ہجرت نبوی کا تیسرا سال

مضامین سورۂ النساء 1 تا 43

باری تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں اسلامی معاشرے کی تربیت اوراخلاقی قدروں  تحفظ کے لئے احکام کاایک حصہ نازل کیاتھاجب غزوہ احدمیں مسلمانوں کی طرف سے سترصحابہ رضی اللہ عنہم شہیدہوگئے تو اس حادثہ عظیم کی وجہ سے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی بستی شہداء کے گھروں میں یہ سوال پیداہوگیاکہ ان کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے ،اورجویتیم بچے انہوں نے چھوڑے ہیں ان کے مفادکاتحفظ کیسے ہوچنانچہ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور فوت ہونے والوں کے ورثامثلاًبیواوں ،یتیموں کے حقوق متعین کیے گئے،اسلام سے پہلے عرب میں تعددازواج کارواج تھامگروہ رواج کسی قیدیاضابطے کاپابندنہیں تھااورنہ کوئی تعدادمتعین تھی اورنہ ہی بیویوں کے درمیان عدل ومساوات کی کوئی شرط تھی ،ایک شخص دس دس بلکہ اس سے بھی زیادہ عورتوں سے نکاح کرسکتاتھاپھران میں سے جس کے حقوق چاہتااداکرتااورجسے چاہتامعلق رکھتا،نہ اسے طلاق دی جاتی اورنہ ہی اس کے ازواجی اورمعاشی حقوق اداکیے جاتے،اس سورہ میں اللہ نے بیویوں کی تعدادمتعین کی اوران کے حقوق کی ادائیگی کوبھی فرض کردیا ، اللہ تعالیٰ نےاسلامی معاشرے کے آداب اورہمیشہ کے لئے بیویوں ، اولاد،والدین،بہن بھائیوں اوردوسرے حق داروں کے لئے میراث کی تقسیم کاایک ضابطہ اخلاق مہیاکردیا اورعدل وانصاف پرمبنی ہرایک کے جائزحصے مقررفرمادئے،عائلی زندگی میں زوجین کے اختلافات کی اصلاح کا طریقہ اورایک بہترین معاشرہ کے لئے جوکچھ ضروری ہے اس کاتذکرہ کیاگیا،ان عورتوں کاذکرفرمایاگیاجن سے نکاح کرناحرام ہے ،کچھ تعزیری قوانین مثلاًشراب کی حرمت ،قتل عمد،قتل خطا وغیرہ کاذکرہے،مجاہدین کوجن بے شمار مصائب ومشکلات (افوائیں وغیرہ) پیش آئیں ان کے بارے میں ہدایات دی گئیں ،غزوات وسرایایاعام سفرکے دوران پانی کی کمیابی پرطہارت وپاکیزگی کے لیے غسل اوروضو کے متبادل کے طورپرتیمم کا حکم دیاگیا،جہاں خطرہ سرپرہووہاں صلوٰہ الخوف کا طریقہ بیان کیاگیا ،دوران سفر نماز قصر کے احکام نازل ہوئے ، دارالحرب میں بسنے والوں کو ہجرت کے فضائل وبرکات بیان کرکے ہجرت کی ترغیب اور ان کومظلومیت کی زندگی سے نجات دلانے کے لئے آزاد مسلمانوں کوان کی اعانت کے لئے جہادکاحکم دیا گیا ، منافقوں کی سازشوں سے مسلمانوں کواگاہی دی گئی،یہودیوں کے من گھڑٹ اعتقادات ونظریات کی تردیدکے لئے پیشروں کے حالات بیان کئے گئے ، اور آخرمیں خصوصیت سے دعوت اسلامی کی تبلیغ کے اسلوب اس کا طریقہ کاراوراس سلسلے میں مشکلات ومصائب کا خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا حکم گیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیبًا ‎﴿١﴾‏(النساء )
’’ اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیااور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے سورۂ کی ابتداتقویٰ کی ہدایت سے فرمائی کیونکہ تقویٰ احکام الٰہی پرعمل پیراہونے کے لئے پہلازینہ ہےجس پرانسانیت کی فوزوفلاح کا دارومدار ہے ، فرمایا لوگو! اپنے رب کاتقویٰ اختیارکرویعنی اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرواوراس کی ناراضی سے بچوجس نے تم کوایک جان آدم علیہ السلام سے پیداکیا،تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا اور اپنی قدرت کاملہ سےآدم علیہ السلام کی پیچھے کی جانب سےبائیں پسلی سےاس کا جوڑا بنایاتاکہ وہ اس کے مشابہہ ہواوراسے اس کے پاس سکون حاصل ہو ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ المَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْءٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں  بارے میں میری وصیت کاہمیشہ خیال رکھناکیونکہ عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے ،پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھااوپرکاحصہ ہوتاہے،اگرکوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے توانجام کارتوڑکے رہے گااوراگراسے وہ یونہی چھوڑدے گاتوپھرہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی،پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو،عورتوں سے اچھاسلوک کرو۔[1]

اورپھران دونوں کے ملاپ سے بہت مردوعورت پیداکیے،یعنی تم ایک ہی ماں باپ کی اولادہو،جن کی بول چال ،رنگ وروپ اورصفتیں مختلف ہیں اورانہیں مختلف اصناف وصفات اورمختلف رنگ اوربولیاں عطافرماکر روئے زمین کے کناروں تک پھیلادیا ، پھرایک وقت مقررہ پراللہ انہیں سمیٹ کراعمال کی جوابدہی کے لئےمیدان محشرمیں جمع کرے گا ،جیسے فرمایا

قُلْ هُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [2]

ترجمہ:اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

اس اللہ سے ڈرواوراس کی اطاعت کروجس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو،اورمحرم اورغیرمحرم دونوں رشتے داریاں اورقرابت کے تعلقات کو توڑنےسے پرہیز کرواور ان کے حقوق اداکرو، یعنی قطع رحمی نہ کروبلکہ ان کے حقوق اداکرو،قطع رحمی سخت کبیرہ گناہ ہے،یقین جانوکہ اللہ تمہارے تمام اعمال واحوال پرنگرانی کررہاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاللہُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ۝۶ۧ [3]

ترجمہ:اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔

۔۔۔وَاللہُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ۝۹ۭ [4]

ترجمہ: اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا یَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِیلُ فَقَالَ: مَا الإِیمَانُ؟ قَالَ:الإِیمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَبِلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ. قَالَ: مَا الإِسْلاَمُ؟ قَالَ:الإِسْلاَمُ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلاَ تُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا، وَتُقِیمَ الصَّلاَةَ، وَتُؤَدِّیَ الزَّكَاةَ المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ . قَالَ: مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَاكَ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرماتھے کہ آپ پاس ایک شخص آیااورپوچھنے لگا ایمان کسے کہتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے وجوداوراس کی وحدانیت پرایمان لاؤاوراس کے فرشتوں کے وجودپراوراس (اللہ)کی ملاقات کے برحق ہونے پراوراس کے رسولوں کے برحق ہونے پراورمرنے کے بعددوبارہ اٹھنے پرایمان لاؤ،پھراس نے پوچھااسلام کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرجواب دیااسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤاورنمازقائم کرواورزکوٰة اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو،پھراس نے پوچھا احسان کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااحسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس کروکروگویاتم اسے دیکھ رہے ہو اگریہ درجہ حاصل نہ ہوتوپھریہ توسمجھوکہ وہ تم کودیکھ رہاہے،

قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الإِبِلِ البُهْمُ فِی البُنْیَانِ، فِی خَمْسٍ لاَ یَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ “ ثُمَّ تَلاَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ}[5] الآیَةَ،

پھراس نے پوچھاقیامت کب آئے گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا،البتہ میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلاسکتاہوں ،وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کوجنے گی،اورجب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے)مکانات کی تعمیرمیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، (یادرکھو)قیامت کاعلم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کواللہ کے سواکوئی نہیں جانتا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی

اِنَّ اللهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ۝۰ۚ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ۝۰ۚ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَام۝۰ِۭ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا۝۰ۭ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۳۴ۧ [6]

ترجمہ: قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے(کہ وہ کب ہوگی) وہی بارش برساتا ہے ، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے ، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے ، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَالَ:رُدُّوهُ فَلَمْ یَرَوْا شَیْئًا، فَقَالَ:هَذَا جِبْرِیلُ جَاءَ یُعَلِّمُ النَّاسَ دِینَهُمْ

پھروہ پوچھنے والاپیٹھ پھیرکرجانے لگاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاا واپس بلاکرلاؤلوگ دوڑپڑے مگروہ کہیں نظرنہیں آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جولوگوں کوان کادین سکھانے آئے تھے۔[7]

وَآتُوا الْیَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیثَ بِالطَّیِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِیرًا ‎﴿٢﴾‏ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ‎﴿٣﴾‏ وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِیئًا مَّرِیئًا ‎﴿٤﴾(النساء )
’’ اور یتیموں کا مال ان کو دے دو اورپاک اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے، اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی، یہ زیادہ قریب ہے کہ ( ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھک پڑنےسے بچ جاؤ ، اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ،ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ لو۔‘‘

دورجاہلیت میں مال ودولت کے لالچ میں لوگ یتیم بچوں اورخصوصایتیم رشتہ داروں کامال ہڑپ کرجاتے یاکسی نہ کسی طرح اس میں خوردبردکرتے ،بظاہرتویتیموں کی ہمدردی کرتے اوران کے لئے کام کرتے نظرآتے لیکن دراصل کاروبارکے انتظامی امورکے بہانے سے یتیموں کامال اپنے مال میں ملالیتے،یتیم لڑکیوں پربھی ظلم کی کئی صورتیں تھی کیونکہ یتیم لڑکی جب کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی تووہ اس کی حق تلفی کرتااوراس پرظلم کاارتکاب کرتاتھایاتواس کاتمام مال یااس کاکچھ حصہ کھاجاتا،اوراگرلڑکی مالدار مگر بدصورت ہوتی تواس کے ولی یااس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا اس کے ساتھ نکاح کرنے کی رغبت تو نہ رکھتے مگرمال کی وجہ سے نکاح کرلیتے ،جیسے ایک شخص نے ایک یتیم لڑکی سے صرف ایک کھجورکے تنے کی خاطرنکاح کرلیاحالانکہ اسے اس لڑکی سے کوئی خاص رغبت نہ تھی لیکن اس کھجورکے تنے کے لالچی میں اسےچھوڑتا بھی نہ تھا، اوراگروہ کسی شخص سے نکاح کاارادہ کرتی تو اس شخص پراس خوف سے کہ اگراس نے اس کانکاح کرلیا تووہ شخص اس کے حصہ کی جائیدادمیں شریک بن جائے گا اوروہ اس کے مال سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے زیادہ حق مہراوردوسری کڑی شرائط وغیرہ عائدکرتا تاکہ وہ اپنے ارادہ سے بازرہے یااگروہ اس کے حسن وجمال کی وجہ سے اس کے ساتھ خودنکاح کرنے کی خواہش رکھتاتواس کے مہرکوساقط تونہ کرتامگروہ اسے اتناحق مہربھی ادانہ کرتاجتنے مہرکی وہ مستحق ہوتی،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ رَجُلًا كَانَتْ لَهُ یَتِیمَةٌ فَنَكَحَهَا، وَكَانَ لَهَا عَذْقٌ، وَكَانَ یُمْسِكُهَا عَلَیْهِ، وَلَمْ یَكُنْ لَهَا مِنْ نَفْسِهِ شَیْءٌ فَنَزَلَتْ فِیهِ: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى} أَحْسِبُهُ قَالَ: كَانَتْ شَرِیكَتَهُ فِی ذَلِكَ العَذْقِ وَفِی مَالِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک شخص ایک یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس لڑکی کا ایک کھجور کا باغ تھا اس شخص نے اس باغ کے لالچ میں نکاح کرلیا مگر دل میں محبت نہ تھی چنانچہ اس کے متعلق یہ آیت ’’اگرتمہیں ڈرہوکہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکوگے۔‘‘نازل ہوئی ابرہیم کہتے ہیں شاید ہشام نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ عورت اس آدمی کے باغ اور دوسرے مال وغیرہ میں شریک کی حیثیت رکھتی تھی۔[8]

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى} فَقَالَتْ: یَا ابْنَ أُخْتِی، هَذِهِ الیَتِیمَةُ تَكُونُ فِی حَجْرِ وَلِیِّهَا، تَشْرَكُهُ فِی مَالِهِ، وَیُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَیُرِیدُ وَلِیُّهَا أَنْ یَتَزَوَّجَهَا بِغَیْرِ أَنْ یُقْسِطَ فِی صَدَاقِهَا، فَیُعْطِیَهَا مِثْلَ مَا یُعْطِیهَا غَیْرُهُ، فَنُهُوا عَنْ أَنْ یَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ یُقْسِطُوا لَهُنَّ، وَیَبْلُغُوا لَهُنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ فِی الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أَنْ یَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَإِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الآیَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَیَسْتَفْتُونَكَ فِی النِّسَاءِ} [9] “، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى فِی آیَةٍ أُخْرَى: {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} [10]: رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ یَتِیمَتِهِ، حِینَ تَكُونُ قَلِیلَةَ المَالِ وَالجَمَالِ، قَالَتْ: فَنُهُوا أَنْ یَنْكِحُوا عَنْ مَنْ رَغِبُوا فِی مَالِهِ وَجَمَالِهِ فِی یَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالقِسْطِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ إِذَا كُنَّ قَلِیلاَتِ المَالِ وَالجَمَالِ

ابن شہاب نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت ’’اگرتہیں ڈرہوکہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر تم انصاف نہ رکھ سکوگے۔‘‘کامطلب دریافت کیاتوانہوں نے فرمایابھانجے!یہ اس یتیم لڑکی کاذکرہے جواپنے ولی کے قبضہ میں ہے ،اس کے مال میں شریک ہے اوراسے اس کامال وجمال اچھالگتاہے اوروہ چاہتاہے کہ اس سے نکاح کرلے لیکن جومہروغیرہ دوسری جگہ اسے ملتاہے یہ اتناادانہیں کرتاتواسے منع کیاجارہاہے کہ وہ اس سے نیت چھوڑدے اورکسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنانکاح کرلے، پھراس کے بعدلوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیااورآیت وَیَسْتَفْتُونَكَ فِی النِّسَاءِ نازل ہوئی اوروہاں فرمایاگیاکہ جب یتیم لڑکی کم مال اورجمال والی ہوتی ہے اس وقت تواس کے ولی اس سے بے رغبتی کرتے ہیں پھرکوئی وجہ نہیں کہ مال وجمال پرمائل ہوکراس کے پورے حقوق ادانہ کرکے اس سے اپنانکاح کرلیں ،ہاں عدل وانصاف سے پورامہروغیرہ مقررکریں توپھرکوئی حرج نہیں ۔[11]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگو! جب یتیم بالغ اورباشعورہوجائیں توان کے اموال ان کے سپردکردو،اوران کے اموال سےاچھی چیزیں لے کرمحض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیاچیزیں مت دو،

وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ وَالزُّهْرِیُّ: لَا تُعْط مَهْزُولًا وَتَأْخُذْ سَمِینًا

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ اورامام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کمزوراورمریل جانوردے کران کے صحت منداورموٹے جانورکونہ لے لو۔[12]

وَقَالَ السُّدِّی: كَانَ أَحَدُهُمْ یَأْخُذُ الشَّاةَ السَّمِینَةَ مِنْ غَنم الْیَتِیمِ وَیَجْعَلُ فِیهَا مَكَانَهَا الشَّاةَ الْمَهْزُولَةَ وَیَقُولُ شَاةٌ بِشَاةٍ، وَیَأْخُذُ الدِّرْهَمَ الجَیِّد وَیَطْرَحُ مَكَانَهُ الزّیْف وَیَقُولُ: دِرْهَمٌ بِدِرْهَمٍ

سدی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ اس طرح کیاکرتے تھے کہ یتیم مال میں سے موٹی تازی اورصحت مندبکری کوتوخودرکھ لیتے اوراس کے بجائے یتیم کودبلی پتلی بکری دے دیتے تھے اورکہتے تھے کہ یہ بکری کے بدلے میں بکری ہے،اسی طرح عمدہ درہم کوتوخودرکھ لیتے اوریتیم کوکھوٹادرہم دے دیتےاورکہتے تھے کہ یہ درہم کے بدلے میں درہم ہے۔[13]

اوربددیانتی سےان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملاکرنہ کھاؤ،

قَوْلَهُ: {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ} یَقُولُ: لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، تَخْلِطُوهَا وَتَأْكُلُوهَا جَمِیعًا وَرُوِیَ عَنِ مُجَاهِدٍ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ وَمُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ، وَسُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ نَحْوُ ذَلِكَ

اللہ تعالیٰ کافرمان’’اوراپنے مالوں  ساتھ ان کے مال ملاکرکھانہ جاؤ۔‘‘ کے بارے میں مجاہد،سعیدبن جبیر،مقاتل بن حیان ،سدی اورسفیان بن حسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کامال اپنے مال میں نہ ملاؤتاکہ سارے مال ہی کوکھاجاؤ۔[14]

یہ بہت بڑاگناہ اوربہت بڑی خطاہےاس لیے اس سے اجتناب کرو، اگرتمہیں اندیشہ ہوکہ تم پرہیزگاری کے ساتھ یتیم لڑکیوں کے حقوق ویسے ادانہیں کرسکتے جوتمہاری پرورش اورسرپرستی میں ہیں توتم ان کے علاوہ دوسری عورتیں جوتمہیں دین،مال،حسب ونسب اورحسن وجمال میں اچھی لگیں کے ساتھ نکاح کرلو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِینِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ، تَرِبَتْ یَدَاكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت سے چارصفات کی بناپرنکاح کیا جاتاہے ،اس کے مال ،اس کے حسن وجمال ،اس کے حسب ونسب اوراس کے دین کی وجہ سے،تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تودین دارعورت سے نکاح کرنے کی کوشش کر۔ [15]

مگر یہ جاہلیت کے دورکی طرح لا محدود نکاہوں کاسلسلہ نہیں ہوگاجہاں عورتوں میں عدل وانصاف ، الفت ومحبت کا فقدان تھااس لئے اگرتم ان عورتوں کے جائز حق مہر،ان کے حقوق،محبت والفت اوردوسری ضروریات میں عدل وانصاف پرقائم رہ سکتے ہو تو بیک وقت چاربیویاں رکھ سکتے ہولیکن یہ بہت ہی مشکل اورکٹھن معاملہ ہے ،جیسے ایک مقام پرنہایت بلیغانہ اندازمیں فرمایا

وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۔۔۔۝۱۲۹ [16]

ترجمہ:بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَسْلَمَ غَیْلَانُ بْنُ سَلَمَةَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب طائف کےرئیس غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اس وقت ان کے عقدمیں دس بیویاں تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاان میں سے چارکوچن لے(اورباقی کوچھوڑدے)۔[17]

عَنْ قَیْسِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی ثَمَانِ نِسْوَةٍ، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا

قیس بن حارث بیان کرتے ہیں جب میں نے اسلام قبول کیا اس وقت میرے نکاح میں آٹھ بیویاں تھیں ،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااوراس کے بارے میں بتلایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان میں سے چار کو چن لے۔[18]

عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الدِّیلِیِّ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی خَمْسُ نِسْوَةٍ فَقَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمْسِكْ أَرْبَعًا أَیَّتَهُنَّ شِئْتَ وَفَارِقِ الْأُخْرَى، فَعَمَدْتُ إِلَى أَقْدَمِهِنَّ صُحْبَةً عَجُوزٍ عَاقِرٍ مَعِی مُنْذُ سِتِّینَ سَنَةً فَطَلَّقْتُهَا

نوفل بن معاویہ کہتے ہیں جب میں نے اسلام قبول کیاتواس وقت میرے نکاح میں پانچ بیویاں تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاان میں سے پسندکرکے چارکورکھ لواور ایک کوچھوڑدو،چنانچہ میں نے سب سے زیادہ عمرکی بڑھیااوربے اولادبیوی کوجوساٹھ سال کی تھی طلاق دے دی[19]

قَالَ الشَّافِعِیُّ:وَقَدْ دَلَّت سُنَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُبِیِّنَةُ عَنِ اللهِ أَنَّهُ لَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ غیررَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجْمَعَ بَیْنَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ.وَهَذَا الَّذِی قَالَهُ الشَّافِعِیُّ، رَحِمَهُ اللهُ، مُجْمَعٌ عَلَیْهِ بَیْنَ الْعُلَمَاءِ، إِلَّا مَا حُكی عَنْ طَائِفَةٍ مِنَ الشِّیعَةِ أَنَّهُ یَجُوزُ الْجَمْعُ بَیْنَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ إِلَى تِسْعٍ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بِلَا حَصْرٍ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث جوقرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلادیاہے کہ سوائےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے لئے چارسے زائدبیویوں کابیک وقت جمع کرناجائزنہیں ،اسی پرعلماء کرام کااجماع ہے البتہ بعض شیعہ کاقول ہے کہ نوتک جمع کرنی جائزہے بلکہ بعض شیعہ نے تویہاں تک کہاہے کہ نوسے زائدجمع کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں ،کوئی تعدادمقررہے ہی نہیں ۔[20]

وَهَذَا عِنْدَ الْعُلَمَاءِ مِنْ خَصَائِصِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دُونَ غَیْرِهِ مِنَ الْأُمَّةِ

ہمارے علماء کرام اس جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں تھاکسی امتی کوایک وقت میں چارسے زائدبیویوں کوایک وقت میں جمع کرناجائزنہیں ہے۔[21]

اعلم ان الفقھاء اتفقواعلی تزوج الاربع من الحرائرخلافاللروافض فانھم یجوزون تسعامن الحرائروھکذانقل عن ابن ابی لیلی وابراہیم النغعی

فقہ حنفی کی کتاب معراج الدرایہ شرح الہدایہ صفحہ ۱۸ قلمی میں ہے فقہانے اتفاق کیاہے کہ آزادعورتوں سے صرف چارعورتیں ہی نکاح میں لائی جائیں ،برعکس روافض کے کہ وہ نوآزادعورتوں سے(بیک وقت)نکاح جائزکہتے ہیں یہی مذہب ابن ابی لیلی اورابراہیم نخعی سے بھی منقول ہے۔

عن ابن عباس فی قوله تعالى: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ} :لا یَحِلُّ لَهُ أَنْ یَتَزَوَّجَ فَوْقَ أَرْبَع نسوة، فَمَا زَادَ منهن فهن عَلَیْهِ حَرَامٌ كَأُمِّهِ وابنته وَأُخْتِهِ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاآیت کریمہ ’’اور(حرام کی گئیں )شوہروالی عورتیں مگروہ جوتمہاری ملکیت میں آجائیں ۔‘‘کے بارے میں فرمایاجوچارسے زائدہوں وہ ماں ،بیٹی اورہمشیرہ کی طرح حرام ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان مثنیٰ وثلاث ورباع موجودہے۔[22]

