بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ الواقعہ

اس سورۂ میں  توحیدباری تعالیٰ،قرآن مجید اورآخرت کی بابت کفارمکہ کے شبہات اوراعتراضات کاجواب ہے۔

سورۂ کے شروع میں  قیامت کے وقوع پذیرہونے اورمردہ انسانوں  کودوبارہ اٹھائے جانے کاتذکرہ ہے نیزیہ کہ اس کے بعدہرانسان کے اعمال کامحاسبہ بھی ہوگا،مومن ومتقی لوگ انواع اقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  اورکافروفاسق لوگ دہکتی ہوئی جہنم میں  ڈالے جائیں  گے اورجب قیامت واقع ہوگی تودنیاکی کوئی ہستی اس کوروک نہ سکے گی،اس سورۂ میں  اعتقادی وعملی اعتبارسے انسانوں  کے تین طبقات کابیان اوران کاانجام مذکورہے۔

xایمان میں  پہل کرنے والے۔

xعام نیکوکارمسلمان۔

xآخرت کے منکرلوگ جومرتے دم تک کفروشرک اورگناہ کبیرہ پرجمے رہے۔

اس کے بعدعقیدہ آخرت کے بارے میں  دلائل مذکورہیں ،اس ضمن میں  زمین وآسمان اور خودانسان کے اپنے وجودکوبطورگواہ پیش کیاگیاہے،ان دلائل پرغوروفکرکی دعوت دی گئی ہے کہ جو خالق اس عظیم الشان کائنات اورانسان کوپانی کے قطرے سے بہترین ساخت پرپیداکرکے اعمال کے معاملے میں  خودمختار بناسکتا ہے، مٹی میں  ڈالے جانے والے بیج کوپودااورتناوردرخت بناسکتاہے،بادلوں  سے جہاں  چاہتاہے پانی برساسکتاہے اوردرخت سے آگ پیداکرسکتاہے وہ مردہ انسانوں  کوبھی دوبارہ زندہ کردینے کی قدرت رکھتا ہے ، اس قدرتوں  والی ذات کوچھوڑکرغیراللہ کی عبادت کرناجنہوں  نے کچھ بھی پیدانہیں  کیا عقل ودانش کے تقاضوں  کے سراسرخلاف ہے،قرآن مجیدکے نعمت عظمٰی ہونے کاذکرہے کہ اس عظیم الشان نعمت کی موجودگی میں  کوئی انسان اس کی تکذیب کرے یااس سے بے اعتنائی برتے تواس سے زیادہ محروم اوربدقسمت اورکون ہوگا؟

اورفرمایاکہ یہ قرآن کریم اللہ کاکلام ہے اوراللہ کے پاکباز فرشتے یہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچاتے ہیں  اوراس کلام کے لوح محفوظ میں  ہونے اور اس کے صحیح ہونے میں  کوئی شک نہیں ،کیونکہ اس قرآن کے لانے اور پہنچانے کے سلسلے میں ان قدسی فرشتوں  کوبھی دخل کی گنجائش حاصل نہیں ،سورۂ کے اختتام میں  انسان کی بے بسی کاذکرکیاگیا کہ توکتنی ہی لن ترانیاں  ہانکے اوراپنی خودمختاری کے گھمنڈمیں  کتناہی حقائق سے آنکھیں  چرائے مگرموت کا وقت تیری آنکھیں  کھول دینے کے لیے کافی ہے،تیرے سب عزیز وا قارب ،دوست احباب تیری آنکھوں  کے سامنے مرتے ہیں  اورتوانہیں صرف دیکھتارہ جاتاہے،اگرتوسمجھتاہے کہ تیرے اوپر کوئی بالاترطاقت فرمانروانہیں  ہے اورتو اپنے زعم باطل میں  سچا ہے کہ دنیامیں  بس توہی توہے اورکوئی الٰہ نہیں  ہے توپھرکسی مرنے والے کی نکلتی ہوئی جان کوپلٹاکیوں  نہیں  لاتے جس طرح تواس معاملہ میں  بے بس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے محاسبے اوراس کی جزا وسزاکوروک دیناتیرے اختیارمیں  نہیں  ہے،خواہ تومانے یانہ مانےمگرموت کے بعدہر مرنے والااعمال کے مطابق اپناانجام دیکھ لے گا ،آخرمیں  تسبیح وتہلیل کاخصوصی حکم ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ‎﴿١﴾‏ لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ ‎﴿٢﴾‏ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ ‎﴿٣﴾‏ إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا ‎﴿٤﴾‏ وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا ‎﴿٥﴾‏ فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا ‎﴿٦﴾‏ وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً ‎﴿٧﴾‏ فَأَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ ‎﴿٨﴾‏ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ‎﴿٩﴾‏ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ‎﴿١٠﴾‏ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ‎﴿١١﴾‏ فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿١٢﴾‏ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٣﴾‏ وَقَلِیلٌ مِّنَ الْآخِرِینَ ‎﴿١٤﴾‏(الواقعہ)
’’جب قیامت قائم ہوجائے گی ،جس کے واقع ہونے میں  کوئی جھوٹ نہیں ، وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی، جبکہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہلا دی جائے گی، اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیئے جائیں  گےپھر وہ  مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں  گے،اور تم تین جماعتوں  میں  ہوجاؤ گے،پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں  داہنے ہاتھ والے، اور بائیں  ہاتھ والے کیا حال ہے بائیں  ہاتھ والوں  کا ،اور جو آگے والے ہیں  وہ تو آگے والے ہی ہیں ،  وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں ، نعمتوں  والی جنتوں  میں  ہیں ،(بہت بڑا) گروہ اگلے لوگوں  میں  سے ہوگا اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں  میں  سے۔

پچھلی قوموں  کی طرح اہل عرب بھی حیات بعدالموت کے منکرتھے ،ان کاخیال تھاکہ زندگی بس اسی دنیاکی ہی زندگی ہے ،اسی میں  جانوروں  کی طرح کھاؤ پیو،اچھے برے اعمال کرو اورمرجاؤ ،اس کے بعدکوئی دوسری زندگی نہیں جس میں  اعمال کاحساب کتاب اورجزاوسزا ہو،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۔۔۔۝۲۴ [1]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں  ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں  جو ہمیں  ہلاک کرتی ہو ۔

اِنْ ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۳۷۠ۙ [2]

ترجمہ:زندگی کچھ نہیں  ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی، یہیں  ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں  ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب لوگوں  کودعوت اسلام پیش کی جس میں  توحید،رسالت اورآخرت کاذکرہوتاتھا توسب سے عجیب اوربعیدازقیاس چیزجوانہیں  محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ ایک وقت قیامت قائم ہوگئی جس میں  اس عظیم الشان کائنات کاتمام نظام درہم برہم ہوجائے گا، تمام مخلوقات موت سے ہمکنارہوں  جائیں  گی ،پھرجب اللہ چاہے گاایک دوسراعالم نئے نظام اورقوانین کے تحت قائم کرے گااورتمام جن وانس کوزندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع کرے گا،جیسےفرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۝۴۸ [3]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں  اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں  گے اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بےنقاب حاضر ہو جائیں  گے ۔

اوراعمال کے مطابق جزاوسزادے گا،یہ سن کروہ حیرت واستعجاب سے چہ میگوئیاں  کرتے کہ قیامت کیسے قائم ہوجائے گی ، یہ وسیع وعریض ہموارزمین ، صدیوں  سے ہمارے سروں  پرچمکنے والا سورج ،راتوں  کوٹھنڈی روشنی دینے والاچاند،انگنت ستارے ،یہ فلک بوس پہاڑ،پانی سے بھرے یہ وسیع وعریض سمندر وغیرہ کہاں  چلے جائیں  گے، صدیوں  سے زمین میں  دفن مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے والے،پانی میں  ڈوب کرمرجانے والے یاجن کوجانوروں  اوردرندوں  نے کھایاہوگاوہ مردے آخرکیسے زندہ ہو جائیں  گےپھر اعمال کی جزاوسزاکے لئے وسیع وعریض نعمتوں  سے بھری جنت ودہکتی ہوئی جہنم کہاں  وجودمیں  آجائیں  گی، اس پس منظرمیں  اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ واقعہ (یعنی قیامت) توایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایانہیں  جا سکتا،جیسے فرمایا

فَیَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ۝۱۵ۙ  [4]

ترجمہ: اس روزوہ ہونے والاواقعہ پیش آجائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے کائنات کی ہرچیزکوہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں  بلکہ ایک وقت مقررہ تک کے لئے تخلیق کیاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔۝۲ [5]

ترجمہ: اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہےاور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے ۔

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ لَكٰفِرُوْنَ۝۸ [6]

ترجمہ:کیا انہوں  نے کبھی اپنے آپ میں  غور و فکر نہیں  کیا ؟اللہ نے زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہےمگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں  ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡكُلٌّ یَّجْرِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّی۔۔۔۝۲۹  [7]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ رات کو دن میں  پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ، اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ۔

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۝۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡۖ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۱۳ۭ [8]

ترجمہ:وہ دن کے اندر رات اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے،چاند اور سورج کو اس نے مسخر کر رکھا ہے یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۳  [9]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں  کو ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  برحق اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

اللہ کی ذات کے سوااس عظیم الشان کائنات کی ہرچیزکوفناہے ، جیسے فرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [10]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

جب ایک وقت مقررہ پر قیامت قائم ہوگی تو کوئی ہستی اس ہولناک واقعہ کو پھیردینے کی طاقت اور قدرت نہیں  رکھے گی ، جیسے فرمایا

اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللهِ  ۝۴۷  [11]

ترجمہ:مان لواپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں  ہے ۔

سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۝۱ۙلِّلْكٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَهٗ دَافِعٌ۝۲ۙ      [12]

ترجمہ: مانگنے والے نے عذاب مانگاہے (وہ عذاب)جوضرورواقع ہونے والاہے کافروں  کے لئے ہے کوئی اسے دفع کرنے والانہیں ۔

اورجب سب لوگ اس وحشت ناک واقعہ کواپنی آنکھوں  سے دیکھ لیں  گے توپھرکوئی متنفس اسے جھٹلانے والابھی نہ ہوگا،فرمایاتم لوگ اس واقعہ کومعمولی واقعہ مت سمجھووہ تو ایسازبردست واقعہ ہوگاکہ زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے الٹ پلٹ کررکھ دے گا ، یہ بھی کہاجاتاہے کہ اللہ کے اطاعت گزار بندوں  کویہ اعلیٰ علیین کی بلندیوں  پر پہنچائے گا اور نافرمانوں  کواسفل السافلین کی پستیوں  تک گرانے والاہے ،پوری زمین بیک وقت زلزلے کے جھٹکے کھانے لگے گی اورلرزکررہ جائے گی،جیسے فرمایا

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙ [13]

ترجمہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی۔

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ۝۱ [14]

