ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

خلیفہ چہارم سیدنا علیٰ  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب

حلیہ:

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی فَرْوَةَ قَالَ: : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ قُلْتُ: مَا كَانَتْ صِفَةُ عَلِیٍّ؟ قَالَ: رَجُلٌ آدَمُ شَدِیدُ الأَدَمَةِ. ثَقِیلُ الْعَیْنَیْنِ. عَظِیمُهُمَا. ذُو بَطْنٍ. أَصْلَعُ   إِلَى الْقِصَرِ أَقْرَبُ

عبداللہ بن ابی فردہ سے مروی ہے میں  نے ابوجعفرمحمدبن علی سے کہاکہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کاحلیہ کیاتھا؟انہوں  نے کہاکہ وہ گندم گوں  شخص تھے جن کی گندم گونی شدت سے تھی ،بھاری اوربڑی آنکھوں  والے،بڑے پیٹ والے تھے چندیاپربال نہ تھے قریب قریب پست قدتھے۔

عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ:رَأَیْتُ عَلِیًّا وَكَانَ عَرِیضَ اللِّحْیَةِ، وَقَدْ أَخَذَتْ مَا بَیْنَ مَنْكِبَیْهِ، أَصْلَعَ عَلَى رَأْسِهِ زُغَیْبَاتٌ

شعبی سے مروی ہےمیں  نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کودیکھاوہ چوڑی داڑھی والے تھے جوان کے دونوں  شانوں  تک پھیلی ہوئی تھی ،سرمیں  چندیاپربال نہ تھے ،ان کے سرپرچھوٹے چھوٹے بال تھے۔

حَدَّثَنِی سَوَادَةُ بْنُ حَنْظَلَةَ الْقُشَیْرِیُّ قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا أَصْفَرَ اللِّحْیَةِ.

سواوہ بن حنظلہ القشیری سے مروی ہے میں  نے دیکھاکہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی داڑھی زردتھی،

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا أَبْیَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیَةِ

اورابواسحاق سے مروی ہے میں  نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کوسفیدسراورسفیدداڑھی والادیکھا۔

عَنْ عَامِرٍ قَالَ: مَا رَأَیْتُ رَجُلا قَطُّ أَعْرَضَ لِحْیَةً مِنْ عَلِیٍّ. قَدْ مَلأَتْ مَا بَیْنَ مَنْكِبَیْهِ. بَیْضَاءُ.

عامرسے مروی ہےمیں  نے کبھی کوئی آدمی سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  سے زیادہ چوڑی داڑھی والانہیں  دیکھاجوان کے دونوں  شانوں  کے درمیان بھری ہوئی تھی اورسفیدتھی۔

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی بیعت:

من یوم قُتِلَ عُثْمَان. بالخلافة بایعه طَلْحَة. والزبیر. وسعد بْن أَبِی وقاص.وسعید بْن زَیْد بْن عَمْرو بْن نفیل. وعمار بْن یاسر. وأسامة بن زَیْد. وسهل بْن حُنَیْف. وأبو أیوب الْأَنْصَارِیّ. ومحمد بْن مسلمة. وزید بن ثابت. وخزیمة بن ثابت وجمیع من كان بالمدینة مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وغیرهم  ،ثُمَّ ذكر طَلْحَة والزبیر أنهما بایعا كارهین غیر طائعین

قتل سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کی صبح کومدینہ منورہ میں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے بیعت خلافت کرلی گئی ان سے طلحہ   رضی اللہ عنہ ،زبیر رضی اللہ عنہ ، سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  ،سعید  رضی اللہ عنہ بن زیدبن عمروبن نفیل،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ ،اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ ،سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  ،ابوایوب      انصاری رضی اللہ عنہ ،محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ ،زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ ،خزیمہ بن ثابت  رضی اللہ عنہ  اورتمام اصحاب رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  وغیرہ نے جومدینہ میں  موجودتھے بیعت کرلی، طلحہ   رضی اللہ عنہ  اورزبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں  نے جبراًبغیررضامندی کے بیعت کی ہے  ۔

