ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکفین وتدفین

فَلَمَّا بُویِعَ أَبُو بَكْرٍ أَقْبَلَ النَّاس عَلَى جِهَازِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم یَوْمَ الثُّلَاثَاءِ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  صدیق کے انتخاب وتقررکے بعدمنگل کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکفین وتدفین کاکام شروع ہوا۔[1]

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ تُوُفِّیَ سُجِّیَ بِبُرْدٍ حِبَرَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاانتقال ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاجسد مبارک ایک سبز دھاری داریمنی چادرسے ڈھک دیا گیا تھا۔[2]

لَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَامَ فارتج الباب

خلیفہ کے منتخب ہونے تک اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی حالت میں بسترپرپڑے رہے اوراہل خانہ نے گھرکے دروازے کوباہرسے بند کردیاتھا۔[3]

لَقَدِ اخْتَلَفَ الْمُسْلِمُونَ فِی الْمَكَانِ الَّذِی یُحْفَرُ لَهُ،فَقَالَ قَائِلُونَ: یُدْفَنُ فِی مَسْجِدِهِ، وَقَالَ قَائِلُونَ: یُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا قُبِضَ نَبِیٌّ إِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ

آپ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  مختلف الرائے تھےبعض نے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مسجدمیں  دفن کرنا چاہیے،بعض نے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ (بقیع میں )دفن ہوں  گے یہ سن کر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  صدیق نے فرمایامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سناہے کہ انبیاء میں  جس نبی کاوصال ہوتاہے ان کی تدفین اسی جگہ عمل میں  آتی ہے جہاں  ان کی وفات ہوئی ہو۔[4]

وقال علی: وأنا أیضًا سمعته،وحفر أبو طلحة لحد رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی موضع فراشه حیث قُبِض

سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کاقول ہے کہ میں  نے بھی آپ کوایساہی فرماتے ہوئے سنا ہے،  چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے حجرے میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاوہ بسترجس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تھی اٹھا دیا گیا اورعین اسی جگہ ابوطلحہ  رضی اللہ عنہ زیدبن سہل انصاری نے آپ کی لحد (بغلی قبر) تیارکی۔[5]

 وَغُسِّلَ وَعَلَیْهِ قَمِیصٌ،وَغُسِّلَ مِنْ بِئْرٍ كَانَ یقال لها الْغَرْسُ  بِقُبَاءٍ كَانَتْ لِسَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواسی کرتہ میں  غسل دیاگیاجوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جسم اطہر پہنا ہوا تھا،اورغسل کاپانی قبامیں  واقع الغر س نامی کنوئیں  سے لایا گیا تھاجوسعدبن خثیمہ کی ملکیت تھا۔[6]

وَغَسَّلَهُ عَلَیْهِ السَّلامُ عَلِیٌّ وَالْعَبَّاسُ وَابْنَاهُ: الْفَضْلُ وَقُثَمُ، وَمَوْلَیَاهُ: أُسَامَةُ وَشُقْرَانُ، وَحَضَرَهُمْ أَوْسُ بْنُ خَوْلَى الأَنْصَارِیُّ

غسل دینے والوں  میں سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب ،اوران کے دو فرزند الفضل رضی اللہ عنہ  اورقثم  رضی اللہ عنہ   آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام شقران ،اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  اور اوس بن خولی شامل تھے،اوراوس بن خولی  رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد کو اپنے سینے سے ٹیک رکھاتھا۔[7]

وَجَعَلَ عَلِیٌّ یَغْسِلُهُ

سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو غسل دے رہے تھے۔[8]

وَعَلَیْهِ قَمِیصُهُ یُدَلِّكُهُ بِهِ مِنْ وَرَائِهِ، لَا یُفْضَى بِیَدِهِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورپانی ڈال کرکرتہ کے اوپرسے ہاتھ سے ملتے تھے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم اطہرکونہ لگاتے تھے۔[9]

وَكَانَ العبَّاس وَفَضْلٌ وَقُثَمُ یُقَلِّبُونَهُ مَعَ عَلِیوَكَانَ أُسَامَةُ بن زید وَشُقْرَانُ مولاه هما یَصُبَّانِ الْمَاءَ

اورعباس  رضی اللہ عنہ ،فضل اورقثم آپ کے جسم مبارک کو پلٹنے میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی مدد کررہے تھے، اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  اورشقران رضی اللہ عنہ  پانی بہا رہے تھے۔[10]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِی ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ یَمَانِیَةٍ بِیضٍ، سَحُولِیَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَیْسَ فِیهِنَّ قَمِیصٌ وَلاَ عِمَامَةٌ

غسل کے بعدوہ کرتہ جس میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کونہلایاگیاتھانکال لیاگیااوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوتین سفیدسوتی کپڑوں  کا کفن دیاگیا جو یمن کے ایک گاؤں  سحول میں  بنے گئے تھے ،کفن کے ساتھ قمیص اور عمامہ نہ تھا۔[11]

بلکہ ایک ازارتھی ایک چادر ایک لفافہ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں  عمامہ باندھنابدعت ہے۔

عَنْ أَبِی قِلابَةَ: أَنَّ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  كُفِّنَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ یَمَانِیَّةٍ سَحُولِیَّةٍ

ابن قلابہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین یمنی سوتی کپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔

عَنْ أَبِی قِلابَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  كُفِّنَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ رِیَاطٍ یَمَانِیَّةٍ بِیضٍ

ابن قلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین بے جوڑیمنی سوتی کپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فی ثلاثة أَثْوَابٍ مِنْ كُرْسُفٍ سَحُولِیَّةٍ لَیْسَ فِیهَا قَمِیصٌ وَلا عِمَامَةٌ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین روئی کے سوتی کپڑوں  میں  کفن دیاگیاجن میں  نہ کرتاتھانہ عمامہ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ سَحُولِیَّةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین سوتی کپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔

عَنْ أَبِی قِلابَةَ.أَنَّ النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  كُفِّنَ فِی ثَلاثِ رِیَاطٍ بِیضٍ

ابی قلابہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین بے جوڑسفیدکپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔

أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ: أَنَّ النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ

قتادہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین کپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ. قُلْتُ: مَنْ حَدَّثَكُمْ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ

عبدالرحمٰن بن القاسم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین کپڑوں  میں  کفن دیاگیا،شعبہ نے کہاآپ کو کس نے بیان کیا؟توانہوں  نے کہاکہ میں  نے اسے محمدبن علی  رضی اللہ عنہ  سے سنا۔

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: دُفِعْتُ إِلَى مَجْلِسِ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ مُتَوَافِرُونَ فقلت: فی أی شیء كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالُوا: فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ لَیْسَ فِیهَا قَبَاءٌ وَلا قَمِیصٌ وَلا عِمَامَةٌ

ابواسحاق سے روایت ہے کہ میں  اولادعبدالمطلب کی مجلس کی طرف بھیجاگیاجوباکثرت جمع تھے ،میں  نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوکس چیزمیں  کفن دیاگیاتوانہوں  نے کہاتین کپڑوں  میں  کفن دیاگیاجن میں  نہ قباتھی نہ کرتانہ عمامہ۔

عَنْ مَكْحُولٍ قال:  كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ بِیضٍ

مکحول  رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتین سفیدکپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔[12]

اسْتِحْبَابُ التَّكْفِینِ فِی الثِّیَابِ الْبِیضِ وَتَثْلِیثِ الْكَفَنِ

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سفیدکپڑوں  کاکفن دینااورتین کپڑے کفن میں  استعمال کرنامستحب ہے ۔[13]

قَالَ: لما أدرج رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم فِی أَكْفَانِهِ وُضِعَ عَلَى سَرِیرِهِ، ثُمَّ وُضِعَ عَلَى شَفِیرِ حُفْرَتِهِ

غسل وکفن سے فارغ ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاجسدمبارک ایک پلنگ پررکھ کرقبرکے ایک طرف رکھ دیاگیا۔[14]

اورجوچادرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اوڑھاا ور بچھایا کرتے تھے وہ آپ پر ڈال دی گئی۔

یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنُصَلِّی عَلَیْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالُوا: وَكَیْفَ نُصَلِّی عَلَیْهِ؟قَالَ: یَدْخُلُ قَوْمٌ فَیُكَبِّرُونَ وَیَدْعُونَ وَیُصَلُّونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ

لوگوں  نے سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے دریافت کیاکہ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازجنازہ پڑھی جائے، آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایاہاں !نمازجنازہ پڑھو ، لوگوں  نے کہاکس طرح پڑھیں ، سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہاایک ایک گروہ حجرہ میں  جائے اورتکبیرکہے پھردروداوردعاپڑھے اورباہرآجائے ،پھردوسراگروہ داخل ہواوراسی طرح تکبیرکہیں  اورپھر درود اور دعا کے بعدواپس آجائیں  اسی طرح سب لوگ نمازپڑھیں ۔[15]

چنانچہ دس دس زائرین گروہ درگروہ اندر داخل ہوکربغیرامام آپ کی نمازجنازہ پڑھتے رہے۔

قَالَ: أَوَّلُ مَنْ صَلَّى عَلَیْهِ. یَعْنِی النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَبَنُو هَاشِمٍ ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ دَخَلَ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ ثُمَّ النَّاسُ رُفَقًا رُفَقًا.فَلَمَّا انْقَضَى النَّاسُ دَخَلَ عَلَیْهِ الصِّبْیَانُ صُفُوفًا ثُمَّ النِّسَاء

سب سے پہلے عباس بن عبد المطلب اوربنوہاشم نے نمازجنازہ پڑھی پھر مہاجرین اورانصارنے،پھرمردوں  کے بعدبچوں  نے اوران کے بعدعورتوں  نے نماز جنازہ پڑھی۔[16]

قال عیاض، وتبعه النووی: الصحیح الذی علیه الجمهور أن الصلاة على   النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كانت صلاة حقیقیة، لا مجرد الدعاء فقط

قاضی عیاض رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ صحیح یہی ہے کہ آپ پرحقیقتاً نمازجنازہ پڑھی گئی اوریہی جمہور کا مسلک ہے۔[17]

