ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کازریں  کردار

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  مقام سخ میں اپنے مکان پرتھے

أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ یُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَ فِی بَیْتِ ابْنَتِهِ عَائِشَةَ  فَأَذِنَتْ لَهُ   وَالنِّسْوَةُ حَوْلَهُ، فَخَمَّرْنَ وُجُوهَهُنَّ ،فَتَیَمَّمَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَشًّى بِثَوْبِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَیْهِ فَقَبَّلَهُ وَبَكَى، ثُمَّ قَالَ:بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، وَاللهِ لاَ یَجْمَعُ اللهُ عَلَیْكَ مَوْتَتَیْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِی كُتِبَتْ عَلَیْكَ، فَقَدْ مُتَّهَاطِبْتَ حَیًّا وَمَیِّتًا

جب سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کو اس جانگدازحادثہ کی خبرہوئی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکرآئے،حالت یہ تھی کہ آنکھوں  سے آنسوجاری تھے ،ہچکیاں  بندھی ہوئی تھیں  اورسینہ سانس سے پانی کے گھڑے کی طرح ابل رہاتھا،اسی کیفیت میں  مسجد نبوی کے دروازہ پر گھوڑے سے اترے اورکسی سے بات کیے بغیرحزین وغمگین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے حجرے کی طرف بڑھے،اوراپنی بیٹی ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے گھرمیں  اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی،انہوں  نے اجازت دے دی،ازواج مطہرات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گردبیٹھی ہوئی تھیں ،سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی آمدکی وجہ سے عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے علاوہ سب نے اپنے چہرے ڈھانک لئے،سیدناابوبکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے،اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوحبرہ(یمن) کی ایک دھاری دار چادر اڑھا دی گئی تھی،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے (چادرہٹاکر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاچہرہ مبارک کھولااورجھک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشانی مبارک کابوسہ  لیاپھرروتے ہوئے کہنے لگےمیرے ماں  باپ آپ پرفداہوجائیں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اللہ آپ پر دوموتیں  کبھی جمع نہیں  کرے گا،بس ایک ہی موت تھی جوآپ کے لئے لکھی گئی تھی اوروہ آپ کوحاصل ہوچکی،آپ زندگی اورموت دونوں  حالتوں  میں  پاکیزہ ہیں ۔ [1]

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَقَالَ عُمَرُ:وَاللهِ مَا كَانَ یَقَعُ فِی نَفْسِی إِلَّا ذَاكَ، وَلَیَبْعَثَنَّهُ اللهُ، فَلَیَقْطَعَنَّ أَیْدِیَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ،فَقَالَ: أَیُّهَا الحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَبَى عُمَرُ أَنْ یَجْلِسَ، فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ فَمَالَ النَّاسُ إِلَیْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَفَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ

اس کے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  باہر آئے، اس وقت سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  لوگوں  میں  تقریرکر رہے تھے وہ کہہ رہے تھے اللہ کی قسم!اللہ آپ کوپھرزندہ کرے گااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (مفسد) لوگوں  کے ہاتھ پیر کاٹیں  گے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان سے کہا اے قسم کھانے والے بیٹھ جا،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے ان کے کہنے پرکوئی توجہ نہیں  کی(اورتقریرجاری رکھی )سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے پھر کہا بیٹھ جاؤ،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  پھر بھی نہ بیٹھے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  منبر رسول کی طرف بڑھے اور تشہدپڑھناشروع کر دیا لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کوچھوڑدیا جب سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی توسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  خاموش بیٹھ گئے اورپھرکچھ دیربعدکھڑے ہوکرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی تقریر سننے لگے،سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے منبرپراللہ کی حمدوثنابیان کی اورپھرکہا۔

امابعد!ومن کان منکم یعبد محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  فان محمداقدمات من کان منکم یعبداللہ فان اللہ حی لایموت قال اللہ تعالی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللهُ الشَّاكِرِینَ [2]وقد قال اللہ تعالیٰ محمدٰ  إِنَّكَ مَیِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَیِّتُونَ  [3]وقال اللہ تعالیٰ   كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ[4] وقال اللہ تعالیٰ كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍo وَیَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ [5]وقال تعالیٰ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ [6]  ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَمَّرَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبْقَاهُ، حَتَّى أَقَامَ دِینَ اللهِ، وَأَظْهَرَ أَمْرَ اللهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةَ اللهِ، وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ، ثُمَّ تَوَفَّاهُ اللهَ عَلَى ذَلِكَ، وَقَدْ تَرَكَكُمْ عَلَى الطَّرِیقَةِ. فَلَنْ یَهْلِكَ هَالِكٌ إِلَّا مِنْ بَعْدِ الْبَیِّنَةِ وَالشِّفَاءِ , فَمَنْ كَانَ اللهُ رَبَّهُ فَإِنَّ اللهَ حَیٌّ لَا یَمُوتُ، وَمَنْ كَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا وَیُنَزِّلُهُ إِلَهًا، فَقَدْ هَلَكَ إِلَهُهُ،

تم میں  سے جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتاتھاتو(اسے معلوم ہوجاناچاہیے کہ)محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورجوشخص اللہ عزوجل کی پرستش کرتاتھا تو بیشک اللہ عزوجل زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں  آئے گی،اللہ تعالیٰ فرماتاہے محمداس کے سواکچھ نہیں  کہ بس ایک رسول ہیں  ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں  ، پھر کیا اگروہ مرجائیں  یاقتل کردیئے جائیں  توتم لوگ الٹے پاؤں  پھرجاؤگے؟یادرکھو!جوالٹاپھرے گاوہ اللہ کاکچھ نقصان نہیں  کرے گا،البتہ جواللہ کے شکرگزار بندے بن کررہیں  گے انہیں  وہ اس کی جزادے گا،اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ ہر چیز کو ہلاکت ہےیہ اسی کا فیصلہ ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتاہے (اے نبی!)تمہیں  بھی مرناہے اوران لوگوں  کوبھی مرناہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہر چیز جو اس زمین پرہے فنا ہوجانے والی ہے اورصرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات بابرکات باقی رہنے والی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہرنفس موت کاذائقہ چکھنے والا ہے،قیامت کے دن سب کو اعمال کاپوراپورااجرملے گااوراللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی عمردرازکی اوران کوباقی رکھایہاں  تک کہ اللہ کے دین کوقائم کردیااوراللہ کے حکم کوظاہرکردیا اوراللہ کے پیغام کوپہنچادیااوراللہ کی راہ میں  جہادکیا،پھراللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس بلالیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تم کوایک سیدھے اورصاف راستے پر چھوڑکر دنیا سے گئے ہیں  اب جوہلاک اورگمراہ ہوگاوہ حق واضح ہونے کے بعد گمراہ ہوگا،پس اللہ تعالیٰ جس کارب ہوتوسمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ توزندہ ہے اس کوکبھی موت نہیں  آسکتی اورجوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاتھااوران کااپناالٰہ جانتاتھاتووہ جان لے کہ اس کامعبودتوہلاک ہوگیا،

