بعثت نبوی کا پانچواں سال

دوسری ہجرت حبشہ

فَأَذِنَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْخُرُوجِ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ مَرَّةً ثَانِیَةً،فقال عثمان بن عفان:یَا رسولَ اللهِ، فهجرتُنا الأولى وهذه الآخرة ولست معنا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم : أَنْتُم مهاجرون إِلَى الله وإلیّ. لكم هَاتَانِ الهجرتان جَمِیعًا فَقَالَ عُثْمَان: فحسبُنا یَا رَسُول الله

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں  کوکفارکے شرسے بچنے کے لئے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرمادی،مگراب کے کفاربڑے چوکناتھے اورمسلمانوں  کامکہ سے باہر نکلنا بڑا مشقت طلب تھامگراللہ کی تدبیرکے آگے کس کی تدبیرکام کرسکتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح نکلنے میں  کامیاب رہے ، ہجرت کے وقت سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے پہلے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی اوراب دوسری مرتبہ بھی ہجرت کررہے ہیں  لیکن افسوس کہ آپ ہمارے ساتھ نہیں  ہیں ؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایادراصل تم سب کی ہجرت اللہ کی اورمیری طرف سے ہے پس تمہیں  دونوں  ہجرتوں  کااجرعظیم ملے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ جواب سنکرسیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیاپس اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہمارے لئے کافی ہے۔[1]

اب کے ہجرت کرنے والوں  کی تعدادپہلے سے کہیں  زیادہ تھی

 وَكَانَ عِدَّةُ مَنْ خَرَجَ فِی هَذِهِ الْمَرَّةِ ثَلَاثَةً وَثَمَانِینَ رَجُلًا، إِنْ كَانَ فِیهِمْ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَإِنَّهُ یُشَكُّ فِیهِ، قَالَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ، وَمِنَ النِّسَاءِ تِسْعَ عَشْرَةَ امْرَأَةً

ہجرت کرنے والوں  میں  بیاسی یا تراسی مرداور اٹھارہ یاانیس عورتیں  شامل تھیں  جن کے اسماء مبارک یہ ہیں  ۔

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کویہ خاص اعزازحاصل ہے کہ آپ نے اپنی اہلیہ رقیہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حبشہ کی دونوں  ہجرتوں  میں  حصہ لیا،چنانچہ خودفرماتے ہیں

هَاجَرْتَ الهِجْرَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ

میں  نے پہلی دونوں  ہجرتیں  کی ہیں ۔[2]

حبشہ اورمدینہ منورہ کی یہ دوہجرتیں  اسلام میں  ایک بڑامقام رکھتی ہیں ،چنانچہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کاواقعہ مذکورہے ۔

قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ، وَهِیَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِیِّ فِیمَنْ هَاجَرَ إِلَیْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِینَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِیَّةُ هَذِهِ؟ الْبَحْرِیَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ، وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ یَا عُمَرُ كَلَّا، وَاللهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَیَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِی دَارِ، أَوْ فِی أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِی الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِی اللهِ وَفِی رَسُولِهِ، وَایْمُ اللهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَوَاللهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِیغُ وَلَا أَزِیدُ عَلَى ذَلِكَ،

ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاسماء  رضی اللہ عنہا کی خدمت میں  جو ہمارے ساتھ آئی تھیں  وہ زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  ملاقات کرنے لئے حاضر ہوئیں  اور اس نے مہاجرین کے ساتھ نجاشی کی طرف ہجرت کی تھی،  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ   ام المومنین سیدہ حفصہ  رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان کے پاس اسماء  رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟  ام المومنین سید حفصہ  رضی اللہ عنہا نے کہا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا  ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہا یہ حبشہ بحریہ ہے، اسماء  رضی اللہ عنہا نے کہا ہاں ، توسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے کہا ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہم تم سے زیادہ رسول اللہ کے حقدار ہیں ،   یہ بات سن کر وہ ناراض ہو گئیں  اور ایک بات کہی کہ اے عمر! آپ نے غلط کہا ہے،  ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے جو تمہارے بھوکوں  کو کھلاتے اور تمہارے جاہلوں  کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایسے علاقے میں  تھے جو دور دراز اور دشمن ملک حبشہ میں  تھے اور وہاں  صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لئے تھے،اللہ کی قسم میں  اس وقت تک نہ کوئی کھانا کھاؤں  گی اور نہ پینے کی کوئی چیز پیوں  گی جب تک آپ کی کہی بات کا ذکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کر لوں ،  اور ہمیں  تکلیف دی جاتی تھی اور ڈرایا جاتا تھا ، میں  عنقریب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا تذکرہ کروں  گی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بارے میں  سوال کروں  گی،   اور اللہ کی قسم! نہ میں  جھوٹ بولوں  گی نہ بےراہ چلوں  گی اور نہ ہی اس پر کوئی زیادتی کروں  گی،

قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ بِأَحَقَّ بِی مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ، أَهْلَ السَّفِینَةِ، هِجْرَتَانِ قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِینَةِ یَأْتُونِی أَرْسَالًا، یَسْأَلُونِی عَنْ هَذَا الْحَدِیثِ، مَا مِنَ الدُّنْیَا شَیْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِی أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَیَسْتَعِیدُ هَذَا الْحَدِیثَ مِنِّی

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے تو اسماء نے کہا اے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے اس اس طرح کہا ہے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے (قرب کے) حقدار نہیں  اس نے اس کے ساتھیوں  نے ایک مرتبہ ہجرت کی تمہارے اور کشتی والوں  کے لئے دو ہجرتیں  ہیں ، اسماء نے کہا تحقیق میں  نے ابوموسی اور کشتی والوں  کو دیکھا کہ وہ میرے پاس گروہ در گروہ آتے اور وہ یہ حدیث سنتے تھے، دنیا کی کوئی چیز انہیں  اس سے زیادہ خوش کرنے والی اور اس فرمان نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ عظمت والی ان کے ہاں  نہ تھی، اسماء  رضی اللہ عنہا نے کہا میں  نے ابوموسی رضی اللہ عنہ  کو دیکھا کہ وہ یہ حدیث مجھ سے بار بار دہرایا کرتے تھے۔[3]

حبشہ میں  قیام کے دوران اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا  کے بطن سے تین بچے محمدبن جعفر، عبداللہ بن جعفر  رضی اللہ عنہما اورعون بن جعفرپیداہوئے۔

ریطہ بنت حارث کے بطن سے چاربچے موسیٰ ، عائشہ ، زینب اورفاطمہ پیداہوئے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کے بطن سے زینب پیداہوئیں  جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ربیبہ کہلائیں ۔

امیمہ بنت خلف کے بطن سے دوبچے ایک لڑکا سعید اور ایک لڑکی ام خالد پیداہوئی جس سے بعدمیں  زبیر رضی اللہ عنہ نے شادی کی۔

رملہ رضی اللہ عنہا  بنت عون کے بطن سے عبداللہ بن مطلب پیداہوئے۔

اورعلمائے تاریخ نے رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں  لکھاہے

وَهَاجَرَتْ مَعَهُ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ الْهِجْرَتَیْنِ، وَكَانَتْ قَدْ أَسْقَطَتْ مِنْ عُثْمَانَ سَقْطًا، ثُمَّ وَلَدَتْ بَعْدَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ، وَكَانَ عُثْمَانُ یُكْنَى بِهِ فِی الْإِسْلَامِ

انہوں  نےسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف دومرتبہ ہجرت کی،حبشہ میں  قیام کے دوران رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں  ایک ناتمام بچہ پیداہوااورپھراس کے بعداللہ تعالیٰ نے انہیں  ایک اوربچہ عطافرمایاجس کانام عبداللہ رکھاگیا،اس لیے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  اپنی کنیت ابوعبداللہ رکھتے تھے۔[4]

تزوج عثمان رقیة، وهاجر بها إلى الحبشة، فولدت له عبد اللَّه هناك

ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے رقیہ  رضی اللہ عنہا سے شادی کی اوران کے ساتھ ہی حبشہ کی طرف ہجرت کی اوروہیں  رقیہ  رضی اللہ عنہا کے ہاں  عبداللہ پیداہوئے۔[5]

یہی عبداللہ بعدمیں  عبداللہ الاکبرکے نام سے مشہورہوا۔

عبداللہ الاکبرکے بارے میں  مورخین لکھتے ہیں

وَبَلَغَ سِتَّ سِنِینَ فَنَقَرَهُ دِیكٌ فِی وَجْهِهِ فَمَاتَ،وَلَمْ تَلِدْ لَهُ شَیْئًا بَعْدَ ذَلِكَ

چھ برس کی عمرمیں  ایک روزایک مرغ نے اس کوٹھونگ ماری جس سے زخم ہوکران کاچہرہ متورم ہو گیا اورپھراسی مرض میں  ان کاانتقال ہوگیا،ان کاانتقال جمادی الاولیٰ چار ہجری میں  ہوااس کے بعدرقیہ کے ہاں  کوئی اولادنہیں  ہوئی۔

ابن جریرطبری نے محمدبن عمرواقدی جوکہ ایک مسلمہ کذاب تھاکے حوالے سے لکھا ہے

فبلغ عَبْد اللَّهِ ست سنین، فنقره دیك عَلَى عینه، فمرض فمات فِی جمادى الأولى سنة أربع من الهجره، فصلى علیه رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ونزل فِی حفرته عُثْمَان رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

پس عبداللہ جب چھ سال کے ہوئے توایک مرغ نے ان کی آنکھ پرٹھونگاماراجس سے وہ بیمارہوگئے اوراسی بیماری میں  چارہجری میں  وہ انتقال کرگئے ،نمازجنازہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پڑھائی اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے انہیں  قبرمیں  اتارا۔[6]

علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں

فبلغ الغلام ست سنین: فنقر عینه دیك، فورم وجهه ومرض ومات، وكان موته فی جمادى الأولى سنة أربع

