ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

قرآن مجید

قرآن کریم کے نام کی بے مثال موزونیت :

قرآن کریم اسلامی تعلیمات کااصل ماخذاوراسلامی روح کاسرچشمہ ہے ،قرآن لفظ قراسے حاصل مصدرہے جس کے معنی اس نے پڑھایااس نے جمع کیاہے،اس اعتبارسے قرآن کامفہوم پڑھی جانے والی کتاب یاآفاقی سچائیوں  کامجموعہ ہے ،پہلے مفہوم کی تائیدپہلی وحی(اقرا) کے الفاظ سے ہوتی ہے ،

 اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ۝۱ۚ [1]

ترجمہ:پڑھو ! (اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔

دوسرے مفہوم کی تائیدمیں  سورت الدخان کی پہلی تین آیات پیش کی جاسکتی ہیں ،

حٰـمۗ۝۱ۚۛوَالْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ۝۲ۙۛاِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ۝۳ [2]

ترجمہ:ح ۔ م ،قسم ہے اس کتابِ مبین کی،کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیرو برکت والی رات میں  نازل کیا ہے کیونکہ ہم لوگوں  کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

اس طرح قرآن کے نام میں  دومفہوم جمع ہیں  اورحق یہ ہے کہ جس کمال وخوبی کے ساتھ یہ دونوں  مفہوم قرآن پرصادق آتے ہیں  وہ صرف اسی کتاب کاحصہ ہے،قرآن کی جامعیت کایہ حال ہے کہ انسانی زندگی کاکوئی گوشہ ایسانہیں  جس کے لئے اس سے روشنی نہ حاصل کی جاسکے،زندگی کے تمام مسائل انجام کارحقوق اللہ اورحقوق العبادکی دوبڑی قسموں  میں  بٹ جاتے ہیں ،یہ امتیازصرف قرآن مجیدہی کوحاصل ہے کہ وہ مذہبی اوردنیاوی امورمیں  مکمل رہنمائی پیش کرتاہے،وہ انسان کی ساری زندگی کوان آفاقی قوانین کی حکمرانی کے تحت لاناچاہتاہے جوکبھی نہیں  بدلتے اورجوزندگی کومتوازن ترین حسن عطاکرنے کے ضامن ہیں ۔قرآن کریم کے دوسرے مفہوم یعنی پڑھی جانے والی کتاب کے متعلق صرف اس قدرکہہ دیناکافی ہے کہ دنیاکی کوئی اورمقدس کتاب اتنے سینوں  میں  محفوظ نہیں ،ماہ رمضان جواس کے کتاب کے نزول کامہینہ ہے ساری اسلامی دنیامیں  کثرت سے پڑھی جاتی ہے جس کی اورکوئی مثال نہیں ،اس کے علاوہ دنیابھرکی مسجدوں  میں دن میں  پانچ مرتبہ کروڑوں  مسلمانوں  کی آوازیں  قرآن مجیدکی تلاوت میں  گونجتی ہیں ،یہ ساری باتیں  قرآن حکیم کودنیاکی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کادرجہ عطاکرتی ہیں ،یہ یگانہ امتیازقرآن حکیم کے نام کوبے مثال موزونیت عطا کرتا ہے ، دوسری مذہبی کتابوں  کی طرح قرآن کوئی ایسانام نہیں  جومذہب کے پیروکاروں  نے بعدمیں  گھڑلیاہوبلکہ یہ نام دنیاکی آخری مذہبی کتاب نے خوداپنے لئے پسندکیااورکئی باراستعمال کیا ۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ۔۔۔۝۱۸۵   [3]

ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے جس میں  قرآن نازل کیاگیا۔

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ۝۷۷ۙ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙ لَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۝۷۹ۭ  [4]

ترجمہ:یہ ایک بلندپایہ قرآن ہے،ایک محفوظ کتاب میں  ثبت،جسے مطہرین کے سواکوئی چھونہیں  سکتا۔

بَلْ هُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ۝۲۱ۙ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۝۲۲ [5]

ترجمہ:بلکہ یہ قرآن بلندپایہ ہے، اس لوح میں  (نقش ہے)جومحفوظ ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجیدنے اپنے آپ کوبعض اورناموں  سے بھی یادکیاہے مثلاً

الْكِتٰبُ [6] الْفُرْقَانَ [7]الذَّكَرُ [8]اور البُرْهَانٌ  [9] وغیرہ۔

یہ نام قرآن حکیم کے ان آفاقی اوصاف کی طرف توجہ دلاتے ہیں  جواس بے عدیل مذہبی کتاب کے امتیازی نشان ہیں ۔

رب کریم کی مشیت کے مطابق قرآن مجیدمکہ معظمہ میں رمضان کے مقدس مہینہ سے مختلف حالات واوقات میں  گوناگوں  احکامات وہدایات لیکر جبریل علیہ السلام کے زریعہ آیات کی شکل میں اترناشروع ہو ا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً۔۔۔۝۰۝۳۲ [10]

