر کو برباد نہیں کرتا۔

مقام شہید:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تومنافقین ویہودنے جومسلمانوں کی تذلیل اورہمت شکنی لئے موقع کی تلاش میں رہتے تھے مسلمانوں کی شکست پر طعن وتشنیع کیا،اور باتوں کے نشترچلاکر مسلمانوں کومایوس کرنے،ان کے جذبہ شہادت کوزک پہنچانے اور شہادت کی اہمیت کو گھٹانے کے لئے بہت کچھ کہا،ان میں سے ایک قول یہ بھی تھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توملک وبادشاہت چاہتے ہیں ،اس سے پہلے کبھی بھی کسی نبی کوایسی ہلاکت وتباہی سے دوچارنہیں ہوناپڑا،اورسترکی ایک کثیرتعدادمیں بڑے بڑے جلیل القدرصحابہ کے شہیدہوجانے کواپنی کوتاہی اورغلط تدبیرکانتیجہ قراردیا،راس المنافقین ابن ابی نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوجوجنگ میں شریک تھے ملامت کی ، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ جوبھی معاملہ فرمایاہے اسی میں بہتری تھی ۔چنانچہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے منافقین کے برعکس شہداء کی عزت افزائی اورمسلمانوں کی ہمت بڑھانے کے لئے شہداء کی فضیلت بیان فرمائی کہ جولوگ اللہ کے دین کی سربلندی اوردین اسلام کے فروغ ونفاذ کے لئے کوشش کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو،وہ تواللہ تعالیٰ کے عزت وتکریم کے گھرمیں زندہ ہیں ،لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ،جیسے فرمایا

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْیَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ [110]

ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔

وہ توانواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتوں میں اپنے رب کے پاس سے پاکیزہ رزق حاصل کررہے ہیں ۔

قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ:قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:أَرْوَاحُهُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِیلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِی إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِیلِ، فَاطَّلَعَ إِلَیْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ:هَلْ تَشْتَهُونَ شَیْئًا؟ قَالُوا: أَیَّ شَیْءٍ نَشْتَهِی وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ یُتْرَكُوا مِنْ أَنْ یُسْأَلُوا، قَالُوا: یَا رَبِّ، نُرِیدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِی أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِی سَبِیلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَیْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کامطلب پوچھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشہداء کی روحیں سبزرنگ پرندوں کے قالب میں ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی ہوئی قندیلوں میں رہتی ہیں ،وہ جنت میں جہاں کہیں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں ، اوران قندیلوں میں آرام کرتی ہیں ،ایک مرتبہ ان کے رب نے ان کی طرف نظرکی اوردریافت فرمایاکیاکچھ اورچاہتی ہو؟انہوں نے کہااب ہم کیاچاہیں گے ہم توجہاں چاہتی ہیں جنت میں چگتی پھرتی ہیں ،پروردگارجل وعلانے پھرپوچھا،پھرپوچھاجب انہوں نے دیکھاکہ بغیرپوچھے ہماری رہائی نہیں ،توانہوں نے عرض کیااے پروردگار!ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری روحوں کوہمارے دنیاوی بدنوں میں لوٹادے

تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں مارے جائیں ،جب پروردگارجل جلالہ نے دیکھاکہ اب ان کواورکوئی خواہش نہیں توانہیں چھوڑدیا ۔[111]

شہادت کی فضیلت کے سلسلہ میں متعددروایات ہیں ۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ لَهَا عِنْدَ اللَّهِ خَیْرٌ، یَسُرُّهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الدُّنْیَا، إِلَّا الشَّهِیدُ، فَإِنَّهُ یَسُرُّهُ أَنْ یَرْجِعَ إِلَى الدُّنْیَا، فَیُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى، لِمَا یَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ

انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی مرجاتاہے اوراللہ تعالیٰ کے پاس دنیاسے اعمال صالحہ لے کرجاتا،تووہ پھردنیامیں آنے کی تمنا نہیں کرتا، اگرچہ ساری دنیااورجوکچھ اس میں ہے وہ سب اس کودے دیاجائے،لیکن شہیداس سے متثنیٰ ہے،وہ تمناکرتاہے کہ وہ پھردنیامیں آئے، اورپھراللہ کی راہ میں ماراجائے کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت کودیکھ چکاہے۔[112]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِی جَعَلْتُ أَبْكِی، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْهَوْنِی وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْهَ، وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَبْكِیهِ أَوْ: مَا تَبْكِیهِ مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اپنے باپ کی شہادت بعدمیں رونے لگا،اوربارباراپنے والدکے چہرے سے کپڑاہٹاکران کاچہرہ دیکھتاتھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجھے منع کرتے تھے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجابرمت رو،فرشتے برابر ان کی لاش پراپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے جب تک ان کواٹھالیاگیا ۔[113]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُكُمْ بِأُحُدٍ، جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَرْوَاحَهُمْ فِی أَجْوَافِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ، تَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا، وَتَأْوِی إِلَى قَنَادِیلَ مِنْ ذَهَبٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ، فَلَمَّا وَجَدُوا طِیبَ مَشْرَبِهِمْ وَمَأْكَلِهِمْ، وَحُسْنَ مَقِیلِهِمْ قَالُوا: یَا لَیْتَ إِخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ بِمَا صَنَعَ اللَّهُ لَنَا، لِئَلا یَزْهَدُوا فِی الْجِهَادِ، وَلا یَنْكُلُوا عَنِ الْحَرْبِ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أُبَلِّغُهُمْ عَنْكُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلاءِ الْآیَاتِ عَلَى رَسُولِهِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا} [114]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہارے بھائی احدمیں شہیدکردیئے گئے تواللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کوسبزرنگ پرندوں میں کر دیا جو جنت کی نہروں پرآتے ہیں ،وہاں کے پھل کھاتے ہیں اورپھرسونے کی قندیلوں میں لوٹ جاتے ہیں جوعرش کے سائے میں لٹک رہی ہیں ،جب انہوں نے وہاں کے کھانے پینے اورآرام وراحت کے مزے دیکھے، توکہاکون ہے جوہمارایہ پیغام ہمارے بھائیوں تک پہنچادے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں ہمیں رزق دیاجاتاہے تاکہ وہ جہادسے بے رغبت نہ ہوجائیں ، اورلڑائی میں بزدلی نہ دکھائیں ، چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت کریمہ ’’جولوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھووہ توحقیقت میں زندہ ہیں ،اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں ۔‘‘نازل فرمادی۔[115]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یَقُولُ: لَقِیَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِی: یَا جَابِرُ مَا لِی أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ اسْتُشْهِدَ أَبِی، وَتَرَكَ عِیَالاً وَدَیْنًا، قَالَ: أَفَلاَ أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِیَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلاَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْیَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: یَا عَبْدِی تَمَنَّ عَلَیَّ أُعْطِكَ. قَالَ: یَا رَبِّ تُحْیِینِی فَأُقْتَلَ فِیكَ ثَانِیَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّی أَنَّهُمْ إِلَیْهَا لاَ یُرْجَعُونَ قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ أَمْوَاتًا}.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اورفرمایا جابر!کیابات ہے تم مجھے غمگین نظرآتے ہو؟میں نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدشہیدہوگئے جن پرقرض کابہت وزن تھا،اورمیرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں تمہیں اس بات کی بشارت نہ دوں جواللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہی؟ میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں نہیں ، فرمایا جس کسی سے اللہ نے کلام کیاپردے کے پیچھے سے کلام کیالیکن تیرے باپ(عبداللہ بن عمروبن حرام انصاری رضی اللہ عنہ ) سے آمنے سامنے بات چیت کی،فرمایااے میرے بندے!مجھ سے مانگ جومانگتے ہو،تیرے باپ نے عرض کیااے میرے رب! میں تجھ سے یہ مانگتاہوں کہ تومجھے دوبارہ دنیامیں بھیجے اورمیں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہیدکیاجاؤں ،رب عزوجل نے فرمایایہ بات تومیں پہلے ہی مقررکرچکاہوں کہ دنیامیں دوبارہ لوٹ کرکوئی نہیں جائے گا،عرض کیاپھراے اللہ میرے بعدوالوں کوان مراتب کی خبرپہنچادے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ’’ جولوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھووہ توحقیقت میں زندہ ہیں ،اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں ۔‘‘نازل فرمائی ۔[116]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:فَقَالَ: یَا رَبِّ، مَا عَبَدْتُكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ، أَتَمَنَّى أَنْ تَرُدَّنِی إِلَى الدُّنْیَا، فَأُقْتَلَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ: سَبَقَ مِنِّی إِنَّكَ إِلَیْهَا لَا تَرْجِعُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے میرے رب ! میں تیری عبادت کاحق بھی ادانہیں کرسکامیری تمناہے کہ تومجھے دنیامیں واپس بھیج دے تاکہ میں دوبارہ تیرے نبی ساتھ ہوکرجہادکروں ،رب العزت نے فرمایایہ بات تومیری طرف سےلکھی جاچکی ہے کہ کسی کو واپس دنیامیں نہیں بھیجاجائے گا۔[117]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الشُّهَدَاءُ عَلَى بَارِقٍ نَهْرٍ بِبَابِ الْجَنَّةِ فِی قُبَّةٍ خَضْرَاءَ، یَخْرُجُ عَلَیْهِمْ رِزْقُهُمْ مِنَ الجَنَّةِ بُكْرَةً وَعَشِیًّا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشہیدلوگ جنت کے دروازے پرنہرکے کنارے سبزگنبدمیں ہیں ،صبح وشام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں ۔[118]

كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ یُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ یَعْلُقُ فِی شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى یُرْجِعَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى جَسَدِهِ یَوْمَ یَبْعَثُهُ

اورکعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًمومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں سے (پھل)کھاتی رہتی ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ اسے اس دن اس کے جسم میں لوٹادے گاجب اسے اٹھائے گا۔[119]

اللہ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں جوکچھ عنایت فرمایاہے اس پرخوش وخرم ہیں اورمطمئن ہیں ، جواہل ایمان ان پیچھے دنیامیں رہ گئے ہیں اورمصروف جہادہیں اورابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کی بابت وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش! وہ بھی شہادت سے ہمکنارہوکریہاں ہم جیسی پرلطف زندگی حاصل کریں ، شہداء اللہ کی نعمتوں اوررحمتوں پر شاداں وفرحاں ہیں ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رِعْلًا، وَذَكْوَانَ، وَعُصَیَّةَ، وَبَنِی لَحْیَانَ، اسْتَمَدُّوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَدُوٍّ، فَأَمَدَّهُمْ بِسَبْعِینَ مِنَ الأَنْصَارِ، كُنَّا نُسَمِّیهِمْ القُرَّاءَ فِی زَمَانِهِمْ، كَانُوا یَحْتَطِبُونَ بِالنَّهَارِ، وَیُصَلُّونَ بِاللَّیْلِ، حَتَّى كَانُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قَتَلُوهُمْ وَغَدَرُوا بِهِمْ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَنَتَ شَهْرًا یَدْعُو فِی الصُّبْحِ عَلَى أَحْیَاءٍ مِنْ أَحْیَاءِ العَرَبِ، عَلَى رِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَعُصَیَّةَ، وَبَنِی لَحْیَانَ قَالَ أَنَسٌ:فَقَرَأْنَا فِیهِمْ قُرْآنًا، ثُمَّ إِنَّ ذَلِكَ رُفِعَ: بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رعل و ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دشمنوں  مقابل میں مدد چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر اصحاب کو انصار سے ان کی مدد کے لئے روانہ کیا،ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے،یہ لوگ دن کو لکڑیاں لاتےاور رات کو عبادت کیا کرتے تھے،یہ حضرات جب بیرمعونہ(بنی عامر اوربنی سلیم کے درمیان ایک زمین کانام ہے) پہنچے تو قبیلے کے آدمیوں نے ان کو دھوکے سے مار ڈالا،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک صبح کی نماز میں ان قبیلے والوں کے لئے بد دعا فرمائی یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان پر، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان کے صدمہ میں کئی آیتیں پڑھیں پھر ان کی تلاوت موقوف ہوگئی وہ آیات یہ تھی بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا آگاہ ہو جاؤ اور ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے مل گئے ہیں وہ ہم سے راضی ہوگیا اور ہم اس سے راضی ہیں ۔[120]

