ہجرت نبوی کا پہلا سال

خلع کے مسائل

وَهُوَ فِی اللُّغَةِ فِرَاقُ الزَّوْجَةِ عَلَى مَالٍ مَأْخُوذٌ مِنْ خَلَعَ الثَّوْبَ لِأَنَّ الْمَرْأَةَ لِبَاسُ الرَّجُلِ

خلع یہ ہے کہ عورت مہرمیں وصول کی ہوئی رقم شوہرکوواپس دے کراس سے علیحدگی اختیارکرلے۔[1]

جَازَ لَهَا أَنْ تُخَالِعَهُ بِعِوَضٍ تَفْتَدِی بِهِ نَفْسَهَا مِنْهُ

عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ فدیہ کے عوض خلع حاصل کرسکتی ہے۔[2]

xعورت کن صورتوں میں خلع لے سکتی ہے؟

 وَجُمْلَةُ الْأَمْرِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا كَرِهَتْ زَوْجَهَا، لِخَلْقِهِ، أَوْ خُلُقِهِ، أَوْ دِینِهِ، أَوْ كِبَرِهِ، أَوْ ضَعْفِهِ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ، وَخَشِیَتْ أَنْ لَا تُؤَدِّیَ حَقَّ اللهَ تَعَالَى فِی طَاعَتِهِ، جَازَ لَهَا أَنْ تُخَالِعَهُ بِعِوَضٍ تَفْتَدِی بِهِ نَفْسَهَا مِنْهُ، لِقَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا یُقِیمَا حُدُودَ اللهِ فَلا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِهِ

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں منجملہ اگرعورت اپنے شوہرکواس کی خلقت وصورت یااس کی سیرت واخلاق یادین یاعمرمیں بڑاہونے ،کمزورہونے یااس کی مثل کسی وجہ سے ناپسندکرتی ہواورڈرتی ہوکہ وہ اس کی فرمانبرداری میں اللہ کاحق ادانہیں کرسکے گی تواس کے لئے جائزہے کہ وہ اس سے اپنے نفس کے بدلے میں معاوضہ(یعنی حق مہروغیرہ) بطورفدیہ اداکرکے خلع اورجدائی اختیارکرلے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا’’اگرزوجین کو اللہ کے حدودپرقائم نہ رہ سکنے کااندیشہ ہوایسی صورت میں اگرتمہیں یہ خوف ہوکہ وہ دونوں حدودالہٰی پرقائم نہ رہیں گے توان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ(گناہ) نہیں کہ عورت اپنے شوہرکوکچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔‘‘[3]

xعورت کابلاوجہ شوہرسے طلاق کامطالبہ کرناحرام ہے۔

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِی غَیْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجوعورت بھی بغیرکسی معقول وجہ کے اپنے شوہرسے طلاق کاسوال کرتی ہے ،اس پرجنت کی خوشبوحرام ہے۔[4]

xکیاخلع حاصل کرنے کے لئے عورت کواپناحق مہرچھوڑناپڑے گا۔

عَنْ حَبِیبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِیَّةِ ،أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ، فَوَجَدَ حَبِیبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِی الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَنَا حَبِیبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: لَا، أَنَا وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَذِهِ حَبِیبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ قَدْ ذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَذْكُرَ، فَقَالَتْ حَبِیبَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِی عِنْدِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتٍ: خُذْ مِنْهَا، فَأَخَذَ مِنْهَا وَجَلَسَتْ فِی أَهْلِهَا

حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھیں ، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لیے نکلے تو دیکھا کہ حبیبہ بنت سہل آپ کے دروازے پر اندھیرے میں کھڑی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کون ہے؟ تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!حبیبہ بنت سہل ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟میں نے کہا یا میں نہیں یا میرا شوہر ثابت بن قیس نہیں (یعنی ہم دونوں اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے)جب ثابت بن قیس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا یہ حبیبہ بنت سہل ہے جو کچھ اللہ کو منظور تھا اس نے بیان کر دیا،حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! ثابت بن قیس نے جو کچھ بطور مہر مجھ کو دیا وہ میرے پاس موجود ہے (اور وہ میں لوٹانے کے لیے تیار ہوں )یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے کہا جو کچھ تو نے دیا تھا وہ اس سے واپس لے لے پس ثابت نے (اپنا دیا ہوا مال) واپس لے لیا اور حبیبہ اپنے گھر جا بیٹھیں (یعنی نکاح فسخ ہو گیا)۔[5]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِی خُلُقٍ وَلاَ دِینٍ، وَلَكِنِّی أَكْرَهُ الكُفْرَ فِی الإِسْلاَمِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ؟قَالَتْ: نَعَمْ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْبَلِ الحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئی اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ثابت بن قیس کے اخلاق اوردین میں کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن اسلام میں کفرکوناپسندکرتی ہوں (یعنی ان کے ساتھ رہ کران کے حقوق زوجیت کوادانہیں کرسکتی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتواس کا باغ(جوانہوں نے مہرمیں دیاتھا) اسے واپس کردے گی؟وہ بولی ہاں ،تورسول اللہ ﷺنے فرمایا(اے ثابت رضی اللہ عنہ )اپناباغ لے لو اور اسے طلاق دے دو۔[6]

وَقَالَ: تَرُدِّینَ حَدِیقَتَهُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْهَا وَأَمَرَهُ یُطَلِّقْهَا

ایک اورروایت میں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم ان(ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس بن شماس)کاباغ واپس کردوگی؟انہوں نے عرض کیاہاں کردوں گی،چنانچہ انہوں نے باغ واپس کردیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہرکو حکم دیاکہ وہ اسے طلاق دے دے۔[7]

فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْخُذَ مِنْهَا حَدِیقَتَهُ، وَلَا یَزْدَادَ

ایک روایت میں یہ لفظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی ثابت رضی اللہ عنہ کو)حکم دیاکہ وہ اس سے اپناباغ وصول کرلے اورزیادہ کچھ نہ لے۔ [8]

نَعَمْ وَزِیَادَةً، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا الزِّیَادَةُ فَلَا وَلَكِنْ حَدِیقَتُهُ

ایک روایت میں ہےثابت رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہاہاں اور کچھ زیادہ بھی دیتی ہوں ، نبی کریم ﷺنے فرمایاتم زیادہ مت دولیکن باغ واپس لوٹا دو۔[9]

والصحیح بهذا الإسناد أنہ مرسل

شیخ الالبانی فرماتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث کی سند مرسل ہے۔[10]

عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قَالَ:لَا یَأْخُذُ مِنْهَا فَوْقَ مَا أَعْطَاهَا

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں شوہراپنے دیے ہوئے سے زیادہ وصول نہ کرے۔[11]

ان دلائل سے معلوم ہواکہ شوہراپنے دیے ہوئے حق مہر سے زیادہ کامطالبہ نہیں کر سکتا ،

قَالَ: رُدِّی عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ وَزِیدِیهِ

جس روایت میں ہےاس عورت نے اس کا باغ واپس کردیا اور کچھ زیادہ بھی دیا۔[12]

ضعیف روایت ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ ،امام شعبی رحمہ اللہ ، امام زہری رحمہ اللہ ، امام حسن رحمہ اللہ ،امام عطا رحمہ اللہ اورامام طاوس رحمہ اللہ یہی موقف رکھتے ہیں ۔

جمہور،امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اگرنفرت کااظہار عورت کی طرف سے ہوتومردکے لئے زیادہ لیناجائزہے ۔

لَا یُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ یَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا وَلَوْ خَالَعَتْهُ لِغَیْرِ مَا ذَكَرْنَا، كَرِهَ لَهَا ذَلِكَ، وَوَقَعَ الْخُلْعُ

ابن قدامہ رحمہ اللہ کا موقف ہے مردکے لئے اپنے دیے ہوئے مال سے زیادہ کا مطالبہ کرنامستحب نہیں ہے اگر کوئی زیادہ وصول کرے گاتویہ مکروہ ہے لیکن خلع واقع ہوجائے گی ، اور اگر بغیرکسی معاوضے کے بھی مردعورت کوخلع دے دے توخلع ہوجائے گا (کیونکہ مقصوددونوں کی رضامندی ہے جس پربھی ہوجائے درست ہے ۔[13]

راجح موقف یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے اپنے دیے ہوئے مہرسے زیادہ کامطالبہ نہیں کرسکتاجیساکہ حدیث کے ان الفاظ وَلَا یَزْدَادَسے واضح ہوتاہے۔[14]

لیکن اگربیوی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دیناچاہے (مثلاًشوہرکی دی ہوئی گاڑی یاگھروغیرہ)توجائزہے کیونکہ شریعت میں اس کی ممانعت موجودنہیں اورجس روایت میں ہے اماالزیادہ فلا

وہ ضعیف ہے جیساکہ گزشتہ سطورمیں اس کابیان گزرچکاہے۔

xخلع پرمیاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے

 ۔۔۔فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا۝۰ۭ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ۔۔۔۝۰۝۱۲۸ [15]

ترجمہ:کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اوربیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر)آپس میں صلح کرلیں ،صلح بہرحال بہترہے۔

(یعنی طلاق وجدائی سے بہترہے کہ اس طرح باہم مصالحت کرکے ایک عورت اسی شوہرکے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمرکاایک حصہ گزارچکی ہے)جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ اوران کی بیوی کے درمیان جدائی کرائی ،آپ نے انہیں حکم دیاباغ قبول کرواوراسے طلاق دے دو۔

xکیاحاکم مردوعورت کے درمیان علیحدگی کااختیاررکھتاہے؟

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا۝۰ۚ اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللهُ بَیْنَهُمَا۔۔۔۝۰۝۳۵ [16]

