ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

 خلیفہ دوئم سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کاحلیہ:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ قَالَ:رَأَیْتُ عُمَرَ رَجُلا أَبْیَضَ. أَمْهَقَ. تَعْلُوهُ حُمْرَةٌ. طُوَالا. أَصْلَعَ.

عبداللہ بن عامربن ربیعہ سے مروی ہےمیں  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کو دیکھاکہ وہ بڑے گورے آدمی تھے جن پرسرخی غالب تھی ،لمبے قدکے تھے اورچندیاپربال نہ تھے۔[1]

وَكَانَ فِی رِجْلَیْهِ رَوَحٌ

دونوں پاؤں  کے درمیان کشادگی تھی(یعنی چلنے میں  پاؤں  پھیلاکرچلتے تھے)۔[2]

ایک روایت میں  ان کاحلیہ یوں  بیان کیاگیا ہے۔

صفته رضی الله عنه كان رَجُلًا طِوَالًا أَصْلَعَ أَعْسَرَ أَیْسَرَ أَحْوَرَ الْعَیْنَیْنِ، آدَمَ اللوْنِ، وَقِیلَ كَانَ أَبْیَضَ شَدِیدَ الْبَیَاضِ تَعْلُوهُ حُمْرَةٌ، أَشْنَبَ الْأَسْنَانِ، وَكَانَ یُصَفِّرُ لِحْیَتَهُ، وَیُرَجِّلُ رَأْسَهُ بِالْحِنَّاءِ

قددراز،سرکے اگلے حصے کے بال اڑے ہوئے ،آنکھوں  کی سفیدی بہت سفیداورسیاہی بہت سیاہ ،گندم گوں  اوربعض کاقول ہے کہ آپ بہت سفیدرنگ کے تھے جس پرسرخی غالب تھی ،دانت سفیداورخوب صورت تھے ،آپ داڑھی کوزردرنگ دیتے تھے اورمہندی کے ساتھ اپنے سرکوکنگھی کرتے تھے۔[3]

قَالَ: كَانَ عُمَرُ رَجُلا أَیْسَرَ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔[4]

ویكنى أَبَا حَفْص

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفص تھی۔[5]

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ کاپہلاخطبہ:

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ فِیمَا نَظُنُّ أَنَّ أَوَّلَ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا عُمَرُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَقَدِ ابْتُلِیتُ بِكُمْ وَابْتُلِیتُمْ بِی وَخَلَفْتُ فِیكُمْ بَعْدَ صَاحِبِی. فَمَنْ كَانَ بِحَضْرَتِنَا بَاشَرْنَاهُ بِأَنْفُسِنَا وَمَهْمَا غَابَ عَنَّا وَلَّیْنَا أَهْلَ الْقُوَّةِ وَالأَمَانَةِ. فَمَنْ یحسن نزده حسنا ومن یسیء نُعَاقِبْهُ وَیَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ.

حسن فرماتے ہیں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے پہلے خطبے میں  اللہ کی حمدوثناکے بعد فرمایاامابعد!میں  تمہارے کام میں  شامل کردیاگیاہوں  ،میں  اپنے دونوں  صاحبوں  کے بعدتم پرخلیفہ بنایا گیاہوں  جوشخص ہمارے سامنے ہوگاہم خودہی اس کاکام کریں  گے (یعنی اس کے معاملات ومقدمات کی سماعت خودہی کریں  گے)اورجوہم سے دورہوگاتوہم اہل قوت وامانت کووالی بنائیں  گے ،جواچھائی کرے گاہم اس کے ساتھ زیادہ اچھائی کریں  گے اورجوبرائی کرے گاہم اسے سزادیں  گے اوراللہ ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے۔[6]

امیرالمومنین کالقب :

قَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم لما تُوُفِّیَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقَ كَانَ یُقَالُ لَهُ خَلِیفَةُ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللهُ. وَاسْتُخْلِفَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قِیلَ لِعُمَرَ خَلِیفَةُ خلیفة رسول الله. فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: فَمَنْ جَاءَ بَعْدَ عُمَرَ قِیلَ له خلیفة خلیفة خلیفةرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. فَیَطُولُ هَذَا. وَلَكِنْ أَجْمِعُوا عَلَى اسْمٍ تَدْعُونَ بِهِ الْخَلِیفَةَ یُدْعَ بِهِ مَنْ بَعْدُهُ مِنَ الخلفاء، فقال بعض أصحاب رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَحْنُ الْمُؤْمِنُونَ وَعُمَرُ أَمِیرُنَا. فَدُعِیَ عُمَرُ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ سُمِّیَ بِذَلِكَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنائے گئے توانہیں  خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کہاجاتاتھا،جب سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  فوت ہوگئے توسیدناعمر  رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے توانہیں  خلیفہ خلیفہ رسول اللہ کہاجاتاتھا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے کہاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے بعدجوشخص آئے گااسے خلیفہ خلیفہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کہاجائے گاتویہ بہت طویل ہوجائے گاتم لوگ کسی ایسے نام پراتفاق کرلوجس سے اپنے خلیفہ کوپکارواورجس سے بعدکے خلیفہ بھی پکارے جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب  رضی اللہ عنہم نے کہاہم مومن ہیں  اور سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ہمارے امیرہیں  لہذاانہیں  امیرالمومنین پکاراجائے ،چنانچہ وہ پہلے شخص ہیں  جنہیں  امیرالمومنین پکاراگیا۔[7]

مدینہ منورہ میں  حفاظت ونگرانی کے لیے گشت کرنا:

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی خلافت سے پہلے مدینہ منورہ میں  حفاظت ونگرانی کاکوئی نظام نہ تھا۔

وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ عَسَّ فِی عَمَلِهِ بِالْمَدِینَةِ وَحَمَلَ الدِّرَّةَ وَأَدَّبَ بِهَا وَلَقَدْ قِیلَ بَعْدَهُ لَدِّرَّةُ عُمَرَ أَهْیَبُ مِنْ سَیْفِكُمْ

وہ پہلے خلیفہ ہیں  جولوگوں  کی حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ منورہ میں  اپنے حلقہ میں  رات کے وقت گشت کیاکرتے تھے ،انہوں  نے اپنے ہاتھ میں  درہ لیااوراس سے لوگوں  کی تادیب کی  ،ان کے بعدکہاجاتاتھاکہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کادرہ تم لوگوں  کی تلوارسے زیادہ ہیبت ناک ہے۔[8]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: أَشَدُّ أُمَّتِی فِی أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ .

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کے معاملے میں  میری امت میں  سب سے زیادہ سخت سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ہیں ۔[9]

عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَأْمُرُ عُمَّالَهُ أَنْ یُوَافُوهُ بِالْمَوْسِمِ فَإِذَا اجْتَمَعُوا قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ. إِنِّی لَمْ أَبْعَثْ عُمَّالِی عَلَیْكُمْ لِیُصِیبُوا مِنْ أَبْشَارِكُمْ وَلا مِنْ أَمْوَالِكُمْ. إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِیَحْجِزُوا بَیْنَكُمْ وَلِیَقْسِمُوا فَیْئَكُمْ بَیْنَكُمْ. فَمَنْ فُعِلَ بِهِ غَیْرَ ذَلِكَ فَلْیَقُمْ. فَمَا قَامَ أَحَدٌ إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ قَامَ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّ عَامِلَكَ فُلانًا ضَرَبَنِی مِائَةَ سَوْطٍ. قَالَ: فِیمَ ضَرَبْتَهُ؟ قُمْ فَاقْتَصَّ مِنْهُ. فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ هَذَا یَكْثُرُ عَلَیْكَ وَیَكُونُ سُنَّةً یَأْخُذُ بِهَا مَنْ بَعْدَكَ. فَقَالَ: أَنَا لا أُقِیدُ وَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ یُقِیدُ مِنْ نَفْسِهِ. قَالَ: فَدَعْنَا فَلْنُرْضِهِ. قَالَ: دُونَكُمْ فَأَرْضُوهُ. فَافْتَدَى مِنْهُ بِمِائَتَیْ دِینَارٍ. كُلُّ سَوْطٍ بِدِینَارَیْنِ.

عطاسے مروی ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنے عاملوں  کوحج کے وقت اپنے پاس پہنچنے کاحکم فرمایاکرتے تھے ،لوگ جمع ہوتے توفرماتے اے لوگو!میں  نے اپنے عاملوں  کوتم پرمقررکرکے اس لیے نہیں  بھیجاکہ وہ تمہارے جان ومال کوتکلیف پہنچائیں  ،میں  نے صرف اس لیے انہیں  بھیجاہے کہ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کریں  اورتمہاری غنیمت کوتم پرتقسیم کریں  ، جس کے ساتھ اس کے سواکچھ کیاگیاہے وہ کھڑاہوجائے اوراپنی شکایت پیش کرے،ایک شخص کے سواکوئی کھڑانہ ہوااوراس نے کہا اے امیرالمومنین !مجھے آپ کے فلاں  عامل نے سوکوڑے مارے ہیں ، آپ  رضی اللہ عنہ نے عامل سےفرمایاتم نے کس جرم میں  اسے سوکوڑے مارے؟(اے شکایت کرنے والے شخص)اٹھ اوراس سے اپنابدلالےلو،عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کیااے امیرالمومنین !اگرآپ یہ کریں  گے توآپ پرشکایات کاسلسلہ بہت طویل ہوجائے گااوریہ فعل سنت بن جائے گاجسے آپ کے بعدکے لوگ اختیارکریں  گے،فرمایاکیامیں  قصاص نہ لوں  حالانکہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنی ذات سے قصاص لیتے ہوئے دیکھاہے  ،عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااچھاہمیں  مہلت دیں  کہ ہم اسے راضی کرلیں ، فرمایااچھاتمہیں  مہلت ہے کہ اسے راضی کر لو،چنانچہ وہ شخص راضی ہوگیااوراس عامل کی طرف سے اسے ہرکوڑے کے عوض دودینارفدیہ اداکیاگیا۔[10]

عَنْ عُمَرَ قَالَ: أَیُّمَا عَامِلٍ لِی ظَلَمَ أَحَدًا فَبَلَغَتْنِی مَظْلَمَتُهُ فَلَمْ أُغَیِّرُهَا فَأَنَا ظَلَمْتُهُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے میرے جس عامل نے کسی پرظلم کیااوراس کی شکایت مجھے پہنچ گئی اورمیں  نے اس کی اصلاح نہ کی توگویامیں  نے اس پرظلم کیا۔[11]

عَنْ عُمَرَ قَالَ: لَوْ مَاتَ جَمَلٌ ضَیَاعًا عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ لَخَشِیتُ أَنْ یَسْأَلَنِی اللَّهُ عَنْهُ.

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نےایک موقع پرفرمایااگرکوئی اونٹ ساحل فرات پرضائع ہوکرمرجائے تومجھے اندیشہ ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے بارے میں  بازپرس فرمائے گا۔

عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا اسْتَعْمَلَ عَامِلا كَتَبَ مَالَهُ.

شعبی  رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ جب کسی کوکسی علاقہ کاعامل بناتے تواس کامال لکھ لیاکرتے تھے۔[12]

فتوحات:

وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ فَتَحَ الْفُتُوحَ وَهِیَ الأَرْضُونَ وَالْكُورُ الَّتِی فِیهَا الْخَرَاجُ وَالْفَیْءُ. فَتَحَ الْعِرَاقَ كُلَّهُ. السَّوَادَ وَالْجِبَالَ.وَأَذْرَبِیجَانَ وَكُورَ الْبَصْرَةِ وَأَرْضَهَا وَكُورَ الأَهْوَازِ وَفَارِسَ وَكُورَ الشَّامِ مَا خَلا أَجْنَادَیْنِ فَإِنَّهَافُتِحَتْ فِی خِلافَةِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَحِمَهُ اللهُ، وَفَتَحَ عُمَرُ كُورَ الْجَزِیرَةِ وَالْمَوْصِلِ وَمِصْرَ وَالإِسْكَنْدَرِیَّةِ. وَقُتِلَ رَحِمَهُ اللهُ. وَخَیْلُهُ عَلَى الرَّیِّ وَقَدْ فَتَحُوا عَامَّتَهَا، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ مَسَحَ السَّوَادَ وَأَرْضَ الْجَبَلِ وَوَضَعَ الْخَرَاجَ عَلَى الأَرَضِینَ وَالْجِزْیَةَ عَلَى جَمَاجِمِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِیمَا فَتْحَ مِنَ الْبُلْدَانِ.فَوَضَعَ عَلَى الْغَنِیِّ ثَمَانِیَةً وَأَرْبَعِینَ دِرْهَمًا وَعَلَى الْوَسَطِ أَرْبَعَةً وَعِشْرِینَ دِرْهَمًا وَعَلَى الْفَقِیرِ اثْنَیْ عَشَرَ دِرْهَمًا  وَقَالَ: لا یُعْوِزُ رَجُلا مِنْهُمْ دِرْهَمٌ فِی شَهْرٍ، فَبَلَغَ خَرَاجُ السَّوَادِ وَالْجَبَلِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ. رَحِمَهُ اللهُ. مِائَةَ أَلْفِ أَلْفٍ وَعِشْرِینَ أَلْفِ أَلْفٍ وَافٍ، وَالْوَافُ دِرْهَمٌ وَدَانَقَانُ وَنِصْفُ

وہ پہلے خلیفہ ہیں  جنہوں  نے بہت سی فتوح حاصل کہیں  جوبہت سے شہروں  اورزمینوں  پرمشتمل تھیں  جہاں  سے ان کاخراج اورمال غنیمت حاصل ہوتا تھا،انہوں  نے پورے عراق کواس کی بستیوں  اورپہاڑوں  ،آذربائیجان ،شہربصرہ اوراس کی زمین ،اہواز،اجنادین کے سواپورافارس اورشام فتح کیا،اجنادین سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  فتح ہوگیاتھا،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے الجزیرہ کی بستیاں  ، موصل،مصراوراسکندریہ کوفتح کیااوروہ اس وقت شہیدکردیئے گئے جب مجاہدین کالشکررے پت میں  تھااوراس کااکثرحصہ فتح کرچکے تھے، وہ پہلے خلیفہ ہیں  جنہوں  نے سواداورارض الجبل کی پیمائش کی،انہوں  نے جوشہرفتح کیے ان کی زمینوں  پرخراج اوراہل ذمہ پرجزیہ (ان کی جان ومال کی حفاظت وذمہ داری کا محصول)مقررکیا،دولت مندوں  پر سالانہ اڑتالیس درہم اورمتوسط طبقہ پرسالانہ چوبیس درہم اورغریبوں  پرسالانہ بارہ درہم مقررفرمائے،اورفرمایاایک درہم (چارآنے)ماہواران میں  سے کسی کوبھی گراں  نہیں  گزرے گا،ان کے عہدخلافت میں  السواداورالجبل کے خراج کی مقداردوکروڑبیس لاکھ وافی تک پہنچ گیا،ایک وافی ایک درہم اورڈھائی دانگ کے مساوی تھا(ایک دانگ 1/2درہم کے)۔[13]

دریائے نیل کاواقعہ :

