ہجرت نبوی کا دوسرا سال

حق وباطل آمنے سامنے

سترہ رمضان المبارک ؍ چھبیس مارچ ۶۲۴ء کورات کب تک بارش ہوتی رہی اس کاصحیح اندازانہیں  لیکن یوں  معلوم ہوتاہے کہ صبح تک بارش رک چکی اور موسم خوشگوارہوچکاتھا،

فَجَاءَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ، وَالْحَجَفِ،فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَحَرَّضَ عَلَى الْقِتَالِ،ثُمَّ قَالَ:إِنَّ جَمْعَ قُرَیْشٍ تَحْتَ هَذِهِ الضِّلَعِ الْحَمْرَاءِ مِنَ الْجَبَلِ

عقبہ بن عبدالسلمی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں جنگ بدرمیں  رات کوبارش ہوئی ،ہم نے ٹیلوں ،درختوں ،ڈھالوں  اورچھپروں  تلے گزاری،صبح کواذان کی آواز کے ساتھ ہی جوجہاں  تھاوہاں  سے نکل آیا،نمازکی صفیں  سیدھی کی گئیں اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نمازپڑھائی،اس کے بعدخطبہ ارشادفرمایاجس میں  ہمیں  جہادکی رغبت دلائی ،لڑائی پرآمادہ کیااورہمیں  بتلادیاکہ قریش ان چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں  کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں ۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَخْرَجَهُ إِلَى بَدْرٍ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَعَدَنِی بَدْرًا، وَأَنْ یُغْنِمَنِی عَسْكَرَهُمْ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَلَهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ غَنَائِمِهِمْ إِنْ شَاءَ اللهُ، وَمَنْ أَسَرَ أَسِیرًا فَلَهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ غَنَائِمِهِمْ إِنْ شَاءَ اللهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ نے خطبہ میں  ارشاد فرمایااللہ تعالیٰ نے مجھ سے بدر کا وعدہ فرمایاہے ،یہ بھی اس کاوعدہ ہے کہ وہ مشرکین کے اس لشکرپرہمیں  فتح عطافرمائے گااورغنیمتوں  کامالک بنائے گا،مسلمانو!تم میں  سے جوکسی مشرک کوقتل کرے گااسے ہم مال غنیمت میں  سے اتنااتنادیں  گے اورجوکسی مشرک کوقیدکرے گااسے اس مال میں  سے اتنااتنادیں  گے۔[2]

نمازسے فارغ ہوکر قریش کے میدان میں  آنے سے قبل ہی مجاہدین کودویاتین صفوں میں  تقسیم فرمادیااورہر صف کادرمیانی فاصلہ اندازاً دس سے پندرہ میڑ رکھا (کیونکہ تلواراورنیزوں  کی لڑائی میں  اتنافاصلہ ضروری ہے ،ورنہ اپنے ہی ہاتھوں  سے اپنے ہی آدمیوں  کے زخمی ہونے کاخطرہ رہتاہے )اورمجاہدین کی صفوں  کوصفوفِ ملائکہ کی طرح سیدھاکیااس طرح صف میں  کھڑے ہونے سے محاذکی نسبت زیادہ حصہ پرلشکرکوپھیلاؤمل گیامگرلشکرکی گہرائی کم تھی ،افرادی برتری رکھنے والے لشکروں  کے کماندارکم افرادی طاقت کے دشمن کے پہلوؤں  کواپنی لپیٹ میں  لے کرپورے محاذ کو گھیرے میں  لینے کی کوشش کرتے ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے کوبھانپ لیاتھا،زمین ایسی تھی کہ دشمن اپنی اسکیم میں  کامیاب ہوسکتا تھا اوردشمن صف بندی کے فن سے ناواقف سہی مگروہ گھیراڈالنے میں  خوب مشتاق تھے ،اسی خطرے کے پیش نظررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بازوؤں  کوقدرے ترچھاکرکے دونوں  اطراف تیزاندازمتعین کردیئے تھے تاکہ وہ جونہی دشمن کوگھیراڈالنے کی غرض سے حرکت کرتے دیکھیں  توتیروں  کی بوچھاڑسے ان کااستقبال کریں باقی تیراندازوں  کوپچھلی صفوں  میں  کھڑاکیا گیا، مجاہدین کی ایک ٹولی کواسلامی لشکرکے عقب میں  جانے والے راستے کومحفوظ بنانے کے لئے متعین کیا ، مجاہدین کے پاس باربرداری کے جو چنداونٹ تھے انہیں  لشکرکے پیچھے زمین کی سلوٹ کی اوٹ میں  بٹھادیاگیااس طرح لشکرکے دونوں  بازوؤں  پرمتین تیراندازان کی باآسانی حفاظت کرسکتے تھے ،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی صف بندی کاتنقیدی نظرسے جائزہ لیا۔

مورخین بیان کرتے ہیں  کہ صفوں  کارخ اس طرح رکھاکہ آفتاب پس پشت رہے۔[3]

اورسورج کی تیزروشنی دشمن کی آنکھوں  میں  پڑے اوران کے تیروں  کے نشانے خطاجائیں ،اس کے علاوہ مارچ کامہینہ تھااور گرمیوں  کے ابتدائی دن تھےاس موسم میں  جزیرہ نمائے عرب کے خاص طورپرنصف شمالی حصہ میں  ہوائیں  کسی قدر شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف چلتی ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہواؤں  کے چلنے کی سمت کابھی خاص خیال رکھاکہ اگرتیزہواچلے تووہ مسلمانوں  سے کفارکی رخ پرچلے اور مسلمانوں  کی آنکھوں  میں  ریت وغیرہ کے ذرات نہ پڑیں ،صف بندی کے بعدمختلف حصوں  پر امیر مقرر فرمائے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاسب سے بڑاجھنڈالواء مہاجرین تھا جو مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ تھامے ہوئے تھے ،لواء خزرج حباب بن منذر رضی اللہ عنہ  تھامے ہوئے تھے اورلواء اوس سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ  کے پاس تھا، چونکہ مسلمانوں  اورمشرکین کا کوئی امتیازی لباس نہ تھا،تمام عرب ایک جیسالباس زیب تن کرتے تھے ،لڑائی میں  دوست اوردشمن میں  تمیزکرنامشکل ہوجاتاہے ،لڑائی کی گرمی اورجوش میں  نیزہ ،بھالایاتلواربلندہوکرتیزی سے حرکت کرنے والے ہدف پرگرنے لگے توغلطی کااحساس ہونے کے باوجودراستے میں  اسے روکانہیں  جاسکتااس طرح خطرہ ہوتاہے کہ احتیاط کے باوجوداپنے ہاتھوں  اپنے کسی ساتھی کاکچھ نقصان نہ ہوجائے

وَكَانَ شِعَارُ  أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ: أَحَدٌ أَحَدٌ

چنانچہ اس طرح کے موقع کے سدباب کے لئے اصحاب رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کاشعاراحد،احدکاجملہ مقررکیاگیا۔[4]

وَكَانَ شِعَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْقِتَالِ، فِی بَدْرٍ: یَا مَنْصُورُ أَمِتْ

ایک روایت ہےغزوہ بدرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یامنصورامت کاشعارمقررکیا۔[5]

عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ.قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شِعَارَ الْمُهَاجِرِینَ یَوْمَ بَدْرٍیَا بَنِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَشِعَارُ الْخَزْرَجِ: یَا بَنِی عَبْدِ اللهِ. وَشِعَارُ الْأَوْسِ یَا بَنِی عُبَیْدِ اللهِ، وسمى خیله خیل الله.

عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے روز مہاجرین کے لئے یابنی عبدالرحمٰن ،قبیلہ خزرج کے لئےیا بنی عبداللہ قبیلہ اوس کے لئے یابنی عبیداللہ مقررفرمایا۔[6]

 شعار المهاجرین: یَا بَنِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ.وَشِعَارُ الْخَزْرَجِ: یَا بَنِی عَبْدِ اللهِ. وَشِعَارُ الْأَوْسِ یَا بَنِی عُبَیْدِ اللهِ. وَیُقَالُ: بَلْ كَانَ شِعَارُ الْمُسْلِمِینَ جَمِیعًا یَوْمَئِذٍ: یَا مَنْصُورُ أَمِتْ

ابن سعدکہتے ہیں  مہاجرین کاشعاریابنی عبدالرحمٰن اورخزرج کاشعاریابنی عبداللہ اوراوس کا شعار یا بنی عبیداللہ مقررکیاگیالیکن اس روزتمام مسلمین کاشعاریامنصورامت مقررکیاگیا۔[7]

تاکہ اگرمقابل یہ شعارنہ دھرائے تومعلوم ہوجائے کہ وہ دشمن کاآدمی ہے۔

 مجاہدین کوہدایات :

لَا یُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَى شَیْءٍ حَتَّى أَكُونَ أَنَا دُونَهُ

اور مجاہدین کوہدایات فرمائیں تم میں  سے کوئی شخص کسی چیزکی طرف پیش قدمی نہ کرے جب تک میں  پیش قدمی نہ کروں ۔[8]

عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ:إِذَا أَكْثَبُوكُمْ فَارْمُوهُمْ، وَاسْتَبْقُوا نَبْلَكُمْ

ابواسید رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے غزوہ بدرکے دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کوخاص طورپرہدایت فرمائی کہ مجاہدین اس صف بندی کونہ توڑیں ،جب کفارتم پرہجوم کریں  اورتمہارے قریب آ جائیں  توان پرتیرچلانااور(جب تک وہ دوررہیں )اپنے تیروں  کو بچائے رکھنا۔ [9]

عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:  قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ، حِینَ صَفَفَنَا لِقُرَیْشٍ وَصَفُّوا لَنَا: إِذَا أَكْثَبُوكُمْ فَعَلَیْكُمْ بِالنَّبْلِ

حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدر کے دن جب ہمارا قریش کے مقابلہ میں  صفیں  قائم کیں  اور انہوں  نے ہمارے مقابلہ میں  صفیں  قائم کیں  تو فرمایا اگر(حملہ کرتے ہوئے) قریش تمہارے قریب آجائیں  توتم لوگ تیراندازی شروع کردیناتاکہ وہ پیچھے ہٹنے پرمجبورہو جائیں ۔[10]

حَمْزَةَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ السَّاعِدِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ:وَلَا تَسُلُّوا السُّیُوفَ حَتَّى یَغْشَوْكُمْ

حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدر کے دن فرمایااور شمشیربھی اس وقت سونتناجب وہ تم پرچھاجائیں (اورتلوارکی مارپرہوں )۔[11]

حُسَیْنِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِی لُبَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:لَمَّا كَانَ لَیْلَةُ الْعَقَبَةِ، أَوْ لَیْلَةُ الْبَدْرِ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ:كَیْفَ تُقَاتِلُونَ؟ فَقَامَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْأَقْلَحِ، فَأَخَذَ الْقَوْسَ  وَالنَّبْلَ، فَقَالَ: أَیْ رَسُولَ اللهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ قَرِیبًا مِنْ مِائَتَیْ ذِرَاعٍ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، كَانَ الرَّمْیُ ، وإِذَا دَنَا الْقَوْمُ، حَتَّى تَنَالَنَا وَتَنَالَهُمُ الرَّمَّاحِ حتى تقصف، حَتَّى تَتَقَصَّفَ، فَإِذَا تَقَصَّفَتْ وَضَعْنَاها وأخذنا بالسَّیْفُ  وَكَانَتِ الْمُجَالَدَةُ،بِالسُّیُوفِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بِهَذَا أُنْزِلَتِ الْحَرْبُ مَنْ قَاتَلَ فَلْیُقَاتِلْ قِتَالَ عَاصِمٍ

اور حسین بن سائب سے روایت میں  ہےغزوہ بدرکے دن جب علمبرداران حق اورپرستاران طاغوت ایک دوسرے کے خلاف صف آراہوئے توہنگامہ کارزارگرم ہونے سے پہلے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ایک انصاری جاں  نثارکی طرف مخاطب ہوکرفرمایاتم دشمن سے کس طرح لڑوگے؟عاصم بن ثابت نے جنہوں  نے ہاتھ میں  تیراورکمان تھام رکھی تھی کھڑے ہوکر عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !جب دشمن دوسوگزکے فاصلے پرہوگاتوہم اس پرتیربرسائیں  گے ،جب وہ آگے بڑھ کرنیزے کی زدمیں  آئے گاتوہم نیزوں  سے لڑیں  گے اورجب اس سے بھی آگے آئے گاتوہم تلواروں  سے اس کامقابلہ کریں  گے،ان کاجواب سن کررسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے روئے انورپربشاشت پھیل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  لڑنے کایہی صحیح طریقہ ہےاور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسرے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہوکرفرمایاجولڑناچاہے عاصم کی طرح لڑے۔[12]

إِنِّی قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ بَنِی هَاشِمٍ وَغَیْرِهِمْ، قَدْ أُخْرِجُوا كُرْهًا، لَا حَاجَةَ لَهُمْ بِقِتَالِنَا، فَمَنْ لَقِیَ  مِنْكُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ أَیْ: مِنْ بَنِی هَاشِمٍ فَلَا یَقْتُلُهُ، وَمَنْ لَقِیَ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ بْنَ هِشَامٍ فَلَا یَقْتُلُهُ، وَمَنْ لَقِیَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَا یَقْتُلُهُ، فَإِنَّهُ إِنَّمَا أُخْرِجَ مُسْتَكْرَهًا، فَقَالَ أَبُو حُذَیْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ: أَنَقْتُلُ آبَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا وَإِخْوَانَنَا وَعَشَائِرَنَا وَنَتْرُكُ الْعَبَّاسَ؟ ! وَاللهِ لَئِنْ لَقِیتُهُ لَأَلْجِمَنَّهُ بِالسَّیْفِ؟ فَبَلَغَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ:یَا أَبَا حَفْصٍ قَالَ عُمَرُ: وَاللهِ إِنَّهُ لَأَوَّلُ یَوْمٍ كَنَّانِی فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُضْرَبُ وَجْهُ عَمِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّیْفِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ائْذَنْ لِی فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَوَاللهِ لَقَدْ نَافَقَ،فَكَانَ أَبُو حُذَیْفَةَ یَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ: وَاللهِ مَا آمَنُ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِی قُلْتُ، وَلَا أَزَالُ مِنْهَا خَائِفًا، إِلَّا أَنْ یُكَفِّرَهَا اللهُ عَنِّی بِشَهَادَةٍ. فَقُتِلَ یَوْمَ الْیَمَامَةِ شَهِیدًا،رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی مجھے معلوم ہواہے کہ جولوگ لڑنے آئے ہیں  ان میں  ایسے بھی ہیں  جوخوشی سے لڑنے نہیں  آئے بلکہ ان کوزبردستی نکالا گیا ہے جیسے بنی ہاشم ان کوقتل نہ کیاجائے،ابوالنختری بن ہشام کوکوئی قتل نہ کرے،عباس بن عبدالمطلب کوبھی قتل نہ کیاجائےاسے بھی بادل نخواستہ ان لوگوں  نے اپنے ساتھ کھینچا ہے،اس پرابوحذیفہ بن عتبہ  رضی اللہ عنہ نے کہاکہ کیاہم اپنے باپ داداؤں  کواپنے بچوں  کواپنے بھائیوں  کواوراپنے کنبے قبیلے کوقتل کریں  اورعباس رضی اللہ عنہ  کوچھوڑدیں ؟واللہ!اگروہ مجھے مل گیاتومیں  اس کی گردن ماردوں  گا،جب یہ بات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی توآپ نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے فرمایااے ابوحفص!سیدناعمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مجھے کنیت سے پکاراکیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاکے منہ پرتلوارماری جائے گی ؟ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیں  کہ میں  ابوحذیفہ کی گردن اڑادوں ،اللہ کی قسم !وہ تومنافق ہوگیا،ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  واللہ مجھے اپنے اس دن کے قول کاکھٹکاآج تک ہے میں  اس سے ابھی تک ڈرہی رہاہوں  ،میں  تواس دن چین پاؤں  گاجس دن اس کاکفارہ ہو جائے اوروہ یہ ہے کہ میں  راہ حق میں  شہیدکردیاجاؤں ،چنانچہ جنگ یمامہ میں  آپ شہید ہوئے۔[13]

ابو البختری میں  انسانی ہمدردی کاجذبہ بہت تھااس نے کبھی بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت نہیں  کی تھی،جب تمام بنوہاشم شعب بنی ہاشم میں  محصورتھے اورسارے قریش نے ان سے ترک موالات کیاہواتھاتواس وقت بھی اس شخص نے بنوہاشم کو بسا اوقات غذائی اشیاء بہم پہنچانے میں  مدددی تھی اوراس سلسلہ میں  اس کوابوجہل سے لڑنا بھی پڑا تھا ، اوراس معاہدہ کو(جس کی وجہ سے بنوہاشم شعب بنی ہاشم میں  محصورتھے )جن افرادنے فسخ کرنے کی کوشش کی تھی ان کے محرکوں  اورموثرکوشش کرنے والوں  میں  سے ایک تھا

أَمَرَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَنَادَى یَوْمَ بَدْرٍ أَلا إِنَّهُ لَیْسَ لأَحَدٍ مِنَ الْقَوْمِ عِنْدِی مِنَّةٌ إِلا لأَبِی الْبَخْتَرِیِّ، فَمَنْ كَانَ أَخَذَهُ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَهُ،  وَكَانَ رَسُولُ اللهِ قَدْ آمَنَهُ، قَالَ: فَوُجِدَ قَدْ قُتِلَ

مروی ہے  غزوہ بدرکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاتوندادی گئی آگاہ ہوکہ اس قوم(مشرکین)میں  سے ابوالبختری کے علاوہ مجھ پرکسی اورشخص کااحسان نہیں  ہے، لہذاجس نے اسے گرفتارکیاہواسے رہاکردےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے امن دے دیاہےمگرمعلوم ہواکہ وہ قتل کیاجاچکاہے[14]

معاہدہ شعب بنوہاشم کوتوڑنے میں  ہشام بن عمروبن ربیعہ،زہیربن ابی امیہ،مطعم بن عدی، ابوالبختری بن ہشام اورزمعہ بن الاسودشامل تھے۔[15]

اس وقت محبت وجانثاری کاایک وقعہ پیش آیا۔

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَدَّلَ صُفُوفَ أَصْحَابِهِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَفِی یَدِهِ قِدْحٌ یُعَدِّلُ بِهِ الْقَوْمَ، فَمَرَّ بِسَوَادِ بْنِ غَزِیَّةَ، حَلِیفِ بَنِی عَدِیِّ بْنِ النَّجَّارِ یُقَالُ، سَوَّادٌ، مُثَقَّلَةٌ، وَسَوَادٌ فِی الْأَنْصَارِ غَیْرُ هَذَا، مُخَفَّفٌ وَهُوَ مُسْتَنْتِلٌ مِنْ الصَّفِّ وَیُقَالُ: مُسْتَنْصِلٌ مِنْ الصَّفِّ فَطُعِنَ فِی بَطْنِهِ بِالْقِدْحِ، وَقَالَ: اسْتَوِ یَا سَوَّادُ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوْجَعْتنِی وَقَدْ بَعَثَكَ اللهُ بِالْحَقِّ وَالْعَدْلِ، قَالَ: فَأَقِدْنِی فَكَشَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَطْنِهِ، وَقَالَ: اسْتَقِدْ، قَالَ: فَاعْتَنَقَهُ فَقَبَّلَ بَطْنَهُ: فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى هَذَا یَا سَوَّادُ؟  قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، حَضَرَ مَا تَرَى، فَأَرَدْتُ أَنْ یَكُونَ آخِرُ الْعَهْدِ بِكَ أَنْ یَمَسَّ جِلْدِی جِلْدَكَ،  فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْرِ

غزوہ بدرمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک میں  ایک چھڑی یاتیرلئے ہوئے صفوں  کوسیدھافرمارہے تھے تاکہ کسی مجاہدکے دل میں  دوسرے سے سبقت لے جانے کاخیال پیدانہ ہواوریوں  غیرارادی طورپرجوش شہادت صفوں  کے ٹوٹنے کاباعث نہ بن جائے ،صف میں  بنونجارکے حلیف سوادبن غزیہ  رضی اللہ عنہ  انصاری کچھ آگے کونکلے ہوئے تھے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  تیرسے ان کے پیٹ میں  ہلکاساکوچہ دے کرفرمایااے سواد رضی اللہ عنہ !صف میں  آجاؤ، سواد رضی اللہ عنہ  بن غزیہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے مجھ کو تکلیف پہنچائی اورحالانکہ اللہ نے آپ کوحق وانصاف کے ساتھ بھیجاہے پس آپ اپنی ذات سے مجھے اس کاقصاص دیں ،اپنے صحابی  رضی اللہ عنہ  کی بات سن کرفوراًآپ نے شکم مبارک سے پیراہن کواٹھاکرسواد رضی اللہ عنہ  سے فرمایااے سواد رضی اللہ عنہ  اپنابدلہ لے لو،سوادبن غزیہ  رضی اللہ عنہ  نے بدلہ کیالیناتھااورکوئی یہ سوچ بھی کیاسکتاتھاجلدی سے شکم مبارک کوگلے لگاکربوسہ دیا،آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے سواد رضی اللہ عنہ  تمہیں  کس بات نے اس پرآمادہ کیا؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دیکھ رہے ہیں  کہ موت سامنے کھڑی ہے ،یہ شایدآخری ملاقات ہوپس میری خواہش ہوئی کہ میراآخری وقت ایسا ہو کہ میراجسم آپ کی جلدمبارک سے مس ہوجائے،ان کی یہ بات سن کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم مسرورہوئے اوران کے لئے دعائے خیرفرمائی ۔[16]

یہ ضعیف روایت ہے۔ابن الاثیر رحمہ اللہ نے اسدالغابة میں  یونس بن بکیرعن ابن اسحاق کی سندسے یہ قصہ بیان کیا،اس کی سندضعیف ہے ،اس کی سندمیں  کچھ مجہول راوی ہیں  اوروہ حبان کی قوم کے کچھ بوڑھے ہیں ۔

میدان بدرمیں  خطبہ:

صفوں  کومرتب کرنے اورضروری ہدایات دینے کے بعدایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کرنے کے بعد ارشادفرمایا۔

أَمّا بَعْدُ، فَإِنّی أَحُثّكُمْ عَلَى مَا حَثّكُمْ اللهُ عَلَیْهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَمّا نَهَاكُمْ اللهُ عَنْهُ، فَإِنّ اللهَ عَظِیمٌ شَأْنُهُ، یَأْمُرُ بِالْحَقّ، وَیُحِبّ الصّدْقَ، وَیُعْطِی عَلَى الْخَیْرِ أَهْلَهُ، عَلَى مَنَازِلِهِمْ عِنْدَهُ، بِهِ یُذْكَرُونَ وَبِهِ یَتَفَاضَلُونَ، وَإِنّكُمْ قَدْ أَصْبَحْتُمْ بِمَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْحَقّ، لَا یَقْبَلُ اللهُ فِیهِ مِنْ أَحَدٍ إلّا مَا ابْتَغَى بِهِ وَجْهَهُ. وَإِنّ الصّبْرَ فِی مَوَاطِنِ الْبَأْسِ مِمّا یُفَرّجُ اللهُ بِهِ الْهَمّ، وَیُنَجّی بِهِ مِنْ الْغَمّ، وَتُدْرِكُونَ  بِهِ النّجَاةَ فِی الْآخِرَةِ. فِیكُمْ نَبِیّ اللهِ یُحَذّرُكُمْ وَیَأْمُرُكُمْ، فَاسْتَحْیُوا الْیَوْمَ أَنْ یَطّلِعَ اللهُ عَزّ وَجَلّ عَلَى شَیْءٍ مِنْ أَمْرِكُمْ یَمْقُتُكُمْ عَلَیْهِ، فَإِنّ اللهَ یَقُولُ: لَمَقْتُ اللهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ  . اُنْظُرُوا إلَى الّذِی أَمَرَكُمْ بِهِ مِنْ كِتَابِهِ، وَأَرَاكُمْ مِنْ آیَاتِهِ، وَأَعَزّكُمْ بَعْدَ ذِلّةٍ، فَاسْتَمْسِكُوا بِهِ یَرْضَ رَبّكُمْ عَنْكُمْ. وَأَبْلَوْا رَبّكُمْ فِی هَذِهِ الْمَوَاطِنِ أَمْرًا، تَسْتَوْجِبُوا الّذِی وَعَدَكُمْ بِهِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَمَغْفِرَتِهِ، فَإِنّ وَعْدَهُ حَقّ، وَقَوْلَهُ صِدْقٌ، وَعِقَابَهُ شَدِیدٌ.وَإِنّمَا أَنَا وَأَنْتُمْ بِاَللهِ الْحَیّ الْقَیّومِ، إلَیْهِ أَلْجَأْنَا ظُهُورَنَا، وَبِهِ اعْتَصَمْنَا، وَعَلَیْهِ تَوَكّلْنَا، وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ، یَغْفِرُ اللهُ لِی وَلِلْمُسْلِمِینَ!