وَاتَّقُوا اللهَ أَیُّهَا النَّاسُ، وَاعْتَصِمُوا بِدِینِكُمْ، وَتَوَكَّلُوا عَلَى رَبِّكُمْ، فَإِنَّ دِینَ اللهِ قَائِمٌ، وَإِنَّ كَلِمَةَ اللهِ تَامَّةٌ، وَإِنَّ اللهَ نَاصِرُ مَنْ نَصَرَهُ، وَمُعِزُّ دِینَهُ، وَإِنَّ كِتَابَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ أَظْهُرِنَا، وَهُوَ النُّورُ وَالشِّفَاءُ وَبِهِ هَدَى اللهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِیهِ حَلَالُ اللهِ وَحَرَامُهُ، وَاللهِ لَا نُبَالِی مَنْ أَجْلَبَ عَلَیْنَا مِنْ خَلْقِ اللهِ، إِنَّ سُیُوفَ اللهِ لَمَسْلُولَةٌ، مَا وَضَعْنَاهَا بَعْدُ وَلَنُجَاهِدَنَّ مَنْ خَالَفَنَا كَمَا جَاهَدْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَا یُبْقِیَنَّ أَحَدٌ إِلَّا عَلَى نَفْسِه۔

اے لوگو!اللہ سے ڈرواوراللہ کے دین کومضبوطی سے پکڑو اوراپنے پروردگارپربھروسہ کرو،بیشک اللہ کادین قائم اوردائم رہے گا اوراللہ کاوعدہ پورا ہو کر رہے گا اوراللہ اس شخص کامددگارہے جو اس کے دین کی مدد کرے اوراللہ اپنے دین کوعزت اورغلبہ دینے والاہے اوراللہ کی کتاب ہمارے درمیان موجودہے اوروہی نورہدایت اوردل کی شفاہے اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کوراستہ بتلایااوراس میں  اللہ کے حلال وحرام کردہ چیزوں  کاذکرہے،(اورباغیوں  ومرتدین کی طرف اشارہ کیا)اللہ کی قسم! ہمیں  اس شخص کی ذرہ برابرپرواہ نہیں  جو ہم پرفوج کشی کرے ،تحقیق اللہ کی تلواریں  جوہمارے ہاتھوں  میں  ہیں  وہ اس کے دشمنوں  پرستی ہوئی ہیں وہ تلواریں  ہم نے ابھی تک ہاتھ سے رکھی نہیں  اوراللہ کی قسم!ہم اپنے مخالف سے اب بھی اسی طرح جہادکریں  گے جیساکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں  کیاکرتے تھے،پس مخالف خوب سمجھ لے اور اپنی جان پرظلم نہ کرے ۔[7]

فَأَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ یَكُونُوا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ، فَمَا یُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا یَتْلُوهَا

سیدناعباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب کہتے ہیں  اللہ کی قسم اس وقت لوگوں  کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ کسی کویہ یادہی نہیں  رہاتھاکہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے،جب سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے یہ آیت تلاوت کی توان سے سن کرلوگوں  کویہ آیت یادآئی پھرہرشخص کی زبان پریہی آیت تھی تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اس کی تلاوت کررہے تھے اوربے اختیاررورہے تھے۔[8]

أَنَّ عُمَرَ قَالَ:وَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلاَهَا فَعَقِرْتُ، حَتَّى مَا تُقِلُّنِی رِجْلاَیَ، وَحَتَّى أَهْوَیْتُ إِلَى الأَرْضِ حِینَ سَمِعْتُهُ تَلاَهَا، عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ فرماتے تھے اللہ کی قسم !مجھے اس وقت ہوش آیاجب میں  نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کواس آیت کی تلاوت کرتے سناجس وقت میں  نے انہیں  تلاوت کرتے سناکہ رسول اللہ کی وفات ہوگئی ہے تومیں  سکتے میں  آگیااورایسامحسوس ہواکہ میرے پاؤں  میرابوجھ نہیں  اٹھا پائیں  گے اور زمین پرگرجاؤں  گااور مجھے یقین بھی ہوگیا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاچکے ہیں ۔[9]

قَالَ عُمَرُ: فَلَكَأَنِّی لَمْ أَقْرَأْهَا إِلَّا یَوْمَئِذٍ. وَرَجَعَ عَنْ مَقَالَتِهِ الَّتِی قَالَهَا

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میری حالت بھی یہی ہوئی کہ گویاکہ میں  نے آج ان آیتوں  کوپڑھاہے اوراپنے خیال سے رجوع کیا ۔[10]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پرحسان بن ثابت  رضی اللہ عنہ نے یہ دردناک اشعارکہے۔

فَبَكِّی رَسُولَ اللهِ یَا عَیْنُ عَبْرَةً ، وَلَا أَعْرِفَنَّكِ الدَّهْرَ دمعك یجمد

اے میری آنکھ!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرآنسوبہا،خبردار!آج کے بعدکبھی تیرے آنسوخشک نہ ہوں

وَمَالك لَا تَبْكِینَ ذَا النِّعْمَةِ الَّتِی ، ،عَلَى النَّاسِ مِنْهَا سَابِغٌ یُتَغَمَّدُ

اورتوکیوں  نہ اس صاحب فضل ونعمت شخصیت پرروئے،جن کے احسانات عظیمہ نے سب لوگوں  کوڈھانپ رکھاہے

فَجُودِی عَلَیْهِ بِالدُّمُوعِ وَأَعْوِلِی ،لِفَقْدِ الَّذِی لَا مِثْلُهُ الدَّهْرَ یُوجَدُ

لہذااس فقیدالمثال شخصیت پرخوب جی بھرکرآنسوبہا،جن کی وفات کے بعداب ان جیساکوئی کبھی پیدانہ ہوگا

وَمَا فَقَدَ الْمَاضُونَ مِثْلَ مُحَمَّدٍ ، وَلَا مِثْلُهُ حَتَّى الْقِیَامَةِ یُفْقَدُ

اللہ گواہ ہے کہ گزشتہ دنوں  نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی کسی شخصیت کی وفات کاصدمہ نہیں  جھیلانہ آئندہ قیامت تک آپ جیسی کوئی شخصیت فوت ہوگی۔[11]

ابوسفیان  رضی اللہ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بھی حسرتناک اشعارکہے۔