امام شافعی رحمہ اللہ  نےمیں  جزم کے ساتھ بیان کیاہے کہ آپ پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔[18]

وعد طائفة من خصائصه أنه لم یصل علیه أصلا, وإنما كان الناس یدخلون أرسالا، فیدعون ویصدقون

مگربعض کہتے ہیں  کہ آپ پرنمازجنازہ نہیں  پڑھی گئی بلکہ لوگ حجرہ میں  فوج درفوج داخل ہوتے تھے اورصلاة وسلام اوردرودودعاپڑھ کرواپس آجاتے تھے۔[19]

چنانچہ ایک روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  ایک گروہ کے ساتھ حجرہ میں  داخل ہوئے اورجنازہ نبوی کے سامنے کھڑے ہوکریہ پڑھا۔

السَّلَامُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبیّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللهُمَّ إِنَّا نَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْهِ، وَنَصَحَ لِأُمَّتِهِ، وجاهد فی سیبل الله حتَّى أعزَّ الله دِینَهُ وَتَمَّتْ كَلِمَتُهُ، وَأُومِنَ بِهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، فَاجْعَلْنَا إِلَهَنَا مِمَّنْ یَتَّبِعُ الْقَوْلَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَهُ، وَاجْمَعْ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُ حتَّى تُعَرِّفَهُ بِنَا وَتُعَرِّفَنَا بِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رؤوفا رحیماً، لا نبتغی بالإیمان به بدیلاً، وَلَا نَشْتَرِی بِهِ ثَمَنًا أَبَدًا فَیَقُولُ النَّاس: آمِینَ آمِینَ وَیَخْرُجُونَ وَیَدْخُلُ آخَرُونَ حتَّى صَلَّى الرِّجَالُ، ثُمَّ النِّسَاءُ، ثُمَّ الصِّبْیَانُ

اے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پرسلام ہواورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر اللہ کی رحمتیں  اوربرکتیں  ہوں  ،اے اللہ! ہم گواہی دیتے ہیں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ پہنچادیاجواس پراتاراگیاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کی خیرخواہی کی اوراللہ کی راہ میں  جہادکیا یہاں  تک کہ اللہ نے اپنے دین کوغالب کیااوراس کابول بالاکیا،ہم اس کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں  ،اے اللہ! ہم کوان لوگوں  میں  سے بناجنہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وحی کااتباع کیا اورہم کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جمع کر،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم کواورہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوپہچانیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں  پربڑے مہربان تھے ،ہم اپنے ایمان کاکوئی معاوضہ اورقیمت نہیں  چاہتے،لوگوں  نے آمین آمین کہی،جب مردفارغ ہوگئے توعورتوں  نے اوران کے بعدبچوں  نے اسی طرح کیا۔[20]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَوْضُوعًا عَلَى سَرِیرِهِ مِنْ حِینَ زَاغَتِ الشَّمْسُ مِنْ یَوْمِ الْإِثْنَیْنِ إِلَى أَنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ یَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، یُصَلِّی النَّاسُ عَلَیْهِ، وَسَرِیرُهُ عَلَى شَفِیرِ قَبْرِهِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سوموارکے آفتاب ڈھلنے سے لے کرمنگل کے آفتاب ڈھلنے تک چارپائی پرپڑے رہے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازجنازہ پڑھتے رہےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی چارپائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قبرکے کنارے پڑی رہی۔[21]

ابن وحیہ فرماتے ہیں  کہ تیس ہزار(30،000)آدمیوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازجنازہ پڑھی ۔

اس طرح منگل کاپورادن گزرگیااوربدھ کی رات آگئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین بروزسہ شنبہ رات کے وقت عمل میں  آئی ،

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَامِی فِی جَوْفِ لَیْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین کاعلم نہ ہوایہاں  تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں  پھاوڑوں  کی آوازسنی۔[22]

قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  أَذَّنَ بِلالٌ وَرَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ یُقْبَرْ. فَكَانَ إِذَا قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ انْتَحَبَ النَّاسُ فِی الْمَسْجِدِ

روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین سے پہلے بلال  رضی اللہ عنہ (عشاء کی) اذان دے رہے تھے جونہی انہوں  نے کلمہ اشھدان محمدرسول اللہ کہا تو لوگوں  کی آہ وبکاکی گونج سے مسجدنبوی لرزاٹھی۔[23]

وَدَخَلَ فی حُفْرَتِہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ وَقُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَشُقْرَانُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقبرمیں  اتارنے کے لئے عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب ، الفضل بن عباس ،قثم بن عباس  رضی اللہ عنہ ، علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب اور شقران اندراترے۔[24]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: رُشَّ عَلَى قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَاءُ رَشًّا قَالَ: وَكَانَ الَّذِی رَشَّ الْمَاءَ عَلَى قَبْرِهِ بِلَالُ بْنُ رَبَاحٍ بِقِرْبَةٍ بَدَأَ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ مِنْ شِقِّهِ الْأَیْمَنِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى رِجْلَیْهِ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرپرپانی چھڑکاگیاجسے بلال بن رباح  رضی اللہ عنہ نے ایک مشکیزے سے چھڑکا،آپ رضی اللہ عنہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سرکے دائیں  پہلوسے آغاز کیا یہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں  تک پہنچ گئے۔[25]

لَوْلاَ ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَیْرَ أَنَّهُ خَشِیَ  أَوْ خُشِیَ  أَنَّ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا،عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّارِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ:أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرمبارک کو گھرمیں  پوشیدہ رکھاگیاتاکہ کہیں  لوگ اس کوسجدہ گاہ نہ بنالیں ،سفیان تمارنے بیان کیاکہ انہوں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبرمبارک دیکھی ہے جو(ایک بالشت بلند)اونٹ کے کوہان کےمشابہ ہے۔[26]

قبرکوکوہان نمابنانے کا ذکر صحیح بخاری میں  ہے ، لحد(بغلی قبر) اوراینٹوں  کاذکرصحیح مسلم میں  ہے۔

فَلَمَّا دُفِنَ، قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَیْهَا السَّلاَمُ: یَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دفن کردیئے گئے توفاطمہ  رضی اللہ عنہا نے انس  رضی اللہ عنہ سے کہااےانس  رضی اللہ عنہ ! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نعش پرمٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہوگئے تھے۔[27]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاترکہ:

قَالَ:مَا تَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلاَ دِینَارًا وَلاَ عَبْدًا وَلاَ أَمَةً وَلاَ شَیْئًا، إِلَّا بَغْلَتَهُ البَیْضَاءَ، وَسِلاَحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی وفات کے وقت نہ درہم چھوڑے نہ دینار،نہ لونڈی نہ غلام،نہ بکری نہ اونٹ ، اورنہ کوئی اور چیز سوائے ایک سفید خچرکے،کچھ ہتھیاروں  کے اورایک زمین کے جس کوآپ نے صدقہ کردیاتھا۔[28]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:تُوُفِّیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ یَهُودِیٍّ بِثَلاَثِینَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک زرہ ایک یہودی کے ہاں  تیس صاع (۷۵کیلو) جوکے عوض رہن تھی ۔ [29]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِی بَیْتِی مِنْ شَیْءٍ یَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ، إِلَّا شَطْرُ شَعِیرٍ فِی رَفٍّ لِی، فَأَكَلْتُ مِنْهُ حَتَّى طَالَ عَلَیَّ، فَكِلْتُهُ فَفَنِیَ،فَلَیْتَنِی لَمْ أَكُنْ كِلْتُهُ

عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تومیرے گھرمیں  آدھے وسق جوکے سواجوایک طاق میں  رکھے ہوئے تھے اورکوئی چیزایسی نہیں  تھی جوکسی جگر والے( جاندار) کی خوراک بن سکتی، جن میں  سے لے لے کرکھاتی رہی اوربہت دن گزرگئے ،پھرمیں  نے اس میں  سے ناپ کرنکالناشروع کیاتووہ جلدی ختم ہوگئے  کاش میں  انہیں  نہ ناپتی۔[30]

یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں  جوبرکت دی تھی جب عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے اس کوماپاتوگویاتوکل میں  فرق پڑااوربرکت جاتی رہی ۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حال تھاکہ مہینہ مہینہ بھرتک آگ نہ سلگاتے(کیونکہ کھاناپکانے کے لیے کچھ نہ ہوتا ) صرف کھجوراورپانی پر گزارہ کرتے۔[31]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ مِنْ خُبْزِ الشَّعِیرِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس دنیاسے رخصت ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی جوکی روٹی بھی شکم سیر ہو کر نہیں  کھائی۔[32]

عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: فَارَقَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ هُوَ وَلا أَهْلُ بَیْتِهِ مِنْ خُبْزِ الشَّعِیرِ

عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کااس حال میں  وصال ہواکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اہل بیت نے زندگی بھرکبھی جوکی روٹی بھی شکم سیرہوکرنہیں  کھائی۔[33]

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلا دِینَارًا وَلا عَبْدًا وَلا أَمَةً وَلا شَیْئًا إِلا بَغْلَتَهُ الْبَیْضَاءَ وَسِلاحَهُ وَأَرْضًا تَرَكَهَا صَدَقَةً.

