مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

مختلف تہذیبوں میں عورت کی حیثیت

عرب کی معاشرتی خرابیوں یاتہذیبی کمزوریوں کومغربی مصنفین نے باربارمختلف طریقوں سے اچھالاہے،حالانکہ مختلف قدیم تہذیبوں اور شروع سے لے کرآخرتک یورپ کاہربڑے ملک کامعاشرہ عورت کے حوالے سے جن خوفناک لعنتوں ،انسانیت سوزجرائم اورظلم وتشددکی فراوانی میں رسوااوربدنام ہے عرب قبائل اپنے زمانہ جاہلیت میں بھی اس کاعشرعشیرنہ تھے،وہ ریگ زارعرب کے سخت کوش محنتی اورجنگ جوقبائل یورپ جیسی مسموم فضااوراس کی زہریلی ثقافتی آب وہواسے بالکل محفوظ تھے،وہ لوگ اپنی ضروریات کے لئے کثرت ازواج کے قائل تھے ،وہ بے شماربتوں کی پرستش کرتے تھے،وہ جنوں اورفرشتوں کی عبادت کرتے تھے مگروہ برہنہ مردوعورت کی پوجا نہیں کرتے تھے، وہ لنگ پوجانہیں کرتے تھے اورنہ ہی پجاریوں کی عیاشیوں کے لئے مندروں میں دیوداسیاں ہوتی تھیں ،وہ لوگ شراب پیتے تھے مگر مذہبی رسومات میں نشے میں دھت ہوکر محرمات سے جنسی تعلق نہیں رکھتے تھے، وہ لوگ اپنی لڑکیوں کاقتل توکرتے تھے مگرفروخت نہیں کرتے تھے،وہ لوگ اپنی بیٹیوں اوربیویوں کواپنی معاشی ضروریات کے لئے قجہ خانوں میں نہیں بھیجتے تھے،وہ کثرت ازدواج کے قائل تھے مگر شوہرکواس کی اجازت تھی کہ وہ اپنی بیوی کسی کو بخش دے یاگلے میں پٹہ ڈال کرفروخت کردے ،عربوں کی لڑکیاں رشتوں کے لئے مندروں میں نہیں بیٹھی رہتی تھیں اورنہ ہی عورتیں مردوں کے سامنے ننگے ناچ ناچتی تھی،عربی عورتیں دیوتاؤ ں کوخوش کرنے کے لئے بکروں کے آگے ننگی ہوکرکھڑی نہیں ہوجاتی تھیں ،اورنہ ہی عرب میں عورت کودیوتاکے حضورقربان کیاجاتاتھا،وہ باپ بیٹوں اوردوسرے مردوں کے آگے برہنہ نہیں ہوتی تھی اورنہ ہی عربی مرد وعورت ایک ہی حمام میں ننگے ہوکر نہاتے تھے،یہاں ہم چندنمایاں قدیم تہذیبوں اورممالک کامختصرذکرکرتے ہیں تاکہ مغربی مصنفین کے الزامات کاآپ خودجائزہ لے سکیں ۔

سمیری تہذیب میں عورت کی حالت زار:

قدیم ترین اورسب سے پرانی سمیری تہذیب تسلیم کی جاتی ہے ،یہ لوگ بارہ دیوتاؤ ں کی پرستش کرتے تھے،ان میں ایک دیوی بیلت یعنی زہرہ دیوی تھی جوتمام دیوتاؤ ں کی ملکہ کہلاتی تھی،اس کابابل میں ایک عالیشان مندرتھاجہاں خاص وعام کا میلہ لگارہتاتھا،اس سرزمین کی ہرنوجوان لڑکی خواہ وہ کسی بادشاہ ، وزیر،جرنیل یارئیس کی بیٹی ہواسے خاوندکی تلاش میں زہرہ دیوی کے مندرمیں آناپڑتاتھا،رواج یہ تھاکہ ہر کنواری لڑکی ایک خاص موسم میں یہاں پہنچ جاتی اورسہرے باندھ کر قطارمیں مندرکے اندربیٹھ جاتی ،زرق برق ملبوسات پہنے ہوئے تماشائی آتے اورہرایک لڑکی کواس طرح دیکھتے جیسے قربانی کے لئے جانورخریدنے آئے ہیں ،جب کسی کو کوئی دوشیزہ پسندآجاتی وہ اس کی جھولی میں سونے یاچاندی کاایک سکہ ڈال دیتااورکہتاملیتایعنی دیوی تیر ا بھلا کرے اورعورت اس کے ساتھ جانے کے لئے مجبورہوتی خواہ وہ مرد کیساہی کیوں نہ ہوتا، انکارقانوناجرم تھا،اسی طرح انطاکیہ میں فحاشی عام تھی ہزاروں عورتوں کو مندروں میں رہنے پرمجبورکیاجاتاتھا،پافوس میں سینکڑوں عورتوں کو افرووتیہ کے نام پرزناکاری کے لئے مجبورکیاجاتاتھا،یونانیوں میں ویمرنام کی دیوی تھی جس کامندرفحاشی کے لئے استعمال ہوتاتھا،بحیرہ روم کے مشرقی سواحل پرجتنے ممالک تھے سب میں ایسے ہی دیوی دیوتاؤ ں کامذہب رائج تھا،عبادت گاہوں میں فحاشی اورزناکاری انتہاء کوپہنچی ہوئی تھی ،قدیم یورپ میں بھی ایسی ہی بے ہودہ رسم کارواج تھا،جزیرہ سسلی بنیرمیں بھی اسی جزیرے کے جنوبی علاقے میں ایک خاص دیوتاجوبالکل عریاں حالت میں ہوتا تھا ا س کے مندرمیں نوجوان عورتوں کی بڑی تعدادجمع رہتی تھی ،شہرالفی میں دیانادیوی کابت بالکل برہنہ تھا،مغربی افریقہ کے حصے سلورکوسٹ میں لوگ مردانہ جنسی عضوکاجلوس بازاروں میں بڑی شان وشوکت سے نکالتے تھے ،کانگوکے بانیری قوم مردانہ جنسی عضوکی پوجاکرتے تھے، تسمانیہ ۱۶۴۲ء میں دریافت ہواوہاں عورتوں کومردکے سامنے بالکل ننگے ناچ کے لئے مجبورکیاجاتاتھا،ان میں تین تک بیویاں رکھنے کارواج تھااگرتسمانی خاوندکاماراہواشکارپیٹ بھرنے کے بعدبچ جاتاتوباقی اپنی عورتوں اوربچوں کے سامنے پھینک دیتے تھے ۔

مصرمیں عورت کی حالت زار:

قبل ازاسلام قدیم مصرمیں ابتدامیں مردکے عضوتناسل کومذہبی اہمیت حاصل نہ تھی بلکہ عورت کے جنسی عضوکوجس کی شکل گائے کی اندام نہانی سے ملتی جلتی تھی بڑی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ قدیم مصریوں کاعقیدہ تھاکہ اس میں جادوکی طاقت پوشیدہ تھی،غالباہرقدیم دورمیں جادوکوعورت سے منسوب کیاجاتارہاہے،یہ دور گزرگیاتودوسری قدیم تہذیبوں کی طرح مصرمیں بھی لنگ پوجانے مذہبی صورت اختیارکرلی،عام مقبولیت کی وجہ سے مصرکے مندروں کے پجاریوں نے یہ فحش اوربے حیائی کی رسم اپنے مذہب میں شامل کرلی ،قدیم مصریوں میں اس پرستش کے عام ہونے کااندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ آثارقدیمہ کے محکمے کے کارکنوں نے کھدائی کے دوران ایک عالی مرتبہ مصری عورت (جوغالباحکمران خاندان سے تعلق رکھتی تھی ) کی حنوط شدہ لاش کے ساتھ ایک بیل کاحنوط شدہ جنسی عضوبھی برآمدکیار رفتہ رفتہ یہ شرمناک رسم پورے مصراورافریقہ میں پھیل گئی جوبعدمیں ہندوستان تک آپہنچی ،قدیم مصرکے شہرتھیبامیں ہررات ایک عورت پلنگ پرلٹاکراونچی لٹکادی جاتی تھی اوریہ خیال کیاجاتاتھاکہ رات کے کسی حصے میں دیوتاآئے گااوریہ اس سے لطف اندوزہوگی ،اسی طرح لیتاکے شہرتیارہ میں یہ رواج تھاکہ کسی نوجوان لڑکی کودیوتاکے مندرمیں بندکرکے باہرسے تالالگادیتے ،اس کے بعداس کے ساتھ جوسلوک ہوتاتھاوہ ناقابل بیان ہے ،قدیم مصرمیں عورتوں کی ایک خاص رسم بھی تھی ،عقیدہ یہ تھاکہ دیوتایااس کے کسی نائب دیوتاکی مورتی سے چھواجاناباعث خیروبرکت تھا،چنانچہ اس کام کے لئے مندرکے اندرایک مقدس بکراپالاجاتاتھاجودیوتاکامظہرتھا،عقیدت مندعورتیں مندرمیں جاکراس بکرے کی خوب خدمت کرتیں ، پجاریوں کوتحائف ملتے اوررشوت بھی ،عورتیں بالکل برہنہ ہوکراس بکرے کے سامنے چوپائے کی طرح اپنے آپ کوپیش کرتی تھیں ،ظاہرہے کہ بے حیائی کے اس مکروہ منظرسے مندرکے پجاری بھی خوب لطف اندوزہوتے تھے اورایسے شہوت انگیزماحول سے بھرپورفائدہ اٹھاتے تھے کیونکہ وہ مقدس بکراتوعیاشی کامحض ایک ذریعہ انہوں نے بنایاہواتھاجس کے نام پرگنداکھیل جاری تھا،عیاشی اورفحاشی کی ان رسوم کے علاوہ مصرمیں عورتوں کی حیثیت بھیڑبکریوں سے زیادہ نہ تھی ،وہ عرصہ درازتک مردوں کے بہیمانہ ظلم وستم سہتی رہیں اورکوئی ان کی فریادسننے والانہ تھا،انہیں سربازارعریاں کردیاجاتاتھا،ہرخوبصورت عورت پر بادشاہ وقت اوراس کے امراء زبردستی قبضہ کرلیتے تھے ، بادشاہوں اورامراء کے محلات میں سینکڑوں عورتیں ہوتی تھیں جن کے لئے آزادی سے سانس لینابھی دشوار تھا ،دوسرے معنوں میں عورت مردوں کے لئے حسین وجمیل کھلونے کاکام دیتی تھی ،جب کسی کاعورت سے جی بھرجاتاتووہ اسے پھرظلم وستم کے جہنم میں دھکیل دیتا،حالانکہ عورتیں آزادتھیں اورانہیں پورے اختیارات حاصل تھے لیکن وہ جائیدادفروخت کرنے کے حق سے محروم تھی،یہ حق صرف مردوں کوحاصل تھا ،عورتوں کودیوتاؤ ں کاغصہ فروکرنے کے لئے زندہ آگ میں جلا دیا جاتاتھا،یہ رسم توآخری دور تک رہی ،ہرسال اگردریائے نیل میں طغیانی نہ آتی تومصرکی کسی خوبصورت دوشیزہ کوبناسنوارکردریائے نیل میں پھینک دیتے تھے ،یہ رسم مصرپرمسلمانوں کے قبضے تک جاری رہی ،پلوٹومیس کے زمانے تک بھائی بہنوں کی شادی کاعام رواج تھا،لیکن بعدمیں یہ رسم ختم ہوگئی،،مورخ اورسیاح ہیروڈوٹس کے مطابق قدیم مصریوں میں اس بات کو سخت معیوب سمجھا جاتا تھا کہ (عورت کے نجس اورناپاک ہونے کے عقیدے کی وجہ سے) مقدس مقامات پرعورتوں سے گفتگوکی جائے ، اگرکوئی مردغلطی سے کسی عورت سے بات کرلیتاتواس وقت تک دوبارہ مندرمیں داخل نہیں ہوسکتاتھاجب تک وہ غسل نہ کرلے۔

یونان میں عورت کی حیثیت:

یونانی اپنی تہذیب کے پرعظمت دورمیں بھی طوائف کے علاوہ کسی عورت کوقدرکی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے ،گرہستی اورپاکبازعورت ان کے نزدیک ایک کمتردرجے کی انتہائی ذلیل مخلوق تھی،اگرکسی عورت کے ہاں وقت سے پہلے بچہ پیداہوجاتاتواسے قتل کرڈالتے تھے،جس وقت کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو چکتا توملکی فوائدکے پیش نظراسے دوسرے شحض کی نسل لینے کے لئے اس کے خاوندسے عاریتالے جاتے تھے،مردوصیت کے ذریعے اپنی مملوکہ عورتیں مال وراثت کے طور پر دوسروں کومنتقل کردیتے تھے اورعورت پرمردکے حکم کی تعمیل لازم تھی ،پرکلیزی ایتھنزمیں عورتیں مکان کی بالائی منزلوں پرعلیحدہ کمروں میں رہتی تھیں اورانہیں گھرسے باہرنکلنے کی اجازت نہ تھی ،وہ تعلیم سے محروم تھیں ،البتہ طوائفوں کوجوایتھنزکے ممتازشہریوں اورارباب حکومت کی داشتائیں ہوتی تھیں تعلیم دی جاتی اورانہیں فنون لطیفہ سکھائے جاتے تھے،ان میں سے تھیس نامی طوائف فلسفیانہ موشگافیوں کی ماہرتھی ،ایک اورطوائف لستھینیاافلاطون کی شاگردتھی ، آخری تباہی سے پہلے یونان میں طوائفیت اورقحبہ گری کومذہبی تقدس کادرجہ نصیب ہوا،یونانیوں میں رنڈیوں کے کم ازکم چالیس نام تھے ،یہ قحبہ خانوں میں برہنہ رہتی تھیں یا ایسالباس زیب تن کرتی تھیں جس سے سارابدن نظر آتا تھا ، کیونکہ رنڈیوں کی تعدادزیادہ تھی اس لئے بہت کم قیمت پرجسم بکتے اورعصمت فروشی ہوتی تھی،اعلیٰ درجے کی رنڈیاں گاہک تلاش کرنے کے لئے بازاروں میں پھرتی تھیں ،وہ ایک مخصوص جوتاپہنتی تھیں جس کے نچلے حصے میں لکھاہوتامیرے پیچھے آؤ ،جب وہ چلتی تویہ الفاظ زمین پرکندہ ہوجاتے تھے ،ان میں سب سے اہم طبقہ ان رنڈیوں کا تھا جنہیں ساتھی کہتے تھے ،یہ مہذب ،ذہین ،عقل منداورخوبصورت ہوتی تھیں اوروہ اپنے گھروں میں رہتی تھیں اورلوگ وہیں جاتے،خواص پران رنڈیوں کا گہرا اثرتھا(جیسے لکھنوکی طوائفیں )تیسری قسم ان رنڈیوں کی تھی جوعبادت گاہوں میں رہتی تھیں ،کورونتھ میں ایک مندرتھاجس میں کم ازکم ایک ہزارلڑکیاں تھیں ،اسی طرح یونان کے تمام شہروں کے مندروں کایہی حال تھا،رنڈیوں اورقحبہ خانوں پرجوٹیکس لگائے جاتے وہ مندروں پرخرچ کیے جاتے تھے ، آزادانہ میل جول اورزناکاری کی عام اجازت تھی ،اسے کوئی گناہ یابرائی نہ سمجھتا ، اسے کھانے پینے کے عمل کی طرح سمجھاجاتاتھا شادی اورنکاح کوغیرضروری قراردے دیاگیا،کام دیوی جوخوبصورتی اورمحبت کی دیوی سمجھی جاتی تھی کے نام سے عریاں عورت کی پرستش ان کامعمول ہو گیا ، حالانکہ عملی زندگی میں وہ عورت کوشیطان سے بھی زیادہ برترسمجھتے تھے،کورنتھ کے باشندے جب کام دیوی سے مرادیں حاصل کرناچاہتے تووہ اپنی کئی خوبصورت کنیزوں کومندرکے لئے وقف کردیتے ،اپریل اورمئی میں فلوریلیادیوی کے نام پرجوآٹھ روزہ میلہ ہوتا تھا اس کا اولین مقصدعیش پرستی اورفحاشی ہوتاتھا،کسبیاں اورطوائفیں تمام مردوں کے سامنے برہنہ ہوکرانتہائی ہیجان خیزناچ پیش کرتیں تھیں ،عمل لوط کو جس کی وجہ سے اسے فنا کیا گیا تھایونان میں دیوتائی تقدس کادرجہ دے دیا گیا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق یونیورس دیوتانے اختلاط کے لئے اپنی ہی جنس کاایک فردپسندکیاتھا،اس دیوتا کا جذبہ عشق مردانہ تھا ، چنانچہ جس شخص کے دل میں اس طرح کادیوتائی جذبہ پیداہوتاوہ اسلذبالمثل کی طرف مائل ہوجاتا،عقیدہ یہ تھاکہ دیوتاؤ ں کی برکت سے یہ عمل انسان کو خداسے ملا دیتاہے (نعوذباللہ) آبادی کوروکنے کے لئے حکیم ارسطونے بھی لوگوں کویہی مشورہ دیاکہ بیویوں کوچھوڑدیں اورعمل لوط پرعمل کریں ،اس سے پہلے سقراط بھی اسے مستحسن قرار دے چکاتھا،چنانچہ یونانیوں نے بالعموم عورت سے کنارہ کشی اختیارکرلی،کریٹا،تھیبااوربقرہ میں تولڑکوں کے ساتھ شادی کرنے کی رسم کومذہبی طورپرتسلیم کر لیا گیا توردعمل کے طور پرعورتوں میں بھی ہم جنسی کی بیماری پھیل گئی،لڑکے حکومت سے باقاعدہ لائسنس لے کرپیشہ کراتے ،محرم رشتوں کے بارے میں تھوڈوربیسڑمین نے اپنی کتاب مین اگینسٹ وومن(Man Against Woman)میں لکھاہے کہ چچازادبہن بھائیوں کے علاوہ چچے بھتیجیوں سے شادی کرتے تھے،چچیاں ، ممانیاں ، بھتیجیوں اوربھانجوں سے جنسی طورپروابستہ ہوکرشوہراوربیوی کی طرح رہتے تھے،ایک باپ سے ہوتے مگردوسری ماں سے شادی کرلیتے،شادی سے پہلے زوجین کو بات چیت کی اجازت نہ تھی،پلاٹونے یہ بات دیکھی تواس نے سفارش کی کہ خاونداوربیوی شادی سے پہلے دونوں ایک دوسرے کوننگادیکھیں ،جہیزلازمی تھا،یونانیوں کاخیال تھا کہ عورتیں بدروحوں کے زیراثرہوتی ہیں اس لئے بہت سے مندروں میں عورتوں کوقدم رکھنے کی اجازت نہ تھی ۔

رومتہ الکبری میں عورت کی حیثیت:

سترھویں صدی عیسوی میں ایک دفعہ روم کے دانشوروں ،حکماء اورفلاسفروں نے عورت کی حیثیت متعین کرنے کی غرض سے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا،جس میں روم کے تمام طبقوں کے سربرآوردہ لوگ بھی شامل تھے ،کئی روزکی بحث وتمحیص کے بعدوہ روشن خیال لوگ اس نتیجے پرپہنچے کہ عورت ایک بے جان قالب ہے اوراخروی زندگی میں اس کاکوئی حصہ نہیں ،عورت ناپاک ہے اس کوگوشت کھانے،ہنسنے بولنے کی ہرگزاجازت نہیں ،عورت کوچاہئے کہ وہ ہمیشہ (اپنے گناہ کاکفارہ اداکرنے کے لئے)عبادت اورمردکی خدمت میں مصروف رہے،اس کے بعدعورتوں کے منہ پرایک خاص قسم کاتالاڈال دیاگیاجسے موزلییرکہتے تھے ،عورت خواہ کیسے ہی گھرانے سے تعلق رکھتی ہواس کے منہ پرتالاپڑارہتاتھا۔پھرعورت کے استحصال کے لئے عورتوں کی مکمل آزادی کا مصنوعی اورغیرفطری آزادی کاہتھیاراستعمال کیا گیا ، جو تمام حدودوقیودسے بالاترتھی ،اس آزادی کی حدیہ تھی کہ ایک رومی مدبرسنیکاکے بقول عورتیں اپنی عمرکاحساب شوہروں کی تعدادسے لگاتی تھیں ،ملک کی عام وخاص عورتوں میں طوائفیت کارجحان اس قدرعام ہوگیا کہ ٹائبریس کے عہدمیں معززخاندانوں کی عورتوں کوطوائف بننے سے روکنے کے لئے حکومت وقت کوقانون نافذکرناپڑا،ان دنوں رومیوں میں فلورانامی کھیل بہت مقبول ہواکیونکہ اس میں بالکل برہنہ عورتوں کی دوڑہوتی تھی،بے حیائی کایہ عالم ہوگیاکہ عورتیں اورمردننگے ہوکرایک ہی جگہ غسل کرتے تھے،اورعام طورپرطوائفیں انہیں مقامات پرملتی تھیں ،بقول پٹرونینسن فیشن زدہ عورتیں اپنے بناؤ سنگھاراورجسمانی نمائش کے لئے ایک ایساکپڑااستعمال کرتی تھیں جس کو ہوا کا جال کہتے تھے ،امراء کی بدکاری کی کوئی حدنہ تھی مورخ گبن لکھتاہے کہ امراء شراب پیتے تھے اورعورتوں کوسربازارچھیڑاکرتے ،جس عورت کی چاہتے راہ روک لیتے،حسین باندیوں سے پیشہ کراتے تھے جوسربازارجسم فروخت کرتی تھیں رنڈیوں کے عروج کایہ عالم تھاکہ شاہی تخت پربیٹھ کربدمعاشوں ،اوباشوں اورلٹیروں کی سرپرستی کرتی تھیں ،تھیوڈورامشہورفاحشہ عورت تھی جس نے تخت شاہی پر بیٹھ کرلرزہ خیزمظالم روارکھے ،عورتوں کوگھوڑوں سے باندھ کرگھسیٹاجاتا،انہیں ستونوں سے باندھ کرچاروں طرف آگ روشن کی جاتی جس سے ان کے جسموں کاگوشت گل گل کرگرتاتھا،فاوایٹیناجوپائیس کی بیٹی اورمارکوئیس کی بیوی تھی ،حسن میں بے مثال اورکارناموں میں شہرت یافتہ تھی ، پوری سلطنت میں مارکوئیس ہی ایک ایساآدمی تھاجواپنی بیوی کی بوالہوسی اورشہوت پرستی سے ناواقف تھالیکن اس کی بیوی بدکارتھی ،وہ تاریخ میں بدنام ہوگیا،اس عورت نے اپنے تیس سالہ دوراقتدارمیں اپنے بے شمارچاہنے والوں کوبلندمناصب عطاکیے ،روم میں اسے خوسینہ کی دیوی کادرجہ دیاگیا،اسے مندروں میں جیوپٹر کی بیوی اورزہرہ دیوی کے مجسموں میں ظاہرکیاجاتاتھا،یہ حکم جاری کیاگیاکہ تمام نوجوان جوڑے شادی کے وقت اس پاک دیوی کے حضورہدیہ عقیدت پیش کریں (ہسڑی آف ڈیکلائن اینڈفال آف رومن ایمپائر)اپنے عہداقتدار(۱۸۹ء)میں کموڈوس کاپوراوقت تین سوخوبصورت عورتوں اوراتنے ہی ہرصوبے سے لائے گئے لڑکوں میں گزرتاتھا،جب اس کے لئے لواطت میں بھی کشش باقی نہ رہی تواس ظالم نے ظلم وتشددکوشعاربنالیا،شہنشاہ گابلیس (۷۱۶ء)کے پاس ان گنت داشتائیں تھیں اوربے شماربیویاں تھیں ،ان میں سے ایک ایسی عورت بھی تھی جسے اس نے ایک مقدس خانقاہ سے جبرااغواکیاتھا،وہ جن عورتوں کوملکہ کادرجہ دیتاتھاانہیں بھی اپنے چاہنے والوں کوبخش دیتاتھا،روم کے معززین بے حدعیاش تھے جوہروقت طوائفوں اورغلاموں میں گھرے رہتے تھے یونان میں عروج کے دورمیں بیسوانے جومقام حاصل کیاتھاوہی مقام روم کی طوائفوں نے عیسائیت قبول کرنے سے پہلے حاصل کرلیاتھا،عورت مکمل طور پر آزاد اورخودمختیارمگرپرلے درجے کی بدکاراوربے حیاتھی،ایک ایک عورت بیس بیس مردوں سے رشتہ مناکحت استوارکرلیتی تھی ،گبن روایات رومامیں لکھتاہے کہ اگرعورت بیس بیس مردوں سے شادی رچالیتی تومردبھی ان سے پیچھے نہ تھے،نکاح کی حیثیت رسمی تھی،زناکاری عام تھی ، عریانی اورفحاشی تمام حدیں توڑچکی تھی،تھیٹروں کاشوق بے حدبڑھ چکاتھا،جن میں بالکل ننگی عورتیں حصہ لیتی تھیں ،جنسی تعلق ایک تماشابن چکاتھا،بڑے بڑے پادریوں کے تہ خانوں میں ہزاروں خوبصورت کنواری لڑکیاں تھیں ،رومی اپنی بیویاں وصیت کے طورپردوسروں کودے دیتے،رومیوں میں ایک تہوارباناڈیو(Bona Deo) خاص طورپرعورتوں کاتہوارتھا،دراصل یہ ہرقسم کے خبیث اورگندے مردوں اورعورتوں کے ملاپ کادن تھا،لوگ اس حدتک گرجاتے تھے کہ تہذیب اورشرافت کے تقاضے اسے بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتے ،عیسائیت قبول کرنے کے بعدبھی شہوت پرستی ،زناکاری اوربداخلاقی ان کا معمول بن چکی تھی ،گبن نے اسکندریہ کی ایک معزز اور خوبصورت عورت کاحال لکھاہے کہ پادریوں نے اس کی گاڑی روک کراس کے کپڑے پھاڑدیئے ،اسے بازارمیں ننگاکرکے بڑی ذلت سے قتل کردیا،عیسائی عہدکے ابتدئی ایک ہزارسال میں مشرقی روم میں عورتوں کے ان اعضاکومسخ کردیتے تھے جوشہوت کاباعث بنتے تھے ،اکثرچھاتیاں کاٹ کران کے جسم خراب کردیتے،اسی ظلم کی وجہ سے پوراجسمانی نظام بری طرح متاثرہوتاتھابلکہ عورتوں کاٹمپریچر تک گرجاتااورجسمانی حالت خراب ہوجاتی۔(بائیولوجیکل ٹریجڈی آف وومن)