أَرِقْت فَبَاتَ لَیْلِی لَا یَزُولُ ، دَلِیلُ أَخِی الْمُصِیبَةِ فِیهِ طُولُ

میں  بے خواب ہوں ،میری رات ختم ہونے میں  نہیں  آرہی  حقیقت یہ ہے کہ مصیبت زدہ شخص کی رات بہت لمبی ہوتی ہے

وَأَسْعَدَنِی الْبُكَاءُ وَذَاكَ فِیمَا ،أُصِیبَ الْمُسْلِمُونَ بِهِ قَلِیلُ

میں  جاگنے کے ساتھ ساتھ روبھی رہاہوں ،لیکن یہ آہ وبکااس مصیبت کے مقابلے میں  بہت کم ہے جس میں  آج مسلمان مبتلاہیں

لَقَدْ عَظُمَتْ مُصِیبَتُنَا وَجَلّتْ ،عَشِیّةَ قِیلَ قَدْ قُبِضَ الرّسُولُ

ہماری مصیبت بہت بڑی اورناقابل برداشت ہے، آج ہرطرف شوربرپاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے

وَأَضْحَتْ أَرْضُنَا مِمّا عَرَاهَا ،تَكَادُ بِنَا جَوَانِبُهَا تَمِیلُ

اس دہشت ناک خبرسے مدینہ اورعرب کی سرزمین زلزلہ براندام ہوئی ہے قریب ہے کہ قیامت برپاہوجائے

فَقَدْنَا الْوَحْیَ وَالتّنْزِیلَ فِینَا ،یَرُوحُ بِهِ وَیَغْدُو جَبْرَئِیلُ

آپ کی وفات سے وحی وقرآن کی آمدختم ہوگئی ہے ،جسے لے کرجبریل شام وسحرآیاکرتے تھے

وَذَاكَ أَحَقّ مَا سَأَلَتْ عَلَیْهِ ، نَفُوسُ النّاسِ أَوْ كَرَبَتْ تَسِیلُ

اس ہیبت ناک مصیبت پرحق تویہ ہے کہ سب روحیں  نکل جاتیں  یانکل جانے کے قریب ہوتیں

نَبِیّ كَانَ یَجْلُو الشّكّ عَنّا ، بِمَا یُوحَى إلَیْهِ وَمَا یَقُولُ

وہ عظیم الشان نبی کریم جوآسمانی وحی اوراپنے فرامین کے ذریعے سے ہمارے شکوک وشہبات دورفرمایاکرتے تھے اورہماری ہدایت کاسامان کیاکرتے تھے

وَیَهْدِینَا فَلَا نَخْشَى ضَلَالًا ،عَلَیْنَا وَالرّسُولُ لَنَا دَلِیلُ

آپ جیسے رہنماکے ہوتے ہوئے ہمیں  کسی گمراہی لاذرہ بھی خدشہ نہ تھا

أَفَاطِمُ إنْ جَزِعْت فَذَاكَ عُذْرٌ ،وَإِنْ لَمْ تَجْزَعِی، ذَاكَ السّبِیلُ

اے فاطمہ  رضی اللہ عنہا !اگرآج توروئے تویہ تیراحق بنتاہے اورتومعذورتصورہوگی،البتہ حوصلہ کرے اورصبرکامظاہرہ کرے تویہ ایک عظیم طریق ہوگا

فَقَبْرُ أَبِیك سَیّدُ كُلّ قَبْرٍ ، وَفِیهِ سَیّدُ النّاسِ الرّسُولُ

یادرکھو!تیرے اباجان کی قبرہرقبرکی سردارہے ،     جس میں  اولین وآخرین کے سرداروآقارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں ۔[12]

عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اورکسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں  کہ انہوں  نے میلادرسول والے دن میں  کوئی خاص اجتماع یاہو یاروزوں ،نماز،کھاناکھلاناوغیرہ سے اس دن کی کوئی تخصیص کی ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ اس عیدکی ایجادکاسہرہ رافضیوں  اورگمراہ اسماعیلی فاطمیوں  کے سرپرہے جنہوں  نے میلادوالی عیدیں  گھڑلیں ،ان میں  وہ لوگوں  کو کھانا کھلاتے،مال ودولت خرچ کرتے اورجلسے جلوس کرتے تھے،مشہورصوفی السخاوی کہتے ہیں  کہ خیرالقرون میں  کسی ایک سے بھی یہ عیدمنقول وثابت نہیں یہ بعدمیں  گھڑی گئی ہے ،اس کے بعد اہل اسلام(یعنی اسلام کے نادنہاددعیداروں )نے اسے(سخاوی کے علم کے مطابق)تمام شہروں  اورعلاقوں  میں  عزت واحترام سے جلسے جلوس کرکے منانا شروع کردیا ہے اس عیدپروہ بڑی عظیم الشان دعوتیں  اڑاتے ہیں ،طرح طرح کے صدقے کرتے اورخوشی کااظہارکرتے ہیں ،خوشحالی کامظاہرہ کرتے ہیں  اور میلاد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پڑھنے کااہتمام کرتے ہیں ۔[13]

پھرانہوں  نے اس میلادکی فضیلتیں  بیان کرناشروع کردیں  اورابن الجزری سے اپنی تائید نقل کی اور یہاں  تک لکھاکہ بلکہ ہمارے استاذ استاذ الاساتذہ عظیم الشان اماموں  کے خاتم (یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ )نے اس کی دلیل صحیح بخاری ومسلم کی اس حدیث سے لی ہے جس میں  آیا ہے

 قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ فَرَأَى الیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللهُ بَنِی إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى،قَالَ:فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ،قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ،قَالَ: فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تودیکھاکہ یہودی عاشوراکاروزہ رکھتے ہیں  ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں  سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں  نے کہاکہ اس دن اللہ نے فرعون کوغرق کیا اور موسیٰ   علیہ السلام  کونجات دی تھی پس ہم (موسیٰ   علیہ السلام  کے زمانے سے)یہ روزہ اللہ کے شکرکے لئے رکھتے ہیں ، تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  تم سے زیادہ موسیٰ   علیہ السلام  کے قریب ہوں  پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھااوراس روزے کاحکم بھی دیاصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن کی تو یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں ،تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب آئندہ سال آئے گاتوہم(یہودونصاریٰ کی مشابہت سے بچنے کے لئے) نویں  تاریخ کابھی روزہ رکھیں گے ،راوی نے کہاکہ ابھی آئندہ سال نہیں  آیاتھاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاچکے تھے۔[14]