اوران کومعلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجرکوضائع نہیں کرتابلکہ بے حساب بڑھاچڑھاکرعطافرماتاہے۔

الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٧٢﴾‏ الَّذِینَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِیلُ ‎﴿١٧٣﴾‏(آل عمران)
جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے ،وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ۔

غزوہ حمراء الاسدمیں شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت :اللہ تعالیٰ نے فداکاروں  جذبہ اطاعت اللہ ورسول کی تعریف کرتے ہوئے فرمایاجن مجاہدین نے زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود اللہ اوررسول کی پکارپرلبیک کہا، اور مشرکین کے تعاقب میں مدینہ منورہ سے آٹھ میل دورحمراء الاسدتک پہنچے،ان میں جواشخاص نیکوکاراورپرہیزگارہیں ان کے لیے اللہ کے ہاں اجرعظیم ہے ،غزوہ احد سے واپسی کے وقت ابوسفیان مسلمانوں سے یہ وعدہ کرچکاتھاکہ آئندہ سال بدرمیں لڑائی ہوگی

فَخَرَجَ فِی قُرَیْشٍ، وَهُمْ أَلْفَانِ وَمَعَهُمْ خَمْسُونَ فَرَسًا، حَتّى انْتَهَوْا إلَى مَجَنّةَ،فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّهُ لَا یُصْلِحُكُمْ إلَّا عَامٌ خَصِیبٌ تَرْعَوْنَ فِیهِ الشَّجَرَ، وَتَشْرَبُونَ فِیهِ اللبَنَ، وَإِنَّ عَامَكُمْ هَذَا عَامُ جَدْبٍ وَإِنِّی رَاجِعٌ، فَارْجِعُوا، فَرَجَعَ النَّاسُ،فَسَمَّاهُمْ أَهْلُ مَكَّةَ جَیْشَ السَّوِیقِ، یَقُولُونَ:إنَّمَا خَرَجْتُمْ تَشْرَبُونَ السَّوِیقَ

اس لئے ابوسفیان دوہزارکالشکرلیکرجن میں پچاس گھوڑے بھی شامل تھے مکہ سے روانہ ہوااورمرالظہران نزدیک مَجَنّةَ کے مشہورچشمہ پرخیمہ زن ہوگیا، مگر اندر سے اس کادل مسلمانوں کے جوش ایمانی ،بہادری وشجاعت سے مرعوب تھا، اور وہ چاہتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر پرنہ آئیں تاکہ ساراالزام انہیں پرآئے اوراس کی ناک بھی اونچی رہے، کہ ہم تووعدے کے مطابق روانہ ہوئے تھے مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہی مقابلہ کاحوصلہ نہ ہوا،اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ سال قحط اورگرانی کاہے جنگ وجدل کا نہیں ،جنگ کے لئے خوشحالی وشادابی کاسال مناسب ہوتاہے جب جانورچرسکیں اورتم بھی ان کادودھ پی سکو،اس لئے میری رائے تویہ ہے کہ ہم واپس لوٹ چلیں ،قریش مسلمانوں سے دودوہاتھ کرکے مزاچکھ چکے تھے، ان کے دل ودماغ پر خوف وہیبت طاری تھا، اس لئے لشکرمیں سے بھی کسی نے بھی واپسی کی مخالفت نہیں کی جب یہ لشکر واپس پہنچاتواہل مکہ نے ان کوجیش السویق کانام دیا،وہ کہتے تھے تم وہاں صرف ستوپینے کے لئے گئے تھے۔[121]

فَقَالَ لَهُ أَبُو سُفْیَانَ: یَا نُعَیْمُ، إِنَّ هَذَا عَامُ جَدْبٍ، وَلا یُصْلِحُنَا إِلا عَامٌ تَرْعَى فِیهِ الإِبِلُ الشَّجَرَ، وَنَشْرَبُ فِیهِ اللبَنَ، وَقَدْ جَاءَ أَوَانُ مَوْعِدِ مُحَمَّدٍ، فَالْحَقْ بالمدینة فثبطهم وعلمهم أَنَّا فِی جَمْعٍ كَثِیرٍ، وَلا طَاقَةَ لَهُمْ بِنَا، فَیَأْتِی الْخَلْفَ مِنْهُمْ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَأْتِیَ مِنْ قِبَلِنَا

اس مقام پر ابو سفیان سے نعیم بن مسعودنامی ایک شخص ملا جو مدینہ منورہ جارہاتھاچنانچہ اس نے مسلمانوں کوخوف زدہ کرنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا او ر اسے کچھ معاوضہ اداکرکے کہااے نعیم !یہ قحط سالی کا سال ہے، یہ سال صرف اور صرف اونٹوں کو چرانا اور ہم نے ان سے دودھ پینا ہے، اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا معاہدہ آچکا ہے،تم مدینہ پہنچ کریہ خبرشدومدکے ساتھ مشہور کر دو کہ اہل مکہ مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک بڑالشکرترتیب دیاہے ،اس لئے تمہارے لئے یہی بہترہے کہ مقابلہ کے لئے مدینہ سے باہرنہ نکلو،حسب پروگرام نعیم بن مسعودنے مدینہ پہنچ کر اس پروپیگنڈے کی خوب تشہیرکی کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکرجمع کر رہے ہیں جس کامقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کرسکے گا۔[122]

فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ، فَأَبَى عَلَیْهِ النَّاسُ أَنْ یَتَّبِعُوهُ فَقَالَ إِنِّی ذَاهِبٌ وَإِنْ لَمْ یَتَّبِعْنِی أَحَدٌ فَانْتَدَبَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَیْرُ وَسَعْدٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَأَبُو عُبَیْدَةَ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَحُذَیْفَةُ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا فَسَارُوا فِی طَلَبِ أَبِی سُفْیَانَ حَتَّى بَلَغُوا الصَّفْرَاءَ