امابعد،لوگو!میں  تمہیں  اسی چیزکی طرف رغبت دلاتا ہوں  جس کی رغبت خوداللہ عزوجل نے دلائی ہے ،اسی طرح میں  تمہیں  انہی چیزوں  سے روکتاہوں  جن سے اللہ عزوجل نے ممانعت فرمادی ہے ،وہ جلال وبلندی والا عظیم الشان اللہ حق باتوں  کاہی حکم فرماتاہے ،وہ سچائی کودوست رکھتاہے ،بھلائیاں  کرنے والوں  کووہ اپنے پاس بڑے مرتبے عطافرماتاہے ،اسی لئے ان کاذکرمذکورہوتاہے اور اسی سے انہیں  فضیلتیں  ملتی ہیں  ،سنو!حق کی منزلوں  میں  سے ایک منزل پرآج تمہارے قدم آپہنچے ہیں  یہاں  صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی وخوشنودی کے ارادے سے جوکام کرو گے وہی مقبول ہوگا،پس بوقت جہاداپنی نیت صرف کلمةاللہ کی بلندی کی ہی رکھو،نہ مال ومتاع کی نہ شہرت وتعریف کی،سنو!جب ہرطرف سے مایوسی گھیرلے اوربظاہر غلبہ اور چھٹکارے کی کوئی صورت نہ رہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے مایوس نہ ہونا،اگرتم نے میری یہ بات مان لی تویہی وہ کام ہے جس سے تمام رنج وغم دورہوجائے گااورہردنیاوی مشکل آسان ہوجائے گی اورساتھ ہی آخرت کی نجات بھی میسرہوجائے گی،میرے ساتھیوسنو!تم میں  خوداللہ کاپیغمبرموجودہے جوتمہیں  روکتابھی ہے اورآگے بھی بڑھاتا ہے ،امرونہی کررہاہے،دیکھوآج ایسی کوئی غلطی نہ کربیٹھناجس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوجائے ،اللہ کافرمان ہے کہ اس کی ناراضگی کاوبال زبردست ہے،جواورکسی کی ناراضگی میں  نہیں  ہوسکتا،اللہ تعالیٰ کے احکامات پرنظریں  رکھوجواپنی کتاب میں  وہ تمہیں  دے چکاہےاوراپنی نشانیاں  تمہیں  دکھلاچکاہے ،ذلت کے بعداسی نے تمہیں  عزت عطافرمائی ہے ،پس تم احکام اللہ پرصبروعزم کے ساتھ جم جاؤاوراپنے دین پرمضبوط ہوجاؤ،اسی سے رب العالمین تم سے راضی ہوجائے گا،اللہ تعالیٰ سے اس جہادکے موقع پرایسی دعائیں  کرواورایسے نیک کام کروکہ اس کاوعدہ تمہارے ساتھ پوراہو،رحمت ومغفرت تمہیں  حاصل ہوجائے ، بیشک اللہ کاوعدہ اٹل ہے ،بیشک اللہ کاکلام راست ہے ،بیشک اس کے عذاب بڑے ڈراؤنے اورنہایت سخت ہیں  ،خودمیں  بھی اورتم سب بھی اسی الحی والقیوم اللہ کی مددسے یہاں  آبادہوسکتے ہیں  ،ہم سب اسی کی طرف جھکتے ،اسی کی ذات سے مضبوطی حاصل کرتے ،اسی پرتوکل اوربھروسہ کرتے ہیں  اوراسی کی جانب ہم سب کوجاناہے،اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں  کوبخشے ۔ آمین۔[17]

خطبہ ارشادکرنے کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم سیکنڈان کمانڈسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پچھلی صف کے پیچھے اپنے ہیڈکوارٹرمیں  تشریف لے جاکردشمن کے آنے کاانتظارکرنے لگے ، جس کی حفاظت کے لئے مہاجرین وانصارکی ملی جلی تعدادمتعین تھی ،مقرقیادت قدرے بلندی پرتھا جس کے سائے میں  کھڑے ہوکرآپ پورے میدان جنگ کونظروں  کے نیچے رکھ سکتے تھے ۔

قریش کی میدان میں  آمد:

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی کی تکمیل اوردیگرامورمیں  مصروف تھے کہ قریش الغفنقل کے پیچھے سے باجے تاشے اورطبل ونقارہ کے شوروغل میں  بڑی شان وشوکت سے اکڑتے ہوئے نکلے ،ان کے نجدی حلیف بنوغطفان اوربنوسلیم ان کے ہمراہ تھے ،ان کے عقب میں  گانے والیاں  بھی موجودتھیں  جورزمیہ گانوں  کے ذریعہ ان کاجوش وخروش اورہمت بڑھارہی تھیں پہلاشخص جونظرآیاوہ زمعہ بن الاسودتھاجواپنے گھوڑے پرسوارتھا،اس کے پیچھے اس کابیٹاچلاآرہاتھا،زمعہ بن الاسوداپنی شان وشوکت کی نمائش کے لئے گھوڑے کو کاوے دینے لگا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے فخروتکبراور شان وشوکت کودیکھاتواللہ تعالیٰ کے حضوردعاکے لئے ہاتھ اٹھائے اور یوں  دعافرمائی ۔

اللهمّ هَذِهِ قُرَیْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ بِخُیَلَائِهَا وَفَخْرِهَا، تُحَادُّكَ وَتُكَذِّبُ رَسُولَكَ، اللهمّ فَنَصْرَكَ الَّذِی وَعَدْتنِی، اللهمّ أَحِنْهُمْ الْغَدَاةَ.

اے اللہ !یہ قریش کاگروہ ہے جوغروروتکبرکے ساتھ مقابلہ پرآیاہے ،جوتیری مخالفت کرتاہے اورتیرے بھیجے ہوئے رسول کی تکذیب کرتاہے ،اے اللہ !اپنی فتح ونصرت فرماجس کاتونے مجھ سے وعدہ فرمایاہے،اے اللہ !ان کوہلاک کر ۔[18]

دعا کے بعدپھرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایافتح نہ کثرت تعدادپرموقوف ہے نہ آلات حرب پر،فتح کے لئے جوچیزسب سے زیادہ ضروری ہے وہ صبرواستقامت ہے ، پھرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوصبرواستقامت کی تلقین فرمائی۔

وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  رَأَى عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ فِی الْقَوْمِ عَلَى جَمَلٍ لَهُ أَحْمَرَ إنْ یَكُنْ فِی أَحَدٍ مِنْ الْقَوْمِ خَیْرٌ فَعِنْدَ صَاحِبِ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، إنْ یُطِیعُوهُ یَرْشُدُوا

جب قریش اورقریب آگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عتبہ بن ربیعہ کواپنے سرخ اونٹ پر دیکھا تو فرمایا دشمن کی تمام جماعت میں  اگرکہیں  بھلائی نظرآرہی ہے تواس سرخ شتر سوار میں ،اگرانہوں  نے اس کی نصیحت مان لی توراہ راست پرآجائیں  گے،یعنی ہلاکت سے بچ جائیں  گے۔[19]

قریش نے میدان میں  آنے کے بعدسرداران قریش کے خیمے نصب کئے اورمسلمانوں  کے مقابل کھڑے ہوگئے۔

 قریش کاطریقہ جنگ:

اہل عرب ہجوم کی شکل میں  اپنے ہدف کاگھیرکرچھاپہ مارنے کے عادی تھے،وہ گھرے ہوئے دشمن پربجلی کی سی سرعت سے جھپٹتے اورجوہاتھ لگتااسے سنبھالتے ہوئے جس تیزی سے آتے تھے اسی رفتارسے دورنکل جاتے تھے تاکہ تعاقب کے ذریعہ خودگھیرے میں  نہ آجائیں  یعنی وہ صدیوں  سے رائج اقدام اورپسپائی کاپرانااورفرسودہ دستوراختیارکرتے تھے،قریش کے لئے مسلمانوں  کاہیڈکورٹراوران کی صف بندی نئی چیزتھی ،جزیرة العرب میں پہلی مرتبہ کندھے سے کندھاملاکردشمن کامقابلہ کیاجارہاتھا،

وكان مع المشركین ثلاثة ألویة لواء مع عبد العزیز بن عمیر ولواء مع النضر بن الحارث ولواء مع طلحة بن أبى طلحة كلهم من بنى عبد الدار

قریش نے تین لوگوں  کوجوقبیلہ بنوعبداللہ کے افرادتھے تین جھنڈے دیئے ،ایک جھندا ابوعزیربن عمیر،دوسرانضربن حارث اورتیسراطلحہ بن ابی طلحہ کودیا۔[20]

سواروں  کاافسرزمعہ بن الاسودیاحارث بن ہشام(عمروبن ہشام یعنی ابوجہل کابھائی جوفتح مکہ کے بعدمسلمان ہوگئے) کومقررکیااورایک خاص مقام پرآکررک گئے۔

فَلَمَّا نَزَلَ النَّاسُ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ حَتَّى وَرَدُوا حَوْضَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهِمْ حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُمْ. فَمَا شَرِبَ مِنْهُ رَجُلٌ یَوْمَئِذٍ إلَّا قُتِلَ، إلَّا مَا كَانَ مِنْ حَكِیمِ بْنِ حِزَامٍ، فَإِنَّهُ لَمْ یُقْتَلْ، ثُمَّ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَحَسُنَ إسْلَامُهُ. فَكَانَ إذَا اجْتَهَدَ فِی یَمِینِهِ، قَالَ: لَا وَاَلَّذِی نَجَّانِی مِنْ یَوْمِ بَدْرٍ

توان میں  سے چندلوگ پانی پینے کے لئے پانی کے حوض پرآئےجومسلمانوں  کے قبضہ میں  تھا ، حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ  (جواس وقت تک مسلمان نہیں  ہوئے تھے)بھی ان میں  تھے ، مجاہدین نے انہیں  روکاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جومحاذجنگ کے قریب ہی تھے فرمایاان کو پانی پینے دو،پانی سے مت روکوجن لوگوں  نے پانی پیاان میں  سوائے حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ  کے سب کے سب بدرمیں  قتل ہوئے ،حکیم بن حزام بچ گئےاور بعد میں  اسلام قبول کیااوران کااسلام بہت اچھارہا جب انہیں  کبھی قسم کھانی پڑتی توکہتےاس اللہ کی قسم !جس نے مجھے جنگ بدرمیں  قتل ہونے سے بچایا۔[21]

میدان جنگ میں  آمدکے بعد چھان بین:

لَمَّا اطْمَأَنَّ الْقَوْمُ، بَعَثُوا عُمَیْرَ بْنَ وَهْبٍ الجُمَحِیُّ فَقَالُوا: احْزُرُوا لَنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَاسْتَجَالَ بِفَرَسِهِ حَوْلَ الْعَسْكَرِ ثُمَّ رَجَعَ إلَیْهِمْ،فَقَالَ: ثَلَاث مائَة رَجُلٍ، یَزِیدُونَ قَلِیلًا أَوْ یَنْقُصُونَ  وَلَكِنْ أَمْهِلُونِی حَتَّى أَنْظُرَ أَلِلْقَوْمِ كَمِینٌ أَوْ مَدَدٌ؟  قَالَ: فَضَرَبَ فِی الْوَادِی حَتَّى أَبْعَدَ، فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، فَرَجَعَ إلَیْهِمْ فَقَالَ: مَا وَجَدْتُ شَیْئًا، وَلَكِنِّی قَدْ رَأَیْتُ، یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، الْبَلَایَا تَحْمِلُ الْمَنَایَا، نَوَاضِحُ یَثْرِبَ تَحْمِلُ الْمَوْتَ النَّاقِعَ  قَوْمٌ لَیْسَ مَعَهُمْ مَنَعَةٌ وَلَا مَلْجَأٌ إلَّا سُیُوفُهُمْ،وَاَللَّهِ مَا أَرَى أَنْ یُقْتَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، حَتَّى یَقْتُلَ رَجُلًا مِنْكُمْ،فَإِذَا أَصَابُوا مِنْكُمْ أَعْدَادَهُمْ فَمَا خَیْرُ الْعَیْشِ بَعْدَ ذَلِكَ؟ فَرُوا رَأْیَكُمْ

جب قریش اطمینان کے ساتھ بدرمیں  آاترے توانہوں  نے عمیربن وہب حجمی کومسلمانوں  کی تعدادکااندازہ لگانے کے لئے بھیجا،عمیربن وہب اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں  کے گردا گرد دور تک چکرلگایاپھرواپس لشکرمیں  پہنچ گیا،اورکہامیرے اندازے کے مطابق کم وبیش تین سوآدمی ہیں مگرذراٹھہرومیں  دیکھ آؤں  کہ کہیں  ان کی اورجماعت جنگی چال کے طورپر پوشیدہ کمین گاہ میں  تونہیں  چھپی ہوئی ہے؟پھرعمیرگھوڑے کودوڑاکردورنکل گیااورپھروہاں  سے واپس آکرکہنے لگا اورکہیں  کوئی اورجماعت نہیں  ہے،مگراے گروہ قریش !میں  دیکھتاہوں  کہ یہ مدینہ منورہ کے یہ اونٹ موت کواپنے اوپرلادے ہوئے ہیں  ، اس قوم کاسوائے ان کی شمشیروں  کے کوئی اورپناہ اورسہارانہیں ،اللہ کی قسم! میں  دیکھتاہوں  کہ ان لوگوں  میں  سے کوئی اس وقت تک نہیں  ماراجائے گاجب تک کہ وہ اپنے مقابل کونہ مارلے،پس اگرہمارے آدمی بھی انہیں  کے برابرقتل ہوگئے توپھرزندگی کاکیالطف رہااس لئے جنگ شروع کرنے سے پہلے اپنی بھلائی کاسوچ لو۔[22]

فَلَمَّا سَمِعَ حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ ذَلِكَ مَشَى فِی النَّاسِ، فَأَتَى عُتْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ فَقَالَ: یَا أَبَا الْوَلِیدِ إِنَّكَ كَبِیرُ قُرَیْشٍ وَسَیِّدُهَا، وَالْمُطَاعُ فِیهَا، هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ لَا تَزَالَ تُذْكَرُ فِیهَا بِخَیْرٍ إِلَى آخِرِ الدَّهْرِ؟قَالَ: وَمَا ذَاكَ یَا حَكِیمُ؟قَالَ: تَرْجِعُ بِالنَّاسِ، وَتَحْمِلُ أَمْرَ حَلِیفِكَ عَمْرِو بْنِ الْحَضْرَمِیِّ،قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ ،أَنْتَ علیَّ بِذَلِكَ، إِنَّمَا هُوَ حَلِیفِی فعلیَّ عَقْلُهُ وَمَا أُصِیبَ مِنْ مَالِهِ،فَأْتِ ابْنَ الْحَنْظَلِیَّةِ  یَعْنِی أَبَا جَهْلٍ،فَانْطَلَقْتُ حَتَّى جِئْتُ أَبَا جَهْلٍ، فَوَجَدْتهُ قَدْ نَثَلَ  دِرْعًا لَهُ مِنْ جِرَابِهَا، فَهُوَ یُهَنِّئُهَا. فَقُلْتُ لَهُ: یَا أَبَا الْحَكَمِ إنَّ عُتْبَةَ أَرْسَلَنِی إلَیْكَ بِكَذَا وَكَذَا، لِلَّذِی قَالَ

حکیم بن حزام نے کہا بالکل درست ہے اوراٹھ کرعتبہ بن ربیعہ کے پاس چلاگیاجوعمروبن الحضرمی کاحلیف تھااورمسلمانوں  سے اس کے خون کے دعویداروں  میں  سے ایک تھااوراسے کہا اے ابوالولید! آپ بڑے اورسردارقریش ہیں ،کیاآپ کویہ پسندنہیں  کہ آپ کاذکرہمیشہ خیروبھلائی کے ساتھ ہوتا رہے؟عتبہ نے پوچھااے حکیم! کیابات ہے؟حکیم بن حزام نے کہا لوگوں  کوواپس لے چلواورعمروبن حضرمی کاخون بہااپنے ذمہ لے لو،عتبہ نے اس بات کی تائیدکی اور کہا میں عمروبن حضرمی کاخون بہا اپنےذمہ لیتا ہوں  اورجس قدراس کامال مسلمانوں  نے لوٹاہے وہ بھی میں  دوں  گا،لیکن تم ابن حنظلیہ یعنی ابوجہل سے بھی مشورہ کرلو،عتبہ بن ربیعہ کی باتیں  سن کرحکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیااس وقت وہ میدان میں  جانے کے لئے اپنی زرہ پہن کرہتھیارسجارہاتھا،حکیم بن حزام نے اسے کہااے ابو الحکم !عتبہ بن ربیعہ نے مجھے یہ پیغام دے کرتمہارے پاس بھیجا ہے،

فَقَالَ: انْتَفَخَ وَاَللَّهِ سَحْرُهُ  حِینَ رَأَى مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ،كَلَّا وَاَللَّهِ لَا نَرْجِعُ حَتَّى یَحْكُمَ اللهُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ، وَمَا بِعُتْبَةَ مَا قَالَ، وَلَكِنَّهُ قَدْ رَأَى أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ أَكَلَةُ جَزُورٍ، وَفِیهِمْ ابْنُهُ، فَقَدْ تَخَوَّفَكُمْ عَلَیْهِ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ.فَقَالَ: هَذَا حَلِیفُكَ یُرِیدُ أن یرجع الناس، وَقَدْ رَأَیْتُ ثَأْرَكَ بِعَیْنِكَ فَقُمْ فَانْشُدْ خُفْرَتَكَ وَمَقْتَلَ أَخِیكَ، فَقَامَ عَامِرُ بْنُ الْحَضْرَمِیِّ فَاكْتَشَفَ ثُمَّ صَرَخَ: وَاعَمْرَاهُ وَاعَمْرَاهُ، قَالَ: فَحَمِیَتِ الْحَرْبُ وَحَقِبَ أَمْرُ النَّاسِ وَاسْتَوْثَقُوا عَلَى مَا هُمْ عَلَیْهِ مِنَ الشَّرِّ وَأَفْسَدَ عَلَى النَّاسِ الرَّأْیَ الَّذِی دَعَاهُمْ إِلَیْهِ عُتْبَةُ

مگر ابوجہل اس پیغام کوسنتے ہی بھڑک اٹھا اورکہاعتبہ بن ربیعہ کاتومحمداوراس کے ساتھیوں  کودیکھ کرسینہ پھول گیاہے،اس کاسانس نہیں  سماتا، واللہ جب تک اللہ ہمارے اورمحمد (  صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان کوئی فیصلہ نہ کردے ہم ہرگزواپس نہ ہوں  گے،عتبہ نے یہ اس لئے کہاہے کہ اس کابیٹابھی محمد کے ساتھ ہےاس لئے وہ تم لوگوں  کومحمداوراس کے ساتھیوں سے ڈراتاہے،پھرعمروبن الحضری کے بھائی عامربن الحضری کوبلاکریہ اشتعال انگیزخبردی کہ تیراحلیف عتبہ بن ربیعہ لوگوں  کولوٹاکرلے جاناچاہتاہےاورتیرے بھائی کاخون تیری آنکھوں  کے سامنے ہے (اس طرح ابوجہل نے اسے بھڑکادیا)اٹھ اورقریش سے ایفائے عہدکامطالبہ کر،چنانچہ عامرالحضرمی نے عربوں  کے اس وقت کے رواج کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑڈالے،سرین برہنہ کردئے اور مٹی اڑاکر اپنے بھائی کی دہائی دینی شروع کردی، جس سے تمام لشکرمیں  جوش پھیل گیااورآتش حرب شعلہ زن ہوئی اورسب لڑنے کے لئے کمربستہ ہوگئے اورجورائے عتبہ نے نکالی تھی وہ بربادہوگئی۔[23]

حکیم بن حزام فوراًعتبہ بن ربیعہ کے پاس آئے،اتنے میں  ابوجہل بھی وہیں  آگیااس نے آتے ہی عتبہ بن ربیعہ سے کہاجب دونوں  لشکرمل گئے ہیں  تو تو نامرد ہو گیا تو ہمارے درمیان سے نکل بھاگناچاہتاہے اور ہم کوبھی واپس لوٹاچاہتاہے ،واللہ ہم ہرگزواپس نہ ہوں  گے جب تک کہ اللہ ہمارے اورمحمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کے درمیان فیصلہ نہ کر دے ، عتبہ بن ربیعہ نے کہاعنقریب تجھے معلوم ہوجائے گاکہ کون نامردہے اورکون اصلح،

فَسَلَّ أَبُو جَهْلٍ سَیْفَهُ فَضَرَبَ بِهِ مَتْنَ فَرَسِهِ، فَقَالَ إِیمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ: بِئْسَ الْفَأْلُ هَذَا