جب بچہ چھ برس کاہواتوایک روازایک مرخ نے اس کی آنکھ میں  ٹھونگ ماری جس سے زخم ہوگیااوراس کاچہرہ متورم ہوگیااوراسی مرض میں  ہی اس کاانتقال ہوگیااس کاانتقال جمادی الاولیٰ چارہجری میں  ہوا۔[7]

مگرروایت کایہ حصہ ایک خاص مقصدکے تحت بنایاگیاہے تاکہ یہ معلوم ہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نواسے حسن رضی اللہ عنہ  اورحسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاکوئی اورنواسہ زندہ نہیں  رہا لہذاسادات کاسلسلہ( اگربیٹی کی طرف سے چلتا ہے) توصرف اولادفاطمہ میں  رہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی بیٹی کی اولادسادات میں  شمارنہ ہوسکے، اب غور فرمائیں تمام اہل سیرکااس بات پراتفاق ہے کہ ہجرت حبشہ پانچ بعثت نبوی میں  ہوئی تھی،اس لحاظ سے توعبداللہ کی عمردس بارہ برس بنتی ہے نہ کہ چھ سال،معلوم نہیں  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  جیسے محققین نےان کی عمرچھ سال کس طرح لکھ دی،اوراس سے زیادہ تعجب کی بات تویہ ہے کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ  نے توان کاچارسال کی عمرمیں  وفات پانالکھ دیاہے،جب تقویمی حساب سے عبداللہ بن رقیہ کی عمر دس بارہ برس ثابت ہوتی ہےتواس عمرکے جوان بچے کومرغ ٹھونگ کیسے مارسکتاہے،

ابن قتیبہ الدینوری نے تواورہی گل کھلائے ہیں  لکھتے ہیں

فولد عثمان عبد الله الأكبر أمه: فاختة بنت غزوان وعبد الله الأصغر أمه رقیة بنت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان کے صاحب زادے عبداللہ الاکبرکی والدہ کانام فاختہ بنت غزوان تھااورعبداللہ الاصغرکی والدہ کانام رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تھا ۔[8]

حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان کی پہلی شادی رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہوئی اورسب سے پہلالڑکاجوآپ کے ہاں  پیداہواوہ عبداللہ بن رقیہ تھا،اس لحاظ سے عبداللہ الاکبروہ لڑاہوانہ کہ وہ لڑکاجوبعدمیں  آپ کی زوجہ فاختہ بنت غزوان کے بطن سے پیداہوا،کیایہ حیرت کی بات نہیں  کہ بڑے بیٹے کوالاصغرکہاجائے اور چھوٹے بیٹے کو الاکبر کہاجائے۔

اورمسعودی کابیان ہے

وکان لہ من الولد عبداللہ الاکبر وعبداللہ الاصغروامھمارقیة بنت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورآپ کی اولادمیں  سے ایک عبداللہ الاکبراوردوسرے عبداللہ الاصغرہ تھے ان دونوں  کی والدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا  بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تھیں ۔[9]

اورلکھتے ہیں

وکان عبداللہ الاکبریلقب بالمطرف بجمالہ وحسنہ وکان کثیرالتزوج ،کثیرالطلاق

اورعبداللہ الاکبرکالقب اس کے حسن وجمال کی وجہ سے مطرف تھااورانہوں  نے بہت شادیاں  کی تھیں  اوربہت عورتوں  کوطلاق دی تھی۔[10]

اورلکھتے ہیں

وبلغ عبداللہ الاصغرمن السن ستاوسبعین عامة،فنقرہ دبک فی عینہ وکان ذالک سبب موتہ

عبداللہ الاصغرجب ۷۶برس کے ہوئے توایک مرغ نے ان کی آنکھ میں  ٹھونگاماراجوان کی موت کاسبب بنا۔[11]

مسعودی کی اس تحریرسے صاف طورپر معلوم ہوگیاکہ رقیہ  رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے عبداللہ الاکبرچھ برس کی عمرمیں  وفات نہیں  پاگئے تھے بلکہ وہ بلوغت کی عمرکوپہنچے اورانہوں  نے بہت شادیاں  کیں  اوربہت سی بیویوں  کوطلاق بھی دی،چنانچہ جب عبداللہ الاکبرنےبہت شادیاں  کیں  توان سے اولادبھی ہوئی ہوگی اورتاریخ میں  یہ شہادت موجودہے کہ ان کی نسل چلی اورآج تک موجودہے،انہی عبداللہ بن عثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان کی شاگردی کاشرف علی بن حسین رضی اللہ عنہ (زین العابدین رضی اللہ عنہ )کوبھی حاصل ہے،چنانچہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  لکھتے ہیں

 وَأَمَّا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ  فَمِنْ كِبَارِ التَّابِعِینَ وَسَادَاتِهِمْ عِلْمًا وَدِینًا، أَخَذَ عَنْ أَبِیهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَأَبِی رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَصَفِیَّةَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ وَغَیْرِهِمْ  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ

لیکن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کبارتابعین اورعلم ودین کے لحاظ سے اہم شخصیتوں  میں  سے تھے،انہوں  نے اپنے باپ حسین بن علی  رضی اللہ عنہ  ،ابن عباس رضی اللہ عنہما ،مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ ،ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا ،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ،ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا اوردیگرامہات المومنین،مروان بن الحکم رضی اللہ عنہ ،سعیدبن المسیب رحمہ اللہ ،عبداللہ بن عثمان

رضی اللہ عنہ  بن عفان اورام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان سے علم حاصل کیاتھا۔[12]

[13]

کفارمکہ کے ہوشیاراورچوکناہونے کے باوجودجب ایک بڑی تعدادمیں  مسلمان مردوعورتیں  ان کی آنکھوں  میں  دھول جھونک کرباحفاظت حبشہ چلے گئے تووہ سٹپٹاگئے چنانچہ اس صورت حال میں  مشاورت کے لئے دارالندوہ میں  اجتماع منعقدہوا،جس میں  بحث ہوئی کہ اگراس طرح مسلمان تھوڑے تھوڑے کرکے حبشہ میں  جمع ہوتے چلے گئے جہاں  نجاشی ان پرمہربان ہے توہوسکتاہے کہ وہ اسے ساتھ ملاکر مکہ پرہی قبضہ کرنے کی کوشش کریں ،کافی غوروحوض کے بعد یہ فیصلہ کیاگیاکہ ان لوگوں  کی واپسی کے لئے جلداز جلد دو سمجھدار آدمیوں  کونجاشی کے دربارمیں  بھیجاجائے تاکہ مسلمان ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں  اورنہ ہی اسلام کی تبلیغ سے وہاں  اپنی تعدادبڑھاسکیں ،

ثُمَّ بَعَثُوا بِذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِی رَبِیعَةَ، وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَأَمَرُوهُمَا بِأَمْرِهِمْ، وَقَالُوا لَهُمَا: ادْفَعَا إلَى كُلِّ بِطْرِیقٍ هَدِیَّتَهُ قَبْلَ أَنْ تُكَلِّمَا النَّجَاشِیَّ فِیهِمْ ثُمَّ قَدِّمَا إلَى النَّجَاشِیِّ هَدَایَاهُ، ثُمَّ سَلَاهُ أَنْ یُسَلِّمَهُمْ إلَیْكُمَا قَبْلَ أَنْ یُكَلِّمَهُمْ

یہ قراردارمنظورہونے پراس مقصد کے لئے گہری سمجھ بوجھ کے مالک عبداللہ بن ابی ربیعہ اورعمروبن عاص کوسفارتی مہم کے لئے منتخب کیاگیااورانہیں  گرانقدراورقیمتی تحائف دے کرجلدسے جلدروانہ کردیاگیاتاکہ نجاشی اوراس کے تمام افسروں  اورارکان سلطنت کووہ تحفے تقسیم کریں  اورکہہ دیاکہ نجاشی اوراس کے لوگوں  کویہ تحفے دے کران سے درخواست کرناکہ مسلمانوں  کوتمہارے ساتھ روانہ کردے اوراس طرح یہ کاروائی کرناکہ مسلمانوں  سے وہ کچھ دریافت نہ کرپائے ۔[14]

مشرکین نجاشی کے دربارمیں :

فَخَرَجَا حَتَّى قَدِمَا عَلَى النَّجَاشِیِّ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ بِخَیْرِ دَارٍ، عِنْدَ خَیْرِ جَارٍ، فَلَمْ یَبْقَ مِنْ بِطَارِقَتِهِ بِطْرِیقٌ إلَّا دَفَعَا إلَیْهِ هَدِیَّتَهُ قَبْلَ أَنْ یُكَلِّمَا النَّجَاشِیَّ،  وَقَالَا لِكُلِّ بِطْرِیقٍ مِنْهُمْ: إنَّهُ قَدْ ضَوَى  إلَى بَلَدِ الْمَلِكِ مِنَّا غِلْمَانٌ سُفَهَاءُ، فَارَقُوا دِینَ قَوْمِهِمْ، وَلَمْ یَدْخُلُوا فِی دِینِكُمْ، وَجَاءُوا بِدِینِ مُبْتَدَعٍ، لَا نَعْرِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتُمْ، وَقَدْ بَعَثَنَا إلَى الْمَلِكِ فِیهِمْ أَشْرَافَ قَوْمِهِمْ لِیَرُدَّهُمْ إلَیْهِمْ، فَإِذَا كَلَّمْنَا الْمَلِكَ فِیهِمْ، فَأَشِیرُوا عَلَیْهِ بِأَنْ یُسَلِّمَهُمْ إلَیْنَا وَلَا یُكَلِّمَهُمْ، فَإِنَّ قَوْمَهُمْ أَعْلَى بِهِمْ عَیْنًا  ، وَأَعْلَمُ بِمَا عَابُوا عَلَیْهِمْ، فَقَالُوا لَهُمَا: نَعَمْ