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے امت کی خدمت سمجھ کران سے بیعت لے لی تاکہ لوگوں  کوامن وامان میسرآجائے ،وہ دیانت داری اوراخلاص کے ساتھ یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ ان لوگوں  کو قابومیں  رکھ کربدنظمی کوختم کرنے میں  کامیاب ہوجائیں  گے،سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ  کاخون ناحق ہوااورعدالت نے کام نہ کیا،نہ کوئی گرفتارکیاگیااورنہ کسی پرمقدمہ چلایاگیااورنہ کوئی عدم ثبوت میں  رہاکیاگیا،ایسااس لیے ہواکہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کواختلافات کی آندھیوں  نے اس کاموقع نہ دیاان کی ساری قوت مخالف طوفانوں  کوروکنے میں  ہی گزری،عدالت کی بالادستی اگرختم ہوجائے توکسی قوم یاملک کاکیاحال ہوگاخودسوچ لیجئے اس لیے مسلمانوں  کابہت بڑاحصہ ان اختلافات کے باعث سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کی خلافت کوقبول نہ کر سکا اورخون سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کامطالبہ کرتارہا،صورت حال اوربگڑتی چلی گئی ،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کاعمل اس سلسلہ میں  بے مثال ہے ایک بیوہ عورت جس کی کوئی اولادنہیں  جس کے پاس خزانہ نہیں  فوج نہیں  کسی سیاسی جماعت کی سربراہ نہیں  وارث تخت وتاج نہیں  امیدوارحکمرانی نہیں  لیکن اس بے کسی وبے بسی کے باوجودعدالت کی بالادستی کے بنیادی عمرانی اصول کے لیے اپنی جان کی بازی لگادیتی ہے یقیناًیہ بے مثال کارنامہ ہے،بہرحال جوکچھ ہوانہ ہوتاتواچھاتھاسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  حق کے لیے کوشاں  تھے لیکن صورت حال اس قدرخراب ہوچکی تھی اورمخالفین اس قدرچھائے ہوئے تھے کہ کسی کی چلنے نہ پائی اورمسلمانوں  کے مابین جمل اورصفین کی خونین ہنگامے بھی ہوئے اورتفریق امت کی لعنت بھی آگئی۔

فوجی انتظامات:

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  خودایک بڑے تجربہ کارجنگ آزماتھے اورجنگی امورمیں  آپ  رضی اللہ عنہ کوکافی بصیرت حاصل تھی اس لئے اس سلسلہ میں  آپ رضی اللہ عنہ نے بہت سے انتظامات کئے، چنانچہ شام کی سرحدپرنہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں  قائم کیں ،۴۰ہجری میں  جب امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ نے عراق پریورش کی توپہلے ان ہی سرحدی فوجوں  نے ان کوآگے بڑھنے سے روکا ، اسی طرح ایران میں  مسلسل شورش اوربغاوت کے باعث بیت المال اورعورتوں  اوربچوں  کی حفاظت کے لئے نہایت مضبوط قلعے بنوائے ،جنگی تعمیرات کے سلسلہ میں  دریائے فرات کاپل بھی معرکہ صفین میں  فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیرکیاتھاقابل ذکرہیں ۔

مذہبی خدمات:

عہدخلافت پرقدم رکھنے کے بعدسے آخروقت تک گوخانہ جنگیوں  نے فرصت نہ دی تاہم اس فرض سے غافل نہ تھے،ایران اورآرمینیہ میں  بعض نومسلم عیسائی مرتدہوگئے تھے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی سے ان کی سرکوبی کی اوران میں  سے اکثرتائب ہوکرپھردائرہ اسلام میں  داخل ہوگئے ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے مسلمانوں  کی اخلاقی نگرانی کابھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا،مجرموں  کوعبرت انگیزسزائیں  دیں  ،جرم کی نوعیت کے لحاظ سے نئی سزائیں  تجویزکیں  جوان سے پہلے اسلام میں  رائج نہ تھیں ،مثلا زندہ جلانا،مکان مسمارکرادینا،چوری کے علاوہ دوسرے جرم میں  بھی ہاتھ کاٹنالیکن اس سے یہ قیاس نہیں  کیاجاسکتاکہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  شرعی حدودکے اجراء میں  کسی اصول کے پابندنہ تھے،زندہ جلادینے کی سزاصرف چندزندیقوں  کودی تھی مگرجب عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے آپ رضی اللہ عنہ کوبتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سزاکی ممانعت فرمائی ہے توآپ رضی اللہ عنہ نے اس فعل پر ندامت ظاہر فرمائی ،شراب نوشی کی سزامیں  کوڑوں  کی تعدادمتعین نہ تھی سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے اس کے لئے اسی کوڑے تجویزکئے ،

عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ الدِّیَلِیِّ ؛أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَشَارَ فِی الْخَمْرِ یَشْرَبُهَا الرَّجُلُ. فَقَالَ لَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: نَرَى أَنْ نَجْلِدَهُ ثَمَانِینَ. فَإِنَّهُ  إِذَا شَرِبَ سَكِرَ. وَإِذَا سَكِرَ هَذَیَ. وَإِذَا هَذَیَ افْتَرَى. أَوْ كَمَا قَالَ . فَجَلَدَ عُمَرُ فِی الْحَدِّ  ثَمَانِینَ