ترجمہ: لوگو!اپنے رب کے غضب سے بچو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کازلزلہ بڑی (ہولناک)چیزہے ۔

اوریہ فلک بوس پہاڑجنہوں  نے زمین کوڈھلکنے سے تھام رکھاہےزمین کی گرفت سے نکل جائیں  گے اور آپس میں  ٹکراکر ریزہ ریزہ ہو جائیں  گے اورایک پراگندہ غباربن کر بے نام ونشان ہو جائیں  گے،جیسے فرمایا

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّہِیْلًا۝۱۴ [15]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں  گے اور پہاڑوں  کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں  ۔

پہاڑوں  کے ریزہ ریزہ ہونے سے زمین ایک ہمواراورچٹیل میدان بن جائے گی اوراس میں  کوئی نشیب وفرازنہ ہوگا،جیسے فرمایا

فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ    [16]

ترجمہ:اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً۔۔۔۝۴۷ۚ    [17]

ترجمہ:اور جس دن ہم پہاڑوں  کو چلائیں  گے اورتم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے۔

تمام انسان جواول روزافرنیش سے قیامت تک پیداہوئے ہیں  اپنے اعمال کے مطابق تین گروہ میں  تقسیم ہو جائیں  گے ،کیونکہ اہل عرب سیدھے ہاتھ کوقوت اوررفعت اور عزت کانشان سمجھتے تھےاورجس کوعزت و احترام دینا مقصود ہوتااسے مجلس میں  سیدھے ہاتھ کی طرف جگہ دیتے تھے،اوربائیں  بازوکوکمزوری اورذلت کانشان سمجھتے تھے اس لئے جب مجلس میں  کسی کوبائیں  ہاتھ کی طرف جگہ دیتے تواس کے معنی یہ ہوتے کہ وہ اسے کمتردرجے کاآدمی سمجھے ہیں ، اس لئے جب سفرپر جانے لگتے اورکوئی پرندہ اڑکر بائیں  بازوکی طرف پروازکرجاتاتواسے بدشگونی سمجھتے تھے ، اس لئے فرمایاایک گروہ میدان محشرمیں  رب کی بارگاہ میں  سیدھے ہاتھ کی طرف کھڑا ہوگا۔

وَهُمُ الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ شِقِّ آدَمَ الْأَیْمَنِ، وَیُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِأَیْمَانِهِمْ، وَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الْیَمِینِ. قَالَ السُّدِّیّ: وَهُمْ جُمْهُورُ أَهْلِ الْجَنَّةِ. وَآخَرُونَ عَنْ یَسَارِ الْعَرْشِ، وَهُمُ الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ شِقِّ آدَمَ الْأَیْسَرِ، وَیُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِشَمَائِلِهِمْ، وَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، وَهُمْ عَامَّةُ أَهْلِ النَّارِ -عِیَاذًا بِاللَّهِ مِنْ صَنِیعِهِمْ

یہ وہ لوگ ہوں  گے جنہیں  آدم  علیہ السلام  کی بائیں  جانب سے نکالاگیاتھاانہیں  اعمال نامے دائیں  ہاتھوں  میں  دیے جائیں  گےاورانہیں  دائیں  طرف لے جایاجائے گا،سدی  رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ یہ جمہوراہل جنت ہوں  گے،کچھ لوگ عرش کی بائیں  طرف ہوں  گےیہ وہ لوگ ہوں  گے جنہیں  آدم  علیہ السلام  کی بائیں  جانب سے نکالاگیاتھاانہیں  اعمال نامے بائیں  ہاتھوں  میں  دیے جائیں  گےاورانہیں  بائیں  جانب لے جایاجائے گا یہ عام اہل دوزخ ہوں  گے،ان کے اعمال سے اللہ کی پناہ۔[18]

ان عالی مرتبہ صالحہ لوگوں  کی خوش نصیبی اورنیک بختی کاکیا کہنا جن کے نامہ اعمال ان کے دائیں  ہاتھ میں  تھمائے جائیں  گے ،اورایک گروہ بارگاہ الٰہی میں بائیں  جانب کھڑا ہوگا ایسے بد بخت فاسقین لوگوں  کی ذلت ومسکنت کاکیا ٹھکانا جن کے نامہ اعمال بائیں  ہاتھ میں  پکڑائے جائیں  گے ،اورایک گروہ وہ ہوگاجن میں  رسول ،انبیاء اوروہ صالح لوگ ہوں  گے جواللہ اوراس کے رسول کی دعوت پرسبقت لے جانے والے ہوں  گے، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پکارپرہرنیکی اوربھلائی ، جہاد ،انفاق فی سبیل اللہ میں  بڑ ھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں  گے یہ سابقین سب سے آگے بارگاہ الٰہی کے قریب ہوں  گے ،اصحاب بدر تک ایمان لانے والے اس زمرے میں  آتے ہیں ،ایک اورمقام پر بھی تین گروہوں  کاذکرفرمایا

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا۝۰ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــیْرٰتِ بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالْــفَضْلُ الْكَبِیْرُ۝۳۲ۭ     [19]

ترجمہ:پھرہم نے اس کتاب کاوارث بنادیاان لوگوں  کوجنہیں  ہم نے (اس وراثت کے لئے)اپنے بندوں  میں  سے چن لیااب کوئی توان میں  سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اورکوئی بیچ کی راہ پر ہے اورکوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں  میں  سبقت کرنے والاہے ،یہی بہت بڑافضل ہے ۔

پس جس شخص نے اس دنیامیں  نیکیوں  اوربھلائیوں  کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں  اللہ کی نعمتوں  کی طرف بھی سابق ہی رہے گا ،جواللہ کی طرف سے انعام میں انواع و اقسام کی نعمتوں  بھری جنتوں  میں  رہیں  گے جن کے نیچے دودھ ، شہد ، مختلف ذائقوں  والی شرابوں  اورشفاف پانی کی نہریں  بہہ رہی ہیں ، جیسے فرمایا

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ      [20]

ترجمہ:دوڑکر چلو اس راہ پرجوتمہارے رب کی بخشش اوراس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں  جیسی ہے ۔

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۔۔۔۝۲۱  [21]

ترجمہ:دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ۔

اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

ایسے لوگ ہرپیغمبرکے سابقین میں  زیادہ ہوں  گے اورآخرین میں  کم ہوں  گے ، بعض اس سے امت محمدیہ کے افراد مرادلئے ہیں  کہ پہلے لوگوں  میں  سابقین کی تعدادزیادہ اور پچھلے لوگوں  میں  تھوڑی ہوگئی،امام ابن کثیرنے اسی قول کوترجیح دی ہے۔[22]

عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَیْرُ أُمَّتِی قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسب زمانوں  میں  بہترزمانہ میرازمانہ ہے پھراس کے بعدوالاپھراس سے متصل۔[23]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ فِی قُبَّةٍ، فَقَالَ:أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّ الجَنَّةَ لاَ یَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِی أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ البَیْضَاءِ فِی جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِی جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےہم چالیس کے قریب آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک خیمہ میں  تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیا تم اس پرراضی ہوکہ اہل جنت کاایک چوتھائی ر ہو؟ہم نے کہاکہ جی ہاں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکیاتم اس پرراضی ہوکہ اہل جنت کاتم تہائی رہو؟ہم نے کہاجی ہاں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاتم اس پرراضی ہوکہ اہل جنت کاتم نصف رہو ؟ہم نے عرض کیاجی ہاں ، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  محمدکی جان ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ)اہل جنت کاآدھا حصہ ہوگے اورایسااس لئے ہوگاکہ جنت میں  فرنبردارنفس کے علاوہ اورکوئی داخل نہ ہوگااورتم لوگ شرک کرنے والوں  کے درمیان ( تعداد میں )اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پرسفیدبال ہوتے ہیں  یاجیسے سرخ رنگ کے جسم پرایک سیاہ بال ہو۔[24]

عَلَىٰ سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ ‎﴿١٥﴾‏ مُّتَّكِئِینَ عَلَیْهَا مُتَقَابِلِینَ ‎﴿١٦﴾‏ یَطُوفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ‎﴿١٧﴾‏ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِیقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِینٍ ‎﴿١٨﴾‏ لَّا یُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا یُنزِفُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَحُورٌ عِینٌ ‎﴿٢٢﴾‏ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ ‎﴿٢٣﴾‏ جَزَاءً بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ لَا یَسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا ‎﴿٢٥﴾‏ إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا ‎﴿٢٦﴾(الواقعہ)
یہ لوگ سونے کی تاروں  سے بنے ہوئے تختوں  پرایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے، ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں  گے آمد و رفت کریں  گے آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو، جس سے نہ سر میں  درد ہو نہ عقل میں  فطور آئے اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں ،  اور پرندوں  کے گوشت جو انہیں  مرغوب ہوں ، اور بڑی بڑی آنکھوں  والی حوریں  جو چھپے ہوئے موتیوں  کی طرح ہیں ،  یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا، نہ وہاں  بکواس سنیں  گے اور نہ گناہ کی بات ، صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی۔

سابقین جنتوں  میں  داخل کردیے جائیں  گے جہاں  وہ سونے کے تاروں  سے بنے اورسونے،چاندی،موتیوں ، جواہرت اوردیگرزیورات اورسامان آرائش سے آراستہ تختوں  پر تکیے لگائے نہایت تمکنت ،اطمینان،راحت اورسکون کے ساتھ آمنے سامنے مجلس جمائے بیٹھیں  گے،ان کی مجلسوں  میں  انہی کے لئے مخصوص ہمیشہ ہمیشہ ایک ہی عمرمیں  رہنے والے حسین وجمیل نوعمر خدام ہوں  گے ،جیسے فرمایا

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴      [25]

ترجمہ: اوران کی خدمت میں  وہ لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں  گے جوانہی (کی خدمت)کے لئے مخصوص ہوں  گے ،ایسے خوبصورت جیسے چھپاکررکھے ہوئے موتی ۔

انواع و اقسام کے جاری چشموں  سے شراب کے چھلکتے ساغراورصراحیوں کواپنے نازک ہاتھوں  میں لئے خدمت کے لئے ادھر ادھر دوڑتے پھریں  گے،مگریہ ایسی شراب ہوگی جس سے نہ ان کے سرچکرائیں  گے اورنہ ہی ہوش وحواس ساتھ چھوڑیں  گے ،ایک مقام پر فرمایاکہ اس شراب سے وہ کیف و سرور تویقیناًمحسوس کریں  گے مگران کے جسم کوکوئی نقصان نہیں  پہنچے گااورنہ عقل میں  فتورآئے گا۔

 اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ۝۴۱ۙفَوَاكِهُ۝۰ۚ وَهُمْ مُّكْـرَمُوْنَ۝۴۲ۙفِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۝۴۳ۙعَلٰی سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِیْنَ۝۴۴یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍؚ۝۴۵ۙ بَیْضَاۗءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۴۶ۚۖلَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ۝۴۷    [26]