ابوجہل نے تلوارکھینچ لی اورعتبہ کے گھوڑے کے پیٹھ پرماری،ابن ایمابول اٹھاکہ یہ بڑی بد فالی ہے۔[24]

ثُمَّ قَامَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ خَطِیبًا، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّكُمْ وَاَللَّهِ مَا تَصْنَعُونَ بِأَنْ تَلَقَّوْا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ شَیْئًا، وَاَللَّهِ لَئِنْ أَصَبْتُمُوهُ لَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَنْظُرُ فِی وَجْهِ رَجُلٍ یَكْرَهُ النَّظَرَ إلَیْهِ، قَتَلَ ابْنَ عَمِّهِ أَوْ ابْنَ خَالِهِ، أَوْ رَجُلًا مِنْ عَشِیرَتِهِ، فَارْجِعُوا وَخَلُّوا بَیْنَ مُحَمَّدٍ وَبَیْنَ سَائِرِ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَصَابُوهُ فَذَاكَ الَّذِی أَرَدْتُمْ وَإِنْ كَانَ غَیْرَ ذَلِكَ أَلْفَاكُمْ وَلَمْ تَعَرَّضُوا مِنْهُ مَا تُرِیدُونَ

پھرعتبہ بن ربیعہ اٹھااوراپنے سرخ اونٹ پرسوارہوکرلشکرمیں  گھومنے لگااورانہیں  یوں  مخاطب ہوااے گروہ قریش!اللہ کی قسم! محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اصحاب محمدسے جنگ کرکے تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا،یہ سب تمہارے قرابت دار ہی ہیں ،جنگ کے نتیجے میں  تم اپنے باپ،بھائی ،بنی الاعمام اوربنی اخوال کے قاتلوں  کودیکھتے رہو گے،محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم ) اور عرب کو چھوڑ دو اگرعرب نے محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کوختم کر دیاتوتمہاری مرادپوری ہوئی اوراگراللہ نے ان کوغلبہ دیاتووہ بھی تمہارے لئے باعث شرف وعزت ہوگا کیونکہ وہ تمہاری ہی قوم ہیں  اس لئے ان کاغلبہ تمہاراغلبہ ہے، دیکھو میری نصیحت کوردمت کرواورمجھے نادان نہ سمجھو۔[25]

مگرفرعون امت ابوجہل جوابتدائے اسلام سے اسلام کے خلاف قریشیوں  کی سردجنگ کاسرغنہ تھااورجس نے ہجرت سے چنددن قبل اس سردجنگ کومکارانہ قتل کی سازش میں  تبدیل کردینے کی پوری کوشش کی تھی،اس بات پر تلا ہوا تھا کہ یہ جنگ ہواوراس کے ذریعے اس نئی تحریک کوکچل دیاجائے ،چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں  کومشتعل کرکے آمادہ پیکارکرنے کاہرطریقہ اختیارکیااوراس مقصدکے حصول کے لئے ہر اس بہانے اورحیلے کواستعمال کیاجسے وہ کرسکتاتھا،چنانچہ اس کی وجہ سے صلح پسندقریشیوں کی ساری کوششیں  ناکام ہو گئیں  الٹاانہیں  طعنے ہی سننے پڑے ،بہرحال عتبہ بن ربیعہ بھی ابوجہل کی طعن امیزگفتگوکی وجہ سے ہتھیار سجا کر جنگ کے لئے میدان میں  اترآیا مگراس کے پاس خودنہیں  تھا

ثُمَّ الْتَمَسَ عُتْبَةُ بَیْضَةً لِیُدْخِلَهَا فِی رَأْسِهِ، فَمَا وَجَدَ فِی الْجَیْشِ بَیْضَةً تَسَعُهُ مِنْ عِظَمِ هَامَتِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ اعْتَجَرَ عَلَى رَأْسِهِ بِبُرْدٍ لَهُ

اس نے اپنے لئے مانگاتاکہ اپنے سرپراوڑھ لے لیکن اس کاسربہت بڑا تھا اس لئے لشکرقریش میں  سے کسی کاخوداس کے ٹھیک نہ آیاتب اسنے سرپراپنی چادر کا عمامہ باندھ لیااورلڑائی کے لئے تیارہوگیا۔[26]

دراصل عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ کئی وجوہات کی وجہ سے جنگ سے جی چراتے تھے ، ایک تو اپنے غلام عداس  رضی اللہ عنہ  کی وجہ سے جنہوں  نے ان کی روانگی کے وقت روتے ہوئے گواہی دی تھی کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں  اورتم لوگ اپنے مقتل کی طرف ہانکے جا رہے ہو، دوسرے عاتکہ اورجہیم بن صلت کے خواب کی وجہ سے بھی پریشان تھے ،جس میں  خون ہی خون دکھائی دیاتھا۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزانہ التجا:

جب قریش کی صف بندی ہوئی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرقریش کی طرف نگاہ دوڑائی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگایاکہ وہ ایک ہزارہیں  جن میں زیادہ تر تعدادزرہ پوش ہے ، ایک سویادوسوافرادپرمشتمل گھوڑسواردستہ بھی ساتھ ہے ،سواروں  اورپیادوں  کے پاس ضروری جنگی ہتھیاربھی وافرمقدارمیں  ساتھ ہیں جبکہ مجاہدین صرف تین سو انیس (۳۱۹) ہیں جن کے پاس صرف دویاتین گھوڑے ہیں ،لڑائی کے ضروری ہتھیاربھی پورے نہیں مگران کااللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول پرایمان ویقین غیر متزلزل ہے ،کفارکی جمعیت اورطاقت ان کی نگاہ میں  کچھ وقعت نہیں  رکھتی ،وہ رب کے بھروسے پرحق کوسربلندکرنے کے لئے دنیاکے کفارومشرکین کوللکارنے کے لئے میدان میں  آکھڑے ہوئے ہیں  ،یعنی مسلمانوں  کی افرادی وحربی قوت میں  بے سروسامانی مسلم تھی جبکہ مشرکین مکہ کی افرادی وحربی قوت مسلمانوں  کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ تھی،مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں  ہی دشمن سے خوفزدہ ہوکردبک بیٹھ کراللہ سے دعاوں  پرگزارانہیں  کیاکہ اے اللہ توجانتاہے ہم تیرے دشمن کامقابلہ کرنے کی ہمت ، طاقت اور وسائل نہیں  رکھتے لہذاتوانہیں  راستے میں  ہی نیست ونابودکردے بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے جوکچھ بن سکتاتھاکرگزرے اورجوبھی افرادی اورحربی قوت میسر تھی اسے میدان بدر میں  دشمن کے سامنے لاکھڑا کیا ، اس وقت ایک چادرآپ کے کندھوں  پرپڑی ہوئی تھی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  عریش میں  داخل ہوئے اورسعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  تلواربرہنہ لے کردروازہ پرکھڑے ہوگئے ،رسول اللہ عریش میں  قبلہ روہوکررب العزت کی بارگاہ میں  سائلانہ اورفقیرانہ اندازمیں دست مبارک دراز کر کے عجزوانکساری کے ساتھ فتح ونصرت کے لئے دعاگوہوئے ،خالق کائنات کے حضورعرض کیا۔

اللهُمَّ إِنِّی أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الیَوْمِ

اے اللہ! میں  تیرے عہداورتیرےوعدے نصرت کاواسطہ دے کرفریادکرتاہوں  ،اے اللہ!اگرتوچاہے(کہ یہ کافرغالب ہوں  تومٹھی بھرمسلمانوں  کے ختم  ہوجانے کے بعد) تیری عبادت نہ کی جائے گی۔[27]

اللهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ لا تُعْبَدْ فِی الأَرْضِ

اے میرے مولا!اگر مسلمانوں  کی یہ (مختصر)جماعت ہلاک ہوگئی توروئے زمین پرتیری عبادت کہیں  نہ ہوگی۔[28]

فَمَا زَالَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ، مَادًّا یَدَیْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَیْهِ،فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَیْهِ، ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ،یَا نَبِیَّ اللهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَیُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیرتک قبلہ رخ ہوکراللہ قادرمطلق کے حضوراپنے ہاتھ درازکرکےاورکبھی سجدے میں  جاکر اپنی عاجزانہ التجافرماتے رہے ، رو رو کر فریاد کرتے رہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم دیرتک خشوع وخضوع کی ایک خاص کیفیت کے ساتھ دعامیں  اتنے محوتھے کہ بے خودی میں چادرمبارک کندھوں  سے گرگئی اورآپ کوخبرتک نہ ہوئی،اسی اثنامیں  سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  اندر تشریف لائے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواٹھایااورچادرمبارک آپ کے کندھوں  پرڈال دی پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے لپٹ گئے (آپ کی یہ کیفیت دیکھ کرسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کویقین کامل ہوگیاکہ آپ کی دعامنظورومقبول ہوئی ) پھرعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !بس اتنا کافی ہے ،آپ اپنے رب سے بہت الحاح وزاری کر چکے ، بیشک اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کو جو اس نے آپ سے کیاہے ضرورپوراکرے گا۔[29]

قال ابن إسحق:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمِ بَدْرٍ خَفَقَ خَفْقَةً ثُمَّ انْتَبَهَ فَقَالَ أَبْشِرْ یَا أَبَا بَكْرٍ أَتَاكَ نَصْرُ اللهِ هَذَا جِبْرِیلُ آخِذٌ بِعِنَانِ فَرَسِهِ یَقُودُهُ عَلَى ثَنَایَاهُ الْغُبَارُ

ابن اسحاق کی روایت میں  ہےدعا مانگتے مانگتے آپ پر اونگھ سی طاری ہوگئی تھوڑی دیربعدآپ بیدارہوئے اورسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا اےابوبکر!تجھے بشارت ہو،یہ تیرے پاس اللہ کی مددآگئی،یہ جبرائیل امین گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہیں  ،اوران کے دانتوں  پر غبار ہے۔[30]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ:هَذَا جِبْرِیلُ، آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ، عَلَیْهِ أَدَاةُ الحَرْبِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سےمروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے دن فرمایایہ جبرائیل ہیں  جواپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہیں  اور سامان جنگ سے آراستہ ہیں  ۔ [31]

وَقَدْ خَفَقَ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَفْقَةً وَهُوَ فِی الْعَرِیشِ، ثُمَّ انْتَبَهَ فَقَالَ: أَبْشِرْ یَا أَبَا بَكْرٍ، أَتَاكَ نَصْرُ اللهِ. هَذَا جِبْرِیلُ آخِذٌ بِعَنَانِ فَرَسٍ یَقُودُهُ، عَلَى ثَنَایَاهُ النَّقْعُ

ایک روایت ہے عریش میں دعا مانگتے مانگتے آپ پر اونگھ سی طاری ہوگئی آپ   صلی اللہ علیہ وسلم غنودگی سے بیدارہوئے اورفرمایااے ابوبکر  رضی اللہ عنہ خوش ہوجاؤکہ تمہارے پروردگارکی مددآگئی ، دیکھویہ جبرائیل اپنے گھوڑے پرسوارآرہے ہیں  جس کایہ غباراڑرہاہے۔[32]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تو عریش میں  اور مسلمان بھی میدان کارزارمیں  رب سے لولگائے ہوئے تھے اور گڑگڑا کر فریاد کر رہے تھے،بیشک اللہ مضطراور بیقرار دلوں  سے نکلی ہوئی دعاؤں  کوسنتا اور مدد فرماتا ہے ،

۔۔۔أَنِّی مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِینَ [33]

چنانچہ اس نے (خوشخبری کے طور پر فرمایا)میں  لگاتارایک ہزارفرشتے بھیج کرتمہاری امدادکروں  گا۔

ورنہ غالب وحکمت والارب چاہئے توبغیرفرشتوں  اوربغیرکسی اسباب کے مدد کرنے پرقادرہے،اتنی بڑی خوشخبری سن کر مسلمانوں  کواطمینان ہوگیا ۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضوراپنی گزارشات عرض فرمانے کے بعد

فَخَرَجَ وَهُوَ یَقُولُ: {سَیُهْزَمُ الجَمْعُ، وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ، وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ} [[34]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عریش سے باہرتشریف لائے تویہ قرآنی آیت تلاوت فرمارہے تھے’’عنقریب یہ جتھاشکست کھاجائے گااوریہ سب پیٹھ پھیرکربھاگتے نظرآئیں  گے،بلکہ ان سے نمٹنے کے لئے اصل وعدے کاوقت توقیامت ہے اوروہ بڑی آفت اورزیادہ تلخ ساعت ہے۔‘‘[35]

قریش کاسارالشکراورمدینہ منورہ میں  مسلمان مہاجرسب یک جدی اورآپس میں  قریبی رشتہ دارتھے ،اسی طرح انصاراورقریش مکہ میں  بھی رشتہ داریاں  تھیں ،اس کے باوجود وہ میدان بدرمیں  ایک دوسرے کے خلاف صف آراتھے،ایک فریق اپنے کثرت تعدادکے بل بوتے پر کفروشرک کی حکومت اوراپنے مادی مفادات کی حفاظت کے لیے جبکہ دوسرافریق جوقلیل التعدادتھااللہ وحدہ لاشریک کے کلام کی سربلندی کے لیے اپناسب کچھ داؤپرلگاکرمیدان میں  کھڑاتھا،مگرحقیقت یہ ہے کہ اس اولین معرکہ میں  سب سے سخت امتحان مہاجرین اولین ہی کاتھاان کواپنے ہی جگرپاروں  سے لڑنا تھا ،کفارقریش میں  عبدالرحمٰن بن ابوبکر  رضی اللہ عنہ  تھے توخود سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  مسلمانوں  میں  تھے، ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ  بن عتبہ مسلمانوں  میں  تھے توان کے والد عتبہ بن ربیعہ کفارکے ساتھ تھے ، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  مسلمانوں  کے ساتھ تھے توان کاماموں  عاص بن ہشام بن مغیرہ کفارکے ساتھ تھا، ابو  عبیدہ  رضی اللہ عنہ  بن جراح مسلمانوں  کے طرف تھے توان کے والد کفارکے ساتھ تھے ، مصعب  رضی اللہ عنہ  بن عمیر جومسلمانوں  کے علم بردارتھے توان کے دو بھائی عبیدبن عمر اور ابوعزیربن عمیر کفارکی جانب سے لڑرہے تھے،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب مسلمانوں  میں  شامل تھے توان کے حقیقی بھائی عقیل بن ابوطالب کفارمیں  شامل تھے، عبید  رضی اللہ عنہ  بن حارث مسلمانوں  کی طرف سے لڑنے والوں  میں  سے تھے توان کے بھائی نوفل بن حارث کفارکی طرف سے بدر میں  آنے والوں  میں  سے ہیں ،مہاجرین کے لئے بڑاہی سخت امتحان تھامگرانہوں  نے پوری سنجیدگی کے ساتھ باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کرکے حق سے رشتہ استوار کیا تھا ، انصارکاامتحان بھی کم سخت نہ تھا،اب تک توانہوں  نے عرب کی طاقتوارترین قبیلے قریش اوراس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حدتک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں  کواپنے ہاں  پناہ دے دی تھی لیکن اب تووہ اسلام کی حمایت میں  ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے ،جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں  ہے سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے ،یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں  جوکسی صداقت پرایساایمان لے آئے ہوں  کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفادکی انہیں  ذرہ برابرپرواہ نہ رہی ہو،مگرمہاجرین وانصارسب اسلام کے رشتے سے یک جان دوقالب تھے،ان کاایک عقیدہ اور مقصد میں  ہم آہنگی تھی،وہ اللہ کے دین کوبچانے اوراس کی سربلندی کے لئے اپنی جانیں  قربان کرنے کوتیارتھے ، وہ جانتے تھے کہ اسلام انسانوں  کو نسلی،وطنی،لسانی ، جغرافیائی یارنگ ونسل کی وجہ سے تقسیم نہیں  کرتابلکہ اسلام سب انسانوں  کوبرابری کادرجہ دیتاہے اور بحیثیت انسان ایک کو دوسرے پرترجیح نہیں  دیتا،اب دیکھیں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  قریشی ہیں ،زید  رضی اللہ عنہ  بن حارث اور بلال  رضی اللہ عنہ حبشی ہیں ، صہیب  رضی اللہ عنہ رومی ہیں ، سلیمان  رضی اللہ عنہ  فارس سے ہیں  مگراسلام مسلمانوں  کوایک دوسرے کا بھائی قراردیتاہے

 اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ۔۔۔ ۝۱۰ۧ [36]

ترجمہ:مومن توایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔

وہ جانتے تھے کہ اسلام انسانوں  کو ان کے عقائد،اعمال اوراخلاق کی بنیادپرتقسیم کرتاہے ،جس سے دنیامیں  دو گروہ ہی وجود میں  آتے ہیں  ، ایک حزب اللہ جس میں  وہ لوگ ہوتے ہیں  جو اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول پرغیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں  اور اللہ کے رسول کی پیروی میں عمل صالحہ اختیارکرتے ہیں  ،دوسرے گروہ حزب الشیطان  جس میں  وہ لوگ داخل ہوتے ہیں  جن کا معیار زندگی واخروی اللہ تبارک وتعالیٰ کاعنایت کیاہوا قانون نہ ہو،خواہ ان کا مسلمانوں  سے خونی رشتہ ہی کیوں  نہ ہو۔

مسلمانوں  افرادی قوت اوراسلحہ دونوں  طرح سے کمزورتھے مگران کواللہ پرغیرمتزلزل بھروسہ اوراپنے سچ کایقین کامل تھاوہ اس راہ سے پیچھے ہٹنے کوتیارنہ تھے، ان کی نظرمیں  دنیاوی رشتے ناطے کوئی حقیقت نہیں  رکھتے تھے،دوسری طرف ایک حمق ایک جہل تھاجوپوری فضاکومحیط تھا، کفاراپنی جمعیت کی طاقت سے اس چھوٹی سی جماعت کی پاکیزہ آوازکو،اس چھوٹے سے ملک کوجواللہ کی وحدت اوراخلاقی اقدارکی ترویج واشاعت کے مرکزکے طورپرقائم ہواتھامٹانے کی آرزومیں  حملہ آورہورہے تھے جسے اللہ تعالیٰ غالب کردیناچاہتاتھا،بہرحال جمعہ سترہ رمضان المبارک دوہجری کو دونوں  گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراہوگئے

 ثم خرج رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى صفوف المسلمین یحرضهم عَلَى الْقِتَالِ، ویعدهم بالخلود فی جنات النعیم بمثل قوله:وَاَلَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ  لَا یُقَاتِلُهُمْ الْیَوْمَ رَجُلٌ فَیُقْتَلُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ، إلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ. وقوله:قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَاالسَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم صفیں  درست کرکے آگے بڑھے اورانہیں  جہادکی ترغیب اورجنت نعیم کی خوشخبری دیتے ہوئےخطبہ ارشادفرمایااس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں  میری جان ہے کہ آج ان کفارسے لڑتے ہوئے جوماراجائے گابشرطیکہ نیت اچھی ہو،آگے بڑھ بڑھ کروارکررہاہوپیچھے ہٹنے کانام نہ جانتاہووہ قطعی جنتی ہے ، میرے صحابیو!اٹھوچلواس جنت کی طرف جس کو عرض آسمان وزمین کے برابرہے جومتقیوں  کے لئے بنائی گئی ہے۔[37]

حب دین:

عبداللہ بن سہیل  رضی اللہ عنہ ایک قریشی نوجوان تھے،قریش مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکرانہوں  نے ہجرت حبشہ ثانیہ میں  حبشہ کی طرف چلے گئے تھے،ایک غلط فہمی کی بناپر واپس آئے توان کے والدنے انہیں  قیدکرلیااوراس خیال سے کہ پھریہ فرارنہ ہوجائے پیروں  میں  زنجیریں  ڈال دیں

خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سُهَیْلٍ إِلَى نَفِیرِ بَدْرٍ مَعَ الْمُشْرِكِینَ وَهُوَ مَعَ أَبِیهِ سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فِی نَفَقَتِهِ وَحُمْلانِهِ وَلا یَشُكُّ أَبُوهُ أَنَّهُ قَدْ رَجَعَ إِلَى دِینِهِ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بِبَدْرٍ وَتَرَاءَى الْجَمْعَانِ انْحَازَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سُهَیْلٍ إِلَى الْمُسْلِمِینَ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَبْلَ الْقِتَالِ فَشَهِدَ بَدْرًا

عبد اللہ بن سہیل بھی لشکر قریش کی معیت بدر کے میدان کی طرف نکلے جب قریش بدرکی طرف آنے لگے توان کے والد نے قریش کی شان وشوکت دکھانے کے لئے اپنے بیٹے کوبھی ہمراہ لے لیااسے یقین ہوچلاتھاکہ اس کے اس طرزعمل سے اس کابیٹاآبائی دین پرپلٹ آیاہے،جب دونوں  لشکر مقابل ہوئے تولڑائی سے قبل یہ بھاگ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوگئے اورلڑائی میں  مسلمانوں  کی طرف سے شریک رہے۔[38]

مبارزات کے مقابلے:

عرب میں  دستورتھاکہ باقاعدہ لڑائی شروع ہونے سے قبل طرفین کے دلیرجانبازلشکروں  کے درمیانی جگہ پرمبارزت کے جوہردکھاتے تھے ،اس دستورپرآمنے سامنے کی لڑائیوں  میں  ہمیشہ عمل کیاجاتاتھامگرجب بستیوں  پرلوٹ مارکے لئے چھاپے مارنے جاتے تھے تواس دستورکی طرف توجہ نہیں  دی جاتی تھی

فَحَمَلَ عُمَیْرٌ، فَنَاوَشَ الْمُسْلِمِینَ لِأَنْ یَنْقُضَ الصّفّ، فَثَبَتَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى صَفّهِمْ وَلَمْ یَزُولُوا

چنانچہ قریش نے سب سے پہلے عمیربن وہب کومسلمانوں  پرحملہ کرنے کے لئے بھیجاوہ سوارہوکرحملہ آورہوامگرمجاہدین اپنی جگہ جمے رہے۔[39]

وشد علیهم عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ ونشبت الحرب. فكان أول مِن خرج  مِنَ الْمُسْلِمینَ مهجعٌ مَوْلَى عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ. فقتله عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ. وكَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ

اس کے بعدعامربن الحضری نے مبارزت طلب کی،مقابلہ میں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کے آزادکردہ غلام مجحع رضی اللہ عنہ  نکلےمگردونوں  لشکروں  کی صفوں  کے درمیان عامربن الحضری کا چلایا ہوا تیر لگنے سے شہیدہوگئے،یہ مسلمانوں  کی طرف سے معرکہ بدرکے شہیداول ہیں ۔[40]

