ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

خلیفہ سوئم سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان(ذوالنورین)

حلیہ:

كَانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ حسن الوجه دقیق  الْبَشَرَةِ، كَبِیرَ اللِّحْیَةِ، مُعْتَدِلَ الْقَامَةِ، عَظِیمَ الْكَرَادِیسِ، بَعِیدَ مَا بَیْنَ الْمَنْكِبَیْنِ، كَثِیرَ شَعْرِ الرَّأْسِ، حسن الثغر، فیه سمرة، وقیل كان فی وجهه شئ مِنْ آثَارِ الْجُدَرِیِّ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ،

آپ کاچہرہ خوبصورت ،کھال باریک،داڑھی بڑی ، قد درمیانہ ، جوڑوں  کی ہڈیاں  بڑی،دونوں  کندھوں  کے درمیان فاصلہ،سرکے بال زیادہ ،دانت خوبصورت جن میں  گندم گونی پائی جاتی تھی اوربعض کاقول ہے کہ آپ کے چہرے پر چیچک کے کچھ نشان بھی تھے،

وَعَنِ الزهری: كان حسن الوجه والثغر، مربوعاً، أصلع، أروح الرجلین.یخضب بالصفرة وكان قد شد أسنانه  بالذهب وقد كسى ذراعیه الشعر

اورزہری کابیان ہے کہ آپ کاچہرہ اوردانت خوبصورت قددرمیانہ ،سرکے اگلے بال اڑے ہوئے ،ٹانگیں  کشادہ،آپ سیاہی سے رنگ کرتے تھے اورآپ نے اپنے دانتوں  کو سونے سے کساہواتھااورآپ کے بازؤوں  پربہت بال تھے۔[1]

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کاخطبہ:

فَأَتَى منبررَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، وَصَلَّى على النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنَّكُمْ فِی دَارِ قَلِعَةٍ، وَفِی بَقِیَّةِ أَعْمَارٍ، فَبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِخَیْرِ مَا تَقْدِرُونَ عَلَیْهِ، فَلَقَدْ أُتِیتُمْ، صُبِّحْتُمْ أَوْ مُسِّیتُمْ، أَلا وَإِنَّ الدُّنْیَا طُوِیَتْ عَلَى الْغَرُورِ، فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیاةُ الدُّنْیا، وَلا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ* اعتبروا بمن مضى، ثم وجدوا وَلا تَغْفَلُوا، فَإِنَّهُ لا یُغْفَلُ عَنْكُمْ أَیْنَ أَبْنَاءُ الدُّنْیَا وَإِخْوَانُهَا الَّذِینَ أَثَارُوهَا وَعَمَّرُوهَا، وَمُتِّعُوا بِهَا طَوِیلا، أَلَمْ تَلْفِظْهُمْ! ارْمُوا بِالدُّنْیَا حَیْثُ رَمَى اللهُ بِهَا، وَاطْلُبُوا الآخِرَةَ، فَإِنَّ اللهَ قد ضرب لها مثلا، وللذی هُوَ خَیْرٌ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ:وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَیاةِ الدُّنْیا كَماءٍ أَنْزَلْناهُ مِنَ السَّماءِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے منبرپرتشریف لائے،اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کی اس کے بعدنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پردرودبھیجابعدازاں  آپ نے فرمایاتم (اپنے آپ کو)قلعہ بندگھرمیں  سمجھتے ہواورعمرکے بقیہ حصے میں  ہواس لیے تم اپنی(باقی ماندہ)زندگی میں  بہت جلدنیک کام سرانجام دواورجونیک کام تم کرسکتے ہواس سے دریغ نہ کروکیونکہ تمہیں  صبح یاشام کوچ کرناہوگا،آگاہ ہوجاؤکہ دنیامکروفریب میں  لپٹی ہوئی ہے اس لیے تمہیں  دنیاکی زندگی فریب میں  مبتلانہ کردے ،تم گزری ہوئی باتوں  سے عبرت حاصل کرواورسرگرمی کے ساتھ (نیک)کام کرواورغافل نہ رہوکیونکہ وہ (اللہ تعالیٰ)تم سے غافل نہیں  ہے،وہ دنیاداراوراس کے فرزندکہاں  ہیں  جنہوں  نے دنیامیں  عمارتیں  تعمیرکیں  اورعرصہ درازتک دنیاکی نعمتوں  سے لطف اندوزہوتے رہے کیادنیانے انہیں  چھوڑانہیں  ہے؟تم بھی دنیاکووہیں  پھینک دوجہاں  اللہ نے اسے پھینکاہواہے (اس کے بجائے)آخرت کے طلبگاررہوکیونکہ اللہ نے دنیاکی کیااچھی مثال دی ہے اورفرمایاہے اے پیغمبر!تم انہیں  دنیاکی زندگی کی مثال بیان کروکہ وہ پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیاہے۔[2]

حکام کوپہلاہدایت نامہ :

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الأَئِمَّةَ أَنْ یَكُونُوا رُعَاةً، وَلَمْ یَتَقَدَّمْ إِلَیْهِمْ أَنْ یَكُونُوا جُبَاةً، وَإِنَّ صَدْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ خُلِقُوا رُعَاةً، لَمْ یُخْلَقُوا جُبَاةً، وَلَیُوشِكَنَّ أَئِمَّتُكُمْ أَنْ یَصِیرُوا جُبَاةً وَلا یَكُونُوا رُعَاةً، فَإِذَا عَادُوا كَذَلِكَ انْقَطَعَ الْحَیَاءُ وَالأَمَانَةُ وَالْوَفَاءُ أَلا وَإِنَّ أَعْدَلَ السِّیرَةِ أَنْ تَنْظُرُوا فِی أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فِیمَا عَلَیْهِمْ فَتُعْطُوهُمْ مَا لَهُمْ، وَتَأْخُذُوهُمْ بِمَا عَلَیْهِمْ، ثُمَّ تُثْنُوا بِالذِّمَّةِ، فَتُعْطُوهُمُ الَّذِی لَهُمْ، وَتَأْخُذُوهُمْ بِالَّذِی عَلَیْهِمْ.ثُمَّ الْعَدُوَّ الَّذِی تَنْتَابُونَ، فَاسْتَفْتِحُوا عَلَیْهِمْ بِالْوَفَاءِ

اللہ تعالیٰ نے حکام کویہ حکم دیاہے کہ وہ (رعایاکے)محافظ بنیں  ،صرف محصول وصول کرنے والے نہ بنیں  اس امت کی ابتداء رعایا کی حفاظت تھی نہ موصولی اور وہ زمانہ زیادہ دور نہیں  کہ جس میں  ان کے حاکم موصولی ہوں  گے لیکن اپنی رعایا کی حفاظت نہیں  کریں  گے اورجواس حیثیت میں  رہیں  گے تووہاں  سے حیا،دیانتداری اوروفاداری کاجذبہ اٹھ جائے گاآگاہ ہوجاؤکہ سب سے عمدہ سیرت یہ ہے کہ تم مسلمانوں  کے حقوق وفرائض کاخیال رکھو،تم ان کامالی حق اداکرواوران سے وہ کام لوجوان کے ذمہ ہیں  ،تمہاری دوسری ذمہ داری ذمیوں  کی ہے تم ان کے حقوق اداکرواوران سے واجبات وصول کرو،اس کے بعدتمہارے اپنے دشمن سے معاملات ہیں  تم ان کے معاہدات پورے کرو۔

سپہ سالاروں  کوہدایت:

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّكُمْ حُمَاةُ الْمُسْلِمِینَ وَذَادَتُهُمْ، وَقَدْ وَضَعَ لَكُمْ عُمَرُ مَا لَمْ یَغِبْ عنا، بل كان عن کلامنا، وَلا یَبْلُغُنِی عَنْ أَحَدٍ مِنْكُمْ تَغْیِیرٌ وَلا تَبْدِیلٌ فَیُغَیِّرَ اللهُ مَا بِكُمْ ویَسْتَبْدِلَ بِكُمْ غَیْرَكُمْ، فَانْظُرُوا كَیْفَ تَكُونُونَ، فَإِنِّی أَنْظُرُ فِیمَا أَلْزَمَنِی اللهُ النَّظَرَ فِیهِ، وَالْقِیَامَ عَلَیْهِ

امابعد! تم مسلمانوں  کے حامی اورمحافظ ہو،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے تمہیں  جوہدایات بھیجی تھیں  وہ ہم سے پوشیدہ نہیں  بلکہ ہمارے مشورے سے جاری کی گئی تھیں  لہذاتمہاری طرف سے اس میں  کوئی تغیروتبدل نہیں  ہوناچاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں  بھی تبدیل کردے گااورتمہارے بجائے دوسرامقررہوگا،تم دھیان رکھوکہ تم کیساکام کرتے ہو؟اللہ نے میرے ذمہ جوکام مقررفرمادیئے ہیں  میں  ان کی دیکھ بھال کررہاہوں ۔

محصلین خراج کے نام:

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ بِالْحَقِّ، فَلا یَقْبَلُ إِلا الْحَقَّ، خُذُوا الْحَقَّ وَأَعْطُوا الْحَقَّ بِهِ وَالأَمَانَةَ الأَمَانَةَ، قُومُوا عَلَیْهَا، وَلا تَكُونُوا أَوَّلَ مَنْ یَسْلُبُهَا، فَتَكُونُوا شُرَكَاءَ مَنْ بَعْدَكُمْ إِلَى مَا اكْتَسَبْتُمْ وَالْوَفَاءَ الْوَفَاءَ، لا تَظْلِمُوا الْیَتِیمَ وَلا الْمُعَاهَدَ، فَإِنَّ اللهَ خَصْمٌ لِمَنْ ظَلَمَهُمْ

امابعد! اللہ تعالیٰ نے حق وصداقت پرمخلوق کوپیدافرمایاہے کیونکہ حق وصداقت کے سوااورکوئی چیزپسندنہیں  ہے اس لیے حق کے ساتھ کوئی چیزوصول کرواورحق وصداقت پرقائم رہو،تم ہمیشہ امانت اوردیانتداری کواختیارکروایسانہ ہوکہ تم سب سے پہلے بددیانتی کرواس طرح تم مستقبل کے لوگوں  کے لیے بددیانتی کی راہ کھول دوگے اوران کے گناہوں  میں  تمہاری بھی شرکت سمجھی جائے گی،تم وفاداری کی راہ پرچلواورکسی یتیم اورمعاہدہ کرنے والے پرظلم نہ کروجوان پرظلم کرے گااللہ ان کادشمن ہوگا۔

عوام کے نام:

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّكُمْ إِنَّمَا بَلَغْتُمْ مَا بَلَغْتُمْ بِالاقْتَدَاءِ وَالاتِّبَاعِ، فَلا تَلْفِتَنَّكُمُ الدُّنْیَا عَنْ أَمْرِكُمْ، فَإِنَّ أَمْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ صَائِرٌ إِلَى الابْتِدَاعِ بَعْدَ اجْتِمَاعِ ثَلاثٍ فِیكُمْ: تَكَامُلُ النِّعَمِ، وَبُلُوغُ أَوْلادِكُمْ مِنَ السَّبَایَا، وَقِرَاءَةُ الأَعْرَابِ وَالأَعَاجِمِ الْقُرْآنَ، فان رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْكُفْرُ فِی الْعُجْمَةِ،  فَإِذَا اسْتُعْجِمَ عَلَیْهِمْ أَمْرٌ تَكَلَّفُوا وَابْتَدَعُوا

امابعد! تم اس (بلند)مرتبہ پر(اللہ کے احکام کی)پیروی اوراطاعت کی بدولت پہنچے ،دنیاتمہیں  تمہارے فرائض سے غافل نہ کردے ،ایسامعلوم ہوتاہے کہ اس امت (اسلامیہ) میں  یہ ذلت پھیل جائے گی جب کہ تمہارے اندریہ تین باتیں  جمع ہوجائیں  گی ،نعمتوں  کی تکمیل،قیدی عورتوں  اورباندیوں  سے تمہاری اولادپیداہوگی ، اعراب(عرب بدو) اوراہل عجم قرآن پڑھنے لگیں  گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے اہل عجم میں  کفر(کی بعض باتیں )ہیں  جب(شریعت کاکوئی حکم)انہیں  سمجھ میں  نہیں  آئے گاتووہ یہ تکلف(دین میں ) نئی نئی باتیں  نکالیں  گے۔

فتوحات:

عہدخلافت عثمانی اسلامی فتوحات کے سلسلے میں  پہلاعظیم الشان عہدہے جس کی مثال اس سے قبل کی تاریخ اسلام میں  نہیں  ملتی،ان تمام فتوحات کاسہراخلافت عثمانی عہدکے سپہ سالاروں  ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ ،سعدبن العاص  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عامر  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن سعدبن ابی سرح رضی اللہ عنہ ،امیرمعاویہ بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہ کے سرتھا،ان کی کوششوں  سے اسلام جغرافیائی حدود سندھ سے اندلس تک جاپہنچیں ،اسی عہدمیں  بحری قوت کوبھی منظم کیااورایک عظیم الشان بحری بیڑہ تیارکیاگیاحالانکہ اس سے قبل ان کے پاس ایک کشتی بھی نہ تھی ،اور قبرص وروڈس کے جزائرفتح کیے،امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  توسمندری راستے سے اتنی دورنکل گئے کہ ۳۲ہجری میں  آبنائے قسطنطنیہ(باسفورس)تک جاپہنچے،اس عہدمیں  دوطرح کی فتوحات ہوئیں ایک تووہ ممالک جوسیدناعمرفاروق کے عہدمیں  ہی فتح ہوگئے تھے مگررومیوں  اورایرانیوں  کی شہ پاکرباغی ہوگئے تھےان کے عہدمیں  انہیں  دوبارہ فتح کیا گیا ، ۲۵ ہجری میں  سکندریہ میں  بغاوت ہوئی عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  نے آگے بڑھ کررومیوں  کوشکست دی اورامن وامان قائم کیا،اسی سال آذربائجان اورآرمینہ میں  بغاوتیں  ہوئیں  جن کو کوفے کے امیرولیدبن عقبہ اورسلیمان بن ربیعہ باہلی نے فرکیا،مغرب میں  رومیوں  نے شامی سرحدکے قریب ایشائے کوچک کی طرف چھیڑچھاڑکی توامیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  بڑھے اور انطاکیہ وطرطوس کے درمیان واقع قلعوں  کوفتح کرلیا۔دوئم وہ ممالک جوپہلی بارعہدعثمانی میں  حلقہ اطاعت میں  آئے،۲۵ہجری میں  عبداللہ بن سعدبن سرح امیر مصر نے طرابلس(لبیا)پرفوج کشی کی ،دوہی سال بعدتونس،الجزائراورمراکش کے علاقوں  کوفتح کرلیا،مشرقی افریقہ کی فتوحات میں  عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اہم کرداراداکیااوراسی سال عبداللہ بن نافع نے سمندرپارکرکے اندلس کامحاصرہ کرلیا،کچھ فتوحات بھی ہوئیں  لیکن اس جانب مستقل مہم کاآغازنہ کیاگیا،شمال کی جانب حبیب بن مسلمہ اورسلیمان بن ربیعہ نے علاقت فتح کیے،مسلمانوں  کی فوجیں  بحیرہ اسودتک جاپہنچیں ،۳۰ہجری میں  عبداللہ بن عامراورسعدبن العاص نے خراسان اورطبرستان کی طرف پیش قدمی کی ، سعد بن العاص  رضی اللہ عنہ  نے جرجان،خراسان اورطبرستان کوفتح کرلیااورعبداللہ بن عامر  رضی اللہ عنہ نے مزیدآگے بڑھ کرسوات،کابل،سجستان،نیشاپوراوراردگردکے علاقوں  کوفتح کیا،عہدعثمانی میں  مسلمانوں  نے تقریباًپچاس بحری لڑائیاں  لڑیں  اوربحری قوت کاانتظام اسی عہدکاعظیم الشان کارنامہ ہے،اسی عہدمیں  مسلمانوں  نے ہندوستان کی طرف توجہ کی اورگجرات کے ساحلی علاقوں  تک جاپہنچے اوریہ فتوحات کاتمام سلسلہ صرف چھ سال کے عرصے میں  تکمیل کوپہنچا،اس سے سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کی زبردست سیاسی بصیرت اور پرجوش خدمت دین کا پتہ چلتاہے۔

ترقی:

اس عہدمیں  تہذیب وتمدن،صنعت وحرفت،تجارت اورعلوم وفنون کوبے مثال ترقی ہوئی،دولت اورفارغ البالی وخوشحالی کادوردورہ ہوا،صحابہ کرام نے مدینہ منورہ اورقرب وجوارمیں  خوبصورت عمارتیں  تعمیرکرائیں ،قدیم بازاروں  کی علاوہ نئے بازاربھی بنائے اورعمائدقریش حجازسے نکل کردوردرازعلاقوں  میں  پہنچ گئے۔

عثمان غنی کے عہدخلافت میں  مسجدنبوی کی تجدیدوتوسیع:

عن المطلب بن عبد الله بن حنطب قال:لما ولی عثمان بن عفان سنة أربع وعشرین كلمه الناس أن یزید فی مسجدهم، وشكوا إلیه ضیقه یوم الجمعة، حتى إنهم لیصلون فی الرحاب، فشاور فیه عثمان أهل الرأی من أصحاب رسول الله صلّى الله علیه وسلّم، فأجمعوا على أن یهدمه ویزید فیه، فصلى الظهر بالناس ثم صعد المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم قال:أیها الناس، إنی قد أردت أن أهدم مسجد رسول الله صلّى الله علیه وسلّم وأزید فیه، وأشهد لسمعت رسول الله صلّى الله علیه وسلّم یقول: من بنى لله مسجدا بنى الله له بیتا فی الجنة، وقد كان لی فیه سلف وإمام سبقنی وتقدمنی عمر بن الخطاب، كان قد زاد فیه وبناه، وقد شاورت أهل الرأی من أصحاب رسول الله صلّى الله علیه وسلّم فأجمعوا على هدمه وبنائه وتوسیعه، فحسّن الناس یومئذ ذلك ودعوا له، فأصبح فدعا العمال وباشر ذلك بنفسه

مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں جب سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  ۲۴ہجری کو خلیفہ منتخب ہوگئے تولوگوں  نے مسجدنبوی کے تنگ ہونے کی شکایت کی کہ انہیں  جمعہ کے دن مسجدمیں  جگہ نہیں  ملتی اوروہ باہرمیدان میں  نمازپڑھتے ہیں اس لئے مسجدکوکشادہ کرناچاہئے،حالات کی نزاکت اورمسلمانوں  کے پیہم اصرارکے باعث خلیفہ سوئم سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ نے اہل الرائے حضرات کااجلاس طلب فرمایااورمسلمانوں  کے جذبات سے آگاہ کرکے مشورہ طلب فرمایا،تمام حضرات نے مسجد کی تعمیر نواورتوسیع کرنے پراتفاق کیا۔چنانچہ وہ اس مقدس اورعظیم المرتبت کام کی انجام دہی کے لئے آمادہ ہو گئےاورمسجدنبوی کے شایان شان تجدید،توسیع اورتزہین کاعزم مصمم فرمالیا،سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے نمازظہرکے بعدخطبہ مسنونہ کے بعد فرمایااے لوگو! میں  نے مسجدنبوی کومنہدم کرنے اوراسے توسیع کے ساتھ تعمیرکرنے کا ارادہ کیاہےمیں  اس ارشادنبوی پرگواہ ہوں  جومیں  نے خودآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سناتھاکہ جوآدمی اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے مسجد تعمیر کرے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں  ایک محل عطا فرمائیں  گے،تعمیرمسجدکی خدمت انجام دینے میں  میرے پیش رومجھ سے سبقت لے گئے ،یعنی سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے تعمیرجدیدکے ساتھ اضافہ بھی کیاعلاوہ ازیں  میں  نے شوری سے منظوری بھی حاصل کرلی ہے مسجدکی تجدیداور توسیع پر سب کااتفاق ہے ،آپ رضی اللہ عنہ  کی اس دلپذیر تقریرسے لوگوں  کے دلوں  سے شبہات کاغبارزائل ہوگیااورانہیں  متفقہ طورپر اس کام کاانچارج بنادیاگیاچنانچہ دوسرے روزآپ  رضی اللہ عنہ  نے معماربلاکراس عظیم الشان تجدیدوتوسیع کاکام شروع فرمایا۔[3]

وأمر بالقصّة المنخولة تعمل ببطن نخل

چونکہ اب کی بار دیواریں  مٹی گارے کی بجائے چونہ سے مضبوط تعمیرکرنے کاپروگرام تھااس لئے بطن نخلہ میں  چونا تیار کرنے کا حکم صادرفرمایا۔[4]

وكان أول عمله فی شهر ربیع الأول من سنة تسع وعشرین، وفرغ منه حین دخلت السنة لهلال المحرم سنة ثلاثین

تجدید و توسیع کایہ کام ربیع الاول ۲۹ ہجری سے شروع ہوا اورمحرم الحرام ۳۰ہجری کودس ماہ کی جدوجہداورمحنت شاقہ سے پایہ تکمیل کوپہنچا۔[5]

قال: قال كعب ومسجد النبیصَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یا بنى: والله لوددت أنه لا یفرغ من برج إلا سقط برج، فقیل له: یا أبا إسحاق أما كنت تحدثنا أن صلاة فیه أفضل من ألف صلاة فی غیره إلا المسجد الحرام ،قال: بلى، وأنا أقول ذلك الآن، ولكن فتنة نزلت من السماء لیس بینها وبین أن تقع إلا شبر، ولو فرغ من بناء هذا المسجد وقعت

امام شعبہ نے امام مالک  رحمہ اللہ  سے کعب احبار رضی اللہ عنہ  کی روایت اس طرح بیان کی ہےجب عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے مسجد نبوی کی تعمیرشروع کرائی توکعب احباریہ دعامانگتے تھے کہ اے اللہ یہ تعمیرپوری نہ ہو اگر اس کی ایک سمت مکمل ہوجائے تو دوسری گرجائے تاکہ اس کی تعمیرکاسلسلہ جاری ہی رہے ،لوگوں  کے لئے یہ بات بڑی تعجب انگیزتھی انہوں  نے اس کاسبب دریافت کیا اے ابواسحاق!آپ ایساکیوں  کہتے ہیں ؟جبکہ آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہم سے بیان کی ہے اس مسجدمیں  ایک نمازدوسری کسی مسجدمیں  پڑھی جانے والی ہزارنمازوں  سے افضل ہے سوابیت اللہ کے، کعب  رضی اللہ عنہ نے فرمایایہ بات بالکل درست ہے اورمیں  اب بھی اس کی تصدیق کرتاہوں  لیکن جوفکرمجھے کھائے جارہی ہے وہ یہ ہے کہ انتہائی اندھناک فتنہ آسمان سے نازل ہونے والاہےجوبالکل تیارہے اس کے اورزمین کے درمیان صرف ایک بالشت فاصلہ باقی رہ گیاہے لیکن اس کا اظہارتعمیرمسجدتک موقوف ہے جس وقت یہ عمارت پایہ تکمیل کوپہنچ جائے گی توپھراس کے ظہورمیں  دیرنہیں  لگے گی۔[6]

علامہ ابن حجرعسقلانی  رحمہ اللہ نے بھی اختصارکے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے۔

سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے مشرق میں  حسب سابق ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کاحجرہ مقدسہ جو کہ آرام گاہ خیر الانام  صلی اللہ علیہ وسلم ہے کی وجہ سے توسیع نہ کی،

فاشترى عثمان نصفها بمائة ألف، فزادها فی المسجد

البتہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے مسجدکے مغرب میں  جعفرطیار رضی اللہ عنہ  کے مکان کاباقی نصف حصہ ایک لاکھ درہم میں  خریدکرمسجدمیں  شامل کیا۔[7]

اسی سمت میں سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کامکان بھی تھا جس کے دروازے کے متعلق سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتھا

لاَ یَبْقَیَنَّ فِی المَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، إِلَّا بَابُ أَبِی بَكْرٍ

سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے دروازہ کے علاوہ مسجدکی جانب جتنے دروازے ہیں  انہیں  بندکردیا جائے۔[8]

وَلَمْ تَزَلْ بِیَدِ أَبِی بَكْرٍ حَتَّى احْتَاجَ إِلَى شَیْءٍ یُعْطِیهِ لِبَعْضِ مَنْ وَفَدَ عَلَیْهِ فَبَاعَهَا فَاشْتَرَتْهَا مِنْهُ حَفْصَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ فَلَمْ تَزَلْ بِیَدِهَا إِلَى أَنْ أَرَادُوا تَوْسِیعَ الْمَسْجِدِ فِی خِلَافَةِ عُثْمَانَ فَطَلَبُوهَا مِنْهَا لِیُوَسِّعُوا بِهَا الْمَسْجِدَ فَامْتَنَعَتْ وَقَالَتْ كَیْفَ بِطَرِیقِی إِلَى الْمَسْجِدِ فَقِیلَ لَهَا نُعْطِیكِ دَارًا أَوْسَعَ مِنْهَا وَنَجْعَلُ لَكِ طَرِیقًا مِثْلَهَا فَسَلَّمَتْ وَرَضِیَتْ

لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں  انہوں  نے بعض ضرورتوں  اورمجبوریوں  کے پیش نظرمذکورہ مکان ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  بنت عمر فاروق کے ہاتھ چار ہزار درہم میں  فروخت کرکے ساری رقم اپنے ہاں  آئی ہوئی مسلمانوں  کی ایک جماعت پرخرچ کردی تھی چنانچہ سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  سے اس مکان کی بات کی کہ وہ اس مکان کے عوض دوسرامکان لے لیں  تاکہ مسجدکی توسیع ہوسکے پہلے تو سیدہ حفصہ نے انکار کر دیا لیکن نعم البدل کے عوض آپ نے اس تجویزکومنظورکرلیااورانہیں  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کی بے حد کشادہ حویلی دے دی گئی ۔[9]

وَبَنَى جِدَارَهُ بِالْحِجَارَةِ الْمَنْقُوشَةِ وَالْقَصَّةِ، وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ وَسَقْفَهُ بِالسَّاجِ  قَالَ مُجَاهِدٌ: وَسَقَّفَهُ السَّاجَ

سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے مسجدکی دیواریں  کچی اینٹوں  کی جگہ منقش پتھروں  اورقلعی چونہ سے تعمیرکرائیں  ، کھجورکے بوسیدہ تنوں  کے بجائے منقش پتھروں  کے ستون لگائے اور کھجور کی شاخوں  کی چھت کے بجائے ساگوان کی لکڑی کی چھت ڈالی اور یہی مجاہد کا قول بھی ہے لیکن اس قول میں  یہ ہے کہ سیدنا عثمان نے بذات خود ساگوان کی لکڑی کی چھت ڈالی۔ [10]

