بعثت نبوی کا پانچواں سال

 مضامین سورۂ الشعراء

ہرطرح کے دلائل کے باوجوداہل مکہ کی ایک ہی تکرارتھی کہ یہ جوقرآن نازل ہورہاہے اس کی تعلیمات میں  عظمت والی کوئی حقیقت نہیں  بلکہ یہ تو شعر اور کہانت کی چیزہے،اس لئے تو قوم کے سرکردہ اشخاص ان تعلیمات کوقبول نہیں  کررہے بلکہ معاشرے کے کمزوراورجاہل افرادان تعلیمات کوقبول کررہے ہیں  ان باتوں  کا جواب دیاگیا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے بارے میں  شدید احساس ذمہ داری تھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے علوم ومعارف اوراحکام لوگوں  تک پہنچانے میں  اپنی جان ہلکان کیے ہوئے تھے اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں  انسانیت کی ہدایت کاایسادردتھاجولگتاتھاکہ آپ کی جان لے لے ،اللہ تعالیٰ نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوتسلی وتشفی کے لئے فرمایاکہ آپ ان کفار ومشرکین کے ایمان نہ لانے پر رنجیدہ خاطرنہ ہوں کہ ان کے غم میں  اپنی جان ہی دے ڈالیں ،انہوں  نے ہردور کے کفارومشرکین کی طرح ہماری نشانیاں  دیکھی ہوئی ہیں  ،ان سب کی ذہنیت ایک سی ہے ، ان کی حجتیں  بھی ایک ہی طرح کی ہیں ،ان کے اعتراضات بھی یکساں  ہیں ،ان کے حیلے اوربہانے یکساں  ہیں  اس لئے اپنی جاہلانہ ضدوہٹ دھرمی کی بنا پراپنے کفروشرک پر اڑے ہوئے ہیں ،اگراب کوئی ایسی نشانی دیکھناچاہتے ہوں  جو زبردستی ان کی اکڑی ہوئی گردن جھکادے تووہ نشانی بھی آکررہے گی اس سلسلہ میں  سابقہ امتوں  قوم فرعون ،قوم نوح ،قوم عادوثمود،قوم لوط اوراصحاب الایکہ کے حالات و واقعات بیان کیے گئےکہ ان کی ہٹ دھرمی اورضد کا نتیجہ تاریخ کاحصہ ہے ، ان کا انجام بھی ان کی طرح یکساں  ہے ،اس کے ساتھ ساتھ وہ نشانیاں  بھی بیان کی گئیں  جوہر بینا آنکھ کے گردوپیش بکھری پڑی ہیں ،ہمارے تمام انبیاء کی تعلیمات ،ہردورکے مسلمانوں  کے اخلاق وسیرت وکرداراوران کے ساتھ رب کی رحمت کامعاملہ ایک سارہا ہے، باری تعالیٰ نے اپنی صفات کا ذکرفرمایا،کفارومشرکین کو ایک بارپھرتنبیہ کی گئی کہ باربارہماری نشانیاں  دیکھنے پراصرارنہ کرواگرپھربھی تم نہیں  مانتے توسابقہ امتوں  کے حالات واقعات پر ایک نظرڈال لو، تم ہمارے نازل کردہ کلام پر اعتراض کرتے ہو اچھا ذراکسی کاہن اورکسی شاعر کے کلام پرنظرڈال لواورپھر قرآن کے مضامین اس کی تعلیمات اوراس کے اندازبیاں  کودیکھودونوں  کے موازنے کے بعد کیاتمہارادل یہ گواہی نہیں  دیتاکہ یہ ہمارانازل کردہ کلام ہے اگرتمہارے دل گواہی نہیں  دیتے تو پھر یقیناًتم ظالم ہواورظلم کے انجام میں  تم سابقہ امتوں  کے احوال کا مشاہدہ کرچکے ہو، مسلمانوں  کو  اللہ پر توکل،ناپ تول کوپوراکرنا اور عقیدہ اورعمل کی اصلاح کاخصوصیت سے ذکرکیاگیااورانبیاء کی تکذیب کرنا، دین کے ساتھ تمسخر کرنا ،گمراہی اور  اللہ  تعالیٰ کی زمین میں  فساد پھیلانے کی شدیدمذمت کی گئی،موسٰی کے معجزات کاتذکرہ اور سمندرمیں  راستے کابنناکے ساتھ دعوت عام دی گئی کہ ہم زمین میں  سے جو نباتات وجمادات پیداکرتے ہیں  ان پرغوروتدبرکرو۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

طسم ‎﴿١﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِینِ ‎﴿٢﴾‏ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا یَكُونُوا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٣﴾‏ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِینَ ‎﴿٤﴾‏ وَمَا یَأْتِیهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِینَ ‎﴿٥﴾‏ فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَیَأْتِیهِمْ أَنبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٦﴾‏ أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِیهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِیمٍ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٨﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿٩﴾‏(الشعراء)
طسم،یہ آیتیں  روشن کتاب کی ہیں ، ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں  گے،  اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں  خم ہوجاتیں  ،اور ان کے پاس رحمان کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آئی یہ اس سے روگردانی کرنے والے بن گئے،ان لوگوں  نے  جھٹلایا ہے اب ان کے پاس جلدی سے اس کی خبریں  آجائیں  گی جس کے ساتھ وہ مسخرا پن کر رہے ہیں ، کیا انہوں  نے زمین پر نظریں  نہیں  ڈالیں ؟ کہ ہم نے اس میں  ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں  ؟ بیشک اس میں  یقیناً نشانی ہے اور ان میں  کے اکثر لوگ مومن نہیں  ہیں  اور تیرا رب یقیناً وہی غالب اور مہربان ہے۔

ط،س،م،کیونکہ مشرکین مکہ کلام الٰہی کوشعراورکہانت سے تعبیرکرتے تھے اورکہتے تھے کہ قرآن کی تعلیم میں  عظمت والی کوئی بات نہیں  اس لئے قوم کے جوان اورمعاشرتی اعتبار سے کمزورافراداس کوقبول کرتے ہیں اوراشراف قوم اس سے گریزاں  ہیں ،اوران کایہ بھی مطالبہ تھاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کی حقانیت میں  کوئی معجزہ کیوں  نہیں  دکھاتے اس کے جواب میں  فرمایا اگرکسی کوحقیقت میں  ایمان لانے کے لئے نشانی مطلوب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجودہیں جس کاکتاب الٰہی ہونا ظاہر و باہرہے ،اس کی آسان زبان ،اس کادلفریب انداز بیان،اس کے وسیع ترین مضامین ،اس کے پیش کردہ سچے حقائق اوراس کے حالات نزول سب کے سب صاف صاف دلالت کررہے ہیں  کہ یہ رب العالمین ہی کی نازل کردہ کتاب ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قوم کے حقیقی خیرخواہ تھے اوران کی بھلائی چاہتے تھے مگرقوم کی گمراہی وضلالت ،اخلاقی پستی اورحق قبول کرنے میں  ہٹ دھرمی کودیکھ کررنجیدہ خاطر ہوتے تھےاس پراللہ تعالیٰ نے تسلی وتشفی کے لئے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !شایدتم اس رنج وغم میں  اپنی جان دے دو گے کہ یہ لوگ ہر طرح کی نشانیوں  کودیکھنے ،ہرطرح کے دلائل سے سمجھانے کے باوجود اورپچھلی تباہ شدہ اقوام کے عبرت ناک واقعات کوسن کربھی ا یمان نہیں  لاتے ، جیسے فرمایا

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓی اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۝۶ [1]

ترجمہ:شایدتم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان دینے والے ہواگریہ اس تعلیم پرایمان نہ لائے ۔

فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ۔۔۔  ۝۸ [2]

ترجمہ:ان لوگوں  کی حالت پررنج وافسوس میں  تمہاری جان نہ گھلے ۔

اللہ تعالیٰ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں  ہے کہ کوئی ایسی نشانی نازل کردے جس سے تمام کفارومشرکین ایمان واطاعت کی روش اختیارکرنے پر مجبورہوجائیں ،مگراللہ کوجبری طورپرقبول اسلام مطلوب نہیں بلکہ اللہ چاہتاہے کہ یہ لوگ اپنے چاروں  طرف پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں  اور خوداپنے نفسوں  پرغوروفکرکریں  ،جیسے فرمایا

وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۝۲۰ۙوَفِیْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۲۱ [3]

ترجمہ:زمین میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  یقین لانے والوں  کے لیے اور خود تمہارے اپنے وجود میں  ہیں ، کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟۔

ان آیات کی مددسے حق وباطل میں  تمیزکریں  اورہم نے انسان کوجوارادہ واختیارکی آزادی دی ہے اسے بروے کارلاکرپھرخلوص نیت سے ایمان بالغیب لائیں ،جیسے فرمایا

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِیْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۹۹ [4]

ترجمہ: اگر تمہارا رب چاہتاتوزمین کے رہنے والے سب کے سب لوگ ایمان لے آتے ،اب کیا تم لوگوں  کوایمان لانے پر مجبورکروگے ۔

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ۝۱۱۸ۙاِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ۝۰ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ۝۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۱۹ [5]

ترجمہ: اگر تیرارب چاہتاتوتمام انسانوں  کوایک ہی امت بناسکتاتھا،وہ تومختلف راہوں  پرہی چلتے رہیں  گے (اوربے راہ رویوں  سے ) صرف وہی بچیں  گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اسی لئے تواس نے ان کوپیداکیاہے ۔

ان لوگوں  کے پاس رحمان کی طرف سے دنیاوی واخروی کامیابی کے لئے جو ہدایت ورہنمائی نازل کی جاتی ہے مگر یہ اس سے روگردانی کرتے اورمذاق اڑاتے ہیں  ،حق کی تکذیب ان کی فطرت بن گئی ہے ،جس میں  تغیروتبدل نہیں  ہے،جیسے فرمایا

یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ۝۰ۚؗ  مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۳۰ [6]

ترجمہ:افسوس بندوں  کے حال پرجورسول بھی ان کے پاس آیااس کاوہ مذاق ہی اڑاتے رہے ۔

وَكَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ۝۶وَمَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۷ [7]

ترجمہ:پہلے گزری ہوئی قوموں  میں  بھی بارہاہم نے نبی بھیجے ہیں ،کبھی ایسا نہیں  ہواکہ کوئی نبی ان کے پاس آیاہواورانہوں  نے اس کامذاق نہ اڑایاہو۔

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا۝۰ۭ كُلَّمَا جَاۗءَ اُمَّةً رَّسُوْلُہَا كَذَّبُوْہُ۔۔۔۝۴۴ [8]

ترجمہ:پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے جس قوم کے پاس بھی اس کا رسول آیا اس نے اسے جھٹلایا۔

مگر اس تکذیب کے نتیجہ میں  ہمارا عذاب جسے وہ ناممکن سمجھ کراستہزااورمذاق اڑاتے ہیں عنقریب اپنی گرفت میں  لے لے گا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسَـیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ  [9]

ترجمہ: اور ظلم کرنے والوں  کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں  ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی شان وشوکت ، قدرت وعظمت ،عزت ورفعت کو بیان فرمایا کہ کیاانہوں  نے کبھی ہموارفرش کی طرح پھیلی ہوئی زمین پر نگاہ نہیں  ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں  ہرطرح کی صنف اورنوع کے غلہ جات،انواع و اقسام کے پھل دار اور آگ جلانے کے درخت،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ۝۷۱ۭءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۝۷۲ [10]

ترجمہ:کبھی تم نے خیال کیا ، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو،اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یااس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں  ؟۔

میوہ جات اور جانوروں  کے لئے چارے اس میں پیداکیے ہیں  ؟ جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ ۙ لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۔۔۔  ۝۳۵   [11]

ترجمہ:ان لوگوں  کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ہم نے اس کوزندگی بخشی اوراس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں  ، ہم نے اس میں  کھجوروں  اورانگوروں  کے باغ پیدا کیے اوراس کے اندرسے چشمے پھوڑنکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں  ۔

جواللہ مردہ زمین اورایک ہی طرح کے پانی سے یہ مختلف انواع وذائقوں  اور رنگوں  کی چیزیں  پیدا کر سکتاہے،جوزمین پرپالتو مویشی اورخونخوار درندے اورزمین پررینگنے والے طرح طرح کے حشرات الارض اورہوامیں  اڑنے والے رنگارنگ کے چھوٹے بڑے پرندے ، سمندروں  میں  طرح طرح کی بڑی بڑی مخلوق کو ، جوبغیر ستونوں  کے بلندوبالاآسمانوں  اوراس میں  انگنت ستاروں  کو ، راحت و سکون کے لئے رات کو اور معاش کے لئے دن کو ، جوآسمانوں  سے بارش برساسکتاہے ، جو بہتے دریاؤ ں  اورسمندروں  کواورمختلف موسموں  کوپیدا کر سکتاہے تو کیاوہ انسانوں  کو دوبارہ پیداکردینے کی قدرت نہیں  رکھتا ؟ مگراللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتیں  دیکھنے کے باوجوداکثر لوگ اللہ اوراس کے رسول اوراس پرجونازل کیا گیاہے اس کی تکذیب کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳   [12]

ترجمہ:خواہ آپ کتناہی کیوں  نہ چاہیں  اکثرلوگ ایمان نہیں لائیں  گے ۔

اگراللہ چاہے تو پچھلی قوموں  کی طرح انہیں  بھی نشان عبرت بنادے مگریہ اللہ کارحم وکرم ہے کہ وہ مجرموں  کوسوچنے ، سمجھنے کے لئے ڈھیل دیتاہے اور سزا دینے میں  جلدی نہیں  کرتا۔

وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٠﴾‏ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا یَتَّقُونَ ‎﴿١١﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّی أَخَافُ أَن یُكَذِّبُونِ ‎﴿١٢﴾‏ وَیَضِیقُ صَدْرِی وَلَا یَنطَلِقُ لِسَانِی فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَارُونَ ‎﴿١٣﴾‏ وَلَهُمْ عَلَیَّ ذَنبٌ فَأَخَافُ أَن یَقْتُلُونِ ‎﴿١٤﴾‏ قَالَ كَلَّا ۖ فَاذْهَبَا بِآیَاتِنَا ۖ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ ‎﴿١٥﴾‏ فَأْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٦﴾‏ أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿١٧﴾(الشعراء)
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا قوم فرعون کے پاس کیا وہ پرہیزگاری نہ کریں  گے، مو سٰی (علیہ السلام) نے کہا میرے پروردگار ! مجھے خوف ہے کہ کہیں  وہ مجھے جھٹلا (نہ) دیں ،  اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے میری زبان چل نہیں  رہی، پس تو ہارون کی طرف بھی (وحی) بھیج، اور ان کا مجھ پر میرے ایک قصور کا (دعویٰ ) بھی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں  وہ مجھے مار نہ ڈالیں ، جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ! ہرگز ایسا نہ ہوگا، تم دونوں  ہماری نشانیاں  لے کر جاؤ ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں ، تم دونوں  فرعون کے پاس جا کر کہو کہ بلاشبہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل روانہ کر دے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی خالقیت کے ذکرکے بعدفرمایاکہ اگران نصیحت بھری باتوں  کاان پرکوئی اثرنہیں  ہورہاتوہم ان جیسے منکرین اوردین کامذاق اڑانے والوں  کاعبرتوں  پر مشتمل قصہ بیان کرتے ہیں  چنانچہ سب سے پہلے موسیٰ   علیہ السلام اورفرعون کاتاریخی ذکرفرمایاکہ انہیں  اس وقت کاقصہ بھی بیان کروکہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام کوجوایک غلام قوم کے کمزورفردتھے کو کوہ طور پرکلام فرمایااور خلعت رسالت سے نوازکراورواضح نشانیاں  دے کرحکم دیاتھاکہ اس ظالم قوم کے پاس جاؤ جنہوں  نے اللہ کی زمین پرتکبرکارویہ اختیار کررکھاہے ،اوراللہ کی مخلوق پرجبرکے ساتھ مسلط ہیں ،خودکومختارمطلق سمجھنے والے ظالم وجابرفرعون کے پاس،کیافرعون اوراس کی قوم کفر وشرک میں  ڈوب کر اوراللہ کے بندوں  پرظلم وستم اوران کے معصوم لڑکوں  کوقتل کرتے ہوئے اس بات سے بے خوف ہیں  کہ اللہ بہت جلدان سے ان کے اعمال کی بازپرس کرنے والاہے ، موسٰی نے اپنی چند کمزوریاں  باری تعالیٰ کے حضور گزارش کیں اے میرے رب!مجھے ڈرہے کہ وہ ظالم لوگ جن کے ظلم کی کوئی حدنہیں  ہے مجھے جھٹلائیں  گے اورمذاق اڑائیں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ۝۸۳ [13]

ترجمہ: اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں  غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں  میں  سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں  ہیں  ۔

خوف سے میرا سینہ تنگ ہورہا ہے اور میری زبان میں  بھی لکنت ہے جس کی وجہ سے میں  کھل کربات نہیں  کرسکتا،میرے کنبے میں  سے میرے بھائی ہارون  علیہ السلام  کو بھی نبوت سے سرفرازفرما اور اسے میرامعاون بنادے،جیسے فرمایا

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۝۲۵ۙوَیَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۝۲۶ۙوَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ۝۲۷ۙ یَفْقَـــهُوْا قَوْلِیْ۝۲۸۠وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ۝۲۹ۙهٰرُوْنَ اَخِی۝۳۰ۙ  [14]

ترجمہ:اس نے عرض کیاپروردگار!میراسینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ سلجھادے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں  اورمیرے لئے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے ،ہارون جو میرابھائی ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً۔۔۔۝۳۴ [15]

ترجمہ:اس کومیرے ساتھ معاون بناکربھیج۔

اور میں  نے دس سال قبل ایک قبطی کوبلاقصورمارڈالاتھاجس کی وجہ سے مجھے اپنا گھربار اورملک چھوڑکرمدین جانا پڑاتھا،مجھے اب اس کے پاس جاتے ہوئے ڈروخوف لگ رہا ہے کہ کہیں  وہ مجھے قصاص میں  قتل نہ کرڈالیں ،موسیٰ   علیہ السلام کے ڈر اور اندیشے کاسن کرباری تعالیٰ نے تسلی دی کہ اے موسیٰ !ہماری ان دونوں  نشانیوں  اوردلائل و براہین کے ساتھ اس کے پاس جاؤ اور کسی بات کاکھٹکااپنے دل میں  نہ رکھوتمہارے دل میں  جواندیشے لاحق ہیں ہم ان سے تمہاری حفاظت کریں  گے،جیسے فرمایا

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا۝۰ۚۛ بِاٰیٰتِنَآ۝۰ۚۛ اَنْتُـمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ۝۳۵ [16]

ترجمہ:فرمایا ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں  گے اور تم دونوں  کو ایسی سطوت بخشیں  گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں  گے،ہماری نشانیوں  کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں  کا ہی ہوگا۔

ظالم قوم کے سربراہ سرکش فرعون کے پاس جاؤ اوراسے کہوکہ ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں  اوراس نے ہمیں  تمہارے پاس اس لئے بھیجاہے کہ تو نے چارسوسال سے بنی اسرائیل کو غلام بنارکھاہے اب انہیں غلامی سے آزادکردے اورانہیں ہمارے ساتھ سرزمین شام جانے دے،جس سرزمین کا اللہ نے ان سے وعدہ کیاہواہے ۔

قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِینَا وَلِیدًا وَلَبِثْتَ فِینَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِینَ ‎﴿١٨﴾‏ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِی فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٩﴾‏ قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِینَا وَلِیدًا وَلَبِثْتَ فِینَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِینَ ‎﴿١٨﴾‏ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِی فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٩﴾‏(الشعراء)
فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں  اپنے ہاں  نہیں  پالا تھا ؟ اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں  نہیں  گزارے ؟ پھر تو اپنا وہ کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں  میں  ہے ،(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا  کہ میں  نے اس کام کو اس وقت کیا تھا جبکہ میں  راہ بھولے ہوئے لوگوں  میں  سے تھا ، پھر تم سے خوف کھا کر میں  تم میں  سے بھاگ گیا، پھر مجھے میرے رب نے حکم و علم عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں  میں  سے کردیا، مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے ؟ جسے تو جتلا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔

 فرعون کاتحقیروتنقیص کرنا:

موسیٰ  علیہ السلام  اللہ کے حکم کے مطابق فرعون کے پاس پہنچے اوراسے دعوت حق پیش کی مگرفرعون نے موسیٰ  علیہ السلام کی دعوت کوکوئی اہمیت ہی نہ دی اورحقارت آمیزنظروں  سے موسیٰ  علیہ السلام کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا تووہی نہیں  ہے جوہماری گوداورہمارے گھرمیں  ہمارے ٹکڑوں  پر پلابڑھاجبکہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں  کو قتل کرڈالتے تھے،اتنی عمر ہمارے پاس گزارنے کے بعدچندسال ادھر ادھررہ کراب تونبوت کا دعویٰ دارہوگیاہے پھرہمار ا دیا ہوا کھا کر ہماری قوم کے ایک آدمی کوقتل کرکے ہماری ناشکری بھی کی،توتو بڑاہی احسان فراموش آدمی ہے، موسیٰ   علیہ السلام نے جواب دیا میں  نے دانستہ نہیں  بلکہ نادانستگی میں  اس وقت ایک قطبی کاقتل کردیا تھاپھرمیں  تمہارے خوف سے مدین بھاگ گیااب جبکہ میں  واپس آرہاتھاتو میرے رب نے مجھ کوپروانہ نبوت وعلم عطاکیا اور مجھے رسولوں  میں  شامل فرمالیا، رہاتیرااحسان جوتو نے مجھ پرجتایا ہے تویہ تجھے زیب نہیں  دیتامیری پرورش کی حقیقت یہ ہے کہ تونے بنی اسرائیل کو غلام بنالیاتھاان پرظلم ڈھاتا اوران کے معصوم بچوں کوقتل کردیتاتھااس لئے میری والدہ نے تیرے خوف سے مجھے ٹوکری میں  ڈال کردریا میں  بہا دیا تھا اور تونے اسے اٹھالیاتھا ۔

قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٣﴾‏ قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٢٦﴾‏ قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِی أُرْسِلَ إِلَیْكُمْ لَمَجْنُونٌ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٢٨﴾ (الشعراء)
فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے ؟(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ آسمانوں  اور زمین اور ان کے درمیان  کی تمام چیزوں  کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو، فرعون نے اپنے گرد والوں  سے کہا کیا تم سن نہیں  رہے ؟  ( موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں  کا پروردگار ہے، فرعون نے کہا (لوگو ! ) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے،(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں  کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو۔

فرعون تواپنی بادشاہی اوراپنے لشکروں  کے گھمنڈمیں  خودکورب اعلیٰ کہتاتھا،جیسے فرمایا:

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ۔۔۔۝۰۝۳۸ [17]

ترجمہ: اورفرعون نے کہااے اہل دربار! میں  تو اپنے سواتمہارے کسی خداکونہیں جانتا۔

اللہ تعالیٰ کا پیغام سن کرفرعون نے غرور وتکبرسے پوچھااے موسٰی !یہ جہانوں  کارب کیاہوتاہے؟۔جیسے فرمایا

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى۝۴۹ [18]

ترجمہ:فرعون نے کہا اچھا تو پھر تم دونوں  کا رب کون ہے اے موسی؟ ۔

موسٰی نے جواب دیااے فرعون !رب العالمین وہ ہے جو اکیلاہے اس کاکوئی ہمسرنہیں ،اس کی ذات ، صفات اورافعال میں کوئی شریک کارنہیں  ،وہ کسی سے پید ا نہیں  ہو ا اور نہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوا ہے ، جیسے فرمایا

قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ  [19]