ترجمہ:اوراگرتم لوگوں کوکہیں میاں اوربیوی کے تعلقات بگڑجانے کااندیشہ ہوتوایک حکم مردکے رشتہ داروں اورایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقررکرووہ دونوں (ثالت،زوجین) اصلاح کرناچاہیں گے تواللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا ۔

فَإِنِ اجْتَمَعَ رَأْیُهُمَا عَلَى أَنْ یُفَرِّقَا أَوْ یَجْمَعَا فَأَمْرُهُمَا جَائِزٌ

اوراگرصلح نہ ہوسکے توجمہورعلماکے نزدیک ان منصفوں کوان دونوں کے درمیان تفریق کااختیارہے۔[17]

xخلع طلاق نہیں فسخ نکاح ہے ۔

فَقَالَتْ حَبِیبَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِی عِنْدِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَمَ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ: خُذْ مِنْهَا، فَأَخَذَ مِنْهَا وَجَلَسَتْ فِی أَهْلِهَا

حبیبہ بنت انصاریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہروہ چیزجواس نے مجھے دی تھی وہ میرے پاس ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے کہااس سے لے لو پھر اس نے (وہ مال)لے لیااوروہ عورت( علیحدگی کے بعد) اپنے اہل وعیال میں جابیٹھی۔[18]

یہ فسخ نکاح ہے ،اگرخلع طلاق ہوتاتووہ عورت اپنے شوہرکے گھرمیں ہی عدت گزارتیں جب کہ ایسانہیں کیاتوثابت ہواکہ خلع فسخ ہے ، جس کی عدت ایک حیض ہے جبکہ طلاق کی عدت تین حیض ہے لہذایہ فسخ ہے۔

خلع میں شوہربیوی سے اپنادیاہوامال لے سکتاہے جبکہ طلاق میں نہیں لے سکتا۔

خلع میں مردکورجوع کاحق نہیں ہوتاجبکہ طلاق میں رجوع کازیادہ مستحق مردہی ہوتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ کواپنی عورت(حبیبہ بنت انصاریہ رضی اللہ عنہا )کوخلع دینے کاکہاتویہ دریافت نہیں کیاکہ وہ حائضہ تونہیں یااس نے طہرمیں اس سے ہم بستری تو نہیں کی حالانکہ ان دونوں حالتوں میں طلاق حرام ہے لہذاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکچھ نہیں پوچھابلکہ مطلقاًخلع کاحکم دیاتومعلوم ہواکہ خلع طلاق نہیں ہے۔

الْخُلْعَ، فَسْخٌ لِلنِّكَاحِ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہےخلع فسخ نکاح ہے۔[19]

إنه لم یصح عن صحابی

امام ابن قیم رحمہ اللہ کاموقف ہے یقیناًکسی ایک صحابی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ یہ(یعنی خلع)طلاق ہے۔

وقال الخطابی فی معالم السنن: إنه احتج ابن عباس على أنه لیس بطلاق بقوله تعالى : {الطلاق مرتان}. انتهى.

خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خلع کے طلاق نہ ہونے کااستدلال اس آیت سے کیاہے’’طلاق دوبارہے۔‘‘۔

والحق أنه فسخ

شیخ البانی اسی کوبرحق قراردیتے ہیں ۔[20]

فقہانے اس مسئلے میں اختلاف کیاہے۔

قال قومٌ: الخُلع تطلیقةٌ، وهو قول علی، وعثمان، وابن مسعود، والحسن والشَّعبی، والنَّخعی، وعطاء، وابن السَّائب، وشُریح، ومجاهد، ومكحول، والزُّهری وهو قول أبی حنیفة وسُفیان وأحد قولی الشَّافعی

جمہور،امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ خلع طلاق ہے، سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما ،امام حسن رحمہ اللہ ،امام شعبی رحمہ اللہ ،امام نخعی رحمہ اللہ ،امام عطا رحمہ اللہ ،سعیدبن مسیب رحمہ اللہ ، امام شریح،امام مجاہد رحمہ اللہ ،امام مکحول رحمہ اللہ ،امام زہری رحمہ اللہ ،امام سفیان رحمہ اللہ

اورایک روایت کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔[21]

الْخُلْعَ ، فَسْخٌ لِلنِّكَاحِ

امام احمد رحمہ اللہ کا موقف ہے خلع فسخ نکاح ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،امام طاؤس رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ ،امام ابوثور رحمہ اللہ ،امام ابن منذر رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ سے ایک روایت کے مطابق یہی قول مروی ہے ۔

خلع کوطلاق کہنے والوں نے صحیح بخاری میں موجودثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیاہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کوحکم دیا

وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً

اسےایک طلاق دے دو۔[22]

اس کوجواب یوں دیاگیاہے کہ یہاں لفظ طلاق لغوی معنی(یعنی اسے چھوڑ دے ) مرادہے ،اصطلاحی وشرعی معنی مرادنہیں ہے۔

xخلع کی عدت ایک حیض ہے۔

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْهُ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِدَّتَهَا حَیْضَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی ( حبیبہ بنت انصاریہ رضی اللہ عنہا )نے ان سے خلع لے لیاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیاکہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔[23]

عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ،فَأَمَرَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَیْضَةٍ.

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ کی بیوی کوایک حیض عدت گزارنے کاحکم دیا۔[24]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ حَیْضَةٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔[25]

وَقَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ؛ فَذَهَبَ إِسْحَاقُ وَأَحْمَدُ فِی أَصَحِّ الرِّوَایَتَیْنِ عَنْهُ دَلِیلًا أَنَّهَا تَعْتَدُّ بِحَیْضَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ مَذْهَبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ حَكَى إجْمَاعَ الصَّحَابَةِ وَلَا یُعْلَمُ لَهُمَا مُخَالِفٌ

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں خلع یافتہ عورت کی عدت میں اختلاف ہے ،اسحاق اور احمد رحمہ اللہ نے صحیح روایات سے دلیل لی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی ،اوریہ مذہب سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک کثیرتعدادنے اس پر اجماع کیاہے اوراس کی مخالفت میں نہیں جانتے۔[26]

وَأَجَازَ عُمَرُ، الخُلْعَ دُونَ السُّلْطَانِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بادشاہ یاقاضی کے حکم کے بغیرخلع جائز قرار دیاہے۔[27]

وَلَا یُفْتَقَرُ الْخُلْعُ إلَى حَاكِمٍ،قَالَ شُرَیْحٌ وَالزُّهْرِیُّ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِیُّ، وَإِسْحَاقُ، وَأَهْلُ الرَّأْیِ. وَعَنْ الْحَسَنِ، وَابْن سِیرِینَ لَا یَجُوزُ إلَّا عِنْدَ السُّلْطَانِ

ابن قدامہ رحمہ اللہ کاموقف ہےخلع کے لئے حاکم کی ضرورت نہیں ،امام شریح رحمہ اللہ ، زہری رحمہ اللہ ، مالک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ،اسحاق رحمہ اللہ اور حنفیہ اور حسن ،ابن سیرن اسی کے قائل ہیں کہ خلع حاکم کے بغیر ناممکن ہے۔[28]

اوراگرشوہرنے غصہ یاہنسی کھیل میں تین طلاق دے دیں تواب خاوندنہ رجوع کرسکتاہے اورنہ نکاح ،البتہ یہ عورت کسی اورجگہ نکاح کرلے اوردوسراخاونداپنی مرضی سے جب چاہےاسے طلاق دے دے تواس کے بعدزوج اول سے اس کانکاح جائزہوگا(اس سے مرادحلالہ نہیں جوایک لعنتی فعل ہے ،حلالہ کی غرض سے کیاگیانکاح ،نکاح نہیں بلکہ زناہے ، اس طریقہ سے عورت زوج اول کے لئے حلال نہیں ہوگی ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الْمُحِلَّ وَالمُحَلَّلَ لَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہﷺنے حلالہ کرنے والے اورکروانے والے دونوں پرلعنت فرمائی ہے۔[29]

اس لئے سوچ سمجھ کرقدم اٹھاؤکہیں تمہیں پچھتانانہ پڑے ۔

 فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ۝۰ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ۝۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۝۲۳۰    [30]

ترجمہ:پھر اگر (دوبارطلاق دینے کے بعدشوہرنے عورت کو تیسری بار)طلاق دے دی تووہ عورت پھراس کے لئے حلال نہ ہوگی الایہ کہ اس کانکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اوروہ اسے طلاق دے دے تب پہلاشوہراوریہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودالہٰی پرقائم رہیں گے توان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،یہ اللہ کی مقررکردہ حدیں ہیں جنہیں وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہاہے جو(اس کی حدوں کوتوڑنے کا انجام ) جانتے ہیں ۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آیَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ یَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٢٣١﴾‏(البقرة)
’’ جب تم عورتوں کو طلاق دو وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کردو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لیے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ،تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اس سے بھی،اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ‘‘

آئین طلاق کی وضاحت :عرب میں نہایت قبیح دستورتھاکہ عورت کی طلاق کی کوئی حدنہیں تھی ،طلاق کے بعدجب عدت گزرنے کاوقت قریب ہوتاتوخاوندرجوع کر لیتا تھا پھرکسی موقعہ پردوبارہ طلاق دے دیتے اورپہلے کی طرح رجوع کرلیتے اوریہ سلسلہ جاری رہتا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پراحسان کرتے ہوئے مردوں کو مزید ہدایت فرمائی کہ اگرعورت سے رجوع کرنے کاارادہ ہے توگواہ مقررکرکے اسے اچھے طریقہ سے بساؤ،اوراگراسے چھوڑنے ہی کامنشاہے توعدت ختم ہونے کے بعداپنے گھرسے بغیر اختلاف ، جھگڑے،دشمنی اوربدزبانی کے رخصت کردومحض انہیں ستانے اوردق کرنے کی خاطر نہ روکے رکھوکہ یہ زیادتی ہوگی اورجوانہیں تنگ کرنے کی خاطرروکے رکھے گاوہ عورتوں پرنہیں بلکہ آپ اپنے نفس پر ہی ظلم کرے گا،اللہ کی آیات کوہنسی مذاق نہ بناؤ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہﷺنے فرمایامذاق سے بھی اگرکوئی مذکورہ کام کرے گاتووہ حقیقت ہی سمجھاجائے گا اورمذاق کی طلاق یانکاح یارجعت نافذہوجائے گی۔[31]