عورتوں کے حقوق کی جوابدہی تمہیں اللہ کے ہاں کرنے ہے اس لئے اگرتم عدل وانصاف کی کٹھن شرط پوری نہیں کرسکتے توبہتریہی ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو اوراگرایک آزاد خاندانی بیوی کاباربھی برداشت نہ کرسکوتو پھر ان لونڈیوں کوزوجیت میں لاؤ جن کے تم مالک ہو ،ایک بیوی یالونڈیوں پراکتفاکرنااس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرواورجن عورتوں کی شرم گاہوں کوتم لوگوں نے اللہ کے نام سے حلال کیاہے ان کی مہرفرض جان کرخوشدلی کے ساتھ اداکرو،

ابْنَ زَیْدٍ، یَقُولُ فِی قَوْلِهِ: {وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً} قَالَ: النِّحْلَةُ فِی كَلَامِ الْعَرَبِ: الْوَاجِبُ یَقُولُ: لَا یَنْكِحُهَا إِلَّا بِشَیْءٍ وَاجِبٍ لَهَا صَدَقَةً، یُسَمِّیهَا لَهَا وَاجِبَةً وَلَیْسَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَنْكِحَ امْرَأَةً بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِصَدَاقٍ وَاجِبٍ وَلَا یَنْبَغِی أَنْ یَكُونَ تَسْمِیَةُ الصَّدَاقِ كَذِبًا بِغَیْرِ حَقٍّ

ابن زید اللہ تعالیٰ فرمان وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً کے بارے میں کہتے ہیں النِّحْلَةُ عربی زبان میں واجب کوکہتے ہیں یعنی عورت کے لیے کسی چیزکوواجب کیے بغیراس سے نکاح مت کروکیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کے لیے یہ جائزنہیں کہ مہرواجب کیے بغیرکسی عورت سے نکاح کرلے اورمہرناحق اور جھوٹ پر بھی مبنی نہیں ہوناچاہیے۔[23]

ان میں نہ کمی کرواورنہ ٹال مٹول سے کام لو،ہاں اگروہ تمہاری محبت ،حسن سلوک اورعدل وانصاف سے خوش ہو کر خود بررضا و رغبت مہرمیں سے کچھ حصہ یا سارا کا سارا معاف کردیں توپھریہ تمہارے لئے حلال اورپاکیزہ ہے اسے شوق سے کھاؤپیو،

وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى قُضَاتِهِ: إِنَّ النِّسَاءَ یُعْطِینَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً، فَأَیُّمَا امْرَأَةٍ أَعْطَتْهُ ثُمَّ أَرَادَتْ أَنْ تَرْجِعَ فَذَلِكَ لَهَا ،قَالَ شُرَیْحٌ: لَوْ طَابَتْ نَفْسُهَا لَمَا رَجَعَتْ

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قاضیوں کولکھا اگرکسی عورت نے اپنے شوہرکورغبت اورمحبت سےپوراکاپوراحق مہریااس کاکچھ حصہ معاف کردیاہو اوربعدمیں وہ اس کاپھرمطالبہ کرے توشوہرکواس کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا(کیونکہ اس کامطالبہ کرنایہ معنیٰ رکھتاہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہریااس کاکچھ حصہ چھوڑنانہیں چاہتی)اورقاضی شریح کابھی یہی فیصلہ ہے کہ اگرمعاف کیے ہوئےمہرکامطالبہ کیاجائے گاتوواپس کیاجائے گا۔[24]

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِی جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِیَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِیهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ‎﴿٥﴾‏ وَابْتَلُوا الْیَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَیْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن یَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِیرًا فَلْیَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَیْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَیْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِیبًا ‎﴿٦﴾‏(النساء)
’’ بےعقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو، اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کردو، مال داروں کو چاہیے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔‘‘

اوراپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کاذریعہ بنایاہےنابالغ بچوں ،فضول خرچ بیویوں اوربے سمجھ لوگوں کے اختیارومالکانہ اختیارو تصرف میں نہ دے دو تاکہ وہ اپنی ناسمجھی میں غلط طریقے سے استعمال کرکے نظام تمدن ومعیشت اوربالآخرنظام اخلاق کوخراب کردیں البتہ انہیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ اورانہیں نیک ہدایت کرو،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، لَا تَعْمَد إِلَى مَالِكَ وَمَا خَوَّلك اللهُ، وَجَعَلَهُ مَعِیشَةً، فتعطیَه امْرَأَتَكَ أَوْ بَنیكَ ثُمَّ تُنْظُرَ إِلَى مَا فِی أَیْدِیهِمْ، وَلَكِنْ أمْسكْ مَالَكَ وأصلحْه وَكُنْ أَنْتَ الَّذِی تُنْفِقُ عَلَیْهِمْ من كسْوتهم وَمُؤْنَتِهِمْ وَرِزْقِهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تیرامال جس پرتیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کونہ دے ڈال کہ پھرضرورت کے وقت ان کاہاتھ تکتاپھرےبلکہ اپنامال اپنے قبضے میں رکھ،اس کی اصلاح کرتارہ،اورخوداپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کابندوبست کراور دیگرضروریات کے لیےان کاخرچ اٹھا۔[25]

عَنْ أَبِی مُوسَى قَالَ: ثَلَاثَةٌ یَدْعُونَ اللَّهَ فَلَا یَسْتَجِیبُ لَهُمْ: رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ امْرَأَةٌ سَیّئة الخُلُق فَلَمْ یُطَلقها، وَرَجُلٌ أَعْطَى مَالَهُ سَفِیهًا، وَقَدْ قَالَ: {وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ} وَرَجُلٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ دَیْنٌ فَلَمْ یُشْهِد عَلَیْهِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین قسم کے لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتاایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہواورپھربھی وہ اسے طلاق نہ دے،دوسراوہ شخص جواپنامال بے وقوف کودے دےحالانکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے بیوقوف کواپنامال سپرد نہ کرو،تیسراوہ شخص جس کاقرض کسی پرہواوراس نے اس قرض پرکسی کو گواہ نہ بنایا ہو ۔[26]

اورجب یتیم سن بلوغ کوپہنچ رہے ہوں توان کوجانچتے رہوکہ کیاوہ اپنی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہورہے ہیں یانہیں ،

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ، وَلَا صُمَاتَ یَوْمٍ إِلَى اللَّیْلِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات یادرکھی ہے احتلام بعدیتیمی نہیں اورصبح سے رات ترک خاموش رہنا نہیں (قبل از اسلام چپ کاروزہ لوگوں کامعمول تھااسلام نے اس سے منع کردیااوراللہ کاذکرکرنے اوربولنے کاحکم دیاگیاہے)۔[27]

پھراگرتم ان کے اندرہوشیاری اورمال کے صحیح استعمال کی اہلیت پاؤتو ان کاپورے کاپورامال ان کے حوالے کر دو،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَوْلَهُ: {فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا} قَالَ: صَلَاحًا فِی دِینِهِمْ وَحِفْظًا لِأَمْوَالِهِمْ

سعیدبن جبیرفرماتے ہیں ’’پھراگران میں تم ہوشیاری اورحسن تدبیرپاؤ۔‘‘ سے مرادیہ ہے کہ تم یہ دیکھوکہ وہ دین اعتبارسے پختہ ہیں اوراپنے مال کی حفاظت کرسکتے ہیں توان کامال ان کے سپردکردو۔[28]

وَهَكَذَا قَالَ الْفُقَهَاءُ متَى بلغَ الْغُلَامُ مُصْلحًا لِدِینِهِ وَمَالِهِ، انْفَكَّ الْحَجْرُ عَنْهُ، فَیُسَلَّمُ إِلَیْهِ مَالُهُ الَّذِی تَحْتَ یَدِ وَلَیِّهِ بِطَرِیقِهِ

فقہاء نے بھی یہی کہاہے کہ جب بچہ اپنے دین ومال کی حفاظت قابل ہوجائے تواس سے پابندی ختم ہو جاتی ہے،لہذااس کے ولی کے پاس اس کاجومال ہووہ اس کے سپردکردیاجائے۔[29]

ایساکبھی نہ کرناکہ حدانصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھاجاؤ کہ وہ بڑے ہوکراپنے حق کامطالبہ کریں گے،دوران پرورش اگران کاولی صاحب حیثیت ہے تواسے پرہیزگاری کام لیتے ہوئے اپناحق الخدمت نہیں لیناچاہیےبلکہ وہ اپناحق الخدمت کاصلہ اللہ کے حوالے کردے، اوراگریتیموں کاولی مالی لحاظ سے کمزورحیثیت کا ہے تووہ اپناحق لخدمت یتیموں کے مال سے لے سکتاہے مگراسے علانیہ متعین کرکے لیناچاہیےاور اتناکم لیناچاہیے کہ ہرغیرجانبداراورمعقول آدمی اسے مناسب خیال کرے،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّی فَقِیرٌ لَیْسَ لِی شَیْءٌ وَلِی یَتِیمٌ. قَالَ: فَقَالَ:كُلْ مِنْ مَالِ یَتِیمِكَ غَیْرَ مُسْرِفٍ، وَلَا مُبَادِرٍ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ

عمروبن شعیب اپنے والدسے ،وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس آیا اور کہا میں فقیرہوں اورمیرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے ہاں ایک یتیم بھی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتواپنے یتیم کے مال سے کھاسکتاہے لیکن اسراف اورفضول خرچی نہ ہو،نہ جلدی کرنے والاہو(کہ اس کے بڑے ہونے سے پہلے پہلے اس کے مال کوخرچ کرڈالے)اورنہ اس کے مال سے توکوئی جمع پونجی بنانے والاہو۔[30]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مِمَّا أَضْرِبُ مِنْهُ یَتِیمِی، قَالَ:مِمَّا كُنْتَ ضَارِبًا مِنْهُ وَلَدَكَ غَیْرَ وَاقٍ مَالَكَ بِمَالِهِ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ مِنْ مَالِهِ مَالًا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے یتیم کوادب سکھانے کے لئے ضرورتاًکس چیزسے ماروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس سے تواپنے بچے کوتنبیہ کرتاہے،اپنامال بچاکراس کا مال خرچ نہ کرنانہ اس کے مال سے دولت مندبننے کی کوشش کر۔[31]

عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: قَالَ لِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: إِنِّی أَنْزَلْتُ نَفْسِی مِنْ مَالِ اللهِ بِمَنْزِلَةِ وَالِی الْیَتِیمِ، إِنِ احْتَجْتُ أَخَذْتُ مِنْهُ، فَإِذَا أَیْسَرْتُ رَدَدْتُهُ، وَإِنِ اسْتَغْنَیْتُ اسْتَعْفَفْتُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے جب خلافت سنبھالی تواعلان فرمایامیری حیثیت یہاں یتیم والی کی حیثیت ہے اگرمجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تومیں بیت المال سے کچھ نہیں لوں گااوراگرمحتاجی ہوئی توبطورقرض لوں گا اور جب آسانی ہوئی پھرواپس کردوں گا۔[32]

پھر اللہ تعالیٰ نے والیوں کوحکم فرمایاکہ جب یتیموں کے مال ان کے حوالے کرنے لگوتولوگوں کواس پر گواہ بنالوتاکہ انکارکرنے کا وقت ہی نہ آئے، اورباریک حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے،کیونکہ یتیم کے مال کاولی بننابڑی ذمہ داری کاکام ہے،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّی أَرَاكَ ضَعِیفًا، وَإِنِّی أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِی، لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَیْنِ، وَلَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیمٍ

اس سلسلہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ ! میں تجھ کوناتواں پاتاہوں اورمیں تیرے لئے وہی پسندکرتاہوں جواپنے لئے پسندکرتاہوں تم دوآدمیوں میں کبھی امیرنہ بننااورنہ کسی یتیم مال کاوالی اورسرپرست۔[33]

لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا ‎﴿٧﴾(النساء)
ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی، (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں ) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں ) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔

میراث کے بارے میں حکم :دورجاہلیت میں عرب اپنی جابریت اورقساوت قلبی کی وجہ صرف طاقتورمردوں کوجوجنگ وجدل اورلوٹ مارمیں حصہ لینے کے قابل ہوتے میراث دیاکرتے تھے اور بچے اورعورتیں وراثت سے محروم رہتے تھے ،

عن جابر قَالَ: جَاءَتْ أُمُّ كُجَّةإِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِیَ ابْنَتَیْنِ، وَقَدْ مَاتَ أَبُوهُمَا، وَلَیْسَ لَهُمَا شَیْءٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأقْرَبُونَ} الْآیَةَ، وَسَیَأْتِی هَذَا الحدیثُ عِنْدَ آیَتَیِ الْمِیرَاثِ بِسِیَاقٍ آخَرَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ام کجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورعرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دولڑکے ہیں ان کے والدفوت ہوگئے ہیں ان کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے،پس اس موقع پر یہ آیت ’’ماں باپ اورخویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کاحصہ بھی ہے اورعورتوں کابھی۔‘‘ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اورمیراث کاایک ضابطہ نازل فرماکرطاقتورمردوں ،بچوں اورعورتوں ،سب کی مساویانہ حیثیت قائم کردی ۔[34]

x ماں باپ اورقریبی رشتہ دارجومال چھوڑجائیں اس میراث میں صرف مردوں ہی کاحصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حقدارہیں ،اس طرح پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کومیراث کاحق فرمایا۔

xمیراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔

xپوراکاپورامال تقسیم ہوگاجس میں منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد ،زرعی اورغیرزرعی،آباداورغیرآباد زمینیں سب شامل ہیں ۔

xمورث کی زندگی میں کوئی حق میراث پیدانہیں ہوتابلکہ میراث کاحق اس وقت پیداہوتاہے جب مورث کوئی مال چھوڑکرمراہو۔

xقریب تررشتہ دارکی موجودگی میں بعیدتررشتہ دارمیراث نہ پائے گا۔

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ‎﴿٨﴾(النساء)
جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔

اوراللہ تعالیٰ نے غیروارث رشتوں کوجوڑنے ،غریبوں یتیموں اورمسکینوں کی دل جوئی کے لئے میت کے وارثوں کو اخلاقی ہدایت فرمائی کہ جب ترکہ تقسیم ہورہاہواوراس وقت تمہارے غیروارث رشتہ دار، غریب ومسکین جمع ہوجائیں توکم ظرف لوگوں کی طرح ان سے بے رخی اختیاکرنے یاتلخ کلامی کے بجائے شریں کلامی کرو،اوروسعت قلب سے کام لے کرجتناہوسکےبطورصدقہ اور دل جوئی کے لئے انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیاکرو۔

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ یُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَلیُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَیْنِ أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَیْنِ، فَإِنَّهُ وَلِیَ عِلاَجَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کسی کاغلام کھانالائے اوروہ اسے اپنے ساتھ (کھلانے لئے)نہ بٹھاسکے تو اسے ایک یادونوالے ضرورکھلادے ، یا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَیْنِ کے بدل أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَیْنِ (یعنی ایک یادولقمے)فرمایاکیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔[35]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا خَالَطَتِ الصَّدَقَةُ مَالًا إِلَّا أَهْلَكَتْهُ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جوشخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کامال اس وجہ سے غارت ہو جاتاہے۔[36]

چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاطریقہ یہ تھاکہ جب ان کے سامنےموسم کاپہلاپھل آتاتووہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں برکت کی دعافرماتے، اورپھروہاں موجودسب سے چھوٹے بچے کوعطاکردیتے،یہ جانتے ہوئے کہ یہ ننھابچہ نہایت شدت سے اس کی خواہش رکھتاہوگا۔

وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْهِمْ فَلْیَتَّقُوا اللَّهَ وَلْیَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ‎﴿٩﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ‎﴿١٠﴾‏ (النساء)
’’چاہیے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جنکے ضائع ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے(تو ان کی چاہت کیا ہوتی) پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں ،جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کواس بات کاخیال کرکے ڈرناچاہیے کہ اگروہ خوداپنے پیچھے چھوٹے بے بس اولادچھوڑتے تومرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے،پس چاہیے کہ وہ دوسروں کی سرپرستی کرنے میں اللہ کاخوف کریں اورجچی تلی بات کہا کریں ،

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عباس: هَذَا فِی الرَّجُلِ یَحْضُره الْمَوْتُ فَیَسْمَعُهُ الرَّجُلُ یُوصِی بِوَصِیَّةٍ تَضر بِوَرَثَتِهِ، فَأَمَرَ اللهُ تَعَالَى الَّذِی یَسْمَعُهُ أَنْ یَتَّقِیَ اللهَ، وَیُوَفِّقَهُ وَیُسَدِّدَهُ لِلصَّوَابِ،وَلْیُنْظَرْ لِوَرَثَتِهِ كَمَا كَانَ یُحِبُّ أَنْ یُصْنَعَ بِوَرَثَتِهِ إِذَا خَشِیَ عَلَیْهِمُ الضَّیْعَةَ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ یہ آیت اس شخص بارے میں نازل ہوئی ہے جسے موت آگئی ہواوراسے کوئی شخص سنے کہ وہ ایسی وصیت کررہاہے جواس کے وارثوں کے لیے نقصان دہ ہے،تواللہ تعالیٰ نے اس وصیت سننے والے کویہ حکم دیاہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اوراسے سمجھابجھاکرراہ راست کی طرف موڑدے اوروہ اس کے وارثوں کوبھی اسی طرح دیکھے جیسے وہ اپنے وارثوں کودیکھنااورانہیں ضائع ہونے سے بچاناپسندکرتاہے۔[37]

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: عَادَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ، مِنْ وَجَعٍ أَشْفَیْتُ مِنْهُ عَلَى المَوْتِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ بِی مِنَ الوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ یَرِثُنِی إِلَّا ابْنَةٌ لِی وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْ مَالِی؟ قَالَ:لاَ قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ:لاَ. قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟، قَالَ:وَالثُّلُثُ كَثِیرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِیَاءَ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِی بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِی فِی امْرَأَتِكَ

عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں حجة الوداع موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے،بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لاڈالاتھا،تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایاہے میرامرض اس حدتک پہنچ گیاہے اور میں مال والا ہوں اور اپنا وارث صرف ایک بیٹی کو چھوڑ رہا ہوں کیا میں اپنا دوتہائی مال خیرات کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے عرض کیا کہ کیا نصف مال خیرات کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے عرض کیا تہائی مال وقف کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی مال بھی زیادہ ہے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ ان کو محتاج چھوڑے کہ لوگوں کے پاس دست سوال دراز کرتے پھریں اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے تو جو بھی خرچ کرے گا تجھے اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ (لقمہ بھی) جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔[38]

جولوگ ظلم کے ساتھ زیرکفالت یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اوروہ ضرورجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الیَتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات مہلک گناہوں سے بچو،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیاکیاہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرنا،جادوکرنا،ناحق کسی کی جان لیناسوائے اس کے کہ حق کے ساتھ ہو،یتیم کامال ہڑپ کرجانا،جنگ کے دن(کافروں کاسامناکرنے سے)پشت پھیرکر چلے جانا،اورپاک دامن غافل مومن عورتوں کوتہمت لگانا۔[39]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِّثْنَا مَا رَأَیْتَ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ بِكَ. قَالَ:انْطُلِقَ بِی إِلَى خَلْقٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ كَثِیرٍ، رِجَالٌ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ لَهُ مِشْفَرَانِ كَمِشْفَرِ الْبَعِیرِ، وَهُوَ مُوَكَّلٌ بِهِمْ رِجَالٌ یَفُكُّونَ لُحَى أَحَدِهِمْ، ثُمَّ یُجَاءُ بِصَخْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَتُقْذَفُ فِی فِی أَحَدِهِمْ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أَسْفَلِهِ، وَلَهُ خُوَارٌ , وَصُرَاخٌ، فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ {الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا} [40]

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوچھا اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے معراج کی رات میں کیادیکھا، فرمایا میں نے بہت سے لوگوں کودیکھاکہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اورفرشتے انہیں گھسیٹ کران کا منہ خوب کھول دیتے ہیں ، پھرجہنم کے گرم پتھران میں ٹھونس دیتے ہیں جوان کے پیٹ میں اترکرپیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں ، اوروہ بری طرح چیخ چلارہے ہیں ،ہائے ہائے مچارہے ہیں ،میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھایہ کون لوگ ہیں ؟جبرائیل علیہ السلام نے کہا ’’ یہ یتیموں کامال کھاجانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھررہے ہیں اورعنقریب جہنم میں جائیں گے۔‘‘[41]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أُحَرِّجُ مَالَ الضَّعِیفیْن: الْمَرْأَةِ وَالْیَتِیمِ أَیْ أُوصِیكُمْ بِاجْتِنَابِ مَالِهِمَا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کامال پہنچا دو، عورتوں کااوریتیم کاان کے مال سے اجتناب کرو۔[42]

چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی توجن لوگوں کے گھروں میں یتیم تھے انہوں نے ان کا کھاناپانی بھی الگ کردیا،جس سے عموماً ایسا ہونے لگاکہ کھانے پینے کی کوئی چیزبچ جاتی تویاتواسی باسی چیزکودوسرے وقت کھالیتے اوراگروہ سڑجاتی تواسے پھینک دیتے مگر گھروالوں میں سے کوئی اسے ہاتھ لگانا پسندنہ کرتا،جب یہ بات ناگوارہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کاذکرہواجس پراللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی

 وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰی۝۰ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ۝۰ۭ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَاَعْنَتَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۲۲۰ [43]

ترجمہ:پوچھتے ہیں یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو جس طرزِ عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے، اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں ، بُرائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے، اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا مگر وہ صاحبِ اختیار ہونے کے ساتھ صاحبِ حکمت بھی ہے۔

پھرلوگوں نے لوگوں نے یتیموں کا کھانا پینااپنےساتھ کردیا۔

یُوصِیكُمُ اللَّهُ فِی أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ یَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِی بِهَا أَوْ دَیْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَیُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِیضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١١﴾‏(النساء)
’’ اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے، اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گااور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہےاگر اس( میت )کی اولاد ہو ، اوراگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں ،بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔ ‘‘

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ بِابْنَتَیْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ یَوْمَ أُحُدٍ شَهِیدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ یَدَعْ لَهُمَا مَالاً وَلاَ تُنْكَحَانِ إِلاَّ وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: یَقْضِی اللَّهُ فِی ذَلِكَ فَنَزَلَتْ: آیَةُ الْمِیرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: أَعْطِ ابْنَتَیْ سَعْدٍ الثُّلُثَیْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِیَ فَهُوَ لَكَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے حتی کہ ایک انصاری عورت کے ہاں پہنچے جومقام اسواف (حدودحرم مدینہ)میں رہائش پذیرتھی تویہ عورت اپنی دوبیٹیوں کولے کرآئی اوراس نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں جوآپ کی معیت میں تھے اورغزوہ احدمیں شہید ہوئے، ان کے چچانے ان کاسارامال اورساری وراثت لے لی ہے اوران کے لئے کوئی مال نہیں چھوڑاحتی کہ سب پرقبضہ کرلیاہے،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کیافرماتے ہیں ؟اللہ کی قسم! (اس طرح تو)ان کاکبھی نکاح نہیں ہوگاجب تک کہ ان کے پاس کچھ مال نہ ہو،پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ اس میں فیصلہ فرمادے گااورپھر آیت ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اولادکے بارے میں حکم کرتاہے کہ ایک لڑکے کاحصہ دولڑکیوں کے برابرہے۔‘‘ نازل ہوئی،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت کواوراس کے دیورکومیرے پاس لاؤ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے چچاسے کہا ان دونوں لڑکیوں کودوتہائی اوران کی ماں کوآٹھواں حصہ دے دواورباقی تمہاراہے۔[44]