کچھ مسلمان اس پروپیگنڈے سے متاثرہوئے مگرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے مجمع میں اعلان کردیا کہ اگرکوئی بھی نہ جائے گاتومیں اکیلاہی وہاں جاؤں گاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رغبت دلانے پرسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ،زبیربن العوام رضی اللہ عنہ ،سعد رضی اللہ عنہ ،طلحہ رضی اللہ عنہ ،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح وغیرہ سترصحابہ کرام آپ کے زیررکاب چلنے پرآمادہ ہوگئےاوریہ لشکر ابوسفیان کی جستجومیں بدرصغریٰ تک پہنچ گیامگرابوسفیان کنی کتراگیا۔[123]

انہی کی فضیلت اورجاں بازی کاذکراس آیت میں فرمایاکہ دشمن کے اس پروپیگنڈے سے ڈرنے کے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان اوربڑھ گیااورانہوں نے کہاہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے۔

جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایا

اَلَیْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ۔۔۔ ۝۳۶ۚ [124]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ،قَالَهَا إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلاَمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَقَالَهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَالُوا: {إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا، وَقَالُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ}[125]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکلمہ’’ہمارے لئے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کام بنانے والا ہے۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا تھاجب ان کو آگ میں ڈالاگیاتھا، اوریہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہاتھاجب لوگوں نے مسلمانوں کوخوفزدہ کرنے لئے کہاتھاکہ’’ لوگوں (یعنی قریش)نے تمہارے خلاف بڑاسامان جنگ اکٹھاکررکھاہے،ان سے ڈرو،لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا(جوش)ایمان اوربڑھادیااوریہ مسلمان بولے کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کام بنانے والا ہے۔‘‘[126]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ آخِرَ قَوْلِ إِبْرَاهِیمَ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ: حَسْبِیَ اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالاگیاتوآخری کلمہ جوآپ کی زبان مبارک سے نکلاوہ یہی تھا’’میری مدد لئے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کام بنانے والاہے۔‘‘[127]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قِیلَ لَهُ یَوْمَ أُحُدٍ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآیَةَ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احدکے دن کہاگیاکہ لوگوں نے تمہارے مقابلے کے لیے ایک کشکرجرارجمع کیاہے توان سے ڈرو،تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کونازل فرمایا۔[128]

نقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٧٤﴾‏ إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٧٥﴾(آل عمران)
 (نتیجہ یہ ہواکہ) اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی ،انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت بڑے فضل والا ہے، یہ خبر دینے والاصرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو ۔

(آل عمران)خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهَا فِی أَلْفٍ وَخَمْسِمِائَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ، وَكَانَتِ الْخَیْلُ عَشَرَةَ أَفْرَاسٍ فَرَسٌ لِرَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَفَرَسٌ لأَبِی بَكْرٍ وَفَرَسٌ لِعُمَرَ، وَفَرَسٌ لأَبِی قَتَادَةَ، وَفَرَسٌ لسَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نفیل، وفرس للمقداد، وفرس للخباب، وَفَرَسٌ لِلزُّبَیْرِ، وَفَرَسٌ لِعَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان ۴ہجری کومدینہ پر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کواپنانائب مقررفرمایا،اورپندرہ سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہمراہ لے کربدرکی طرف روانہ ہوئے،اس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس دس گھوڑے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ ،ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ،سعید رضی اللہ عنہ بن زیدبن عمروبن نفیل،مقداد رضی اللہ عنہ ،خباب رضی اللہ عنہ ، زبیربن العوام رضی اللہ عنہ ، عبادبن بشر رضی اللہ عنہ گھوڑوں پرسوارتھے۔[129]

وَكَانَ یَحْمِلُ لِوَاءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْظَمَ یَوْمَئِذٍ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

اوراس دن لشکرکاعلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس تھا۔[130]

فَأَقَامَ عَلَیْهِ ثَمَانِیَ لَیَالٍ یَنْتَظِرُ أَبَا سُفْیَانَ، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِینَةِ

میدان بدرمیں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کاآٹھ روزتک انتظارفرمایامگروہ اپنے چیلنج کے مطابق بدرمیں نہیں آیا،آٹھ روز انتظار کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقابلہ سے ناامید ہوکر بلاجدال وقتال مدینہ واپس تشریف لے آئے۔[131]

میدان بدرمیں ان دنوں ایک میلہ لگتاتھاجہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سامان تجارت فروخت کیاجس سے انہیں دوگنافائدہ ہوااورایک درہم کے دودرہم ملے،اسی کے بارے میں فرمایاآخرکارمجاہدین بغیرکسی نقصان اورتجارت میں نفع حاصل کرکے واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے اورانہیں کسی قسم کاضرربھی نہ پہنچااورانہیں اللہ کی رضاپرچلنے کاشرف بھی حاصل ہو گیا ، اللہ بڑافضل فرمانے والاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ: قَالَ: النِّعْمَةُ: أَنَّهُمْ سَلِمُوا ، وَالْفَضْلُ أَنَّ عِیرًا مَرَّتْ وَكَانَ فِی أَیَّامِ الْمَوْسِمِ، فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَبِحَ فِیهَا مَالًا فَقَسَمَهُ بَیْنَ أَصْحَابِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ ‘‘ بارے میں روایت ہےیہاں نعمت سے مرادیہ ہے کہ مسلمان سلامت رہے، اورفضل یہ ہے کہ موسم حج میں ایک تجارتی قافلہ گرزرہاتھا، جس کے سامان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدلیاتھااورآپ کواس سے بہت نفع حاصل ہواجسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم فرمادیاتھا۔[132]

اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھاجو خواہ مخواہ تمہیں اپنے دوستوں کے ذریعہ سے ڈرارہا تھا ، لہذا اگرتم حقیقت میں صاحب ایمان ہوتوآئندہ شیطان کے دوست مشرکین سے نہ ڈرنابلکہ مجھ سے ڈرنا،اورمجھ پرپہ توکل کرنا،اورمیری طرف ہی رجوع کرنا،میں تمہارے لیے کافی ہوں اوران کے مقابلے میں تمہاری نصرت واعانت کروں گا،جیسے متعددمقامات پر فرمایا

 اَلَیْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ۝۰ۭ وَیُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ۝۰ۭ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ۝۳۶ۚوَمَنْ یَّهْدِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ۝۰ۭ اَلَیْسَ اللهُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ۝۳۷وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۝۰ۭ قُلْ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖٓ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ۝۰ۭ قُلْ حَسْبِیَ اللهُ۝۰ۭ عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۳۸ [133]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کیاا للہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں حالانکہ اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں ، کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے ؟ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے، ان سے کہوجب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہومجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچا لیں گی؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔

۔۔۔وَلَیَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۴۰ [134]

ترجمہ: اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے، اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْكُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [135]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙیَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِـمِیْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۝۵۲ [136]

ترجمہ:یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازما کرتے ہیں اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے ،جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بد ترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا۔

وَلَا یَحْزُنكَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن یَضُرُّوا اللَّهَ شَیْئًا ۗ یُرِیدُ اللَّهُ أَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٧٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِیمَانِ لَن یَضُرُّوا اللَّهَ شَیْئًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٧٧﴾‏ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ خَیْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿١٧٨﴾‏(آل عمران)
کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ تجھے غمناک نہ کریں یقین مانو یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ان کے لیے آخرت کا کوئی حصہ عطا نہ کرے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے،کفر کو ایمان کے بدلے خریدنے والے ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان ہی کے لیے المناک عذاب ہے، کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں یہ مہلت تو اس لیے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں ان ہی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !جولوگ آج دعوت حق کاراستہ روکنے اورکفرکی سربلندی کے لئے دوڑدھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں ،یہ اللہ کاکچھ بھی نہ بگاڑسکیں گے،اللہ اپنے دین کاخودحامی وناصرہے،البتہ یہ اپنی ہی عاقبت خراب کرلیں گے،اوراللہ اپنی مشیت وقدرت سے یہ چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھےاوربالآخران کوسخت سزا ملنے والی ہے،اورکفارکے بارے میں خبردیتے ہوئے فرمایاجولوگ ایمان کوچھوڑکر کفر کے خریداربنے ہیں وہ یقیناًاللہ کاکوئی نقصان نہیں کررہے ہیں ،ان کے لیے جہنم کا دردناک عذاب تیارہے،یہ ڈھیل جوہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کویہ کافراپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ہم توانہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارگناہ سمیٹ لیں پھران کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزاہے،اس مضمون کومتعددمقامات پر بیان فرمایا

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [137]

ترجمہ: کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں ، تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں ؟ نہیں ، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے۔

فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ۝۰ۭ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۴۴ۙ [138]

ترجمہ:پس اے نبی ! تم اس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں ، ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی۔

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ۝۵۵ [139]

ترجمہ:ان کے مال و دولت اور ان کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکارِ حق ہی کی حالت میں دیں ۔

﴾‏ مَّا كَانَ اللَّهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَیْهِ حَتَّىٰ یَمِیزَ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یَجْتَبِی مِن رُّسُلِهِ مَن یَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٧٩﴾‏ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَیْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿١٨٠﴾‏(آل عمران)
جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑدے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کردے، اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کر دے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتا ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ پراوراس کے رسولوں پر ایمان رکھو اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لیے بڑا بھاری اجر ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے

اللہ تعالیٰ مومنوں کواورمنافقین کوغلط ملط ہوکرنہیں رہنے دے گا،بلکہ وہ آزمائش وامتحان کی بھٹی سے گزارکرمومنین کےصبرواستقامت واطاعت شعاری کواور منافقین کی بے صبری، مخالفت وخیانت کواورسچے اورجھوٹے کوظاہرکرکے الگ کرکے رہے گا،

قَالَ مُجَاهِدٌ: یَوْمَ أُحُدٍ مَیَّزَ بَعْضَهُمْ عَنْ بَعْضٍ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوغزوہ احدکے دن الگ الگ کردیاتھا۔[140]

عَنْ قَتَادَةَ،یُمَیِّزُبَیْنَهُمْ فِی الْجِهَادِ وَالْهِجْرَةِ

اورقتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جہاداورہجرت کے ساتھ ان کوالگ الگ کردیاتھا۔[141]

مگراللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے غیب سے مسلمانوں کولوگوں کےدلوں کاحال بتادے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق،بلکہ اللہ آزمائش کے ایسے مواقع سامنے لاتا ہے جن کے تجزیہ سے مومن ومنافق صاف ظاہرہوجاتاہے ،غیب کی باتیں بتانے کے لیے تووہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہےتاکہ وہ اپنافرض منصبی اداکرسکے، یعنی رسول غیب کاعلم نہیں جانتابلکہ اللہ جتناچاہتاہے اسے مطلع فرمادیتاہے، جیسے فرمایا

 وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝۰ۭۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِ۝۰ۣۛؔ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ۝۰ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۔۔۔۝۰۝۱۰۱ۚ [142]

ترجمہ: تمہارے گردو پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہوگئے ہیں ،تم انہیں نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں ۔

عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰی غَیْبِهٖٓ اَحَدًا۝۲۶ۙاِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ۔۔۔ ۝۲۷ۙ [143]

ترجمہ:وہ عالم الغیب ہے ، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتاسوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کرلیا ہو۔