یہ دونوں  نجاشی کے پاس آئے اورنجاشی سے ملنے سےپہلے اس کے دربارکے تمام مصاحبین کوتحائف کوتحفے اورہدیئے دیئے،اوران سے کہاہمارے شہرسے چندجاہل نوعمرلوگ اپنے آباؤ اجدادکاقدیمی دین ومذہب ترک کرکے یہاں  چلے آئے ہیں  اوروہ تمہارے دین نصرانیت میں  بھی داخل نہیں  ہوئے ہیں  اورایک ایسانیامذہب اختیارکرلیاہے کہ جس کونہ ہم جانتے ہیں  اورنہ تم جانتےہو،ہم بادشاہ کے پاس اس لئے آئے ہیں  کہ ان لوگوں  کوبادشاہ ہمارے ساتھ روانہ کردے، جب ہم ان سے متعلق بادشاہ سے بات چیت کریں  تو ہماری حمایت میں  بولنا کہ وہ ان سے بات چیت کیے بغیر ہمارے حوالے کر دے کیونکہ ان کے سردار ہی ان سے متعلق بخوبی جانتے ہیں  کہ انہیں  مطمع نظر کیوں بنا یاجارہا ہے، چنانچہ انہوں  نے اس بات کی ہامی بھرلی،

ثُمَّ إنَّهُمَا قَدَّمَا هَدَایَاهُمَا إلَى النَّجَاشِیِّ فَقَبِلَهَا مِنْهُمَا، ثُمَّ كَلَّمَاهُ فَقَالَا لَهُ: أَیُّهَا الْمَلِكُ، إنَّهُ قَدْ ضَوَى إلَى بَلَدِكَ مِنَّا غِلْمَانٌ سُفَهَاءُ، فَارَقُوا دِینَ قَوْمِهِمْ، وَلَمْ یَدْخُلُوا فِی دِینِكَ، وَجَاءُوا بِدِینٍ ابْتَدَعُوهُ، لَا نَعْرِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ، وَقَدْ بَعَثَنَا إلَیْكَ فِیهِمْ أَشْرَافُ قَوْمِهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَعْمَامِهِمْ وَعَشَائِرِهِمْ لِتَرُدَّهُمْ إلَیْهِمْ، فَهُمْ أَعْلَى بِهِمْ عَیْنًا، وَأَعْلَمُ بِمَا عَابُوا عَلَیْهِمْ وَعَاتَبُوهُمْ فِیهِ، فَقَالَتْ بَطَارِقَتُهُ حَوْلَهُ: صَدَقَا أَیُّهَا الْمَلِكُ قَوْمُهُمْ أَعْلَى بِهِمْ عَیْنًا، وَأَعْلَمُ بِمَا عَابُوا عَلَیْهِمْ فَأَسْلِمْهُمْ إلَیْهِمَا فَلْیَرُدَّاهُمْ إلَى بِلَادِهِمْ وَقَوْمِهِمْ

جب یہ لوگ نجاشی کے دربارمیں  باریاب ہوئے توحسب دستوراسے سجدہ کیا اور اس کے حضورتحائف اورہدایا نذر کیے جواس نے قبول کرلیے پھران سے گفتگوکی، انہوں  نے عرض کیااے شاہ حبشہ نجاشی!ہماری قوم میں  سے چندنوعمرجہلاء اپنے قومی مذہب کوترک کرکے یہاں  چلے آئے ہیں  اورنہ ہم اورنہ ہی وہ آپ کے دین نصرانیت میں  داخل ہوئے ہیں  ،وہ ایک ایسے نئے مذہب کے پیروکارہوگئے ہیں  جن کونہ ہم جانتے ہیں  اورنہ آپ جانتے ہیں ،ہم دونوں  کوان کے عزیزواقارب اورہماری قوم کے سرداروں  اور گھر کے سربراہوں  نے مکہ مکرمہ سے اس لیے آپ کی خدمت میں  بھیجاہے کہ آپ ان لوگوں  کوہمارے حوالے فرمادیں  ہم خودان لوگوں  سے نپٹ لیں  گے، اہل مکہ کے سفیروں  کی بات سن کرنجاشی نے رائے لینے کے لئے مقربین اورمصاحبین کی طرف دیکھا،کفارمکہ کے تحائف نے ان کی زبان بندکردی تھی اس لئے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے بولے اے نجاشی ان افرادکی کاروائیوں  کے بارے میں  ان کی قوم قبیلے کے افرادزیادہ بہترجانتے ہیں  اس لئے ہماراخیال ہے کہ ان افرادکو یہاں  سے واپس کردیا جائے تو ان کی قوم اپنے عزیزواقارب سے خودہی نپٹ لیں  گے،

فَغَضِبَ النَّجَاشِیُّ، ثُمَّ قَالَ: لَاهَا اللَّهِ، إذَنْ لَا أُسْلِمُهُمْ إلَیْهِمَا، وَلَا یَكَادُ قَوْمٌ جَاوَرُونِی، وَنَزَلُوا بِلَادِی، وَاخْتَارُونِی عَلَى مَنْ سِوَایَ، حَتَّى أَدْعُوَهُمْ فَأَسْأَلَهُمْ عَمَّا یَقُولُ هَذَانِ فِی أَمْرِهِمْ، فَإِنْ كَانُوا كَمَا یَقُولَانِ أَسْلَمْتهمْ إلَیْهِمَا، وَرَدَدْتُهُمْ إلَى قَوْمِهِمْ، وَإِنْ كَانُوا عَلَى غَیْرِ ذَلِكَ مَنَعْتُهُمْ مِنْهُمَا، وَأَحْسَنْتُ جِوَارَهُمْ مَا جَاوَرُونِی

نجاشی یک طرفہ فیصلہ نہیں  کرناچاہتاتھااس لئے درباریوں  کی رائے سن کربہت غصہ ہوااوربولایہ کیسے ممکن ہے کہ جولوگ اپناوطن چھوڑکرمیرے علاقہ میں  آکرپناہ لیں  اورمیں  بغیرکسی تحقیق اورتفتیش کے ان کے مخالفوں  کے حوالے کردوں ہم دوسری طرف کی بات بھی سنیں  گے اورپھرکوئی فیصلہ کریں  گے، اگران لوگوں  کی بات صحیح ہے توان افرادکوان کے حوالے کردیا جائے گااوراگرصورت حال اس کے برعکس ہوئی توہم ان لوگوں  کویہاں  رہنے کی مکمل آزادی فراہم کر کے ہرسہولت مہیاکریں  گے،کیونکہ اس فیصلہ سے حقیقت حال واضح ہونے کاامکان تھااس لئے عمروبن عاص اوراس کے ساتھی کونجاشی کایہ فیصلہ بہت شاق اورگراں  گزرامگراس کااظہارکیسے کرسکتے تھے،

قَالَت ثُمَّ أَرْسَلَ إلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُمْ، فَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولُهُ اجْتَمَعُوا، ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ: مَا تَقُولُونَ لِلرَّجُلِ إذَا جِئْتُمُوهُ؟قَالُوا: نَقُولُ: وَاَللَّهِ مَا عَلِمْنَا، وَمَا أَمَرَنَا بِهِ نَبِیُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَائِنًا فِی ذَلِكَ مَا هُوَ كَائِنٌ ،فَلَمَّا حَضَرُوا صَاح جَعْفَر بِالْبَابِ یسْتَأْذن عَلَیْك حزب الله، فَقَالَ النَّجَاشِیّ مروا هَذَا الصائح فلیعد كَلَامه،فَفعل جَعْفَر،فَقَالَ النَّجَاشِیّ نعم فلیدخلوا بِأَمَان الله وذمته،ثمَّ دخلُوا عَلَیْهِ فَلم یسجدوا لَهُ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  نجاشی کے حکم پر مہاجرین کودربارمیں  بلوایاگیاجب بلانے والاان کے پاس آیاتویہ سب جمع ہوئے اورمشورہ کیاکہ بادشاہ کے سامنے کیاکہناچاہیے آخرسب کی یہی رائے ہوئی کہ جوکچھ ہم جانتے ہیں  وہی کہیں  اورجوہمارے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم کوحکم فرمایاہے وہی بیان کریں  جوکچھ ہونے والاہے وہی ہوگا،جب یہ لوگ آئے توان لوگوں  کے امیر جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے دربارکے دروازے پرکھڑے ہوکرکہااے بادشاہ سلامت ! آپ کے دربارمیں  حاضرہونے کے لئے اللہ کی جماعت اجازت کی منتظر ہے،یہ کلمات سن کرنجاشی نے کہااس طرح اجازت چاہنے والوں  کوکہووہی کلمات وہ دوبارہ دہرائیں  ،چنانچہ جعفر رضی اللہ عنہ نے پھربلندآوازسے کہااے بادشاہ سلامت ! آپ کے دربارمیں  حاضرہونے کے لئے اللہ کی جماعت اجازت کی منتظرہے، نجاشی نے کہاہاں  ان کواللہ تعالیٰ کے امن وامان کے ساتھ دربارمیں  داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے،اجازت ملنے پرمہاجرین دربارمیں  داخل ہوئے جہاں  قریش کے نمائندے موجود اوربہت سے علماء اپنی کتابوں  کے ساتھ موجودتھے مگرشاہی آداب کے مطابق نجاشی کوتعظیمی سجدہ نہیں  کیا،

فَقَالَ عَمْرو ابْن الْعَاصِ ألم تَرَ أَنهم یَسْتَكْبِرُونَ أَن یسجدوا لَك،فَقَالَ لَهُم النَّجَاشِیّ مَا منعكم أَن تسجدوا لی وتحیونی بالتحیة الَّتِی یحیینی بهَا من أَتَى من الْآفَاق،قَالُوا نسجد لله الَّذِی خلقك وملكك وَإِنَّمَا كَانَت تِلْكَ التَّحِیَّة لنا وَنحن نعْبد الْأَوْثَان فَبعث الله فِینَا نَبیا صَادِقا وأمرنا بالتحیة الَّتِی رضیها الله وَهِی السَّلَام تَحِیَّة أهل الْجنَّة،فَعرف النَّجَاشِیّ أَن ذَلِك حق وَأَنه فِی التَّوْرَاة وَالْإِنْجِیل،قَالَ إِنَّك ملك من مُلُوك أهل الأَرْض وَمن أهل الْكتاب وَلَا یصلح عنْدك كَثْرَة الْكَلَام وَلَا الظُّلم وَأَنا أحب أَن أُجِیب عَن أَصْحَابِی فَمر هذَیْن الرجلَیْن فَلْیَتَكَلَّمْ أَحدهمَا ولینصت الآخر