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:عَادَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِی بَنِی سَلِمَةَ مَاشِیَیْنِ، فَوَجَدَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ أَعْقِلُ شَیْئًا، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ، ثُمَّ رَشَّ عَلَیَّ فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: مَا تَأْمُرُنِی أَنْ أَصْنَعَ فِی مَالِی یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَنَزَلَتْ: {یُوصِیكُمُ اللَّهُ فِی أَوْلاَدِكُمْ}[45]

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ بنوسلمہ تک پیدل چل کرمیری عیادت کے لئے تشریف لائےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایاکہ مجھ پربے ہوشی طاری ہے، آپ نے پانی منگوایاوراس سے وضوکیاپھراس کاپانی مجھ پرچھڑکامیں ہوش میں آگیا،پھرمیں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کاکیاحکم ہےمیں اپنے مال کاکیاکروں ؟ اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولادکے بارے میں ہدایت کرتاہے۔‘‘[46]

میراث میں ورثاکاحصہ :

چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مردپرزیادہ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالاہے اورعورت کوبہت سی معاشی ذمہ داریوں کے بارسے سبکدوش رکھا ہے اس لئے مردکاحصہ عورت سے دوگنارکھاگیا۔

xاگرکسی شخص کاوارث لڑکانہ ہوبلکہ صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں توخواہ دولڑکیاں ہوں یادوسے زائدبہرحال اس کے کل ترکہ کا 2/3حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگااورباقی1/3حصہ دوسرے وارثوں میں تقسیم ہوگا۔

x اگرمیت کاصرف ایک لڑکاہوتواس پراجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیرموجودگی میں وہ کل مال کاوارث ہوگااوردوسرے وارث موجودہوں توان کاحصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا ۔

xمیت کے صاحب اولادنہ ہونے کی صورت میں بہرحال میت کے والدین میں سے ہرایک1/6حصہ کاحق دارہوگا خواہ میت کے وارث صرف بیٹیاں ہوں یاصرف بیٹے ہوں یابیٹے بیٹیاں ہوں یاایک بیٹایاایک بیٹی ہو ، رہے باقی 2/3حصے توان میں دوسرے وارث شریک ہوں گے۔

xاوراگرایک ہی لڑکی ہوتواس کے لئے کل مال میں سے اسے آدھاملے گااورباقی مال دوسرے ورثاکوملے گا۔

xماں باپ کے علاوہ کوئی اوروارث نہ ہوتوباقی 2/3حصہ باپ کوملے گاورنہ 2/3حصہ میں باپ اوردوسرے وارث شریک ہوں گے۔

x میت کے کئی بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کاحصہ1/3 کے بجائے 1/6 کردیاگیا،اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو 1/6 حصہ لیاگیاہے وہ باپ کے حصہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ،یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگرزندہ ہوں تواس کے بہن بھائیوں کوحصہ نہیں پہنچتا۔

xامت کا اس پراجماع ہے کہ قرض وصیت پرمقدم ہے اس لئے اگرمیت کے ذمہ قرض ہوتوسب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ اداکیاجائے گاپھروصیت پوری کی جائے گی اوراس کے بعدوراثت تقسیم ہوگی،

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصَى بِهَا أَوْ دَیْنٍ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب مروی ہے تم قرآن میں وصیت کاحکم پہلے پڑھتے ہواورقرض کابعدمیں ،لیکن یادرکھناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پہلے ادا کرایا ہے۔[47]

فرمایاتم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اورتمہاری اولادمیں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب ترہے ،اس لئے اپنی ناقص عقل اوراختیار کے مطابق وراثت تقسیم کرنے کے بجائے اللہ نے جوقانون نازل فرمایا ہے اس کے مطابق جس کاجوحصہ مقررکردیاگیاہے وہ ان کودے دو،وراثت کےیہ حصے اللہ علام الغیوب نے مقررکردیئے ہیں اوراللہ یقیناًسب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کاجاننے والاہے۔

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ یَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِینَ بِهَا أَوْ دَیْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ یَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَیْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ یُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِی الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَلِیمٌ ‎﴿١٢﴾(النساء )
’’ تمہاری بیویاں جو چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھو آدھ تمہارا ہے،اوراگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لیے چوتھائی حصہ ہے اس کی وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئیں ہوں یا قرض کے بعد، اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں سے ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو، اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد، اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو اور اس کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہےاور اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیںاس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو ، یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار۔‘‘

اوراگرتمہاری بیوی ترکے میں کچھ چھوڑکرفوت ہوجائے اوراس کی اولادنہ ہوتوقرض کی ادائیگی کے بعدشوہرکواس کے ترکہ سے 1/2حصہ ملے گا،اوراگر اولادہو تو شوہر کو 1/4حصہ ملے گا،

وَحُكْمُ أَوْلَادِ الْبَنِینَ وَإِنْ سَفُلُوا حُكْمُ أَوْلَادِ الصُّلْبِ

اولادکی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولادیعنی پوتے بھی اولادکے حکم میں ہیں ۔[48]

اور اگر مرد بے اولادہوتوقرض کی ادائیگی اوروصیت پوری کرنے کے بعدایک بیوی یاکئی بیویاں ہوں اس کے ترکہ میں سے1/4حصہ کی برابر مالک ہوں گی ، لیکن اگروہ صاحب اولاد تھا توخواہ ایک بیوی ہویاکئی بیویاں توہرایک کو1/8حصہ سب میں برابرتقسیم ہوگا ،اوراگرمرووعورت کے ماں باپ زندہ نہ ہوں اوران کی اولادبھی نہ ہو مگران کے اخیافی(جو میت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اورباپ ان کادوسراہو)ایک بھائی یاایک بہن زندہ ہوتوبھائی اوربہن ہرایک کوترکہ میں سے 1/4 حصہ ملے گا،لیکن اگران کے بہن وبھائی ایک سے زیادہ ہوں توکل ترکہ میں سے1/3 حصہ میں وہ سب شریک ہوں گے،جبکہ مرنے والے نے جووصیت کی ہواگر وہ کسی مستحق وارث کے لئےضررساں نہ ہووہ پوری کردی جائےاورجوقرض چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے،اگربیوی کاحق مہرادانہ کیاگیا ہوتووہ بھی دین (قرض)میں شمارہوگااوراس کی ادائیگی بھی وراثت کی تقسیم سے پہلے ضروری ہے،نیزعورت کاحصہ شرعی اس مہرکے علاوہ ہوگا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْإِضْرَارُ فِی الْوَصِیَّةِ مِنَ الْكَبَائِرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوصیت میں کسی کونقصان پہنچاناکبیرہ گناہ ہے۔[49]

أَبَا أُمَامَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہرحق دارکواس کاحق دے دیاہے،پس وارث لئے کوئی وصیت نہیں (تاہم وارث اپنی طرف سے کسی کو 1/3 تک دے دیں تواس پرکوئی حرج نہیں ہے)۔[50]

یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اوراللہ داناوبینااورنرم خوہے،اس لئے اللہ کے قانون کی خلاف ورزی نہ کروورنہ اس کی گرفت سے بچ نہ سکوگے۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن یُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ یُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١٣﴾‏ وَمَن یَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَهُ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿١٤﴾‏(النساء )
’’ یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے،اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘

وراثت کی تقسیم کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اورعدل وانصاف سے یہ حدودقائم کردیں ہیں ،اگرتم ان حدودکی پاسداری اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانوں کی بھی اطاعت کروگے تواللہ تمہیں لازوال انواع واقسام کی نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمائے گا،جس کے گھنے سایہ داردرختوں کے نیچے نتھرے پانی ،دودھ ،شہداورمختلف ذائقوں کی شرابوں کی نہریں بہتی ہوں گے،وہاں نہ کسی طرح کا رنج ہوگااورنہ خوف اورتم ان جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہوگےیہی سب سے بڑی کامیابی ہے، اوراگراللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرو گےاوراللہ تعالیٰ کی مقررکی ہوئی حدوں سے تجاوزکرو گےتو حدوداللہ کوتوڑنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے جرم میں جہنم رسیدکردے گاجس کے دردناک عذاب میں ہمیشہ رہو گےاورہراس شخص کے لئے رسواکن سزاہے ،اور فرمانبداری کرنے والوں کے لئے فرمایا

وَمَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیَخْشَ اللَّهَ وَیَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ [51]

ترجمہ:اورجوشخص اللہ اوراس کے رسول کی فرما نبرداری کرے گااوراس سے ڈرےگاتوایسے ہی لوگ مرادکوپہنچنے والے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَیْرِ سَبْعِینَ سَنَةً، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِی وَصِیَّتِهِ، فَیُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ، فَیَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِینَ سَنَةً، فَیَعْدِلُ فِی وَصِیَّتِهِ، فَیُخْتَمُ لَهُ بِخَیْرِ عَمَلِهِ، فَیَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَالَ: ثُمَّ یَقُولُ أَبُو هُرَیْرَةَ:وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ} [52]– إِلَى قَوْلِهِ – {وَلَهُ عَذَابٌ مُهِینٌ} [53]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان ستر سال تک نیکو کاروں والے اعمال سر انجام دیتا ہےلیکن جب وصیت کرتا ہے تو اس میں ناانصافی کرتا ہے اس طرح اس کا خاتمہ بدترین عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے،جبکہ دوسرا آدمی ستر سال تک گناہگاروں والے اعمال سر انجام دیتا رہتا ہےلیکن اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہےاس طرح اس کا خاتمہ بہترین عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے،پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقررکی ہوئی ہیں اورجواللہ تعالیٰ کی اوراس رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )کی فرمانبرداری کرے گااسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوریہ بہت بڑی کامیابی ہےاورجوشخص اللہ تعالیٰ کی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی نافرمانی کرے اوراس کی مقررہ حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گاجس میں وہ ہمیشہ رہے گا،ایسوں ہی کے لیے رسواکن عذاب ہے۔‘‘ [54]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّینَ سَنَةً ثُمَّ یَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَیُضَارَّانِ فِی الْوَصِیَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ قَالَ: وَقَرَأَ عَلَیَّ أَبُو هُرَیْرَةَ مِنْ هَا هُنَا {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصَى بِهَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ} [55]حَتَّى بَلَغَ: {ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ} [56]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرد یا عورت ساٹھ سال تک اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہےتو وصیت کر وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں پس ان کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے، شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرے سامنے سورہ النساء کی آیت نمبربارہ اورتیرہ پڑھی۔[57]

وَاللَّاتِی یَأْتِینَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَیْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتَّىٰ یَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِیلًا ‎﴿١٥﴾‏ وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ‎﴿١٦﴾‏ (النساء)
’’تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے ،تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کرلیں انہیں ایذا دو اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیر لو ،بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘

فرمایامسلمانوں !تمہاری عورتوں میں سے جوبدکاری کی مرتکب ہوان پر چاراہل ایمان مردوں کی گواہی لو،اوراگرچارمرد گواہی دے دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسا عمل دیکھا ہے توان کوگھروں میں محبوس کردواورباہرجانے سے روک دو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے ،یااللہ ان کے لیے گھروں میں محبوس کرنے کے علاوہ کوئی اورطریقہ مقررفرمادے ،چنانچہ سورۂ نورمیں اللہ تعالیٰ نے شادی شدہ زناکارمروعورت کے لئے رجم اورغیرشادی شدہ بدکارمردوعورت کے لئے سوسوکوڑے مقررفرمائی،

كَانَ الْحُكْمُ فِی ابْتِدَاءِ الْإِسْلَامِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا زَنَتْ فَثَبُتَ زِنَاهَا بِالْبَیِّنَةِ الْعَادِلَةِ، حُبست فِی بَیْتٍ فَلَا تُمكن مِنَ الْخُرُوجِ مِنْهُ إِلَى أَنْ تَمُوتَ؛قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ الْحُكْمُ كَذَلِكَ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ سُورَةَ النُّورِ فَنَسَخَهَا بِالْجَلْدِ، أَوِ الرَّجْمِ.

ابتدائے اسلام میں جب کہ زناکی سزامتعین نہیں ہوئی تھی یہی حکم تھاکہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہوجائے تواسے گھرمیں قید کر دیا جائے اورموت سے پہلے نہ چھوڑاجائے،اس فیصلہ کے بعدیہ اوربات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اورراستہ پیداکردے،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تک سورۂ نورنازل نہیں ہوئی ،زناکارعورت کے لئے یہی طریقہ رائج رہا،جب اللہ تعالیٰ نے شادی شدہ زانی کی سزارجم یعنی پتھر مارمارکرمارڈالنے اورکنوارے کوسوکوڑے مارنے کی سزامتعین فرمادی تویہ حکم منسوخ ہوا۔[58]

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَیْهِ كُرِبَ لِذَلِكَ، وَتَرَبَّدَ لَهُ وَجْهُهُ قَالَ: فَأُنْزِلَ عَلَیْهِ ذَاتَ یَوْمٍ، فَلُقِیَ كَذَلِكَ، فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْهُ، قَالَ:خُذُوا عَنِّی، فَقَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِیلًا، الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّیِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ رَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ نَفْیُ سَنَةٍ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پروحی اترتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسختی معلوم ہوتی اورچہرہ مبارک پرمٹی کارنگ آجاتاایک دن وحی نازل ہوئی اورآپ کوایسی ہی سختی معلوم ہوئی،جب وحی موقوف ہوگئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ سے سیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے ایک راہ نکالی،اگرثیب ثیب سے(شادی شدہ شادی شدہ سے) زناکرے اور بکر بکر سے (کنواراکنواری سے) تو ثیب (شادی شدہ) کوسوکوڑے لگاکرسنگسارکریں گے اوربکر (کنوارے) کو سو کوڑے لگاکر ایک سال تک وطن سے باہر کر دیں گے۔[59]

اسی طرح اگرزانی مرداورزانیہ عورت اس فعل کاارتکاب کریں توانہیں سخت سست کہو اوران کی تذلیل کروتاکہ وہ اس فحش کام سے رک جائیں ،

وَقَالَ عِكْرِمَةُ، وَعَطَاءٌ، وَالْحَسَنُ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ كَثِیرٍ: نَزَلَتْ فِی الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ إِذَا زَنَیَاوَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَزَلَتْ فِی الرَّجُلَیْنِ إِذَا فَعَلَا لَا یُكَنِّی، وَكَأَنَّهُ یُرِیدُ اللِّوَاطَ

عکرمہ ،عطائ،حسن اورعبداللہ بن کثیرنے کہاہے کہ یہ آیت مرداورعورت بارے میں نازل ہوئی ہے جب وہ زناکریں ،اورمجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان دومردوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جوجنس پرستی کاارتکاب کریں ،واللہ اعلم۔[60] اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنہیں قوم لوط کاساعمل کرتے ہوئے پاؤتوفاعل اورمفعول کوقتل کردو۔[61]

پھر اگروہ اپنے فعل پرنادم ہوکر اپنی بدکاری سے توبہ کرلیں اور اپنے طرزعمل کی اصلاح کرلیں توانہیں اذیت پہنچانے سے گریزکرو کہ اللہ اپنے خطا کار بندوں کی کثرت سے توبہ قبول کرنے والااوررحم فرمانے والاہے،یہ حکم بھی اسی طرح رہایہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اوررجم سے منسوخ فرمادیا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا زَنَتِ الأَمَةُ فَتَبَیَّنَ زِنَاهَا، فَلْیَجْلِدْهَا وَلاَ یُثَرِّبْ، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَلْیَجْلِدْهَا وَلاَ یُثَرِّبْ، ثُمَّ إِنْ زَنَتِ الثَّالِثَةَ فَلْیَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرکنیززناکرائے اوراس کازناثابت ہو جائے(گواہوں سے یااقرارسے) تواسے کوڑے مارنے چائیں (کیونکہ لونڈی اورغلام پررجم نہیں ہے) لیکن لعنت ملامت نہ کرنی چاہیے،پھراگروہ دوبارہ زناکرے تو پھر چاہیے کہ کوڑے مارے لیکن ملامت نہ کرے،یعنی حدلگ جانے بعد پھر اسے عارنہ دلاکرے کیونکہ حدکفارہ ہے ، پھر اگر تیسری مرتبہ زناکرائے توبیچ دے خواہ بالوں کی ایک رسی ہی قیمت پرہو۔[62]

وَفِی هَذَا الْحَدِیثِ دَلِیلٌ على وجوب حد الزنى عَلَى الْإِمَاءِ وَالْعَبِیدِ وَفِیهِ أَنَّ السَّیِّدَ یُقِیمُ الْحَدَّ عَلَى عَبْدِهِ وَأَمَتِهِ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مَالِكٍ وَأَحْمَدَ وَجَمَاهِیرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِینَ فَمَنْ بَعْدَهُمْ وَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی طَائِفَةٍ لَیْسَ لَهُ ذَلِكَ وَهَذَا الْحَدِیثُ صَرِیحٌ فِی الدَّلَالَةِ لِلْجُمْهُورِ وَفِیهِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ الْعَبْدَ وَالْأَمَةَ لَا یُرْجَمَانِ سَوَاءٌ كَانَا مُزَوَّجَیْنِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے معلوم ہواکہ مالک اپنی لونڈی ،غلام کوحدلگاسکتاہے،امام شافعی رحمہ اللہ ،اورامام مالک رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ اورجمہورعلماکایہی قول ہےاورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حاکم کاکام ہے اورتیسری بارکے زنامیں بھی حدلگاناچاہیے اگرکئی بارزناکیالیکن حدنہ لگی توسب بارکے لیے ایک ہی کافی ہے اوربیچنے کاحکم استجاباًہے جمہورکے نزدیک اورامام داود رحمہ اللہ اوراہل ظاہرکے نزدیک واجب ہے[63]

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِن قَرِیبٍ فَأُولَٰئِكَ یَتُوبُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١٧﴾‏ وَلَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِینَ یَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٨﴾‏(النساء)
’’اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہےاللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے،ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مرجائیںیہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘

توبہ اورشرائط توبہ :ابلیس بندوں کاازلی دشمن ہے اوررب کے سامنےاپنے دعویٰ کے مطابق انہیں راہ حق سے بہکانے کی ہرممکن کوشش میں لگارہتاہے لیکن رب رحیم وکریم نے اپنے بندوں کی خطاؤں کومعاف کرنے کے لئے رحمت کااعلان عام کررکھاہے،

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [64]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) کہ دو کہ اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔

فرمایاہاں یہ جان لوکہ اللہ پرتوبہ کی قبولیت کاحق انہی لوگوں کے لیے ہے جو قصداًنہیں نادانی کی وجہ سے کوئی برافعل کر گزرتے ہیں ،

وَقَالَ قَتَادَةُ عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ: أَنَّهُ كَانَ یُحَدِّثُ: أَنَّ أصحاب رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا یَقُولُونَ: كُلُّ ذَنْبٍ أَصَابَهُ عَبْدٌ فَهُوَ بِجَهَالَةٍ

قتادہ رحمہ اللہ نے ابوالعالیہ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرمایاکرتے تھے کہ انسان جوبھی گناہ کرتاہے وہ جہالت ہی کی وجہ سے ہوتاہے ۔[65]

عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: اجْتَمَعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَوْا أَنَّ كُلَّ شَیْءٍ عُصی بِهِ فَهُوَ جَهَالَةٌ، عَمْدًا كَانَ أَوْ غَیْرَهُ

قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ متفقہ رائے تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی ،خواہ وہ قصدوارادہ سے کی جائے یاکسی اورطرح سے وہ جہالت ہے۔[66]

عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ، قَالَ: مَنْ عَمِلَ السُّوءَ فَهُوَ جَاهِلٌ، مِنْ جَهَالَتِهِ عَمِلَ السُّوءَ

ابوصالح نے عبداللہ ن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتاہے جوبوجہ نادانی کوئی برائی کرگزریں ۔‘‘ بارے میں روایت کیاہے کہ یہ انسان کی جہالت ونادانی کی بات ہے کہ وہ براعمل کرتاہے۔[67]

اورجب آنکھوں سے جہالت کاپردہ ہٹتاہے تواپنے کیے پرنادم اورپشیمان ہوکرجلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں اوراطاعت وفرماں برداری کی طرف پلٹ آتے ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ وَالْقَرِیبُ: مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى مَلَكِ الْمَوْتِ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے’’اوراس کے بعدجلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں ۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ گناہ کے ارتکاب سے لے کرملک الموت کے نظرآنے سے پہلے پہلے جب بھی توبہ کرلی جائے تووہ جلدہی ہے[68]

ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ معنی ہیں قَالَ: مَا كَانَ دُونَ الْمَوْتِ فَهُوَ قَرِیبٌ

اورضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں جوموت سے پہلے پہلے ہووہ قریب ہی ہے۔[69]

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِهِ: {ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ} قَالَ: مَا لَمْ یُغَرْغِرْ

حسن بصری رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’اوراس بعدجلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے مرادیہ ہے کہ نزع کی کیفیت طاری ہونے سے پہلے پہلے توبہ کر لے۔[70]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتاہے جب تک اسے موت کااچھونہ لگے۔[71]

عَنْ أَبِی قِلَابَةَ قَالَ:إِنَّ اللهَ تَعَالَى لَمَّا لَعَنَ إِبْلِیسَ سَأَلَهُ النَّظرة فَقَالَ: وعِزَّتِك وَجَلَالِكَ لَا أَخْرُجُ مِنْ قَلْبِ ابْنِ آدمَ مَا دَامَ فِیهِ الرُّوحُ، فَقَالَ اللهُ: وَعِزَّتِی لَا أَمْنَعُهُ التَّوْبَةَ مَا دَامَ فِیهِ الرُّوحُ

ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس پرلعنت فرمائی تواس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اورتیرے جلال کی قسم !میں ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی اس کے دل سے نہ نکلوں گااللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایامجھے اپنی عزت اوراپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا ۔[72]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ إِبْلِیسَ قَالَ لِرَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِكَ وَجَلَالِكَ لَا أَبْرَحُ أُغْوِی بَنِی آدَمَ مَا دَامَتِ الْأَرْوَاحُ فِیهِمْ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَبِعِزَّتِی وَجَلَالِی لَا أَبْرَحُ أَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِی

اورابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ابلیس مردودنے اللہ عزوجل سے کہاتیری عزت وجلال کی قسم !جب تک بنی آدم جسم میں روح باقی رہے گی میں اسے گمراہ کرتاہی رہوں گااللہ عزوجل نے فرمایامجھے میری عزت وجلال کی قسم !جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتارہے گامیں بخشش کرتاہی رہوں گا ۔[73]