ہمارے استاذ(یعنی حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ) کہتے ہیں  کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرکسی خاص دن میں  کوئی نعمت عطا فرمائی ہو یاکسی مصیبت کودورکیاہوتواس کاشکرہرسال اسی دن مناناصحیح ہے ،اللہ تعالیٰ کاشکرکی عبادات مثلا نماز،روزہ اورتلاوت قرآن سے منایاجاتاہے اورثواب ہوتاہے اس دن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بڑی کون سی نعمت ہوسکتی ہے۔[15]

اس کلام اورطریقہ استدلال میں  نظرہے کیونکہ اگریہ حدیث اس بات کی دلیل ہوتی جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ذکر کیاہے تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی عید میلادمنانے سے نہ رکتے اور نہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  یہ دن منانے سے پیچھے رہتےاورنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کاعیدمیلادنہ منانااس کی دلیل قاطع ہے کہ یہ فعل یعنی عیدمیلادالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم مناناصحیح نہیں  ہے بلکہ اس میں  وہ غلوہے جس سے ہمیں  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے منع کیاہے،

لاَ تُطْرُونِی، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ، وَرَسُولُهُ

آپ نے فرمایا کہ جس طرح عیسائیوں  نے ابن مریم(عیسیٰ   علیہ السلام )کوحدسے بڑھایاتم مجھے حدسے نہ بڑھانامیں  اللہ کابندہ ہوں  لہذامجھ کواللہ کابندہ اوررسول کہو۔[16]

اوراگریہ دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا میلادمنانے کی اصل سلیل ہے توپھردیگرانبیاء کی میلادیں  منانے کی بھی اکمل دلیل یہی ہے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قطعاًثابت نہیں  کہ آپ نے کسی نبی کا میلاد منایا ہواورنہ کسی دوسرے صحابی   یاتابعی  رحمہ اللہ  سے یہ بات ثابت ہے بلکہ علماء کا غیر مسلموں  کے تہواروں  کے بارے میں  شدیدکلام ہے جوعنقریب آئے گا (انشااللہ ) اوراگریہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں  جائزہے تومسیح کے حق میں  بھی جائزہےحالانکہ یہ عیسائیوں  کامخصوص تہوارہے اورکسی عالم نے بھی عیدمیلادالمسیح کوجائزنہیں  کہا لہذا یہ استدلال سرے سے ہی مردودہے،پھریہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کی بیان کردہ یہ دلیل ایک خاص حادثہ اورواقعہ کے بارے میں  ہے اسے عام دلیل بناکرپیش کرناصحیح نہیں کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وہی عبادت کرتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اورآپ کی امت کے لئے مقررکیاہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے

 اِنْ هُوَاِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى۝۴ [17]

ترجمہ:یہ صرف وحی ہے جوآپ پر وحی کی جارہی ہے۔

پس ہرعبادت جونہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورنہ کسی صحابی   سے توصحیح یہی ہے کہ وہ عبادت ناجائزوحرام ہےالایہ کہ اس کے جواز پرکوئی دلیل قائم ہو اور مروجہ میلادالنبی منانے پرکوئی دلیل نہیں  لہذااس کاحکم ناجائزاورحرمت والاہی ہے۔

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں  کوسختی سے منع کیاتھاجواکٹھے ہوکرذکر،تسبیح ،حمدباری تعالیٰ اورتکبیرات کہہ رہے تھےانہوں  نے اس پرسخت انکارکیاحالانکہ ذکرکرنافی نفسہ اچھی بات ہے اورعمومی دلائل اس کے مؤیدبھی ہیں  لیکن ان لوگوں  کی خاص ہیئت سنت نبوی یاآثارصحابہ سے ثابت نہیں لہذاابن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے ان ذاکرین پرانکارکیاتھا۔

اسی طرح خباب بن ارت   رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے کوان لوگوں  کے پاس بیٹھنے سے منع کیاتھاجوقرآن کی تلاوت کرتے اوراس پرروتے(رلاتے)تھےحالانکہ قرآن کاسنناسنانافی نفسہ اچھی بات ہے لیکن اس خاص حالت میں  سماع قرآن بدعت ہے۔[18]

تووہ چیزکیوں  ممنوع نہ ہوگی جس کی فضیلت یاخصوصیت پرکوئی دلیل نہیں ۔

فِیمَنْ یَعْمَلُ كُلَّ سَنَةٍ خِتْمَةً فِی لَیْلَةِ مَوْلِدِ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – هَلْ ذَلِكَ مُسْتَحَبٌّ أَمْ لَا؟ الْحَمْدُ لِلَّهِ. جَمْعُ النَّاسِ لِلطَّعَامِ فِی الْعِیدَیْنِ وَأَیَّامِ التَّشْرِیقِ سُنَّةٌ، وَهُوَ مِنْ شَعَائِرِ الْإِسْلَامِ الَّتِی سَنَّهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِینَ وَإِعَانَةُ الْفُقَرَاءِ بِالْإِطْعَامِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ هُوَ مِنْ سُنَنِ الْإِسْلَامِ،فَقَدْ قَالَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ  وَإِعْطَاءُ فُقَرَاءِ الْقُرَّاءِ مَا یَسْتَعِینُونَ بِهِ عَلَى الْقُرْآنِ عَمَلٌ صَالِحٌ فِی كُلِّ وَقْتٍ، وَمَنْ أَعَانَهُمْ عَلَى ذَلِكَ كَانَ شَرِیكَهُمْ فِی الْأَجْرِ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  سے پوچھاگیاجوشخص ہرسال میلادالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم والی رات قرآن کوختم کرتاہے کیایہ مستحب ہے یانہیں ؟ توانہوں  نے جواب دیاکہ الحمداللہ عیدین اور ایام تشریق(عیدالاضحیٰ کے بعدتین دن)میں  لوگوں  کوکھانے پینے کے لئے جمع کرناسنت ہے اورشعائراسلام میں  سے ہے جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں  کے لئے مسنون قراردیاہے۔رمضان کے مہینے میں  فقیروں  اورمساکین کوکھاناکھلانابھی دین اسلام کے عظیم الشان طریقوں  میں  سے ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے کسی روزہ دارکوروزہ افطارکرایاتواسے اس روزہ دارجیسا ثواب ملے گااورروزہ دارکے اجرمیں  کوئی کمی واقع نہیں  ہوگی۔[19]