ترجمہ:منکرین کہتے ہیں  اس شخص پرساراقرآن ایک ہی وقت میں  کیوں  نہ اتارادیاگیا۔

اور مشہورقول کے مطابق تقریباًتیرہ سال تک مکہ میں  اوردس سال تک مدینہ میں  نازل ہوتارہا،مکہ میں  کچھ سورتیں  مکمل طورپرپربھی نازل ہوئیں  جیسے سورۂ الفاتحہ ، سورۂ انعام وغیرہ مگر زیادہ ترآیات کی شکل میں  ہی نازل ہوتارہا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام مکہ معظمہ کے دوران جو سورتیں  نازل ہوئیں  انہیں  مکی سورتیں  کہاجاتاہے ، اہل مکہ ان پڑھ تھے اس لئے ان کے ہاں  کسی بات کومحفوظ کرنے کاکوئی رواج ہی نہ تھابس وہ اپنے شعراء کے جاہلانہ وفوحش اشعارزبانی یادرکھتے تھے اور بڑے فخرسے دہراتے تھے اس لئے مکی دور میں  قرآن کاجوحصہ نازل ہوااس کی حقیقی ترتیب نزول کے بارے میں  معلوم کرناتومشکل ہی ہے۔مشرکین مکہ کے ظلم وجبر اورجاہلانہ ضدکے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کواس دارکفرسے ہجرت کا حکم فرمایااورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے آبائی وطن اوربیت اللہ سے بادل نخواستہ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ میں  تشریف لے گئے ، ہجرت کے بعد جوآیات یامکمل سورتیں  خواہ وہ مدینہ منورہ یااس کے کسی اورشہر میں  حتی کہ مکہ یاعرفہ میں  بھی نازل ہوئیں  انہیں  مدنی سورتیں  کہا جاتا ہے ،مدنی سورتیں جونسبتاًلمبی ہیں  اورساری کتاب کی ایک تہائی کے برابرہیں  ، مکی سورتوں  کے برعکس مدنی سورتوں  کے بارے میں  مرکزی مضمون کے علاوہ بہترین شہادتیں  مل جاتی ہیں  بلکہ آیات تک کی شہادتیں  بھی مل جاتی ہیں کہ کون سی آیت کب اور کس موقعہ پرنازل ہوئی تھی ،بعض مفسرین کے نزدیک ان کی اپنی تحقیق کے مطابق کچھ مکہ سورتوں  میں  اختلاف ہے کہ یہ مکہ آنےسے قبل نازل ہوئی یاسورۂ الشعراء سیدالشہدا حمزہ  رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے قبول اسلام کے بعد نازل ہوئی ،یا سورۂ الروم ہجرت حبشہ کے دورمیں  نازل ہوئی اورسورۂ الصافات ہجرت حبشہ کے بعدنازل ہوئی ،ایسانہیں  ہے کہ مختلف اوقات میں  نازل شدہ آیات کاکوئی ربط یانظم نہ تھابلکہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس مقدس کلام کے نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کاتبان وحی میں  سے کسی ایک کوبلاکر فرماتے کہ اس آیت کوفلاں  سورت میں  فلاں  آیت کے ساتھ رکھا جائے اور وہ اسی جگہ رکھی جاتی ،آیات قرآن کے لکھے جانے کے متعلق سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کادستورتھاکہ جب قرآن کے مختلف حصے یااس کی کوئی آیت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی توآپ ان لوگوں  میں  سے کسی ایک کوطلب فرماتے جوقرآن لکھاکرتے تھے اوراسے فرماتے یہ آیات فلاں  سورہ میں  اس جگہ درج کروجہاں  فلاں  فلاں  آیات آتی ہیں ،یہ تاریخی شہادت اس بات کاقطعی ثبوت ہے کہ ایک سورہ کی آیات کی دوسری سورہ کی آیات کے ساتھ غلط ملط ہونے کاسرے سے کوئی امکان نہ تھا ،پھرجب وہ سورۂ مکمل ہوجاتی اور کلام کے تمام تقاضے پورے ہوجاتے توسورت تمام کردی جاتی اور ناممکن تھاکہ وہ اپنے حدوداقضناء سے زرابھی کم وبیش ہو ، خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے فوری طورپرلکھے جانے کااتناخیال فرماتے تھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابیوں  کے نام کاتبان وحی کی فہرست میں  نظرآتے ہیں  ،سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ ، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ ، زید  رضی اللہ عنہ بن ثابت،امیرمعایہ بن سفیان  رضی اللہ عنہ اوردوسرے بلندپایہ صحابی اس فہرست میں  نظرآتے ہیں ،وحی کی کتابت کاجس حدتک اہتمام کیاجاتاتھااس کااندازہ اس بات سے ہوسکتاہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم باحالت مجبوری مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ عازم سفرہوئے توسامان سفرمیں  قلم ودوات اوردوسراسامان تحریرشامل تھاتاکہ اگرراستے میں  وحی نازل ہوتواسے اس وقت ضبط تحریرمیں  لایاجاسکے۔

قرآن مجیدکومحفوظ کرنے کے لئے صرف تحریرہی کوکافی نہیں  سمجھاگیا،اس کی ہرآیت کے نازل ہوتے ہی سینکڑوں  منتظرذہن اسے اچھی طرح محفوظ کرلیتے تھے ،صحیح حدیثوں  سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجیدکی نشرواشاعت ،اس کے پڑھنے پڑھانے اوراس کے حفظ کرنے پربڑازوردیتے تھے ،ہرمسلمان کے لئے دن میں  پانچ باراپنی نمازوں  میں  قرآن مجیدپڑھناضروری تھا،دوسروں  کوراہ حق کی طرف بلانے کے لئے بھی موثرترین زریعہ قرآن مجیدہی تھا،چنانچہ ہرمسلمان کتاب اللہ کے علم کواپنے لئے سب سے بڑی سعادت سمجھتاتھا،اسلام میں  سب سے بڑامنصب امامت کاتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم خودمسجدنبوی کے امام تھے ،دوسرے مقامات پریہ منصب ان لوگوں  کے لئے مخصوص تھاجوکتاب اللہ سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوں ،اس میں  عمریامرتبے کی کوئی تخصیص نہ تھی چنانچہ ایک قبیلہ جب مسلمان ہواتوان کی امامت کامنصب ایک آٹھ سالہ لڑکے عمردبن سلامہ کوسونپاگیا،یہ قبیلہ ایک چشمے کے قریب خیمہ زن تھاجومسلمان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہونے جاتے وہ اس جگہ پانی پینے رک جاتے اوراس قبیلے کے لوگوں  کوقرآنی آیات سناتے ،عمروبڑاذہین لڑکاتھاوہ ان آیات کوذہن میں  محفوظ کرلیتا،جب اس قبیلے نے اسلام قبول کیاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ اپناامام ایسے شخص کوبناناجوسب سے زیادہ قرآن جانتاہو،عمرویہ شرط پوری کرتاتھااس لئے وہ امامت کے منصب پرفائزہوگیا۔

قرآن کاعلم اپنے حامل کوجوسعادت اورفضیلت عطاکرتاتھااس کانتیجہ یہ تھاکہ تمام صحابی اس کوشش میں  رہتے تھے کہ نئی نازل ہونے والی آیات سے بے خبرنہ رہیں  ،بیشک ان صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کودنیاوی مشغولیت بھی ہوتی تھی جس کی بناپردرباررسالت سے کچھ دیرکی غیرحاضری ناگزیرتھی ،اس صورت حال سے عہدہ براہونے کے لئے مختلف صحابی آپس میں  باریاں  مقررکرلیتے اورباری باری درباررسالت میں  حاضرہوکرایک دوسرے کوتازہ ترین آیات اورارشادات نبوی سے باخبررکھتے تھے،

كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِی مِنَ الأَنْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ زَیْدٍ وَهِیَ مِنْ عَوَالِی المَدِینَةِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَنْزِلُ یَوْمًا وَأَنْزِلُ یَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الیَوْمِ مِنَ الوَحْیِ وَغَیْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نےفرمایا کہ میں  اور ایک انصاری میرا پڑوسی بنی امیہ بن زید (کے محلہ) میں  رہتے تھے اور یہ (مقام) مدینہ کی بلندی پر تھا، اور ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس باری باری آتے تھے، ایک دن وہ آتا تھا اور ایک دن میں ، جس دن میں  آتا تھا اس دن کی خبر یعنی وحی وغیرہ (کے حالات) میں  اس کو پہنچا دیتا اور جس دن وہ آتا تھا وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا۔[11]

صحابہ کرام کے عشق قرآن کایہ حال تھاکہ بہتوں  نے اسے حفظ کررکھاتھااورہررات اس کی تلاوت مکمل کرتے تھے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اقْرَإِ القُرْآنَ فِی شَهْرٍ قُلْتُ: إِنِّی أَجِدُ قُوَّةً حَتَّى قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی سَبْعٍ وَلاَ تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ

عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ قرآن مجیدکتنے عرصے میں  ختم کرناچاہیے توآپ نے کم ازکم مدت ایک مہینہ بیان فرمائی لیکن جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کے بعض پروانے ایک ہی رات میں  ساری کتاب تلاوت کرڈالتے ہیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایااورمشورہ دیاکہ زیادہ شوق ہوتوساری تلاوت ایک ہفتے میں  پوری کرلیا کرو۔[12]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان ہی ارشادات کی روشنی میں  ہی کتاب اللہ کے تیس پارے اورسات منزلیں  مقررکی گئیں  تھیں ۔

قرآن مجیدکے ساتھ اس بے پناہ عشق کانتیجہ تھاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  ہی سینکڑوں  حفاظ پیداہوگئے تھے،ان لوگوں  کوقراء  کے نام سے پکاراجاتاتھاان کی تعدادکاکچھ اندازہ بئرمعونہ کے تاریخی واقعہ سے ہوسکتاہے،بئرمعونہ میں  مقیم کافرقبیلے نے مسلمانوں  کی ایک جماعت کودین سیکھنے کے بہانے سے بلایاتھااورانہیں  دھوکے سے شہید کر دیا ،شہیدہونے والوں  میں  سترحفاظ تھے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  جن لوگوں  نے ساراقرآن مجیدسینوں  میں  محفوظ کرلیاتھاان میں  سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ، سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ ، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ ،سعد  رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما ،سالم ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ  جیسے بلندپایہ صحابیوں  کے نام شامل ہیں ،عورتوں  میں  ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا ،ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  ،ام المومنین ام سلمیٰ کے نام فہرست میں  موجودہیں ،اس وقت سے لے کرآج تک دنیامیں  قرآن مجیدکے حفاظ کی کبھی کمی نہیں  رہی الغرض اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکی حفاظت کاجوبیڑہ اٹھایاتھاوہ قلم اورحافظے کے زریعہ اس خوبصورتی کے ساتھ پوراہواجومذہب کی تاریخ میں  اپنی مثال آپ ہے۔

قرآنی آیات:

آیت کے معنی نشانی کے ہیں  ،قرآن مجیدکے جملوں  کوآیات کانام اس لئے ملاہے کہ ان میں  سے ہرجملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کسی ایسے ابدی قانون کی ترجمانی کرتاہے جو انسانی زندگی کے لئے نشان راہ کادرجہ رکھتاہے ،جوشخص اس نشان راہ سے رہنمائی کرتاہے وہ سیدھی راہ پالیتاہے اورجواسے نظراندازکردیتاہے وہ راستے سے بھٹک جاتاہے ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیوں  کہ قرآن آیات کی شکل میں  نازل ہواہے اس لئے اس میں  میں  نظم نہیں  تویہ صحیح بات نہیں  ہوگی بلکہ محض قلت تدبرکانتیجہ ہے ، بس ایک نگاہ جستجو کی ہونی چاہئے اورمیں  یقین رکھتاہوں  کہ جولوگ جستجوکی یہ راہ اختیارکریں  گے وہ ہدایت کی راہ پالیں  گے،

 وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ [13]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جنہوں  نے ہدایت پائی ہے ، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں  ان کے حصّے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

پھر اگر کوئی شخص قرآن کی آیات کو غوروفکر سے دیکھے گاتواسے سب نظم وربط نظرآئے گااورپھراسے قرآن مجیدپڑھنے اورسمجھنے میں  لطف بھی آئے گا ، بسا اوقات پہلی سورۂ کے بعد ضرورت باقی رہ جاتی تواس وقت دوسری سورۂ مختلف اسلوب کے ساتھ نازل کردی جاتی تاکہ سورۂ کی یکسانیت سننے والوں  کی طبیعت پربارنہ ہو،یہی وجہ ہے کہ ابتدائے بعثت کی بہت سی سورتوں  میں  توحیدباری تعالیٰ ،اللہ کے مبعوث کئے ہوئے رسول کی تصدیق ،حشرنشر اور اس سے ملتے جلتے ہوئے مضامین ملتے ہیں  صرف طرز بیاں  اور اسلوب کافرق ہے ،

قَالَ عُثْمَانُ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَیْهِ الْآیَاتُ فَیَدْعُو بَعْضَ مَنْ كَانَ یَكْتُبُ لَهُ، وَیَقُولُ لَهُ:  ضَعْ هَذِهِ الْآیَةَ فِی السُّورَةِ الَّتِی یُذْكَرُ فِیهَا، كَذَا وَكَذَا

سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  بیان فرماتے ہیں  کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر قرآنی آیات نازل ہوا کرتی تھی تو نزول کے بعد اپنے کتاب کو بلا کر اس کو اشارة فرما دیا کرتے کہ اس آیت کو فلاں  سورت میں  لکھ دو۔[14]

ایسے مواقع پرزمانہ نزول کالحاظ نہ ہوتا بلکہ نظم کلام کالحاظ کیاجاتا اوربالعلوم اس قسم کی آیات کے بعدتنبیہ بھی کردی جاتی کہ یہ آیت بطور تشریح نازل ہوئی ہے ۔

سورتوں  کے نام:

قرآن مجیدکل ایک سوچودہ ابواب پرمشتمل ہے ،ان میں  سے ہرباب کوسورہ کے نام سے پکاراجاتاہے ، سورتوں  کونفس مضمون کی مناسبت سے کوئی خاص نام دیاگیاہے ، کچھ سورتوں  کے ابتدائی الفاظ سے نام رکھے گئے جیسے

اَلْحَمْدُ،بَرَاۗءَةٌ،سُبْحٰنَ ،طٰهٰ ،یٰسۗ،اَلرَّحْمٰنُ وَالنّٰزِعٰتِ ،تَبَّتْ ۔

بعض سورتوں  کے نام ایسے الفاظ پررکھ دیے گئے ہیں  جوان سورتوں  میں  نمایاں استعمال ہوئے تھے،مثلا ً

الزُخْرُفَ ،الشُّعَرَاۗءُ،الحَدِیدٍ،الْمَاعُونَ

وغیرہ اہل عرب اس اصول پراشخاص اور اشیاء کے نام رکھتے تھے ،

بعض سورتوں  کے نام ایسے الفاظ سے رکھے گئے ہیں  جوسورۂ کے کسی اہم مضمون کاپتہ دیتے ہیں  مثلاً

سورۂ النور،سورةآل عمران ،سورۂ  النساء ، سورۂ ابراہیم ،سورۂ یونس ،

بعض سو رتوں  کے نام ان کے اس مقصدکے لحاظ سے رکھے گئے ہیں  جوسورۂ میں  روح کی طرح جاری وساری ہے مثلاً