قَالَ: لَمَّا افْتُتِحَتْ مِصْرُ أَتَى أَهْلُهَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ حِینَ دَخَلَ بُؤْنَةُ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ  فَقَالُوا: أَیُّهَا الْأَمِیرُ، لِنِیلِنَا هَذَا سُنَّةً لَا یَجْرِی إِلَّا بِهَا،قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟قَالُوا: إِذَا كَانَتِ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ لَیْلَةً خَلَتْ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلَى جاریة بِكْرٍ مِنْ أَبَوَیْهَا، فَأَرْضَیْنَا أَبَوَیْهَا وَجَعَلْنَا عَلَیْهَا مِنَ الْحَلْیِ وَالثِّیَابِ أَفْضَلَ مَا یَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَیْنَاهَا فِی هَذَا النِّیلِ،فَقَالَ لَهُمْ عَمْرٌو: إِنَّ هَذَا مِمَّا لَا یَكُونُ فِی الْإِسْلَامِ، إِنَّ الْإِسْلَامَ یَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ، قَالَ: فَأَقَامُوا بُؤْنَةَ وَأَبِیبَ وَمِسْرَى وَالنِّیلُ لَا یَجْرِی قَلِیلًا وَلَا كَثِیرًا، حَتَّى هَمُّوا بِالْجَلَاءِ،فَكَتَبَ عَمْرٌو إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذَلِكَ،فَكَتَبَ إِلَیْهِ: إِنَّكَ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِی فَعَلْتَ، وَإِنِّی قَدْ بعثت إلیك بطاقة دَاخِلَ كِتَابِی، فَأَلْقِهَا فِی النِّیلِ،فَلَمَّا قدِمَ كِتَابُهُ أَخَذَ عَمْرٌو الْبِطَاقَةَ فَإِذَا فِیهَا

جب مصرفتح ہواتواس کے باشندے عجم کے مہینوں  میں  سے بؤنہ میں  عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے کہ ہمارے ملک کادستورہے اوروہ اسی کے مطابق نیل چلتاہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاوہ کیاہے؟انہوں  نے کہاکہ جب اس ماہ کی بارہ راتیں  گزرجاتی ہیں  توہم والدین کی ایک باکرہ لڑکی کے پاس جاتے ہیں  اوراس کے والدین کوراضی کرتے ہیں  اورلڑکی کوبہترین زیوراورکپڑے پہنادیتے ہیں  اورپھراسے ہم دریائے نیل میں  پھینک دیتے ہیں ، عمرو  رضی اللہ عنہ نے ان سے کہایہ بات ان باتوں  میں  سے ہےجواسلام میں  نہیں  ہوسکتی اسلام پہلے کی رسموں  کومٹادیتاہے، راوی بیان کرتاہے کہ وہ بؤنہ،ابیب اورمسری تین مہینے ٹھہرے رہے اوردریائے نیل کابہاؤ نہ کم ہوتاتھااورنہ زیادہ حتی کہ انہوں  نے جلاوطن ہونے کاعزم کرلیا ،عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کی خدمت میں  اس کے متعلق لکھاتوآپ نے ان کی طرف لکھاآپ نے جوکچھ کیاہے ٹھیک کیاہے اورمیں  نے اپنے خط کے اندرایک چٹ آپ کی طرف ارسال کی ہے اسے دریائے نیل میں  پھینک دیناجب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کاخط آیا تو عمرو  رضی اللہ عنہ نے چٹ کوپکڑااوراسے پڑھااس میں  لکھاتھا۔

مِنْ عَبْدِ اللهِ عُمَرَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَى نِیلِ أَهْلِ مِصْرَ

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنْ كُنْتَ إِنَّمَا تَجْرِی مِنْ قِبَلِكَ ومن أمرك فلا تجر فلا حاجة لنا فیك، وإن كنت إنما تجری بأمر اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ، وهو الَّذِی یُجْرِیكَ فَنَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى أَنْ یُجْرِیَكَ  ،قَالَ: فَأَلْقَى الْبِطَاقَةَ فِی النِّیلِ فَأَصْبَحُوا یَوْمُ السَّبْتِ وَقَدْ أَجْرَى اللهُ النِّیلَ سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِی لَیْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَقَطَعَ اللهُ تِلْكَ السُّنَّة عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَى الْیَوْمِ

اللہ کے بندے عمر  رضی اللہ عنہ امیرالمومنین کی طرف سے اہل مصرکے دریائے نیل کی طرف

امابعد!اگرتواپنی جانب سے اوراپنے حکم سے چلتاہے توآئندہ نہ چلناہمیں  تمہاری ضرورت نہیں ،اوراگرتواللہ واحدوقہارکے حکم سے چلتاہے تووہ تجھے رواں  رکھے گااورہم اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں  کہ وہ تجھے رواں  رکھے۔عمرو  رضی اللہ عنہ نے وہ چٹ دریائے نیل میں  پھینک دی جب ہفتہ کی صبح ہوئی تواللہ تعالیٰ نے ایک رات میں  دریائے نیل کوسولہ ہاتھ رواں  کردیااوراللہ تعالیٰ نے آج تک اس دستورکااہل مصرسے خاتمہ کردیا۔[14]

یہ منکر روایت ہے۔اس کی سندمیں  ابن لہیعہ ہے جوبرے حافظہ والااورضعیف ہے ،اس روایت کی سندمیں  ایک راوی (مجہول) ہے جس کانام بیان نہیں  کیاگیا۔

عربوں  اورقبائل کی آبادکاری:

وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ مَصَّرَ الأَمْصَارَ:الْكُوفَةَ وَالْبَصْرَةَ وَالْجَزِیرَةَ وَالشَّامَ وَمِصْرَ وَالْمَوْصِلَ. وَأَنْزَلَهَا الْعَرَبَ. وَخَطَّ الْكُوفَةَ وَالْبَصْرَةَ خُطَطًا لِلْقَبَائِلِ

وہ پہلے خلیفہ ہیں  جنہوں  نے کوفہ،بصرہ،الجزیرہ،شام ،مصراورموصل کوشہربنایااوروہاں  عربوں  کوآبادکیااورانہوں  نے کوفہ اوربصرہ میں  قبائل کے لئے علیحدہ علیحدہ علاقے مقررفرمائے۔[15]

شہروں  میں  قاضی مقررکرنا:

وَهُوَ أَوَّلُ مَنِ اسْتَقْضَى الْقُضَاةَ فِی الأَمْصَارِ. وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الدِّیوَانَ وَكَتَبَ النَّاسَ عَلَى قَبَائِلِهِمْ وَفَرَضَ لَهُمُ الأَعْطِیَةَ مِنَ الْفَیْءِ وَقَسَمَ الْقُسُومَ فِی النَّاسِ   وَفَرَضَ لأَهْلِ بَدْرٍ وَفَضَّلَهُمْ عَلَى غَیْرِهِمْ   وَفَرَضَ لِلْمُسْلِمِینَ عَلَى أَقْدَارِهِمْ وَتَقَدُّمِهِمْ فِی الإِسْلامِ ،وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ حَمَلَ الطَّعَامَ فِی السُّفُنِ مِنْ مِصْرَ فِی الْبَحْرِ حَتَّى وَرَدَ الْبَحْرَ ثُمَّ حَمَلَ مِنَ الْجَارِ إِلَى الْمَدِینَةِ

وہ پہلے خلیفہ ہیں  جنہوں  نے شہروں  میں قاضی (حاکم فوجداری ودیوانی)مقررفرمائے اور دفتر مرتب کیا (رجسٹربنایا)اوران میں  لوگوں  کے نام قبائل کی ترتیب سے درج فرمائے اوران کے لیے مال غنیمت میں  سے عطیے مقررفرمائے،لوگوں  کوحصے تقسیم کیے،اہل بدرکاحصہ مقررفرمایااورانہیں  غیراہل بدرپرفضیلت دی،مسلمانوں  کے حصے ان کی قدراوراسلام میں  سبقت کے لحاظ سے مقررفرمائے، وہ پہلے خلیفہ ہیں  جنہوں  نے مصرسے غلہ کشتیوں  میں  بھرکرسمندرکے راستے سے الجاراوروہاں  سے مدینہ منورہ منگوایا تھا ۔ [16]

توشہ خانہ کی تعمیر:

وَاتَّخَذَ عُمَرُ دَارَ الرَّقِیقِ. وَقَالَ بَعْضُهُمُ الدَّقِیقُ. فَجَعَلَ فِیهَا الدَّقِیقَ وَالسَّوِیقَ وَالتَّمْرَ وَالزَّبِیبَ وَمَا یُحْتَاجُ إِلَیْهِ یُعِینُ بِهِ الْمُنْقَطِعَ بِهِ وَالضَّیْفَ یَنْزِلُ بِعُمَرَ. وَوَضَعَ عُمَرُ فِی طَرِیقِ السُّبُلِ مَا بَیْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةِ مَا یَصْلُحُ مَنْ یَنْقَطِعَ بِهِ وَیَحْمِلُ مِنْ مَاءٍ إِلَى مَاءٍ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے (بروایت بعض)دارالرقیق(غلام خانہ)اور(برویت بعض)دارالدقیق (توشہ خانہ)بنوایاتھاجس میں  انہوں  نے آٹا،ستو،کھجور،کشمش اورضروریات کی دوسری چیزیں  رکھیں ،جن سے وہ مسافروں  اورمہمانوں  کی مددکرتے تھے ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان راستوں  پربھی اشیاء مہیاکیں  جوبے توشہ مسافروں  کومفیدہوں  اوراسے ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچادیں ۔[17]

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت میں  مسجدنبوی کی تجدیدوتوسیع:

خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے اپنے دورخلافت میں  روزافزاں  کثرت کے پیش نظر مسجدنبوی میں  توسیع ضروری سمجھی،

عَنْ نَافِعٍ،وَقَالَ عُمَرُ: لَوْلا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ نَبْغِی نَزِیدُ فِی مَسْجِدِنَا مَا زِدْتُ فِیهِ

نافع  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا اگر میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادنہ سناہوتاکہ مناسب ہے کہ ہم مسجدمیں  کچھ توسیع کریں  تواضافہ کرنے کی جرات نہ کرتا ۔[18]

عن مسلم بن خباب أن النَّبِیَّ قال یوما وهو فی مصلاه: لو زدنا فی مسجدنا وأشار بیده نحو القبلة

امام ابن نجار، مسلم بن خباب  رضی اللہ عنہ  سے روایت کرتے ہیں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی جائے نمازپربیٹھے ہوئے قبلہ کی سمت اشارہ کرتے ہوئے فرمایااگرہم مسجد میں  اضافہ کر دیتے ( تو کیسا اچھا ہوتا )۔[19]

قال: إن الناس كثروا فی عهد عمر، فقال له قائل: یا أمیر المؤمنین لو وسّعت فی المسجد،ما حول المسجد من الدور إلا دار العباس بن عبد المطلب وحجر أمهات المؤمنین، فقال عمر للعباس: یا أبا الفضل، إن مسجد المسلمین قد ضاق بهم، وقد ابتعت ما حوله من المنازل نوسع به على المسلمین فی مسجدهم إلا دارك وحجر أمهات المؤمنین، فأما حجر أمهات المؤمنین فلا سبیل إلیها

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےسترہ ہجری میں  نمازیوں  کی کثرت کے باعث خلیفہ دوم سے مسجدمیں  توسیع کے لئے تقاضا کیا جانے لگا ،چنانچہ آپ  رضی اللہ عنہ  نے مسجدمیں  توسیع کا پروگرام بنایااورحسب پروگرام شمال وجنوب میں  توسیع بھی ہوگئی، مگرمشرق میں  امہات المومنین کے حجرات اورمغرب میں  عباس  رضی اللہ عنہ  کے مکان( جس کے پرنالہ کاپانی مسجدمیں  گرتا تھا جس سے نمازیوں  کوتکلیف ہوتی تھی اس لئے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے اسے اکھاڑدیاتھا) کے باعث کام میں  تعطل پیداہوا، اس مشکل سے عہدہ براء ہونے کی غرض سے خلیفہ موصوف عباس  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں  حاضرہوئے اوربتایاکہ مسجدکے توسیعی پروگرام میں  ایک طرف امہات المومنین کے مکانات اوردوسری سمت آپ کامکان رکاوٹ ہے ،میں  امہات المومنین کے مکانات کومنہدم کرنے کی جسارت تونہیں  کرسکتاالبتہ آپ کے مکان کے متعلق  تین تجاویزپیش کرتاہوں  ۔

إما أن تبیعنیها بما شئت من بیت المال

آپ مکان میرے ہاتھ فروخت کردیں  آپ کی منہ مانگی قیمت بیت المال سے اداکردی جائے گی۔

وإما أن أخطك حیث شئت من المدینة وأبنیها لك من بیت مال المسلمین

مکان کے عوض مدینہ منورہ میں  جوجگہ آپ پسندفرمائیں  وہ بیت المال سےدے دی جائے گی ۔

وإما أن تصدّق بها على المسلمین فتوسع فی مسجدهم

آپ اپنا مکان مسلمانوں  کے لئے وقف فرمادیں  تاکہ وہ مسجدنبوی کی توسیع کردیں ۔

فقال العباس: أما إذا قلت ذلك فإنی قد تصدقت بها على المسلمین أوسع علیهم فی مسجدهم

پہلے توانہوں  نے انکارکردیامگرپھرایک لمبی بات چیت کے بعد عباس  رضی اللہ عنہ نے خلیفہ المسلمین کے خلوص کے پیش نظر ازخودبرضاء ورغبت اپنامکان سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے حوالے کردیا جسے سیدنافاروق اعظم  رضی اللہ عنہ نے منہدم کرکے مسجدکشادہ فرمادی۔

قبل ازیں  عباس  رضی اللہ عنہ کے مکان کاایک اورواقع بھی پیش آیاتھاکہ اس کے پرنالے کاپانی مسجدمیں  گرتاتھاجس سے نمازیوں  کواذیت پہنچتی تھی ،سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسے اکھاڑدیاتھا۔

قال: فدخل عمر المسجد فإذا میزاب للعباس شارع فی مسجد رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یسیل ماء المطر منه ، فقال عمر بیده فقلع المیزاب،فقال: هذا المیزاب لا یسیل فی مسجد رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،فقال له العباس: والذی بعث محمدا بالحق إنه هو الذی وضع هذا المیزاب فی هذا المكان ونزعته أنت یا عمر،فقال عمر رضی الله عنه: ضع رجلیك على عنقی لترده إلى ما كان، ففعل ذلك العباس،واشترى عمر أیضا نصف موضع كان خطه النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لجعفر بن أبی طالب وهو بالحبشة دارا بمائة ألف فزاده فی المسجد

ایک روایت میں  ہے کہ مذکورہ میزاب کا پانی راستہ میں  گرتاتھاایک مرتبہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن مسجدمیں  تشریف لارہے تھے کہ اس کاپانی پڑنے سے ان کے کپڑے خراب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے اس پرنالے کو اکھاڑدینے کاحکم فرمایا اورفرمایااس پرنالے کاپانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسجدمیں  نہیں  گرناچاہیے،عباس  رضی اللہ عنہ  دربارفاروقی میں  تشریف لائے اوراس واقعہ پرنالش کی نیزفرمایاکہ یہ پرنالہ سرورکونین رحمت دارین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے کندھوں  پرکھڑےہوکراپنے دست اطہرسے اس جگہ پرنصب فرمایاتھااے عمر  رضی اللہ عنہ !آپ نے اسے اکھاڑپھینکا ہے، یہ سنتے ہی خلیفہ المسلمین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے اے ابوالفضل رضی اللہ عنہ  عم رسول مقبول آپ میری پیٹھ کوسیڑھی بنائیں  اوراس پر کھڑے ہوکراپنے ہاتھ سے پرنالہ اسی جگہ نصب کردیں  تاکہ میری غلطی کی تلافی ہوجائے چنانچہ اسی ترکیب سے عباس  رضی اللہ عنہ نے پرنالہ اپنی جگہ پردوبارہ لگادیا، علاوہ ازیں  سید نا فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ نےجعفرطیار رضی اللہ عنہ  کامکان بھی جو عباس  رضی اللہ عنہ  کے مکان کے ساتھ متصل تھا اس کانصف حصہ ایک لاکھ درہم میں  خریدکراوران حصوں  کومنہدم کر کے مسجدکشادہ فرما دی ۔[20]