ترجمہ:کہو وہ اللہ ہے یکتا،اللہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں ،نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاداور کوئی اس کا ہمسر نہیں  ہے۔

اس کی نہ بیوی اورنہ کوئی اولادہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ۝۰ۤۖ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ۝۸۱ [20]

ترجمہ:ان سے کہو ، اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں  ہوتا ۔

۔۔۔اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّكُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ۔۔۔۝۱۷۱ۧ [21]

ترجمہ: اللہ تو بس ایک ہی الٰہ ہے، وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَةٌ۔۔۔۝۱۰۱ [22]

ترجمہ:وہ تو آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں  ہے۔

مَا كَانَ لِلہِ اَنْ یَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ۝۰ۙ سُبْحٰــنَہٗ۔۔۔۝۳۵ۭ [23]

ترجمہ:اللہ کے شایان نہیں  کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے، وہ پاک ہے۔

مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ۔۔۔۝۹۱ۙ [24]

ترجمہ:اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں  بنایا ہےاور کوئی دوسرا الٰہ اس کے ساتھ نہیں  ہے۔

اَلَآ اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْكِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ۝۱۵۱ۙوَلَدَ اللہُ۝۰ۙ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۵۲ [25]

ترجمہ:خوب سن رکھو ، دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں  کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ،اور فی الواقع یہ جھوٹے ہیں ۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ ھُوَالْغَنِیُّ۝۰ۭ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔۔۔۝۶۸ [26]

ترجمہ:لوگوں  نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، سبحان اللہ!وہ تو بےنیاز ہے، آسمانوں  اور زمین میں  جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے ۔

وہ ان ضروریات سے مبراء ہے ،وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔ كُلُّ شَیْءٍ ہَالِكٌ اِلَّا وَجْہَہٗ۔۔۔۝۸۸ۧ [27]

ترجمہ: ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔

اسے نہ نیندآتی ہے اورنہ اونگھ، جیسے فرمایا

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ۝۰ۥۚ لَا تَاْخُذُہٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ۔۔۔۝۲۵۵ [28]

ترجمہ:اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں  ہے ،نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے ۔

ساری قدرتیں  اور طاقتیں  اس کے قبضہ قدرت میں  ہیں ،اس نے اپنی قدرت کاملہ سے سات زمینوں  اورسات آسمانوں  اوران دونوں  کے درمیان جوکچھ ہے تخلیق فرمایا ، جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۔۔۔۝۵۹ [29]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں ۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ۔۔۔۝۴ [30]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  چھ دنوں  میں  پیدا کیا۔

اس رب نے آسمانوں  کو بغیرستونوں  کے بلند فرمایا،جیسے فرمایا

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۱۰ [31]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے جو تم کو نظر آئیں  ۔

 اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲  [32]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۔

اور ان آسمانوں  کے اوپراپنے عرش پرمتمکن ہوا ،جیسے فرمایا

۔۔۔ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۲ [33]

ترجمہ:پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ۔

۔۔۔ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۴ [34]

ترجمہ:پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔

 اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝۵ [35]

ترجمہ:وہ رحمان( کائنات کے)تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔

اس نے دن کو آگ کی طرح چمکتادھمکتاہوا سورج اوررات کو ٹھنڈی روشنی بکھیرنے والا چاندتخلیق فرمایا،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙوَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۝۱۶ [36]

ترجمہ:کیا دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے،اور ان میں  چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا ؟۔

وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا۝۱۳۠ۙ [37]

ترجمہ:اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا ۔

اورآسمان دنیاپران گنت ستاروں  کے جھرمٹ تخلیق فرمائے ، جیسے فرمایا

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ [38]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔۔۔۝۵  [39]

ترجمہ:ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں  سے آراستہ کیا ہے۔

۔۔۔وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۔۔۔۝۱۲  [40]

ترجمہ: اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں  سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا ۔

ان کی طے شدہ گردشوں  سے رات ودن جس میں  تم معاش کے کام اورآرام کرتے ہواور موسموں  کووجودمیں  لاتاہے جس کی وجہ سے انواع و اقسام کے پھل ،سبزیاں  ، اجناس اورچارے حاصل کرتے ہو اورماہ وسال کی گنتی معلوم کرتے ہو،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ۝۵  [41]

ترجمہ:وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھَٹنے بھڑھنے کی منزلیں  ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں  تاکہ تم اس سے برسوں  اور تاریخوں  کے حساب معلوم کرو ۔

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّةِ۝۰ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔۔۔۝۱۸۹  [42]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں  کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہو یہ لوگوں  کے لیے تاریخوں  کی تعیین کی اور حج کی علامتیں  ہیں  ۔

اورآسمان دنیاپرچمکتے ہوئے ان ستاروں  سے رات کوبحروبرمیں راستہ معلوم کرتے ہو،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔۔۔۝۹۷ [43]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں  کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں  میں  راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔

اس نے سمندروں  کی جو زمین کوچاروں  طرف سے گھیرے ہوئے ہیں  تخلیق فرمائی جس میں  کھارے پانی کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کے چشمے بھی رواں  دواں  ہیں  اور ایک دوسرے میں  ملتے نہیں ،جیسے فرمایا

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۝۱۹ۙبَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۝۲۰ۚ [44]

ترجمہ:دو سمندروں  کو اس نے چھوڑ دیا کہ با ہم مل جائیں ،پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں  کرتے۔

وَہُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ۝۰ۚ وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا۝۵۳ [45]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے دو سمندروں  کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں  دوسرا تلخ و شور اور دونوں  کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو انہیں  گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔

۔۔۔وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا۔۔۔۝۶۱ۭ  [46]

ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں  کے درمیان پردے حائل کر دیے۔

اس کی تسخیرقدرت کا ایک ادنیٰ نمونہ یہ ہے جس میں  تمہاراکوئی کمال یا ہنرنہیں بلکہ  اللہ تعالی ٰ کاحکم اور اس کی مشیت ہے کہ اس نے ہوااورپانی کوایسے مناسب اندازسے رکھا کہ سمندر کی سطح پر تمہاری بڑی بڑی کشتیاں  جن کے ذریعہ سے تم سفر اورتجارت کرتے ہو رواں  دواں  رہتی ہیں  ورنہ وہ چاہے توہواکی تندی وسرکشی اورپانی کی پہاڑوں  جیسی موجوں  کی طغیانی کے آگے تمہاری کشتیوں  اور جہازوں  کاچلناناممکن ہو جائے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۔۔۔۝۳۲ۚ [47]

ترجمہ: جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ سمندر میں  اس کے حکم سے چلے ۔

رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ۔۔۔۝۶۶ [48]

ترجمہ: تمہارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں  تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللہِ لِیُرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ۔۔۔۝۳۱  [49]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ کشتی سمندر میں  اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں  اپنی کچھ نشانیاں  دکھائے۔

اَللہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲ۚ  [50]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں  اس میں  چلیں  اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار بنو۔

یہ سب کچھ اس لئے کیاکہ تم ان نعمتوں  پررب کاشکراداکرو جو اس تسخیر بحرکی وجہ سے تمہیں  حاصل ہے ، میرا رب ان سمندروں  سے بادلوں  کو اٹھاکر جہاں  چاہتاہے بارش برسا دیتاہے جس سے مردہ پڑی ہوئی زمین لہلہااٹھتی ہے،جیسے فرمایا

وَاللہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۝۶۵ۧ   [51]

ترجمہ: (تم ہر برسات میں  دیکھتے ہو کہ ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مردہ پڑی ہوئی زمین میں  اس کی بدولت جان ڈال دی،یقیناً اس میں  نشانی ہے سننے والوں  کے لیے ۔

آسمان سے برستا ہوابارش کایہ پانی، پہاڑوں  سے نکلتے ہوئے یہ رواں  دواں  دریا، زمین کے نیچے سے نکلتاہوا میٹھاپانی اورزمین کی روئیدگی کودیکھو جن کو ایک ہی طرح کاپانی دیا جاتاہے مگررب اس سے کئی اقسام کے مختلف ذائقوں  والے پھل ،طرح طرح کی اجناس ، جانوروں  کے چارے اورتمہارے علاج معالجے کے لئے مختلف نباتات نکال لاتاہے،جیسے فرمایا

وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ ۔۔۔۝۴ [52]

ترجمہ:اور دیکھوزمین میں  الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں  جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں  انگور کے باغ ہیں  کھیتیاں  ہیں کھجور کے درخت ہیں  جن میں  کچھ اکہرے ہیں  اور کچھ دوہرے ،سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں  ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں  اور کسی کو کمتر ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا۝۰ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ ۔۔۔  ۝۹۹ [53]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیےپھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں  سے پھلوں  کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں ، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں  اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں ۔

وہ رب العالمین جس نے ہوامیں  اڑتے ہوئے رنگا رنگ پرندے ، جنگلوں  میں  کئی اقسام کے خونخوار درندے ، زمین پر رینگنے والے حشرات ارض،تمہارے لئے پالتو جانور گائے ، بھیڑبکری،اونٹ ، گدھے اورگھوڑے وغیرہ اور سمندرکی بے شمارمخلوقات تخلیق فرمائیں  ،زمین کو ڈھلکنے سے بچانے کے لئے اس میں  کئی رنگوں  کے بلندوبالاپہاڑنصب کئے،جیسے فرمایا

وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔۝۱۵ۙ  [54]

ترجمہ:اس نے زمین میں  پہاڑوں  کی میخیں  گاڑ دیں  تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

 وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ۔۔۔۝۳۱ [55]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں  پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں  لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

۔۔۔وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔۝۱۰  [56]

ترجمہ:اس نے زمین میں  پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں  لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

۔۔۔ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ۝۲۷  [57]

ترجمہ:پہاڑوں  میں  بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں  پائی جاتی ہیں  جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں  ۔

ادنیٰ واعلیٰ سب مخلوقات اس کی ہی حمدخواں ہیں ،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ۝۴۸وَلِلہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَہُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۴۹ [58]

ترجمہ:اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں  دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں  اور بائیں  گرتا ہے؟ سب کے سب اس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں ،زمین اور آسمانوں  میں  جس قدر جان دار مخلوقات ہیں  اور جتنے ملائکہ ہیں  سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں  وہ ہرگز سرکشی نہیں  کرتے ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ۝۱۸ۭ۞  [59]

ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں  میں  ہیں اور جو زمین میں  ہیں ؟ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں  ۔

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۴۴ [60]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  بیان کر رہی ہیں  جو آسمان و زمین میں  ہیں  ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو ۔

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا یَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ۝۱۹ۚ [61]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں  میں  جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہےاور جو (فرشتے )اس کے پاس ہیں  وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں  اور نہ ملول ہوتے ہیں  ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ۝۴۱  [62]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں  وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے ۔

اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کے لئے مسخر کردیا ہے،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ۔۔۔۝۶۵ [63]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں  ہے۔

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۝۲۰ [64]

ترجمہ:کیا تم لوگ نہیں  دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں  کی ساری چیزیں  تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں ۔

اَللہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲ۚ [65]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں  اس میں  چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار بنو۔

اس نے فرشتوں  کونورسے ، جنوں  کوآگ کی لپٹ سے اورانسانوں  کومٹی سے بہترین طورپرتخلیق کیا ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚوَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۝۲۷ [66]

ترجمہ:ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا اور اس سے پہلے ہم جنوں  کو آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے ۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙوَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۝۱۵ۚ  [67]

ترجمہ:انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایااور جن کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا ۔

اور جو شکل و صورت انسان کے لئے مناسب حال تھی اسے عنایت کی۔

 ۔۔۔وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۝۰ۚ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۝۳  [68]

ترجمہ:اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے۔

۔۔۔ وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۔۔۔ ۝۶۴  [69]

ترجمہ:جس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [70]

ترجمہ:ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔

الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ۔۔۔۝۷ۚ [71]

ترجمہ:جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی۔

دوسری مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو قوت گویائی عطاکرکے سب جانداروں  پر فضیلت بخشی ، اسے اچھے اوربرے کافرق معلوم کرنے کی تمیز دی ، جیسے فرمایا

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ [72]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی ۔

اور جوشکل وصورت وجسامت جانوروں  کے لئے مطابقت رکھتی تھی وہ جانوروں  کوعطاکی ،ہرمخلوق کواس کی طبعی ضرورت کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھادیااس کے مطابق ہی ہرمخلوق کو سامان زندگی فراہم کرتی اورحیات مستعارکے دن گزارتی ہے ،وہ رب العالمین ہی ہرمخلوق کاچاہے پتھرمیں  چھپاہواایک کیڑاہی کیوں  نہ ہوروزی رساں  ہے ،وہ اپنی مشیت سے جس کسی کو چاہتاہے فراخی سے عطاکرتاہے اورجس کی روزی چاہتا ہے تنگ کردیتاہے،جیسے فرمایا:

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ [73]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًۢ ا بَصِیْرًا۝۳۰ۧ [74]

ترجمہ:تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہےوہ اپنے بندوں  کے حال سے باخبرہے اورانہیں  دیکھ رہاہے۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۔۔۔۝۶۲ [75]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں  میں  سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۶ۧ [76]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا عطا کرتا ہے ۔

جس کوچاہتاہے عزت وتمکنت سے ہمکنار کرتاہے اور جسے چاہتاہے ذلیل ورسوا کر دیتا ہے،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۔۔۔۝۲۶ [77]

ترجمہ:کہو! اے پروردگار! ملک کے مالک! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے، جسے چاہےعزّت بخشے اور جس کو چاہےذلیل کر دے ، بھلائی تیرے اختیار میں  ہے۔

وہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق کسی انسان کو لمبی عمرعطافرماتاہے کہ وہ بالکل بچوں  کی ماننداورکمزور ہوجاتا ہے اورکسی کومختصرزندگی دیتاہے ،جیسے فرمایا

وَاللہُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ۝۰ۣۙ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـیْــــًٔـا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۝۷۰ۧ [78]

ترجمہ:اور دیکھواللہ نے تم کو پیدا کیا پھر وہ تم کو موت دیتا ہے اور تم میں  سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے،حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں  بھی کامل ہے اورقدرت میں  بھی ۔

۔۔۔وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۝۰ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـیْــــًٔا۔۔۔۝۵ [79]

ترجمہ: ہم جس (نطفے)کو چاہتے ہیں  ایک وقت خاص تک رحموں  میں  ٹھیرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں  نکال لاتے ہیں  پھر تمہیں  پرورش کرتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، اور تم میں  سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔

کسی کام کوکرنے کے لئے اسے اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں  ہوتی ،وہ سب کام اپنی قدرت کے کلمے کن سے کرتاہے بس وہ حکم دیتا ہے ہوجا اوروہ چیزوجودمیں  آجاتی ہے ،جیسے فرمایا

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [80]

ترجمہ:وہ آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۷ [81]

ترجمہ:وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [82]

ترجمہ:ہمیں  کسی چیز کو وجود میں  لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں  کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں  ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

وہ جوچاہے کرگزرتاہے اس کے حکم اور مشیت کو ٹالنے والااورکوئی پوچھنے والانہیں ہے،جیسے فرمایا

لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ۝۲۳ [83]

ترجمہ:وہ اپنے کاموں  کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں  ہے اور سب جواب دہ ہیں ۔

۔۔۔وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ۔۔۔ ۝۲۱  [84]

ترجمہ:لیکن اللہ اپنے معاملے پر غالب ہے اس نے جو کرنا ہوتا ہے کر کے رہتا ہے۔

وہ علام الغیوب ہے ، جیسے فرمایا

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۷۸ۚ  [85]

ترجمہ:کیا یہ لوگ جانتے نہیں  ہیں  کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں  تک معلوم ہیں  اور وہ تمام غیب کی باتوں  سے پوری طرح باخبر ہے؟۔

وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [86]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنہیں  اس کے سوا کوئی نہیں  جانتا،بحر و بر میں  جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں  جس کا اسے علم نہ ہو، زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسا نہیں  جس سے وہ باخبر نہ ہو ، خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھا ہوا ہے ۔

رات ہویادن ،اندھیرا ہویا اجالا ، خلوت ہویا جلوت ، پہاڑوں ، بیابانوں ، غاروں  ،جنگلوں  اورصحراؤ ں  میں  تمہارے ہر حال سے باخبر رہتاہے۔

 ۔۔۔وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ    [87]

ترجمہ:وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں  بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔

وہ تمہارے سینوں  کے چھپے بھیداورآنکھوں  کی خیانت بھی جانتاہے،  جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [88]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں  ۔

پھرتمہاری چندروزہ طبعی زندگی کے بعد جس میں  اللہ تعالیٰ کے فرامین اور حدودکوپامال کرکے، اس رب کے عطاکردہ چندٹکے پاکر تکبروعنادکی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑی ہوئی ہیں تم پر موت طاری کرتاہے اور پھر جب چاہے گادوبارہ زندہ کرکے جواب دہی کے لئے اپنی بارگاہ میں لاکھڑاکرے گا اور ہر عمل کرنے والے کواس کے اعمال کابدلہ دینے کے لئے میزان عدل قائم کرے گااور محسنین کواس کے احسان کی اور بدکاروں  کوان کے اعمال کے مطابق جزاوسزا دے گا ،جیسے فرمایا:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ۝۸ۧ [89]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

یہ کام اس کے لئے بہت اسان ہیں  جنہیں  کرتے ہوئے اسے کسی قسم کی تھکن یاتکلیف نہیں  ہوتی ،جیسے فرمایا

وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۝۰ۤۖ وَّمَا مَسَّـنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۝۳۸ [90]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں  کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں  کو چھ دنوں  میں  پیدا کر دیااور ہمیں  کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔

یہ توحیدکے چند دلائل وبراہین ہیں  اگرتم اس پر ایمان نہیں  لاتے تو اللہ تعالیٰ کی بات کے بعدکس کی بات ہے اس کی نشانیوں  کے بعدکون سی نشانیاں  ہیں  جن پرتم ایمان لاؤ  گے ، جیسے فرمایا:

تِلْكَ اٰیٰتُ اللہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ۝۰ۚ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍؚبَعْدَ اللہِ وَاٰیٰتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۶ [91]

ترجمہ:یہ اللہ کی نشانیاں  ہیں  جنہیں  ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں  اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں  گے ۔

رب العالمین کے یہ چند اوصاف اس کی ذات بابرکات اوراس کی قوتوں  وطاقتوں  کو ماننے کے لئے کافی ہیں  ،اللہ تعالیٰ کے ان چنداوصاف کوسن کرفرعون سے کوئی جواب نہ بن پڑاتوتکبراورتعجب کرتے ہوئے اردگردکے درباریوں  کی طرف دیکھ کربولا کیاتم اس پرتعجب نہیں  کرتے جو یہ کہہ رہاہے کہ میرے سوا کوئی اورمعبودبھی ہے،موسٰی نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کامالک اورپروردگار ہے،جیسے فرمایا

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ۝۱۲۵ۙاللہَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ۝۱۲۶ [92]

ترجمہ:کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہواس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آبا و اجداد کا رب ہے ؟۔

آج اگرتم فرعون کورب مانتے ہو تو بتاؤ  اس فرعون کی پیدائش سے پہلے ج ہانوں  کارب کون تھا؟کیااس کے پیداہونے سے پہلے زمین وآسمانوں  اوران کے درمیان جوکچھ ہے کاوجودتھا؟اگرتم اس کا اقرارکرتے ہوتو بتاؤ توان سب چیزوں  کوکس نے پیداکیاتھا؟جس نے اس عظیم الشان کائنات کی ہر چیز کی تخلیق کی ہے وہ فرعون نہیں  بلکہ وہی جہانوں  کا رب ہے جس کامیں  فرستادہ ہوں ،فرعون کہنے لگاچھوڑواسےیہ توکوئی پاگل یا مجنون معلوم ہوتا ہے ، موسٰی نے اپنی دلیلوں  کا سلسلہ جاری رکھااورکہا اے لوگو! سنورب العالمین وہ ہے جو مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان جوکچھ ہے سب کا مالک ہے، جیسے فرمایا

رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ۝۱۷ۚ [93]

ترجمہ:دونوں  مشرق اور دونوں  مغرب، سب کا مالک پروردگار ہی ہے۔

جوسورج ،چانداورستاروں  کومشرق سے طلوع کرتااورمغرب میں  غروب کرتاہے اگر فرعون اپنے دعویٰ الوہیت وربوبیت میں  سچا ہے تو ذرا اس کے خلاف کرکے دکھا دے ، جیسے فرمایا

قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ كَفَرَ۝۲۵۸ۚ [94]

ترجمہ: ابراہیم نے کہا اچھا اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال لایہ سن کر وہ منکر حق ششدرہ رہ گیا۔

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَٰهًا غَیْرِی لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣٠﴾‏ قَالَ فَأْتِ بِهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٣١﴾‏ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِینٌ ‎﴿٣٢﴾‏ وَنَزَعَ یَدَهُ فَإِذَا هِیَ بَیْضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ ‎﴿٣٣﴾‏(الشعراء)
فرعون کہنے لگا سن لے ! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں  تجھے قیدیوں  میں  ڈال دونگا، مو سیٰ(علیہ السلام) نے کہا  اگرچہ میں  تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں  ؟ فرعون نے کہا اگر تو سچوں  میں  سے ہے تو اسے پیش کر،  آپ نے (اسی وقت) اپنی لاٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا (زبردست) اژدھا بن گئی ، اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اسی وقت دیکھنے والے کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا ۔

 فرعون کی دھمکی :

فرعون نے جب دیکھاکہ موسٰی اس کی رعیت کاایک معمولی فرد مختلف اندازسے رب العالمین کی ربوبیت کاملہ کی وضاحت ،اپنی رسالت اوربنی اسرائیل کی رہائی کامطالبہ کر رہا ہے جس کاکوئی معقول جواب اس سے نہیں  بن پارہاتووہ دلائل سے صرف نظرکرکے انہیں  حوالہ زندان کرنے سے ڈرانے لگا،موسٰی نے فرمایا اگر میں  تمہارے سامنے ایک واضح چیز پیش کروں  جومیری حق وصداقت کی گواہی دے پھربھی تم مجھے حوالہ زندان کر دو گے اورمیری رسالت کی صداقت کوتسلیم نہیں  کروگے،فرعون نے کہااچھا اگرتواپنے آپ کواللہ کارسول کہتاہے تواپنی صداقت کی نشانی دکھاؤ ، فرعون نے جیسے ہی کہاموسٰی نے اپنی پہلی نشانی عصاکو زمین پرڈال دیاجو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑااژدھابن گیا اور پھنکارے مارتے ہوئے ادھر ادھرفراٹے بھرنےلگا،پھر موسٰی نے اپناہاتھ بغل میں  ڈالااورجب باہرنکالاتوہاتھ چاندکے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا جس سے ساراماحول جگمگا اٹھا ۔

قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ یُرِیدُ أَن یُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ یَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیمٍ ‎﴿٣٧﴾(الشعراء)
فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں  سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے، یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں  تمہاری سرزمین سے ہی نکال دے بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو، ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں  میں  ہر کارے بھیج دیجئے جو آپ کے پاس ذی علم جادوگروں  کو لے آئیں ۔

درباریوں  سے مشورہ :