اللہ اپنے جودوکرم سے ایسے لوگوں کی توبہ قبول فرماتاہے،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَعْفُوْا عَنِ السَّـیِّاٰتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۲۵ۙ [74]

ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے در گزر فرماتا ہے حالانکہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُسے علم ہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللهَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱۰۴ [75]

ترجمہ: کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے ، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے؟۔

اوراللہ ساری باتوں کی خبررکھنے والا اورحکیم وداناہے،مگرتوبہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جوساری زندگی اپنے رب سے بے خوف اوربے پرواہ ہوکر گناہ پرگناہ کیے چلے جاتے ہیں اوراپنے عیوب پرمصر رہتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی جان کنی کاوقت آجاتاہے اوروہ زندگی سے مایوس ہوجاتاہے اورموت کےفرشتوں کودیکھ لیتاہے تو اس وقت وہ کہتاہے کہ اب میں نے توبہ کی ،مگرجان کنی کے وقت توبہ قبول نہیں کی جاتی ،جیسے فرمایا

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ [76]

ترجمہ:جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیااللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنہیں ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکتا تھاکیونکہ یہی اللہ کا مقررّ ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بھی کررکھاہے کہ وہ اس وقت اہل زمین کی توبہ کوقبول نہیں فرمائے گاجب وہ سورج کومغرب سے طلوع ہوتے ہوئے دیکھ لیں گے،اللہ تعالیٰ نےفرمایا

۔۔۔یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِهَا خَیْرًا۝۰۝۱۵۸ [77]

ترجمہ:جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو ۔

اوراسی طرح توبہ ان کے لیے بھی نہیں ہے جومرتے دم تک کافررہیں ،

أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ، أَوْ یَغْفِرُ لِعَبْدِهِ، مَا لَمْ یَقَعِ الْحِجَابُ قِیلَ: وَمَا وُقُوعٌ الْحِجَابِ؟ قَالَ:تَخْرُجُ النَّفْسُ، وَهِیَ مُشْرِكَة

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت قبول کرتا رہتا ہے جب تک حجاب واقع نہ ہو جائے،میں نے پوچھا کہ حجاب واقع ہونے سے کیا مراد ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی روح اس حال میں نکلے کہ وہ مشرک ہو ۔[78]

ایسے لوگوں کے لیے توہم نے الم ناک عذاب تیار کررکھے ہیں ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّهُ فِیهِ خَیْرًا كَثِیرًا ‎﴿١٩﴾وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَیْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِینًا ‎﴿٢٠﴾‏ وَكَیْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا ‎﴿٢١﴾‏(النساء )
’’ایمان والو ! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو، انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بےحیائی کریں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے،اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے؟تم اسے کیسے لے لو گےحالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے ۔‘‘

عورت پرظلم کاخاتمہ:دورجاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی ،اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی ،اگروہ بیوہ ہوجاتی تودوسرے مال واسباب کی طرح اس کے وارث اس عورت کو بھی وراثت کی کوئی چیزسمجھتے اوراس کے وارث بن بیٹھتے،اگروہ شکل وصورت کی اچھی ہوتی یاکمسن ہوتی تواس کی مرضی کے برخلاف من مرضی کامہرمقررکرکے دل بہلاوے کے طورپر اس سے شادی کرلیتے،مگربعدمیں اس مہر میں سے بھی کچھ کم یامکمل طورپرمعاف کرانے کے لئے انہیں تنگ کرنے کے لئے طلاق یابدچلنی کاحربہ استعمال کرتے ،جس سے مجبورہوکرعورت اپناکچھ مہرمعاف کردیتی یااگروہ بد صورت ہوتی تو اس کی مرضی کے خلاف کسی سے اس کی شادی کردیتےاورحق مہرخودہڑپ کر جاتے ،یا اگر مالدارہوتی توکسی سے شادی نہ کرنے دیتےاوروہ ساری زندگی یوں ہی گزارنے پرمجبورہوجاتی ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: كَانَ الرَّجُلُ یَكُونُ فِی حِجْرِهِ الْیَتِیمَةُ هُوَ یَلِی أَمْرَهَا، فَیَحْبِسَهَا رَجَاءَ أَنْ تَمُوتَ امْرَأَتُهُ، فَیَتَزَوَّجُهَا أَوْ یُزَوِّجُهَا ابْنَهُ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں جوبچی ان کی ولایت میں ہوتی تواسے اس امیدپرروکے رکھتے کہ جب ہماری بیوی فوت ہو جائے گی توہم اس سے نکاح کرلیں گے یااپنے بیٹے سے ان کانکاح کرادیں گے۔[79]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،كَانَتِ الْمَرْأَةُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ إِذَا تُوفِّی عَنْهَا زَوْجُهَا فَجَاءَ رَجُلٌ فَأَلْقَى عَلَیْهَا ثَوْبًا، كَانَ أَحَقَّ بِهَا فَإِنْ كَانَتْ جَمِیلَةً تَزَوَّجَهَا، وَإِنْ كَانَتْ دَمِیمَةً حَبَسَهَاحَتَّى تَمُوتَ فَیَرِثَهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے زمانۂ جاہلیت میں جب کسی عورت کاخاوندمرتے ہی کوئی بھی آکراس پر اپنا کپڑا ڈال دیتااوروہی اس کا مختار سمجھا جاتایہ کپڑاڈالنے والااسے خوبصورت پاتاتواپنے نکاح میں لے لیتااور اگر بد صورت ہوتی تواسے یونہی روکے رکھتایہاں تک کہ وہ مرجائےپھراس کے مال کا وارث بن جاتا۔[80]

كَانَ الرَّجُلُ مَنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ إِذَا مَاتَ حمیمُ أَحَدِهِمْ أَلْقَى ثَوْبَهُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَورِث نِكَاحَهَا وَلَمْ یَنْكِحْهَا أَحَدٌ غَیْرُهُ، وَحَبَسَهَا عِنْدَهُ حَتَّى تَفْتَدِیَ مِنْهُ بِفِدْیَةٍ

یہ بھی مروی ہے اہل یثرب کایہ بھی رواج تھاکہ مرنے والے کاکوئی گہرادوست بیوہ پر کپڑاڈال دیتاپھراگروہ شوہرکی میراث یامہرمیں سےاسےکچھ دے دیتی تووہ اسے نکاح کرنے کی اجازت دیتاورنہ یونہی مرجاتی۔[81]

فَأَخْبَرَنِی عَطَاءُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِیَّةِ كَانُوا إِذَا هَلَكَ الرَّجُلُ، فَتَرَكَ امْرَأَةً حَبَسَهَا أَهْلُهُ عَلَى الصَّبِیِّ یَكُونُ فِیهِمْ

عطاء بن ابورباح سے مروی ہےدورجاہلیت میں اگرکوئی مردفوت ہوجاتااوروہ بیوی چھوڑجاتاتواس بیوہ پرکسی کاکپڑاڈالنے سے پہلے ہی وہ بھاگ کراپنے می میں پہنچ جاتی تووہ چھوٹ جاتی تھی۔ [82]

كَانَ أَهْلُ یَثْرِبَ إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَرِث امْرَأَتَهُ مَنْ یَرِثُ مَالَهُ، وَكَانَ یعضُلها حَتَّى یَرِثَهَا، أَوْ یُزَوِّجَهَا مَنْ أَرَادَ، وَكَانَ أَهْلُ تُهامة یُسِیء الرَّجُلُ صُحْبَةَ الْمَرْأَةِ حَتَّى یُطَلِّقَهَا، وَیَشْتَرِطَ عَلَیْهَا أَنْ لَا تَنْكِحَ إِلَّا مَنْ أَرَادَ حَتَّى تَفْتَدِیَ مِنْهُ بِبَعْضِ مَا أَعْطَاهَا، فَنَهَى اللهُ الْمُؤْمِنِینَ عَنْ ذَلِكَ

ایک روایت یہ بھی ہے اہل یثرب کاایک رواج یہ بھی تھاکہ کوئی شخص کسی شریف عورت سے نکاح کرتااگرموافقت نہ ہوتی تواسے طلاق دے دیتالیکن طلاق دیتے وقت یہ شرط لگادیتاکہ وہ اس کی اجازت بغیر کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکے گی ،اس بات پراقرارنامہ لکھاجاتااورگواہ مقررہوتے ،اب اگرکہیں سے نکاح کاپیغام آتااوروہ عورت بھی نکاح کے لئےراضی ہوجاتی تویہ کہتاکہ مجھے اتنی رقم دے دوتومیں تجھے نکاح کی اجازت دے دوں گااگروہ وہ رقم اداکردیتی توٹھیک ورنہ یونہی اسے قید رکھتا اور دوسرانکاح نہ کرنے دیتا، اللہ تعالیٰ نے عورت پرظلم کے تمام طریقوں سے مؤمنوں کو منع کیا۔[83]

اورفرمایاکہ شوہر کے مرنے کے بعداس کے خاندان والے اس بیوہ کومیت کی میراث سمجھ کراس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں شوہرکے مرنے کے بعدوہ آزادہے ،وہ عدت گزارکر جہاں چاہئے اورجس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے ،نکاح کے وقت جومہرتم باندھتے ہواسے ہڑپ کرنے کے لئے ناجائز زرائع استعمال مت کرو،ہاں اگرواقعی ہی وہ کھلے بندوں کسی بدچلنی کی مرتکب ہوئی ہوتو تمہیں بدچلنی کی سزادینے کاحق ہے،یعنی اگروہ زناکی مرتکب ہوتوتم اس سے مہرواپس لے سکتے ہوجوتم نے اسے دیاہو، مگرظلم وزیادتی پرنہ اترآؤبلکہ ان سے بھلے مانسوں کی طرح پیش آؤ اورقولی اورفعلی دونوں طرح سےاچھے طریقے سے بودوباش رکھو،شائستہ اندازمیں بات چیت کرو، مقدور بھر کوشش کرکے اپنی شکل وصورت کوبھی اچھابناؤجیساکہ تم اس بات کوپسندکرتے ہوکہ تمہاری بیوی تم سے احسن اندازمیں اوراچھی شکل وصورت میں پیش آئے تم بھی اس کے سامنے اسی طرح کامظاہرہ کرو، جیسے تمہارے ان پرحقوق ہیں اسی طرح ان کے تمہارے پرحقوق ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔۔۔ ۝۲۲۸ۧ [84]

ترجمہ: عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَیْرُكُمْ خَیْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَیْرُكُمْ لأَهْلِی، وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے بہتروہ ہے جواپنے گھروالوں سے اچھاسلوک رکھے اورمیں اپنے گھروالوں سے تم سب سے زیادہ اچھاسلوک کرنے والا ہوں ، اور جب تم میں کوئی مرجائے تواسے چھوڑ دو اس کی برائی یادنہ کرو۔[85]

اگروہ خوبصورت نہ ہویا کوئی عادت تمہیں ناپسند ہوتو ہو سکتا ہے کہ ایک چیزتمہیں پسندنہ ہو مگر اللہ نے اسی میں دوسری بہت سی کچھ خوبیاں رکھ دی ہوں ،اس لئے صبروتحمل سے کام لواوردل برداشتہ ہوکر طلاق دینے میں جلدبازی کامظاہرہ مت کرو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْهَا آخَرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مومن مردکسی مومن عورت سے دشمنی نہ رکھے،اگراس میں ایک عادت ناپسندہوگی تودوسری پسندبھی ہوگی۔[86]

اس لئے جب بیوی سے مفارقت ناگزیرہوجائے اوراس کوساتھ رکھنے کی کوئی صورت بنتی نظرنہ آئے تب طلاق دینی چاہیے ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہاں حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔[87]

عَنْ أَبِی مُوسَى، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یُحِبُّ الذَّوَّاقِینَ وَلَا الذَّوَّاقَاتِ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ایسے مردوں اورعورتوں کوپسندنہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کامزاچکھتے پھریں ۔[88]

اوراگردوسری بیوی لانے کاارادہ کرتے ہوتوسیدھے طریقے سے انہیں رخصت کردو،اوراسے تنگ کرکے یا اس پر بہتان لگاکراس کامہرچاہئے جتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہواورجوکچھ تم نے انہیں تحفے کی طور پر دیا ہو ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کرو،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا۔۔۔۝۲۲۹ [89]

ترجمہ: اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بڑی فتوحات ہوئیں اور اسلامی حکومت بارہ لاکھ مربع میل تک پھیل گئی، جس سے کثیرتعدادمیں مال غنیمت حاصل ہوا اور لوگ آسودہ ہوگئے اورنکاح کے لئے بھاری مہرمقررکرنے لگے،جس پرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا،

عَنْ أَبِی الْعَجْفَاءِ السُّلَمِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، یَقُولُ: أَلا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، أَلا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، قَالَ: فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِی الدُّنْیَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ كَانَ أَوْلاكُمْ بِهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُبْتَلَى بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ، وَقَالَ مَرَّةً: وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُغْلِی بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى تَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِی نَفْسِهِ، وَحَتَّى یَقُولَ كَلِفْتُ إِلَیْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ،

ابو عجفااسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا عورتوں  مہرباندھنے میں زیادتی نہ کرو،عورتوں کے مہرباندھنے میں زیادتی نہ کرو،اگریہ دنیاوی طورپرکوئی بھی چیزہوتی یا اللہ کے نزدیک یہ تقویٰ کی چیزہوتی توتم سب سے پہلے اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کایاکسی بیٹی کامہربارہ اوقیہ سے زیادہ مقررنہیں کیا،انسان زیادہ مہرباندھ کرپھرمصیبت میں پڑجاتاہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کی بیوی اسے بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے اوراس کے دل میں اس کی دشمنی بیٹھ جاتی ہے،اور کہنے لگتاہے کہ تونے میرے کندھے پرمشک لٹکادی۔[90]

عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: رَكِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْبَرَ رَسُولِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، مَا إِكْثَارُكُمْ فِی صُدُق النِّسَاءِ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه وإنماالصدقات فِیمَا بَیْنَهُمْ أَرْبَعُمِائَةِ دِرْهَمٍ فَمَا دُونَ ذَلِكَ. وَلَوْ كَانَ الْإِكْثَارُ فِی ذَلِكَ تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ أَوْ كَرَامَةً لَمْ تَسْبِقُوهُمْ إِلَیْهَا. فَلا أعرفَنَّ مَا زَادَ رَجُلٌ فِی صَدَاقِ امْرَأَةٍ عَلَى أَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ فَاعْتَرَضَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَتْ:یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، نَهَیْتَ النَّاسَ أَنْ یَزِیدُوا النِّسَاءَ صَدَاقَهُمْ عَلَى أَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِی الْقُرْآنِ؟ قَالَ: وَأَیُّ ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ یَقُولُ: {وَآتَیْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا [فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَیْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِینًا] (13) }[91] قال: فقال:اللَّهُمَّ غَفْرًا، كُلُّ النَّاسِ أَفْقَهُ مِنْ عُمَرَ. ثُمَّ رَجَعَ فَرَكِبَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: إِنِّی كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ أَنْ تَزِیدُوا النِّسَاءَ فِی صَدَاقِهِنَّ عَلَى أَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ، فَمَنْ شَاءَ أَنْ یُعْطِیَ مِنْ مَالِهِ مَا أَحَبَّ.

اورمسروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے منبرنبوی پرکھڑے ہوکرفرمایا لوگو!تم نے کیوں لمبے چوڑے مہرباندھنے شروع کردیے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ زمانہ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے توچارسودرہم مہر باندھاہے،اگریہ تقویٰ اورکرامت کے زیادہ ہونے کاسبب ہوتاتوتم زیادہ حق مہرادا کرنے میں بھی ان پرسبقت نہیں لے سکتے تھے ؟ خبردارآج سے میں نہ سنوکہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ کاحق مہرمقررکیاہے،یہ فرماکرآپ نیچے اترآئے توایک قریشی خاتون سامنے آئیں اورکہنے لگیں اے امیرالمومنین کیاآپ نے چارسودرہم سے زیادہ حق مہرسے لوگوں کومنع فرمادیاہے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاہاں !کہاکیاآپ نے اللہ کاکلام جواس نے نازل فرمایا ہے نہیں سنا؟کہاوہ کیا؟ کہاسنئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے تم نے انہیں خزانہ دیاہوتو اس میں سے کچھ بھی نہ لے کیا تم بہتان اور صریح ظلم کر کے واپس لوگے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایااللہ مجھے معاف فرما عمر!سے توہرشخص زیادہ سمجھدارہے،پھرواپس اسی وقت منبرپرکھڑے ہوکرلوگوں سے فرمایالوگو!میں نے تمہیں چار سودرہم سے زیادہ کے مہرسے روک دیاتھالیکن اب کہتاہوں جوشخص اپنے مال میں سے مہرمیں جتناچاہے دےاپنی خوشی سے جتنامہر مقرر کرنا چاہے کرے میں نہیں روکتا ۔[92]

منکرروایت ہے۔(مشہورواقعات کی حقیقت ۱۰۱)

جبکہ اللہ تعالیٰ کاکلمہ پڑھ کرتم نے اسے اپنی زوجیت میں لیا ہے اورتم دونوں ایک دوسرے سے خوب لطف اندوز ہو چکے ہو،

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله علیه وسلم قَالَ فِی خُطْبَتِهِ، فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ:فَاتَّقُوا اللَّهَ فِی النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أخذتموهُنّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ

جابربن عبداللہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم موقع پر فرمایا لوگو!اللہ سے ڈرو،عورتوں پر زیادتی نہ کرواس لئے کہ تم نے ان کواللہ کی امانت سے ان پراختیارحاصل کیاہے اوران کی سترکواللہ تعالیٰ کے کلمہ سے حلال کیاہے۔[93]

اوروہ تم سے نکاح کے وقت پختہ عہدلے چکی ہیں کہ تم اسے اچھے طریقے سے آبادرکھوگے یااحسان کے ساتھ چھوڑوگے۔

وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِیلًا ‎﴿٢٢﴾‏(النساء )
’’ اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہےمگر جو گزر چکا ہے، یہ بےحیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے۔

سوتیلی والدہ سے نکاح کی ممانعت :دورجاہلیت میں معمول تھاکہ باپ کے مرنے کے بعداس کالڑکااپنی سوتیلی والدہ سے نکاح کرلیتاتھااوراسے یہ خیال بھی نہ ہوتاتھاکہ وہ اس کی ماں کے درجے میں ہے،

لَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو قَیْس یَعْنِی ابْنَ الْأَسْلَتِ وَكَانَ مِنْ صَالِحِی الْأَنْصَارِ، فَخَطَبَ ابنَه قَیْسٌ امْرَأَتَهُ، فَقَالَتْ: إِنَّمَا أعُدُّكَّ وَلَدًا وَأَنْتَ مِنْ صَالِحِی قَوْمِكَ، وَلَكِنْ آتِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْتَأْمِرُهُ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقالت: إِنَّ أَبَا قَیْسٍ تُوفِّی. فَقَالَ:خَیْرًا. ثُمَّ قَالَتْ: إِنَّ ابْنَهُ قَیْسًا خَطَبَنِی وَهُوَ مِنْ صَالِحِی قَوْمِهِ. وَإِنَّمَا كُنْتُ أَعُدُّهُ وَلَدًا، فَمَا تَرَى؟ فَقَالَ لَهَا : ارْجِعِی إِلَى بَیْتِكِ،قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ

ابوقیس رضی اللہ عنہ انصاری انتقال کے بعدان کے لڑکے نے اپنی سوتیلی والدہ سے نکاح کی خواہش کی،ام عبیداللہ ضمرہ رضی اللہ عنہ نے کہابے شک تواپنی قوم میں ایک نیک آدمی ہے لیکن میں تجھے اپنابیٹاسمجھتی ہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہوں وہ جوحکم فرمائیں ،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورساری کیفیت بیان کی کہ ابو قیس فوت ہوچکے ہیں اور پھر کہا کہ ان کا بیٹا جو اپنی قوم میں ایک شریف اور نیک آدمی ہے مجھ سے منگنی(نکاح) کرنا چاہتاہے حالانکہ میں اسے بیٹا سمجھتی ہوں اس میں آپ کی کیا رائے ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے گھرلوٹ جاؤ،جس پریہ آیت ’’اوران عورتوں سے نکاح نہ کروجن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیاہےمگرجوگزرچکا۔‘‘ نازل ہوئی ۔[94]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یُحَرِّمُونَ مَا یُحَرَّمُ إِلَّا امْرَأَةَ الْأَبِ، وَالْجَمْعَ بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ: {وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ}

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت میں بھی باپ کی منکوحہ اوردوبہنوں کواکٹھاکرنے کے سواان دیگرتمام رشتوں کوحرام سمجھتے تھے جن کواللہ تعالیٰ نے حرام قراردیاہے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ’’اورجن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے ہرگزنکاح نہ کرومگرجوپہلے ہوچکا سوہوچکا ۔‘‘اورفرمایااورتمہارادوبہنوں کواکٹھاکرنا(بھی حرام ہے)۔[95]

اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاشرے کوجاہلیت کی قبیح رسوم وعادات سےپاک کرنے کے لئے فرمایااورجن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے ہرگزنکاح نہ کرو، زمانہ جاہلیت میں جوغلطیاں تم کرتے رہے ہوان پرگرفت نہیں کی جائےگی بشرطیکہ اب حکم آنے کے بعداپنے طرزعمل کی اصلاح کرلواورجاہلیت کی قبیح رسوم وعادات کو ترک کردو،درحقیقت یہ ایک بے حیائی کافعل ہے ، ناپسندیدہ ہے اوربراچلن ہے،جیسےفرمایا

۔۔۔وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ۔۔۔۝۰۝۱۵۱ [96]

ترجمہ:اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ۔

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا۝۳۲ [97]

ترجمہ:زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔

اورمحرم سے نکاح کرنے کی حدقتل ہے،

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: لَقِیتُ خَالِی وَمَعَهُ الرَّایَةُ، فَقُلْتُ: أَیْنَ تُرِیدُ؟ قَالَ:بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِیهِ مِنْ بَعْدِهِ، أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ، أَوْ أَقْتُلَهُ، وَآخُذَ مَالَهُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں اپنے چچاسے ملاجبکہ اس پاس جھنڈاتھا،میں نے ان سے پوچھاکہاں کاارادہ ہے؟ انہوں نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح کیاہےآپ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں اس کی گردن ماردوں اوراس کےمال پر قبضہ کرلوں ۔[98]

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں قاعدہ کلیہ ارشادفرمایا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: یَا یَهُودِیُّ، فَاضْرِبُوهُ عِشْرِینَ، وَإِذَا قَالَ: یَا مُخَنَّثُ، فَاضْرِبُوهُ عِشْرِینَ، وَمَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوهُ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص کسی دوسرے کو اے یہودی کہہ کر پکارے تو اسے بیس درے مارواور جب کوئی اے ہیجڑے کہہ کر پکارے تو اسے بھی بیس درے مارو اور جو شخص کسی محرم عورت سے زنا کرے تو اسے قتل کردو۔[99]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَقَالَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَظَرَ الرَّجُلُ إِلَى فَرْجِ الْمَرْأَةِ حُرِّمَتْ عَلَیْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی عورت اعضاء صنفی پرنظرڈالی ہواس کی ماں اوربیٹی دونوں اس پرحرام ہیں ۔[100]