اس طرح مسجدکے مغرب میں  تیس فٹ، شمال میں  ازواج مطہرات کے حجرات کوقائم رکھتے ہوئے ان کے گرداگرد ۴۵فٹ کااضافہ کیاجس سے حجرات ان کے درمیان آگئے اورجنوب میں  پندرہ فٹ توسیع وتجدید فرمائی ،علامہ عبدالقدوس انصاری مسجدکی توسیع کی تفضیل اس طرح  بیان کرتے ہیں  مغرب میں  دس میڑ،جنوب میں  پانچ میڑ اور شمال میں  پندرہ میڑکااضافہ کیا۔[21]

إن المسجد كان طوله أربعین ومائة ذراع وعرضه عشرون ومائة

امام ابن نجار رحمہ اللہ ،امام زین الدین رحمہ اللہ  اورامام سمھووی رحمہ اللہ  اس بات پر متفق ہیں  کہ اس توسیع کے بعدمسجدنبوی کاطول ایک سوچالیس ذراع اورعرض ایک سوبیس ذراع ہوگیاتھا۔ [22]

اس طرح گیارہ سومربع میڑکااضافہ ہواجس سے مسجدکامجموعی رقبہ ۲۴۷۵ سے بڑھ کر ۳۵۷۵مربع میڑہوگیا۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں  چھت تقریباًنوفٹ اونچی تھی

إن المسجد كان طوله على عهد عمر رضی الله عنه أربعین ومائة ذراع وعرضه عشرون ومائة،وطول السقف أی ما بینه وبین الأرض أحد عشر ذراعا

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  مسجد کی لمبائی ایک سوچالیس ذراع جبکہ چوڑائی ایک سوبیس ذراع تھی اور چھت کو زمین سے گیارہ ذراع (تقریباًساڑھے پندرہ فٹ ) اونچاکردیا۔[23]

اور چھت کے اوپرتین ذراع بلنددیواربنوائی ،قدآدم تک بنیادیں  پتھرکی بنوائیں ،

وجعل له ستة أبواب

چھ دروازے بنائے ،مشرق میں  باب عثمان کے علاوہ باب النساء ،مغرب میں  باب عاتکہ کے قریب ہی باب السلام کااضافہ کیااوردودروازے شمال میں  بنوائے۔[24]

قدم ابن مسعود الثقفی وقال لعمر: ألیس قربكم وادٍ؟ قال: بلى، قال: فمر بحصباء تطرح فیه، فهو أكف للمخاط، والنخامة، فأمر بها عمر رضی الله عنه

ابن مسعود الثقفی  رضی اللہ عنہ  کی تجویزپروادی عقیق سے سنگ ریزے لاکرمسجدمیں  ڈالنے کاحکم دیا۔[25]

قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَلْقَى الْحَصَى فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. وَكَانَ النَّاسُ إِذَا رَفَعُوا رُؤُوسَهُمْ مِنَ السُّجُودِ نَفَضُوا أَیْدِیَهُمْ فَأَمَرَ عُمَرُ بِالْحَصَى فَجِیءَ بِهِ مِنَ الْعَقِیقِ فَبُسِطَ فِی مَسْجِدِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں  ہےسب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسجدمیں  جس نے (گردوغبارسے بچانے کے لیے)صحن میں  کنکریاں  ڈالیں  وہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب تھے،مسجدنبوی کاصحن کچاتھالوگ جب سجدے سے سراٹھاتے تواپنے ہاتھ گردوغبارسے صاف کرنے کے لیےجھاڑتے تھے ،یہ کیفیت دیکھ کر سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے کنکریاں  لانے کا حکم فرمایاتووادی العقیق سے کنکریاں  لائی گئیں  اورانہیں مسجدکے صحن میں  بچھادیاگیا۔[26]

أن عمر رضی الله عنه زاد فی المسجد، وبناه على بنائه فی عهد رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ باللّبن والجرید، وأعاد عمده خشبا

جس طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچی اینٹوں  سے دیواریں  کھڑی کی تھیں  اور جس طرح کھجورکی شاخوں  کی چھت ڈالی تھی سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے بھی ویسے ہی کیاالبتہ ستون کھجورکے تنوں  کے بجائے لکڑی کے بنوائے۔[27]

تمیم داری  رضی اللہ عنہ  کے بعد سیدنارفاروق  رضی اللہ عنہ  نے اور بھی وسیع پیمانے پر روشنی کے نظام کوفروغ دیا۔

قَالَ: مَرَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ عَلَى الْمَسَاجِدِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ، وَفِیهَا الْقَنَادِیلُ، فَقَالَ: نَوَّرَ اللهُ عَلَى عُمَرَ قَبْرَهُ كَمَا نَوَّرَ عَلَیْنَا مَسَاجِدَنَا

چنانچہ رمضان المبارک میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے مسجدوں  میں  قندیلوں  کی روشنی دیکھ کرفرمایا  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے جس طرح ہماری مساجدکوروشن کیاہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کی قبرکومنورفرمائے۔[28]

بعدمیں  مختلف سلاطین نے ہزاروں  مثقال سونے کی بیش بہا کئی قندیلیں  آویزاں  کیں جن کاتیل شام سے آتا تھا ، اسی طرح ہرجمعہ کی دوپہرکے وقت مسجدکے اندربڑے اہتمام کے ساتھ خوشبوکی دھونی دی جاتی تھی۔

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَمَرَ أَنْ یُجَمَّرَ مَسْجِدُ الْمَدِینَةِ كُلَّ جُمُعَةٍ حِینَ یَنْتَصِفُ النَّهَارُ

اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے ہرجمعہ کی تمام مساجد میں  دوپہرکے وقت خوشبوکی دھونی دینے کاحکم دے رکھاتھا۔[29]      

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  مسجدکی معمولی سی بے حرمتی کوبھی برداشت نہیں  کرتے تھے جبکہ بعض لوگ مسجدمیں  بلندآوازسے دینوی گفتگوکرتے اوربعض شعر پڑھتے ہوئے پائے گئے۔

عن سالم بن عبد الله  أن عمر یعنی ابن الخطاب  اتخذمكانا إلى جانب المسجد یقال له البطیحاء وقال: من أراد أن یلغط أو یرفع صوتا أو ینشد شعرا أو یرفع صوتا فلیخرج إلیه

سالم بن عبداللہ سے روایت ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب نے مسجدنبوی کے تقدس اورعظمت کے تحفظ کی خاطرایک جدت یہ بھی کی کہ مقام صفہ کے قریب مشرق میں  ایک چبوترابنوادیاجسے بطیحاکہتے تھےاوریہ اعلان کردیاکہ جسے شعرپڑھناہویاکوئی دنیاوی گفتگوکرنی ہوتومسجدسے نکل کروہاں  چلاجائے  ۔[30]

أن عمر بن الخطاب رضی الله عنه سمع صوت رجل فی المسجد، فقال: أتدری أین أنت؟كأنه كره الصوت

ایک مرتبہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کسی کی بلندآوازسنی توتیزی سے اس کے قریب ہوکرفرمایاتمہیں  معلوم ہے کہ تم کہاں  کھڑے ہو؟اوراپنی آوازبلندکرتے ہوآئندہ ایسانہ کرنا۔[31]

تعمیرفاروقی کی خصوصیات۔

پہلے مسجدنبوی کاطول ایک سوذراع اورعرض ایک سوذراع تھا،سیدنافاروق اعظم  رضی اللہ عنہ کے اضافہ سے طول ایک سوذراع اورعرض ایک سوبیس ذراع ہوگیا۔

قبل ازیں  مسجدنبوی کارقبہ ۲۴۷۵مربع میٹرتھاجبکہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے گیارہ سومربع میٹرکااضافہ کیاجس کے بعدمسجدکامجموعی رقبہ ۳۵۷۵مربع میٹرہوگیا۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں  مسجدنبوی کی چھت تقریبانوفٹ اونچی تھی سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے چھت کوگیارہ ذراع(تقریباًساڑھے پندرہ فٹ) اونچاکردیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجدکے ستون کھجورکے تنوں  سے بنائے تھے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے لکڑی کے نبوادیئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف تین دروازے رکھے تھے جبکہ لوگوں  کی سہولت کے پیش نظرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے تین دروازوں  کااضافہ کرکے چھ دروازے کردیئے۔

دنیاوی گفتگواورشعرگوئی کے لیے مسجدکے ایک گوشے میں  علیحدہ جگہ بنادی تاکہ مسجدنبوی کاتقدس برقراررہے۔

مردم شماری:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ مِنَ الْبَحْرَیْنِ  قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: فَلَقِیتُهُ فِی صَلاةِ الْعِشَاءِ الآخرة فسلمت علیه فسألنی عن الناس  قَالَ: هَلْ تَدْرِی مَا تَقُولُ؟ قُلْتُ: جِئْتُ بِخَمْسِمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ،قَالَ: مَاذَا تَقُولُ؟قَالَ قُلْتُ: مِائَةُ أَلْفٍ. مِائَةُ أَلْفٍ. مِائَةُ أَلْفٍ. مِائَةُ أَلْفٍ.مِائَةُ أَلْفٍ. حَتَّى عَدَدْتُ خَمْسًا، قَالَ: إِنَّكَ نَاعِسٌ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَنَمْ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَأْتِنِی، فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: فَغَدَوْتُ إِلَیْهِ. فَقَالَ: مَاذَا جِئْتَ بِهِ؟قُلْتُ: جِئْتُ بِخَمْسِمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ، قَالَ عُمَرُ: أَطَیِّبٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ لا أَعْلَمُ إِلا ذَلِكَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  بحرین سے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس آیامیں  اس وقت ان سے ملاجب وہ عشاء کی نمازمیں  تھے میں  نے سلام کیاتومجھ سے لوگوں  کاحال پوچھا اور فرمایا تم کیالائے ہو؟  میں  نے کہاپانچ لاکھ درہم لایاہوں ،ارشادکیاکیاتم جانتے ہوتم کیاکہہ رہے ہو؟ میں  نے عرض کیاکہ ایک لاکھ ،ایک لاکھ،ایک لاکھ،ایک لاکھ ،ایک لاکھ اس طرح میں  نے پانچ مرتبہ شمارکردیا، فرمایاتم نیندمیں  ہولہذااپنے گھروالوں  کے پاس جاؤاورسوجاؤاورصبح کومیرے پاس آنا،میں  صبح کوحاضرخدمت ہواتوفرمایاتم کیالائے ہو؟  میں  نے عرض کیامیں  پانچ لاکھ درہم لایاہوں ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے دریافت کیاکیاوہ حلال ہیں ؟ میں  نے عرض کیاجی ہاں  میں  اس کے سوااورکچھ نہیں  جانتا،

فَقَالَ لِلنَّاسِ: إِنَّهُ قَدْ قَدِمَ عَلَیْنَا مَالٌ كَثِیرٌ فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعُدَّ لَكُمْ عَدَدًا وَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَكِیلَهُ لَكُمْ كَیْلا ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ هَؤُلاءِ الأَعَاجِمَ یُدَوِّنُونَ دِیوَانًا یُعْطُونَ النَّاسَ عَلَیْهِ

انہوں  نے لوگوں  سے فرمایاکہ ہمارے پاس بہت سامال آیاہے اگرتم لوگ چاہوتومیں  تمہارے لیے شمارکردوں اوراگرتم لوگ چاہوتومیں  اسے تمہارے لیے پیمانے میں  ناپ دوں ،ایک شخص نے کہااے امیرالمومنین!میں  نے عجمیوں  کودیکھاہے کہ وہ دفترمرتب کرلیتے ہیں  اوراس کے مطابق لوگوں  کودیتے ہیں ۔[32]

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ بْنِ نُقَیْدٍأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَشَارَ الْمُسْلِمِینَ فِی تَدْوِینِ الدِّیوَانَ،فَقَالَ لَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: تُقَسِّمُ كُلَّ سَنَةٍ مَا اجْتَمَعَ إِلَیْكَ مِنْ مَالٍ وَلا تُمْسِكُ مِنْهُ شَیْئًا، وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: أَرَى مَالا كَثِیرًا یَسَعُ النَّاسَ وَإِنْ لَمْ یُحْصَوْا حَتَّى تَعْرِفَ مَنْ أَخَذَ مِمَّنْ لَمْ یَأْخُذْ. خَشِیتُ أَنْ یَنْتَشِرَ الأَمْرُ، فَقَالَ لَهُ الْوَلِیدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَةِ:یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ جِئْتُ الشَّامَ فَرَأَیْتُ مُلُوكَهَا قَدْ دَوَّنُوا دِیوَانًا وَجَنَّدُوا جُنُودًا فَدَوِّنْ دِیوَانًا وَجَنِّدْ جُنُودًا

جبیربن حویرث سے مروی ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے دیوان مرتب کرنے کے لیے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے مشورہ دیاکہ جومال آپ کے پاس جمع ہو ا سے ہرسال تقسیم کردیاکریں  اوراس میں  سے کچھ بھی بچاکرنہ رکھیں ،سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیاکہ اگران کوشمارنہ کیاگیاتوکثیرمال لوگوں  کوگنجائش دے دے گا(کہ ایک آدمی دومرتبہ لے لے اورایک کوایک مرتبہ بھی نہ ملے)جب تک کہ آپ لینے والے اورنہ لینے والے کونہ پہچانیں  (اوراس کی یہی صورت ہے کہ دیوان میں  سب کے نام درج کیے جائیں )مجھے خوف ہے کہ حکومت میں  انتشارپیداہوجائے گا،ولیدبن ہشام بن مغیرہ نے عرض کیااے امیرالمومنین !میں  شام سے آیاہوں  میں  نے وہاں  کے بادشاہوں  کودیکھاہے کہ انہوں  نے دفترمرتب کیے اورلشکرتیارکیے آپ بھی دیوان مرتب فرمائیں  اورلشکرتیارکریں ،

فَأَخَذَ بِقَوْلِهِ ، فَدَعَا عَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَمَخْرَمَةَ بْنَ نَوْفَلٍ وَجُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ وَكَانُوا مِنْ نُسَّابِ قُرَیْشٍ فَقَالَ: اكْتُبُوا النَّاسَ عَلَى مَنَازِلِهِمْ ،  فَكَتَبُوا فَبَدَءُوا بِبَنِی هَاشِمٍ ثُمَّ أَتْبَعُوهُمْ أَبَا بَكْرٍ وَقَوْمَهُ. ثُمَّ عُمَرَ وَقَوْمَهُ عَلَى الْخِلافَةِ ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْهِ عُمَرُ قَالَ: وَدِدْتُ وَاللهِ أَنَّهُ هَكَذَا وَلَكِنِ ابْدَءُوا بِقَرَابَةِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  الأَقْرَبُ فَالأَقْرَبُ حَتَّى تَضَعُوا عُمَرَ حَیْثُ وَضَعَهُ اللهُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے ان کے قول کواختیارفرمایااورعقیل بن ابی طالب اورمخرمہ بن نوفل اورجبیربن معطم کوبلایاجوقریش کے نسب جاننے والوں  میں  سے تھے اوران سے فرمایالوگوں  کے نام ان کے مرتبے کے مطابق لکھو،انہوں  نے دیوان مرتب کیاتوبنی ہاشم سے شروع کیاان کے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اوران کی قوم کولکھاپھرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ اوران کی قوم کوباترتیب خلافت لکھا، جب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے وہ دیوان دیکھاتوفرمایااللہ کی قسم !مجھے اسی طرح پسندہے مگرپہلے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قرابت سے شروع کروجوسب سے قریب ہو(اس دیوان میں  بھی )سب سے قریب ہو،عمرکوبھی اس مقام پررکھوجہاں  ان کواللہ نے رکھاہے۔[33]

وَفَرَضَ عُمَرُ لأَهْلِ الدِّیوَانِ فَفَضَّلَ أَهْلَ السَّوَابِقِ وَالْمَشَاهِدِ فِی الْفَرَائِضِ. وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ قَدْ سَوَّى بَیْنَ النَّاسِ فِی الْقَسْمِ فَقِیلَ لِعُمَرَ فِی ذَلِكَ، فَقَالَ: لا أَجْعَلُ مَنْ قَاتَلَ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَنْ قَاتَلَ مَعَهُ