دونوں  معجزوں  کودیکھ کر فرعون موسیٰ   علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام کوزنداں  میں  ڈالنے کی دھمکی کوبھول گیا، چنانچہ فرعون اپنے درباریوں  سے مخاطب ہوا کہ یقیناًیہ شخص اپنے جادو میں  کمال کی حد تک پہنچاہواہے ،جس سے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے زبردست جادوکے بل بوتے پرتمہیں  تمہارے ملک سے نکال باہرکرے اوریہ غلام زادہ نیک نام ہوکر یہاں  تمہارے ملک پر حکومت کرے اورتم جو صاحب مرتبہ ہو ذلیل وخوارہوجاؤ  اب تم مشورہ دو اس جادوگر کے ساتھ کیاسلوک کرناچاہیے،سب درباریوں  نے رائے دی کہ موسٰی اوراس کے بھائی کوفی الحال اپنے حال پرچھوڑدیں  اور اسی اثنامیں اپنے ہرکاروں  کے ذریعے ملک بھرسے اس کے مقابلے کے ماہرفن جادوگروں کوبلواکران دونوں  کا جادوگروں  سے باہمی مقابلہ کرادیں اس طرح ان کی جادو گری کی شعبدہ بازیوں  کاجواب مل جائے گااورہماری جیت ہوگی اوراس کے مقابلے میں آپ کی تائید و نصرت بھی ہوجائے گی۔

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ ‎﴿٣٨﴾‏ وَقِیلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِن كَانُوا هُمُ الْغَالِبِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ‎﴿٤١﴾‏ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِینَ ‎﴿٤٢﴾(الشعراء)
پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کئے گئے،اور عام لوگوں  سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں  حاضر ہوجاؤ گے؟ تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں  تو ہم ان کی پیروی کریں ، جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں  کچھ انعام بھی ملے گا ؟ فرعون نے کہا ہاں  ! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں  تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔

جادوگروں  کاجمع ہونا:

فرعون کے حکم عام پرملک بھرسے ماہرفن جادوگروں  کی بہت بڑی تعدادمقررہ وقت اورجگہ پرجمع ہوگئی ،جادو گروں کوبلانے کے علاوہ فرعون نے اپنی رعایاکوبھی مقابلہ دیکھنے کی دعوت دی اورصرف اعلان واشتہارہی پراکتفانہیں  کیاگیا بلکہ اس غرض سے آدمی چھوڑے گئے کہ لوگوں  کو اکساکرمقابلہ دیکھنے کے لئے لائیں ، کیونکہ بھرے دربارمیں  جو معجزات موسٰی نے دکھائے تھے ان کی خبر عام لوگوں  میں  پھیل چکی تھی اور فرعون کویہ اندیشہ تھاکہ اس سے ملک کے باشندے متاثرہوتے چلے جا رہے ہیں ،جن حاضرین دربار نے معجزے دیکھے تھے اورباہرجن لوگوں تک اس کی معتبر خبریں  پہنچی تھیں  ان کے عقیدے اپنے آبائی دین ودھرم پرسے متزلزل ہوئے جارہے تھے اوراب ان کے دین کا دارومداربس اس پر رہ گیاتھاکہ کسی طرح جادوگربھی وہ کام کردکھائیں جوموسٰی نے کیا ہے،فرعون اوراس کے اعیان سلطنت اسے خودایک فیصلہ کن مقابلہ سمجھ رہے تھے ان کے اپنے بھیجے ہوئے آدمی عوام الناس کے ذہن میں  یہ بات بٹھاتے پھرتے تھے کہ اگر جادوگر مقابلے میں  کامیاب ہوگئے توہم سچے ہوں  گے اور اپنے آباؤ اجداد کے دین ودھرم پر قائم و دائم رہیں  گے ورنہ ہمارے دین وایمان کی خیر نہیں ،اس طرح فرعون نے  اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نورکوپھونکوں  سے بجھانے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ اپنے نازل کردہ نورکوپوراکرناچاہتاتھا،جیسے فرمایا

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳ [95]

ترجمہ:یہ لوگ چاہتے ہیں  کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں  سے بجھا دیں  مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں  ہے خواہ کافروں  کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو ۔

 یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸ [96]

ترجمہ:یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں  سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں  اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں  کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

کفرو شرک اورایمان کے معرکے میں  ایساہی ہوتا آیاہےکفرہمیشہ اپنی اکثریت اور طاقت وحیثیت کے بل بوتے پر خم ٹھوک کرمقابلے میں  آتاہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنی تدابیرسے حق کوغلبہ اورسرخروئی عطاکرتا ہے، جادوگر جو اپنے آبائی دین ودھرم کی نصرت کے لئے حاضرہوئے تھے ہاتھ جوڑکر فرعون سے کہنے لگے اے شاہ مصرفرعون ! تمہارے حکم پرہم موسیٰ سے مقابلہ کررہے ہیں  اگرہم جیت گئے توکیاہمیں  کوئی انعام بھی ملے گا؟ فرعون نے کہا بیشک میں  تمہیں  بڑا شاندار انعام دوں  گااوراس کے علاوہ اپنے دربارکے مقربین خاص میں  داخل کروں  گا۔

قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِیَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِكُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ فَأُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ‎﴿٤٨﴾‏(الشعراء)
 (حضرت)موسیٰ ( علیہ السلام )نے جادوگروں  سے فرمایا جو کچھ تمہیں  ڈالنا ہے ڈال دو ،انہوں  نے اپنی رسیاں  اور لاٹھیاں  ڈال دیں  اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم !ہم یقیناً غالب ہی رہیں  گے ،اب موسیٰ ( علیہ السلام )نے بھی اپنی لاٹھی میدان میں  ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا، یہ دیکھتے ہی جادوگر بےاختیار سجدے میں  گرگئے اور انہوں  نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان لائے، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کے رب پر۔

مقابلہ حق وباطل :

دن چڑھےمقابلہ کے میدان میں ماہر جادوگروں  کی ایک کثیرتعداداورموسٰی مقابلے کے لئے آمنے سامنے کھڑے تھے جادوگرموسٰی سے مخاطب ہوکرکہنے لگے اے موسٰی !پہلے تم اپناجادو ڈالتے ہویاہم ڈالیں ،موسٰی نے پہلے انہیں  اپنے ہر طرح کے کرتب،شعبدے ڈالنے کے لئے کہا ،جیسے فرمایا

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی۝۶۵قَالَ بَلْ اَلْقُوْا۔۔۔۝۶۶ [97]

ترجمہ:جادو گر بولے موسی علیہ السلام  ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں ؟موسی علیہ السلام  نے کہا نہیں ، تم ہی پھینکو ۔

چنانچہ موسٰی کے انہیں  پہل کرنے پر جادوگروں  نے بڑے زبردست جادوکا مظاہرہ کیااوردعویٰ کرتے ہوئے بولے فرعون کی عزت کی قسم! ہم ہی غالب ہوں  گےاور لوگوں  کی آنکھوں  پر نظربندی کرکے اپنی رسیوں  اور لاٹھیوں  کو میدان مقابلہ میں  پھینکاجس سے سارا میدان سانپوں  سے بھرگیا،  اللہ تعالیٰ نے فرمایااے موسٰی !اپنے دائیں  ہاتھ کی لکڑی کومیدان میں  پھینک دے،حکم ملتے ہی موسیٰ   علیہ السلام  نے اپنی لاٹھی میدان میں  پھینک دی جو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک زبردست اژدھا بن گئی جس نے حاضرین کے دیکھتے ہی دیکھتے میدان میں  دوڑتے چھوٹے بڑے سارے سانپوں  کے طلسم فریب کونگل کر میدان کو صاف کردیا،ہمیشہ کی طرح  اللہ  تعالیٰ نے حق کوکامیاب و کامران اورسربلند کیا اور باطل کی گردن سرنگوں  ہوگئی،جیسے فرمایا

 بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَزَاہِقٌ۝۰ۭ وَلَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۝۱۸ [98]

ترجمہ:مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں  جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جا تا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں  کی وجہ سے جو تم بناتے ہو ۔

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ [99]

ترجمہ:اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

جب جادوگروں  نے حق کوفتح مند اورجادوکی ذلت وبے چارگی دیکھی تو حق تک پہنچنے میں  انہیں  کچھ دیرنہیں  لگی ، موسیٰ   علیہ السلام  کی پیش کردہ دعوت حق ان کے رگ وریشے میں  سماگئی اور وہ فوراًبے اختیار سجدے میں  گر گئے اورکھلے میدان میں  سب مجمع کے سامنے منہ سے بول اٹھے کہ ہم ایمان لے آئے جہانوں  کے رب پرجوپروردگارہے موسٰی اورہارون  علیہ السلام  کا ، جیسے فرمایا

 فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۱۸ۚفَغُلِبُوْا ہُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ۝۱۱۹ۚوَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ۝۱۲۰ۚۖقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۲۱ۙ رَبِّ مُوْسٰی وَہٰرُوْنَ۝۱۲۲  [100]

ترجمہ:اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں  نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیافرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں  مغلوب ہوئے اور(فتح مند ہونے کے بجائے) الٹے ذلیل ہوگئے،اور جادوگروں  کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں  سجدے میں  گرا دیاکہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو اس رب کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں  ۔

قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِیرُكُمُ الَّذِی عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ قَالُوا لَا ضَیْرَ ۖ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ إِنَّا نَطْمَعُ أَن یَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَایَانَا أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٥١﴾‏(الشعراء)
فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے ؟ یقیناً یہی تمہارا بڑا (سردار)ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا، تمہیں  ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا، قسم ہے میں  ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں  الٹے طور پر کاٹ دوں  گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں  گا، انہوں  نے کہا کوئی حرج نہیں ، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں  ہی، اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان والے بنے ہیں ، ہمیں  امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں  معاف فرما دے گا۔

 جادوگروں  کوموت کی دھمکی :

فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر جادوگروں  کوکہا میں  نے ابھی تمہیں  ان دونوں  کے ا لٰہ کوماننے کی اجازت دی ہی نہیں  تھی کہ تم ان دونوں  کے ا لٰہ پر ایمان لے آئے ،تمہاری اس شکست میں  موسیٰ   علیہ السلام  کے کسی معجزے کاکوئی تعلق نہیں  بلکہ تم سب اس کے چیلے لگتے ہو اورتمہاری سازش کا مقصد یہ ہے کہ تم ہمیں  یہاں  سے بے دخل کردواورخودہماری جگہ سنبھال لو،جیسے فرمایا

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۰ۚ اِنَّ ہٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْہَآ اَہْلَہَا۔۔۔ ۝۱۲۳ [101]

ترجمہ:فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں  تمہیں  اجازت دوں  ؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں  نے اس دارالسّلطنت میں  کی تاکہ اس کے مالکوں  کو اقتدار سے بےدخل کر دو۔

حالانکہ اسی نے جادوگروں  کوجمع کیااوریہ اس کے مصاحبین ہی تھے جنہوں  نے دوسرے شہروں  سے جادوگروں  کو اکٹھا کرنے کامشورہ دیا،حالانکہ انہیں  اچھی طرح علم تھاکہ وہ اس سے پہلے موسیٰ  علیہ السلام سے ملے تھے نہ انہوں  نے موسیٰ  علیہ السلام کودیکھاتھا،پھرفرعون نے جادوگروں  کوقتل وتعذیب کی دھمکیاں  دینی شروع کر دیں  کہ ابھی تمہیں  معلوم ہوجاتاہے کہ اس خطرناک سازش کے بدلے میں  میں  تمہارے ساتھ کیا برتاؤ  کرتا ہوں  ، میں  تمہارے دایاں  ہاتھ اوربایاں  پیرکٹوادوں  گاتاکہ تم ہلنے جلنے کے قابل ہی نہ رہو اوراس پربس نہیں  کروں  گامزید تمہیں  کھجورکے تنوں  پر سولی پرلٹکادوں  گاتاکہ ساری دنیاتمہاری ذلت ورسوائی کاتماشادیکھے ،فرعون کی دھمکی کے جواب میں جادوگروں  نے جنہوں  نے ایمان کی حلاوت کامزاچکھ لیاتھا فرعون کوبے خوف وخطر جواب دیا اے فرعون ! ہمیں  مطلق پرواہ نہیں  کہ تو ہمیں  کیسے موت سے ہمکنارکرتاہے ، موت توجلد یابدیرآکرہی رہنی ہے ، اور آخرکارہمیں  واپس توپروردگار کی بارگاہ ہی میں  جانا ہے پھراس کا کیاخوف کھاناکہ موت کب اورکس طرح آتی ہے ، اگرتوہمیں  بے قصورموت سے دوچارکر دے گاتواس کے سوااورکیاہوگاکہ بس ہم اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں  گے ،ہم رب سے اپنے گناہوں  پرنادم اورشرمسار ہیں  کہ تیرے اکسانے پر اللہ کے رسولوں  سے مقابلے پر آئے مگرہمیں  اپنے غفورورحیم رب سے قوی امیدہے کہ جب اصل حقیقت حال کھل چکی توہم نے دعوت حقہ کوتسلیم کرنے میں  ایک لمحہ کی بھی تاخیرنہیں  کی اورسبقت کرکے اولین مسلمانوں  میں  شامل ہوگئے،اللہ تعالیٰ ایمان لانے میں  سبقت کرنے پرہماری خطائیں  معاف فرماکر مغفرت ورحم فرمائے گا ، جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۲۰ۙ [102]

ترجمہ:یقیناً اللہ کے ہاں  محسنوں  کا حق الخدمت مارا نہیں  جاتا ہے ۔

وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۱۵ [103]

ترجمہ:اور صبر کراللہ نیکی کرنے والوں  کا اجر کبھی ضائع نہیں  کرتا ۔

۔۔۔اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۹۰ [104]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوٰی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں  ایسے نیک لوگوں  کا اجر مارا نہیں  جاتا۔

فرعون کواس دوٹوک جواب کی بھی توقع نہیں  تھی اس بے باک جواب نے شعلوں  کو ہوادکھانے کاکام کیاجس پرفرعون کے حکم پرانہیں  ایسی ہی سزادی گئی جیسے کہی گئی تھی مگراہل ایمان کے قدم نہ ڈگمگائے ، رب سے ڈرتے اورمغفرت کی دعائیں  کرتے ہوئے ہنستے ہنستے سولی پر چڑھ گئے۔

وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِی إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیلُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَإِنَّا لَجَمِیعٌ حَاذِرُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿٥٧﴾‏ وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِیمٍ ‎﴿٥٨﴾‏ كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿٥٩﴾‏(الشعراء)
اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں  رات میرے بندوں  کو نکال لے چل تم سب پیچھا کئے جاؤ گے، فرعون نے شہروں  میں  ہر کاروں  کو بھیج دیا کہ یقیناً یہ گروہ بہت ہی کم تعداد میں  ہے اور اس پر یہ ہمیں  سخت غضبناک کر رہے ہیں ،  اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں  ان سے چوکنا رہنے والے، بالآخر ہم نے انہیں  باغات سے اور چشموں  سے اور خزانوں  سے اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا، اسی طرح ہوا اور ہم نے ان (تمام) چیزوں  کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا۔

 حکم ہجرت :

جب موسٰی نے لمبے عرصہ تک دعوت توحیددے کر فرعون اوراس کی قوم پرہدایت پہنچانے کی ہرطرح کی حجت قائم کردی ، رب نے بھی آخری عذاب سے بیشتر چھوٹے چھوٹے عذاب دے کرانہیں  راہ ہدایت پرپلٹنے کاموقع مہیاکیاکہ شایدوہ رب کے حضور عاجزی پراترآئیں  اور اپنے گناہوں  پر پشیمان ہوکررب سے اپنی مغفرت چاہیں مگروہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے ،آخر  اللہ تعالیٰ نے موسٰی کوحکم بھیجاکہ راتوں  رات بنی اسرائیل کولے کرمصرسے ہجرت کرجائیں  تاکہ جب تک فرعون کوبنی اسرائیل کے فرارکا علم ہو وہ لوگ کافی دورنکل چکے ہوں  اورپیشگی تسلی دیتے ہوئے فرمایافرعون تمہیں  اتنی آسانی سے جانے نہیں  دے گاجب اسے تمہارے فرارکا پتہ چلے گاتووہ تمہارا تعاقب کرے گا اس موقعہ پر گھبرانانہیں ، چنانچہ ایک مقررہ رات کوموسیٰ   علیہ السلام نے بنی اسرائیل اورغیراسرائیلی کوجمع کر کے ایک بڑے قافلہ کی شکل میں  تھیبس سے کوچ کردیا اور بحراحمرکی طرف جانے والاراستہ اختیارکیاتاکہ سمندرکے کنارے کنارے چل کرجزیرہ نمائے سیناکی طرف نکل جائیں ،مگرراستہ بھول گئے،

عَنْ أَبِی مُوسَى،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بِأَعْرَابِیٍّ فَأَكْرَمَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَعَاهَدْنَا فَأَتَاهُ الْأَعْرَابِیُّ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا حَاجَتُكَ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، نَاقَةً بِرَحْلِهَا وَأَعْنُزَ یَحْلُبُهَا أَهْلِی، قَالَهَا مَرَّتَیْنِ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعَجَزْتَ أَنْ تَكُونَ مِثْلَ عَجُوزِ بَنِی إِسْرَائِیلَ؟ فَقَالَ أَصْحَابُهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا عَجُوزُ بَنِی إِسْرَائِیلَ؟ قَالَ: إِنَّ مُوسَى لَمَّا أَرَادَ أَنْ یَسِیرَ بِبَنِی إِسْرَائِیلَ أَضَلَّ الطَّرِیقَ،  فَقَالَ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ: مَا هَذَا؟

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک اعرابی کے پاس گئےاس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے کہاہمارے پاس بھی آنا،ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اپنی کس حاجت کاسوال کرسکتے ہو؟ وہ کہنے لگااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ایک اونٹنی کجاوے کے ساتھ اور دودھ ولی بکریاں  جنہیں  میرے گھروالے دوہتے رہیں ، اس نے یہ بات دومرتبہ بیان کی،تب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایاکیاتم اس بات سے بھی عاجزہوکہ بنی اسرائیل کی بڑھیاجیسے ہوجاؤ ؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !بنی اسرائیل کی بڑھیاکاکیاقصہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاموسیٰ  علیہ السلام  جب قوم بنی اسرائیل کو مصرسے لے کرچلے تووہ راستہ بھول گئے،موسیٰ  علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایایہ کیاہوا؟

فقَالَ عُلَمَاؤُهُمْ: إِنَّ یُوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَخَذَ عَلَیْنَا مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ أَنْ لَا نَخْرُجَ مِنْ مِصْرَ حَتَّى نَنْقُلَ عِظَامَهُ مَعَنَا قَالَ: وَأَیُّكُمْ یَدْرِی أَیْنَ قَبْرُ یُوسُفَ؟ قَالُوا: مَا تَدْرِی أَیْنَ قَبْرُ یُوسُفَ إِلَّا عَجُوزُ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْهَا فَقَالَ دُلِّینِی عَلَى قَبْرِ یُوسُفَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَفْعَلُ حَتَّى تُعْطِیَنِی حُكْمِی،قَالَ لَهَا: وَمَا حُكْمُكِ؟

ان کے علماء کہنے لگےہم آپ کواس کے بارے میں  بتاتے ہیں  کہ جب یوسف علیہ السلام کی موت کاوقت قریب ہواتوانہوں  نے ہم(بنی اسرائیل)سے پختہ عہدلیاتھاکہ جب تم مصر سے جانے لگو تومیراوجودبھی ساتھ ہی لے جانا،موسیٰ علیہ السلام  نے پوچھایوسف علیہ السلام  کی قبرکاکس کوعلم ہے؟ انہوں  نے جواب دیایوسف علیہ السلام کی قبرکوبنی اسرائیل کی ایک بڑھیاکے سواکوئی نہیں  جانتا ، موسیٰ  علیہ السلام نے اسے بلابھیجا(وہ آپ کے پاس آئی تو)موسیٰ علیہ السلام  نے فرمایاتم یوسف  علیہ السلام کی قبرکی طرف ہماری رہنمائی کرو، وہ بڑھیاکہنے لگی اللہ کی قسم !نہیں ،ایسے نہیں  بتاؤ ں  گی حتی کہ تم میرامطالبہ پوراکرو،موسیٰ  علیہ السلام نے پوچھاتیرامطالبہ کیاہے؟

قَالَتْ  : حُكْمِی أَنْ أَكُونَ مَعَكَ فِی الْجَنَّةِ ، فَكَأَنَّهُ ثَقُلَ عَلَیْهِ ذَلِكَ،  فَقِیلَ لَهُ: أَعْطِهَا حُكْمَهَاقَالَ: فَانْطَلَقَتْ مَعَهُمْ إِلَى بُحَیْرَةٍ مُسْتَنْقَعِ مَاءٍ، فَقَالَتْ: أَنْضِبُوا هَذَا الْمَاءَ ، فَلَمَّا نَضَبُوهُ قَالَتِ: احْفِرُوا هَهُنَا فَلَمَّا حَفَرُوا إِذَا عِظَامُ یُوسُفَ، فَلَمَّا أَقَلُّوهَا مِنَ الْأَرْضِ فَإِذَا الطَّرِیقُ مِثْلُ ضَوْءِ النَّهَارِ

وہ بڑھیاکہنے لگی میرامطالبہ یہ ہے کہ میں  جنت میں  آپ کے ساتھ جاؤ ں ، موسیٰ علیہ السلام  نے اس مطالبے کواچھانہ سمجھا،پس موسیٰ  علیہ السلام سے کہاگیاکہ اس کامطالبہ قبول کرلیجئے،چنانچہ وہ آپ کوایک بحیرہ(پانی کی جگہ)پرلے گئی جہاں  اکثرپانی جمع رہتاتھے،وہ کہنے لگی اس پانی کوسوتو،لوگوں  نے اس پانی کو سوت ڈالا،پھرکہنے لگی اس جگہ کو کھودوجب انہوں  نے کھودا تویوسف علیہ السلام  کاجسدمبارک نکل آیاجب انہوں  نے یوسف علیہ السلام کے جسدکو اٹھایا تو راستہ روزروشن کی طرح واضح ہوگیا۔[105]

صبح جب فرعون منفتاح کوبنی اسرائیل کے فرار کاعلم ہوا توآگ بگولہ ہوگیا ،اور ہرکاروں  کو لشکروں  کے جمع کرنے کے لئے پیغام دے کر دوڑایا کہ یہ مٹھی بھرغلام ( حالانکہ بائیبل کی روایت کے مطابق مصرسے خروج کے دوسرے سال موسیٰ   علیہ السلام نے صحرائے سینامیں  مردم شماری کرائی تھی اس میں  عورتوں ،بچوں  اور بوڑھوں  کوچھوڑکر قابل جنگ مردوں  کی تعداد ۶۰۳۵۵۰ تھی) جوہماراکچھ بھی بگاڑنے کی قوت واہلیت نہیں  رکھتے ،جنہوں  نے ہماری اجازت کے بغیر مصرسے فرارہوکرہمارے غیظ و غضب کوللکارا ہے، اس لئے ہم ان کوقرارواقعی سزادیناچاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی اسرائیلی ایسی جرات ہی نہ کرسکے،ہم توایک ایسی حکمران جماعت ہیں  جو ہر وقت چوکنااورہرخطرے سے نپٹنے کے لئے تیاررہتے ہیں اس لئے بنی اسرائیل کی اس بڑی سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں  مستعد ہونے کی ضرورت ہے ، چنانچہ فرعون کے بلاوے پر سارے سرداراپنی اپنی جگہیں  چھوڑکرفرعون کے پاس آکر جمع ہوگئے،الغرض فرعون بذات خود اپنی بہترین اقامت گاہوں  خزانوں ،باغوں  اور خوبصورت چشموں  کوچھوڑکر اپنے لشکروں  کی قیادت کرتے ہوئے موسیٰ اوربنی اسرائیل کے تعاقب میں  روانہ ہوا اور پھررب نے اسے ان جگہوں  میں  دوبارہ آنے کی مہلت ہی نہ دی ،اس طرح رب نے اپنی حکمت ومشیت سے انہیں  تمام عطاکردہ نعمتوں  سے محروم کرکے دوسروں  کو ان کاوارث بنادیا اور بنی اسرائیل کو جو مصر میں  کبھی پلٹ کرنہیں  گئے ویسی نعمتیں  جوفرعون کومصرمیں  حاصل تھیں  فلسطین میں  ایسی ہی نعمتیں  عطاکیں  ۔

فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِینَ ‎﴿٦٠﴾‏ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ ‎﴿٦١﴾‏ قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَهْدِینِ ‎﴿٦٢﴾‏ فَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ ‎﴿٦٣﴾(الشعراء)
پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں  نکلے، پس جب دونوں  نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ کے ساتھیوں  نے کہا ہم تویقیناً پکڑ لیے گئے، موسٰی نے کہا ہرگز نہیں ، یقین مانو میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا، ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو، پس اس وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔

فرعون کے پاس سفراورکوچ کے سازو سامان تھے جبکہ بنی اسرائیل پیدل بے سروسامانی میں  چل پڑے تھے،اس پرراستہ بھی بھول گئے اس لئے بہت جلدفرعون اوراس کے لشکر نے بنی اسرائیل کو بحیرات مرہ کے قریب بعل صفون کے مقام پر جالیا،بنی اسرائیل ایک لمبی مدت سے غلامی کی ذلت بھری زندگی گزارتے چلے آتے تھے جس سے ان میں  بزدلی اورکم ہمتی جیسی صفات پیداہوچکی تھیں ،جیسے ہی دورسے فرعونی لشکرکوتیزی سے اپنے تعاقب میں  آتے دیکھاتوگھبرااٹھے کہ اب کیاہوگا، آگے ساحل سمندرہے اور سمندرمیں  سفرکرنے کا ہمارے پاس سامان نہیں  اورپیچھے ظالم اورطاقتوردشمن فرعون اتنابڑالاؤ لشکرلیکرسرپرآن پہنچاہے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں  اب تومارے گئے، اب پھر غلامی کا دور شروع ہوگاجوپہلے سے کہیں  ذیادہ رسواکن ہوگا ، قوم کی گھبراہٹ اورمایوسی دیکھ کرموسٰی نے ان کوثابت قدم رہنے کی تلقین کی اورکہامیں  اپنی مرضی سے نہیں  بلکہ اپنے رب کے حکم سے تمہیں  مصرسے لے کرنکلاہوں  وہ یقیناًہماری نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا،جب فرعون کالشکربہت قریب پہنچ گیاتو  اللہ تعالیٰ نے موسٰی پرراستے کی نشان دہی کے لئے وحی نازل فرمائی کہ اپنی لاٹھی کوسمندرپرمارو، موسٰی نے حکم کی تعمیل کی اورجیسے ہی انہوں  نے لاٹھی کوسمندرپر ماراتو اچانک ایک عجیب وغریب معجزہ رونما ہوا، پانی کی فطرت سیلان ہے مگریہ فطرت اورخودپانی رب کی ایک مخلوق ہے،مخلوق نے رب کے حکم کومانااور یکایک بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں  کے لئے سمندرکے پانی میں  بارہ راستے بن گئےاوران کے درمیان پانی عظیم الشان پہاڑوں  کی طرح جم گیاجیسے کہ صاف وشفاف قدرتی دیوارہواوردرمیانی راستہ کیچڑ کے بجائے کہ چلنے میں  مانع ہوتا خشک ہوگیا،

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صَارَ الْبَحْرُ اثْنَیْ عَشَرَ طَرِیقًا، لِكُلِّ سِبْطٍ طَرِیقٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں  کہ دریامیں  بارہ رستےبن گئے یعنی ہرقبیلے کے لیے ایک رستہ تھا۔[106]

وَزَادَ السُّدِّیُّ: وَصَارَ فِیهِ طَاقَاتٌ یَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَقَامَ الْمَاءُ عَلَى حَیْلِهِ كَالْحِیطَانِ، وَبَعَثَ اللَّهُ الرِّیحَ إِلَى قَعْرِ الْبَحْرِ فَلَفْحَتْهُ، فَصَارَ یَبَسا  كَوَجْهِ الْأَرْضِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: اللہ تعالیٰ کاارشادہےفَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلا تَخْشَى

سدی کابیان ہے کہ دیواروں  میں  روشن دان بھی تھے جن سے وہ ایک دوسرے کودیکھ رہے تھےاورپانی یوں  کھڑاتھاجیسے دیواریں  ہوں ،اللہ تعالیٰ نے ہواکوبھی بھیج دیاجس سے دریاکاپینداخشک ہوکراس طرح ہوگیاجیسے سطح زمین ہو، اور ان کے لیے سمندر میں  سے سوکھی سڑک بنالے ، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے غرق ہونے کا)ڈر لگے۔ [107]

موسٰی  اللہ تعالیٰ کانام لے کران راستوں  میں  اترگئے جس میں  سے گزرتے ہوئے ہرقبیلہ دوسری طرف کے گزرتے ہوئے قبیلہ کو صاف نظر آتا تھا اوروہ تمام بخیروخوبی سمندر پار کرگئے۔

وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ وَأَنجَیْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِینَ ‎﴿٦٥﴾‏ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِینَ ‎﴿٦٦﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٦٧﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿٦٨﴾‏(الشعراء)
اور ہم نے اسی جگہ دوسروں  کو نزدیک لا کھڑا کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں  کو ہم نے نجات دی پھر اور سب دوسروں  کو ڈبو دیا ، یقیناً اس میں  بڑی عبرت ہے اور ان میں  کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں  اور بیشک آپ کا رب بڑا ہی غالب و مہربان ہے۔

 فرعون کاغرق ہونا:

اللہ تعالیٰ معجزانہ طریق پرسمندرمیں بنے ہوئے بارہ خشک راستوں  سے بنی اسرائیل کوبخیروعافیت ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر نکال کرلے گیااتنی دیرتک پانی نہایت بلندپہاڑوں  کی شکل میں  کھڑارہاجب تک کہ لاکھوں  بنی اسرائیل کامہاجرقافلہ اس میں  سے گزرنہ گیا، فرعون اوراس کا لشکربھی بنی اسرائیل کو پکڑے کے لئے کہ شکار بس سامنے ہی تھاآؤ دیکھانہ تاؤ بنی اسرائیل کے تعاقب میں  ان سمندری راستوں  میں  داخل ہوگیا، جب فرعون اوراس کا لشکربنی اسرائیل کے تعاقب میں  سمندرکے ان بارہ راستوں  کے درمیان میں  پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سمندرکوحسب سابق جاری ہو جانے کاحکم صادر فرمادیا،اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے فرعون منفتاح سمیت سارالشکر پانی میں  ڈوب کراپنے انجام کوپہنچا (جدید تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ۱۴۴۷  قبل مسیح کوپیش آیا)فرعون کے غرق ہونے کے بعدلوگوں  کواس کی لاش پانی میں  تیرتی ہوئی ملی ،جہاں  سے یہ لاش ملی اس مقام کوجبل فرعون کہتے ہیں ،دستورکے مطابق ہرفرعون کو قیمتی جواہرات ،اورضرورت کی اشیاء کے ہمراہ علیحدہ مقبرہ میں دفن کیا جاتا تھا مگراس فرعون کوپانی سے نکال کر عجلت میں  فرعون امنحوتب کے مقبرہ میں  دفن کردیاگیا ،اس مغرور ومردو د فرعون منفتاح کی لاش پرسے ۱۹۰۷ء میں  سرگرافٹن ایلٹ سمتھ نے اس کی ممی (مومیا)پرسے پٹیاں  کھولی تھیں  تواس کی لاش پر کافی سمندری نمک لگاہوا تھا اورناک کے سامنے کے حصہ کے علاوہ محفوظ تھی جومصری عجائب خانہ ( قاہرہ ) میں  رکھی ہوئی اپنی بے بسی کا اعلان کر رہی ہے)اس واقعہ میں  موسیٰ   علیہ السلام کی دعوت کی صداقت اورفرعون اوراس کی قوم کے موقف کے باطل ہونے پربڑی دلیل ہےمگران نشانیوں  کے باوجوداکثرلوگ ایمان لانے اورعمل صالحہ کرنے والے نہیں  ہیں ،بلاشبہ تیرے رب نے اپنی قوت وغلبے سے جھٹلانے والوں  کو ہلاک کردیااوراپنی رحمت سے موسیٰ   علیہ السلام اوراس کی قوم کونجات دی۔

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِیمَ ‎﴿٦٩﴾‏ إِذْ قَالَ لِأَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِینَ ‎﴿٧١﴾‏ قَالَ هَلْ یَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ أَوْ یَنفَعُونَكُمْ أَوْ یَضُرُّونَ ‎﴿٧٣﴾‏ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ یَفْعَلُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ قَالَ أَفَرَأَیْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ ‎﴿٧٦﴾‏ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٧٧﴾‏ الَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِینِ ‎﴿٧٨﴾‏ وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ ‎﴿٧٩﴾‏ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِینِ ‎﴿٨٠﴾‏ وَالَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحْیِینِ ‎﴿٨١﴾‏ وَالَّذِی أَطْمَعُ أَن یَغْفِرَ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ ‎﴿٨٢﴾‏ رَبِّ هَبْ لِی حُكْمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ وَاجْعَل لِّی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَاجْعَلْنِی مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیمِ ‎﴿٨٥﴾‏ وَاغْفِرْ لِأَبِی إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّینَ ‎﴿٨٦﴾‏ وَلَا تُخْزِنِی یَوْمَ یُبْعَثُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ‎﴿٨٩﴾‏
انہیں  ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنا دو جبکہ انہوں  نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟ انہوں  نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں  بتوں  کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں  پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں  ؟ یا تمہیں  نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ، انہوں  نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں  جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں  کو اسی طرح کرتے پایا، آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہےجنہیں  تم پوج رہے ہو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا وہ سب میرے دشمن ہیں  بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے ،  وہی ہےجو مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں  بیمار پڑجاؤں  تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کردے گا اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں  میرے گناہوں  کو بخش دے گا،  اے میرے رب ! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں  میں  ملا دے، اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں  میں  بھی باقی رکھ، مجھے نعمتوں  والی جنت کے وارثوں  میں  سے بنادے،اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وہ گمراہوں  میں  سے تھا،  اور جس دن کہ لوگ دوبارہ جلائے جائیں  مجھے رسوا نہ کر، جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی، لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بےعیب دل لے کر جائے۔

اہل عرب بالخصوص قریش کادعویٰ تھاکہ ملت ابراہیمی ہی ان کامذہب ہےاوریہودونصاری ٰ کابھی یہی دعویٰ تھاکہ ابراہیم  علیہ السلام  ان کے پیشواہیں ،چنانچہ نبوت سے سرفرازہونے کے بعدجب ان کی شرک وتوحیدکے مسئلے پراپنے باپ اوراپنی قوم سے کشمکش شروع ہوچکی تھی کاواقعہ بیان فرمایاکہ ابراہیم  علیہ السلام  نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے پوچھاتھاکہ تمہارے اپنے ہاتھوں  سے تراشے ہوئے ان لکڑی اورپتھرکے معبودوں  کی کیاحقیقت ہے جن کے سامنے تم دن رات مراسم عبودیت بجالاتے ہو،جیسے فرمایا

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ۝۵۲ [108]

ترجمہ:اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہاتھاکہ یہ مورتیاں  کیسی ہیں  جن کے تم لوگ گرویدہ ہو ۔

انہوں  نے اپنے عقیدے کااظہارکرتے ہوئے جواب دیایہ ہمارے ہاتھوں  سے تراشی ہوئی مورتیاں  ہیں  جن کی ہم پرستش کرتے ہیں  اور رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہی کی خدمت میں  لگے رہتے ہیں ،ابراہیم  علیہ السلام  نے پوچھاتم لوگ اپنی تکالیف ومشکلات میں  دورونزدیک سے ان کوپکارتے ہوکیایہ تمہاری پکارکوسنتے اورجواب دیتے ہیں  اورتمہاری پریشانیوں ،مشکلات اورتکالیف کو دورکرتے ہیں  ، ذرا غور و فکر کرواگرتم ان کی مراسم عبادت کرناچھوڑدوتوکیاتمہیں  کسی قسم کانقصان پہنچاسکنے کی قدرت رکھتے ہیں  ، قوم اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکی اورکہاکہ بیشک ہمارے یہ معبود ہماری مناجاتیں  ، دعائیں  اور فریادیں  نہیں  سنتے اورنہ ہی کوئی نفع یانقصان پہنچانے اورنہ ہی کسی کام کوبنانے یابگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں  مگر ہمارے آباواجدادنے ضرورکسی وجہ سے ان بے جان مورتیوں  کی پرستش شروع کی ہوگی اس لئے ہم بھی ان کی تقلیدمیں  بت پرستی پرجمے ہوئے ہیں  ،ابراہیم  علیہ السلام نے کہاکیاکسی مذہب کی صداقت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ کام آباؤ اجداد کے وقت سے ہوتاچلاآرہاہے؟ ابراہیم  علیہ السلام نے کہا میں  توان معبودان باطلہ سے اپنی بیزاری اوربرات کااعلان کرتاہوں  ،ان کی عبادت کرناتو خودکو جان بوجھ کرخسران میں  مبتلا کرنا ہے اورمیں  دیدہ دانستہ اپنی بدخواہی نہیں  کرسکتا ، جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [109]

ترجمہ: ان لوگوں  نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ الٰہ بنا رکھے ہیں  تاکہ وہ ان کے پشتیبان ہوں  کوئی پشتیبان نہ ہوگاوہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں  گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے۔

میں  توصرف اللہ رب العالمین کا پرستار ہوں جوتمام جہانوں  کاپالنہارہے ، جس کے سواکوئی بندگی کے لائق نہیں ،اوراس کے سوامیں کسی اور کی بندگی کیوں  کروں جبکہ وہ میرا خالق ہے اوروہی دین ودنیاکے مصالح میں  مخلوقات کی رہنمائی کرتا ہے،جیسے فرمایا

وَحَاۗجَّهٗ قَوْمُهٗ۝۰ۭ قَالَ اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِی اللهِ وَقَدْ هَدٰىنِ۔۔۔۰۝۸۰  [110]

ترجمہ:اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تواس نے قوم سے کہاکیاتم لوگ اللہ کے معاملہ میں  مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھادی ہے۔

وہی اپنی چھوٹی بڑی مخلوقات کے لئے انواع و اقسام کے رزق پیداکرتا اور آسمان سے پانی برسانے والا ہے ،اوراسی کے ہاتھ میں  کبھی ختم نہ ہونے والے خزانے ہیں لہذااللہ سے ادنی یااعلیٰ جوچیزچاہوطلب کرو جودینے کی قدرت رکھتاہے ،اوراسی سے اپنی آس وامیدیں  وابستہ کرو اور اس نے بن مانگے ، بغیرکسی استحقاق کے جوبے شمارنعمتیں  عطاکر رکھی ہیں  اس پرشکر ادا کرو،اور دکھوں ،غموں  اوربیماری کوبھی بجزاس اللہ وحدہ لاشریک کے کوئی دور کرنے والانہیں  ہے،وہی موت وحیات پرقدرت رکھتا ہے ایک وقت مقررہ پروہ تم پر موت طاری کردے گاپھر جب وہ چاہے گا دوبارہ زندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع کرے گااور اختیارات ، عطاکردہ نعمتوں  اور اعمال کے بارے میں  محاسبہ کرے گا ، بشری کمزوریوں  کے باعث گناہ گار بندوں  میں  سے جسے چاہے گااپنی رحمت سے بخش دے گااور جنتوں  میں  داخل فرمائے گاجن میں  ایسی نعمتیں  ہوں  گی جن کاتم تصوربھی نہیں  کر سکتے ،مگرنافرمانوں  اور مشرکوں  کا مقدررسوائی ہوگی اوران کاٹھکاناجہنم کے سوااورکچھ نہیں  جہاں  دردناک عذاب ان کامنتظرہوگا، ابراہیم  علیہ السلام جب عمررسیدہ ہوگئے تواکثروہ اپنے رب کی بارگاہ میں  گڑگڑا کر آخرت میں  نجات کی دعائیں  کرتے تھے کہ اے میرے رب!مجھے علم ودانش اورصحیح فہم وفراست عطا فرماجس کے ذریعے سے میں  تیرے احکام اورحلام وحرام کی معرفت حاصل کروں اوراس علم کے مطابق مخلوق کے درمیان فیصلے کروں  اورآخرت کی ابدی زندگی میں  مجھے میرے بھائی انبیاء ومرسلین میں  شامل فرما ،

إِنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:ثُمَّ قَالَ فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَى. ثَلاَثًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی آخری وقت دعامانگی تھی الٰہی اعلیٰ رفیقوں  میں  ملادے، تین باریہی دعاکی۔ [111]

ایک روایت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ دعابھی مروی ہے

 لَمَّا كَانَ یَوْمُ أُحُدٍ وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِیَ عَلَى رَبِّی، فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِیَ لِمَا أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَیْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لَا یَحُولُ وَلَا یَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ یَوْمَ الْعَیْلَةِ وَالْأَمْنَ یَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیمَانَ وَزَیِّنْهُ فِی قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَیْنَا الْكُفْرَ، وَالْفُسُوقَ، وَالْعِصْیَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِینَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ، وَأَحْیِنَا مُسْلِمِینَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا مَفْتُونِینَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ یُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَیْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَهَ الْحَقِّ

جب غزوہ احد کے دن مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ سے فرمایا سیدھے ہوجاؤ تاکہ میں  اپنے رب کی ثناء بیان کروچنانچہ وہ سب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے صف بستہ ہوگئے،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اے اللہ تمام تعریفیں  آپ ہی کے لیے ہیں ، اے اللہ! آپ جسے کشادہ کردیں  اسے کوئی تنگ نہیں  کرسکتااور جسے آپ تنگ کردیں  اسے کوئی کشادہ نہیں  کرسکتا،جسے آپ گمراہ کردیں  اسے کوئی ہدایت نہیں  دے سکتااور جسے آپ ہدایت دیدیں  اسے کوئی گمراہ نہیں  کرسکتا،جس سے آپ کچھ روک لیں  اسے کوئی دے نہیں  سکتااور جسے آپ کچھ نہ دے کوئی اس کو کوئی دے نہیں  سکتا،جسے آپ دور کردیں  اسے کوئی قریب نہیں  کرسکتاجسے آپ قریب کرلیں  اس کوئی دور نہیں  کرسکتا، اے اللہ !ہم پر اپنی رحمتوں  ، برکتوں  فضل وکرم اور رزق کشادہ عطا فرما،  اے اللہ! میں  آپ سے ان دائمی نعمتوں  کا سوال کرتا ہوں  جو پھریں  اور نہ زائل ہوں ، اسے اللہ! میں  آپ سے تنگدستی کے دن نعمتوں  کا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ! میں  اس چیز کے شر سے آپ کی پناہ میں  آتاہوں  جو آپ نے ہمیں  عطا فرمائی یا ہم سے روک لی،اے اللہ! ایمان کو ہماری نگاہوں  میں  محبوب کر اور ہمارے دلوں  میں  مزین فرما اور کفروفسق اور نافرمانی سے ہمیں  کراہت عطا فرما اور ہمیں  ہدایت یافتہ لوگوں  میں  شمار کر،اے اللہ! ہمیں  حالت اسلام میں  موت عطا فرما حالت اسلام میں  زندہ رکھ اور نیک لوگوں  میں  اس طریقے شامل فرما کہ ہم رسواہوں  اور نہ ہی کسی فتنے کا شکارہوں ،اے اللہ! ان کافروں  کو کیفر کردار تک خود ہی پہنچا جو آپ کے پیغمبروں  کی تکذیب کرتے ہیں  اور آپ کے راستے میں  مزاحم ہوتے ہیں  اور ان پر پناعذاب مسلط فرما ،  اے اللہ! اسے سچے معبود ان کافروں  کو کیفر کردار تک پہنچا جنہیں  پہلے کتاب دی گئی تھی۔‘‘[112]

اوراے میرے رب! اب جبکہ تونے مجھے امامت کے لئے چن لیاہے تومیرے بعدمیراذکرخیردنیاکے لوگوں  میں  جاری فرماناتاکہ تیرے فرمانبردار بندے نیک باتوں  میں  میری پیروی کرتے رہیں  ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندوں  کی نیکی کواکارت نہیں  کرتا ابراہیم  علیہ السلام  کی دعاکوشرف قبولیت بخشااورآپ کے ذکرکوقیامت تک کے لئے پچھلی نسلوں  میں  اس طرح قائم رکھا کہ عموماہرمذہب وملت کافردآپ پرسلام بھیجتاہے اورآپ کی ثابت قدمی وآزمائش پرپورااترنے کی تعریف وتوصیف کرتا اور محبت رکھتا ہے اورہمیں  بھی ان کی روش پر چلنے کا حکم ہوا ہے،جیسے فرمایا

وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۝۱۰۸ۖسَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ۝۱۰۹كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۱۰اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۱ [113]

ترجمہ:اوراس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لئے بعدکی نسلوں  میں  چھوڑدی،سلام ہے ابراہیم پرہم نیکی کرنے والوں  کوایسی ہی جزادیتے ہیں  ،یقیناًوہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھا۔

اورعرض کیااورمجھے جنت نعیم کے وارثوں  میں  شامل فرما،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نعمتوں  بھری جنت میں  بہت قدرومنزلت عطا فرمائی ،اورعرض کیااے میرے پروردگار ! جب تو حساب کتاب کے لئے مجھے اگلی پچھلی مخلوق کے ہمراہ دوبارہ زندہ کرے تومجھے اس روزکی ذلت و رسوائی سے بچا ناجس روز دنیوی مال ودولت ، اولادیاکسی قسم کا رشتہ فائدہ مند نہیں ہوگامگروہ بچ جائے گا جو تجھ پرایمان لایااور تیرے بتلائے ہوئے طریقوں  پرچلتے ہوئے طبعی زندگی گزارآیا،کیونکہ وطن سے ہجرت کرتے وقت ابراہیم  علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا تھا

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ۝۰ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا۝۴۷  [114]

ترجمہ:آپ کو سلام ہے میں  آپ کے لئے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں  گاوہ میرے اوپرنہایت مہربان ہے ۔

اسی وعدے کی بناپرانہوں  نے دعائے مغفرت کی کہ میرے باپ کومعاف کردے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں  میں  سے ہے،ایک جگہ ماں  اورباپ دونوں  کے لئے دعاکی ۔

رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۝۴۱ۧ [115]

ترجمہ:پروردگار!مجھے اور میرے والدین کواورسب ایمان لانے والوں  کواس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا۔

مگر جب اللہ تعالیٰ نے ا براہیم  علیہ السلام کوواضح کردیا کہ اللہ کے دشمن کے لئے مغفرت کی دعا جائز نہیں  توانہوں  نے دعاکرنی چھوڑدی،جیسے فرمایا

 وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ۔۔۝۱۱۴ [116]

ترجمہ: ابراہیم کااپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعاکرنامحض اس وعدے کی وجہ سے تھاجواس نے اس سے کیا تھامگرجب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ اللہ کادشمن ہے تواس نے اس سے اظہار بیزاری کردیا۔