ترجمہ: ہر طرح کی لذیذچیزیں  اورنعمت بھری جنتیں  جن میں  وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں  گے،تختوں  پرآمنے سامنے بیٹھیں  گے ،شراب کے چشموں  سے ساغربھربھرکران کے درمیان پھرائے جائیں  گے ،چمکتی ہوئی شراب جوپینے والوں  کے لئے لذت ہوگی ،نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضررہوگااورنہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی ۔

ایک مقام پر جنت میں  مختلف جاری نہروں  کایوں ذکرفرمایاکہ ان میں  کوئی خرابی پیدا نہیں  ہوگی۔

  فِیْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۔۔۔۝۰۝۱۵     [27]

ترجمہ: پرہیزگار لوگوں  کے لئے جنت کاوعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تویہ ہے کہ اس میں  نہریں  بہہ رہی ہوں  گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں  ذرافرق نہ آیاہوگا،نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسی شراب کی جوپینے والوں  کے لئے لذیذہوگی،نہریں  بہہ رہی ہوں  گی صاف شفاف شہدکی۔

ایک مقام پر فرمایاکہ وہ ایسی شراب ہوگی جسے پی کروہ بدمست نہ ہوں  گے اورنہ بے ہودہ بکواس کرنے لگیں  گے اورنہ فحش حرکات۔

یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَلَا تَاْثِیْمٌ۝۲۳  [28]

ترجمہ:وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں  گے جس میں  نہ یاوہ گوئی ہو گی نہ بدکرداری۔

موتیوں  کی طرح چمکتے نوعمر خدام انہیں  شراب کے ساتھ ساتھ کھانے کے لئے طرح طرح کے لذیذپھل اورقسم قسم کے میوہ جات پیش کریں  گے تاکہ وہ اپنی پسندکے مطابق اٹھالیں اوروہ انہیں  پرندوں  کی تمام اصناف کابھناہوا لذیذگوشت پیش کریں  گے تاکہ وہ اپنی رغبت کے مطابق اٹھا لیں  ، جیسے فرمایا

وَاَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ۝۲۲ [29]

ترجمہ: ہم ان کوہرطرح کے پھل اور گوشت جس چیزکوبھی ان کاجی چاہے گاخوب دیے چلے جائیں  گے ۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ طَیْرَ الْجَنَّةِ كَأَمْثَالِ الْبُخْتِ، تَرْعَى فِی شَجَرِ الْجَنَّةِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ لَطَیْرٌ نَاعِمَةٌ، فَقَالَ:أَكَلَتُهَا أَنْعَمُ مِنْهَا قَالَهَا ثَلَاثًا وَإِنِّی  لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ یَأْكُلُ مِنْهَا یَا أَبَا بَكْرٍ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنتی پرندبختی اونٹ کے برابرہیں  جوجنت میں  چرتے چگتے رہتے ہیں ،سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  یہپرندےتونہایت ہی مزے کے ہوں  گے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کے کھانے والے ان سے زیادہ نازونعمت والے ہوں  گے ،تین مرتبہ یہی جملہ ارشاد فرما کرپھرفرمایا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !مجھے اللہ سے امیدہے کہ تم ان میں  سے ہوجوان پرندوں  کاگوشت کھائیں  گے۔[30]

عورت کی آنکھوں  کاحسن ، اس کے حسن وجمال کی سب سے بڑی دلیل ہے ،چنانچہ فرمایا جنتیوں  کے لئے سرمگیں  آنکھوں  والی حوریں  ہوں  گے ایسی حسین جیسے چھپا کررکھے ہوئے موتی، ایک مقام ان حوروں  کی یوں  تعریف کی گئی ہے۔

وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ۝۴۸ۙكَاَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ۝۴۹       [31]

ترجمہ:اوران کے پاس نگاہیں  بچانے والی، خوبصورت آنکھوں  والی عورتیں  ہوں  گی ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی۔

ایک مقام پر فرمایاکہ وہ حوریں صاف رنگت اورہرن کی طرح بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں  والی ہوں  گی۔

وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۝۵۴ۭ [32]

ترجمہ:اورہم گوری گوری آہوچشم عورتیں  ان سے بیاہ دیں  گے ۔

ایک مقام پر فرمایاکہ وہ حوریں  بے شرم اوربیباک نگاہوں  والی نہیں  بلکہ حیادار اورکنواری ہوں  گی۔

فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚ  [33]

ترجمہ: ان نعمتوں  کے درمیان شرمیلی نگاہوں  والیاں  ہوں  گی جنہیں  ان جنتیوں  سے پہلے کبھی کسی انسان یاجن نے نہ چھواہوگا۔

یہ اوراس قسم کی بے شمارنعمتیں  انہیں  ان اعمال صالحہ کے سبب نصیب ہوں  گی جووہ دنیامیں  کرتے رہے تھے،ان انگنت نعمتوں  میں  جنتی بیہودگی،یاوہ گوئی ،جھوٹ، غیبت، چغلی ، بہتان،گالی گلوچ،طنزوتمسخر اورطعن وتشنیع کی باتیں  سننے سے محفوظ ہوں  گے بلکہ وہاں  وہ ایسی گفتگوسنیں  گے جوعیوب سے پاک ہوگی۔جیسے فرمایا

لَّا تَسْمَعُ فِیْهَا لَّاغِیَةً۝۱۱ۭ [34]

ترجمہ: کوئی بیہودہ بات وہ وہاں  نہ سنیں  گے۔

بلکہ وہ ہروقت اللہ عزوجل کی حمدوثنابیان کریں  گے اور ا ن کاتحفہ آپس میں  ایک دوسرے کوسلام کرناہوگا۔

دَعْوٰىھُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ۝۰ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰ۧ  [35]

ترجمہ:وہاں  ان کی صدایہ ہوگی کہ پاک ہے تواے اللہ!ان کی دعایہ ہوگی کہ سلامتی ہواور ان کی ہربات کاخاتمہ اس پرہوگاکہ ساری تعریف اللہ رب العٰلمین ہی کے لئے ہے۔

 وَأَصْحَابُ الْیَمِینِ مَا أَصْحَابُ الْیَمِینِ ‎﴿٢٧﴾‏ فِی سِدْرٍ مَّخْضُودٍ ‎﴿٢٨﴾‏ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ ‎﴿٢٩﴾‏ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ ‎﴿٣٠﴾‏ وَمَاءٍ مَّسْكُوبٍ ‎﴿٣١﴾‏ وَفَاكِهَةٍ كَثِیرَةٍ ‎﴿٣٢﴾‏ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ ‎﴿٣٣﴾‏ وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ ‎﴿٣٤﴾‏ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً ‎﴿٣٥﴾‏ فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا ‎﴿٣٦﴾‏ عُرُبًا أَتْرَابًا ‎﴿٣٧﴾‏ لِّأَصْحَابِ الْیَمِینِ ‎﴿٣٨﴾‏ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِینَ ‎﴿٤٠﴾‏(الواقعہ)
اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں  داہنے ہاتھ والے، وہ بغیر کانٹوں  کی بیریوں  اور تہ بہ تہ کیلوں  اور لمبے لمبے سایوں  اور بہتے ہوئے پانیوں  اور بکثرت پھلوں  میں ، جو نہ ختم ہوں  نہ روک لیے جائیں  اور اونچے اونچے فرشوں  میں  ہوں  گے، ہم نے ان (کی بیویوں  کو) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم نے انہیں  کنواریاں  بنادیا ہے، محبت والیاں  اور ہم عمر ہیں  دائیں  ہاتھ والوں  کے لیے ہیں ،جم غفیر ہے اگلوں  میں  سے  اور بہت بڑی جماعت ہے پچھلوں  میں  سے ۔

اصحاب یمین اوران پرانعامات :

سابقین کے بعدان سے کم درجہ اصحاب یمین کاذکرفرمایاکہ اوردائیں  بازووالے عالی مرتبہ صالح لوگوں  کی خوش نصیبی اورنیک بختی کاکیا کہنا جن کے نامہ اعمال ان کے دائیں  ہاتھ میں  تھمائے جائیں  گے،وہ جنتوں  میں بغیرکانٹوں  والے اعلیٰ درجے کے ذائقے والے بیروں  کے درختوں  کے نیچے جن کے پھلوں  کے بوجھ سے ان کے تنے جھکے جاتے ہوں  گے،اورتہ برتہ چڑھے ہوئے کیلوں ،اورسرسبزوشاداب درختوں  کے دور تک پھیلے ہوئے گھنے سایوں  میں  ہوں  گے جہاں  نہ سورج آئے نہ گرمی ستائے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا۝۵۷[36]

ترجمہ:اورانہیں  ہم گھنی چھاؤ ں  میں  رکھیں  گے۔

۔۔۔ اُكُلُهَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّهَا۔۔۔   ۝۳۵ [37]

ترجمہ:اس کے پھل دائمی ہیں  اوراس کاسایہ لازوال ۔

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّعُیُوْنٍ۝۴۱ۙ [38]

ترجمہ:متقی آج سایوں  اور چشموں  میں  ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ فِی الجَنَّةِ شَجَرَةً، یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ، لاَ یَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}[39]

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نےجنت کےایک درخت کے سائے کی لمبائی کے بارے میں  فرمایاجنت میں  ایک درخت طویل ہوگا(اتنابڑاکہ) ایک گھڑسوار اس کے سایہ میں سوسال تک چلتارہے گاتب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگااگرتمہاراجی چاہئے توآیت ’’اور لمبے لمبے سایوں ۔‘‘کی قرات کرلو۔[40]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا فِی الجَنَّةِ شَجَرَةٌ إِلَّا وَسَاقُهَا مِنْ ذَهَبٍ

اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت کاکوئی درخت ایسانہیں  جس کاتناسونے کانہ ہو۔[41]

اور ہر دم رواں  نتھرے پانی،دودھ،شہدوانواع و اقسام کی شرابوں  اور ہروقت دستیاب اوربے روک ٹوک ملنے والے قسم قسم کے بکثرت پھلوں جودنیاوی ہم شکل ہوں  گے مگر ذائقہ بالکل مختلف ہوگا،جیسے فرمایا

۔۔۔كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا۝۰ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ۝۰ۙ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا۔۔۔۝۲۵     [42]

ترجمہ: ان باغوں  کے پھل صورت میں  دنیا کے پھلوں  سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں  کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں  گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں  ہم کو دیے جاتے تھے۔

اورہرطرح کے بکثرت میوہ جات ہوں  گے،جیسے فرمایا

لَہُمْ فِیْہَا فَاكِہَةٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ    [43]

ترجمہ:ان کے لئے جنت میں  ہر قسم کے میوے ہوں  گے اور بھی جو کچھ وہ طلب کریں ۔

لَكُمْ فِیْہَا فَاكِہَةٌ كَثِیْرَةٌ مِّنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۷۳ [44]