ستونوں  کے لئے پتھروں  کی تراش خراش اور ڈیزائن بنانے کی خدمت زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے انجام دی،ستونوں  کی بلندی سابقہ کھجورکے ستونوں  کے برابرتھی اورمسجدمیں  چوناکی سفیدی بھی کرائی، مشرق اورمغرب میں  دو کھڑکیاں  بھی رکھیں  تھیں ، آپ  رضی اللہ عنہ  نے شمال کی طرف پچاس ذراع اضافہ کیا، جنوب میں  موجودہ دیوارتک اورمغرب میں  صرف ستونوں  کی ایک صف کااضافہ کیا۔

أن الولید زاد بعد عثمان رضی الله عنه فی جهة المغرب أسطوانین، ولم یزد أحد بعد الولید فی جهة المغرب شیئا

اس کے بعد مغرب کی طرف دو ستونوں  کا اضافہ ولیدبن عبدالملک نے کیااس کے بعدمغرب کی طرف اضافہ نہیں  ہوا۔[11]

البتہ نئی توسیع کے لئے سعودی حکومت مصروف کار ہے۔

وجعل أبوابه ست أبواب على ما كان على عهد عمر رضی الله عنه

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے کوئی نیادروازہ نہیں  بنوایابلکہ وہی چھ دروازے تھے جوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے عہد میں  تھے۔

وجعل طوله ستین ومائة ذراع، وعرضه مائة وخمسین ذراعا

اس تعمیرکے بعدعلامہ ابن النجار رحمہ اللہ  اور امام زین الدین مراغی رحمہ اللہ  مسجدکے طول وعرض کی بابت لکھتے ہیں طول ایک سوساٹھ ذراع (دوسوچالیس فٹ)اورعرض ایک سوپچاس ذراع (دوسوپچیس فٹ) ہو گیا ۔[12]

علامہ ابن النجارنے توسیع فاروقی کے بعدطول ایک سوچالیس ذراع بیان کیا اور توسیع عثمانی میں  پچاس ذراع کااضافہ بھی تحریرکیاہے جس کے مطابق ایک سونوےذراع ہونا چاہیے ،

امام المراغی بھی اضافہ فاروقی کے بعدطولایک سوچالیس ذراع اورعرض ایک سوبیس ذراع بیان کرتے ہیں  اورعثمانی اضافہ کے بعدایک سوساٹھ ذراع اورایک سوپچاس ذراع تحریر کیا ہے ۔

بہرحال سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے ۴۹۶ مربع میڑاضافہ کیا جس سے مجموعی رقبہ ۴۰۷۱ مربع میڑہوگیا۔

أن عثمان بن عفان أول من وضع المقصورة من لبن فقام یصلی فیها للناس

سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان نے امام کے کھڑے ہونے کے لئے کچی اینٹوں  سے ایک مقصورہ بنوایا اور اس میں  ایک دریچہ رکھاتاکہ مقتدی امام کودیکھ سکیں ،سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  بھی اسی مقصورہ میں  کھڑے ہو کر فریضہ امامت انجام دیتے تھے۔[13]

 قال المؤرخون: احترق المسجد النبوی لیلة الجمعة أول شهر رمضان من سنة أربع وخمسین وستمائة فی أول اللیل، ونقل أبو شامة أن ابتداء حرقه كان من زاویته الغربیة من الشمال، وسبب ذلك- كما ذكره أكثرهم- أن أبا بكر بن أوحد الفراش أحد القوّام بالمسجد الشریف دخل إلى حاصل المسجد هناك ومعه نار، فغافل عنها إلى أن علقت فی بعض الآلات التی كانت فی الحاصل، وأعجزه طفیها، ثم احترق الفراش المذكور والحاصل وجمیع ما فیه.

مؤرخوں  کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ یکم رمضان المبارک،شب جمعہ ۶۵۴ہجری کوہوا ابو شامہ سے نقل کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے شمال کی طرف سے مغربی کنارہ آگ کی لپیٹ میں  آیا،ابوبکر بن اوحدالفراش رحمہ اللہ  جوکہ اس وقت کے متولی تھے مسجد میں  داخل ہوئے تو ان کے ساتھ آگ تھی تو غفلت سے مسجدنبوی میں اس آگ کوحاصل کی چیزوں پر لٹکا دیا تو آگ پھیلتی گئی بالآخر اس پر قابو ناپاتے ہوئے سارا کچھ جل کر گیا ۔[14]

دوسری آتش زدگی تیرہ رمضان المبارک ۸۸۶ہجری میں  آسمانی بجلی مینارپرگرنے سے ہوئی۔

اس طرح مسجدکی سادگی اورہیت تبدیل ہوگئی جسے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے پسند نہ کیا،

وَقَالَ الْبَغَوِیُّ فِی شَرْحِ السُّنَّةِ لَعَلَّ الَّذِی كَرِهَ الصَّحَابَةُ مِنْ عُثْمَانَ بِنَاؤُهُ بِالْحِجَارَةِ الْمَنْقُوشَةِ لَا مُجَرَّدُ تَوْسِیعِهِ

امام بغوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ صحابہ کرام کومسجدکی وسعت اوراضافہ پر ناپسندیدگی کااظہار نہیں  کیاتھابلکہ انہیں مسجد نبوی میں  منقش پتھروں  کی جدت سے اختلاف تھا۔[15]

 أنه سمع عثمان عند قول الناس فیه حین بنى مسجد الرسول: إنكم قد أكثرتم، وإنی سمعت  رَسُولَ  اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  یقول: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ عز وجل بَنَى اللهُ لَهُ فِی الْجَنَّةِ مِثْلَهُ

چنانچہ سیدناعثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوبلاکرتعمیر مساجد سے متعلق فضائل سے روشناس کیاکہ تم لوگوں  نے اس بارے میں  بہت چہ میگوئیاں  کی ہیں  اور تحقیق میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے کہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے کوئی شخص مسجدبنائے تواللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی کے مثل جنت میں  ایک محل بنادیتا ہے۔ [16]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  نے مسجدنبوی میں  خوشبوکی دھونی دینے کامستقل انتظام کررکھاتھا،

حتى كان الولید بن عبد الملك وكان عمر بن عبد العزیز عامله على المدینة ومكة بعث الولید إلى عمر بن عبد العزیز بمال وقال له: من باعك فأعطه ثمنه، ومن أبی فاهدم علیه وأعطه المال، فإن أبى أن یأخذه فاصرفه إلى الفقراء، انتهى

اس کے بعد ۸۸تا۹۱ہجری میں خلیفہ ولیدبن عبدالملک نے عمربن عبدالعزیز کو جب وہ ۲۵سال کے تھے حکم دیاکہ وہ مسجدنبوی کی تجدید،توسیع اورآرائش وزیبائش کاکام شروع کریں ، مسجدکے ملحقہ تمام مکانات خریدکرمسجدکشادہ کریں  ، اگرکوئی شخص مکان دینے سے انکاری ہوتومعززین شہرسے اس کی قیمت کاصحیح اندازہ لگاکراسے نقد ادا کر دیں  اورجوآدمی معاوضہ لینے سے بھی انکارکرے تووہ رقم فقراء میں  تقسیم کردیں  اورمکان جبرالے لیاجائے۔[17]

وَإِضَافَةِ حُجَرِ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّ یُوَسِّعَهُ مِنْ قِبْلَتِهِ وَسَائِرِ نَوَاحِیهِ

اس کے علاوہ ازواج مطہرات کے حجرے بھی منہدم کرکے وہ جگہ مسجدمیں  شامل کرلی جائے تاکہ قبلہ اور چاروں  اطراف سے مسجد کی توسیع ممکن ہوسکے۔[18]

عمربن عبدالعزیز  رحمہ اللہ نے حکم کی تعمیل میں  مشرق ومغرب اور شمال کی جانب توسیع کی اورپہلی مرتبہ مسجد نبوی کی محراب تیارکرائی اورچاروں  کونوں  پرمیناربنوائے ، ان کے بعد ۱۶۱تا۱۶۵ہجری میں  خلیفہ المہدی عباسی،۶۶۵ہجری میں  خلیفہ المستعم ،۷۰۵،۷۰۶ اور۷۲۹ ہجری میں  ملک الناصرمحمدبن قلاوون ،۸۳۱ ہجری میں  ملک اشرف برسبائی ، ۸۳۵میں  ملک الظاہر، ۸۷۹ہجری میں  ملک قاینبائی ، ۹۷۴، ۹۳۸ہجری میں  سلطان سلیمان ،۹۸۰میں  سلطان سلیم الثانی ، ۱۲۶۵تا۱۲۷۷ ہجری میں سلطان عبدالمجید،۱۳۴۸ہجری میں  شاہ عبدالعزیز ، ۱۳۵۴ہجری میں مصری حکومت کے محکمہ اوقاف،۱۳۷۰تا۱۳۷۵ہجری میں  شاہ عبدالعزیز آل سعود نے تعمیری خدمات انجام دیں  ۔[19]