اوراس حقیقت کوفراموش نہ کروکہ اللہ نے تمہیں کتاب اورسنت کی تعلیم دے کردنیاکی رہنمائی کے عظیم الشان منصب پر مامور کیا ہے ، اس لئےاس نعمت عظمٰی کااحترام ملحوظ رکھو،اوراپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرواورخوب جان لوکہ اللہ ہرپوشیدگی اورہر ظاہر کو بخوبی جانتاہے ۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن یَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ یُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٣٢﴾‏ (البقرة )
’’اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں، یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو، اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے، اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

ورثاء کے لئے طلاق کی مزیدآئینی وضاحت :معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن (جمیل بنت یساریافاطمہ بنت یسار)کانکاح ابواالبداح انصاری سے کردیاتھا،اس نے کچھ دنوں بعداپنی بیوی کوطلاق رجعی دے دی ،جب عدت کا عرصہ گزراتواس نے پھرپیغام نکاح بھیجا

فَقُلْتُ لَهُ: زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ،فَطَلَّقْتَهَا ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَالاَ وَاللهِ لاَ تَعُودُ إِلَیْكَ أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلًا لاَ بَأْسَ بِهِ، وَكَانَتِ المَرْأَةُ تُرِیدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْهِ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنے بہنوئی سے کہامیں نے اپنی بہن کی شادی تم سے کی،تمہیں بچھونادیا،تم کوعزت دی، مگرتم نے طلاق دے دی، اوراب دوبارہ پیغام بھیج رہے ہو ، ہرگز نہیں ،اللہ کی قسم !اب وہ کبھی تمہارے پاس واپس نہیں ہوگی، ابوالبداح ایک اچھاشخص تھا اور عورت(جمیل بنت یساریا فاطمہ بنت یسار) بھی اس کے پاس جاناچاہتی تھی لیکن معقل بن یسارنے انکارکردیا، روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ اوران کی ہمشیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ،جس میں عورتوں کے ولی وارثوں کوممانعت کی گئی کہ جب عورت کوطلاق ہوجائے اورعدت بھی گزرجائے توپھرمیاں بیوی رضامندی سے نکاح کرناچاہیں تووہ انہیں نہ روکیں ،شریعت کی اتباع کرکے ایسی عورتوں کوان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینااوراپنی حمیت وغیرت کوجوخلاف شرع ہوشریعت کے ماتحت کردیناہی تمہارے لئے بہتری اورپاکیزگی کاباعث ہے،

فَقُلْتُ: الآنَ أَفْعَلُ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:فَزَوَّجَهَا إِیَّاهُ

چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺسے عرض کیاکہ میں نے اللہ کافرمان سنا اور میں نے مان لیامیں اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کرنے کے لئے تیارہوں اوراپنی بہن کا نکاح اس شخص سے دوبارہ کردیا(اوراپنی قسم کاکفارہ دیا)۔[32]

طلاق کے مسائل

قرآن مجیدمیں ہے

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۔۔۔ ۝۲۲۹ [33]

ترجمہ:طلاق دومرتبہ ہے۔

عَنْ عُمَرَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا،وَاللهُ أَعْلَمُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کوطلاق دی پھراس سے رجوع کرلیا۔[34]

لَقِیطِ بْنِ صَبْرَةَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِی امْرَأَةً وَإِنَّ فِی لِسَانِهَا شَیْئًا یَعْنِی الْبَذَاءَ، قَالَ:فَطَلِّقْهَا إِذًا

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے رسول ﷺ!میری بیوی ہے اوراس کی زبان میں کچھ ہے،یعنی زبان دراز اور بدگوہے،آپﷺنے فرمایاتب اسے طلاق دے دو۔ [35]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال اشیاءمیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔[36]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ الالبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ضعیف روایت ہے۔

عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا طَلَاقَ، وَلَا عَتَاقَ فِی غِلَاقٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نےرسول اللہ ﷺن کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغلاق میں طلاق نہیں اورنہ غلام کوآزادکرناہے۔[37]

اغلاق لغت میں بندکردینے کوکہتے ہیں ۔

اس حدیث میں اس کے دومفہوم بیان کیے جاتے ہیں زبردستی لی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی اورشدیدغصے میں کہ جب انسان کی عقل پرپردہ پڑ جائے توایسی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی جیساکہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعدخودبیان کیاہے

الْغِلَاقُ: أَظُنُّهُ فِی الْغَضَبِ

میرے خیال میں غلاق غضب اور غصے میں ہوتا ہے ۔

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالمُسْتَكْرَهِ لَیْسَ بِجَائِزٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاحالت نشہ میں موجودانسان اورزبردستی کی طلاق نہیں پڑے گی۔[38]

وَقَالَ عُثْمَانُ:لَیْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَكْرَانَ طَلاَقٌ

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کہامجنون اورنشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی۔[39]

امام مالک رحمہ اللہ کواس جرم کی پاداش میں بے حدسزائیں دی گئیں لیکن آپ اپنے صحیح وٹھوس موقف پرمضبوطی سے قائم رہے ،آپ کاکہناتھا

طَلَاقَ الْمُكْرَهِ لَا یَقَعُ

 جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔

امام احمد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابن قدامہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔

طَلَاقَ الْمُكْرَهِ یَقَعُ لِأَنَّهُ مُكَلَّفٌ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہےجبری طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ یہ مکلف کی طرف سے واقع ہوئی ہے۔[40]

مگرپہلاموقف راجح ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہوتاہے۔

xہنسی مذاق میں طلاق کہنابھی قصدہی ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاتین امورایسے ہیں کہ ان کاقصدکرنابھی قصدہے اورہنسی مذاق سے کہنابھی قصدہے ،نکاح،طلاق اوررجوع۔[41]

فَأَمَّا طَلَاقُ الْهَازِلِ فَیَقَعُ عِنْدَ الْجُمْهُورِ، وَهَذَا هُوَ الْمَحْفُوظُ عَنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِینَ

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں جمہورعلماء کے نزدیک ہنسی مذاق میں دی گئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے اورصحابہ وتابعین سے یہی بات محفوظ یعنی صحیح ثابت ہے[42]

x جب عورت ایسے طہرمیں ہوجس میں شوہرنے اسے سے ہم بستری نہ کی ہواوراس نے اس سے پچھلے حیض میں یاواضح حمل میں اسے طلاق نہ دی ہو۔

طلاق کی دوقسمیں ہیں ۔

طلاق سنی۔طلاق بدعی

طلاق سنی میں مندرجہ ذیل شرائط کاپایاجاناضروری ہے۔

x حالت حیض میں طلاق نہ دی گئی ہوجیسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حالت حیض میں اپنی بیوی(آمنہ بنت غفار رضی اللہ عنہا ) کوطلاق دی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پرناراض ہوئے۔[43]

x حالت نفاس میں طلاق نہ دی گئی ہوکیونکہ نفاس طہرنہیں ہوتااورحدیث میں ہے کہ حالت طہرمیں طلاق دی جائے جیسے نبی کریم ﷺنے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لئے فرمایا

لِیُرَاجِعْهَا، ثُمَّ یُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِیضَ فَتَطْهُر

اسے کہوکہ رجوع کرے اوراسے اس وقت تک روک لے کہ طہرشروع ہوجائے پھرایام ماہواری آئیں پھرطہرشروع ہوجائے (پھراگرچاہے توطلاق دے دے)۔[44]

x ایسے طہرمیں طلاق دی گئی ہوجس میں مردنے عورت سے مباشرت نہیں کی،

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ یُطَلِّقَهَا فَلْیُطَلِّقْهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ یَمَسَّهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایااب اگروہ طلاق دینامناسب سمجھیں تواس کی پاکی (طہر)کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دے سکتے ہیں ۔[45]

x ایسے طہرمیں طلاق نہ دے جس سے پچھلے حیض میں اس نے طلاق دی ہو،جیسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺنے انہیں حکم دیا

مُرْهُ فَلْیُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِیُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِیضَ ثُمَّ تَطْهُرَ

وہ اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار رضی اللہ عنہا )کوروک لیں حتی کہ طہرآجائے،پھرحیض آئے اورپھرطہرآجائے،پھراس طہرمیں طلاق دیں ۔[46]

اگر یہ شرط نہ ہوتی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حیض کے بعدآنے والے طہرمیں ہی طلاق کاحکم دے دیتے ،

بعض علماکاخیال ہے کہ پہلے طہرمیں بھی طلاق دی جاسکتی ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراسے حالت طہرمیں یاحمل میں طلاق دو۔

چونکہ یہاں اول وثانی طہرکی قیدنہیں ہے لہذاجب عورت ایام ماہواری سے طہارت حاصل کرلے تواس طہرمیں اسے طلاق دی جاسکتی ہے ۔

راجح بات یہی ہے کہ پہلے طہرمیں ہی طلاق دی جائے گی لیکن چونکہ گزشتہ حدیث صحیحین کی ہے اوراس میں کچھ زیادتی ہے لہذااسے بھی قبول کیاجائے گایعنی جب کسی نے دوران حیض عورت کوطلاق دی ہوتوپہلے طہرمیں نہیں بلکہ ایک طہرچھوڑکردوسرے طہرمیں وہ دوبارہ طلاق دے گااوراگرایسی صورت نہ ہوتوپہلے طہرمیں ہی طلاق دی جائے گی۔

x صرف ایک طلاق دی جائے جیساکہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والے شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اورعہدرسالت میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمارکی جاتی تھیں ،