اس کے بعدسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے دیوان کاحصہ مقررفرمایاانہوں  نے اہل سوابق شواہدکو(جولوگ نیکیوں  میں  اوراسلام لانے میں  مقدم تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرکاب جہاد ہوئے تھے)حصہ دینے میں  ترجیح اورفضیلت دی حالانکہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے لوگوں  کے درمیان تقسیم کرنے میں  مساوات اختیارکی تھی ،جب اس پراعتراض کیاگیاتوانہوں  نے فرمایا کہ میں  ان لوگوں  کوجنہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مقابلہ کیاان کے برابرنہیں  کرسکتاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرکاب دشمنوں  سے لڑے،

فَبَدَأَ بِمَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ فَفَرَضَ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ خَمْسَةَ آلافِ دِرْهَمٍ فِی كُلِّ سَنَةٍ. حَلِیفُهُمْ وَمَوْلاهُمْ مَعَهُمْ بِالسَّوَاءِ. وَفَرَضَ لِمَنْ كَانَ لَهُ إِسْلامٌ كَإِسْلامِ أَهْلِ بَدْرٍ مِنْ مُهَاجِرَةَ الْحَبَشَةِ وَمَنْ شَهِدَ أَحَدًا أَرْبَعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ. وَفَرَضَ لأَبْنَاءِ الْبَدْرِیِّینَ أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ إِلا حَسَنًا وَحُسَیْنًا فَإِنَّهُ أَلْحَقَهُمَا بِفَرِیضَةِ أَبِیهِمَا لِقَرَابَتِهِمَا بِرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَفَرَضَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا خَمْسَةَ آلافِ دِرْهَمٍ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدرمیں جومہاجرین وانصار موجودتھے ان سے شروع فرمایا اوران میں  سے ہرشخص کے لیے پانچ ہزاردرہم سالانہ مقررفرمایاجس میں  ان کے حلیف اور مولی برابر تھے اور پھر ان سے شروع فرمایا جن کا اسلام اہل بدر جیسا اسلام تھا اورمہاجرین حبشہ میں  سے تھے اورغزوہ احدمیں  شریک ہوئے تھے ان میں  سے ہرایک کے لیے چارہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے،جبکہ بدریوں  کی اولاد کیلئے دو دو ہزار درہم سالانہ مقرر فرمائے سوائے حسن  رضی اللہ عنہ اورحسین  رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قرابت کی وجہ سے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رکھااوران میں  سے ہرایک کے پانچ ہزاردرہم مقررفرمائے،

وَفَرَضَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ خَمْسَةَ آلافِ دِرْهَمٍ لِقَرَابَتِهِ بِرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ أَنَّهُ فَرَضَ لَهُ سَبْعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ. وَقَالَ سَائِرُهُمْ: لَمْ یُفَضِّلْ أَحَدًا عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ إِلا أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَإِنَّهُ فَرَضَ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْهَمٍ. جُوَیْرِیَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَصَفِیَّةُ بِنْتُ حُیَیٍّ فِیهِنَّ. هَذَا الْمُجْتَمَعُ عَلَیْهِ

اورعباس  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قرابت داری کی وجہ سے پانچ ہزاردرہم سالانہ مقررفرمایا،ابن سعدنے کہابعضوں  نے روایت کیا ہے کہ عباس  رضی اللہ عنہ کے لیے سات ہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے باقی سب راویوں  نے کہاہے کہ انہوں  نے سوائے ازواج مطہرات کے اورکسی کواہل بدرپرترجیح نہیں  دی، ان میں  سے ہربیوی کے لیے بارہ ہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے جن میں  جویریہ بنت حارث اورصفیہ بنت حیی بھی تھیں    یہ متفق علیہ ہے،

وَفَرَضَ لِمَنْ هَاجَرَ قَبْلَ الْفَتْحِ لِكُلِّ رَجُلٍ ثَلاثَةَ آلافِ دِرْهَمٍ  ،وَفَرَضَ لِمُسْلِمَةِ الْفَتْحِ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَلْفَیْنَ،وَفَرَضَ لِغِلْمَانَ أَحْدَاثٍ مِنْ أَبْنَاءِ الْمُهَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ كَفَرَائِضِ مُسْلِمَةِ الْفَتْحِ ،وَفَرَضَ لِعُمَرَ بْنِ أَبِی سَلَمَةَ أَرْبَعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ،فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ: لِمَ تُفَضِّلُ عُمَرَ عَلَیْنَا فَقَدْ هَاجَرَ آبَاؤُنَا وَشَهِدُوا؟ فَقَالَ عُمَرُ: أُفَضِّلَهُ لِمَكَانِهِ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَلْیَأْتِ الَّذِی یَسْتَعْتِبُ بِأُمٍّ مِثْلَ أُمِّ سَلَمَةَ أُعْتِبْهُ

اورجنہوں  نے قبل فتح مکہ ہجرت کی تھی ان میں  سے ہرایک کے لیے تین ہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے،فتح مکہ میں  اسلام قبول کرنے والوں  میں  سے ہرشخص کے لیے دوہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے،اوراولادمہاجرین وانصارکے نومولودبچوں  کے لیے مسلمین فتح مکہ کے برابرحصہ مقرر فرمایا،عمربن ابی سلمہ کے لیے چارہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے، تومحمدبن عبداللہ بن جحش نے کہاکہ آپ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کوہم پرکیوں  ترجیح دے رہے ہیں  جب کہ ہمارے آباءنے ہجرت کی اورجہادمیں  شہیدہوئے،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں  انہیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے تعلق کی وجہ سے ترجیح دیتاہوں  جوشخص روٹھے توام سلمہ   رضی اللہ عنہا  کی مثل ماں  لائے تومیں  اسے مناؤں  گا،

وَفَرَضَ لأُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ أَرْبَعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: فَرَضْتَ لِی ثَلاثَةَ آلاف وَفَرَضْتَ لأُسَامَةَ فِی أَرْبَعَةِ آلافٍ وَقَدْ شَهِدْتُ مَا لَمْ یَشْهَدْ أُسَامَةُ ،فَقَالَ عُمَرُ: زِدْتُهُ لأَنَّهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَى  رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ منك وكان أبوه أحب إلى  رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِیكَ

اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ کے لیے بھی چارہزاردرہم سالانہ مقرر فرمائے،توعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ نے میرے لیے توتین ہزارمقررفرمائے اوراسامہ  رضی اللہ عنہ کے لیے چارہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے حالانکہ میں  ان مقامات میں  حاضرہواہوں  جہاں  اسامہ  رضی اللہ عنہ  بھی حاضرنہیں  ہوئے، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں  نے انہیں  اس لیے زیادہ دیاہے کہ وہ تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومحبوب تھے اوران کے والدبھی تمہارے والدسے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومحبوب تھے،

ثُمَّ فَرَضَ لِلنَّاسِ عَلَى مَنَازِلِهِمْ وَقِرَاءَتِهِمْ لِلْقُرْآنِ وَجِهَادِهِمْ ، ثُمَّ جَعَلَ مَنْ بَقِیَ مِنَ النَّاسِ بَابًا وَاحِدًا، فَأَلْحَقَ مَنْ جَاءَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِالْمَدِینَةِ فِی خَمْسَةٍ وَعِشْرِینَ دِینَارًا لِكُلِّ رَجُلٍ  وَفَرَضَ لِلْمُحَرَّرِینَ مَعَهُمْ، وَفَرَضَ لأَهْلِ الْیَمَنِ، وَقَیْسٍ بِالشَّامِ وَالْعِرَاقِ لِكُلِّ رَجُلٍ أَلْفَیْنِ إِلَى أَلْفٍ إِلَى تِسْعِمِائَةٍ إِلَى خَمْسِمِائَةٍ إِلَى ثَلاثِمِائَةٍ لَمْ یُنْقِصْ أَحَدًا مِنْ ثَلاثِمِائَةٍ   وَقَالَ: لَئِنْ كَثُرَ الْمَالُ لأَفْرِضَنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ أَلْفٌ لِسَفَرِهِ وَأَلْفٌ لِسِلاحِهِ وَأَلْفٌ یُخَلِّفُهَا لأَهْلِهِ وَأَلْفٌ لِفَرَسِهِ وَبَغْلِهِ.

اس کے بعد انہوں  نے لوگوں  کوقرات قرآن اورجہادکے اعتبارسے حصے مقررفرمائے،پھربقیہ لوگوں  کے لیے ایک باب کیا، جومسلمان ان کے پاس مدینہ منورہ میں  آئے انہیں  بھی اس میں  شامل فرمایااوران میں  سے ہرایک کے لیے پچیس دینار مقرر فرمائے،اورانہی کے ساتھ آزادکردہ غلاموں  کابھی حصہ مقررفرمایا، اہل یمن کے لیے بھی عطامقررفرمائی،شام اورعراق میں  ہرشخص کو دوہزارسے ایک ہزار،نوسو،پانچ سواورتین سوتک عطافرمایاانہوں  نے کسی کاتین سوسے کم نہیں  کیااورفرمایاکہ اگرمال زیادہ ہوگاتومیں  ہرشخص کے لیے چارہزاردرہم ضرور مقررکردوں  گا ایک ہزاراس کے سفرکے لیے ،ایک ہزاردرہم اس کے ہتھیاروں  کے لیے ایک ہزاراس کے گھروالوں  کے لیے اورایک ہزاراس کے گھوڑے اور خچرکے لیے،

وَفَرَضَ لِنِسَاءَ مُهَاجِرَاتٍ، فَرَضَ لِصَفِیَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سِتَّةَ آلافِ دِرْهَمٍ، وَلأَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَیْسٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ،وَلأُمِّ كُلْثُومِ بِنْتِ عُقْبَةَ أَلْفَ دِرْهَمٍ ، وَلأُمِّ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ،  وَقَدْ رُوِیَ أَنَّهُ فَرَضَ لِلنِّسَاءِ الْمُهَاجِرَاتِ ثَلاثَةَ آلافِ دِرْهَمٍ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ

انہوں  نے ہجرت کرنے والی عورتوں  کابھی حصہ مقررفرمایا،صفیہ بنت عبدالمطلب کے لیے چھ ہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے، اسماء بنت عمیس کے لیے ایک ہزاردرہم سالانہ مقررفرمائے ،ام کلثوم بنت عقبہ کے لیے ایک ہزاردرہم مقررہوئے، عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کی والدہ کے لیے ایک ہزار درہم سالانہ مقررکیے،اوریہ بھی روایت ہے کہ ہجرت کرنے والی عورتوں  میں  سے ہرایک کے لیے تین ہزاردرہم مقررفرمائے،

وَأَمَرَ عُمَرُ فَكُتِبَ لَهُ عِیَالُ أَهْلِ الْعَوَالِی فَكَانَ یَجْرِی عَلَیْهِمُ الْقُوتَ ، ثُمَّ كَانَ عُثْمَانُ فَوَسَّعَ عَلَیْهِمْ فِی الْقُوتِ وَالْكِسْوَةِ، وَكَانَ عُمَرُ یَفْرِضُ لِلْمَنْفُوسِ مِائَةَ دِرْهَمٍ فَإِذَا تَرَعْرَعَ بَلَغَ بِهِ مِائَتَیْ دِرْهَمٍ فَإِذَا بَلَغَ زَادَهُ، وَكَانَ إِذَا أُتِیَ بِاللقِیطِ فَرَضَ لَهُ مِائَةَ دِرْهَمٍ وَفَرَضَ لَهُ رِزْقًا یَأْخُذُهُ وَلِیُّهُ كُلَّ شَهْرٍ مَا یُصْلِحُهُ  ثُمَّ یَنْقُلُهُ مِنْ سَنَةٍ إِلَى سَنَةٍ. وَكَانَ یُوصِی بِهِمْ خَیْرًا وَیَجْعَلُ رِضَاعَهُمْ وَنَفَقَتَهَمْ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے حکم سے اہل عوالی(بیرون مدینے کے باشندوں )کی فہرست مرتب کی گئی انہوں  نے ان کی خوراک جاری کردی،  جب سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی توانہیں  خوراک کے علاوہ پوشاک بھی عطافرمائی،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ پیداہونے والے ہربچے کے لیے سودرہم سالانہ مقررفرماتے اورجب وہ بڑاہوتاتواسے دوسودرہم تک پہنچاتے اورجب وہ بالغ ہوجاتاتواورزیادہ کر دیتے، اگران کے پاس لاوارث بچہ لایاجاتاتواس کے لیے بھی سودرہم اورمناسب تنخواہ مقررفرمادیتے  جسے اس کاسرپرست ومحافظ ہرمہینے لے لیتاپھراسے ایک سال سے دوسرے سال منتقل کرتے اورانہیں  نیکی کی وصیت فرماتے اوران کی رضاع اورنفقہ کے لیے بیت المال سے مقرر فرماتے،

حَدَّثَنِی حِزَامُ بْنُ هِشَامٍ الْكَعْبِیُّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَحْمِلُ دِیوَانَ خُزَاعَةَ حَتَّى یَنْزِلَ قُدَیْدًا فَتَأْتِیهِ بِقُدَیْدٍ فَلا یَغِیبُ عَنْهُ امْرَأَةٌ بِكْرٌ وَلا ثَیِّبٌ فَیُعْطِیهُنَّ فِی أَیْدِیهِنَّ ثُمَّ یَرُوحُ فَیَنْزِلُ عُسْفَانَ فَیَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ أَیْضًا حَتَّى تُوُفِّیَ

حزام بن ہشام الکعبی اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کو وہ خزاعہ کادفتر(رجسٹر) لیے ہوئے قدیدآتے دیکھا،قدیدمیں  ہرعورت ان کے پاس اس طرح آتی تھی کہ کوئی عورت خواہ وہ باکرہ ہویاثیبہ (شادی شدہ) ان سے چھپتی نہ تھی کہ وہ خودان کے ہاتھ میں  نہ دیتے ہوں  پھروہ جاکر عسفان میں  ٹھہرتے تھے وہاں  بھی ایساہی کرتے تھے یہاں  تک کہ ان کی وفات ہوگئی،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: كَانَ دِیوَانُ حِمْیَرَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ عَلَى  حَدِّهِ.

