ہجرت نبوی کا گیارھواں سال

خلیفہ کاانتخاب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تجہیزوتدفین سے پہلے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ امیرکاتقررہوجائے اوراس کی امارت میں  تمام امورانجام پائیں اورکوئی وقت بھی مسلمانوں  پر ایسا نہ گزرے کہ وہ بے امیرزندگی گزاریں ،لہذااس مقصدکے لئے انصاربنوساعدہ کے سائبان میں  جمع ہوگئے،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کوخبرہوئی(توانہوں  نے بھی اس معاملہ کواہم سمجھا)

 قَالَ عُمَرُ: وَإِنَّا وَاللهِ مَا وَجَدْنَا فِیمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَایَعَةِ أَبِی بَكْرٍوَانْحَازَ بَقِیَّةُ الْمُهَاجِرِینَ إلَى أَبِی بَكْرٍ، وَانْحَازَ مَعَهُمْ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، فِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ،فَأَتَى آتٍ إلَى أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ: إنَّ هَذَا الْحَیَّ مِنْ الْأَنْصَارِ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ، قَدْ انْحَازُوا إلَیْهِ، فَإِنْ كَانَ لَكُمْ بِأَمْرِ النَّاسِ حَاجَةٌ فَأَدْرِكُوا قَبْلَ أَنْ یَتَفَاقَمَ أَمْرُهُمْ، قَالَ عُمَرُ:فَقُلْتُ لِأَبِی بَكْرٍ: انْطَلِقْ بِنَا إلَى إخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ

وہ خودفرماتے ہیں  کہ اللہ کی قسم جوامورہمیں  درپیش تھے ان میں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بیعت سے زیادہ اہم کوئی کام نہ تھا (لہذا) باقی تمام مہاجرین اسیدبن حضیربنی عبدالاشہل میں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پاس جمع ہوگئے، اسی وقت ایک شخص نے آکربیان کیاکہ سب انصارسعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں  جمع ہوگئے ہیں  ،اگرتم لوگوں  کواس بات کی کچھ ضرورت ہےتوتم انصارکے پاس جاؤایسانہ ہوجائے کہ معاملہ بڑھ جائے،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے کہاہمیں  بھی انصاری بھائیوں  کے پاس چلناچاہیے دیکھیں  توسہی کہ ہمارے انصاربھائی کیاکررہے ہیں ۔[1]

فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّهُمْ

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  چلنے کے لئے تیارہوگئے ۔

(سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  ،زبیر رضی اللہ عنہ  اور کچھ اورلوگوں  کے علاوہ) تمام مہاجرین سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے۔

حتَّى لَقِیَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَكَرَا لَنَا الَّذِی صَنَعَ الْقَوْمُ فَقَالَا: أَیْنَ تُرِیدُونَ یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ؟فَقُلْتُ نُرِیدُ إِخْوَانَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَا: لَا عَلَیْكُمْ.أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ وَاقْضُوا أَمْرَكُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ،فَقُلْتُ: وَاللهِ لَنَأْتِیَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حتَّى جِئْنَاهُمْ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ،فَإِذَا هُمْ مُجْتَمِعُونَ وَإِذَا بَیْنَ ظَهْرَانَیْهِمْ رَجُلٌ مُزَّمَّلٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟قَالُوا: سعد بن عبادة، فقلت ماله، قَالُوا:وَجِعٌ فَلَمَّا جَلَسْنَا

راستہ میں  دونیک بخت انصاریوں (معن  رضی اللہ عنہ بن عدی اورعویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ) سے ملاقات ہوئی ،انہوں  نے انصارکے مطمع نظرکی وضاحت کی پھرپوچھااے مہاجرین کی جماعت!تم لوگ کہاں  جارہے ہو؟ان لوگوں  نے کہاہم انصاری بھائیوں  کی طرف جارہے ہیں ،ان انصاریوں  نے کہاتمہیں  وہاں نہیں  جاناچاہیےتم اپناکام کرلو(یعنی خلیفہ منتخب کرلووہ بھی راضی ہوجائیں  گے)سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہااللہ کی قسم! ہم ان کے پاس ضرورجائیں  گے(اس گفت وشنید کے بعد)مہاجرین سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے،ان لوگوں  کے درمیان میں  ایک صاحب کمبل اوڑھے بیٹھے تھے،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہایہ کون ہیں ؟لوگوں  نے کہایہ سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  ہیں ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہاان کی طبیعت کیسی ہے؟ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہاان کو بخار ہے ، انصارانہیں  امیربنانے کے لئے ان کے مکان سے نکال لائے تھے، پھرتھوڑی دیرمہاجرین وہاں  بیٹھے رہے۔

قَامَ خَطِیبُهُمْ: فَأَثْنَى عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ وَكَتِیبَةُ. الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ یا معشر المهاجرین رهط نبینا وقد دفت دافة منكم تریدون أن تختزلونا من أصلنا، وتحصنونا مِنَ الْأَمْرِ

کچھ دیر بعد انصارکے خطیب سعد  رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے تقریرشروع کی،حمدوثناکے بعداس نے کہاامابعد!ہم اللہ کےانصارہیں اوراسلام کے لشکرہیں ،اے مہاجرین !تم ہمارے نبی کاقبیلہ ہوتم میں  سے ایک جلدبازنے کہاہے کہ تم ہمیں  اپنی جڑسے الگ کرناچاہتے ہواور ہم سے ہماراحق خلافت غصب کرناچاہتے ہو۔[2]

یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، لَكُمْ سَابِقَةٌ وَفَضِیلَةٌ لَیْسَتْ لِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ، إِنَّ مُحَمَّدًا – صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – لَبِثَ فِی قَوْمِهِ بِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً یَدْعُوهُمْ، فَمَا آمَنَ إِلَّا الْقَلِیلُ، مَا كَانُوا یَقْدِرُونَ عَلَى مَنْعِهِ وَلَا عَلَى إِعْزَازِ دِینِهِ، وَلَا عَلَى دَفْعِ ضَیْمٍ، حَتَّى إِذَا أَرَادَ بِكُمُ الْفَضِیلَةَ سَاقَ إِلَیْكُمُ الْكَرَامَةَ، وَرَزَقَكُمُ الْإِیمَانَ بِهِ وَبِرَسُولِهِ، وَالْمَنْعَ لَهُ وَلِأَصْحَابِهِ، وَالْإِعْزَازَ لَهُ وَلِدِینِهِ، وَالْجِهَادَ لِأَعْدَائِهِ، فَكُنْتُمْ أَشَدَّ النَّاسِ عَلَى عَدُوِّهِ حَتَّى اسْتَقَامَتِ الْعَرَبُ لِأَمْرِ اللهِ طَوْعًا وَكَرْهًا، وَأَعْطَى الْبَعِیدُ الْمُقَادَةَ صَاغِرًا، فَدَانَتْ لِرَسُولِهِ بِأَسْیَافِكُمُ الْعَرَبُ، وَتَوَفَّاهُ اللهُ وَهُوَ عَنْكُمْ رَاضٍ قَرِیرُ الْعَیْنِ. اسْتَبِدُّوا بِهَذَا الْأَمْرِ دُونَ النَّاسِ، فَإِنَّهُ لَكُمْ دُونَهُمْ.

اورایک روایت میں  یوں  ہےاے گروہ انصار!تم کودین اسلام کے بارے میں  ایسی سبقت اورفضیلت حاصل ہے جوعرب میں  سوائے تمہارے کسی کوحاصل نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قوم میں  تیرہ برس اسلام کی دعوت دیتے رہے مگراس دوران بہت تھوڑے لوگ آپ پرایمان لائے جن میں  یہ طاقت نہ تھی کہ وہ آپ کی حفاظت کرسکتے اورنہ ان میں  آپ کے دین کوعزت دینے اورسربلندکرنے کی طاقت تھی یہاں  تک ان میں  یہ بھی طاقت نہ تھی کہ کسی دشمن کے ظلم کوخودسے ہٹاسکیں ،اللہ تعالیٰ نے جب تم کوفضیلت دیناچاہی توعزت وکرامت کاسامان تم تک پہنچایااورتم کوایمان لانے کی توفیق بخشی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کے اصحاب کی حفاظت تم سے کرائی اور اپنے دین کی عزت تم سے کرائی اوراللہ کے دشمنوں  سے تم نے جہادکیااوراللہ کے دشمنوں  پرتم سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے ،یہاں  تک کہ تمام عرب حکم خداوندی کے سامنے جھک گیااوردوروالوں  نے بھی مجبورومقہورہوکرگردن ڈال دی اورتمہاری تلواروں  سے تمام عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمانبردار بنااورپھراللہ نے اپنے نبی کووفات دی اورجب انہوں  نے دنیاسے رحلت کی تووہ تم سے راضی تھے اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں  تم سے ٹھنڈی تھیں ،پس تم ہی اس منصب خلافت کو حاصل کرو،یہ تمہاراحق ہے اوروں  کانہیں ۔[3]

فَأَجَابُوهُ بِأَجْمَعِهِمْ: أَنْ قَدْ وُفِّقْتَ وَأَصَبْتَ الرَّأْیَ، وَنَحْنُ نُوَلِّیكَ هَذَا الْأَمْرَ، فَإِنَّكَ مَقْنَعٌ وَرِضًا لِلْمُؤْمِنِینَ. ثُمَّ إِنَّهُمْ تَرَادُّوا الْكَلَامَ فَقَالُوا: وَإِنْ أَبَى الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قُرَیْشٍ، وَقَالُوا: نَحْنُ الْمُهَاجِرُونَ وَأَصْحَابُهُ الْأَوَّلُونَ، وَعَشِیرَتُهُ وَأَوْلِیَاؤُهُ؟ ! فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: فَإِنَّا نَقُولُ: مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْكُمْ أَمِیرٌ، وَلَنْ نَرْضَى بِدُونِ هَذَا أَبَدًافَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا أَوَّلُ الْوَهَنِ، فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَقَدْ زَوَّرَتْ  فِی نَفْسِی مَقَالَةٌ قَدْ أَعْجَبَتْنِی، أُرِیدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَیْنَ یَدَیْ أَبِی بَكْرٍ، وَكُنْتُ أَدَارِی مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ  ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ یَا عُمَرَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ، وَهُوَ كَانَ أَعْلَمَ منى وأوقر، فو الله مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِی مِنْ تَزْوِیرِی إلَّا قَالَهَا فِی بَدِیهَتِهِ، أَوْ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ

وہاں  پرموجودلوگوں  نے سعدبن عبادہ کی اس تقریرکوبہت پسندکیااورہرطرف سے تحسین کی آوازبلندہوئی،سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  کی تقریرکے بعداس مسئلہ پربحث شروع ہوگئی، مہاجرین نے اس پراعتراض کیاانہوں  نے کہا ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ سے ہیں اورہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سب سے پہلے ایمان لائے،اپنے اقارب اوروطن سب کوخیر آباد کہہ کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اس پربعض انصار نے یہ کہاکہ دوامیرمنتخب کر لو ایک امیر تم میں  سے ہواورایک امیرانصارمیں  سے ہواوردونوں  امیرباہم صلاح مشورہ سے خلافت کاکام سرانجام دیں   اس کے سواہم اورکسی بات پرکبھی رضامندنہیں  ہوں  گے ،سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  نے کہایہ پہلی کمزوری ہے،جب یہ شخص خاموش ہوگیاتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیناچاہالیکن سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے انہیں  کہا اے عمر  رضی اللہ عنہ ! ٹھہرو ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  اللہ کی قسم ! میں  نے گفتگوکاارادہ اس لئے کیاتھا کہ میں  نے اپنے دل میں  ایسی بات سوچی تھی جومجھے اچھی معلوم ہورہی تھی مجھے اندیشہ تھاکہ کہیں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی رسائی اس بات تک نہ ہو لیکن میں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوخفابھی نہیں  کرناچاہتاتھا (اس لئے رک گیا ) سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوئے اور تقریرشروع کی اوربڑی بلیغ تقریر کی،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  جوباتیں  میں  نے سوچی تھیں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان باتوں  کواسی طرح یااس سے زیادہ خوش اسلوبی سے بیان کیاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہا۔

إِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ فِینَا رَسُولًا شَهِیدًا عَلَى أُمَّتِهِ لِیَعْبُدُوهُ وَیُوَحِّدُوهُ، وَهُمْ یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً شَتَّى مِنْ حَجَرٍ وَخَشَبٍ، فَعَظُمَ عَلَى الْعَرَبِ أَنْ یَتْرُكُوا دِینَ آبَائِهِمْ. فَخَصَّ اللهُ الْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ مِنْ قَوْمِهِ بِتَصْدِیقِهِ وَالْمُوَاسَاةِ لَهُ، وَالصَّبْرِ مَعَهُ عَلَى شِدَّةِ أَذَى قَوْمِهِمْ لَهُمْ وَتَكْذِیبِهِمْ إِیَّاهُمْ، وَكُلُّ النَّاسِ لَهُمْ مُخَالِفٌ زَارٍ عَلَیْهِمْ، فَلَمْ یَسْتَوْحِشُوا لِقِلَّةِ عَدَدِهِمْ وَشَنَفِ النَّاسِ لَهُمْ، فَهُمْ أَوَّلُ مَنْ عَبَدَ اللهَ فِی هَذِهِ الْأَرْضِ، وَآمَنَ بِاللهِ وَبِالرَّسُولِ، وَهُمْ أَوْلِیَاؤُهُ وَعَشِیرَتُهُ، وَأَحَقُّ النَّاسِ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ بَعْدِهِ، لَا یُنَازِعُهُمْ إِلَّا ظَالِمٌ، وَأَنْتُمْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَنْ لَا یُنْكَرُ فَضْلُهُمْ فِی الدِّینِ وَلَا سَابِقَتُهُمْ فِی الْإِسْلَامِ، رَضِیَكُمُ اللهُ أَنْصَارًا لِدِینِهِ وَرَسُولِهِ، وَجَعَلَ إِلَیْكُمْ هِجْرَتَهُ، فَلَیْسَ بَعْدَ الْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَتِكُمْ، فَنَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، لَا تُفَاوَتُونَ بِمَشُورَةٍ، وَلَا تُقْضَى دُونَكُمُ الْأُمُورُ

بیشک اللہ نے ہم میں  ایک رسول بھیجاتاکہ وہ امت کی نگرانی کرے تاکہ لوگ ایک اللہ کی عبادت کریں  اوریہ لوگ آپ کی بعثت سے پہلے پتھروں  اور لکڑی کے بنائے ہوئے بتوں  کی پرستش کرتے تھے،عرب کواپنے آبائی دین کاچھوڑنابہت گراں  گزرا،اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قوم میں  سے مہاجرین اولین کوتوفیق بخشی کہ سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصدیق اورسب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےغمگساربنے،اورقوم کی طرف سے جوسخت سے سخت تکالیف پہنچیں  ان پرصبرکیاحالانکہ اس وقت تمام لوگ ان کے مخالف تھے مگرباوجودقلت تعدادکے لوگوں  کی دشمنی سے گھبرائے نہیں  اوراس حالت میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاساتھ نہیں  چھوڑا،چنانچہ مہاجرین اولین تمام لوگوں  میں  سب سے اول ہیں  جنہوں  نے روئے زمین پراللہ کی عبادت کی اوراللہ اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لائے اوریہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قرابت داراورکنبہ دارہیں  اوریہی لوگ آپ کے بعدامرخلافت کے سب سے زیادہ حقدارہیں  اس معاملہ میں  سوائے ظالم کے کوئی ان سے نہیں  جھگڑسکتااوراے گروہ انصار!تمہاری فضیلت اوردین اسلام میں  سبقت کاکسی کو انکار نہیں  ،اللہ نے تم کوپسندکیاکہ اپنے رسول کا اوراپنے دین کامددگاربنائے اوراپنے رسول کوتمہاری طرف ہجرت کرائی ،پس مہاجرین اولین کے بعدہمارے نزدیک تمہاراہی مرتبہ ہے کسی اورشخص کانہیں  پس ہم امیرہیں  اورتم ہمارے وزیرہو،بغیرتمہارے مشورہ کے امورانجام نہیں  دیئے جائیں  گے۔[4]

ایک روایت میں  سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کے الفاظ یوں  ہیں ۔

أَمَّا مَا ذَكَرْتُمْ فِیكُمْ مِنْ خَیْرٍ، فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ تَعْرِفَ الْعَرَبُ هَذَا الْأَمْرَ إلَّا لِهَذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا  وَدَارًاوَقَدْ رَضِیتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ

اے گروہ انصار!تم نے اپنے جومحاسن اورفضائل بیان کئے ہیں  یقیناتم ان کے لائق ہو، مگر امرخلافت توقریش ہی کے واسطے مناسب ہے کیونکہ قریش باعتبار گھرانے کے عمدہ اورفضائل میں  واضح ترہیں ،اہل عرب اس امرخلافت کوسوائے قبیلہ قریش کے کسی اورکے لئے قبول نہیں  کریں  گےمجھے یہ پسند ہے کہ ان دونوں  میں  سے کوئی بھی خلیفہ بنا لیا جائے(یعنی عمر اور ابو عبیدہ بن الجراح )۔[5]

ایک روایت میں  سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی تقریریوں  ہے۔

یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ إنا والله ما ننكر فضلكم ولا بلاغكم فی الإسلام، ولا حقكم الواجب علینا ولكنكم قد عرفتم أن هذا الحی من قریش بمنزلة من العرب فلیس بها غیرهم وأن العرب لن تجتمع إلا على رجل منهم فنحن الأمراء وأنتم الوزراء، فاتقوا الله ولا تصدعوا الإسلام ولا تكونوا أول من أحدث فی الإسلام ألا وقد رضیت لكم أحد هذین الرجلین لی ولأبی عبیدة بن الجراح فأیهما بایعتم فهو لكم ثقة