وَقَدْ خَرَجَ الْأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ الْمَخْزُومِیُّ، وَكَانَ رَجُلًا شَرِسًا سَیِّئَ الْخُلُقِ، فَقَالَ:أُعَاهِدُ اللهَ لَأَشْرَبَنَّ مِنْ حَوْضِهِمْ، أَوْ لَأَهْدِمَنَّهُ، أَوْ لَأَمُوتَنَّ دُونَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، خَرَجَ إلَیْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمَّا الْتَقَیَا ضَرَبَهُ حَمْزَةُ فَأَطَنَّ قَدَمَهُ بِنِصْفِ سَاقِهِ، وَهُوَ دُونَ الْحَوْضِ، فَوَقَعَ عَلَى ظَهْرِهِ تَشْخَبُ  رِجْلُهُ دَمًا نَحْوَ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ حَبَا إلَى الْحَوْضِ حَتَّى اقْتَحَمَ فِیهِ، یُرِیدُ (زَعَمَ) أَنْ یُبِرَّ یَمِینَهُ، وَأَتْبَعَهُ حَمْزَةُ فَضَرَبَهُ حَتَّى قَتَلَهُ فِی الْحَوْضِ

اس کے بعداسودبن عبدالاسدمخزومی جوعبداللہ بن الاسدمخزومی کابھائی اور ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کاشوہرتھا ایک فتنہ پروراوربدکردارشخص تھاوہ اپنی صف سے باہرنکل کرکہنے لگامیں  اللہ سے عہدکرتا ہوں  کہ میں  مسلمانوں  کے حوض سے پانی پیوں  گایااسے منہدم کردوں  گایااسی کوشش میں  جان دے دوں  گا،جب وہ اس ارادے سے آگے بڑھاتوسیدالشہداءحمزہ  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب نے اس کا مقابلہ کیااوراس کے حوض پرپہنچنے سے پہلے ہی اس پرتلوارکاوارکیامگرتلواراس کی گردن پرلگنے کے بجائے کمرپرپڑی اورٹانگ سے خون بہہ نکلا اس خیال سے کہ وہ اس طرح اپنی قسم پوری کرسکے گا زخمی حالت میں  وہ حوض میں  آگرا، حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے حوض ہی میں  اس کاکام تمام کردیا۔[41]

ایک روایت میں  یوں  ہے اسودبن عبداللہ نے کہامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے تعمیرکرائے ہوئے حوض سے پانی پیوں  گا(حاکم بدھن)محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں  گا۔ یاجنگ کرتے ہوئے زخمی ہوکرحوض کے پانی کوخون آلودہ کردوں  گاتاکہ اس سے کوئی استفادہ نہ کرسکے۔[42]

مسلمان شام تک وہی پانی پیتے رہے جس میں  خون کی الودگی شامل تھی ،مشرکین میں  وہ پہلامقتول تھاجوبدرمیں  قتل کیاگیا،

عَن ابْن عَبَّاس قَالَ:أَوَّلُ مَنْ یُعْطَى كِتَابَهُ بِیَمِینِهِ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ، وَأَمَّا الَّذِی یُعْطَى كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَأَوَّلُ مَنْ یُعْطَاهُ فَأَخُوهُ سُفْیَانُ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےابو سلمہ بن عبد الاسد ہی وہ پہلاشخص ہوگا جو روز حشراپنی کتاب کودائیں  ہاتھ میں  لے گااوراسی کابھائی

سفیان بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ  وہ پہلاشخص ہوگا جو اپنی کتاب کوبائیں  ہاتھ میں  لیں  گے۔[43]

عن زید بن ثابت قال:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ مَنْ یُعْطَى كِتَابُهُ بِیَمِینِهِ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَلَهُ شعاعٌ كَشُعَاعِ الشَّمْسِ.  فَقِیلَ لَهُ: فَأَیْنَ أَبُو بَكْرٍ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:هَیْهَاتَ، زَفَّتْهُ الْمَلائِكَةُ إِلَى الْجِنَانِ

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیری امت میں  سے جس کوسب سے پہلے نامہ اعمال دائیں  ہاتھ میں  دیاجائے گاوہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب ہیں  وہ ایسی شعاع ہیں  جیسے سورج کی شعاع ہوتی ہے،کسی نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے بارے میں  کیاہے،فرمایا افسوس  فرشتے انہیں  جنت میں  داخل کریں  گے۔[44]

آغازجنگ :

عتبہ بن ربیعہ جس کاخاندان مکہ کاعلمبردارخاندان تھا،جس کوابوجہل نے بزدلی کاطعنہ دیاتھا اورکہاتھاکہ تم اس لئے لڑائی نہیں  چاہتے کہ تمہارے خاندان کوخون بہاناپڑے گا اس سوال جواب کے بعداس خاندان کویہ ثابت کرناتھاکہ وہ مکی علم اٹھانے کے اہل ہیں  چنانچہ اسی دوران عتبہ بن ربیعہ نے ہتھیارسجالئے اورطیش میں اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اورولیدبن عتبہ بن ربیعہ کولے کرآگے بڑھا دیکھاکہ ابوجہل اپنی گھوڑی پرسوارصف میں  کھڑاہے

قَالَ سَیعْلَمُ مُصَفِّرُ اسْتِهِ أَیُّنَا الْجَبَانُ الْمُفْسِدُ لِقَوْمِهِ: أَنَا، أَمْ هُوَ

عتبہ بن ربیعہ نے ابوجہل سے کہاعنقریب تجھے معلوم ہوجائے گاکہ ہم میں  سے کون اپنی قوم کابدخواہ ہے؟۔[45]

پھراسی طیش میں  مبارزت طلبی کے لئے آگے بڑھا،حکیم بن حزام نے چلاکرکہااے ابوالولیدجلدی نہ کرٹھیرجاجس کام سے تودوسروں  کوروک رہاتھااسی کام میں  توخودہی پہل کررہاہے

 ثمَّ خرج بعده عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، بَیْنَ أَخِیهِ شَیْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ وَابْنِهِ الْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَةَ، حَتَّى إذَا فَصَلَ مِنْ الصَّفِّ دَعَا إلَى الْمُبَارَزَةِ،

بہرحال لشکرقریش کے تین بہترین سردارعتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ اور ولیدبن عتبہ میدان میں  آگے بڑھے اورللکارکرمبارزات طلب کی

(لڑائی اس مقام پرہوئی جہاں  آج کل قبرستان واقع ہے)۔[46]

لشکراسلام مشرکین سے تقریباًتین سوگزکے فاصلے پرتھا،

فَخَرَجَ إلَیْهِ فِتْیَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ ثَلَاثَةٌ، وَهُمْ: عَوْفٌ، وَمُعَوِّذٌ، ابْنَا الْحَارِثِ وَأُمُّهُمَا عَفْرَاءُ وَرَجُلٌ آخَرُ، یُقَالُ: هُوَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ،فَقَالُوا: مَنْ أَنْتُمْ؟فَقَالُوا: رَهْطٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: مَا لَنَا بِكُمْ مِنْ حَاجَةٍ،ثُمَّ نَادَى مُنَادِیهِمْ: یَا مُحَمَّدُ، أَخْرِجْ إِلَیْنَا أكفاءنا عَن قَوْمِنَا

وہاں  سے عوف رضی اللہ عنہ  ،معوذ رضی اللہ عنہ بن حارث ان کی والدہ کا نام عفراءتھااور عبداللہ  رضی اللہ عنہ  بن رواحہ پھرتی سے مقابلے کے لئے کھلے میدان میں  آگے بڑھے،عتبہ بن ربیعہ نے پوچھاتم لوگ کون ہو؟ انہوں  نے جواب دیاہم انصارسے ہیں ۔عتبہ بن ربیعہ نے جو اپنے آپ کوچیدہ قریش خاندان کافردسمجھتاتھااس لئے بھی وہ اپنے مدمقابل کواسی معاشرتی بلندی پردیکھناچاہتاتھاکہاہمیں  تم لوگوں  سے کچھ مطلب واسطہ نہیں (کیونکہ انصارزراعت پیشہ تھے،اورقریش انہیں  کمترسمجھتے تھے)ہم تواپنی قوم کے لوگوں  سے لڑنا چاہتے ہیں  اورایک شخص نے آوازلگائی اے محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم )ہماری قوم میں  سے جوہماری جوڑکے ہیں  ہم سے لڑنے کے لئے بھیجو،یہ بھی کہاگیاہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے کہاکہ مبارزت کے لئے صرف عبدالمطلب کے خاندان کے لوگ مقابلہ کے لئے سامنے آئیں ،اوریہی صحیح معلوم ہوتاہے کیونکہ عبدالمطلب کاخاندان اہل مکہ میں  باعزت خاندان تصورہوتاتھا،مکہ کاعلم بردارخاندان انہیں  کواپنے پایہ کاتصورکرتاتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جو لشکرکے قلب میں  تھے نے ان تینوں  کوواپس لشکرمیں  آنے کاکہا، اس پر ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ اپنے باپ کے مقابلے کے لئے اٹھے مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  روک دیا۔

اسی بناپرہندبنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے (قبول اسلام سے قبل)اپنے بھائی کی ملامت میں  یہ اشعارکہے تھے ۔

الْأَحْوَلُ الْأَثْعَلُ الْمَلْعُونُ  طَائِرُهُ ، أَبُو حُذَیْفَةَ شَرُّ النَّاسِ فِی الدِّینِ

احول بڑے دانت والاجس کاطائربخت شوم(منحوس)ہے،یعنی ابوحذیفہ دین میں  براانسان ہے

أَمَا شَكَرْتَ أَبًا رَبَّاكَ مِنْ صِغَرٍ ، حَتَّى شَبَبْتَ شَبَابًا غَیْرَ مَحْجُونِ

کیاتواپنے باپ کامشکورنہیں  جس نے بچپن میں  تیری پرورش کی،حتی کہ تونے ایسی جوانی پائی جس میں  کمرکی کجی نہیں  ہے۔[47]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ یَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَقُمْ یَا حَمْزَةُ، وَقُمْ یَا عَلِیُّ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایااے  عبیدہ  رضی اللہ عنہ بن حارث( جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےچچازاداوربنوہاشم کے سب سے معمرشخص تھے ) مقابلے کے لئے نکلو ،اوراے حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب مقابلے کے لئے جاؤاوراے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب مقابلے کے لئے نکلو۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا بَنِی هَاشِمٍ، قُومُوا قَاتِلُوا بِحَقِّكُمُ الَّذِی بَعَثَ اللهُ بِهِ نَبِیَّكُمْ إِذْ جَاؤُوا بِبَاطِلِهِمْ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللهِ

ابن سعد کی روایت میں  ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بنی ہاشم! اس حق کے ساتھ اٹھوجسے اللہ نے تمہارے نبی کودے کربھیجاہے ،یہ لوگ باطل کولے کراللہ کا نور بجھانے آئے ہیں ۔[48]

چنانچہ عبدالمطلب کاایک بیٹااوردوپوتے مقابلے کے لئے آگے بڑھے،ان تینوں کودیکھ کرعتبہ بن ربیعہ نے کہاہاں  تم ہمارے جوڑاوربرابرکے ہواورمقابلہ کے لئے اپنے ساتھیوں  سمیت آگے بڑھ آیا،مقابلہ شروع ہوادونوں  جانب سے جرات اوردلیری اورجانبازی وجاں  فروشی کے پتلے اپنے اپنے ہمعصرسے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب تھے ، شیبہ اورولیدابھی پینتراہی بدل رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے شیبہ بن ربیعہ کواور سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب نے ولیدبن عتبہ کوقتل کردیا،اس پراسلام لشکرسے اللہ اکبرکی صدابلندہوئی جوچاروں  طرف کے پہاڑوں  سے ٹکراکرگونجتی رہی، مگر  عبیدہ  رضی اللہ عنہ بن حارث اورعتبہ بن ربیعہ کے درمیان چند مہلک ضربوں  کاتبادلہ ہواجس سے دونوں  شدید زخمی ہوگئےاوردونوں  میں  لڑنے کی سکت باقی نہ رہی ،دستورکے مطابق جب مبارزت کے دوران ایک بارخون بہہ نکلے توجس کاساتھی ابھی زندہ ہووہ اس کی مددکوپہنچ سکتاتھا،  عبیدہ  رضی اللہ عنہ بن حارث کے دونوں  ساتھی زندہ تھے،وہ دونوں   رضی اللہ عنہما  اپنے مدمقابل کوخاک میں  ملاکر  عبیدہ  رضی اللہ عنہ  بن حارث کی مددکے لئے عقابوں  کی طرح جھپٹے اوردوسرے لمحہ عتبہ بن ربیعہ کوبھی خاک نشین کردیا،اسلامی لشکرسے ایک بارپھراللہ اکبرکی صدابلندہوئی اورچاروں  طرف کے پیاڑوں  سے ٹکرا کر بار بار گونجتی ہوئی اللہ کی بزرگی وبرتری کی یاددلاتی رہی ،دونوں  عقابوں  نے   عبیدہ  رضی اللہ عنہ  بن حارث کوجن کا ایک پاوں  کٹ گیاتھااور ان کی پنڈلی سے خون جاری تھا اٹھالائے،

فَقَالَ عُبَیْدَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَسْت شَهِیدًا؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَمَا وَاَللهِ، لَوْ كَانَ أَبُو طَالِبٍ حَیّا لَعَلِمَ أَنّا أَحَقّ بِمَا قَالَ مِنْهُ  حین یقول:

انہوں  نے آپ سے دریافت کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  شہید ہوں ؟ آپ نے فرمایاہاں ،اس پرانہوں  نے کہاکاش اگرابوطالب زندہ ہوتے تویقین کرتے کہ ان کے اس شعر کے ہم زیادہ مستحق ہیں ۔

وَنُسْلِمُهُ حَتَّى نُصَرَّعَ حَوْلَهُ ، وَنَذْهَلَ عَنْ أَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِلِ

ہم محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کواس وقت دشمنوں  کے حوالے کرسکتے ہیں  کہ،جب ہم ان کے گردلڑکرمر جائیں  اورہم اپنے بیٹوں  اوربیویوں  سے بے خبرنہ ہو جائیں  [49]

فأشرفه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدَمَهُ فَوَضَعَ خَدَّهُ عَلَى قَدَمِهِ الشَّرِیفَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اپنے قدموں  سے سہارادیاوفات کے وقت، عبیدہ  رضی اللہ عنہ ابن حارث بن مطلب کارخسار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں  پرتھا۔[50]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ:ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ۝۰ۡفَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ۝۰ۭ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُ۝۱۹ۚیُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭوَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۝۲۱كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ۧاِنَّ اللهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝۰ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۝۲۳وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۝۰ۚۖ وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ۝۲۴  [51]

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب سے مروی ہے کہ آیت ’’یہ دوفریق ہیں  جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں  جھگڑاہے ،ان میں  سے وہ لوگ جنہوں  نے کفرکیاان کے لئے آگ کے لباس کاٹے جاچکے ہیں ،ان کے سروں  پرکھولتاہواپانی ڈالاجائے گاجس سے ان کی کھالیں  ہی نہیں  پیٹ کے اندرکے حصے تک گل جائیں  گے،اوران کی خبرلینے کے لئے لوہے کے گرزہوں  گے ،جب کبھی وہ گھبراکرجہنم سے نکلنے کی کوشش کریں  گے پھراسی میں  دھکیل دیے جائیں  گے کہ چکھواب جلنے کی سزاکامزہ(دوسری طرف)جولوگ ایمان لائے اورجنہوں  نے نیک عمل کیے ان کواللہ ایسی جنتوں  میں  داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں  بہ رہی ہوں  گی،وہاں  وہ سونے کے کنگنوں  اورموتیوں  سے آراستہ کیے جائیں  گے اوران کے لباس ریشم کے ہوں  گے،ان کوپاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اورانہیں  خدائے سنودہ صفات کاراستہ دکھایاگیا۔‘‘ ہمارے متعلق اتری ہے ۔

 عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَزَلَتْ: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا} [52] فِی رَبِّهِمْ فِی سِتَّةٍ مِنْ قُرَیْشٍ: عَلِیٍّ، وَحَمْزَةَ، وَعُبَیْدَةَ بْنِ الحَارِثِ، وَشَیْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، وَالوَلِیدِ بْنِ عُتْبَةَ

اور ابوذر رضی اللہ عنہ  قسم کھاکرکہتے تھےیہ آیتیں ’’یہ دوفریق ہیں  جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں  جھگڑاہے۔‘‘ ان چھ آدمیوں  کے بارہ میں  اتری ہیں  جوبدرکے دن آپس میں  لڑے تھے،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابوطالب،حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب،عبیدہ بن حارث،شیبہ بن ربیعہ اوروعتبہ بن ربیعہ اورولیدبن عتبہ۔[53]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ:أَنَا أَوَّلُ مَنْ یَجْثُو بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ یَوْمَ القِیَامَةِ

اوراسی میں  ہے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابوطالب نے کہاہےمیں  پہلاشخص ہوں  گاجوقیامت کے دن جھگڑاکرنے کے لئے اپنے رب کے سامنے گھٹنوں  کے بل بیٹھے گا۔ [54]

فرشتوں  کی امداد:

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بشارت کے مطابق مجاہدین اسلام کی مدد اورجہادوقتال کے لئے جبرئیل  علیہ السلام ،میکائیل  علیہ السلام  اور اسرافیل  علیہ السلام  کی سرکردگی میں ایک ہزار پھر تین ہزاراورپھرپانچ ہزار فرشتے میدان کارزارمیں اتارے،

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: قِیلَ لِعَلِیٍّ، وَلِأَبِی بَكْرٍ یَوْمَ بَدْرٍ: مَعَ أَحَدِكُمَا جِبْرِیلُ، وَمَعَ الْآخَرِ مِیكَائِیلُ وَإِسْرَافِیلُ مَلَكٌ عَظِیمٌ یَشْهَدُ الْقِتَالَ – أَوْ قَالَ: یَشْهَدُ الصَّفَّ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  مجھے اورسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے روزفرمایاتم میں  ایک کے ساتھ جبریل اوردوسرے کے ساتھ میکائیل اوراسرافیل بھی بہت بڑافرشتہ ہےجوجنگ میں (یاجنگ کی صف)میں  شریک ہوتاہے۔[55]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتْ سِیمَا الْمَلَائِكَةِ یَوْمَ بَدْرٍ عَمَائِمَ بِیضًا قَدْ أَرْسَلُوهَا عَلَى ظُهُورِهِمْ، وَیَوْمَ حُنَیْنٍ عَمَائِمَ حُمْرًا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں جنگ بدرمیں  فرشتوں  کے عمائم سفیدتھے اورشملے پشت پرچھوڑے ہوئے اورجنگ حنین میں  سرخ عمامے تھے۔[56]

أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قَالَ: الْعَمَائِمُ: تِیجَانُ الْعَرَبِ، وَكَانَتْ سِیمَا الْمَلَائِكَةِ یَوْمَ بَدْرٍ عَمَائِمَ بِیضًا قَدْ أَرْخَوْهَا عَلَى ظُهُورِهِمْ، إلَّا جِبْرِیلُ فَإِنَّهُ كَانَتْ عَلَیْهِ عِمَامَةٌ صَفْرَاءُ

اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابوطالب فرماتے ہیں عمامہ عرب کاتاج ہے،خاص کرفرشتوں  کے عمامے جنگ بدرمیں  سفیدتھے اور شملہ پیچھے لٹکائے ہوئے تھے ،فقط جبرائیل کاعمامہ زردتھا۔[57]

أَنَّ الزُّبَیْرَ، كَانَ عَلَیْهِ یَوْمَ بَدْرٍ عِمَامَةٌ صَفْرَاءُ مُعْتَجِراً بِهَا فَنَزَلَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَیْهِمْ عَمَائِمُ صُفْرٌ

اور ابواسید رضی اللہ عنہ  اور زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ (بدری)کے مطابق  زردرنگ کے عمامے پہنے ہوئے تھے اور شملے مونڈھوں  کے درمیان چھوڑے ہوئے تھےاور فرشتوں  کے عمامے بھی زرد رنگ کے ہی تھے۔[58]

أَنَّ الْمَلائِكَةَ نَزَلَتْ یَوْمَ بَدْرٍ عَلَى خَیْلٍ بُلْقٍ عَلَیْهَا عَمَائِمُ صُفْرٌ

عبداللہ بن  زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ بدرکے روزجوملائکہ نازل ہوئے وہ ابلق گھوڑوں  پرسوارےتھے اور ان کے عمامے زردتھے۔[59]

وَكَانَ سِیمَاءُ الْمَلَائِكَةِ عَمَائِمُ قَدْ أَرْخُوهَا بَیْنَ أَكْتَافِهِمْ خُضْرٌ، وَصُفْرٌ، وَحُمْرٌ مِنْ نُورٍ وَالصُّوفُ فِی نَوَاصِی خَیْلِهِمْ

ایک روایت ہے  ملائکہ کی علامت وہ عمامے تھے جن کے سرے وہ اپنے دونوں  شانوں  کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے اورسبزوسرخ نورکے تھے اوران کے گھوڑوں  کی پیشانیوں  میں  بال تھے۔[60]

بعض روایتوں  میں  عماموں  کارنگ سیاہ اوربعض میں  سفید تھا۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ صحیح روایات سے معلوم ہوتاہے کہ عماموں  کارنگ زردہی تھا،سیاہ یاسفیدرنگ کے بارے میں  جس قدرروایات ہیں  سب ضعیف ہیں

وكانت  الْمَلَائِكَةِ یَوْمَ بَدْرٍ عَلَى خَیْلٍ بُلْقٍ

اورغزوہ بدرکے روزملائکہ ابلق گھوڑوں  پرسوارتھے۔[61]

شیطان لعین کافرار:

وَجَاءَ إِبْلِیسُ یوم بدر فِی جُنْدٍ مِنَ الشَّیَاطِینِ، فِی صُورَةِ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابلیس جو سراقہ بن جعشم یاسراقہ بن مالک یا سراقہ بن مالک بن جعشم کی شکل میں  شیاطین کے ایک گروہ کے ساتھ لشکرقریش میں  شامل تھا  ۔[62]

اورمشرکین مکہ کوجنگ پرابھارتاہی رہاتھا

وَهُوَ یَرَى الْمَلَائِكَةَ تَقْتُلُ وَتَأْسِرُ وَقَالَ: إِنِّی بَرِیءٌ مِنْكُمْ  إِنِّی أَرى مَا لَا تَرَوْنَ،

جب اس نے فرشتوں  کوآسمان سے نازل ہوتے اور جنگ کے لئے صفیں  باندھتے دیکھاتواس کی سمجھ میں  یہ بات آگئی کہ آج کفارکی خیرنہیں  اوراسے اپنابھی اندیشہ ہواکہ وہ بھی ان کے ہمراہ ہلاک نہ ہوجائے توقریش سے کہنے لگا میراتمہاراکوئی ساتھ نہیں  ہے میں  وہ دیکھ رہاہوں  جوتم نہیں  دیکھتے۔[63]

فَقَالَ الرَّجُلُ یَا سُرَاقَةُ أَلَمْ تَزْعُمُ أَنَّكَ لَنَا جَارٌ؟فَتَشَبّثَ بِهِ الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ،فَضَرَبَ فِی صَدْرِ الْحَارِثِ فَسَقَطَ الْحَارِثُ،فقال إِنِّی أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّی أَخَافُ اللهَ وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ

قریش کہنے لگے ارے سراقہ کہاں  چلے کیاتم نے یہ نہ کہاتھاکہ میں  تمہارے ساتھ رہوں  گا اور مفارقت اختیارنہ کروں  گا،ابوجہل کابھائی حارث بن ہشام اس سے لپٹ گیاتواس نے حارث کے سینے پرضرب لگائی جس سےوہ نیچے گرگیا، اوریہ کہتے ہوئے بھاگ نکلا میں  وہ (مخلوق )دیکھ رہاہوں  جوتم نہیں  دیکھ رہے ہو،میں  اللہ سے ڈرتاہوں  اوراللہ تعالیٰ کاعذاب بڑا سخت ہے۔[64]

وَأَقْبَلَ أَبُو جَهْلٍ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَحَضّهُمْ عَلَى الْقِتَالِ وَقَالَ: لَا یَغُرّنكُمْ خِذْلَانُ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ إیّاكُمْ، فَإِنّمَا كَانَ عَلَى مِیعَادٍ مِنْ مُحَمّدٍ وَأَصْحَابِهِ، سَیَعْلَمُ إذَا رَجَعْنَا إلَى قُدَیْدٍ  مَا نَصْنَعُ بِقَوْمِهِ!