عمرو بن حارث فرماتے ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی وفات کے وقت اپنے ترکہ میں درہم ودینار، غلام ولونڈی نہیں  چھوڑی سوائے ہتھیار ، اپنی سواری کا خچراورکچھ زمین چھوڑی جسے آپ نے خیرات کرنے کے لئے فرمادیاتھا۔[34]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ،حسان بن ثابت  رضی اللہ عنہ ،کعب  رضی اللہ عنہ بن مالک،ابوسفیان رضی اللہ عنہ  بن الحارث بن عبدالمطلب ،اروی  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب،عاتکہ  رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی صفیہ  رضی اللہ عنہا  ،ہندبنت الحارث  رضی اللہ عنہا ،ہندبنت اثاثہ  رضی اللہ عنہا  ،عاتکہ  رضی اللہ عنہا بنت زیدبن عمروبن نفیل اورام ایمن  رضی اللہ عنہا  نے مرثیے کہے۔[35]

تاریخ وفات :

مَتَى تُوُفّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟وَاتّفَقُوا أَنّهُ تُوُفّیَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ إلّا شَیْئًا ذَكَرَهُ ابْنُ قُتَیْبَةَ فِی الْمَعَارِفِ الْأَرْبِعَاءِ قَالُوا كُلّهُمْ وَفِی رَبِیعٍ الْأَوّلِ غَیْرَ أَنّهُمْ قَالُوا، أَوْ قَالَ أَكْثَرُهُمْ فِی الثّانِی عَشَرَ مِنْ رَبِیعٍ وَلَا یَصِحّ أَنْ یَكُونَ تُوُفّیَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلّا فِی الثّانِی مِنْ الشّهْرِ أَوْ الثّالِثَ عَشَرَ أَوْ الرّابِعَ عَشَرَ أَوْ الْخَامِسَ عَشَرَ لِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ عَلَى أَنّ وَقْفَةَ عَرَفَةَفِی حَجّةِ الْوَدَاعِ كَانَتْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ التّاسِعُ مِنْ ذِی الْحَجّةِ فَدَخَلَ ذُو الْحَجّةِ یَوْمَ الْخَمِیسِ فَكَانَ الْمُحَرّمُ إمّا الْجُمُعَةُ وَإِمّا السّبْتُ فَإِنْ كَانَ الْجُمُعَةُ فَقَدْ كَانَ صَفَرٌ إمّا السّبْتُ وَإِمّا الْأَحَدُ فَإِنْ كَانَ السّبْتُ فَقَدْ كَانَ رَبِیعٌ الْأَحَدَ أَوْ الِاثْنَیْنِ وَكَیْفَا دَارَتْ الْحَالُ عَلَى هَذَا الْحِسَابِ فَلَمْ یَكُنْ الثّانِی عَشَرَ مِنْ رَبِیعٍ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ بِوَجْهِ وَلَا الْأَرْبِعَاءَ أَیْضًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کب ہوئی تھی ؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کاانتقال بروزدوشنبہ ربیع الاول گیارہ ہجری کوہوااس میں  کسی کا اختلاف نہیں البتہ ابن قتیبہ نے معارف میں  بدھ کا ذکر کیا ہےاور مہینہ کے اعتبار سے ربیع الاول پر سب کا اتفاق ہے،اور اکثریت کا یہی کہنا ہے کہ آپ کا وصال بارہ ربیع الاول کو ہوا اسی اشکال کی وجہ سے بعض علماء نے تاریخ وفات تیرھویں  ربیع الاول مانی ہے اوربعض نے چودھویں  اوربعض نے پندرھویں  تسلیم کیا ہے، اس میں  اشکال یہ ہے کہ حجة الوداع میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاوقوف عرفہ بالاتفاق جمعہ کے دن تھایعنی ذی الحجہ کی نویں  تاریخ جمعہ کے دن تھی اورذی الحجہ کی پہلی تاریخ پنجشنبہ کوتھی توایسی صورت میں  آئندہ سال میں  دوشنبہ کوبارھویں  ربیع الاول نہیں  ہوسکتی خواہ تینوں  مہینے یعنی ذی الحجہ،محرم اورصفر تیس تیس دن کے مانے جائیں یاانتیس انتیس کے یابعض تیس کے اوربعض انتیس کےچنانچہ اس حساب سےبارہ ربیع الاول نہیں  بنتی اور نہ ہی سوموار اور منگل کا دن بنتا ہے،

كَمَا قَالَ الْقُتَبِیّ وَذَكَرَ الطّبَرِیّ عَنْ ابْنِ الْكَلْبِیّ وَأَبِی مِخْنَفٍ أَنّهُ تُوُفّیَ فِی الثّانِی مِنْ رَبِیعٍ الْأَوّلِ ، وَهَذَا الْقَوْلُ  وَإِنْ كَانَ خِلَافَ أَهْلِ الْجُمْهُورِ فَإِنّهُ لَا یُبْعَدُ أَنْ كَانَتْ الثّلَاثَةُ الْأَشْهُرُ الّتِی قَبْلَهُ كُلّهَا مِنْ تِسْعَةٍ وَعِشْرِینَ فَتَدَبّرْهُ فَإِنّهُ صَحِیحٌ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا تَفَطّنَ لَهُ ، وَقَدْ رَأَیْت لِلْخَوَارِزْمِیّ أَنّهُ تُوُفّیَ عَلَیْهِ السّلَامُ فِی أَوّلِ یَوْمٍ مِنْ رَبِیعٍ الْأَوّلِ وَهَذَا أَقْرَبُ فِی الْقِیَاسِ بِمَا ذَكَرَ الطّبَرِیّ عَنْ ابْنِ الْكَلْبِیّ وَأَبِی مِخْنَفٍ ، الواقدی عند ابن سعد  بأسانیده إلى علی بن أبی طالب، وابن عباس، وعائشة رضی الله عنها، هكذا بالنص على أنه تُوُفّیَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  یَوْمَ الِاثْنَیْنِ لاثنتی عشرة مضت مِنْ رَبِیعٍ الْأَوّلِ

جیسا کہ قتبی نے کہا اور امام طبری نے ابن کلبی اورابومخنف سے بھی ذکر کیا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ۲ربیع الاول کوتاریخ وصال ہوا ، اگرچہ یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے اور یہ اس سے دور نہیں  کہ مسلسل تین مہینے انتیس انتیس دن کے ہوں ، اور خوارزمی یکم ربیع الاول کوتاریخ وفات بتلاتے ہیں اور یہی قول حقیقت کے بہت قریب ہے۔[36]

اوربعض علماء نے یہ کہاہے کہ ممکن ہے کہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کی تاریخوں  میں  اختلاف مطلع کی وجہ سے اختلاف ہواورمدینہ منورہ  میں  ربیع الاول کی پہلی تاریخ پنجشنبہ کوہوئی ہوتودوشنبہ کوبارھویں  ربیع الاول ہوگی،واقدی کاقول ہے کہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابوطالب،اورابن عباس  رضی اللہ عنہما اورعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاانتقال بروز دو شنبہ بتاریخ بارہ ربیع الاول (۷جون۶۳۲ء )ہوااوریہی مشہورقول ہے۔[37]

لشکراسامہ  رضی اللہ عنہ  کوروانگی کاحکم

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے خلافت کی عظیم ذمہ داریاں  سنبھالیں ،

جَعَلَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ قَاضِیًا فِی خِلافَتِهِ،كَانَ یَكْتُبُ لَهُ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ،وَیَكْتُبُ لَهُ الأَخْبَارَ عُثْمَانُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کومدینہ منورہ کاقاضی مقررفرمایازیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کتابت کاکام سپردکیافرامین اورمراسلے یہی حضرات لکھاکرتے تھے،سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کو مشیر خاص اورفتویٰ کی خدمات سپردکیں ۔[38]

ابوعبیدہ بن الجراح  رضی اللہ عنہ  کوبیت المال کاانتظام سپردکیازکوٰة اورصدقات کاجومال اکٹھاہوتاتھاوہ اس کی تقسیم کے لئے مامورتھے ۔

پہلاسرکاری حکم جودربارخلافت سے جاری ہوالشکراسامہ کے لئے روانگی کاحکم تھا ، معترضین کی زبانیں  پھر حرکت میں  آئیں ،وہ کوئی ایساحیلہ تلاش کرنے  لگے جس کے ذریعے سے لشکرکی روانگی کاحکم منسوخ کرادینے یاکم ازکم اسامہ  رضی اللہ عنہ  کوامیربنانے سے باز رکھ رکھ سکیں ،چنانچہ اس وقت مہاجرین اور انصارکے درمیان مسئلہ خلافت پرپیداہونے والے اختلاف اورقبائل عرب میں  ارتدادکی بغاوت کے آثاراس منسوخی کے لئے معقول جوازسمجھے گئے،

فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: إِنَّ هَؤُلاءِ جُلُّ الْمُسْلِمِینَ وَالْعَرَبُ- عَلَى مَا تَرَى قَدِ انْتُقِضَتْ بِكَ، فَلَیْسَ یَنْبَغِی لَكَ أَنْ تَفْرِقَ عَنْكَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِینَ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالَّذِی نَفْسُ أَبِی بَكْرٍ بِیَدِهِ، لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّ السِّبَاعَ تَخَطَّفَنِی لأَنْفَذْتُ بَعْثَ أُسَامَةَ كَمَا امر به رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ لَمْ یَبْقَ فِی الْقُرَى غَیْرِی لأَنْفَذْتُهُ!

معترضین نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے جاکرعرض کیاکہ موجودہ دور مسلمانوں  کے لئے سخت نازک اورپرخطرہے ہرطرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں  اس موقع پر لشکرکاشام بھیج کرمسلمانوں  کی جمعیت کو منتشرکرنامناسب نہ ہوگا،لیکن سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے نہایت ثابت قدمی اوراولوالعزمی سے فرمایامجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اگرمجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے کتے اور بھیڑیے مدینہ میں  داخل ہوکر مجھے اٹھالے جائیں  توبھی میں  اسامہ  رضی اللہ عنہ  کے اس لشکرکوروانہ ہونے سے نہیں  روک سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے روانہ ہونے کاحکم دیاتھااگرمدینہ میں  میرے سواکوئی بھی متنفس باقی نہ رہے توبھی میں  اس لشکرکوضرورروانہ کروں  گا۔[39]

ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ: ارْجِعْ إِلَى خَلِیفَةِ رَسُولِ اللهِ فَاسْتَأْذِنْهُ، یَأْذَنْ لِی أَنْ أَرْجِعَ بِالنَّاسِ، فَإِنَّ مَعِی وُجُوهَ النَّاسِ وَحْدَهُمْ، وَلا آمَنُ عَلَى خَلِیفَةِ رَسُولِ اللهِ وَثِقَلِ رَسُولِ اللهِ وَأَثْقَالِ الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَتَخَطَّفَهُمُ الْمُشْرِكُونَ ،وَاطْلُبْ إِلَیْهِ أَنْ یُوَلِّیَ أَمْرَنَا رَجُلا أَقْدَمَ سِنًّا مِنْ أُسَامَةَ فَخَرَجَ عُمَرُ بِأَمْرِ أُسَامَةَ، وَأَتَى أَبَا بَكْرٍ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ أُسَامَةُ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، لَوْ خَطَّفَتْنِی الْكِلابُ وَالذِّئَابُ لَمْ أَرُدَّ قَضَاءً قَضَى به رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ!