مسلمانوں  کوایک قراء ت پرجمع کرنا:

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت میں  اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس مستندنسخے کی بہت سی نقلیں  سرکاری کاتبوں  سے تیارکرائی جائیں  اور اسلامی قلمروکے مختلف حصوں  میں  بھیجی جائیں ،یہ ضرورت اس لئے پیداہوئی کہ مستندنسخہ تیار ہو جانے کے باوجود بھی مختلف صحابہ کے پاس قرآن مجیدکے وہ متفرق اجزاء اور ان کی نقلیں  موجودتھیں  جن کی مددسے مستند نسخہ تیارکیاگیاتھا،لوگوں  نے ان نقلوں  کی بناپرقرآن مجید کے کئی نسخے تیار کر لئے اوروہ اسلامی قلمروکے مختلف حصوں  میں  استعمال ہونے لگے ،رفتہ رفتہ الفاظ کے تلفظ اور قرات پرمقامی رنگ غالب آنے لگا، حذیفہ  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کی توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کرائی اور ان سے درخواست کی کہ مستندنسخے کی خود نقلیں  تیار کرائیں  اورمختلف صوبوں  میں  بھیجیں ۔

انس  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں حذیفہ  رضی اللہ عنہ  ،سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کے پاس آئے وہ فتح آرمینیاکے لئے شامیوں  کے شانہ بشانہ اور آذربائیجان کی فتح کے لئے عراقیوں  کے شانہ بشانہ لڑتے رہے تھے وہ شامیوں  اورعراقیوں  کے طرزقرات میں  اختلاف دیکھ کرگھبراگئے اورانہوں  نے سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  سے کہا امیر المومنین لوگوں  کو یہودیوں  اورعیسائیوں  کی طرح اپنی کتاب میں  اختلاف کرنے سے روکئے ،اس لئے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے ام المومنین  حفصہ  رضی اللہ عنہا  کوپیغام بھیجاکہ ان کے پاس کتاب اللہ کاجونسخہ ہے وہ بھیج دیں  تاکہ اس کی نقلیں  تیار کرانے کے بعد اصل نسخہ انہیں  واپس کردیں  ،ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  نے وہ نسخہ سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کوبھیج دیا،انہوں  نے زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر، سعدبن العاص  رضی اللہ عنہ  اورعبدالرحمٰن بن حارث ابن ہشام کوحکم دیاکہ اس نسخہ کی نقلیں  تیارکریں ،جب انہوں  نے اصل نسخے سے مطلوبہ تعدادمیں  نقلیں  تیار کرلیں  توسیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  نے اصل نسخہ ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  کوواپس کردیااوراس کی ایک ایک نقل ہرصوبے میں  بھیج دی ،چنانچہ مکہ معظمہ ،یمن ،شام ،بصرہ ،بحرین اور کوفے میں  ایک ایک نسخہ محفوظ کیاگیا۔

مصحف عثمانی کے ان نسخوں  میں  سے اس وقت چارنسخے دنیامیں  محفوظ ہیں ۔

xحجرہ نبوی کانسخہ ،

xآثارنبویہ استنبول ،

xکتاب خانہ مصر ،

xمدرسہ خانم بی بی تاشقند

قَوْلِ عُثْمَانَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ أَیْ مُعْظَمُهُ وَأَنَّهُ لَمْ تَقُمْ دَلَالَةٌ قَاطِعَةٌ عَلَى أَنَّ جَمِیعَهُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  قرآن کریم قریش کی زبان میں  نازل ہوااس لیے یہ مضبوط دلیل ہے کہ اسے قریش کی زبان کے مطابق جمع کیاجائے۔[20]

فَأَمَرَ عُثْمَانُ بِنَسْخِهِ فِی الْمَصَاحِفِ وَجَمَعَ النَّاسَ عَلَیْهِ وَأَذْهَبَ مَا سِوَى ذَلِكَ قَطْعًا

اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے حکم دیاکہ اس کے سوا قرآن مجیدکے جو نسخے یا اجزاء موجودہیں  وہ ضائع کر دیئے جائیں ۔[21]

قرآن مجیدکے غیرمستندنسخے جلانے کے متعلق سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  نے جوقدم اٹھایاوہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے صلاح ومشورے اوران کی تائید سے اٹھایاتھا ، کتاب اللہ کی صحت کو قیامت تک کے لئے قائم رکھناایک ایسامقدس اوراہم فریضہ تھاجس کی بجاآوری کے لئے غیرمستندنسخوں  اور متفرق اجزاء کاتلف کرناایک ناگزیر ضرورت تھی۔

قَالَ عَلِیٌّ لَا تَقُولُوا فِی عُثْمَانَ إِلَّا خَیْرًا فَوَاللهِ مَا فَعَلَ الَّذِی فَعَلَ فِی الْمَصَاحِفِ إِلَّا عَنْ مَلَأٍ مِنَّا قَالَ مَا تَقُولُونَ فِی هَذِهِ الْقِرَاءَةِ ، لقد بَلغنِی أَن بَلَغَنِی أَنَّ بَعْضَهُمْ یَقُولُ إِنَّ قِرَاءَتِی خَیْرٌ مِنْ قِرَاءَتِكَ وَهَذَا یَكَادُ أَنْ یَكُونَ كُفْرًا قُلْنَا فَمَا تَرَى قَالَ أَرَى أَنْ نَجْمَعَ النَّاسَ عَلَى مُصْحَفٍ وَاحِدٍ فَلَا تَكُونُ فُرْقَةٌ وَلَا اخْتِلَافٌ قُلْنَا فَنِعْمَ

اس معاملہ میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ان الفاظ میں  اظہارخیال فرمایا عثمان  رضی اللہ عنہ  کے متعلق اچھے کلمات کے سواکچھ نہ کہوانہوں  نے قرآن مجیدکے نجی نسخوں  کوختم کرنے کافیصلہ ہمارے مشورے سے کیاتھا انہوں  نے ہم سے کہاتھاکہ آپ کاقرات کے اختلاف کے متعلق کیاخیال ہے ؟  مجھے بتایاگیاہے کہ بعض لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں  کہ میری قرات تم سے بہتر ہے،میراخیال ہے کہ اس قسم کاقول کفرکے برابر ہوسکتا ہے،ہم نے ان سے پوچھاکہ آپ اس معاملے میں  کیاقدم اٹھاناچاہتے ہیں  ، انہوں  نے کہامیرے خیال میں  تمام لوگوں  کوایک قرآء ت پرجمع کرناضروری ہے ،ہم سب نے اس تجویزکی تائیدکی۔[22]

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے تیار کرائے گئے نسخوں  کی صحت کااس سے بڑاثبوت اورکیا ہو گا کہ ان کی خلافت کے آخری زمانہ میں  ان کے خلاف مخالفت کا ایسا طوفان اٹھاجوآخران کی جان لے کرہی ٹلامگر ان کے جانی دشمنوں  میں  سے کسی کویہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ انہوں  نے قرآن مجیدکے نسخے تیارکرانے میں  کسی کوتاہی سے کام لیاہے،یہ تاریخی واقعات اس بات کا ناقابل تردیدثبوت ہیں  کہ آج کتاب اللہ کاجونسخہ مسلمانوں  کے ہاتھ  میں  ہے وہ الفاظ ،آیات اورسورتوں  کی صحت اوران کی ترتیب کے لحاظ سے ہوبہواسی صورت میں  ہے جوصورت اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی تھی۔

اس کے علاوہ اور بے شمار واقعات موجودہیں  جن سے صاف ظاہرہوتاہے کہ قرآن مجیدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  لکھ لیاگیاتھا۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: وَقَدْ كَانَ الْقُرْآنُ كُتِبَ كُلُّهُ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قرآن پورا کاپورارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں  لکھا جاچکاتھا۔[23]

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ

زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  قرآن مجیدکولکھ کرپرزوں  پرجمع وتالیف کیاکرتے تھے۔[24]

عَنْ عَبْدِ العَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَشَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ، عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ لَهُ شَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ: أَتَرَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَیْءٍ؟ قَالَ: مَا تَرَكَ إِلَّا مَا بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ قَالَ: وَدَخَلْنَا عَلَى مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِیَّةِ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: مَا تَرَكَ إِلَّا مَا بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ

عبدالعزیزبن رفیع نے بیان کیا میں  اورشدادبن معقل ،عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کے پاس گئے،شدادبن معقل نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس قرآن کے سواکوئی اوربھی قرآن چھوڑاتھا،عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (وحی متلو) جوکچھ بھی چھوڑی ہے وہ سب کی سب ان دوتختیوں  کے درمیان صحیفہ میں  محفوظ ہے، عبدالعزیزبن رفیع بیان کرتے ہیں  کہ ہم محمدبن حنفیہ کی خدمت میں  بھی حاضرہوئے اوران سے بھی پوچھا  توانہوں  نے کہارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جوبھی وحی متلوچھوڑی وہ سب دوتختیوں  کے درمیان (قرآن مجیدکی شکل میں )محفوظ ہے ۔[25]