محمدبن زیدسے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  حمیرکادفترعلیحدہ تھا،

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ إِلَى حُذَیْفَةَ أَنْ أَعْطِ النَّاسَ أُعْطِیَتَهُمْ وَأَرْزَاقَهُمْ ، فَكَتَبَ إِلَیْهِ: إِنَّا قَدْ فَعَلْنَا وَبَقِیَ شَیْءٌ كَثِیرٌ ، فَكَتَبَ إِلَیْهِ عُمَرُ إِنَّهُ فَیْؤُهُمُ الَّذِی أَفَاءَ اللهُ عَلَیْهِمْ. لَیْسَ هُوَ لِعُمَرَ وَلا لآلِ عُمَرَ اقْسِمْهُ بَیْنَهُمْ

حسن  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کولکھاکہ لوگوں  کوان کی عطائیں  اورتنخوائیں  دے دو،انہوں  نے لکھاکہ ہم نے یہ سب کردیاہے مگرپھربھی بہت کچھ بچ گیاہے  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے انہیں  لکھاکہ وہ غنیمت جواللہ نے عطافرمائی ہے وہ نہ توعمر  رضی اللہ عنہ کی ہے اورنہ آل عمرکی اسے بھی انہی لوگوں  میں  تقسیم کردو۔[34]

تاریخ اسلامی کی ابتدا:

علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ  تحریرفرماتے ہیں  سترہ ہجری امیرالمومنین سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت میں  یہ تجویزپیش ہوئی کہ اسلامی تاریخ اورسال کا تعین ہوناچاہیے تاکہ سرکاری فرامین ،وثائق اوردیگرتحریروں  پرتاریخ کااندراج ہوسکے،اس سلسلہ میں  ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ گورنربصرہ نے خلیفہ المسلمین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ آپ کے جو فرامین ہمارے پاس پہنچتے ہیں  ان پرتاریخ درج نہیں  ہوتی،

قَالَ رُفِعَ لِعُمَرَ صَكٌّ مَحَلُّهُ شَعْبَانُ فَقَالَ أَیُّ شَعْبَانَ الْمَاضِی أَوِ الَّذِی نَحْنُ فِیهِ ،قَالَ جَمَعَ عُمَرُ النَّاسَ فَسَأَلَهُمْ عَنْ أَوَّلِ یَوْمٍ یَكْتُبُ التَّارِیخَ

علاوہ ازیں  سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں  ایک چیک پیش کیاگیاجوشعبان میں  واجب الاداتھا   آپ  رضی اللہ عنہ  نے سوال کیا کونسا شعبان ، گزشتہ،موجودہ یاآئندہ؟ان حالات وضروریات کے پیش نظرسیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کانمائندہ اجلاس طلب فرمایا تاکہ اسلامی تاریخ کاتعین کیاجاسکے ،اس اجلاس میں  چار اہم واقعات کی نشاندہی کرکے تجویزپیش کی گئی کہ ان میں  سے کسی ایک واقع سے اسلامی تاریخ کاآغازکیاجائے۔

قَالَ قَوْمٌ أَرِّخُوا لِلْمَوْلِدِ

بعض لوگوں  نے کہارحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت باسعادت  سے تاریخ شروع کی جائے

وَقَالَ قَائِلٌ لِلْمَبْعَثِ

بعض لوگوں  نے کہا بعثت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے تاریخ شروع کی جائے

وَقَالَ قَائِلٌ مِنْ حِینِ خَرَجَ مُهَاجِرًا

بعض لوگوں  نے کہاہجرت سے تاریخ شروع کی جائے

وَقَالَ قَائِلٌ مِنْ حِینِ تُوُفِّیَ

بعض لوگوں  نے کہاوفات سے تاریخ شروع کی جائے

اجلاس نے ولادت اوربعثت کی تجویزکوسن کرعدم تعین کے باعث ترک کردیااورتاریخ وفات کوحزن وملال کے باعث مناسب نہ سمجھاچنانچہ ہجرت کے وقت سے اسلامی سال کاآغازپراتفاق رائے ہوگیا،پھریہ سوال پیش ہواکہ کس مہینہ سے سال کاآغازکیاجائے،

قَالَ بِأَیِّ شَهْرٍ نَبْدَأُ فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ رَجَبٍ وَقَالَ قَائِلٌ مِنْ رَمَضَانَ

کسی نے ربیع الاول تجویزکیاکسی نے رجب اورکسی نے رمضان المبارک کانام پیش کیا۔

اس سلسلہ میں  قیاس کاتقاضاتویہ تھاکہ سن ہجری کی ابتداربیع الاول سے ہوتی کیونکہ آپ اسی ماہ مبارک میں  مدینہ منورہ رونق افروزہوئے تھے،

فَقَالَ عُثْمَانُ أَرِّخُوا الْمُحَرَّمَ فَإِنَّهُ شَهْرٌ حَرَامٌ وَهُوَ أَوَّلُ السَّنَةِ وَمُنْصَرَفُ النَّاسِ مِنَ الْحَجِّ

مگرسیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  اور سیدناعثمان ذی النورین  رضی اللہ عنہ  کی رائے تھی کہ محرم الحرام سے اسلامی سال شروع کیاجائے کیونکہ یہ پہلاحرام مہینہ ہے اورلوگ حج سے واپس جاتے ہیں  ۔ ان کے علاوہ بھی کئی تجاویزپیش ہوئیں  مگرسیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاکہ محرم الحرام ہی مناسب ہے کیونکہ اسی مہینہ میں  لوگ حج سے واپس ہوتے ہیں ،

مِنْ مَجْمُوعِ هَذِهِ الْآثَارِ أَنَّ الَّذِی أَشَارَ بِالْمُحَرَّمِ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ

چنانچہ اسی پرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کااتفاق ہوگیا۔[35]

 أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ ، كَتَبَ إلَى عُمَّالِهِ، إذَا كَتَبْتُمْ إلَیَّ فَاذْكُرُوا التَّارِیخَ فِی الْكِتَابِ

اورامیرالمومنین سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے گورنروں  کے نام سرکلرجاری کیاکہ تمہاری جو تحریریں  دربار خلافت میں  آتی ہیں  ان پرتاریخ مرقوم نہیں  ہوتی لہذاتاریخ کا اندراج ضرورکیاجائے۔[36]

وَقَدْ رَوَى الْحَاكِمُ فِی الْإِكْلِیلِ مِنْ طَرِیقِ بن جریج عَن أبی سَلمَة عَن بن شِهَابٍ الزُّهْرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ أَمَرَ بِالتَّارِیخِ فَكُتِبَ فِی رَبِیعٍ الْأَوَّلِ وَهَذَا مُعْضَلٌ وَالْمَشْهُورُ خِلَافُهُ كَمَا سَیَأْتِی وَأَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِی خِلَافَةِ عُمَرَ

امام حاکم رحمہ اللہ  نے اکلیل میں امام زہری کی روایت لکھی ہے کہ جب  رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ رونق افروزہوئے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول سے تاریخ لکھنے کاحکم فرمایالیکن یہ معضل ہے جب کہ مشہور اورصحیح روایت مذکور بالاہے۔ [37]

وَشَاوَرَهُمْ فِی ابْتِدَاءِ مُدَّةِ التَّارِیخِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: یُجْعَلُ التَّارِیخُ مِنْ وَقْتِ مَوْلِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ  ،فَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ لِمَا فِیهِ مِنْ بَعْضِ التَّشَبُّهِ بِالنَّصَارَى،وَقَالَ بَعْضُهُمْ: یُجْعَلُ التَّارِیخُ مِنْ حِینِ قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ لِمَا فِیهِ مِنْ مَعْنَى الْمُصِیبَةِ لِلْمُسْلِمِینَ،فَاتَّفَقُوا عَلَى أَنْ جَعَلُوا التَّارِیخَ مِنْ وَقْتِ هِجْرَةِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ، فَإِنَّ ظُهُورَ أَعْلَامِ الدِّینِ كَالْجُمَعِ وَالْأَعْیَادِ وَأَمْنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ إنَّمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَجَعَلُوا التَّارِیخَ مِنْ وَقْتِ الْهِجْرَةِ لِهَذَا

امام سرخسی رحمہ اللہ  سیرکبیرکی شرح میں  لکھتے ہیں جب سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے تعین تاریخ کے لئے صحابہ کرام کوجمع کیاتوبعض نے یہ تجویزپیش کی کہ تاریخ کی ابتداء ولادت باسعادت سے ہونی چاہیے،مگرانہوں  نے اسے اس وجہ سے پسندنہ فرمایاکہ اس میں  نصاری کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ ان کی تاریخ عیسیٰ   علیہ السلام  کی ولادت سے شروع ہوتی ہے بعض حضرات نے رائے دی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تاریخ مقررکی جائےتواسے بھی قبول نہ کیاگیاکیونکہ مسلمانوں  کے لئے آپ کی وفات حادثہ کبری اورمصیبت عظمٰی ہے،بالآخرطویل بحث وتمحیص کے بعدسب کااس پراتفاق ہوگیاکہ ہجرت سے تاریخ مقررکی جائے،اس رائے سے امیرالمومنین نے بھی اتفاق کیاکیونکہ ہجرت ہی سے حق وباطل میں  فرق واضح ہوااورشعاراسلام جمعہ اورعیدین علی الاعلان اداکیے گئے انہی وجوہات کی بناء پر ہجرت ہی سے تاریخ کا آغاز کیاگیا۔[38]

 اتَّفَقَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَوَّلِ سِنِیِّ التَّارِیخِ عَامَ الْهِجْرَةِ

علامہ ابن کثیرلکھتے ہیں سن سولہ،سترہ یااٹھارہ ہجری میں  خلافت فاروقی کے دوران سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے اسلامی تاریخ کے تعین کے لئے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کااجلاس بلایا جس میں  ہجرت سے تاریخ لکھنے پراتفاق ہوگیا تھا۔[39]

لوگوں  کونمازتراویح پرجمع کرنا:

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  رمضان المبارک میں  لوگ مسجدنبوی میں  اپنے اپنے طورپرنمازتراویح پڑھ لیاکرتے تھے،

وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ قِیَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ وَجَمَعَ النَّاسَ عَلَى ذَلِكَ وَكَتَبَ بِهِ إِلَى الْبُلْدَانِ. وَذَلِكَ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ. وَجَعَلَ لِلنَّاسِ بِالْمَدِینَةِ قَارِئَیْنِ. قَارِئًا یُصَلِّی بِالرِّجَالِ وَقَارِئًا یُصَلِّی بِالنِّسَاءِ.

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں  جنہوں  نے رمضان المبارک کی تراویح کاطریقہ ڈالااورلوگوں  کواس پرجمع کیااورشہروں  میں  اس کے متعلق فرمان لکھے،یہ واقعہ رمضان ۱۴ہجری کاہے،انہوں  نے مدینہ منورہ میں  دوقاری مقررفرمائے ان میں  سے ایک مردوں  کونمازتراویح پڑھاتاتھا اور دوسراعورتوں  کو پڑھاتا تھا۔[40]

سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ یَقُولُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یُحِبُّ الصَّلاةَ فِی كَبِدِ اللَّیْلِ.

سعیدبن المسیب کہتے ہیں سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب وسط شب میں  نماز پڑھنا پسند کرتے تھے یعنی رات کے درمیانی حصہ میں ۔[41]

الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: كُنَّا نَلْزَمُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ نَتَعَلَّمُ مِنْهُ الْوَرَعَ.

مسوربن مخرمہ سے مروی ہےہم لوگ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے ساتھ لگے رہتے تھے تاکہ ان سے تقویٰ سکھیں ۔[42]

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  اللہ مالک یوم الدین سے بے حدڈرتے تھے،

قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَوْمًا وَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ. وَبَیْنِی وَبَیْنَهُ جِدَارٌ وَهُوَ فِی جَوْفِ الْحَائِطِ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ بَخْ وَاللهِ بُنَیَّ الْخَطَّابِ لَتَتَّقِیَنَّ اللهَ أَوْ لَیُعَذِّبَنَّكَ

اس سلسلہ میں  انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہےایک روزمیں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ساتھ نکلایہاں  تک کہ وہ ایک حویلی میں  داخل ہوگئے ،میرے اوران کے درمیان ایک دیوارحائل تھی اوروہ چاردیواری کے اندرتھے میں  نے انہیں  کہتے سناعمربن خطاب امیرالمومنین ہیں  بڑی خوشی کی بات ہے اللہ کی قسم!اے فرزند خطاب تجھے ضروراللہ تعالیٰ سے ڈرناہوگاورنہ اللہ تجھے عذاب میں  مبتلاکردے گا۔[43]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ یَزَالُوا مُسْتَقِیمِینَ مَا اسْتَقَامَتْ لَهُمْ أَئِمَّتُهُمْ وَهُدَاتُهُمْ.

سعیدبن مسیب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں  کہ انہوں نے فرمایا لوگ اس وقت تک برابردرست رہیں  گے جن تک ان کے پیشوااور رہبر ورہنما درست رہیں  گے۔[44]

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: الرَّعِیَّةُ مُؤَدِّیَةٌ إِلَى الإِمَامِ مَا أَدَّى الإِمَامُ إِلَى اللَّهِ. فَإِذَا رَتَعَ الإِمَامُ رَتَعُوا.

اورحسن  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے فرمایا جب تک امام اللہ کے حقوق اداکرتا رہتا ہے رعایاامام کے حقوق اداکرتی رہتی ہے،جب امام عیش کرنے لگتاہے تووہ بھی عیش کرنے لگتے ہیں ۔

قَالَ سُفْیَانُ. یَعْنِی ابْنَ عُیَیْنَةَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ مَنْ رَفَعَ إِلَیَّ عُیُوبِی.

سفیان بن عیینہ سے مروی ہے  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نے فرمایامجھے سب سے زیادہ وہ پسندہے جومیرے عیب میرے سامنے بیان کردے۔[45]

بیت المال :

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کی طرح بیت المال کوخودپراستعمال نہیں  کیا۔

عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنِّی أَنْزَلْتُ نَفْسِی مِنْ مَالِ اللَّهِ مَنْزِلَةَ مَالِ الْیَتِیمِ. إِنِ اسْتَغْنَیْتُ اسْتَعْفَفْتُ وَإِنِ افْتَقَرْتُ أَكَلْتُ بِالْمَعْرُوفِ.

حارثہ بن مضرب سے روایت ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں  نے اپنی طرف سےاللہ کے مال کوبمنزلہ مال یتیم کے رکھاہے اگرمیں  غنی ہوجاؤں  تواس مال سے پرہیز کروں  اور اگرفقیرہوجاؤں  تواصول کے مطابق اس میں  سے کھاؤں ۔

چنانچہ اکثروبیشتروہ بیت المال سے قرضہ لے کرگزارہ کرتے۔

أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا احْتَاجَ أَتَى صَاحِبَ بَیْتِ الْمَالِ فَاسْتَقْرَضَهُ. فَرُبَّمَا عَسُرَ فَیَأْتِیهُ صَاحِبُ بَیْتِ الْمَالِ یَتَقَاضَاهُ فَیَلْزَمُهُ فَیَحْتَالُ لَهُ عُمَرُ. وَرُبَّمَا خَرَجَ عَطَاؤُهُ فَقَضَاهُ.

عمران سے مروی ہے کہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کواکثروبیشترتنگی کاسامناہوتاچنانچہ جب ضرورت ہوتی تووہ بیت المال کے محافظ کے پاس آتے اور اس سے قرض لے لیتے ،بیت المال کامحافظ ان کے پاس آکرقرض کاتقاضاکرتااوران کے ساتھ ہولیتاتووہ اس سے حیلہ کرتے(فلاں  وقت دے دوں  گا) اور اکثر و بیشتر جب ان کی تنخواہ نکلتی تووہ بیت المال کے اس قرض کوادافرمادیتے۔

ان کی بیت المال کے مال کواستعمال کرنے میں احتیاط کایہ عالم تھاکہ وہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی اجازت کے بغیرخرچ نہیں  کرتے تھے ۔

عَنِ ابْنٍ لِلْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ أَنَّ عُمَرَ خَرَجَ یَوْمًا حَتَّى أَتَى الْمِنْبَرَ. وَقَدْ كَانَ اشْتَكَى شَكْوَى لَهُ فَنُعِتَ لَهُ الْعَسَلُ وَفِی بَیْتِ الْمَالِ عُكَّةٌ فَقَالَ: إِنْ أَذِنْتُمْ لِی فِیهَا أَخَذْتُهَا وَإِلا فَإِنَّهَا عَلَیَّ حَرَامٌ. فَأْذِنُوا له فیها.

براء بن معرورسےمروی ہےایک روزسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نکل کرمنبرکے پاس آئے وہ کچھ بیمارتھے ان سے شہدکی تعریف کی گئی (کہ اس مرض میں  مفید ہے)اوربیت المال میں  ایک عکّہ (وزن شہد)موجودہے انہوں  نے فرمایاکہ اگرتم لوگ مجھے اس کے استعمال کی اجازت دوتوٹھیک ہے ورنہ وہ مجھ پرحرام ہے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے انہیں  استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔[46]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ عُمَرُ یَقُوتُ نَفْسَهُ وَأَهْلَهُ وَیَكْتَسِی الْحُلَّةَ فِی الصَّیْفِ. وَلَرُبَّمَا خُرِقَ الإِزَارُ حَتَّى یُرَقِّعَهُ فَمَا یُبَدَّلَ مَكَانَهُ حَتَّى یَأْتِی الإِبَّانُ. وَمَا مِنْ عَامٍ یَكْثُرُ فِیهِ الْمَالُ إِلا كُسْوَتُهُ فِیمَا أَرَى أَدْنَى مِنَ الْعَامِ الْمَاضِی.