مَحْمُودَ بْنَ لَبِیدٍ، قَالَ:أُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًافَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ:أَیُلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ؟حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟

محمودبن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک شخص کی خبردی گئی جس نے اپنی عورت کوبیک وقت تین طلاق دے دی تھیں ،یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اورغصے میں فرمانے لگے کیااللہ کی کتاب سے کھیل ہوتاہے حالانکہ میں ابھی تم میں موجودہوں ، حتی کہ ایک آدمی کھڑاہوکرکہنے لگااے اللہ کے رسول ﷺ!کیامیں اسے قتل نہ کردوں ۔[47]

حكم الألبانی : ضعیف

 أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ جَاءَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:یَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الثَّلَاثَ كَانَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا تُرَدُّ إِلَى الْوَاحِدَةِ؟ قَالَ:نَعَمْ

ابوصہباء رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف آئے اورکہااے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما !کیاتم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے شروع خلافت میں ایک طلاق کی طرف روکی جاتی تھیں (روکاجاناایک طلاق کی طرف یعنی تین طلاق ایک باراکٹھادینے سے ایک طلاق سمجھی جاتی تھی) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاہاں وہ روکی جاتی تھیں ۔[48]

اس حدیث سے واضح طور پرثابت ہوتاہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تووہ ایک طلاق شمارہوگی ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں بطورسزاتین کوتین ہی نافذ کر دیا ان کے فرمان کی وجہ سے عموماًصحابہ وتابعین نے یہی فتویٰ دیناشروع کردیاحتی کہ اس حدیث کے راوی صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کومشکوک سمجھ لیا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کایہ سیاسی اورانتظامی فیصلہ ایسارائج ہواکہ بعدکے فقہاءنے بھی اس کی پابندی کی حتی کہ یہ شرعی مسئلہ بن گیاجب کہ حقیقتاًیہ انتظامی اورتعزیری فیصلہ تھاجس طرح انتظامی فیصلے بدلتے رہتے ہیں یہ بھی بدل سکتاہے۔

وَطَلاَقُ السُّنَّةِ: أَنْ یُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ، وَیُشْهِدَ شَاهِدَیْنِ

امام بخاری رحمہ اللہ کاکہناہے سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ حالت طہرمیں عورت کوایک طلاق دے اور اس طہرمیں عورت سے ہم بستری نہ کی ہونیزاس پردوگواہ بھی مقرر کر لے ۔ [49]

فَإِنْ طَلَّقَهَا فِی الطُّهْرِ الَّذِی یَلِی الْحَیْضَةَ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّهَا، فَهُوَ طَلَاقُ سُنَّةٍ

ابن قدامہ رحمہ اللہ کاکہناہےمسنون طلاق یہ ہے کہ آدمی ایسے طہرمیں عورت کو(ایک)طلاق دے کہ جس میں اس نے عورت سے ہم بستری نہ کی ہوپھرعورت کو چھوڑدے حتی کہ وہ اپنی عدت پوری کرلے۔

امام مالک رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کوطلاق سنی قراردیاہے۔

إنَّهُ یُطَلِّقُهَا فِی كُلِّ قُرْءٍ طَلْقَةً

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ سنت یہ ہےعورت کوتین طلاقیں دے(وہ اس طرح کہ)ہرطہرمیں ایک طلاق دے۔[50]

یادرہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق طلاق سنی ہے اورجائزومباح ہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ثُمَّ لِیُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ، أَوْ وَهِیَ حَامِلٌ

جیسےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاپھراسے حالت طہرمیں یاحمل میں طلاق دو۔[51]

اوپربیان کی گئی شرائط کے علاوہ کسی اورصورت میں طلاق کوطلاق بدعی کہاجاتاہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے

 یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۔۔۔ ۝۱      [52]

ترجمہ:اے نبی !جب تم لوگ عورتوں کوطلاق دوتوانہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیاکرو۔

(عدت کے لئے طلاق دینے کے دومطلب ہیں اوردونوں ہی یہاں مرادہیں ایک یہ کہ حیض کی حالت میں عورت کوطلاق نہ دوبلکہ اس وقت طلاق دوجس سے اس کی عدت شروع ہوسکے ،دوسرے یہ کہ عدت کے اندررجوع کی گنجائش رکھتے ہوئے طلاق دو،اس طرح طلاق نہ دے بیٹھوجس سے رجوع کاموقع ہی باقی نہ رہے) ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی بیوی آمنہ بنت غفارکو طلاق دینے کابیان گزرچکاہے ،ان واضح نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے طلاق بدعی حرام ہے۔

اس (بدعی)طلاق کے واقع ہونے میں اورایسی ایک سے زائدطلاقوں کے واقع ہونے میں کہ جن کے درمیان رجوع کاوقفہ نہ ہواختلاف ہے۔

أَنَّ الطَّلَاقَ الْبِدْعِیَّ یَقَعُ، وَهُمْ الْجُمْهُورُ.

جمہورایمہ اربعہ کاموقف ہے کہ طلاق بدعی واقع ہوجائے گی۔[53]

ان کے دلائل یہ ہیں ۔

x آیات طلاق کاعموم۔

x عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دوران حیض اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار رضی اللہ عنہما )کوطلاق دے دی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مُرْهُ فَلْیُرَاجِعْهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہوکہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں ۔

لہذا ثابت ہواکہ دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہوگی کیونکہ رجوع ہمیشہ طلاق کے بعدہی ہوتاہے۔

 عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیقَةٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہایہ طلاق جومیں نے حالت حیض میں دی تھی مجھ پرشمارکی گئی۔[54]

 أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَهَا وَاحِدَةً

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا یہ(جوتم نے طلاق دی ہے)ایک ہے۔[55]

x ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا

فَأَمَرَهُ إِذَا طَهُرَتْ أَنْ یُرَاجِعَهَا ثُمَّ یَسْتَقْبِلَ الطَّلَاقَ فِی عِدَّتِهَا ثُمَّ تَحْتَسِبُ بِالتَّطْلِیقَةِ الَّتِی طَلَّقَ أَوَّلَ مَرَّةٍ

اسے رجوع کاکہوپھروہ عدت میں طلاق دے اوروہ طلاق جواس نے پہلی مرتبہ دی تھی شمارکرلی جائے گی۔ [56]

شیخ البانی رحمہ اللہ نے تفصیلاًروایات نقل کرنے کے بعدجمہورکے قول کوترجح دی ہے۔[57]

بعض علماکاخیال ہے کہ طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ۔

وَلَمْ یَحْصُلْ مَا قَصَدَهُ بِهِ مِنْ الطَّلَاقِ

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاموقف ہےکہ طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی۔[58]

أَنَّهَا لَا تَقَعُ بَلْ تُرَدُّ لِأَنَّهَا بِدْعَةٌ مُحَرَّمَةٌ

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کو بدعت ہونے کے ناطے دھتکار دیا جائے گا۔[59]

ابن حزم رحمہ اللہ بھی اسی کوبرحق سمجھتے ہیں ۔[60]

امام شوکانی رحمہ اللہ بھی اسی کوترجیح دیتے ہیں ۔[61]

صدیق حسن خان رحمہ اللہ بھی اسی کوراجح تصورکرتے ہیں ۔[62]

ان کے دلائل یہ ہیں ۔

xارشادباری تعالیٰ ہے

 یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ۔۔۔۝۱      [63]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تم لوگ عورتوں کوطلاق دوتوانہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیاکرو۔

اس عدت میں طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی،اصول میں بھی یہ بات مسلم ہے کہ کسی چیزکاحکم اس کے متضادسے ممانعت ہوتی ہے اورممانعت ایسی چیزکے فاسدہونے پردلالت کرتی ہے جس سے منع کیاگیاہولہذافاسدچیزسے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔

xحدیث نبوی ہے

 فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

(دین میں )ہرنئی چیزبدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔[64]

جب یہ طلاق بدعی ہے اورہربدعت گمراہی ہے توگمراہی سے حکم کااثبات کیسے ممکن ہے۔

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کوئی ایساعمل کیاجس پرہماراحکم نہیں وہ مردود ہے۔[65]

چونکہ طلاق بدعی کاحکم نہ تواللہ تعالیٰ نے دیاہے اورنہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے، لہذایہ مردودہے توپھراس کا شمار کیونکر ہو سکتا ہے۔

مگرراجح موقف یہی ہے کہ طلاق بدعی واقع ہوجاتی ہے یہی موقف دلائل کی روسے زیادہ قوی ہے۔

اس مسئلہ میں علماکے چارمختلف اقوال ہیں ۔

x سب طلاقیں واقع ہوجائیں گی،جمہوراورائمہ اربعہ کایہی مذہب ہے۔

x ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی کیونکہ یہ بدعت وحرام ہے ،یہ امام ابن حزم رحمہ اللہ اورتابعین کی ایک جماعت کامذہب ہے۔

x اگرمطلقہ سے دخول کرلیاگیاہوتوتینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی بصورت دیگرایک واقع ہوگی۔یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھیوں کی ایک جماعت اورامام اسحاق رحمہ اللہ کامذہب ہے۔

x عورت سے دخول ہواہویانہ ہواہوصرف ایک رجعی طلاق ہی واقع ہوگی۔زیادہ درست بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورامام اسحاق رحمہ اللہ کامذہب یہی ہے۔

آخری قول سب سے زیادہ صحیح اورراجح ہے۔

xکیاایک وقت میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

ایک وقت میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتیں بلکہ وہ صرف اہل شمارہوتی ہے اوراس کے دلائل حسب ذیل ہیں ۔