اے گروہ انصار!اللہ کی قسم!ہم تمہاری فضیلت اوراسلام کی خدمت اوراعانت اورتمہارے حق واجب کے منکرنہیں لیکن تم خوب جانتے اورپہچانتے ہوکہ قبیلہ قریش کو عزت ووجاہت کاجومرتبہ ملک عرب میں  حاصل ہے وہ کسی دوسرے قبیلہ کوحاصل نہیں  اورعرب کے باشندے سوائے قریش کے کسی اورشخص کی امارت پرمتفق نہیں  ہوسکتے ( اور بغیرملک کے اتفاق کے کارخانہ امارت نہیں  چل سکتا)اس لئے قریش امراء ہوں  گے اورانصاروزیرہوں  گے ،پس اے انصار!اللہ سے ڈرواوراسلام میں  سب سے پہلے بدعت جاری کرنے والے تم نہ بنواورمیری رائے یہ ہے کہ خلافت اورامارت کے لئے یہ دوآدمی پسندیدہ ہیں  ایک سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اورایک ابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ  ابن الجراح،ان میں  سے جس کے ہاتھ پر بھی بیعت کروگے وہ تمہاراقابل وثوق اورقابل اطمینان امیرہوگا۔[6]

وَلَمْ أَكْرَهْ شَیْئًا مِمَّا قَالَهُ غَیْرُهَا، كَانَ وَاَللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبُ عُنُقِی، لَا یُقَرِّبُنِی ذَلِكَ إلَى إثْمٍ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِیهِمْ أَبُو بَكْرٍ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کی یہ بات مجھ کوناگوارگزری کیونکہ مجھے اپنی گردن کاکاٹاجاناآسان معلوم ہوتاتھااس بات سے کہ میں  ان لوگوں  کاسرداربنوں  جن میں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  موجودہوں ۔[7]

اس کے جواب میں  حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوریوں  کہا۔

فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، امْلِكُوا عَلَیْكُمْ أَمْرَكُمْ، فَإِنَّ النَّاسَ فِی فیئكم وفی ظِلِّكُمْ، وَلَنْ یَجْتَرِئَ مُجْتَرِئٌ عَلَى خِلَافِكُمْ ولن یصدر النَّاسُ إِلَّا عَنْ رَأْیِكُمْ، أَنْتُمْ أَهْلُ الْعِزِّ والثروة، وَأُولُو الْعَدَدِ وَالْمَنْعَةِ والتجربة،وَذَوُو الْبَأْسِ والنجدة،وَإِنَّمَا یَنْظُرُ النَّاسُ مَا تَصْنَعُونَ، وَلَا تَخْتَلِفُوا فَیَفْسَدَ عَلَیْكُمْ رأیكم، وینتقض علیكم أَمْرُكُمْ، فإن أَبَى هَؤُلَاءِ إِلَّا مَا سَمِعْتُمْ، فَمِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْكُمْ أَمِیرٌ

اے گروہ انصارتم اس معاملہ میں  کسی کی بات نہ سنواورعنان حکومت خوداپنے ہاتھ میں  لے لو،تمام لوگ تمہارے زیرسایہ ہیں  کسی کوتمہاری مخالفت کی جرات نہ ہوگی اورکوئی شخص تمہاری رائے سے سرتابی نہیں  کرے گا،تم عزت والے،دولت والے،طاقت اورشوکت والے،تجربہ کاردلیراوربہادرہو،لوگوں  کی نظریں  تمہاری طرف اٹھی ہوئی ہیں  تم اس بات میں  اختلاف نہ کروورنہ معاملہ خراب ہوجائے گااوربات بگڑجائے گی تم نے سناہم نے جوتجویزپیش کی تھی کہ ایک امیر ہماراہواورایک امیرتمہاراہواوروہ دونوں  مل کرمعاملہ چلائیں  اسے بھی انہوں  نے نہیں  مانا۔[8]

یہ روایت ا لفاظ کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ   الكامل فی التاریخ۱۹۰؍۲میں  بھی موجود ہے۔

اس تجویزپرآوازیں  بلندہونے لگیں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہا نہیں  (یہ ٹھیک نہیں ،کہیں  دوامیربھی ہوسکتے ہیں )

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ:قَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْكُمْ أَمِیرٌ، فَأَتَاهُمْ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ أَمْرَ أَبَا بَكْرٍ، أَنْ یُصَلِّی بِالنَّاسِ؟ فَأَیُّكُمْ تَطِیبُ نَفْسُهُ أَنْ یَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب انصارنے یہ کہاکہ ایک امیرہم سے اورایک امیرتم سے ہو توسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہااے معشرانصار!تم کومعلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیاکہ ابوبکرلوگوں  کی امامت کریں ،  پس تم میں  سے کون شخص ہے کہ جوسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  پرپیش قدمی کرناپسندکرے ؟انصارنے کہااللہ کی پناہ کہ ہم سیدنا ابوبکرپرپیش قدمی کریں ۔[9]

وَلَقِدْ عَلِمْتَ یَا سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  وَأَنْتَ قَاعِدٌ  قُرَیْشٌ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِفَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْأُمَرَاءُ،

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہااے سعد  رضی اللہ عنہ !آپ جانتے ہیں  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے اورآپ بیٹھے ہوئے تھے کہ  خلفاء اور امراء قریش میں  سے ہوں  گے، سعدانصاری نے کہا آپ نے سچ فرمایاہے ہم وزراء ہیں  اورآپ لوگ امراء ہیں ۔[10]

دیگر انصارومہاجرین نے بھی اس حدیث کی تصدیق کی،سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  نے بھی اس روایت کا اعتراف کیا۔

عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِی طَائِفَةٍ مِنَ الْمَدِینَةِ، قَالَ: فَجَاءَ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ فَقَبَّلَهُ، وَقَالَ:فِدًى لَكَ أَبِی وَأُمِّی، مَا أَطْیَبَكَ حَیًّا  وَمَیِّتًا، مَاتَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَذَكَرَ الْحَدِیثَ قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ یَتَقَاوَدَانِ حَتَّى أَتَوْهُمْ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ یَتْرُكْ شَیْئًا أُنْزِلَ فِی الْأَنْصَارِ وَلا ذَكَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَأْنِهِمْ، إِلَّا وَذَكَرَهُ وَقَالَ: وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِیًا، وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِیًا، سَلَكْتُ وَادِیَ الْأَنْصَارِوَلَقَدْ عَلِمْتَ یَا سَعْدُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَأَنْتَ قَاعِدٌ قُرَیْشٌ وُلاةُ هَذَا الْأَمْرِ، فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِبَرِّهِمْ، وَفَاجِرُهُمْ تَبَعٌ لِفَاجِرِهِمْ ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَاءُ، وَأَنْتُمُ الْأُمَرَاءُ

سیدنا حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں  کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاانتقال ہوگیاتوسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  اسوقت اپنے گھرپرتھے فوراًآئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہ انورسے چادر مبارک اٹھائی اوربوسہ دیااور فرمایا میرے ماں  باپ آپ پر فربان، آپ کی زندگی اور موت دونوں  پاکیزہ ہیں  رب کعبہ کی قسم! رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پا چکے ہیں تو بعدمیں  جب یہ خبرملی کہ انصارسقیفہ میں  جمع ہیں  توسیدناابوبکروعمرتیزی کے ساتھ انصارکے مجمع میں  پہنچے اورسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کلام کیا،انصارکے فضائل و مناقب میں  جوکچھ بھی نازل ہواتھاسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان میں  سے کوئی چیزبھی ایسی نہیں  چھوڑی کہ جس کااس مجلس میں  ذکراوربیان نہ کیا ہواورجوکچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے متعلق بیان کیاتھا اسے بھی بیان کیا اوریہ کہاکہ تم کومعلوم ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرلوگ ایک وادی میں  چلیں  اورانصاردوسری وادی سے چلیں  تومیں  انصارکی وادی سے چلوں  گااوراللہ کی قسم!اے سعدتم کوخوب معلوم ہے کہ ایک مرتبہ جبکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں  بیٹھے ہوئے تھے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قریش ہی اس امرخلافت کے والی اورمتولی ہوں  گے ان میں  اچھے اچھوں  کے تابع ہیں  اوربرے بروں  کے تابع ہیں ،سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  نے ابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے کہاتم نے سچ کہا،ہم وزراء ہیں  اورتم ہی امراء ہو۔[11]

چنانچہ حباب بن المنذرجوانصارکی خلافت پرمصرتھے اس حدیث کے سنتے ہی ان کابھی خیال بدل گیااورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں  امارت کی بابت جوشوروغل برپاتھا وہ یکلخت دفع ہوگیا اور دوامیروں  کی تجویزختم ہوگئی۔

فَقَامَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه، وقال للأنصار: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَخَلِیفَتُهُ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ، وَنَحْنُ كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللهِ وَنَحْنُ أَنْصَارُ خَلِیفَتِهِ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَهُ،ثم أخذ بید أبی بكر رضی الله عنه وقال هذا صاحبكم

کاتب وحی زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مہاجرین میں  سے تھے اس لئے آپ کاخلیفہ مہاجرین میں  سے ہوگا،ہم جس طرح نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعوان وانصاررہے ہیں  اسی طرح ہم خلیفہ رسول کے انصاراورمددگاربن کررہیں  گے ،اورپھرابوبکرکاہاتھ پکڑکرکہایہ تمہارے خلیفہ ہیں  ان سے بیعت کرو۔[12]

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے اختلاف کے اندیشہ سے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے کہا

ابسط یدك نبایعك فلما ذهبا لیبایعاه، سبقهما إلیه بشیر بن سعد، فبایعه

اپناہاتھ بیعت کے لیے درازکریں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اورابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ  بن الجراح نے چاہاکہ بڑھ کرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے بیعت کریں  لیکن بشیر بن سعد  رضی اللہ عنہ انصاری نے سبقت کی اوراٹھ کرسب سے پہلے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بیعت کی ،پھرمیں (سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  اورپھرابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ ) نے بیعت کی۔[13]

فلما ذهبا لیبایعاه، سبقهما إلیه بشیر بن سعد، فبایعه، فناداه الحباب ابن المنذر: یا بشیر بن سعد: عقتك عقاق، ما أحوجك إلى ما صنعت، أنفست على ابن عمك الإمارة! فَقَالَ: لا والله، ولكنی كرهت أن أنازع قوما حقا جعله اللَّه لهم.ولما رأت الأوس ما صنع بشیر بْن سعد، وما تدعو إلیه قریش، وما تطلب الخزرج من تأمیر سعد بْن عباده، قال بعضهم لبعض، وفیهم اسید ابن حضیر وَكَانَ أحد النقباء: والله لئن ولیتها الخزرج علیكم مرة لا زالت لهم علیكم بذلك الفضیلة، ولا جعلوا لكم معهم فیها نصیبا أبدا، فقوموا فبایعوا