ثور بن زید سے مروی ہے کہ سیدنا عمر نے خمر کی حد میں صحابہ سے مشورہ لیا (کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی حد معین نہیں  کی تھی سیدنا علی نے فرمایا میرے نزدیک اسی کوڑے لگانے مناسب ہیں  کیونکہ آدمی جب شراب پیے گا مست ہو جائے گا اور جب مست ہو جائے گا واہیات بکے گا اور جب واہیات بکے گا تو کسی کو گالی بھی دے گاچنانچہ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے ایسا ہی کیا اورخمر میں اسی کوڑے مقرر کئے۔ [1]

خلاصہ یہ کہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کاعہدخلافت اپنے مخصوص حالات کے پیش نظرکامیاب تھاآپ نے شوری کوبرقراررکھاجس کی وجہ سے نظام حکومت میں  جمہوریت اورمساوات کی روح کارفرمارہی ،مقدمات کے فیصلے کتاب وسنت کی روشنی میں  طے کرتے اورعلم کی اشاعت میں  سرگرم رہتے،عدل وانصاف کے لئے آپ کادورہمیشہ یادگاررہے گا، ذمیوں  کے حقوق کی آپ کے عہدمیں  پوری نگہداشت ہوتی تھی اوروہ نہایت پرسکون زندگی بسرکرتے تھے ،البتہ اندورنی خانہ جنگی کی وجہ سے آپ فتوحات کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے اس لئے آپ کے عہدخلافت میں  ملکی حدودمیں  توسیع نہ ہوسکی۔

قتل کامنصوبہ :

قَالُوا: انْتُدِبَ ثَلاثَةُ نَفَرٍ مِنَ الْخَوَارِجِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مُلْجَمٍ الْمُرَادِیُّ. وَهُوَ مِنْ حِمْیَرَ. وِعِدِادُهُ فِی مُرَادٍ. وَهُوَ حَلِیفُ بَنِی جَبَلَةَ مِنْ كِنْدَةَ. وَالْبُرَكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ التَّمِیمِیُّ. وَعَمْرُو بْنُ بُكَیْرٍ التَّمِیمِیُّ.فَاجْتَمَعُوا بِمَكَّةَ وَتَعَاهَدُوا وَتَعَاقَدُوا لَیُقْتَلَنَّ هَؤُلاءِ الثَّلاثَةَ: عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَمُعَاوِیَةَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَیُرِیحَنَّ الْعِبَادَ مِنْهُمْ،  فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلْجَمٍ: أَنَا لَكُمُ بِعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ. وَقَالَ الْبُرَكُ: وَأَنَا لَكُمْ بِمُعَاوِیَةَ. وَقَالَ عَمْرُو بْنُ بُكَیْرٍ: أَنَا أَكْفِیكُمْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ،فَاتَّعَدُوا بَیْنَهُمْ لَیْلَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ. ثُمَّ تَوَجَّهَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ إِلَى الْمِصْرِ الَّذِی فِیهِ صَاحِبُهُ

خوارج میں  سے تین آدمی نامزدکیے گئے عبدالرحمٰن بن ملجم المرادی جوقبیلہ حمیرمیں  سے تھااس کاشمارقبیلہ مرادمیں  تھاجوکندہ کے بنی جبلہ کاحلیف تھا،البرک بن عبداللہ تمیمی اورعمروبن بکیرتمیمی،یہ تینوں  مکہ مکرمہ میں  جمع ہوئے اورانہوں  نے عہدوپیمان کیا کہ ان تینوں  آدمیوں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب،معاویہ  رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان اورعمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  کوضرورقتل کردیں  گے تاکہ بندگان خداکوان سے راحت ملے، عبدالرحمٰن بن ملجم نے کہامیں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کے لیے تیارہوں ،البرک نے کہامیں  معاویہ  رضی اللہ عنہ کے لیے تیارہوں  اورعمروبن بکیرنے کہامیں  تم کوعمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے کفایت کروں  گا،اورانہوں  نے اس مقصد کے لیے سترہ رمضان المبارک کی رات پراتفاق کرلیااورہرشخص اس شہرکی طرف روانہ ہوگیاجس میں  اس کاساتھی(وہ شخص جسے وہ قتل کرناچاہتاتھا)موجودتھا۔

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی شہادت :