سورۂ فاتحہ کانام سورۂ صلوٰة ہے ،اسی طرح سورۂ برات اورسورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ محمدسورۂ قتال کے نام سے موسوم ہوئیں ، سورۂ اخلاص اورمعوذتین بھی اسی ذیل میں  شمار ہیں  ،گویاایک شہر بسا کر اس کے گرد اگرد شہر پناہ کھینچ دی جاتی تھی پھر جبرئیل امین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو پوری صورت از سر نوسنادیتے ،سورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حکم دیتے کہ فلاں  سورۂ کو فلاں  سورۂ کے ساتھ رکھا جائے ، پھراحادیث صحیہ میں  آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام  سال میں  ایک دفعہ آپ کوقرآن مجید کا اعادہ کرایاکرتے تھے ۔ خودقرآن مجیدبھی اس بات کی شہادت دیتاہےکہ موجودہ ترتیب وہی ہے جواللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی تھی ۔

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ۝۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ۝۱۸ۚ  [15]

ترجمہ:اپنی زبان کواس خیال سے حرکت نہ دیجئے کہ یہ کتاب جلدی نازل ہوجائے اسے یک جاکرنااورپڑھنے کے لئے مرتب شکل دیناہماراکام ہے ،پس جب ہم اسے پڑھیں  توآپ بھی اس کے مطابق پڑھیں ۔

یہ ان تاریخی حقائق کاہی صدقہ ہے کہ اسلام دشمن مصنف ولیم مورکواپنی کتاب حیات محمد کے دیپاچہ میں  لکھناپڑاکہ یہ یقین کرنے کے لئے معقول وجودموجودہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی زندگی میں  ہی ان کے پیروکاروں  نے قرآن کے کئی ادھورے نسخے تیارکرلئے تھے جوباہم مل کرساراقرآن یاتقریبا ًقرآن پوراکردیتے تھے۔

قرآن مجیدکے رکوع،منزل اورپارے :

قرآن مجیدکی آیات کی کل تعدادچھ ہزاردوسوسنتالیس (۶۲۴۷)ہے،سورت توبہ کے علاوہ باقی ہرسورت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہے،اس طرح یہ آیت ایک سوتیرہ باردہرائی گئی ہے ،اسکے شمارکرلینے سے آیات کی کل تعدادچھ ہزارتین سوساٹھ(۶۳۶۰) بن جاتی ہے،قرآن مجیدکی سب سے لمبی سورت البقرہ ہے جوپوری کتاب کے بارھویں  حصہ کے برابرہے اورسب سے چھوٹی الکوثرہے جوصرف تین آیات پرمشتمل ہے ، کتاب کی آخری پینتیس (۳۵)سورتیں  اتنی چھوٹی ہیں  کہ انہیں  پیراگرافوں  یا حصوں  میں  بانٹنے کی ضرورت نہیں  ،ان کوچھوڑکرباقی ۷۹ سورتیں  ایک سے زیادہ حصوں  یعنی پیراگرافوں  میں  بٹی ہوئی ہیں  ،ان میں  سے ہرحصہ رکوع کہلاتاہے۔ہررکوع میں موضوع زیربحث کے کسی خاص حصے پربحث کی گئی ہے۔سارے قرآن مجیدکوتیس برابرحصوں  میں  بانٹاگیاہے جن میں  سے ہرحصہ جزویاپارہ کہلاتاہے،یہ تقسیم محض اس لئے کی گئی ہے کہ ایک مہینے میں  آسانی سے پوراقرآن مجیدختم کرلیاجائے،اسی طرح قرآن مجیدکوسات برابرحصوں  میں  بانٹاگیاہے اوران میں  سے ہرحصہ منزل کہلاتاہے،یہ تقسیم ان لوگوں  کی سہولت کے لئے ہے جوہرہفتے میں  ایک بارقرآن مجیدختم کرناچاہتے ہیں  ۔ اوس  رضی اللہ عنہ  کابیان ہے کہ ایک رات عادت کے خلاف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیرسے آئے توہم نے پوچھا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم آج کیابات تھی ؟بہت دیرلگادی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقرآن کریم کاجوحصہ (منزل)میں  روزانہ پڑھاکرتاتھاوہ آج رہ گیاتھاتومیں  نے اسے اچھانہ سمجھاکہ اسے پوراکیے بغیرچلاجاوں ، اوس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  میں  نے صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے پوچھاکہ قرآن کی منزلیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کتنی اورکیسے کرتے تھے ؟توجواب ملاکہ سات منزلیں  مقررتھیں  پہلی منزل تین سورتوں  کی(سورہ البقرہ ،سورہ آل عمران اورسورہ النساء ) دوسری منزل پانچ سورتوں  کی(سورہ المائدہ،سورہ الانعام،سورہ الاعراف،سورہ الانفال اورسورہ التوبہ) تیسری منزل سات سورتوں کی(سورہ یونس،سورہ ہود،سورہ یوسف،سورہ الرعد،سورہ ابراہیم،سورہ الحجر،سورہ النحل) چوتھی نوسورتوں کی(سورہ بنی اسرائیل، سورہ الکہف،سورہ مریم،سورہ طہ،سورہ انبیائ،سورہ الحج،سورہ المومنون،سورہ النور،سورہ الفرقان) پانچویں  گیارہ سورتوں کی(سورہ الشعرائ،سورہ النمل،سورہ القصص،سورہ العنکبوت،سورہ الروم،سورہ القمان،سورہ الم سجدہ،سورہ احزاب،سورہ سبا،سورہ فاطراورسورہ یٰسین ) چھٹی تیرہ سورتوں کی(سورہ الصافات،سورہ ص،سورہ الزمر،سورہ الغافر،سورہ حم السجدہ،سورہ حم عسق،سورہ الزخرف،سورہ الدخان،سورہ الجاثیہ،سورہ الاحقاف،سورہ قتال،سورہ الفتح اورسورہ الحجرات) باقی سورہ ق سے مفصل کی تمام سورتیں  خاتمہ قرآن تک کی ساتویں  منزل (ابن کثیر)اس سے معلوم ہواکہ قرآن مجیدموجودہ ترتیب سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی موجودگی اورآپ کی زندگی میں  ہی مرتب موجود تھا اور اسی ترتیب سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  تلاوت کیاکرتے تھے ۔

لمعات شرح مشکوٰة میں  ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا لکھوایا ہوا قرآن کریم گویامختلف اوراق پر موجودتھاجنھیں  جمع کرنے والوں  نے جمع کرکے تاگے سے ان سب اوراق کوسی لیاتاکہ کھوئے جانے کاکھٹکانہ رہے،الغرض پوراقرآن خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے مرتب لکھا ہوا موجودتھا،وہاں  ایک جگہ ایک ہی چیز پر سارا کاسارانہ تھااوراس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کی زندگی میں ا حتمال تھاکہ شایداورکوئی آیت اترے یاممکن ہے کسی آیت کومنسوخ قراردیاجائے وغیرہ،آخری وحی ہجرت کے دسویں  سال ذی الحج کی نویں  تاریخ کویعنی حج الوداع کے روزنازل ہوئی ،اس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک ۶۳برس کی تھی۔ سب سے آخرمیں  نازل ہونے والی وحی یہ تھی ۔

۔۔۔اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔۝۰۝۳ [16]