لَا یَنْظُرُ اللهُ إِلَى رَجُلٍ نَظَرَ إِلَى فَرْجِ امْرَأَةٍ وَابْنَتِهَا

اوراسی روایت میں فرمایااللہ اس شخص کی صورت دیکھناپسندنہیں کرتاجوبیک وقت ماں اور بیٹی دونوں  اعضاء صنفی پرنظرڈالے۔[101]

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِی فِی حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِی دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِینَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٢٣﴾‏(النساء)
’’ حرام کی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیںتمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاںاوربہن کی لڑکیاںاور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا، ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

محرم رشتے :اوراللہ تعالیٰ نے رشتوں کے احترام کی تلقین فرماکرواضح طورپران رشتوں کی نشان دہی فرمائی جن سے نکاح نہیں ہوسکتا۔

۱۔واضح رہے کہ اُمَّھٰتُكُمْ ( تمہاری مائیں )میں ماؤں کی مائیں (نانیاں )ان کی دادیاں اورباپ کی مائیں (دادیاں ،پردادیاں اوران آگے تک سب شامل ہیں )

۲۔بَنٰتُكُمْ(تمہاری بیٹیاں )میں پوتیاں ،نواسیاں اورپوتیوں اورنواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک)شامل ،

وَقَدِ اسْتَدَلَّ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى تَحْرِیمِ الْمَخْلُوقَةِ مِنْ مَاءِ الزَّانِی عَلَیْهِ بِعُمُومِ قَوْلِهِ تَعَالَى:وَبَنَاتُكُمْ} ؛ فَإِنَّهَا بِنْتٌ فَتَدْخُلُ فِی الْعُمُومِ، كَمَا هُوَ مَذْهَبُ أَبِی حَنِیفَةَ، وَمَالِكٍ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَقَدْ حُكیَ عَنِ الشَّافِعِیِّ شَیْءٌ فِی إِبَاحَتِهَا؛ لِأَنَّهَا لَیْسَتْ بِنْتًا شَرْعِیَّةً، فَكَمَا لَمْ تَدْخُلْ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى:یُوصِیكُمُ اللهُ فِی أَوْلادِكُمْ، فَإِنَّهَا لَا تَرِثُ بِالْإِجْمَاعِ، فَكَذَلِكَ لَا تَدْخُلُ فِی هَذِهِ الْآیَةِ یُوصِیكُمُ اللهُ فِی أَوْلَادِكُمْ

زنا پیداہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یانہیں اس میں اختلاف ہے ،ائمہ ثلاثہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،مالک رحمہ اللہ اوراحمدبن حنبل رحمہ اللہ اسے بیٹی شمارکرتے ہیں ، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ اسے بیٹی شمار نہیں کرتےکیونکہ یہ لڑکی شرعی نہیں ،پس جیسے یہ لڑکی میں داخل نہیں اور بالاجماع وارث نہیں ،اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں ۔[102]

۳۔ اَخَوٰتُكُمْ(تمہاری بہنیں )عینی ہوں یااخیافی یاعلاتی سب اس میں شامل ۔

۴۔عَمّٰتُكُمْ(تمہاری پھوپھیاں )اس میں باپ کی سب مذکراصول یعنی نانا،داداکی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ۔

۵۔خٰلٰتُكُمْ(تمہاری خالائیں )ان میں ماں کی سب مونث اصول یعنی نانی ،دادی کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ۔

۶۔بَنٰتُ الْاَخِ(تمہاری بھتیجیاں )ان میں تینوں قسم بھائیوں کی اولادبالواسطہ یابلاواسطہ (یاصلبی وفرعی)شامل ہیں ۔

۷۔بَنٰتُ الْاُخْتِ(تمہاری بھانجیاں )ان میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولادبالواسطہ یابلاواسطہ(یاصلبی یافرعی)شامل ،یہ سات نسبی رشتے ہیں جوحرام ہیں ،اسی طرح سات رضاعی رشتے بھی حرام ہیں ۔

أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَافَقَالَ:الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الوِلاَدَةُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجیسے خون ملنے سے حرمت ہوتی ہے ویسے ہی دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔[103]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ.

اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کوحرام کردیاہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیاہے۔[104]

كُلُّ امْرَأَةٍ حَرُمَتْ مِنْ النَّسَبِ حَرُمَ مِثْلُهَا مِنْ الرَّضَاعِ

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ہروہ عورت جونسب کی وجہ سے حرام کی گئی ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہے۔ [105]

ان کے علاوہ چارسسرالی رشتے بھی حرام ہیں ۔

xاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ(ساس)اس میں بیوی کی نانی ،دادی بھی داخل ہے نیزاگرکسی عورت سے نکاح بعدبغیرمباشرت وہم بستری کے ہی اسے طلاق دے دی جائے تب بھی اس کی ماں سے نکاح حرام ہوگاالبتہ اس کی لڑکی سے نکاح جائزہوگا۔

x رَبَاۗىِٕبُكُمُ:اس سے مرادوہ لڑکی ہے جوبیوی پہلے خاوندسے ہو،اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اگراس کی ماں سے مباشرت کرلی گئی ہوتواس سے نکاح حرام ہے بصورت دیگرحلال ہے ۔

x اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ(صلبی بیٹوں کی بیویاں یعنی بہو)بیٹوں میں پوتے اورنوا شامل ہیں ،مزیدبرآں اس سے معلوم ہواکہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔

x تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ(دورضاعی یانسبی بہنوں کوبیک وقت نکاح میں رکھنا)دورجاہلیت میں دوبہنیں بھی بیک وقت ایک مرد نکاح میں ہو سکتی تھیں ،اللہ تعالیٰ نے دوبہنوں کوبیک وقت ایک مردکے نکاح میں جمع کرنے سے منع کیااورفرمایااوردورجاہلیت میں جو تم کرچکے ہواس پربازپرس نہیں ہوگی مگراب ان میں سے ایک کو رکھنا اورایک کوطلاق دینی ہوگی،البتہ ایک کی وفات یاطلاق کی صورت میں عدت گزارنے پردوسری بہن سے نکاح جائزہے، چنانچہ فیروزجب ایمان لائے توان کے نکاح میں دوحقیقی بہنیں تھی

عَنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ تَحْتِی أُخْتَیْنِ؟ قَالَ:طَلق أَیَّهُمَا شِئْتَ

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے نکاح میں دوحقیقی بہنیں ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان میں سے ایک جسے توپسندکرے طلاق دے دو۔[106]

اسی طرح ایک مردکے نکاح میں پھوپھی اوربھتیجی اورخالہ اوربھانجی کوجمع کرنابھی جائزنہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ المَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، وَلاَ بَیْنَ المَرْأَةِ وَخَالَتِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی عورت کواس کی پھوپھی یااس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع نہ کیاجائے۔[107]

ابن منذرکہتے ہیں کہ اس پرعلماء کااجماع ہے ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دوپھوپھیوں اوردوخالاؤں میں بھی جمع کرنامکروہ ہے،

أخت الجد ولو من جهة الأم وأخت أبیه وإن علا وأخت الجدة وأمها وإن علت ولو من قبل الأب، والضابط أنه یحرم الجمع بین كل امرأتین بینهما قرابة لو كانت إحداهما ذكرًا لحرمت المناكحة بینهما، والمعنى فی ذلك ما فیه من قطیعة الرحم كما مرّ مع المنافسة القویة بین الضرّتین، ولا یحرم الجمع بین المرأة وبنت خالها أو خالتها ولا بین المرأة وبنت عمها أو عمتها لأنه لو قدرت إحداهما ذكرًا لم تحرم الأخرى علیه

قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا پھوپھی میں داداکی بہن،ناناکی بہن،ان کے باپ کی بہن،اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن،نانی کی ماں سب داخل ہیں اوراس کاقاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ان دوعورتوں کانکاح بھی جمع کرنادرست نہیں ہے کہ اگران میں سے ایک کومردفرض کریں تودوسری عورت اس کی محرم ہوالبتہ اپنی جوروکی ماموں کی بیٹی یاچچاکی بیٹی یاپھوپھی کی بیٹی سے نکاح کرسکتاہے۔[108]

اسلام کایہ وہ پرسنل لاء ہے جس پراسلام کوفخرہے،اس نے اپنے پیروکاروں  لئے ایک بہترین پرسنل لاء دیاہے،اس کے مقررکردہ اصول وقوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی ردوبدل سے بالاہیں ،دنیامیں کتنے ہی انقلابات آئیں نوع انسانی میں کتناہی انقلاب برپاہومگراسلامی قوانین برابرقائم ہیں کسی بھی حکومت کوان میں دست اندازی کاحق نہیں ہے، سچ ہے

مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۲۹ۧ [109]

ترجمہ:میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں ۔

ہاں جوغلط قانون لوگوں نے ازخودبناکراسلام کے ذمہ لگادیئے ہیں ان کابدلنابے حدضروری ہے۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِینَ غَیْرَ مُسَافِحِینَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیمَا تَرَاضَیْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِیضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿٢٤﴾‏ وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن یَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُم مِّن فَتَیَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِیمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَیْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢٥﴾(النساء)
’’ اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیںاللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں، ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کے لیے اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کرلو تم پر کوئی گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے،اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت و طاقت نہ ہو وہ مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو( اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو اس لیے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرلو اور قاعدہ کے مطابق ان کے مہر ان کو دے دو ، وہ پاک دامن ہوں نہ کہ اعلانیہ بدکاری کرنے والیاں،نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاںپس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آجائیں پھر اگر وہ بےحیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے، کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں گناہ اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہےاور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی رحمت والا ہے ۔‘‘

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ:أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصَابُوا سَبَایَا یَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ، فَكَانَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَفُّوا وَتَأَثَّمُوا مِنْ غِشْیَانِهِنَّ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فِی ذَلِكَ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ، إِلَّا مَا مَلَكَتْ[110] أَیْمَانُكُمْ} [111]

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ اوطاس یاغزوہ خیبر میں کفارکی عورتیں مسلمانوں کی قیدمیں آگئیں ان مشرک شوہربھی تھے اس لیے ہم نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی ،لہذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھاجس پریہ آیت کریمہ’’اور(حرام کی گئیں )شوہروالی عورتیں مگروہ جوتمہاری ملکیت میں آجائیں ۔‘‘ نازل ہوئی ،اس کے بعدہم نے ان سے جنسی تعلق کوحلال قراردے دیا۔[112]

اوروہ عورتیں بھی تم پرحرام ہیں جوکسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصنات یعنی محفوظ عورتیں )البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنٰی ہیں جو(جنگ میں )تمہارے ہاتھ آئیں ،یعنی جنگ میں حاصل ہونے والی کافرعورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں توشادی شدہ ہونے کے باوجودان سے مباشرت کرناجائزہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے یعنی ایک حیض آنے کے بعدیاحاملہ ہیں تووضع حمل کے بعدان سے جنسی تعلق قائم کیاجائے، یہ اللہ کاقانون ہے جس کی پابندی تم پرلازم کردی گئی ہے،ان کے ماسواجتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرناتمہارے لیے حلال کردیاگیاہےبشرطیکہ حصارنکاح میں ان کومحفوظ کرونہ یہ کہ آزادشہوت رانی کرنے لگو،یعنی اس نکاح میں چارچیزیں شامل ہوں دونوں طرف سے ایجاب وقبول ہو ، مہر ادا کیا ہو،ان کوشادی کی قید(دائمی قبضے)میں لانامقصودہوصرف شہوت رانی مقصودنہ ہواورچھپی ہوئی دوستی نہ ہوبلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو،پھرجوازواجی زندگی کالطف تم ان سے اٹھاؤاس کے بدلے ان کے مہربطورفرض کے اداکرویعنی یہ مہر کوئی عطیہ اوربخشش نہیں ہے کہ دل چاہاتواداکردیااوردل نے چاہاتوواپس لے لیاالبتہ مہرکی قرارداد ہوجانے کے بعدآپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگرکمی بیشی کاکوئی سمجھوتاہوجائے تواس میں کوئی حرج نہیں ، جیسے اسی سورہ میں پہلے فرمایا

وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ۝۰ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْۗـــــًٔـا مَّرِیْۗــــــًٔـا۝۴

ترجمہ:اور عورتوں کے مَہر خوشدلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو ، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مَہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔

اللہ علیم اورداناہے یعنی حلت وحرمت کے ان احکام میں جو رحمتیں اورمصلحتیں ہیں انہیں کامل علم اورکامل حکمت والا اللہ ہی جانتاہے، اورجوشخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتاہوکہ خاندانی مسلمان عورتیں (محصنات)سے نکاح کر سکےاسے چاہیے کہ تمہاری ان مومنہ لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جوتمہارے قبضہ میں ہوں ،اللہ تمہارے ایمانوں کاحال خوب جانتاہے،تم سب مسلمان یکساں ہو اورتمہارے درمیان حقیقی وجہ امتیازصرف ایمان ہے لہذاان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو ،یعنی لونڈیوں یاغلاموں کامالک ہی ان کاولی ہےاس کی اجازت کے بغیرنکاح نہیں ہوسکتا،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیهِ، فَهُوَ عَاهِرٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوغلام اپنے مالک کی اجازت بغیرنکاح کرلے وہ زانی ہے۔[113]

جس طرح غلام اورلونڈی ولی کی اجازت بغیرنکاح کرے وہ زانی ہے اسی طرح عورت عورت کانکاح نہیں کرسکتی، اورجوعورت ولی کی اجازت کے بغیراپنانکاح خودکرلے وہ بھی زانی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِیَةَ هِیَ الَّتِی تُزَوِّجُ نَفْسَهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت دوسری عورت کانکاح نہ کرائے اورنہ عورت اپنانکاح کراےوہ عورتیں زناکارہیں جواپنانکاح خود کرواتی ہیں ۔[114]

اورمعروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کر دو تاکہ وہ حصارنکاح میں محفوظ (محصنات) ہوکررہیں اورآزاد شہوت رانی اور چوری چھپے آشنائیاں نہ کرتی پھریں ، پھرجب وہ حصارنکاح میں محفوظ ہوجائیں اوراس کے بعدکسی بدچلنی کی مرتکب ہوں توان پراس سزاکی بہ نسبت آدھی سزاہے جوخاندانی عورتوں (محصنات)کے لیے مقررہے،یعنی لونڈیوں کورجم نہیں کیاجائے گاکیونکہ رجم کانصف ممکن نہیں بلکہ محصنات کی سزاسوکوڑوں کے بجائے انہیں پچاس کوڑے سزاہوگی ،یہ سہولت تم میں سے ان لوگوں کے لیے پیداکی گئی ہے جوانی کے جذبات پرکنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اوران کابدکاری میں مبتلاہونے کااندیشہ ہو ،لیکن اگرتم کسی آزادخاندانی عورت سے شادی کے قابل ہونے تک صبر کروتویہ تمہارے لیے بہترہے اوراللہ بخشنے والااوررحم فرمانے والاہے۔

یُرِیدُ اللَّهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَیَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ وَیَتُوبَ عَلَیْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٦﴾‏وَاللَّهُ یُرِیدُ أَن یَتُوبَ عَلَیْكُمْ وَیُرِیدُ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِیلُوا مَیْلًا عَظِیمًا ‎﴿٢٧﴾ ‏ یُرِیدُ اللَّهُ أَن یُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِیفًا ‎﴿٢٨﴾‏ (النساء(
’’ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرےاور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائےاور تمہاری توبہ قبول کرےاور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے،اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرےاور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ، اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیاگیاہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ اپنی عظیم نوازش سےچاہتاہے کہ تم پرحق وباطل اورحلال وحرام کھول کربیان کردے اورمعاشرت ،اخلاق اورتمدن ان قوانین پر چلائے جس کی پیروی قدیم ترین دورسے ہردورکے انبیائے کرام اوران کے صالح متبعین عمل کرتےچلے آئے ہیں ،وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری توبہ قبول کرناچاہتاہے،اوروہ اپنی شریعت اوراپنے فرمان میں کامل علم اورکامل حکمت والاہے،ہاں اللہ توتم پراپنی عظیم رحمت کے دروازے کھول دیناچاہتاہے مگر خواہش نفس کے پیروکار یہودونصاریٰ،منافقین،قدامت پرست جہلاء اوربدکارلوگ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست کوچھوڑ کرشریعت میں اپنے خودساختہ احکام وقوانین ،صدیوں سے قائم تعصبات اوررسم ورواج پرقائم رہو،کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیاہے،

عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِیهِ: {خُلِقَ الإنْسَانُ ضَعِیفًا} أَیْ: فِی أَمْرِ النِّسَاءِ، وَقَالَ وَكِیعٌ: یَذْهَبُ عَقْلُهُ عِنْدَهُنَّ

طاؤس رحمہ اللہ سے روایت ہے’’چونکہ انسان کوکمزورپیداکیاگیاہے۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ انسان عورتوں کے بارے میں کمزورپیداہواہے اوروکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے سامنے مردوں کی مت ماری جاتی ہے۔[115]

اس لئےاللہ تعالیٰ اوامرونواہی کی آسانی کے ذریعے تمہارے لئے تخفیف پیداکرناچاہتاہے ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَیْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیمًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرًا ‎﴿٣٠﴾‏(النساء)
’’اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خریدو فروخت اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے، اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ ‘‘

اے لوگو جو ایمان لائے ہو !آپس میں ایک دوسرے کے مال حرام اسباب ووسائل جوشرعاًواخلاقاًناجائزہوں اورمختلف حیلے بہانوں سے نہ کھاؤ ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فِی الرَّجُلِ یَشْتَرِی مِنَ الرَّجُلِ الثَّوْبَ , فَیَقُولُ:إِنْ رَضِیتَهُ أَخَذْتَهُ , وَإِلَّا رَدَدْتَهُ وَرَدَدْتَ مَعَهُ دِرْهَمًا قَالَ: هُوَ الَّذِی قَالَ اللهُ:لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک شخص اگرکسی دوسرے شخص سے کپڑاخریدتاہے تووہ اس سے کہتاہے کہ اگریہ کپڑاتمہیں پسندآگیاتواسے اپنے پاس رکھ لینا اور اگر پسندنہ آیاتواسے واپس کردینالیکن اس ساتھ تمہیں ایک درہم بھی واپس کرناہوگاتوابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔[116]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَنْزَلَ اللهُ:{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ} فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: إِنَّ اللهَ قَدْ نَهَانَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَیْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَالطَّعَامُ هُوَ مِنْ أَفْضَلِ أَمْوَالِنَافَلَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ مِنَّا أَنْ یَأْكُلَ عِنْدَ أَحَدٍ، فَكَفَّ النَّاسُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ بَعْدَ ذَلِكَ: {لَیْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ’’اپنے آپس مال ناجائزطریقہ سے مت کھاؤ۔‘‘ کونازل فرمایاتو مسلمانوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے مال کوباطل طریقے سے کھانے سے منع فرمایاہےاورکھاناسب سے افضل مال ہے لہذاہم میں سے کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ وی کسی دوسرے کے پاس کھاناکھائے،تولوگ اس کام سے رک گئے تھے،اس کے بعداللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا ، یا لنگڑا، یا مریض کسی کے گھر سے کھا لے اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے ، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں ، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ، البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی با برکت اور پاکیزہ ،اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے ۔ ‘‘نازل فرما دی۔ [117]

ہاں اگربائع اورمشتری آپس کی آزادانہ اورجانی بوجھی رضا مندی حلال اشیاء کا کاروبار کریں اوراس سے مالی فائدہ ہوجائے تووہ جائزہے،

عَنْ مُجَاهِدٍ , فِی قَوْلِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ فِی تِجَارَةٍ أَوْ بَیْعٍ أَوْ عَطَاءٍ یُعْطِیهِ أَحَدٌ أَحَدًا

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں آیت کریمہ ’’رضامندی ہوخریدوفروخت۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ یاتو خرید و فروخت ہویاکوئی کسی کوعطیہ دے دے۔ [118]

یہاں خیارمجلس کامسئلہ بھی آجاتاہے یعنی بائع اورمشتری جب تک ایک دوسرے سے جدانہ ہوجائیں سودافسخ کرنے کااختیاررہے گاجیساکہ حدیث میں ہے،

حَكِیمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِی بَیْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَیْعِهِمَا

حکیم بن حزام مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادونوں خریدوفروخت کرنے والوں کو اس وقت تک اختیارہے جب تک وہ الگ الگ نہ ہوجائیں ،پھراگروہ دونوں سچ بولیں گے اور(جوکچھ چیزمیں عیب ہے یاقیمت میں فرق ہے)بیان کردیں گے توان کی بیع میں برکت ہوگی اوراگرجھوٹ بولیں گے اور(عیب کو)چھپائیں گے توان کی بیع کی برکت مٹ جائے گی اوران کی تجارت کوکبھی فروغ نہ ہوگا ۔[119]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:إِذَا تَبَایَعَ الرَّجُلاَنِ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، وَكَانَا جَمِیعًا، أَوْ یُخَیِّرُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ، فَتَبَایَعَا عَلَى ذَلِكَ، فَقَدْ وَجَبَ البَیْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ یَتَبَایَعَا وَلَمْ یَتْرُكْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا البَیْعَ، فَقَدْ وَجَبَ البَیْعُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب دو آدمی خرید و فروخت کریں تو ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں یکجا ہوں اور جدا نہ ہو جائیں یا ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دیااور اس شرط پر بیع کا معاملہ کر لیا تو بیع واجب ہوگئی، اور اگر بیع کرنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کا انکار نہ کیا تو بیع جائز ہو گئی ۔[120]

اورجن امورکواللہ تعالیٰ نے حرام کیاہے ان کاارتکاب کرکے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو ، یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے،

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَاحْتَلَمْتُ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِیدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، فَتَیَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّیْتُ بِأَصْحَابِی صَلَاةَ الصُّبْحِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:یَا عَمْرُو، صَلَّیْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی احْتَلَمْتُ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِیدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، وَذَكَرْتُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیمًا} [121]فَتَیَمَّمْتُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ذات سلاسل سال(آٹھ ہجری)بھیجا، فرماتے ہیں مجھے ایک ایسی رات میں احتلام ہوگیاجوبہت شدیدسردتھی اورمجھے یہ خدشہ لاحق ہواکہ اگرمیں نے غسل کیاتومرجاؤں گا، لہذامیں نے تیمم کرکے اپنے ساتھیوں کوصبح کی نمازپڑھادی،جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ !تم نے اپنے ساتھیوں کوحالت جنابت ہی میں نمازپڑھادی؟ میں نے عرض کی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے شدیدترین سردرات میں احتلام ہوااورخدشہ تھاکہ اگرمیں نے غسل کیاتومرجاؤں گا تواس موقع پرمجھے اللہ تعالیٰ کاارشاد’’اوراپنے آپ کوقتل نہ کرویقینااللہ تعالیٰ تم پرنہایت مہربان ہے۔‘‘یادآیاتومیں نے تیمم کرکے نمازپڑھادی، یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا ۔[122]