دَخَلَ ابْنُ النَّبَّاحِ الْمُؤَذِّنُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ: الصَّلاةُ  فَأَخَذْتُ بِیَدِهِ فَقَامَ یَمْشِی وَابْنُ النَّبَّاحِ بَیْنَ یَدَیْهِ وَأَنَا خَلْفَهُ   فَلَمَّا خَرَجَ مِنَ الْبَابِ نَادَى: أَیُّهَا النَّاسُ الصَّلاةَ الصَّلاةَ. كَذَلِكَ كَانَ یَفْعَلُ فِی كُلِّ یَوْمٍ یَخْرُجُ وَمَعَهُ دِرَّتُهُ یُوقِظُ النَّاسَ،فَاعْتَرَضَهُ الرَّجُلانِ  فَقَالَ بَعْضُ مَنْ حَضَرَ ذَلِكَ: فَرَأَیْتُ بَرِیقَ السَّیْفِ وَسَمِعْتُ قَائِلا یَقُولُ: لِلَّهِ الْحُكْمُ یَا عَلِیُّ لا لَكَ! ثُمَّ رَأَیْتُ سَیْفًا ثَانِیًا فَضَرَبَا جَمِیعًافَأَمَّا سَیْفُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلْجَمٍ فَأَصَابَ جَبْهَتَهُ إِلَى قرنه ووصل دِمَاغَهُ    وَأَمَّا سَیْفُ شَبِیبٍ فَوَقَعَ فِی الطَّاقِ،وَسَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ:لا یَفُوتَنَّكُمُ الرَّجُلُ  وَشَدَّ النَّاسُ عَلَیْهِمَا مِنْ كُلِّ جَانِبٍ شَبِیبٌ فَأَفْلَتَ. وَأُخِذَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلْجَمٍ

ابن النباح موذن آئے اور انہوں  نے کہانماز(تیارہے)میں  نے ان کا(سیدناعلی  رضی اللہ عنہ )کاہاتھ پکڑاتووہ کھڑے ہوکراس طرح چلنے لگے کہ ابن النباح ان کے آگے تھے اورمیں  پیچھے،جب دروازے سے باہرہوگئے توانہوں  نے ندادی کہ اے لوگو!نماز،نمازاسی طرح وہ ہرروزکیاکرتے تھے جب نکلتے توان کے ہمراہ درہ ہوتاتھااورلوگوں  کوجگایاکرتے تھے،دوآدمیوں  نے انہیں  روکا اورکسی ایسے شخص نے جووہاں  موجودتھاکہاکہ میں  نے تلوارکی چمک دیکھی اورکسی کہنے والے کویہ کہتے ہوئے سناکہ اے علی  رضی اللہ عنہ !حکم اللہ ہی کے لیے نہ کہ تمہارے لیے،میں  نے دوسری تلواردیکھی پھردونوں  نے مل کرمارا،عبدالرحمٰن ابن ملجم کی تلوارپیشانی سے سرتک ان کے بھیجے تک پہنچ گئی،لیکن شیب کی تلواروہ محراب میں  پڑی،میں  نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناکہ یہ آدمی تم سے ہرگزچھوٹنے نہ پائے،لوگ ہرطرف سے ان دونوں  پرٹوٹ پڑے مگرشبیب بچ نکلنے میں  کامیاب ہوگیاعبدالرحمٰن بن ملجم کوگرفتارکرلیاگیا۔

 غسل ونمازجنازہ :

وَغَسَّلَهُ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ. وَكُفِّنَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ لَیْسَ فِیهَا قَمِیصٌ

حسن وحسین رضی اللہ عنہما اورعبداللہ بن جعفرنے انہیں  غسل دیااورتین کپڑوں  میں  کفن دیاگیاجن میں  کرتہ نہ تھا۔

عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ صَلَّى عَلَى عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ فَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ وَدُفِنَ عَلِیٌّ بِالْكُوفَةِ عِنْدَ مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ فِی الرَّحَبَةِ مِمَّا یَلِی أَبْوَابَ كِنْدَةَ قَبْلَ أَنْ یَنْصَرِفَ النَّاسُ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ وَكَانَتْ خِلافَةُ عَلِیٍّ أَرْبَعَ سِنِینَ وَتِسْعَةَ أَشْهُرٍ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّینَ سَنَةً

شعبی رحمہ اللہ  سے مروی ہےحسن بن علی  رضی اللہ عنہ نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب پرنمازجنازہ پڑھی انہوں  نے ان پرچارتکبیریں  کہیں اورکوفہ میں  جامع مسجدکے نزدیک اس میدان میں  جو ابواب کندہ سے متصل ہے لوگوں  کے نمازفجرسے واپس ہونے سے پہلے دفن کردیئے گئے،ان کی خلافت چارسال اورنومہینے رہی،  جس روزسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کی وفات ہوئی وہ تریسٹھ برس کے تھے۔[2]

[1]موطاامام مالک كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ باب الْحَدُّ فِی الْخَمْرِ

[2] ابن سعد۱۹تا۲۷؍۳

Related Articles