ترجمہ:یہاں  تمہارے لئے بکثرت میوے ہیں  جنہیں  تم کھاتے رہو گے۔

یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِكُلِّ فَاكِہَةٍ اٰمِنِیْنَ۝۵۵ۙ  [45]

ترجمہ: وہاں  وہ پورے امن و اطمینان کے ساتھ ہر طرح کے میووں  کی فرمائشیں  کرتے ہونگے۔

اورمرصع واونچی راحت وآرام دینے والی نشست گاہوں  میں  ہوں  گے،ہم ان کی دنیاوی نیک بیویوں  کوجوکالی کلوٹی اور بڑھیاپھوس تھیں خاص طورپرنئے سرے سے پیدا کریں  گے اورانہیں  جوان ،حسین وجمیل اور کنواری دوشیزائیں  بنادیں  گے،

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَتَتْ عَجُوزٌ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ یُدْخِلَنِی الْجَنَّةَ. فَقَالَ:یَا أُمَّ فُلَانٍ، إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَدْخُلُهَا عَجُوزٌ. قَالَ: فَوَلَّت تَبْكِی، قَالَ:أَخْبِرُوهَا أَنَّهَا لَا تَدْخُلُهَا وَهِیَ عَجُوزٌ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى یَقُولُ: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً. فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا}

الحسن رحمہ اللہ  سے مروی ہےایک بڑھیانے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیامیرے حق میں  جنت کی دعا فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاام فلاں جنت میں  کوئی بڑھیاداخل نہ ہوگی وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں  سے فرمایااسے بتاؤ وہ بڑھاپے کی حالت میں  جنت میں  داخل نہیں  ہوگی، اللہ تعالیٰ کاارشادہے ’’ہم انہیں خاص طورپر نئے سرے سے پیداکریں  گے اور کنواری بنادیں  گے۔‘‘[46]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَنِسَاءُ الدُّنْیَا أَفْضَلُ أَمِ الْحُورُ الْعِینُ؟، قَالَ:بَلْ نِسَاءُ الدُّنْیَا أَفْضَلُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ كَفَضْلِ الظِّهَارَةِ عَلَى الْبِطَانَةِ . قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ وَبِمَا ذَاكَ؟، قَالَ: بِصَلَاتِهِنَّ وَصِیَامِهِنَّ وَعِبَادَتِهِنَّ اللهَ أَلْبَسَ اللهُ وُجُوهَهُنَّ النُّورَ، وَأَجْسَادَهُنَّ الْحَرِیرَ بِیضَ الْأَلْوَانِ خُضْرَ الثِّیَابِ صَفْرَاءَ الْحُلِیِّ مَجَامِرُهُنَّ الدُّرُّ وَأَمْشَاطُهُنَّ الذَّهَبُ یَقُلْنَ: أَلَا نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَمُوتُ أَبَدًا، أَلَا وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْؤُسُ أَبَدًا، أَلَا وَنَحْنُ الْمُقِیمَاتُ فَلَا نَظْعَنُ أَبَدًا، أَلَا وَنَحْنُ الرَّاضِیَاتُ فَلَا نَسْخَطُ أَبَدًا طُوبَى لِمَنْ كُنَّا لَهُ وَكَانَ لَنَا ،

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا  نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !دنیاکی عورتیں  افضل ہیں  یاحورعین ؟ فرمایادنیاکی عورتیں  حورعین سے بہت افضل ہیں  جیسے استرسے ابرابہترہوتاہے ،  ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیوں  افضل ہوں  گی ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ نماز، روزہ اوراللہ کی عبادت کی وجہ سے افضل ہوں  گی،اللہ نے ان کے چہرے نورسے،ان کے جسم ریشم سے سنواردیئے ہیں ،سفیدریشم،سبزریشم اورزردریشم اورزردسنہرے زیور ، بخور دان موتی کے اورکنگھیاں  سونے کی اوروہ کہتی رہیں  گی،ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں  کبھی مریں  گی نہیں ہم نازونعمت والیاں  ہیں  کہ کبھی سفرمیں  نہیں  جائیں  گی،ہم اپنے خاوندوں  سے خوش رہنے والیاں  ہیں  کہ کبھی روٹھیں  گی نہیں  اورخوش نصیب ہیں  ہم کہ ان کے لیے ہیں اورخوش نصیب ہیں  ہم کہ ان کے لیے ہیں

قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ الْمَرْأَةُ مِنَّا تَتَزَوَّجُ الزَّوْجَیْنِ وَالثَّلَاثَةَ وَالْأَرْبَعَةَ ثُمَّ تَمُوتُ فَتَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَیَدْخُلُونَ مَعَهَا مَنْ یَكُونُ زَوْجُهَا؟، قَالَ: یَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّهَا تُخَیَّرُ فَتَخْتَارُ أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا فَتَقُولُ: أَیْ رَبِّ إِنَّ هَذَا كَانَ أَحْسَنَهُمْ مَعِی خُلُقًا فِی دَارِ الدُّنْیَا فَزَوِّجْنِیهِ، یَا أُمَّ سَلَمَةَ ذَهَبَ حُسْنُ الْخُلُقِ بِخَیْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرکسی عورت کے دنیامیں  کئی شوہررہ چکے ہوں  اورسب جنت میں  جائیں  تووہ ان میں  سے کس کوملے گی؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا !س کو اختیار دیا جائے گاکہ وہ جسے چاہے چن لے اوروہ اس شخص کوچنے گی جوان میں  سب سے زیادہ اچھے اخلاق کاتھا،وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گی کہ اے رب!اس کابرتاؤ میرے ساتھ سب سے اچھاتھااس لئے مجھے اسی کی بیوی بنادے،اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا !حسن اخلاق دنیااورآخرت کی ساری بھلائی لوٹ لے گیاہے۔[47]

یہ عورتیں  اپنے شوہرکی ہم عمر، نسوانی جذبات سے لبریزاوراپنے شوہرکودل وجان سے چاہنے والی ہوں  گی،اورخاوندبھی انہیں  ان کے حسن وجمال ، ناز وادا، مترنم آوازاورمحبت کی وجہ سے محبوب رکھیں  گے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قِیلَ لَهُ: أَنَطَأُ فِی الْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ دَحْمًا دَحْمًا، فَإِذَا قَامَ عَنْهَا رَجَعَتْ مُطَهَّرَةً بِكْرًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیاجنت میں  جنتی لوگ جماع بھی کریں  گے ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاہاں ،قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! خوب اچھی طرح بہترین طریق پرجب الگ ہوگاوہ اسی وقت پھرپاک وصاف اچھوتی باکرہ بن جائے گی۔[48]

عَنْ أَنَسٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یُعْطَى المُؤْمِنُ فِی الجَنَّةِ قُوَّةَ كَذَا وَكَذَا مِنَ الجِمَاعِ،قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَ یُطِیقُ ذَلِكَ؟ قَالَ: یُعْطَى قُوَّةَ مِائَةٍ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامومن کوجنت میں  اتنی اتنی عورتوں  کے پاس جانے کی قوت عطاکی جائے گی ، انس  رضی اللہ عنہ  نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اتنی طاقت رکھے گا؟فرمایاایک سوآدمیوں  کے برابراسے قوت ملے گی۔ [49]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَصِلُ إِلَى نِسَائِنَا فِی الْجَنَّةِ؟ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لِیَصِلُ فِی الْیَوْمِ إِلَى مِائَةِ عَذْرَاءَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعرض کی گئی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاجنت میں  ہم اپنی عورتوں  سے مقاربت کریں  گے ؟فرمایامردایک دن میں  سوکنواری دوشیزاؤ ں  سے مقاربت کرے گا۔[50]

یہ کچھ دائیں  بازووالوں  کے لئے ہے،وہ اگلوں  میں  سے بہت ہوں  گے اورپچھلوں  میں  سے بھی بہت۔

وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ ‎﴿٤١﴾‏ فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ ‎﴿٤٢﴾‏ وَظِلٍّ مِّن یَحْمُومٍ ‎﴿٤٣﴾‏ لَّا بَارِدٍ وَلَا كَرِیمٍ ‎﴿٤٤﴾‏ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَكَانُوا یُصِرُّونَ عَلَى الْحِنثِ الْعَظِیمِ ‎﴿٤٦﴾‏ وَكَانُوا یَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِیقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ ‎﴿٥٠﴾‏ ثُمَّ إِنَّكُمْ أَیُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ ‎﴿٥١﴾‏ لَآكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ ‎﴿٥٢﴾‏ فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ فَشَارِبُونَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیمِ ‎﴿٥٤﴾‏ فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِیمِ ‎﴿٥٥﴾‏ هَٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّینِ ‎﴿٥٦﴾(الواقعہ)
اور بائیں  ہاتھ والے کیا ہیں  بائیں  ہاتھ والے، گرم ہوا اور گرم پانی میں  (ہوں  گے) اور سیاہ دھوئیں  کے سائے میں  جونہ ٹھنڈا ہے نہ فرحت بخش، بیشک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں  سے پلے ہوئے تھے اور بڑے بڑے گناہوں  پر اصرار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مرجائیں  گے مٹی اور ہڈی ہوجائیں  گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھا کھڑے کئے جائیں  گےاور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے ضرور جمع کئے جائیں  گے ایک مقرر دن کے وقت، پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو !البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت ،اور اسی سے پیٹ بھرنے والے ہو پھر اس پر گرم کھولتا پانی پینے والے ہو،  پھر پینے والے بھی پیاسے اونٹوں  کی طرح، قیامت کے دن ان کی مہمانی یہ ہے۔

اصحاب شمال اورعذاب الٰہی :

اصحاب یمین کے بعدفرمایاعرش کے بائیں  جانب کھڑے بد بخت فاسقین لوگوں  کی بدنصیبی، ذلت ومسکنت کاکیا ٹھکانا ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ۝۱۹ۭعَلَیْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ۝۲۰ۧ    [51]

ترجمہ:اور جنہوں  نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں  بازو والے ہیں  ان پر آگ چھائی ہوئی ہو گی۔

جن کے نامہ اعمال بائیں  ہاتھ میں  پکڑائے جائیں  گے،جیسے فرمایا

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ وَرَاۗءَ ظَہْرِہٖ۝۱۰ۙفَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا۝۱۱ۙ [52]

ترجمہ:رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا۔

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ۝۰ۥۙ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَہْ۝۲۵ۚوَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ۝۲۶ۚیٰلَیْتَہَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَ۝۲۷ۚمَآ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَہْ۝۲۸ۚ ہَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۝۲۹ۚ [53]

ترجمہ:اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا وہ کہے گا کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتااور میں  نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے،کاش میری وہی موت ﴿(جو دنیا میں  آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی،آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیامیرا سارا اقتدار ختم ہو گیا ۔