اس سے مرادخودکشی بھی ہوسکتاہے جوکبیرہ گناہ ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِیدَةٍ، فَحَدِیدَتُهُ بِیَدِهِ، یَجَأُ بِهَا فِی بَطْنِهِ فِی نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِسُمٍّ، فَسُمُّهُ بِیَدِهِ، یَتَحَسَّاهُ فِی نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ یَتَرَدَّى فِی نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیهَا أَبَدًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے آپ کو کسی تیز دھار آلے سے قتل کرلے (خودکشی کرلے)اس کا وہ تیز دھار آلہ اس ہاتھ میں ہوگا جسے وہ جہنم کے اندر اپنے پیٹ میں گھونپتا ہوگا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا،جو شخص زہر پی کر خود کشی کرلےاس کا وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ جہنم کے اندر پھانکتا ہوگا اور وہاں ہمیشہ ہمیش رہے گااور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے نیچے گرا کر خود کشی کرلے وہ جہنم میں بھی پہاڑ سے نیچے گرتا رہے گا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔[123]

أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاكِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَایَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ بِمِلَّةٍ غَیْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ عُذِّبَ بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَیْسَ عَلَى رَجُلٍ نَذْرٌ فِی شَیْءٍ لَا یَمْلِكُهُ

اورثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے غزوہ حدیبیہ میں ایک درخت نیچے بیعت کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی اسلام کے علاوہ دوسری ملت پر جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہو جائے، اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا تو قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا اور اگر کسی آدمی نے غیر مملوکہ چیز کی منت مانی تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔[124]

جو شخص جان بوجھ کراللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی جسارت کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَیِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِیمًا ‎﴿٣١﴾‏ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا ‎﴿٣٢﴾‏ (النساء)
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے،اور اس کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے، مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے ان میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘

اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے جن پرحدمقررہے ،یاوہ گناہ جس پرقرآن یاحدیث میں سخت وعیدیالعنت آئی ہےیاوہ کام جس سے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےبطورتحریم کے روکاہے سے پرہیز کرتے رہو تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزّت کی جگہ داخل کریں گے،اس آیت کریمہ سے متعلق بہت سی آحادیث ہیں ،

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَدْرِی مَا یَوْمُ الْجُمُعَةِ؟» قُلْتُ: هُوَ الْیَوْمُ الَّذِی جَمَعَ اللَّهُ فِیهِ أَبَاكُمْ، قَالَ:لَكِنِّی أَدْرِی مَا یَوْمُ الْجُمُعَةِ، لَا یَتَطَهَّرُ الرَّجُلُ فَیُحْسِنُ طُهُورَهُ، ثُمَّ یَأْتِی الْجُمُعَةَ، فَیُنْصِتُ حَتَّى یَقْضِیَ الْإِمَامُ صَلَاتَهُ، إِلَّا كَانَ كَفَّارَةً لَهُ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا اجْتُنِبَتِ الْمَقْتَلَةُ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتمہیں معلوم ہے جمعے کادن کیاہے؟ میں نے عرض کی یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ والد (آدم علیہ السلام ) کو پیدافرمایاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ جمعے کادن کیاہےیہ وہ دن ہے کہ جوشخص بھی اس میں اچھے طریقے سے طہارے حاصل کرےپھرجمعے کے لیے آئے اورخاموش رہے حتی کہ امام نمازسے فارغ ہوجائے تو یہ آنے والے جمعہ تک کے گناہوں کاکفارہ بن جاتاہے بشرطیکہ ان گناہوں سے اجتناب کیاجائے جوتباہ وبربادکردینے والے ہیں ۔[125]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الیَتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے دور رہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کونسے گناہ ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اور جادو کرنا اور اس جان کا ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانااور یتیم کا مال کھانااور میدان جنگ سے فرار یعنی بھاگنااور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔[126]

جھوٹی گواہی کوبھی کبائرگناہوں میں شمارکیاگیاہے،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْكَبَائِرَ، أَوْ سُئِلَ عَنِ الْكَبَائِرِ، فَقَالَ:الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَالَ:أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِقَالَ: قَوْلُ الزُّورِ، أَوْ قَالَ: شَهَادَةُ الزُّورِ قَالَ شُعْبَةُ: أَكْبَرُ ظَنِّی أَنَّهُ قَالَ:شَهَادَةُ الزُّورِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کیا،یاآپ سے کبیرہ گناہوں  بارے میں سوال کیاگیا،فرمایا کہ وہ یہ ہیں ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا،ناحق قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑاگناہ کونسا ہے ؟ فرمایا وہ ہے جھوٹی بات یا جھوٹی گواہی، شعبہ فرماتے ہیں کہ میراظن غالب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جھوٹی گواہی کاذکر فرمایا تھا۔[127]

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرة، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بأكْبر الْكَبَائِرِثَلَاثًا، قُلْنَا: بَلَى، یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ. وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ:أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ، أَلَا وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ . فَمَا زَالَ یُكَرِّرُهَا، حَتَّى قُلْنَا: لَیْتَهُ سَكَتَ

عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ نے اپنے باپ سے روایت کیاہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ضرورارشادفرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے کہ اٹھ کربیٹھ گئے فرمایااورخبردار!یادرکھوکہ کہ جھوٹی بات اورجھوٹی گواہی بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس قدرکثرت کے ساتھ بار بارفرمائی کہ ہم کہنے لگے کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے۔[128]

بچے کاقتل بھی کبائرگناہوں میں شمارکیاگیاہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللَّهِ أَكْبَرُ، قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْیَةَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَةِ جَارِكَ قَالَ: وَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ تَصْدِیقًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {وَالَّذِینَ لاَ یَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ وَلاَ یَزْنُونَ} [129]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظیم گناہ کونساہے؟ فرمایا تو کسی کواللہ تعالیٰ کاشریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدافرمایاہے،میں نے عرض کی پھرکونسا؟ فرمایاپھریہ کہ اپنے بچے کواس ڈرسے قتل کروکہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا،میں نے عرض کی پھرکونسا؟فرمایایہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرو،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت فرمائی’’ اوروہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے قتل کرنااللہ نے منع کردیاہو،بغیرحق کے قتل نہیں کرتے اورنہ زناہی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔۔۔مگرجوتوبہ کرلے۔۔۔ ۔‘‘[130]

جھوٹی قسم بھی کبائرگناہوں میں شمارہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ ساتھ شرک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،یاآپ نے قتل جان کاذکرفرمایا،شعبہ کوشک ہے اورجھوٹی قسم کھانا۔[131]

صحیح بخاری اورسنن نسائی میں شُعْبَةُ الشَّاكُّ الفاظ نہیں ہیں ۔

والدین کوگالی دینابھی کبائرگناہوں میں شمارہے،

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ یَلْعَنَ الرَّجُلُ، وَالِدَیْهِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ أَبَوَیْهِ؟ قَالَ:یَسُبُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ، فَیَسُبُّ أَبَاهُ، وَیَسُبُّ الرَّجُلُ أُمَّهُ، فَیَسُبُّ أُمَّهُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑاگناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پرلعنت بھیجے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آدمی اپنے والدین پرلعنت کس طرح بھیج سکتا ہے ؟ فرمایاوہ اس طرح کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کوگالی دیتاہے تووہ اس کے باپ کوگالی دیتاہے،یہ اس کی ماں کوگالی دیتاہے تووہ اس کی ماں کوگالی دیتاہے۔[132]

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان کوگالی دیناگناہ اوراسے قتل کرناکفرہے۔[133]

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا نہ کرو ،اس آیت کریمہ کی شان نزول کے بارے میں بتلایاگیاہے

قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:یَا رَسُولَ اللَّهِ، یَغْزُو الرِّجَالُ، وَلَا نَغْزُو، وَلَنَا نِصْفُ الْمِیرَاثِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ} [134]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مردجہادکرتے ہیں اورہم جہادنہیں کرسکتیں اور میراث میں بھی ہماراحصہ نصف ہے؟تواس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا نہ کرو ۔‘‘[135]

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت وارادہ کے مطابق مردوں کوجوجسمانی قوت وطاقت عطافرمائی ہے جس کی بنیادپروہ جہاد کرتے ہیں اوردیگربیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں ،اس کودیکھتے ہوئے عورتوں کومردانہ صلاحیتوں کے کام کی آرزونہیں کرنی چاہیے،البتہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اورنیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیناچاہیے اوراس میدان میں جو کچھ مردوں نے جونیک اعمال کیے ہوں گے اس کے مطابق ان کواجرملے گا اور جو کچھ عورتوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے اس کے مطابق ان کوثواب ملے گا ،یعنی ہرایک کواس کے عمل کے مطابق جزاملے گی ،اگراچھاعمل کیاہوگاتوجزابھی اچھی ملے گی اوراگربراعمل کیاہوگاتواس کے مطابق سزاملے گی، ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو ، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے،اوروہ جانتاہے کہ کون کس چیزکامستحق ہے۔

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِیبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدًا ‎﴿٣٣﴾‏الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیرًا ‎﴿٣٤﴾‏ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّهُ بَیْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا خَبِیرًا ‎﴿٣٥﴾(النساء)
’’ ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے لیے مقرر کر دئیے ہیں، جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حاضر ہے،مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں، پس نیک فرمانبر دار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں، اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے، اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔ ‘‘

اہل عرب کادستورتھاکہ جن لوگوں کے درمیان دوستی اوربھائی چارہ کے عہدوپیمان ہوجاتے تھے وہ ایک دوسرے کی میراث کے حق داربن جاتے تھے ،اسی طرح جیسے بیٹا بنا لیا جاتاتھاوہ بھی منہ بولے باپ کاوارث قرارپاتاتھا،اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جاہلیت کے اس دستورکومنسوخ کردیااورفرمایااور ہم نے والدین اوررشتہ داروں کے ترکہ میراث کے لیے حق دار مقرر کر دیے ہیں ،البتہ جن لوگوں سے تمہارے عہدوپیمان ہوں تو ان کو اپنی زندگی میں جوچاہودے سکتے ہو ، یقیناً اللہ ہر چیز پر نگراں ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ} [136]، قَالَ: وَرَثَةً. (وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُكُمْ):كَانَ المُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا المَدِینَةَ یَرِثُ المُهَاجِرِیُّ الأَنْصَارِیَّ، دُونَ ذَوِی رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِی آخَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ

وَسَلَّمَ بَیْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ} [137]نُسِخَتْ، ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے’’ماں باپ یاقرابت دارجوچھوڑمریں ۔‘‘ قَالَ: وَرَثَةً. مَوَالِیَ معنی وراث کے ہیں یہ اس وقت کی بات ہےجب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انصاری کے اپنے رشتہ داروں کے بجائے اس کاوارث مہاجربنتاتھااوریہ اس رشتہ اخوت کے باعث تھاجونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصارکے مابین استوار فرما دیا تھا مگرپھراسے منسوخ کردیاگیالیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تواس سے یہ بات منسوخ ہوگئی، پھرعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہدوپیمان ہوں تو ان کا حصّہ انہیں دو۔سے مرادیہ ہے کہ نصرت واعانت اورنصیحت کی صورت میں انہیں ان کاحصہ دوکیونکہ میراث سے ان کاحصہ ختم ہوگیاہے ہاں ،البتہ اس کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے ۔[138]

چونکہ یہ ایک عارضی انتظام تھاجیسے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرماکر منسوخ فرمادیا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۷۵ۧ [139]

ترجمہ:مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔

مرد عورتوں پر نگران اورحاکم ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ،یعنی مردوں کوخلقی طورمردانہ قوت ودماغی صلاحیت کی بناپرعورتوں سے پر افضل بنایاہے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ۔۔۔ ۝۲۲۸ۧ [140]

ترجمہ: البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔

اوریہی وجہ ہے کہ نبوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں ہی کو سرفرازفرمایاتھا،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰى۝۰ ۔۔۔۝۱۰۹ [141]

ترجمہ:اے نبی علیہ السلام ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔

اوراسی بناپراسلامی حکومت کی سربراہی بھی مردہی کے لیے مخصوص ہے،جس کی تائیدصحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے،

قَالَ: لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ قوم ہرگزفلاح نہیں پائے گی جنہوں نے اپناحاکم عورت کوبنالیا۔[142]

اسی طرح منصب قضاپربھی مردہی فائز ہوسکتاہے۔اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال کتاب وسنت کے مطابق عورتوں پر خرچ کرتے ہیں ، پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَیْرُ النِّسَاءِ امْرَأَةٌ إِذَا نَظَرْتَ إِلَیْهَا سَرَّتْكَ , وَإِذَا أَمَرْتَهَا أَطَاعَتْكَ , وَإِذَا غِبْتَ عَنْهَا حَفِظَتْكَ فِی نَفْسِهَا وَمَالِكَ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ} [143]الْآیَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورتوں میں سب سے بہترین وہ بیوی ہے کہ جب تم اس کی طرف دیکھوتووہ تمہیں خوش کردے،جب حکم دے تواطاعت کرےاورتمہاری عدم موجودگی میں اپنے نفس اورتمہارے مال کی حفاظت کرے،راوی کابیان ہے کہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ ’’ مرد عورتوں پر قوّام ہیں ۔ ‘‘کی تلاوت فرمائی۔[144]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِیلَ لَهَا: ادْخُلِی الْجَنَّةَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ

عبدالرحمٰن بن عوف سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب عورت پانچوں نمازیں پڑھے،اوررمضان روزے رکھے،اوراپنے نفس کی حفاظت کرے،اوراپنے شوہرکی اطاعت کرے، تواس سے کہاجائے گاکہ جنت کے جس دروازے سے چاہوداخل ہوجاؤ [145]

اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں اچھے پرائے میں سمجھاؤ ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَیْهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں کسی کویہ حکم دیتاکہ وہ دوسرے کوسجدہ کرے تومیں بیوی کوحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے، کیونکہ شوہرکابیوی پربہت بڑاحق ہے[146]

خط کشیدہ الفاظ مسنداحمدمیں ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَجِیءَ، لَعَنَتْهَا المَلاَئِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی شخص اپنی بیوی کواپنے بسترکی طرف بلائےاوروہ آنے سے انکارکردے توصبح تک فرشتے اس پرلعنت کرتے رہتے ہیں ۔[147]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا بَاتَتِ الْمَرْأَةُ، هَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب عورت اپنے شوہر بسترکو(بغیرکسی شرعی عذرکے)چھوڑتے ہوئے رات بسرکرے توصبح تک اس پرفرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں ۔[148]

اگروہ تمہاری نصیحت کونہ مانیں توخواب گاہوں میں ان سے وقتی اورعارضی طورپر علیحدہ رہو،جوسمجھ دارعورت کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ: {وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ} وَالْهُجْرَانُ: أَلَّا یُجَامِعَهَا فِی فِرَاشِهَا وَیُوَلِّیَهَا الظَّهْرَ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے ’’اورانہیں الگ بستروں پرچھوڑدو۔‘‘ معنی یہ ہیں کہ شوہراس سے مباشرت نہ کرے اس کے بستر پر نہ لیٹےبلکہ اس سے پیٹھ پھیر لے۔[149]

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں ہےوَلَا یُكَلِّمُهَا اس ساتھ گفتگوبھی نہ کرے۔[150]

عَنْ حَكِیمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الْقُشَیْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَیْهِ؟، قَالَ:أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَیْتَ، أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ

معاویہ رضی اللہ عنہ بن حیدہ قشیری سے مروی ہےمیں عرض کی اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کسی ایک پراس کی بیوی کاکیاحق ہے؟ فرمایایہ کہ جب کھاؤتواسے بھی کھلاؤ،پہنو یاحاصل کروتواسے بھی پہناؤ،اس کے چہرے پرنہ مارو، گالی نہ دو،اورترک نہ کرومگرگھرہی میں [151]

اگروہ وعظ ونصیحت اوربسترسے الگ ہوجانے کے بعدبھی اپنے طرزعمل سے بازنہ آئیں توانہیں (وحشیانہ اورظالمانہ نہیں بلکہ) ہلکی جسمانی سزادوجس سے ان کے جسم پرنشان نہ پڑیں ،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پرفرمایاتھا

فَاتَّقُوا اللهَ فِی النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَیْهِنَّ أَنْ لَا یُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَیْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

عورتوں  معاملے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں اوران کے سترکوتم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے حلال کیاہے،اور تمہاراحق ان پریہ ہے کہ تمہارے بچھونے پرکسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کاآناتم کو ناگوارہوپھراگروہ ایساکریں توان کوایساماروکہ ان کوسخت چوٹ نہ لگے،اوران کاحق تمہارے اوپراتناہے کہ دستورکے موافق انہیں خوراک اورکپڑادو۔[152]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کومارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادل ناخواستہ دی ہے اورپھربھی اسے ناپسندہی فرمایاہے۔ پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو ،اورمردوں کووعیدفرمائی کہ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے،یعنی بغیرکسی وجہ کے اگرتم عورتوں پرزیادتی کروگے تواللہ تم سے اس کا انتقام لے گا۔اگرگھرکے اندرمذکورہ تینوں طریقے کارگرثابت نہ ہوں اور تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو ، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا فَهَذَا الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ إِذَا تَفَاسَدَ الَّذِی بَیْنَهُمَافَیَنْظُرَانِ أَیُّهُمَا الْمُسِیءُ , فَأَمَرَ اللهُ سُبْحَانَهُ أَنْ یَبْعَثُوا رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَهْلِ الرَّجُلِ , وَمِثْلَهُ مِنْ أَهْلِ الْمَرْأَةِ ، فَإِنْ كَانَ الرَّجُلُ هُوَ الْمُسِیءُ حَجَبُوا عَنْهُ امْرَأَتَهُ وَقَصَرُوهُ عَلَى النَّفَقَةِ وَإِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ هِیَ الْمُسِیئَةُ قَصَرُوهَا عَلَى زَوْجِهَا , وَمَنَعُوهَا النَّفَقَةَ، فإِنِ اجْتَمَعَ رَأْیُهُمَا عَلَى أَنْ یُفَرِّقَا أَوْ یَجْمَعَا , فَأَمْرُهُمَا جَائِزٌ فَإِنْ رَأَیَا أَنْ یَجْمَعَا فَرَضِیَ أَحَدُ الزَّوْجَیْنِ وَكَرِهَ ذَلِكَ الْآخَرُ ثُمَّ مَاتَ أَحَدُهُمَا فَإِنَّ الَّذِی رَضِیَ یَرِثُ الَّذِی كَرِهَ , وَلَا یَرِثُ الْكَارِهُ الرَّاضِی

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے کہ ’’وہ ایک نیک شخص مرد خاندان میں سے اوراسی طرح ایک نیک مردعورت کے خاندان سے مقررکردیں وہ دونوں جائزہ لیں کہ ان میں سے براکون ہے ۔‘‘اگرمردبراہوتوعورت کواس سے روک لیں اوراسے نفقہ ادا کرنے پرمجبورکریں اگرعورت بری ہوتواسے شوہرکے پاس ہی رہنے دیں اورنفقہ سے روک دیں ، علیحدگی یاصلح میں سے جس بات پربھی ان کی رائے متفق ہوتودونوں طرح جائزہے،اگردونوں منصفوں کی رائے یہ ہوکہ انہیں مل جل کررہناچاہیے اوراس فیصلے پرمیاں بیوی میں سے ایک راضی ہوجائےاوردوسراراضی نہ ہو اوراگران میں سے ایک فوت ہوجائےتوجوفیصلے پرراضی تھاوہ اس کاوارث ہوگاجس نے اس فیصلے کوپسندنہیں کیاتھالیکن اس فیصلے کو ناپسند کرنے والا،پسندکرنے والے کاوارث نہیں ہو گا ۔[153]

اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‎﴿٣٦﴾‏ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا مُّهِینًا ‎﴿٣٧﴾‏(النساء)
’’ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا،جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپالیتے ہیںہم نے ان کافروں کے لیے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ،اوراس کے ساتھ کسی کوبھی چاہے وہ فرشتہ ہو،کوئی نبی ہو،کوئی ولی ہو یا دیگر مخلوق میں سے کوئی ہو شریک نہ بنائیں ، جو خود اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قدرت نہیں رکھتے،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [154]

ترجمہ:لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص واجب ہے جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے،جواس عظیم الشان کائنات کی تدبیر کر رہا ہے جس میں اس کانہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی معاون اور مددگار،اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے قیام کا حکم دینے کے بعد حقوق العباد کو قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے اورحقوق العباد کے مراتب میں اصول یہ قائم فرمایا ہے کہ جو سب سے زیادہ قریب ہے اس کے سب سے زیادہ حقوق ہیں ، چنانچہ فرمایا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی ان سے اچھی گفتگوکرو ، ان کے ساتھ تخاطب میں نرمی اختیارکرو اور ان کی ضروریات پر خرچ کرو ، ان کے دوستوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ اختیارکرو اور شرک کے علاوہ ان کے حکم کی اطاعت کرو،جیسے فرمایا

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْـنًا۝۰ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا۝۰ۭ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۸ [155]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھہرئےجسے تو ﴿(میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر،میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ۝۰ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۝۰ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۝۰ۡوَّاتَّبِــعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۵ [156]

ترجمہ:اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے ،اس کی ماں ضعف پر ضعف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے،لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان، دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے ،پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے اس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو ۔

اور جن لوگوں سے رشتے داری ہے ان کے حقوق ادا کر کے رشتے داریوں کو قائم رکھو،اور دیگر اقرباء خواہ وہ زیادہ قریبی ہوں یا قدرے دور کے رشتہ دار ہوں کے ساتھ بھی قول و فعل کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ قطع رحمی نہ کرو،

سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِینِ صَدَقَةٌ، وَهِیَ عَلَى ذِی الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.