مَا بَیْنَ اللوْحَیْنِ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کی روایت میں  دونوں  لوحوں  کے درمیان کالفظ بھی آیاہے ۔[26]

مُصْحَفٍ

اور بعض میں  صاف لفظ مصجف بھی آیاہے۔[27]

فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَیْنَ اللوْحَیْنِ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ حدیث کاثبوت طلب کرنے والی عورت کایہ کہنا بھی مروی ہےمیں  نے دونوں  لوحوں  کے درمیان کاساراقرآن پڑھاہے۔[28]

إِذْ جَاءَهَا عِرَاقِیٌّ قَالَ: یَا أُمَّ المُؤْمِنِینَ، أَرِینِی مُصْحَفَكِ؟قَالَ: فَأَخْرَجَتْ لَهُ المُصْحَفَ، فَأَمْلَتْ عَلَیْهِ آیَ السُّوَر

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک عراقی شخص آیااس نے کہا اے مومنین کی ماں !مجھے اپنامصحف (قرآن مجید)تودکھائیں ،عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے اپنا قرآن منگواکرانہیں  دکھایااورہرسورت کی آیات کی تفصیل لکھوائی (کہ اس سورت میں  اتنی آیات ہیں  اوراس میں  اتنی ہیں )۔[29]

اس طرح اللہ تعالیٰ نے دین کوصحیح حالت میں  محفوظ رکھنے کے لئے دوخاص انتظام فرمائے ایک یہ کہ قرآن مجیدکوہرقسم کی کمی بیشی اورتحریف وتبدیل سے محفوظ فرمادیاتاکہ دنیاکواللہ کی ہدایت معلوم کرنے کے لئے کسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہ رہے دوسرایہ کہ امت کے اندرجیساکہ صحیح حدیثوں  میں  واردہے ہمیشہ کے لئے ایک گروہ کوحق پرقائم کردیاتاکہ جولوگ فی الحقیقت حق کے طالب ہیں  ان کے لئے ان کاعلم وعمل شمع راہ کاکام دیتا رہے۔اس طرح ایک جماعت اگرچہ اس کی تعدادکتنی ہی تھوڑی ہواس امت میں  ہمیشہ باقی رہے گی ،فتنوں  کاکتناہی زورہولیکن یہ صالح جماعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے علم وعمل کوزندہ رکھے گی ،جب ضلالت کااثراس امت کے رگ وریشہ میں  اس طرح سرایت کرجائے گاجس طرح دیوانے کتے کے کاٹے ہوئے آدمی کے رگ وریشہ میں  اس کا زہرسرایت کرجاتاہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اس امت کے ایک عضوکواس زہرسے محفوظ رکھے گا،جب دنیا کا خمیر اتنا بگڑ جائے گاکہ معروف منکربن جائے گا اورمنکرمعروف بن جائے گااوراہل بدعات کااتنازورہوگاکہ معروف کے ان داعیوں  کی حیثیت دنیامیں  اجنبیوں  اوربیگانوں  کی ہوجائے گی اس وقت بھی یہ لوگ خلق کو معروف کی طرف پکارتے رہیں  گے اورہرقسم کی مخالفتوں  کے باوجودلوگوں  کی پیداکی ہوئی خرابیوں  کی اصلاح کی کوشش کریں  گے ،ہردورمیں  اس طرح کی جماعت کوباقی رکھنے سے اللہ تعالیٰ کی منشایہ ہے کہ جس طرح علم وحی کوقرآن کی صورت میں  قیامت تک کے لئے محفوظ کردیاگیاہے اسی طرح اللہ کے رسول اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے علم وعمل کواس جماعت کے ذریعہ سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیاجائے ،اورخلق کی ہدایت اوررسول کی حجت تمام کرنے کے لئے جوروشنی مطلوب ہے وہ کبھی گل ہونے نہ پائے، مسیح   علیہ السلام  کے الفاظ میں  یہ لوگ پہاڑی کے چراغ ہوں  گے جن سے راہ ڈھونڈنے والے رہنمائی حاصل کریں  گے اورزمین کے نمک ہوں  گے جن سے کوئی چیزنمکین کی جاسکے گی۔

خاتم مبارک کی گمشدگی:

أعنی سنة ثلاثین سقط خاتم رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من ید عُثْمَان فِی بئر أَرِیس وَهِیَ عَلَى میلین مِنَ الْمَدِینَةِ، وكانت من أقل الآبار ماء، فما أدرك حَتَّى الساعة قعرها

تیس ہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خاتم مبارک سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بئراریس (کنوئیں )میں  گرگئی ،یہ کنواں  مدینہ سے دومیل کے فاصلہ پرہے اس میں  سب کنوؤں  سے کم پانی تھامگراب تک اس کی گہرائی کاپتہ نہیں  چل سکا۔[30]

 دارالقضاء:

قاضی یاحاکم عدالت کااجلاس شروع میں  عموماًمسجدمیں  ہوتاتھاجوشہرکے ٹاؤن ہال کاکام دیتی تھی،ان مسجدوں  میں  مسلم اورغیرمسلم سب بے تکلف آسکتے تھے،ابن عساکرکے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ عثمان  رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں  ایک عمارت  دار القضاء کے نام سے بن چکی تھی۔[31]

شہادت :

۳۵ہجری کے آخرمیں  باغیوں  نے مدینہ منورہ کارخ کیااورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان کے مکان کامحاصرہ کرلیاجوچالیس دن جاری رہا،اس دوران سیدنا عثمان غنی نے مکان کی چھت سے باغیوں  کوخطاب فرمایااوران کونصیحتیں  کیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نیازمندی کے حوالے دیے اوراسلام کے لئے اپنی خدمات گنوائیں  مگرباغیوں  پرکوئی اثر نہ ہوا،

وَإِنَّكُمْ إِنْ تَقْتُلُونِی لا تُصَلُّوا جمیعا أبدا ولا تغزو جَمِیعًا أَبَدًا وَلا یُقْسَمُ فَیْؤُكُمْ بَیْنَكُمْ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے باغیوں  کوتنبیہ کی کہ بخدااگرتم مجھے قتل کردوگے توپھرتاقیامت نہ ایک ساتھ نمازپڑھوگے اورنہ ایک ساتھ جہادکروگےاورضرورآپس میں  اختلاف کروگے ۔[32]

باغیوں  نے مستفی کامطالبہ کیا،بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے مقابلہ کرنے کامشورہ دیامگرآپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیں  مدینہ منورہ میں  کشت وخون سے تم کوبازرکھتاہوں ،

بعض صحابہ کرام نے آپ کی حفاظت کے لئے اپنے بیٹوں  کوآپ رضی اللہ عنہ  کے مکان کے باہرمقررکردیاکہ وہ لوگوں  کوروکیں  اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ تک نہ پہنچنے دیں ،

وبلغ علیا أَن الْقَوْم یریدون قتل عُثْمَان فَقَالَ:إِنَّمَا أردنا مَرْوَان، فأما قتل عُثْمَان فلا،وَقَالَ للحسن والحسین: اذهبا بسَیْفیكما حَتَّى تقوما عَلَى بَاب عثمان فلا تدعى أحدا یصل إِلَیْهِ، وبعث الزُّبَیْر ابنه عَبْد اللهِ، وبعث طَلْحَةُ ابنه عَلَى كره، وبعث عدة من أصحاب النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أبناء هم لیمنعوا النَّاس من الدخول عَلَى عُثْمَان،

جب سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کوپتہ چلاکہ باغی آپ کوقتل کرناچاہتے ہیں  توآپ نے اپنے دیگرمتبعین کے ساتھ ہتھیاردے کرسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجاکہ ان کے دروازے پران کی مدد کے لیے پہرہ دیں  اورانہیں  حکم دیاکہ وہ باغیوں  کووہاں  ہرگزپہنچنے نہ دیں  ،اسی طرح زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد اوربہت سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے بیٹوں  کومددکے لیے بھیجا۔[33]

آخرباغیوں  نے امیر المومنین پرپانی بندکردیا۔

فحاصر النَّاس عُثْمَان ومنعوه الماء، فأشرف عَلَى النَّاس فَقَالَ: أفیكم عَلِی؟ فَقَالُوا: لا، قَالَ: أفیكم سَعْد فسكت ثُمَّ قَالَ: ألا أحد یبلغ  فیسقینا ماء؟ فبلغ ذَلِكَ علیا فبعث إِلَیْهِ بثلاث قرب مملوءة ماء فَمَا كادت تصل إِلَیْهِ

باغیوں  نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے گھرکامحاصرہ کرلیااوران پرپانی بندکردیاچنانچہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ لوگوں  کے سامنے آئے اورپوچھاکیاتم میں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  ہیں ؟لوگوں  نے کہانہیں ،پھر پوچھاکیاتم میں  سعد  رضی اللہ عنہ ہیں ؟لوگوں  نے کہانہیں ،توآپ خاموش ہوگئے اورپھرفرمایاکیاتم میں  کوئی ہے جومجھے پانی پلائے؟جب سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کویہ بات معلوم ہوئی توآپ  رضی اللہ عنہ نے پانی سے بھری تین مشکیں  پانی کی بھیجیں  مگرباغیوں  نے ان تک پہنچنے نہیں  دیں ۔[34]