باری تعالیٰ نے فرمایا

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۔۔۔ ۝۲۲۹ [66]

ترجمہ:طلاق دومرتبہ ہے۔

جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعددوسری مرتبہ یعنی وقفے کے ساتھ،یہ معنی نہیں ہے کہ اکٹھی دوطلاقیں جیساکہ آئندہ آیت بھی اس پرشاہدہے

 ۔۔۔وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ۔۔۔ ۝۵۸      [67]

ترجمہ:اورتمہارے وہ بچے جوابھی عقل کی حدکونہیں پہنچے،تین اوقات میں اجازت لے کرتمہارے پاس آیاکریں ۔

اس آیت میں لفظ مَرّٰتٍ مرة کی جمع ہے اس لفظ کے بعدتین اوقات بیان کیے گئے ہیں جن میں وقفہ ہے نہ کہ اکٹھے ہیں (یعنی ایک مرتبہ فجرسے پہلے،دوسری مرتبہ دوپہرکو،تیسری مرتبہ نمازعشاء کے بعد)لہذامعلوم ہواکہ پہلی آیت میں بھی وقفے کے ساتھ طلاقیں دینا مراد ہیں نہ کہ اکٹھی۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِیهَا، قَالَ: أَجِیزُوهُنَّ عَلَیْهِمْ،فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِی أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِیهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَیْنَاهُ عَلَیْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَیْهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے عہدرسالت،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دوسال تک تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں لیکن جب سیدنا عمر فاروق نے یہ دیکھا کہ لوگ کثرت سے تین طلاقیں دینے لگے ہیں تو انہوں نے فرمایا میں ان تینوں کو ان پر نافذ کروں گا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی جس سے ان کے لئے سہولت دی گئی تھی پس چاہیے کہ ہم اسے نافذکردیں لہذاآپ رضی اللہ عنہ نے اسے ان پرجاری کردیا (یعنی تینوں طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کاحکم دے دیا)۔[68]

طَلَّقَ أَبُو رُكَانَةَ اِمْرَأَتَهُ فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ثَلَاثًا فَحَزِنَ عَلَیْهَا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهَا وَاحِدَةٌ

ابورکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ، پھراس پرنادم وپشیمان ہوئے،رسول اللہ ﷺنے ابورکانہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاوہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں ۔[69]

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:ثُمَّ قَالَ:رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ؟قَالَ: إِنِّی طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی ﷺنے ابورکانہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم اپنی (پہلی)بیوی سے جو رکانہ اوراس کے بھائیوں کی ماں ہے رجوع کرلو،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسولﷺ! میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے معلوم ہے تم اس سے رجوع کرلو۔[70]

اگرتینوں طلاقیں واقع ہوجاتیں تونبیﷺابورکانہ رضی اللہ عنہما کورجوع کاحکم نہ فرماتے بلکہ ام رکانہ کوکسی اورشخص سے نکاح کامشورہ دیتے۔

مَحْمُودَ بْنَ لَبِیدٍ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًافَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ:أَیُلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ؟

محمودبن لبید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے نبیﷺکوخبردی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کواکٹھی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ،آپﷺغضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے اورفرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔[71]

حكم الألبانی :ضعیف

ان تمام دلائل سے معلوم ہوا

یَدُلُّ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا دَفْعَةً كَانَتْ فِی حُكْمِ الْوَاحِدَةِ

اگرکوئی شخص اپنی بیوی کواکٹھی تین طلاقیں دے دیتاہے تووہ درحقیقت ایک ہی شمارہوگی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، زبیربن عوام رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،امام عکرمہ رحمہ اللہ ،اورامام طاوس رحمہ اللہ وغیرہ کابھی یہی فتوی ہے۔[72]

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ثابت کیاہے کہ مجلس واحدکی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پرفتاویٰ ہمیشہ علماءنے دیئے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں

 فَأَفْتَى بِهِ حَبْرُ الْأُمَّةِ وَتُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ كَمَا رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: إذَا قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا بِفَمٍ وَاحِدَةٍ فَهِیَ وَاحِدَةٌ ، وَأَفْتَى أَیْضًا بِالثَّلَاثِ، أَفْتَى بِهَذَا وَهَذَا.وَأَفْتَى بِأَنَّهَا وَاحِدَةٌ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، حَكَاهُ عَنْهُمَا ابْنُ وَضَّاحٍ، وَعَنْ عَلِیٍّ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ وَابْنِ مَسْعُودٍ رِوَایَتَانِ كَمَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَمَّا التَّابِعُونَ فَأَفْتَى بِهِ عِكْرِمَةُ، رَوَاهُ إسْمَاعِیلُ بْنُ إبْرَاهِیمَ عَنْ أَیُّوبَ عَنْهُ، وَأَفْتَى بِهِ طَاوُسٌ، وَأَمَّا تَابِعُو التَّابِعِینَ فَأَفْتَى بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَكَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَغَیْرُهُ عَنْهُ، وَأَفْتَى بِهِ خِلَاسُ بْنُ عَمْرٍو وَالْحَارِثُ الْعُكْلِیُّ، وَأَمَّا أَتْبَاعُ تَابِعِی التَّابِعِینَ فَأَفْتَى بِهِ دَاوُد بْنُ عَلِیٍّ وَأَكْثَرُ أَصْحَابِهِ، حَكَاهُ عَنْهُمْ أَبُو الْمُفْلِسِ وَابْنُ حَزْمٍ وَغَیْرُهُمَا، وَأَفْتَى بِهِ بَعْضُ أَصْحَابِ مَالِكٍ، حَكَاهُ التِّلْمِسَانِیُّ فِی شَرْحِ تَفْرِیعِ ابْنِ الْجَلَّابِ قَوْلًا لِبَعْضِ الْمَالِكِیَّةِ.وَأَفْتَى بِهِ بَعْضُ الْحَنَفِیَّةِ، حَكَاهُ أَبُو بَكْرٍ الرَّازِیّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُقَاتِلٍ، وَأَفْتَى بِهِ بَعْضُ أَصْحَابِ أَحْمَدَ

یعنی صحابہ کرام میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،زبیربن عوام،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے ایک ہونے کافتویٰ دیاہے،تابعین میں امام طاوس رحمہ اللہ ،امام عکرمہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کافتوی دیاہے اورتبع تابعین میں سے محمدبن اسحاق وغیرہ نے بھی یہی فتویٰ دیااورخلاس بن عمرواورحارث عکلی نے اسی کا فتویٰ دیاہے اورتبع تابعین کے اتباع میں سے داودبن علی اوران کے اکثراصحاب نے بھی اسی کافتویٰ دیاہے اوربعض مالکیہ اوربعض حنفیہ اوربعض حنابلہ نے بھی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیاہے۔[73]

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی اس تصریح سے یہ قطعی طورپرثابت ہوجاتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بعدبھی قرناًبعدقرن اصحاب علم وفضل تین طلاقوں کے ایک ہونے کافتویٰ دیتے آئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ جن لوگوں نے صدراول کے فتویٰ پرعمل کیاانہوں نے تین طلاقوں کوایک بتایااورجن لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سیاسی فیصلہ کوماناانہوں نے تین کوتین مانا،چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کافتویٰ بھی دونوں طرح کی حدیث میں منقول ہے مگرتین طلاقوں کے ایک ہونے کافتویٰ خودسیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہے،اس لئے عامل بالکتاب والسنة کایہی مسلک ہے اوریہی ان کامذہب ہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کاسیاسی فیصلہ امضاء ثلاث کوعامل بالکتاب والسنة نہیں مانتے جس طرح بہت سے صحابہ وتابعین وتبع تابعین رحمہ اللہ نے نہیں مانا،علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدة القاری میں اسی طرف اشارہ کیاہے

وَفِیه خلاف. فَذهب طَاوُوس وَمُحَمّد بن إِسْحَاق وَالْحجاج بن أَرْطَأَة وَالنَّخَعِیّ وَابْن مقَاتل والظاهریة إِلَى أَن الرجل إِذا طلق امْرَأَته ثَلَاثًا مَعًا فقد وَقعت عَلَیْهَا وَاحِدَة

طلاق ثلاثہ کے وقوع میں اختلاف ہے،امام طاؤس رحمہ اللہ اورمحمدبن اسحاق وحجاج بن ارطاط وامام نخعی رحمہ اللہ جواستاذامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں اورمحمدبن مقاتل جوشاگردامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں اورظاہریہ سب اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کوتین طلاقیں بیک وقت دے دے تواس پرایک ہی واقع ہوگی ،تین نہیں ہوں گی۔ [74]

جیساکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے،خلاصہ یہی ہے کہ ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ دلائل کے اعتبارسے اورقرآن کریم اورحدیث رسول ﷺکے اصول سے ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں اوراسی پرعمل جمہورصحابہ کاسیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی تین سال تک رہاہے،بعدمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سیاسی وانتظامی فیصلہ سے اختلاف چلااورآج تک چلاآرہاہے اورشایدقیامت تک رہے گا،

والنزاع فیها من عهد الصحابة إلى وقتنا هذا

ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں وقوعہ ثلاثہ کے مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے لے کرہمارے اس زمانے تک نزاع چلاآرہاہے۔[75]

وقت کاشدیدتقاضاہے کہ آج عہدرسالت ہی کے تعامل پرامت متفق ہوجائے۔

xکیاوالدین کے حکم دینے پربیٹے کواپنی بیوی کوطلاق دے دیناچاہیے؟

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَتْ تَحْتِی امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ عُمَرُ یَكْرَهُهَا فَأَمَرَنِی أَنْ أُطَلِّقَهَافَأَبَیْتُ،فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، طَلِّقْ امْرَأَتَكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیری ایک بیوی تھی میں اس سے (بے حد)محبت کرتاتھا(لیکن)میرے والداسے ناپسندکرتے تھے لہذامیرے والدنے مجھے حکم دیاکہ میں اسے طلاق دے دوں ،میں نے انکارکردیا،پھرمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکرکیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما !اپنی عورت کوطلاق دے دو۔ [76]