جب حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھاکہ بشیر  رضی اللہ عنہ بن سعدنے ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو چلاکر کہا تونے قرابت کالحاظ نہ رکھااوراپنے ابن عم (سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ )کی امارت کوپسند نہ کیااوراس پررشک اورحسدکیا، بشیربن سعد نے جواب دیاکہ اللہ کی قسم! یہ بات نہیں  بلکہ بات یہ ہے کہ میں  مہاجرین سے ان کاحق چھیننا پسندنہیں  کرتا،جب قبیلہ اوس کے لوگوں  نے دیکھاکہ بشیر رضی اللہ عنہ بن سعدنے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بیعت کرلی ہے اوروہ قریش کے اس معاملہ میں  حامی ہیں  اورخزرج سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ کو امیر بنانا چاہتے ہیں ، توانہوں  نے ایک دوسرے سے کہاجن میں  ان کے نقیب اسید رضی اللہ عنہ بن حضیربھی تھے کہ اگرایک مرتبہ کے لیے بھی امارت خزرج میں  چلی گئی توپھرقبیلہ اوس کواس فضیلت میں  سے کبھی حصہ نہیں  ملے گااورپھروہ کبھی تم کوحکومت میں  حصہ نہیں  دیں  گے ، لہذاہمارے لیے بہتریہ ہے کہ ہم سب سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی بیعت کرلیں ،چنانچہ ان سب نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلی،اس سے سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ اورقبیلہ خزرج کے تمام منصوبے جوحکومت حاصل کرنے کے تھے سب خاک میں  مل گئے اوران کے حوصلے پست ہوگئے، بعد ازاں  چاروں  طرف سے لوگ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے بیعت کے لئے امنڈ پڑے اورکہیں  تل رکھنے کوجگہ نہ رہی۔[14]

فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ،فَقُلْتُ: قَتَلَ اللهُ

انصارکےایک شخص نے کہاتم لوگوں  نے سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  (کی تجویزنہ مان کران) کو قتل کرڈالا، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہااللہ اس کاخون کرے گا (یعنی ان کی دوامیروں  کی تجویزسیاسی مصلحت کے خلاف تھی اللہ نے اسے منظورنہیں  ہونے دیا)۔[15]

الغرض سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  باجماع مہاجرین وانصارخلیفہ منتخب ہوگئے اورپھرمجلس منتشر ہوگئی۔

اور پھر دوسرے دن بروزسہ شنبہ کوعامة الناس بیعت عامہ کے لئے مسجدنبوی میں  جمع ہوئے ، تمام کباراصحاب مہاجرین وانصاروہاں  موجودتھے ،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے منبرپربیٹھ کرایک مختصر تقریرکی

وَأَبُو بَكْرٍ صَامِتٌ لَا یَتَكَلَّمُ

اور سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  خاموش بیٹھے رہے ۔

قَالَ: كُنْتُ أَرْجُو أَنْ یَعِیشَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى یَدْبُرَنَا – یُرِیدُ بِذَلِكَ أَنْ یَكُونَ آخِرَهُمْ -فَإِنْ یَكُ مُحَمَّدٌ قَدْ مَاتَ فَإِنَّ اللهَ قَدْ جَعَلَ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ نُورًا تَهْتَدُونَ بِهِ هَدَى اللهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَثَانِیَ اثْنَیْنِ وَإِنَّهُ أَوْلَى المسلمین بأموركم، فقدموا فَبَایِعُوهُ

سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  نے کہامجھے امیدتھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہم سب کے بعدہوگی مگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے،مگراللہ نے تمہارے درمیان ایک نورہدایت (قرآن)باقی رکھاہے جو تمہاری ہدایت کاذریعہ ہے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  تم میں  موجودہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے  دومیں  سے دوسرے ہیں  اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بہترین ساتھی ہیں ،تمام مسلمانوں  میں  وہی تمام امورمملکت کے زیادہ ولی اورحقدارہیں ،چنانچہ اے مسلمانوں  اٹھو اور ان کے ہاتھ پربیعت کرو۔[16]

جب سیدنا عمرفاروق اپنی تقریرسے فارغ ہوئے توسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے عرض کیا

اصْعَدِ الْمِنْبَرَ!فَلَمْ یَزَلْ بِهِ حَتَّى صَعِدَ المنبر فبایعه عامة النَّاس

منبرپرتشریف لائیں ،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے تامل کیامگرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  برابراصرارکرتے رہے،تب سیدنا ابوبکر(جس درجہ پرنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھاکرتے تھے اس کوچھوڑکرایک درجہ نیچے)  منبر پرجاکر بیٹھے اورعامة الناس نے ان کے ہاتھ پربیعت کی۔[17]

بیعت سے فراغت کے بعدابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے پہلاخطبہ دیاجس میں  فرمایا۔

أَمَّا بَعْدُ أَیُّهَا النَّاسُ فَإِنِّی قَدْ وُلِّیتُ عَلَیْكُمْ وَلَسْتُ بِخَیْرِكُمْ، فَإِنْ أَحْسَنْتُ فَأَعِینُونِی، وَإِنْ أَسَأْتُ فَقَوِّمُونِی.الصِّدْقُ أَمَانَةٌ، والكذب خیانة، والضعیف منكم قوی عندی حتَّى أزیح علته إِنْ شَاءَ اللهُ، وَالْقَوِیُّ فِیكُمْ ضَعِیفٌ حتَّى أخذ منه الحق إِنْ شَاءَ اللهُ، لَا یَدْعُ قَوْمٌ الْجِهَادَ فِی سَبِیلِ اللهِ إِلَّا ضَرَبَهُمُ اللهُ بِالذُّلِّ، ولا یشیع قوم قط الفاحشة إِلَّا عمَّهم اللهُ بِالْبَلَاءِ،أَطِیعُونِی مَا أَطَعْتُ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَإِذَا عَصَیْتُ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَلَا طَاعَةَ لِی عَلَیْكُمْ، قُومُوا إِلَى صَلَاتِكُمْ یَرْحَمْكُمُ اللهُ

امابعد!اے لوگو!میں  تمہاراوالی اورامیربنادیاگیاہوں  اورمیں  تم سے بہترنہیں  ہوں  اگرمیں  اچھاکام کروں  توتم میری مددکرنااوراگرکوئی براکام کروں  تومجھے سیدھا کر دینا ، صداقت امانت ہے اورکذب خیانت ہے اورجوشخص تم میں  ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے تاآنکہ اس کی تکلیف دورنہ کردوں  یعنی اس کاحق نہ دلا دوں  ،ان شاء اللہ  اورجوتم میں  قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں  تک کہ میں  اس سے حق وصول نہ کرلوں  ،جوقوم جہادفی سبیل اللہ ترک کردیتی ہے اللہ اس قوم کوذلیل کرتاہے اورجس قوم میں  بے حیائی اوربدکاری شائع ہوجاتی ہے توساری قوم پرکوئی بلااورمصیبت آتی ہے تم میری اطاعت کروجب تک میں  اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروں  اورجب میں  اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کروں  توتم پرمیری اطاعت لازم نہیں ،اب نمازکے لئے اٹھواللہ تم پررحم فرمائے،امین۔[18]

 أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ :ثُمَّ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ وَاعْتَذَرَ إِلَیْهِمْ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا كُنْتُ حَرِیصًا عَلَى الْإِمَارَةِ یَوْمًا وَلَا لَیْلَةً قَطُّ، وَلَا كُنْتُ فِیهَا رَاغِبًا، وَلَا سَأَلْتُهَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِی سِرٍّ وَلَا عَلَانِیَةٍ، وَلَكِنِّی أَشْفَقْتُ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَمَا لِی فِی الْإِمَارَةِ مِنْ رَاحَةٍ، وَلَكِنْ قُلِّدْتُ أَمْرًا عَظِیمًا مَا لِی بِهِ مِنْ طَاقَةٍ وَلَا یَدَ إِلَّا بِتَقْوِیَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ بن عوف سے ایک روایت میں  ہےسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ   کھڑے ہوئے اور خطبہ دیاجس میں کہااللہ کی قسم!میں  امارت اورخلافت کاکبھی خواہشمند نہیں  ہوانہ دن میں  نہ رات میں  اورنہ کبھی اس کی طرف مائل ہوااورنہ اللہ تعالیٰ سے علانیہ یاپوشیدہ طورپرمیں  کبھی امارت کی دعامانگی،البتہ مجھے یہ ڈرہواکہ کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس لئے بادل ناخواستہ میں  نے امارت کوقبول کیااورمجھے امارت میں  کوئی راحت نہیں  ،میری گردن پرایک عظیم بوجھ ڈالاگیاجس کے اٹھانے کی اپنے اندر طاقت نہیں  پاتامگریہ کہ اللہ عزوجل میری مددکرے۔[19]

قال: یا أیها الناس، إن كنتم ظننتم أنی أخذت خلافتكم رغبة فیها أو إرادة إستئثار علیكم وعلى المسلمین، فلا والذی نفسی بیده ما أخذتها رغبة فیها ولا إستئثاراً علیكم ولا على أحد من المسلمین مَا كُنْتُ حَرِیصًا عَلَى الْإِمَارَةِ یَوْمًا وَلَا لیلة، ولا سألتها فِی سِرٍّ وَلَا عَلَانِیَةٍ ولقد تقلَّدت أمراً عظیماً لا طاقة لی به إلا أن یُعین الله  ولوددت أنَّها إلى أیِّ أصحاب رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على أن یعدل فیها. فهی إلیكم ردّ، ولا بَیْعة لكم عندی، فادفعوا لمن أحببتم فإنما أنا رجل منكم

ایک روایت یوں  ہےسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے کہااے لوگو!اگرتمہارایہ گمان ہے کہ میں  نے یہ خلافت اس لئے قبول کی ہے کہ میں  خلافت اورامارت میں  راغب تھایامیں  مسلمانوں  پراپنی برتری اورفوقیت چاہتاتواللہ ذوالجلال کی قسم جس کے قبضہ میں  میری جان ہے میں  نے اس ارادہ سے خلافت کوقبول نہیں  کیا،اللہ کی قسم!میں  نے امارت اورخلافت کے دن اوررات کی کسی ساعت میں  کبھی حرص نہیں  کی اورنہ ظاہروباطن میں  اللہ ہی سے اس کی دعامانگی ، میرے اوپرایک عظیم بوجھ ڈال دیاگیاہے جسے مجھ میں  اٹھانے کی طاقت نہیں  سوائے اس کے کہ اللہ میری مددفرمائے، میری تمناتویہ تھی کہ میرے سواکسی اورصحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ منصب سونپ دیا جاتا جو مسلمانوں  میں  عدل کرتااوراب میں  تم سے یہ کہتاہوں  کہ یہ تمہاری خلافت اور امارت تم کوواپس ہے اورجوبیعت تم میرے ہاتھ پرکرچکے ہووہ سب ختم ہےاب جس کوچاہویہ امارت وخلافت سپردکروتم میں ایک فردمیں  بھی ہوں ، والسلام ۔[20]

ثُمَّ نَظَرَ فِی وُجُوهِ الْقَوْمِ فَلَمْ یَرَ علیاً، فدعا بعلی بن أبی طالب، قال: قُلْتُ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ عَلَى ابْنَتِهِ، أَرَدْتَ أَنْ تَشُقَّ عَصَا الْمُسْلِمِینَ،فَقَالَ: لَا تَثْرِیبَ یَا خَلِیفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ فبایعه

جب سب لوگ بیعت کرچکے توخلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے مجمع پرنظرڈالی تولوگوں  میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کوموجودنہ پایاآپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیں  نے اس مجمع میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کونہیں  دیکھاان کوبھی بلاؤ،انصارمیں  سے کچھ لوگ گئے اور ان کوبلالائے، سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچازاداورداماد!کیاتم مسلمانوں  میں  تفرقہ ڈالناچاہتے ہو،سیدناعلیٰ نے کہااے خلیفہ رسول آپ مجھے ملامت نہ کریں میں  مسلمانوں  میں  تفرقہ ڈالنانہیں  چاہتاچنانچہ وہ کھڑے ہوئے اوربیعت کی۔[21]

وَقَالَ عَلِیٌّ والزبیر ما تأخرنا إلالأنَّنا أُخرنا عَنِ الْمَشُورَةِ، وَإِنَّا نَرَى أَبَا بَكْرٍ أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا.إِنَّهُ لَصَاحِبُ الْغَارِ، وَإِنَّا لَنَعَرِفُ شَرَفَهُ وَخَیْرَهُ، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم بالصَّلاة بِالنَّاسِ وَهُوَ حَیٌّ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  اورزبیر رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ ہمیں  کسی چیزکارنج نہیں  ،خیال صرف اس بات کاہے کہ خلافت کے مشورہ میں  ہم کوشریک نہیں  کیاگیاباقی ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں  کہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدارسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  ہیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غارکے ساتھی ہیں  اورہمیں  ان کافضل اورشرف اوران کی بھلائی بخوبی معلوم ہے اورتحقیق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کواپنی زندگی میں  امام مقررکیاکہ لوگوں  کونمازپڑھائیں ۔[22]