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ اپنی اوراپنے گھروالوں  کی خوراک اورگرمی میں  ایک حلہ(چادروتہبند)پہننے کولیتے تھے ، اکثرتہبندپھٹ جاتی تواس میں  پیوندلگالیتے تھے مگراس کی جگہ دوسری نہیں  بدلتے تھے تاوقت کہ دوسری تہبندلینے کاوقت نہ آئے، کوئی سال ایسانہ تھاکہ مال کی کثرت نہ ہوتی ہومگرمیں  دیکھتاتھاکہ ان کالباس گزشتہ سے بھی کم درجے کاہوجاتاتھا۔[47]

قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ وَقَدْ رَقَعَ بَیْنَ كَتِفَیْهِ بِرِقَاعٍ ثَلاثٍ لَبَّدَ بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ.

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کواس زمانہ میں  دیکھاجب وہ امیرالمومنین تھے کہ اپنے (کرتے میں )شانوں  میں  تین پیوندلگائے ہوئے تھے جن میں  ایک دوسرے سے بڑاتھا۔[48]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُ بَیْنَ كَتِفَیْ عُمَرَ أَرْبَعَ رِقَاعٍ فِی قَمِیصٍ لَهُ.

ایک روایت میں  انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے شانوں  کے درمیان ان کے کرتے میں  چار پیوند دیکھے ۔[49]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قال: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعَلَیْهِ قَمِیصٌ فی ظهره أربع رقاع

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم لوگ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اوروہ اس وقت ایساکرتہ زیب تن فرمائے ہوئے تھے جس کی پیٹھ میں  چارپیوندلگے ہوئے تھے۔[50]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَرْمِی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَعَلَیْهِ إِزَارٌ مَرْقُوعٌ بِفَرْوٍ. وَهُوَ یَوْمَئِذٍ وَالٍ.

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سےایک اورروایت میں  ہےمیں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کواس حالت میں  جمرہ عقبہ کی رمی کرتے ہوئے دیکھاکہ ان کے بدن پرایک تہبندتھی جس میں  چمڑے کے پیوندلگے ہوئے تھے حالانکہ وہ اس زمانے میں  والی تھے۔[51]

عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّهْدِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عَلَیْهِ إِزَارٌ فِیهِ اثْنَتَا عَشْرَةَ رُقْعَةً إِحْدَاهُنَّ بِأَدِیمٍ أَحْمَرَ.

ابوعثمان الہندی سے مروی ہے میں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کواس حالت میں  بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے دیکھاکہ ان کے جسم پرایک تہبندتھی جس میں  بارہ پیوندتھے جن میں  ایک پیوندسرخ چمڑے کاتھا۔[52]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَیْتُ عَلَى عُمَرَ إِزَارًا فِیهِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ رُقْعَةً إِنَّ بَعْضَهَا لأَدَمٌ. وَمَا عَلَیْهِ قَمِیصٌ وَلا رِدَاءٌ. مُعْتَمٌّ.مَعَهُ الدِّرَّةُ. یَطُوفُ فِی سُوقِ الْمَدِینَةِ.

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے بدن پرتہبنددیکھی جس میں  چودہ پیوندلگے ہوئے تھے اورجن میں بعض چمڑے کے پیوندتھے ان کے بدن پرکوئی کرتہ تھااورنہ کسی چادرکاعمامہ باندھاہواتھاان کے ہاتھ میں  درہ تھااوروہ مدینہ منورہ کے بازارمیں  گھوم رہے تھے۔[53]

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ لأَبِیهَا. قَالَ یَزِیدُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ. وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ یَا أَبَتِ. إِنَّهُ قَدْ أَوْسَعَ اللهُ الرِّزْقَ وَفَتَحَ عَلَیْكَ الأَرْضَ وَأَكْثَرَ مِنَ الْخَیْرِ فَلَوْ طَعِمْتَ طَعَامًا أَلْیَنَ من طعامك ولبست لباسا من لباسك.  قال:سَأُخَاصِمُكِ إِلَى نَفْسِكِ  أَمَا تَذْكُرِینَ مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یلقى مِنْ شِدَّةَ الْعَیْشِ؟ قَالَ فَمَا زَالَ یُذَكِّرُهَا حَتَّى أَبْكَاهَا  ثُمَّ قَالَ: إِنِّی قَدْ قُلْتُ لك إنی والله لئن استطعت لأشاركنها فِی عَیْشِهِمَا الشَّدِیدِ لَعَلِّی أَلْقَى مَعَهُمَا عَیْشَهُمَا الرَّخِیَّ. قَالَ یَزِیدُ بْنُ هَارُونَ:یَعْنِی رَسُولَ الله وأبا بكر

مصعب بن سعدسے مروی ہےیہ حال دیکھ کران کی بیٹی ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا نے کہابروایت یزیداے امیرالمومنین اور بروایت ابواسامہ اے اباجان!اللہ تعالیٰ نے آپ کوخوب رزق عطافرمایاہے اورزمین کوآپ پرفتح کردیاہے اگراب آپ اپنے کھانے میں  باریک اناج کھائیں  اور لباس میں  باریک کپڑاپہنیں  توبہترہوگا،فرمایامیں  تمہارافیصلہ تمہیں  سے کرتاہوں ،کیاتمہیں  یادنہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیسی مصیبت کی زندگی گزارتے تھےوہ برابرانہیں  یاد دلاتے رہے یہاں  تک کہ وہ روپڑیں ، پھر فرمایا کہ میں  نے تم سے کہاکہ واللہ !اگرمجھ سے ہوسکے گاتومیں  ضروربالضروران دونوں  حضرات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی مصیبت کی زندگی میں  شرکت کروں  گاکہ شایدمیں  ان دونوں  کی(آخرت کی) راحت کی زندگی میں  شریک ہوجاؤں ۔[54]

شہادت کی تمنا:

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ شَهَادَةً فِی سَبِیلِكَ وَوَفَاةً بِبَلْدَةِ رَسُولِكَ.

زیدبن اسلم سے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنی دعامیں  کہاکرتے تھے اے اللہ!میں  تجھ سے تیری راہ میں  شہادت اورتیرے نبی کے شہرمیں  وفات کا سوالی ہوں ۔[55]

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: كَانَ عُمَرُ لا یَأْذَنُ لِسَبِیٍّ قَدِ احْتَلَمَ فِی دُخُولِ الْمَدِینَةِ حَتَّى كَتَبَ الْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ وَهُوَ عَلَى الْكُوفَةِ یَذْكُرُ لَهُ غُلامًا عِنْدَهُ صَنِعًا وَیَسْتَأْذِنُهُ أَنْ یُدْخِلَهُ الْمَدِینَةَ وَیَقُولُ إِنَّ عِنْدَهُ أَعْمَالا كَثِیرَةً فِیهَا مَنَافِعُ لِلنَّاسِ. إِنَّهُ حَدَّادٌ نَقَّاشٌ نَجَّارٌ فكتب إلیه عمر فأذن له أَنْ یُرْسِلَ بِهِ إِلَى الْمَدِینَةِ، وَضَرَبَ عَلَیْهِ   الْمُغِیرَةُ مِائَةَ دِرْهَمٍ كُلَّ شَهْرٍ

ابن شہاب سے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ قیدیوں  میں  جوبالغ ہوجائے اسے مدینہ منورہ میں  آنے کی اجازت نہیں  دیتے تھے ،مغیرہ بن شعبہ نے جوکوفہ کے عامل تھے انہیں  ایک خط لکھ کراپنے پاس ایک کاریگرغلام کاذکرکیااورمدینہ منورہ میں  داخل کرنے کی اجازت یہ کہہ کرچاہی کہ وہ لوگوں  کے فائدے کے بہت سے کام جانتاہے ،وہ لوہارہے،بڑھئی ہے اورنقاش بھی ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں  آنے کی اجازت دے دی ، مغیرہ نے اس پر سو درہم ماہوارخراج مقررکردیا،

فَجَاءَ إِلَى عُمَرَ یَشْتَكِی إِلَیْهِ شِدَّةَ الْخَرَاجِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَاذَا تُحْسِنُ مِنَ الْعَمَلِ؟ فَذَكَرَ لَهُ الأَعْمَالَ الَّتِی یُحْسِنُ ،فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا خَرَاجُكَ بِكَثِیرٍ فِی كُنْهِ عَمَلِكَ ، فَانْصَرَفَ سَاخِطًا یَتَذَمَّرُ

غلام سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس زیادہ خراج کی شکایت کرنے کے لیے آیاتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے پوچھاتم اچھی طرح کیاکیاکام جانتے ہو؟اس نے وہ سب کام بیان کیے جووہ اچھی طرح جانتاتھا،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایاجتناکام تم جانتے ہواس کے مقابلہ میں تیراخراج بہت زیادہ نہیں  ہے،وہ ناراض ہوکربڑبڑاتاہواواپس چلاگیا،

فَلَبِثَ عُمَرُ لَیَالِیَ. ثُمَّ إِنَّ الْعَبْدَ مَرَّ بِهِ فَدَعَاهُ فَقَالَ لَهُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَقُولُ لَوْ أَشَاءُ لَصَنَعْتُ رَحًى تَطْحَنُ بِالرِّیحِ؟فَالْتَفَتَ الْعَبْدُ سَاخِطًا عَابِسًا إِلَى عُمَرَ وَمَعَ عُمَرَ رَهْطٌ فَقَالَ: لأَصْنَعَنَّ لَكَ رَحًى یَتَحَدَّثُ بِهَا النَّاسُ، فَلَمَّا وَلَّى الْعَبْدُ أَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى الرَّهْطِ الَّذِینَ مَعَهُ فَقَالَ لَهُمْ: أَوْعَدَنِی الْعَبْدُ آنِفًا

چندراتوں  کے بعدوہ غلام سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزراتوانہوں  نے اس کوبلایااورفرمایامجھ سے کہاگیاہے کہ توکہتاہے کہ اگرمیں  چاہوں  توایسی چکی بنادوں  جوہواسے چلےگی وہ غلام ناراضگی اورترش روئی کے ساتھ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوا  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جماعت تھی، اس نے کہامیں  آپ کے لیے ضرورایسی چکی بناؤں  گاجس کولوگ بیان کیاکریں  گے،غلام نے پشت پھیری توسیدناعمر  رضی اللہ عنہ اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے جوان کے ہمراہ تھی اور فرمایاکہ غلام نے ابھی مجھے قتل کی دھمکی دی ہے۔[56]

ابو لؤلؤ کاحملہ:

فَلَبِثَ لَیَالِیَ ثُمَّ اشْتَمَلَ أَبُو لُؤْلُؤَةَ عَلَى خِنْجَرٍ ذِی رَأْسَیْنِ نِصَابُهُ فِی وَسَطِهِ فَكَمِنَ فِی زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَا الْمَسْجِدِ فِی غَلَسِ السَّحَرِ

چنانچہ ابھی چندراتیں  ہی گزری تھیں  کہ ابو لؤلؤ نے ایک خنجراپنے ساتھ لیاجس کے بیچ میں  دھارتھی اور وہ صبح کی تاریکی میں  مسجدکے کسی گوشے میں  چھپ گیا۔[57]

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ حِینَ طُعِنَ قَالَ: أَتَاهُ أَبُو لُؤْلُؤَةَ وَهُوَ یُسَوِّی الصُّفُوفَ فَطَعَنَهُ وَطَعَنَ اثْنَیْ عَشَرَ مَعَهُ هُوَ ثَالِثُ عَشَرَ  قَالَ:  فَأَنَا رَأَیْتُ عُمَرَ بَاسِطًا یَدَهُ وَهُوَ یَقُولُ:أدركوا الكلب قد قَتَلَنِی،  قَالَ فَمَاجَ النَّاسُ وَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ فَأَخَذَهُ فَقَتَلَ نَفْسَهُ،قَالَ فَمَاتَ مِنْهُمْ سَبْعَةٌ أَوْ سِتَّةٌ

جس وقت سیدناعمرپرخنجرکے وارہوئے تومیں  اس وقت مسجدمیں  موجودتھاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نمازفجرکے لیے صفیں  برابرفرمارہے تھے کہ مغیرہ بن شعبہ کاغلام ابو لؤلؤ آیااوران پر خنجرکے تین وارکر کے شدیدزخمی کردیااوران کے ساتھ اوربارہ آدمیوں  کوبھی زخمی کردیا،میں  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کواس حالت میں  دیکھاکہ اپناہاتھ پھیلائے ہوئے فرمارہے تھے اس کتے کوپکڑوجس نے مجھے قتل کیاہے، لوگ اس پرٹوٹ پڑے اورایک شخص اس کے پیچھے سے آیااوراسے گرفتارکرلیامگراس نے اپنے میں بھی وہی خنجربھونپ دیازخمی آدمیوں  میں  سے سات یاچھ آدمی زخموں  کی تاب نہ لاکرفوت ہوگئے،

قَالَ فَحُمِلَ عُمَرُ إِلَى مَنْزِلِهِ ،قَالَ فَأَتَى الطَّبِیبُ فَقَالَ: أَیُّ الشَّرَابِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: النَّبِیذُقَالَ فَدَعَى بِنَبِیذٍ فَشَرِبَ مِنْهُ فَخَرَجَ مِنْ إِحْدَى طَعَنَاتِهِ،  فَقَالُوا إنما هذا الصدید صدید الدم، قَالَ فَدَعَى بِلَبَنٍ فَشَرِبَ مِنْهُ فَخَرَجَ ، فَقَالَ: أوص بما كنت موصیا. فو الله مَا أَرَاكَ تُمْسِی

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوزخمی حالت میں ان کے گھرپہنچایاگیا طبیب آیااورپوچھاآپ کوکونساشربت زیادہ مرغوب ہے؟ فرمایامجھےنبیذ پسندہے، نبیذمنگوائی گئی ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے پی تووہ زخموں  سے باہرنکل گئی، لوگوں  نے کہاکہ یہ پیپ توصرف خون کی پیپ ہے،پھردودھ منگوایاگیااورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے پیاتووہ بھی زخموں  سے نکل گیا، طبیب نے کہاکہ آپ کو جو وصیت کرناہوفوراًکردیں  کیونکہ واللہ!میں  توآپ کواس حالت میں  بھی نہیں  دیکھتاکہ آپ شام کرسکیں ،

قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ: الصَّلاةَ عِبَادَ اللهِ قَدْ كَادَتِ الشَّمْسُ تَطْلُعُ ، قَالَ فَتَدَافَعُوا حَتَّى قَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَقَرَأَ بِأَقْصَرِ سُورَتَیْنِ فِی الْقُرْآنِ: وَالْعَصْرِ وإِنَّا أَعْطَیْناكَ الْكَوْثَرَ فَقَالَ: أَصَلَّى النَّاسُ؟ قَالَ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ: لا إِسْلامَ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلاةَ ، ثُمَّ دَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ. ثُمَّ صَلَّى ثُمَّ قَالَ: اخْرُجْ یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ فَسَلْ مَنْ قَتَلَنِی

پھرایک شخص نے کہاکہ اللہ کے بندوآفتاب طلوع ہونے کو ہے نمازپڑھ لو،لوگ واپس مسجدمیں  گئے اور عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ کوزبردستی آگے کیاانہوں  نے نمازپڑھائی اورقرآن مجیدکی سب سے چھوٹی دونوں  سورتیں  والعصراورالکوثر پڑھیں ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے پوچھاکیالوگوں  نے نمازپڑھ لی،میں  نے عرض کیاجی ہاں ،پھرفرمایااس کااسلام نہیں  جس نے نمازترک کردی،چنانچہ اسی حالت میں وضوکاپانی منگوایا اوروضوکیا اورنماز فجر پڑھی اورفرمایااے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما جاؤاوردریافت کروکہ مجھے کس نے قتل کیاہے؟