ترجمہ:آج میں  نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیاہے اوراپنی نعمت تم پرپوری کردی ہے اورتمہارے لئے اسلام بطوردین پسندکیاہے۔

قرآن کریم کی کتابی شکل میں  تدوین :

اگرچہ کتاب اللہ کی ہرآیت نازل ہونے کے ساتھ ہی لکھ لی جاتی تھی اورفوراًسینوں  میں  محفوظ ہوجاتی تھی مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  تمام سورتوں  کو ایک کتاب میں  جمع نہیں  کیاگیاتھا،وجہ یہ تھی کہ جب تک رحمة للعالمین دنیامیں  موجودتھے یہ امکان باقی تھاکہ کچھ اورآیات نازل ہوں ،وحی نے تکمیل دین کا پیغام حجة الوداع کے دن دیااوراس کے جلدہی بعد سیدالبشر صلی اللہ علیہ وسلم کورفیق اعلیٰ کی طرف سے بلاواآگیا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدصورت حال بدل گئی ، اب کتاب حتمی طور پر مکمل ہوچکی تھی تاہم صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کواس بات کا اطمینان تھاکہ قرآن مجیدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مقررکردہ ترتیب کے مطابق سینکڑوں  سینوں  میں  محفوظ ہے،عرب قوم اپنے حافظے پربھروسہ کرنے کی عادی تھی ،ہرقبیلے کاشجرہ نسب پشتوں  سینہ بہ سینہ منتقل ہوتاچلاآرہاتھا،مشہورشعراء کاکلام اسی طرح سینوں  میں  محفوظ تھا،لیکن سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے خلافت سنبھالتے ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیاجس نے کتاب اللہ کے کتابی صورت میں  مدون کرنے کی فوری ضرورت پیداکردی ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھیں  بندکرنے کی دیرتھی کہ ارتدادکے فتنے نے سارے عرب کواپنی لپیٹ میں  لے لیا ، اس فتنے کودبانے کے لئے صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کوتلوارسے کام لیناپڑا،فتنے کے سب سے بڑے سرغنہ مسیلمہ بن حبیب کذاب کی سرکوبی کے لئے یمامہ کے مقام پرایک خونین معرکہ لڑا گیا جس میں  سینکڑوں  مسلمان شہیدہوئے،شہیدہونے والوں  میں  بہت سے قرآن مجیدکے حفاظ بھی تھے ،اس سے سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کے دل میں  کھٹکا پیدا ہوا کہ اگر کچھ اور لڑائیوں  میں  حفاظ اسی طرح شہیدہوتے رہے تومسلمان کتاب اللہ کی مقررترتیب سے بے خبر ہو جائیں  گے،چنانچہ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سیدھے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں  پہنچے اوران سے درخواست کی کہ قرآن مجیدکے بکھرے ہوئے تحریری ٹکڑوں  کویکجاکرکے انہیں  ایک کتابی شکل دے دیں ، سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کواتباع رسول کا اس حد تک خیال تھاکہ آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیں  ایک ایسے کام میں کس طرح ہاتھ ڈال سکتاہوں  جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں  کیا،چنانچہ ابوعبداللہ زنجانی اپنی کتاب میں  لکھتے ہیں  شواہدسے پتاچلتاہے کہ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کاموقف صرف یہ تھاکہ قرآن کریم کوجواب تک ہڈیوں ،لکڑیوں  اورکھالوں  پرلکھاہوابکھراپڑاتھاباقاعدہ اوراق پرلکھ کرایک جگہ جمع کرلیا جائے ،لیکن صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں  چونکہ حد درجہ احتیاط تھی اوروہ ایساکوئی کام نہ کرناچاہتے تھے جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیاہواس لئے وہ ڈرتے تھے کہ کہیں  یہ کام بدعت میں  شمارنہ ہو(تاریخ القران ) سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ موجودہ حالات میں  بہترین طریق کاریہی ہے کہ کتاب اللہ کوکتابی شکل دے دی جائے،

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلاَ نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْیَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفَنِی نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ: كَیْفَ تَفْعَلاَنِ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللهِ خَیْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِی لِلَّذِی شَرَحَ اللهُ لَهُ صَدْرَ أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقُمْتُ

آخرسیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  اس بات پرقائل ہوگئے،انہوں  نے زید  رضی اللہ عنہ بن ثابت کو بلایا جنہوں  نے کتابت وحی کاکام باقی تمام صحابیوں سے زیادہ انجام دیاتھا، زیدبن ثابت روایت کرتے ہیں  کہ خلیفہ اول  رضی اللہ عنہ  نے مجھ سے فرمایاتم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے اس لئے قرآن کے لکھے ہوئے اجزاء تلاش کرواورانہیں  ایک کتاب کی شکل دو،میں  نے کہاآپ ایساکام کس طرح کرسکتے ہیں  جوخودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں  کیا ، مجھے یہ کام ایسامشکل نظرآتاتھا کہ اگرمجھے ایک پہاڑہٹانے کے لئے کہاجاتاتووہ کام میرے لئے اتنامشکل نہ ہوتا لیکن آخرکار زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  یہ خدمت انجام دینے پر آمادہ ہو گئے اورانہوں  نے اس پرکام شروع کردیا ۔[17]

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  اس کام کواس لئے مشکل خیال کرتے تھے کہ انہوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں  ہی کاتب وحی کا کام انجام دیاتھالیکن قرآن مجیدکازیادہ حصہ مکہ مکرمہ میں  نازل ہواتھا، زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  کے ذمہ یہ کام تھاکہ قرآن مجیدکے بکھرے ہوئے تمام اجزاء تلاش کریں  جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپنے سامنے لکھوائے تھے ، بیشک تمام اجزاء نہایت احتیاط سے محفوظ کرلئے گئے تھے مگروہ کسی ایک صحابی کے پاس جمع نہ تھے ،وہ کاغذ،کھال،کھجورکے پتوں  ، تختیوں ،سفیدپتھروں ،مٹی کے برتنوں ، ہڈیوں  ، اونٹ کی پالان کی لکڑیوں  پرلکھے پڑے تھے اور مختلف صحابیوں  کے پاس تھے۔سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  چندحفاظ کوجمع کرکے ان کی زبانی ساراقرآن مجید کتابی شکل میں  جمع کرسکتے تھے، خود سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اور دوسرے بڑے بڑے صحابی ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ ، معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ ، ابوالدردا وغیرہ قرآن مجیدکے حفافظ تھے اور اس طرح تیارہونے والے نسخے کی صحت جانچ سکتے تھے مگرسیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  اس صورت پرمطمئن نہ تھے،ان کی ہدایت یہ تھی کہ زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  تحریری اجزاء جمع کریں  جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں  کے سامنے لکھے گئے ،یہ احتیاط اس لئے ضروری تھی کہ تیارہونے والے مصدقہ نسخے میں  رتی بھربھی شائبہ باقی نہ رہے۔

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  (جوخودحافظ قرآن تھےاورانہوں  نے سارا قرآن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھاتھا )نے جس طرح کام شروع کیااس کے بارے میں  کہتے ہیں

فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ، وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آیَتَیْنِ مَعَ خُزَیْمَةَ الأَنْصَارِیِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَیْرِهِ، لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ،فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ۰ۤۡۖ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۰ۭ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ

میں  نے قرآن کی تلاش شروع کردی اور اسے کھجورکے پتوں ،پتھرکی تختیوں  اورآدمیوں  کے دلوں  سے جمع کیا(آدمیوں  کے دلوں  سے مددلینے سے مرادیہ نہیں  کہ زید  رضی اللہ عنہ  نے قرآن حکیم کے بعض حصے حفاظ کی زبانی نقل کئے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ایک ہی سورہ کے مختلف اجزاء مختلف صحابیوں  کے پاس سے لکھے ہوئے ملتے تھے تو زید  رضی اللہ عنہ  ان کی درست ترتیب معلوم کرنے کے لئے حفاظ کی طرف رجوع کرتے تھے )حتی کہ سب سے آخرمیں  میں  نے سورہ توبہ کی آخری آیات جومل نہیں  رہیں  تھیں  ابوخزیمہ انصاری سے لکھی ہوئی حاصل کیں یہ آیات کسی اورکے پاس نہ تھیں ۔ [18]

أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: نَسَخْتُ الصُّحُفَ فِی المَصَاحِفِ، فَفَقَدْتُ آیَةً مِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ بِهَا، فَلَمْ أَجِدْهَا إِلَّا مَعَ خُزَیْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ الَّذِی جَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَیْنِ وَهُوَ قَوْلُهُ:مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  جب ہم نے قرآن کریم کے اوراق لکھ لئے تومعلوم ہوا کہ ان میں  سورہ  احزاب کی ایک آیت

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا [19]

نہیں  جسے میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا کرتاتھا آخر وہ آیت بھی خزیمہ انصاری سے ملی جن کی اکیلی شہادت کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں  کی شہادت کے برابر قراردیاتھا،یہ آیت مل جانے پر میں  نے اسے سورہ مذکورہ بالا میں  شامل کرلیا ۔[20]

  قَامَ عُمَرُ فَقَالَ مَنْ كَانَ تَلَقَّى مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ فَلْیَأْتِ بِهِ وَكَانُوا یَكْتُبُونَ ذَلِكَ فِی الصُّحُفِ وَالْأَلْوَاحِ وَالْعُسُبِ قَالَ وَكَانَ لَا یَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ شَیْئًا حَتَّى یَشْهَدَ شَاهِدَانِ

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  کے کام میں  آسانی پیداکرنے کے  لئے سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے اعلان کردیا کہ جس شخص نے قرآن مجیدکا کوئی ٹکڑابراہ راست رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے حاصل کیا ہے وہ اسے زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  کے پاس لے آئے ،کسی شخص سے کوئی تحریراس وقت تک قبول نہیں  کی گئی جب تک دو گواہوں  نے شہادت نہیں  دی۔ [21]

زید  رضی اللہ عنہ  کی احتیاط کایہ عالم تھا کہ سورہ توبہ کی آخری دو آیات انہیں  اچھی طرح یادتھیں  مگرانہوں  نے انہیں  اس وقت تک درج نہیں  کیاجب تک وہ انہیں  ابوخزیمہ کے پاس لکھی ہوئی نہیں  مل گئیں ۔

الغرض زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے کمال محنت اوراحتیاط سے وہ مشکل کام انجام دیا جو سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے ان کے ذمہ لگایاتھا ، جب یہ عظیم الشان کام شروع کیا گیا تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کودنیاسے رخصت ہوئے ابھی صرف چھ ماہ ہی گزرے تھے،ایسے سینکڑوں  لوگ موجودتھے جنہوں  نے ساراقرآن مجید آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سناتھا ، ایسے لوگوں  کی بھی کمی نہ تھی جنہوں  نے قرآن مجیدپڑھاہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَیْدٍ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  چاراشخاص نے قرآن کریم جمع (حفظ) کیا تھا اورچاروں  انصارمیں  سے تھے ،یعنی ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ ، معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  ،زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  اورابوزید۔[22]

علامہ قرطبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں  کہ اس امرکی شہادتوں  سے ثابت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں  سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ ،تمیم الداری  رضی اللہ عنہ ،عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ ،اورعبداللہ رضی اللہ عنہ  بن عمروبن عاص نے بھی قرآن کریم حفظ کیاتھا۔

پھرمختلف صحابہ کے پاس لکھی ہوئی وحی کے جوحصے موجود تھے ان کی لاتعدادنقلیں  دوسرے مسلمانوں  کے ہاتھوں  میں  تھیں  اس لئے اس بات کاسرے سے کوئی امکان نہ تھاکہ زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  کے تیار کردہ مصحف میں  کوئی غلطی راہ پاجاتی یاوحی الٰہی کاکوئی حصہ اس میں  شامل ہونے سے رہ جاتا، یہ ہے وہ بے مثال پایہ صحت وسندجوقرآن مجیدکوحاصل ہے اورجواسے دنیا کی مقدس کتابوں  میں  سب سے اونچا مقام دیتاہے،اس لئے ولیم مورجیسے متعصب مصنف بھی یہ لکھنے پرمجبورہوا کہ ہمیں  کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں  ہوئی جس سے معلوم ہو کہ قرآن مجیدجمع کرنے والوں  نے اس کاکوئی ٹکڑایا فقرہ یالفظ چھوڑدیاہویایہ کہ کسی نے جمع شدہ نسخے سے اختلاف کیاہو(اگرکوئی ایسی بات رونماہوتی تویقیناًحدیث کے ان خزانوں  میں  موجودہوتی جن میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے اورمعمولی سے معمولی الفاظ اورافعال بھی محفوظ ہیں ) سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے کتاب اللہ کایہ نسخہ بیت المال میں  رکھ دیا ،سیدنا علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  پررحمت فرمائے قرآن کریم جمع کرنے کے کام میں  وہ تمام لوگوں  میں  سب سے زیادہ اجرکے مستحق ہیں  کیونکہ انہیں  نے سب سے پہلے اسے جمع کیا ۔ سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی وفات کے بعدیہ نسخہ ام المومنین  حفصہ  رضی اللہ عنہا  کے حوالے کر دیا گیا۔

غیرمسلموں  کی شہادتیں :

متعددارباب فکرونظرنے ذاتی تحقیق کے بعداس حقیقت کااعتراف وہ اعلان کیاہے کہ قرآن کریم غیرمحرف ہے اوراس میں  ایک حرف کی بھی کمی بیشی یاتغیروتبدل نہیں  ہوا چنانچہ سرولیم میورجیسامتعصب شخص اپنی کتاب لائف آف محمدمیں  لکھتاہے یہ یقینی بات ہے کہ قرآن جس شکل میں  ہمارے پاس اس موجودہے یہ بعینہ اس شکل میں  محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی میں  جمع اورمرتب ہوچکاتھا۔