وہ لوکے سخت تھپیڑوں  اور سخت کھولتے ہوئے پانی میں  ہوں  گے جوان کی انتڑیوں  کوکاٹ کررکھ دے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔كَمَنْ ہُوَخَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [54]

ترجمہ:(کیا وہ شخص جس کے حصہ میں  یہ جنت آنے والی ہے) ان لوگوں  کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے اور جنہیں  ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں  کاٹ دے گا۔

اورجہنم کی ہولناک آگ کے کالے دھوئیں  کے سائے میں  ہوں  گے جونہ ٹھنڈاہوگانہ آرام دہ،جیسے فرمایا

اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۹ۚاِنْطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۝۳۰ۙلَّا ظَلِیْلٍ وَّلَا یُغْنِیْ مِنَ اللَّهَبِ۝۳۱ۭاِنَّهَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ۝۳۲ۚ    [55]

ترجمہ:چلو اس سائے کی طرف جوتین شاخوں  والاہے،نہ ٹھنڈک پہنچانے والااورنہ آگ کی لپٹ سے بچانے والا ، وہ آگ محل جیسی بڑی چنگاریاں  پھینکے گی (جواچھلتی ہوئی یوں  محسوس ہوں  گی)گویاکہ وہ زرداونٹ ہیں ۔

یہ وہ لوگ ہوں  گے جواللہ کی عطاکردہ ان گنت نعمتوں  پر اترا گئے ، دنیا کی رنگینیوں  اور دلفریبیوں  میں  منہمک ہوکراپنے خالق کوبھول گئے اورعیش وعشرت اورآسائشوں  کی زندگی میں  ڈوب کرنعمتوں  پر شکر گزارہونے کے بجائے کافر نعمت بن گئے اورکفروشرک اوردہریت پرقائم رہے اوردوسروں  کوبھی سیدھی راہ سے روکتے رہے ،اوراللہ کی ہر سو بکھری نشانیوں  اورنازل کردہ واضح دلائل وبراہین کے باوجود فسق وفجورمیں  ڈوب کرکہتے تھے کیاجب ہم مرکرخاک ہوجائیں  گے اورہڈیوں  کاپنجررہ جائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے؟جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۝۶۷لَقَدْ وُعِدْنَا ہٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ۝۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۶۸ [56]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں  کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں  گے تو ہمیں  واقعی قبروں  سے نکالا جائے گا ؟یہ خبریں  ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں  اور پہلے ہمارے آبا و اجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں ، مگر یہ بس افسانے ہی افسانے ہیں  جو اگلے وقتوں  سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۸۳ [57]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں  کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے اور ہڈیوں  کا پنجر بن کر رہ جائیں  گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں  اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں  یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں ۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ۝۵۳  [58]

ترجمہ:کیا واقعی جب ہم مر چکے ہوں  گے اور مٹی ہو جائیں  گے اور ہڈیوں  کا پنجر بن کر رہ جائیں  گے تو ہمیں  جزا و سزا دے جائے گی؟۔

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۝۴۹ [59]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں جب ہم صرف ہڈیاں  اور خاک ہو کر رہ جائیں  گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں  گے؟۔

اورکیاہمارے وہ باپ دادا بھی اٹھائے جائیں  گے جوپہلے گزرچکے ہیں ؟جیسے فرمایا

اَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭ    [60]

ترجمہ:اور کیا ہمارے اگلے وقتوں  کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں  گے ؟ ۔

اے نبی!ان لوگوں  سے کہویقیناًگزری ہوئی اورآئندہ آنے والی تمام مخلوق ایک مقررہ دن اپنے اعمال کی جوابدہی اورجزاوسزاکے لئے ضرورجمع کیے جانے والے ہیں  ، جیسے فرمایا

قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ۝۱۸ۚ    [61]

ترجمہ:ان سے کہو ہاں ، اور تم (اللہ کے مقابلے میں  ) بےبس ہو۔

پھراے گمراہواورجھٹلانے والو!تم بھوک کی شدت سے مغلوب ہوکرنہایت بدذائقہ اورتلخ درخت زقوم (تھوہر کا درخت ) کی غذا کھانے والے ہوجوکہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں  اگے گا،جیسے فرمایا

اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲    [62]

ترجمہ:بولو،یہ ضیافت اچھی ہے یازقوم کا درخت ۔

اسی سے تم پیٹ بھروگے مگریہ گلے سے نیچے نہ اترے گااوراوپرسے کھولتاہواپانی پیاس کی بیماری والے اونٹوں  کی طرح پیو گے،مگرتمہاری پیاس دورنہ ہوگی، بطوراستہزاکے فرمایایہ ہے بائیں  والوں  کی ضیافت کاسامان روزجزامیں ۔

وَأَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ، لَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ تَخْوِیفًا بِهَا لَهُمْ، قَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، هَلْ تَدْرُونَ مَا شَجَرَةُ الزَّقُّومِ الَّتِی یُخَوِّفُكُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ؟قَالُوا: لَا، قَالَ: عَجْوَةُ  یَثْرِبَ بِالزُّبْدِ، وَاَللَّهِ لَئِنْ اسْتَمْكَنَّا مِنْهَا لَنَتَزَقَّمَنَّها  تَزَقُّمًا. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِیهِ: إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ، طَعامُ الْأَثِیمِ، كَالْمُهْلِ یَغْلِی فِی الْبُطُونِ كَغَلْیِ الْحَمِیمِ

جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدفرقان حمیدمیں  منجملہ عذاب دوزخ کے زقوم کے درخت کاذکرفرمایاتوابوجہل بن ہشام نے استہزالہجہ میں  کہااے گروہ قریش!تم جانتے ہوکہ زقوم کیا چیز ہےجس سے محمدتم کوخوف دلاتے ہیں ؟ قریش نے کہاہم کوخبرنہیں  کہ وہ کونسادرخت ہے،ابوجہل بن ہشام نے کہاوہ مدینہ کی کھجوریں  مسکہ کے ساتھ ہیں  اللہ کی قسم ! اگرہم وہاں  (یعنی دوزخ میں )گئے تواسی کوزقوم بنا دیں  گے،  تواللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ گوئی کے جواب میں  یہ آیت نازل فرمائی،’’زقوم کا درخت، گناہگاروں  کا کھانا ہوگا، پیٹ میں  وہ اس طرح جوش کھائے گاجیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔‘‘[63]

جبکہ متقین کے بارے میں  فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۝۱۰۷ۙخٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۝۱۰۸ [64]

ترجمہ:وہ لوگ جوایمان لائے اورجنہوں  نے نیک عمل کیے ان کی میزبانی کے لئے فردوس کے باغ ہوں  گے جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے اورکبھی اس جگہ سے نکل کرکہیں  جانے کو ان کاجی نہ چاہے گا۔

هَٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّینِ ‎﴿٥٦﴾‏ نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ أَفَرَأَیْتُم مَّا تُمْنُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِینَ ‎﴿٦٠﴾‏ عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِی مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٦١﴾‏ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ (الواقعہ)
ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں  باور نہیں  کرتے ؟ اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو کیا اس کا (انسان) تم  بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں ؟ ہم ہی نے تم میں  موت کو متعین کردیاہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں  ہیں   کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کردیں  اور تمہیں  نئے سرے سے اس عالم میں  پیدا کریں  جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو،تمہیں  یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں  عبرت حاصل نہیں  کرتے؟۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اپنے وجودکوبطورگواہ پیش کیااوران دلائل پرغوروفکرکی دعوت دی کہ اے لوگو!تم یہ توتسلیم کرتے ہی ہوکہ اس عظیم الشان کائنات کا اورتمہاراخالق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے،توپھراس پرایمان کیوں  نہیں  لاتے کہ وہی ہی تمہارارب اورمعبود ہے،کبھی تم نے غورکیاکہ غلیظ و بدبودارپانی کاایک حقیرقطرہ جوتم عورت سے مباشرت کرتے وقت اس کے رحم میں ڈالتے ہواس تاریک جگہ میں  درجہ بدرجہ نشونماپاکر انسانی شکل وصورت، خوبصورت خدوخال ،متناسب جسم والا بچہ تم بناتے ہویااس کے بنانے کی قدرت خالق کل اللہ رب العزت کو ہے؟جب انسان اللہ کاتخلیق کردہ ہےاوراللہ ہی نے اسے عقل وشعور،حیرت انگیز ذہنی وجسمانی صلاحتیں  وقوتیں  عطا فرما کر دنیامیں  بھیجا ہے اوراسی نے ہی انسان کی پیدائش سے پہلے اس کے رزق اورپرورش کا بندوبست کردیاہے تومخلوق کو کیاحق ہے کہ خالق کے مقابلے میں  آزادی اورخودمختاری کا دعویٰ کرےاوراپنے خالق ومالک اوررازق کی بارگاہ میں  سرجھکانے اوراس کی بندگی کے گن گانے کے بجائے دوسری مخلوقات کی پرستش کرے جواسے فائدہ پہنچاسکتے ہیں  اور نہ نقصان ، بلکہ وہ توخوداپنے نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں  ہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ قُلِ اللہُ۝۰ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔۔۔۝۱۶ [65]

ترجمہ:اِن سے پوچھو آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ،پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں  کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے؟ ۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [66]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں  نہ جلا سکتے ہیں  نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

توکیااللہ کوچھوڑکرکسی اورذات کی پرستش عقل ودانش کے تقاضوں  کے سراسرخلاف نہیں ؟جو قادر مطلق اس عظیم الشان کائنات کاخالق ہے جوایک معمولی پانی کے قطرے سے مرد وعورتوں  کو پیدا کررہاہے،جیسے فرمایا

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭاَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰى۝۳۷ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙ فَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۳۹ ۭ [67]

ترجمہ:کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ؟کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو(رحم مادر میں  ) ٹپکا جاتا ہے؟پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیےپھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں  بنائیں ۔

جوآسمان وزمین سے ان کے رزق اورپرورش کا بندوبست فرمارہاہے کیااس کے لئے انہیں  دوبارہ زندہ کردینامشکل کام ہے۔

اورفرمایا کہ تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیارمیں  ہے اورہم نے ہرشخص کی موت کاایک وقت مقررکردیاہے جس سے کوئی تجاوز نہیں  کر سکتا۔

انسان کودوسری دلائل پیش کی کہ تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیارمیں  ہے ۔

مسئلہ تقدیر:

اللہ تعالیٰ نے بنیادی اسلامی عقیدہ مسئلہ تقدیرکومختلف تعبیرات سے پیش کیاہے، مگرمعتزلہ،قدریہ ،دہریہ اورمنکرین حدیث وغیرہ اس کاانکارکرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں  پراس کاذکرفرمایا،تعبیراول میں  مادہ قدرکاستعمال کرتے ہوئے فرمایا