لہذاامورغیب کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھو،اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جواحکام شریعت مقررفرمادیے ہیں ان کی اتباع کرو،اگرتم ایمان اور پرہیزگاری کی روش پر چلوگے تواللہ تم کواجرعظیم سے نوازے گا،اللہ تعالیٰ نے بخل کی مذمت اوراس پروعیدفرمائی اورفرمایا اللہ نے اپنے فضل وکرم سےجن لوگوں کو مال ودولت سے نوازاہے، اور پھروہ اس مال کو اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ نہیں کرتےحتی کہ فرض زکوٰة کوبھی ایک ناگوار ٹیکس سمجھ کر ادا نہیں کرتے، وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ مال ودولت کی یہ محبت ان کے لیے نفع بخش ہے،ہرگزنہیں یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے،جس مال ودولت کو وہ گن گن کررکھ رہے ہیں وہی مال قیامت کے روزان کے گلے کاطوق بن جائے گاجس سے جان چھڑانامشکل ہوگا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِیبَتَانِ یُطَوَّقُهُ یَوْمَ القِیَامَةِ، یَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَیْهِ یَعْنِی بِشِدْقَیْهِ یَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآیَةَ: (وَلَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) إِلَى آخِرِ الآیَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے اللہ تعالیٰ نے مال دیااورپھراس نے اس کی زکوٰة ادانہیں کی تو(آخرت میں )اس کامال نہایت زہریلے سانپ بن کرجس کی آنکھوں  اوپردونقطے ہوں گے اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنادیاجائے گا،پھروہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کوپکڑکرکہے گاکہ میں ہی تیرامال ہوں ،میں ہی تیراخزانہ ہوں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی

وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ ھُوَخَیْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ وَلِلهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۱۸۰ۧ۔ [144]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الَّذِی لَا یُؤَدِّی زَكَاةَ مَالِهِ یُمَثِّلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ مَالَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِیبَتَانِ، ثُمَّ یَلْزَمُهُ یُطَوِّقُهُ یَقُولُ: أَنَا كَنْزُكَ، أَنَا كَنْزُكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے مال کی زکوٰة ادانہیں کرتا،اس کا مال قیامت دن ایک گنجاسانپ بن کرآئے گاجس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے،(اس قسم کاسانپ بہت زہریلاہوتاہے)اوراس کے گلے کاطوق بن جائے گااورکہے گا میں تیرا مال ہوں ،میں تیرامال ہوں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [145]

عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:مَنْ تَرَكَ بَعْدَهُ كَنْزًا مُثِّلَ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِیبَتَانِ، یَتْبَعُهُ یَقُولُ: وَیْلَكَ مَا أَنْتَ؟ فَیَقُولُ: أَنَا كَنْزُكَ الَّذِی تَرَكْتَهُ بَعْدَكَ فَلَا یَزَالُ یَتْبَعُهُ حَتَّى یُلْقِمَهُ یَدَهُ فَیَقْضِمَهَا ثُمَّ یَتْبَعُهُ سَائِرُ جَسَدِهِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے پیچھے خزانہ چھوڑکرمرے وہ خزانہ ایک کوڑھی سانپ کی صورت میں جس کی دوآنکھوں پردونقطے ہوں گے، ان پیچھے دوڑے گا،یہ بھاگے گااورکہے گاتوکون ہے ؟وہ کہے گامیں تیراخزانہ ہوں جسے تواپنے پیچھے چھوڑکر مرا تھا،یہاں تک کہ وہ اسے پکڑلے گااوراس کاہاتھ چبائے گا،پھرباقی جسم چباجائے گا۔[146]

عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَأْتِی الرَّجُلُ مَولاهُ فیَسْأله مِنْ فَضْلِ مَالِهِ عِنْدَهُ، فَیَمْنَعهُ إیَّاهُ، إِلَّا دُعِی لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شُجاعٌ یَتَلَمَّظُ فَضْلَهُ الَّذِی مَنَعَ

جدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے آقاکے پاس جاکر اس سے اپنی حاجت طلب کرے اوروہ باوجودگنجائش ہونے کے نہ دے ، اس کے لئے قیامت کے دن زہریلااژدھاپھن سے پھنکارتاہوابلایاجائے گا۔ [147]

عَنْ أَبِی قَزَعَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ ذِی رَحِمٍ یَأْتِی رَحِمُهُ فَیَسْأَلُهُ مِنْ فَضْلٍ جَعَلَهُ اللَّهُ عِنْدَهُ فَیَبْخَلُ بِهِ عَلَیْهِ إِلَّا أُخْرِجَ لَهُ مِنْ جَهَنَّمَ شُجَاعٌ یَتَلَمَّظُ حَتَّى یُطَوَّقَهُ

ابی قزعہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجورشتہ دارمحتاج اپنے مال داررشتہ دارسے سوال کرے اوریہ اسے نہ دے اس کی سزایہ ہوگی اوروہ سانپ اس گلے کا ہار بن جائے گا۔[148]

اس عظیم الشان کائنات پر اقتدار اور بادشاہی کامالک اللہ ہی ہے،اوراللہ نے بندوں کوجوکچھ عطاکیاہواہے وہ عارضی ہے، اوربندے جب اس دنیافانی سے جائیں گے تو ان کے ساتھ درہم ودینارنہیں ہوں گے اورنہ کوئی مال ومتاع ،جیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ۝۴۰ۧ [149]

ترجمہ:آخر کار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔

لہذااس نے اپنے فضل وکرم سے تمہیں جومال ودولت عطافرمایاہواہے اس میں سے اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرو، جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ اللهُ اِلَیْكَ۔۔۔ ۝۷۷ [150]

ترجمہ:احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔

تاکہ یہ زادراہ تمہارے اس دن کام آئے جب کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آئے،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰۝۱۸ [151]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے (اچھی طرح جائزہ لے) کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔

اورتم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے،اورروزقیامت وہ اچھے اعمال پربہترین جزااوربرے اعمال پربدترین سزادے گا۔

[1] طہ۴۶

[2] البقرة۲۵۷

[3] مسند احمد۳۴۴

[4] تیسیر الكریم الرحمن فی تفسیر كلام المنان۱۴۶؍۱

[5] محمد۴

[6] آل عمران: 128

[7] آل عمران: 128

[8] صحیح بخاری کتاب المغازی بابُ لَیْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ أَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ۴۰۶۹

[9] آل عمران: 128

[10] آل عمران: 128

[11] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ لَیْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ أَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ۴۰۷۰، مسند احمد ۵۶۷۴