کفارکی طرف سے ابوجہل مشرکین مکہ کوشجاعت دکھانے کے لئے ابھاررہاتھااورکہہ رہاتھاکہ سراقہ کے بھاگ نکلنے سے تم دھوکامیں  نہ آجاناکیونکہ اس نے محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )سے مصالحت کرلی تھی عنقریب اس کواپنی اس حرکت کاانجام معلوم ہوجائے گا،جب ہم واپسی میں  مقام قدیدسے گزریں  گے توتم دیکھ لوگے کہ اس کی قوم کے ساتھ کیساسلوک کیاجائے گا۔[65]

جب قریش نے سراقہ بن جعشم پرالزام دھراتواس نے کہاکہ تمہارے مکہ مکرمہ واپس آنے تک مجھے یہ بھی علم نہیں  تھاکہ تم لڑائی کے لئے نکلے ہو۔

جنگ مغلوبہ :

مبارزت کے مقابلوں  میں  کافی دن نکل آیاتھااپنے تین بہترین شہسواروں  کوقتل ہوتادیکھ کرقریش کے لشکرسے مزیدصبرنہ ہوسکااوربے سوچے سمجھے ایک ہجوم کی شکل میں  اسلامی لشکرپرٹوٹ پڑا،لشکراسلامی اس بڑھتے ہوئے سیلاب کودیکھ رہاتھامگرپورے لشکرمیں  نظم وضبط کایہ عالم تھاکہ اس میں  کوئی جنبش نہ تھی یوں  محسوس ہوتاتھاکہ ایک آنکھ بھی نہیں  جھپکی جارہی ،کیونکہ مکی لشکرابھی ہتھیاروں  کی زدسے باہرتھااس لئے کسی قسم کی حرکت یاتیراندازی بے سودتھی ،طعمیہ بن عدی جوش انتقام میں  آگے بڑھا اور صفوان بن بیضاء کو شہیدکردیا،لیکن سیدالشہداءحمزہ  رضی اللہ عنہ  نے( جواس وقت پچپن سال کے قریب تھے ) اسے قتل کرڈالا، ان ابتدائی مقابلوں  میں  اپنے مشہورجنگ جوؤں  کے قتل سے لشکر قریش کو ایک دھچکا لگا مگر ابوجہل نے لوگوں  کویہ کہہ کرہمت وجرات دلائی اورجنگ پرآمادہ کیاکہ لوگو!عتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ اورولیدکے قتل سے گھبراؤنہیں  ان لوگوں  نے عجلت سے کام لیا ، لات وعزیٰ کی قسم! ہم اس وقت تک ہرگزواپس نہ ہوں  گے جب تک ہم ان کورسیوں  میں  نہ باندھ لیں ،اب عام جنگ شروع ہوئی توتیراندازی بھی شروع ہوگئی ، لشکراسلام کے پھیلاؤکی وجہ سے اس کی گہرائی کم تھی ،مشرکین کے لشکرنے جب مجاہدین اسلام کی کم افرادی قوت اوربرائے نام اسلحہ کودیکھاتوانہیں  اپنی کامیابی کامکمل یقین ہوگیااس لئے وہ پہل کرتے ہوئے نہایت خوداعتمادی سے ایک ہجوم کی شکل میں آگے بڑھتاچلاآیااورمجاہدین رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرکمان سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح استقلال اورپامردی کے ساتھ صفوں  میں  کھڑے تیراندازی کرتے رہے ،مشرکین مکہ نے پے درپے حملے کرکے اسلامی لشکر کے دونوں  بازوؤں  کولپیٹ میں  لینے کی کوشش کی مگردونوں  پہلوؤں  پرمتعین تیراندازوں  نے ایک فردکوبھی صف چیرکرآگے بڑھنے اورگھیراڈالنے کاموقع نہیں  دیااسی کوشش میں  مکی لشکرکاقلب آگے بڑھ آیااورمیمنہ اورمیسرہ پیچھے رہے گئے ،اس کمزوری نے مکی لشکرکاتوازن بگاڑدیااوروہ اسلامی لشکرکی اگلی صف تک پہنچتے پہنچتے غیرمنظم ہجوم سے زیادہ نہ تھے ،وہ یکے بعددیگرے اسلامی لشکرکی زدمیں  آتے رہے،مجاہدین کے نیزے اوربھالے ہوامیں  اڑاڑکراپنے مقصودہدفوں کے سینے چیرتے رہے ،جیسے ہی کوئی قریب پہنچتاتلواربجلی کی طرح ہوامیں  لہراتی اورایک لاشہ ریت میں  تڑپتانظرآتااورتلوارچلانے والاہاتھ اسی جگہ کھڑارہ کردشمن کے دوسرے حملہ کاانتظارشروع کردیتامگرکیامجال کہ جوصف ٹیڑھی ہویاایک قدم بھی صف سے آگے  بڑھاہو،

یكنى أَبَا زَیْد وشهد قطبة العقبتین جمیعًا رَمَى قُطْبَةُ بْنُ عَامِرٍ یَوْمَ بَدْرٍ بِحَجَرٍ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ ثُمَّ قَالَ: لا أَفِرُّ حَتَّى یَفِرَّ هَذَا الْحَجَرُ

قطبہ  رضی اللہ عنہ بن عامرانصاری جن کی کنیت ابوزیدتھی،جودونوں  عقبہ میں  شامل تھے کی جوش ایمانی کایہ حال تھاکہ انہوں  نے مشرکین اورمسلمانوں  کی صفوں  کے درمیان ایک پتھر پھینکااورپھر باآواز بلندکہااللہ کی قسم !جب تک یہ پتھرنہ بھاگے گامیں  میدان جنگ سے منہ نہ موڑوں  گا۔[66]

چنانچہ جب تک مشرکین کوشکست نہ ہوگئی عرصہ کارزارمیں  برابردادشجاعت دیتے رہے،اسی لڑائی میں  انہوں  نے ایک مشرک مالک بن عبداللہ تمیمی کوقیدبھی کیاتھا۔

مکی لشکرسمندرکی ایک لہرکے بعددوسری لہرکی طرح بے جگری سے اسلامی لشکرپرحملہ کررہاتھامگرپندرہ سال کی محنت شاقہ سے تیارکی گئی اس ناقابل تسخیردیوارسے ٹکراکراپناہی نقصان کررہاتھا،تلواریں  ڈھالوں  سے ٹکرارہی تھیں ،نیزے اوربھالے اپناکام کررہے تھے ،ادھرتیروں  کے گرنے کی آوازاورکمانوں  کے چلوں  کی کرخت گونج ،اپریل کی گرمی میں  گھوڑوں  کاہنہنانااورزخمیوں  کاکراہنا،عورتوں  کاچلانامیدان جنگ کاسخت وکرخت منظرپیش کررہاتھا،اس حق وباطل کے معرکہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  لشکرکے عقب میں  بلندی پرقائم اپنے ہیڈکوارٹرکے باہرسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ نہایت سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے ان متواتراورمسلسل ٹکرانے والی موجوں  اور میدان جنگ کے چپہ چپہ کاصحیح جائزہ لے رہے تھے ،جہاں  ضرورت ہوتی توکسی ٹولی کوچوکناکردیتے اورکسی مجاہدکی بہادری پرشاباشی دیتے ،اسی دوران حارثہ بن سراقہ  رضی اللہ عنہ  جوابھی لڑکے ہی تھے اورمسلمانوں  نے جوحوض تیارکیاتھااس سے پانی بھررہے تھے تیرلگنے سے شہیدہوگئے اوران کے خون کی الودگی پانی میں  شامل ہوگئی ، جب ان کی والدہ نے ان کی شہادت کی خبرسنی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکرعرض کیا

یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ عَرَفْتَ مَنْزِلَةَ حَارِثَةَ مِنِّی، فَإِنْ یَكُنْ فِی الجَنَّةِ أَصْبِرْ وَأَحْتَسِبْ، وَإِنْ تَكُ الأُخْرَى تَرَى مَا أَصْنَعُ،فَقَالَ: وَیْحَكِ، أَوَهَبِلْتِ، أَوَجَنَّةٌ وَاحِدَةٌ هِیَ، إِنَّهَا جِنَانٌ كَثِیرَةٌ، وَإِنَّهُ فِی جَنَّةِ الفِرْدَوْسِ

اے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ کوتومعلوم ہے کہ حارثہ  رضی اللہ عنہ  سے میراکیساتعلق تھا(یعنی مجھے اپنے بیٹے سے کتنی محبت تھی)اگروہ جنت میں  پہنچ گیاہے تومیں  صبرکرتی ہوں  اورثواب کی امیدرکھتی ہوں اوراگرکوئی اوربات ہے توپھردیکھیں  میں  کیاکرتی ہوں ،میں  اپنے بیٹے پربہت رؤوں  گی،اس کی بات سن کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پرافسوس ، تمہیں  کیاہوگیاہے ؟ کیا جنت ایک ہی ہے ؟جنتیں  بہت سی ہیں  اوروہ توجنت الفردوس میں  ہے جو سب سے اعلیٰ ہے۔[67]

دوران جنگ قریش میں  سے عبیدہ بن سعیدبن العاص جس کی کنیت ذات الکرش تھی ، جو سرتاپا لوہے میں  غرق تھااوراس کی صرف آنکھیں  ہی نظرآرہی تھیں ،

فَقَالَ: أَنَا أَبُو ذَاتِ الكَرِشِ،فَأُخْبِرْتُ: أَنَّ الزُّبَیْرَ قَالَ:  لَقَدْ وَضَعْتُ رِجْلِی عَلَیْهِ، ثُمَّ تَمَطَّأْتُ، فَكَانَ الجَهْدَ أَنْ نَزَعْتُهَا وَقَدِ انْثَنَى طَرَفَاهَافَسَأَلَهُ إِیَّاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُ

گھوڑے پر سوار چلایا میں  ابوکرش ہوں ،جب مسلمانوں  کی طرف سے زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ  نے اس کی آوازسنی تو تاک کراس کی آنکھوں  پرایسی برچھی ماری کہ ایک ہی وارمیں  اس کاخاتمہ کردیا اور برچھی ایسی پیوست ہوئی کہ اس کانکالنادشوارہوگیا،لیکن زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ  نے اس کے رخسار پر پیر جما کر زورلگایاتوبرچھی نکل توآئی مگراس کاسراخم ہوگیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زبیر رضی اللہ عنہ  سے اس نیزہ کومانگا انہوں  نے اس نیزہ کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کر دیا۔ [68]

فَكَانَتْ تُحْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِمْ

آپ کی وفات کے بعدیہ تاریخی نیزہ سیدناابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے پاس رہا،پھرسیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  اورپھرسیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  ذوالنورین اورپھر سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اورپھرعبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  کے پاس رہا۔[69]

ایک مشرک نے بلندٹیلے پرچڑھ کرمبارزت چاہی ، زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ  آگے بڑھ کراس سے چمٹ گئے اور دونوں  قلابازیاں  کھاتے ہوئے نیچے آنے لگے ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاتوفرمایاکہ دونوں  میں  سے جوپہلے زمین پررکے گاوہی مقتول ہوگا،چنانچہ مبارزت طلب کرنے والامشرک پہلے زمین پرآیااور زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں  مقتول ہوا۔

اسی غزوہ میں  زبیر رضی اللہ عنہ  کو اور زخموں  کے علاوہ ایک گہر ازخم شانہ پرآیاعروة بن زبیربچپن میں  اس زخم میں  انگلیاں  ڈال کر کھیلاکرتے تھے ،

قَالَ عُرْوَةُ: وَقَالَ لِی عَبْدُ المَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ، حِینَ قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَیْرِ: یَا عُرْوَةُ، هَلْ تَعْرِفُ سَیْفَ الزُّبَیْرِ؟ قُلْتُ:نَعَمْ قَالَ: فَمَا فِیهِ؟ قُلْتُ:فِیهِ فَلَّةٌ فُلَّهَا یَوْمَ بَدْرٍ قَالَ: صَدَقْتَ

عروہ کہتے ہیں ایک مرتبہ عبدالملک بن مروان نے عبداللہ بن زبیرکے قتل ہونے کے بعدکہااے عروہ!تم زبیر رضی اللہ عنہ  کی تلوارپہچانتے ہو؟ میں  نے کہاہاں ،عبدالملک نے پوچھااس کی کوئی نشانی بتاؤ؟عروہ نے کہا اس میں  غزوہ بدرکے دن دندانے پڑگئے تھے،عبدالملک نے کہاتم نےسچ کہا۔[70]

قتل الفاروق عمر بن الخطاب خاله العاص بن هشام بن المغیرة

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے اپنے حقیقی ماموں  عاص بن ہشام بن مغیرہ کوخاک میں  ملا دیا اور انہیں  اس پر کوئی افسوس نہ ہوا۔[71]

سب سے بڑاواقعہ ابو  عبیدہ  رضی اللہ عنہ  بن جراح کاہے

 انه قتل أباه عبد الله بن الجرّاح یوم بدر غیرة على الدین

میدان جنگ میں  انہوں نے اپنے مشرک والد کوقتل کردیااوران کے دل میں  والدکی محبت کی وجہ سے ہاتھ میں  زرابرابرلرزش پیدانہ ہوئی۔[72]

وقتل مصعب بن عمیر أخاه عبید بن عمیر

مصعب  رضی اللہ عنہ  بن عمیرنے اپنے مشرک بھائی عبیدبن عمرکوختم کردیا اور پلٹ کرنہ دیکھا۔[73]

 فَكُنْتُ أَعْقِدُ لَهُ حَمَائِلَ سَیْفِهِ مِنْ صِغَرِهِ فَقُتِلَ بِبَدْرٍ وَهُوَ ابْنُ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً. قَتَلَهُ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ وَدٍّ

عمیربن ابی وقاص جو سب سے کم سن مجاہدتھے دشمنوں  کے اندرگھسے ہوئے جہادکررہے تھے عرصہ تک مقابلہ کرتے رہے بالآخرعمروبن عبدودکے ہاتھوں  شہیدہوگئے۔[74]

جب معرکہ آرائی میں  شدت پیداہوئی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی لڑائی میں  شامل ہوگئے اوردشمن کے قریب ہوکرلڑنے لگے ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کہتے ہیں  جب جنگ خطرناک صورت اختیارکرلیتی اورخطرات ہمیں  گھیرلیتے توہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ اپنے آپ کوبچایاکرتے تھے ،دشمن کی طرف آپ سے زیادہ قریب کوئی نہیں  ہوتاتھا،میں  نے اپنے آپ کوبدرکے دن دیکھاکہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ لے رہے تھے اوروہ ہم میں  سے سب سے زیادہ دشمن سے قریب تھے،

وَلَمّا جَالَ الْمُسْلِمُونَ وَاخْتَلَطُوا، أَقْبَلَ عَاصِمُ بْنُ أَبِی عَوْفِ بْنِ صُبَیْرَةَ السّهْمِیّ كَأَنّهُ ذِئْبٌ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، عَلَیْكُمْ بِالْقَاطِعِ، مُفَرّقِ الْجَمَاعَةِ، الْآتِی بِمَا لَا یُعْرَفُ. مُحَمّدٍ! لَا نَجَوْت إنْ نَجَا!   وَیَعْتَرِضُهُ أَبُو دُجَانَةَ، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ وضربه أبو دجانة فقتاه. وَوَقَفَ عَلَى سَلَبِهِ یَسْلُبُهُ، فَمَرّ عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ: دَعْ سَلَبَهُ حَتّى یُجْهَضَ  الْعَدُوّ، وَأَنَا أَشْهَدُ لَك بِهِ

اسی دوران مشرکین میں  سے عاصم بن ابی عوف السہمی نے آگے بڑھ کرقریش کومخاطب کیااورکہنے لگااے قریش !تم پرلازم ہے کہ قاطع رحم وقرابت جماعت کومنتشرکرنے والے اورغیرمعروف باتیں  بنانے والے (یعنی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم )کوزندہ نہ چھوڑواگروہ بچ گیاتوپھرہم نہ بچ سکیں  گے،اس کی آوازسن کر ابودجانہ  رضی اللہ عنہ  اس کے مقابل آکھڑے ہوئے ، دونوں  میں  کچھ دیرمقابلہ ہوااور ابودجانہ  رضی اللہ عنہ  نے اس کواپنے انجام تک پہنچاکراس کااسلحہ اتارناشروع کردیا،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کاادھر سے گزرہواتوانہوں  نے ابودجانہ  رضی اللہ عنہ  سے کہااس کااسلحہ اتارنے سے پہلے دشمنوں  کودفع کرومیں  اس بات کاگواہ ہوں  کہ یہ سامان تمہاراہے۔[75]

مجذربن زیادانصاری نے جب ابوالبختری کودیکھاتوکہا

إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَانَا عَنْ قَتْلِكَ ، وَمَعَ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ زَمِیلٌ  لَهُ، قَدْ خَرَجَ مَعَهُ مِنْ مَكَّةَ، وَهُوَ جُنَادَةُ بْنُ مُلَیْحَةَ، قَالَ: وَزَمِیلِی؟ فَقَالَ لَهُ الْمُجَذَّرُ: لَا وَاَللَّهِ، مَا نَحْنُ بِتَارِكِی زَمِیلِكَ، مَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَّا بِكَ وَحْدَكَ، فَقَالَ: لَا وَاَللَّهِ، إذَنْ لَأَمُوتَنَّ أَنَا وَهُوَ جَمِیعًا، لَا تَتَحَدَّثُ عَنِّی نِسَاءُ مَكَّةَ أَنِّی تَرَكْتُ زَمِیلِی حِرْصًا عَلَى الْحَیَاةِ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  تیرے قتل سے منع کیاہے، اس کے ساتھ ایک ساتھی جنادہ بن ملیحہ بھی تھاجومکہ سے ساتھ آیاتھا،ابوالبختری نے کہامیراساتھی بھی؟مجذر  رضی اللہ عنہ  نے کہا ہرگز نہیں  اللہ کی قسم! ہم تیرے رفیق کوہرگزنہیں  چھوڑسکتے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  صرف تیری بابت حکم فرمایا ہے،اس نے کہااگرتم میرے ساتھی کونہ چھوڑوگے توہم دونوں  مرنے کوتیارہیں  تاکہ مکہ مکرمہ کی عورتیں  مجھ کوطعنہ نہ دیں  کہ خودتوزندہ رہااوراپنے ساتھی کومروادیا،ابوالبختری نے کہا

لَنْ یُسْلِمَ ابْنُ حُرَّةَ زَمِیلَهُ ، حَتَّى یَمُوتَ أَوْ یَرَى سَبِیلَهُ

شریف زادہ اپنے رفیق کونہیں  چھوڑسکتا جب تک کہ مرنہ جائے یاموت کاراستہ نہ دیکھ لے

فَقَتَلَهُ الْمِجْذَرُ بْنُ ذِیَادٍقال: ثم اتى المجذر بن ذیاد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ جَهَدْتُ عَلَیْهِ أَنْ یَسْتَأْسِرَ فَآتِیكَ بِهِ، فَأَبَى إِلا الْقِتَالَ، فَقَاتَلْتُهُ فَقَتَلْتُهُ

اور مجذر رضی اللہ عنہ  پرحملہ کیامگر مجذر رضی اللہ عنہ  بن ذیادنے اس کاکام تمام کردیا،اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکرعرض کیاقسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا البتہ تحقیق میں  نے پوری کوشش کی کہ ابوالبختری قیدہوجائے اورمیں  اس کوآپ کی خدمت میں  حاضر کر دوں  لیکن وہ نہ مانایہاں  تک مقابلہ اورمقابلہ کیاتومیں  نے اس کوقتل کر دیا ۔ [76]

وَكَانَ خُبَیْبٌ هُوَ قَتَلَ الحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ یَوْمَ بَدْرٍ

خبیب  رضی اللہ عنہ بن اساف نے حارث بن عامر کو ٹھکانے لگادیا۔[77]

وَكَانَ عَاصِمٌ قَتَلَ عَظِیمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ یَوْمَ بَدْرٍ

عاصم بن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے یوم بدرکفارکے ایک بہت بڑے سردارکوموت کے گھاٹ اتاردیا۔[78]

ونهى النبىّ صلّى اللهُ  عَلَیْهِ وَسَلّمَ عَنْ قَتْلِ الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ، فَلَقِیَهُ خُبَیْبُ بْنُ یَسَافٍ فَقَتَلَهُ وَلَا یَعْرِفُهُ

ایک روایت ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حارث بن عامربن نوفل کے قتل سے منع فرمایاتھامگر خبیب بن سیاف  رضی اللہ عنہ  نے حارث بن عامرکوجواس کوپہچانتے نہ تھے قتل کرڈالا۔[79]

وَنَهَى عَنْ قَتْلِ زَمَعَةَ بْنِ الْأَسْوَدِ فَقَتَلَهُ ثَابِتُ بْنُ الْجَذَعِ  وَلَا یَعْرِفُهُ

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے زمعہ بن الاسودکے قتل سے منع فرمایا مگرثابت بن الجذع رضی اللہ عنہ  نےزمعہ بن الاسود کو ناشناسائی کی وجہ سے اسے قتل کردیا۔[80]

وَقَاتَلَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنِ یَوْمَ بَدْرٍ بِسَیْفِهِ حَتَّى انْقَطَعَ فِی یَدِهِ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُ جِذْلًا  مِنْ حَطَبٍ، فَقَالَ: قَاتِلْ بِهَذَا یَا عُكَّاشَةُ، فَلَمَّا أَخَذَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَزَّهُ، فَعَادَ سَیْفًا فِی یَدِهِ طَوِیلَ الْقَامَةِ، شَدِیدَ الْمَتْنِ، أَبْیَضَ الْحَدِیدَةِ، فَقَاتَلَ بِهِ حَتَّى فَتَحَ اللهُ تَعَالَى عَلَى الْمُسْلِمِینَ، وَكَانَ ذَلِكَ السَّیْفُ یُسَمَّى: الْعَوْنَ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْ عِنْدَهُ یَشْهَدُ بِهِ الْمَشَاهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُتِلَ فِی الرَّدَّةِ، وَهُوَ عِنْدَهُ، قَتَلَهُ طُلَیْحَةُ بْنُ خُوَیْلِدٍ الْأَسَدِیُّ

غزوہ بدرمیں عکاشہ بن محصن  رضی اللہ عنہ  اپنی تلوارسے لڑائی میں  مصروف تھے کہ ان کی تلوارٹوٹ گئی،وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے تورسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  جلانے کی لکڑیوں  میں  سے ایک لکڑی یاکھجورکی ٹہنی عنایت فرمائی اورفرمایا اے عکاشہ  رضی اللہ عنہ  اسی سے جنگ کرو،جب عکاشہ  رضی اللہ عنہ  نے اس ٹہنی کولیااورگھمایاتووہ ٹہنی آب دارتلواربن گئی،وہ اس کے ساتھ قتال کرتے رہے یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوفتح وکامرانی سے نوازا،اس تلوارکانام عون تھا،اور عکاشہ  رضی اللہ عنہ  ہمیشہ اسی تلوارکے ساتھ جہادوں  میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے آخر ارتدادکی جنگ میں   طلیحہ بن خویلداسدی کے ہاتھوں شہادت پائی،اوریہ تلواراس وقت بھی ان کے پاس تھی[81]

دوران جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے رب کی مددکے طلبگاربھی رہے،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَاتَلْتُ شَیْئًا مِنْ قِتَالٍ ثُمَّ جِئْتُ مُسْرِعًا إِلَى النَّبِیِّ. لأَنْظُرَ مَا فَعَلَ، فَإِذَا هُوَ سَاجِدٌ یَقُولُ: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ! یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ! لا یَزِیدُ عَلَیْهِمَا،ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى الْقِتَالِ. ثُمَّ جِئْتُ وَهُوَ سَاجِدٌ یَقُولُ ذَلِكَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ إِلَى الْقِتَالِ.  ثُمَّ رَجَعْتُ وَهُوَ سَاجِدٌ یَقُولُ ذَلِكَ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَیْهِ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں   جب غزوہ بدرہواتومیں  نے کسی قدرجنگ کی کہ پھرجلدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیاکہ دیکھوں  آپ نے کیاکیا، آپ سجدے میں  فرمارہے تھےیاحی یاقیوم!یاحی یاقیوم! اس پرکچھ بڑھاتے نہ تھے،میں  میدان کارزارمیں  واپس لوٹ آیاتوآپ حالت سجدہ میں  یہی فرمارہے تھے،میں  میدان کارزارمیں  واپس لوٹ آیاپھرمیں  واپس گیاتوآپ سجدے میں  یہی فرمارہے تھے،اللہ تعالیٰ نے آپ کوفتح عظیم عطافرمائی۔[82]

ایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عریش سے باہر تشریف لائے اور جہاد وقتال کی ترغیب دی اورفرمایا:

وَاَلَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یُقَاتِلُهُمْ الْیَوْمَ رَجُلٌ فَیُقْتَلُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَیْرَ مُدْبِرٍ، إلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ ،قَالَ: یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِیُّ: یَا رَسُولَ اللهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ: بَخٍ بَخٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا یَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ؟قَالَ: لَا وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ:فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا،فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ، فَجَعَلَ یَأْكُلُ مِنْهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِی هَذِهِ إِنَّهَا لَحَیَاةٌ طَوِیلَةٌ، قَالَ: فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  محمدکی جان ہے آج جوشخص صبروتحمل اوراخلاص وصدق نیت کے ساتھ اللہ کے دشمنوں  سے سینہ سپردہوکرجہادکرے گااورپھراللہ کی راہ میں  ماراجائے گااللہ تعالیٰ اس کوضرورجنت میں  داخل فرمائے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااٹھوجنت میں  جانے کے لئےجس کاعرض تمام آسمانوں  اورزمین کے برابر ہے ، عمیر  رضی اللہ عنہ  بن الحمام انصاری  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  جنت کاعرض آسمانوں  اورزمین کے برابرہے !رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، عمیر  رضی اللہ عنہ  بن الحمام انصاری  رضی اللہ عنہ  نے کہاواہ سبحان اللہ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمیر رضی اللہ عنہ  واہ واہ کہنے کی کیاوجہ ہے ؟ عمیر  رضی اللہ عنہ  بن الحمام انصاری  رضی اللہ عنہ  نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم میں  نے اس امیدپریہ بات کہی تھی کہ میں  جنتی ہو جاؤں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیشک تم جنتی ہو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ سن کرعمیر  رضی اللہ عنہ  بن الحمام انصاری  رضی اللہ عنہ  نے اپنے ترکش سے کھجوریں  نکالیں  اورکھانے لگے،پھرکہنے لگے اگرمیں  ان کھجوروں  کے ختم ہونے تک زندہ رہوں  گاتوبہت زیادہ وقت لگ جائے گا،یہ سوچ کر انہوں  نے جوکھجوریں  ان کے پاس تھیں  انہیں  (ایک طرف) ڈال دیا اورتلوارلے کرکفارکی جماعت میں  گھس گئے اوربرابر لڑتے رہے یہاں  تک کہ زخموں  سے چورہوکر گر پڑے اور شہید ہو گئے۔[83]

وَأَخَذَ سَیْفَهُ، فَقَاتَلَ الْقَوْمَ حَتَّى قُتِلَ وَهُوَ یَقُولُ

ابن اسحاق کی روایت میں  ہےعمیر رضی اللہ عنہ  نے تلوارہاتھ میں  لی اورمشرکین سے لڑنے لگے یہاں  تک کہ قتل ہوگئے اوریہ کلمات ان کی زبان پرتھے ۔

رَكَضْنَا إِلَى اللهِ بِغَیْرِ زَادٍ ، إِلَّا التُّقَى وَعَمَلَ الْمَعَادِ

اللہ کی طرف بغیرتوشہ کے دوڑو،مگرتقویٰ اورعمل آخرت

وَالصَّبْرَ فِی اللهِ عَلَى الْجِهَادِ، وَكُلُّ زَادٍ عُرْرضَةُ النَّفَادِ

اورجہادفی سبیل اللہ پرصبرکاتوشہ ضرورہمراہ لے لواورہرتوشہ معرض فناء میں  ہے

غَیْرَ التُّقَى وَالْبِرِّ وَالرَّشَادِ

مگرتقویٰ اوربھلائی اوررشدکاتوشہ کبھی نہ خراب ہوسکتاہے اورنہ فنا۔[84]

أَنَّ عَوْفَ  بْنَ الْحَارِثِ، وَهُوَ ابْنُ عَفْرَاءَ قَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یُضْحِكُ الرَّبَّ مِنْ عَبْدِهِ؟قَالَ: غَمْسُهُ یَدَهُ فِی الْعَدُوِّ حَاسِرًا،فَنَزَعَ دِرْعًا كَانَتْ عَلَیْهِ فَقَذَفَهَا، ثُمَّ أَخَذَ سَیْفَهُ فَقَاتَلَ الْقَوْمَ حَتَّى قُتِلَ

عوف بن حارث  رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جوعفراءکے بیٹے تھےاےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پروردگارعالم کوبندہ کی کیا چیز خوش کرتی ہے ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دشمن کوزرہ وغیرہ لباس حرب سے برہنہ ہوکرقتل کرنے سے،عوف بن حارث  رضی اللہ عنہ  نے یہ سنتے ہی اپنی زرہ اتارپھینکی اورتلوار لیکر مشرکین کاقتال شروع کردیایہاں  تک کہ خودبھی شہیدہوگئے۔[85]

قَالَ عَلَیْهِ السّلَامُ فِی طَلْحَةَ بْنِ الْبَرَاءِ اللهُمّ الْقَ طَلْحَةَ یَضْحَكُ إلَیْك، وَتَضْحَكُ إلَیْهِ

روایت میں  آیاہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ کے حق میں  یوں  دعافرمائی اے اللہ! طلحہ سے اس حال میں  ملاقات فرماکہ وہ تجھ کودیکھ کرہنسے اورتو اس کودیکھ کرہنسے۔[86]

دعا إِلَى البراز، فقام إِلَیْه أَبُو بَكْر لیبارزه، فَقَالَ لَهُ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: متعنی بنفسك

عبدالرحمٰن بن ابوبکرنے میدان کارزارمیں   نعرہ لگایا’’ ہے کوئی مقابلہ کرنے والاکا۔‘‘اس کانعرہ سن کرسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے خوداس کے مقابلہ کے لئے نکلناچاہامگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے روک دیا۔[87]

فَقَالَ: أَیْنَ مَالِی یَا خَبِیثُ؟لَمْ یَبْقَ غَیْرُ شِكَّةٍ ویَعْبُوبْ وَصَارِمٌ یَقْتُلُ ضُلَّالِ الشِّیبْ

سیدناابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے کو پکار کرکہا او خبیث میرامال کہاں  ہے ؟اس نے جواب دیاکچھ باقی نہیں  سوائے ہتھیار،تیزرفتارگھوڑے اوراس تلوارکے جوبڑھاپے کی گمراہی کاخاتمہ کرتی ہے۔[88]

قال لأبیه: لقد هدفت لى یوم بدر مرارا فَأَعْرَضْتُ عنك،فَقَالَ أبو بكر: لو هدفت لى لم أعرض عنك

جنگ کے بعدجب عبدالرحمٰن بن ابوبکر  رضی اللہ عنہ  مسلمان ہوئے تو اپنے والدسیدناا بوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کوسنایااے میرے والدآپ جنگ میں دومرتبہ میری زدمیں  آئے مگرمیں  نے آپ کو اپنا والدجان کر چھوڑ دیا،یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا اے میرے بیٹے! لیکن اگر تومیری زدمیں  آ جاتا تومیں  کبھی تجھے نہ چھوڑتا۔[89]

ان ہی مومنین صادقین کی قرآن مجیدنے یوں  مدح سرائی کی

 لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللهِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ [90]

ترجمہ:تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جولوگ اللہ اورآخرت پرایمان رکھنے والے ہیں  وہ ان لوگوں  سے محبت کرتے ہیں  جنہوں  نے اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کی ہے ،خواہ وہ ان کے باپ ہوں ،یاان کے بیٹے،یاان کے بھائی یاان کے اہل خاندان،یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  میں  اللہ نے ایمان ثبت کردیاہے اوراپنی طرف سے ایک روح عطاکرکے ان کوقوت بخشی ہے ،وہ ان کوایسی جنتوں  میں  داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی ان میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے ،اللہ ان سے راضی ہوااوروہ اللہ سے راضی ہوئے ،وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں  ،خبرداررہو،اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موجب عام جنگ شروع ہونے کے بعدملائکہ بھی مشرکین کے پوروں  اورگردنوں  پروارکرنے لگے،

الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّاسُ یَوْمَ بَدْرٍ یَعْرِفُونَ قَتْلَى الْمَلَائِكَةِ مِنْ قَتْلَى النَّاسِ بِضَرْبِ فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَعَلَى الْبَنَانِ مِثْلَ وَسْمِ النَّارِ

ربیع بن انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے بدرکے دن فرشتوں  کے مقتولین،انسانوں  کے مقتولین سے علیحدہ طورپرپہچانے جاتے تھے ،مقتولین ملائکہ کی گردنوں  پراورپوروں  پرآگ کے سیاہ نشان تھے۔[91]

ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَیْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَئِذٍ یَشْتَدُّ فِی أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِینَ أَمَامَهُ، إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ یَقُولُ: أَقْدِمْ حَیْزُومُ،فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ فَخَرَّ مُسْتَلْقِیًا، فَنَظَرَ إِلَیْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ، وَشُقَّ وَجْهُهُ، كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَع ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِیُّ، فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں ایک انصاری ایک مشرک کے پیچھے اسے قتل کرنے کے لئے دوڑااسی اثنامیں  ایک کوڑے برسنے کے ساتھ ایک آواز سنائی دی اے حیزوم( جبرائیل کے گھوڑے کانام)آگے بڑھ ،اس کے بعد انصاری نے جواس مشرک کودیکھاتو وہ مشرک زمین پرچت پڑاہواتھا اوراس کی ناک اور چہرہ کوڑے کی ضرب سے پھٹ کر نیلا ہوگیا تھا،انصاری نے آکریہ واقعہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سنکرفرمایاتونے سچ کہاہے یہ تیسرے آسمان کی امدا د تھی۔[92]

أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلٍ قَالَ:لَقَدْ رَأَیْتُنَا یَوْمَ بَدْرٍ وَإِنَّ أَحَدَنَا یُشِیرُ بِسَیْفِهِ إِلَى رَأْسِ الْمُشْرِكِ فَیَقَعُ رَأْسُهُ عَنْ جَسَدِهِ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَیْهِ

سہیل بن حنیف  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےجنگ بدرکے روزہم نے دیکھاکہ ہم میں  سے کوئی شخص جب کسی مشرک کی طرف اشارہ کرتامگراس سے قبل کے ہماری تلواراس کی گردن تک پہنچے اس کاسرکٹ کرزمین پرگر جاتا تھا۔ [93]

عَنْ أَبِی دَاوُدَ الْمَازِنِیِّ،قَالَ: إنِّی لَأَتَّبِعُ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَ بَدْرٍ لِأَضْرِبَهُ، إذْ وَقَعَ رَأْسُهُ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إلَیْهِ سَیْفِی، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ قَدْ قَتَلَهُ غَیْرِی

ابوداودمازنی کہتے ہیں میں  ایک مشرک کے پیچھے دوڑایکایک میں  نے دیکھاکہ اس کاسرمیری تلوارکے پہنچنے سے پہلے کٹ کرآن گرا، آخرمیں  نے جان لیاکہ اس کومیرے سواکسی اورنے قتل کیاہے۔[94]

مالک بن ربیعہ راوی ہیں  کہ ابواسید رضی اللہ عنہ  نے مجھ سے کہااے بھتیجے!

عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِیعَةَ،قَالَ:لَوْ كُنْتُ الْیَوْمَ بِبَدْرِ وَمَعِی بَصَرِی لَأَرَیْتُكُمْ الشِّعْبَ الَّذِی خَرَجَتْ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ، لَا أَشُكُّ فِیهِ وَلَا أَتَمَارَى

اگرمیں  اورتم وادی بدرمیں  ہوتے تومیں  تجھے وہ گھاٹی دکھلاتاجہاں  فرشتے ہماری امدادکے لئے برآمدہوئے تھے جس میں  کوئی شک وشبہ نہیں ۔[95]

قَالَ عِكْرِمَةُكَانَ یَوْمَئِذٍ یَنْدُرُ رَأْسُ الرَّجُلِ لا یُدْرَى مَنْ ضَرَبَهُ  ،وَتَنْدُرُ یَدُ الرَّجُلِ لا یُدْرَى مَنْ ضَرَبَهُ

عکرمہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےاس روزکسی کا سر اڑتا ہوا نظر آتا تھا مگر مارنے والانظرنہ آتاتھااوراسی طرح کسی کاہاتھ اڑتاہوادکھائی دیتا تھامگرمارنے والادکھائی نہیں  دیتاتھا۔[96]

وَقَالَ الْوَاقِدِیُّ: فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَةً تَبَسَّمَ،فَسُئِلَ عَنْ تَبَسُّمِهِ،فَقَالَ: مرَّ بِی  مِیكَائِیلُ وَعَلَى جَنَاحِهِ النَّقْعُ فَتَبَسَّمَ إِلَیَّ

واقدی کہتے ہیں  غزوہ بدکے واپسی پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک رکعت نمازپڑھی اورنمازمیں  مسکرائے، نمازکے بعدہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسکرانے کاسبب پوچھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے سامنے میکائیل  علیہ السلام  گزرے ان کے پرغبارآلودتھے ،وہ کفارکے تعاقب سے واپس آرہے تھے مجھے دیکھ کرہنس دیئے تومیں  مسکرادیا۔[97]

فرعون امت ابوجہل کاقتل :

ابوجہل کالشکرکوابھارنے کے باوجودمسلمانوں  کاپلڑابھاری ہورہاتھااورکفارکٹ کٹ کرگررہے تھے، حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کفار میں  تہلکہ مچا دیا تھا اوران دونوں  اصحاب کے ہاتھوں  بہت سے مشرکین لقمہ اجل بن گئے،ابوجہل کی اسلام دشمنی اظہرمن الشمس تھی ،جب ابوجہل میدان جنگ میں  اترااور مجاہدین اسلام کی طرف بڑھاتویہ رجزیہ کلام اس کی زبان پرتھا۔

مَا تَنْقِمُ الْحَرْبُ الْعَوَانُ مِنِّی،بَازِلُ عَامَیْنِ حَدِیثٌ سنى

جنگ میں  کوئی میرامقابلہ نہیں  کرسکتا،میراطرزوحرب وضرب بے مثال ہے

لِمِثْلِ هَذَا وَلَدَتْنِی أُمِّی

میری ماں  نے مجھے پیدا ہی اس کے لئے کیاہے۔[98]

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ:إِنِّی لَفِی الصَّفِّ یَوْمَ بَدْرٍ إِذِ التَفَتُّ فَإِذَا عَنْ یَمِینِی وَعَنْ یَسَارِی فَتَیَانِ حَدِیثَا السِّنِّ، فَكَأَنِّی لَمْ آمَنْ بِمَكَانِهِمَا، إِذْ قَالَ لِی أَحَدُهُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ یَا عَمِّ أَرِنِی أَبَا جَهْلٍ،فَقُلْتُ: یَا ابْنَ أَخِی، وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟قَالَ: عَاهَدْتُ اللهَ إِنْ رَأَیْتُهُ أَنْ أَقْتُلَهُ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ،فَقَالَ لِی الآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: فَمَا سَرَّنِی أَنِّی بَیْنَ رَجُلَیْنِ مَكَانَهُمَا، فَأَشَرْتُ لَهُمَا إِلَیْهِ، فَشَدَّا عَلَیْهِ مِثْلَ الصَّقْرَیْنِ حَتَّى ضَرَبَاهُ،وَهُمَا ابْنَا عَفْرَاءَ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےغزوہ بدرمیں  میں  صف میں  کھڑاہواتھامیں  نے مڑ کردیکھاتومیری داہنی اوربائیں  طرف دونوجوان کھڑے تھے،ابھی میں  ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کرپایاتھاکہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھاتاکہ اس کاساتھی سننے نہ پائے چچا!مجھے ابوجہل کودکھادو،میں  نے کہابھتیجے!تم اسے دیکھ کرکیاکروگے؟اس نے کہامیں  نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عہدکررکھاہے کہ اگرمیں  نے اسے دیکھ لیاتویااسے قتل کرکے رہوں  گایااسی کوشش میں  شہید ہو جاؤں  گا،دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی ،انہوں  نے کہاکہ اس وقت ان دونوں  نوجوانوں  کے درمیان کھڑے ہوکرمجھے خوشی ہوئی ،میں  نے اشارے سے انہیں  ابوجہل کودکھادیا،جسے دیکھتے ہی وہ دونوں  بازکی طرح اس پرجھپٹے اورفوراًہی اسے مارگرایایہ دونوں  عفراءکے بیٹے تھے۔[99]

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِی الصَّفِّ یَوْمَ بَدْرٍ، فَنَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی، فَإِذَا أَنَا بِغُلاَمَیْنِ مِنَ الأَنْصَارِ  حَدِیثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، تَمَنَّیْتُ أَنْ أَكُونَ بَیْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا – فَغَمَزَنِی أَحَدُهُمَا فَقَالَ: یَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟قُلْتُ: نَعَمْ، مَا حَاجَتُكَ إِلَیْهِ یَا ابْنَ أَخِی؟قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ یَسُبُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَئِنْ رَأَیْتُهُ لاَ یُفَارِقُ سَوَادِی سَوَادَهُ حَتَّى یَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا،  فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِی الآخَرُ، فَقَالَ لِی مِثْلَهَا،لَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِی جَهْلٍ یَجُولُ فِی النَّاسِ، قُلْتُ: أَلاَ إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِی سَأَلْتُمَانِی،فَابْتَدَرَاهُ بِسَیْفَیْهِمَا، فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلاَهُ

ایک روایت میں  عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  بدرکی لڑائی میں  ،میں  صف کے ساتھ کھڑاہواتھا،میں  نے جودائیں  بائیں  جانب دیکھاتومیرے دونوں  طرف قبیلہ انصار کے دونوعمرلڑکے تھے،میں  نے آرزوکی کہ کاش !میں  ان سے زبردست زیادہ عمروالوں  کے بیچ میں  ہوتا،ایک نے میری طرف اشارہ کیااورپوچھاچچا!آپ ابوجہل کوبھی پہچانتے ہیں  ؟میں  نے کہاکہ ہاں !لیکن بیٹے تم لوگوں  کواس سے کیاکام ہے؟لڑکے نے جواب دیامجھے معلوم ہواہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوگالیاں  دیتاہے،اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اگروہ مجھے مل گیاتواس وقت تک میں  اس سے جدانہ ہوں  گاجب تک ہم میں  سے کوئی جس کی قسمت میں  پہلے مرناہوگا،مرنہ جائے، مجھے اس پربڑی حیرت ہوئی،پھردوسرے نے اشارہ کیااوروہی باتیں  اس نے بھی کہیں ،ابھی چندمنٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیاجولوگوں  میں (کفارکے لشکر میں  ) گھومتا پھررہاتھامیں  نے ان لڑکوں  سے کہاکہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ،وہ سامنے(گھومتاپھرتانظرآرہا)ہے،دونوں  نے اپنی تلواریں  سنبھالیں  اوراس پرجھپٹ پڑے اورحملہ کرکے اسے قتل کرڈالا۔[100]