سلیمان بن عامر سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسکین پرصدقہ صرف صدقہ ہے اوررشتہ دارپرصدقہ ،صدقہ بھی ہے اورصلہ رحمی بھی۔[157]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یُبْسَطَ لَهُ فِی رِزْقِهِ، أَوْ یُنْسَأَ لَهُ فِی أَثَرِهِ، فَلْیَصِلْ رَحِمَهُ

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سناجوشخص پسندکرے کہ اس کے لیے اس کارزق فراخ کیاجائے اوراس کے نشان قدم میں تاخیرکی جائے تواسے چاہیے کہ وہ اپنی رشتے داری کوملائے۔[158]

اوروہ چھوٹےیتیم بچوں کی کفالت کرو خواہ وہ تمہارے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ،اورمساکین کی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے حتی الامکان ان امور کا انتظام کروکہ ان کا فقر و فاقہ دور ہوجائے،اور رشتہ دار پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو،اورجوپڑوسی رشتہ دارنہ ہوان کے ساتھ بھی سے حسن سلوک سے پیش آؤ،

عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَا زَالَ جِبْرِیلُ یُوصِینِی بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَیُوَرِّثَنَّهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتے رہےیہاں تک کہ میں سمجھاکہ وہ ہمسایہ کاوارث بنادیں گے۔[159]

عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ: وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُهُ بَوَایِقَهُ

ابی شریع سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا،اللہ کی قسم !وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا،اللہ کی قسم !وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کون شخص؟فرمایاوہ شخص جس کی ایذارسانیوں سے اس کاہمسایہ بے خوف نہ ہو۔[160]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، وَتَعَاهَدْ جِیرَانَكَ

اورابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوذر رضی اللہ عنہ !جب توگوشت پکائے تواس میں شوربہ زیادہ رکھ اوراپنے ہمسایوں کاخیال رکھ۔[161]

اورپہلوکے ساتھی سے بھی حتی الامکان حسن سلوک کامظاہرہ کروبعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد شریک سفر ہے، بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے اور بعض اہل علم اس کا اطلاق مطلق ساتھی پر کرتے ہیں اور یہی زیادہ قرین صحت ہے کیونکہ یہ لفظ اس کو شامل ہے جو سفر و حضر میں ساتھ رہے اور یہ لفظ بیوی کو بھی شامل ہے،ساتھی پر ساتھی کا حق عام مسلمان بھائی سے بڑھ کر ہے،

وَقَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: هُوَ الَّذِی یَصْحَبُكَ وَیَلْزَمُكَ رَجَاءَ نَفْعِكَ. وَلَا یَبْعُدُ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْآیَةُ جَمِیعَ مَا فِی هَذِهِ الْأَقْوَالِ مَعَ زِیَادَةٍ عَلَیْهَا وَهُوَ كُلُّ مَنْ صَدَقَ عَلَیْهِ أَنَّهُ صَاحِبٌ بِالْجَنْبِ، أَیْ: بِجَنْبِكَ، كَمَنْ یَقِفُ بِجَنْبِكَ فِی تَحْصِیلِ عِلْمٍ أَوْ تَعَلُّمِ صِنَاعَةٍ أَوْ مُبَاشَرَةِ تِجَارَةٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ

ابن جریح رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مرادرفیق سفر،شریک کار،بیوی اوروہ شخص ہے جوفائدے کی امیدپرکسی کی قربت وہم نشینی اختیارکرےبلکہ اس کی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم،تعلیم صناعت کے لیے کسی کاروباری سلسلے میں آپ کے پاس بیٹھنے کاموقع ملے۔[162]

اور وہ غریب الوطن شخص جو دور اجنبی شہر میں ہو، وہ خواہ محتاج ہو یا نہ ہوحسن سلوک کرو،اکثرسلف کے نزدیک اس سے مرادمہمان بھی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُكْرِمْ ضَیْفَهُ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ

اورمہمان کی عزت واکرام کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے وہ اپنے پڑوسی کوتکلیف نہ پہنچائے،جوشخص اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کااکرام کرے، جوشخص اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔[163]

اور آپ کی ملکیت میں جو غلام یالونڈی ہویاگھروں یادکانوں کے ملازم ہوں اور ان کا تم لوگوں پر حق ہے کہ تم ان کی ضروریات کا انتظام رکھو، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد کرو، ان کی مصلحت اور بھلائی کی خاطر ان کی تادیب کرو، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی احادیث میں بڑی تاکیدکی گئی ہے،

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام، قَالَ: كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِیمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت کرتے ہوئے فرمایانماز،نمازاللہ تعالیٰ سے اپنے غلاموں کے بارے میں ڈرتے رہنا۔[164]

عَنْ خَیْثَمَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، إِذْ جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: أَعْطَیْتَ الرَّقِیقَ قُوتَهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ یَحْبِسَ، عَمَّنْ یَمْلِكُ قُوتَهُ

خیثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کاداروغہ آیااورانہوں نے پوچھاتم نے غلاموں کوخرچ دے دیا؟اس نے کہانہیں ،انہوں نے کہاانہیں دے دو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآدمی کواتناہی گناہ کافی ہے کہ وہ جس کوخرچ دیتاہے اس کاخرچ روک رکھے۔[165]

پس جو ان احکامات کی تعمیل کرتا ہے وہ اپنے رب کے سامنے جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آنے والا ہے، یہی شخص بہت زیادہ ثواب اور ثنائے جمیل کا مستحق ہے اور جو ان احکامات پر عمل نہیں کرتاوہ خود پسند اور بے حد فخر کرنے والا ہےاور اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ:إِنَّ اللهَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص جنت میں نہیں جائے گاجس دل میں رائی کے ایک دانے کے برابربھی کبرہوگا،ایک شخص بولاہرآدمی چاہتاہے اس کاجوتااچھاہواورکپڑے اوروں سے اچھے ہوں (توکیایہ بھی غروراورگھمنڈہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جمیل ہے اورجمال کودوست رکھتاہے غروروگھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کوناحق کرے اورلوگوں کوحقیرسمجھے ۔[166]

یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خرچ کرنے سے پہلے متکبرہواورجوخرچ کرنے کے بعد اپنی بڑائی پر فخر کرے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْتَبٍ بِشَمْلَةٍ لَهُ، وَقَدْ وَقَعَ هُدْبُهَا عَلَى قَدَمَیْهِ، فَقُلْتُ: أَیُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟، أَوْ رَسُولُ اللَّهِ فَأَوْمَأَ بِیَدِهِ إِلَى نَفْسِهِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ، وَفِیَّ جَفَاؤُهُمْ فَأَوْصِنِی، فَقَالَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ وَوَجْهُكَ مُنْبَسِطٌ، وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِی إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِی، وَإِنْ امْرُؤٌ شَتَمَكَ بِمَا یَعْلَمُ فِیكَ فَلَا تَشْتُمْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِیهِ، فَإِنَّهُ یَكُونُ لَكَ أَجْرُهُ، وَعَلَیْهِ وِزْرُهُ، وَإِیَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّ إِسْبَالَ الْإِزَارِ مِنَ الْمَخِیلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیلَةَ، وَلَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا

جابربن سلیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ساتھ احتباء کیا ہوا تھا جس کا پھندنا (کونا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آگیا تھا میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف خود اشارہ کیا،میں نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں کچھ چیزوں کے متعلق آپ سے سوال کرتا ہوں اور چونکہ میں دیہاتی ہوں اس لئے سوال میں تلخی ہوسکتی ہے مجھے کوئی وصیت فرمائیں ،نیکی سے بےرغبتی ظاہر نہ کرنا اگرچہ وہ بات کرتے ہوئے اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو، اگرچہ وہ نیکی اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی کے قطرے ٹپکانا ہی ہو، اور اگر تمہیں کوئی شخص گالی دے یا کسی ایسی بات کا طعنہ دے جس کا اسے تمہارے متعلق علم ہو تو تم اسے کسی ایسی بات کا طعنہ نہ دو جو تمہیں اسکے متعلق معلوم ہو کہ یہ چیز تمہارے لئے باعث ثواب اور اس کے لئے باعث وبال بن جائے گی،اور تہبند نصف پنڈلی تک باندھنا اگر یہ نہیں کرسکتے تو ٹخنوں تک باندھ لینا لیکن تہبند کو لٹکنے سے بچانا کیونکہ یہ تکبر ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے، اور کسی کو گالی مت دو، اس کے بعد میں نے کسی انسان کو بکری کو اور اونٹ تک کو گالی نہیں دی۔ [167]

اللہ تبارک و تعالیٰ نے بخل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا جو لوگ بخل کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنے قول و فعل سے بخیلی کا حکم دیتے ہیں ، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جومال یا علم عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں ،نہ اپنی ذات پرخرچ کرتے ہیں اورنہ اپنے اہل و عیال پر ، نہ اللہ تعالیٰ کے ضرورت مندبندوں کی مدد کرتے ہیں اور نہ کسی نیک کام میں حصہ لیتے ہیں اوریہ اللہ کی ناشکری ہے، انفاق کی فضیلت اور بخل کی مذمت کے بارے میں چندروایات ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ العِبَادُ فِیهِ، إِلَّا مَلَكَانِ یَنْزِلاَنِ، فَیَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَیَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہتا ہے اے اللہ! بھلائی کے راستہ میں خرچ کرنے والے کو اچھا عوض عطا فرما، اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخیل کو (مال و دولت کی) تباہی سے ہمکنار کر۔[168]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ، قَالَتْ: فَأَمَرْتُ الْخَادِمَ، فَأَخْرَجَ لَهُ شَیْئًا، قَالَتْ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهَا:یَا عَائِشَةُ، لَا تُحْصِی فَیُحْصِی اللَّهُ عَلَیْكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک مرتبہ ان سے کسی سائل نے سوال کیا، انہوں نے خادم سے کہا تو وہ کچھ لے کر آیا،اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! گن گن کر نہ دینا ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کر دے گا۔[169]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا:أَنْفِقِی، أَوْ انْضَحِی، أَوْ انْفَحِی هَكَذَا وَهَكَذَا، وَلَا تُوعِی، فَیُوعَى عَلَیْكِ، وَلَا تُحْصِی، فَیُحْصِیَ اللَّهُ عَلَیْكِ

اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا ،اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کردینا شروع کردے گا ۔[170]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: السَّخِیُّ قَرِیبٌ مِنَ اللهِ قَرِیبٌ مِنَ الجَنَّةِ قَرِیبٌ مِنَ النَّاسِ بَعِیدٌ مِنَ النَّارِ، وَالبَخِیلُ بَعِیدٌ مِنَ اللهِ بَعِیدٌ مِنَ الجَنَّةِ بَعِیدٌ مِنَ النَّاسِ قَرِیبٌ مِنَ النَّارِ، وَالْجَاهِلُ السَّخِیُّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَابِدٍ بَخِیلٍ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سخی اللہ سے قریب جنت سے قریب اور لوگوں سے قریب ہوتا ہے، بخیل اللہ سے دور جنت سے دور اور جہنم قریب ہوتا ہے ، اللہ کو جاہل سخی، بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے۔[171]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَصْلَتَانِ لاَ تَجْتَمِعَانِ فِی مُؤْمِنٍ: البُخْلُ وَسُوءُ الخُلُقِ.

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مومن میں یہ دو خصلتیں جمع نہیں ہو سکتیں ، بخل اور بداخلاقی۔[172]

کیونکہ یہ کفار کی صفات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم نے ایسے کافرنعمت کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اے اللہ ! ہر برائی سے ہم تیری پناہ کے طلبگار ہیں ۔

وَالَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن یَكُنِ الشَّیْطَانُ لَهُ قَرِینًا فَسَاءَ قَرِینًا ‎﴿٣٨﴾‏ وَمَاذَا عَلَیْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِیمًا ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً یُضَاعِفْهَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٤٠﴾(النساء)
’’ اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے، بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتےاور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے، اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے،بیشک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دو گنی کردیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے۔‘‘

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اپنی نام و نمود کے لئے اور لوگوں کے دلوں پر اپنی فیاضی کا سکہ بٹھانے کے لئے بےدریغ دولت خرچ کرتے ہیں ، حقیقت میں نہ اللہ وحدہ لاشریک پر ان کا ایمان ہوتا ہے اور نہ قیامت کے دن پر انہیں یقین ہوتا ہے، ان کا دوست اور ساتھی شیطان لعین ہوتا ہے اور جو اس ازلی بدخواہ کو اپنا صلاح کار بنا لے اس سے زیادہ بدقسمت کون ہوسکتا ہے، شیطان تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے دعویٰ کے مطابق اسے ہر نیک کام سے روکے گااس لیے اس سے بدترین ساتھ اور ہم سفر کوئی نہیں ہو سکتا،جو لوگ دکھانے کے لئے اور بےمقصد محض نموونمائش کے لیےمصارف میں خرچ کرتے ہیں ان کا وہ عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا اور حدیث میں اسے شرک قرار دیا گیا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِیهِ مَعِی غَیْرِی، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے میں شرک سے بالکل بےنیاز ہوں ، جو شخص کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس عمل کو شرک ہی کے لئے چھوڑ دیتا ہوں اور اس عمل کرنے والے کو بھی چھوڑ دیتا ہوں ۔[173]

فَقَالَ شَدَّادٌ: فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ صَلَّى یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَكَ

شداد بن اوس سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جس شخص نے دکھلانے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیاجس شخص نے دکھلانے کو روزہ رکھا اس نے شرک کیااور جس شخص نے دکھلانے کو صدقہ خیرات کیا اس نے شرک۔[174]

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُقَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الرِّیَاءُ، یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: إِذَا جُزِیَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِینَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِی الدُّنْیَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً

محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے، لوگوں نے پوچھا اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شرک اصغر سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریاکار، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں سے فرمائے گا جبکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا کہ جنہیں دکھانے کے لئے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی بدلہ ہے۔[175]

حدیث میں ہے کہ تین آدمیوں کوسب سے پہلے آگ میں جھونکاجائے گاریاکارعالم،ریارکارمجاہداورریاکارسخی ۔

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، فَقَالَ لَهُ نَاتِلُ أَهْلِ الشَّامِ: أَیُّهَا الشَّیْخُ، حَدِّثْنَا حَدِیثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: “ إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَیْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُقَالَ: جَرِیءٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِیكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِیلٍ تُحِبُّ أَنْ یُنْفَقَ فِیهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِیهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِیَ فِی النَّارِ

سلمان بن یسارسے روایت ہےجب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لوگ دور ہو گئے تو ان سے اہل شام میں سے ناتل نامی آدمی نے کہا اے شیخ آپ ہمیں ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو،تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت دن جس کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہوگا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا،تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو تو اس لئے لڑتا رہا کہ تجھے بہادر کہا جائے تحقیق! وہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دو یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا،اور دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا،تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا ؟وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا،پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا،اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس پر اللہ نے وسعت کی تھی اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا تھا اسے بھی لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا،وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو تیری رضا حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کیا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو نے ایسا اس لئے کیا کہ تجھے سخی کہا جائے تحقیق ! وہ کہا جا چکا،پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔[176]

آخر ان کافروں پر کیامصیبت نازل ہوجاتی اگر یہ کفرکے بجائے اللہ وحدہ لاشریک اور روز آخر پر ایمان رکھتے، اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے عطافرمایا ہےاس مال کواللہ کامال سمجھ کر اس کے حکم کے مطابق یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں اوردوسرے نیک کاموں اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ، اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا،اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ تو ایسا رحیم ہے کہ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بطور انعام بڑا اجر عطا فرماتا ہے،اوراللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ ایک نیکی کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،ثُمَّ یَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَیْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَیُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِیرًا ثُمَّ یَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِیهَا خَیْرًا ، وَكَانَ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ یَقُولُ: إِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِی بِهَذَا الْحَدِیثِ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {إِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً یُضَاعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِیمًا} [177]

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ایک طویل حدیث)میں فرمایااللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)فرمائے گاتم جاؤاورجس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی خیر(یعنی ایمان)کوپاؤاسے بھی جہنم سے نکال لاؤ،چنانچہ وہ بہت سی مخلوق کونکال لائیں گے،پھروہ کہیں گے اے ہمارے رب!اب تواس میں کوئی نہیں رہاجس میں ذرابھی ایمان تھا،ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ جب اس حدیث کوبیان کرتے توکہتے تھے اگرتم مجھے سچانہ جانوتواس حدیث میں اس آیت کوپڑھو’’اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔‘‘[178]

فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِیدًا ‎﴿٤١﴾‏ یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا یَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِیثًا ‎﴿٤٢﴾‏(النساء )
’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے ،جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتااور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے۔ ‘‘

پھرخیال کروان کفار کااس وقت کیا حال ہوگا جب میدان حشر میں ہر دورکاپیغمبراپنے دورکے لوگوں پراللہ تعالیٰ کی عدالت میں بطور گواہ پیش ہوں گےاور وہ اپنی امت کے ایمان و کفر و نفاق اور تمام افعال پر گواہی دیں ، اوراسی طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بھی اپنی امت کی بداعمالی پر گواہ ہوں گے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْرَأْ عَلَیَّ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، آقْرَأُ عَلَیْكَ، وَعَلَیْكَ أُنْزِلَ، قَالَ:نَعَمْ فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى أَتَیْتُ إِلَى هَذِهِ الآیَةِ: {فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ، وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِیدًا} [179]، قَالَ:حَسْبُكَ الآنَ فَالْتَفَتُّ إِلَیْهِ، فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پڑھو، میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کر دی اور جب’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔‘‘ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اب بس کرو،اور جب میں نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔[180]

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت سے آخرت کا منظر مستحضر ہو گیا اور اپنی امت کے کوتاہ عمل اور بےعمل لوگوں کی بابت خیال آیا اس لئے آنسو مبارک جاری ہو گئے۔اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے بڑے طمطراق سے رسول کی اطاعت کاانکارکیا اور اس کی سنت سے روگردانی،سرکشی کرتے رہے ،تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ،اور اس وقت کی پوچھ گچھ اور عذاب و حساب سے نجات پا جائیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَیَقُولُ الْكَافِرُ یَا لَیْتَنِی كُنْتُ تُرَابًا [181]

ترجمہ: اورکافرپکاراٹھے گاکہ کاش میں خاک ہوتا۔

میدان محشرمیں یہ کفاراللہ مالک یوم الدین سے اپنے عقائد و اعمال سے متعلق کچھ بھی پوشیدہ نہ رکھ سکیں گے، پہلے وہ اپنے شرک کاانکارکردیں گے ،جیسے فرمایا

 وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْٓا اَیْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۲۲ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ [182]

ترجمہ:جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے(کہ یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔

مگراللہ حکم سےان کے اپنے ہاتھ پاؤں اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے،جیسے فرمایا

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱ وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲ وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [183]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں ،وہ( سٹپٹاکر) اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گی ہمیں اس اللہ نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے ،اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائی جا رہے ہو ، تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے،تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔

ایک اورمقام پریہی بات یوں بیان فرمائی گئی ہے

 وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا۝۲ۙ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا۝۳ۚ یَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا۝۴ۙ بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا۝۵ۭ [184]

ترجمہ: زمین وہ سارے بوجھ نکال پھینکے گی جو اس کے اندر بھرے پڑے ہیں ، اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے، اس روز(انسان نے زمین کی پیٹھ پرکیاہوگا) زمین اپنی ساری سرگزشت سنا دے گی۔

اس کے علاوہ انبیاءگواہی دیں گے اورکراماًکاتبعین کے تیارکردہ اعمالناموں میں بھی سب کچھ موجود ہوگا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِی سَبِیلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَیْدِیكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ‎﴿٤٣﴾(النساء)
’’ اے ایمان والو ! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کرلو ، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے،اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو،بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔ ‘‘

عرب میں شراب نوشی کا مدت سے دستور تھا جس چیز کو شریعت نے منع نہ کیا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو اپنے دستور کے موافق استعمال میں لاتے تھےچنانچہ مکہ مکرمہ میں اس کا استعمال ہوتا رہا، اگر اسے یک لخت حرام کردیا جاتا تو مسلمان بڑی مشکل میں مبتلا ہوجاتے اس لئے حکیم وعلیم اللہ نے اس کی حرمت کے احکام تدریجاً نازل فرمائے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ میں تشریف لائے توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں شراب اور جوئے کے بارے میں فتوی دیجئے کیونکہ یہ دونوں چیزیں عقل اور مال کوتباہ کرنے والی ہیں ، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی،

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِیْهِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡوَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا۔۔۔۝۲۱۹ۙ [185]

ترجمہ:پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہوان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

ابتدا میں تو صرف اتنا اشارہ کردیا کہ شراب یہ مضر اور نقصان دہ چیز ہے اوراللہ کو پسند نہیں ، چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کرنے لگا تھا مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الخَمْرِ، فَأَخَذَتِ الخَمْرُ مِنَّا، وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَقَدَّمُونِی فَقَرَأْتُ: {قُلْ یَا أَیُّهَا الكَافِرُونَ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ} وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ. قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}.