ترقی یافتہ یورپ میں بدکاری اتنی عام تھی کہ والدین کواپنی بیٹے وبیٹیوں پراور شوہروں کواپنی بیویوں کی نیک چلنی پراعتمادہی نہ تھا،مشہورکتاب وومن کے مصنف نے یہ انکشاف کیاہے کہ بعض ممالک میں خاوندکی غیر حاضری میں اسے زناکاری سے بچانے کے لئے خاص قسم کے تالے استعمال ہوتے تھے جنہیں Girdle of Chastity کہا جاتا تھا ، عیسائیت کے وسطی دورمیں مقریزی نے Bejaکی بعض رسوم کاذکرکیاہے وہ کہتاہے کہ وہ نوجوان لڑکیوں کے عضومخصوص کی اندرونی جلدکاٹ دیتے تھے اور دونوں حصوں کوسی دیتے تھے ،صرف پیشاب کرنے کے لئے جگہ چھوڑی جاتی تھی،یہ رسم عرصہ درازتک موسواہ،حریر،سمالی،گال اورجنوبی نیل کے بعض قبائل میں موجودرہی ہے ،وہ مزید لکھتاہے کہ یورپ میں ہمارے امراء کے آباؤ اجداداپنی بیویوں کے عضومخصوصہ پرخاص قسم کے تالے لگاکرجاتے تھے،صلیبی جنگوں اوردوسری مہمات میں اس کا استعمال عام تھا،ویاناکے سلاح گھرمیں پیداوارکے گورنر کرارے کے خلاف پیش ہونے والاایک آلہ موجودہے ،یہ شخص ۱۴۰۵ء میں تھا،یہ آلہ اس کے جرم کے ثبوت کے طورپرپیش کیا گیاتھااورسینٹ نے اسے قیدکی سزادی،یہ صرف اٹلی میں عام نہیں تھابلکہ فرانس میں بھی عام استعمال ہوتارہاہے،یہ تالے نہایت نفیس طریقے سے بنائے جاتے تھے سب سے پہلے اسے ہنری دوم کے عہدمیں شروع کیا گیا،ایک تاجرنے سینٹ جرمین کے میلے میں یہ آلہ پیش کیااوراسے محافظت عفت کانام دیا،اس وقت تویہ مقبول نہ ہوابلکہ خفیہ طورپراستعمال ہوتارہامگربعدمیں فرانس میں اس کا عام رواج ہوگیا،اکتوبر۱۹۳۳ء میں نیوزی لینڈکی ایک لڑکی کواسی جرم میں پکڑاگیا،دسمبر۱۹۳۳ء میں لیگ آف اویکنڈمیگ بارزنے اپنے قومی پروگرام میں شق ۱۹شامل کی کہ ہنگری کی تمام وہ لڑکیاں جن کی عمریں بارہ سال سے زیادہ ہیں اورغیرشادی شدہ ہیں کویہ تالااستعمال کرناچاہئے اورلڑکوں کی حفاظت ان کے والدین کریں ،ان تالوں کااستعمال کسی نہ کسی صورت میں ۱۹۳۳ء تک جاری رہا مگراصل بیماری کاعلاج ثابت نہ ہوسکے۔

قدیم ایران میں عورت کی حیثیت:

ایران میں زرتشت مذہب رائج تھا،یہ لوگ دوخداؤ ں کوتسلیم کرتے تھے ایک نیکی کااورایک بدی کاخدا،یہ لوگ آگ کی پرستش کرتے تھے ، پارسیوں کی مقدس کتاب اے زرتشرمیں درج ہے ،میں تجھ سے کہتاہوں کہ رینگنے والے سانپوں ،مارنے والے بھیڑیوں سے اس مادہ گرگ سے جوکھلے بندوں چھاپہ مارتی ہے اس مینڈکی سے جواپنے بچوں کولے کرپانی میں کودتی ہے ان سب سے زیادہ اس مخلوق (عورت)کوتباہ ہوناچاہئے ،اسی فلسفہ کے تحت ایک عرصہ دراز تک عورت مجبوروبے بس قیدیوں کی زندگی بسرکرتی رہی ،تاریخ سے ثابت ہے کہ ایرانی عورتوں کوہمیشہ بڑی حقارت کی نظرسے دیکھتے تھے ،ایران میں عورتوں کی عیاری ، مکاری،بدچلنی اوربے وفائی ضرب المثل کادرجہ رکھتی تھی،بیوی کی حیثیت کنیزسے بھی بدترتھی،شوہرجسے چاہتابخش دیتاتھا،قدیم دورمیں ایرانی بہن اوربیٹی تک سے شادی کر لیتے تھے ،ان کے نزدیک ایساکرنے سے گناہوں کاکفارہ اداہوتاتھااورسوسائٹی میں ان لوگوں کوعزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،چنانچہ کئی ساسانی بادشاہ ایسے تھے جنہوں نے اپنی حقیقی بہنوں سے شادیاں کررکھی تھیں اوراس پرفخرکرتے تھے ،خسروپرویزکے محل میں تین ہزارسے زیادہ عورتیں ایسی تھیں جن سے بادشاہ جنسی تمتع کرتا تھا ۔

قدیم ہندوستان میں عورت کی حیثیت:

ہندوستان بھی عورت کی تذلیل اوراس پرظلم وستم میں کسی سے پیچھے نہ رہا،جینی ہندوجین مت کوسب سے پرانامذہب قراردیتے ہیں ،ان کے مہابیرسوامی کے نزدیک عورتیں بدی اورفسادکی جڑہیں ،ان کے نزدیک مردوں کے گناہوں کاسبب صرف عورت ہے اورعورت انسان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،مردکوچاہئے کہ عورت سے کسی قسم کاتعلق نہ رکھے ،نہ اس کی طرف دیکھے ،نہ اس سے بات کرے اورنہ اس کاکوئی کام کرے،ڈگمبرجینی توعورت کی نجات ہی کے قائل نہیں ،ان کی نجات صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ وہ آئندہ یعنی دوسرے جنم میں مردپیداہوں ،بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ عورت بدی کاسرچشمہ ہے اس کے لئے نجات نہیں ،اس سے الگ رہناہی نیکی ہے ،مہاتمابدھ نے عملی طورپراپنے پیروکاروں کے لئے اپنی مثال قائم کی،منومہاراج نے اپنی سب سے قدیم منوسمرتی میں عورت کوجس کی کوکھ سے وہ خودپیداہوئے عورت کی حیثیت کویوں بیان کیاہے ،عورت کی ہستی اولادپیداکرنے کاذریعہ ہے،اس کی نجات اسی میں ہے کہ اپنی زندگی مردکی خدمت کرنے میں فناکردے ،عورتوں کاکوئی الگ یکیہ نہیں ،نہ عبادت اورنہ برت،خاوندکی سیواکرناہی اس کادھرم ہے،چنڈال،مرغ،کتااورحائضہ عورت کے سامنے کوئی برہمن کھانانہ کھائے ، حائضہ عورت کابنایاہوایاچھواہوابھوجن یعنی کھانانہ کھایاجائے،چمار،نٹ،درزی،لوہاراورایسی عورت جس نے دوسراشوہرکررکھاہواس کے گھرکاکھاناحرام ہے،عورت بچپن میں والدین،جوانی میں خاونداوربڑھاپے میں اولادکے اختیارمیں ہوتی ہے ،عورت کوکبھی خودمختیاربناکرنہ رکھاجائے ،عورت کے لئے قربانی اوربرت لازمی نہیں صرف شوہرکی اطاعت کافی ہے ،عورت دوسری شادی نہ کرے اورخاوندکے بعدباقی زندگی بہت کم غذاپربسرکرے،عورتوں کی عقل کبھی ایک حالت پرنہیں رہتی اس لئے ان کی گواہی کوقبول نہیں کیاجاسکتا،جھوٹ بولناعورت کی فطرت ہے،چانکیہ برہمن کاضابطہ اخلاق کہتاہے کہ دریا،سینگ والاجانور،بادشاہ اورعورت پراعتمادکرناٹھیک نہیں ،عورتوں میں سات عیب فطری طورپرپائے جاتے ہیں ،جھوٹ بولنا،بغیرسوچے کام کرنا،مکروفریب،بے وفائی،طمع،ناپاکی اوربے رحمی کے سات عیب ان کی فطرت کاحصہ ہیں ،شیریں بیانی عالموں سے،جھوٹ قماربازوں سے اورمکاری عورتوں سے سیکھنی چاہئے،تقدیر،طوفان،موت،جہنم،زہراورزہریلے سانپ ان میں کوئی اتناخطرناک نہیں جتنی عورت۔

قدیم ہندوؤ ں میں آٹھ اقسام کی شادیاں ہوتی تھیں ۔

براہم شادی۔نیک سیرت میاں بیوی باہمی رضامندی سے شادی کریں ۔

دیوشادی۔بڑے یگ میں دامادکوزیورسے آراستہ لڑکی دینا۔

ارش شادی۔دولہاسے کچھ لے کرشادی کرنا۔

پرجایت شادی۔دھرم کی ترقی کے لئے بیاہ کرنا۔

آشرشادی۔دولہادلہن کوکچھ دے کربیاہ کرنا۔

گاندھرپ شادی۔باقاعدہ ملاپ ہونا۔

راکشش شادی۔مکروفریب یااغواکرکے شادی کرنا۔

پیشاج شادی۔سوئی ہوئی،شرابی یاپاگل لڑکی سے زبردستی کرنا۔(سیتارتھ پرکاش)

منو سمرتی ادھیائے ۹نمبر۵۹کاخلاصہ بھی یہی ہے۔برہمنوں کے ہاں نیاگ کارواج تھا،اگرکسی عورت سے اولادنہ ہوتووہ اپنے شوہریاخسرکی اجازت سے کسی رشتہ دار یا دیور یا کسی اورسے رجوع کرے،ہندودھرم میں نیوگ کاسلسلہ بہت وسیع ہے،البیرونی نے اپنے سفرنامے الہندمیں لکھاہے کہ کم سن لڑکیاں مندروں میں کسبیاں اور دیوداسیاں بنتی ہیں ،پجاری عورتوں اوردیوداسیوں کی اخلاقی پستی حددرجہ شرمناک ہے،ہندوتمام قسم کی بداخلاقیاں مذہب کے نام پرکرتے ہیں ،ان میں ننگی عورتوں اورمردوں کی پوجاکی جاتی ہے یہ لوگ شراب پی کراتنے بدمست ہوجاتے ہیں کہ انہیں ماں ،بہن اوربیٹی میں بھی تمیزنہیں رہتی اورکئی لوگ اپنی عورتیں جوئے میں ہاردیتے ہیں ،عملی طورپرایک ایک عورت کے بیک وقت کئی شوہرہوتے ہیں اوربیوہ عورتیں سب کی مشترکہ ملکیت خیال کی جاتی ہیں ،بے اولادعورتیں غیرمردوں کے پاس جاتی ہیں اورعورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی ہے،راجاؤ ں کے محلات میں اتنی عورتیں ہوتی ہیں کہ ان سے پوری بستی آبادہوسکتی ہے، مزیدلکھاہے کہ شادیاں کم عمرمیں ہوتی ہیں ،مردکوکثرت ازواج کا اختیار ہے مگرعورت یامردکوطلاق دینے یالینے کی اجازت نہیں ہے،بیوہ عورتوں کی شادی ممنوع ہے،جب کسی کاخاوندمرجائے تواسے یاتوتمام عمربیوہ رہناپڑتاہے یاوہ خاوندکی لاش کے ساتھ زندہ جل جاتی ہے کیونکہ بیوگی کی حالت میں اس سے تمام عمربدسلوکی ہوتی ہے اوراسے منحوس خیال کیاجاتاہے۔۷۳۴ہجری میں جب ابن بطوطہ ہندوستان آیا تو اس نے ہندوعورتوں کی ستی ہونے کی رسم کوبڑی حیرت اورعبرت کی نگاہوں سے دیکھااس نے اپنے سفرنامے میں ستی کے کئی واقعات کاذکرکیاہے،کئی مرتبہ اس نے خود جا کر عورتوں کے ستی ہونے کاالمناک منظراپنی آنکھوں سے دیکھا،۱۸۱۳ء میں وائسرائے نے ضمنی طورپررسم روکنے کاقانون جاری کردیا،۱۸۱۵ء میں مزیددفعات کااضافہ ہوا، آخر ۱۸۱۷مء میں آخری اورحتمی قانون نافذہوا، اس کے بعد۱۸۱۸ء میں جب حکومت نے جائزہ لیاتومعلوم ہوا۱۸۱۵ء تا۱۸۱۸ء تک ملک کے مختلف حصوں میں ۲۳۶۵عورتوں کو زندہ جلایاگیاہے،۱۵۲۸عورتیں صرف کلکتہ اورگردونواح میں جلائی گئیں ،اگست ۱۸۱۸ء میں موہن رائے نے گورنرجنرل کوستی کے خلاف یاداشت پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندولواحقین اپنی اغراض کے لئے انہیں زندہ جلادیتے ہیں ،بعض لوگ انہیں رسوں سے باندھ کراس وقت تک لمبے لمبے بانسوں سے آگ میں دھکیلتے رہتے ہیں جب تک وہ شعلوں کی لپیٹ میں نہ آجائیں ،جنہوں نے اس کے باوجودبھاگنے کی کوشش کی ،رشتہ داروں نے دوبارہ انہیں پکڑکرزندہ جلادیا،شاشتروں کی روسے یہ عمداقتل کے سواکچھ نہیں ،۱۸۲۸ء میں صرف کلکتہ شہرمیں ۳۰۹عورتوں کازندہ جلادیاگیا،چنانچہ اس کے بعدحکومت برطانیہ نے قانونااس رسم کوختم کردیا۔

ہندوستان کے علاقے راجپوتانہ اوردوسرے کئی علاقوں میں لڑکیوں کوبالعموم قتل کردیاجاتاتھااوریہ سلسلہ بھی ستی کی طرح صدیوں سے رائج تھا،۱۸۳۶ء میں برطانوی حکمران نے پہلی مرتبہ تحقیتات کیں تومعلوم ہواکہ مغربی راجپوتانہ میں دس ہزارکی آبادی میں ایک بھی لڑکی نہ تھی،مانک پورمیں راجپوت معززین نے یہ تسلیم کیاکہ ان کے ضلع میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ایک کے سواکوئی لڑکی ایک سال کی عمرکے بعدزندہ نہیں رہی تاہم یہ ظلم طویل عرصے تک ختم نہ ہوسکا،کچھ عرصہ بعددوبارہ تحقیقات ہوئیں توایک سرکاری افسرنے یہ ثابت کیاکہ اس نے ۱۳۰۸اضلاع کادورہ کیاوہاں لڑکیوں کے قتل کاعام رواج ہے،۳۶اضلاع میں اس نے چھ سال سے کم عمرکی کوئی لڑکی نہیں دیکھی ، دوسرے ۲۸اضلاع میں اسے شادی کی عمرسے کم کوئی لڑکی دکھائی نہ دی،کچھ اضلاع ایسے بھی تھے جہاں کے باشندوں کے علم میں کوئی شادی نہ تھی،ایک ضلع میں آخری شادی اسی (۸۰)سال قبل ہوئی تھی،سب سے نمایاں حقیقت صوبہ بنارس کے ضلع میں دیکھی گئی وہاں کے باشندوں نے بتایاکہ ہمارے ہاں دوصدیوں سے کوئی شادی نہیں ہوئی ، ۱۸۶۹ء میں صوبہ سرحدکے گورنرنے معلوم کیاکہ سات دیہات میں اوسطاًایک سولڑکیوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی لڑکی تھی،بہرحال قدیم کتابوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ رسم بدصدیوں سے جاری تھی،اورانگریزحکومت نے بتدریج بڑی مشکل سے اسے ختم کیا،صدیوں سے رواج تھاکہ وہ بچیوں کوپیداہوتے ہی ماردیتے تھے،مائیں فاقوں سے یاکوئی جڑی بوٹی دے کرہلاک کردیتیں ،بنارس میں ایک مذہبی تہوارکے بعدلڑکی کودودھ میں غوطے دے کرماردیتے تھے،ملک کے کئی حصوں میں انہیں زندہ دفن کردیاجاتاہے ، گھات چندریکاکے مندرمیں انہیں بھینٹ چڑھاکرقتل کردیاجاتاان میں جوان لڑکیاں بھی ہوتی تھیں ،شمسیدس کہتاہے کہ قدیم ہندووں کاعقیدہ تھاکہ اگرکسی نے زندگی میں بہت زیادہ پاپ اورگناہ کیے ہیں تودوسرے جنم میں وہ عورت پیداہوگا،اس فقرے کی تہ میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ عورت ایسے بدترین درجے کی مخلوق ہے کہ سزاکے طورپرپاپی مردکوعورت بناکردنیامیں پیداہوناپڑے گا،بنگال میں عورتیں بدترین قسم کی سماجی غلامی کی زندگی بسرکرتی تھی،بہترین صفات رکھنے والی عورت سے بھی اگرخاوندکسی بات پر ناراض ہوجاتاتووہ اسے کسی بھی وقت کسی دوسری عورت پرقربان کردیتاتھا،ہرشادی شدہ عورت کی زندگی خاندان میں بالکل غیرمحفوظ تھی،عورتیں عموماالمناک زندگی بسرکرتی تھیں ۔

دیرکٹیلرنے اپنی کتاب اے ہسڑی آف کاسٹ ان انڈیامیں لکھاہے کہ کرشن کے زمانے میں عورتیں آزادتھیں ،ہندوؤ ں کی تین ہزارگوتیں تھیں صرف برہمنوں کی آٹھ سو سے زیادہ گوتیں تھیں ،بہت سے لوگ دوسری ذات میں شادی نہیں کرتے تھے ،منودھرم شاسترکے مطابق اگرایک آدمی کی پہلی بیوی ہواوروہ کسی سے مانگی ہوئی رقم سے دوسری شادی کرتاتودوسری بیوی کی اولادرقم دینے والے کی تصورہوتی،حائضہ عورت سخت پلیدہوتی،اس کی نظریں اورآوازبھی پلیدہوتی،اگرکوئی برہمن شودرعورت کوبیوی بنائے تومرنے کے بعددوزخ میں جائے گا،اس کابچہ برہمن نہ کہلاسکے گابلکہ اس کے لمس اورسانس تک میں نجاست ہوتی ہے،نیچ ذات کی عورتیں اونچی ذات کے مردوں سے شادی نہیں کرسکتی تھیں ،اگرکوئی عورت اپنی یااپنے رشتے دارکی عظمت یابلندی پرفخرکرے تووہ بطوربیوی جرم کرتی ہے،بادشاہ یاراجہ کواختیارہے کہ اسے کتوں کے آگے ڈال دے،جوشخص اپنے استادکی بیوی سے ناجائزتعلق رکھے گااس کاعضومخصوص کاٹ دیاجائے گااورعورت ہوتولوہے کے تپتے ہوئے مجسمے سے لپٹ کرمرجائے۔

ہندوستان بھرکے بڑے بڑے مندروں میں حسین وجمیل جوان لڑکیاں مندروں کے لئے وقف ہوتی تھیں جنہیں دیوداسیاں کہاجاتاتھا،ویوفشروارنک نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ صرف مدراس پریذیڈنسی میں تقریباًبارہ ہزاردیوداسیاں ہیں جن کی خدمات مندروں تک محدودہیں ،شمیدس نے لیمارے کے حوالے سے بتایاکہ صرف بمبئی اوربنگال کے صوبوں میں کرشن کے پجاری خاص طورپردیہات میں رات کوجمع ہوتے اورکرشن کوپیوں کاسوانگ رچاتے،یہ کھیل جب نکتہ عروج تک پہنچ جاتاتوشہوت رانی کے مناظرتمام اخلاقی حدوں کوپھاندجاتے،لیمارے نے ایک بھگت فرقے کاذکرکیاہے جوبائیں ہاتھ کومتبرک سمجھتے تھے ،وہ بائیں ہاتھ کی رسم کے موقع پرمردوں اورعورتوں کوذات پات کے امتیازکے بغیراکٹھاکرلیتے اورخفیہ اجتماعات میں پہلے خوب کھاتے پیتے اورشراب سے بدمست ہوتے پھرعورت کے روپ میں ایک دیوی شکتی کی پوجا کرتےیہ عورت عام طورپران میں سے ہوتی،اسے مادرزادبرہنہ کرکے ایک لڑکی کوتخت پربٹھادیتے اورایک آدمی زناکاری سے قربانی کی ابتداکرتاپھرعام جوڑے یہی کام شروع کردیتے اوریہ وباسب میں پھیل جاتی،وہاں موجودہرجوڑاشیوااورشکتی کی نمائندگی کرتا،ان جیسابہروپ بھرلیتا،ایک شکتی فرقے کے متعلق شمیدس نے لکھاہے کہ یہ کنچولی پنتھ ہے ،اکثرمذہبی تقاریب میں عورتیں اورلڑکیاں اپنے شلوکے ایک صندوق میں ڈال دیتی ہیں جوگوروکی حفاظت میں رہتاہے،تقریب کے خاتمے پرہرمردصندوق سے ایک شلوکانکال لیتاہے،وہ شلوکاجس عورت کابھی ہووہ خواہ اس کی بہن ہی کیوں نہ ہووہ عورت رات بسرکرنے کے لئے اس کی ساتھی بن جاتی،ایک اورسیاح مصنف جولی (Jolly)نے پونامیں پاروتی دیوی کے مندرمیں جوپہاڑکی ترائی میں ہے دیکھاکہ یہاں عورتیں لنگ پوجاکرتی ہیں ،وہ پھول چڑھارہی تھیں اوراپنے ماتھوں پر سندور کا نشان لگارہی تھیں ،ہندوستان کے جنوب اورجنوب مشرق مثلامجمع جزائرمیں مردانہ جنسی عضوکی عام پرستش ہوتی تھی ،جزیرہ جاوامیں بھی اس کاعام رواج تھا،شمیدس کہتاہے کہ بمبئی میں ہنومان کے مندرمیں عورتیں بالکل برہنہ ہوکرجاتی ہیں اوراولادکی خاطردیوتاسے بغل گیرہوتی ہیں ، انفسٹن کی تاریخ تاریخ ہندحصہ اول کے مطابق تقریبا ایک ہزار قبل مسیح میں ایک ایسامذہب پیداہوگیاتھاجوصرف خواہشات نفس پرمبنی تھا،اس میں شراب پی کرپوجاکی جاتی تھی ،ایک برہنہ مردکے ہاتھ میں تلواردے کراس کو مہا دیو اورایک مادرزادننگی عورت کودیوی قراردے کرزن ومردکی پوجاکی جاتی تھی،پھرنشے میں بدمست ہوکرجوعورت بھی سامنے آتی خواہ وہ بہن ہوبیٹی ہوبہوہویاماں ہواس کے ساتھ زناکاری میں مصروف ہوجاتے ،ایسے مظاہرے ہندوؤ ں میں عام تھے لیکن یہ سب کچھ مذہب کے نام پرروارکھاجاتاتھا،اس کے علاوہ ایک خاص لفظ سماگم مقرر کیا گیا تھا یعنی یہ زناکاری اورہم بستری کی دعوت تھی جسے بہت کم ردکیاجاتاتھا،بنگال سے گجرات تک جسے بلہراکہتے تھے شادی شدہ عورتوں کے سواسب سے عارضی تمتع کی اجازت تھی ،خواہ وہ بیٹی ،بہن،خالہ،پھوپھی یاکوئی اورقریبی رشتہ دارہو۔[1]

بقول ابن بطوطہ مالدیپ کے لوگ ایک دوشیزہ کوآراستہ وپیراستہ کرکے سمندر کے کنارے مندر میں چھوڑآتے تھے تاکہ سمندرسے برآمدہونے والاعنقریب اسے کھاجائے۔

چین میں عورت کی حیثیت:

ہندوؤ ں کی طرح چینی معاشرے میں اصولی طورپرعورت کاکام صرف مردکی غلامی تھا،جس طرح ایک ہندوبیوی اپنے شوہرکواوتارسمجھتی ہے اورایک بت سمجھ کراس کی پوجاکرتی ہے اسی طرح چین میں عورت کاحال تھا،لڑکیوں کے پاؤ ں میں بچپن سے ہی لوہے کے جوتے پہنادیئے جاتے تھے اوراس رواج کی اخلاقی مصلحت یہ بتائی جاتی ہے کہ عورت کے پاؤ ں میں پڑاہوالوہے کاجوتادراصل یہ بتاتاہے کہ اس کے پاؤ ں صرف گھرکی چاردیواری میں چلنے پھرنے کے لئے بنے ہیں ، باہراس کاکوئی کام نہیں ،بچپن کی شادی کارواج عام تھا،عورت کوشوہرکے انتخاب کاکوئی حق نہیں تھا،داشتائیں اصل بیویوں کے ساتھ ایک ہی گھرمیں رہتی تھیں ،اوران کے بچے برابرکے حقوق حاصل کرتے تھے ،چین کی ابتدائی تاریخ میں کشتیوں میں رہنے والی لڑکیاں عام طورپرطوائفوں کاکرداراداکرتی تھیں ،کہاجاتاہے کہ ایسی لڑکیاں عمومایونان سے آتی تھیں ،باپ کوگھریلواموریاقحبہ گری کے لئے بیٹی فروخت کردینے کی اجازت تھی اوراکثرغریب لوگ لڑکیوں کوفروخت کردیتے تھے،عورت کوہرحال میں مردکی جائیدادکادرجہ حاصل تھا،خاوندبیویوں کوبیچ دیتے تھے عورت کوتعلیم دیناکفرتھا،بقول نیرچینی عورت گواہی نہیں دے سکتی تھی ۔

جاپان میں عورت کی حیثیت:

ہندوستان کی طرح جاپان میں جہیزکی لعنت پوری شدت سے موجودتھی،اس لئے جاپان میں لڑکیاں اپناجہیزبنانے کے لئے پیشہ کرتی تھیں اوران کے والدین اس سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے،ہندوؤ ں کی طرح ان میں پردے کارواج بھی نہیں تھااورشرم وحیاجومشرقی ممالک میں عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے برائے نام تھا،جاپانی عورتیں دوسروں کے سامنے بلاتکلف برہنہ ہوجاتی تھیں اوراسے معیوب نہیں سمجھاجاتاتھا حتی کہ مردوں کے سامنے بھی عریاں حالت میں آجاتی تھیں ، طویل عرصہ تک حماموں ،حوضوں اوردوسرے مقامات پرمرداورعورت مادرزادبرہنہ ہوکرنہاتے تھےاگرکوئی شخص لنگوٹ یاکوئی اورلباس پہن کرنہاناچاہے تواسے سختی سے روک دیا جاتا تھا ، اس طرح عورتوں سے چھیڑچھاڑکے روزمرہ واقعات حدسے تجاوزکرگئے،پھربڑے بڑے شہروں میں مردوں اورعورتوں کے نہانے کاالگ الگ انتظام کیاگیا،اس کی نوعیت یہ تھی کہ درمیان میں ایک دیوارحائل کردی جاتی اوربعض اوقات رسی تان کرپردہ کردیاجاتا،اگرنہانے کے دوران کوئی مردکسی عورت سے ملاقات کے لئے آجاتے تووہ کپڑے پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ ننگ دھڑنگ باہرآجاتی تھی خواہ ملاقاتی باپ ہو،بھائی ہویاکوئی اجنبی،عورت کاسینہ جس کے ساتھ پوری دنیامیں شرم وحیاکے زبردست جذبات وابستہ رہے ہیں اوراب بھی ہیں لیکن جاپان میں ان تمام پابندیوں سے آزادتھا،عورتیں انتہائی بے حیائی سے اس طرح سینہ کھول لیتی تھیں جیسے ہمارے ہاں ہاتھ اورپاؤ ں کھولتے ہیں ،حماموں میں مرداورعورتیں مالش کرنے کاکام کرتے تھے،اسکولوں کے معائنے کے وقت لڑکیاں اورلڑکے قطارباندھ کرناف تک ننگے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن ایک دوسرے کابوسہ لینامعیوب سمجھتے تھے۔ (جاپان ان دی ورلڈٹوڈے،پورٹر)

بقول کریسلٹ اگروالدین کے ذرائع آمدنی محدود ہوں تولڑکی یہ ایثارکرتی ہے اوریہ عام ہے کہ وہ اپنے والدین کی رضامندی سے طوائف بن جاتی ہیں ،اس مقصدکے لئے وہ اپنانام تبدیل کرلیتی ہے اورجب (معینہ مدت تک) کسی قحبہ خانے میں رہتی ہے اسی نام سے اسے پکاراجاتاہے، جاپان کی لڑکیاں بلکہ بیویاں تک معینہ عرصے کے لئے قحبہ خانوں میں بک جاتی تھیں اوراتناعرصہ انہیں وہیں رہناپڑتاتھا،تاریخ بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں کھلم کھلامردانہ جنسی عضوکی پرستش (لنگ پوجا)ہوتی تھی،انیسویں صدی میں امریکی سیاح یہ دیکھ کرسخت حران ہوئے ، خصوصیت کے ساتھ شنتومذہب کے پرانے مندروں میں دیوتاؤ ں کے بت اس طرح بنائے جاتے تھے جس میں مردانہ جنسی عضومکمل ایستادگی کی حالت میں ہوتے تھے۔

برطانیہ اورامریکہ کی عورتیں :

قدیم زمانہ میں برطانوی عورتیں دائرہ نماکچے گھروں کے اندرمحبوس رہتی تھیں ،گھروں پرتنکوں کی چھت ہوتی تھی،عیسائیت اختیارکرنے سے پہلے ان کامذہب ادہام پرستی اورمظاہرقدرت کی پرستش تھا،بعض مقدس رسومات میں عورتیں بالکل برہنہ آتی تھیں ،ان کے جسموں پرسبزیوں وغیرہ کے سیاہ نشانات بنے ہوتے تھے ،ذریوزانہیں دیوتاؤ ں کے حضورقربانی کے لئے بھی پیش کرتے تھے ،برطانوی تہذیب کی تاریخ میں بتایاہے کہ عیسائیت سے پہلے برطانوی مردعموماًدس اوربارہ کے درمیان مشترکہ بیویاں رکھتے تھے،یہ اشتراک عموماًباپ اوربیٹوں کے درمیان ہوتاتھا،کسی عورت کے بچے اس شخص کے تصورکئے جاتے جس سے وہ سب سے پہلے ہم بستر ہوئی ،ٹیوٹن اورناروک کونسلوں میں خاوندکے ساتھ جل مرنے کارواج عام تھا،خاوندکوبیوی فروخت کردینے کاحق حاصل تھااورتقریبادوصدیاں پہلے تک انگریزی قانون بیویوں کوفروخت کرنے کی اجازت دیتاتھا،۱۸۰۱ء میں ایک بیوی کی قیمت صرف چھ پینس تھی جس سے عورت کی قدروقیمت کااندازہ ہوسکتاہے،فروخت کنندہ اقرار کرتا تھا کہ آئندہ اس کااپنی بیوی پرکوئی حق نہ ہوگا،۱۷۶۴ء میں ہرڈم فیئرکے ایک شخص نے ایک بیل کے عوض اپنی بیوی کی پیشکش اس شرط پرکی تھی کہ چراگاہ میں وہ بیلوں کے ریوڑ سے اپنی مرضی کابیل حاصل کرے گا،چراوہے نے یہ شرط منظورکرلی ،بیوی بھی رضامندہوگئی ،چنانچہ اس شخص نے شارع عام اپنی بیوی کے گلے میں باقاعدہ پٹہ ڈال کر اسے چرواہے کے حوالے کیااوراس نے بیل چھ گنی قیمت میں فروخت کردیا،ایک شخص نے اپنی عورت ایک شلینگ کے عوض فروخت کردی ،فری برج کے ایک شخص سمتھ نے اپنے گاؤ ں سے بہت دورایک مقام پراپنی بیوی کونیلام کے لئے پیش کردیا،بولی بارہ پنس سے شروع ہوئی اورگیارہ شلینگ پرختم ہوئی ،خریدارجب عورت کولے کر جا رہا تھا تو لوگوں نے اس پرکیچڑاوربرف کے گولے پھینکے ،۱۸۰۶ء میں ایک شخص تھروچی نے اپنی بیوی کواس دن فروخت کردیاجب سینٹ ویلنٹائن کادن منایاجارہاتھا،لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے نیلام روکناپڑالیکن وہ شام کوپھربازارمیں لے آیااورایک شخص کے پاس جواس کاکرایہ داررہ چکاتھابیس گنی میں فروخت کر دیا ، اس مارکیٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک عورت کی زیادہ سے زیادہ قیمت پاکستان کے ڈیڑھ روپے کے برابرہوتی تھی ،عام دستورتھاکہ شادی کے بعدتمام دلہنیں مادرزادبرہنہ رہتی تھیں ،اینگوسیکسن قوم میں اگرچہ نکاح کاکوئی خاص قانون نہ تھامگرزناکاری کی سزابہت سخت تھی ،عورتوں کاہجوم ڈنڈے ،چھریاں لے کرحملہ کردیتااورایسی عورت کی تکابوٹی کردیتااوراس کا چاہنے والابھی قتل کردیاجاتا اورلاشیں جلادی جاتیں ،یتیم لڑکیاں جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھیں ،وہی ان کے لئے خاوندتلاش کرتے ،انکارکی صورت میں لڑکی کو اتناروپیہ ادا کرنا پڑتا جتنا مالک طلب کرتا،وہ مزارعین کی لڑکیوں کی شادی پرٹیکس وصول کرتے تھے ،یہ لوگ بھی اوہام پرستی کے شکارتھے اورعورت کومنحوس تصورکرتے تھے ، انسائیکوپیڈیاآف سپرسٹسن کے مصنف ایم اے ریڈفورڈکے مطابق اگرکوئی ماہی گیراپنی کشتی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کسی عورت کودیکھ لیتاجس نے سفیدایپرن باندھ رکھاہوتواسے وہم ہو جاتا کہ ضرورکوئی مصیبت آئے گی اوروہ واپس آجاتا،آئرلینڈمیں مویشی مارکیٹ کی طرف جاتے ہوئے کسی عورت کودیکھ لیتے تواسے یقین ہوجاتاکہ وہ ضروربدقسمتی کاشکارہوجائے گا،جولوگ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے جاتے ہوئے کسی عورت کی جھلک نصف رات کوبھی دیکھ لیتاتوفوراگھرواپس آجاتا،انگریزوں میں یہ مقولہ مشہورتھاکہ اونچی آوازمیں بات کرنے والی عورت اوراذان دینے والامرغ روئے زمین پرسب سے زیادہ منحوس چیزیں ہیں ،کسی مہم پرجاتے ہوئے کسی عورت سے ملنا نحوست کی علامت سمجھاجاتاتھا ،یہ بھی عام عقیدہ تھاکہ اگرنئے سال کی صبح کوگھرکی چوکھٹ کوسب سے پہلے عورت عبورکرجائے توگھرکے افرادبدنصیبی سے نہیں بچ سکتے ۔ جنوں بھوتوں کے قصے عام تھے،جادوعام تھاجوجادوگرنیوں کارہین منت تھا اورچرچ اسے تسلیم کرتاتھا کہ اراوح خبیثہ عورتوں سے زناکرتی ہیں اوربچے پیداکرتی ہیں ،اگرکوئی عورت شیطان کاشکارہوجائے تواسے مارڈالاجائے،چنانچہ تاریخ کے مطابق دس لاکھ کے قریب عورتیں زندہ جلائی گئیں یاقتل ہوئیں ،۱۶۶۴ء تک جادوگرعورتوں کوسزائے موت دینے کے لئے عدالتیں قائم رہیں ،حالانکہ کیامردجادوگرنہیں ہوسکتے تھے۔

قدیم افغانستان:

انفٹسن لکھتاہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں لڑکیاں مقررہ نرخوں پربکتی تھیں ،اوراس وقت ایک عورت کی قیمت پاکستانی سکے ساٹھ روپے کے مساوی تھی،وہ قرضوں کی ادائیگی اورجبری طورپرسرمایہ داروں اورخواتین کے پاس گروی رکھی جاتی تھی ،حتی کہ تقسیم برصغیرکے بعدجب ہندواورسکھ مہاجن اس علاقے سے نکل گئے توان کے گھروں سے بے شمارایسے تمسکات برآمدہوئے جن کے ذریعہ نوجوان لڑکیوں اورعورتوں کوان کے پاس رہن رکھاگیاتھا،گویامجموعی طورپرعورت کی حیثیت اس خطے میں بھی جانوروں اوربھیڑبکریوں سے زیادہ نہ تھی حالانکہ بظاہرمسلمان کہلاتے تھے۔

کوریا:

کوریامیں بھی جہاں بدھ مت کااثرتھا عورت ہمیشہ سامان تجارت اورسامان تعیش کے طورپرصدیوں تک استعمال ہوتی رہی،ان کے کوئی ذاتی حقوق نہ تھے ،ان کی اپنی کوئی شخصیت نہ تھی اورنہ عورتوں کے اپنے نام تھے بلکہ وہ اپنے باپ کے نام کی نسبت سے پہچانی جاتی تھی،مسلمانوں کے آنے سے قبل جاوا،سماٹرااوراس کے گردونواح کے جزائرکی وہی حالت تھی جیساکہ دوسرے ملکوں میں پڑھ چکے ہیں ،عورت ذلت اوررسوائی اوربے بسی کی زندگی بسرکررہی تھی،اسے کوئی حقوق حاصل نہ تھے ،وہ مردوں کے زیرفرمان تھی،اس کی شخصیت کوبطورخاص تسلیم نہیں کیاجاتاتھا،بقول کیپٹن شول ژمے عورتوں کوعبادت گاہوں میں اس وقت تک جانے کی اجازت نہ تھی جب تک وہ راہبہ نہ بن جائیں ۔

غلامی :

اسلام کی پیش رودنیاکے وہ علاقے جوتہذیب وتمدن کاگہوارہ کہلاتے تھے غلام اورآقا کے طبقوں میں تقسیم تھے ،آریائی فاتحین کی تین شاخیں تین مختلف تہذیبیں پیدا کر چکی تھیں ،ایک شاخ نے ہندوستان میں برہمنی تہذیب کی تخلیق کی،دوسری نے ایران میں آتش پرستی کے گردنوروظلمت کے تصورپرایک عظیم الشان تہذیب کاجنم دیااورتیسری نے یونان اورپھررومی تہذیب کی تشکیل کی،ان تینوں تہذیبوں کی قدرمشترک یہ ہے کہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں کے اصلی باشندوں کوغلام بناکرمعاشرے کے انتہائی ذلیل اور نچلے درجے میں جھونک دیا،ہندوستان میں مفتوحہ قومیں اورقبائل شودربنادیئے گئے ،یونان اورپھرروم میں انہیں غلامی کی اس پستی تک میں اتاردیاگیاکہ ان کی موت آقاؤ ں کا کھیل بن گئی،ان کی زندگی کیڑے مکوڑوں سے بھی ارزاں ہوگئی، تمام تہذیبوں میں یہ خیال چلاآرہاتھاکہ غلامی ایک فطری چیزہے ،ارسطو جیسا فلاسفر اور حکیم بھی یہی کہتاتھا کہ غلامی ایک فطری چیزہے اوربعض لوگ غلام ہی بننے کے لئے پیداہوتے ہیں اس لئے انسان نے انسانوں کوبراہ راست غلام بنارکھاتھا۔انہیں خریدا اور فروخت کیا جا سکتا تھا ،ان پرجائزوناجائزتشددکیاجاتا،ان کے ذمہ اتناکام لگایا جاتاجوان کی بساط سے باہرہوتا،کسی نافرمانی پراتناتشددکیاجاتاکہ وہ حواس باختہ ہوجاتے یا مر جاتے مگران کے حق میں کوئی آوازاٹھانے والانہیں تھا۔

اسلام نے دیکھاکہ دنیا کا تمام معاشی نظام اسی لعنت کی زنجیروں میں جکڑاہواہے ،چنانچہ اس ماحول میں اسلام نے دنیامیں سب سے پہلے غلامی کے خلاف اپنی آواز بلند کی اوریہ قانون بنا دیاکہ غلام کوکوئی شخص زبردستی غلام نہیں بنایاجاسکتا،چنانچہ اس سلسلہ میں فرمایا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:قَالَ اللَّهُ: ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ یَوْمَ القِیَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِی ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ یُعْطِ أَجْرَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے تین قسم کے لوگوں سے میں قیامت کے دن جھگڑاکروں گاایک وہ شخص جس نے مجھ کو عہد دیا اور پھر غداری کی اورایک وہ شخص جس نے آزادکوغلام بناکرفروخت کیااوراس کی قیمت کھائی اورایک وہ جس نے کسی مزدورسے اجرت پرپوراکام کرالیامگراس کواجرت نہ دی۔[2]

غلام کی جان ،مال اورآبروقانون کی نظروں میں آقاکی جان ومال اورآبروکے برابرہے ،اورمالک کی شدیدبدسلوکی کی وجہ سے غلام کوعدالت آزاد کر سکتی ہے ،پھراسلام نے ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اورتلقین وترغیب ،مذہبی احکام اورملکی قوانین کے ذریعہ غلاموں کو آزاد کردینےیا دوسرے سے غلام کوخریدکرآزادکردینے کوایک بڑے ثواب کاکام قرار دیا اوراس کے بارے میں عملی طورپرمختلف مدارج مقرر کیے اور فَكُّ رَقَبَةٍ کہہ کر غلاموں کی آزادی کونیکی اورحصول نجات کاذریعہ بتایا،

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚفَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۝۱۱ۡۖوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ۝۱۲ۭفَكُّ رَقَبَةٍ۝۱۳ۙاَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ۝۱۴ۙیَّـتِیْمًـا ذَا مَقْرَبَةٍ۝۱۵ۙاَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ۝۱۶ۭ [3]

ترجمہ:اور دونوں نمایاں راستے اسے(نہیں )دکھا دیےمگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی،اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی ؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً أَعْتَقَ اللهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنَ النَّارِ حَتَّى فَرْجَهُ بِفَرْجِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص غلام کوآزادکرے گااللہ تعالیٰ اس کے ہرعضوکے بدلے اس کے ہرعضوکوآگ سے نجات دے گا۔[4]

اوربعض تقصیرات میں بطور تعزیر وکفارہ غلاموں کی آزادی کو بہترین کفارہ قراردیاگیامثلاً۔

اگرمقتول مسلمان ہے                         ایک غلام آزادکرنا۔

 وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــــــًٔـا وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۔۔۔۝۹۲ [5]

ترجمہ:کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے ، اِلا یہ کہ اس سے چوک ہو جائے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کردے ۔

مقتول مسلمان مگردشمن کے قبیلہ کافردہے           ایک غلام کوآزادکرنا۔

۔۔۔ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۔۔۔۝۹۲ [6]

ترجمہ: لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔

مقتول غیرمسلم ہولیکن معاہدقوم میں سے ہو ایک غلام کوآزادکرنا۔

۔۔۔ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۔۔۔۝۹۲ [7]

ترجمہ: اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا ۔

اس کی دوسری تقصیرات میں بھی مثلاًنقض یمین     ایک غلام آزادکرنا۔

۔۔۔ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ۔۔۔۝۸۹ [8]

ترجمہ: (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو ، یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو۔

ظہارکاکفارہ                                               ایک غلام کاآزادکرنا۔

وَالَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّـتَـمَاۗسَّا ۔۔۔۝۳ [9]

ترجمہ:جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہو گا ۔

رمضان کے روزہ کوتوڑنے کاکفارہ ایک غلام کاآزادکرنا۔

الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَهُوَ أَنَّهُ یَجِبُ عَلَیْهِ كَفَّارَةُ الْوَطْءِ فِی رَمَضَانَ إِعْتَاقُ رَقَبَةٍ

امام حسن بصری اور سعید بن المسیب کے قول کے مطابق روزے کی حالت میں جان بوجھ کر مباشرت کرنے والے کے لیے ایک غلام آزاد کرنا واجب الکفارہ ہے۔[10]

آقاغلام کوسخت مارے تواس کاکفارہ                  ایک غلام کاآزادکرنا۔

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِی، فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِی صَوْتًا اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: مَرَّتَیْنِ الَلَّهُیْهِ، فَا أَقْدَرُ عَلَیْكَ مِنْكَ عَلَلْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى،قَالَ:أَمَا إِنَّكَ لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَعَتْكَ النَّارُ

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (ایک بار)میں اپنے غلام کوماررہاتھا تومیں نے اپنے پیچھے آوازسنی ،ابومسعود!خیال کرو،ابن مثنی کے الفاظ ہیں میں نے یہ آوازدوبارسنی اللہ کوتم پراس سے زیادہ قدرت ہے جتنی کہ تم اس پررکھتے ہو،میں نے آوازکی طرف مڑ کر دیکھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے،میں نے (فوراً)عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ کے لئے آزادہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم ایسانہ کرتے تو آتش دوزخ تم کولپٹ میں لےلیتی۔[11]

اورسب سے بڑھ کریہ کہ اسلامی سلطنت کی آمدنی کاآٹھواں حصہ غلاموں کی آزادی کے لئے مخصوص کردیاگیا، یہ طریقے تھے جس سے اسلام نے غلامی کوگھٹاتے گھٹاتے آزادی سے جاملایا،اس کے علاوہ اسلام نے غلاموں کواپنی آزادی خریدنے کاحق دیا۔

۔۔۔ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا۝۰ۤۖ وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللهِ الَّذِیْٓ اٰتٰىكُمْ۔۔۔۝۰۝۳۳ [12]

ترجمہ: اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے ، اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔

اس ضمن میں کسی بھی قسم کے لیت ولعل کوہمیشہ ناپسندکیاگیا۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كُنْتُ مَمْلُوكًا لِرَجُلٍ مِنْ بَنِی جُنْدَعٍ فَكَاتَبَنِی عَلَى أَرْبَعِینَ أَلْفًا وَشَاةٍ لِكُلِّ أَضْحًى. قَالَ فَتَهَیَّأَ الْمَالُ فَجِئْتُ بِهِ إِلَیْهِ فَأَبَى أَنْ یَأْخُذَهُ إِلا عَلَى النُّجُومِ. فَجِئْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: یَا یَرْفَأُ خُذِ الْمَالَ فَضَعْهُ فِی بَیْتِ الْمَالِ ثُمَّ ائْتِنَا الْعَشِیَّةَ نَكْتُبْ عِتْقَكَ. ثُمَّ إِنْ شَاءَ مَوْلاكَ أَخَذَهُ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ. قَالَ فَحَمَلْتُ الْمَالَ إِلَى بَیْتِ الْمَالِ فَلَمَّا بَلَغَ مَوْلایَ جَاءَ فَأَخَذَ الْمَالَ.

ابوسعیدالمقبری نے اپنے مالک سے مکاتب کی اورمدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کرکے مالک کے پاس لے گیا،مالک نے کہامیں تووقت مقررہ سے قبل نہیں لوں گا،ابوسعیدنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جاکرشکایت کی ،آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مولیٰ یرفاء کوحکم دیاکہ مکاتبت کی رقم بیت المال میں جمع کردے اورابوسعید رضی اللہ عنہ سے کہاجاتوآزادہے ،اب تیرامولیٰ(یعنی مالک)چاہے تویہ مال ہم سے لے لے اورچاہے توچھوڑدے گا،جب اس کے مالک کوعلم ہواتواس نے اپنامال وصول کرلیا۔[13]

دوسراواقعہ بھی اسی نوعیت کاہے جوزیادہ دلچسپ ہے،مشہورفقیہ اورمحدث محمدابن سرین کے والدسیرین نے اپنے آقاانس بن مالک سے مکاتبت کی درخواست کی مگرانہوں نے قبول کرنے سے انکارکردیا،سیرین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکرشکایت کردی،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انس پردرہ اٹھایااورفرمایااللہ تعالیٰ کاحکم ہے مکاتبت کرلو۔

عہد جاہلیت سے دماغوں میں غلامی کاجوتصورجماہواتھااس کے اثرسے کبھی کبھی صحابہ غلاموں کے ساتھ براسلوک بھی کربیٹھتے تھے ،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہااپنے معزز ترین صحابیوں کوڈانٹا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودغلاموں پرخصوصیت کے ساتھ شفقت فرماتے تھے۔

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کوجوبہت قدیم الاسلام صحابی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی راست گوئی کی مدح فرماتے تھے ، ایک دفعہ انہوں نے ایک عجمی آزاد غلام کوبرابھلاکہا، غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکرشکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو زجرفرمایا

إِنَّكَ امْرُؤٌ فِیكَ جَاهِلِیَّةٌ هُمْ إِخْوَانُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَیْدِیكُمْ فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ یَدِهِ، فَلْیُطْعِمْهُ مِمَّا یَأْكُلُ، وَلْیُلْبِسْهُ مِمَّا یَلْبَسُ وَلاَ یُكَلِّفُهُ مِنَ العَمَلِ مَا یَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا یَغْلِبُهُ فَلْیُعِنْهُ عَلَیْهِ

تم میں اب تک جہالت باقی ہے، یہ( غلام) تمہارے بھائی ہیں ،اللہ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دیاہے،پس اللہ تعالیٰ جس کی ماتحتی میں بھی اس کے بھائی کورکھے اسے چاہئے کہ جووہ خود کھائےاسے بھی کھلائے،اورجوخودپہنےوہ اس کوبھی پہنائے(یعنی آقااورغلام کوخوراک ،لباس اوررہائش میں کوئی فرق روانہ رکھاجائے)اورایساکام کرنے کے لئے نہ کہے جواس کے بس میں نہ ہو، اوراگراسے کوئی ایساکام کرنے کے لئے کہناہی پڑے تواس کام میں اس کی مددکرے۔[14]

عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَیْهِ بُرْدٌ غَلِیظٌ وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ الْقَوْمُ: یَا أَبَا ذَرٍّ، لَوْ كُنْتَ أَخَذْتَ الَّذِی عَلَى غُلَامِكَ فَجَعَلْتَهُ مَعَ هَذَا فَكَانَتْ حُلَّةً وَكَسَوْتَ غُلَامَكَ ثَوْبًا غَیْرَهُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ إِنِّی كُنْتُ سَابَبْتُ رَجُلًا وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِیَّةً، فَعَیَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَشَكَانِی إِلَى رَسُولِ اللَّهِ فَقَالَ:یَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِیكَ جَاهِلِیَّةٌ قَالَ:إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ فَضَّلَكُمُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ، فَمَنْ لَمْ یُلَائِمْكُمْ فَبِیعُوهُ وَلَا تُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ

معروربن سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کو ربذہ کے مقام پر دیکھا کہ وہ فرماتے کہ میں نے ان کے اوپڑ ایک موٹی چادر پڑی تھی اور ان کے غلام پر بھی لوگوں نے کہا کہ اے ابوذر رضی اللہ عنہ ! کاش آپ وہ چادر بھی لے لیتے جو آپ کے غلام پر ہے اور اس سے چادر سے ملا کر اپنا ایک جوڑا بنالیتے اور غلام کو دوسرے کپڑے پہنا دیتے؟ راوی کہتے ہیں کہ کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ایک آدمی کو برا بھلا کہا اور اس کی ماں عجمی تھی تو میں نے اسے اس کی ماں سے عیب لگایااس نے میری شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوذر!توایسا آدمی ہے جس پر جاہلیت کااثرہے،آپ نے مزیدفرمایابلاشبہ یہ (غلام)تمہارے بھائی ہیں ،اللہ نے تم کوان پرفضیلت بخشی ہے، پس جس کے ساتھ تمہاری طبیعت نہ ملتی ہوتواسے بیچ دولیکن اللہ کی مخلوق کودکھ نہ دو۔[15]

اہل عرب چھوٹی چھوٹی باتوں پر غلاموں پرتشددکرتے تھے۔

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِی، فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِی صَوْتًا اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: مَرَّتَیْنِ الَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَیْكَ مِنْكَ عَلَیْهِ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى،قَالَ:أَمَا إِنَّكَ لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَعَتْكَ النَّارُ

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (ایک بار)میں اپنے غلام کوماررہاتھا تومیں نے اپنے پیچھے آوازسنی ،ابومسعود!خیال کرو،ابن مثنی کے الفاظ ہیں میں نے یہ آوازدوبارسنی اللہ کوتم پراس سے زیادہ قدرت ہے جتنی کہ تم اس پررکھتے ہو،میں نے آوازکی طرف مڑ کر دیکھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے،میں نے (فوراً)عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ کے لئے آزادہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم ایسانہ کرتے تو آتش دوزخ تم کولپٹ میں لےلیتی۔[16]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَیْهِ الْكَلَامَ، فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَ فِی الثَّالِثَةِ، قَالَ: اعْفُوا عَنْهُ فِی كُلِّ یَوْمٍ سَبْعِینَ مَرَّةً