وَإِعْطَاءُ فُقَرَاءِ الْقُرَّاءِ مَا یَسْتَعِینُونَ بِهِ عَلَى الْقُرْآنِ عَمَلٌ صَالِحٌ فِی كُلِّ وَقْتٍ، وَمَنْ أَعَانَهُمْ عَلَى ذَلِكَ كَانَ شَرِیكَهُمْ فِی الْأَجْرِوَأَمَّا اتِّخَاذُ مَوْسِمٍ غَیْرِ الْمَوَاسِمِ الشَّرْعِیَّةِ كَبَعْضِ لَیَالِی شَهْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ الَّتِی یُقَالُ إنَّهَا لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ، أَوْ بَعْضُ لَیَالِی رَجَبٍ، أَوْ ثَامِنَ عَشْرَ ذِی الْحِجَّةِ، أَوْ أَوَّلُ جُمُعَةٍ مِنْ رَجَبٍ، أَوْ ثَامِنُ شَوَّالٍ الَّذِی یُسَمِّیه الْجُهَّالُ  عِیدُ الْأَبْرَارِ ، فَإِنَّهَا مِنْ الْبِدَعِ الَّتِی لَمْ یَسْتَحِبَّهَا السَّلَفُ وَلَمْ یَفْعَلُوهَا

فقیرومحتاج حافظوں  کوصدقہ وخیرات دیناہروقت جائزہے جوان کی مددکریگاتوان کے ثواب میں  شریک ہوجائے گا،رہابغیرکسی شرعی دلیل کے بعض اوقات کوجمع ہونے کے لئے مقررکرلینامثلاًربیع الاول کے مہینے کی بعض راتیں  یادن میلادکے لئے مقررکرنا،رجب کی چندراتیں ،اٹھارویں  ذوالحجہ،رجب کاپہلاجمعہ یاآٹھویں  شوال جسے جاہل لوگ نیک لوگوں  کی عید کہتے ہیں یہ سب بدعات ہیں  جنہیں  سلف صالحین نے پسندنہیں  کیااوران کامناناسلف صالحین میں  سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں  ہے۔[20]

عیدمیلادکے جلوس اہل کتاب کی اہم خصوصیت ہے وہ اپنے انبیاء اورپادریوں  کی عیدمیلادیں مناتے ہیں  اورہمیں  ان لوگوں  کی مخالفت کاحکم دیاگیاہے اس لئے کہ ان لوگوں (عیسائیوں )کے طرزعمل کی موافقت کرنابظاہردلی طورپران کی حمایت کے مترادف ہے اسے ہی عقیدہ(کی برابری) کہا جاتا ہے،

عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَالِفُوا المُشْرِكِینَ

حالانکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامشرکوں  کی مخالفت کرو۔[21]

خَالِفُوا الْمَجُوسَ

مجوسیوں  کی مخالفت کرو۔[22]

وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ

اہل کتاب کی مخالفت کرو۔[23]

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا یہ طریقہ تھاکہ وہ اہل کتاب اورمشرکین کے خاص اعمال کی علانیہ مخالفت کرتے تھے چاہے لباس کامعاملہ ہویاجماع کاحتی کہ دس محرم کے روزہ میں  بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کی مخالفت کرکے نومحرم کے روزے کاحکم دیابشرطیکہ وہ آئندہ سال زندہ ہوں لیکن اس سے پہلے ہی آپ کی وفات ہوگئی لہذا (یہود و نصاریٰ اورکفارومشرکین کی) مخالفت والاحکم اپنے وجوب(یعنی لازمی عمل) پرباقی رہانہ کہ استحباب پراوراس سے مذکورہ تہوارکابدعت ہونابھی معلوم ہوتاہے۔

أن الأعیاد من جملة الشرع والمناهج والمناسك، التی قال الله سبحانه  لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا، لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے فرمایاعیدوں  اورتہواروں  کاشریعت منہج(نصب العین) اور عبادات سے تعلق ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایاہےہم نے تم میں  سے ہرایک کے لئے شریعت اورنصب العین بنایا ہے ہم نے ہرامت کے لئے عبادت کاایک طریقہ بتایاہے جس پروہ عمل پیراہیں ۔

كالقبلة والصلاة والصیام، فلا فرق بین مشاركتهم فی العید وبین مشاركتهم فی سائر المناهج، فإن الموافقة فی جمیع العید، موافقة فی الكفر. والموافقة فی بعض فروعه: موافقة فی بعض شعب الكفر، بل الأعیاد هی من أخص ما تتمیز به الشرائع، ومن أظهر ما لها من الشعائر، فالموافقة فیها موافقة فی أخص شرائع الكفر، وأظهر شعائره ولا ریب أن الموافقة فی هذا قد تنتهی إلى الكفر فی الجملة بشروطه.

جیسے قبلہ،نماز،روزہ لہذاان لوگوں  کے تہواروں  میں  شمولیت ہویاعبادات میں ،اس میں  کوئی فرق نہیں  ہے۔پورے تہواروعیدمیں  موافقت پورے کفرمیں  موافقت ہے اور بعض میں  موافقت بعض کفرمیں  موافقت ہے۔بلکہ عیدیں  اورتہوارقوموں  کاخاص الخاص امتیازی نشان ہوتے ہیں  ان عیدوں  سے ان لوگوں  کی عبادات اورمذاہب کااظہار ہوتاہے توجوشخص ان عیدوں  میں  جس قوم کی حمایت کرے گااس نے گویاکفرمیں  ان کی حمایت کی،اوراس میں  شک نہیں  کہ یہ حمایت وموافقت کفروارتدادکاباعث بھی بن سکتی ہیں ۔[24]

اس کی تائیدقول باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے۔

وَالَّذِینَ لَا یَشْهَدُونَ الزُّورَ ۔۔۔[25]

ترجمہ:اوروہ لوگ جو جھوٹ میں  حاضرنہیں  ہوتے۔

وَقَالَ أَبُو الْعَالِیَةِ، وَطَاوُسُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ، وَالضَّحَّاكُ، وَالرَّبِیعُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَیْرُهُمْ: هِیَ أَعْیَادُ الْمُشْرِكِینَ

سلف صالحین میں  سے ایک جماعت مثلاًابوالعالیہ ،طاوس ،محمد بن سیرین،ضحاک ،ربیع بن انس وغیرہ ہم نے اس آیت میں   الزُّورَ سے مرادمشرکوں  کی عیدیں  اورتہوارلیے ہیں ۔[26]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِیدًا، وَهَذَا عِیدُنَا

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  سے فرمایاتھااے ابوبکر! بیشک ہرقوم کی عیدہوتی ہے اوریہ ہماری عیدہے۔[27]

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقوم کی خصوصیت اس کی عیدبتائی ہے کیونکہ اس کاتعلق اس کے خاص نشان سے ہوتاہے اس لئے غیرمسلموں  کے ساتھ ان کے تہواروں  میں  کسی قسم کی شرکت جائزنہیں  ہے حتیٰ کہ انہیں  مبارک بادبھی نہیں  کہناچاہیے کیونکہ اس طرح ان کی حمایت ہوتی ہے اوران کی محرف ومنسوخ شریعت اقرارہوتاہے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعدآپ کے دین اسلام کے علاوہ کسی دین پرعمل جائزنہیں ہے۔