فِیهِ دَلِیلٌ صَرِیحٌ یَقْتَضِی أَنَّهُ یَجِبُ عَلَى الرَّجُلِ إِذَا أَمَرَهُ أَبُوهُ بِطَلَاقِ زَوْجَتِهِ أَنْ یُطَلِّقَهَا وَإِنْ كَانَ یُحِبُّهَا فَلَیْسَ ذَلِكَ عُذْرًا لَهُ فِی الْإِمْسَاكِ وَیَلْحَقُ بِالْأَبِ الأم لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَیَّنَ أَنَّ لَهَا مِنَ الْحَقِّ عَلَى الْوَلَدِ مَا یَزِیدُ عَلَى حَقِّ الْأَبِ

عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس حدیث میں واضح دلیل موجودہے کہ اگروالدحکم دے توآدمی پراپنی بیوی کوطلاق دیناواجب ہے ،خواہ وہ اس سے (کتنی ہی)محبت کرتاہوپس اس کو رکھنے میں اس سے کوئی عذر قبول نہیں کیا جائےگا،ماں کابھی یہی حکم ہے کیونکہ اس کادرجہ والدسے زیادہ ہے۔[77]

راجح یہ ہے کہ والدین دوصورتوں میں ہی طلاق کاحکم دیں گے ،

۱۔یاتووالدکوئی شرعی سبب بیان کرے گاکہ تمہاری بیوی اخلاقی حوالے سے درست نہیں ، غیرمردوں سے میل جول رکھتی ہے یاغلط قسم کی سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے وغیرہ تو ایسی صورت میں بیٹے پرلازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے دے ،

۲۔یابغیرکسی شرعی سبب کے محض بیٹے کی اپنی بیوی سے بے پناہ محبت دیکھ کرطلاق کاحکم دے گاکہ یہ بیوی سے اتنی محبت کیوں کرتاہے ہم سے اتنی محبت کیوں نہیں کرتاوغیرہ،توایسی صورت میں طلاق دیناضروری نہیں بالخصوص جب اس کی بیوی دینی واخلاقی اعتبارسے بھی درست ہو ۔

قد جاء رجل إلى الإمام أحمد بن حنبل فقال: إن أبی یأمرنی أن أطلق زوجتی؟ فقال له الإمام أحمد: لا تطلقها، فقال الرجل: ألیس الرسول صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قد أمر عبد الله بن عمر أن یطلق زوجته حین أمره عمر بذلك؟ فقال الإمام أحمد: وهل أبوك مثل عمر؟

ایک آدمی نے امام احمد رحمہ اللہ سے آکرکہاکہ میرے والد نے مجھے اپنی بیوی کوطلاق دینے کاحکم دیاہے ،امام احمد رحمہ اللہ نے کہاکہ تم اسے طلاق مت دو، اس آدمی نے کہا کیا رسول اللہ ﷺنے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کوحکم نہیں دیاتھاکہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کاحکم دیاتھا؟توامام احمد رحمہ اللہ نے کہاکیاتمہاراباپ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہے؟۔ [78]

لہذااس حدیث کے متعلق یہی کہنامناسب ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی خاص مصلحت وحکمت کے تحت اپنے بیٹے کوطلاق کاحکم دیاہوگا،علاوہ ازیں مسنداحمدکی ایک روایت سے بھی یہ اشارہ ملتاہے جیساکہ اس میں ہے

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ امْرَأَةً كَرِهْتُهَا لَهُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی عورت سے نکاح کررکھاہے جسے میں اس کے لئے ناپسند کرتا ہوں ۔ [79]

الظاہر أن عمر رضی اللہ عنہ ما كرهها الا لكونه رأى أنها غیر صالحة لابنہ وغرضہ بذلک المصلحة لاسیما وقد کان من الملہمین

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے احمد عبدالرحمٰن البناء فرماتے ہیں ظاہرہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کواس لئے ناپسند کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ ان کے بیٹے کے لئے موزوں نہیں تھی اوراس معاملے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ضرورکسی مصلحت کوملحوظ رکھاہوگابالخصوص اس لئے کہ آپ الہام الٰہی کے حامل تھے۔[80]

فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِی عَلَیْهِ السَّلاَمَ، وَقُولِی لَهُ یُغَیِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ، فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِیلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَیْئًا

نیز ابراہیم علیہ السلام نے جو اسماعیل علیہ السلام کواپنے دروازے کی چوکھٹ بدلنے (یعنی اپنی بیوی کوطلاق دینے)کاحکم دیاتھااس کابھی ایک خاص سبب تھاوہ یہ کہ وہ عورت شکرگزارنہ تھی۔ [81]

xاگرشوہرکی نیت طلاق دینے کی ہواوروہ واضح طورپرطلاق دینے کے بجائے اشارے وکنائے سے ایسی بات کرے توکیا طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

طلاق بالکنایہ یہ ہے کہ شوہرایسے الفاظ میں طلاق دے جس کامفہوم طلاق بھی ہوسکتاہواورکچھ اوربھی ،مثلاًاس جیسے الفاظ کہ آج سے توآزادہے،یایہ کہے کہ تواپنے گھرچلی جا وغیرہ،ایسی صورت میں اگرمردکی نیت طلاق کی ہوگی توطلاق واقع ہوجائے گی،

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ الجَوْنِ، لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ،فَقَالَ لَهَا:لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِیمٍ، الحَقِی بِأَهْلِكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجون کی بیٹی جب نکاح کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گاہ میں لائی گئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہوئے تواس نے کہامیں اللہ سے آپ کی پناہ چاہتی ہوں ،آپ ﷺنے فرمایاتونے بڑی عظیم الشان ذات کی پناہ طلب کی ہے تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل جا۔[82]

جس روایت میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کاجنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے کاقصہ مذکورہے اس میں ہے

حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِینَ، وَاسْتَلْبَثَ الْوَحْیُ، إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْتِینِی، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ ،قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟قَالَ: لَا، بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبَنَّهَا قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَیَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ،قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: الْحَقِی بِأَهْلِكِ فَكُونِی عِنْدَهُمْ حَتَّى یَقْضِیَ اللهُ فِی هَذَا الْأَمْرِ

ان پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزرچکے اوروحی نہ آئی تواچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام لانے والامیرے پاس آیااورکہنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیاہے کہ تم اپنی بیوی کے قریب نہ جاؤ،میں نے پوچھامیں اسے طلاق دے دوں یاپھرمجھے کیا کرنا چاہیے ؟انہوں نے کہانہیں بلکہ صرف اس سے علیحدہ رہواوراس کے قریب نہ جاؤ،اورمیرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیام گیا،میں نے اپنی بیوی سے کہااپنے گھروالوں کے پاس چلی جااوروہیں رہویہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس باب میں کوئی حکم دے۔[83]

معلوم ہواکہ اگرارادہ ونیت ہو تو ایسے الفاظ کے ساتھ طلاق ہوجائے گی اوراگرنیت نہ ہوتوطلاق نہیں ہوگی ۔

فَیَكُونُ كِنَایَةَ طَلَاقٍ إذَا أُرِیدَ بِهِ الطَّلَاقُ كَانَ طَلَاقًا

امیرصنعائی رحمہ اللہ کاکہناہے طلاق کاایساکنایہ واشارہ جس سے طلاق مقصودہوطلاق کے حکم میں ہی ہوگا۔[84]

xکیاعورت کوعلیحدگی کااختیاردینے سے طلاق واقع ہوسکتی ہے؟

جب سیدالانبیاءمحمدرسول اللہﷺکے ہاں فاقوں پرفاقے گزررہے تھے اورازواج مطہرات سخت پریشان تھیں اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجیدمیں فرمایا

 یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۝۲۸وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۲۹ [85]

ترجمہ:اے نبی !اپنی بیویوں سے کہواگرتم دنیااوراس کی زینت چاہتی ہوتوآؤمیں تمہیں کچھ دے کربھلے طریقے سے رخصت کردوں اوراگرتم اللہ اوراس کے رسول اوردارآخرت کی طالب ہوتو جان لوکہ تم میں سے جونیکوکارہیں اللہ نے ان کے لئے بڑااجر مہیا کر رکھا ہے۔

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تونبیﷺنے اپنی بیویوں کو اختیاردے دیا۔[86]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَیَّرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَرْنَا اللهَ وَرَسُولَهُ، فَلَمْ یَعُدَّ ذَلِكَ عَلَیْنَا شَیْئًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہﷺنے ہمیں اختیاردیاتھااورہم نے اللہ اوراس کے رسول کوہی پسندکیاتواسے ہم پرکچھ بھی (یعنی طلاق وغیرہ)شمارنہیں کیاگیا۔[87]

إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اخْتَارَتْ نَفْسَهَاأَنَّ نَفْسَ ذَلِكَ الِاخْتِیَارِ یَكُونُ طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ احْتِیَاجٍ إِلَى نُطْقٍ بِلَفْظٍ یَدُلُّ عَلَى الطَّلَاقِ قَالَ: وَهُوَ مُقْتَبَسٌ مِنْ مَفْهُومِ قَوْلِ عَائِشَةَ الْمَذْكُورِ

اس سے معلوم ہواکہ جب عورت کواختیاردیاجائے اوروہ علیحدگی پسندکرلے تواسے طلاق ہوجائے گی لیکن محض خاوندکے اختیاردینے سے ہی طلاق واقع نہیں ہوگی جیساکہ گزشتہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپﷺنے اسے ہم پرکچھ شمارنہ کیا۔