ایک روایت یہ بھی ہےجب اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  نے دیکھاکہ ان کے خلاف چہ میگوئیاں  ہورہی ہیں  توانہوں  نے سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کوبیچ میں  ڈالاکہ خلیفہ رسول اللہ کے پاس جائیں  اوران سے کہیں  کہ وہ لشکرکی روانگی کا حکم منسوخ کردیں تاکہ بڑھتے ہوئے فتنوں  کے مقابلے میں  یہ لشکرممدومعاون ہوسکے اورمرتدین کوآسانی سے مسلمانوں  پرحملہ کرنے کی جرات نہ ہو،سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  تیارہوگئے توانصارنے بھی سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے کہاکہ اگرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  لشکرکوروانہ کرنے ہی پرمصرہوں  توکم ازکم کسی ایسے آدمی کولشکرکاامیرمقررفرمائیں  جوعمرمیں  اسامہ  رضی اللہ عنہ  سے بڑاہو سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے سب سے پہلے اسامہ  رضی اللہ عنہ  کاپیغام پہنچایا،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی بات اور انصار کاپیغام سن کرخلیفہ رسول اللہ نے فرمایا اگرجنگل کے کتے اور بھیڑیے مدینہ میں  داخل ہوکر مجھے اٹھالے جائیں  توبھی میں وہ کرنے سے بازنہیں  آؤں  گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کرنے کاحکم دیاہے،

قَالَ: فَإِنَّ الأَنْصَارَ أَمَرُونِی أَنْ أُبَلِّغَكَ، وَإِنَّهُمْ یَطْلُبُونَ إِلَیْكَ أَنْ تُوَلِّیَ أَمْرَهُمْ رَجُلا أَقْدَمَ سِنًّا مِنْ أُسَامَةَ، فَوَثَبَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ جَالِسًا فَأَخَذَ بِلِحْیَةِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ: ثَكِلَتْكَ أمك وعدمتك یا بن الخطاب! استعمله رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَأْمُرَنِی أَنْ أَنْزِعَهُ!فَخَرَجَ عُمَرُ إِلَى النَّاسِ فَقَالُوا لَهُ:مَا صَنَعْتَ؟فَقَالَ: امْضُوا، ثَكِلَتْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ! مَا لَقِیتُ فِی سَبَبِكُمْ مِنْ خَلِیفَةِ رَسُولِ اللهِ!

اس کے بعدسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے انصارکاپیغام دیاکہ انصارنے درخواست کی ہے کہ آپ ان کاامیرکسی اورایسے شخص کومقررکردیں  جوعمرمیں  اسامہ  رضی اللہ عنہ سے بڑاہو،یہ سن کر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  جو بیٹھے ہوئے تھے غصہ سے اچھل پڑےاورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی پکڑکرفرمایااے خطاب کے بیٹے! تیری ماں  تجھے گم پائےتو مرجائے بھلاجس شخص کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس منصب پرفائزکیاہے اورتم مجھے کہتے ہوکہ میں  اسے اس کے عہدے سے ہٹادوں ، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  پشیمان ہوکرسر جھکائے واپس چلے آئےتو لوگوں  نے پوچھاکہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کیاجواب دیاتو انہوں  نے بڑے غصے سے کہاتمہاری ماں  کوتمہاراسوگواربنائے آگے بڑھوخلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے یہاں  تمہاری درخواست منظورنہیں  ہوئی۔[40]

معترضین کے اعتراضات کوردفرمانے کے بعددربارخلافت سے حکم ہواکہ مدینہ طیبہ کاکوئی شخص جو اس لشکرمیں  شامل تھاپیچھے نہ رہے اورمدینہ سے نکل کرمقام جرف میں  لشکر میں  شامل ہو جائے ۔ جرف پہنچ کرجب سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے جواب سے مطلع کیا تو انہیں  خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کی تعمیل کے سواء کوئی چارہ نہ رہا،مئی کامہینہ تھا،سخت گرمی کے دن تھے،

ثُمَّ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى أَتَاهُمْ ، فَقَالَ لَهُ أُسَامَةُ:یَا خَلِیفَةَ رَسُولِ اللهِ، وَاللهِ لَتَرْكَبَنَّ أَوْ لأَنْزِلَنَّ! فَقَالَ: وَاللهِ لا تنزل وو الله لا أَرْكَبُ!وَمَا عَلَیَّ أَنْ أُغَبِّرَ قَدَمَیَّ فِی سَبِیلِ اللهِ سَاعَةً،فَأَذِنَ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، قِفُوا أُوصِكُمْ بِعَشْرٍ فَاحْفَظُوهَا عَنِّی:لا تَخُونُوا وَلا تَغِلُّوا، وَلا تَغْدِرُوا وَلا تُمَثِّلُوا وَلا تَقْتُلُوا طِفْلا صَغِیرًا، وَلا شَیْخًا كَبِیرًا وَلا امْرَأَةً، وَلا تَعْقِرُوا نَخْلا وَلا تُحَرِّقُوهُ، وَلا تَقْطَعُوا شَجَرَةً مُثْمِرَةً،وَلا تَذْبَحُوا شَاةً وَلا بَقَرَةً وَلا بَعِیرًا إِلا لِمَأْكَلَةٍ،وَسَوْفَ تَمُرُّونَ بِأَقْوَامٍ قَدْ فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ فِی الصَّوَامِعِ، فَدَعُوهُمْ وَمَا فَرَّغُوا أَنْفُسَهُمْ لَهُ،وَسَوْفَ تَقْدَمُونَ عَلَى قَوْمٍ یَأْتُونَكُمْ بِآنِیَةٍ فِیهَا أَلْوَانُ الطَّعَامِ، فَإِذَا أَكَلْتُمْ مِنْهَا شَیْئًا بَعْدَ شَیْءٍ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَیْهَاوَتَلْقَوْنَ أَقْوَامًا قَدْ فَحَصُوا أَوْسَاطَ رُءُوسِهِمْ وَتَرَكُوا حَوْلَهَا مِثْلَ الْعَصَائِبِ، فَاخْفِقُوهُمْ بِالسَّیْفِ خَفْقًا  انْدَفِعُوا باسم الله، أفناكم اللهُ بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ

مگرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  خودبنفس نفیس جرف تشریف لائے اوراپنے سامنے لشکر کو رخصت کیا،روانگی کے وقت لوگوں  نے ایک حیرت انگیزمنظردیکھاکہ امیر لشکر اسامہ  رضی اللہ عنہ اسپ تازی پرسوارہیں  اورخلیفہ وقت پیدل ہمرکاب ہیں ،یہ سب کچھ اس لئے تھاکہ لوگوں  کے دلوں  میں  اسامہ  رضی اللہ عنہ  کی تعظیم وتکریم کا جذبہ پیدا ہو اوروہ آئندہ اپنے امیر کے تمام احکام کی تعمیل بے چوں  وچراکیاکریں ،سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بزرگی،ان کی دینی عظمت اورخلیفہ رسول کی حیثیت سے مسلمانوں  میں  ان کے مرتبے کے پیش نظرامیرلشکرشرم محسوس کررہے تھے ، اس لئے اسامہ  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے خلیفہ رسول اللہ! یاتوآپ بھی سوار ہو جائیں  یامیں  اترجاتا ہوں ،جواب دیاواللہ! نہ تم اتروگے نہ میں  سوارہوں  گاکیاہوااگرمیں  نے ایک گھڑی اپنے پاؤں  اللہ کی راہ میں  غبارآلود کرلیئے، لشکرروانہ ہونے لگاتوخلیفہ رسول اللہ نے لشکرکے سامنے کھڑے ہوکرکہااے لوگو!ٹھہرجاؤمیں  تمہیں  دس نصیحتیں  کرتاہوں  انہیں  یادرکھو،خیانت نہ کرنا،نفاق نہ برتنا،بدعہدی نہ کرنا،چوری نہ کرنا،مقتولوں  کے اعضانہ کاٹنا،کبھی چھوٹے بچوں ،بڑھوں  اورعورتوں  کوقتل نہ کرنا،کسی کھجورکے درخت کونہ کاٹنانہ جلانااورنہ کسی پھل داردرخت کوقطع کرنا،بھیڑگائے یا اونٹ کو سوا کھانے کے ذبح نہ کرنا،تم ایسے لوگوں  کے پاس سے گزروگے جنہوں  نے اپنے آپ کوگرجاؤں  میں  عبادت کے لئے وقف کردیاہے اوروہ دن رات انہی میں  بیٹھے رہتے ہیں ،تم انہیں  ان کے حال پرچھوڑدینا،تم ایسے لوگوں  کے پاس پہنچوگے جوتمہارے لئے برتنوں  میں  مختلف کھانے لائیں  گے ، جب کھاناشروع کرنا اس پراللہ کانام لے لیاکرنا، تم ایسے لوگوں  سے ملوگے جنہوں  نے سرکادرمیانی حصہ منڈا دیاہوگالیکن چاروں  طرف بڑی بڑی لٹیں  لٹکتی ہوں  گی انہیں  تلوارسے قتل کرڈالنا،اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنااللہ تمہیں  شکست اورہروباء سے محفوظ رکھے۔[41]

اسْتَطْلَقَ أَبُو بَكْرٍ مِنْ أُسَامَةَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فی الإقامة عنده لیستضئ بِرَأْیِهِ فَأَطْلَقَهُ لَهُ

پھرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نےامیرلشکرسے گزارش کی کہ اگرتم مناسب سمجھوتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کو چھوڑتے جاؤتاکہ میں  ان کی رائے حاصل کرسکوں ،امیرلشکرنے بصدخوشی اجازت دے دی۔[42]