سلف صالحین سے ایسے اقوال بھی مروی ہیں  کہ جن سے ثابت ہوتاہے کہ وہ غیرمسلموں  کی عیدوں  اورتہواروں  کی سختی سے مخالفت وحرمت کے قائل تھے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرو، قَالَ:مَنْ بَنَى فِی بِلَادِ الْأَعَاجِمِ فَصَنَعَ نَوْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى یَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا  جوشخص بلادعجم میں (کافروں  کے ساتھ)رہے ان کے (تہواروں )نیروزاورمہرجان میں  شرکت اورمشابہت کرے اوراسی حالت میں  اس کی موت واقع ہوجائے تواس شخص کا حشرانہی(کافروں )کاساہوگا۔[28]

وهذا یقتضی أنه جعله كافرا بمشاركتهم فی مجموع هذه الأمور، أو جعل ذلك من الكبائر الموجبة للنار، وإن كان الأول ظاهر لفظه، فتكون المشاركة فی بعض ذلك معصیة؛ لأنه لو لم یكن مؤثرا فی استحقاق العقوبة لم یجز جعله جزءا من المقتضى، إذ المباح لا یعاقب علیه، ولیس الذم على بعض ذلك مشروطا ببعض؛ لأن أبعاض ما ذكره یقتضی الذم مفردا. وإنما ذكر  والله أعلم  من بنى ببلادهم؛ لأنهم على عهد عبد الله بن عمرو وغیرهم من الصحابة كانوا ممنوعین من إظهار أعیادهم بدار الإسلام، وما كان أحد من المسلمین یتشبه بهم فی عیدهم وإنما كان یتمكن من ذلك بكونه فی أرضهم.

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس کامطلب یہ ہے کہ انہوں (عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ )نے اس شخص کوکافروں  کی مکمل حمایت کی وجہ سے کافرقراردیاہے یااسے ایساکبیرہ گناہ قراردیاہے جس کی وجہ سے آدمی دوزخ کامستحق ہوجاتاہے اگرچہ اول الذکرمفہوم زیادہ ظاہر(اورواضح)ہے،لہذاان تہواروں  وغیرہ میں  جزوی مشارکت بھی گناہ ہے کیونکہ اگروہ عذاب کامستحق نہیں  توتب بھی اس کے لئے یہ کام مباح نہیں  ہے اورمباح پرملامت نہیں  کی جاتی،جبکہ جلیل القدرصحابی  رضی اللہ عنہ  نے اس کی سخت مذمت کررکھی ہے اوریہ مذمت کسی خاص تہواریاشخص کے ساتھ مخصوص نہیں  بلکہ عام ہے جس میں  تمام لوگ شامل ہیں ،رہاان کایہ کہناکہ جوکافروں  کے علاقے میں  رہے تو(عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ ) وغیرہ صحابہ کے زمانے میں  دارالاسلام میں  کافروں  کوان (تہواروں )سے روک دیاگیاتھا،مسلمانوں  میں  سے کوئی بھی ان تہواروں  میں  کافروں  کی مشابہت نہیں  کرتاتھاایساکرناصرف کافروں  کے علاقے میں  ہی ممکن تھا۔[29]

عَنْ أَبِی عَطَاءِ بْنِ دِینَارٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ:لَا تَعَلَّمُوا رَطَانَةَ الْأعَاجِمِ، وَلَا تَدْخُلُوا عَلَیْهِمْ فِی كَنَائِسِهِمْ یَوْمَ عِیدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَیْهِمْ

عطاء بن دینار رحمہ اللہ سے اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے عجمیوں  کی بولیاں  نہ سیکھواورنہ ان کے کنیساؤں  (عبادت گاہوں )میں  عید کےدن داخل ہوکیونکہ ان پراللہ کاغضب نازل ہوتاہے۔ [30]

سألت أحمد عن شهود هذه الأعیاد التی تكون عندنا بالشام، مثل: طور یانور ودیر أیوب  وأشباهه، یشهده المسلمون، یشهدون الأسواق، ویجلبون الغنم فیه، والبقر، والدقیق والبر، والشعیر، وغیر ذلك، إلا أنه إنما یكون فی الأسواق یشترون، ولا یدخلون علیهم بیعهم؟قال: إذا لم یدخلوا علیهم بیعهم، وإنما یشهدون السوق فلا بأس

امام الخلال  رحمہ اللہ  نے مھنا بن یحییٰ سے نقل کیاہےمیں  نے احمدبن حنبل رحمہ اللہ  سے پوچھاہمارے ہاں  شام میں  جوعیدیں  ہوتی ہیں  جن میں  عام مسلمان حاضرہوتے ہیں  یابازاروں  کو جاتے ہیں  ،ان میں  وہ گائیں  بکریاں  وغیرہ لے کرجاتے ہیں  ،یہ لوگ بازاروں  میں  خریدوفروخت کرتے ہیں  مگرکافروں  کی عبادت گاہوں  میں  داخل نہیں  ہوتےتوامام احمد رحمہ اللہ  نے کہاکہ اگریہ ان کی عبادت گاہوں  میں  داخل نہ ہوں  اورصرف بازاروں  میں  خریدوفروخت میں  حاضرہوں  توکوئی حرج نہیں ہے۔[31]

امام احمد رحمہ اللہ نے عبادت گاہوں  کے بجائے بازاروں  میں  حاضری کواس لئے جائزرکھاہے کہ یہ ان لوگوں  کے تہواروں  میں  شرکت سے علیحدہ ہے حالانکہ اس میں  بھی ان غلط باتوں  پر ان لوگوں  کی ضمنی موافقت ہے،اصل یہ ہے کہ مسلمانوں  کے علاقے میں  نہ اہل کتاب کی عیدیں  منائی جائیں  اورنہ ان کااظہارکیاجائے اورمسلمانوں  کوبھی ان کی زرہ برابر پرواہ نہیں  کرناچاہیے بلکہ ان تہواروں  کوختم کردیناچاہیے۔

امام احمد رحمہ اللہ  کے درج بالاقول کی تائیدسنت نبوی سے بھی ہوتی ہے ۔

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلاَءِ المُعَذَّبِینَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِینَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِینَ فَلاَ تَدْخُلُوا عَلَیْهِمْ، لاَ یُصِیبُكُمْ مَا أَصَابَهُمْ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے الحجر(قوم ثمودکاعلاقہ)والوں  کے علاقے کے بارے میں  فرمایاتھاان لوگوں  کے علاقے میں  جن پرعذاب نازل ہواہے صرف رونے والی حالت میں  داخل ہوکرگزرو اور اگر رونانہیں  توپھراس علاقے میں  داخل نہ ہونا،کہیں  تمہارے اوپربھی عذاب نہ آجائے۔[32]