تھوڑاعرصہ ہواسرجان ہمرٹن کے زیراہتمام نیویونیورسل انسائیکلوپیڈیاگیارہ جلدوں  میں  شائع ہواتھااس میں  قرآن کے عنوان سے جومقالہ درج ہے اس میں  تحریرہے ۔

یہ کتاب پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کے آخری تئیس(۲۳)سالوں  میں  مکہ اورمدینہ میں  نازل ہوتی رہی اورمسلمانوں  کے عقیدہ میں  کلام الٰہی ہے،قرآن پیغمبرکی زندگی ہی میں  اورانہی کی زیرہدایت ونگرانی ضبط تحریرمیں  آگیاتھااوران کے صحابہ  رضی اللہ عنہم نے اسے حفظ کرلیاتھایہ معمول آج تک جاری ہے ،چنانچہ صدہامسلمان قرآن پاک کے حافظ ہیں  اورایک غلطی کیے بغیراسے دہراسکتے ہیں ،اس کتاب کادعوی ہے کہ اس میں  تمام کتب آسمانی کے حقائق آگئے ہیں  اوریہ کہ وہ آخری اورناقابل تغیرکتاب ہے نیزیہ کہ نوع انسانی کے لیے وہ جامع ترین دستورالعمل ہے اوراسلام یعنی دین فطرت کی آخری توضیح ہے۔

یہ تصریحات اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں  کہ وہ تعلیم جسے اللہ نے وحی کے ذریعے انسانوں  کی ہدایت کے لئے بھیجاتھااس آسمان کے نیچے قرآن کریم کے علاوہ اورکہیں  بھی اپنی اصلی حقیقی اورغیرمحرف شکل میں  موجودنہیں  لہذاجب قرآن یہ کہتاہے کہ جوشخص بھی آسمانی راہنمائی کے مطابق چلناچاہتاہے اس کے لئے ٗضروری ہے کہ وہ رسالت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پرایمان لائے اورقرآن کریم کواپنے لئے ضابطہ حیات بنائے تووہ ایک ایسی حقیقت کااعلان کرتاہے جس کااعتراف تمام دنیاکے انسانوں  کوہے یعنی ایک طرف مختلف مذاہب کے پیرواس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں  کہ ان میں  سے کسی کے پاس بھی وہ کتاب اپنی اصلی اورغیرمحرف شکل میں  موجودنہیں  جوان کے نبی(یاان کے الفاظ میں  ان کے بانی مذہب)کوملی تھی،دوسری طرف خودغیرمسلموں  تک کواعتراف ہے کہ قرآن کریم اپنی حقیقی اورغیرمحرف شکل میں  دنیاکے پاس موجودہے لہذاآسمانی رہنمائی کے طالب کے لئے اس کے سواکوئی چارہ ہی نہیں  ہے کہ وہ قرآن کریم کواپنارہنمابنائے۔

وفات :

وَكَانَتْ خِلافَتُهُ سَنَتَیْنِ وَثَلاثةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرِ لَیَالٍ،. وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّینَ سَنَةً

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی خلافت دوسال تین ماہ(ستائیس مہینے)دس دن پرمشتمل تھی،اس وقت آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی [23]

عَنْ عَائِشَةَ قَالُوا: كَانَ أَوَّلُ بَدْءِ مَرَضِ أَبِی بَكْرٍ أَنَّهُ اغْتَسَلَ یَوْمَ الاثْنَیْنِ لِسَبْعٍ خَلَوْنَ مِنْ جُمَادَى الآخِرَةِ. وَكَانَ یَوْمًا بَارِدًا. فَحُمَّ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سات جمادی الآخردوشنبہ کے دن آپ رضی اللہ عنہ نے غسل کیا،اس روزخوب سردی تھی اس وجہ سے آپ  رضی اللہ عنہ  کو بخار ہوگیا جو پندرہ روزرہا۔ [24]

بخار میں  جب انہیں  یقین ہوگیاکہ ان کی وفات کاوقت آپہنچاہے توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے مشورے سے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب کوخلیفہ دوم مقرر فرمایا

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَتْ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَكْرٍ الْوَفَاةُ اسْتَخْلَفَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَیْهِ عَلِیٌّ وَطَلْحَةُ فَقَالا: مَنِ اسْتَخْلَفْتَ؟ قَالَ: عُمَرُ. قَالا: فَمَاذَا أَنْتَ قَائِلٌ لِرَبِّكَ؟ قَالَ: أبا لله تُفَرِّقَانِی؟ لأَنَا أَعْلَمُ بِاللهِ وَبِعُمَرَ مِنْكُمَا. أَقُولُ اسْتَخْلَفْتُ عَلَیْهِمْ خَیْرَ أَهْلِكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  جب سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت آیاتوانہوں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوخلیفہ بنایا ان کے پاس سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  اورطلحہ   رضی اللہ عنہ آئے اوردریافت کیاکہ آپ نے کس کوخلیفہ بنایاہے؟انہوں  نے کہاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوخلیفہ بنایاہے دونوں  نے کہاپھرآپ اپنے رب کوکیاجواب دیں  گے ؟انہوں  نے کہاکیاتم دونوں  مجھے اللہ سے ڈراتے ہواس لئے کہ میں  تم دونوں  سے زیادہ اللہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوجانتاہوں ،میں  اللہ سے کہوں  گاکہ میں  نے ان پراس شخص کوخلیفہ بنایاجوتیرے بندوں  میں  سب سے زیادہ بہترتھا۔ [25]

فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: رُدُّوا مَا عِنْدَنَا مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنِّی لا أُصِیبُ مِنْ هَذَا الْمَالِ شَیْئًا، وَإِنَّ أَرْضِی الَّتِی بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا لِلْمُسْلِمِینَ بِمَا أَصَبْتُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، فَدَفَعَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ، وَلَقُوحًا وَعَبْدًاصَیْقَلا، وَقَطِیفَةً مَا تُسَاوِی خَمْسَةَ دَرَاهِمَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَقَدْ أَتْعَبَ مَنْ بَعْدَهُ

اوراپنے رشتہ داروں  کووصیت فرمائی کہ بیت المال کاجوکچھ سامان ہمارے پاس ہوسب واپس کردوکیونکہ میں  اس مال میں  سے اپنے ذمے کچھ رکھنانہیں  چاہتا،میری وہ زمین جو فلاں  مقام پرواقع ہے وہ اس رقم کے معاوضے میں  دے دوجومیں  نے آج تک بیت المال سے لی ہے ، چنانچہ وہ زمین ،ایک اونٹنی ،ایک قلعی گرغلام اورکچھ غلہ جس کی قیمت پانچ درہم ہوگی یہ سب چیزیں  سیدناعمر کودے دی گئیں ،  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے اپنے بعدوالوں  کوکس قدرمشکل میں  مبتلاکردیاہے۔