وَلَمّا كَانَ یَوْمَئِذٍ، وَرَأَتْ بَنُو مَخْزُومٍ مَقْتَلَ مَنْ قُتِلَ، قَالُوا:أَبُو الْحَكَمِ، لَا یَخْلُصُ إلَیْهِ،  فَإِنّ ابْنَیْ رَبِیعَةَ قَدْ عَجّلَا وَبَطِرَا، وَلَمْ تُحَامِ عَلَیْهِمَا عَشِیرَتُهُمَا. فَاجْتَمَعَتْ بَنُو مَخْزُومٍ فَأَحْدَقُوا بِهِ، فَجَعَلُوهُ فِی مِثْلِ الْحَرَجَةِ، وَأَجْمَعُوا أَنْ یَلْبَسُوا لَأْمَةَ أَبِی جَهْلٍ رَجُلًا منهم، فألبسوها عبد الله ابن الْمُنْذِرِ بْنِ أَبِی رِفَاعَةَ، فَصَمَدَ لَهُ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ فَقَتَلَهُ وَهُوَ یَرَاهُ أَبَا جَهْلٍ، وَمَضَى عَنْهُ وَهُوَ یَقُولُ: خُذْهَا وَأَنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطّلِبِ! ثُمّ أَلْبَسُوهَا أَبَا قَیْسِ بْنَ الْفَاكِهِ بْنِ الْمُغِیرَةِ: فَصَمَدَ لَهُ حَمْزَةُ وهو یراه أبا جهل فضربه فَقَتَلَهُ، وَهُوَ یَقُولُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ!ثُمّ أَلْبَسُوهَا حَرْمَلَةَ بْنَ عَمْرٍو، فَصَمَدَ لَهُ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ فَقَتَلَهُ، وَأَبُو جَهْلٍ فِی أَصْحَابِهِ،  ثُمّ أَرَادُوا أَنْ یُلْبِسُوهَا خَالِدَ بْنَ الْأَعْلَمِ، فَأَبَى أَنْ یَلْبَسَهَا یَوْمَئِذٍ

واقدی کی روایت کے مطابق ابوجہل کے قبیلہ مخزوم کے افرادنے جب دیکھاکہ مسلمانوں  کاپلڑابھاری ہو رہاہے اور کفار کٹ کٹ کرگررہے ہیں  توانہوں  نے باہمی مشورہ سے طے کیاکہ ابوالحکم (ابوجہل) کوتنہانہ چھوڑاجائے،پس ربیعہ کے دونوں  بیٹوں  نے عجلت کی اورتکبر دکھایااور ان کے عزیز واقارب بھی ان کے محافظ نہ بنے بنو مخزوم نے ان کو اپنے گھیراؤ میں  لے لیا اور ان کو ایسے بنا دیا جیسا بکریوں  کا ریوڑ ہوتاہے،پھران افرادنے جمع ہوکرابوجہل کے اطراف ایک حلقہ بنالیا اور ابوجہل کوبچانے کے لئے باہمی مشورے سے ابوجہل کی زرہ اپنے لوگوں  میں  سے عبداللہ بن المنذری بن ابی رفاعہ کوپہنادی،سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ابوجہل کے دھوکے میں  اسے قتل کرڈالااوروہ کہہ رہے تھے لے برداشت کرمیں  بنی عبدالمطلب میں  سے ہوں ،وہ زرہ پھرابوقیس فاکہ بن مغیرہ کوپہنائی گئی ،اس کو حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے ابوجہل کے دھوکے میں  قتل کر ڈالا اورکہہ رہے تھے میرے وار کوبرداشت کرمیں  عبدالمطلب کابیٹاہوں ، وہ زرہ پھرحرملہ بن عمروکوپہنائی گئی، مگروہ بھی سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی تلوار کا شکار ہو گیا اور ابو جہل اپنے ساتھیوں  میں  تھا،اس کے بعدلوگوں  نے وہ زرہ خالد بن الاعلم کوپہناناچاہی  مگراس نے قتل ہونے کے خوف سے انکار کر دیا۔[101]

قَالَ مُعَاذُ ابْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، أَخُو بَنِی سَلِمَةَ:  وَهُمْ یَقُولُونَ: أَبُو الْحَكَمِ لَا یُخْلَصُ إلَیْهِ. قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُهَا جَعَلْتُهُ مِنْ شَأْنِی، فَصَمَدْتُ نَحْوَهُ، فَلَمَّا أَمْكَنَنِی حَمَلْتُ عَلَیْهِ،فَضَرَبْتُهُ ضَرْبَةً أَطَنَّتْ  قَدَمَهُ بِنصْف سَاقه

اورمعاذبن عمروبن جموع رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں میں  نے لوگوں  سے سناکہ ابوجہل تک کوئی نہیں  پہنچ سکتامیں  نے عہدکیاکہ میں  ضروراس تک پہنچوں  گااورمیں  کوشش کرکے اس کے قریب پہنچ ہی گیااورتلوارکی ایک ضرب لگائی جس سے اس کاپاؤں  مع نصف پنڈلی کے اڑگیا۔[102]

ابن سعدکے مطابق ابوجہل کوگرانے میں  عوف بن عفرابھی شامل ہیں  جو غالبا ً اپنے دوبھائیوں  کوحملہ آوردیکھ کرشامل ہوگئے تھے،مگرابوجہل کازخم اتناکاری نہ تھاکہ فوری طورپر موت واقع ہوجاتی مگردونوں  مجاہدین نے یہ سمجھاکہ وہ کیف کردارکوپہنچ گیا ہے اس لئے دونوں  معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  گئے اورقتل ابوجہل کی اطلاع دی ،

فَقَالَ:أَیُّكُمَا قَتَلَهُ؟قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَیْفَیْكُمَا؟قَالاَ: لاَ،فَنَظَرَ فِی السَّیْفَیْنِ، فَقَالَ:كِلاَكُمَا قَتَلَهُ ، سَلَبُهُ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاتم دونوں  میں  سے کس نے قتل کیاہے ؟ دونوں  نوجوانوں  نے کہاکہ میں  نے قتل کیاہے،اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان نے پوچھاکہ کیااپنی تلواریں  تم نےصاف کرلی ہیں ؟انہوں  نے عرض کیانہیں ،پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  کی تلواروں  کامعائنہ کیااورفرمایادونوں  قتل کرنے والے ہیں  اور ابوجہل کاساراسازوسامان معاذبن عمروالجموح کوملے گا۔[103]

قَالَ مُعَاذُ ابْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَضَرَبَنِی ابْنُهُ عِكْرِمَةُ عَلَى عَاتِقِی، فَطَرَحَ یَدِی، فَتَعَلَّقَتْ بِجَلْدَةٍ مِنْ جَنْبِی، وَأَجْهَضَنِی الْقِتَالُ عَنْهُ، فَلَقَدْ قَاتَلْتُ عَامَّةَ یَوْمِی، وَإِنِّی لَأَسْحَبُهَا خَلْفِی، فَلَمَّا آذَتْنِی وَضَعْتُ عَلَیْهَا قَدَمِی، ثُمَّ تَمَطَّیْتُ بِهَا عَلَیْهَا حَتَّى طَرَحْتُهَا

معاذبن عفرا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ہم دونوں  واپس ہوئے توابوجہل کے بیٹے عکرمہ(جوبعدمیں  مسلمان ہو گئے ) پیچھے سے بائیں  شانے پرایک وارکیا جس سے میرابایاں  بازوشانہ کے پاس سےکٹ کرپشت کی طرف کھال سے لٹک گیا، معاذ رضی اللہ عنہ  نے پلٹ کر عکرمہ کاتعاقب کیاتووہ بچ کرنکل گیا، معاذ رضی اللہ عنہ اسی حال میں  لڑرہے تھے لیکن ہاتھ کے لٹکنے کی وجہ سے نہ صرف تکلیف ہورہی تھی بلکہ لڑنے میں  رکاوٹ بھی ہورہی تھی ، انہوں  نے اس ہاتھ کوپیرکے نیچے دباکرکھینچاتوتسمہ بھی الگ ہوگیا اور پھر جہادمیں  مصروف ہوگئے۔[104]

اس طرح ابوجہل کے قتل کی کوشش کرنے اورزخمی کرکے گرادینے والوں  میں  چار افراد شریک تھے، معاذ بن عفرا رضی اللہ عنہ ،معوذبن عفرا رضی اللہ عنہ ،عوف بن عفرا رضی اللہ عنہ  اورمعاذبن عمروالجموع۔

زخمی ہوجانے اورگرجانے کے باوجودابوجہل کے ہوش وحواس قائم تھے ،جب معاذبن عفرا رضی اللہ عنہ اورمعاذبن عمروالجموع رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ہوئے تھے تومعوذبن عفرا رضی اللہ عنہ  اورعوف بن عفرا ابوجہل کوختم کرنے کے لئے مسلسل وارکررہے تھے مگرابوجہل جوایک قوی ،چست اورآزمودہ کارجنگجوتھااوراس نے زرہ بھی پہنی ہوئی تھی گھٹنوں  کے بل بیٹھ کر تلوارسے مقابلہ کررہاتھااس لئے دونوں  مجاہدین کے واربے اثرہورہے تھے ،اس دوران ابوجہل نے تلوارکے ایسے وارکیے کہ عوف بن عفرا رضی اللہ عنہ  اور معوذبن عفرا رضی اللہ عنہ  جنہوں  نے زرہ نہیں  پہنی ہوئی تھیں یکے بعد دیگرے شہیدہوگئے اورزخمی ابوجہل میدان جنگ میں  پڑا رہا ، اس کے جسم سے خون بہتارہاجس سے وہ کمزورہوتاچلاگیاتقریباًسترسال کاہونے کے باوجوداس کے حوش وحواس قائم رہے جب میدان بھاگنے والے کفارسے خالی ہوگیا تو

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ یَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی ہے جومعلوم کرے کہ ابوجہل کا کیا حشرہوا ؟۔[105]

وَقَدْ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ- فِیمَا بَلَغَنِی- اُنْظُرُوا، إنْ خَفِیَ عَلَیْكُمْ فِی الْقَتْلَى، إلَى أَثَرِ جُرْحٍ فِی رُكْبَتِهِ، فَإِنِّی ازْدَحَمْتُ یَوْمًا أَنَا وَهُوَ عَلَى مَأْدُبَةٍ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ، وَنَحْنُ غُلَامَانِ، وَكُنْتُ أَشَفَّ مِنْهُ بِیَسِیرٍ، فَدَفَعْتُهُ فَوَقَعَ عَلَى رُكْبَتَیْهِ، فَجُحِشَ  فِی إحْدَاهُمَا جَحْشًا لَمْ یَزَلْ أَثَرُهُ بِهِ.

ابن ہشام کے مطابق یہ بھی فرمایااگروہ مقتولین میں  پہچانانہ جائے توگھٹنے پرایک زخم کانشان دیکھوکیونکہ ایک روز عبداللہ بن جدعان کے پاس دعوت میں  جب کہ ہم دونوں  کم سن تھے مجھ میں  اوراس میں  کش مکش ہوئی تھی ،میں  اس کی نسبت کچھ کمزور اور دبلا پتلا تھامگرمیں  نے اسے دھکیل دیا تو وہ اپنے گھٹنوں  کے بل گرپڑاتھااوراس کے ایک گھٹنے پرخراش آگئی تھی جس کانشان اس پرآج تک دورنہیں  ہوا۔[106]

فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ، قَالَ: أَأَنْتَ، أَبُو جَهْلٍ؟قَالَ: فَأَخَذَ بِلِحْیَتِهِ، قَالَ: وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ، أَوْ رَجُلٍ قَتَلَهُ قَوْمُهُ،قَالَ أَبُو جَهْلٍ فَلَوْ غَیْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِی

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے جاکرلاشوں  میں  تلاش کیادیکھاکہ عفراءکے بیٹوں  (معاذ رضی اللہ عنہ  اور معوذ رضی اللہ عنہ ) نے اسے قتل کردیاہے مگر اس کاجسم ٹھنڈاپڑاہے، عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے پوچھا کیا تو ابوجہل ہے ؟پھرعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑلی،ابوجہل نے کہاکیااس سے بھی بڑاکوئی آدمی ہے جسے تم نے آج قتل کرڈالاہے؟یااس نے یہ کہاکہ کیااس سے بھی بڑاکوئی آدمی ہے جسے اس کی قوم نے قتل کرڈالاہے؟(یعنی میراقتل باعث عارنہیں  کیونکہ مجھے کسی جنگجو نے قتل کیاہے لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اسے انصاری لڑکوں  نے (جو کاشتکار تھے) قتل کیا ہے تو)کہنے لگا کاش! مجھے کاشتکاروں  کے علاوہ کسی اورنے قتل کیاہوتا۔[107]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں میں  نے ابوجہل کی گردن پرپاؤں  رکھاہواتھاابوجہل نے کہااے سیاہ چرواہے!تجھے آج بڑامرتبہ حاصل ہواہے تومیری بکریاں  چراتے چراتے آج اس مقام پر پہنچ گیاکہ تیراپاؤں  میری گردن پررکھاہے،عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے دشمن !اسلام کایہ اعزازہے جواس نے ہمیں  عطافرمایاہے کہ تجھ جیسے سرکش کی گردن میرے قدموں  کے نیچے ہے،اب میراایک ہی کام باقی ہے کہ تیری گردن کاٹ کراس کونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  پیش کروں  اورمیں  تیرے سرکوبالوں  سے گھسیٹتاہوالے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس کے کنارہ پرجاکرڈال دوں ۔[108]

وعند ابن إسحاق والحاكم فی حدیث ابن مسعود:فَجِئْتُ برَأْسَهُ إلى النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: هَذَا رَأْسُ عَدُوِّ اللهِ أَبِی جَهْلٍ، فقال:آللَّهِ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فحلفت له،ثُمَّ أَلْقَیْتُ رَأْسَهُ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَحَمِدَ اللهَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھراس کی گردن کاٹی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لے آ اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ اللہ کے دشمن ابوجہل کاسرہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ کی ہی ذات وہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں ،پھرمیں  نے اس کاسرآپ کے قدموں  میں  ڈال دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کاشکراداکیا۔[109]

میں  نے عرض کیاہاں  اللہ وحدہ لاشریک کی قسم !یہ ابوجہل ہی کاسرہے ، آپ نے اللہ کا شکر ادافرمایااورکہا

الْحَمد لله الَّذِی  أَخْزَاكَ وَأَعَزّ الإِسْلامَ

وہ ذات ہی تعریف کے قابل ہے جس نے کفار کو ذلیل ورسوافرمایا اور اسلام اوراسلام قبول کرنے والوں  کو عزت بخشی۔

الْحَمْدُ للَّه الَّذِی أَخْزَاكَ هَذَا فِرْعَوْنُ هَذِهِ الأُمَّةِ

ایک روایت میں  ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ کاشکرہے جس نےمیری امت کے اس فرعون کوذلیل ورسوافرمایا۔[110]

ایک روایت میں  ہے ابوجہل کاسردیکھ کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ بزرگ وبرتر کا شکرہے جس نے اپنے وعدے کوپورافرمایااوراپنے دشمن کوذلیل ورسوافرمایا۔[111]

أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ یَقُولُ: ثمَّ احتززت رَأْسَهُ ثُمَّ جِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا رَأْسُ عَدُوِّ اللهِ أَبِی جَهْلٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: آللَّه  الَّذِی لَا إلَهَ غَیْرُهُ قَالَ: وَكَانَتْ یَمِینَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ، وَاَللَّهِ الَّذِی لَا إلَهَ غَیْرُهُ، ثُمَّ أَلْقَیْتُ رَأْسَهُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ الله

ایک روایت میں  عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھرمیں  نے اس کاسرکاٹ لیااوررسول اقدس کی خدمت میں  لاکرآپ کے پاؤں  میں  ڈال دیااورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ کادشمن ابوجہل کاسرہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کی ہی ذات وہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں ،میں  ابو جہل کا سر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پھینکاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کاشکراداکیا۔[112]

فَخر صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدا

اوربعض روایات میں  ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدہ شکربھی ادافرمایا۔[113]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،صَلَّى یَوْمَ بُشِّرَ بِرَأْسِ أَبِی جَهْلٍ رَكْعَتَیْنِ

عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوجب ابوجہل ملعون کاسرلانے کی خوشخبری دی گئی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےشکرکے طورپردورکعت نمازادافرمائی۔[114]

اس روایت کی سندمیں  شعثامجہول ہے اورسلمہ بن رجاءضعیف ہے،

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  ضعیف روایت ہے۔

ابْنِ مَسْعُودٍ  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: فَجَلَسْت عَلَى صَدْرِهِ، فَفَتَحَ عَیْنَیْهِ وَقَالَ: یَا رُوَیْعِیَّ الْغَنَمِ، لَقَدْ ارْتَقَیْت مُرْتَقًى عَظِیمًا،فَقُلْت: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی مَكَّنَنِی مِنْ ذَلِكَ،فَقَالَ: لِمَنْ الدَّبْرَةُ؟ فَقُلْت: لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ: مَاذَا تُرِیدُ أَنْ تَصْنَعَهُ؟ فَقُلْت: أَحُزُّ رَأْسَك،  فَقَالَ: خُذْ سَیْفِی فَهُوَ أَمْضَى لِمَا تُرِیدُ، وَاقْطَعْ رَأْسِی مِنْ كَاهِلِی لِیَكُونَ أَهْیَبَ فِی عَیْنِ النَّاظِرِ،  وَإِذَا رَجَعْت إلَى مُحَمَّدٍ فَأَخْبِرْهُ أَنِّی الْیَوْمَ أَشَدُّ بُغْضًا لَهُ مِمَّا كُنْت مِنْ قَبْلُ، فَقَالَ: قَطَعْت رَأْسَهُ وَأَتَیْت بِهِ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَقُلْت: هَذَا رَأْسُ عَدُوِّ اللهِ أَبِی جَهْلٍ، فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ: اللهُ أَكْبَرُ. هَذَا فِرْعَوْنِی وَفِرْعَوْنُ أُمَّتِی. كَانَ شَرُّهُ عَلَیَّ وَعَلَى أُمَّتِی أَعْظَمَ مِنْ شَرِّ فِرْعَوْنَ عَلَى مُوسَى وَأُمَّتِهِ، ثُمَّ نَفَّلَنِی سَیْفَهُ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے ایک روایت ہےمیں  ابوجہل کے سینے پرچڑھ کربیٹھ گیاابوجہل نے آنکھیں  کھولیں  اورکہااے بکریوں  کے چرانے والے توبہت اونچے مقام پرچڑھ کر بیٹھ گیاہے، میں  نے کہااللہ ہی کی تعریف ہے جس نے مجھے یہ قدرت عطافرمائی ہے،پھرپوچھاکس کوفتح اورغلبہ نصیب ہواہے؟ میں  نے کہااللہ اوراس کے رسول کوفتح ونصرت عطافرمائی ہے،پھرکہنے لگاتیراکیاارادہ ہے؟میں  نے کہامیں  تیراسرقلم کرنے لگاہوں ،کہنے لگابہت اچھامیراسر میری تلوار سے کاٹناجوبہت تیزہےاس سے تیراکام بہت جلد ہوجائے گااورمیراسرشانوں  کے پاس سے کاٹناتاکہ دیکھنے والوں  کی نظرمیں  ہیبتناک لگے،اورجب تومحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس پہنچے توکہناکہ میرے دل میں  تمہارابغض وعداوت آج گزشتہ دنوں  کے مقابلے میں  کہیں  زیادہ ہے،عبداللہ بن مسعودکہتے ہیں  کہ اس کے بعدمیں  نے اس کاسرکاٹااورلے کرآپ کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ اللہ کے دشمن ابوجہل کاسرہے اوراس کاپیغام بھی پہنچایا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہااورفرمایایہ میراورمیری قوم کافرعون تھاجس کاشروفتنہ موسیٰ   علیہ السلام  کے فرعون کے شروفتنہ سے کہیں  بڑھ کرتھا،موسیٰ  علیہ السلام  کے فرعون نے مرتے وقت توایمان کاکلمہ پڑھاتھامگرمیری امت کے فرعون نے مرتے وقت بھی کفروتکبرکے کلمات کہے، اورابوجہل کی تلوارابن مسعود رضی اللہ عنہ  کوعطا فرمادی۔[115]

عَنْ قَتَادَةَ :أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِرْعَوْنًا، وَإِنَّ فِرْعَوْنَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو جَهْلٍ

قتادہ رحمہ اللہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرامت میں  ایک فرعون ہوتاہے اورمیری امت کافرعون ابوجہل ہے۔[116]

فَلَمَّا قُتِلَ أَبُو جَهْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ. قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ:قَدْ قَتَلَ اللَّهُ قَاتِلَ أُمِّكَ .