[12] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۶۴۵

[13] الرعد۴۰

[14] البقرة۲۷۲

[15] القصص۵۶

[16] الاعراف۱۵۶

[17] الحدید۲۱

[18] مسند البزار ۹۳۸۰

[19] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، یُقَالُ: هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی۲۷۹۰، مسند احمد ۸۴۷۴،مصنف ابن ابی شیبہ۳۴۰۷۶

[20] البقرة۲۷۴

[21] الشوریٰ۴۰

[22]مسند احمد ۷۲۱۹،صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ۶۱۱۴،صحیح مسلم کتاب البروصلة بَابُ فَضْلِ مَنْ یَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ وَبِأَیِّ شَیْءٍ یَذْهَبُ الْغَضَبُ۶۶۴۳

[23] مسنداحمد۳۶۲۶

[24] مسنداحمد۲۳۱۱۵

[25]۔مسنداحمد۲۰۳۵۷

[26] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ۶۱۱۶

[27] مسنداحمد۲۱۳۴۸،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ ۴۷۸۲، صحیح ابن حبان۵۶۸۸

[28] مسند احمد ۱۷۹۸۵،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ۴۷۸۴

[29] سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَنْ كَظَمَ غَیْظًا ۴۷۷۷، مسند احمد ۱۵۶۳۷

[30] جامع ترمذی کتاب الزھدباب ماجاء مثل الدنیامثل اربعة نفر۲۳۲۵

[31] مستدرک حاکم ۳۱۶۱

[32] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللهِ۷۵۰۷،صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ قَبُولِ التَّوْبَةِ مِنَ الذُّنُوبِ وَإِنْ تَكَرَّرَتِ الذُّنُوبُ وَالتَّوْبَةُ ۶۹۸۶، مسند احمد ۹۲۵۶

[33] جامع ترمذی کتاب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَنَعِیمِهَا۲۵۲۶، مسنداحمد۸۰۴۳

[34] آل عمران: 135

[35] مسند احمد۵۶،سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۲۱،جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عِنْدَ التَّوْبَةِ۴۰۶،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی أَنَّ الصَّلَاةَ كَفَّارَةٌ۱۳۹۵

[36] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ ۵۵۳،سنن ابوداودکتاب الطہارة بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا تَوَضَّأَ ۱۶۹،سنن نسائی کتاب الطہارة باب الْقَوْلُ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْوُضُوءِ۱۴۸،سنن ابن ماجہ کتاب الطہارة باب مایقال بعدالوضوئ ۴۷۰

[37] جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ مَا یُقَالُ بَعْدَ الوُضُوءِ۵۵

[38] مسندالبزار۶۹۱۳

[39] التوبة۱۰۴

[40] النسائ۱۱۰

[41] مسنداحمد۶۵۴۱

[42] آل عمران: 135

[43] تفسیر عبد الرزاق۴۱۴؍۱

[44] المائدہ۵۶

[45] النسائ۱۰۴

[46] البقرة۲۱۴

[47] العنکبوت۲

[48] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ۲۹۶۵، ۲۹۶۶، صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّی لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ۴۵۴۲، سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ تَمَنِّی لِقَاءَ الْعَدُوِّ۲۶۳۱

[49]دلائل النبوہ للبیہقی ۲۴۸؍۳

[50] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۲، ۴۴۵۳، ۴۴۵۴

[51] فاطر۱۱

[52] الانعام۲

[53] الاعراف۳۴

[54] تفسیرابن ابی حاتم۷۷۹؍۳

[55] الشوریٰ۲۰

[56] بنی اسرائیل۱۸

[57] تفسیرطبری۲۷۰؍۷

[58] آل عمران: 146

[59] تفسیرابن ابی حاتم۷۸۲؍۳،تفسیرطبری ۲۷۱؍۷

[60] تفسیرابن کثیر۱۳۱؍۲

[61] صحیح بخاری کتاب التیمم باب ۱،ح۳۳۵،۴۳۸،صحیح مسلم کتاب المساجدباب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ ۱۱۶۳، مسنداحمد۱۴۲۶۴،مصنف ابن ابی شیبہ۳۱۶۴۲

[62] تفسیرطبری۲۹۱؍۷

[63] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ التَقَى الجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ۴۰۶۶،وکتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِی عَمْرٍو القُرَشِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۶۹۹

[64] تفسیرابن کثیر ۱۴۳؍۲

[65] تفسیرالدر المنثور۳۵۱؍۲

[66] تفسیرابن کثیر۱۴۳؍۲

[67] تفسیرابن ابی حاتم۷۹۱؍۳

[68] الانفال۱۱

[69] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ بَعْدِ الغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا یَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاللهِ غَیْرَ الحَقِّ ظَنَّ الجَاهِلِیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الأَمْرِ مِنْ شَیْءٍ۴۰۶۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۷

[70] ۔جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۷،مستدرک حاکم۳۱۶۴، الدر المنثور ۳۵۳؍۲

[71] تفسیرابن ابی حاتم۷۹۵؍۳

[72] زادالمعاد۲۰۵؍۳

[73] صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالْقُوَّةِ وَتَرْكِ الْعَجْزِ وَالِاسْتِعَانَةِ بِاللهِ وَتَفْوِیضِ الْمَقَادِیرِ لِلَّهِ۶۷۷۴، سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِی الْقَدَرِ۷۹،مسنداحمد۸۷۹۱

[74] الدعاء للطبرانی۱۳۸۶

[75] آل عمران: 155

[76] مسنداحمد۴۹۰

[77] النسائ۷۸

[78] تفسیرابن ابی حاتم ۸۰۰؍۳

[79]تفسیرابن کثیر۱۴۸؍۲

[80] التوبة۱۲۸

[81] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا۴۸۳۸

[82] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیعَ الفَاحِشَةُ ۴۷۵۷،وكِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ إِذَا عَدَّلَ رَجُلٌ ۲۶۳۷ عن عائشہ ،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بَابٌ فِی حَدِیثِ الْإِفْكِ وَقَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاذِفِ ۷۰۲۰،المعجم الکبیرللطبرانی قِصَّةُ الْإِفْكِ، وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنْ بَرَاءَتِهَا ۱۳۳