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں غلاموں کاقصورکتنی دفعہ معاف کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس نے پھرعرض کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خاموشی اختیارکی،جب اس نے تیسری بارعرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرروز ستر بار معاف کیا کرو۔[17]

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ حَدَّثَهُمْ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ بَیْنَ یَدَیْهِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِی مَمْلُوكِینَ یَكْذِبُونَنِی وَیَخُونُونَنِی وَیَعْصُونَنِی، وَأَضْرِبُهُمْ وَأَسُبُّهُمْ، فَكَیْفَ أَنَا مِنْهُمْ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَیُكَذِّبُونَكَ وَعِقَابُكَ إِیَّاهُمْ. فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ عَلَیْهِمْ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا، لَا لَكَ وَلَا عَلَیْكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ، اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ الَّذِی بَقِیَ قِبَلَكَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَبْكِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَهْتِفُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَهُ؟ مَا یَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ: {وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِینَ} فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَجِدُ شَیْئًا خَیْرًا مِنْ فِرَاقِ هَؤُلَاءِ یَعْنِی عَبِیدَهُ إِنِّی أُشْهِدُكَ أَنَّهُمْ أَحْرَارٌ كُلُّهُمْ

عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھاتھا،اس نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس غلام ہیں جومجھ سے جھوٹ بولتے ہیں اورمیرے مال میں خیانت کرتے ہیں اورمیراکہنانہیں مانتے،میں انہیں گالیاں دیتاہوں ،مارتاہوں سو(قیامت کے روز)میراوران کاکیامعاملہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کی خیانت اورنافرمانی اورجھوٹ اور تمہاری ان کو سزادیناشمارکیاجائے گا، اگرتمہاری سزا ان کے قصورکے برابرہوگی تووہ برابرہوگئے،نہ تیرا حق ان پررہااوران کاتجھ پر،اوراگرتیری سزاان کے قصورسے کم پہنچی توتیراحق ان پرباقی رہااوراگرتیری سزاان کی تقصیر سے زیادہ ہوئی توتجھ سے زیادتی کابدلہ لیاجائے گا وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا گریہ وزاری کرنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتونے اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھی؟ فرماتاہے’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔‘‘(الانبیاء ۴۷) یہ سن کر انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے لئے اس سے بہترکوئی بات نہیں پاتاکہ میں ان کو اپنے سے جدا کردوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہیں کہ اب وہ سب آزاد ہیں ۔[18]

حَدَّثَنِی مُعَاوِیَةُ بْنُ سُوَیْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، قَالَ: لَطَمْتُ مَوْلًى لَنَا فَدَعَاهُ أَبِی وَدَعَانِی، فَقَالَ: اقْتَصَّ مِنْهُ، فَإِنَّا مَعْشَرَ بَنِی مُقَرِّنٍ كُنَّا سَبْعَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَیْسَ لَنَا إِلَّا خَادِمٌ، فَلَطَمَهَا رَجُلٌ مِنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعْتِقُوهَا قَالُوا: إِنَّهُ لَیْسَ لَنَا خَادِمٌ غَیْرَهَا، قَالَ: فَلْتَخْدُمْهُمْ حَتَّى یَسْتَغْنُوا، فَإِذَا اسْتَغْنَوْا فَلْیُعْتِقُوهَا

معاویہ بن سوید بن مقرن کا بیان ہےمیں نے اپنے ایک غلام کوتھپڑماردیاتومیرے والدنے اس کواورمجھے بلایااورغلام سے کہااس سے اپنابدلہ لو اوربتایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں ہم بنومقرن کے سات افرادتھے اورہماری ایک ہی خادمہ تھی ہمارے ایک آدمی نے اس کوتھپڑماردیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے آزادکردو،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی خادمہ نہیں ہے،فرمایاچلوجب تک کوئی اورنہیں ملتی خدمت کرتی رہے جب اس سے مستغنی ہوجائیں تواسے آزادکردیں ۔[19]

عَنْ هِلَالِ بْنِ یَسَافٍ، قَالَ: كُنَّا نُزُولًا فِی دَارِ سُوَیْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَفِینَا شَیْخٌ فِیهِ حِدَّةٌ وَمَعَهُ جَارِیَةٌ لَهُ، فَلَطَمَ وَجْهَهَا؟ فَمَا رَأَیْتُ سُوَیْدًا أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ ذَاكَ الْیَوْمَ، قَالَ: عَجَزَ عَلَیْكَ إِلَّا حُرُّ وَجْهِهَا؟ لَقَدْ رَأَیْتُنَا سَابِعَ سَبْعَةٍ مِنْ وَلَدِ مُقَرِّنٍ، وَمَا لَنَا إِلَّا خَادِمٌ، فَلَطَمَ أَصْغَرُنَا وَجْهَهَا، فَأَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعِتْقِهَا

ہلال بن یساف سے مروی ہےہم سویدبن مقرن رضی اللہ عنہ کے گھرمیں ٹھہرے ہوئے تھے ،ہمارے ساتھ ایک بڑی عمرکاشیخ بھی تھاجس کی طبیعت میں تیزی تھی اوراس کے ساتھ اس کی لونڈی تھی تواس شیخ نے اپنی اس لونڈی کے چہرے پرتھپڑماردیااس دن سوید رضی اللہ عنہ جس قدرغصے ہوئے میں نے اس سے بڑھ کرانہیں کبھی غضبناک نہیں دیکھاانہوں نے کہاکیاتواتناہی عاجز(اورمغلوب الغضب)ہوگیاتھاکہ اس کومارنے کے لئے تجھے صرف اس کاعزت والاچہرہ ہی ملاتھامجھے وہ منظریادہے کہ میں اولادمقرن میں ساتواں فرد تھا اورہماری ایک ہی خادمہ تھی ہمارے ایک چھوٹے نے اس کے چہرے تھپڑماردیاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاکہ اس کو آزاد کر دو ۔[20]

غلاموں کالوگ بیاہ کردیتے تھے اور پھرجب چاہتے جبراًان میں تفریق کر دیتے تھے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَیِّدِی زَوَّجَنِی أَمَتَهُ، وَهُوَ یُرِیدُ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنِی وَبَیْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، مَا بَالُ أَحَدِكُمْ یُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ یُرِیدُ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے ایک شخص سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورعرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرانکاح کردیاتھااب وہ مجھ میں اورمیری بیوی میں جدائی کرناچاہتاہے ،یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرچڑھے اورفرمایااے لوگو!تم میں سے کسی کاکیامعاملہ ہے کہ وہ اپنے غلام کانکاح اپنی لونڈی سے کردیتاہے پھران دونوں میں جدائی کرناچاہتاہے اورطلاق تواسی کے اختیارمیں ہے جوعورت کی پنڈلی تھامے(یعنی طلاق کاحق صرف شوہر کوہے)۔[21]

یعنی غلام کوشادی کرنے اوراپنی انفرادی معاشرتی زندگی گزارنے کے حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِی عَمَلًا یُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ. قَالَ: لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ، لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ. أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دفعہ ایک اعرابی حاضرہوااوربولاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کوئی ایساعمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوسکوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام آزادکراورگردنوں کو غلامی سے چھڑا۔[22]

أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، اسْتَنْقَذَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِقَالَ سَعِیدُ بْنُ مَرْجَانَةَ:فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، فَعَمَدَ عَلِیُّ بْنُ حُسَیْنٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى عَبْدٍ لَهُ قَدْ أَعْطَاهُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَشَرَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ أَوْ أَلْفَ دِینَارٍ، فَأَعْتَقَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے بھی کسی مسلمان (غلام) کو آزا د کیا تواللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہرعضوکی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضوکودوزخ سے آزادکرے گا،سعیدبن مرجانہ نے بیان کیاکہ پھرمیں علی بن حسین( امام زین العابدین رحمہ اللہ ) کے یہاں گیا(اوران سے حدیث بیان کی)وہ اپنے غلام (مطرف)کی طرف متوجہ ہوئے جس کی عبداللہ بن جعفردس ہزاردرہم یاایک ہزاردینارقیمت دے رہے تھے اورآپ نے اسے آزادکردیا۔[23]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُسْلِمَةً، فَهِیَ فِدَاؤُهُ مِنَ النَّارِ

عقبہ بن عامرالجہنی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے ایک نفس مسلمہ کوآزادکیاتووہ جہنم سے بچنے کے لیے اس کافدیہ ہوگیا۔[24]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، فَهِیَ فِكَاكُهُ مِنَ النَّارِ

عقبہ بن عامرالجہنی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہےوہ اس کے لئے جہنم سے آزادی کا ذریعہ بن جائے گا۔[25]

عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ: یَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ یُجْزَى بِكُلِّ عَظْمٍ مِنْهُ عَظْمًا مِنْهُ، وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَیْنِ مُسْلِمَتَیْنِ كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، یُجْزَى بِكُلِّ عَظْمَیْنِ مِنْهُمَا عَظْمًا مِنْهُ، وَمَنْ شَابَ شَیْبَةً فِی سَبِیلِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ

شرحبیل بن سمط کہتے ہیں میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سنائیے،فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہوگا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے) کافی ہے ،اور جو دو مسلمان باندیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دوہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہوگی اور شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو اس کے بالوں کی وہ سفیدی قیامت کے دن روشنی کا سبب ہوگی۔[26]

عَنْ سَعِیدِ ابْنِ مَرْجَانَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَیْرَةَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، أَعْتَقَ اللَّهُ بِكُلِّ إِرْبٍ مِنْهُا إِرْبًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ، حَتَّى أَنَّهُ لَیَعْتِقُ بِالْیَدِ الْیَدَ، وَبِالرِّجْلِ الرِّجْلَ، وَبِالْفَرْجِ الْفَرْجَ

سعیدابن مرجانہ کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرےاللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرما دیں گے حتی کہ ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ کو اور پاؤں کے بدلے میں پاؤں کو اور شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ کو ۔[27]

غلاموں کوآزادکرنے کامزیدشوق دلانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقررکیاکہ جتنازیادہ قیمتی اورزیادہ پسندیدہ غلام آزادکیاجائے گااتناہی زیادہ ثواب ہوگا۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:إِیمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِی سَبِیلِهِ، قُلْتُ: فَأَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَعْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا

ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکون ساعمل افضل ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ پرایمان لانااوراس کی راہ میں جہادکرنا،میں نے پوچھااورکس طرح کاغلام آزاد کرناافضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوسب سے زیادہ قیمتی اوراورجومالک کوزیادہ پسندیدہ ہو۔[28]

اسی طرح لونڈی کوعمدہ تربیت دے کرآزادکرنے اوراس سے نکاح کرنے کوبڑی نیکی (دوہرا ثواب) کافعل قرار دیا۔

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِیَةٌ، فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیبَهَا، وَأَعْتَقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَیُّمَا عَبْدٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِیهِ فَلَهُ أَجْرَانِ

ابوموسیٰ اشعر ی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کسی کے پاس بھی باندی ہواوروہ اسے پورے حسن وخوبی کے ساتھ ادب سکھائے پھرآزادکرکے اس سے شادی کر لے تواسے دوگنا ثواب ملتاہے اورجوغلام اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اداکرلے اوراپنے آقاؤ ں کے بھی تواسے بھی دوگناثواب ملتا ہے ۔[29]

قیدی عورتوں کی حفاظت اورمعاشرے میں ان کی وقعت کوقائم رکھنے کے لیے اس سے بہترصورت ان حالات میں ممکن بھی نہیں تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیزکوسخت ناپسندکرتے تھے کہ غلامی کی وجہ سے خاندان تقسیم ہوجائیں ،خصوصاماں اوربچے کے درمیان جدائی برداشت نہیں کرتے تھے۔

أن رسول الله مَرَّ بِأُمِّ ضُمَیْرَةَ وَهِیَ تَبْكِی فَقَالَ لَهَا: مَا یُبْكِیكِ؟ أَجَائِعَةٌ أَنْتِ، أَعَارِیَةٌ أَنْتِ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ فُرِّقَ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنِی، فقال رسول الله لَا یُفَرَّقُ بَیْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَاثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى الَّذِی عِنْدَهُ ضُمَیْرَةُ فَدَعَاهُ فَابْتَاعَهُ مِنْهُ بِبَكْرٍ

ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ضمیرہ کے پاس سے گزرے تووہ رورہی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کاسبب پوچھاتواس نے جواب دیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے اورمیرے بیٹے (ضمیرہ)کے درمیان جدائی ڈال دی گئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاماں اوربچے کے درمیان تفریق نہ کی جائے ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے پاس پیغام بھیجاجس کے پاس ضمیرہ غلام تھے اوراس کوبلاکرایک اونٹ کے بدلے ضمیرہ کوخریدکرآزادکردیا۔[30]

اس سلسلہ میں انہیں ایک باقاعدہ تحریرلکھ کردی جسے ابی بن کعب نے تحریرکیا۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ،

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ لِأَبِی ضُمَیْرَةَ وأهل بیته، أن رسول الله أَعْتَقَهُمْ، وَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَیْتٍ مِنَ الْعَرَبِ، إِنْ أحبوا أقاموا عند رسول الله، وَإِنْ أَحَبُّوا رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، فَلَا یُعْرَضُ لَهُمْ إِلَّا بِحَقٍّ، وَمَنْ لَقِیَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَلْیَسْتَوْصِ بِهِمْ خَیْرًا، وَكَتَبَ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ضمیرہ اوراوراس کے گھروالوں کے لیے ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزادکردیاہے،اب وہ عرب کے گھروالوں کی طرح ہیں ،وہ چاہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ سکتے ہیں اورچاہیں تواپنی قوم کی طرف چلے جائیں انہیں بلاوجہ نہیں روکاجاسکتا،اگروہ مسلمانوں کی جماعت سے گزریں تووہ اس سے اچھابرتاؤ کریں ۔ابی بن کعب نے تحریرکیا

قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں بھی قرض دارکوغلام بنالیاجاتاتھا،قرآن کریم نے واضح ہدایت دیں ،

وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ۝۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰ [31]

ترجمہ:تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو ، اور جو صدقہ کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو ۔

یہی نہیں بلکہ مصارف زکوة میں ایک مدادائیگی قرض اورگردن چھڑانے کی بھی رکھی ہے تاکہ معاشرہ کے مقروض افرادکاقرض معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری بن جائے اورقرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کے غلام بنالیے جانے کاامکان ختم ہوجائے۔

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۔۔۔۝۰۝۶۰ [32]

ترجمہ:یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ، اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔

ہرمعلوم تہذیب میں جنگی قدیوں کو غلام بنالیاجاتاتھااسلام نےاس کی راہ نکالی کہ ان قدیوں کو یاتواحسان کرکے بلامعاوضہ رہاکردویافدیہ لے کرچھوڑ دو،چنانچہ فرمایا

فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝۰ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۴ [33]

ترجمہ:پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہےیہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو، تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دارالکفرسے نکل کردارالاسلام میں داخل ہونے والاغلام آزادتصورکیاجائے گا۔

چنانچہ غزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے مکہ کے کچھ غلام بھاگ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے،ان کے آقاؤ ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھاکہ واللہ یہ لوگ آپ کے دین کی طرف رغبت رکھنے کی وجہ سے نہیں بھاگے بلکہ غلامی کی پابندیوں سے بھاگے ہیں ،کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ دیاکہ ان غلاموں کوواپس کردیاجائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشورہ سن کرناراض ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کوواپس کرنے سے انکارکردیا۔[34]

جب یہ غلام مدینہ منورہ کے شہری بنے توآزادتھے۔

اسی طرح آٹھ ہجری میں محاصرہ طائف کے دوران اہل طائف کے چندغلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزادکردیا،بعدمیں جب اہل طائف بھی مسلمان ہوگئے اورانہوں نے اپنے غلاموں کی بابت پوچھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ لوگ اللہ کے آزادکیے ہوئے ہیں ۔[35]

زیادبن ابیہ کے ماں جائے بھائی ابوبکرہ ثقفی اسی طرح آزادہوئے تھے اوروہ خودکومولی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے۔[36]

عرب میں دستورتھاکہ غلام کوعبدی میرابندہ اورلونڈی کوامتی میری بندی کہہ کرپکارتے تھے اوراپنے آپ کورب کہلواتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لاَ یَقُلْ أَحَدُكُمْ: أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ، اسْقِ رَبَّكَ، وَلْیَقُلْ: سَیِّدِی مَوْلاَیَ، وَلاَ یَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِی أَمَتِی، وَلْیَقُلْ: فَتَایَ وَفَتَاتِی وَغُلاَمِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص(کسی غلام یاکسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے اپنے رب (مرادآقا)کوکھاناکھلا،اپنے رب کووضوکرا،اپنے رب کو پانی پلابلکہ صرف میرے سردار،میرے آقاکے الفاظ کہناچاہئے،اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے میرابندہ ،میری بندی بلکہ یوں کہناچاہئے میراچھوکرا،میری چھوکری ، میرا غلام۔[37]

اہل عرب غلام کواپنے پاس جگہ دینابھی عارسمجھتے تھے مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کواپنے ساتھ ایک دسترخوان پر بٹھا کر کھلاؤ اور اگراتنانہیں کرسکتے توکم ازکم اپنے کھانے میں سے ایک دولقمے ہی ان کوکھلادیاکرو۔

 أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ یُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَلیُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَیْنِ أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَیْنِ، فَإِنَّهُ وَلِیَ عِلاَجَهُ

ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کسی کاغلام کھانالائے اوروہ اسے اپنے ساتھ(کھلانے کے لئے)نہ بٹھاسکے تواسے ایک یادونوالے ضرور کھلا دے ،کیونکہ اسی نے اس کوتیارکرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔[38]

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کے نتیجہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمومی برتاؤ اپنے غلاموں کے ساتھ اس قدرمثالی تھاکہ غلام بھی اپنے آقاؤ ں پرجان دیتے تھے۔

افلح نامی غلام ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاغلام تھا،پہلے انہوں نے اسے مکاتب بناکرآزادکردینے پرآمادگی کااظہارکیامگربعدمیں معاہدہ کتابت فسخ کرناچاہا،گوکہ ابوایوب رضی اللہ عنہ انصاری ایسانہیں کرسکتے تھے ،افلح کے اہل وعیال نے بھی افلح کویہ فسخ نہ ماننے کی تلقین کی لیکن افلح نے بخوشی اس معاہدہ کوفسخ کردیااورکہامیں ان کی کسی بات کاانکارنہیں کرسکتا،تاہم اس کے چنددن بعدہی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اسے کلیتہ آزادکردیااورکہاکہ جومال تمہارے پاس ہے وہ کل تمہاراہے۔[39]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آقاؤ ں کے ساتھ ساتھ غلاموں کوبھی بشارت فرمائی۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:العَبْدُ إِذَا نَصَحَ سَیِّدَهُ، وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ، كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجب غلام اپنے آقاکی خیرخواہی کرے اوراللہ تعالیٰ کی اچھی طرح عبادت کرے تواس کودوگنااجرملے گا۔[40]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت بہت سے غلاموں کے لیے وجہ تسکین تھی۔

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْلاَ الجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، وَالحَجُّ وَبِرُّ أُمِّی، لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَمُوتَ وَأَنَا مَمْلُوكٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کوسن کرکہاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے اگرجہادفی سبیل اللہ،حج اورماں کے ساتھ نیک سلوک کی عبادات نہ ہوتیں تومیں یہ پسندکرتاکہ مجھے غلامی کی حالت میں موت آئے۔[41]

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام، قَالَ: كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِیمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہی تھی، نماز! نماز! اوراپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔[42]

چنانچہ غلامی کے خاتمہ کے لیے خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳غلاموں کوآزادکیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے صرف ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ۶۷غلاموں کوآزادکیا،ان میں سے چالیس غلام توآپ نے صرف اسی کفارے میں آزادکیے کہ انہوں نے اپنے بھتیجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوکرکبھی نہ بولنے کی قسم کھالی تھی،جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دوسرے صحابہ کرامؓ سے سفارش کرائی توانہوں نے اس قسم کوتوڑدیاتھااورکفارے میں چالیس غلام آزادکیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں سترغلاموں کوآزادکیا۔

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے ایک سوغلام آزادکیے تھے اورسواونٹ سواری کے لیے دیئے تھے،جب اسلام لائے تب بھی سوغلام آزادکیے اورسواونٹ سواری کے لیے دیئے۔

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزارغلام آزادکیے۔

ذوالکلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے آٹھ ہزارغلام آزادکیے ،ان میں سے چارہزارغلام انہوں نے صرف اس دن آزادکیے جس دن انہوں نے اسلام قبول کیا۔

اورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بڑے صاحب حیثیت اورخوشحال صحابی تھے انہوں نے تیس ہزارغلاموں کورہائی بخشی،انہوں نے صرف ایک دن میں تیس غلام آزادکیے۔

ایسے ہی واقعات میں دوسرے صحابہ کرام کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان ذوالنورین کے نام بہت ممتازہیں ۔

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے صرف مکی زندگی کے دوران سات غلاموں اورباندیوں کوکفارمکہ سے منہ مانگے داموں خریدکرآزادکیا،ان میں بلال بن ابی رباح،عامربن فہیرہ ، زنیرہ، ام عبیس،بنی عمروبن مومل کی ایک باندی،النہدااوراس کی بیٹی شامل ہیں ۔[43]

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے اسلام لانے کے بعدہمیشہ ہرجمعہ کوایک غلام آزادکیااوراگرکسی جمعہ کوایسانہ کرپاتے رودوسرے جمعہ کودوغلام آزادکرتے،دوران محاصرہ آپ نے بیس غلام آزادکیے،یہی نہیں بلکہ دوران محاصرہ آپ نے اپنے غلاموں سے کہاکہ اس وقت جوہتھیاررکھ دے گاوہ آزادہے۔[44]

الغرض محدثین نے اندازہ لگایاہے کہ صحابہ کرام نے انتالیس ہزاردوسوانسٹھ (۴۹۲۵۹)غلام آزادکیے ۔

ان سب باتوں کامقصودتھاکہ غلاموں کی ذہنی آزادی کا احترام کیاجائے انہیں عزت وآرام سے رکھاجائے اوروہ خاندان کے رکن بن کررہیں ،اس تعلیم کانتیجہ یہ ہواکہ اللہ کی خوشنودی کے لئے لوگ غلام خرید کر آزاد کرنے لگے انہیں اپنے برابرکادرجہ دینے لگے ،اس طرح اسلامی تعلیمات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک نے لونڈیوں اور غلاموں کوآزادی بخشی اورانہیں معاشرے کا ایک باعزت فرد قرار دیاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپنی پھوپھی زادبہن زینب رضی اللہ عنہا کوجنہیں بعدمیں ام المومنین ہونے کاشرف حاصل ہوااپنے آزادکردہ غلام زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ سے بیاہ دیا ۔ سالم رحمہ اللہ بن عبداللہ اورقاسم رحمہ اللہ بن محمدبن ابی بکردولونڈیوں کے پیٹ سے تھے۔امام حسن رحمہ اللہ ایک غلام کے بیٹے تھے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بنی تیم کے موالی میں سے بتائے جاتے ہیں ۔ محمدبن سیرین رحمہ اللہ ایک غلام کے بیٹے تھے،ان کے باپ سیرین اور والدہ صفیہ دونوں مملوک تھے مگراس درجہ کے مملوک تھے کہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کوتین امہات المومنین نے دلہن بنایا تھا اور سیرین سے ان کانکاح ابی بن کعب جیسے جلیل القدر صحابی نے پڑھایاتھا۔امام مالک رحمہ اللہ کے استادنافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن مبارک ایک غلام کے بیٹے تھے ۔ عکرمہ خودغلام تھے۔مکہ کے امام المحدثین عطا رحمہ اللہ بن رباح یمن کے امام طاوس رحمہ اللہ بن کیسان،مصرکے امام یزید رحمہ اللہ بن حبیب،شام کے امام مکحول رحمہ اللہ ،الجزیرہ کے امام میمون رحمہ اللہ بن مہران ، خراسان کے امام ضحاک رحمہ اللہ ،کوفہ کے امام ابراہیم رحمہ اللہ سب کے سب غلاموں کے گروہ سے تھے۔سلیمان فارسی رضوان اللہ علیہم اجمعین غلام تھے ان کے بارے میں فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَیْتِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسلمان رضی اللہ عنہ میرے اہل بیت میں سےہے۔[45]

ضعیف روایت ہے۔[46]

اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ سلیمان توہم اہل بیت میں سے ہیں ، بلال حبشی رضی اللہ عنہ غلام تھے جن کو سیدنا عمربن خطاب کہاکرتے تھے

بِلاَل سَیِّدِنَا ومَوْلَى سَیِّدِنَا

بلال ہمارے آقاکاغلام اور ہمارا آقا ہے۔[47]

صہیب رومی رضی اللہ عنہ غلام تھے جنہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ مسلمانوں کی امامت کے لئے کھڑا کیا تھا ، سالم رضی اللہ عنہ ، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے جن کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایاتھاکہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تومیں ان کو خلافت کے لئے منتخب کرتا، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ غلام زادے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں اس لشکر کا سردار بنایاتھاجس میں سیدنا ابوبکرجیسے جلیل القدرصحابی شریک تھے اورجن کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہاتھاکہ اسامہ رضی اللہ عنہ کاباپ تیرے باپ سے اوراسا مہ رضی اللہ عنہ خودتجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھا،قطب الدین ایبک،شمس الدین التمش اورغیاث الدین بلبن جیسے جلیل القدرغلاموں نے خود ہمارے ملک ہندوستان پرحکومت کی ہے،محمودغزنوی جواپنے وقت میں دنیاکاسب سے بڑافاتح تھانسلاً ترکی غلام تھا ۔مسلمان غلامی کوصفحہ ہستی سے تونہ مٹاسکے لیکن اسلامی تعلیم کایہ نتیجہ ہواکہ غلامی کی وہ بھیانک صورت نہ رہی جودیگراقوام میں پائی جاتی تھی ،غلام خاندان کے رکن بن گئے،مذہبی پیشوااورعالم دین بن گئے ،امیرووزیربن گئے ، لشکروں کے سپہ سالار اور سربراہوں کے محبوب بن گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غلامی کومنسوخ کرنے کے لئے ایک بڑا قدم اٹھاکہ کوئی عرب غلام نہیں بنایا جاسکتا۔