ایک روایت میں  ہے کہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب نے فرمایا۔

فَرَضِینَا لِدُنْیَانَا مَا رَضِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِدِینِنَا، فَقَدَّمْنَا أَبَا بَكْرٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوہمارے دین کے لئے پسندکیاہےتوکیاہم سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کواپنی دنیاکے لئے پسندنہ کریں اوریہ کہہ کران دونوں نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کی ۔[23]

بہرحال یہ کہناکہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ایک عرصہ تک سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بیعت نہیں  کی تویہ محض غلط ہے۔

وَقد صحّح بن حِبَّانَ وَغَیْرُهُ مِنْ حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ وَغَیْرِهِ أَنَّ عَلِیًّا بَایَعَ أَبَا بَكْرٍ فِی أَوَّلِ الْأَمْرِ

ابن حبان نے ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ  کی اس روایت کوصحیح بتایاہے کہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ نے شروع ہی میں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پربیعت کرلی تھی۔[24]

وَهَذَا حَقٌّ فَإِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ لَمْ یُفَارِقِ الصِّدِّیقَ فِی وَقْتٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ، وَلَمْ یَنْقَطِعْ فِی صَلَاةٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ خَلْفَهُ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں   صحیح اورحق یہی ہے کہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے شروع ہی میں  سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کسی وقت بھی سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  سے جدا نہیں  ہوئے ،تمام نمازیں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پیچھے پڑھتے تھے۔[25]

فإن هذا دلیل على أن علیا كرم الله وجهه بایع أبا بكر بعد وفاة  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بثلاثة أیام

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے تیسرے دن سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔[26]

فكان سعد لا یصلی بصلاتهم، ولا یجمع معهم ویحج ولا یفیض معهم بإفاضتهم، فلم یزل كذلك حَتَّى هلك أبو بكر رحمه الله

مگر سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  اس واقعہ کے بعد نہ توسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی امامت میں  نماز پڑھتے تھے اورنہ جماعت میں  شریک ہوتے ،حج میں  بھی مناسک کوان کے ساتھ ادانہ کرتے، سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کےانتقال تک ان کی یہی روش رہی اس کے بعدوہ شام چلے گئے اوروہیں  ان کا انتقال ہوا۔[27]

جبکہ امام طبری کہتے ہیں  کہ سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  نے بھی تھوڑی دیرکے بعداسی دن سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پربیعت کرلی تھی،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ یَوْمَئِذٍ لأَبِی بَكْرٍ:إِنَّكُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ حَسَدْتُمُونِی عَلَى الإِمَارَةِ، وَإِنَّكَ وَقَوْمِی أَجْبَرْتُمُونِی عَلَى الْبَیْعَةِ

جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاس روزسعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ سے کہااے گروہ مہاجرین تم نے میری امارت پرحسدکیااورتم نے اورمیری قوم نے مجھے بیعت پرمجبور کردیا ۔[28]

[1] ابن ہشام ۶۵۷؍۲

[2] البدایة والنہایة۲۶۶؍۵

[3] الکامل فی التاریخ ۱۹۰؍۲

[4] الکامل فی التاریخ ۱۹۰؍۲

[5] ابن ہشام۶۵۹؍۲

[6] کنزالعمال۶۵۰؍۵،حیاة الصحابة۲۴۱؍۲

[7] ابن ہشام۶۵۹؍۲،الروض الانف۵۹۰؍۷،البدایة والنہایة۲۶۷؍۵،تاریخ طبری۲۰۶؍۳

[8] تاریخ طبری۲۲۰؍۳

[9] السنن الکبری للنسائی ۸۵۵ ، مستدرک الحاکم۴۴۲۳

[10] البدایة والنہایة۲۶۸؍۵

[11] مسنداحمد۱۹۹؍۱

[12] السیرة الحلبیة۵۰۶؍۳،البدایة والنہایة ۲۶۹؍۵،ابن سعد۱۵۹؍۳،کنزالعمال ۶۱۳؍۵

[13] تاریخ طبری ۲۲۱؍۳

[14] تاریخ طبری۲۲۱؍۳

[15] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّقَائِفِ عن عمر ۲۴۶۲،وکتاب فضائل اصحاب النبیﷺبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا ۳۶۶۷،۳۶۶۸،  وکتاب الحدودبَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ عن عمر ۶۸۳۰

[16] البدایة والنہایة ۲۶۷؍۵

[17]البدایة والنہایة۲۶۸؍۵

[18] البدایة النہایة ۲۶۷؍۵،کنزالعمال ۶۰۱؍۵

[19] مستدرک حاکم ۴۴۲۲،شرح الشمائل ۲۲۲؍۲

[20] حیاة الصحابة۲۴۸؍۲،کنزالعمال۶۱۵؍۵

[21]البدایة والنہایة۲۶۹؍۵،کنزالعمال۶۱۴؍۵، مستدرک حاکم۴۴۵۷

[22] البدایة النہایة۳۳۴؍۶،کنزالعمال۵۹۷؍۵،مستدرک حاکم۴۴۲۲

[23] السنة لأبی بکر بن الخلال ۳۳۳ ، الإبانة الکبری لابن بطة ۲۱۶، فضائل الخلفاء الراشدین لابی نعیم الاصبہانی ۱۹۰

[24] فتح الباری ۴۹۵؍۷

[25] البدایة والنہایة۲۶۹؍۵

[26] السیرة الحلیبة ۵۰۹؍۳

[27] تاریخ طبری۲۲۳؍۳

[28] تاریخ طبری۲۲۳؍۳

Related Articles