عمروبن العاص نے کہاآپ نے ان کا تکبروغرور کو دیکھا کہ انہوں  نے آپ کوتعظیمی سجدہ تک نہیں  کیا، نجاشی نے جعفراوران کی جماعت سے کہاتم نے میرے دربارکے دستور کے مطابق مجھے تعظیمی سجدہ کیوں  نہیں  کیا،جعفر رضی اللہ عنہ  نے کہاہم سجدہ صرف اس اللہ تعالیٰ ہی کوکرتے ہیں  جوہماراخالق اورمالک ہےایساسجدہ ہم دورجاہلیت میں  کرتے تھے اوربتوں  کی پرستش کرتے تھےاب اللہ تعالیٰ نے ہم میں  سے ایک سچارسول بھیجاہے جس نے ہمیں  سلام کرنے کاوہ طریقہ سکھایا ہے جسے اللہ تعالیٰ پسندکرتاہے اوروہ آپس میں  سلام کرنے کااہل جنت کاطریقہ ہے،نجاشی نے کہایہ درست ہے کیونکہ تورات وانجیل میں  یہی طریقہ بیان ہواہے، پھر جعفر رضی اللہ عنہ  نے کہاآپ بادشاہ ہیں  اور دربارمیں  لمبی گفتگو مناسب نہیں  اورآپ کے دربارمیں  ظلم کابھی خطرہ نہیں آپ ان دونوں  سفیروں  کوحکم فرمائیں  کہ ان دونوں  میں  سے کوئی اپنا مقصد بیان کرے پھرآپ ہماری گزارشات بھی سن لیں  گے،

فَقَالَ عَمْرو لجَعْفَر تكلم،فَقَالَ جَعْفَر للنجاشی سل هذَیْن الرجلَیْن أعبید نَحن أم أَحْرَار فَأن كُنَّا عبیدا أبقنا من أربابنا فارددنا إِلَیْهِم؟قَالَ عَمْرٌو: بَلْ أَحْرَارٌ كِرَامٌ،قَالَ جَعْفَرٌ: سَلْ هَذَا الرَّجُلَ: هَلْ أَهْرَقْنَا دَمًا بِغَیْرِ حَقِّهِ فَادْفَعْنَا إِلَى أَهْلِ الدَّمِ؟فَقَالَ: وَلَا قَطْرَةً وَاحِدَةً مِنْ دَمٍ،ثُمَّ قَالَ جَعْفَرٌ: سَلْ هَذَا الرَّجُلَ: أَخَذْنَا أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ فَعِنْدَنَا قَضَاءٌ؟ فَقَالَ عَمْرٌو: وَلَا قِیرَاطٌ،فَقَالَ النَّجَاشِیُّ: مَا تُطَالِبُونَهُمْ بِهِ؟

عمروبن عاص نے جعفر رضی اللہ عنہ  سے کہا بولو! کیا بولنا چاہتے ہو؟جعفر رضی اللہ عنہ  نے نجاشی سے مخاطب ہوکرکہاآپ ان سے دریافت کریں  ہم آزادہیں  یاغلام؟اگرہم غلام ہیں  اوراپنے مالکوں  سے بھاگ کرآئے ہیں  توآپ ہمیں  ان کے حوالے کردیں ،عمروبن عاص نے جواب دیایہ غلام نہیں  بلکہ ایک باوقارآزادلوگ ہیں ،پھر جعفر رضی اللہ عنہ  نے کہااس شخص سے دریافت فرمائیں  کیاہم نے کسی کاناحق قتل کیاہے کہ ہمیں  قصاص کے لئے طلب کیا جا رہا ہے؟عمروبن عاص نے جواب دیانہیں ان لوگوں  نے کسی کے خون کاایک قطرہ بھی نہیں  بہایا ، جعفر رضی اللہ عنہ  نے کہا کیا ہم نے کسی کامال دبایاہے جس کا ادا کرنا ہمارے ذمہ لازم ہے؟ عمروبن عاص نے جواب دیانہیں انہوں  نے کسی کی ایک دمڑی بھی نہیں  دینی، نجاشی نے کہا پھرتم ان سے کیاچاہتے ہو؟[15]

قَالَ عَمْرٌو: فَكُنَّا نَحْنُ وَهُمْ عَلَى دِینٍ وَاحِدٍ وَأَمْرٍ وَاحِدٍ فَتَرَكُوهُ وَلَزِمْنَاهُ،  فَقَالَ لَهُمْ: مَا هَذَا الدِّینُ الَّذِی قَدْ فَارَقْتُمْ فِیهِ قَوْمَكُمْ، وَلَمْ تَدْخُلُوا (بِهِ)فِی دِینِی، وَلَا فِی دِینِ أَحَدٍ مِنْ هَذِهِ الْمِلَلِ؟فَقَالَ لَهُ: أَیُّهَا الْمَلِكُ،كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِیَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَیْتَةَ وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ،  وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ، وَنُسِیءُ الْجِوَارَ، یَأْكُلُ الْقَوِیُّ مِنَّا الضَّعِیفَ،  فَكُنَّا عَلَى ذَلِكَ حَتَّى بَعَثَ اللَّهُ إِلَیْنَا رَسُولًا مِنَّانَعْرِفُ نَسَبَهُ، وَصِدْقَهُ، وَأَمَانَتَهُ، وَعَفَافَهُ

عمروبن عاص نے جواب دیاپہلے ہم اوریہ اپنے آباؤ  اجدادکے دین کے پیروکارتھےاب انہوں  نے وہ چھوڑکردوسرانیادین اختیارکرلیاہے،نجاشی نے جعفر رضی اللہ عنہ سے سوال کیاسچ سچ بتاؤ  وہ کونسادین ہے جوتم نے اختیارکیاہے اوراپنی قوم کامذہب چھوڑدیاہے اورکسی مذہب (عیسائیت،یہودیت)میں  بھی شامل نہیں  ہوئے؟جعفر رضی اللہ عنہ  نے کہااے بادشاہ ! ہم جاہلیت میں  غرق تھے ،بت پرستی ہماراشعارتھا،ہم مردار کھاتے اورہرطرح کی بے حیائیوں  میں  مبتلاتھے،ہم قرابت داروں سے قطع تعلق کرتے اورہمسائیوں  سے بدسلوکی کرتے تھے،ہم میں  جوطاقت ورہوتاوہ چاہتاتھاکہ کمزورکو کھاجائے، ہم اسی طرح کے بدترین حال میں  مست تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمارے حال پررحم وکرم فرمایااورہم میں  سے اپناایک رسول مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب ، بچپن سے پاکیزہ اخلاق وکردار،پاکدامنی اورعفت ،کاروباری معاملات میں  راست بازی،لوگوں  کی امانتوں  میں  دیانتداری کواچھی طرح پہچانتے ہیں  ۔[16]

فَقَالَ النَّجَاشِیّ لجَعْفَر مَاذَا یَقُول لكم هَذَا الرجل وَمَا یَأْمُركُمْ بِهِ وَمَا یَنْهَاكُم عَنهُ، فَدَعَانَا إِلَى اللَّهِ لِنُوَحِّدَهُ، وَنَعْبُدَهُ،وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِهِ مِنَ الحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ،وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِیثِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، وَصِلَةِ الرَّحِمِ، وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْكَفِّ عَنِ الْمَحَارِمِ، وَالدِّمَاءِ،  وَنَهَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ، وَقَوْلِ الزُّورِ وَأَكْلِ مَالَ الْیَتِیمِ، وَقَذْفِ الْمُحْصَنَةِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا وَأَمَرَنَا بِالصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّیَامِ، قَالَ: فَعَدَّدَ عَلَیْهِ أُمُورَ الْإِسْلامِ

نجاشی نے کہایہ آدمی تمہیں  کیادعوت دیتاہے ؟تمہیں  کس چیزکاحکم دیتا ہے اورکس چیزسے منع کرتاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  بے جان بتوں  کی پرستش سے روکااور اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلایا اوراسی کی عبادت وبندگی کاحکم دیا اور پتھروں  اوربتوں  کی جسے ہم اورہمارے آباواجدادپرستش کرتے تھے بندگی سے منع کیااورحکم دیاکہ ہم سچ بولیں ،امانتوں  کواداکریں اورقطع رحمی کے بجائےصلہ رحمی کریں  اوراپنے ہمسائے سے نیک سلوک رکھیں ،اورمحارم کالحاظ رکھیں  اورخون ریزی نہ کریں  اور فسق وفجورسے باز رہیں  اورجھوٹی گواہی نہ دیں اوریتیم کامال ہڑپ نہ کرجائیں اورکسی پاک دامن پرتہمت نہ لگائیں ،اورہمیں  حکم دیاکہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کریں  اوراس کے ساتھ کسی کواس کاشریک نہ بنائیں ،اورہمیں  حکم دیاکہ ہم نمازقائم کریں اپنے پاکیزہ اموال میں  سےزکوةاداکریں  اورروزے رکھیں ،اس طرح جعفر رضی اللہ عنہ  نے بڑے مدلل اور بہترین اندازسے اسلام سے قبل اور بعدکے حالات اوراسلامی تعلیمات کاذکرکیا،