جمہوراسی کے قائل ہیں ۔[88]

xاگرخاوندطلاق کوکسی اورکے سپردکردے توکیااس کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

وقد سئل أبو هریرة وابن عباس وعمرو بن العاص عن رجل جعل أمر امرأته بید أبیه فأجازوا طلاقه كما أخرجه أبو بكر البرقانی فی كتابه المخرج على الصحیحین

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے ایسے آدمی کے متعلق دریافت کیاگیاجواپنی بیوی کامعاملہ اپنے والدکے ہاتھ میں دے دیتاہے(یعنی اپنے والدکواجازت دے دیتاہے کہ وہ اس کی بیوی کوطلاق دے دے)توان سب نے اس کی طلاق کوجائزقراردیاجیساکہ امام ابوبکرالبرقانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المخرج علی الصحیحین میں اسے نقل کیاہے۔[89]

x اگر طلاق رجعی ہو(یعنی شوہرنے عورت کوایک یادوطلاقیں دی ہوں )توشوہرعدت طلاق میں اپنی بیوی کازیادہ مستحق ہے جب چاہے رجوع کرسکتاہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا۔۔۔ [90]

ترجمہ:ان کے شوہرتعلقات درست کرلینے پرآمادہ ہوں تووہ اس عدت کے دوران میں انہیں پھراپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دارہیں ۔

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۔۔۔۝۲۳۱ۧ      [91]

ترجمہ: اورجب تم عورتوں کوطلاق دے دواوران کی عدت پوری ہونے کوآجائے تویابھلے طریقے سے انہیں روک لویابھلے طریقے سے رخصت کردو۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوطلاق دی تونبی کریمﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا

مُرْهُ فَلْیُرَاجِعْهَا

اسے حکم دوکہ وہ اس سے رجوع کرے۔[92]

عَنْ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہﷺنے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کوطلاق دی پھر رجوع کرلیا۔ [93]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، وَلَا یَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ یَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِی أَرْحَامِهِنَّ} [94]] الْآیَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا، وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: {الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ}[95]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت ’’جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو ، وہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ، اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو اسے چھپائیں ،اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں توانہیں ہر گز ایسا نہ کرنا چاہئے ، ان کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں تو وہ اس عدت کے دوران میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں ،عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے، اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔‘‘کامطلب پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا(جاہلیت میں )جب آدمی اپنی بیوی کوطلاق دے دیتاتووہ اس سے رجوع کازیادہ حق دارہوتاخواہ اس نے تینوں طلاقیں ہی دے دی ہوں پھرآیت’’طلاق دومرتبہ ہے۔‘‘ نے اسے (یعنی تین طلاقوں کے بعدرجوع کو)منسوخ کردیا۔[96]

وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الْحُرَّ إِذَا طَلَّقَ الْحُرَّةَ بَعْدَ الدُّخُولِ بِهَا تَطْلِیقَةً أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا وَلَوْ كَرِهَتِ الْمَرْأَةُ ذَلِكَ

اہل علم نے اجماع کیاہے کہ جب کوئی آزادشخص اپنی آزادبیوی کوپہلی یادوسری رجعی طلاق دے تووہ اس سے رجوع کرنے کازیادہ حق دارہے اگرچہ عورت اسے ناپسندہی کیوں نہ کرتی ہو۔[97]

xرجوع کس طرح کیاجاسکتاہے؟

راجح بات یہ ہے کہ رجوع قول وفعل ہرطرح سے کیاجاسکتاہے یعنی گفتگووکلام وغیرہ کے ساتھ یاجماع وہم بستری کے ساتھ،دونوں طرح درست ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

إذَا جَامَعَهَا فَقَدْ رَاجَعَهَا

احناف اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کاموقف ہےہم بستری کے ذریعے رجوع ہوجائے گاخواہ نیت ہویانہ ہو۔

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ ،امام حسن رحمہ اللہ ،امام ثوری رحمہ اللہ اورایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔

قَالَ مَالِكٌ وَإِسْحَاقُ: بِشَرْطِ أَنْ یَنْوِیَ بِهِ الرَّجْعَةَ،قَالَ الشَّافِعِیُّ: لَا تَكُونُ الرَّجْعَةُ إلَّا بِالْكَلَامِ

امام مالک رحمہ اللہ اوراسحاق رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ ہم بستری کے ذریعے تب رجوع ہوگاجب اس کی نیت ہو،امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ رجوع صرف کلام کے ساتھ ہی کیاجائے گا،امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک یہی قول مروی ہے۔[98]

وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَیْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٢٣٣﴾‏(البقرة )
’’مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو، اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو، ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو، ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں،اوراگرتمہاراارادہ اپنی اولادکودودھ پلوانے کاہوتوبھی تم پرکوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کردو،اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ ‘‘

مسئلہ رضاعت :

جوباپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولادپوری مدت رضاعت تک دودھ پیئے تومائیں اپنے بچوں کوکامل دوسال دودھ پلائیں ،

 ۔۔۔وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ۔۔۔ ۝۱۴         [99]

ترجمہ: اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔

اگرباپ طلاق دے دے یاعورت خلع لے لے اورعورت کی گودمیں دودھ پیتابچہ ہو توبچے کودودھ پلانے کی صورت میں بچے کے باپ کواپنے شہروں کےدستورکے مطابق انہیں کھاناکپڑادیناہوگا،

۔۔۔ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ۝۰ۚ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ۔۔۔ ۝۶ۭ [100]

ترجمہ:پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو )دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو اور بھلے طریقے سے (اُجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو ۔

قَالَ الضَّحَّاكُ: إِذَا طلَّقَ [الرَّجُلُ] زَوَّجْتَهُ وَلَهُ مِنْهَا وَلَدٌ، فَأَرْضَعَتْ لَهُ وَلَدَهُ، وَجَبَ عَلَى الْوَالِدِ نَفَقَتُهَا وَكِسْوَتُهَا بِالْمَعْرُوفِ

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کوئی اپنی بیوی کوطلاق دے دے اوراس سے اس کابچہ بھی ہواوروہ اس کے بچے کودودھ پلائے تووالدپریہ واجب ہے کہ دستورکے مطابق اسے نفقہ اورکپڑادے۔[101]

مگرکسی پراس کی وسعت سے بڑھ کربارنہ ڈالناچاہیے،

لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ۝۰ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللهُ۝۰ۭ لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا ۔۔۔ ۝۷ۧ [102]

ترجمہ:خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے، اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔

اگرماں بچے کواپنے پاس رکھناچاہے تواس کی مامتاکے جذبے کونظراندازکرکے بچے کوزبردستی اس سے نہ چھین لیاجائےیابغیرخرچ کی ذمہ داری اٹھانے اوراسے دودھ پلانے پرمجبورکیاجائے، اورنہ ہی باپ کو تنگ کیاجائے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کردےیااس کی حیثیت سے زیادہ کامالی مطالبہ کرے،باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے اداکریں تاکہ نہ توعورت کوتکلیف ہواورنہ ہی بچے کی پرورش اورنگہداشت متاثرہو،لیکن اگرفریقین باہمی رضامندی اورمشورے سے دوسال سے قبل بچے کا دودھ چھڑاناچاہیں توایساکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ،اوراگرتمہاراخیال اپنی اولادکوکسی غیرعورت سے دودھ پلوانے کاہوتواس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کاجوکچھ معاوضہ طے کرووہ معروف طریقے پراداکرو،اللہ سے ڈرواورجان رکھوکہ وہ تمہارے اقوال وافعال کوبخوبی جانتا ہے۔

[1] فتح الباری ۳۹۵؍۹

[2] المغنی لابن قدامة۳۳۰؍۷

[3] المغنی لابن قدامة۳۲۳؍۷

[4] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْخُلْعِ ۲۲۲۶، سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ كَرَاهِیَةِ الْخُلْعِ لِلْمَرْأَةِ۲۰۵۵،مسنداحمد۲۲۳۷۹،سنن الدارمی۲۳۱۶،صحیح ابن حبان ۴۱۸۴

[5] سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی الْخُلْعِ۲۲۲۷

[6] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الخُلْعِ وَكَیْفَ الطَّلاَقُ فِیهِ۵۲۷۳،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الْخَلْعِ۳۴۹۳،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب المختلعة تاخذذمااعطاھا۲۰۵۷ ،سنن دارقطنی ۳۶۲۸

[7] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الخُلْعِ وَكَیْفَ الطَّلاَقُ فِیهِ۵۲۷۴

[8]سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الْمُخْتَلِعَةِ تَأْخُذُ مَا أَعْطَاهَا۲۰۵۷

[9]سنن الدارقطنی۳۶۲۹

[10] ارواء الغلیل۱۰۴؍۷

[11] مصنف عبدالرزاق ۱۱۸۴۴

[12] سنن الدارقطنی ۳۶۲۷،السنن الکبری للبیھقی۱۴۸۵۰

[13] المغنی۳۲۵،۳۲۶؍۷

[14] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الْمُخْتَلِعَةِ تَأْخُذُ مَا أَعْطَاهَا۲۰۵۷

[15] النساء ۱۲۸

[16] النساء ۳۵

[17] فتح القدیر۵۳۵؍۱،تفسیراللباب فی علوم الکتاب ۳۶۸؍۶، تفسیرالرازی ۷۴؍۱۰

[18] موطاامام مالک کتاب الطلاق باب ماجآء فی الخلع ۶۲

[19] الفتاوی الکبری لابن تیمیة۲۷۹؍۳

[20] التعلیقات الرضیة علی الروضة۲۷۳؍۲

[21] اللباب فی علوم الکتاب۱۴۲؍۴

[22] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الخُلْعِ وَكَیْفَ الطَّلاَقُ فِیهِ۵۲۷۳