ثُمَّ زَجَرَ فَأَسْرَعَ حَتَّى خَلَّفَهَا

ایک روایت میں  ہےپھرآپ نے منع کردیااوراس علاقے سے بہت جلدی گزرکراسے اپنے پیچھے چھوڑگئے۔[33]

أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضَ ثَمُودَ، الحِجْرَ، فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَاعْتَجَنُوا بِهِ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُهَرِیقُوا مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَأَنْ یَعْلِفُوا الإِبِلَ العَجِینَ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ یَسْتَقُوا مِنَ البِئْرِ الَّتِی كَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ

ایک اورروایت میں  ہے لوگوں  نے قوم ثمودکی زمین الحجرمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑاوکیاوہاں  کے کنوؤں  سے پانی بھرلیااورآٹاگوندھاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پانی بہانے اورآٹامویشیوں  کوکھلانے کاحکم دے دیااورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم دیاکہ اس کنوئیں  سے پانی بھریں  جہاں (صالح   علیہ السلام  کی)اونٹنی پانی پیاکرتی تھی۔[34]

وَفِیهِ الْحَثُّ عَلَى الْمُرَاقَبَةِ عِنْدَ الْمُرُورِ بِدِیَارِ الظَّالِمِینَ وَمَوَاضِعِ الْعَذَابِ وَمِثْلُهُ الْإِسْرَاعُ فِی وَادِی مُحَسِّرٍ لِأَنَّ أَصْحَابَ الْفِیلِ هَلَكُوا هُنَاكَ فَیَنْبَغِی لِلْمَارِّ فِی مِثْلِ هَذِهِ الْمَوَاضِعِ الْمُرَاقَبَةُ وَالْخَوْفُ وَالْبُكَاءُ وَالِاعْتِبَارُ بِهِمْ وَبِمَصَارِعِهِمْ وَأَنْ یَسْتَعِیذَ بِاَللَّهِ مِنْ ذَلِكَ

امام نووی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  اس حدیث میں  ظالموں  کے علاقے اورعذاب کی سرزمین کی طرف خاص توجہ دینامقصودہے اوریہ کہ ایسے علاقے سے جلدی نکل جائیں ۔اسی طرح وادی محسرجہاں  ہاتھی والے ہلاک ہوئے تھے اس سے بھی جلدی گزرناچاہیے اورایسے علاقوں  میں  سے سفرکرنے والے کوپوری دیکھ بھال ،خوف،گریہ وزاری کامظاہرہ کرناچاہیے کہ وہ اس منظرسے عبرت حاصل کرے اوراللہ کی پناہ مانگے۔[35]

بالکل اسی طرح کفارومشرکین کے یہ تہوارہیں  یہ بھی اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں  ۔اللہ اوراس کے رسول جس کی سابقہ انبیاء نے بشارت دی ہے پرایمان نہ لاکران ظالم لوگوں  نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی ہے ۔ان بعض بشارتوں  کاذکران لوگوں  کی تحریف شدہ کتابوں  میں  بھی موجودہے،اس کے باوجود انہوں  نے رب کے حکم کی مخالفت کرکے دین میں  من مانی کی ہے اوران لوگوں  نے اللہ تعالیٰ پرافتراء باندھاہے اورجس شخص نے ان کے بعض قوانین ورسوم میں  موافقت کی تواسے کفروظلم سے اتناہی حصہ ملے گااورجس نے ان کے تہواروں  پرخوشی منائی توگویاوہ اس کفر،سرکشی اورانکارپرراضی ہیں  اورجس نے انہیں  تحفے تحائف دیے یاان لوگوں  کے لئے خوب کھانے پکائے توایسے آدمی کے بارے میں  علماء نے سخت کلام کیاہے بلکہ بعض نے توایساکرنے والے کے لئے کفرکافتویٰ دیاہے اورعبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  کے قول کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔

وَفِی كُتُبِ أَصْحَابِ أَبِی حَنِیفَةَ: مَنْ أَهْدَى لَهُمْ یَوْمَ عِیدِهِمْ بِطِّیخَةً بِقَصْدِ تَعْظِیمِ الْعِیدِ فَقَدْ كَفَرَ

ابن القیم  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں حنفیوں  کی کتابوں  میں  لکھاہواہے کہ جوشخص ان (کافروں )کی عیدکے دن بطورتعظیم ایک خربوزہ انہیں  تحفہ دے تواس نے یقینا ًکفرکیا۔[36]

وَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِیبٍ:  سُئِلَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنِ الرُّكُوبِ فِی السُّفُنِ الَّتِی تَرْكَبُ فِیهَا النَّصَارَى إِلَى أَعْیَادِهِمْ، فَكَرِهَ ذَلِكَ مَخَافَةَ نُزُولِ السُّخْطَةِ عَلَیْهِمْ بِشِرْكِهِمُ الَّذِینَ اجْتَمَعُوا عَلَیْهِ

اورنیزیہ بھی کہاہے کہ عبدالملک بن حبیب کہتاہے ابن القاسم(شاگردامام مالک  رحمہ اللہ )سے ان کشتیوں  میں  سواری کے بارے میں  پوچھاگیاجن میں  عیسائی اپنے خاص تہواروں  میں  سفرکرتے ہیں ؟توانہوں  نے اسے مکروہ یعنی حرام قراردیاکہ کہیں  اس اجتماع وشراکت کی وجہ سے اللہ کاغضب ان پر نازل نہ ہوجائے۔

قَالَ: وَكَرِهَ ابْنُ الْقَاسِمِ لِلْمُسْلِمِ أَنْ یُهْدِیَ إِلَى النَّصْرَانِیِّ فِی عِیدِهِ مُكَافَأَةً لَهُ، وَرَآهُ مِنْ تَعْظِیمِ عِیدِهِ وَعَوْنًا لَهُ عَلَى كُفْرِهِ، أَلَا تَرَى أَنَّهُ لَا یَحِلُّ لِلْمُسْلِمِینَ أَنْ یَبِیعُوا مِنَ النَّصَارَى شَیْئًا مِنْ مَصْلَحَةِ عِیدِهِمْ، لَا لَحْمًا وَلَا أَدَمًا وَلَا ثَوْبًا، وَلَا یُعَارُونَ دَابَّةً، وَلَا یُعَانُونَ عَلَى شَیْءٍ مِنْ عِیدِهِمْ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ تَعْظِیمِ شِرْكِهِمْ وَعَوْنِهِمْ عَلَى كُفْرِهِمْ، وَیَنْبَغِی لِلسَّلَاطِینِ أَنْ یَنْهَوُا الْمُسْلِمِینَ عَنْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَغَیْرِهِ، لَمْ أَعْلَمْهُ اخْتُلِفَ فِیهِ