فَصَدَّقْنَاهُ وَآمَنَّا بِهِ وَاتَّبَعْنَاهُ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ،فَعَبَدْنَا اللَّهَ وَحْدَهُ، فَلَمْ نُشْرِكْ بِهِ شَیْئًا وَحَرَّمْنَا مَا حَرَّمَ عَلَیْنَاوَأَحْلَلْنَا مَا أَحَلَّ لَنَا فَعَدَا عَلَیْنَا قَوْمُنَافَعَذَّبُونَا وَفَتَنُونَا عَنْ دِینِنَا لِیَرُدُّونَا إِلَى عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ مِنْ عِبَادَةِ اللَّهِ  وَأَنْ نَسْتَحِلَّ مَا كُنَّا نَسْتَحِلُّ مِنَ الخَبَائِثِ، فَلَمَّا قَهَرُونَا وَظَلَمُونَا، وَشَقُّوا عَلَیْنَا، وَحَالُوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ دِینِنَا، خَرَجْنَا إِلَى بَلَدِكَ، وَاخْتَرْنَاكَ عَلَى مَنْ سِوَاكَ، وَرَغِبْنَا فِی جِوَارِكَ، وَرَجَوْنَا أَنْ لَا نُظْلَمَ عِنْدَكَ أَیُّهَا الْمَلِكُ

ہم نے بت پرستی ترک کرکے اس پاکیزہ دعوت کوجو ہر طرح کی اخلاقی ونیکی کی تعلیم دیتی ہے تصدیق کی اوراس پرایمان لائے اورانہوں  نے جوکچھ فرمایااس کی اطاعت کی ، ہم اللہ وحدہ کی بندگی کرتے ہیں  اورہم اس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں  ٹھیراتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جن چیزوں  کوحرام قراردیتے ہیں  ہم اسے حرام قراردیتے ہیں  اورجن چیزوں  کوحلال قراردیتے ہیں  ہم انہیں  حلال قراردیتے ہیں ،ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیارکرنے پرہم کوتکالیف پہنائیں  اورہمیں  بہت ستایاتاکہ ہم اس اللہ کی بندگی کوترک کردیں  اوربتوں  کی پرستش اختیارکرلیں  اورجس طرح وہ برے کاموں  کوحلال سمجھتے ہیں  ہم بھی حلال سمجھیں ،چنانچہ جب ان کے ظلم وستم کی کوئی حدنہ رہی ،اپنے دین پرچلنااورایک اللہ کی عبادت وبندگی کرنادشوارہوگیا تو کفروشرک کے فتنوں  سے بچنے اور اپنے ایمان کی سلامتی وعافیت کے لئے آپ کی ہمسائیگی کوترجیح دی اورہم آپ سے امیدکرتے ہیں  کہ آپ کے زیرسایہ ہم پرکوئی ظلم نہیں  کیاجائے گا۔[17]

فَقَالَ اقْرَأ عَلیّ مِمَّا یقْرَأ عَلَیْكُم

جسے سن کرنجاشی بہت متاثر ہوااور جعفر رضی اللہ عنہ  سے کہنے لگاکہ اللہ نے جو پیغام آپ کے رسول پرنازل کیاہے وہ پڑھ کر سنائیں  ،جعفر رضی اللہ عنہ  نے نجاشی کوسورہ مریم کی ابتدائی چندآیات پڑھ کر سنائیں ۔

كۗهٰیٰعۗصۗ۝۱ۣۚ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّا۝۲ۖۚ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِیًّا۝۳ قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّا۝۴ وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَاۗءِیْ وَكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا۝۵ۙ یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ۝۰ۤۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا۝۶ یٰزَكَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ یَحْــیٰى۝۰ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا۝۷ قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا۝۸ قَالَ كَذٰلِكَ۝۰ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَعَلَیَّ هَیِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَـیْـــــًٔـا۝۹ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰیَةً۝۰ۭ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا۝۱۰ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِـیًّا۝۱۱ یٰــیَحْـیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ۝۰ۭ وَاٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّا۝۱۲ۙ وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوةً۝۰ۭ وَكَانَ تَقِیًّا۝۱۳ۙ وَّبَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَلَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا۝۱۴ وَسَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُـبْعَثُ حَیًّا۝۱۵ۧ [18]

ترجمہ:ذکرہے اس رحمت کاجوتیرے رب نے اپنے بندے زکریا علیہ السلام  پرکی تھی ،جبکہ اس نے اپنے رب کوچپکے چپکے پکارااس نے عرض کیااے پروردگار!میری ہڈیاں  تک گھل گئی ہیں  اورسربڑھاپے سے بھڑک اٹھاہے اے پروردگار میں  کبھی تجھ سے دعامانگ کر نامرادنہیں  رہا،مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں  کی برائیوں  کاخوف ہے اورمیری بیوی بانجھ ہے تومجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جومیراوارث بھی ہو اورآل یعقوب علیہ السلام  کی میراث بھی پالے اوراے پروردگار اس کوایک پسندیدہ انسان بنا(جواب دیاگیا) اے زکریا علیہ السلام  ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں  جسکانام یحیی   علیہ السلام  ہوگاہم نے اس نام کاکوئی آدمی اس سے پہلے پیدانہیں  کیاعرض کیا پروردگار بھلامیرے ہاں  کیسے بیٹا ہوگاجبکہ میری بیوی بانجھ ہے اورمیں  بوڑھا ہوکرسوکھ چکاہوں ،جواب ملاایساہی ہوگاتیرارب فرماتاہے کہ یہ تومیرے لئے ایک زراسی بات ہے آخراس سے پہلے میں  تجھے پیداکرچکاہوں  جب کہ توکوئی چیزنہ تھا،زکریانے عرض کیا پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقررفرمادے فرمایاتیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تم پیہم تین دن تک لوگوں  سے بات چیت نہ کروگے( یا نہ کرسکو گے ) چنانچہ وہ محراب سے نکل کراپنی قوم کے سامنے آیااوراس نے اشارے سے ان کوہدایت کی کہ صبح وشام تسبیح کرواوراپنی طرف سے اس کونرم دلی اور پاکیزگی عطاکی اوروہ بڑا پرہیز گاراوراپنے والدین کاحق شناس تھاوہ جبارنہ تھااورنہ نافرمان،سلام اس پرجس روزکہ وہ پیداہوااورجس دن وہ مرے اورجس روزوہ زندہ کرکے اٹھایاجائے۔

قَالَتْ: فَبَكَى وَاَللَّهِ النَّجَاشِیُّ حَتَّى اخْضَلَّتْ  لِحْیَتُهُ، وَبَكَتْ أَسَاقِفَتُهُ حَتَّى أَخْضَلُّوا مَصَاحِفَهُمْ، حِینَ سَمِعُوا مَا تَلَا عَلَیْهِمْ،  ثُمَّ قَالَ (لَهُمْ) النَّجَاشِیُّ: إنَّ هَذَا وَاَلَّذِی جَاءَ بِهِ عِیسَى  لَیَخْرُجُ مِنْ مِشْكَاةٍ  وَاحِدَةٍ، انْطَلِقَا،فَلَا وَاَللَّهِ لَا أُسْلِمُهُمْ إلَیْكُمَا، وَلَا یُكَادُونَ

نجاشی اپنے دین کے بارے میں  اچھاعلم رکھتاتھااس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کاسچاکلام جس میں  زکریا رضی اللہ عنہ  اور یحییٰ  علیہ السلام  کی پیدائش کاذکرتھاسن کر اس کی آنکھوں  سے آنسوؤ ں  کی دھار بہہ نکلی جس سے اس کی داڑھی ترہوگئی اہل دربارپربھی ایساہی اثرہوااوروہ بھی زاروقطاررونے لگے اوراس قدرروئے کہ جوکتابیں  ان کے آگے کھولی ہوئی تھیں  وہ سب تر ہو گئیں ،جب نجاشی کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے توکہنے لگاجوپیغام رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے ہیں  اوروہ پیغام جو عیسیٰ   علیہ السلام نے سنایا تھا بالکل ایک طاقچے سے پھوٹتی روشنی کی مانندہیں ،اورغصہ سے قریش کے نمائندوں  کی طرف دیکھ کر کہنے لگاتم لوگ میری آنکھوں  سے دورہوجاؤ ، اللہ کی قسم! میں  ہرگزان لوگوں  کو تمہارے حوالے نہیں  کروں  گا، کفر کا سرجھک گیااورحق سربلند رہا ، رسی جل گئی مگربل نہ گیا،

قَالَتْ: فَلَمَّا خَرَجَا مِنْ عِنْدِهِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: وَاَللَّهِ لَآتِیَنَّهُ غَدًا عَنْهُمْ بِمَا أَسْتَأْصِلُ بِهِ خَضْرَاءَهُمْ، قَالَتْ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی ربیعَة، وَكَانَ أثقى  الرَّجُلَیْنِ فِینَا: لَا نَفْعَلُ، فَإِنَّ لَهُمْ أَرْحَامًا، وَإِنْ كَانُوا قَدْ خَالَفُونَاقَالَ: وَاَللَّهِ لَأُخْبِرَنَّهُ أَنَّهُمْ یَزْعُمُونَ أَنَّ عِیسَى بن مَرْیَمَ عَبْدٌ،أَیُّهَا الْمَلِكُ، إنَّهُمْ یَقُولُونَ فِی عِیسَى بن مَرْیَمَ قَوْلًا عَظِیمًا، فَأَرْسِلْ إلَیْهِمْ فَسَلْهُمْ عَمَّا یَقُولُونَ فِیهِ