۔۔۔وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا۝۲  [68]

ترجمہ: جس نے ہر چیز کو پیدا کیاپھراس کی ایک تقدیرمقررکی۔

سورج کی تقدیراورچاندکی منازل کی تقدیرکاذکرفرمایا

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ۔۔۔ ۝۳۹    [69]

ترجمہ:اورسورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہاہے ،یہ زبردست علیم ہستی کاباندھاہواحساب ہے اور چانداس کے لئے ہم نے منزلیں  مقرر کردی ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔وَكُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ۝۸ [70]

ترجمہ:ہرچیزکے لئے اس کے ہاں  ایک مقدار مقرر ہے۔

اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ۝۴۹ [71]

ترجمہ:ہم نے ہرچیزایک تقدیرکے ساتھ پیداکی ہے ۔

۔۔۔قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۝۳      [72]

ترجمہ:اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیرمقررکرکھی ہے۔

۔۔۔وَكَانَ اَمْرُ اللهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا۝۳۸ۡۙ [73]

ترجمہ:اوراللہ کاحکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتاہے۔

اسی طرح مادہ قضاکے ساتھ بعض فرامین فرمائے ۔

۔۔۔قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ۝۴۱ۭ   [74]

ترجمہ:فیصلہ ہوگیااس بات کاجوتم پوچھ رہے تھے ۔

۔۔۔ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۝۲۱ [75]

ترجمہ:اوریہ کام ہوکررہناہے۔

۔۔۔كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِیًّا۝۷۱ۚ [76]

ترجمہ:یہ توایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کاذمہ ہے۔

تعبیرسوم میں  مادہ کتاب ،یعنی ہربات اللہ نے پہلے سے لکھ رکھی ہے،اوراس کتاب کانام لوح محفوظ،کتاب مکنون،کتاب مبین اورام الکتاب ہے ، اس کے متعلق بہت سی آیات ہیں ۔

۔۔۔وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ۔۔۔  ۝۱۸۷ [77]

ترجمہ: جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائزکردیاہے اسے حاصل کرو ۔

قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا۔۔۔۝۰۝۵۱ [78]

ترجمہ:ان سے کہوہمیں  ہرگزکوئی (برائی یابھلائی)نہیں  پہنچتی مگروہ جواللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ ۔۔۔۝۲۲ ۚۖ [79]

ترجمہ:کوئی مصیبت ایسی نہیں  ہے جوزمین میں  یاتمہارے اپنے نفس پرنازل ہوتی ہواورہم نے اس کوپیداکرنے سے پہلے ایک کتاب(یعنی نوشتہ تقدیر)میں  لکھ نہ رکھاہو۔

وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللهُ عَلَیْهِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَهُمْ فِی الدُّنْیَا۔۔۔   ۝۳    [80]

ترجمہ: اگر اللہ نے ان کے حق میں  جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تودنیاہی میں  وہ انہیں  عذاب دے ڈالتا۔

۔۔۔ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹   [81]

ترجمہ:خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھا ہوا ہے۔

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶  [82]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والاکوئی جاندار ایسا نہیں  ہے جس کارزق اللہ کے ذمے نہ ہواورجس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں  وہ رہتاہے اورکہاں  وہ سونپا جاتا ہے،سب کچھ ایک صاف دفترمیں  درج ہے۔

۔۔۔ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ۝۳۸ [83]

ترجمہ:ام الکتاب اسی کے پاس ہے ۔

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ۝۴   [84]

ترجمہ:ہم نے اس سے پہلے جس بستی کوبھی ہلاک کیاہے اس کے لئے ایک خاص مہلت عمل لکھی جاچکی تھی۔

وَاِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًا۝۰ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۝۵۸ [85]

ترجمہ:اورکوئی بستی ایسی نہیں  ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں  یاسخت عذاب نہ دیں ،یہ نوشتہ الٰہی میں  لکھا ہوا ہے۔

وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا۝۲۹ۙ   [86]

ترجمہ:اورحال یہ تھاکہ ہم نے ہرچیزگن گن کرلکھ رکھی تھی۔

۔۔۔وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۝۱۲ۧ [87]

ترجمہ: ہرچیزکوہم نے ایک کھلی کتاب میں  درج کررکھاہے۔

اورحدیث جبریل میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایمان کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْمِیزَانِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِهِ وَشَرِّهِ

ایمان یہ ہے کہ تواللہ پراس کے فرشتوں  پراس کی کتابوں پراس کے رسولوں  پراورجنت اوردوزخ پراورمیزان پراوربعث بعدالموت پرایمان لائے ،نیزتواس کی اچھی اور بری تقدیرپرایمان لائے۔[88]

اورہم اس سے مغلوب اورعاجزنہیں  ہیں  کہ تمہارے کفروشرک اوربداعمالیوں  کے سبب تمہاری موجودہ صورتیں  بدل کرتمہیں  بندر اور خنزیربنا دیں اور تمہاری جگہ تمہاری شکل و صورت اورکچھ دوسری صفات وخصوصیات کی دوسری مخلوق پیداکردیں  جس کوتم نہیں  جانتے،اپنی پہلی پیدائش کوتوتم جانتے ہو کہ کیسے پیداکیے گئے تھے،پھرکیوں  عبرت حاصل نہیں  کرتے؟کہ جس اللہ کی قدرت سے پیدائش اورموت کا یہ معجزہ شب وروزہورہا ہے ، جو ہرچھوٹی بڑی مخلوق کوآسمان وزمین سے رزق عطافرمارہاہے کیایہ اس کی قدرت واختیارسے باہرہے کہ مرنے کے بعدجب تم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤ وہ تمہیں دوبارہ زندہ کردے ، جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ [89]

ترجمہ:وہی ہے جوتخلیق کی ابتداکرتاہے پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لئے آسان ترہے ۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَهُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ ۙ  [90]

ترجمہ: کیا انسان دیکھتانہیں  ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیداکیااورپھروہ صریح جھگڑالوبن کرکھڑاہوگیا؟اب وہ ہم پرمثالیں  چسپاں  کرتاہے اوراپنی پیدائش کو بھول جاتاہے کہتاہے کون ان ہڈیوں  کوزندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟اس سے کہوانہیں  وہی زندہ کرے گاجس نے پہلے انہیں  پیداکیاتھااوروہ تخلیق کاہرکام جانتاہے ۔

ایک مقام پر حیات بعدالموت کے دلائل یوں  پیش کیے۔

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭاَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰى۝۳۷ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙفَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۳۹ۭ اَلَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۴۰ۧ [91]

ترجمہ: کیاانسان نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیاجائے گا؟کیاوہ ایک حقیرپانی کانطفہ نہ تھاجو(رحم مادر میں  ) ٹپکایاجاتاہے ؟پھر وہ ایک لوتھڑابناپھراللہ نے اس کا جسم بنایااوراس کے اعضادرست کیے پھراس سے مرداورعورت کی دوقسمیں  بنائیں ،کیاوہ اس پرقادرنہیں  کہ مرنے والوں  کوپھرسے زندہ کردے ۔

اور تمہارے اعمال کی جواب طلبی کرے اورحسب اعمال جنت ودوزخ میں  ڈال دے۔

‏ أَفَرَأَیْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ إِنَّا لَمُغْرَمُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ أَفَرَأَیْتُمُ النَّارَ الَّتِی تُورُونَ ‎﴿٧١﴾‏ أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیمِ ‎﴿٧٤﴾‏(الواقعہ)
اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ، اگر ہم چاہیں  تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں  اور تم حیرت کے ساتھ باتیں  بناتے ہی رہ جاؤ کہ ہم پر تاوان ہی پڑگیا بلکہ ہم بالکل محروم ہی رہ گئے،  اچھا یہ تو بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو اسے بادلوں  سے بھی تم ہی اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں   اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کردیں  پھر ہماری شکر گزاری کیوں  نہیں  کرتے ؟ اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں ، ہم نے اسے سبب نصیحت اور مسافروں  کے فائدے کی چیز بنایا، پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو۔

انسان کوایک اورحقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ کبھی تم نے سوچا،یہ بیج اورگھٹلیاں  جوتم زمین میں بوتے ہوان سے انواع و اقسام کی اجناس،سبزیاں ،جانوروں  کے چارے اورقسم قسم کے پھل تم اپنے کسی ہنریاچھومنترسے اگاتے ہویاتمہارے معبودوں  میں  یہ قدرت ہے یا ان لہلہاتی کھیتیوں  اورباغات کو اگانے والااللہ قادرمطلق ہے؟یعنی جس طرح مردوعورت کے ایک حقیر نطفہ سے ایک مکمل بچہ اللہ تعالیٰ ہی پیداکرتاہے جس میں انسان کا کوئی دخل نہیں  ہے اسی طرح ایک مردہ بیج یاگھٹلی جوتم زمین میں  چھپادیتے ہو اسے نشونمادے کرلہلہاتی کھیتیوں  اورباغات میں  تبدیل کردینے والابھی اللہ وحدہ لاشریک ہی ہےتوپھرکیااللہ مرنے کے بعدانسانوں  کوزندہ کردینے کی قدرت نہیں  رکھتا؟

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُولَنَّ زَرَعْتُ وَلَكِنْ قُلْ حَرَثْتُ. قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى قَوْلِ اللَّهِ: {أَفَرَأَیْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُون،   [92]

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم یہ نہ کہوکہ میں  نے اگایاہے بلکہ یہ کہوکہ میں  نے کاشت کیاہے  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے کہاکیاتم نے یہ ارشادباری تعالیٰ نہیں  سنا  ’’کبھی تم نے سوچایہ بیج جوتم بوتے ہوان سے کھیتیاں  تم اگاتے ہویاان کے اگانے والے ہم ہیں ؟ ۔‘‘ [93]

اگراللہ تعالیٰ چاہے توان ہری بھری کھیتیوں  اورگھنے باغات کوجن سے تم رزق حاصل کرتے ہوخشک کرکے بے نام ونشان کر دے توتم  حیرت سے منہ ہی تکتے رہ جاؤ  اور اپنے نصیبوں  کوکوستے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں  بولو گے کہ ہماری توکاشتکاری کی محنت اوربیج وغیرہ کالگایاہواسرمایہ ضائع ہوگیاہم توہیں  ہی بدقسمت کہ ہمیں  ہمارے مال اور محنت کاکچھ صلہ نہیں  ملا ،اللہ نے تیسری حقیقت بیان فرمائی کہ کبھی تم لوگوں  نے غوروفکرکیاہے کہ یہ شیریں  پانی جس سے تم پاکیزگی حاصل کرتے ہو ،جسے تم اورتمہارے جانور پیتے ہو،اپنی کھیتیوں  اورباغات کوسیراب کرتے ہو ،جس کے بغیرنہ تم زندہ رہ سکتے ہونہ تمہارے جانوراورنہ ہی کھتیاں  نشونماپا سکتی ہیں  اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یابارش کے دیوتاؤ ں  کاکرشمہ ہے یااللہ نے اپنی قدرت وحکمت سے اس کو برسایا ہے ؟اوراسی قدرت سے روئے زمین پراورزمین کے نیچے اس پانی سے بہتے ہوئے دریا اور ابلتے ہوئے چشمے بن جاتے ہیں ، اگراللہ قادرمطلق چاہے تواسے سخت کھاری بناکررکھ دے،پھرنہ تم نہ تمہارے جانوراسے پی سکیں  گے اورنہ ہی انواع و اقسام کی فصلیں  اور چارے پیداہوں  گے پھراللہ کی اس عظیم نعمت پراس کے شکرگزار کیوں نہیں  ہوتے؟جیسے فرمایا

ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ۝۱۰یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۱۱  [94]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں  کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ،وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں  اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے اس میں  ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں  کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں  ۔

یعنی جس رب نے اپنی قدرت وحکمت سے تمہیں  زمین سے رزق اورآسمان سے پانی مہیاکرنے کے انتظامات کیے ہوئے ہیں  اسی کو اپنا معبود ، اپنا رزاق اورمشکل کشا و حاجت رواکیوں  تسلیم نہیں  کرتے ؟

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا شَرِبَ الْمَاءَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَهُ عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِهِ، وَلَمْ یَجْعَلُهُ مَالِحًا لجَاجًا بِذُنُوبِنَا

ابوجعفرسےمروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پانی پینے کے بعدیہ دعا فرمایاکرتے تھے ’’ اللہ کاشکرہے کہ اس نے ہمیں  میٹھا اور عمدہ پانی اپنی رحمت سے پلایااورہمارے گناہوں  کے باعث اسے کھاری اورکڑوانہیں  بنادیا۔‘‘[95]

کبھی تم لوگوں نے اس پربھی غوروفکر کیاہے کہ درختوں  کی لکڑی سے جو آگ جوتم سلگاتے ہواوراس کی حرارت پرکچی غذائیں  پکاکرکھاناتیارکرتے ہو،اس سے روشنی حاصل کرتے ہو،سردیوں  میں  اپنے کمروں  کوگرم کرتے اورتاپتے ہو،اس درخت کوجلاکرکوئلہ تیارکرتے اوراس کوئلہ کی حرارت سے لوہاڈھالتے ہو،اس کوئلہ کی گیس کوبھی کارخانوں  میں  حرارت کے لئے استعمال کرتے ہواس کادرخت تم نے پیداکیاہے یاتمہارے کسی معبودنے پیدا کیا ہے یااس کا پیداکرنے والااللہ وحدہ لاشریک ہے ؟ پھراللہ کی نعمتوں  پراس کے اطاعت گزار کیوں  نہیں  ہوتے ،ہم نے اس کویاددیانی کاذریعہ بنادیاہے کہ اس آگ کودیکھ کرجہنم کی آگ کویادکروجواس آگ سے سترگنازیادہ حرارت والی ہے ، اورجونافرمانوں  کے لئے تیارکی گئی ہے، اوراس آگ کوہم نے حاجت مندوں  کے لئے چاہے وہ امیرہویافقیر،شہری ہویادیہاتی،مسافرہویامقیم سامان زیست بنادیا ہے ،

یَقُولُ:الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِی ثَلَاثٍ: فِی الْكَلَإِ، وَالْمَاءِ، وَالنَّارِ

مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتین چیزوں  میں  تمام مسلمانوں  کا برابر کا حصہ ہے گھاس،پانی اورآگ۔[96]

پس اے نبی!تم سب ہروقت اپ نے عظیم الشان قدرتوں  کے مالک اللہ وحدہ لاشریک،بے شمارصفات کےحامل رب العزت کی حمدوستائش،پاکیزگی بیان کرتے رہو ۔

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ ‎﴿٧٥﴾‏ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ ‎﴿٧٦﴾‏ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِیمٌ ‎﴿٧٧﴾‏ فِی كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ‎﴿٧٨﴾‏ لَّا یَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ أَفَبِهَٰذَا الْحَدِیثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ‎﴿٨١﴾‏ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ‎﴿٨٢﴾‏(الواقعہ)
پس میں  قسم کھاتا ہوں  ستاروں  کے گرنے کی، اور اگر تمہیں  علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے  کہ بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہےجو ایک محفوظ کتاب میں  درج ہے جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ،  یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو اور اپنے حصے میں  یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔

کیونکہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوکاہن قراردیتے تھے اور الزام لگاتے تھے کہ یہ کلام آپ پرجن اورشیاطین القاکررہے ہیں  ، ان کے جھوٹے گمانوں  کی تردیدمیں  فرمایاکہ تمہارایہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پرالقاکرتے ہیں  ، قسم ہے تاروں اورسیاروں  کے طلوع وغروب کی جگہوں  ،ان کی منزلوں  اوران کے مدارکی ، اور اگر تم سمجھوتویہ بہت بڑی قسم ہے ، یہ کلام کہانت یاجادویاشاعری نہیں بلکہ ایک جلیل القدر قرآن ہے،جوسراسرحق ہے ،جس میں  کوئی شک وشبہ نہیں  ہے ،جولوح محفوظ میں  درج ہے اورہرمخلوق کی دسترس سے بالاترہے ،اور یہ توایساپاکیزہ کلام ہے جسے ملائکہ کرام کے سواکوئی چھونہیں  سکتاجن کواللہ تعالیٰ نے تمام آفات ،گناہوں  اورعیوب سے پاک رکھا ہے ،

وَقَالَ ابْنُ زَیْدٍ: زَعَمت كُفَّارُ قُرَیْشٍ أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیَاطِینُ

ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ کفارقریش کاخیال تھاکہ اس قرآن کوشیاطین لے کرنازل ہوئے ہیں ۔[97]

اس کے جواب میں  فرمایاشیاطین کواس میں  تغیروتبدل،کمی و بیشی اورچوری کرنے کی قدرت حاصل نہیں جیسے فرمایا

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ۝۲۱۰وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۝۲۱۱ۭاِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۝۲۱۲ۭ [98]

ترجمہ:اس (کتاب مبین)کوشیاطین لے کرنہیں  اترے ہیں نہ یہ کلام اس کوسجتاہے اورنہ وہ ایساکرہی سکتے ہیں  ،وہ تواس کی سماعت تک سے دوررکھے گئے ہیں ۔

یہ کلام رب العالمین کانازل کردہ ہےمگراس جلیل القدر کلام کو تم معمولی اورسرسری سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں  دیتے اوراس عظیم الشان نعمت میں  اپناحصہ تم نے یہ رکھاہے کہ اس پر ایمان لانے کے بجائے اسے شدومدسے جھٹلاتے ،تکذیب کرتےپھرتے ہو؟

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ‎﴿٨٣﴾‏ وَأَنتُمْ حِینَئِذٍ تَنظُرُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَیْرَ مَدِینِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ ‎﴿٨٨﴾‏ فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِیمٍ ‎﴿٨٩﴾‏ وَأَمَّا إِن كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِینِ ‎﴿٩٠﴾‏ فَسَلَامٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِینِ ‎﴿٩١﴾‏ وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِینَ الضَّالِّینَ ‎﴿٩٢﴾‏ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیمٍ ‎﴿٩٣﴾‏ وَتَصْلِیَةُ جَحِیمٍ ‎﴿٩٤﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِینِ ‎﴿٩٥﴾‏ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیمِ ‎﴿٩٦﴾ (الواقعہ)
پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے اور تم اس وقت آنکھوں  سے دیکھتے رہو، ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں  لیکن تم نہیں  دیکھ سکتے، پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں  اور اس قول میں  سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ، پس جو کوئی بارگاہ الٰہی سے قریب کیاہواگا اسے تو راحت ہے اور غذائیں  ہیں  اور آرام والی جنت ہے،اور جو شخص داہنے (ہاتھ) والوں  میں  سے ہے تو بھی سلامتی ہے تیرے لیے کہ تو داہنے والوں  میں  سے ہےلیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں  گمراہوں  میں  سے ہے  تو کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے اور دوزخ میں  جانا ہے، یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے پس تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر۔

عالم نزع کی بے بسی :

اگرسچ مچ تم کسی کے زیرفرمان نہیں  ہویعنی اگراس کائنات کاکوئی خالق اورمدبرنہیں  اوریہ خودبخودوجودمیں  آگئی ہے توجب مرنے والے کی جان نرخرے تک پہنچ چکی ہوتی ہے اوراس کے ورثااوردوسرے لوگ قریب بیٹھے بے بسی سے روح کو پرواز کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں  لیکن کوئی اسے ٹال سکنے یااسے کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت نہیں  رکھتا ، جیسے فرمایا

كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ۝۲۶ۙوَقِیْلَ مَنْ۝۰۫ رَاقٍ۝۲۷ۙوَّظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ۝۲۸ۙوَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ۝۲۹ۙاِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ۝۳۰ۭۧ [99]

ترجمہ: ہرگز نہیں  ، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی اورکہاجائے گاکہ ہے کوئی جھاڑپھونک کرنے والااورآدمی سمجھ لے گاکہ یہ دنیا سے جدائی کاوقت ہے اورپنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی ،وہ دن ہوگاتیرے رب کی طرف روانگی کا۔

اس وقت تمہاری نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ،یعنی ہمارے بھیجے ہوئے کارندے، موت کے فرشتے مرنے والے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں  مگرروح قبض کرتے ہوئے تمہیں  نظرنہیں  آتے،جیسے فرمایا

وَهُوَالْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ۝۶۱ [100]

ترجمہ:اپنے بندوں  پروہ پوری قدرت رکھتاہے اورتم پرنگرانی کرنے والے مقررکرکے بھیجتاہےیہاں  تک کہ جب تم میں  سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تواس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں  اوراپنافرض انجام دینے میں  ذرا کوتاہی نہیں  کرتے۔

ایک مقام پر فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶ [101]

ترجمہ:ہم نے انسان کو پید ا کیا ہے اوراس کے دل میں  ابھرنے والے وسوسوں  تک کوہم جانتے ہیں ،ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں  ۔