وَقَالَ لَهُ: اصْنَعْ ما امرك به نبى اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ابدا ببلاد قضاعه ثم ایت آبِلَ، وَلا تُقَصِّرَنَّ فِی شَیْءٍ مِنْ أَمْرِرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلا تَعْجَلَنَّ لِمَا خَلَفْتَ عَنْ عَهْدِهِ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ صدیق نے امیرلشکرکونصیحت فرمائی اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں  جوکچھ کرنے کاحکم دیاتھاوہ سب کچھ کرناجنگ کی ابتداءقضاعہ سے کرنا،اس کے بعدآبل جانا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کی بجاآوری میں  کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنامگراسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کی وجہ سے جوتاخیرہوگئی ہے اس کی وجہ سے عجلت نہ کرنا۔[43]

تاریخ گواہ ہے کہ اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی پوری تعمیل کی،جہاں  جہاں  جانے کے لئے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ارشادفرمایاتھاوہاں  گئےاورآپ کی ہدایات کے مطابق دشمن پراس طرح اچانک حملہ کیاکہ جب تک مجاہدین کے دستے رومیوں  کے سروں  پرنہ پہنچ گئے انہیں  مسلمانوں  کی آمدکامطلق پتانہ چل سکا،بے شماررومی مسلمانوں  کے ہاتھوں  قتل ہوئے،کثیرمال غنیمت ہاتھ آیا اوروہ نصرت خداوندی کے سائے میں  کامیاب وکامران ہوئے،شام میں  لشکراسامہ کی کامیابیاں  جہاں  ایک طرف اسلام کی عالمی حیثیت کو دنیامیں  محسوس کرانے میں  کامیاب ہوئیں  وہاں  اندرون ملک ان کے نفسیاتی اثرات نے فتنہ ارتدادسے عہدہ برآہونے میں  حکومت کے ہاتھ مضبوط کردیئے اوروہ اعتراضات جواس جوازکے ساتھ لشکراسامہ کی روانگی پرکئے گئے تھے نتائج کے آئینے میں  غلط ثابت ہوئے ،دوسرے لفظوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکام کی پابندی مصلحت بینی سے کہیں  زیادہ موثراورنتیجہ خیزثابت ہوئے،یہ تاریخ کانہ بھولنے والاسبق ہے کہ خلیفہ رسول سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعمیل میں  جس بے لچک استقامت کاثبوت دیا وہی دنیامیں  اسلام کے قیام وبقا کی ضمانت ثابت ہوااوراس طرح اس عجیب وغریب سبق کاآغازہواکہ مسلمانوں  کے قیام وبقا کی ضمانت سنت رسول کی پیروی ہے،دوسراکوئی عمل نہیں  ہے جس کے نتائج اس کے مقابلے میں  بہترنکلے ہوں ۔

فتنہ ارتدادتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں  کھڑاہوگیاتھااورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری آیام میں اسودعنسی کے قتل کی خبربھی آچکی تھی،اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کی خبرسن کربعض قبائل نے جودل وجان سے مال ودولت پرفریفتہ تھے اوراللہ کی راہ میں  مالی قربانی کرناان کے لئے دشوارتھااسلام سے کلیة توانحراف نہیں  کیامگرزکوٰة دینے سے انکارکردیا، بعض قبائل زکوٰة کوتاوان سمجھتے تھے ان کاخیال تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعدخلیفہ رسول اللہ کوان سے زکوٰة یابہ الفاظ دیگرادائے تاوان کے مطالبے کاکوئی اختیارنہیں  ہے، چنانچہ دونوں  فریقوں  نے اعلان کردیاکہ نہ توہم  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کواپناامیرتسلیم کرتے ہیں  اورنہ ان کے احکام کی بجاآوری کوضروری سمجھتے ہیں  ، مدینہ کے نواحی قبائل عبس اورذبیان بھی منکرین زکوٰة میں  شامل تھےاورمسلمانوں  کے لئے ان قبائل سے عہدہ برآہ ہونے کامسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتاتھا،ان سے لڑائی چھیڑدیناآسان کام نہ تھاکیونکہ لشکر اسامہ روانہ ہوچکاتھااورمدینہ منورہ میں  بہت قلیل تعدادافرادرہے گئے تھے جولڑائی کے قابل تھےاب دوہی طریقے ہوسکتے تھے ۔

xمنکرین زکوٰة کوادائے زکوٰة کے لئے مجبورنہ کیاجائے اورنرمی وملایمت سے انہیں  ساتھ ملاکران قبائل کے مقابلے میں  آمادہ پیکارکیاجائے جنہوں  نے کھلم کھلااسلام سے انحراف کیاتھا۔

xدوسرایہ کہ ان سے جنگ کی جائے،لیکن یہ راستہ اختیارکرنے سے مسلمانوں  کے دشمنوں  کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہوجاتی اوراسلامی لشکرکی غیرموجودگی میں  بپھرے ہوئے باغی قبائل سے لڑائی چھیڑدیناآسان کام نہ تھا۔

چنانچہ خلیفہ رسول اللہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے مشورہ طلب کیا،بیشترلوگوں  نے مشورہ دیاکہ ہمیں  اللہ اوراس کے رسول پرایمان لانے والے لوگوں  سے ہرگزنہیں  لڑنا چاہیے بلکہ انہیں  ساتھ ملاکرمرتدین کے خلاف مصروف پیکارہوناچاہیے،ایک مختصرتعدادنے اس کے خلاف بھی مشورہ دیا،بحث طول پکڑگئی آخرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے بحث کرتے ہوئے پرزورالفاظ میں  کہا

وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِی عِقَالًا كَانُوا یُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ ،فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: كَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى یَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ

جس نے نماز اور زکوٰة میں  فرق وامتیاز کیا میں  اسے ضرور باضرور جنگ کروں  گا کیونکہ زکوٰة مال کا حق ہے اللہ کی قسم! منکرین زکوٰة مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکارکریں  گے جسے وہ رسول اللہ کے زمانے میں  ادا کیا کرتے تھے توان کے انکارپربھی میں  ان سے جنگ کروں  گا،سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  منکرین زکوٰة سے جنگ کرنامسلمانوں  کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے یہ سن کرتیزی میں  آگئے اورکہاآپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان کی موجودگی میں   ان لوگوں  سے کیوں  کر جنگ کرسکتے ہیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صاف فرمایاہے کہ مجھے اس وقت تک لوگوں  سے لڑنے کاحکم دیاگیاہے جب تک وہ زبان سے لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ  نہ کہہ دیں ،جوشخص یہ کلمہ زبان سے اداکردے گااس کی جان ومال محفوظ ہوجائےگی البتہ جوحقوق اس پرواجب ہوں  گے ان کی ادائی کامطالبہ اس سے ضرورکیاجائے گا ، ہاں  اس کی نیت کاحساب اللہ اس سے خودلے گا۔ [44]

مگرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  برابرکہتے رہے کہ اللہ کی قسم !میں  صلوٰة اورزکوٰة میں  فرق کرنے والے لوگوں  سے ضرورلڑوں  گاکیونکہ زکوٰة مال کاحق ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے کہ اسلام قبول کرنے والے لوگوں  کے ذمے جوحقوق ہوں  گے ان کی ادائی کامطالبہ ان سے بہرحال کیاجائے۔