وَقَدْ رمى النَّاس عُثْمَان بالسهام حَتَّى خضب الْحَسَن بالدماء عَلَى بابه وأصاب مَرْوَان سهم وَهُوَ فِی الدار وخضب مُحَمَّد بْن طَلْحَةَ وشج قنبر مولى عَلِی

باغیوں  نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  پرتیربرسائے جس سے دروازے پرقائم حسن بن علی  رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے غلام قنبرکاسرپھٹ گیااورمحمدبن طلحہ   رضی اللہ عنہ بھی زخمی ہوگئے۔[35]

باغیوں  نےمکان کو آگ لگادی ،پتھرمارے گئے مگرآپ  رضی اللہ عنہ نے صبروتحمل سے کام لیااوراپنی حمایت میں  کسی کوبھی جنگ کرنے کی اجازت نہ دی۔

عَنْ أَبِی سَهْلَةَ، مَوْلَى عُثْمَانَ قَالَ: فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُسِرُّ إِلَى عُثْمَانَ وَلَوْنُ عُثْمَانَ یَتَغَیَّرُ , فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الدَّارِ قُلْنَا: أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: لَا , إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَیَّ أَمْرًا فَأَنَا صَابِرٌ نَفْسِی عَلَیْهِ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے غلام أَبِی سَهْلَةَ سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرگوشی کررہے تھے جبکہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کارنگ متغیر ہورہاتھاجب محاصرے کادن ہواتوہم نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ سے کہاکہ کیاہم (ان باغیوں  سے)لڑائی نہ کریں ؟  سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے کہاان لوگوں  سےنہ لڑواس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے ایک وعدہ لیاتھااورمیں  خودکواس کاپابندبنارہاہوں ۔[36]

بِنْتَ الْفُرَافِصَةِ، قَالَتْ:أَغْفَى عُثْمَانُ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ قَالَ: إِنَّ الْقَوْمَ یَقْتُلُونَنِی، فَقُلْتُ: كَلَّا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالُوا: أَفْطِرْ عِنْدَنَا اللَّیْلَةَ، أَوْ قَالُوا: إِنَّكَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا اللَّیْلَةَ

بنت الغرافصہ کہتی ہیں  آخری شب سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  تھوڑی دیرکے لیے سوگئے بیدارہوئے توفرمایایہ قوم مجھے قتل کرے گی، میں  نے کہاامیرالمومنین ہرگزنہیں ،فرمایا میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کو(خواب میں ) دیکھاان حضرات نے فرمایااے عثمان  رضی اللہ عنہ !آج شب کوہمارے ساتھ روزہ افطارکرنا،یاان حضرات نے یہ فرمایاکہ تم آج شب کوہمارے پاس روزہ افطارکروگے۔[37]

چنانچہ اٹھارہ ذوالحجہ ۳۵ہجری بروزجمعہ چندباغیوں  نے گھرمیں  گھس کرانہیں  شہیدکردیا اس وقت آپ قرآن مجیدکی تلاوت فرمارہے تھے،

وَكَانَتْ خِلَافَتُهُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ سَنَةً غَیْرَ اثْنَیْ عَشَرَ یَوْمًا , وَقُتِلَ وَهُوَ ابْنُ اثْنَتَیْنِ وَثَمَانِینَ سَنَةً

اس وقت آپ کی عمر۸۲سال کی تھی اورمدت خلافت تقریباًبارہ سال کی تھی۔[38]

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں  فرمائی تھی،

أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ:اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَیْكَ نَبِیٌّ، وَصِدِّیقٌ، وَشَهِیدَانِ

انس  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ احدپہاڑپرچڑھے توپہاڑ(خوشی سے)لرزنے لگارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پراپناپاؤں  مبارک مارتے ہوئے فرمایااے احد!ٹھہرجااس لیے کہ تجھ پرایک پیغمبر،ایک صدیق اوردوشہیدہیں ۔[39]

وَقَالَ عَلِی لابنیه:كَیْفَ قتل أمِیر الْمُؤْمِنیِنَ وأنتما عَلَى الباب؟ ورفع یده فلطم الْحَسَن وضرب صدر الْحُسَیْن وشتم مُحَمَّد بْن طَلْحَةَ ولعن عَبْد اللهِ بْن الزُّبَیْر

جب سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  شہیدکردیے گئے توسیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں  سے سختی سے دریافت کیاجب تم سیدناعثمان کے دروازے پرپہرہ دے رہے تھے توامیرالمومنین کیسے قتل ہو گئے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کوتھپڑمارااورحسین  رضی اللہ عنہ کے سینے پرضرب لگائی اورمحمدبن طلحہ اورعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوبرابھلاکہا۔[40]

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا، وَعَظَّمَهَا، قَالَ: ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنِّعٌ فِی مِلْحَفَةٍ، فَقَالَ:هَذَا یَوْمَئِذٍ عَلَى الْحَقِّ فَانْطَلَقْتُ مُسْرِعًا، أَوْ قَالَ: مُحْضِرًا، فَأَخَذْتُ بِضَبْعَیْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هَذَا فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

کعب بن عجرہ بلوی کہتے ہیں  ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ ارشادفرمایاجس میں  مسلمانوں  کی آئندہ خانہ جنگی کاذکرفرمایا،کعب  رضی اللہ عنہ بھی سامعین میں  موجودتھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطبہ سے بہت متاثرہوئے اوریوں  محسوس کیاکہ خانہ جنگی کابھیانک دورگویاان کے سامنے آگیاہے، اتنے میں  کوئی صاحب چادراوڑھے وہاں  سے گزرے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایااس روزیہ شخص حق پرہوگاکعب  رضی اللہ عنہ یہ سن کرفوراًاٹھے اوران صاحب کابازوپکڑکرکہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ شخص؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،اب کعب  رضی اللہ عنہ نے ان کے چہرے پر نظر ڈالی تووہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان تھے۔[41]

نمازجنازہ پڑھی گئی:

آپ رضی اللہ عنہ  کی میت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،طلحہ   رضی اللہ عنہ ،عبداللہ زبیر رضی اللہ عنہ ،کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ ،زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  اورحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  ،جبیربن معطم  رضی اللہ عنہ ،نیاربن مکرم  رضی اللہ عنہ ،عبیداللہ جن کی کنیت ابوجہم بن حذیفہ القرشی رضی اللہ عنہ نے اٹھائی،

فَصَلَّى عَلَیْهِ جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ،وَخَلْفَهُ حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ وَأَبُو جَهْمِ بْنُ حُذَیْفَةَ ونیار ابن مُكْرَمٍ الأَسْلَمِیُّ وَنَائِلَةُ بِنْتُ الْفُرَافِصَةِ وَأُمُّ الْبَنِینَ بِنْتُ عُیَیْنَةَ امْرَأَتَاهُ، وَنَزَلَ فِی حُفْرَتِهِ نِیَارُ بْنُ مُكْرَمٍ وَأَبُو جَهْمِ بْنُ حُذَیْفَةَ وَجُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ حَتَّى وَارَیْنَاهُ فی قبره فی حَشِّ كَوْكَبٍ  وَتَفَرَّقُوا

جبیربن مطعم  رضی اللہ عنہ نے نمازجنازہ پڑھی ،اوران کے پیچھے حکیم بن حزام ،ابوجہم بن حذیفہ ،نیاربن مکرم الاسلمی اورعثمان  رضی اللہ عنہ کی دوبیویاں  نائلہ بنت الفرافصہ اورام البنین بنت عیینہ تھیں  ، قبرمیں  نیاربن مکرم ،ابوجہم بن حذیفہ اورجبیربن مطعم اترے اورمغرب اورعشاءکے درمیان اندھیرے میں  بقیع مشرقی جانب حش کوکب (پھلوں  کے باغ) میں  (جوانہیں  کی ملکیت تھااورانہوں  نے اپنی زندگی میں  اسے خریدکرقبرستان بقیع میں  اضافہ کردیا) میں  سپرد خاک کردیااورباغیوں  کے خوف سے منتشرہوگئے۔[42]

آپ رضی اللہ عنہ  سے ۱۴۶ احادیث مروی ہیں ۔

سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کی شہادت پرصحابہ کرام کے تاثرات :

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْأَنْصَارِیِّ.قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ جِئْتُ عَلِیًّا وَهُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ وَعَلَیْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ فَقُلْتُ لَهُ: قُتِلَ عُثْمَانُ، فَقَالَ: تَبًّا لَهُمْ آخِرَ الدَّهْرِ.