دربارسے باہرنکل کرعمروبن عاص مہاجرین کو دھمکی دے کر بولااللہ کی قسم !میں  کل ایسی ترکیب کروں  جس سے ان لوگوں  کاپورااستیصال ہوجائے گا، عبداللہ بن ابی ربیعہ جو ایک رحم دل شخص تھااس نے کہاایسانہیں  کرناچاہیے کیونکہ پھرآخریہ لوگ ہمارے رشتہ دارہیں  اگرچہ دین میں  ہمارے مخالف ہوگئے ہیں  توہوجائیں  مگرایسانہیں  کرناچاہیے ، مگر عمرو بن عاص نہ مانااورکہنے لگااللہ کی قسم !میں کل نجاشی کوضرورکہوں  گاکہ یہ لوگ عیسیٰ   علیہ السلام بن مریم کوبشرسمجھتے ہیں  تووہ انہیں  فوراًہی اپنے ملک سے نکل جانے کاحکم صادرکردے گاحسب پروگرام دوسرے دن اس نے نجاشی کے دربارمیں  پہنچ کرکہااے بادشاہ !یہ لوگ عیسیٰ بن مریم کے بارے ایک بڑی غلط بات کہتے ہیں  انہیں  بلوائیں  اور عیسیٰ  علیہ السلام  کے بارے میں  ان کے عقائدونظریات معلوم فرمائیں ،صورت حال معلوم کرنے کے لئے نجاشی نے پھرمہاجرین کودربارمیں بلوالیا،

قَالَتْ: وَلَمْ یَنْزِلْ بِنَا مِثْلُهَا قَطُّ. فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ، ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ: مَاذَا تَقُولُونَ فِی عِیسَى بن مَرْیَمَ إذَا سَأَلَكُمْ عَنْهُ؟ قَالُوا: نَقُولُ وَاَللَّهِ مَا قَالَ اللَّهُ، وَمَا جَاءَنَا بِهِ نَبِیُّنَا، كَائِنًا فِی ذَلِكَ مَا هُوَ كَائِنٌ،قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ، قَالَ لَهُمْ: مَاذَا تَقُولُونَ فِی عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ؟ فَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: نَقُولُ فِیهِ الَّذِی جَاءَنَا بِهِ نَبِیُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، (یَقُولُ)  : هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَرُوحُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إلَى مَرْیَمَ الْعَذْرَاءِ الْبَتُولِ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  جیسااس روزہمیں  فکروترددلاحق ہواایساکسی روزنہیں  ہواسب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جمع ہوئے کہ اگر باشادہ عیسیٰ بن مریم کے بارے میں  دریافت کرے تو ہمیں  کیا جواب دینا چاہیے بحث وتمحیص کے بعد یہی رائے قرارپائی کہ جوبات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمائی ہے وہی صاف صاف بیان کردوپھراللہ کو جو منظورہوگاوہی ہوگا، چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نجاشی کے دربارمیں  حاضرہوئےتونجاشی نے مہاجرین سے پوچھاتم عیسیٰ کے متعلق کیا عقائد و نظریات رکھتے ہو؟اس موقعہ پر پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب دیاہمیں  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے بارے میں  بتلایاہے کہ عیسیٰ   علیہ السلام  اللہ کے بندے اوراس کے رسول تھے،وہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلمہ تھے جوپاکدامن مریم کی طرف القاکیاگیاتھا اور آیات قرآنی پڑھ کرسنائیں ۔

وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْیَمَ۝۰ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّا۝۱۶ۙ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا۝۰ۣ۠  فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا۝۱۷ قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا۝۱۸ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ۝۰ۤۖ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا۝۱۹ قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِیًّا۝۲۰ قَالَ كَذٰلِكِ۝۰ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَعَلَیَّ هَیِّنٌ۝۰ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا۝۰ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۝۲۱ فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا۝۲۲ فَاَجَاۗءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ۝۰ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْـیًا مَّنْسِـیًّا۝۲۳ فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا۝۲۴ وَهُزِّیْٓ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا۝۲۵ۡ فَكُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا۝۰ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا۝۰ۙ فَقُوْلِیْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِـیًّا۝۲۶ۚ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ۝۰ۭ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـیْـــــًٔـا فَرِیًّا۝۲۷ یٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّا۝۲۸ۖۚ فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ۝۰ۭ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا۝۲۹ قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙ وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا۝۳۱۠ۖ وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ۝۰ۡوَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۝۳۲ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا۝۳۳ ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ۝۰ۚ قَوْلَ الْحَــقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ۝۳۴ مَا كَانَ لِلهِ اَنْ یَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ۝۰ۙ سُبْحٰــنَهٗ۝۰ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۳۵ۭ وَاِنَّ اللهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۳۶  [19]

ترجمہ:اوراے نبی اس کتاب میں  مریم رحمہ اللہ  کاحال بیان کروجبکہ وہ اپنے لوگوں  سے الگ ہوکرشرقی جانب گوشہ نشین ہوگئی تھی اورپردہ ڈال کران سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں  ہم نے اس کے پاس اپنی روح(یعنی فرشتے کو) بھیجا اوروہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں  نمودار ہوگیا،مریم رحمہ اللہ  یکایک بول اٹھی کہ اگرتوکوئی خداترس آدمی ہے تومیں  تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں  اس نے کہا میں  تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں  اوراس لئے بھیجا گیاہوں  کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں ،مریم رحمہ اللہ  نے کہامیرے ہاں کیسے لڑکا ہوگاجبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں  ہے اورمیں  کوئی بدکارعورت نہیں  ہوں ،فرشتے نے کہاایساہی ہوگا،تیرارب فرماتاہے کہ ایساکرنامیرے لئے بہت آسان ہے اورہم یہ اس لئے کریں  گے کہ اس لڑکے کولوگوں  کے لئے ایک نشانی بنائیں  اوراپنی طرف سے ایک رحمت اوریہ کام ہوکر رہنا ہے۔مریم رحمہ اللہ  کواس بچے کاحمل رہ گیااوروہ اس حمل کولیئے ہوئے ایک دورکے مقام پر چلی گئی،پھر زچگی کی تکلیف نے اسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچادیاوہ کہنے لگی کاش! میں  اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام ونشان نہ رہتا،فرشتے نے پائنتی سے اسکو پکارکرکہا غم نہ کر ، تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں  کردیاہے اورتوزرااس درخت کے تنے کوہلا، تیرے اوپرتروتازہ کھجوریں  ٹپک پڑیں  گی پس توکھا اور پی اوراپنی آنکھیں  ٹھنڈی کرپھراگرکوئی آدمی تجھے نظرآئے تواس سے کہہ دے کہ میں  نے رحمان کے لئے روزے کی نذرمانی ہے اس لئے آج میں  کسی سے نہ بولوں  گی،پھروہ اس بچے کولیئے ہوئے اپنی قوم میں  آئی،لوگ کہنے لگے اے مریم یہ توتونے بڑا پاپ کرڈالااے ہارون کی بہن نہ تیراباپ کوئی برا آدمی تھااورنہ تیری ماں  ہی کوئی بدکارعورت تھی،مریم رحمہ اللہ  نے بچے کی طرف اشارہ کردیا،لوگوں  نے کہاہم اس سے کیابات کریں  جوگہوارے میں  پڑاہواایک بچہ ہے،بچہ بول اٹھا میں   اللہ کابندہ ہوں  اس نے مجھے کتاب دی اورنبی بنایااوربابرکت کیاجہاں  میں  رہوں  اورنمازاور زکواة کی پابندی کاحکم دیاجب تک میں  زندہ رہوں  اور اپنی والدہ کاحق ادا کرنے والابنایااورمجھ کوجباراورشقی نہیں  بنایا سلام ہے مجھ پرجبکہ میں  پیداہوااورجبکہ میں  مروں  اور جبکہ میں  زندہ کرکے اٹھایاجاؤ ں ،یہ ہے عیسیٰ ابن مریم اوریہ ہے اس کے بارے میں  وہ سچی بات جس میں  لوگ شک کررہے ہیں ،اللہ کایہ کام نہیں  کہ وہ کسی کوبیٹابنائے ،وہ پاک ذات ہے وہ جب کسی بات کافیصلہ کرتاہے توکہتاہے کہ ہوجااوربس وہ ہوجاتی ہے۔(اورعیسیٰ  علیہ السلام  نے کہاتھاکہ)اللہ میرارب بھی ہے اورتمہارارب بھی ،پس تم اسی کی بندگی کرویہی سیدھی راہ ہے۔

فَضَرَبَ النَّجَاشِیُّ بِیَدِهِ إلَى الْأَرْضِ، فَأَخَذَ مِنْهَا عُودًا، ثُمَّ قَالَ: وَاَللَّهِ مَا عَدَا عِیسَى بن مَرْیَمَ مَا قُلْتَ هَذَا الْعُودَقَالَ: اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ سُیُومٌ بِأَرْضِی، مَنْ سَبَّكُمْ غُرِّمَ وَالسُّیُومُ: الْآمِنُونَ فِی لِسَانِهِمْ، ثُمَّ قَالَ لِلرَّسُولَیْنِ: لَوْ أَعْطَیْتُمُونِی دَبَرًا مِنْ ذَهَبٍ، یَقُولُ: جَبَلًا مِنْ ذَهَبٍ، مَا أَسْلَمْتُهُمْ إِلَیْكُمَارُدُّوا عَلَیْهِمَا هَدَایَاهُمَا، فَلَا حَاجَةَ لی بهَا، فو الله مَا أَخَذَ اللَّهُ مِنِّی الرِّشْوَةَ حِینَ رَدَّ عَلَیَّ مُلْكِی، فَآخُذَ الرِّشْوَةَ فِیهِ، وَمَا أَطَاعَ النَّاسَ فِیَّ فَأُطِیعَهُمْ فِیهِ،قَالَتْ: فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِهِ مَقْبُوحَیْنِ مَرْدُودًا عَلَیْهِمَا مَا جَاءَا بِهِ ، وَأَقَمْنَا عِنْدَهُ بِخَیْرِ دَارٍ، مَعَ خَیْرِ جَارٍ