باغی قبائل عبس مذبیان ،بنوکنانہ،غطفان اورفزارہ نے جومدینہ منورہ کے گردونواح میں  آبادتھے مسلمانوں  سے لڑنے کے لئے فوجیں  اکٹھی کیں  اوردوحصوں  میں  منقسم ہوکر مدینہ کے قریب پڑاؤڈال دیا،ایک حصہ ربذہ کے قریب مقام ابرق میں  خیمہ زن ہوااوردوسراذی القصہ میں  جومحلہ کے قریب نجدکے راستے میں  واقع ہے،ان کے سرداروں  نے پہلے اپنے وفودمدینہ روانہ کئے جنہوں  نے وہاں  پہنچ کرکہاکہ وہ نمازاداکرنے کوتیارہیں  البتہ انہیں  زکوٰة سے مستثنیٰ کردیاجائے ،مگرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے وہی جواب دیاجوسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کودے چکے تھےچنانچہ یہ وفودناکام ہوکرچلے گئےمگرجاتے ہوئے مدینہ منورہ کی کمزوری کاجائزہ بھی لیتے گئے ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان لوگوں  کے ارادے کوبھانپ لیاتھااس لئے انہوں  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ  اورعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کوایک ایک دستہ دے کرمدینہ کے بیرونی راستوں  پرمتعین کردیااوردوسرے تمام لوگوں  کو حکم دیاکہ مسجدنبوی میں  پہنچ جائیں  اورلڑائی کی تیاری کرلیں چنانچہ تین دن کے بعدجاسوسوں  نے منکرین زکوٰة کے مدینہ پرحملہ کرنے کے ارادوں  کی خبرکردی،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  ان لوگوں  کوساتھ لیکرجومسجدنبوی میں  جمع تھے باغی قبائل پراچانک حملہ کردیا،باغی قبائل کے وہم وگمان میں  بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ مسلمانوں  میں  سے کوئی بھی ان کے مقابلے میں  آئے گالیکن ان کی توقعات کے برعکس جب سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان پرحملہ کیاتوان کی سراسیمگی کی انتہانہ رہی اوروہ پیٹھ پھیرکربھاگے،مجاہدین نے ذی حساتک ان کاتعاقب کیا مگران کے وہ لوگ جوپیچھے رہ گئے تھے موقع کی نزاکت دیکھ کرمسلمانوں  کے بالمقابل آگئے اورلڑائی شروع ہوگئی،رات بھرلڑائی جاری رہی لیکن کسی بھی فریق کے حق میں  فیصلہ نہ ہوسکابالآخرمخالفین نے مسلمانوں  کوگرفتارکرنے کے لئے مسلمانوں  کے اونٹوں  کی گردنوں  میں  کمندیں  ڈالنی شروع کیں ،مگریہ جنگی اونٹ نہ تھے کہ اس چال کوسمجھ سکتے،انہوں  نے خوفزدہ ہوکرمدینہ منورہ کی طرف واپس بھاگناشروع کردیااوراپنے سواروں  کرلئے شہرمیں  داخل ہوگئے۔عبس،ذبیان اوران کے مددگارمسلمانوں  کے اس طرح بھاگ جانے سے بڑے خوش ہوئے اوراسے اپنی فتح مندی اورمسلمانوں  کی کمزوری پرمحمول کرتے ہوئے مقام ذی القصہ کے خیمہ زن لوگوں  کوان تمام واقعات کی خبردی،وہ لوگ بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور آپس میں  طے کیاکہ ہم اس وقت تک واپس نہیں  جائیں  گے جب تک مسلمانوں  کوناک چنے چبواکراپنی شرائط قبول کرنے  پرمجبورنہ کردیں ،دوسری طرف خلیفہ رسول اللہ اور مجاہدین نے رات بھرپلک نہ جھپکائی بلکہ دشمن سے لڑائی کی تیاریوں  میں  مشغول رہے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  رات کے آخری تہائی حصے میں  مجاہدین کولے کردوبارہ دشمن کی جانب روانہ ہوئے اورکامل احتیاط کی دشمن کوان کے آنے کی خبرنہ ہونے پائے ،صبح صادق کے وقت جب مجاہدین میدان میں  پہنچے تودشمن نہایت اطمینان وآرام سے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہاتھااورمسلمان جنگ کے لئے تیارتھے ،چنانچہ مجاہدین نے بے دھڑک اپنی تلواریں  دشمن کے سینوں  میں  گھونپناشروع کردیں  ،اس اچانک حملہ سے دشمن ہڑبڑا کر اٹھے اورنیم بیداری کی حالت میں  لڑناشروع کردیا لیکن مجاہدین نے اپنی تلواروں  کے خوب جوہر دکھائے اورابھی سورج افق پرظاہرہی ہواتھاکہ دشمن نے نہایت بے ترتیبی کی حالت میں  بھاگناشروع ہوگیا،مجاہدین نے ذی القصہ تک ان کاتعاقب کیااورپھرواپس میدان جنگ میں  آ گئے  اورسالارمیمنہ نعمان بن مقرن  رضی اللہ عنہ کوتھوڑی سی جمعیت کے ساتھ اس جگہ چھوڑکرواپس مدینہ آگئے، ذی القصہ میں  شرمناک شکست کاانتقام لینے کے لئے بنی ذبیان اوربنی عبس کے مشرکین نے ان تمام مسلمانوں  کوقتل کردیاجوان کی دسترس میں  تھے لیکن اس کاالٹااثرہوااورقبائل کے وہ لوگ جوبہ دستوراسلام پرقائم تھے اپنے عقیدے میں  اورپکے ہوگئے اورانہوں  نے بغیرکسی پس وپش کے جوق درجوق سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں  حاضر ہو کرزکوٰة پیش کرنی شروع کردی ۔سب سے پہلے بنی تمیم کے رئیس صفوان اورزبرقان اورطئی کے سردارعدی بن حاتم طائی تھے ۔مختلف قبائل کے مسلمان زکوٰة لے کرمدینہ پہنچ رہے تھے کہ اسامہ  رضی اللہ عنہ  بھی روم کی سرزمین سے مظفرومنصورواپس آگئے، اب سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے فیصلہ کیاکہ دشمن کوتیاری کاموقع نہیں  دیناچاہیے بلکہ اس پرپے درپے حملے کرکے اس کی قوت وطاقت توڑدی جائے،چنانچہ اسامہ اوران کے ساتھیوں  کوآرام کرنے کاحکم دے کر خودبنفس نفیس ان لوگوں  کوساتھ لیکرجوذی القصہ کی لڑائی میں  ان کے ہمراہ تھےالقصہ کے قریب ابرق پہنچے،وہاں  بنی عبس ،ذبیان اوربنی بکرسے مڈبھیڑہوئی جس میں  ان قبائل نے شکست کھائی اورمسلمانوں  نے انہیں  اس علاقے سے نکال باہرکیا،ابرق بنی ذبیان کی ملکیت تھی لیکن جب مجاہدین نے انہیں  یہاں  سے نکال دیاتوسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایااب یہ سرزمین مسلمانوں  کی ملکیت ہے آئندہ بنی ذبیان اس پرقابض نہ ہوسکیں  گے کیونکہ اللہ نے اسے ہمیں  غنیمت میں  دے دیاہے ،چنانچہ پھریہ علاقہ مسلمانوں  کی ملکیت میں  رہا،حالات معمول پرآنے کے بعدبنوثعلبہ نے اس جگہ دوبارہ آباد ہونا چاہامگرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے اجازت نہ دی ،اس طرح منکرین زکوٰة کی شکست پایہ تکمیل کوپہنچ گئی ۔

قبائل عبس ،ذبیان ،بنوبکراوران کے وہ مددگارجنہوں  نے مدینہ پرچڑھائی میں  حصہ لیاتھاداغ ہزیمت دھونے کے لئے طلیحہ بن خویلداسدی سے جا کر مل گئے ،مزیدبرآں  غطفان ،سلیم اوروہ بدوی قبائل بھی جومدینہ کے مشرق اورشمال مشرق میں  آبادتھے طلیحہ کے حامی بن گئے ،اب مسئلہ مرتدین کاتھا،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر تیار کیا اوراسے گیارہ حصوں  میں  تقسیم کردیااورہرحصہ پرایک مہاجر امیرمقررکرکے انہیں  علم عطاکیااورانہیں  مختلف محازوں  پرروانہ کیا،اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،طلحہ   رضی اللہ عنہ  اور زبیر  رضی اللہ عنہ بن العوام کو مشاورت کے لئے مدینہ میں  روک لیا۔

خالد  رضی اللہ عنہ بن ولید

ان کوبزاخہ کی طرف روانہ کیاجہاں  طلحہ بن خویلد اسدی موجودتھا،پھروہ بطاح گئے جہاں  مالک بن نویرہ کی سرکوبی مقصودتھی،پھریمامہ گئے جہاں  مسلمہ کذاب کامرکزتھا۔

عکرمہ رضی اللہ عنہ  بن ابی جہل

پہلے یمامہ کی طرف مسلمہ کذاب کے مقابلہ کے لئے گئے،ان کواحتیاطا بھیجاگیا تھاتاکہ یمامہ میں  بڑی جنگ کے لئے تیاری کی جاسکے ،       اصل معرکہ خالا رضی اللہ عنہ  بن ولیدکے ذمے تھا،عکرمہ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ دوہزارجنگجوتھے ،پھروہ یمامہ کی طرف گئے جہاں  ذوالتاج لقیط بن مالک ازدی کی سر کوبی مقصودتھی۔

عمرو  رضی اللہ عنہ بن العاص

یہ تبوک اوردومة الجندل گئے جہاں  قضاعہ،ودیعہ اورحارث کے قبائل تھے۔

شرجیل  رضی اللہ عنہ بن حسنہ

یہ عکرمہ  رضی اللہ عنہ  کے بعداحتیاطا یمامہ بھیجے گئے تاکہ مسلمہ کذاب سے فیصلہ کن لڑائی لڑی جاسکے ،پھروہ حضرموت گئے۔

خالد  رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص

انہیں  شامی سرحدپرحمقتین کی طرف بھیجاگیا۔

طریفہ  رضی اللہ عنہ بن حاجز

انہیں  مکہ اورمدینہ کے مشرق میں  ہوزان اوربنوسلیم کی سرکوبی کے لئے بھیجاگیا۔

علاء  رضی اللہ عنہ بن حضرمی

انہیں  بحرین کی طرف بھیجاگیاجہاں  مغرورمنذربن نعمان بن منذرکی سرکوبی مقصودتھی۔

حذیفہ رضی اللہ عنہ  بن محصن قلعانی

انہیں  عمان میں  ذوالتاج لقیط بن مالک ازدی کی طرف بھیجاگیا،پھروہ مہرہ،حضرموت اوریمن گئے۔

عرفحجہ  رضی اللہ عنہ بن ہرثمہ بارقی

ان کوپہلے عمان پھرمہرہ حضرموت اوریمن بھیجاگیا۔

مہاجر رضی اللہ عنہ بن ابی امیہ

ان کویمن بھیجاگیاجہاں  اسودعنسی کے کچھ حامی باقی تھے پھرانہیں  کندہ اورحضرموت کی طرف بھیجاگیا۔

سوید رضی اللہ عنہ بن مقرن مزنی

انہیں  تہامہ(یمن)اوربحراحمرکے ساحل کی طرف بھیجاگیا۔

کیونکہ مدینہ منورہ پرفوری حملے کاخطرہ نہ تھااس لئے مدینہ کی حفاظت کے لئے تھوڑی سے مجاہدین روک لئے گئے۔

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کاپہلاسال زیادہ ترمرتدین کی شورش کا مقابلہ کرنے میں  گزرا،مسلمان ہمہ تن اس فتنے کوفردکرنے میں  مصروف تھے اورجوق درجوق اسلامی لشکروں  میں  شامل ہوکرجہادکے لئے اطراف ملک میں  جارہے تھے ، اس لئے انہوں  نے حج کے موقع پراپنی جگہ عتاب بن اسیدکوامیرالحج بناکربھیج دیا،اوربالآخرسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی دوررس نگاہیں ،اپنے موقف پرثابت قدمی اوراستقلال سے مسلمانوں  کوایک کثیرتعدادکبارصحابہ  رضی اللہ عنہم اورحفاظ قرآن کی شہادتوں  کانذرانہ پیش کرکے منکرین زکوٰة اورمرتدین پرفتح ونصرت ملی اورجزیرة العرب پھرسے دائرہ اسلام میں  آ گیا ۔

ملکی انتظام:

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے عہدمیں  بیرونی فتوحات کی ابھی ابتداہوئی تھی اس لئے ان کی حکومت صرف عرب تک محدودہوئی تھی،انہوں  نے عرب کومتعددصوبوں  اورضلعوں  پرتقسیم کردیاتھاچنانچہ مدینہ منورہ،مکہ مکرمہ،طائف،صنعائ،نجران،حضرموت،بحرین،دومة الجندل علیحدہ علیحدہ صوبے تھے،ہرصوبہ پرایک عامل ہوتاتھاجوہرقسم کے فرائض سرانجام دیتاتھا،عہدہ داروں  کے انتخاب میں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ ہمیشہ ان لوگوں  کوترجیح دیتے تھے جوعہدنبوت میں  عہدہ داررہ چکے تھےجب کسی کوعہدہ پرمامورفرماتے تو عموماًبلاکراس کےفرائض کی تشریح کردیتے تھے اورنہایت موثرالفاظ میں  سلامت روی وتقویٰ کی نصیحت فرماتے ،چنانچہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اورولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ کومحصل صدقہ بنا کر بھیجاتوان الفاظ میں  نصیحت فرمائی

اتَّقِ اللهَ فِی السِّرِّ وَالْعَلانِیَةِ  فَإِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً، وَیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ  وَمَنْ یَتَّقِ اللهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّئاتِهِ وَیُعْظِمْ لَهُ أَجْراً، فَإِنَّ تَقْوَى اللهِ خَیْرُ مَا تَوَاصَى بِهِ عِبَادُ اللهِ  إِنَّكَ فِی سَبِیلٍ مِنْ سُبُلِ اللهِ، لا یَسَعُكَ فِیهِ الإِذْهَانُ وَالتَّفْرِیطُ وَالْغَفْلَةُ عَمَّا فِیهِ قَوَامُ دِینِكُمْ، وَعِصْمَةُ أَمْرِكُمْ

خلوت وجلوت میں  اللہ کاخوف رکھوجواللہ سے ڈرتاہے وہ اس کے لئے رزق کاایساذریعہ پیداکردیتاہے جوکسی کے گمان میں  بھی نہیں  آسکتا،وہ اس کے گناہ معاف کردیتاہے ، اس کااجردوبالاکردیتاہے،اللہ تعالیٰ کے بندوں  کی خیرخواہی بہترین تقویٰ ہے، تم اللہ کے راستوں  میں  سے ایک راستے پرجارہے ہو،لہذاجوامرتمہارے دین کی قوت اور تمہاری حکومت کی حفاظت کاموجب ہواس میں  تمہاری غفلت اورفراموشی اختیارکرناناقابل عفوجرم ہے پس تمہاری طرف سے سستی اورسہل انگاری ہرگزنہ ہونی چاہیے ۔ [45]

یزید  رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کومہم شام کی امارت سپردکی توفرمایا

یَا یَزِیدُ، إِنَّ لَكَ قَرَابَةً عَسَیْتَ أَنْ تُؤْثِرَهُمْ بِالْإِمَارَةِ، وَذَلِكَ أَكْبَرُ مَا أَخَافُ عَلَیْكَ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئًا فَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ أَحَدًا مُحَابَاةً فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللهِ  لَا یَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلا عَدْلًا حَتَّى یُدْخِلَهُ جَهَنَّمَ

اے یزید!تمہاری رشتہ داریاں  ہیں  شایدتم ان کواپنی امارت سے فائدہ پہنچاؤ،دراصل یہی سب سے بڑاخطرہ ہے جس سے میں  ڈرتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوکوئی مسلمانوں  کاحاکم مقررہواوران پرکسی کوبلااستحقاق رعایت کی طورپرافسربنادے تواس پراللہ کی لعنت ہو،اللہ اس کاکوئی عذراورفدیہ قبول نہ فرمائے گااوراس کوجہنم میں  داخل کرے گا۔[46]

مالی انتظام:

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  مالی حالت بڑی قابل اطمینان تھی،زکوٰة،عشر،جزیہ اورمال غنیمت کی آمدنی سے ملک مالامال ہوگیاتھا،جتنی دولت آتی سب خرچ کردی جاتی تھی ،سامان جنگ یعنی تلواریں ،نیزے،تیر،اونٹ اورگھوڑے خریدنے کے بعدباقی تمام رقم مسلمانوں  میں  برابرتقسیم کردی جاتی تھی ،آپ رضی اللہ عنہ کے عہدمیں  مال کاباقاعدہ محکمہ نہ تھا،شروع میں  بیت المال تک نہ تھابعدمیں  ایک بیت المال تعمیرکرایامگراس میں  زیادہ مال جمع ہونے کی کبھی نوبت نہ آئی ،ایک قفل پڑارہتاتھا،پہرہ کی ضرورت نہ تھی آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعداس میں  صرف ایک درہم پایاگیا۔

فوجی نظام:

عہدنبوت میں  کوئی باقاعدہ فوجی نظام نہ تھاجب ضرورت پیش آتی توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم خودہی شوق سے علم جہادکے نیچے جمع ہوجاتے تھے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے عہدمیں  یہی صورت حال باقی رہی لیکن انہوں  نے اس پریہ اضافہ کیاکہ جب کوئی لشکرکسی مہم پرروانہ ہوتاتواس کومختلف دستوں  میں  تقسیم کرکے الگ الگ امیرمقررفرمادیتے، امیرالامراء یعنی کمانڈرانچیف کاعہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجادہے،سب سے پہلے خالدبن ولیداس عہدہ پرمامورہوئے تھے۔[47]

 غیرمسلم رعایاکی حفاظت:

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  غیرمسلم رعایاکابڑاخیال رکھتے تھے ،ان کے عہدمیں  جزیہ کی شرح نہایت آسان تھی اوران ہی لوگوں  پرمقررکرنے کاحکم تھاجواس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں

قَالَ أَبُو یُوسُف: وَالْجِزْیَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى جَمِیعِ أَهْلِ الذِّمَّةِ مِمَّنْ فِی السَّوَادِ وَغَیْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْحِیرَةِ وَسَائِرِ الْبُلْدَانِ مِنَ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ وَالصَّابِئِینَ وَالسَّامِرَةِ مَا خَلا نَصَارَى بَنِی تغلب وَأهل نَجْرَانَ خَاصَّةً؛ وَإِنَّمَا تَجِبُ الْجِزْیَةَ عَلَى الرِّجَالِ مِنْهُمْ دُونَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ: عَلَى الْمُوسِرِ ثَمَانِیَةٌ وَأَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، وَعَلَى الْوَسَطِ أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ، وَعَلَى الْمُحْتَاجِ الْحَرَّاثِ الْعَامِلِ بِیَدِهِ اثْنَا عَشَرَ دِرْهَمًا یُؤْخَذُ ذَلِكَ مِنْهُمْ فِی كُلِّ سَنَةٍ

چنانچہ حیرہ کے باشندوں  میں  سے ایک ہزاربالکل مستثنیٰ تھے اورباقی پرصرف دس درہم سالانہ مقررکئے گئے تھے۔[48]

 مسجدنبوی کی تجدیدوتوسیع:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ مَسْجِدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ سَوَارِیهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جُذُوعِ النَّخْلِ أَعْلَاهُ مُظَلَّلٌ بِجَرِیدِ النَّخْلِ، ثُمَّ إِنَّهَا نَخِرَتْ فِی خِلَافَةِ أَبِی بَكْرٍ فَبَنَاهَا بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَبِجَرِیدِ النَّخْلِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دورمیں  مسجدنبوی کے ستون کھجورکے تنوں  کے تھے جن پرکھجورکی شاخوں  سے چھت ڈالی گئی تھی ،پھرجب یہ بوسیدہ ہوگئیں  تو  خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے اپنے دورخلافت میں بوسیدہ ستونوں  کی جگہ کھجور کے نئے ستون نصب کردیئے اورشاخوں  کوبدل دیا(اوراس کی سابقہ بنامیں  کوئی توسیع نہ کی گئی) ۔[49]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بشارت کے مطابق سیدہ فاطمہ الزہراء چھ ماہ بعد ہی اس عالم سے رحلت فرماگئیں ۔

آپ  رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ کس نے پڑھائی اس سلسلہ میں  غلط پروپیگنڈاکیاجاتاہے ،کہاجاتاہے کہ سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے ناراض تھیں  اورآپ  رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازہ میں  شریک نہ ہوں  ،چنانچہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے ان کورات ہی میں  دفن کردیااورخلیفہ المسلمین کواس کی خبرہی نہ ہونے دی،حالانکہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ جنازے میں  بھی شریک ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ ہی نے نمازجنازہ پڑھائی،اس سلسلہ میں  کچھ واضح روایات یوں  ہیں ۔

عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِیمَ قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْت رَسُولِ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَكَبَّرَ عَلَیْهَا أَرْبَعًا.

وَأَكْثَرُ مَا كَانَ الْوَحْیُ یَوْمَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حمادبن ابراہیم کہتے ہیں  سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازجنازہ پڑھائی اورچارتکبیرات کہیں ۔[50]

عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: صَلَّى عَلَیْهَا أَبُو بكر. رضی الله عَنْهُ وَعَنْهَا.

مجاہد رحمہ اللہ شعبی سے روایت کرتے ہیں  فاطمہ  رضی اللہ عنہا پرابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے نمازجنازہ پڑھایا۔[51]

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی شَیْبَةَ، ثنا عَوْنُ بْنُ سَلَّامٍ، ثنا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ: أَنَّ فَاطِمَةَ، رضِیَ اللهُ عَنْهَا لَمَّا مَاتَتْ دَفَنَهَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ لَیْلًا، وَأَخَذَ بِضَبْعَیْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَقَدَّمَهُ یَعْنِی فِی الصَّلَاةِ عَلَیْهَا

جب فاطمہ  رضی اللہ عنہا  فوت ہوئیں  توسیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے انہیں  رات ہی میں  دفن کردیااورجنازے کے موقع پرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نےسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے دونوں  بازوپکڑ کرجنازہ پڑھانے کے لیے مقدم کردیا۔[52]

عن جعفر بن محمد عن أبیه قال: ماتت فاطمة بنت النبی صلى الله علیه وسلم فجاء أبو بكر وعمر لیصلوا فقال أبو بكر لعلی بن أبی طالب: تقدم، فقال: ما كنت لأتقدم وأنت خلیفة رسول الله صلى الله علیه وسلم، فتقدم أبو بكر فصلى علیها.