راوی کہتاہے کہ عبدالرحمٰن بن القاسم نے اسے بھی مکروہ یعنی حرام سمجھاہے کہ کوئی مسلمان کسی نصرانی کی عیدوالے دن اس کی دلجوئی کے لئے کوئی تحفہ پیش کرے اورانہوں  نے اسے اس تہوارکی تعظیم اوراس کے کفرکی حمایت قراردیاہے۔کیاآپ نہیں  دیکھتے کہ مسلمانوں  کے لئے یہ حلال نہیں  ہے کہ عیسائیوں  کی عیدکے لئے انہیں  گوشت ،سالن یاکپڑا بیچیں  اورنہ انہیں  عاریتا کوئی جانوار(سواری کے لئے)دیں  اوران کے ساتھ کسی قسم کاتعاون نہ کریں  کیونکہ اس میں  ان کے شرک کی تعظیم اورکفرپرتعاون ہے ،لہذامسلمان حکمرانوں  کوچاہیے کہ وہ ایسے کاموں  سے منع کردیں  ،یہی قول امام مالک  رحمہ اللہ  وغیرہ کاہے اوراس میں  مسلمان علماء کاکوئی اختلاف نہیں  ہے۔[37]

یہ حکم تمام ایجادکردہ غیرشرعی عیدوں  اورتہواروں  پرعائدہوتاہے جنہیں  کفاراورمشرکین مناتے ہیں  مثلاًعیدمیلاد،میلادالمسیح،کنواری مریم کی عید،پادریوں  کے ایام منانا،ماں  کی عید(عیدالام،تازہ ہواسونگھنے کاتہوار(یہ شیعوں  کے ایک گروہ کاخاص تہوارہے جیسے عیدنیروزبھی کہتے ہیں  ۔ازافادات شیخ ابوفراس شامی) نیروز ومہرجان کی عیداوراس قسم کی وہ تمام عیدیں  جوغیرمسلم مناتے ہیں )ان تمام عیدوں  اورتہواروں  کے بارے میں  وہی قاعدہ ہے جوشیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے ذکرکیاہے

فإنما سببه هو كونه یوما مخصوصا، وإلا فلو كان كسائر الأیام لم یختص بشیء

اس دن کوئی خاص کام نہیں  کیاجائے گابلکہ مسلمان بغیرکسی خصوصیت کے عام دنوں  کی طرح ہی اسے گزاریں  گے۔[38]

وہ ان دنوں  میں  غیرمسلموں  کی مخالفت سے نہ روزہ رکھیں  گے اورنہ ان کی ضدسے افطارکریں  گے وہ ان ایام میں  ایسی کوئی خاص عبادت نہیں  کریں  گے جونہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورنہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے ۔نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے تہواروں  کے دن مدینہ والوں  کوروزہ رکھنے کاحکم نہیں  دیابلکہ انہیں  ان تہواروں  میں  شرکت سے منع کیاہے لہذاان عیدوں  کے بارے میں  سنت نبوی بس یہی ہے۔

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۲،۴۴۵۳،وکتاب فضائل اصحاب النبیﷺ ۳۶۶۷،السنن الکبری للبیہقی ۶۷۱۰،دلائل النبوة للبیہقی ۲۱۸،۲۱۵؍۷، ابن سعد۲۰۷؍۲

[2] آل عمران۱۴۴

[3] الزمر۳۰

[4]القصص۸۸

[5] الرحمٰن۲۶،۲۷

[6] آل عمران۱۸۵

[7] البدایة والنہایة ۲۶۴؍۵،دلائل النبوة للبیہقی ۲۱۸؍۷

[8] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ ۱۲۴۲، وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۴  ،السنن الکبری للبیہقی ۶۷۱۰

[9] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۴

[10] تفسیرالقرطبی ۲۲۳؍۴

[11] ابن ہشام۶۶۸؍۲،الروض الانف۶۰۳؍۷،امتاع الاسماع۵۹۱؍۱۴،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۸۱؍۱۲

[12] الروض الانف۵۹۸؍۷،عیون الآثر۴۱۰؍۲، امتاع الاسماع۶۰۳؍۱۴

[13] الاجوبہ المرضیة ۱۱۱۶؍۳

[14] صحیح  بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ۲۰۰۴،صحیح مسلم  كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ أَیُّ یَوْمٍ یُصَامُ فِی عَاشُورَاءَ۲۶۶۶

[15] الاجوبہ المرضیة ۱۱۱۷؍۳

[16] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ۳۴۴۵

[17] النجم۴

[18] البدع النھی عنھا صفحہ ۳۶

[19] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا ۸۰۷

[20] الفتاوی الکبری لابن تیمیة ۴۱۴؍۴، مجموع الفتاوی ۲۹۸؍۲۵

[21] صحیح بخاری كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ تَقْلِیمِ الأَظْفَارِ ۵۸۹۲،صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ ۶۰۲

[22] صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ ۶۰۳، مسند احمد ۸۷۸۵

[23] العلل لابن ابی حاتم ۲۰۶۲، مسند احمد ۲۲۲۸۳

[24] اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم۵۲۸؍۱

[25] الفرقان ۷۲

[26] تفسیرابن کثیر ۱۳۰؍۶

[27] صحیح بخاری کتاب الجمعة  بَابُ سُنَّةِ العِیدَیْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ۹۵۲،صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین  بَابُ الرُّخْصَةِ فِی اللعِبِ الَّذِی لَا مَعْصِیَةَ فِیهِ فِی أَیَّامِ الْعِیدِ ۸۹۲

[28] السنن الکبری للبیهقی ۱۸۸۶۴

[29] اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم۵۱۵،۵۱۶؍۱

[30] مصنف ابن ابی شیبة۲۶۲۸۱، مصنف عبد الرزاق ۱۶۰۹

[31] اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم ۳۳۶؍۲

[32] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ الصَّلاَةِ فِی مَوَاضِعِ الخَسْفِ وَالعَذَابِ  ۴۳۳

[33] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِینَ  ۷۴۶۵

[34] صحیح بخاری كتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۳۳۷۸،صحیح مسلم  كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِینَ ۷۴۶۶

[35] شرح النووی على مسلم ۱۱۱؍۱۸

[36] احكام اهل الذمة  ۱۲۵۰؍۳

[37] احكام اهل الذمة  ۱۲۴۹،۱۲۵۰؍۳

[38] اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم۵۲۹؍۱

Related Articles