الغرض دوررسالت میں غلاموں کی حیثیت میں واقعتابڑاتغیرآیااس کانتیجہ یہ ہواکہ غلام محض جنس تجارت نہ رہابلکہ پہلی بارانسانیت کے تمام ترحقوق واحترام سے بہرہ وارہوا،لہذابعض یورپی مورخین کوبھی اس کااعتراف کرناپڑا،ڈاکٹرگستاؤ لیبان کاکہناہے،

مسلمانوں میں غلامی کی حالت اس سے بالکل علیحدہ ہے جوعیسائیوں میں تھی،مشرق میں غلاموں کی حالت ،یورپ کے خانگی ملازموں سے بھی بہترہے،وہ ہمیشہ اپنے مالک کے خاندان کے جزوسمجھے جاتے ہیں اورکبھی بھی اپنے مالک کی بیٹی سے شادی بھی کرسکتے ہیں اوراعلیٰ درجے تک پہنچ سکتے ہیں ،مشرق میں لفظ غلام کے ساتھ کسی قسم کاخیال حقارت شامل نہیں ہے اوریہ کہاجاسکتاہے کہ بمقابل یورپ کے ملازمین کے،مشرق کاغلام بہت زیادہ اپنے مالک کاہم پلہ ہے۔[48]

موسیوگستاؤ لیبان عرب مسلمانوں کے جذبہ مساوات کااعتراف کرتے ہوئے مزیدلکھتے ہیں

مسلمان غلام بغیرکسی وقت کے اپنے آقاکی لڑکی سے شادی کرسکتاہے اورایسے پرانے خانگی ملازموں کی جواعلیٰ مراتب تک پہنچے ہیں ایک بہت ہی کثیرتعدادممالک اسلامیہ میں پایہ جاتی ہے۔[49]

لونڈیوں پراحسان :

دورجاہلیہ میں سب سے بری حالت مجبوراوربے کس لونڈیوں کی تھی، لوندیوں کے حریص مالک دنیاکاحقیرفائدہ اورناپاک کمائی حاصل کرنے کے لئے اپنی جوان خوبصورت لونڈیوں کومجبورکرکے ان پریومیہ کچھ ٹیکس عائدکردیتے کہ وہ ہرروزاتنی رقم کما کراپنے مالک کودے گی ، یہ ٹیکس انہیں اپنے مالکوں کوادا کرنا پڑتا تھا خواہ کسی طریقہ سے وہ کماکرلائیں ،کیونکہ وہ کسی اورطریقہ سے اتنی بڑی رقم حاصل نہیں کر سکتی تھی اس لئے اپنے مالک کا مطالبہ پورا کرنے کے لئے کتنی ہی لونڈیاں زناکاپیشہ اختیار کرتی تھیں ،مکہ میں عبداللہ بن جدعان غلاموں اورلونڈیوں کاسب سے بڑاتاجرتھاوہ اپنی لونڈیوں سے پیشہ کراتااوران کے بچے فروخت کردیتاتھا۔(المعارف)ایسی لونڈیاں ایک کھلا سا کرتا جس کے گریبان پر کوئی بندنہ ہوتاپہن کر،پاؤ ں میں پازیب پہن کربازاروں میں اپنے پاؤ ں زمین پرمارکرتاکہ پازیب کی جھنکار لوگ سنیں اورمتوجہ ہوں جسم فروشی کے لئے پھرتی رہتیں ،ایک صورت یہ تھی کہ لونڈیوں کے عبد اللّٰہ بن ابی رئیس المنافقین جیسے مالک سردار جس نے چھ لونڈیوں پر مشتمل مدینہ میں ایک باقاعدہ چکلہ کھول رکھا تھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:وَلا تُكْرِهُوا فَتَیَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِقَالَ: نَزَلَتْ فِی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیٍّ، كَانَتْ عِنْدَهُ جَارِیَةٌ، وَكَانَ یُكْرِهُهَا عَلَى الزِّنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے فرمان وَلا تُكْرِهُوا فَتَیَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِکے بارے میں کہتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی اس کے پاس ایک لونڈی تھی اوروہ اسے زناکاری پرمجبورکرتاتھاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اورجوکوئی ان کومجبورکرے تواس جبرکے بعداللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے۔[50]

عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَتْ جَارِیَةٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیٍّ یُقَالُ لَهَا: مُعَاذَةُ یُكْرِهُهَا عَلَى الزِّنَافَلَمَّا جَاءَ الإِسْلامُ نَزَلَتْ وَلا تُكْرِهُوا فَتَیَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ}

زہری رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے عبداللہ بن ابی ابن سلول کی ایک لونڈی تھی جس کانام معاذہ تھاوہ اسے بدکاری پرمجبورکیاکرتاتھا جب اسلام آیاتویہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراپنی لونڈیوں کواپنے دینوی فائدوں کی خاطرقجہ گری پرمجبورنہ کروجبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں اورجوکوئی ان کومجبورکرے تواس جبرکے بعداللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے۔[51]

عَنْ جَابِرٍ فِی هَذِهِ الْآیَةِ: وَلا تُكْرِهُوا فَتَیَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ قَالَ: نَزَلَتْ فِی أَمَةٍ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ سَلُولٍ یُقَالُ لَهَا: مُسَیْكَة كَانَ یُكْرِهُهَا عَلَى الْفُجُورِوَكَانَتْ لَا بَأْسَ بِهَا فَتَأْبَى ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ، هَذِهِ الْآیَةَ إِلَى قَوْلِهِ {وَمَنْ یُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ

اورجابرسے اس آیت’’اوراپنی لونڈیوں کواپنے دینوی فائدوں کی خاطرقحجہ گری پرمجبورنہ کرو۔‘‘ کے بارے میں روایت ہےیہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی سلول کی لونڈی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کانام مسیکہ تھا وہ اسے بدکاری پرمجبورکرتااوروہ اچھی عورت تھی اس لیے وہ بدکاری سے انکارکردیتی تھی،تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت ’’اوراپنی لونڈیوں کواپنے دینوی فائدوں کی خاطرقحجہ گری پرمجبورنہ کروجبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں ، اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے۔‘‘ نازل فرمائی۔[52]

اورتفسیرطبری میں یہ اضافہ ہے۔

فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , فَشَكَتْ ذَلِكَ إِلَیْهِ

یہ لونڈی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور اس بارے میں شکایت کی۔[53]

مشرکین اپنی جوان وخوبصورت لونڈیوں ( قلیقیات )کو باقاعدہ ایک گھر (مواخیر) میں بٹھاکران گھروں پر جھنڈے لگا دیتے تاکہ دور سے ہی حاجت مند کو معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حاجت کہاں پوری کرسکتا ہے،اس طرح لوگ جوان لونڈیوں کے کسب سے دولت بھی حاصل کرتے ،اپنے دور دراز سے آئے ہوئے معززمہمانوں کی خاطر تواضع بھی کرتے اور ان لونڈیوں سے بچے ہونے کی صورت میں لونڈیوں اورغلاموں کا اضافہ بھی ہو جاتا،ان میں بعض لونڈیاں خدمت نبوی میں حاضرہوئیں اور اپنی حسرت انگیزکہانی سنائی،چنانچہ اسلام نے اپنے فرزندوں اوراپنی دختروں کواس پستی سے نکالااور اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا جس میں اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں پر اس ظلم کوبھی روکاکہ وہ اپناجسم بیچ کراپنے مالک کی تجوری بھرے اوراسے موقعہ عطافرمایاکہ وہ پاکیزہ زندگی گزارسکے۔

۔۔۔ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَی الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۔۔۔۝۰۝۳۳ [54]

ترجمہ:اوراپنی لونڈیوں کواپنے دنیوی فائدوں کی خاطرقحبہ گری پرمجبورنہ کروجبکہ وہ خودپاک دامن رہناچاہتیں ہوں ۔

ان کے ہمراہ دوسری آزاد عورتیں بھی نیل سے اپنے جسم گدوااورسرپرمصنوعی بال لگاکر خوب بناوسنگارکرکے،مہکنے والی خوشبوئیں اورعطریات لگاکر مجمع عام میں ان آوارہ بدکار عورتوں کے ساتھ بے حجاب گھومتی رہتیں اور اپنے جسموں کے چھپانے والے حصے خوب عیاں کرکے مردوں کودعوت نظارادیتیں ،کیونکہ یہ حرکت شہوت پرست مردوں کے شہوانی خیالات کوشہ دیتی ہے اورعورت کے بارے میں براخیال پیداہونے لگتاہے کہ وہ مردوں کی نگاہوں کواپنی طرف اوراپنی زینت کی طرف مائل کرناچاہتی ہے، اللہ نے ان عورتوں کوبھی بازاروں اس طرح چلنے پھرنے سے منع فرمایا۔

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى۔۔۔ ۝۳۳ۚ [55]

ترجمہ:اپنے گھروں میں ٹک کررہواورسابق دورجاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا اسْتَعْطَرَتِ الْمَرْأَةُ، فَمَرَّتْ عَلَى الْقَوْمِ لِیَجِدُوا رِیحَهَا، فَهِیَ كَذَا وَكَذَا قَالَ قَوْلًا شَدِیدًا

چنانچہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی عورت خوشبولگاکرکسی قوم پرگزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبوپالیں تووہ ایسی اورایسی ہے( یعنی زانیہ ہے)آپ نے بڑی سخت بات فرمائی۔[56]

یعنی خوشبوسے معطرعورت کاگھرسے باہرنکلناشرعاًحرام ہے۔

عورتوں کوناپاک سمجھنا:

اللّٰہ نے اس دنیاکوچلانے کے لئے ہرچیزکے جوڑے جوڑے بنائے اور اسی مناسبت سے ہرایک کے حقوق وفرائض مقررفرماکرنراورمادہ کوحقوق وفرائض کی مناسبت سے جوار و اعضا عطافرمائے ، اللّٰہ نے عورتوں کی حالت کے مطابق ان کے چند مخصوص دن مقررفرمائے ، جس کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اورکم سے کم تین دن ،دوسرانفاس کازمانہ ہے کہ عورت بچے کوجنم دیتی ہے تواس کے بعدمسلسل کئی ہفتے اس کوخون آتارہتاہے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس یوم ہے اورکم کے لئے کوئی خاص مدت معین نہیں ہے ،ان دنوں میں صحبت کرنے سے پرہیزکاحکم دیاگیاہے ،یہودیوں کی عورتوں میں سے جب کسی کو حیض آتا تو وہ اسکو گھر سے نکال دیتے نہ اسکو اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے اور نہ اسکے ساتھ گھر میں رہتے سہتے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کرمدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انصار نے یہودیوں کے اس طرزعمل کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکیونکہ یہ گندگی کازمانہ ہے طبعا ًایسے وقت میں عورت کے پاس جانے سے نفرت ہوتی ہے اوردوسرے مہلک امراض کے پیداہونے کابھی خطرہ رہتاہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے ساتھ رہو اور جماع کے علاوہ ان کے ساتھ تمام معاملات روا رکھ سکتے ہو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ “ یَا عَائِشَةُ: نَاوِلِینِی الثَّوْبَ “ فَقَالَتْ: إِنِّی حَائِضٌ، فَقَالَ:إِنَّ حَیْضَتَكِ لَیْسَتْ فِی یَدِكِ فَنَاوَلَتْهُ

چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں تشریف فرماتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہ !مجھے کپڑااٹھاکر دو، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیامیں حائضہ ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیراحیض تیرے ہاتھوں میں نہیں ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نےآپ کوکپڑااٹھاکر دیا۔[57]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاوِلِینِی الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ. فَقُلْتُ: إِنِّی حَائِضٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ حَیْضَتَكِ لَیْسَتْ فِی یَدِكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے مسجدسے چٹائی پکڑاؤ ،میں نے کہامجھے حیض آرہاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاراحیض تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے ۔[58]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَهُ فِی بَعْضِ طَرِیقِ المَدِینَةِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَانْخَنَسْتُ مِنْهُ، فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:أَیْنَ كُنْتَ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ قَالَ: كُنْتُ جُنُبًا، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ وَأَنَا عَلَى غَیْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ:سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ المُسْلِمَ لاَ یَنْجُسُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میری مدینہ کے کسی راستے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اس وقت میں جبکہ میں جنبی تھا، میں پیچھے روہ کرلوٹ گیااور جلدی سےغسل کرکے واپس آیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !کہاں چلے گئے تھے ؟میں نے عرض کیامیں جنابت کی حالت میں تھا(یعنی مجھ پرنہانافرض تھا)اس لئےمجھے یہ برامعلوم ہواکہ نہائے بغیرآپ کے پاس بیٹھ جاؤ ں ،یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاسبحان اللہ، مومن ہرگز نجس نہیں ہوسکتا۔[59]

یہ بات یہودیوں کے دستورکے خلاف تھی،

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ الْیَهُودَ كَانُوا إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَةُ فِیهِمْ لَمْ یُؤَاكِلُوهَا، وَلَمْ یُجَامِعُوهُنَّ فِی الْبُیُوتِ فَسَأَلَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى {وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ} [60]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اصْنَعُوا كُلَّ شَیْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ فَبَلَغَ ذَلِكَ الْیَهُودَ، فَقَالُوا: مَا یُرِیدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ یَدَعَ مِنْ أَمْرِنَا شَیْئًا إِلَّا خَالَفَنَا فِیهِ، فَجَاءَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ فَقَالَا یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الْیَهُودَ تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، فَلَا نُجَامِعُهُنَّ؟ فَتَغَیَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَیْهِمَا، فَخَرَجَا فَاسْتَقْبَلَهُمَا هَدِیَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ فِی آثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا، فَعَرَفَا أَنْ لَمْ یَجِدْ عَلَیْهِمَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہودمیں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تو اس کو اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے اورنہ گھرمیں اس کے ساتھ رکھتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیاجس کےجواب میں سورہ بقرہ کی آیت وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسوائے جماع کے اورسب کچھ حلال ہے،ہ خبریہودکوپہنچی تو کہنے لگے یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کو تو ہماری ہربات کی مخالفت سے ہی غرض ہے،

یہ سن کراسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ اورعبادہ بن بشر رضی اللہ عنہ آئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہودایساایساکہتے ہیں ہم حائضہ عورتوں سے جماع کیوں نہ کریں ؟یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ متغیرہوگیا،ہم یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں شخصوں سےناراض ہوگئے ہیں ،وہ اٹھ کرباہر جانے لگےاتنے میں کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتاًدودھ بھیجا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے پیچھے آدمی بھیج کرانہیں بلایااور انہیں دودھ پلایا تب انہیں تسلی ہوئی کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں ۔[61]

اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ۝۰ۭ قُلْ ھُوَاَذًى۝۰ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِی الْمَحِیْضِ۝۰ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ۝۰ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللهُ۔۔۔۝۰۝۲۲۲ [62]

ترجمہ: پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے ؟ کہو : وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں جب وہ پاک ہوجائیں ، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔

یہ کناری کشی صرف جماع(ہم بستری)سے ہے اس کے علاوہ عورت کے ساتھ ہرمعاملہ جائزہے اورہرطرح کاتعلق قائم کرناحلال ہے،اس کے ہاتھ کاپکاہواکھاناصحیح ہے اوراس کے ساتھ بیٹھ کرکھاناپیناجائزہے۔

لڑکیوں کوزندہ درگورکرنا:

اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق فرمائی تواپنی رحمت کے سوحصوں میں سے صرف ایک حصہ تمام مخلوق میں تقسیم فرمادیاجس کی وجہ سے انسان ہویا جانور یا کوئی درندہ ہویاپرندہ اپنی اولاد سے محبت کرتااوراس کی حفاظت کرتا ہے،قریش بھی انسان تھے ان میں بھی محبت کے جذبات تھے وہ بھی اپنی اولادکی پرورش اور حفاظت کرتے تھے اس لئے بنوقریش میں اپنی لڑکیوں کوزندہ دفن کرنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، اس کے علاوہ اورکئی لوگوں کوجیسے زیدبن عمروبن نفیل ،فرزوق شاعرکے دادا صعصعہ بن ناجتہ المجاشعی کواس غیر انسانی رسم کی قباحت کا احساس تھاوہ لوگوں کواس قبیح فعل سے روکتے اورایسی ہرلڑکی کودواونٹ فدئیے میں دے کر حاصل کرتے اور جب یہ لڑکیاں جوان ہوجاتیں توکہیں بیاہ دیتے مگر چندوجوہ کی بناپریہ بے رحمانہ قبیح رسم قبیلہ تمیم میں رائج تھی ،خاندان قریش کادامن اس مرض سے پاک تھاجن کی عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَیْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ أَحْنَاهُ عَلَى یَتِیمٍ فِی صِغَرِهِ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِهِ

اونٹوں پرسوارہونے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں جو بچوں پربچپنے میں بہت مہربان ہوتی ہیں اورخاوندکے مال کابہت خیال رکھتی ہیں ۔ [63]

جس کی ایک وجہ تویہ تھی کہ باوجودمعاشی خستہ حالی کے عربوں میں متعددشادیوں کارواج تھاجن سے بچے بھی پید ا ہوتے تھے مگر ان میں بچوں کی پرورش کی سکت نہ ہوتی اس لئے وہ چاہتے کہ کھانے والے کم سے کم ہوں ،اس لئے ان کی کوشش یہ ہوتی کہ بیٹی کومار دیا جائے تاکہ اس کے جوان ہونے تک کفالت بھی نہ کرنی پڑے ،اورنہ ہی شادی بیاہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑیں اورنہ ہی ان کاکوئی دامادبنے گا، جبکہ بیٹوں کے بارے میں یہ خیال کرلیتے کہ یہ جوان ہوکر والدین اور قبیلے کاہاتھ بٹائیں گے ، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ معاشی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے قبیلوں میں ایک دوسرے پراچانک چھاپہ، ماردھاڑ ، قتل وغارت،لوٹ مار روزمرہ کامعمول تھااس کھٹکے کی وجہ سے کہ کب غارت گر صبح سویرے ان کے قبیلے پر آپڑے اورقتل وغارت کا بازار گرم کردے کسی بستی کا کوئی شخص رات کوسکھ چین کی نیندنہیں سوسکتاتھااورنہ ہی کوئی شخص رات کے وقت اپنے قبیلے کی حدود سے باہرجانے کی ہمت کرتا تھاکیونکہ حدود قبیلہ سے باہر جاکرواپس آنا یا گرفتارہوکرغلام بن جانے سے محفوظ رہناامرمحال تھاا س لئے قبیلے کے لوگ اپنے حامی ومددگار حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بیٹوں کوپال پوس کرجوان کرتے ، انہیں گھڑ سواری ،تلواروتیراندازی کے گرسکھائے جاتے تاکہ وہ اپنی اور اپنے قبیلے کی حفاظت کر سکیں ،اس کے برعکس لڑکیاں ان قبائلی لڑائیوں میں کوئی مدد نہیں دے سکتی تھی بلکہ مردوں کے لئے مصیبت بن جاتیں اور ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی ، بدقسمتی سے اگر مغلوب قبیلہ کی کوئی حاملہ عورت ہاتھ لگ جاتی تواس کاپیٹ چاک کرڈالتے،بچوں کوتہہ تیغ کرتے اوراگر لڑکی کسی دشمن قبیلے کے ہاتھ لگ جاتی تومیدان جنگ میں ہی سب کے سامنےاس کی عزت و ناموس کوتارتارکردیاجاتاجیساکہ بنوضبہ نے بنو عامرپرغلبہ حاصل کرکے کیا،پھر اپنے دشمن کو ساری زندگی ذلیل وخوار کرنے اورآمدنی بڑھانے کے لئے اس لڑکی کوقینات میں داخل کرلیتے جو اس قبیلے کی عزت ووقارپرہمیشہ ایک بدنما دھبہ بن جاتااورایسی عورتوں سے پیدا ہونے والی اولاد پوری زندگی عارمیں مبتلا رہتی ، اوراگرصلح کی صورت بنتی تو یہ لڑکیاں اس قبیلہ کو واپس کردی جاتیں مگراس وقت تک ان کی عزت وعصمت بربادہوچکی ہوتی،ان لڑکیوں کے قابض ان کے تصرف پر فخر کرتے مگران کے قبیلے پھربھی کوئی عیب خیال کئے بغیراپنی لڑکیوں کو واپس لے لیتے تھے ، اس لئے جب ان کے ہاں لڑکی پیداہوتی توانکاسر جھک جاتااور باپ شرم سے اپنے گھر میں رہناچھوڑدیتا، یہی وجہ تھی کہ لڑکیوں کی پیدائش باعث ننگ وعارتھی،پیداہونے کے ساتھ ان کوزندہ درگورکردینااسی کوبعضوں نے اپنی شرافت وافتخارکااقتضاقراردے رکھاتھا۔

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَهُوَكَظِیْمٌ۝۵۸ۚیَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ۝۰ۭ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰی هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ۔۔۔۝۰۝۵۹ [64]

ترجمہ:اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرے پڑکلونس چھاجاتی ہے اور وہ بس خون کاساگھونٹ پی کررہ جاتاہے۔

اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَكَظِیْمٌ۝۱۷ [65]

ترجمہ:اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مُژدہ جب خود اِن میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔

وَكَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَاۗؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ۔۔۔۝۱۳۷ [66]

ترجمہ: اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنادیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں ۔

اس مسئلے کاحل انہوں نے یہ نکالاکہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی پہلے سے تیار ایک گڑھے میں ڈال کردبادیا جائے تاکہ نہ ہوگابانس اورنہ بجے گی بانسری ،اسلام نے آکرفقروفاقہ کا خوف ان کے دلوں سے نکالااورالرزاق کی قوت متین پراعتمادکاجذبہ پیداکیااوراللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس قبیح فعل پرفرمایا۔

۔۔۔ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِیَّاهُمْ۔۔۔ ۝۱۵۱ [67]

ترجمہ: اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـیَةَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِیَّاكُمْ۝۰ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا۝۳۱ [68]

ترجمہ: اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے ۔

وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ۝۸۠ۙبِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝۹ۚ [69]

ترجمہ:جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاکہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔۔۔۝۱۴۰ۧ [70]

ترجمہ:یقیناًخسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنھوں نے اپنی اولادکوجہالت ونادانی کی بنا پرقتل کیا۔

اگرکسی وجہ سے اس وقت ایسانہ ہوسکتا توباحالت مجبوری کچھ عرصہ اس لڑکی کی پرورش کی جاتی اورپھرموقعہ پاکر باپ اس ظالمانہ فعل کے ارتکاب کے لئے اسے کہیں دور صحرا میں لے جاکرزندہ دفن کردیتایا کسی کنویں میں دھکادے دیتااور لڑکی ابااباہی پکارتی ہوئی ڈوب کرمرجاتی مگر باپ بیٹی کی آخری دردبھری پکارسن کراپنے دل میں کوئی درد ، کھٹک یاکسک بھی محسوس نہ کرتا اسے صرف اپنی اوراپنے قبیلے کی عزت و وقارکی فکر دامن گیررہتی،اپنے اس فعل قبیح پرفخرکرتے اوراس عمل کواعلیٰ شرافت کانشان سمجھاجاتا۔

عَنِ الْوَضِینِ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِیَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ، فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ، وَكَانَتْ عِنْدِی بِنْتٌ لِی فَلَمَّا أَجَابَتْ، وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِی إِذَا دَعَوْتُهَا، فَدَعَوْتُهَا یَوْمًا، فَاتَّبَعَتْنِی فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَیْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِی غَیْرَ بَعِیدٍ، فَأَخَذْتُ بِیَدِهَا فَرَدَّیْتُ بِهَا فِی الْبِئْرِ، وَكَانَ آخِرَ عَهْدِی بِهَا أَنْ تَقُولَ: یَا أَبَتَاهُ یَا أَبَتَاهُ فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَیْنَیْهِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:كُفَّ فَإِنَّهُ یَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَعِدْ عَلَیَّ حَدِیثَكَ فَأَعَادَهُ، فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَیْنَیْهِ عَلَى لِحْیَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنِ الْجَاهِلِیَّةِ مَا عَمِلُوا، فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ

وضین  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت میں مبتلا لوگوں اور بتوں کے پجاری تھے ہم اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے،میری ایک بیٹی تھی جب وہ کچھ بڑی ہوئی توجب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے پر خوش ہوتی تھی،ایک دن میں نے اسے بلایا وہ میرے پیچھے آئی میں چلتا ہوا اپنے گھر کے کنویں کے پاس آگیا جو زیادہ دور نہیں تھامیں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں پھینک دیا اس نے مجھ سے آخری بات یہ کہی اے اباجان! اے اباجان!(راوی کہتے ہیں ) رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شقاوت قلبی کایہ بیان سناتو آپ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہوگئے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک صاحب نے اس شخص سے کہا تم نے اللہ کے رسول کو غمگین کردیا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب سے کہا رہنے دیں اس نے وہ بات دریافت کی ہے جسے اہم سمجھا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا اپنی بات میرے سامنے دوبارہ بیان کرو اس شخص نے دوبارہ بیان کی،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوجاری ہو کر آپ کی داڑھی مبارک پر گرنے لگے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کام کیے تھے اللہ نے انہیں درگزر کردیا ہے اب تم نئے سرے سے عمل کا آغاز کرو۔[71]

منقطع روایت ہے ۔

مات سنة تسع وأربعین ومائة

آخری راوی وضین جو اسی ہجری میں پیداہوااور ۱۴۹ ھ میں فوت ہواضعیف ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ ،امام مسلم رحمہ اللہ اورامام نسائی رحمہ اللہ نے اس کی روایت نہیں لی۔

وقال ابن سعد: ضعیف

ابن سعدکہتے ہیں ضعیف ہے۔

 قال الجوزجانی: واهى الحدیث

جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی روایت واہی ہوتی ہے۔[72]

 سیء الحفظ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کاحافظہ بہت ردی تھا۔[73]

روایت میں اوپرکے دو راوی غائب ہیں ۔

عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: جَاءَ قَیْسُ بْنُ عَاصِمٍ التَّمِیمِیُّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّی وَأَدَتْ ثَمَانِیَ بَنَاتٍ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، قَالَ:فَأَعْتِقْ عَنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ بَدَنَةً

قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قیس بن عاصم نے ( جو قبیلہ بنی تمیم کاسردارتھا) رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کراعتراف کیاکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آٹھ لڑکیوں کو زندہ دفن کیاتھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرایک لڑکی کے لیے ایک جانورذبح کرو۔[74]

ایسی ہی ایک داستان جوکسی کتاب میں نہیں پائی جاتی مگرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کوزندہ دفن کیاتھا،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مبعوث فرمایااس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عمر۲۷ سال کی تھی ۔[75] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی چھ بیویاں تھیں جن سے نو لڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمان، عیاض، عاصم، عبیداللہ ، زیدالاکبر، زیدالاصغر،عبدالرحمان الاوسط اور عبدالرحمان الاصغر اورچارلڑکیاں حفصہ،رقیہ،فاطمہ اورزینب پیداہوئیں ۔

جس ترتیب سے شادیاں کیں ان کی تفصیل اور ان پیدا ہونے والی اولاد کچھ اس طرح ہے۔

پہلی شادی زینب رضی اللہ عنہا بنت مظعون بن حبیب بن مناة بن جمح سے کی جورسول اللہ کے رضاعی بھائی سابقین اولین عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کی بہن تھیں ،ان کے بطن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی حفصہ رضی اللہ عنہا اوردولڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ اورعبدالرحمان رضی اللہ عنہ پیداہوئے،عرب میں کنیت بڑی لڑکی یالڑکے کے نام پرہوتی تھی اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت بڑی بیٹی کے نام پر ابو حفص تھی ، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اسلام لائے اس وقت تک ان کے یہی تین بچے تھے، اوراسی بڑی لڑکی حفصہ رضی اللہ عنہا کوام المومنین اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سسر بننے کاشرف حاصل ہوا ، باقی تین لڑکیاں تو ایام جاہلیت کے بعدپیداہوئیں اس لئے ان کے زندہ دفن کرنے کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔

دوسری شادی عاتکہ رضی اللہ عنہا بنت زیدبن عمروبن نفیل سے ہوئی جن کے بطن سے ایک لڑکاعیاض پیداہوا۔

تیسری شادی جمیلہ بنت ثابت بن الافلح سے ہوئی جن کے بطن سے ایک لڑکاعاصم پیداہوا۔

چوتھی شادی ام حکیم رضی اللہ عنہا بنت الحارث بن ہشام سے ہوئی جن کے بطن سے ایک لڑکی فاطمہ پیداہوئی۔

پانچویں شادی ام کلثوم بنت جرول بن مالک بن معیب سے ہوئی جن کے بطن سے دولڑکے عبیداللہ اورزیدالاکبر پیدا ہوئے ۔

چھٹی شادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت سیدنا علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن کے بطن سے ایک لڑکا زید الاصغر اورایک لڑکی رقیہ پیدا ہوئیں ،ان بیویوں کے علاوہ ایک باندی فکیہ سے ایک لڑکی زینب اوردوسری باندی لہیہ سے دولڑکے عبدالرحمان الاوسط اورعبدالرحمان الاصغر پیداہوئے۔

اب روایت بیان کرنے والے ہی بتلائیں ان کی کون سی بیوی سے کون سی لڑکی زندہ دفن کی گئی اوراگرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کولڑکیوں سے اتنی ہی نفرت تھی توپھران کی کنیت ابوحفص بڑی لڑکی کے نام پر کیوں تھی۔

اسلام نے عورت کواس کاصحیح مقام عطاکیا،لڑکیوں کاقتل بندکردیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَكْرَهُوا الْبَنَاتِ، فَإِنَّهُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی بیٹیوں سے نفرت نہ کرو کہ وہ تودکھ کی ساتھی ہیں اوربہت قیمتی ہیں ۔[76]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ وُلِدَتْ لَهُ ابْنَةٌ، فَلَمْ یَئِدْهَا، وَلَمْ یُهِنْهَا، وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَیْهَا – یَعْنِی الذَّكَرَ – أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهَا الْجَنَّةَ

اورعبداللہ بن عبا س  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہو، وہ اسے زندہ درگور کرے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخلہ عطاء فرمائے گا۔[77]

عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، یَقُولُ: أَنَّهُ حَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: یَا سُرَاقَةُ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ أَوْ مِنْ أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: ابْنَتُكَ مَرْدُودَةٌ إِلَیْكَ، لَیْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَیْرَكَ

سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اےسراقہ رضی اللہ عنہ ! کیا میں تمہیں سب سے عظیم صدقہ نہ بتاؤں ؟میں نےعرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری وہ بیٹی جو اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کی وجہ سے تمہارے پاس واپس جائے اور تمہارے علاوہ اسکا کوئی کمانے والا نہ ہو۔[78]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَهُ

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجو شخص دولڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سن بلوغ کوپہنچ جائیں تو قیامت کے دن میں اوروہ اس طرح آئیں گےاورآپ نے اپنی انگلیوں کو ملاکراشارہ فرمایا۔[79]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِی شَیْئًا غَیْرَ تَمْرَةٍ، فَأَعْطَیْتُهَا إِیَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَیْنَ ابْنَتَیْهَا، وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ، فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ:مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ هَذِهِ البَنَاتِ بِشَیْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک عورت اپنی دوبچیوں کولئے ہوئے مانگتی ہوئی آئی ،میرے پاس ایک کھجورکے سوااس وقت اورکچھ نہ تھامیں نے وہی دے دی ،وہ ایک کھجوراس نے اس نے دونوں بچیوں میں تقسیم کر دی پھروہ اٹھی اور چلی گئی،اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومیں نے آپ سے اس (عورت) کاحال بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خودکومعمولی سی بھی تکلیف میں ڈالاتوبچیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے آڑ بن جائیں گی۔[80]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْنِی مِسْكِینَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَیْنِ لَهَا، فَأَطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً، وَرَفَعَتْ إِلَى فِیهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَةَ، الَّتِی كَانَتْ تُرِیدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بَیْنَهُمَا، فَأَعْجَبَنِی شَأْنُهَا، فَذَكَرْتُ الَّذِی صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:إِنَّ اللهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّارِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہ ایک اورواقعہ بیان کرتی ہیں ایک فقیرنی اپنی دونوں بیٹیوں کوہمراہ لئےمیرے پاس آئی، میں نے اس کوتین کھجوریں دیں اس نے ایک ایک کھجوردونوں لڑکیوں کودی اورتیسری خودکھانے کے لئے منہ سے لگائی،اتنے میں اس کی بیٹیوں نے ( وہ کھجور بھی کھانے کے لئے مانگ لی)اس نے اس کھجورکوجس کووہ خود کھانا چاہتی تھی دوٹکڑے کیے اورآدھی آدھی لڑکیوں کودے دی، اس نے جوکیامجھے اس کایہ حال دیکھ کرتعجب ہوا،جب سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومیں نے( مامتاکی ماری ماں کایہ اثرانگیزقصہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے اس (عورت) کے لئے جنت واجب کر دی یاان کی وجہ سے اسے دوزخ سے آزاد کردیا۔[81]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْثُ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: اتَّقُوا اللهَ فِی الضَّعِیفَیْنِ الْمَرْأَةِ الْأَرْمَلَةِ وَالصَّبِیِّ الْیَتِیمِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت ہم قریب ہی موجودتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگو! خبردار ہو جاؤ میں تم کودوکمزوروں کے حقوق کی تاکیدکرتاہوں اوراس میں کوتاہی کرنے سے ڈراتا ہوں ایک یتیم دوسرے عورت۔[82]

ڈاکہ زنی:

عرب میں معمولی معمولی باتوں پر جنگ وجدل ،قتل وغارت ،قافلوں اورمسافروں پرلوٹ مار روزمرہ کی بات تھی ،اس رہزنی وقتل وغارت میں بڑے بڑے نامور شعراء بھی شامل تھے مگر قریش جن کا زریعہ معاش تجارت تک محدودتھااوروہ شہرکی متمدن زندگی گزارتے تھے ان چیزوں میں شامل نہ تھے ،ان رہزنی کے واقعات میں بعض قبائل جن میں قبیلہ طے بھی تھا بہت مشہور تھے جن کے لوٹ مارکے خاص جتھے جنہیں لصوص کہاجاتاتھاپہاڑوں کی غاروں میں روپوش رہتے اورگزرنے والے قافلوں کوجب وہ سفرسے تھک کرصبح کے وقت قیام کے لئے اترتے لوٹ لیتے ،ان رہزنوں میں ہمدردی نام کی کوئی شئے نہیں تھی وہ ہمدردی سے کمزوروں کے مال واسباب کے بارے میں یہ نہیں کہتے تھے کہ انہیں نہ لوٹاجائے بلکہ اس کے برعکس ان کا مقولہ یہ تھاکہ آخران لوگوں سے مال واسباب کیوں نہ لوٹا جائے، ان لڑائیوں میں کمزور،نہتے اوربے قصورلوگ مارے جاتے اور مقتول کامال اس شخص کے وارث ہڑپ کر جاتے اور اس کے کم سن معصوم بچے دربدرکی ٹھوکریں کھاتے پھرتے کیونکہ ان کایہ مقولہ تھا کہ میراث کا حقدار صرف وہ مردہوسکتاہے جو لڑنے اوراپنے کنبہ کی حفاظت کر سکتا ہو،اس لئے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیت لیتے وقت اس چیزکابھی اقرارلیتے تھے کہ وہ چوری نہ کریں گے۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللهِ شَـیْـــــًٔــا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲ [83]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیئے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی،اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی امر معرف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقینا اللہ در گز فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

چوری اورنقب زنی :

ڈاکے ڈالنے کے علاوہ چوری کرنابھی عام رواج میں شامل تھاجوان کی نظرمیں کوئی معیوب بات نہ تھی،ایسا کام وہ لوگ سرانجام دیتے جواپنے قبیلہ میں بہادر ہوتے اورتنہاکہیں جا کریہ خطرناک کام کرنے کاحوصلہ رکھتے،اس کام کے لئے چوروں کی نظرمیں اپنوں اورغیروں کی کوئی تمیزنہیں تھی،بلکہ ان چوروں کوجن میں مرد یا عورت ہوتی جہاں موقعہ ملتا چوری یانقب زنی کرڈالتے، ان قبائل میں اسلم ،،مزینہ اورجہینہ جوحاجیوں کامال واسباب چوری کیاکرتے تھے خاص طورپربدنام تھے،

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِی بَكْرَةَ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّمَا بَایَعَكَ سُرَّاقُ الْحَجِیجِ مِنْ أَسْلَمَ، وَغِفَارَ، وَمُزَیْنَةَ، وَأَحْسِبُ جُهَیْنَةَ

عبدالرحمن بن ابی بکرہ  رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں اقرع بن حابس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ قبیلہ اسلام غفار مزنیہ اور میرا گمان ہے کہ جہینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے یہ حاجیوں کا مال چوری کرنے والے ہیں ۔[84]

اہل قریش توبیت  اللّٰہ کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے چنانچہ کلبی نے کئی ممتاز قریشیوں کے مگربطورخاص عبدالعزی (ابولہب)کانام لکھاہے،

وهو سارق غزال الكعبة. وكان الغزال من ذهب

جنہوں نے بیت  اللّٰہ کے خزانے سے سونے کاایک ہرن چوری کرلیا تھا۔[85]

اللہ نے چوری کی سزامقررفرمادی ۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۳۸ [86]

ترجمہ :اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

یتامیٰ سے سلوک :

ایمانداری ،حقوق وفرائض کی ان کی نظرمیں کوئی اہمیت یا وقعت نہیں تھی، اگرمرنے والے کے کئی وارث ہوتے توان میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا وہ بلا تامل تمام ملکیت پرقبضہ کرکے کمزوروارثوں کاحق ملکیت دبالیتا اسے نہ تو شرمندگی ہوتی اورنہ ہی اسے کوئی طعنہ دیتا، اس سلسلہ میں حکیم بن ہشام مخزومی( ابوجہل) کے بارے میں ایک واقعہ بطورنمونہ پیش خدمت ہے کہ عرب کے سب سے معزز اورترقی یافتہ قبیلہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کایتیموں اوربے مددگارلوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا،ان سرداروں کی اخلاقی حالت کیاتھی باقی قبیلے اس سے زیادہ ہی گری ہوئی حالت میں ہی ہوں گے، اورساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاق کاآپ کے بدترین دشمنوں تک پرکیارعب تھا،یہ جہنمیوں کا سردار ایک یتیم ولاوارث بچے کاوصی تھا اس کے والدین کاچھوڑا ہوا ترکہ اس کے قبضہ میں تھا مگر یہ اس بچہ کودیتاکچھ بھی نہ تھاجس سے بچے کی حالت بہت ناگفتہ بہہ تھی ،نہ تواس کے پیٹ میں کچھ تھا، نہ جسم ڈھانپنے کو لباس اورنہ ہی پاوں میں جوتاتھا ،اس بے کسی کے عالم میں وہ فرعون امت ابوجہل کے پاس آیا اوردردمندانہ التجاکی کہ وہ اسے اپنے باپ کے ترکہ میں سے کچھ دے دے جس سے اس کاجسم ڈھک جائے اور کچھ پیٹ میں چلاجائے ، بچے کی یہ قابل رحم حالت دیکھ کراس شقی القلب انسان کے دل میں جوہروقت بیت  اللّٰہ میں بیٹھا رہتا تھانہ شرمندگی ہوئی اور نہ ہی ہمدردی جاگی اور نہ ہی اس نے اس بچہ کی طرف کوئی خاص توجہ کی ،بچہ امیدورجاء کی کیفیت میں کافی دیرتک اس کے گھرپرکھڑارہاکہ شایداس کادل پسیج جائے اوروہ کچھ دے دے مگر پتھروں میں جونک نہیں لگتی ،جب بہت دیر ہو گئی اور کچھ نتیجہ نہ نکلا تووہ مایوس ہوکرسرجھکائے کہیں جانے لگا،قریش کے دوسرے سردار جوخودبھی اس حمام میں ننگے تھے اورسخت دلی میں ابوجہل سے کم نہ تھے یہ واقعہ دیکھ رہے تھے ، رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوجہل سے جھڑپ کرانے کے لئے انہیں مذاق سوجھاانہوں نے اس بچہ کواپنے پاس بلاکر بطور شرارت کہاکہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ابوجہل کی شکایت کرو وہ تمہیں تمہار ا مال دلوا دیں گے،بچہ ابھی بہت کم سن اورناسمجھ تھااسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہل سے کیاتعلق ہے اوریہ لوگ اسے کیوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج رہے ہیں ، مگر ضرورت مند تھا اسے اپنے حق میں مفیدمشورہ سمجھ کرسیدھامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنا دکھڑا سنایا ، باوجوداس کے کہ حالات بہت سنگین تھے اور معاملہ بھی بدترین دشمن سے تھامگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا ًکسی بات کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے اس بچہ کے ساتھ اپنے بدترین دشمن ابوجہل کے گھرچلے آئے ،ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااستقبال کیا اور آنے کاسبب دریافت کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہاکہ وہ فوراًاس بچے کاحق اسے لوٹا دے ، اللّٰہ نے اپنے آخری رسول کوبڑارعب ودبدبہ عنایت کیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ سن کر ابوجہل کی سٹی گم ہوگئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ایک لفظ بھی نہ بول سکااوربچے کاحق دے دینے کو تیار ہو گیا اوربچے کامال آپ کے سامنے ہی ادا کردیا ، قریش کے سردار شرارت کی چنگاری پھینک کرایک شاندار جھڑپ کے منتظرتھے اور خواہش مندتھے کہ کسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل کے ہاتھوں نیچاکیاجاسکے مگریہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب ودبدبہ کے سامنے ان کے بڑے سردارکی گردن ہی جھک گئی تھی اوروہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا تھا،جب معاملہ رفع دفع ہوگیا اور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے تویہ شرارتی سردارابوجہل کے پاس آئے اورطعنہ دے کرکہنے لگے کہ تم نے تو اپنے بزرگوں کا دین ودھرم چھوڑدیا ہے،ابوجہل نے  اللّٰہ کی قسم اٹھا کر کہا دوستو میں نے اپنا دین نہیں بدلہ مگرجب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھے ایسے محسوس ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں ایک ایک حربہ ہے اگرمیں نے ان کی مرضی ومنشاء کے خلاف قدم اٹھایا تووہ میرے جسم میں داخل ہو جائے گا۔[87]

لیکن اگر لاوارث کم سن بچیاں ہوتیں تو اپنے عزیزوں یالوگوں کی کفالت میں آجاتیں جب وہ جوان ہوجاتیں تو دوسروں سے ان کانکاح کرنے کے بجائے ان کے حسن وجمال سے بہرہ مندہونے کے لئے بغیر حق مہراداکئے خودان سے نکاح کرلیتے ، پھر اس کامال بھی ہضم کرجاتے اوران پرنارواظلم وستم بھی کرتے ۔

اللہ سبحان وتعالیٰ نے ان لوگوں کی کیفیت کچھ اس طرح بیان فرمائی،اوریتیموں کے مال واسباب میں ہدایات فرمائیں ۔

كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۝۱۷ۙوَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۱۸ۙوَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا۝۱۹ۙوَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۝۲۰ [88]

ترجمہ: ہرگز نہیں ، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے،اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے ، اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو ،اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو ۔

وَاٰتُوا الْیَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ۝۰۠ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا۝۲ [89]

ترجمہ:یتیموں کے مال ان کو واپس دو ، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۔۔۔ ۝۳۴ [90]

ترجمہ:مال یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔

حق تلفی :

اس حکیم بن ہشام مخزومی( ابوجہل) کے ساتھ جورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہم عمرہی تھا ایک واقعہ اس طرح ہوا،

قدم رجل من إراش بإبل له مكة، فابتاعها منه أبو جهل بن هشام فمطله بأثمانها، وأقبل الإراسیّ حتى وقف على نادی قریش ورَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جالس فی ناحیة المسجد فقال: یا معشر قریش من رجل یؤدینی على أبی الحكم بن هشام فإنی غریب ابن سبیل، وقد غلبنی على حقی، وأنا غریب ابن سبیل؟ فقال أهل المجلس: ترى ذلك الرجل وهم یهزؤون به، إلى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لما یعلمون بینه وبین أبی جهل من العداوة إذهب إلیه فهو یؤدیك علیه

اراش(مقام یاقبیلہ کانام ہے)سے ایک شخص اپنے اونٹ فروخت کرنے مکہ مکرمہ میں آیا،ابوجہل کو چند اونٹ پسندآئے جواس نے خریدلئے مگر قیمت ادا کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لینے لگا آخر جب وہ شخص قیمت وصول کرنے سے عاجز ہو گیاتوسرداراں قریش کے پاس حرم کعبہ میں جاپہنچااورسب کے سامنے کہنے لگااے گروہ قریش !میں ایک غریب مسافرہوں اور حکیم بن ہشام(ابوجہل)نے میراحق دبالیاہے اورمیں ایک غریب پردیسی مسافرہوں ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت حرم کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے،سب سرداران قریش جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوجہل کے درمیان عداوت کاجانتے تھے کہنے لگے کہ اے فریادی ! ہم تمہاری فریاد پر ابوالحکم (ابوجہل ) کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے،مگرہاں (پھراشارہ کرکے کہنے لگے) حرم میں اس جگہ جوشخص بیٹھا ہواہے اس سے جاکر اپنی کہانی سناووہ تمہاری واجب ادارقم دلوادیں گے،

فأقبل الإراشی حتى وقف على رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: یا عبد الله إن أبا الحكم بن هشام قد غلبنی على حق لی قبله، وأنا غریب ابن سبیل، وقد سألت هؤلاء القوم عن رجل یؤدینی علیه، یأخذ لی حقی منه فأشاروا لی إلیك، فخذ لی حقی منه، رحمك الله؛ فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : إنطلق إلیه، وقام معه، فلما رأوه قام معه قالوا لرجل ممن معهم: إتبعه فانظر ماذا یصنع، فخرج رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حتى جاءه، فضرب علیه بابه فقال: من هذا؟فقال: محمد فاخرج إلی

وہ شخص رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوا،حرم میں موجود قریشی سردارآپس میں کہنے لگے آج لطف آئے گا،وہ شخص رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہااے عبداللہ کے بیٹے ! ابوحکم بن ہشام (ابوجہل)نے میراحق دبالیاہے اورمیں ایک غریب مسافرہوں ،میں نے اس کی قوم کے سامنے فریادکی تو انہوں نے آپکی طرف اشارہ کرکے کہاکہ آپ میراحق اس سے دلواسکتے ہیں ،اللہ آپ پررحم فرمائے میراحق مجھے دلوادیں ،ساری بات سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت کھڑے ہو گئے اور اس شخص کے ساتھ ابوجہل کے مکان کی طرف چل پڑے،قریشی سردارتو اس واقعہ سے لطف اندوزہوناچاہتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے توانہوں نے ایک آدمی کوپیچھے روانہ کیاکہ وہ چھپ کردیکھے اورجو کچھ بیتے واپس آکرخبردے،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کے گھرپہنچے اوردروازے پردستک دی،اس نے اندرسے پوچھاکون آیاہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باہر آؤ ،

فخرج إلیه وما فی وجهه رائحة قد امتقع لونه، فقال له: أعط هذا الرجل حقه، فقال:نعم، لا یبرح حتى أعطیه الذی له، فدخل، فخرج إلیه بحقه فدفعه إلیه ثم انصرف رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وجاء الرجل الذی بعثوا معه، فقالوا له: ویحك ماذا رأیت؟ فقال: عجباً من العجب ، والله إلا أن ضرب علیه بابه فخرج وما معه روحه فقال: أعط هذا الرجل حقه، قال: نعم لا یبرح حتى أخرج إلیه حقه، فدخل فأخرج إلیه حقه فأعطاه إیاه؛ ثم لم یلبث أن جاء أبو جهل فقالوا له:ویلك ما لك فو الله ما رأینا مثل ما صنعت؟!قال: ویحكم والله ما هو إلا أن ضرب على بابی وسمعت صوته فملئت رعباً ثم خرجت إلیه وإن فوق رأسی لفحل من الإبل ما رأیت مثل هامته ولا قصرته ولا أنیایه لفحل قط، والله لو أبیت لأكلنی

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے گھر پرپاکر ابوجہل حیران وپریشان ہو کر باہر نکل آیا،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل سے فرمایاکہ اس شخص کاحق اداکردو ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پا کر ابوجہل کوئی چوں وچراں نہ کر سکا فوراً گھرکے اندر گیا اوراس شخص کی اونٹوں کی قیمت لاکر اس کے ہاتھ پررکھ دی،اس مسافرکاحق دلواکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ گئے،قریش کامخبربھی یہ کاروائی دیکھ رہاتھااس نے یہ ماجرادیکھ کرقریش کی طرف دوڑ لگا دی جب وہ ان کے پاس پہنچاتوانہوں نے اس سے پوچھاتم نے وہاں کیامعاملہ دیکھا؟وہ کہنے لگا میں نے آج وہ عجیب معاملہ دیکھاہے جواس سے بیشترنہیں دیکھا تھاحکیم بن ہشام (ابوجہل)محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پرجب گھرسے نکلاتومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھتے ہی اس کے چہرے کارنگ ہی اڑگیااورجب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہاکہ اس شخص کاحق اداکردوتو اسے لگاجیسے کہ اس کے جسم میں جان ہی نہ ہو پھر اس نے اس شخص کی قیمت بھی فوراً ادا کر دی، کچھ دیربعدابوجہل بھی وہاں آگیاتواہل مجلس نے اس سے پوچھاتمہاراستیاناس ہواللہ کی قسم !جوکچھ آج تم نے کیاہے اس سے بیشترہم نے یہ معاملہ نہیں دیکھاہے ؟ابوجہل نے کہاتم سب کاستیاناس ہو!اللہ کی قسم!جونہی انہوں نے میرادروازہ کھٹکھٹایااورمیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسنی تومیں مرعوب ہوگیا،میں باہرنکلاتومیں نے ان کے سرسے اوپرایک زبردست نراونٹ دیکھا،میں نے اتنابڑاسر،اتنی موٹی گردن اوراتنے خوفناک دانت کسی بڑے سے بڑے اونٹ کے کبھی بھی نہیں دیکھے،اگرمیں قیمت دینے سے انکارکرتاتووہ اونٹ مجھے کچاچباجاتا۔[91]

اسی طرح تیسراواقعہ یوں پیش آیا،

بَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جالسا فِی الْمَسْجِدِ مَعَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی زُبَیْدٍ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ كَیْفَ تَدْخُلُ عَلَیْكُمُ الْمَادَّةُ، أَوْ یُجْلَبُ إِلَیْكُمْ جَلَبٌ، أَوْ یَحِلُّ تَاجِرٌ بِسَاحَتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَظْلِمُونَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْكُمْ فِی حَرَمِكُمْ یَقِفُ عَلَى الْحَلَقِ حَلَقَةً حَلَقَةً حَتَّى انْتَهَى إِلَى رسول الله صلّى الله علیه وسلّم صَحْبِهِ، فَقال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ ظَلَمَكَ ؟فَذَكَرَ أَنَّهُ قَدِمَ بِثَلاثَةِ أجمال كَانَتْ خِیرَةَ إِبِلِهِ، فَسَامَهُ بِهَا أَبُو جَهْلٍ ثُلُثَ أَثْمَانِهَا، ثُمَّ لَمْ یَسُمْهُ بِهَا لأَجَلِهِ سَائِمٌ قَالَ: فَأَكْسَدَ عَلَیَّ سِلْعَتِی وَظَلَمَنِی،

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کے ساتھ مسجدالحرام میں تشریف فرماتھے کہ بنی زبید کا ایک شخص آیا اور یوں کہنے لگاقریش کے لوگو!تمہارے ہاں مال تجارت لے آنے کی ہمت وجرات کون کرے گاجبکہ باہرسے مال تجارت لے کرآنے والوں کوتم لوٹ لیتے ہو، مظلوم آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اور اپنا شکوہ پیش کیا تورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھاکس نے تم پرظلم کیاہے ؟اس شخص نے کہا ابوالحکم (ابوجہل) نے،اس نے میرے تین بہترین اونٹ خریدنے کی خواہش کی مگر ان کی قیمت کم لگائی ، اب صورت حال یوں ہے کہ کوئی بھی شخص اس کی لگائی ہوئی قیمت کے مقابلے میں زیادہ پر خریدنے کوتیارنہیں ہے اوراگرمیں ابوالحکم کی لگائی ہوئی قیمت پرفروخت کردوں تو میرا کافی نقصان ہوتاہے،

فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَاعَ جَمَلَیْنِ مِنْهَا بِالثَّمَنِ وَأَبُو جَهْلٍ جَالِسٌ فِی نَاحِیَةٍ مِنَ السُّوقِ لا یَتَكَلَّمُ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا عَمْرُو: إِیَّاكَ أَنْ تَعُودَ لِمِثْلِ مَا صَنَعْتَ بِهَذَا الأَعْرَابِیِّ فَتَرَى مِنِّی مَا تَكْرَهُ فَجَعَلَ یَقُولُ: لا أَعُودُ یَا مُحَمَّدُ، لا أَعُودُ یَا مُحَمَّدُ

یہ سن کررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے اس کے تینوں اونٹ خرید کر لئے اورحرم میں دور بیٹھا ابوجہل بھی خاموشی سے یہ بات چیت سن رہاتھا،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اورابوجہل کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایاتم نے جوحرکت اس غریب بدو کے ساتھ کی ہے خبردار آئندہ کسی اورکے ساتھ نہ ہوورنہ میں بہت بری طرح پیش آؤ ں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان سن کرابوجہل کہنے لگاآئندہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔

فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ عَلَیْهِ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ وَمَنْ حَضَرَ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالُوا: ذُلِلْتَ فِی یَدَیْ مُحَمَّدٍ، فَإِمَّا أَنْ تَكُونَ تُرِیدُ أَنْ تَتَّبِعَهُ وَإِمَّا رُعْبٌ دَخَلَكَ مِنْهُ. قَالَ: لا أَتَّبِعُهُ أَبَدًا، إِنَّ الَّذِی رأیتم من لِمَا رَأَیْتُ مَعَهُ، لَقَدْ رَأَیْتُ رِجَالا عَنْ یمینه وشماله معهم رِمَاحٌ یَشْرَعُونَهَا إِلَیَّ، لَوْ خَالَفْتُهُ لَكَانَتْ إِیَّاهَا، لأتوا على نفسی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے،ابوجہل کے اس طرح دب کربات کرنے کودیکھ کرامیہ بن خلف اور موجود دوسرے مشرکین ابوجہل کوشرمسارکرنے لگے کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی کمزوری دکھائی ہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ تم اس کی اطاعت اختیارکرنے والے ہو،ان کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر ابوجہل بولابخدامیں کبھی بھی ان کی پیروی اختیارنہیں کروں گامگرمیں نے دیکھاکہ ان کے دونوں اطراف کچھ نیزہ بردار کھڑے ہیں ، مجھے خوف پیداہواکہ اگرمیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سرتابی کی تووہ مجھ پرٹوٹ پڑیں گے۔[92]

الْحَكَمِ (جس کے فیصلے کوکوئی ردنہ کرسکے )اللہ تبارک وتعالیٰ کا صفاتی نام ہے اورابوجہل کوابوالحکم کہاجاتاتھا،اس کنیت کے بارے میں ہانی کی یہ روایت ملاحظہ ہو:

عَنْ أَبِیهِ هَانِئٍ أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَ قَوْمِهِ سَمِعَهُمْ یَكْنُونَهُ بِأَبِی الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَیْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ؟فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِی إِذَا اخْتَلَفُوا فِی شَیْءٍ أَتَوْنِی، فَحَكَمْتُ بَیْنَهُمْ فَرَضِیَ كِلَا الْفَرِیقَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ قَالَ: لِی شُرَیْحٌ، وَمُسْلِمٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ،قَالَ:فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟قُلْتُ: شُرَیْحٌ، قَالَ: فَأَنْتَ أَبُو شُرَیْحٍ

ہانی سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفدآیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواکہ وفدمیں شریک ایک شخص کی کنیت ابوالحکم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ حکم والی اورفیصلہ دینے والی ذات صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہےپس تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں رکھی؟ اس شخص نے جواب دیاکہ جب میری قوم کوکسی معاملہ میں اختلاف ہوتاہے توفیصلہ کے لئے میرے پاس آتے ہیں ،میں جوفیصلہ کرتاہوں اس پردونوں فریق راضی ہوجاتے ہیں ،اس لئے میری کنیت ابوالحکم رکھ دی گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ بہت اچھی بات ہے کیا تمہاراکوئی بیٹاہے؟ میں نے کہامیرے تین بیٹے شریح ، مسلم اورعبداللہ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاان میں سب سے بڑاکون ہے؟ میں نے کہاشریح سب سے بڑاہے، فرمایا تم ابوشریح ہویعنی اپنی کنیت ابوشریح رکھ لو۔[93]

دیت وقصاص:

دورجاہلیت میں دیت وقصاص کانظام تھاجس میں اگرکوئی شخص کسی قبیلے کے کسی بڑے آدمی کوقتل کرڈالتااوراگرمعاملہ دیت پر طے ہوجاتاتو وہ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے کرخوش نہ ہو جاتے بلکہ مقتول شخص کے قبیلے کے لوگ جتناقیمتی اپنا آدمی سمجھتے اتنی ہی قیمت کاخون اس خاندان یاقبیلے سے حاصل کرنا چاہتے،وہ ایک مقتول کابدلہ بیسوں اورسینکڑوں سے لیناچاہتے اگرا نکا معزز آدمی کسی چھوٹے آدمی سے مارا جاتا تووہ محض یہ کافی نہ سمجھتے کہ اس چھوٹے آدمی کوقتل کر دیاجائے بلکہ ان کی کوشش ہوتی کہ قاتل قبیلے کابھی کوئی ویسا ہی معززشخص قتل کیا جائے،یابدلہ میں کئی آدمی قتل کیے جائیں ،لیکن اس کے برعکس مقتول ادنیٰ درجے کاآدمی ہوتااوراس کاقاتل قدرومنزلت والاہوتاتواس بات کو ناپسند کرتے کہ مقتول کے بدلے میں اسے قتل کیاجائے ،شریف قبائل کااگرایک آدمی قتل کردیاجاتاتواس شخص کاخون قاتل قبیلہ کے دوخون کے برابرتصورکرکے دوآدمیوں کوقتل کیاجاتا۔

قتل کاانتقام :

ایک قوی وشدیدمحرک جس نے عرب کی تاریخ کوخون سے رنگین کردیاتھاانتقام کاجذبہ تھا،عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جب کوئی شخص قتل کیاجاتاہے تواس کی روح پرندہ بن کراڑجاتی ہے اورجب تک اس کابدلہ نہ لیاجائے وہ کوہ وبیابان میں اسْقُونِی اسْقُونِی( مجھے پلاؤ ،مجھے پلاؤ )کہہ کرچیختی پھرتی ہے ان کی اصطلاح میں اس پرندے کانام هَامة یااصُداءتھا،اگرقاتل اس کے درجہ سے کمتردرجہ کاآدمی ہوتاتواس کے قبیلہ کے کسی ایسے آدمی کوقتل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی جس کاخون ان کے خیال میں مقتول کے خون کے برابرقیمت رکھتاہو،اس طرح بسااوقات ایک شخص کے قتل ہوجانے سے بڑے بڑے قبیلوں میں آگ لگ جاتی تھی اورایسی خون ریزیوں کا سلسلہ شروع ہوتاتھاکہ سالہاسال تک نہ تھمتاتھا،اگرکوئی شخص یاقبیلہ اپنے آدمی کے خون کابدلہ (ثار)لینے میں کوتاہی کرتایااس کے عوض خوں بہاقبول کرلیتاتویہ بڑی ذلت کی بات سمجھی جاتی تھی اوراس بزدلی سے اس کی شرافت کوبٹہ لگ جاتاتھا،اسی عقیدہ کی بناپرشعراقوموں کوجنگ کاجوش دلاتے تھے اوراس بات پرفخرکرتے تھے کہ ان کے قبیلہ نے کبھی اپنے کسی مقتول کاخون رائیگاں نہ جانے دیا،اس لئے اہل عرب قبائلی عصبیت کی وجہ سے قطع رحمی نہیں کرتے تھے، ان کے اپنے کنبہ قبیلہ کے ساتھ تعلقات نہایت پختہ اورمضبوط تھے جس کے سہارے وہ جیتے اور مرتے تھے ،ان کایہ مقولہ تھاکہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہئے وہ ظالم ہویامظلوم،مگردوسرے قبائل کے ساتھ ان کے تعلقات بے حدکمزورتھے، وہ مصلحت اندیشی،فریب کاری اوربدعہدی سے کوسوں دورتھے ،اپنے کنبہ یاقبیلہ کے دشمن کومعاف نہ کرنے کی وجہ سے اکثرقبائل کی ساری قوت وطاقت جنگ وجدل میں جونسل در نسل ختم ہونے کانام ہی نہ لیتی تھی ضائع ہو رہی تھی ،صدیوں کے خون درج رجسٹر ہوتے جن کابدلہ لیناقبیلوں پرفرض ہوتاجس کی وجہ سے ثارکاجذبہ رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا جس کو اچھا اور بہادری کالازمہ سمجھاجاتا ، ہجرت کے بعدمدینہ میں ایک مرتبہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ایک انصاری نے بنوثعلبہ کو جنہوں نے ایام جاہلیت میں اوس و خزرج کے ایک شخص کوقتل کرڈالا تھا مگر اب ایمان لاکرمدینہ آئے تھے دیکھاتو پکار کر کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہمارے مجرم ہیں آپ ان سے قصاص دلوائیں ،اس انصاری کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادست مبارک اٹھاکرفرمایا لڑکے کے جرم کابدلہ باپ سے نہیں لیا جائے گا،ایساایک اورواقعہ ہے کہ ایک شخص جو قبیلہ ہذیل سے تھااورایام جاہلیت میں اس کے ہاتھوں قبیلہ خزاعہ میں کوئی جرم ہوگیا تھا اورقبیلہ خزاعہ کے لوگ بدلہ لینے کے لئے اس کی تلاش میں تھے،یہ شخص اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے کے لئے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جارہاتھا کہ ان لوگوں کے ہاتھ لگ گیابس دیر کس چیز کی تھی بدلہ میں اسے فورا ًموت کی نیند سلا دیاگیا۔

فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا، وَاللَّهِ مَا رَأَیْتُهُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْهُ، فَسَعَیْنَا إِلَى أَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ نَسْتَشْفِعُهُمْ، وَخَشِینَا أَنْ نَكُونَ قَدْ هَلَكْنَافَلَمَّاصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ یُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّهَا لِی سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ أَمْسِ، وَهِیَ الْیَوْمَ حَرَامٌ كَمَا حَرَّمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِنَّ أَعْتَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ قَتَلَ فِیهَاوَرَجُلٌ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِهِ وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَإِنِّی وَاللَّهِ لَأَدِیَنَّ هَذَا الرَّجُلَ، الَّذِی قَتَلْتُمْ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی خبرپہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت برہم ہوئے ،اللہ کی قسم! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ غصے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا،ہم لوگ جلدی سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ ان سے سفارش کی درخواست کریں اور ہم اپنی ہلاکت کے خوف سے لرز رہے تھے،نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو بیان فرمائی پھر امابعد کہہ کر فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرما کر ایک پرزورخطبہ ارشادفرماتے ہوئے کہاامابعد! اللّٰہ نے مکہ کودارالحرام بنایا ہے ، آدمیوں نے نہیں بنایاہے ، اللّٰہ نے چند گھنٹوں کے لئے اس کومیرے لئے حلال کر دیا تھا لیکن آج اس کی حرمت دوبارہ لوٹ آئی ہے اور  اللّٰہ کے سب سے نافرمان تین بندے ہیں ایک وہ جس نے حدودحرم میں کسی کوقتل کیا دوسراوہ جس نے اپنے قاتل کے سواکسی دوسرے کومارڈالا اورتیسراوہ جس نے زمانہ جاہلیت کاانتقام لیا، تم نے جس شخص کوقتل کرڈالا ہے میں اس کی دیت دوں گا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت ادا فرمائی۔ [94]

سفاکی وبربریت :

جس طرح جنگ کے متعلق عرب جاہلیت کاتصورپست تھااورجس طرح ان کے مقاصدجنگ ذلیل وناپاک تھے اسی طرح وہ طریقے بھی جن سے وہ جنگ کیاکرتے تھے انتہادرجہ کے وحشیانہ تھے ،کیونکہ ان کے ذہن میں جنگ کی خصوصیات ہی یہ تھیں کہ وہ ہولناک ہو،غیظ وغضب کامظہراتم ہو،بلاؤ ں اورمصیبتوں کامجموعہ ہو،چکی کی طرح پیس دینے والی ہو،آگ کی طرح جھلسا دینے والی ہو،اونٹ کے سینہ کی طرح ہرچیزکوریزہ ریزہ کردینے والی ہو،اس لئے جنگ میں ان کے اعمال بھی اسی تصورکے مطابق ہوتے تھے ،کسی قوم کے خلاف ہتھیاراٹھانے کے معنی ان کے نزدیک یہ تھے کہ جس طرح ممکن ہواس کوتباہ وبرباداورذلیل وخوارکیاجائے ،ان کاجذبہ نبردآزمائی کسی قسم کی اخلاقی حدودسے آشنانہ تھا،وہ صرف ایک چیزجانتاتھااوروہ یہ تھی کہ دشمن پامال کرنے کے لئے ہے اس لئے جنگ میں مقاتلین اورغیرمقاتلین کے درمیان کوئی امتیازنہ تھا،دشمن قوم کے ہرفردکودشمن سمجھاجاتاتھااوراعمال جنگ کادائرہ تمام طبقوں اورجماعتوں پریکساں محیط تھا،عورتیں ،بچے،بوڑھے ،بیمار،زخمی کوئی بھی اس ہمہ گیردست درازی سے مستثنی نہ تھا،بلکہ دشمن قوم کوذلیل وخوارکرنے کے لئے عورتیں خصوصیت کے ساتھ جنگی کاروائیوں میں تختہ مشق بنائی جاتی تھیں ،مفتوح قوم کی عورتوں کوبے حرمت کرنا،ان کے پردے اٹھادینا،ان کی تحقیروتذلیل کرنافاتح کے مفاخرمیں شمارہوتاتھا،دشمن کوایذااورضررپہنچانے کاحق غیرمحدودتھایہاں تک کہ آگ کاعذاب دینے میں بھی تامل نہ کیا جاتا تھا،جیسے یمن کے بادشاہ ذونواس نے ان سب لوگوں کوجواس کے دین سے پھرگئے تھے پکڑکربھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں ڈلوادیاتھا۔ منذر بن امراؤ القیس نے جنگ اوارہ میں جب بنی شیبان پرفتح پائی توان کی جوان لڑکیوں کوزندہ جلاناشروع کردیااوربنی قیس کے ایک شخص نے بمشکل ان کی جان بخشی کرائی ،

وَقَدْ كَانَ حَلَفَ لَیَقْتُلَنَّ مِنْهُمْ مِائَةً فَسَارَ یَطْلُبُهُمْ حَتَّى بَلَغَ أُوَارَةَ، وَقَدْ نَذَرُوا بِهِ فَتَفَرَّقُوا. فَأَقَامَ مَكَانَهُ وَبَثَّ سَرَایَاهُ فِیهِمْ فَأَتَوْهُ بِتِسْعَةٍ وَتِسْعِینَ رَجُلًا سِوَى مَنْ قَتَلُوهُ فِی غَارَاتِهِمْ فَقَتَلَهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْبَرَاجِمِ شَاعِرٌ لِیَمْدَحَهُ فَأَخَذَهُ لِیَقْتُلَهُ لِیُتِمَّ مِائَةً

عمروبن منذرنے ایک قصور کی بناپرمنت مانی تھی کہ بنی دارم کے سوآدمیوں کو قتل کروں گاچنانچہ اس نے ان پرچڑھائی کی اور۹۹آدمی ہاتھ آئے جنہیں اس نے قتل کر دیا ، اب منت پوری کرنے میں ایک آدمی کی کسررہ گئی تھی،اتفاق سے اس وقت قبیلہ براجم کاایک شخص ادھرسے گزررہاتھا،وہ گوشت کی بوسونگھ کرسمجھاکہ کھاناپک رہاہے اس لئے عمروکے لشکرکی طرف آگیا،عمرونے اپنی منت پوری کرنے کے لئے اس کوبھی قتل کر دیا۔

اسیران جنگ کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیا جاتا تھا اور بسااوقات جوش انتقام میں ان کوانتہادرجہ کی اذیتیں دے دے کرماراجاتاتھا،جیسے عکل اورعرینہ کاقصہ احادیث میں مذکورہے کہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہوں کوپکڑکرلے گئے ،ان کے ہاتھ پاؤ ں کاٹے،ان کی آنکھیں پھوڑیں اورانہیں تپتی ہوئی ریت پرڈال دیایہاں تک کہ وہ پیاس اورتکلیف سے تڑپ تڑپ کرمرگئے۔جنگ اوارہ کاواقعہ مشہورہے

فَبَعَثَ إِلَیْهِمُ الْمُنْذِرُ یَدْعُوهُمْ إِلَى طَاعَتِهِ، فَأَبَوْا ذَلِكَ فَحَلَفَ الْمُنْذِرُ لَیَسِیرَنَّ إِلَیْهِمْ فَإِنْ ظَفِرَ بِهِمْ فَلَیَذْبَحَنَّهُمْ عَلَى قُلَّةِ جَبَلِ أُوَارَةَ حَتَّى یَبْلُغَ الدَّمُ الْحَضِیضَ وَسَارَ إِلَیْهِمْ فِی جُمُوعِهِ فَالْتَقَوْا بِأُوَارَةَ فَاقْتَتَلُوا قِتَالًا شَدِیدًا وَأَجْلَتِ الْوَاقِعَةُ عَنْ هَزِیمَةِ بَكْرٍ وَأَسْرِ یَزِیدَ بْنِ شُرَحْبِیلَ الْكِنْدِیِّ، فَأَمَرَ الْمُنْذِرُ بِقَتْلِهِ، فَقُتِلَ، وَقُتِلَ فِی الْمَعْرَكَةِ بَشَرٌ كَثِیرٌ، وَأَسَرَ الْمُنْذِرُ مِنْ بَكْرٍ أَسْرَى كَثِیرَةً فَأَمَرَ بِهِمْ فَذُبِحُوا عَلَى جَبَلِ أُوَارَةَ، فَجَعَلَ الدَّمُ یَجْمُدُ. فَقِیلَ لَهُ: أَبَیْتَ اللَّعْنَ لَوْ ذَبَحْتَ كُلَّ بَكْرِیٍّ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ لَمْ تَبْلُغْ دِمَاؤُهُمُ الْحَضِیضَ! وَلَكِنْ لَوْ صَبَبْتَ عَلَیْهِ الْمَاءَ! فَفَعَلَ فَسَالَ الدَّمُ إِلَى الْحَضِیضِ وَأَمَرَ النِّسَاءَ أَنْ یُحْرَقْنَ بِالنَّارِ

منذربن امراؤ القیس نے بنی شیبان کی طرف وفدروانہ کیاکہ وہ اس کی اطاعت قبول کر لیں مگر انہوں نے انکار کر دیااس پرمنذربن امراؤ القیس نے حلف اٹھایاکہ اگرمیں بنی شیبان پرغالب آگیاتومیں ان سب کوجبل اوارہ پراس وقت تک قتل کروں گاجب تک کہ ان کاخون زمین تک نہ پہنچ جائے،چنانچہ منذربن امراؤ القیس نے پوری طاقت کے ساتھ ان پرحملہ کیااوران پرغلبہ پالیا، منذربن امراؤ القیس کے ہاتھ جتنے آئے ان سب کواس نے کوہ اوارہ کی چوٹی پربٹھاکرقتل کراناشروع کیااورکہاکہ جب تک ان کاخون بہہ کر پہاڑکی جڑتک نہ پہنچ جائے گاقتل کاسلسلہ بندنہ کروں گا،آخرجب مقتولوں کی تعدادسینکڑوں سے متجاوزہوگئی تومجبورا ًاس نے منت پوری کرنے کے لئے خون پرپانی ڈلوا دیا اور وہ بہہ کرپہاڑکی جڑ تک پہنچ گیااورعورتوں کے بارے میں حکم دیاکہ انہیں آگ میں ڈال دیاجائے۔[96]

 فَأَتَاهُمْ فَأَخَذَ سَرَوَاتِهِمْ وَخِیَارَهُمْ وَجَعَلَ یَقْتُلُهُمْ بِالْعَصَا

امراؤ القیس کے باپ حجربن حارث نے جب بنی اسدپرچڑھائی کی توان کے جتنے آدمی اس کے ہاتھ قیدہوئے ان سب کو اس نے قتل کرا دیا انہیں تلواروں سے نہیں بلکہ ڈنڈوں سے مار مار کرہلاک کیا۔[97]

جوش انتقام میں دشمن کی مردہ لاشوں تک کونہ چھوڑا جاتا تھا ان کے ناک کان کاٹے جاتے تھے ،ان کے اعضاکی قطع وبرید کرکے زندوں کابدلہ مردوں سے لیا جاتا تھا ، اور بسااوقات توایسی ایسی وحشیانہ حرکات کی جاتی تھیں جن کے تصورسے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

وَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ سِنْبِسَ یُقَالُ لَهُ مُصْعَبٌ أُذُنَیْهِ فَخَصَفَ بِهِمَا نَعْلَیْهِ

جنگ یحامیم میں جب بنی جدیلہ کاسرداراسبع بن عمروماراگیاتوبنی سنبس کے ایک شخص نے جسے مصعب کہاجاتاتھانے اس کے دونوں کان کاٹ کر اپنے جوتے میں لگا لئے ۔[98]

جب کسی شخص سے سخت دشمنی ہوتی توقسم کھالیتے تھے کہ اس کوقتل کر کے اس کی کھوپڑی میں شراب پئیں گے ،حرب الفسادمیں جو۲۵سال تک جاری رہی فریقین نے بکثرت ایک دوسرے کے مقتولوں کی کھوپڑیوں میں شراب پی تھی ، جنگ یحامیم میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے تھے ۔حرب جاہلیت میں وفائے عہدکابھی کوئی پاس ولحاظ نہ تھا،جب کبھی دشمن سے انتقام لینے کاکوئی اچھاموقع مل جاتا تو تمام عہدوپیمان توڑکررکھ دیئے جاتے تھے،چنانچہ بنو قینقاع ، بنونضیراوربنوقریظہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے ہوچکے تھے لیکن تینوں نے وقت پران کو توڑ ڈالا ، بنونضیرنے خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کی ، بنوقریظہ نے جنگ احزاب میں علانیہ اسلام کے خلاف شرکت کی،بنوقینقاع نے قریش کے بھڑکانے پرسب سے پہلے اعلان جنگ کیا،قبائل رغل وذکوان نے خودہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چندآدمی مددکے طور پر طلب کیے اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترصحابہ کی ایک جماعت ان کے پاس بھیجی تو انہوں نے بیرمعونہ پرسب کوقتل کردیا،بنولحیان نے مقام رجیع میں خبیب رضی اللہ عنہ ، زیدبن وثنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن طارق کو امان دی اورجب انہوں نے ہتھیارڈال دیئے توتینوں کوپکڑکر باندھ لیا،ایک کوقتل کیااوردوکومکہ لے جاکربیچ ڈالا۔ فارس روم اورحبشہ کی سرحدوں کے قریب بسنے والے قبائل اپنے طاقتواردشمن کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ان ممالک سے بڑی ہوشیاری سے سازباز کرتے اوراگران کادشمن ان کی گرفت میں آجاتاتو اپنے دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر مارتے اوراس سے لطف اندوز ہوتے جس کے انہوں نے کئی طریقے ایجادکررکھے تھے ، جن میں ایک طریقہ یہ تھاکہ دو درختوں کی ٹہنیوں کوجھکاکرنیچے لایا جاتااورمجرم کے اعضاان دونوں ٹہنیوں سے مضبوطی سے باندھ دیئے جاتے پھران ٹہنیوں کواچانک چھوڑ دیاجاتا جس سے اس شخص کاجسم دو حصوں میں چرکرٹہنیوں کے ساتھ لٹکارہ جاتا، ایسا ہی طریقہ گھوڑوں یا اونٹوں کے زریعہ سرانجام دیاجاتاان میں عورت کے دونوں پیروں کو دوگھوڑوں کی دموں سے باندھ کرانہیں مخالف سمت میں سرپٹ دوڑاتے جس سے اس کابدن دوٹکڑوں میں بٹ جاتا،سزادینے کاایک طریقہ جس کانام صبرتھا،اس کاطریقہ یوں تھاکہ اس شخص کوکسی جگہ بندکرکے اس کاکھانا پینا بند کر دیتےجس سے وہ بھوک پیاس سے سسک سسک کردم توڑ دیتا ، اہل عرب کایہ بھی عقیدہ تھاکہ مرنے کے بعدمرنے والے کوسواری کی ضرورت پیش آتی ہے چنانچہ اس مقصدکے لئے وہ مردوں کی قبرکے پاس اونٹ باندھ دیتے اور اس کا کھانا پینا بند کردیتے ، کچھ روزمیں وہ اونٹ تڑپ تڑپ کرہلاک ہوجاتاتویہ سمجھتے کہ یہ اونٹ ان کے مردہ کی سواری بنے گا ،زندہ جانورکے بدن سے گوشت کالوتھڑاکاٹ لیتے تھے اور اس کو پکا کر کھاتے تھے،ایک بے رحمی کا دستوریہ تھاکہ کسی جانور کوباندھ کراس کانشانہ بناتے تھے اورمشق تیراندازی کرتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنگدلی کی ممانعت فرمائی،جانوروں کوباہم لڑاتے ، جانوروں کو دیرتک سازمیں باندھ کر کھڑارکھتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکرنے کی ممانعت کی اورفرمایاکہ جانوروں کی پیٹھوں کواپنی نشست گاہ اورکرسی نہ بناؤ ،جانوروں سے کام تولیتے مگران کی خوراک کاکوئی خاص بندوبست نہ کرتے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَیْنَاهُ، فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ، لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِی یَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ: أَفَلَا تَتَّقِی اللَّهَ فِی هَذِهِ الْبَهِیمَةِ الَّتِی مَلَّكَكَ اللَّهُ إِیَّاهَا؟، فَإِنَّهُ شَكَا إِلَیَّ أَنَّكَ تُجِیعُهُ وَتُدْئِبُهُ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تووہاں ایک اونٹ نظر سے گزرا،جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتورونی سی آوازنکالی اوراس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اوراس کے سرپرہاتھ پھیراتووہ چپ ہوگیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااس اونٹ کا مالک کون ہے ؟یہ کس کااونٹ ہے؟توایک انصاری جوان آیااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میراہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکیاتواس جانورکے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتاجس کااس نے تجھ کو مالک بنایاہے،اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تواسے بھوکارکھتااوربہت تھکاتاہے۔[99]

جانوروں کواپنی پہچان یا علامت یابعض دیگر ضرورتوں کی وجہ سے اونٹوں اوربکریوں کو داغناپڑتاتھا مگراس طرح کے وہ بدصورت نہ ہوجائیں مگراہل عرب اس کاکچھ خاص خیال نہیں کرتے تھے ،

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَیْهِ بِحِمَارٍ قَدْ وُسِمَ فِی وَجْهِهِ، فَقَالَ :أَمَا بَلَغَكُمْ أَنِّی قَدْ لَعَنْتُ مَنْ وَسَمَ الْبَهِیمَةَ فِی وَجْهِهَا أَوْ ضَرَبَهَا فِی وَجْهِهَا؟فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گدھالے جایاگیاجس کے چہرے پرداغ دیاگیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاتمہیں یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے ایسے شخص پرلعنت کی ہے جوکسی جانورکواس کے چہرے پرداغے یااس کے منہ پرمارے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے منع فرمادیا( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کے ان اعضاکوداغتے جوزیادہ نازک نہیں ہوتے)۔[100]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الوَسْمِ فِی الوَجْهِ وَالضَّرْبِ.