[83] سنن ابن ماجہ کتاب بَابُ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ۳۷۴۵،سنن ابوداودأَبْوَابُ النَّوْمِ بَابٌ فِی الْمَشُورَةِ ۵۱۲۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْأَدَبِ بَابُ أَنَّ المُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ ۲۸۲۲

[84] تفسیرابن کثیر۱۵۰؍۲

[85] تفسیرطبری۳۴۸؍۷

[86] مسنداحمد۱۷۲۵۵

[87] تفسیرطبری۳۵۸؍۷

[88] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابٌ فِی هَدَایَا الْعُمَّالِ۲۹۴۶،صحیح بخاری كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِیضِ عَلَیْهَا بَابُ مَنْ لَمْ یَقْبَلِ الهَدِیَّةَ لِعِلَّةٍ۲۵۹۷ ،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ تَحْرِیمِ هَدَایَا الْعُمَّالِ۴۷۳۸، مسنداحمد۲۳۵۹۸

[89] جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِی هَدَایَا الأُمَرَاءِ۱۳۳۵

[90] مسند احمد ۱۷۷۱۷، سنن ابوداودكِتَاب الْأَقْضِیَةِ بَابٌ فِی هَدَایَا الْعُمَّالِ۳۵۸۱، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِبَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ۴۷۴۳

[91] مسنداحمد۲۷۱۹۲،سنن نسائی کتاب الامامة باب الْإِسْرَاعُ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ غَیْرِ سَعْیٍ۸۶۳

[92] تفسیرابن کثیر۱۳۶؍۲بحوالہ ابن مردویہ

[93] مسنداحمد۲۰۳،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ۳۰۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ السِّیَرِبَابُ مَا جَاءَ فِی الغُلُولِ۱۵۷۴

[94] السجدة۱۸

[95] الانعام۱۳۲

[96] تفسیرابن ابی حاتم۸۰۷؍۳

[97] تفسیرابن کثیر۱۵۸؍۲

[98] الکہف۱۱۰

[99] الفرقان۲۰

[100] یوسف۱۰۹

[101] الانعام۱۳۰

[102] تفسیرابن کثیر۱۵۹؍۲

[103] الدر المنثور۳۶۹؍۲،تفسیرطبری ۳۷۸؍۷

[104] تفسیرابن کثیر۱۶۰؍۲

[105] تفسیرطبری۳۸۱؍۷

[106] تفسیرابن کثیر۱۶۰؍۲

[107] آل عمران: 168

[108] تفسیرطبری۳۸۳؍۷

[109] تفسیرابن کثیر۱۶۰؍۲

[110] البقرة۱۵۴

[111]صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ بَیَانِ أَنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِی الْجَنَّةِ، وَأَنَّهُمْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ۴۸۸۵،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۱۱ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۰۱

[112] مسند احمد ۱۲۲۷۳، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ تَعَالَى۴۸۶۷

[113] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ۴۰۸۰،صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ وَالِدُ جَابِرٍ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا۶۳۵۵،سنن نسائی کتاب الجنائزبَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۱۸۴۶

[114] آل عمران: 169

[115] مسند احمد ۲۳۸۸،سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی فَضْلِ الشَّهَادَةِ۲۵۲۰

[116] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن باب ومن سورة آل عمران ۳۰۱۰،سنن ابن ماجہ المقدمة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۹۰

[117] مستدرک حاکم۴۹۱۱

[118] مسنداحمد۲۳۹۰

[119] مسنداحمد۱۵۷۷۸،سنن ابن ماجہ کتاب باب ۴۲۷۱

[120] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ۴۰۹۰،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِینَ نَازِلَةٌ۱۵۴۵

[121] ابن ہشام ۲۰۹؍۲،عیون الآثر۷۹؍۲، الروض الانف۱۸۹؍۶،تاریخ طبری۵۵۹؍۲،مغازی واقدی۳۸۷؍۱

[122] تاریخ طبری۵۵۹؍۲

[123] البدایة والنہایة۵۷؍۴

[124] الزمر۳۶

[125] آل عمران: 173

[126] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة ال عمران  بَابُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ ۴۵۶۳،البدایة والنہایة۵۷؍۴

[127]ط

[128] الدر المنثور۳۸۹؍۲

[129] عیون الآثر۸۰؍۲، البدایة والنہایة۱۰۲؍۴

[130] مغازی واقدی۳۸۷؍۱

[131] ابن ہشام۲۰۹؍۲،عیون الآثر۷۹؍۲،البدایة والنہایة ۱۰۱؍۴

[132] دلائل النبوة للبیهقی۳۱۸؍۳

[133] الزمر۳۶تا۳۸

[134] الحج۴۰

[135] محمد۷

[136] المومن۵۱،۵۲

[137] المومنون ۵۵،۵۶

[138] القلم۴۴

[139] التوبة۵۵

[140] تفسیرطبری۴۲۵؍۷

[141] تفسیرطبری۴۲۵؍۷

[142] التوبة۱۰۱

[143] الجن۲۶،۲۷

[144] صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیرآل عمران بَابُ وَلَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَیْرًا لَهُمْ، بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ، سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَلِلَّهِ مِیرَاثُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ۴۵۶۵ ،وکتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ وقول اللہ تعالیٰ ولذین یکنزون الذھب والفضة ولاینفقونھافی سبیل اللہ۱۴۰۳

[145] مسند احمد ۵۷۲۹، ۶۲۰۹، ۶۴۴۸، صحیح ابن خزیمہ۲۲۵۷، جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ۳۰۱۲،سنن نسائی کتاب الزکاة بَابُ التَّغْلِیظِ فِی حَبْسِ الزَّكَاةِ ۲۴۴۳، ۲۴۸۵ ، سنن ابن ماجہ کتاب الزکاةبَابُ مَا جَاءَ فِی مَنْعِ الزَّكَاةِ ۱۷۸۴

[146] تفسیرطبری۲۳۲؍۱۴

[147] تفسیر طبری ۴۳۵؍۷

[148] تفسیر طبری۴۳۴؍۷،المعجم الکبیرللطبرانی۲۳۴۳

[149] مریم ۴۰

[150] القصص۷۷

[151] الحشر۱۸

Related Articles