ابوجعفرانصاری نے بیان کیاجب سیدناعثمان شہیدہوگئے تومیں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کے پاس آیااس وقت آپ مسجدمیں  سیاہ عمامہ پہنے ہوئے بیٹھے تھے میں  نے آپ سے پوچھا سیدنا عثمان شہیدکردیئے گئے آپ نے فرمایاان پر(قتل کرنے والوں  پر)ہمیشہ ہمیشں  کے لیے ہلاکت وبربادی ہو۔

قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ یَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ: وَاللهِ مَا قَتَلْتُ وَلَا أَمَرْتُ ولكنی غلبت

ایک روایت میں  ہے جس روزسیدناعثمان شہیدکردیئے گئے توسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے فرمایااللہ کی قسم !نہ میں  نے قتل کیا ہے اورنہ میں  نے حکم دیاہے لیکن میں  مغلوب ہوگیاتھا۔

أَنَّهُ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ خَیْرَنَا وَأَوْصَلَنَا لِلرَّحِمِ، وَأَشَدَّنَا حَیَاءً، وَأَحْسَنَنَا طُهُورًا، وَأَتْقَانَا لِلرَّبِّ عزَّ وَجَلَّ

ایک روایت میں  ہےآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ہمارے بہترین شخص تھے اورہم سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اورہم سے زیادہ حیادار اور ہم سے اچھے پاکیزہ اورہم سے زیادہ رب عزوجل سے ڈرنے والے تھے۔[43]

وقال علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: من تبرأ من دین عُثْمَان فقد تبرأ من الإیمان، والله مَا أعنت على قتله، ولا أمرت ولا رضیت

ایک روایت میں  ہےسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاجوکوئی سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے دین پرتبراکرے اس نے اپنے ایمان پرتبراکیا،اللہ کی قسم !میں  نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے قتل میں  کوئی معاونت نہیں  کی،اورنہ ہی میں  نے حکم دیااورنہ ہی میں  اس امرپرراضی تھا۔[44]

عَائِشَةَ تَقُولُ: قُتِلَ مَظْلُومًا لَعَنَ اللَّهُ قَتَلَتَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایاآپ کومظلومانہ طورپرقتل کردیاگیااللہ تعالیٰ آپ کے قاتلین پرلعنت کرے۔

عَنْ حُذَیْفَةَ أَنَّهُ قَالَ: أَوَّلُ الْفِتَنِ قَتْلُ عُثْمَانَ، وآخر الفتن الدجال.

حذیفہ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاسب سے پہلافتنہ قتل عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  ہے اورسب سے آخری فتنہ دجال ہوگا [45]

عبداللہ  رضی اللہ عنہ بن سلام نے کہاقتل عثمان غنی سے فتنوں  کاجودروازہ کھل گیاوہ اب تاقیامت بندنہ ہوسکے گا۔

حسان بن ثابت،کعب بن مالک، حمید بن ثورالہلالی،قاسم بن امیہ بن صامت،زینب بنت عوام نے ان کی وفات پرالم انگیزمرثیے لکھے۔

سیدناعثمان کاترکہ :

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ:كَانَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ عِنْدَ خَازِنِهِ یَوْمَ قُتِلَ ثَلَاثُونَ أَلْفَ أَلْفِ دِرْهَمٍ وَخَمْسُمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ وَخَمْسُونَ وَمِائَةُ أَلْفِ دِینَارٍ فَانْتُهِبَتْ وَذَهَبَتْ , وَتَرَكَ أَلْفَ بَعِیرٍ  بِالرَّبَذَةِ , وَتَرَكَ صَدَقَاتٍ كَانَ تَصَدَّقَ بِهَا بِبَرَادِیسَ وَخَیْبَرَ وَوَادِی الْقُرَى، قِیمَةَ مِائَتَیْ أَلْفِ دِینَارٍ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے مروی ہےجس روزسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ شہیدکیے گئے اس روزان کے خزانہ دارکے پاس تیس کروڑ پانچ لاکھ درہم اورڈیڑھ لاکھ دینارتھے ،وہ لوٹ لیے گئے اورچلے گئے،انہوں  نے ربزہ میں  ایک ہزاراونٹ چھوڑے، اوربرادیس ،خیبراوروادی القریٰ میں  دولاکھ دینارکی مالیت کے صدقات چھوڑے جنہیں  وہ صدقہ کیاکرتے تھے۔[46]

كَانَ لِعُثْمَانَ عِنْدَ خَازِنِهِ یَوْمَ قُتِلَ، ثَلَاثُونَ أَلْفَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَخَمْسُمِائَةِ أَلْفِ درهم، وَمِائَةُ أَلْفِ دِینَارٍ ، فَانْتُهِبَتْ وَذَهَبَتْ،  وَتَرَكَ أَلْفَ بَعِیرٍ بِالرَّبَذَةِ، وَتَرَكَ صَدَقَاتٍ كَانَ تَصَدَّقَ بِهَا، بئر أریس، وخیبر، ووادی القرى، فیه مائتا ألف دینار ،وبئر رومة كان اشتراها فِی حَیَاةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وسبلها

جس روزسیدناعثمان قتل ہوئے اس روزآپ کے خزانچی کے پاس آپ کے تیس کروڑپانچ لاکھ درہم اورایک لاکھ دینارتھے جولوٹ لیے گئے اورضائع ہوگئے،آپ نے ربذہ میں  ایک ہزاراونٹ چھوڑے اورصدقات بھی چھوڑے،اورآپ نے بئر اریس ،خیبر،وادی القریٰ جس میں  دولاکھ دینارتھے،اوربئر رومہ کوصدقہ کردیاجسے آپ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی میں  خریداتھااور اللہ کی راہ میں دے دیا۔[47]

[1] البدایة والنہایة۲۱۴؍۷

[2] تاریخ طبری۲۴۳؍۴

[3] وفاء الوفا۸۲؍۲

[4] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۸۲؍۲

[5] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۸۲؍۲

[6] وفاء الوفا۸۲؍۲

[7]وفاء الوفا۸۶؍۲

[8] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ الخَوْخَةِ وَالمَمَرِّ فِی المَسْجِدِ۴۶۶ ، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۱۷۰

[9] فتح الباری ۱۴؍۷ ،وفاء الوفا۷۷؍۲

[10] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ بُنْیَانِ المَسْجِدِ۴۴۶، سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ۴۵۱

[11] وفاء الوفا۸۴؍۲

[12] تاریخ طبری ۲۶۷؍۴، البدایة والنہایة ۱۷۳؍۷،وفاء الوفا۸۵؍۲

[13] وفاء الوفا۸۸؍۲

[14]وفاء الوفا ۱۵۰؍۲

[15]وفاء الوفا۸۱؍۲،فتح الباری ۵۴۴؍۱

[16]وفاء الوفا ۸۱؍۲

[17] وفاء الوفا۸۹؍۲

[18] البدایة والنہایة ۸۹؍۹ ، تاریخ طبری  ۴۳۵؍۶، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ۲۸۳؍۶

[19] آثارالمدینہ ۱۰۴تا۱۱۰

[20] فتح الباری۹؍۹

[21] فتح الباری ۳۰؍۹

[22] فتح الباری ۱۸؍۹

[23]الاتقان فی علوم القرآن۲۰۲؍۱،الاصلان فی علوم القرآن۱۱۰؍۱

[24] مستدرک حاکم۲۹۰۱

[25] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ مَنْ قَالَ لَمْ یَتْرُكِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَا بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ ۵۰۱۹

[26] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشر  بَابُ  وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ۴۸۸۶

[27] صحیح بخاری کتاب الاذان  بَابٌ أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ ۶۸۰

[28] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشر  بَابُ  وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ۴۸۸۶، صحیح مسلم کتاب اللباس والزینة  بَابُ تَحْرِیمِ فِعْلِ الْوَاصِلَةِ وَالْمُسْتَوْصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ وَالْمُسْتَوْشِمَةِ وَالنَّامِصَةِ وَالْمُتَنَمِّصَةِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ وَالْمُغَیِّرَاتِ خَلْقِ اللهِ۵۵۷۳،سنن ابوداودکتاب  الترجل بَابٌ فِی صِلَةِ الشَّعْرِ ۴۱۶۹

[29]صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ تَأْلِیفِ القُرْآنِ۴۹۹۳

[30] تاریخ طبری۲۸۱؍۴

[31] تاریخ دمشق ۲۶۳؍۳۹

[32] ابن سعد۴۹؍۳

[33] انساب الاشراف للبلاذری۵۵۸؍۵

[34] انساب الاشراف للبلاذری۵۵۸؍۵

[35] انساب الاشراف للبلاذری۵۵۸؍۵

[36] دلائل النبوةللبیهقی۳۹۱؍۶

[37] ابن سعد۷۵؍۳

[38] ابن سعد۷۷؍۳

[39] صحیح بخاری کتاب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا۳۶۷۵

[40] انساب الاشراف للبلاذری۵۵۹؍۵

[41] مسنداحمد۱۸۱۱۸

[42] ابن سعد ۵۱؍۳

[43] البدایة والنہایة۲۱۵،۲۱۶؍۷

[44] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۴۴؍۳

[45] البدایة والنہایة۲۱۴تا۲۱۸؍۷

[46] ابن سعد۷۶؍۳

[47] البدایة والنہایة۲۱۴؍۷

Related Articles