جابر رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے منہ پرداغنے اورمارنے سے منع فرمایا۔[101]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَخٍ لِی حِینَ وُلِدَ لِیُحَنِّكَهُ، فَإِذَا هُوَ فِی مِرْبَدٍ یَسِمُ غَنَمًا أَحْسَبُهُ قَالَ: فِی آذَانِهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے بھائی (عبداللہ بن ابی طلحہ)کی ولادت ہوئی تومیں اسے لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھٹی دیں ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکریوں کے باڑے میں پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کونشان لگارہے تھے (شعبہ نے)کہامیراخیال ہے شیخ نے بیان کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کانوں پرنشان لگارہے تھے۔[102]

مہذب دنیاکی حالت زار:

عرب توخیروحشی تھے ،علوم وتہذیب سے ناآشناتھے ،ان کی خونخواریوں کانام تو دنیانے بہت سنا،مگران میں اس قسم کی درندگی وبہیمیت کا موجود ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں ،روم ،ایران اورمصروغیرہ ممالک جواس زمانہ میں دنیاکی تہذیب وشائستگی اورعلم وحکمت کے مرکزبنے ہوئے تھے، اس وقت سیاسی اخلاقی اورمذہبی حیثیت سے جس پستی کی حالت میں تھے اس کے ذکرسے بھی تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ،ایک قوم جب دوسری قوم پرچڑھائی کرتی تھی توتہیہ کرلیتی تھی کہ اس کو مٹا کرچھوڑے گی ،مقاتلین اورغیرمقاتلین کاامتیازعملاًمفقودتھا،دشمن کاہرفردکشتنی وگردن زدنی سمجھاجاتاتھا،عورتیں ،بچے ،بوڑھے ،زخمی ،بیمار،راہب ،زاہدسب پراعمال جنگ کادائرہ یکساں حاوی تھا،فوجوں کے اقدام میں دشمن کی فصلوں کوتباہ کرنا،باغات کوتہس نہس کرنا،عمارات کومسمارکرنا،بستیوں کولوٹنااورجلاناایک عام بات تھی ،کسی شہر کا شدیدمزاحمت کے بعدمفتوح ہوناگویااس کے لئے پیام موت تھا،غضبناک فاتح جب اس میں گھستے تومحض ناموری وشہرت کے حصول اورشاہانہ ہیبت وجلال کے اظہارکے لئے بے اختیارقتل عام شروع کردیتے اورجب خون سے بھی جوش انتقام فرونہ ہوتاتوشہرمیں آگ لگادیتے ،اسیران جنگ کے لئے اس زمانہ میں قتل وغلامی کے سوا کوئی تیسری صورت نہ تھی ۔سفراکااحترام جنگ کے اہم ترین مصالح میں سے ہے مگراس عہدمیں یہ جماعت بھی بسااوقات تعدی سے محفوظ نہ رہتی تھی ،فریق مخالف کی جانب سے کسی بادشاہ کے دربارمیں کوئی ایساپیغام لے جاناجس کووہ اپنی توہین یاکسرشان سمجھتاہوگویاخوداپنی موت کاپیغام لے جاناتھا،ایسے مواقع پرسفراء کاذلیل وخوارہونااورقیدمیں پڑ جانا معمولی بات تھی اورکبھی کبھی ایسابھی ہوتاتھاکہ وہ بے تکلف قتل کردیئے جاتے تھے ،سب سے زیادہ مصیبت مذہبی طبقہ پرآتی تھی ،اگربدقسمتی سے مفتوح ملک کے باشندے کسی دوسرے مذہب کے پیروہوتے توفاتح کاپہلاکام یہ ہوتاتھاکہ ان کے معابدکوتباہ کرے ،متبرک مقامات کوبے حرمت کرے اورمذہبی پیشواؤ ں کو ذلیل وخوار کرے،اس میں بسااوقات یہاں تک غلوکیاجاتاتھاکہ فاتح بزورشمشیرمفتوحوں کومذہب بدلنے پر مجبور کرتاتھا ۔ مہذب اقوام کے نزدیک بھی عہدکوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ۔ روم کے کولوسیم (Colosscum)کے افسانے اب تک تاریخ کے صفحات میں موجودہیں جس میں ہزارہاانسان شمشیرزنی کے کمالات اوررومی امراء کے شوق تماشاکی نذر ہو گئے ، مہمانوں کی تفریح کے لئے یادوستوں کی تواضع کے لئے غلاموں کودرندوں سے بھڑوادینایاجانوروں کی طرح ذبح کرادینایاان کے جلنے کا تماشا دیکھنا یورپ اورایشیاکے اکثر ممالک میں کوئی معیوب کام نہ تھا،قیدیوں اورغلاموں کومختلف طریقوں سے عذاب دے دے کرمارڈالنااس عہدکاعام دستورتھا،جاہل وخونخوارامراء سے گزرکریونان وروما کے بڑے بڑے حکماء وفلاسفہ تک کے اجتہادات میں انسانی جانوں کوبے قصورہلاک کرنے کی بہت سی وحشیانہ صورتیں جائزتھیں ،ارسطو وافلاطون جیسے اساتذہ اخلاق ماں کو یہ اختیاردینے میں کوئی خرابی نہ پاتے تھے کہ وہ اپنے جسم کے ایک حصہ (یعنی جنین)کوالگ کردے ،چنانچہ یونان ورومامیں اسقاط حمل کوئی ناجائزفعل نہ تھا،باپ کواپنی اولاد کے قتل کاپوراحق تھااوررومی مقننوں کواپنے قانون کی اس خصوصیت پرفخرتھاکہ اس میں اولادپرباپ کے اختیارات اس قدر غیر محدودہیں ،حکماء رواقیین کے نزدیک انسان کا خوداپنے آپ کوقتل کرناکوئی براکام نہ تھابلکہ ایساباعزت فعل تھاکہ لوگ جلسے کرکے ان میں خودکشیاں کیاکرتے تھے،حدیہ ہے کہ افلاطون جیساحکیم بھی اسے کوئی بڑی معصیت نہ سمجھتاتھا،شوہرکے لئے اپنی بیوی کاقتل بالکل ایساتھاجیسے وہ اپنے کسی پالتوجانورکوذبح کردے اس لئے قانون یونان میں اس کی کوئی سزانہ تھی ، جیورکھشاکاگہوارہ ہندوستان ان سب سے بڑھا ہوا تھا یہاں مردکی لاش پرزندہ عورت کوجلادیناایک جائزفعل تھااورمذہباًاس کی تاکیدتھی،شودرکی جان کوئی قیمت نہ رکھتی تھی اورصرف اس بناپرکہ وہ غریب برہما کے پاؤ ں سے پیدا ہواہے اس کاخون برہمن کے لئے حلال تھا،مذہبی کتاب ویدکی آوازسن لیناشودرکے لئے اتنابڑاگناہ تھاکہ اس کے کان میں پگھلاہواسیساڈال کراسے مارڈالنانہ صرف جائزبلکہ ضروری تھا،جل پرواکی رسم عام تھی جس کے مطابق ماں باپ اپنے پہلے بچہ کودریائے گنگاکی نذرکردیتے تھے اوراس قساوت کواپنے لئے موجب سعادت سمجھتے تھے ، ایسے تاریک دورمیں اسلام نے آوازبلندکی۔

۔۔۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۰۝۱۵۱ [103]

ترجمہ: اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔

یہ آوازدنیاکے گوشے گوشے میں پہنچی اوراس نے انسان کواپنی جان کی صحیح قیمت سے آگاہ کیا ،ایران میں مزدکی مذہب نے سوسائٹی کے سارے نظام کودرہم برہم کردیاتھا،حرام کاری میں باپ بیٹی اوربھائی بہن تک کی تمیزنہ تھی ،مذہبی پیشواتک بدترین اخلاقی جرائم کے ارتکاب کرتے تھے ، مصر و افریقہ کورومیوں کی غلامی نے بدترین خصائل کامجموعہ بنادیاتھا۔

اسلام میں مقصدجنگ اورطریق جنگ کی تطہیر :

اسلام نے مقصدجنگ مال ودولت،ملک وزمین،شہرت وناموری،حمیت وعصبیت کے بجائے جہادفی سبیل اللہ کو قرار دیا ، طریق جنگ کی تطہیرکی اورغیراہل قتال یعنی عورتیں ،بچے،بوڑھے،بیمار،زخمی،اندھے،مجنون،سیاح،خانقاہ نشین زاہد،معبدوں اورمندروں کے مجاور،جواپنادروازہ بند کر کے بیٹھ جائے اورایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ جولڑنے سے معذورہیں یاوہ جوعملاًجنگ میں حصہ نہ لیں کوقتل کرنے سے منع کیا، اہل عرب کاطریقہ تھاکہ وہ راتوں کو اور خصوصاً آخرشب جب کہ لوگ بے خبرسوئے ہوتے اچانک حملہ کردیتے تھے ،اسلام نے اس طریقہ کارکوروکا،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک صبح نہ ہوجاتی حملہ نہ کرتے ، دشمن کو آگ میں جلانے کی وحشیانہ حرکت کو ممنوع قراردیاکیونکہ آگ کاعذاب سوائے اللہ کے کوئی نہیں دے سکتا،اسلام نے دشمن کوباندھ کرقتل کرنے اورتکلیفیں دے دے کر مارنے کی ممانعت کی،جنگ میں لوٹ مار ، غارتگری ،گھروں میں بلااجازت داخل ہونے اورعورتوں کومارنے کی ممانعت کی،اسلام نے دشمن کونقصان پہنچانے کے لئے اس کی فصلوں کو خراب کرنے، کھیتوں کوتباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام اورآتش زنی وغیرہ کوفسادسے تعبیرکیاہے اور سختی کے ساتھ ناجائزقراردیا،بنی نضیرکی چندکھجوروں کو کاٹنا اور جلانا محض جنگی ضرورت (محاصرہ)پرمبنی تھااوراللہ کے اذن سے تھا،اسلام نے دشمن کے مردوں کوبے حرمت کرنے ،ان کے اعضاکی قطع وبریدسے سختی سے منع کیا،اسلام نے اسیروں کوبھی قتل کرنے سے منع کیااورحکم دیاکہ اسیر کے ساتھ احسان وفیاضی کابرتاؤ یعنی انتہادرجہ کی نرمی وملاطفت کرو،انہیں اچھاکھاناکھلاؤ ،اچھے کپڑے مہیاکرویافدیہ لے کر رہاکردو،جنگ بدرکے قیدی عقبہ بن ابی معیط کواس لئے قتل کیاگیاکہ وہ فتنہ عظیم کا اصل ذمہ دارتھا،سفراء کے قتل اور پیمان شکنی کی ممانعت کی،دورجاہلیت میں اہل عرب کی عادت تھی کہ جب جنگ کونکلتے توراستہ میں جوملتااسے تنگ کرتے اورجب کسی جگہ اترتے توساری منزل پرپھیل جاتے تھے یہاں تک کہ راستوں پر چلنا مشکل ہو جاتا اور خوب شوروہنگامہ برپاکرتے ،اسلام نے اس طرح کی بدنظمی وانتشاراورشوروہنگامہ سے سختی سے روکاہے ۔چنانچہ صرف آٹھ سال میں دنیاکی سب سے زیادہ وحشی قوم کا مقصدجنگ صرف ایک ایسی چیزرہ گئی جس میں شریف اوربہادرآدمی دشمن کوکم سے کم ممکن نقصان پہنچاکراس کے شرکودفع کرنے کی کوشش کرے۔

کسی کی موت پرہتھیاروں کاتوڑدینا:

عرب جاہلیت کایہ دستورتھاکہ جب کسی قبیلہ کاسرداریاقبیلہ کاکوئی بہادرمرجاتاتواس کے ہتھیارتوڑدیئے جاتے تھے ،یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ اب ان ہتھیاروں کاحقیقی معنوں میں کوئی اٹھانے والاباقی نہیں رہا،اسلام نے اس عمل کوجائزنہیں رکھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہتھیاروغیرہ باقی رکھے گئے۔

بے حیائی :

جسم کے قابل شرم حصوں کوچھپاناانسانی فطرت ہے ،لیکن اہل عرب کے لباس پہننے کا مقصدصرف زیب وزینت اورشدیدموسمی اثرات سے خودکوبچاناتھاقابل شرم حصوں کو چھپانا نہیں اس لئے وہ بلاتکلف محفلوں مجلسوں میں اپنا سترکھول دیتے، اگر ازارکھل جاتا تو سترکے بے پردہ ہونے کی انہیں کوئی فکرنہ ہوتی ،عورتیں اورمردسرعام برہنہ نہا لیتے اورراہ چلتے قضائے حاجت کے لئے بیٹھ جاتے ،مردمحفلوں میں رات کو اپنی بیوی کے ساتھ گزرے لمحات کی داستان بڑے فخرسے بیان کرتے ،

أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْزِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الرَّجُلَ یُفْضِی إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِی إِلَیْهِ، ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّهَا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ برالوگوں میں وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور اس کی بیوی ہم آغوش ہو اور پھر وہ اس کی پوشیدہ باتیں ظاہر کرتا پھرے۔ [104]

مردوعورت (قریش کے علاوہ ) برہنہ ہوکربیت  اللّٰہ کاطواف کرلیتے،اسلام نے اس بے حیائی کی رسم کامکمل خاتمہ کردیا،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ بَعَثَهُ فِی الحَجَّةِ الَّتِی أَمَّرَهُ عَلَیْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ یَوْمَ النَّحْرِ فِی رَهْطٍ یُؤَذِّنُ فِی النَّاسِ أَلاَ لاَ یَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ، وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ے مروی ہےسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پرجس کاامیررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنایاتھاانہیں دسویں تاریخ کوایک مجمع کے سامنے یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجاتھا اس سال کے بعدکوئی مشرک حج بیت اللہ نہیں کرسکتااورنہ کوئی شخص ننگارہ کرطواف کرسکتاہے۔[105]

بلوغت کی رسم :

لڑکی کے سن بلوغ کوپہنچنے پردارالندوہ میں ایک رسم اداکی جاتی تھی جس کامنشایہ تھاکہ لڑکی کے قابل نکاح ہونے کااعلان کیاجائےاورخواہشمندآگاہ ہوکررونمائی کے لئے آسکیں اس کاطریقہ یہ تھا،

وَمَا تَدَّرِعُ جَارِیَةٌ إذَا بَلَغَتْ أَنْ تَدَّرِعَ مِنْ قُرَیْشٍ إلَّا فِی دَارِهِ، یَشُقُّ عَلَیْهَا فِیهَا دِرْعَهَا ثُمَّ تَدَّرِعُهُ، ثُمَّ یَنْطَلِقُ بِهَا إلَى أَهْلِهَا

قریش کی جب کوئی لڑکی بالغ ہوتی تواس کوبے نقاب قصی بن کلاب کے مکان پرلایاجاتااوراس کی پرانی اوڑھنی پھاڑدیتے اورنئی اوڑھنی پہنا کر اس کے گھرلے جاتے،پھروہ لڑکی بے نقاب ہی واپس گھرجاتی تھی ،گھرپہنچ کراس پرجوان لڑکیوں کی طرح پابندیاں عائدہوجاتی تھیں ۔[106]

حشرات ارض کاکھانا:

اہل عرب کی نظرمیں کوئی چیزحرام نہ تھی اس لئے وہ مردہ جانورکاگوشت زندہ جانورکاکاٹاہواگوشت اورگدھے کاگوشت،حشرات الارض کن کھجورا،گوہ ، گرگٹ، سہی ،چھپکلی اورچمڑا وغیرہ بھی کھالیتے تھے، جمے ہوئے خون کوکریدکریدکربڑے شوق سے کھاتے،بھوک وقحط میں جانوروں کاخون پی جاتے۔

[1] نزہت المشارق ۸۹؍۱

[2] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا۲۲۲۷

[3] البلد۱۰تا۱۶

[4] شعب الایمان۴۰۲۷

[5] النساء۹۲

[6] النساء۹۲

[7] النساء۹۲

[8] المائدة۸۹

[9] المجادلة۳

[10] الموسوعة الفقهیة۵۲؍۴۴

[11] سنن ابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۵۹

[12] النور ۳۳

[13] ابن سعد۶۲؍۵

[14]بخاری کتاب الادب بَابُ مَا یُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ۶۰۵۰

[15] سننابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ ۵۱۵۷

[16] سنن ابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۵۹

[17] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۶۴

[18] مسند احمد ۲۶۴۰۱،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْبِیَاءِ ۳۱۶۴

[19] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۶۷

[20] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۶۶

[21] سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الْعَبْدِ۲۰۸۲

[22]شعب الایمان ۴۰۲۶

[23] صحیح بخاری کتاب العتق بَابٌ فِی العِتْقِ وَفَضْلِهِ ۲۵۱۷

[24] مسنداحمد۱۷۳۵۷

[25] مسند احمد ۱۷۳۲۶

[26] مسنداحمد۱۸۰۶۴

[27] مسنداحمد۹۴۴۱

[28]صحیح بخاری کتاب العتق بَابٌ أَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ۲۵۱۸

[29] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَیِّدَهُ۲۵۴۷

[30] البدایة والنہایة۳۱۸؍۵

[31] البقرة۲۸۰

[32] التوبة۶۰

[33] محمد۴

[34] سنن ابوداود

[35] ابن ہشام۴۸۵؍۴

[36] الاستیعاب ۱۶۱۴؍۴

[37] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ كَرَاهِیَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِیقِ، وَقَوْلِهِ: عَبْدِی أَوْ أَمَتِی ۲۵۵۲، صحیح مسلم كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَیْرِهَا بَابُ حُكْمِ إِطْلَاقِ لَفْظَةِ الْعَبْدِ، وَالْأَمَةِ، وَالْمَوْلَى، وَالسَّیِّدِ۵۸۷۴، شعیب الایمان۸۲۴۸، مسند احمد ۸۱۹۷،السنن الکبری للبیہقی۱۵۸۱۲،شرح السنة للبغوی۳۳۸۰

[38] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ إِذَا أَتَاهُ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ ۲۵۵۷

[39] اسوہ صحابہ۲۵۸؍۱

[40] صحیح بخاری كِتَاب العِتْقِ بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَیِّدَهُ۲۵۴۶

[41] صحیح بخاری كِتَاب العِتْقِ بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَیِّدَهُ۲۵۴۸

[42] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْمَمْلُوكِ۵۱۵۶

[43] کتاب المعارف ۷۷،ابن ہشام۳۴۰،۳۴۱؍۱،الاستیعاب ۹۶۶؍۳

[44] البدایة والنہایة ۱۸۱؍۷

[45] مستدرک حاکم ۶۵۳۹،ابن ہشام ۷۰؍۱،تفسیرالقرطبی۱۲۹؍۱۴،تفسیرطبری۲۲۳؍۲۰، تفسیر البغوی ۶۱۲؍۳، تفسیر الخازن ۴۱۱؍۳

[46] مشہورواقعات کی حقیقت ۳۹

[47] روح البیان ۴۵۲؍۱۰

[48] تمدن عرب۵۱۷

[49] تمدن عرب۵۲۳

[50] كشف الأستار عن زوائد البزار۶۱؍۳

[51] كشف الأستار عن زوائد البزار۶۱؍۳

[52] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۸۸؍۸،السنن الکبری للنسائی۱۱۳۰۱

[53] تفسیرطبری۱۷۴؍۱۹

[54] النور ۳۳

[55] الاحزاب ۳۳

[56] سنن ابوداودکتاب الترجل بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَرْأَةِ تَتَطَیَّبُ لِلْخُرُوجِ ۴۱۷۳،جامع ترمذی کتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ مُتَعَطِّرَةً ۲۷۸۷،سنن نسائی کتاب الزنیة باب مَا یُكْرَهُ لِلنِّسَاءِ مِنَ الطِّیبِ۵۱۲۹

[57] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِی حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِیهِ۶۹۱،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْحَائِضِ تُنَاوِلُ مِنَ الْمَسْجِدِ ۲۶۱،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الْحَائِضِ تُنَاوِلُ مِنَ الْمَسْجِدِ ۱۳۴،سنن نسائی کتاب الحائض باب بَابُ اسْتِخْدَامِ الْحَائِضِ ۳۸۶

[58] سنن ابوداودکتاب الحیض والاستخاضة بَابُ اسْتِخْدَامِ الْحَائِضِ ۲۶۱

[59] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ عَرَقِ الجُنُبِ، وَأَنَّ المُسْلِمَ لاَ یَنْجُسُ ۲۸۳

[60] البقرة: 222

[61] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِی حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِیهِ۶۹۴،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَمُجَامَعَتِهَا ۲۵۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۷۷،سنن نسائی کتاب الطہارة بَابُ تَأْوِیلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِیضِ ۲۸۹، سنن ابن ماجہ کتاب الطہارة باب ماجاء فی مواکلة الحائض وسورھا۶۴۴

[62] البقرة ۲۲۲

[63]صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ نِسَاءِ قُرَیْشٍ عن ابی ہریرہ  ۶۴۵۶

[64] النحل ۵۸،۵۹

[65] الزخرف ۱۷

[66] الانعام ۱۳۷

[67] الانعام ۱۵۱

[68]بنی اسرائیل ۳۱

[69] التکویر ۸،۹

[70] الانعام ۱۴۰

[71] سنن الدارمی ۲

[72] میزان الاعتدال ۳۳۴؍۴

[73] تقریب التہذیب ۵۸۱

[74] تفسیرطبری۲۴۸؍۲۴

[75] سیرت النبی ۱۵۵؍۱

[76] مسنداحمد۱۷۳۷۳

[77] مسنداحمد۱۹۵۷

[78] مسنداحمد۱۷۵۸۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ، وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ۳۶۶۷

[79] صحیح مسلم کتاب البروالصلة والاداب بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۶۶۹۵،شعب الایمان ۸۳۰۷، مصنف ابن ابی شیبة۲۵۴۳۹

[80] صحیح بخاری کتاب الزکوة بَابٌ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِیلِ مِنَ الصَّدَقَةِ ۱۴۱۸ ، صحیح مسلم کتاب البروالصلة والاداب بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۶۶۹۳، جامع ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّفَقَةِ عَلَى البَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ ۱۹۱۴ ،مسند احمد ۲۴۰۵۵

[81] صحیح  مسلم کتاب البروالصلة والاداب بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۶۶۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ، وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ۳۶۶۸، صحیح ابن حبان ۴۴۸، مسنداحمد۲۴۶۱۱

[82] شعب الایمان۱۹۵۴۲

[83] الممتحنة ۱۲

[84] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ ذِكْرِ أَسْلَمَ وَغِفَارَ وَمُزَیْنَةَ وَجُهَیْنَةَ وَأَشْجَعَ ۳۵۱۶،صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ، وَأَسْلَمَ، وَجُهَیْنَةَ، وَأَشْجَعَ، وَمُزَیْنَةَ، وَتَمِیمٍ، وَدَوْسٍ، وَطَیِّئٍ۶۴۴۴

[85] کتاب المارف لابن قتیبة ۱۲۵؍۱ ، نشوة الطرب فی تاریخ جاهلیة العرب ۳۴۱؍۱

[86] المائدة ۳۸

[87] اعلام النبوة۔قاضی ابوالحسن الماوردی

[88] الفجر ۱۷تا۲۰

[89] النساء ۲

[90] بنی اسرائیل ۳۴

[91] السیر والمغازی لابن إسحاق ۱۹۶؍۱

[92] عیون الاثر ۱۳۲؍۱،الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم والثلاثة الخلفاء۲۳۰؍۱

[93] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی تَغْیِیرِ الِاسْمِ الْقَبِیحِ۴۹۵۵،سنن نسائی كِتَاب آدَابِ الْقُضَاةِ باب إِذَا حَكَّمُوا رَجُلًا فَقَضَى بَیْنَهُمْ۵۳۸۹

[94]مسند احمد۱۶۳۷۶

[96] الکامل فی التاریخ۴۹۷؍۱

[97] الکامل فی التاریخ۴۶۴؍۱

[98] الکامل فی التاریخ۵۶۷؍۱

[99] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابُ مَا یُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْقِیَامِ عَلَى الدَّوَابِّ وَالْبَهَائِمِ ۲۵۴۹

[100] سنن ابوداودکتاب الجھادبَابُ النَّهْیِ عَنِ الوَسْمِ فِی الْوَجْهِ وَالضَّرْبِ فِی الْوَجْهِ۲۵۶۴

[101] جامع ترمذی ابواب الجہادبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ التَّحْرِیشِ بَیْنَ البَهَائِمِ وَالضَّرْبِ وَالوَسْمِ فِی الوَجْهِ۱۷۰۹

[102] سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی وَسْمِ الدَّوَابِّ ۲۵۶۳

[103] الانعام۱۵۱

[104] صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ تَحْرِیمِ إِفْشَاءِ سِرِّ الْمَرْأَةِ۳۵۴۲

[105] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ لاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَلاَ یَحُجُّ مُشْرِكٌ ۱۶۲۲

[106] ابن ہشام۱۲۴؍۱

Related Articles