یہ حقیقی جواب سنکرنجاشی جوش سے بھرگیا اور زمین پرہاتھ مارااورایک تنکااٹھا کرکہنے لگااللہ کی قسم!تم نے جوکچھ بیان کیاہے عیسیٰ  علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابربھی عیسیٰ  علیہ السلام  زیادہ نہیں  ، پھرنجاشی بولاآج سے یہ مہاجرین میرے قابل قدرمہمان ہیں جوانہیں  براکہے گاتونقصان اٹھائے گااوراگرکوئی انہیں  نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گاتواسے سخت ترین سزا دی جائے گی، پھرقریش کے دونوں  قاصدوں  سے کہنے لگااگرتم مجھے سونے کاگرجابلکہ پہاڑبھی دے دوپھربھی میں  مسلمانوں  کوتمہارے حوالے نہیں  کروں  گاپھراپنے کارندوں  اور اہل دربارسے مخاطب ہوکربولاکہ ان سفیروں  کے تحائف انہیں  واپس کر دیں ہمیں  ان کے تحائف کی کوئی ضرورت نہیں ،جب اللہ تعالیٰ نے مجھے میراملک واپس دیاتھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں  لی تھی کہ میں  ان کے بارے میں  رشوت لوں ،اس نے میرے بارے میں  لوگوں  کی کوئی بات نہیں  مانی کہ میں  اب اس کے بارے میں  ان کی بات مانوں ،اس طرح مسلمان نہایت شاداں  وفرحاں  اور قریش کے ایلچی اپنے تحائف اورنذرانے لیکرنہایت ذلت وندامت سے باہرنکل آئے اور مہاجرین حبشہ میں  بڑے آرام وسکون سے زندگی بسرکرنے لگے۔[20]

قریش کے سفیروں  نے حبشہ سے واپس آکردوسرے سرداروں  کواپنی ذلت ونامرادی کی داستان سنائی توان کے دل غیض وغضب سے بھرگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بغض وحسد اورزیادہ بڑھ گیا،دوسرے مسلمانوں  پرتوان کے قبیلے والے ،عزیزواقارب یاغلاموں  پرمالک ظلم و ستم کرتے ہی رہتے تھے جس کانتیجہ صفرہی نکلاتھا،ان مظالم سے بچنے اوراپنے ایمان کی سلامتی کے لئے ایک بڑی تعدادمیں  مسلمان حبشہ ہجرت کرچکے تھے اورمکہ میں  سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم اورچندساتھیوں  کے علاوہ کوئی نہیں  تھا،چنانچہ موقعہ غنیمت جان کر انہوں  نے ان خطوط پرسوچناشروع کردیاکہ ہرممکن طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دعوت اسلام سے روکاجائے یا پھر انہیں  قتل کردیاجائے ،عرب سمجھتے تھے کہ اگر انہوں  نے اس زمین کواس مرکزی شخصیت سے محروم کردیاتویہ دنیااللہ کے قانون سے خودبخودخالی ہوجائے گی اوران کانراج ان کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لئے قائم رہے گااسی سوچ کے تحت ذات اقدس پرجان لیواحملہ کیاگیا،ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حرم میں  نمازپڑھ رہے تھے کہ نراج کے ایک پرجوش حامی نے آپ کی گردن میں  پٹکاڈال کراس زورسے بھینچاکہ آپ کی سانس رک گئی ،سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے بچایا،کیونکہ آپ کےچچاابوطالب قرابت تعلق سے برابرمخالفین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت پر کمربستہ تھے اس لئے اپنے خیال کوعملی جامہ پہنانے سے پہلے انہوں  نے ان سے بات کرنامناسب خیال کیا ۔

ابوطالب کوعلانیہ دھمکی:

یَا أَبَا طَالِبٍ، إنَّ لَكَ سِنًّا وَشَرَفًا وَمَنْزِلَةً فِینَا، وَإِنَّا قَدْ اسْتَنْهَیْنَاكَ مِنْ ابْنِ أَخِیكَ فَلَمْ تَنْهَهُ عَنَّا، وَإِنَّا وَاَللَّهِ لَا نَصْبِرُ عَلَى هَذَا مِنْ شَتْمِ آبَائِنَا، وَتَسْفِیهِ أَحْلَامِنَا، وَعَیْبِ آلِهَتِنَا، حَتَّى تَكُفَّهُ عَنَّا، أَوْ نُنَازِلَهُ وَإِیَّاكَ فِی ذَلِكَ، حَتَّى یَهْلِكَ أَحَدُالْفَرِیقَیْنِ، أَوْ كَمَا قَالُوا لَهُ،  (ثُمَّ) انْصَرَفُوا عَنْهُ، فَعَظُمَ عَلَى أَبِی طَالِبٍ فِرَاقُ قَوْمِهِ وَعَدَاوَتُهُمْ، وَلَمْ یَطِبْ نَفْسًا بِإِسْلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ وَلَا خِذْلَانِهِ

چنانچہ معاملہ طے کرکے وہ ابوطالب کے پاس آئے اورکہااے ابوطالب!آپ ہم سب میں  معمرہیں  اورمرتبہ وعزت میں  بھی ہم سب سے بڑھے ہوئے ہیں  ،ہم نے پہلے بھی آپ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کواس نئے دین کی دعوت سے روک لیں مگرآپ نے کچھ بھی نہیں  کیااوروہ کھلے عام ہمارے معبودوں  کو برابھلااور دعوت اسلام دیتے پھررہے ہیں ،ہم نے بہت برداشت کیامگرواللہ!اب ہمارے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیاہے،اب ہم مزیدضبط وبرداشت نہیں  کرسکتے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں  اور آباؤ اجداد کوگمراہ کہے اورہمیں  بے عقل اورنادان گردانے،ہم آپ کوواضح طورپرآگاہ کررہے ہیں  کہ یاتوآپ انہیں  اس دعوت کی تبلیغ سے روک دیں  ورنہ ہم آپ سے اور ان سے مقابلہ کریں  گے یہاں تک کہ ہم دونوں  فریقوں  میں  سے ایک تباہ وبربادہوجائے،اس طرح دھمکی دے کروہ لوگ واپس چلے گئے،ابوطالب پر قوم کا چھوٹ جانا اوران کادشمن بن جانابہت شاق گزرااورانہی وجوہات سے نہ وہ بخوشی خاطررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پراسلام لاسکے اورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مددسے ہاتھ اٹھاسکے،

 أَنَّ قُرَیْشًا حِینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، بَعَثَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: یَا ابْنَ أَخِی، إنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَاءُونِی، فَقَالُوا لِی كَذَا وَكَذَا، لِلَّذِی كَانُوا قَالُوا لَهُ، فَأَبْقِ عَلَیَّ وَعَلَى نَفْسِكَ، وَلَا تُحَمِّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ،قَالَ: فَظَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ بَدَا لِعَمِّهِ فِیهِ بَدَاءٌ  أَنَّهُ خَاذِلُهُ وَمُسْلِمُهُ، وَأَنَّهُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِهِ وَالْقِیَامِ مَعَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا عَمُّ، وَاَللَّهِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِینِی، وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِی  عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى یُظْهِرَهُ اللَّهُ، أَوْ أَهْلِكَ فِیهِ، مَا تَرَكْتُهُ،قَالَ: ثُمَّ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَى ثُمَّ قَامَ،فَلَمَّا وَلَّى نَادَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: أَقْبِلْ یَا بن أَخِی، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اذْهَبْ یَا بن أَخِی، فَقُلْ مَا أَحْبَبْت، فو الله لَا أُسْلِمُكَ لِشَیْءِ أَبَدًا

جب قریش کے وفد نے یہ شکایت کی توابوطالب نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوبلابھیجااور اے میرے بھتیجے!تمہاری قوم نے میرے پاس آکرتمہاری شکایتوں  کادفترکھولاہے پس میں  مناسب سمجھتاہوں  کہ تم اپنی اورمیری جان کے ہلاک کرنے کی بات نہ کرواور مجھ پرمیری طاقت سے زیادہ بارنہ ڈالو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوخیال گزراکہ ان کاچچاجواب تک پوری قوم کے سامنے ان کاپشت پناہ بناکھڑاتھا انہیں  بے سہاراچھوڑرہاہے اوراب وہ ان کی پشت پناہی کرنے سے قاصرہیں ،اس لئے جواباًعرض کیااے چچا!اللہ کی قسم اگریہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پرسورج اوربائیں  ہاتھ پرچاندلاکربھی رکھ دیں  میں  تب بھی اپنے وعظ ونصیحت سے بازنہیں  آؤ ں  گایہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کابول بالا فرما دے گایامیں  خود اس راہ میں  فناہوجاؤ ں ،یہ کہہ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم شدت جذبات سے روپڑے اوروہاں  سے جانے کے لئے. اٹھ کھڑے ہوئے،جب آپ لوٹنے لگے تو ابوطالب نے آپ کوآوازدی اورکہااے میرے بھتیجے!تم اپنی دعوت جس کو چاہودیتے پھرو،واللہ! میں  تمہیں  کسی قیمت پرکسی کے حوالہ نہ کروں  گا۔[21]اس روایت کی سندمنقطع ہے۔

أخبرنی عقیل بن أبی طالب قال: جَاءَتْ قُرَیْشٌ إِلَى أَبِی طَالِبٍ، فَقَالُوا: إِنَّ ابْنَ أَخِیكَ هَذَا قَدْ آذَانَا فِی نَادِینَا وَمَسْجِدِنَا فَانْهَهُ عَنَّا فَقَالَ: یَا عَقِیلُ انْطَلِقْ فَأْتِنِی بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَیْهِ ، فجعل یطلب الفیء یمشی فیه من شِدَّةِ الْحَرِّ الرحض،   فَلَمَّا أَتَاهُمْ قَالَ أَبُو طَالِبٍ: إِنَّ بَنِی عَمِّكَ هَؤُلَاءِ قَدْ زَعَمُوا أَنَّكَ تُؤْذِیهِمْ فِی نَادِیهِمْ وَمَسْجِدِهِمْ فَانْتَهِ عَنْ أَذَاهُمْ، فَحَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَتَرَوْنَ هَذِهِ الشَّمْسَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَنَا بِأَقْدَرِ عَلَى أَنْ أَدَعَ ذَلِكَ مِنْكُمْ عَلَى أَنْ تَسْتَشْعِلُوا  مِنْهَا شُعْلَةً، فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: وَاللهِ مَا كَذَّبْتَ ابْنَ أَخِی قَطُّ فَارْجِعُوا