[23] جامع ترمذی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الخُلْعِ۱۱۸۵، سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْخُلْعِ۲۲۲۹

[24] جامع ترمذی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الخُلْعِ۱۱۸۵، سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ۲۰۵۹،سنن نسائی کتاب الطلاق باب عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ ۳۵۲۷

[25] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْخُلْعِ۲۲۳۰

[26] اعلام الموقعین۵۳؍۲

[27] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الخُلْعِ وَكَیْفَ الطَّلاَقُ فِیهِ

[28] المغنی ۵۷۴۷،۳۲۴؍۷

[29] مسنداحمد۴۳۰۸،جامع ترمذی کتاب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُحِلِّ وَالمُحَلَّلِ لَهُ۱۱۱۹،۱۱۲۰،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ إِحْلَالِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا وَمَا فِیهِ مِنَ التَّغْلِیظِ۳۴۴۵،سنن الدارمی ۲۳۰۴

[30] البقرة ۲۳۰

[31]سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الطَّلَاقِ عَلَى الْهَزْلِ۲۱۹۴،جامع ترمذی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الجِدِّ وَالهَزْلِ فِی الطَّلاَقِ۱۱۸۴،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاقبَابُ مَنْ طَلَّقَ أَوْ نَكَحَ أَوْ رَاجَعَ لَاعِبًا۲۰۴۰

[32] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ یَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ عن معقل۴۵۲۹،وکتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ۵۱۳۰،وکتاب الطلاق بَابُ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ۵۳۳۰،۵۳۳۱ ،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الْعَضْلِ۲۰۸۷،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۸۱

[33] البقرة ۲۲۹

[34] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْمُرَاجَعَةِ۲۲۸۳، سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ الرَّجْعَةِ۹۰۶۰ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب الطلاق۲۰۱۷ ،سنن الدارمی۲۳۱۱ ، صحیح ابن حبان ۴۲۷۵

[35] صحیح ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الِاسْتِنْثَارِ۱۴۲، صحیح ابن حبان ۱۰۵۴

[36] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الطَّلَاقِ ۲۱۷۸

[37] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الطَّلَاقِ عَلَى غَلَطٍ۲۱۹۳

[38] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ وَالكُرْهِ، وَالسَّكْرَانِ وَالمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالغَلَطِ وَالنِّسْیَانِ فِی الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَیْرِهِ

[39] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ وَالكُرْهِ، وَالسَّكْرَانِ وَالمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالغَلَطِ وَالنِّسْیَانِ فِی الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَیْرِهِ

[40] المغنی ۳۸۲؍۷

[41] سنن ابوداود کتاب الطلاق بَابٌ فِی الطَّلَاقِ عَلَى الْهَزْلِ۲۱۹۴،جامع ترمذی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الجِدِّ وَالهَزْلِ فِی الطَّلاَقِ۱۱۸۴،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاقبَابُ مَنْ طَلَّقَ أَوْ نَكَحَ أَوْ رَاجَعَ لَاعِبًا۲۰۴۰

[42]۔اعلام الموقعین ۱۰۰؍۳

[43] صحیح بخاری کتاب الطلاق باب قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا العِدَّةَ۵۲۵۱ ،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ تَحْرِیمِ طَلَاقِ الْحَائِضِ بِغَیْرِ رِضَاهَا، وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلَاقُ، وَیُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا۳۶۵۲،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی طَلَاقِ السُّنَّةِ۲۱۷۹،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ وَقْتِ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِی أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ۳۴۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ السُّنَّةِ۲۰۲۰، مسنداحمد۵۲۹۹

[44] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سُورَةُ الطَّلاَقِ۴۹۰۸،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ تَحْرِیمِ طَلَاقِ الْحَائِضِ بِغَیْرِ رِضَاهَا، وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلَاقُ، وَیُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا۳۶۵۲

[45] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سُورَةُ الطَّلاَقِ۴۹۰۸،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ تَحْرِیمِ طَلَاقِ الْحَائِضِ بِغَیْرِ رِضَاهَا، وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلَاقُ، وَیُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا۳۶۵۲

[46] صحیح بخاری کتاب الطلاق باب قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا العِدَّةَ ۵۲۵۱

[47] صحیح نسائی کتاب الطلاق باب الثَّلَاثُ الْمَجْمُوعَةُ وَمَا فِیهِ مِنَ التَّغْلِیظِ۳۴۳۰

[48] سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ بِالزَّوْجَةِ ۳۴۰۶

[49] صحیح بخاری کتاب الطلاق باب قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا العِدَّةَ

[50] المغنی ۳۶۸؍۷

[51] سنن ابوداود کتاب الطلاق بَابٌ فِی طَلَاقِ السُّنَّةِ ۲۱۸۱،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ تَحْرِیمِ طَلَاقِ الْحَائِضِ بِغَیْرِ رِضَاهَا، وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلَاقُ، وَیُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا۳۶۵۹ ،جامع ترمذی ابواب الطلاقبَابُ مَا جَاءَ فِی طَلاَقِ السُّنَّةِ ۱۱۷۶

[52] الطلاق ۱

[53] نیل الاوطار۲۶۶؍۶

[54] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِكَ الطَّلاَقِ۵۲۵۳

[55] سنن الدارقطنی ۳۹۰۷

[56]سنن الکبری للبیھقی ۱۴۹۲۶

[57] ارواء الغلیل۱۳۳؍۷

[58] الفتاوی۸۹؍۳۳

[59] زادالمعاد۲۲۶؍۵

[60] المحلی ۲۵۶؍۳

[61] نیل الاوطار۲۷۰؍۶

[62] الروضة الندیة۵۳؍۲

[63] الطلاق ۱

[64] مسنداحمد۱۷۱۴۴

[65] صحیح بخاری کتاب الصلح بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ۲۶۹۷ ،صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ نَقْضِ الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ، وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ۴۴۹۲

[66] البقرة ۲۲۹

[67] النور۵۸

[68] صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ۳۶۷۳، سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیقَاتِ الثَّلَاثِ۲۱۹۹،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ بِالزَّوْجَةِ۳۴۳۵،بلوغ المرام کتاب الطلاق باب الطلاق ۱۰۳۱

[69] بلوغ المرام کتاب الطلاق باب الطلاق ۱۰۳۴،مسند احمد۲۳۸۷

[70] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیقَاتِ الثَّلَاثِ۲۱۹۶

[71]سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثَّلَاثُ الْمَجْمُوعَةُ وَمَا فِیهِ مِنَ التَّغْلِیظِ۳۴۳۳، بلوغ المرام کتاب الطلاق باب الطلاق۱۰۳۲

[72] نیل الاوطار۲۷۰؍۶

[73] اعلام الموقعین۳۴؍۳

[74] عمدة القاری۲۳۳؍۲۰

[75] اغاثة اللھفان۳۲۳؍۱

[76] جامع ترمذی کتاب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یَسْأَلُهُ أَبُوهُ أَنْ یُطَلِّقَ زَوْجَتَهُ۱۱۸۹،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الرَّجُلِ یَأْمُرُهُ أَبُوهُ بِطَلَاقِ امْرَأَتِهِ۲۰۸۹،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی بِرِّ الْوَالِدَیْنِ ۵۱۳۸، مسنداحمد۵۱۴۴

[77] تحفة الاحوذی۳۰۹؍۴

[78]فتاوی یسألونک۳۸۵؍۲

[79] مسند احمد ۵۰۱۱

[80] الفتح الربانی ۴؍۱۷

[81]صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا۳۳۶۴

[82]صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ مَنْ طَلَّقَ، وَهَلْ یُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ۵۲۵۴ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ مُتْعَةِ الطَّلَاقِ ۲۰۳۸ ، سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ مُوَاجَهَةِ الرَّجُلِ الْمَرْأَةَ بِالطَّلَاقِ۳۴۴۶

[83] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ حَدِیثِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَوْلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا۴۴۱۸،صحیح مسلم کتاب بَابُ حَدِیثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَیْهِ۷۰۱۶ ،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ۳۱۰۲

[84] سبل السلام۲۶۲؍۲

[85] الاحزاب۲۸،۲۹

[86]صحیح بخاری کتاب التفسیر بَابُ قَوْلِهِ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ۴۷۸۵، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ۳۶۸۱

[87] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ مَنْ خَیَّرَ نِسَاءَهُ۵۲۶۲، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ ۳۶۸۴،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْخِیَارِ۲۲۰۳،جامع ترمذی کتاب اطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الخِیَارِ۱۱۷۹ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَهُ ۲۰۵۳،مسند احمد۲۴۱۸۱، صحیح ابن حبان۴۲۶۷

[88] نیل الاوطار۲۸۶؍۶،تحفة الاحوذی۲۹۳؍۴

[89] الروضة الندیة۵۷؍۲

[90] البقرة۲۲۸

[91] البقرة۲۳۱

[92]صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ تَحْرِیمِ طَلَاقِ الْحَائِضِ بِغَیْرِ رِضَاهَا، وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلَاقُ، وَیُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا۳۶۵۲،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ وَقْتِ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِی أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ۳۴۱۸

[93]سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْمُرَاجَعَةِ۲۲۸۳،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّلَاقِ باب الطلاق۲۰۱۷ ،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ الرَّجْعَةِ۳۵۹۰ ،سنن الدارمی۲۳۱۱، صحیح ابن حبان ۲۳۷۵

[94] البقرة: 228

[95] البقرة: 229

[96] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیقَاتِ الثَّلَاثِ ۲۱۹۵

[97]فتح الباری ۴۸۳؍۹، نیل الاوطار ۲۹۹؍۶

[98] نیل الاوطار ۲۹۹؍۶

[99] لقمان۱۴

[100] الطلاق۶

[101] تفسیرابن کثیر۶۳۴؍۱

[102] الطلاق۷

Related Articles