پس یادرکھو جس طرح اللہ جسم میں  روح ڈالنے اور نکالنے پربھی قادر ہے اسی طرح پھردوبارہ تمہارے جسموں  میں  روح ڈال کرنئی زندگی دینے پربھی قدرت رکھتاہے ،اگرتم اپنے قول میں  سچے ہو کہ تم کسی کے زیرفرمان اورماتحت نہیں  ہواور مرنے کے بعددوبارہ زندہ نہیں  ہونا اور میدان محشرمیں  جمع ہوکر اعمال کا حساب کتاب نہیں  دیناتواس قبض کی ہوئی روح کوبدن میں لوٹاکردکھادو،اگرتم ایساکرنے سے عاجزہو توجان لوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ لے کرآئے ہیں  وہ حق اورسچ ہے اور یقیناًایک دن آئے گاجس میں  سب لوگ زندہ ہوکراعمال کی جوابدہی کے لئے میدان محشرمیں  جمع ہوجائیں  گے اوراپنے اعمال کی جزاپائیں  گے، اگروہ مرنے والامقربین،سابقین میں  سے ہوتواس کے لئے دنیاکے مصائب سے راحت اورعمدہ رزق اورانواع و اقسام کی نعمتوں  سے بھری جنت ہے،ان میں  ایسی ایسی نعمتیں  ہوں  گی جوکسی آنکھ نے دیکھی ہیں  نہ کسی کان نے سنی ہیں  اورنہ کسی بشرکے تصورمیں  ان کاگزرہواہے ، جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰نَحْنُ اَوْلِیٰۗــؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭنُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۝۳۲ۧ [102]

ترجمہ:جن لوگوں  نے کہاکہ اللہ ہمارارب ہے اورپھروہ اس پرثابت قدم رہے یقیناًان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں  اوران سے کہتے ہیں  کہ نہ ڈرو ، نہ غم کھاؤ اورخوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کاتم سے وعدہ کیاگیاہے ،ہم اس دنیاکی زندگی میں  بھی تمہارے ساتھی ہیں  اورآخرت میں  بھی،وہاں  جوکچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گاجس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی ، یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جوغفوراوررحیم ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۔۔۔۝۰۝۶۴ۭ  [103]

ترجمہ: دنیا اور آخرت دونوں  زندگیوں  میں  ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے ۔

اوراگروہ اصحاب یمین میں  سے ہوتوموت کے وقت فرشتے اس کو سلامتی کی خوشخبری دیتے ہیں  اور کہتے ہیں  تواصحاب الیمین میں  سے ہے، اوراگروہ کفرونفاق میں  مبتلاہو، حق کی تکذیب کرنے والوں میں  سے ہوتوروزقیامت جب وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگے گا تو اس کی تواضع کے لئے کھولتاہواپانی دیاجائے گاجوآنتیں  اورکھال تک جھلسا دے گا اورپھرجہنم میں  جھونک دیاجائے گاجہاں  آگ اسے چاروں  جانب سے گھیرلے گی ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ۝۰ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹ [104]

ترجمہ: وہاں  اگر وہ پانی مانگیں  گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بد ترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ !۔

یہ سب قطعی حق ہے پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیمِ، [105]، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْعَلُوهَا فِی رُكُوعِكُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} ،[106]، قَالَ:اجْعَلُوهَا فِی سُجُودِكُمْ

عقبہ بن عامرجہنی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب یہ آیت’’پس تواپنے عظیم الشان پروردگارکی تسبیح کر۔‘‘ نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیاکہ اس کوتم لوگ اپنے رکوع میں  رکھ دویعنی رکوع میں   سبحان ربی العظیم کہا کرو اورجب آیت’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے رب برترکے نام کی تسبیح کرو۔‘‘ نازل ہوئی توآپ نے فرمایااسے اپنے سجدے میں  رکھویعنی سبحان ربی الاعلی کہا کرو۔[107]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَلِمَتَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِیفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِی المِیزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِیمِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادوکلمے اللہ کوبہت محبوب ہیں  زبان پرہلکے اوروزن میں  بھاری سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم ۔[108]

عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِیمِ وَبِحَمْدِهِ، غُرِسَتْ لَهُ نَخْلَةٌ فِی الجَنَّةِ

جابر رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس نے سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہااس کے لئے جنت میں  ایک درخت لگادیاجاتاہے۔[109]

[1] الجاثیة۲۴

[2] المومنون۳۷

[3] ابراہیم۴۸

[4] الحاقة۱۵

[5] الرعد۲

[6] الروم۸

[7] لقمان۲۹

[8] فاطر۱۳

[9] الاحقاف۳

[10] الرحمٰن۲۶،۲۷

[11] الشوریٰ۴۷

[12] المعارج۱،۲

[13] الزلزال ۱

[14] الحج۱

[15] المزمل۱۴

[16] طہ۱۰۶،۱۰۷

[17]الکہف۴۷

[18] تفسیرابن کثیر۵۱۵؍۷

[19] فاطر۳۲

[20] آل عمران۱۳۳

[21] الحدید۲۱

[22] تفسیر  ابن کثیر ۲۹۲؍۵

[23] صحیح بخاری كتاب أصحاب  النبی صلى الله علیه وسلم بَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۶۵۰، ۳۶۵۱،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابُ فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ  عن عبداللہ بن مسعودw۶۴۷۲، مسند احمد ۱۹۸۳۵

[24] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ ۶۵۲۸،و کتاب الرقاق بَابٌ یَدْخُلُ الجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ ۶۵۴۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ۵۲۹،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۲۸۳،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَفِّ أَهْلِ الجَنَّةِ ۲۵۴۷،مسنداحمد۳۶۶۱،صحیح ابن حبان۷۴۵۸، السنن الکبری للبیہقی ۵۶۲۰

[25] الطور۲۴

[26] الصافات۴۱تا۴۷

[27] محمد۱۵

[28] الطور۲۳

[29] الطور۲۲

[30] مسنداحمد۱۳۳۱۱

[31] الصافات ۴۸، ۴۹

[32] الدخان۵۴

[33] الرحمٰن۵۶

[34] الغاشیة۱۱

[35] یونس۱۰

[36] النسائ۵۷

[37] الرعد۳۵

[38] المرسلات۴۱

[39] الواقعة: 30

[40] صحیح بخاری تفسیرسورۂ الواقعہ بَابُ قَوْلِهِ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ۴۸۸۱،صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا یَقْطَعُهَاعن سہل بن سعد ۷۱۳۸،جامع ترمذی ابواب الجنةبَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَجَرِ الْجَنَّةِ۲۵۲۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ۴۳۳۵، مسنداحمد ۹۶۵۰، مسند البزار ۸۳۵۳، مسندابی یعلی ۵۸۵۳، سنن الدارمی۲۸۸۰،شرح السنة للبغوی۴۳۷۰

[41]جامع ترمذی کتاب صفة الجنة  بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَجَرِ الْجَنَّةِ ۲۵۲۵،صحیح ابن حبان ۷۴۱۰،مسندابی یعلی ۶۱۹۵

[42] البقرة۲۵

[43] یٰسین۵۷

[44] الزخرف۷۳

[45] الدخان۵۵

[46] الشمائل الترمذی۲۳۰،شرح السنة للبغوی ۳۶۰۶،تفسیرابن کثیر ۵۳۲؍۷

[47] المعجم الکبیر للطبرانی۸۷۰

[48]صحیح ابن حبان۷۴۰۲

[49]جامع ترمذی کتاب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ جِمَاعِ أَهْلِ الجَنَّةِ ۲۵۳۶

[50] المعجم الاوسط للطبرانی ۵۲۶۷، سلسلة الأحادیث الصحیحة وشیء من فقهها وفوائدها۳۶۷

[51] البلد۱۹،۲۰

[52] الانشقاق۱۰،۱۱

[53] الحاقة۲۵تا۲۹

[54] محمد۱۵

[55] المرسلات۲۹تا۳۲

[56] النمل۶۷،۶۸

[57] المومنون۸۲،۸۳

[58] الصافات۵۳

[59] بنی اسرائیل۴۹

[60] الصافات۱۷

[61] الصافات۱۸

[62] الصافات۶۲

[63] ابن ہشام۳۶۲؍۱،الروض الانف۲۰۱؍۳،سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد۴۷۰؍۲

[64] الکہف۱۰۷،۱۰۸

[65] الرعد۱۶

[66] الفرقان۳

[67] القیامة۳۶تا۳۹

[68] الفرقان۲

[69] یٰسین۳۸،۳۹

[70] الرعد۸

[71] القمر۴۹

[72] الطلاق۳

[73] الاحزاب۳۸

[74] یوسف۴۱

[75] مریم۲۱

[76] مریم۷۱

[77] البقرة۱۸۷

[78] التوبة۵۱

[79] الحدید۲۲

[80] الحشر۳

[81] الانعام۵۹

[82] ھود۶

[83] الرعد۳۸

[84] الحجر۴

[85] بنی اسرائیل۵۸

[86] النبا۲۹

[87] یٰسین۱۲

[88] السنن الصغیر للبیہقی ۱۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ معرفة الْإِیمَانِ، وَالْإِسْلَامِ، والقَدَرِ وَعَلَامَةِ السَّاعَةِ۹۳،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۶۹۵،صحیح ابن حبان ۱۷۳

[89] الروم۲۷

[90] یٰسین۷۷تا۷۹

[91] القیامة۳۶تا۴۰

[92]الواقعة: 64

[93] تفسیر طبری ۱۳۹؍۲۳

[94] النحل۱۰،۱۱

[95] شعب الایمان ۴۱۶۲، تفسیر ابن ابی حاتم محققا۱۸۷۹۹،تفسیرالدرالمنشور ۱۴؍۷

[96] سنن ابوداودکتاب الاجارة بَابٌ فِی مَنْعِ الْمَاءِ۳۴۷۷

[97] تفسیرابن کثیر۵۴۴؍۷

[98] الشعراء ۲۱۰تا۲۱۲

[99] القیامة ۲۶تا۳۰

[100] الانعام۶۱

[101] ق۱۶

[102] حم السجدة ۳۰تا۳۲

[103]یونس ۶۴

[104] الکہف۲۹

[105] الواقعة: 74

[106] الأعلى: 1

[107] سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ فِی رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ۸۶۹،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ التَّسْبِیحِ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۸۸۷

[108] صحیح بخاری کتاب التوحید الجھمیة بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَنَضَعُ المَوَازِینَ القِسْطَ لِیَوْمِ القِیَامَةِ۷۵۶۳،صحیح مسلم کتاب الذکربَابُ فَضْلِ التَّهْلِیلِ وَالتَّسْبِیحِ وَالدُّعَاءِ ۶۸۴۶، مسنداحمد ۷۱۶۷، مسندالبزار ۹۷۸۳،صحیح ابن حبان ۸۳۱،شعب الایمان ۵۸۵،السنن الکبری للنسائی ۱۰۵۹۷، مصنف ابن ابی شیبة ۲۹۴۱۳،مسندابی یعلی ۶۰۹۶،شرح السنة للبغوی ۱۲۶۴

[109] جامع ترمذی کتاب الدعوات  بَاب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ التَّسْبِیحِ وَالتَّكْبِیرِ وَالتَّهْلِیلِ وَالتَّحْمِیدِ ۳۴۶۴ ،۳۴۶۵،صحیح ابن حبان۸۲۶،مسندابی یعلی۲۲۳۳، شرح السنة للبغوی۱۲۶۵،مصنف ابن ابی شیبةعن عبداللہ بن عمروw۲۹۴۵۱

Related Articles