جب غزوہ بدرمیں  یہ فرعون امت ابوجہل دوبچوں  کے ہاتھ قتل ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ کومخاطب ہوکرفرمایااے عمار رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں (سمیہ رضی اللہ عنہا ) کے قاتل کوہلاک کردیاہے۔[117]

اپنی مسلسل ناکامی کے بعدمکی لشکرمیں  اب وہ پہلاساجوش وولولہ نہ رہاتھا،اب ان کے نوجوان پہلے کی طرح تلواریں  لہراتے ہوئے آگے بڑھنے میں  جھجک سی محسوس کررہے تھے اوران کی کوششیں  اسلامی لشکرکی صف تک پہنچنے سے قبل ہی مدھم پڑناشروع ہورہی تھی،حملے کی تندی وشدت میں  یہ کمی مجاہدین کے محسوس کرنے سے قبل ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے محسوس کرلی تھی،اب دفاع کے بجائے جوابی حملہ کاوقت تھااوراسی لمحہ کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  انتظارفرمارہے تھے، سورج ڈھلنے والاتھاغالباًتیسری باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  محاذ پر تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبرائیل امین کے اشارے سے تین مرتبہ

شَاهَتِ الْوُجُوهُ! ثُمَّ نَفَحَهُمْ بِهَا، وَقَالَ لأَصْحَابِهِ:شُدُّوا، فَكَانَتِ الْهَزِیمَةُ

یہ چہرے خراب ہوئے کہہ کرآپ نے جھک کرزمین سے مٹھی بھرکنکراٹھائے ،ان پردعائے خیر و برکت کے کلمات فرمائے اوردشمن پرپھینکتے ہوئے مجاہدین کوحکم فرمایااب حملہ کرو،انہیں  شکست فاش ہوگی۔[118]

اب کوئی مجاہدرک نہیں  سکتاتھااورنہ ہی اسے روکاجاسکتاتھا،گنتی کے جانبازصف کی صورت میں سیل بے پناہ کی طرح بڑھے جارہے تھے، اسی وقت گردالودآندھی شروع ہوگئی جس کارخ جبل اسفل کی طرف تھا چنانچہ کفارکالشکراسی مقام پرمسلمانوں  کے مقابل صف بندی پرمجبورتھا اس لئے مشرکین میں  کوئی ایسانہ رہا کہ جس کی آنکھ ناک اورمنہ مین یہ مٹی نہ پہنچی ہو،مشت خاک کا پھینکنا تھاکہ کفارکاتمام لشکرسراسیمہ ہوگیا، مسلمانوں  نے ان پرتابڑتوڑحملے کیے اوران کودباتے ہوئے دور تک چلے گئے ،کفارمیں  بھگڈرمچ گئی اوران کے قدم اکھڑگئےاورپھروہ جمع ہوکرمقابلہ کاتصوربھی نہ کرسکے اوران کے جمع ہونے کے لئے قریب ہی کوئی موزوں  مقام ہی نہ تھااورنہ ہی جمع کرنے اوردوبارہ حملہ کرنے کے لئے کوئی موزوں  شخصیت ہی تھی،ان کے وہ لیڈرجوانہیں  میدان جنگ میں  روکناچاہتے تھے اوران کی ہمت بندھا رہے تھے پیچھے رہ گئے ۔مشرکین مکہ کے پیچھے پہاڑتھاجس پروہ چڑھ نہیں  سکتے تھے،سامنے مسلمان تھے جوبڑے حوصلے ، بہادری اوربے جگری سے لڑرہے تھے ،اپنے بائیں  جانب یعنی الْعُدْوَةِ الدُّنْیَا کی طرف بھاگنا بالآخرموت یاگرفتاری کی دعوت دیناتھا،افراتفری میں  بھاگنے کے لئے ان کے پاس صرف وہی راستہ تھاجدھرسے آگے بڑھے تھے، اسی راستے سے بیک وقت ساڑھے نوسو انسانوں ، سویادوگھوڑسواروں  اورکئی سواونٹوں  کا نکلنا مشکل تھا،اس کے علاوہ کفارمکہ کی اکثریت زرہیں  پہنے ہوئی تھے ،زرہیں  کے بوجھ سے تیزی سے فرار ہونابھی مشکل تھا،اس کے برعکس مسلمانوں  کی اکثریت ہلکی پھلکی تھی ،کفاراپنے آپ کوہلکا کرنے کے لئے اپنی زرہیں  پھینک پھینک کرفرارہونے کی کوشش کر رہے تھے، نتیجہ یہ ہواکہ یہیں  پر ان بڑے بڑے نامور بہادراورجانبازقتل اورقیدہونے لگے اور مسلمان اللہ اوراس کے رسول کے دشمنوں  کوقتل کرنے اور گرفتار کرنے میں  مشغول ہوگئے اور کفار اپنی افرادی قوت ،وافر تعدادآلات حرب اورسامان رسدکی کثرت کے بل بوتے بازی نہ لے جاسکے۔

وَكَانَ مِنْ شَیَاطِینِ قُرَیْشٍ

نوفل بن خویلد جوقریش کاایک رئیس اورقریش کے شیطانوں  میں  سے ایک شیطان تھا۔[119]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمّ، اكْفِنِی نَوْفَلَ بْنَ خُوَیْلِدٍ!

اس کے لئے غزوہ بدرکے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعافرمائی تھی اے اللہ تو نوفل بن خویلد سے انتقام لے۔[120]

یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنّ هَذَا الْیَوْمَ یَوْمُ الْعَلَاءِ وَالرّفْعَةِ! فَلَمّا رَأَى قُرَیْشًا قَدْ انْكَسَرَتْ  جَعَلَ یَصِیحُ بِالْأَنْصَارِ: مَا حَاجَتُكُمْ إلَى دِمَائِنَا؟ أَمَا تَرَوْنَ مَا تَقْتُلُونَ؟ أَمَا لَكُمْ فِی اللّبن ما حَاجَةٍ؟فَیَصْمُدُ لَهُ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ فَیَضْرِبُهُ، فَنَشِبَ سَیْفُ عَلِیّ فِی حَجَفَتِهِ سَاعَةً، ثُمّ نَزَعَهُ فَیَضْرِبُ سَاقَیْهِ، وَدِرْعُهُ مُشَمّرَةٌ، فَقَطَعَهُمَا، ثُمّ أَجْهَزَ عَلَیْهِ فَقَتَلَهُ

یہ چلا چلا کراپنے ساتھیوں  کی مختلف طریقوں  سے ہمت افزائی کررہاتھا لیکن جب اس نے دیکھاکہ قریش اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ نکلے ہیں  اوروہ خودبھی بے بسی کے عالم میں  ہے تو اپنی جان بچانے کے لئے انصارمدینہ سے مخاطب ہوکرکہنے لگاکہ اگرمال کی حاجت ہو تومجھے اسیرکرلو،مگرسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی اس پرنگاہ پڑگئی اوروہ دیکھتے ہی دیکھتے اس پر شاہین کی طرح جھپٹ پڑے اورچشم زدن میں  اسے قتل کرڈالا۔. [121]

قَتَلَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبى طَالب عَلَیْهِ السَّلَام یَوْمَ بَدْرٍ

سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن طالب نے ہی اس کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔[122]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَهُ عِلْمٌ بِنَوْفَلِ بْنِ خُوَیْلِدٍ؟فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا قَتَلْتُهُ،  قَالَ: فَكَبَّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَجَابَ دَعْوَتِی فِیهِ

جنگ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایاکیاکسی کونوفل بن خویلدکابھی حال معلوم ہے؟ توسیدنا علیٰ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے اس کوقتل کرڈالاہے،یہ سن کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تکبیربلندکی،اورفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں  میری دعاقبول فرمالی۔[123]

وَیُقَالُ قَتَلَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

لشکرکفارمیں  میں  قریش کا ایک اوررئیس عاص بن سعیدبھی تھاوہ بھی سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں  اپنے انجام کاپہنچا۔[124]

وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْعَرِیشِ، وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ قَائِمٌ عَلَى بَابِ الْعَرِیشِ، الَّذِی فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مُتَوَشِّحَ السَّیْفِ ، فِی نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ یَحْرُسُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَخَافُونَ عَلَیْهِ كَرَّةَ الْعَدُوِّ، وَرَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا ذُكِرَ لِی فِی وَجْهِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الْكَرَاهِیَةَ لِمَا یَصْنَعُ النَّاس، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاَللَّهِ لَكَأَنَّكَ  یَا سَعْدُ تَكْرَهُ مَا یَصْنَعُ الْقَوْمَ؟ قَالَ: أَجَلْ وَاَللَّهِ یَا رَسُولَ اللهِ، كَانَتْ أَوَّلَ وَقْعَةٍ أَوْقَعَهَا (اللهُ) بِأَهْلِ الشِّرْكِ.فَكَانَ الْإِثْخَانُ فِی الْقَتْلِ بِأَهْلِ الشِّرْكِ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ اسْتِبْقَاءِ الرِّجَالِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عریش کے باہرکھڑے ہوکر میدان کارزارکامعائنہ فرمارہے تھے اورسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ  چندانصارکے ساتھ تلوارلے کرحفاظت کے لئے پہرہ دے رہے تھے،اس خیال سے کہ کہیں  دشمن آپ پرپلٹ نہ پڑیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کفارقریش کوگرفتارکرنے میں  مشغول ہیں  اورسعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کے چہرہ پرناگواری کے آثاراس درجہ نمایاں  ہیں  کہ گویاکراہت اورناگواری کوئی محسوس چیزہے جوسعد  رضی اللہ عنہ  کے چہرہ میں  رکھی ہوئی نظرآتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایااے سعد  رضی اللہ عنہ !غالباًتجھ کولوگوں  کی کاروائی اچھی نہیں  معلوم ہوتی؟سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیاہاں  ،اللہ کی قسم !اےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پہلاحادثہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل شرک پرنازل فرمایاہے ،میرے نزدیک اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں  کاقتل اورخونریزی ان کے زندہ چھوڑنے سے کہیں  زیادہ محبوب ہے۔[125]

اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیان چندگھنٹوں  میں  مسلمانوں  کوفتح مندفرمایا

فَقَتَلُوا یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ، وَأَسَرُوا سَبْعِینَ

کفار کے سترآدمی جن میں  بڑے بڑے سردارتھے نہتے مسلمانوں  کے ہاتھوں مارے گئے اورسترافرادگرفتارہوگئے۔[126]

چوبیس جہنم رسیدہونے والوں  میں  فرعون امت ابوجہل ،عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ،عقبہ بن ابی معیط ،امیہ بن خلف جیسے سردار شامل تھے،جنگوں  میں  مقتولین کی نسبت زخمی تین یاچارگنا زیادہ ہوتے ہیں  ،ان بھاگنے والوں  میں  کتنے زخمی تھے اورمشرکین مکہ کے حلیف قبائل کے کتنے آدمی مارے یازخمی ہوئے ان کی تفصیل کاعلم نہیں ،یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی لشکرکے حملہ کی شدت کی تاب نہ لاکرحملے کے آغازہی میں  راہ فراراختیارکی ہو ۔

ایک چھوٹے سے بے سروساماں  لشکرنے اپنے سے تین گناہ کے لشکر کوجواسلحہ سے لیس تھاشکست فاش دے دی تھی ،اگرمجاہدین اس پرفخرکرتے توحق بجانب تھے مگریہ اللہ کی راہ میں  لڑنے والے یہ سپاہی فخروغرورسے بہت بلندتھے،اس لیےحق وباطل کے اس پہلی عظیم الشان کامیابی پران کے سررب ذوالجلال کے حضورعجزونیازاورحمدوستائش کے لئے جھک گئے جس نے انہیں  فتح عظیم عطافرمائی تھی ۔

[1] مسنداحمد۹۴۸

[2] المعجم الکبیرللطبرانی۱۲۶۷۵

[3] عہدنبوی کے میدان جنگ  ۲۰

[4] ابن ہشام۶۳۴؍۱،الروض الانف ۱۱۳؍۵،عہدنبوی کے میدان جنگ ۲۱،السیرة النبوة لابن کثیر۴۱۶؍۲

[5] مغازی واقدی۷۲؍۱

[6] البدایة والنہایة ۳۳۵؍۳

[7] ابن سعد۱۰؍۲

[8] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِعن انس ۴۹۱۵،عہدنبوی کے میدان جنگ ۲۱

[9]صحیح بخاری کتاب الغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا ۳۹۸۴

[10] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى الرَّمْیِ ۲۹۰۰

[11] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی سَلِّ السُّیُوفِ عِنْدَ اللِّقَاءِئ  ۲۶۶۴

[12] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۱؍۳،معرفة الصحابة لابی نعیم ۱۸۰۶،۶۷۲؍۲،اسدالغابة۲۳؍۲

[13] ابن سعد ۷؍۴، ابن ہشام۶۲۹؍۱، تاریخ طبری۴۵۰؍۲،الروض الانف ۹۰؍۵، عیون الاثر ۳۰۱؍۱

[14] ابن سعد۱۷؍۲

[15] ابن ہشام ۳۷۴تا۳۷۶؍۱

[16] ابن ہشام۶۲۶؍۱،تاریخ طبری۴۴۷؍۲،البدایة والنھایة۲۷۱؍۳،عیون الاثر۲۹۸؍۱

[17] مغازی واقدی۵۹؍۱،امتاع الاسماع۱۰۰؍۱،سبل الہدی وارشادفی سیرة خیرالعباد۳۴؍۴،السیرة النبوة والدعوة فی العھد المدنی۲۶۲؍۱

[18] ابن ہشام۶۲۱؍۱ ،تاریخ طبری۴۴۱؍۲،فتح الباری۲۸۹؍۷،البدایة والنھایة۲۶۸؍۳،عیون الاثر۲۹۴؍۱

[19] ابن ہشام۶۲۱؍۱،ابن اسحاق۴۰۴،تاریخ طبری۴۴۱؍۲، البدایة والنھایة۲۹۸؍۳

[20] تاریخ الخمیس ۳۷۷؍۱

[21] ابن ہشام۶۲۲؍۱،عیون الاثر۲۹۵؍۱،ابن اسحاق  ۴۰۵

[22] ابن ہشام ۶۲۲؍۱،الروض الانف۷۹؍۵،عیون الآثر۲۹۵؍۱،تاریخ طبری۴۴۲؍۲،البدایة والنہایة۳۲۹؍۳

[23] ابن ہشام۶۲۲،۶۲۳؍۱،الروض الانف۱۰۰؍۵،عیون الآثر۲۹۵؍۱،تاریخ طبری ۴۴۲؍۲،دلائل النبوة للبیہقی  ۶۵؍۳

[24] تاریخ طبری۴۴۲؍۲،البدایة والنہایة۳۳۱؍۳،السیرة النبوة لابن کثیر۴۰۹؍۲

[25] تاریخ طبری۴۴۲؍۲،ابن ہشام ۶۲۳؍۱،الروض الانف۸۰؍۵،عیون الآثر۲۹۵؍۱، البدایة والنہایة۳۳۰؍۳، السیرة النبوة لابن کثیر۴۰۷؍۲

[26] ابن ہشام۶۲۴؍۱،الروض الانف ۸۱؍۵،عیون الآثر۲۹۶؍۱،تاریخ طبری ۴۴۴؍۲

[27] صحیح بخاری کتاب الجہادباب ماقیل فی درع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۲۹۱۵ ،مسنداحمد۳۰۴۲

[28] تاریخ طبری۴۲۵؍۲، البدایة والنھایة۲۷۶؍۳،ابن ہشام ۶۲۷؍۱،عیون الاثر۲۹۸؍۱،فتح الباری۲۳۸؍۹

[29] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِی غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ عن عمر ۴۵۸۸،جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ۳۰۸۰،البدایة والنہایة۳۳۵؍۳

[30] فتح الباری۳۱۳؍۷ ، عیون الاثر۲۹۸؍۱

[31] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا۳۹۹۵،عیون الاثر۲۹۹؍۱

[32] ابن ہشام ۶۲۷؍۱،الروض الانف۸۶؍۵

[33] الانفال۹

[34] القمر: 46 

[35] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَا قِیلَ فِی دِرْعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالقَمِیصِ فِی الحَرْبِ۲۹۱۵

[36] الحجرات ۱۰

[37] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۱۴۱؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۴۵؍۴

[38] ابن سعد۳۱۰؍۳،ابن ہشام۶۸۵؍۱ ،الروض الانف ۲۰۸؍۳،البدایة والنہایة ۱۱۴؍۳، مغازی واقدی۱۵۶؍۱،السیرة النبوة لابن کثیر۵۸؍۲

[39] ابن سعد۱۲؍۲،مغازی واقدی۶۵؍۱

[40] ابن سعد ۱۲؍۲،ابن ہشام ۶۲۷؍۱،الروض الانف ۸۸؍۵،عیون الآثر۲۹۹؍۱،تاریخ طبری ۴۴۸؍۲، البدایة والنہایة۳۳۴؍۳

[41] ابن ہشام۶۲۲؍۱،الروض الانف ۸۱؍۵، عیون الآثر۲۹۶؍۱،تاریخ طبری ۴۴۵؍۲،البدایة والنہایة۳۳۲؍۳،مغازی واقدی ۶۸؍۱،السیرة النبوة لابن کثیر ۴۱۲؍۲

[42] ابن اسحاق۴۰۸

[43] الأحادیث المختارة أو المستخرج من الأحادیث المختارة مما لم یخرجه البخاری ومسلم فی صحیحیهما ۴۹، الأوائل لابن أبی عاصم۸۲،الأوائل للطبرانی۸۲

[44] شرح البخاری للسفیری ۔المجالس الوعظیة فی شرح أحادیث خیر البریة صلى الله علیه وسلم من صحیح الإمام البخاری۹۶؍۱،كتاب الدیباج للخَتْلی۲۳؍۱

[45] دلائل النبوة للبیہقی۶۶؍۳

[46] عہد نبوی کے میدان جنگ صفحہ ۲۳

[47] تاریخ اسلام تدمری۵۴؍۳

[48] ابن سعد۱۲؍۲

[49] مغازی واقدی۷۰؍۱

[50] البدایة والنہایة۳۳۳؍۳

[51] الحج۱۹

[52] الحج: 19

[53] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۶۶

[54]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ۳۹۶۵

[55] مسند احمد۱۲۵۷، مستدرک حاکم۴۴۳۰، مسند ابی یعلی۳۴۰،مصنف ابن ابی شیبہ ۳۱۹۵۴، ۳۶۶۵۹

[56] ابن ہشام ۶۳۳؍۱،الروض الانف ۹۵؍۵،عیون الآثر ۳۰۳؍۱،تاریخ طبری ۴۵۴؍۲،البدایة والنہایة۳۴۳؍۳

[57] ابن ہشام۶۳۳؍۱،الروض الانف ۹۵؍۵

[58] تفسیرطبری۱۸۸؍۷،تفسیرابن ابی حاتم ۷۵۵؍۳

[59] ابن سعد۷۶؍۳،فضائل الصحابة الاحمدبن حنبل۱۲۶۸،مستدرک حاکم ۵۵۵۴

[60] ابن سعد۱۱؍۲،مغازی واقدی۷۵؍۱

[61] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۱۹؍۲،ابن سعد۱۱؍۲

[62] شرح الزرقانی علی المواھب۲۸۷؍۲ ،البدایة والنھایة ۲۸۳؍۳ ،ابن اسحاق ۳۱۶؍۱

[63] مغازی واقدی۱۳۵؍۱

[64] تفسیرابن کثیر۷۳؍۴

[65] مغازی واقدی۷۱؍۱

[66] ابن سعد۴۳۵؍۳،اسدالغابة۳۸۷؍۴،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۲۸۲؍۳

[67] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا عن انس ۳۹۸۲، و كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ الجہادبَابُ مَنْ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ۲۸۰۹

[68]صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا۳۹۹۸

[69] مغازی واقدی۸۵؍۱،السیرة النبوة لابن کثیر۴۴۵؍۲،امتاع الاسماع۱۵۶؍۷،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۵۲؍۴،السیرة الحلبیة۱۸۸؍۲

[70] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۷۳

[71] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۱۴۸؍۲

[72] تاریخ الخمیس۲۴۴؍۲

[73] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۱۴۸؍۲،شرح الشفا۵۲؍۲

[74]ابن سعد ۱۱۱؍۳ 

[75] مغازی واقدی۸۶؍۱

[76]ابن ہشام۶۳۰؍۱،تاریخ طبری۴۵۱؍۲،البدایة والنھایة۳۴۸؍۳

[77] ابن ہشام۷۰۹؍۱

[78] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ عن ابی ہریرہ  ۴۰۸۶،البدایة والنہایة ۷۲؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۱۲۴؍۳

[79] مغازی واقدی۸۱؍۱

[80] مغازی واقدی۸۱؍۱

[81] ابن ہشام۶۳۵؍۱، شرح الزرقانی علی المواھب۲۹۴؍۲

[82] ابن سعد۱۹؍۲

[83] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِعن انس ۴۹۱۵،مسنداحمد۱۲۳۹۸،ابن ہشام۶۲۷؍۱

[84] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۲۱۴؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۶۸؍۳،البدایة والنہایة ۳۳۸؍۳،تاریخ طبری ۴۴۸؍۲

[85] ابن ہشام ۶۲۷، ۶۲۸؍۱،الروض الانف۸۹؍۵،عیون الآثر۳۰۰؍۱

[86] الروض الانف۸۹؍۵،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۸۰؍۴،السیرة الحلبیة۲۲۹؍۲

[87] اسدالغابة ۴۶۲؍۳

[88] ابن ہشام ۶۳۸؍۱

[89] السیرة الحلبیة۲۳۱؍۲،نهایة الإیجاز فی سیرة ساكن الحجاز ۲۲۷؍۱

[90] المجادلة ۲۲

[91] فتح الباری۳۱۲؍۷

[92] صحیح مسلم  كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِی غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ۴۵۸۸،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۹۳؍۲،ابن ہشام ۶۳۱؍۱،عیون الاثر۲۹۹؍۱،تاریخ طبری۴۵۳؍۲، البدایة والنھایة ۲۷۹؍۳

[93]شرح الزرقانی علی المواھب ۲۹۴؍۲،مستدرک حاکم۵۷۳۶، ،دلائل النبوة للبیہقی۵۶؍۳

[94] ابن ہشام ۶۳۳؍۱،مسنداحمد۲۳۷۷۸

[95] ابن ہشام ۶۳۳؍۱،البدایة والنھایة۲۸۰؍۳

[96] ابن سعد۱۹؍۲

[97] البدایة والنھایة۳۰۴؍۳

[98] ابن ہشام ۶۳۴؍۱،البدایة والنھایة۲۸۷؍۳

[99] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا ۳۹۸۸

[100] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَنْ لَمْ یُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِیهِ۳۱۴۱

[101] مغازی واقدی ۸۷؍۱

[102] ابن ہشام۶۳۴؍۱، تاریخ طبری ۴۵۴؍۲

[103]صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَنْ لَمْ یُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِیهِ ۳۱۴۱،صحیح مسلم  كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِیلِ۴۵۶۹

[104] ابن ہشام۶۳۵؍۱،ابن اسحاق ۴۱۸،تاریخ طبری۴۵۵؍۲

[105] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ۳۹۶۲

[106] ابن ہشام۶۳۴؍۱، ابن اسحاق۴۱۷

[107] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ عن انس  وابن مسعود۳۹۶۲، وبَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًاعن انس ۴۰۲۰

[108]سیرةابن اسحاق۴۱۸

[109] شرح الزرقانی علی الموھب ۲۹۷؍۲،ابن ہشام۶۳۶؍۱

[110] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۹۹۰؍۳

[111] ابن اسحاق۴۱۹

[112] ابن ہشام ۶۳۶؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۸۴؍۳

[113] عمدة القاری ۳۹۶۲ ،۸۶؍۱۷ ،دلائل النبوة للبیہقی ۸۴؍۳

[114] سنن ابن ماجہ  کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ وَالسَّجْدَةِ عِنْدَ الشُّكْرِ  ۱۳۹۱

[115] شرح السیر الکبیر ۶۰۰؍۱

[116] عیون الآثر۳۰۵؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۴۹؍۴،السیرة الحلبیة۲۳۹؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۲۹۷؍۲

[117] ابن سعد۲۰۷؍۸

[118]

[119] ابن ہشام۲۸۲؍۱،الروض الانف ۴۱؍۳

[120] دلائل النبوة للبیہقی۹۴؍۳

[121] مغازی واقدی۹۱؍۱

[122] ابن ہشام ۲۸۲؍۱

[123] دلائل النبوة للبیہقی۸۴؍۳،مغازی واقدی۹۱؍۱

[124] ابن ہشام۶۴۴؍۱

[125] ابن ہشام ۶۲۸؍۱،الروض الانف۹۰؍۵، عیون الآثر۳۰۰؍۱،تاریخ طبری ۴۴۹؍۲،سیرة النبویةلابن کثیر۴۳۶؍۲

[126] صحیح مسلم  كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِی غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِعن عمر ۴۵۸۸،عیون الآثر۲۹۹؍۱،البدایة والنہایة۳۴۱؍۳،شرف المصطفی۱۳۰؍۴،دلائل النبوة لابن نعیم۴۷۴؍۱،دلائل النبوةللبیہقی ۵۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۴۲۶؍۲

Related Articles