قَالَ فَقُلْتُ: مَنْ طَعَنَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟فَقَالُوا: طَعَنَهُ عَدُوُّ اللهِ أَبُو لُؤْلُؤَةَ غُلامُ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ،  أَنَّهُ طَعَنَهُ عَدُوُّ اللهِ أَبُو لُؤْلُؤَةَ غُلامُ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْ قَاتِلِی یُحَاجُّنِی عِنْدَ اللهِ بِسَجْدَةٍ سَجَدَهَا لَهُ قَطُّ. مَا كَانَتِ الْعَرَبُ لِتَقْتُلَنِی

وہ باہرگئے اورلوگوں  سے دریافت کیاامیرالمومنین کوکس نے قتل کیاہے؟لوگوں  نے کہاانہیں  اللہ کے دشمن مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ نے خنجرماراہے، میں  نے جاکرعرض کیا لوگ کہتے ہیں  اللہ کے دشمن ابو لؤلؤ نے خنجرماراہے جومغیرہ بن شعبہ کا غلام ہے، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایاسب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میراقاتل ایسے شخص کونہیں  بنایاجواللہ کے سامنے اس سجدے کی بناپرمجھ سے حجت کرے جوکبھی اس نے کیاہو،عرب ایسے نہیں  جوقتل کرتے۔[58]

ابن ابی الحدیدبیان کرتاہے جب امیرالمومنین زخمی ہوگئے تولوگ آپ کے گرداکٹھے ہوگئے آپ خون میں  لت پت تھے ابھی تک آپ نے نمازفجربھی نہیں  پڑھی تھی آپ سے کہاگیااے امیرالمومنین!نماز،آپ نے سراٹھایااورکہاجس نے اپنی نمازضائع کی اس کااسلام میں  کوئی حصہ نہیں  ،پھرایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اورآپ کے زخم سے خون پھوٹ پڑاآپ نے کہامجھے عمامہ لادو،وہ آپ نے زخم پرباندھ لیاپھرنمازپڑھی اورذکرکیا۔

فَقَالَ لَهُ: ضَعْ خَدِّی بِالْأَرْضِ، قَالَ: فَهَلْ فَخِذِی وَالْأَرْضُ إِلَّا سَوَاءٌ؟ قَالَ: ضَعْ خَدِّی بِالْأَرْضِ لَا أُمَّ لَكَ، فِی الثَّانِیَةِ أَوْ فِی الثَّالِثَةِ، ثُمَّ شَبَّكَ بَیْنَ رِجْلَیْهِ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ:وَیْلِی وَوَیْلُ أُمِّی إِنْ لَمْ یَغْفِرِ اللهُ لِی، حَتَّى فَاضَتْ نَفْسُهُ

اس کے بعداپنے بیٹے عبداللہ  رضی اللہ عنہ کی جانب متوجہ ہوئے اورکہااے عبداللہ رضی اللہ عنہ ! میرے رخسارکوزمین کے ساتھ لگاؤ،عبداللہ رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں  نے ایسانہیں  کیامیں  سمجھاکہ آپ ہوش وحواس کھوبیٹھے ہیں  آپ نے یہی بات دوبارہ کہی کہ میرے بیٹے!میرے رخسارزمین کے ساتھ لگادو،میں  نے ایسانہیں  کیا،آپ نے تیسری مرتبہ دفعہ کہامیرے رخسارکوزمین کے ساتھ کیوں  نہیں  لگاتے ؟اب میں  سمجھ گیاکہ آپ ہوش وحواس میں  ہیں  آپ خوداس لیے نہیں  رکھ سکتے تھے کہ آپ پر(دردوضعف کا)غلبہ تھا،میں  نے آپ کارخسارزمین کے ساتھ لگادیامیں  نے آپ رضی اللہ عنہ  کی ڈاڑھی کے کناروں  کے بال دیکھے جو مٹی سے اٹے پڑے تھے آپ روئے حتی کہ میں  نے دیکھامٹی آپ کی آنکھوں  سے چمٹ گئی ،میں  نے کان قریب کیے تاکہ سن سکوں  آپ کیاکہہ رہے ہیں ،آپ کہہ رہے تھے عمر  رضی اللہ عنہ کاستیاناس!عمر  رضی اللہ عنہ کی ماں  کی تباہی!اگراللہ نے عمر  رضی اللہ عنہ سے درگزرنہ کیا،تین مرتبہ یہ کہااورفوت ہوگئے۔[59]

قرض کی ادائیگی کی وصیت:

فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُ الْمَوْتُ قَالَ: یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ انْظُرْ كَمْ عَلَیَّ مِنَ الدَّیْنِ. قَالَ فَحَسَبَهُ فَوَجَدَهُ سِتَّةً وَثَمَانِینَ أَلْفَ دِرْهَمٍ. قَالَ: یَا عَبْدَ اللهِ إِنْ وَفَى لَهَا مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهَا عَنِّی مِنْ أَمْوَالِهِمْ. وَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَاسْأَلْ فِیهَا بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ. فَإِنْ لَمْ تَفِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَاسْأَلْ فِیهَا قُرَیْشًا وَلا تَعْدُهُمْ إِلَى غَیْرِهِمْ

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کوجب زندگی کی کوئی امیدنہ رہی توفرمایااے عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ مجھ پر کتنا قرض ہے انہوں  نے حساب کیا تو چھیاسی ہزاردرہم نکلے فرمایااے عبداللہ رضی اللہ عنہ !اگرآل عمرکامال اس کے لیے کافی ہوتوان کے مال سے اداکردینااوراگران کامال کافی نہ ہو توبنی عدی بن کعب سے مانگنااگروہ بھی کافی نہ ہوتوقریش سے مانگنااوران کے علاوہ کسی اورسے نہ کہنا۔

انتخاب خلیفہ :

وَقَالُوا لَهُ حِینَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: اسْتَخْلِفْ. فَقَالَ: لا أَجِدُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْ هَؤُلاءِ النَّفَرِ الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَأَیُّهُمُ اسْتُخْلِفَ فَهُوَ الْخَلِیفَةُ مِنْ بَعْدِی.فَسَمَّى عَلِیًّا وَعُثْمَانَ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَیْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ وَسَعْدًا فَذَاكَ حِینَ جَعَلَهَا عُمَرُ شُورَى بَیْنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَالزُّبَیْرِ وَطَلْحَةَ وَعَبْد الرَّحْمَن بْن عَوْفٍ وَسَعْدِ بْن أَبِی وَقَّاصٍ،قَالَ وَجَعَلَ عَبْدُ اللهِ مَعَهُمْ یُشَاوِرُونَهُ وَلَیْسَ لَهُ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ،فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَأَیْنَ أَنْتَ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ: قَاتَلَكَ اللهُ وَاللهِ مَا أَرَدْتُ اللهَ بِهَذَا. أَسْتَخْلِفُ رَجُلا لَیْسَ یُحْسِنُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ!

جب سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ کی موت کاوقت آیا اورزندگی کی کوئی امیدنہ رہی توصحابہ کرام نے ان کے سامنے ان کے جانشین کامسئلہ پیش کیاتوانہوں  نے فرمایا میں  اس امرکا حقدار ان لوگوں  سے زیادہ کسی کونہیں  پاتاجس سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی تک راضی رہے،ان میں  سے جوخلیفہ بنالیاجائے وہی میرے بعدخلیفہ ہےپھر سیدنا علی  رضی اللہ عنہ ،سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ ، الزبیر رضی اللہ عنہ ،عبد الرحمن  رضی اللہ عنہ  اور سعد  رضی اللہ عنہ  کے نام لیئے،پھرانہوں  نے عشرہ مبشرہ میں  سے چھ اصحاب سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ  ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،زبیربن عوام  رضی اللہ عنہ ،طلحہ بن عبیداللہ القرشی رضی اللہ عنہ ،سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ ،عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  کی ایک مجلس قائم کر دی،اوراپنے بیٹے عبداللہ  رضی اللہ عنہ کوبھی مشورے کے لئے ان کے ساتھ کردیا لیکن ساتھ ہی اپنے خاندان کو خلافت سے محروم کردیا،ایک شخص نے کہااے امیرالمومنین !آپ عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے کیوں  گریز فرمارہے ہیں ؟فرمایااللہ تجھے غارت کرے واللہ!میں  اس سے اللہ کی مرضی کو نہیں  چاہوں  گاکہ ایسے شخص کوکیوں  خلیفہ بناؤں  جواپنی عورت کواچھی طرح طلاق بھی نہیں  دے سکتاہو۔[60]

أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُوَیْرِیَةَ بْنَ قُدَامَةَ التَّمِیمِیَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْنَا: أَوْصِنَا یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ ، قَالَ: أُوصِیكُمْ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ ذِمَّةُ نَبِیِّكُمْ، وَرِزْقُ عِیَالِكُمْ

ابوجمرہ جویریہ بن قدامہ تمیمی سے روایت کرتے ہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنیں  نصیحت فرمائیے، (تو دنیاکے طاقتوارترین حکمران نے جس نے اس وقت دنیاکی دوبڑی طاقتوں  کوتہہ وبالاکردیاتھا ،جسے ایک مجوسی ذمی نے خنجرکے وارکرکے زخمی کردیاتھا) ارشاد فرمایا میں  تم لوگوں  کو(ذمیوں  کے حقوق کی پاسداری میں ) الله تعالیٰ کے عہد وپیمان کی تعمیل کی نصیحت کرتا ہوں (کہ اس میں  کوتاہی نہ کرنا)کیونکہ وہ تمہارے رسول الله کا قول وقرار ہے اور تمہارے اہل وعیال کی روزی کا ذریعہ ہے۔[61]

ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا سےدفن ہونے کی اجازت طلب کرنا:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ: اذْهَبْ یَا غُلامُ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ فَقُلْ لَهَا إِنَّ عُمَرَ یَسْأَلُكِ أَنْ تَأْذَنِی لِی أَنْ أُدْفَنَ مَعَ أَخَوَیَّ ثُمَّ ارْجِعْ إِلَیَّ فَأَخْبِرْنِی.قَالَ فَأَرْسَلَتْ أَنْ نَعَمْ قَدْ أَذِنْتُ لَكَ ،  قَالَ فَأَرْسَلَ فَحُفِرَ لَهُ فِی بَیْتِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ثُمَّ دَعَا ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ: یَا بُنَیَّ إِنِّی قَدْ أَرْسَلْتُ إِلَى عَائِشَةَ أَسْتَأْذِنُهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ أَخَوَیَّ فَأَذِنَتْ لِی وَأَنَا أَخْشَى أَنْ یَكُونَ ذَلِكَ لِمَكَانِ السُّلْطَانِ  فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَاغْسِلْنِی وَكَفِّنِّی ثُمَّ احْمِلْنِی حَتَّى تَقِفَ بِی عَلَى بَابِ عَائِشَةَ فَتَقُولُ هَذَا عُمَرُ یَسْتَأْذِنُ  یَقُولُ إِلَخْ … فَإِنْ أَذِنَتْ لِی فَادْفِنِّی مَعَهُمَا وَإِلا فَادْفِنِّی بِالْبَقِیع  ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَلَمَّا مَاتَ أَبِی حَمَلْنَاهُ حَتَّى وَقَفْنَا بِهِ عَلَى بَابِ عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّهَا فِی الدُّخُولِ،فَقَالَتِ ادْخُلْ بِسَلامٍ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایااے لڑکے ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤاورکہوعمر  رضی اللہ عنہ آپ سے درخواست کرتاہے کہ اگر اجازت ہوتواپنے دونوں  بھائیوں  کے پاس دفن کیا جائے پھرمیرے پاس آؤاورخبردوکہ ام المومنین نے کیافرمایا،ام المومنین نے کہلابھیجاہاں  میں  نے اجازت دے دی،پھرابن عمر  رضی اللہ عنہ کوبلایااورفرمایاپیارے بیٹے میں  نے عائشہ  رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کران سے اجازت مانگی تھی کہ اپنے دونوں  بھائیوں  کے ساتھ دفن کیاجاؤں انہوں  نے اجازت فرمادی ہے مگرمجھے اندیشہ ہے کہ کہیں  غلبے کی وجہ سے ایسا نہ ہواہو اس لیے جب میں  مر جاؤں  تومجھے غسل دیناکفن دینااورجنازہ کوعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کے دروازے پرلے جانااورکہنایہ عمر  رضی اللہ عنہ  ہیں  جواجازت چاہتے ہیں ،اگروہ اجازت عطافرمادیں  تومجھے میرے صاحبوں  کے ساتھ دفن کردیناورنہ بقیع میں  دفن کردینا،ابن عمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جب میرے والدکاانتقال ہوگیاتوہم نے ان کاجنازہ اٹھایااورعائشہ  رضی اللہ عنہا کے دروازے پرجاکھڑے ہوئے اوردفن ہونے کی اجازت طلب کی ، انہوں  نے فرمایاکہ سلامتی کے ساتھ اندرآؤ ۔[62]

مدت خلافت:

فَكَانَتْ وِلایَتُهُ عَشَرَ سِنِینَ وَخَمْسَةَ أَشْهُرٍ وَإِحْدَى وَعِشْرِینَ لَیْلَةً

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی خلافت دس سال پانچ ماہ اوراکیس روزرہی ۔[63]

مُعَاوِیَةَ یَقُولُ: تُوُفِّیَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّینَ.

معاویہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  وفات کے وقت سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔[64]

 فَقَدَّمُوا صُهَیْبًا فَصَلَّى عَلَى عُمَرَ

لوگوں  نےصہیب  رضی اللہ عنہ کوآگے کیاانہوں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ پڑھائی ۔[65]

مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِیهِ أَنَّ صُهَیْبًا كَبَّرَ عَلَى عُمَرَ أَرْبَعًا.

محمدبن عماراپنے  والدسے روایت کرتے ہیں اورصہیب  رضی اللہ عنہ نے عمر  رضی اللہ عنہ پرچارتکبیرات کہیں ۔[66]

صُلِّیَ عَلَى عُمَرَ فِی الْمَسْجِدِ،بَیْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ

نمازجنازہ مسجدنبوی میں  قبرومنبرکے درمیان پڑھی گئی ۔[67]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَزَلَ فِی قَبْرِ عُمَرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وسعد بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ وَصُهَیْبُ بْنُ سِنَانٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ.