عقیل بن ابی طالب سے مروی ہےقریش کے لوگ ابوطالب کے پاس آئے اورکہاتمہارابھتیجاہمیں  مجلسوں  اوربیت اللہ میں  بیٹھ کرہمیں  تکلیف پہنچارہاہے،انہیں  ایساکرنے سے روکو،ابوطالب نے عقیل سے کہااے عقیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جاؤ اورانہیں  بلاکرلاؤ ، میں  انہیں  بلانے کے لئے گیاپس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سائے کوتلاش کرتے ہوئے پسینے میں  شرابورہوکرتشریف لائے،   جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائےتوابوطالب نے کہا بھتیجے!یہ تمہاری قوم کے لوگ کہتے ہیں  کہ تم انہیں  ان کی مجلسوں  اوربیت میں  بیٹھ کرتکلیف پہنچاتے ہو،بھتیجے !انہیں  تکلیف مت پہنچاؤ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نظرآسمان کی طرف اٹھائی اورفرمایاآپ سورج کودیکھتے ہیں ؟ وہ بولے ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس طرح آپ اس سے کوئی شعلہ نہیں  لاسکتے اسی طرح میں  بھی اپناکام نہیں  چھوڑسکتا، ابوطالب سرداران قریش سے کہنے لگے اللہ کی قسم!میرے بھتیجے نے کبھی کوئی غلط بات نہیں  کی ،جاؤ چلے جاؤ ۔[22]چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کفارمکہ سے بلاخوف دعوت اسلام کوپھیلانے میں  سرگرداں  رہے۔

ابوطالب کوایک اورتجویز:

ثُمَّ إنَّ قُرَیْشًا حِینَ عَرَفُوا أَنَّ أَبَا طَالِبٍ قَدْ أَبَى خِذْلَانَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَإِسْلَامَهُ، وَإِجْمَاعَهُ لِفِرَاقِهِمْ فِی ذَلِكَ وَعَدَاوَتِهِمْ، مَشَوْا إلَیْهِ بِعُمَارَةَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ،  فَقَالُوا لَهُ فِیمَا بَلَغَنِی یَا أَبَا طَالِبٍ، هَذَا عُمَارَةُ ابْن الْوَلِیدِ، أَنْهَدُ فَتًى فِی قُرَیْشٍ وَأَجْمَلُهُ، فَخُذْهُ فَلَكَ عَقْلُهُ وَنَصْرُهُ، وَاِتَّخِذْهُ وَلَدًا فَهُوَ لَكَ، وَأَسْلِمْ إلَیْنَا ابْنَ أَخِیكَ هَذَا، الَّذِی قَدْ خَالَفَ دِینَكَ وَدِینَ آبَائِكَ، وَفَرَّقَ جَمَاعَةَ قَوْمِكَ، وَسَفَّهُ أَحْلَامَهُمْ، فَنَقْتُلَهُ، فَإِنَّمَا هُوَ رَجُلٌ بِرَجُلِ

جب قریش کوبخوبی معلوم ہوگیاکہ ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے تعلق نہیں  چھوڑتے اوران کی حمایت پرکمربستہ ہیں  تب وہ عمارہ بن ولیدبن مغیرہ کواپنے ساتھ لے کرابوطالب کے پاس گئے  اوران سے درخواست کی کہ یہ عمارہ جوقریش کابہت ہوشمنداورحسین ترین نوجوان ہے آپ اسے قبول کرلیں ،اس کی عقل ودانش اورمددآپ کے کام آئے گی ، آپ اسے اپنامتنبی بنالیں  اوراپنے بھتیجے کوجس نے ہماری عقلوں  کوناکارہ قراردے دیا ہے اورخودآپ کے آباؤ اجدادکے دین کی مخالفت شروع کررکھی ہے جس نے آپ کی قوم میں  انتشار برپاکردیاہے ہمارے سپردکردیں  تاکہ ہم اسے قتل کرڈالیں  اورجان کے بدلے جان کے اصول پرعمارہ کوان کے بدلے رکھ لیں ،

فَقَالَ: وَاَللَّهِ لَبِئْسَ مَا تَسُومُونَنِی ! أَتُعْطُونَنِی ابْنَكُمْ أَغْذُوهُ لَكُمْ، وَأُعْطِیكُمْ ابْنِی تَقْتُلُونَهُ! هَذَا وَاَللَّهِ مَا لَا یَكُونُ أَبَدًا قَالَ: فَقَالَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِیِّ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَیٍّ: وَاَللَّهِ یَا أَبَا طَالِبٍ لَقَدْ أَنْصَفَكَ قَوْمُكَ، وَجَهَدُوا عَلَى التَّخَلُّصِ مِمَّا تَكْرَهُهُ، فَمَا أَرَاكَ تُرِیدُ أَنْ تَقْبَلَ مِنْهُمْ شَیْئًا فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ لِلْمُطْعِمِ: وَاَللَّهِ مَا أَنْصَفُونِی، وَلَكِنَّكَ قَدْ أَجْمَعْتَ خِذْلَانِی وَمُظَاهَرَةَ الْقَوْمِ عَلَیَّ، فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ، أَوْ كَمَا قَالَ. فَحَقَبَ الْأَمْرُ، وَحَمِیَتْ الْحَرْبُ، وَتَنَابَذَ الْقَوْمُ، وَبَادَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا

ان کی احمقانہ تجویزسن کرابوطالب نے کہاواللہ!تم مجھ سے جوسوداکررہے ہووہ بہت براسوداہے کیاتم اپنافرزندمجھے اس لئے دیتے ہوکہ میں  اسے تمہارے لئے کھلاپلا کر تیار کروں  اوراپنافرزندتمہیں اس لئے دے دوں  کہ تم اسے قتل کرڈالوواللہ! ایساہرگزنہ ہوگا،اس پر مطعم بن عدی بن نوفل بن عبدمناف بولاآپ کی قوم نے آپ کے سامنے منصفانہ تجویزرکھی ہے لیکن میں  دیکھ رہاہوں  کہ آپ کسی بات کوقبول کرنے پرآمادہ نظرنہیں  آتے،ابوطالب نے کہاواللہ! تم لوگوں  نے میرے ساتھ انصاف نہیں  کیابلکہ تم لوگوں  نے مجھ پر قوم کو چڑھالانے اورمجھے رسواکرنے کی دونوں  تدبیریں  کی ہیں پس اب تمہاراجوجی چاہے کرلو،جب قریش اپنے مطالبہ کے پوراہونے سے ہرطرح سے مایوس ہوگئے تو عام مسلمانوں  پرظلم وتشدد پراترآئےاورہرقبیلہ اپنے نومسلموں کوطرح طرح کاعذاب دے کراپنے دین سے مرتدکرنے کی سعی کرنے لگا۔[23]

یہ دیکھ کرابوطالب بنوہاشم کے پاس گئے اورانہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت وپشت پناہی پرزوردیاجسے انہوں  نے قبول کرلیا۔

 

[1] المختصر الكبیر فی سیرة الرسول صلى الله علیه وسلم۳۷؍۱،سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد ۳۸۹؍۲

[2] صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ۳۸۷۲

[3] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ  بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ وَأَهْلِ سَفِینَتِهِمْ رَضِیَ اللهُ عَنْهُم۶۴۱۱

[4] اسد الغابہ ۳۳۱؍۳، تفسیرالقرطبی۲۴۲؍۱۴،البدایة والنہایة۲۱۹؍۷

[5] الإصابة فی تمییز الصحابة ۱۳۸؍۸، لاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۸۴۰؍۴

[6] تاریخ طبری۴۱۹؍۴

[7] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۱۴؍۷

[8] المعارف۱۹۸؍۱

[9] مروج الذہب۳۴۱؍۲

[10] مروج الذہب۳۴۱؍۲

[11] مروج الذہب۳۴۱؍۲

[12] منہاج السنہ۴۸؍۴

[13] ابن ہشام۳۲۳؍۱،عیون الاثر۱۳۶؍۱

[14] ابن ہشام۳۳۴؍۱

[15] المصباح المضی فی كتاب النبی الأمی ورسله إلى ملوك الأرض من عربی وعجمی ۴۸؍۲

[16] سیرة ابن اسحاق۲۱۴؍۱

[17] ابن ہشام۳۳۵؍۱،دلائل النبوة لابی نعیم۲۴۶؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۰،الروض الانف۱۵۰؍۳،تاریخ الخمیس۲۹۰؍۱

[18] مریم ۱تا۱۵

[19] مریم ۱۶تا۳۶

[20] سیرة ابن اسحاق۲۱۴؍۱،ابن ہشام۳۳۶؍۱،الروض الانف۱۴۸؍۳،زادالمعاد۲۷؍۳

[21] ابن ہشام۲۶۵؍۱،الروض الانف۹؍۳

[22] السیر والمغازی لابن اسحاق۱۵۵؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۶؍۲، السیرة النبویة لابن كثیر۴۶۳؍۱، سُبُل السَّلام مِن صَحیح سیرة خَیر الأنَامِ عَلیه الصَّلاة وَالسَّلام۱۲۳؍۱،السیرة النبویة كما جاءت فی الأحادیث الصحیحة۱۲۳؍۱،صحیح السیرة النبویة للعلی۵۷؍۱،فقه السیرة النبویة لمنیر  الغضبان۲۰۷؍۱،السِّیرةُ النَّبَویَّةُ الصَّحیْحَةُ مُحَاوَلَةٌ لِتَطبِیْقِ قَوَاعِدِ المُحَدِّثیْنَ فِیْ نَقْدِ روَایَاتِ السِّیْرَةِ النَّبَویَّةِ۱۶۰؍۱

[23] ابن ہشام ۲۶۷؍۱، الروض الانف ۱۲؍۳، عیون الآثر۱۱۸؍۱

Related Articles