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے شراب کی حرمت سے پہلے ایک دفعہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے کھاناپکایاپھرہمیں بلایااورہمیں شراب پلائی، شراب نے ہمیں مدہوش کردیا اتنے میں نماز(مغرب)کاوقت آگیااورانہوں نے مجھے امام بنادیا(بعض روایات میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تھی)میں نے پڑھا’’ کہہ دے اے کافرو!میں اس کی عبادت نہیں کرتاجس کی تم کرتے ہواورہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کی تم عبادت کرتے ہو(ظاہر ہے اس سے معنی بالکل خلاف اور غلط ہوگئے)تواس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز قریب نہ جاؤ،نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔‘‘[186]

چنانچہ اس آیات کریمہ میں تنبیہ کر دی گئی کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض لوگ اوقات صلوة کے علاوہ دوسرے وقتوں میں شراب پیتے رہے، کوئی عشاء کی نماز کے بعد شراب پی لیتا تو صبح کی نماز تک اس کانشہ اتر جاتا، اور کوئی صبح کی نماز کے بعد پی لیتا تو ظہر کی نماز تک اس کانشہ اتر جاتا، اس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک روز عتبان بن مالک نے بہت سے آدمیوں کی دعوت کی کھانے کے بعد اس قدر شراب پی گئی کہ لوگ مست ہوگئے اور نشہ کی حالت میں ایک دوسرے کو مارنے لگے اور گالیاں دینے لگے اور ایک دوسرے کی مذمت میں اشعار پڑھنے لگے یہاں تک کہ ایک انصاری نے اونٹ کا جبڑا لے کر سعد بن ابی وقاص کے سر پر مارا جس سے سعد کاسرپھٹ گیا

قَالَ عُمَرُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: اللهُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ

اس حال کو دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں کوئی صاف اور واضح حکم نازل فرماا اس پر اللہ نے سورۂ المائدہ کی یہ آیات نازل فرمائیں ،

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ۝۰ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱ [187]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو !یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے ، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیز کرو امیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی،شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟۔

ان آیات میں صراحت کے ساتھ شراب اورہرنشہ آورچیز کی حرمت بیان کی گئی، ان آیات کے نازل ہوتے ہی یک لخت شراب کے تمام مٹکے توڑ دیے گئے اور مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں شراب بہنے لگی اور تمام مسلمان شراب سے فقط تائب ہی نہیں ہوئے بلکہ بےزار ہوگئے ، ایمان کے بعد تمام عبادتوں میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس لیے اس آیت میں نماز کے آداب بیان فرمائے کہ اور اسی طرح جنابت کی حالت(جب کہ تم ناپاک ہو اور غسل تم پر فرض ہو) میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کرلو ، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہواور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو اوروضوء اور غسل کے لیے پانی موجود ہی نہ ہو یاموجود تو ہو مگر بیماری اور معذوری کی وجہ سے استعمال نہ کرسکتا ہو، یاتم حالت سفر میں ہواورغسل کی ضرورت پڑگئی ہواورتمہارے قریب پانی موجودنہ ہو ، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے ، یا تم نے عورتوں سے مباشرت اور اختلاط کیا ہو ،اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو ،

عَنْ حُذَیْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلَاثٍ: جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ، وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا، وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا، إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمیں تین باتوں میں لوگوں پرفضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح کی گئی ہیں اورہمارے لیے ساری زمین نمازکی جگہ ہے اور جب ہمیں پانی نہ ملے توزمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنادی گئی ہے۔[188]

بےشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔

[1] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۳۱ ،وکتاب النکاح بَابُ المُدَارَاةِ مَعَ النِّسَاءِ، وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا المَرْأَةُ كَالضِّلَعِ ۵۱۸۴،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالنِّسَاءِ۳۶۴۴،السنن الکبری للنسائی۹۰۹۵

[2] الملک۲۴

[3] المجادلة۶

[4] البروج۹

[5] لقمان: 34

[6] لقمان۳۴

[7] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ۵۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ۹۳، مسنداحمد۹۵۰۱،صحیح ابن حبان ۱۵۹،مصنف ابن ابی شیبہ۳۰۳۰۹

[8] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ سورة النساء بَابُ وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى ۴۵۷۳،تفسیرابن کثیر۲۰۸؍۲

[9] النساء: 127

[10] النساء: 127

[11] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ سورة النساء بَابُ وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى ۴۵۷۴

[12] تفسیرطبری۵۲۵؍۷

[13] تفسیرطبری۵۲۵؍۷

[14] تفسیرابن ابی حاتم۸۵۶؍۳

[15] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ الأَكْفَاءِ فِی الدِّینِ ۵۰۹۰،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ ذَاتِ الدِّینِ ۳۶۳۵، صحیح ابن حبان ۴۰۳۶،سنن الدارمی۲۲۱۶،مصنف ابن ابی شیبہ۱۷۱۵۱

[16] النسائ۱۲۹

[17] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ۱۹۵۴، مسنداحمد۴۶۰۹، صحیح ابن حبان۴۱۵۶، مستدرک حاکم۲۷۷۹،سنن الدارقطنی۳۶۸۴، السنن الکبری للبیہقی ۱۴۰۴۲، مصنف ابن ابی شیبہ۳۶۲۸۶

[18] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ۱۹۵۲، شرح معانی الآثار ۵۲۵۷،سنن سعیدبن منصور۱۸۶۳

[19]۔معرفة السنن والآثار ۱۳۹۶۷،السنن الصغیر للبیہقی ۲۴۶۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۰۵۷، مسند الشافعی ۴۴، شرح السنة للبغوی۲۲۸۹

[20] تفسیرابن کثیر۲۰۹؍۲

[21] تفسیرابن کثیر۲۰۹؍۲

[22] الروایات التفسیریة فی فتح الباری۳۴۹؍۱

[23] تفسیرطبری۵۵۳؍۷

[24] البحر المحیط فی التفسیر۵۱۴؍۳

[25] تفسیرطبری۵۷۰؍۷

[26] مستدرک حاکم۳۱۸۱،شعب الایمان۷۶۸۱ ،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۱۴۴،السنن الصغیرللبیہقی ۳۲۸۰،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۵۱۷،تفسیرابن کثیر۲۱۵؍۲

[27] سنن ابوداود کتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ مَتَى یَنْقَطِعُ الْیُتْمُ۲۸۷۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۳۰۹

[28] تفسیرابن ابی حاتم۸۶۶؍۳

[29] تفسیرابن کثیر۲۱۶؍۲

[30] سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی مَا لِوَلِیِّ الْیَتِیمِ أَنْ یَنَالَ مِنْ مَالِ الْیَتِیمِ۲۸۷۲،سنن نسائی کتاب الوصایاباب مَا لِلْوَصِیِّ مِنْ مَالِ الْیَتِیمِ إِذَا قَامَ عَلَیْهِ۳۶۹۸،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایاباب بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى وَمَنْ كَانَ فَقِیرًا فَلْیَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۲۷۱۸، مسند احمد ۷۰۲۲

[31] صحیح ابن حبان ۴۲۴۴، السنن الکبری للبیہقی ۱۰۹۹۳،شعب الایمان۴۸۸۲

[32] السنن الکبری للبیہقی ۱۱۰۰۱

[33] صحیح مسلم کتاب الامارةبَابُ كَرَاهَةِ الْإِمَارَةِ بِغَیْرِ ضَرُورَةٍ۴۷۲۰، سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّخُولِ فِی الْوَصَایَا۲۸۶۸،سنن نسائی کتاب الوصایاالنَّهْیُ عَنِ الْوِلَایَةِ عَلَى مَالِ الْیَتِیمِ۳۶۹۷،مستدرک حاکم۷۰۱۷

[34] تفسیرابن کثیر۲۱۹؍۲

[35] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ إِذَا أَتَاهُ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ ۲۵۵۷

[36] السنن الکبری للبیہقی۷۶۶۶

[37] تفسیرطبری۱۹؍۷

[38] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۴۰۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۴۲۰۹،سنن ابوداود كِتَاب الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی مَا لَا یَجُوزُ لِلْمُوصِی فِی مَالِهِ؟۲۸۶۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی الوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۲۱۱۶،سنن نسائی كِتَابُ الْوَصَایَا بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ ۳۶۲۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْوَصَایَا بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۲۸۰۸

[39] صحیح بخاری كِتَابُ الحُدُودِبَابُ رَمْیِ المُحْصَنَاتِ ۶۸۵۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۶۲ ،سنن ابوداودکتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّشْدِیدِ فِی أَكْلِ مَالِ الْیَتِیمِ ۲۸۷۴، سنن نسائی کتاب الوصایا باب اجْتِنَابُ أَكْلِ مَالِ الْیَتِیمِ۳۷۰۱،صحیح ابن حبان ۵۵۶۱

[40] النساء: 10

[41] تفسیر ابن ابی حاتم ۴۸۸۴، ۸۷۹؍۳

[42] تفسیرابن کثیر۲۲۳؍۲،مستدرک حاکم۷۱۶۷

[43] البقرة۲۲۰

[44] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ مَا جَاءَ فِی مِیرَاثِ البَنَاتِ۲۰۹۲،سنن ابوداودکتاب الفرائض بَابُ مَا جَاءَ فِی مِیرَاثِ الصُّلْبِ ۲۸۹۱،سنن ابن ماجہ کتاب الفرائض بَابُ فَرَائِضِ الصُّلْبِ۲۷۲۱،سنن الدار قطنی۴۰۹۳

[45] النساء: 11

[46] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ قَوْلِهِ یُوصِیكُمُ اللهُ فِی أَوْلاَدِكُمْ۴۵۷۷،صحیح مسلم کتاب الفرائض بَابُ مِیرَاثِ الْكَلَالَةِ۴۱۴۵

[47] جامع ترمذی ابواب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ یُبْدَأُ بِالدَّیْنِ قَبْلَ الوَصِیَّةِ۲۱۲۲،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا بَابُ الدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّةِ۲۷۱۶، مسنداحمد۱۲۲۲

[48] تفسیرابن کثیر۲۲۹؍۲

[49] تفسیر ابن ابی حاتم۴۹۳۹،۸۸۸؍۳

[50] سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی الْوَصِیَّةِ لِلْوَارِثِ۲۸۷۰،جامع ترمذی ابواب الوصایابَابُ مَا جَاءَ لاَ وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ۲۱۲۰،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ ۲۷۱۵،سنن نسائی کتاب الوصایابَابُ إِبْطَالِ الْوَصِیَّةِ لِلْوَارِثِ۳۶۷۱

[51] النور۵۲

[52] النساء: 13

[53]النساء: 14

[54] مسنداحمد۷۷۴۲

[55] النساء: 12

[56] النساء: 13

[57] سنن ابوداودكِتَاب الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْإِضْرَارِ فِی الْوَصِیَّةِ۲۸۶۷حكم الألبانی: ضعیف

[58] تفسیرابن کثیر۲۳۳؍۲

[59] صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ حَدِّ الزِّنَى ۴۴۱۴، سنن ابوداودکتاب الحدودبَابٌ فِی الرَّجْمِ۴۴۱۵،جامع ترمذی ابواب الحدودبَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجْمِ عَلَى الثَّیِّبِ ۱۴۳۴، سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ حَدِّ الزِّنَا۲۵۵۱،السنن الکبری للبیہقی۱۶۹۰۷

[60] تفسیرابن کثیر۲۳۵؍۲

[61] سنن ابوداود كِتَاب الْحُدُودِ بَابٌ فِیمَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۴۴۶۲، جامع ترمذی أَبْوَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَدِّ اللُّوطِیِّ۱۴۵۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ۲۵۶۱،مسنداحمد۲۷۳۲

[62] صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ لاَ یُثَرَّبُ عَلَى الأَمَةِ إِذَا زَنَتْ وَلاَ تُنْفَى۶۸۳۹،صحیح مسلم کتاب الحدود بَابُ رَجْمِ الْیَهُودِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِی الزِّنَى۴۴۴۵،سنن الکبری للبیہقی۱۷۰۸۶،مسنداحمد۱۰۴۰۵

[63] شرح النووی علی مسلم۲۱۱؍۱۱

[64] الزمر۵۳

[65] تفسیر طبری ۸۹؍۸

[66] تفسیرطبری۸۹؍۸

[67] تفسیرطبری۸۹؍۸

[68]۔تفسیرطبری۹۴؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۸۹۸؍۳

[69] تفسیرابن ابی حاتم۸۹۸؍۳

[70] تفسیرابن ابی حاتم۸۹۹؍۳

[71] جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب فِی فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ بِعِبَادِهِ۳۵۳۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ۴۲۵۳، مسنداحمد۶۱۶۰،مستدرک حاکم۷۶۵۹، صحیح ابن حبان ۶۲۸

[72] الزهد والرقائق لابن المبارك ۳۶۹؍۱

[73] مسند احمد ۱۱۳۶۷

[74] الشوری۲۵

[75] التوبة۱۰۴

[76] المومن ۸۴،۸۵

[77] الانعام۱۵۸

[78] مسند احمد ۲۱۵۲۲

[79] تفسیرابن ابی حاتم۵۰۳۲،۹۰۲؍۳

[80] تفسیر طبری ۵۲۶؍۶

[81] تفسیرابن کثیر۲۴۰؍۲،تفسیرطبری۵۲۵؍۶

[82] تفسیرطبری۵۲۳؍۶

[83] تفسیرابن ابی حاتم۵۰۳۳

[84] البقرة۲۲۸

[85] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۸۹۹، سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ۱۹۷۸،صحیح ابن حبان۴۱۷۷،سنن الدارمی ۲۳۰۶

[86] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالنِّسَاءِ۳۶۴۵، مسند احمد ۸۳۶۳

[87] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الطَّلَاقِ۲۱۷۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۸۹۴ حكم الألبانی : ضعیف

[88] مسند البزار۳۰۶۴

[89] البقرة۲۲۹

[90] مسنداحمد۲۸۵،سنن ابوداود کتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ ۲۱۰۶ ،جامع ترمذی کتاب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی مُهُورِ النِّسَاءِ۱۱۱۴،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْقِسْطُ فِی الْأَصْدِقَةِ۳۳۵۱،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ صَدَاقِ النِّسَاءِ۱۸۸۸

[91] النساء: 20

[92]تفسیرابن کثیر ۲۴۳؍۲بحوالہ مسندابویعلی

[93] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۹۰۵ ،صحیح ابن حبان۳۹۴۴،سنن الدارمی ۱۸۹۲، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۴۷۰۵،السنن الکبری للبیہقی ۸۸۲۷

[94] تفسیرابن ابی حاتم۵۰۷۳،تفسیرابن کثیر۲۴۵؍۲بحوالہ درمنشور

[95] تفسیرطبری۱۳۳؍۸

[96] الانعام۱۵۱

[97]بنی اسرائیل۳۲

[98] مسند احمد ۱۸۵۵۷،سنن ابوداود کتاب الحدود بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَزْنِی بِحَرِیمِهِ۴۴۵۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَحْكَامِ بَابٌ فِیمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِیهِ۱۳۶۲ ، سنن نسائی کتاب النکاح باب نِكَاحُ مَا نَكَحَ الْآبَاءُ۳۳۳۳،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب من تزوج امراة ابیہ من بعدہ۲۶۰۸ ،مستدرک حاکم۲۷۷۶،سنن الدارمی۲۲۸۵، السنن الکبری للبیہقی۱۲۴۵۹

[99] جامع ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَقُولُ لِآخَرَ یَا مُخَنَّثُ ۱۴۶۲، مستدرک حاکم۸۰۵۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۰۵۶

[100] السنن الکبری للبیہقی۱۳۹۶۹

[101] السنن الکبری للبیہقی ۱۳۹۶۹

[102] تفسیرابن کثیر۲۴۷؍۲، تفسیر اللباب فی علوم الکتاب۲۱۲؍۶،نھایة المحتاج۲۷؍۷،بدایة المجتھد ۱۲۶؍۴

[103] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاتِی أَرْضَعْنَكُمْ ۵۰۹۹، صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ ۳۵۶۸،سنن نسائی کتاب النکاح باب لَبَنُ الْفَحْلِ۳۳۱۵،موطاامام مالک کتاب الرضاع باب رَضَاعَةُ الصَّغِیرِ،مسنداحمد۲۵۴۵۳،سنن الدارمی ۲۲۹۳،السنن الکبری للنسائی ۵۴۴۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۳۹۰۲

[104] جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ یُحَرَّمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یُحَرَّمُ مِنَ النَّسَبِ ۱۱۴۶،مسند احمد ۱۰۹۶

[105] المغنی۱۱۳؍۷

[106] المعجم الکبیرللطبرانی۸۵۰،تفسیرابن کثیر۲۵۴؍۲

[107] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ لاَ تُنْكَحُ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا۵۱۰۹، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَحْرِیمِ الْجَمْعِ بَیْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا فِی النِّكَاحِ ۳۴۳۶،مسنداحمد۹۹۹۵

[108] شرح القسطلانی ۳۹؍۸

[109] ق۲۹

[110] ص:321

[111] النساء: 24

[112] مسنداحمد۱۱۷۹۷

[113] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی نِكَاحِ الْعَبْدِ بِغَیْرِ إِذْنِ سَیِّدِهِ ۲۰۷۸،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی نِكَاحِ العَبْدِ بِغَیْرِ إِذْنِ سَیِّدِهِ ۱۱۱۱،مسنداحمد۱۵۰۳۱

[114] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ۱۸۸۲،سنن الد ارقطنی ۳۵۳۵، السنن الصغیرللبیہقی۲۳۷۳،السنن الکبری للبیہقی۱۳۶۳۴

[115] تفسیرابن ابی حاتم۹۲۶؍۳

[116] تفسیر طبری ۲۱۷؍۸

[117] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۰؍۱

[118] تفسیرطبری۲۲۱؍۸

[119] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابٌ البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا۲۱۱۰،صحیح مسلم كِتَابُ الْبُیُوعِ بَابُ الصِّدْقِ فِی الْبَیْعِ وَالْبَیَانِ۳۸۵۸، مسنداحمد۱۵۳۱۴

[120] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابٌ إِذَا خَیَّرَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ بَعْدَ البَیْعِ فَقَدْ وَجَبَ البَیْعُ۲۱۱۲

[121] النساء: 29

[122] مسنداحمد۱۷۸۱۲،سنن ابوداود كِتَاب الطَّهَارَةِ بَابُ إِذَا خَافَ الْجُنُبُ الْبَرْدَ أَیَتَیَمَّمُ۳۳۴

[123] مسند احمد۷۴۴۸، صحیح بخاری كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ شُرْبِ السُّمِّ وَالدَّوَاءِ بِهِ وَبِمَا یُخَافُ مِنْهُ وَالخَبِیثِ۵۷۷۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ قَتْلِ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ، وَأَنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِی النَّارِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ۳۰۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطِّبِّ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِسُمٍّ أَوْ غَیْرِهِ ۲۰۴۴

[124] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ قَتْلِ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ، وَأَنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِی النَّارِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ۳۰۲،سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الْحَلْفِ بِالْبَرَاءَةِ وَبِمِلَّةٍ غَیْرِ الْإِسْلَامِ۳۲۵۷

[125] مسنداحمد۲۳۷۱۸،صحیح بخاری كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابٌ لاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۹۱۰

[126] صحیح بخاری كِتَابُ الحُدُودِ بَابُ رَمْیِ المُحْصَنَاتِ ۶۸۵۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا ۲۶۲

[127] مسند احمد ۱۲۳۳۶،صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ مِنَ الكَبَائِرِ۵۹۷۷ ، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۶۱

[128] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ مِنَ الكَبَائِرِ ۵۹۷۶، وكِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ مَا قِیلَ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ ۲۶۵۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا ۲۵۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی عُقُوقِ الوَالِدَیْنِ۱۹۰۱

[129] الفرقان: 68

[130] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَالَّذِینَ لاَ یَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالحَقِّ ۴۷۶۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ، وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ۲۵۸

[131] مسنداحمد۶۸۸۴،صحیح بخاری كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ الیَمِینِ الغَمُوسِ ۶۶۷۵،سنن نسائی كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ ذِكْرُ الْكَبَائِرِ۴۰۱۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ۳۰۲۱

[132] مسنداحمد۷۰۲۹،صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ لاَ یَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ۵۹۷۳،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا ۲۶۳،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی بِرِّ الْوَالِدَیْنِ ۵۱۴۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی عُقُوقِ الوَالِدَیْنِ ۱۹۰۲

[133] صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابُ خَوْفِ المُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُهُ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ۴۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ۲۲۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ بَابُ مَا جَاءَ سِبَابُ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ۲۶۳۵،سنن نسائی كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ باب قِتَالُ الْمُسْلِمِ۴۱۰۹ ،مسنداحمد۳۶۴۷

[134] النساء: 32

[135] مسند احمد ۲۶۷۳۶

[136] النساء: 33

[137] النساء: 33

[138] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِیبَهُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدًا۴۵۸۰

[139] الانفال۷۵

[140] البقرة۲۲۸

[141] یوسف۱۰۹

[142] صحیح بخاری كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ الفِتْنَةِ الَّتِی تَمُوجُ كَمَوْجِ البَحْرِ۷۰۹۹

[143] النساء: 34

[144] تفسیرطبری۲۹۵؍۸

[145] مسنداحمد۱۶۶۱

[146] جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى المَرْأَةِ۱۱۵۹،مسنداحمد۱۲۶۱۴ عن انس

[147] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ إِذَا بَاتَتِ المَرْأَةُ مُهَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا۵۱۹۳

[148] صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ تَحْرِیمِ امْتِنَاعِهَا مِنْ فِرَاشِ زَوْجِهَا ۳۵۳۸

[149] تفسیرابن ابی حاتم۹۴۲؍۳

[150] تفسیرطبری۳۰۳؍۸

[151] سنن ابوداودكِتَاب النِّكَاحِ بَابٌ فِی حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا ۲۱۴۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ۱۸۵۰،السنن الکبری للنسائی۹۱۳۶

[152] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰،سنن ابوداود كِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابُ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۹۰۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ حَجَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۰۷۴

[153] تفسیرابن ابی حاتم۹۴۵؍۳،تفسیرطبری۳۲۵؍۸

[154] الفرقان۳

[155] العنکبوت۸

[156] لقمان۱۴،۱۵

[157] جامع ترمذی أَبْوَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَلَى ذِی القَرَابَةِ۶۵۸

[158] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ مَنْ أَحَبَّ البَسْطَ فِی الرِّزْقِ ۲۰۶۷، صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ وَتَحْرِیمِ قَطِیعَتِهَا۶۵۲۳،سنن ابوداودكِتَاب الزَّكَاةِ بَابٌ فِی صِلَةِ الرَّحِمِ۱۶۹۳

[159] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالْجَارِ وَالْإِحْسَانِ إِلَیْهِ۶۶۸۵،صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الوَصَاةِ بِالْجَارِ ۶۰۱۴،سنن ابوداودأَبْوَابُ النَّوْمِ بَابٌ فِی حَقِّ الْجِوَارِ ۵۱۵۱،جامع ترمذی ابواب باب ۱۹۴۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ حَقِّ الْجِوَارِ ۳۶۷۳

[160] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ إِثْمِ مَنْ لاَ یَأْمَنُ جَارُهُ بَوَایِقَهُ ۶۰۱۶

[161] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالْجَارِ وَالْإِحْسَانِ إِلَیْهِ۶۶۸۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابُ مَنْ طَبَخَ، فَلْیُكْثِرْ مَاءَهُ۳۳۶۲

[162] فتخ القدیر۵۳۵؍۱

[163] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُؤْذِ جَارَهُ ۶۰۱۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ الْحَثِّ عَلَى إِكْرَامِ الْجَارِ وَالضَّیْفِ، وَلُزُومِ الصَّمْتِ إِلَّا عَنِ الْخَیْرِ وَكَوْنِ ذَلِكَ كُلِّهِ مِنَ الْإِیمَانِ۱۷۳،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ حَقِّ الْجِوَارِ۳۶۷۲

[164] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ ۵۱۵۶

[165] صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الْعِیَالِ وَالْمَمْلُوكِ، وَإِثْمِ مَنْ ضَیَّعَهُمْ أَوْ حَبَسَ نَفَقَتَهُمْ عَنْهُمْ ۲۳۱۲

[166] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ ۲۶۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الكِبْرِ ۱۹۹۹

[167] مسنداحمد۲۰۶۳۵

[168] صحیح بخاری كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى۱۴۴۲،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابٌ فِی الْمُنْفِقِ وَالْمُمْسِكِ۲۳۳۶

[169] مسنداحمد۲۴۴۱۸

[170] مسنداحمد۲۶۹۳۵

[171] جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّخَاءِ۱۹۶۱

[172] جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی البَخِیلِ ۱۹۶۱

[173] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِی عَمَلِهِ غَیْرَ اللهِ۷۴۷۵

[174] مسنداحمد۱۷۱۴۰

[175] مسنداحمد۲۳۶۳۰

[176] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ مَنْ قَاتَلَ لِلرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ اسْتَحَقَّ النَّارَ ۴۹۲۳

[177] النساء: 40

[178]صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ۴۵۳

[179] النساء: 41

[180] صحیح بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِ المُقْرِئِ لِلْقَارِئِ حَسْبُكَ۵۰۵۰

[181] النبائ۴۰

[182] الانعام۲۲،۲۳

[183] حم السجدہ۲۰تا۲۳

[184] الزلزال۲تا۵

[185] البقرة۲۱۹

[186] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ۳۰۲۶،سنن ابوداودكِتَاب الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِی تَحْرِیمِ الْخَمْرِ۳۶۷۱،السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۴۱،مستدرک حاکم ۳۱۹۹،تفسیرابن ابی حاتم۹۵۸؍۳

[187] المائدہ۹۰،۹۱

[188] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ باب۱۱۶۵

Related Articles