اور میدان محشرمیں  مجھے اولین وآخرین کے سامنے اپنے باپ کی وجہ سے رسوا نہ کر ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَلْقَى إِبْرَاهِیمُ أَبَاهُ آزَرَ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَیَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِیمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِی، فَیَقُولُ أَبُوهُ: فَالیَوْمَ لاَ أَعْصِیكَ، فَیَقُولُ إِبْرَاهِیمُ: یَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِی أَنْ لاَ تُخْزِیَنِی یَوْمَ یُبْعَثُونَ، فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزَى مِنْ أَبِی الأَبْعَدِ؟ فَیَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّی حَرَّمْتُ الجَنَّةَ عَلَى الكَافِرِینَ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا إِبْرَاهِیمُ، مَا تَحْتَ رِجْلَیْكَ؟ فَیَنْظُرُ، فَإِذَا هُوَ بِذِیخٍ مُلْتَطِخٍ، فَیُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَیُلْقَى فِی النَّارِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاابراہیم  علیہ السلام  اپنے والدآذرسے قیامت کے دن جب ملیں  گے توان کے (والدکے)چہرے پرسیاہی اورغبار ہوگا،ابراہیم  علیہ السلام  کہیں  گے کہ کیامیں  نے آپ سے نہیں  کہاتھاکہ میری مخالفت نہ کریں ،وہ کہیں  گے کہ آج میں  آپ کی مخالفت نہیں  کرتا،ابراہیم  علیہ السلام  عرض کریں  گےاے رب!تونے وعدہ فرمایاتھاکہ مجھے قیامت کے دن رسوانہیں  کرے گاآج اس رسوائی سے بڑھ کراورکون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والدتیری رحمت سے سب سے زیادہ دورہیں ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ میں  نے جنت کافروں  پرحرام قراردی ہے، پھرفرمائے گا اے ابراہیم علیہ السلام ! تمہارے قدموں  کے نیچے کیاچیزہے؟ وہ دیکھیں  گے توایک ذبح کیا ہوا جانورخون میں  لتھڑاہواوہاں  پڑا ہو گااورپھراس کے پاؤ ں  سے پکڑکر جہنم میں پھینک دیاجائے گا ۔[117]

اللہ تعالیٰ نے فرمایااس روز نہ مال کوئی فائدہ دے گانہ اولاد،بجزایسادل جوکفروشرک ونافرمانی اورفسق وفجورسے پاک ہوکر اللہ کے حضور حاضر ہو،

عَنْ عَوْفٍ قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ: مَا الْقَلْبُ السَّلِیمُ قَالَ: یَعْلَمُ بِأَنَّ اللَّهَ حَقٌّ  وَأَنَّ السَّاعَةَ قَائِمَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ یَبْعَثُ مِنْ فِی الْقُبُورِ

عوف کہتے ہیں  میں  نے محمدبن سیرین رحمہ اللہ  سے پوچھاقلب سلیم سے کیامرادہے انہوں  نے کہا قلب سلیم وہ ہے جسے یہ معلوم ہوکہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت آنے والی ہے اس میں  کوئی شک نہیں  اوراللہ تعالیٰ قبروں  میں  مدفون لوگوں  کوزندہ کرکے اٹھائے گا۔[118]

وَقَالَ أَبُو عُثْمَانَ النَّیْسَابُورِیُّ: هُوَ الْقَلْبُ الْخَالِی مِنَ الْبِدْعَةِ، الْمُطْمَئِنُّ إِلَى السُّنَةِ

ابوعثمان نیساپوری کہتے ہیں  کہ قلب سلیم سے مرادوہ دل ہے جوبدعت سے سالم اورسنت پرمطمئن ہو۔[119]

وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٩٠﴾‏ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیمُ لِلْغَاوِینَ ‎﴿٩١﴾‏ وَقِیلَ لَهُمْ أَیْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ مِن دُونِ اللَّهِ هَلْ یَنصُرُونَكُمْ أَوْ یَنتَصِرُونَ ‎﴿٩٣﴾‏ فَكُبْكِبُوا فِیهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ ‎﴿٩٤﴾‏ وَجُنُودُ إِبْلِیسَ أَجْمَعُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ قَالُوا وَهُمْ فِیهَا یَخْتَصِمُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ تَاللَّهِ إِن كُنَّا لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٩٧﴾‏ إِذْ نُسَوِّیكُم بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٩٨﴾‏ وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ فَمَا لَنَا مِن شَافِعِینَ ‎﴿١٠٠﴾‏ وَلَا صَدِیقٍ حَمِیمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٠٢﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٠٤﴾(الشعراء)
اور پرہیزگاروں  کے لیے جنت بالکل نزدیک لا دی جائے گی، اور گمراہ لوگوں  کے لیے جہنم ظاہر کردی جائے گی، اور ان سے پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پوجا کرتے رہے وہ کہاں  ہیں  ؟ جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں  پس وہ سب اور کل گمراہ لوگ جہنم میں  اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں  گے، اور ابلیس کے تمام لشکر بھی، وہاں  آپس میں  لڑتے جھگڑتے ہوئے کہیں  گےکہ قسم اللہ کی ! یقیناً ہم تو کھلی غلطی پر تھے جبکہ تمہیں  رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے، اور ہمیں  تو سوا ان بدکاروں  کے کسی اور نے گمراہ نہیں  کیا تھا ، اب تو ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں اور نہ کوئی (سچا) غم خوار دوست ، اگر کاش کہ ہمیں  ایک مرتبہ پھرجانا ملتا تو ہم پکے سچے مومن بن جاتے،یہ ماجرہ یقیناً ایک زبردست نشانی ہے ان میں  اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ، یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب مہربان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاروزمحشرنعمتوں  سے لبریزجنت کوخوب سنوارکرپرہیزگاروں  کے قریب لایاجائے گاجس سے اہل ایمان کے سرورمیں  مزیداضافہ ہوجائے گااورفرشتے دوزخ کوخوب دہکاکراوراس پر لگامیں  ڈال کر گھسیٹے ہوئے بارگاہ الٰہی کے بائیں  جانب میدان میں  لائیں  گے ،جسے دیکھ کراوراس میں  سے نکلتی ہولناک آوازوں  کوسن کر کفار و مشرکین کے غم میں  اضافہ ہوجائے گا،جہنم سے ایک گردن باہرنکل کھڑی ہوگی جوگنہگاروں  کی طرف غضبناک تیوروں  سے نظرڈالے گی اوراس طرح شورمچائے گی کہ دل اڑ جائیں  گے ،اور اللہ مالک یوم الدین غضبناک آوازمیں  مشرکین سے پوچھے گاکہ جن معبودوں  کی تم اللہ کوچھوڑکرعبادت کرتے تھے اب وہ کہاں  ہیں ؟ کیااس وقت وہ تم سے دوزخ کاالمناک عذاب ٹالنے کی قدرت رکھتے ہیں  یاان میں  اتنی طاقت وقدرت ہے کہ خوداپنے نفس کاہی بچاؤ  کرسکیں ؟یعنی وہ کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں  رکھتے ، چنانچہ مجرم اس کا کوئی جواب نہ دے سکیں  تھے ، چنانچہ تمام عدالتی کاروائی کے بعدجب مشرکین پرجرم ثابت ہوجائے گاتوپھردنیامیں وہ بزرگ ،پیشوااوررہنماجن کی پرستش کی جاتی تھی ،جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی عمارتیں  اور خوش نماقبے تیارکیے جاتے تھے ،ان پرچڑھاوے چڑھائے ،جانوروں  کی قربانیاں  اورروشنیاں  کی جاتی تھیں ،جن کے حضورنذریں  گزاری جاتی تھیں ،جن کواللہ کی صفات کاحامل گردان کرمشکل کشا،حاجت روا ، روزی رساں  اوراولادیں  دینے والے ماناجاتاتھا اوراللہ کو چھوڑ کر ان کی بندگی کرنے والوں کو اورابلیس کے جن وانس میں  سے تمام ساتھیوں کو جو لوگوں  کوشرک اورفسق وفجور پر اکسایا کرتے تھے جہنم کی ہولناک آگ میں  ا وندھے منہ اوپر تلے ڈال دیا جائے گا،جب عابدین کے سامنے حقیقت کھل جائے گی کہ جن معبودوں  سے ہم نے امیدیں  وابستہ کررکھی تھیں ،جن کو ہم اپناسفارشی سمجھتے تھے جن کے بارے میں  ہمارا گمان یہ تھاکہ یہ ہمیں  اللہ کے قریب کردیں  گے وہ تو خود ہمارے ساتھ عذاب میں  گرفتارہیں  تو مقتدین اپنے معبودوں  کو مجرم ٹھیرائیں  گے اور اللہ کی قسم کھا کر ان سے کہیں  گے ہم توکھلی گمراہی میں  مبتلاتھے جو ہم تمہیں عبادت ،محبت اورخوف ورجا میں  اللہ رب العالمین کی برابری کادرجہ دیتے تھے اورتمہیں  بھی ویسے ہی پکارتے تھے جیسے رب تعالیٰ کوپکارتے تھے ، اسی مضمون کو مختلف مقامات پریوں فرمایا:

كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸  [120]

ترجمہ: ہر گروہ جب جہنم میں  داخل ہوگاتواپنے ساتھ کے گروہ پر لعنت کرتاجائے گا یہاں  تک کہ جب سب وہاں  جمع ہوجائیں  گے توہربعدوالاگروہ پہلے گروہ کے متعلق کہے گاکہ اے ہمارے رب! یہ ہیں  وہ لوگ جنہوں  نے ہمیں  گمراہ کیاتھااب انہیں  آگ کا دوہراعذاب دے ،رب فرمائے گاسب ہی کے لئے دوہراعذاب ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ۝۲۹ [121]

ترجمہ:اورکافراس وقت کہیں  گے کہ اے پروردگار!ان جنوں  اورانسانوں  کوہمارے سامنے لاجنہوں  نے ہمیں  گمراہ کیا تھاتاکہ ہم انہیں  پاؤ ں  تلے روندڈالیں  اوروہ پست وذلیل ہوکررہیں ۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ  [122]

ترجمہ:اوروہ کہیں  گے اے رب!ہم نے اپنے سرداروں  اوربڑوں  کی اطاعت کی اورانہوں  نے ہم کوسیدھے راستے سے بھٹکادیا اے رب ان کودوگنا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔

اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں  کے جھگڑوں  کے بارے میں  فرمایا

اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَہْلِ النَّارِ۝۶۴ۧ [123]

ترجمہ:بے شک یہ بات سچی ہے اہل دوزخ میں  یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں ۔

افسوس !ائمہ ضلالت نے ہمیں  اس غلط اورخطرناک راہ پر لگائے رکھا،دنیامیں  جن کے بارے میں  ہمارایہ عقیدہ تھاکہ وہ اللہ کی بارگاہ میں  ہمارے سفارشی ہوں  گےاس لئے ہم ان کی پرستش کرتے تھے مگریہاں  ہمارے حق میں  سفارش کرکے عذاب سے بچانے والاکوئی نہیں  ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ۔۔۔۝۵۳ۧ [124]

ترجمہ:پھر کیا اب ہمیں  کچھ سفارشی ملیں  گے جو ہمارے حق میں  سفارش کریں ؟ ۔

اورنہ ہی کوئی ایساغم خوارہے جو ہمارے ساتھ ہمدردی ہی کر سکے ،قرآن مجیدمیں  ہے کہ وہاں  دنیا کے جگری دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہی بن جائیں  گے اورہرایک دوسرے کوزیادہ سے زیادہ سزا دلانے کی جستجوکرے گا،جیسے فرمایا

اَلْاَخِلَّاۗءُ یَوْمَىِٕذٍؚبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۝۶۷ۭۧ  [125]

ترجمہ:وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں  گے ۔

اورمجرم تمناکرتے ہوئے کہیں  گے اگر ہمیں  دنیامیں  واپس جانے کا ایک موقعہ مل جائے توہم اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایمان لائیں  گے اور نیک اعمال کریں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَل۔۔۔[126]

ترجمہ:یا ہمیں  دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں  ۔

لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں  ہیں  یہ اتنے کٹر مجرم ہیں  کہ اگرانہیں  دنیامیں  دوبارہ بھیج بھی دیاجائے توبھی سیدھی راہ اختیارنہیں  کریں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ۔۔۔ ۝۲۸ [127]

ترجمہ: اگر انہیں  سابق زندگی کی طرف واپس بھیج دیاجائے تووہی کچھ کریں  گے جس سے انہیں  منع کیا گیاہے۔

ابراہیم  علیہ السلام  کااپنی قوم کے معبودوں  کے بارے میں  مناظرہ اوراللہ کی الوہیت اوراس کی یکتائی کے دلائل اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،اللہ کے سواکوئی پکارکوسننے والا،مشکل کشاوحاجت روا،روزی رساں  نہیں مگران واضح دلائل کے باوجود ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں  ،اور تیرا رب پورے غلبے اورقوت والااوربخشش ورحم فرمانے والاہے۔

‏ كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٠٦﴾‏ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٠٧﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٠٨﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٠٩﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١١٠﴾‏ ۞ قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ ‎﴿١١١﴾‏ قَالَ وَمَا عِلْمِی بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١١٢﴾‏ إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّی ۖ لَوْ تَشْعُرُونَ ‎﴿١١٣﴾‏ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١١٤﴾‏ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿١١٥﴾‏ قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَهِ یَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِینَ ‎﴿١١٦﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِی كَذَّبُونِ ‎﴿١١٧﴾‏ فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِی وَمَن مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١١٨﴾‏ فَأَنجَیْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ‎﴿١١٩﴾‏ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِینَ ‎﴿١٢٠﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٢١﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٢٢﴾(الشعراء)
قوم نوح نے بھی نبیوں  کو جھٹلایا جبکہ ان کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تمہیں  اللہ کا خوف نہیں  ! سنو ! میں  تمہاری طرف اللہ کا امانتدار رسول ہوں  پس تمہیں  اللہ سے ڈرنا چاہیے اور میری بات ماننی چاہیے ،میں  تم سے اس پر کوئی اجر نہیں  چاہتا میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں  ہے، پس تم اللہ کا خوف رکھو اور میری فرماں  برداری کرو، قوم نے جواب دیا کہ کیاہم تجھ پر ایمان لائیں  ! تیری تابعداری تو رذیل لوگوں  نے کی ہے، آپ نے فرمایا ! مجھے کیا خبر کہ وہ پہلے کیا کرتے رہے ؟ ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں  شعور ہو تو،  میں  ایمان والوں  کو دھکے دینے والا نہیں  میں  تو صاف طور پر ڈرا دینے والا ہوں  ، انہوں  نے کہا کہ اے نوح ! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا، آپ نے کہا اے میرے پروردگار ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا پس تو مجھ میں  اور ان میں  کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں  کو نجات دے، چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں  کو بھری ہوئی کشتی میں  (سوار کراکر) نجات دے دی، بعد ازاں  باقی تمام لوگوں  کو ڈبو دیا، یقیناً اس میں  بہت بڑی عبرت ہےان میں  سے اکثر لوگ ایمان لانے والے تھے بھی نہیں ،  اور بیشک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے والا۔

قوم نوح نے رسولوں  کوجھٹلایایعنی نوح   علیہ السلام  کی تکذیب کوتمام رسولوں  کی تکذیب قراردیااس لئے کہ تمام انبیاء ومرسلین کی دعوت ایک اوران کی خبرایک ہے اس لئے ان میں  سے کسی ایک کی تکذیب اس دعوت حق کی تکذیب ہے جسے تمام انبیاء ومرسلین لے کرآئے ہیں ،یادکروجبکہ ان کے بھائی نوح   علیہ السلام نے  اپنی تبلیغ ونصیحت میں  کہااے میری قوم کے لوگو ! تمام طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکرصرف ایک اکیلے  اللہ  کی بندگی اختیار کروجس کے سواکوئی بندگی کے لائق نہیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۲۳ [128]

ترجمہ:ہم نے نوح کواس کی قوم کی طرف بھیجااس نے کہااے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرواس کے سواتمہاراکوئی معبودنہیں  ہے ،کیاتم ڈرتے نہیں  ہو؟۔

اللہ کوچھوڑکرمعبودان باطلہ کی بندگی کرتے ہوئے کیاتم اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوگئے ہو؟۔

 اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوْهُ وَاَطِیْعُوْنِ۝۳ۙیَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ ۝۴  [129]

ترجمہ: (تم کوآگاہ کرتاہوں )کہ اللہ کی بندگی کرواوراس سے ڈرو اورمیری اطاعت کرو اللہ تمہارے گناہوں  سے درگزرفرمائے گا۔

جب تبلیغ کرتے ایک عرصہ گزرگیامگرقوم کے دلوں  میں  گداز،ڈروخوف پیدانہ ہوا تو نوح   علیہ السلام  نے انسانی فطرت کے مطابق دوسرا طریقہ اختیارکیااورقوم کو ثواب وجزا کی ترغیب دینے اوراللہ کی قدرت کی دلیلوں  سے سمجھانے کی کوشش کی اورکہا

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙیُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ۙوَّیُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا۝۱۲ۭمَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلهِ وَقَارًا۝۱۳ۚوَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا۝۱۴اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙوَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۝۱۶وَاللهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۝۱۷ۙثُمَّ یُعِیْدُكُمْ فِیْهَا وَیُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا۝۱۸وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙ  [130]

ترجمہ:نوح  علیہ السلام  نے کہااپنے رب سے معافی مانگوبے شک وہ بڑامعاف کرنے والاہے ،وہ تم پرآسمان سے خوب بارشیں  برسائے گا، تمہیں  مال اوراولادسے نوازے گا،تمہارے لئے باغ پیداکرے گااورتمہارے لئے نہریں  جاری کردے گا،تمہیں  کیاہوگیاہے کہ اللہ کے لئے تم کسی وقارکی توقع نہیں  رکھتے ؟حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں  بنایا ہے ،کیادیکھتے نہیں  ہوکہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ برتہ بنائے اوران میں چاندکونوراورسورج کوچراغ بنایا اوراللہ نے تم کوزمین سے عجیب طرح اگایاپھروہ تمہیں اسی زمین میں  واپس لے جائے گااوراس سے یکایک تم کونکال کھڑاکرے گا،اوراللہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش کی طرح بچھا دیاتاکہ تم اس کے اندرکھلے راستوں  پرچلو۔

اوراپنی رسالت کے بارے میں  کہامیں  اللہ کارسول ہوں وہ جوکچھ مجھ پرنازل کرتاہے میں  پوری دیانت و ایمانداری کے ساتھ تم تک پہنچادیتاہوں  کیونکہ میری پیروی کرنے کامقصداللہ کی اطاعت کرناہے لہذاسب مطاعوں  کی اطاعت چھوڑکرصرف میری اطاعت کرواورمیں  جودعوت توحیدورسالت دے رہاہوں  اس کے آگے سرتسلیم خم کردو، مگر قوم نے نوح   علیہ السلام  کی دعوت کوتسلیم کرنے کے بجائے انہیں  دیوانہ قراردیا  جیسے فرمایا

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝۹ [131]

ترجمہ:ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلاچکی ہے انہوں  نے ہمارے بندے کوجھوٹاقراردیااورکہاکہ یہ دیوانہ ہے اوروہ بری طرح جھڑکا گیا ۔

کیونکہ سرداران قوم کواپنی دولت وثروت اور حیثیت کی پڑی رہتی تھی اس لئے مغرورانہ اندازمیں  حقارت سے کہتے کہ نوح   علیہ السلام  نے یہ جوسلسلہ چلا رکھا ہے انکامقصداس کے سوا کچھ نہیں  کہ وہ مال ودولت جمع کرکے ہماری برابری کرے، اوریہ جوچند گنے چنے،مٹھی بھر کم درجہ کے  لوگ جن کوکوئی عقل وشعوراور جن کی کوئی حیثیت ہمارے ہا ں  نہیں  ہے اگربے سوچے سمجھے اس کی پیروی کرنے لگے ہیں  توہمارے اتنے معبودوں  یاہم جوایک جتھاہیں  پرکوئی اثر پڑنے والا نہیں  اگر اسکی نصیحت میں  حقیقت یاوزن ہوتا توسب سے پہلے ہم صاحب مال ودولت وثروت ایمان لے آتے ،جیسے فرمایا

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ ۔۔۔ ۝۲۴ۚ  [132]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں  نے ماننے سے انکارکیاوہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں  ہے مگرایک بشرتم ہی جیسااس کی غرض یہ ہے کہ تم پربرتری حاصل کرے۔

فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ۝۰ۚ وَمَا نَرٰی لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْل۔۔۔۝۲۷ [133]

ترجمہ:اس کی قوم کے کافر سرداروں  نے کہاہمیں  توتم اس کے سواکچھ نظرنہیں  آتے کہ بس ایک انسان ہوہم جیسے اورہم دیکھ رہے ہیں  کہ تمہاری پیروی صرف ان لوگوں  نے بے سمجھے بوجھے اختیارکرلی ہے جوہمارے ہاں  کے اراذل ہیں  اورہم کوئی چیزبھی ایسی نہیں  پاتے جس میں  تم لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہو۔

اس الزام پر نوح   علیہ السلام  نے کھلے عام کہاکہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے تمہارے مال ومتاع کی قطعی ضرورت نہیں ، میرا رب جومجھے عطا کرتاہے میرے لئے وہ کافی سے زیادہ ہے ، میراکبھی ایسامطالبہ نہیں  رہاہے میرے اس کام کا اجر وہی دے گاجس نے میری یہ ڈیوٹی لگائی ہے اوروہی ہی کوئی اجردینے کی قدرت رکھتاہے لہٰذا عقل سے گری ہوئی باتیں  نہ کرو،یہ  باتیں  کر کے تم خودکو جھوٹی تسلی دیتے ہو اورعام لوگوں  کوصرف گمراہ کرنے کی کو شش کرتے ہو مجھے میرے رب نے تمہاری طرف بھیج کر تمہارے لئے خیرکا ارادہ کیا ہے تاکہ میں  تمہیں  طاغوت کے راستہ سے ہٹا کر سیدھا راستہ بتاؤ ں لہذامیری نیت پرشک وشبہ اور میرے کردارپرکیچڑمت اچھالو اوراللہ سے ڈرو،اوراللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کے لئے بے خوف وخطرمیری پیروی کرواوراے قوم کے لوگو!  اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کوکمتر پیدانہیں  کیامگرتم لوگوں  نے انسانوں  کے درمیان درجہ بندی کرتے ہوئے خود ساختہ غیرفطری اونچ نیچ قائم کر رکھی ہے ، مذہب کی حقانیت وصداقت کوپرکھنے کے لئے پیشہ یامال ودولت کسوٹی نہیں  ہوتے بلکہ اس کے حیات بخش اصول ہوتے ہیں  اگر پیشے کے اعتبارسے تم ان گنے چنے مسلمانوں  کوجو اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے ہیں ،جن کاذہن صاف ہے جوحقیقت کوسمجھنے اورتسلیم کرنے کی استعدادرکھتے ہیں  ، جن کے اندر اتنی صداقت پسندی موجودتھی کہ جب انہوں  نے جان لیاکہ میری دعوت حق ہے تواس حق وصداقت کی خاطرمحض  اللہ کی خاطر اور اس کی رضاکے لئے ہر چیزکو قربان کر دینے اورہرطرح کے مصائب سہنے کے لئے تیار ہوگئے ،یہ لوگ جنہوں  نے دنیائے ناپائدارکودل لگانے کے قابل نہ سمجھا،یہ لوگ جن کی  اللہ کے ہاں  قدرومنزلت ہے کوکمتراور حقیر سمجھتے ہوتو تمہیں  معلوم ہونا چاہئے کہ پیشہ صرف پیشہ ہوتاہے ،کوئی بھی پیشہ حقیر نہیں  ہوتااورنہ ہی کوئی رزق حلال کمانے کے لئے پیشے کی وجہ سے گھٹیابن جاتاہے اگر مال و دولت کی وجہ سے خود کوان سے بالاو ارفع جانتے ہوتو یہ مال واسباب تمہیں  میرے رب نے ہی دیاہے وہ جس کے لئے چاہے مال و اسباب میں  فراوانی کردے اور جس کا رزق چاہے نپاتلا کر دے،جیسے فرمایا

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ [134]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے ۔