ایک اورروایت ہے کہ وفات کے وقت سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پاس ایک دیناریادرہم بھی نہ تھا انہوں  نے ترکے میں  ایک غلام ، ایک اونٹ ، اور ایک مخملی چادر چھوڑی جس کی قیمت پانچ درہم تھی ،انہوں  نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعدان چیزوں  کوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا جائے،وصیت کے مطابق جب یہ چیزیں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے پاس پہنچیں  تو وہ روپڑے اورکہاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے اپنے جانشین پر بہت سخت بوجھ ڈال دیاہے۔

عَنْ عَائِشَةَ، سَأَلَهَا أَبُو بَكْرٍ، فِی كَمْ كُفِّنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَتْ: فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ،قَالَ: اغْسِلُوا ثَوْبَیَّ هَذَیْنِ  وَكَانَا مُمَشَّقَیْنِ وَابْتَاعُوا لِی ثَوْبًا آخَرَ ،قُلْتُ: یَا أَبَهْ، إِنَّا مُوسِرُونَ،قَالَ: أَیْ بُنَیَّةُ، الْحَیُّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ مِنَ الْمَیِّتِ، وَإِنَّمَا هُمَا لِلْمُهْلَةِ وَالصَّدِیدِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے مجھ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوکتنے کپڑوں  میں  کفنایاگیاتھا،میں  نے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو تین کپڑوں  میں  کفنایاگیاتھا،انہوں  نے کہاتم لوگ میرے یہ دونوں  کپڑے دھولووہ دونوں  کپڑے دریدہ تھے اورایک کپڑامیرے لیے خریدلو،میں  نے کہااباجان !ہم لوگ توخوشحال ہیں  انہوں  نے کہااے بیٹی !مردے کی بہ نسبت زندہ آدمی نئے کپڑوں  کازیادہ مستحق ہے اوریہ دونوں  کپڑے پرانے اوربوسیدہ ہونے والوں  کے لیے مناسب ہیں ۔ [26]

أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَیْسٍ، قَالَتْ:قَالَ لِی أَبُو بَكْرٍ: غَسِّلِینِی، قُلْتُ: لا أُطِیقُ ذَلِكَ، قَالَ: یُعِینُكِ عبد الرحمن ابن أَبِی بَكْرٍ، یَصُبُّ الْمَاءَ.

اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا کہتی ہیں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہاکہ تم مجھے غسل دینا،میں  نے کہاکہ میں  یہ کام کیسے کرسکتی ہوں ، تو آپ نے فرمایا عبدالرحمٰن پانی ڈال کرتمہاری مددکریں  گے۔[27]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: تُوُفِّیَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ.

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ مغرب اورعشاء کے درمیان فوت ہوئے تھے۔[28]

توفی أبو بكر وهو ابن ثلاث وستین سنة فی جمادى الآخرة یوم الاثنین لثمان بقین منه

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ بائیس جمادی الآخرتیرہ ہجری (۲۲اگست ۶۳۴ء ) پیر کے روز غروب آفتاب کے بعد تریسٹھ سال کی عمرمیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔[29]

وَكَانَ آخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ، رَبِّ تَوَفَّنِی مُسْلِماً وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے لبوں  پرآخری الفاظ یہ تھے اے میرے پروردگار! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں  وفات دینا اورمرنے کے بعد مجھے صالحین کے پاس جگہ دینا۔[30]

ان کی وفات کے بعدتمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے ان کی اسلامی خدمات کوبہترین الفاظ سے خراج عقیدت پیش کیا۔

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حُمِلَ عَلَى السَّرِیرِ الَّذِی حُمِلَ عَلَیْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى عَلَیْهِ عُمَرُ فِی مَسْجِدِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اسی پلنگ پراٹھائے گئے جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواٹھایاگیاتھا اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  فاروق نے مسجدنبوی میں  نمازجنازہ پڑھائی۔[31]

أَوْصَى أَبُو بَكْرٍ عَائِشَةَ أَنْ یُدْفَنَ إِلَى جَنْبِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا تُوُفِّیَ حُفِرَ لَهُ، وَجُعِلَ رَأْسُهُ عِنْدَ كَتِفَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، والصقوا اللحد یلحد النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُبِرَ هُنَالِكَ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کووصیت فرمائی تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پہلومیں  دفن کیاجائے،چنانچہ جب آپ کا انتقال ہوگیاتوآپ کی قبرکھودی گئی اور سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کاسررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے شانہ مبارک کے قریب اوران کی لحدکونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی لحدسے ملحق رکھاگیااورپھر اسی رات اس میں  دفن کردیاگیا۔[32]

وَدَخَلَ قَبْرَهُ عُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ

ان کی قبرمیں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ  اورعبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اترے تھے۔[33]

قال: جعل قبر ابى بكر مثل قبر النبی  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مسطحا، ورش علیه الماء

سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کی قبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرمبارک کی طرح مسطح بنائی گئی تھی اوراس پرپانی چھڑکاگیاتھا۔[34]

[1] العلق۱

[2] الدخان۱تا۳

[3] البقرة ۱۸۵

[4] الواقعة ۷۷تا۷۹

[5] البروج ۲۱،۲۲

[6] البقرة ۲

[7] الفرقان ۱

[8] آل عمران ۳۶

[9]النساء ۱۷۴

[10] الفرقان ۳۲

[11] صحیح بخاریکتاب العلم بَابُ التَّنَاوُبِ فِی العِلْمِ۸۹

[12] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن  بَابٌ فِی كَمْ یُقْرَأُ القُرْآنُ ۵۰۵۴

[13] محمد۱۷

[14] ابو داؤد  أَبْوَابُ تَفْرِیعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَنْ جَهَرَ بِهَا۷۸۶

[15] القیامة ۱۶تا۱۸

[16] المائدة ۳

[17] صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن  بَابُ قَوْلِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ، حَرِیصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ مِنَ الرَّأْفَةِ ۴۶۷۹

[18] صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن  بَابُ قَوْلِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ، حَرِیصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ مِنَ الرَّأْفَةِ ۴۶۷۹

[19] الاحزاب۲۳

[20] صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر  بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى مِنَ المُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ، فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا  ۲۸۰۷

[21] فتح الباری ۱۴؍۹

[22] صحیح بخاری  کتاب فضائل القرآن  بَابُ القُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ۵۰۰۳ ،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، وَجَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ ۲۴۶۵

[23] ابن سعد۱۵۱؍۳

[24] ابن سعد۱۵۰؍۳

[25] ابن سعد۲۰۷؍۳

[26] تاریخ طبری۴۲۱؍۳

[27] تاریخ طبری۴۲۱؍۳

[28] تاریخ طبری۴۲۱؍۳

[29] تاریخ طبری۴۱۹؍۳

[30] تاریخ طبری۴۲۳؍۳

[31] تاریخ طبری۴۲۲؍۳

[32] تاریخ طبری ۴۲۲؍۳

[33] تاریخ طبری ۴۲۲؍۳

[34] تاریخ طبری۴۲۳؍۳

Related Articles