جعفربن محمداپنے والدسے روایت کرتے ہیں  فاطمہ  رضی اللہ عنہا  بنت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوئیں  توسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ دونوں  نمازجنازہ پڑھانے کے لیے آئے توسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ سے جنازہ پڑھانے کے لیے فرمایاکہ آگے تشریف لائیں  توسیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ آپ خلیفة رسول ہیں  آپ کی موجودگی میں  میں  آگے بڑھ کرجنازہ نہیں  پڑھاسکتاپس سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کرجنازہ پڑھایا[53]

عن مالك عن جعفر بن محمد عن أبیه عن جده علی بن الحسین قال:ماتت فاطمة بین المغرب والعشاء, فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبیر وعبد الرحمن بن عوف, فلما وضعت لیصلى علیها قال علی رضی الله عنه: تقدم یا أبا بكر قال: وأنت شاهد یا أبا الحسن؟ قال: نعم تقدم فوالله لا یصلی علیها غیرك, فصلى علیها أبو بكررضی الله عنهم أجمعین ودفنت لیلًا.

جعفرصادق نے اپنے والدمحمدباقرسے اوروہ اپنے والدامام زین العابدین سے روایت کرتے ہیں  کہ مغرب اوروعشاء کے درمیان فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ،ان کی وفات پرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ اورزبیر رضی اللہ عنہ اورعبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  حضرات حاضرہوئے ،جب نمازجنازہ پڑھنے کے لیے جنازہ سامنے رکھاگیاتوسیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ سے کہاکہ جنازہ پڑھانے کے لیے آگے تشریف لائیں ،اللہ کی قسم !آپ کے بغیرکوئی دوسراشخص فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کاجنازہ نہیں  پڑھائے گاپس سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے فاطمہ  رضی اللہ عنہا  پر نمازجنازہ پڑھائی اوررات کوہی دفن کی گئیں ۔[54]

درفصل الخطاب آوردہ کہ ابوبکرصدیق وعثمان وعبدالرحمان بن عوف وزبیربن عوام وقت نمازعشاء حاضرشدندو رحلت حضرت فاطمہ درمیان مغرب وعشاء شب سہ شنبہ سوم ماہ رمضان۱۱ ھ بعدازششماہ ازواقعہ سرورجہاں  بوقوع آمدہبودوستین عمرش بست و ہشت بودوابوبکربموجب گفتہ علی المرتضٰی پیش امام شدونمازبروئے گزاشتوچہار تکبیر برآورد

فصل الخطاب کے مصنف نے ذکرکیاہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  وسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  وعبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  وزبیربن عوام  رضی اللہ عنہ  تمام حضرات عشاء کی نمازکے وقت حاضرہوئے اورسیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی رحلت مغرب  وعشاء کے درمیان ہوئی منگل کی رات تیسری رمضان شریف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعدفاطمہ  رضی اللہ عنہا  کاانتقال مبارک ہوا،اس وقت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی عمراٹھائیس سال تھی ،سیدنا علی المرتضٰی  رضی اللہ عنہ  کے فرمان کے مطابق سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نمازجنازہ کے لئے امام بنے اورچارتکبیروں  کے ساتھ نمازجنازہ پڑھائی۔[55]

عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ بن عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَتِالْمَلائِكَةُ عَلَى آدَمَ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ وَكَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى فَاطِمَةَ أَرْبَعًا وَكَبَّرَ عُمَرُ عَلَى أَبِی بَكْرٍ أَرْبَعًا وَكَبَّرَ صُهَیْبٌ عَلَى عُمَرَ أَرْبَعًا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  ذکرکرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک جنازہ لایاگیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پرنمازجنازہ پڑھی اورچارتکبیریں  کہیں  اورفرمایاکہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام پرچارتکبیریں  کہی تھیں  اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  مزیدکہتے ہیں  کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا کے جنازہ کے موقع پرچارتکبیریں  کہیں  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اور صہیب  رضی اللہ عنہ نے عمر  رضی اللہ عنہ پرچارتکبیریں  کہیں  تھیں ۔[56]

[1] البدایة والنہایة۲۸۰؍۵

[2] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ البُرُودِ وَالحِبَرَةِ وَالشَّمْلَةِ ۵۸۱۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ تَسْجِیَةِ الْمَیِّتِ ۲۱۸۳،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْمَیِّتِ یُسَجَّى ۳۱۲۰، مسنداحمد۲۵۱۹۹،ابن سعد۲۰۲؍۲

[3] ابن سعد۲۱۴؍۲

[4] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی دَفْنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْثُ قُبِضَ۱۰۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۶۲۸

[5] شرح الزرقانی علی المواھب۱۶۷؍۱۲

[6]البدایة والنہایة ۲۸۲؍۵،ابن سعد۲۱۴؍۲

[7] عیون الآثر۴۰۸؍۲

[8] البدایة والنہایة ۲۸۱؍۵

[9] ابن ہشام۶۶۲؍۲

[10] البدایة والنہایة ۲۸۱؍۵، عیون الآثر۴۰۹؍۲

[11] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الثِّیَابِ البِیضِ لِلْكَفَنِ عن عائشہ صدیقہ  ۱۲۶۴، صحیح مسلم کتاب الجنائز  بَابٌ فِی كَفَنِ الْمَیِّتِ ۲۱۷۹، ابن سعد۲۱۶؍۲،عیون الآثر۴۰۸؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۴۶؍۷

[12] ابن سعد۲۱۶؍۲

[13]فتح الباری۲۵۴؍۳

[14] البدایة والنہایة۲۸۵؍۵

[15] معرفة السنن والآثار للطحاوی۷۵۵۰ ، المعجم الکبیر للطبرانی ۶۳۶۷،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۵۹؍۷

[16] ابن سعد۲۲۲؍۲

[17] شرح الزرقانی علی المواھب۳۶۰؍۷

[18] الام

[19] شرح الزرقانی علی المواھب۳۶۰؍۷

[20] البدایة والنہایة۲۸۶؍۵

[21] دلائل النبوة للبیہقی ۲۵۳؍۷،البدایة والنہایة ۲۹۰؍۵، ابن سعد۲۲۲؍۲

[22] دلائل النبوة للبیہقی۲۵۶؍۷،الروض الانف۵۹۷؍۷،البدایة والنہایة ۲۹۱؍۵، تاریخ طبری۲۱۳؍۳

[23] ابن سعد۱۷۸؍۳

[24] ابن سعد۲۲۲؍۲،البدایة والنہایة۲۹۰؍۵،شرح الزرقانی علی مواھب ۱۶۷؍۱۲

[25] البدایة والنہایة۲۹۲؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۲۶۴؍۷،ابن سعد ۲۳۳؍۲

[26]صحیح بخاری کتاب الجنائزبُ مَا جَاءَ فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا عن عائشہ صدیقہ  وسفیان التمار ۱۳۹۰، صحیح مسلم  کتاب المساجد بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۳، وبَابٌ فِی اللحْدِ وَنَصْبِ اللبِنَ عَلَى الْمَیِّتِ۲۲۴۰

[27] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۶۲

[28] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصَایَا وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصِیَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ عن عمروبن حارث۲۷۳۹، وکتاب الجہادبَابُ بَغْلَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ البَیْضَاءِ۲۸۷۳،شرف المصطفی۳۴۰؍۴

[29] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ وَفَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن عائشہ صدیقہ ۴۴۶۷

[30] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ نَفَقَةِ نِسَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِهِ۳۰۹۷،صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب الدنیا سجن  للمومن وجنة للکافر۱ ۷۴۵،سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمة  بَابُ خُبْزِ الشَّعِیرِ ۳۳۴۵،مسنداحمد۲۴۷۶۸

[31] صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۴۹،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَعِیشَةِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۱۴۴

[32] صحیح بخاری کتاب الاطعمة بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ یَأْكُلُونَ ۵۴۱۴

[33] ابن سعد۳۰۹؍۱

[34] ابن سعد ۲۴۱؍۲

[35] ابن سعد۳۳۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواجب۱۵۳؍۱۲،البدایة والنہایة۳۰۰؍۵

[36] الروض الانف۵۷۷؍۷

[37] شرف مصطفیٰ۱۱۳؍۳

[38] تاریخ طبری ۴۲۶؍۳

[39]  تاریخ طبری ۲۲۵؍۳

[40] تاریخ طبری ۲۲۶؍۳

[41] تاریخ طبری۲۲۳؍۳

[42] البدایة والنہایة۳۳۳؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۶؍۴،تاریخ طبری ۲۲۷؍۳

[43] تاریخ طبری۲۲۷؍۳

[44]صحیح بخاری کتاب الزکاةبَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ ۱۳۹۹،وکتاب استتابة المعاندین والمرتدین وقتالھم بَابُ قَتْلِ مَنْ أَبَى قَبُولَ الفَرَائِضِ، وَمَا نُسِبُوا إِلَى الرِّدَّةِ۶۹۲۴،وکتاب الاعتصام  بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۷۲۸۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى یَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ۱۲۴،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة باب وجوبھا ۱۵۵۶،جامع ترمذی ابواب الایمان   بَابُ مَا جَاءَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى یَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ ۲۶۰۷

[45] تاریخ طبری۳۹۰؍۳

[46] مسنداحمد۲۰۲؍۱

[47] فتوح البلدان۱۱۹؍۱

[48] کتاب الخرج۱۳۵؍۱

[49] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ۴۵۲،دلائل النبوة للبیہقی۵۴۱؍۲

[50] ابن سعد۲۴؍۸

[51] ابن سعد۲۴؍۸

[52] السنن الکبری للبیہقی۶۸۹۶

[53] كنز العمال۵۱۵؍۱۲

[54] الریاض النضرة فی مناقب العشرة۱۷۶؍۱

[55] اثناعشریہ۴۴۵؍۱۴

[56] تاریخ دمشق۴۵۸؍۷، المجروحین من المحدثین۲۵۹؍۱۵، قصص الأنبیاء۶۸؍۱، البدایة والنهایة ۱۱۰؍۱

Related Articles