یہ اس کی حکمت ومشیت ہے اس میں  تمہاراکوئی عمل دخل کوشش یااستحقاق نہیں  ہے، وہ رب جس نے تمہیں  مال ومتاع ،عزت ومرتبہ سے نوازا ہے جب چاہے سب واپس لینے کی قدرت بھی رکھتاہے، اے میری قوم کے لوگو! تم لوگ مال و دولت اور جاہ واقتدارمل جانے کو عزت سمجھتے ہو،تم لوگ یہ سمجھتے ہوکہ  اللہ نے تمہارے سروں  پر پیدائشی طورپر عزت وعظمت کا تاج نہیں  رکھ دیا ہے اورجن کومال ودولت سے نہیں  نوازا وہ پیدائشی ذلیل وحقیرہیں حقیقت میں  ایسی بات نہیں   اللہ نے جوکچھ تمہیں  عطا کیاہے اس سے تم اس کے مقرب نہیں  بن گئے ہو، وہ تو آزمائش کے لئے دیا گیاہے اورجن کومفلسی دی ہے وہ  اللہ کے مغضوب نہیں انکی بھی آزمائش ہورہی ہے ، میں  ان غریب مسلمین کوجن میں  حق کو پہچاننے کی وسعت نظر،نیک نفسی ،صداقت وخودداری ،قوم کے آگے صحیح دعوت کوقبول کرنے پرمصائب قبول کرنے کی فراغ حوصلیگی وبلندہمتی ،اپنے بھائیوں  کے لئے ایثار و قربانی کاجذبہ،راہ  اللہ تکالیف پر صبر و استقامت اور اللہ کی عطاکردہ نعمتوں  پرقناعت کے عمدہ اوصاف ہیں  ، جن میں  اونچ نیچ کے امتیازات نہیں  تمہاری سطحی باتوں  کی وجہ سے اپنے سے دو ر نہیں کرسکتا اب کوئی تھوڑے عمل کرتا ہے اورکہیں  کمزوری دکھاتاہے او ر کوئی مجسم ڈوبا ہوا ہے تواس کا معاملہ رب کے اختیارمیں  ہے ، جیسے فرمایا:

 ۔۔۔وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۭ اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَلٰكِنِّیْٓ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْـهَلُوْنَ۝۲۹وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۳۰  [135]

ترجمہ:اورمیں  ان لوگوں  کودھکے دینے سے بھی رہاجنہوں  نے میری بات مانی ہے ،وہ آپ ہی اپنے رب کے حضورجانے والے ہیں  مگرمیں  دیکھتا ہوں  کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہواوراے قوم! اگرمیں  ان لوگوں  کودھتکاردوں  تواللہ کی پکڑسے کون مجھے بچانے آئے گا؟تم لوگوں  کی سمجھ میں  کیااتنی بات بھی نہیں  آتی ؟۔

تم اگررب پرایمان نہیں  لانا چاہتے تو میرا تم پر کوئی زور زبردستی دھونس نہیں  ہے،جیسے فرمایا

لَآ اِكْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔۔۔۝۲۵۶ [136]

ترجمہ:دین کے معاملے میں  کوئی زور زبردستی نہیں  ہے ۔

میری دعوت کوبلا جبر و اکراہ اورشعوری آمادگی کیساتھ قبول کرو،اب یہ تمہارا فیصلہ ہے کہ رب کے ہاں  قدرومنزلت چاہتے ہویاذلت کی گہرائیوں  میں  ڈوبنا میرا کام توصرف تمہیں  خبردار ہوشیارچوکنا کر دینا ہے، ابھی  اللہ نے تمہیں  زندگی کی مہلت دے رکھی ہے تاکہ تم ایمان لاکر نیک اعمال کرو اسکی خوشنودی حاصل کرکے عذاب سے بچ جاؤ ، اگر تم لوگ اپنی کفرانہ روش سے باز نہ آئے تو نقصان اٹھانے والوں  میں  ہوجاؤ  گے،آخرقوم نے طاغوت کی بندگی سے نکلنے سے انکارکردیا اور کہا

وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۝۲۳ۚ [137]

ترجمہ: انہوں  نے کہاہرگزنہ چھوڑواپنے معبودوں  کواورنہ چھوڑووداور سواع کو اورنہ یغوث اوریعوق اورنسرکو۔

اوراے نوح !اگرتو وعظ ونصیحت کرنےاورہمارے معبودوں  کے خلاف باتیں  بنانے سے بازنہ آیاتوہم تجھے پتھر مار مار کر سنگسارکردیں  گے ،نوح   علیہ السلام نے قوم سے کہااگرتم طاغوت کی بندگی سے بازنہ آئے تواللہ کا دردناک عذاب تم پرٹوٹ پڑے گا،جیسے فرمایا

اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللهَ۝۰ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ۝۲۶ [138]

ترجمہ :اللہ کے سواکسی کی بندگی نہ کروورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پرایک روزدردناک عذاب آئے گا۔

مگر قوم نے نوح   علیہ السلام  اور انکی نصیحت کو دیوانگی سمجھ کر پائے حقارت سے ٹھکرادیااورکھلم کھلا اعلان کیاکہ اے نوح   علیہ السلام ! اگرتم میں  کچھ دم خم ہے تو جس ہولناک عذاب سے ہمیں  ڈراتے آئے ہو توپھر لے آؤ  وہ عذاب ہم توتمہاری دعوت اور تمہارے اکیلے رب پر ایمان لانے والے نہیں  ، نوح   علیہ السلام  نے جواب دیا میں  تواس رب کا رسول ہوں  میراکام صرف اس رب کے پیغامات اوراحکامات تم تک پوری امانت ودیانت سے پہنچادیناہے میں  تمہارے دلوں کونہیں  پھیر سکتا ، میرے اختیار میں  کچھ نہیں  یہ فیصلہ تو میرا رب ہی کرے گاکہ عذاب بھیجا جائے یا نہیں  اوربھیجاجائے توکب بھیجاجائے مگریہ جان لواورپوری تیاری بھی کرلوکہ اس قادرمطلق کے عذاب کوتم روک نہیں  سکو گے ،جب اس کادردناک عذاب نازل ہوگاتو اس میں  پس کر رہ جاؤ گے، اب جبکہ تم نے خودہی رب کے عذاب کا پوری ڈھٹائی وغرور سے مطالبہ کردیاہے تو اب تمہاری ضدوہٹ دھرمی اور عذاب کاچیلنج دینے کے بعد اگر میرے رب نے تمہارے خلاف فیصلہ کر لیاہو کہ ا ب تم لوگ اسکی رحمت کے مستحق نہیں  رہے تو اب میں  تمہارے لئے خیرخواہی کرنا بھی چاہوں  تو لاحاصل بے کار ہے کیونکہ کوئی اللہ کے فیصلے کونہیں  روک یا ٹال نہیں  سکتا اب توبس انتظار کروکہ کب وہ اپنا فیصلہ صادرکرتا اوراپنا درد ناک عذاب نازل کرتاہے ،جیسے فرمایا

قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۳۲قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللهُ اِنْ شَاۗءَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۳۳ وَلَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ۝۰ۭ هُوَرَبُّكُمْ۝۰ۣ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۳۴ۭ   [139]

ترجمہ:آخرکار ان لوگوں  نے کہا اے نوح علیہ السلام  تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا اب تو بس وہ عذاب لے آو جس کی تم ہمیں  دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو،نوح علیہ السلام  نے جواب دیا وہ تو  اللہ ہی لائے گا اگر چاہے گا اور تم اتنا بل بوتا نہیں  رکھتے کہ اسے روک دو، اب اگر میں  تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں  تو میری خیر خواہی تمہیں  کوئی فائدہ نہیں  دے سکتی جبکہ  اللہ ہی نے تمہیں  بھٹکادینے کا ارادہ کر لیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں  پلٹنا ہے۔

نوح   علیہ السلام ساڑھے نوسوسال کی مسلسل وعظ ونصیحت کے بعدجب قوم سے بالکل مایوس ہوگئے تو اپنے رب سے التجاکی اے میرے رب ! تو جانتاہے میں  نے تیرا پیغام پہنچانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں  رکھا ،کسی قسم کی ملامت اور زدوکوب کی پرواہ نہیں  کی مگر مجھے اورتیری دعوت حق کو قطعی طورپر ٹھکرا دیا ہے اب میرے اوران کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں  ان کونجات دے،جیسے فرمایا

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۝۲۸ۧ [140]

نوح  علیہ السلام نے کہااے میرے رب!ان کافروں  میں  سے کوئی زمین پربسنے والانہ چھوڑ اگرتونے انہیں  چھوڑدیاتویہ تیرے بندوں  کوگمراہ کریں  گے اور ان کی نسل سے جوبھی پیدا ہو گا فاجراورسخت منکرحق ہوگامیرے رب،مجھے اور میرے والدین کواورہراس شخص کوجومیرے گھرمیں  مومن کی حیثیت سے داخل ہواہے اورسب مومن مردوں  اورعورتوں  کو معاف فرمادے اور ظالموں  کے لئے ہلاکت کے سوا کسی چیزمیں  اضافہ نہ کر۔

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰ [141]

ترجمہ: آخرکاراس نے اپنے رب کوپکاراکہ میں  مغلوب ہوچکااب توان سے انتقام لے۔

اللہ تعالیٰ نے جودلوں  کے بھید جانتا ہے ،اس نے بھی نوح   علیہ السلام  کی رائے کی توثیق کردی اور فرمایا

وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۳۶ۚۖ [142]

ترجمہ:نوح   علیہ السلام  پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں  سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے اب کوئی ماننے والا نہیں  ہے ان کے کرتوتوں  پر غم کھانا چھوڑو۔

آخرکارہم نے اس کواوراس کے ساتھیوں  کوایک بھری ہوئی کشتی میں  جس میں  اہل ایمان اورتمام جانوروں  کے جوڑے تھے بچالیااوراس کے بعد کفارومشرکین کوجن میں  ان کی بیوی اوربیٹابھی شامل تھا پانی میں غرق کردیا،یقینااس میں  ایک نشانی ہے مگران میں  سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں  اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اوررحیم بھی۔

كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٢٣﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٢٥﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٢٦﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٢٧﴾‏ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِیعٍ آیَةً تَعْبَثُونَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ‎﴿١٢٩﴾‏ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ ‎﴿١٣٠﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٣١﴾‏ وَاتَّقُوا الَّذِی أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٣٢﴾‏ أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِینَ ‎﴿١٣٣﴾‏ وَجَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿١٣٤﴾‏ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٣٥﴾‏ قَالُوا سَوَاءٌ عَلَیْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظِینَ ‎﴿١٣٦﴾‏ إِنْ هَٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٣٧﴾‏ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ ‎﴿١٣٨﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٣٩﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٤٠﴾(الشعراء)
عادیوں  نے بھی رسولوں  کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں  ؟ میں  تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں ، پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو ! میں  اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں  کرتا میرا ثواب تو  تمام جہان کے پروردگار کے پاس ہی ہے، کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشہ یادگار (عمارت) بنا رہے ہو اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو گویا کہ تم ہمیشہ یہیں  رہو گے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو سختی اور ظلم سے پکڑتے ہو اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو، اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں  سے تمہاری امداد کی جنہیں  تم جانتے ہو،اس نے تمہاری مدد کی مال سے اور اولاد سےباغات اور چشموں  سے، مجھے تو تمہاری نسبت بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے، انہوں  نے کہا کہ آپ وعظ کہیں  یا وعظ کہنے والوں  میں  نہ ہوں  ہم یکساں  ہے، یہ تو بس پرانے لوگوں  کی عادت ہے اور ہم ہرگز عذاب نہیں  دیئے جائیں  گے، چونکہ عادیوں  نے حضرت ہود کو جھٹلایا اس لیے ہم نے انہیں  تباہ کردیا، یقیناً اس میں  نشانی ہے اور ان میں  سے اکثر بےایمان تھے،  بیشک آپ کا رب وہی ہے غالب مہربان۔

نوح   علیہ السلام  کی قوم کی تباہی وبربادی کے بعداللہ تعالیٰ نے ہود  علیہ السلام  کی قوم عادکوعروج بخشا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ۔۔۔۝۶۹ [143]

ترجمہ: بھول نہ جاؤ  کہ تمہارے رب نے نوح کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا ۔

اللہ تعالیٰ نے اس قوم کوجسمانی طور پر بڑا تنومند اور زور آور بنایا تھا

۔۔۔وَّزَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ۔۔۔ ۝۶۹ [144]

ترجمہ:اورتمہیں  جسمانی ساخت میں  خوب تنومند کیا۔

قوم عاداپنےاپنے دورکی بے نظیرقوم تھی اوراس کے مقابلہ کی کوئی قوم نہ تھی،جیسے فرمایا:

الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۝۸۠ۙ  [145]

ترجمہ:جس کی مانندملکوں  میں  کوئی قوم پیدانہیں  کی گئی ۔

اس قوم کاتمدن بڑاشاندارتھایہ لوگ منقش ستونوں  کی بلندوبالا عمارتیں  بنانے کے بڑے دلدادہ تھے اوراس مہارت میں  مشہورتھے،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۝۶۠ۙاِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۝۷۠ۙ۠ۙ [146]

ترجمہ:تونے دیکھانہیں  کہ تیرے رب نے کیاکیا ستونوں  والے عادارم کے ساتھ؟۔

اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ مال ودولت اورجسمانی زورآوری نے انہیں  سخت متکبربنادیاتھااورانہیں  اپنی طاقت کابڑاگھمنڈتھا،جیسے فرمایا

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً۔۔۔۝۰۝۱۵ [147]

ترجمہ:رہے عاد!توانہوں  نے زمین میں  حق کی راہ سے ہٹ کرتکبرکی روش اختیارکی اورکہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زورآور۔

قوم عاد نے اپناسیاسی نظام بڑے بڑے جبارسرداروں  کوسونپ رکھاتھا جن کے آگے کوئی دم نہ مارسکتاتھا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ۝۵۹ [148]

ترجمہ: اور انہوں  نے ہر جبار دشمن حق کے حکم کی پیروی کی۔

ان کے معبودان باطلہ کے نام ود،سواع، یعوث، یعوق،نسر، صمود اورہتار تھے اس کے علاوہ مظاہرفطرت چاندوسورج اورستاروں  کی بھی پوجاکی جاتی تھی۔

اس قوم کے تیرہ بڑے بڑے قبیلے تھے اور سب کے سب کفرو شرک کے اندھیروں  میں  غرق ہوچکے تھے ۔ہود  علیہ السلام  نے لوگوں  کو دعوت حق دیتے ہوئے فرمایااے میری قوم کے لوگو! طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکراللہ کی بندگی کرو اس کے سواکوئی معبودحقیقی نہیں  جس کی بندگی کی جاسکے ، اس رب کی بندگی کے گن گاؤ جس نے اس عظیم کائنات اور تمہیں  پیدا کیاہے اورتمہارے رزق کابندوبست کیاہے، پھرکیاتم اللہ سے ڈرتے ہوئے غیراللہ کی عبادت کو چھوڑتے نہیں ؟جیسے فرمایا

۔۔۔قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰ [149]

ترجمہ: اس نے کہااے برادران قوم!  اللہ کی بندگی کرو تمہاراکوئی الٰہ اس کے سوانہیں  ہےتم نے محض جھوٹ گھڑرکھے ہیں ۔

اپنی رسالت کے بارے میں  کہااے میری قوم ! اس قادرمطلق نے نظرعنایت کرتے ہوئے تمہیں  غفلت سے بیدار کرنے کے لئے مجھے علم صحیح عطافرماکر تمہاری ہدایت پر مامورکیاہےتاکہ  اللہ تعالیٰ نے جو وعیدوخوشخبریاں  مجھے بھیجی ہیں  پوری دیانتداری سے تم تک پہنچا دوں ،پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرواورمیری اتباع کرو، اور تمہیں  کوئی شک وشبہ نہیں  رہناچاہیے کہ یہ سب محنت ومشقت اور تکلیف جومجھے وعظ ونصیحت کی خاطر پہنچتی ہے اس کے لئے مجھے تم سے عزت ومرتبہ یاکوئی دنیاوی لالچ ہے،نہیں  بلکہ میری خیرخواہی بے لوث ہے،میری ان کوششوں کا صلہ تواس رب کے ذمہ ہے جس نے سارے جہانوں  کی تخلیق کی ہے اور بیشمار خزانے دینے کی طاقت وقدرت رکھتا ہے ، جیسے فرمایا

یٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۵۱  [150]

ترجمہ:اے برادران قوم اس کام پر میں  تم سے کوئی اجر نہیں  چاہتا میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے،کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں  لیتے ۔

قوم عاد کا بڑافراخ رزق تھا، زمین مالک کے حکم سے ان کے لئے خزانے اگل رہی تھی ،چنانچہ اپنی طاقت اوروسائل کی نمودونمائش کے لئے، اپنی رہائش گاہوں  کو پورے پورے پہاڑکاٹ کر پرتکلف متعدد کمروں  پرمشتمل محلات بناتے، جن میں  اونچے اونچے خوبصورت منقش ستون ہوتے ، دوسرا نمائشی کام یہ کرتے کہ جہاں  موقعہ ملا بلند وبالا جگہوں  پر اپنے نام کی یادگار کے طور پرایک لاحاصل نشانات تعمیرکروادیتے ،      ہود  علیہ السلام  نے ان فضول خرچی پرانہیں  سمجھایاکہ اے  اللہ کے بندو!مال کے صرف کرنے میں  فضول خرچی سے بچتے رہواور میانہ روی کاالتزام رکھوکیونکہ وہ قوم کبھی محتاج نہیں  ہوتی جس نے معتدل راہ اختیار کی ،تم اس دنیا میں  ہمیشہ کے لئے نہیں تھوڑے عرصہ کے لئے بھیجے گئے ہو ، تمہاری سانسیں  گنی چنی ہیں ، کیاتم اپنے اردگردنہیں  دیکھتے کہ کل جوعزیزواقارب ،دوست احباب، شریک کاروباروغیرہ تمہارے ساتھ تھے وہ آج ساتھ نہیں  ہیں تو کیا تمہیں  موت نہیں  دبوچے گی، مگرتمہارے منصوبے ،پلان ،اندازتویہ ظاہر کرتے ہیں  کہ تم کومرنا ہی نہیں تب ہی توتم اپنی آخرت کاخیال کرنے کے بجائے جہاں  تم نے ہمیشہ رہناہے اپناوقت ان بیکار یادگاروں  اور مکانات بنانے میں  ضائع کررہے ہوجس میں  تمہارا قیام بڑا ہی مختصر ہے،اگرتم نے میری دعوت کوماننے سے انکارکردیا تو مجھے تمہارے حق میں  ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کاڈر ہے جس میں  کوئی کسی کے کام نہیں  آئے گااورنہ کوئی سفارش ہی کام کرے گی،اورتمہارامعیارانسانیت اتناگراہواہے کہ  اپنی طاقت کے گھمنڈ میں  کسی کوگردانتے ہی نہیں  ہو، رحم وہمدردی نام کی کسی چیزکوجانتے ہی نہیں  ہو،دوسروں  کی خطاوقصوروں  کوطاقت رکھنے کے باوجودبخشنے کے بجائے بس دولت اور طاقت کے نشے میں  دھت ہوکرمدمقابل کو فناکر دینے کی تگ ودو کرتے ہواورباہمی تعلقات میں  رواداری سے کام نہیں  لیتے،میرے بھائیوقتل کومعمولی جرم نہ سمجھوانسانی قتل سے زیادہ کوئی ہولناک جرم نہیں ،اس سے معاشرے میں  بدامنی اوربے چینی پیداہوتی ہے اوربالآخروہ معاشرہ ہی تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ،دوبارہ تقویٰ اوراپنی اطاعت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایاپس تم لوگ اللہ سے ڈرواورمیری پیروی کرو،اس خالق کی گرفت سے ڈرجاؤ جس نے تمہیں  پیداکیاہے ،تمہیں  مال ودولت اورکثرت نسل سے نوازا ، رزق حاصل کرنے کے لئے زرخیززمینیں  دیں  ،زمینوں  کوسیراب کرنے کے لئے چشمے رواں کیے،کاشتکاری اورخوراک کے لئے چوپایوں  کے ذریعے تمہاری مددکی ، اورانواع واقسام کے باغات اگائے لیکن قوم کے سرداروں  نے ہود  علیہ السلام کی دعوت کوماننے سے انکار کر دیااورانہیں جھوٹاکہا،جیسے فرمایا

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۶۶ [151]

ترجمہ:اس کی قوم کے سرداروں  نے جو اس کی بات ماننے سے انکارکر رہے تھے جواب میں  کہا ہم تو تمہیں  بے عقلی میں  مبتلا سمجھتے ہیں  اور ہمیں  گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو۔

ہود  علیہ السلام  نے کہامیرے بھائیو! میں  تمہیں جودعوت حق دے رہاہوں  اس سے منہ نہ پھیرو،اپنے کفروشرک پراصرارمت کرو، اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک بہت بڑاگناہ ہے ، ظلم عظیم ہے،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَیَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [152]

ترجمہ:یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

اگرتم اپنے شرک سے باز نہ آئے اوررب سے بخشش نہ چاہی توتمہاراانجام بڑاہی دردناک ہوگا،اس لئے اس زندگی کی گھڑیوں  کو غنیمت جان کراللہ غفورو رحیم سے معافی طلب کرلو آخرت کے نقصان، گھاٹے اور خسارے سے بچ جاؤ اوردائمی نجات حاصل کرو، تم اپنی موجودہ حیثیت مال ومتاع کوبہت جانتے ہو حالانکہ یہ تو برائے نام ہی عطاکیے گئے ہیں ،صدق دل سے ایمان لانے کے بعد پھر اسکی رحمتوں  کے نظارے کرو،وہ رب تمہاری ہرفکرسے کشادگی ، ہر تنگی سے راستہ بنادے گا وہ آسمانوں  اور زمین سے تمہارے لئے برکتیں  ہی برکتیں  نازل کرے گااورایسی جگہوں  سے رزق عطا فرمائے گاجو تمہارے وہم وگمان میں  بھی نہیں  ہوگا تمہاری قوت، طاقت کومزید بڑھائے گامال وعزت میں  مزید سرفرازی بخشے گا ، جیسے فرمایا

وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰی قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ۝۵۲ [153]

ترجمہ:اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کریگا مجرم بن کر (بندگی سے)منہ نہ پھیرو ۔

زچ ہوکرقوم کے لوگ کہنے لگے اے ہود علیہ السلام ! اپنایہ ڈھونگ بندکروہم توہرگز ہرگز تمہارے اکیلے رب اور تمہاری رسالت پرایمان لانے والے نہیں ،جیسے فرمایا

قَالُوْا یٰہُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِیْٓ اٰلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۵۳  [154]

ترجمہ: انہوں  نے جواب دیا اے ہود، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں  آیا ہے ، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں  کو نہیں  چھوڑ سکتے اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں  ہیں ۔

تم سے بیشتر بھی بہت لوگ ایسی باتیں  کرتے رہے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۲۵ [155]

ترجمہ: یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں  ۔

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۙ [156]

ترجمہ:اور جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے ، تو کہتے ہیں  اجی وہ تو اگلے وقتوں  کی فرسودہ کہانیاں  ہیں  ۔

ہماری نگاہ میں  تمہاری نصیحت کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے توہمیں  دعوت دے یانہ دے ہم تیری دعوت مان کراپنے معبودوں  کوچھوڑنے والے نہیں ، اگر تو سچاہے تولے آ عذاب،ہم اتنے معبودوں  کے ہوتے ہوئے عذاب میں  مبتلاہونے والے نہیں  ، جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۝۰ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۷۰  [157]

ترجمہ: انہوں  نے جواب دیا کیا توہمارے پاس اس لئے آیاہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں  اورانہیں  چھوڑدیں  جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ اچھا تولے آؤ عذاب جس کی تو ہمیں  دھمکی دیتاہے اگرتوسچاہے۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا۝۰ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۲۲ [158]