جابر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی قبرمیں  سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ اورسعد بن زیدبن عمروبن نفیل اورصہیب بن سنان اورعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ اترے[68]

أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِی بَكْرٍ قَالَ: دُفِنَ عُمَرُ فِی بَیْتِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَجُعِلَ رَأْسُ أَبِی بَكْرٍ عِنْدَ كَتِفَیِ النَّبِیِّ. وَجُعِلَ رَأْسُ عُمَرَ عِنْدَ حَقْوَیِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

خالدبن ابوبکر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مکان میں  دفن کیاگیاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کاسرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے شانوں  کے پاس کیاگیااورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کاسرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کولہوں  کے پاس۔[69]

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی شہادت پرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے جذبات:

عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:  كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ وَقَدْ سُجِّیَ عَلَیْهِ  فَدَخَلَ عَلِیٌّ فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ: رَحِمَكَ اللهُ أَبَا حَفْصٍ. مَا أَحَدٌ أحب إلی بعد النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَلْقَى اللهَ بِصَحِیفَتِهِ مِنْكَ

عون بن ابی جعیفہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس تھاان پرچادرڈھانک دی گئی تھی سیدناعلی  رضی اللہ عنہ اندرآئے اورانہوں  نے ان کے چہرے سے چادرہٹائی اورفرمایااے ابوحفص رضی اللہ عنہ !اللہ آپ پررحمت کرے مجھے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں  کہ میں  اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں ۔[70]

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیه أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا غُسِّلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَكُفِّنَ وَحُمِلَ عَلَى سَرِیرِهِ وَقَفَ عَلَیْهِ عَلِیٌّ فَأَثْنَى عَلَیْهِ وَقَالَ:وَاللهِ مَا عَلَى الأَرْضِ رَجُلٌ أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ أَلْقَى اللهَ بِصَحِیفَتِهِ مِنْ هَذَا الْمُسَجَّى بِالثَّوْبِ

جعفربن محمدسے مروی ہے جب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کوغسل اورکفن دے دیاگیاتوسیدناعلی  رضی اللہ عنہ آئے اوران کے سرہانے کے پاس کھڑے ہوگئے اورفرمایااللہ کی قسم !روئے زمین پرکوئی آدمی جس کے بارے میں  میری یہ خواہش ہوکہ میرے اعمال اس کے عملوں  کے ساتھ ملادیے جائیں  سوائے اس آدمی کے جوتمہارے درمیان کفن میں  لپٹا پڑا ہے ۔[71]

جب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوغسل اورکفن دیاگیااس وقت سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  آپ کے پاس آئے اورکہااللہ ان پررحمتیں  اور سلام نازل کرے ،روئے زمین پرکوئی آدمی جس کے بارے میں  میری یہ خواہش ہوکہ میرے اعمال اس کے عملوں  کے ساتھ ملادیے جائیں  سوائے اس آدمی کے جوتمہارے درمیان کفن میں  لپٹا پڑا ہے۔[72]

یَا عُمَرُ. جَوَّادًا بِالْحَقِّ بَخِیلا بِالْبَاطِلِ. تَرْضَى حِینَ الرِّضَى وَتَغْضَبُ حِینَ الْغَضَبِ. عَفِیفَ الطَّرْفِ طَیِّبَ الظُّرْفِ. لَمْ تَكُنْ مَدَّاحًا وَلا مُغْتَابًا

عبداللہ بن سلام  رضی اللہ عنہ نے فرمایااے عمر  رضی اللہ عنہ !تم حق میں  سخی تھے اورباطل میں  بخیل،خوشی کے وقت خوش ہوتے اورغضب کے وقت غضب ناک تم پاک نظر، عالی ظرف تھے نہ مدح کرنے والے تھے اورنہ غیبت کرنے والے۔[73]

عَنْ زَیْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ: أَتَیْنَا ابْنَ مَسْعُودٍ فَذَكَرَ عُمَرَ فَبَكَى حَتَّى ابْتَلَّ الْحَصَى مِنْ دُمُوعِهِ وَقَالَ: إِنَّ عُمَرَ كَانَ حِصْنًا حَصِینًا لِلإِسْلامِ یَدْخُلُونَ فِیهِ وَلا یَخْرُجُونَ مِنْهُ. فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ انْثَلَمَ الْحِصْنُ فَالنَّاسُ یَخْرُجُونَ مِنَ الإِسْلامِ

زیدبن وہب سے مروی ہےہم لوگ عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کے پاس آئے وہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کاذکرکرکے اتناروئے کہ ان کے آنسوؤں  سے سنگریزے ترہوگئے اور کہا سیدناعمر  رضی اللہ عنہ اسلام کے لیے ایک محفوظ قلعہ تھے کہ لوگ اس میں  داخل ہوتے تھے مگراس سے نکلتے نہ تھے پھرجب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی توقلعے میں  دراڑپڑگئی ،لوگ اسلام سے نکل رہے ہیں ۔[74]

حَدَّثَنِی عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ زَیْدٍ مِنْ وَلَدِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: بَكَى سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: یَا أَبَا الأَعْوَرِ مَا یُبْكِیكَ؟ فَقَالَ:عَلَى الإِسْلامِ أَبْكِی. إِنَّ مَوْتَ عُمَرَ ثَلَمَ الإِسْلامَ ثُلْمَةً لا تُرْتَقُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ.

عبدالملک بن زیدسے مروی ہےسعیدبن زید(سیدناعمر  رضی اللہ عنہ پر)روئے توکسی نے کہااے ابوالاعورتمہیں  کیاچیزرلاتی ہے؟ انہوں  نے کہاکہ اسلام پرروتاہوں  کہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی موت نے اسلام میں  ایسارخنہ ڈال دیاہے جوقیامت تک نہیں  جڑسکتا۔[75]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی الْهُذَیْلِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ حُذَیْفَةُ: الْیَوْمَ تَرَكَ النَّاسُ حَافَةَ الإِسْلامِ. وَایْمُ اللهِ لَقَدْ جَارَ هَؤُلاءِ الْقَوْمُ عَنِ الْقَصْدِ حَتَّى لَقَدْ حَالَ دُونَهُ وُعُورَةٌ مَا یُبْصِرُونَ الْقَصْدَ وَلا یَهْتَدُونَ لَهُ

عبداللہ بن ابی الہذیل سے مروی ہےجب سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب قتل کردیئے گئے توحذیفہ  رضی اللہ عنہ نے کہاآج مسلمانوں  نے اسلام کاکنارہ ترک کردیابخدایہ قوم راہ مستقیم سے ہٹ گئی اس کے ادھرسخت راستہ حائل ہوگیاکہ وہ نہ راہ مستقیم کودیکھتے ہیں  اورنہ اس راستہ کوپاتے ہیں ۔[76]

أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:لَمَّا أُصِیبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: مَا مِنْ أَهْلِ بَیْتٍ مِنَ الْعَرَبِ حَاضِرٌ وَلا بَادٍ إِلا قَدْ دَخَلَ عَلَیْهِمْ بِقَتْلِ عُمَرَ نَقْصٌ

حمیدالطویل سے روایت ہے انس بن مالک  رضی اللہ عنہ نے کہاجب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کومصیبت پہنچی توابوطلحہ  رضی اللہ عنہ  نے کہاکہ اہل عرب کاکوئی گھرخواہ وہ شہرمیں  ہویادیہات میں  ایسانہیں  جس میں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے قتل سے نقص نہ داخل ہوگیاہو۔[77]

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ أَیْمَنَ یَوْمَ أُصِیبَ عُمَرُ: الْیَوْمَ وَهَى الإِسْلامُ.

طارق بن شہاب سے مروی ہے جس روزسیدناعمر  رضی اللہ عنہ پرقاتلانہ حملہ کیاگیاتوام ایمن  رضی اللہ عنہا نے فرمایاآج اسلام کمزورہوگیا۔[78]

قَالَ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ إِلَى ثَلاثَةِ نَفَرٍ مِنْكُمْ. فَجَعَلَ الزُّبَیْرُ أَمْرَهُ إِلَى عَلِیٍّ. وَجَعَلَ طَلْحَةُ أَمْرَهُ إِلَى عُثْمَانَ. وَجَعَلَ سَعْدٌ أَمْرَهُ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ . فَأْتَمَرَ أُولَئِكَ الثَّلاثَةُ حِینَ جُعِلَ الأَمْرُ إِلَیْهِمْ،فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَیُّكُمْ یَبْرَأُ من الأَمْرِ إِلَیَّ وَلَكُمُ اللهُ عَلَیَّ أَلا آلُوكُمْ عَنْ أَفْضَلِكُمْ وَخَیْرِكُمْ لِلْمُسْلِمِینَ،فَأَسْكَتَ الشَّیْخَانِ عَلِیٌّ وَعُثْمَانُ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:تَجْعَلانِهِ إِلَیَّ وَأَنَا أخرج  منها فو الله لا آلُوكُمْ عَنْ أَفْضَلِكُمْ وَخَیْرِكُمْ لِلْمُسْلِمِینَ قَالُوا:نَعَمْ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کی تدفین سے فارغ ہوکرمجلس کے اصحاب مشاورت کے لئے جمع ہوئے عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  نے مشورہ دیاکہ تم اس معاملے کوتین شخصیتوں  تک محدودکردوجس پر اتفاق ہوگیااور زبیر بن عوام  رضی اللہ عنہ سیدنا علی بن ابی طالب کے حق میں ،طلحہ بن عبیداللہ سیدنا عثمان بن عفان کے حق میں اور سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ کے حق میں  دست بردارہوگئے بعد میں  عبدالرحمٰن بن عوف بھی دستبردار ہوگئے، اور سیدناعثمان بن عفان اور سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب سے کہا تم میں  سے کون ہے جومیرے حق میں  اپنے دعویٰ سے بری ہوتاہے اللہ نے مجھ پرلازم کیاہے کہ تم سے افضل اور مسلمانوں  کے لیے بہترکے انتخاب سے کوتاہی نہ کروں ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیارکی،عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ  نے کہاکہ تم دونوں  اس صورت میں  اس کومیرے سپردکرتےہو کہ میں  اس سے دستبردارہوتاہوں ، واللہ!میں  تم سے افضل اورمسلمانوں  کے لیے بہترانتخاب سے کوتاہی نہ کروں  گا،دونوں  نے رضامندی کا اظہارکیا، عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  نے مسلسل تین دن شہر کے اہل الرائے افراداور لشکروں  کے سپہ سالاروں  سے مشورہ کرتے رہےجب انہیں  یقین ہوگیاکہ اکثریت کی رائے سیدنا عثمان بن عفان کے حق میں  ہے تو

فَخَلا بِعَلِیٍّ فَقَالَ: إِنَّ لَكَ مِنَ الْقَرَابَةِ مِنْ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَالْقِدَمِ وَاللهِ عَلَیْكَ لَئِنِ اسْتُخْلِفْتَ لَتَعْدِلَنَّ وَلَئِنِ اسْتُخْلِفَ عُثْمَانُ لَتَسْمَعَنَّ وَلَتُطِیعَنَّ ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ وَخَلا بِعُثْمَانَ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ فَقَالَ عُثْمَانُ فَنَعَمْ قَالَ فَقَالَ ابْسُطْ یَدَكَ یَا عُثْمَانُ ، فَبَسَطَ یَدَهُ فَبَایَعَهُ عَلِیٌّ وَالنَّاسُ

انہوں  نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  سے تنہائی میں  گفتگوکی کہ تمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قرابت اورقدامت حاصل ہے واللہ!تم پرلازم ہے کہ اگرتم خلیفہ بنائے جاؤ توضرور عدل کروگےاوراگرسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے جائیں  تو(ان کی بات)سنواوراطاعت کرو، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے فرمایاٹھیک ہے، عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ سے بھی تنہائی میں  گفتگوکی اور اس طرح ان سے بھی کہا، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے بھی کہاٹھیک ہے،چنانچہ یکم محرم ۲۴ ہجری بمطابق نومبر۶۴۴ء کو مسجد نبوی میں  مسلمانوں  کے سامنے مختصرمگرجامع اورمؤثر تقریر کی اور انہوں  نےسیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  سے کہااے عثمان  رضی اللہ عنہ !خلافت کی بیعت کے لیےاپناہاتھ پھیلاؤ، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ پھیلایا توسب سے پہلے عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ نےان کے ہاتھ پربیعت کی،اس کے بعدسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب نے بیعت کی اوربعدمیں  باقی حضرات نے باری باری ان سے بیعت کی۔[79]

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما نے اس موقع پرکہاہم نے اپنے میں  سے بہترین شخص کی بیعت کی۔

[1] ابن سعد۳۲۴؍۳

[2] ابن سعد۳۲۵؍۳

[3]البدایة والنہایة۱۵۶؍۷

[4] ابن سعد۲۴۷؍۳

[5] ابن سعد۲۰۱؍۳

[6] ابن سعد۲۰۸؍۳

[7] ابن سعد۲۱۳؍۳

[8] ابن سعد۲۱۳؍۳

[9] ابن سعد۲۲۰؍۳

[10] ابن سعد۲۲۳؍۳

[11] ابن سعد۲۳۲؍۳

[12] ابن سعد۲۳۳؍۳

[13] ابن سعد۲۱۳؍۳

[14] البدایة والنہایة۱۱۵؍۷

[15] ابن سعد۲۱۴؍۳

[16] ابن سعد۲۱۴؍۳

[17] ابن سعد۲۱۴؍۳

[18] مسند احمد ۳۳۰، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۶۸؍۲

[19] شفاء الغرام۴۳۲؍۲،تاریخ مکة المشرفة االمسجدالحرام والمدینة۲۸۰؍۱،خلاصة الوفاباخباردارالمصطفی۹۰؍۲

[20] وفاء الوفا۶۸؍۲،اخبارالمدینة۱۰۸؍۱

[21] آثارالمدینة ۱۰۴

[22] اخبارمدینہ ۹۴،وفاء الوفا۷۶؍۲

[23] وفاء الوفا۷۶؍۲

[24] وفاء الوفا۷۶؍۲

[25] اخبارمدینة ۱۱۱؍۱،وفاء الوفا۱۹۱؍۲

[26] ابن سعد۲۱۵؍۳

[27] وفاء الوفا۶۷؍۲،اخبارالمدینة۱۰۸؍۱

[28] اسدالغابة۱۵۶؍۴

[29] زادالمعاد۳۷۰؍۱

[30] وفاء الوفا۷۹؍۲

[31] وفاء الوفا۷۹؍۲

[32] ابن سعد۲۲۸؍۳

[33] ابن سعد۲۲۴؍۳

[34] ابن سعد۲۲۴،۲۲۵؍۳

[35] فتح الباری ۲۶۸، ۲۶۹؍۷

[36]شرح السیر الکبیر ۱۷۸۴؍۱

[37] فتح الباری ۳۶۸؍۷

[38]شرح سیر کبیر۱۷۸۵؍۱

[39] البدایة والنہایة۲۵۳؍۳

[40] ابن سعد۲۱۳؍۳

[41] ابن سعد۲۱۷؍۳

[42] ابن سعد۲۲۰؍۳

[43] ابن سعد۲۲۲؍۳

[44] ابن سعد۲۲۲؍۳

[45] ابن سعد۲۲۲؍۳

[46] ابن سعد۲۰۹؍۳

[47] ابن سعد۲۳۴؍۳

[48] ابن سعد۲۴۹؍۳

[49] ابن سعد۲۴۹؍۳

[50] ابن سعد۲۴۹؍۳

[51] ابن سعد۲۴۹؍۳

[52] ابن سعد۲۵۰؍۳

[53] ابن سعد۲۵۱؍۳

[54] ابن سعد۲۱۰؍۳

[55] ابن سعد۲۵۲؍۳

[56] ابن سعد ۲۶۲؍۳

[57] ابن سعد۲۶۲؍۳

[58] ابن سعد۲۶۳؍۳

[59] ابن سعد۳۶۰؍۳

[60] مصنف ابن ابی شیبة۳۷۰۵۹،ابن سعد۲۶۰،۲۶۱؍۳

[61] صحیح بخاری كِتَابُ الجِزْیَةِ بَابُ الوَصَاةِ بِأَهْلِ ذِمَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۱۶۲

[62] ابن سعد۲۷۷؍۳

[63] ابن سعد۲۷۸؍۳

[64] ابن سعد۲۷۸؍۳

[65] ابن سعد۲۸۰؍۳

[66] ابن سعد۲۸۰؍۳

[67] ابن سعد۲۸۱؍۳

[68] ابن سعد۲۸۱؍۳

[69] ابن سعد۲۸۱؍۳

[70] مسنداحمد۸۶۷

[71] مستدرک حاکم ۴۵۲۳،ابن سعد۲۸۲؍۳

[72] شرح النھج لابن ابی الحدید۱۴۷؍۳

[73] ابن سعد۲۸۲؍۳

[74] ابن سعد۲۸۳؍۳

[75] ابن سعد۲۸۳؍۳

[76] ابن سعد۲۸۵؍۳

[77] ابن سعد۲۸۵؍۳

[78] ابن سعد۲۸۱؍۳

[79] ابن سعد۲۸۵؍۳،صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ قِصَّةِ البَیْعَةِ، وَالِاتِّفَاقِ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَفِیهِ مَقْتَلُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۳۷۰۰

Related Articles