ترجمہ: انہوں  نے کہا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں  بہکا کر ہمارے معبودوں  سے برگشتہ کر دے ،اچھا تو لے آاپنا وہ عذاب جس سے تو ہمیں  ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے۔

جب ایک عرصہ گزر گیااور قوم نے بھی کفرکاراستہ چھوڑ کر ایمان وتقویٰ کی راہ اختیارنہ کی تو اللہ تعالیٰ نے  اس عظیم الجبروت قوم کو ان کے غروروقوت ،ظلم وجور اور باطل پرستی کے جرم میں  نیست ونابودکردینے کا فیصلہ کردیا،اوران پرعذاب بھیجا اللہ کا غضب تند و تیز منحوس آندھی کی شکل میں مسلسل سات رات اورآٹھ دن مسلط رہا ،شدت بادکیا تھی قہرالٰہی تھا جس نے جسمانی قوتوں  اور طاقتوں  کے گھمنڈ میں  سرمست زندوں  اورمردوں  کو فضامیں اٹھا اٹھا کر سر کے بل زمین پرپٹکا جس سے ان کا دماغ پھٹ جاتااور بغیر سر ان کے لاشے اس طرح زمین پرپڑے تھے گویاوہ کھجورکے کھوکھلے تنے ہیں ،یہ ہوا جہاں  سے گزری وہاں  ہرچیزکوبوسیدہ ہڈی کی طرح چوراچورا کر دیتی ،  اللہ  کا نازل کردہ یہ قہرو غضب اس وقت تک جاری رہاجب تک کہ ان کا نشان تک صفحہ ہستی سے نہ مٹادیا ، جیسے فرمایا

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ۝۱۶ [159]

ترجمہ: آخر کار ہم نے چندمنحوس دنوں  میں  سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں  دنیا ہی کی زندگی میں  ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں  اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسواکن ہوگاوہاں  کوئی انکی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔

فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَــتِهِمْ۝۰ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا۝۰ۭ بَلْ هُوَمَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۴ۙتُدَمِّرُ كُلَّ شَیْءٍؚبِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ۝۲۵ [160]

ترجمہ:پھرجب انہوں  نے اس عذاب کواپنی وادیوں  کی طرف آتے دیکھاتوکہنے لگے یہ بادل ہے جوہم کوسیراب کردے گا نہیں  ، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے ،یہ ہواکاطوفان ہے جس میں  دردناک عذاب چلاآرہاہے ،اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا،آخرکار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں  کے سوا وہاں  کچھ نظر نہ آتا تھااس طرح ہم مجرموں  کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ۝۱۹ۙتَنْزِعُ النَّاسَ۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ۝۲۰ [161]

ترجمہ: ہم نے ایک پہیم نحوست کے دن سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی،جو لوگوں  کو اٹھااٹھا کر اس طرح پھینک رہی تھی جیسے وہ جڑسے اکھڑے ہوے کھجور کے تنے ہوں ۔

وَفِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ۝۴۱ۚمَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِ۝۴۲ۭ [162]

ترجمہ: اور (تمہارے لیے نشانی ہے)عاد میں ،جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خبر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔

وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ۝۶ۙسَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ۝۷ۚفَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۝۸ [163]

ترجمہ؛اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دیے گیےاللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلّط رکھا(تم وہاں  ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہاں  اس طرح پچھڑے پڑے ہیں  جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں ،اب کیاان میں  سے کوئی تمہیں باقی بچانظرآتاہے؟۔

اب کیا ان میں  سے کوئی تمہیں  باقی بچانظرآتا ہے۔یقیناًاس میں  ایک نشانی ہے مگران میں  سے اکثرلوگ ماننے والے نہیں  ہیں  اورحقیقت یہ ہے کہ تیرارب زبردست بھی ہے اوررحیم بھی۔

كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٤١﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٤٢﴾‏ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٤٣﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٤٤﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٤٥﴾‏ أَتُتْرَكُونَ فِی مَا هَاهُنَا آمِنِینَ ‎﴿١٤٦﴾‏ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿١٤٧﴾‏ وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیمٌ ‎﴿١٤٨﴾‏ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا فَارِهِینَ ‎﴿١٤٩﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٥٠﴾‏ وَلَا تُطِیعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿١٥١﴾‏ الَّذِینَ یُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ ‎﴿١٥٢﴾‏ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِینَ ‎﴿١٥٣﴾‏ مَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا فَأْتِ بِآیَةٍ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿١٥٤﴾‏ قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ ‎﴿١٥٥﴾‏ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَیَأْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٥٦﴾‏ فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِینَ ‎﴿١٥٧﴾‏ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٥٨﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٥٩﴾‏(الشعراء)
ثمودیوں  نے بھی پیغمبروں  کو جھٹلایا ان کے بھائی صالح نے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں  ڈرتے ؟ میں  تمہاری طرف اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں ،تو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، میں  اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں  مانگتا میری اجرت تو بس پروردگار عالم پر ہی ہے،کیا ان چیزوں  جو یہاں  ہیں  تم امن کے ساتھ چھوڑ دیئے جاؤ گے یعنی ان باغوں  اور ان چشموں  اور ان کھیتوں  اور ان کھجوروں  کے باغوں  میں  جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں  ،اور تم پہاڑوں  کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، بےباک حد سے گزر جانے والوں  کی اطاعت سے باز آجاؤ  جو ملک میں  فساد پھیلا رہے ہیں  اور اصلاح نہیں  کرتے، وہ بولے کہ بس تو ان میں  سے ہے جن پر جادو کردیا گیا ہے،  تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے، اگر تو سچوں  سے ہے تو کوئی معجزہ لے آ، آپ نے فرمایا یہ ہے اونٹنی،  پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقررہ دن کی باری پانی پینے کی تمہاری،(خبر دار!) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا  ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کرلے گا، پھر بھی انہوں  نے اس کی کوچیں  کاٹ ڈالیں  بس وہ پشیمان ہوگئے اور عذاب نے آدبوچا، بیشک اس میں  عبرت ہے اور ان میں  اکثر لوگ مومن نہ تھے،  اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست اور مہربان ہے۔

قوم عادکے بعداللہ تعالیٰ نے انہیں  خلیفہ بنایا

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ۔۔۔۝۷۴ [164]

ترجمہ:یادکرووہ وقت جب اللہ نے قوم عادکے بعدانہیں  اس کا جانشین بنایا۔

یہ قوم بھی پہاڑوں  کوکھودکرمکانات بناتی تھی۔

وَكَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ۝۸۲ [165]

ترجمہ:وہ پہاڑتراش تراش کرمکان بناتے تھے اوراپنی جگہ بالکل بے خوف اورمطمئن تھے ۔

۔۔۔ وَّبَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا۔۔۔۝۷۴  [166]

ترجمہ: اورتم کوزمین میں  یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموارمیدانوں  میں  عالی شان محل بناتے اوراس کے پہاڑوں  کومکانات کی شکل میں  تراشتے ہو۔

سیاسی طورپراس قوم کے نوسردارتھے جوبڑے ہی فسادی تھے،جیسے فرمایا

وَكَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ۝۴۸ [167]

ترجمہ:اس شہرمیں  نوجتھے دارتھے جوملک میں  فسادپھیلاتے اورکوئی اصلاح کاکام نہ کرتے تھے۔

حجرکی بستی اس راستے پرتھی جوراستہ مدینہ منورہ سے تبوک کی طرف جاتاہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا نَزَلَ الحِجْرَ فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ أَمَرَهُمْ أَنْ لاَ یَشْرَبُوا مِنْ بِئْرِهَا، وَلاَ یَسْتَقُوا مِنْهَافَقَالُوا: قَدْ عَجَنَّا مِنْهَا وَاسْتَقَیْنَا، فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَطْرَحُوا ذَلِكَ العَجِینَ، وَیُهَرِیقُوا ذَلِكَ المَاءَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب غزوہ تبوک میں  (جاتے ہوئے) مقام حجر میں  اترے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہاں  کے کنویں  کا پانی نہ تو پئیں  اور نہ (مشکوں  وغیرہ میں ) بھر کر رکھیں ،صحابہ رضوان اللہ اجمین نے عرض کیا ہم نے تو اس پانی سے آٹا گوندھ لیا اور اس سے بھر کر بھی رکھ لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  آٹا پھینک دینے اور پانی بہا دینے کا حکم دیا۔[168]

صالح   علیہ السلام  کی قوم ثمود جوحجازکے شمال میں  مقام حجرپرسکونت پذیرتھی اور قوم عادکی طرح بت پرستی میں  مبتلاتھی،انہوں  نے بھی رسولوں  کوجھٹلایا،صالح   علیہ السلام  نے قوم کو طاغوت کی بندگی سے روکااورانہیں اللہ کی خالقیت وحدانیت، الوہیت اور ربوبیت کا درس دیااور اپنی اتباع کرنے کوکہا،جیسے فرمایا

وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا۝۰ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ هُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۝۶۱ [169]

ترجمہ: اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو !اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں  ہے وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں  تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ  ، یقینا ًمیرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤ ں  کا جواب دینے والا ہے ۔

اورقوم کوکہاکہ اگرتم کفروشرک سے بازنہ آئے توتمہاراٹھکاناعذاب جہنم ہےجہاں  تم اپنے اعمال پرافسوس کروگے مگراس وقت کاپچھتاوا لاحاصل ہوگا،جیسے فرمایا:

وَلِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۶اِذَآ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ۝۷ۙتَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۝۰ۭ كُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ۝۸ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹ وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰  [170]

ترجمہ:جن لوگوں  نے اپنے رب سے کفرکیا ہے ان کے لئے جہنم کاعذاب ہے اوروہ بہت براٹھکاناہے ،جب وہ اس میں  پھینکے جائیں  گے تواس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں  گے اوروہ جوش کھارہی ہوگی،شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی،ہربارجب کوئی گروہ اس میں  ڈالاجائے گااس کے کارندے ان لوگوں  سے پوچھیں  گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردارکرنے والانہیں  آیاتھا؟وہ جواب دیں  گے ہاں  خبردارکرنے والاہمارے پاس آیاتھامگرہم نے اسے جھٹلا دیا اورکہااللہ نے کچھ بھی نازل نہیں  کیاہے تم بڑی گمراہی میں  پڑے ہوئے ہو ،کہیں  گے کاش !ہم سنتے یاسمجھتے توآج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں  میں  شامل نہ ہوتے ،اس طرح وہ اپنے قصورکا خوداعتراف کرلیں  گے ،لعنت ہے ان دوزخیوں  پر۔

اوراپنی قوم کو اللہ کی لازوال انگنت نعمتوں  بھری جنتوں  کی طرف دعوت دی،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ  ۔۔۔۝۱۵ [171]

ترجمہ: پرہیز گاروں  کے لئے جس جنت کاوعدہ کیاہے اس کی شان تویہ ہے کہ اس میں  پانی کی نہریں  ہیں  جوبونہیں  کرے گااوردودھ کی نہریں  ہیں  جس کامزہ نہیں  بدلے گا اور شراب کی نہریں  ہیں  جوپینے والوں  کے لئے لذت ہے اورنہریں  ہیں  صاف صاف شہدکی اوراس میں  ان کے لئے ہرقسم کے پھل ہیں  اوران کے پروردگارکی طرف سے مغفرت ہے۔

اور اپنی رسالت کے بارے میں کہامیں  ایک امانت داررسول ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ جوہدایت نازل فرمائے میں  اسے من وعن تم لوگوں  تک پہنچادوں لہذاتم اللہ سے ڈرواوربے خوف وخطرمیری اتباع کرو،میں  اس وعظ ونصیحت کے لئے تم سے کسی مال ودولت یا مرتبہ کاطالب نہیں  ہوں  میرے اس کام کابے بہاصلہ تورب العالمین کے ذمہ ہے،جس نے مجھے تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے مبعوث کیاہےمگرقوم نے اس خوشخبری کوکوئی اہمیت نہ دی اور صالح   علیہ السلام کامذاق اڑایا اورکہا

قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ۝۶۲ [172]

ترجمہ: انہوں  نے کہااے صالح ! اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایساشخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں  ،کیاتوہمیں  ان معبودوں  کی پرستش سے روکناچاہتاہے جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے تھے؟ توجس طریقہ کی طرف ہمیں  بلارہاہے اس کے بارے میں  ہم کوسخت شبہ ہے جس نے ہمیں  خلجان میں  ڈال رکھاہے۔

صالح   علیہ السلام  نے قوم سے کہاکیااللہ سے کفروشرک اورمیری رسالت کاانکار کرنے کے باوجوداللہ کی بے شمار نعمتوں  اورآسائشوں  سے اس طرح استفادہ کرتے رہو گے ؟ان سرسبزو شاداب باغوں  اورچشموں  میں ؟ان انواع و اقسام کے اجناس پیداکرنے والے کھیتوں  اورکھجورکے گھنے نخلستانوں  میں  جن کے خوشے پھلوں  کی زیادتی سے بوجھل ہو رہے ہیں  اور پھل نرمی اور رطوبت کی وجہ سے پھٹے پڑتے ہیں ؟کیااللہ تعالیٰ تم سے ان نعمتوں  کاکبھی حساب نہیں  لے گا؟ اور اللہ کی عبادت کو چھوڑکرتم اپنے معبودان باطلہ کے سامنے جومراسم عبودیت بجا لاتے ہو کیاان کی بازپرس نہیں  کی جائے گی ؟اس لئے اس ہولناک وقت سے پہلے اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لاؤ ،میری اطاعت کرو اور اللہ کا شکر اداکرو جس نے یہ بے شمارنعمتیں  تمہیں  عطاکررکھی ہیں ،اورتم اپنی بڑائی اوردولت کی نمائش کے لئے بلا ضرورت میدانی علاقوں  میں  بڑے بڑے قصرتعمیرکرتے ہواور عظمت اورقوت کے مظاہرے کے لئے چٹانوں  کوفن کارانہ مہارت سے تراش تراش کر ان میں  عمارتیں  بناتے ہو جس میں  کوئی نفع نہیں  بلکہ اس کاوبال تمہارے سروں  پرمنڈلارہاہے،جیسے فرمایا

وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۝۹۠ۙ [173]

ترجمہ: اور ثمودکے ساتھ جنہوں  نے وادی میں  چٹانیں  تراشی تھیں  ۔

 ۔۔۔تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا۔۔۔۝۰۝۷۴  [174]

ترجمہ:آج تم اس کے ہموار میدانوں  میں  عالی شان محل بناتے ہواوراس کے پہاڑوں  کومکانات کی شکل میں  تراشتے ہو۔

لہذااللہ کے عذاب سے ڈرواوربے چوں  وچراں میری پیروی کرو،اوران ظالم اور فسق وفجورمیں  مبتلا رؤ سااور سرداروں  کی اتباع نہ کروجوکفروشرک کے داعی اور دعوت حق کی مخالفت میں  پیش پیش ہیں ،جواللہ کی زمین میں  اصلاح کے بجائے فساد پھیلاتے ہیں  ،مگرقوم کے سرداروں نے صالح   علیہ السلام  کی دعوت پرکان دھرنے کے بجائے انہیں  جھوٹا قرار دیا،جیسے فرمایا:

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ۝۲۳فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ۝۰ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۲۴ءَ اُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ هُوَكَذَّابٌ اَشِرٌ۝۲۵  [175]

ترجمہ:ثمودنے تنبیہات کوجھٹلایااورکہنے لگے ایک اکیلاآدمی جوہم ہی میں  سے ہے کیااب ہم اس کے پیچھے چلیں  ،اس کا اتباع ہم قبول کرلیں  تواس کے معنی یہ ہوں  گے کہ ہم بہک گئے اورہماری عقل ماری گئی ،کیاہمارے درمیان بس یہی ایک شخص تھاجس پراللہ کا ذکر نازل کیا گیا نہیں ،بلکہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا اور برخودغلط ہے۔

اورنخوت وغرورمیں  ان کے پیروکاروں  سے ٹھٹھہ مخول شروع کردیا،جیسے فرمایا

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ۝۰ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۷۵قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۝۷۶ [176]

ترجمہ:اس کی قوم کے سرداروں  نے جوبڑے ہوئے تھے ،کمزورطبقہ کے ان لوگوں  سے جو ایمان لے آئے تھے کہاکیاتم واقعہ یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے پیغمبرہیں  ، انہوں  نے جواب دیابیشک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیاہے اسے ہم مانتے ہیں  ،ان بڑائی کے مدعیوں  نے کہاجس چیز کو تم نے ماناہے ہم اس کے منکرہیں ۔

اورقوم کے سرخیل افرادنے دعوت حق کوخاموش کر دینے کے لئے صالح کوقتل کرنے کامنصوبہ تیارکیا،جیسے فرمایا

وَكَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ۝۴۸قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللهِ لَـنُبَیِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۴۹  [177]

ترجمہ:اس شہر میں  نوجتھے دار تھے جوملک میں  فسادپھیلاتے اورکوئی اصلاح کاکام نہ کرتے تھےانہوں  نے آپس میں  کہا اللہ کی قسم کھاکرعہدکرلوکہ ہم صالح   علیہ السلام اوراس کے گھر والوں  پرشبخون ماریں  گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں  گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پرموجودنہ تھے ہم بالکل سچ کہتے ہیں  ۔

مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خبیث منصوبہ کوکامیاب نہ ہونے دیا،آخرقوم کے لوگوں  نے کہااے صالح !تم بظاہرہمارے جیسے ایک انسان ہوہم تجھے اللہ کاپیغمبرکیسے تسلیم کر لیں  اورہماراخیال ہے کہ توایک سحرزدہ آدمی ہے،اگرتم اپنے دعویٰ میں  سچے ہوکہ واقعی رب العالمین نے تجھے ہماری طرف مبعوث کیاہے تواپنی صداقت کے ثبوت میں  کوئی نشانی پیش کرو،صالح   علیہ السلام  نے یہ سوچ کر کہ شایداللہ کی نشانی کودیکھ کریہ لوگ ایمان لے آئیں  اللہ رب العزت سے دعامانگی،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی دعاکوشرف قبولیت بخشا اور یکایک ان کی آنکھوں  کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک دس ماہ کی گابھن اونٹنی کوایک چٹان سے ظاہر کر کے ان کے سامنے کھڑی کردیا کہ اب اس واضح نشانی کودیکھنے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق ایمان کاراستہ اپناتے ہیں  یاتکذیب کرتے ہیں  ،اوراللہ علام الغیوب نے کہہ دیا کہ نشانی طلب کرنے والوں  کاانجام کیا ہوتا ہے ،اے صالح   علیہ السلام صبر کے ساتھ دیکھتے چلے جاؤ یہ اس قوم کی آخری مہلت ہے شایدیہ ہماری پکڑ سے ڈر جائیں  اورنصیحت حاصل کریں ،ہم نشانیاں  اس لئے توبھیجتے ہیں  تاکہ لوگ ڈرجائیں  ،جیسے فرمایا:

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ۝۰ۭ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا۝۰ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۝۵۹  [178]

ترجمہ:ہم کونشانیاں  بھیجنے سے کسی نہیں  روکامگراس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کوجھٹلاچکے ہیں (چنانچہ دیکھ لو) ثمودکوہم نے علانیہ اونٹنی لاکردی اورانہوں  نےاس پر ظلم کیاہم نشانیاں  اسی لیے توبھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں  دیکھ کرڈریں ۔

صالح   علیہ السلام  نے دو سخت شرطیں  لگاتے ہوئے کہا یہ اللہ کی اونٹنی ہےایک دن یہ اکیلی اونٹنی تمہارے کنوؤ ں  اورچشموں  سے پانی پیئے گی اورایک دن تم سب آدمی اورتمہارے جانور پئیں  گے ، دوسری شرط لگائی کہ اللہ کی یہ نشانی تمہارے کھیتوں ،باغوں  اورنخلستانوں  میں  اورچراگاہوں  میں  جوکچھ چاہے گی کھاتی پھرے گی مگرتم اسے بری نیت سے ہرگزنہ چھیڑنااورنہ نقصان پہنچاناورنہ ایک بڑے دن کاعذاب تم کوآلے گا،مگراپنی منہ مانگی نشانی کودیکھ کربھی قوم ثمود کفرو شرک پرگامزن رہی ،عرب کے مخصوص حالات میں  یہ ایک بہت بڑاچیلنج تھا،پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے قبائل میں خون خرابہ ہوجاتا تھااس لئے قوم کے سرکش سرداراس بندش کوزیادہ دن برداشت نہ کر سکے،قوم بھی ان کے موافق ہو گئی اورانہوں  نے اونٹنی کے ہاتھوں  اورپیروں  کوزخمی کردیااورجب وہ بیٹھ گئی تواسے قتل کردیا،جیسے فرمایا

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ۝۲۹ [179]

ترجمہ: آخر کاران لوگوں  نے اپنے آدمی کوپکارااور اس نے اس کام کا بیڑااٹھایااوراونٹنی کومارڈالا۔

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ۝۱۱۠ۙاِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا۝۱۲۠ۙفَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ نَاقَةَ اللهِ وَسُقْیٰهَا۝۱۳ۭ [180]

ترجمہ: ثمودنے اپنی سرکشی کی بناپر جھٹلایا جب اس قوم کاسب سے شقی آدمی بپھر کراٹھاتواللہ کے رسول نے ان لوگوں  سے کہا خبرداراللہ کی اونٹنی کوہاتھ نہ لگانا اور اس کے پانی پینے میں  مانع نہ ہونامگرانہوں  نے اسکی بات کوجھوٹاقراردیااوراونٹنی کومارڈالا۔

توصالح   علیہ السلام نے قوم کوخبردارکیاکہ اب جبکہ تم نے اللہ کی اونٹنی کوہلاک کردیاہے تواب تین دن کے بعداللہ کے عذاب کے منتظررہو،جیسے فرمایا

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ۝۶۵   [181]

ترجمہ:مگرانہوں  نے اونٹنی کومارڈالااس پرصالح   علیہ السلام نے ان کوخبردارکردیاکہ بس اب تین دن اپنے گھروں  میں  اوررہ بس لویہ ایسی معیاد ہے جوجھوٹی ثابت نہ ہوگی۔

اس کے بعد جب واقعی عذاب کی علامتیں  ظاہرہونا شروع ہوگئیں  تووہ اظہارندامت کرنے لگےلیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعدندامت اورتوبہ کاکوئی فائدہ نہیں ، آخر تین دن کے بعدرات کے پچھلے پہرصبح کے قریب جب وہ لوگ پاؤ ں  پسارے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ایک زبردست دھماکاہوااوراس کے ساتھ زوردار زلزلہ آیا ،جس نے لمحوں  میں  پوری قوم کو پیوندخاک کردیا ، جیسے فرمایا

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَ۝۸۳ۙفَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۸۴ۭ [182]

ترجمہ:آخرکارایک زبردست دھماکے نے ان کوصبح ہوتے آلیا اوران کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔

وَفِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ۝۴۳فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَهُمْ یَنْظُرُوْنَ۝۴۴فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ۝۴۵ۙ [183]

ترجمہ: اور (تمہارے لئے نشانی ہے)ثمودمیں  جب ان سے کہاگیاتھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلومگراس تنبیہ پر بھی انہوں  نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی ، آخر کاران کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کوآلیاپھرنہ ان میں  اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرسکتے تھے ۔

وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۶۷ۙكَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا۔۔۔۝۰۝۶۸ۧ [184]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جنہوں  نے ظلم کیاتھاتوایک سخت دھماکے نے ان کودھرلیااوروہ اپنی بستیوں  میں  اس طرح بے حس وحرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویاوہ وہاں  کبھی بسے ہی نہ تھے۔

فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ۝۳۰اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱  [185]

ترجمہ: پھردیکھ لوکیساتھامیراعذاب اورکیسی تھیں  میری تنبیہات،ہم نے ان پربس ایک ہی دھماکاچھوڑااوروہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہ گئے ۔ یقیناًاس میں  ایک نشانی ہے مگران میں  سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں  ہیں  اورحقیقت یہ ہے کہ تیرارب زبردست بھی ہے اوررحیم بھی۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٦٠﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٦١﴾‏ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٦٢﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٦٣﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٦٤﴾‏ أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٦٥﴾‏ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ ‎﴿١٦٦﴾‏ قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَهِ یَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِینَ ‎﴿١٦٧﴾‏ قَالَ إِنِّی لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِینَ ‎﴿١٦٨﴾‏ رَبِّ نَجِّنِی وَأَهْلِی مِمَّا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٦٩﴾‏ فَنَجَّیْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٧٠﴾‏ إِلَّا عَجُوزًا فِی الْغَابِرِینَ ‎﴿١٧١﴾‏ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِینَ ‎﴿١٧٢﴾‏ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهِم مَّطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ ‎﴿١٧٣﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٧٤﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٧٥﴾‏(الشعراء)
قوم لوط نے بھی نبیوں  کو جھٹلایا ان سے ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ کا خوف نہیں  رکھتے ؟  میں  تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں ، پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،میں  تم میں  سے اس پر کوئی بدلہ نہیں  مانگتا میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو تمام جہان کا رب ہے، کیا تم جہان والوں  میں  سے مردوں  کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو اور تمہاری جن عورتوں  کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے ،  انہوں  نے جواب دیا کہ اے لوط ! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا، آپ نے فرمایا میں  تمہارے کام سے  سخت ناخوش ہوں ، میرے پروردگار ! مجھے اور میرے گھرانے کو اس (وبال) سے بچا لے جو یہ کرتے ہیں ، پس ہم نے اسے اور اس کے متعلقین کو سب کو بچالیابجز ایک بڑھیا کے وہ پیچھے رہ جانے والوں  میں  ہوگئی، پھر ہم نے باقی اور سب کو ہلاک کردیا اور ہم نے ان پر خاص قسم کا مینہ برسایا پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں  پر برسا، یہ ما جرہ بھی سراسر عبرت ہے ان میں  سے بھی اکثر مسلمان نہ تھے، بیشک تیرا پروردگار وہی غلبے والا مہربانی والا۔

أرسل الله لوطاً إلى المدائن الخسمن، وهی: سدوم، وعمورا، وأدموتا، وصاعورا، وصابورا

مسودی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نےلوط علیہ السلام کو مدین کے شہروں  سدوم،عمورا،ادموتا،صاعورااورصابوراکی طرف بھیجا۔[186]

لوط   علیہ السلام نے اپنی قوم کودل نشین پیرایہ میں  معقولیت اورلطافت سے دعوت توحید پیش کی ،اللہ کی وحدانیت،قدرت واختیار اورربوبیت کے دلائل بیان کیے ،باطل معبودوں  کی بے بسی اورلاچاری کاذکرکیا ،اپنی رسالت کاذکرکیاکہ مجھے اس رب نے اپنی رحمت سے صراط مستقیم پرچلاکر(جس کی روشنی میں  اپناراستہ واضح طورپردیکھ رہاہوں ) تمہاری خیرخواہی اورمتنبہ کرنے کے لئے تمہاری طرف مبعوث کیاہے تاکہ میں  تمہیں   اللہ کی طرف دعوت دوں ، اس کے فرمان کو پوری امانت ودیانت کے ساتھ تم لوگوں  تک پہنچا دوں  ، اے میری قوم !  اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ دعوت پرفہم وفراست سے غوروفکر کرو اس میں  تمہاری فلاح ہے، اور یہ نہ سمجھناکہ مجھے تم سے کسی منصب یامال وزرکی تمنا ہے اورنہ ہی میں کسی نذرونیاز کا طالب ہوں ، میرے پیش نظرتو تمہاری دینی اور دنیاوی سعادت وفلاح مقصودہے ،مجھے تم لوگوں  سے کچھ بھی نہیں  چاہیے ،مجھے جوکچھ بھی چاہناہوتاہے میں  رب سے مانگتاہوں  جس کے خزانوں  میں  کسی شئے کی کمی نہیں  ہے ، جو میری ندا کوسنتا ہے اورپھرمجھے میری ضرورت سے وافر عطا کردیتا ہے ، میرے اس کام کااجرتووہ روز آخرت پورا پورا دے دے گا، اے لوگو! یہ کیا راہ بدتم نے اختیارکی ہوئی ہے کہ فطرت کے ساتھ غداری اورخیانت کاارتکاب کرتے ہو،اپنے آپ کونسل اور خاندان کی خدمت سے نااہل بناتے ہو  اللہ تعالیٰ نے فطری طورپرتمہاری شہوانی خواہش کے لئے معلوم و معروف طریقے کے لئے تمہاراجوڑا عورتوں  کو بنایاہے ان سے مہر ادا کرکے نکاح کرو اور سکون وآرام حاصل کرتے ہوئے عزت وعصمت کی حفاظت کرو،ان تعلقات کو رحمت و مودت ،اور ایثارو فیاضی کے ساتھ مستحکم اور خوشگوار بناو جس پرانسانی تمدن کے قیام وبقا کاانحصارہے مگرتم لوگ اخلاق ومعاشرت کے فطری قوانین کو چھوڑ کر مردوں  کی طرف راغب ہوتے ہواورفطرت کے طریقے کوقابل التفات نہیں  سمجھتے تم تو انسانیت کے مرتبے سے ہی گرچکے ہو ، تمہارے ضمیرہی مردہ ہوچکے ہیں کہ ایسی بری حرکت عقل وشعور سے عاری جانور بھی نہیں  کرتے ،ایسی برائی جوچھپ کربھی نہیں  کرنی چاہیے تم لوگ کھلے عام اپنی مجلسوں  میں  ایک دوسرے کے سامنے سرانجام دیتے ہو اوراس پرفخرکرتے ہو،بے حیائی کا چرچا کرتے ہوے برائی کو پھیلاتے ہو،انسانی ذہن کوشہوانی جذبات سے بھڑکا کر پراگندہ کرتے ہواورتمہیں  کوئی شرمندگی یاخجالت محسوس نہیں  ہوتی، یہ توگناہ گاری کی وہ حد ہے کہ رب تمہیں  زمین میں  دھنسادے یاآسمانوں  سے پتھربرسائے ، اپنی قبیح حرکتوں  سے بازآ جاؤ   اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پرتمہیں  پیدا کیا ہے اس کو بگاڑ کر مسخ نہ کرو ،شرافت و طہارت کی زندگی گزارواوراپنی نسل کی حفاظت کرواوراپنے آپ کو اور انہیں  بھی عذاب جہنم سے بچاو ، جیسے فرمایا

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝۵۴اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ۝۵۵  [187]

ترجمہ:اورلوط کوہم نے بھیجایاد کرووہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہاکیاتم آنکھوں  دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟کیاتمہارایہی چلن ہے کہ عورتوں  کوچھوڑکرمردوں  کے پاس شہوت رانی کے لئے جاتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کاکام کرتے ہو ۔

مگر قوم نے دھمکی دیتے ہوئے کہا اے لوط ! اپنی پندونصائح سے بازآجاؤ ہمیں  تمہاری دعوت اور خیر خواہی مطلوب نہیں  ہے، اب اپنی زبان کولگام دو اور ہمارے معبودوں  کی شان میں  گستاخانہ جرات سے بازرہو،اس کے ساتھ یہ بھی یادرکھوہم اپنے جسم وجاں  کی تسکین کے لئے جوفعل بھی کررہے ہیں  اس میں  اپنی ٹانگ مت اڑاؤ اگرتم ہمارے کاموں  میں  دخل اندازی سے باز نہ آئے تو جس طرح مجرموں  کوہم اپنے علاقوں  سے نکال باہرکرتے ہیں  تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیاجائے گا جیسے فرمایا

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ۝۰ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ۝۵۶  [188]

ترجمہ:اس کی قوم کا جواب اس کے سواکچھ نہ تھاکہ انہوں  نے کہانکال دولوط کے گھروالوں  کواپنی بستی سے،یہ بڑے پاکبازبنتے ہیں ۔

لوط  علیہ السلام نے کہامیں  توتمہارے کرتوتوں  کوپسندنہیں  کرتااوراس سے سخت بیزارہوں  ، قوم نے رب کی گرفت سے ڈرکرتوبہ کی اورنہ ہی مغفرت چاہی اور نہ ہی مال حرام چھوڑا اور پھر پوری قوم نے  اللہ  تعالیٰ کی گرفت سے نڈرہوکر مطالبہ عذاب بھی کردیا،جیسے فرمایا

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ۝۰ۡمَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۸اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ۝۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَ۝۰ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۲۹  [189]

ترجمہ: لوط نے اپنی قوم سے کہاتم تووہ فحش کام کرتے ہوجوتم سے پہلے دنیاوالوں  میں  سے کسی نے نہیں  کیاکیا تمہاراحال یہ ہے کہ مردوں  کے پاس جاتے ہواوررہزنی کرتے ہواور اپنی مجلسوں  میں  برے کام کرتے ہو ، پھر کوئی جواب اس کی قوم کے پاس اس کے سوانہ تھاکہ انہوں  نے کہالے آاللہ کاعذاب اگرتوسچاہے۔

آخران فاسق وفاجرلوگوں  کے خلاف ان کے ہاتھ بارگاہ الہٰی میں  دعاکے لئے اٹھ گئے عرض کیا اے پروردگار! میں  نے تیرے حکم سے ان بدکردارلوگوں  میں  کافی وقت گزارا ہے، میں  نے اپنی ممکن کوشش کی کہ یہ کفروشرک اوربے ہودہ حرکات سے تائب ہوکرتجھ سے مغفرت مانگ لیں  مگر اب جبکہ پوری قوم نے مجھے جھٹلایادیاہے اور تیری پکڑ سے بے خوف ہوکرعذاب کامطالبہ بھی کردیا ہے تواے میرے رب! میری التجا ہے کہ مجھے اورمیرے اہل وعیال کوان کی بدکرداریوں  سے نجات دے ،جیسےفرمایا

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۝۳۰ۧ [190]

ترجمہ:لوط   علیہ السلام نے کہا اے میرے رب ! ان مفسدوں  کے مقابلے میں  میری مددفرما۔

ایک لمبے عرصہ وعظ ونصیحت کرنے کے باوجود قوم لوط   علیہ السلام  میں  سے کوئی بھی ایمان نہ لایاصرف ان کے گھروالے ہی ایمان لائے جن میں  انکی بیوی جواپنے شوہر کے کردارواعمال کی بہترین شاہدہوتی ہے شامل نہیں  تھی بلکہ اس کے عقائداورہمدردیاں  اپنی مشرک قوم کے ساتھ تھیں ، جب اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کردینے کافیصلہ فرمادیاتولوط  علیہ السلام  کو اپنے فیصلہ سے آگاکردیااورانہیں حکم دیا کہ وہ کچھ رات گزارکر اپنے گھر والوں  کولے کراس علاقہ سے نکل جائیں ،جیسے فرمایا

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْـعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِـــعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ۝۶۵وَقَضَیْنَآ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰٓؤُلَاۗءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ۝۶۶  [191]

ترجمہ:اب تم کچھ رات رہے اپنے گھروالوں  کولے کرنکل جاؤ اورخودان کے پیچھے پیچھے چلو،تم میں  سے کوئی پلٹ کرنہ دیکھے بس سیدھے چلے جاؤ  جدھر جانے کاتمہیں  حکم دیا جا رہاہے ،اوراسے ہم نے اپنایہ فیصلہ پہنچادیاکہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں  کی جڑکاٹ دی جائے گی ۔

چنانچہ اللہ کے حکم کے مطابق سب گھروالے سوائے لوط  علیہ السلام  کی بوڑھی بیوی کے جلدی جلدی صبح ہونے سے بیشتر عذاب میں  مبتلاہونے والی اس بستی سے دور نکل گئے جب لوط  علیہ السلام  اپنے گھروالوں  کے ہمراہ  بخیروعافیت اس سر زمین سے جو زلزلوں  کے اس علاقہ کے انتہائی حساس حصہ پرہے نکل گئے تو صبح کے آثار ہوتے ہی زلزلے کی ہولناک آوازنے انہیں  آدبوچااورپھران پرنشان زدہ پتھروں  کی بارش برسادی گئی جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ۝۰ۭ وَمَا هِیَ مِنَ الظّٰلِـمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۝۸۳ۧ [192]

ترجمہ:پھرجب ہمارے فیصلے کاوقت آپہنچاتوہم نے اس بستی کوتل پٹ کردیااوراس پرپکی ہوئی مٹی کے پتھرتابڑتوڑبرسائے جن میں  سے ہرپتھرتیرے رب کے ہاں  نشان زدہ تھا اور ظالموں  سے یہ سزاکچھ دورنہیں  ہے۔

یہ عظیم زلزلہ زمین کے ایک سونوے( ۱۹۰) میٹر کے فاصلے تک پھٹنے سے پیش آیا جس سے خوابیدہ آتش فشاں  ایک ہولناک دھماکے سے پھٹ پڑا اس دھماکہ کے ساتھ ،بجلی، قدرتی گیس ،آتش زدگی، اور پکے ہوئے کنکرپتھر بھی اس تباہی میں  شامل تھے جس نے پوری ہی بستی کو الٹ پلٹ کر تہ وبالا کر دیااس دوران خوابیدہ آتش فشاں  سے بے شمار مواد بہہ نکلا، خوفناک زلزلے اورآتش فشاں  کے پھٹنے کے دھماکے سے یہ زمین بحیرہ روم سے چارسو میڑ نیچے چلی گئی اورپانی اوپر ابھرآیااورایک جھیل بن گئی جس کی گہرائی چار سو میٹرہے ،آج کل اس جھیل میں  جنوبی کنارے کی طرف سفرکریں  تواس میں  جنگل جونمک کی وجہ سے محفوظ ہوگئے ہیں بڑے واضح نظرآتے ہیں  اسے بحرمیت،مردار یا بحر لوط کہتے ہیں  اس میں  نمک کافی مقدارمیں  ہے جس کی کثافت تیس فیصدہے جس میں  کوئی بھی جاندار زندہ نہیں  رہ سکتا اس جھیل کی تہہ بحیرہ روم کی سطح سے آٹھ سو میٹرنیچے ہے جو زمین میں  سب سے نچلامقام ہے جبکہ سطح سمندر سے نیچے دوسرے علاقے زیادہ سے زیادہ سو میڑنیچے ہیں  اس جھیل کی تہہ قشرارض کی گہرائیوں  میں  واقع ہے پھران پرنامزد کئے ہوئے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کا انتہائی خطرناک مینہ برسایا اور پوری قوم کولوط   علیہ السلام  کی بیوی سمیت ہلاک کردیااوررہتی دنیاتک نشان عبرت بنادیا، جیسے فرمایا

وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ۝۱۳۷ۙوَبِالَّیْلِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۳۸ۧ  [193]

ترجمہ:آج تم شب وروزان کے اجڑے دیارپرسے گزرتے ہوکیاتم کوعقل نہیں  آتی۔

محققین نے ان بستیوں  کے تباہ شدہ آثار بحرمیت کے ساحل پر ہویدا کردئے ہیں  جوزبان حال سے کہہ رہے ہیں  کہ اے  اللہ  کے بندو!ابلیس کے دھوکے میں  رہ کراس فانی دنیاکی رنگینیوں  اوردلفرینیوں  میں  مت گم ہوجاؤ ورنہ تمہارا حشر ہم سے مختلف نہیں  ہوگا ۔

یقیناًاس میں  ایک نشانی ہے مگران میں  سے اکثرلوگ ماننے والے نہیں  ہیں  اورحقیقت یہ ہے کہ تیرارب زبردست بھی ہے اوررحیم بھی۔

كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَیْكَةِ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٧٦﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٧٧﴾‏ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٧٨﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿١٧٩﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٨٠﴾‏ ۞ أَوْفُوا الْكَیْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِینَ ‎﴿١٨١﴾‏ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ‎﴿١٨٢﴾‏ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ‎﴿١٨٣﴾ وَاتَّقُوا الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٨٤﴾‏ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِینَ ‎﴿١٨٥﴾‏ وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿١٨٦﴾‏ فَأَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿١٨٧﴾‏ قَالَ رَبِّی أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٨٨﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٨٩﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١٩٠﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٩١﴾‏(الشعراء‏
ایکہ والوں  نے بھی رسولوں  کو جھٹلایا جبکہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تمہیں  ڈر خوف نہیں  ؟ میں  تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں ، اللہ کا خوف کھاؤ اور میری فرماں  برداری کرو، میں  اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں  چاہتا میرا اجر تمام جہانوں  کے پالنے والے کے پاس ہے، ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں  میں  شمولیت نہ کرو اور سیدھی صحیح ترازو سے  تولا کرو ، لوگوں  کو ان کی چیزیں  کمی سے نہ دو، بےباکی کے ساتھ زمین میں  فساد نہ مچاتے پھرو،  اس اللہ کا خوف رکھو جس نے خود تمہیں  اور اگلی مخلوق کو پیدا کیا، انہوں  نے کہا تو توان میں  سے ہے جن پر جادو کردیا جاتا ہے، اور تو تو ہم ہی جیسا ایک انسان ہے اور ہم تو تجھے جھوٹ بولنے والوں  میں  سے ہی سمجھتے ہیں ، اگر تو سچے لوگوں  میں  سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دے، کہا کہ میرا رب خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو، چونکہ انہوں  نے اسے جھٹلایا تو انہیں  سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا، یقیناً اس میں  بڑی نشانی ہے اور ان میں  کے اکثر مسلمان نہ تھے، اور یقیناً تیرا پروردگار البتہ وہی ہے غلبے والا مہربانی والا۔

اللہ تعالیٰ نے شعیب  علیہ السلام کوایک ہی نسل کی دوشاخوں اصحاب الایکہ(یعنی گنجان درختوں  والے باغات میں  بسنے والے) اورمدین کی طرف بھیجامگرانہوں  نے رسولوں  کو جھٹلایا، جیسے فرمایا

وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا۔۔۔۝۰۝۸۵ۚ [194]

ترجمہ:اورمدین والوں  کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب  علیہ السلام  کوبھیجا۔

وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا۔۔۔ ۝۸۴ [195]

ترجمہ: اورمدین والوں  کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب  علیہ السلام  کوبھیجا۔

انہوں نے منصب رسالت پرفائز ہو کرمعاندین مدین سے جہادشروع کرتے ہوئے شرک وکفرکی گمراہی میں  ڈوبے ہوئے لوگوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی اورمعبودان باطلہ جن کی قوت وطاقت سے وہ لرزہ بداندام رہتے تھے ان کی بے کسی وبے بسی کا کھلے عام پرچار کیااورفرمایااے میری قوم کے لوگو! کیا تمہیں  اپنے خالق کاکوئی خوف نہیں جو اکیلاہے، جس کاکوئی ہمسر ساجھی یاشریک نہیں ،جو تمام عیوب ونقائص اور کمزوریوں  سے پاک ہے ،اس لئے سارے ارباب اقتدار اورتمام الہوں  کے سامنے ذلت سے جھکا ہواسراٹھاؤ ،ان کی عبادات سے منہ موڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کو اپنا الٰہ اورصرف رب العالمین کواپنارب قراردو، اس کی حاکمیت اوراس کے اقتداراعلیٰ کو تسلیم کرکے اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کرو جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں  ،اس سے خوف کھاؤ  اوراس کے کامل بندے بنو ،  اللہ کے سواکوئی بھی عبادت کے لائق اورآقائی وفرمانروائی کامستحق نہیں  ،اس لئے یکسوہو کر اس کی ہی بندگی اختیار کرو اوراعتراف بندگی میں  اپنے سراس کے حضورجھکاؤ ،صرف اپنی زبان سے امناوصد قناہی نہ کہوبلکہ اس کی مخلصانہ اطاعت و فرمانبرداری کرو ،جس چیزسے روکے اس سے پرہیزکرو ،جس کام کو کرنے کاحکم دے اس کی تعمیل کروجیسے فرمایا

۔۔۔قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۔۔۔۝۰۝۸۵ۚ [196]

ترجمہ:اے بردران قوم ! اللہ کی بندگی کرواس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں  ہے۔

اور میری اطاعت کرومیں  تمہارا بے لوث خیرخواہ ہوں ، اس خیرخواہی پرمیں تم سے کسی اجرت ،عہدہ اورنہ ہی کسی قسم کاکوئی لالچ رکھتا ہوں ،میں  یہ پاکیزہ دعوت کسی ذاتی غرض یا کسی دنیاوی مفادکے لئے نہیں  پیش کرتا بلکہ میری تمام تر کوششیں صرف  اللہ تعالیٰ کا دین تم تک پہنچانے کے لئے ہے ، میرے اس کام کا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے جس نے مجھے مبعوث فرماکردعوت ہدایت تم لوگوں  تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے،کیونکہ قوم میں  بت پرستی کے ساتھ ساتھ چنداخلاقی بیماریاں  بھی تھیں ،وہ ناپ تول میں  کمی کرتے اوررہزنی بھی کرتے تھے اس لئے اخلاقی تعلیم دی کہ پیمانے ٹھیک بھرواورکسی کو گھاٹا نہ دو،صحیح ترازو سے تولواور لوگوں  کوان کی چیزیں  کم نہ دو، زمین میں  فسادنہ پھیلاتے پھرواس ذات کا خوف کروجس نے تمہیں  اور گذشتہ نسلوں  کو پیدا کیا ہے،جیسے فرمایا

وَیٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـیَاۗءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۸۵بَقِیَّتُ اللهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۸۶  [197]

ترجمہ:اوراے برداران قوم!ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پوراناپواورتولو اورلوگوں  کوان کی چیزوں  میں  گھاٹانہ دیاکرو اور زمین میں  فسادنہ پھیلاتے پھرو،اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہترہے اگرتم مومن ہو۔

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ۔۔۔۝۸۶ [198]

ترجمہ:اور زندگی کے ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ ۔

اللہ وحدہ لاشریک کا خوف کروجس نے تمہیں  اورگذشتہ نسلوں  کوپیدا کیا ہے،قوم نے کہااے شعیب! تومحض ایک سحرزدہ آدمی ہے جس پرہمارے معبودوں  کی شان میں  گستاخی کرنے کی وجہ سے پھٹکارپڑگئی ہے اس لئے تو ہذیانی کیفیت میں  باتیں  کرتاہے، اورتم ہماری طرح کے انسان ہواس لئے تمہارے اندرایسی کوئی فضیلت نہیں  ہے جس کی بنا پر تورسالت کے شرف سے مشرف ہوجائے اورجوتووحی ورسالت کادعویٰ کرتاہے توہم تجھے اس میں  بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں  اگرتوسچا ہے کہ اللہ نے تجھے رسول بناکرہماری طرف بھیجا ہے توثبوت کے طورپر توہم پرآسمان کاکوئی ٹکڑا گرا دے ،

قریش نے بھی یہی کہاتھا

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [199]

ترجمہ:اوریہ بات بھی یادہے جوانہوں  نے کہی تھی کہ خدایااگریہ واقعی حق ہے تیری طرف سے توہم پرآسمان سے پتھربرسادے یاکوئی دردناک عذاب ہم پرلے آ۔

شعیب  علیہ السلام  نے کہاعذاب نازل کرنایامعجزات دکھانا میراکام نہیں  اورنہ میں  ایسا کام کرسکتا ہوں ،میراکام تواللہ کاپیغام پوری امانت ودیانت کے ساتھ تم تک پہنچادیناہے،عذاب نازل کرنایامعجزہ ظاہرکرنااللہ رب العالمین کے اختیارمیں  ہے ،وہ تمہارے کفروشرک سے خوب باخبرہے اگراس کی حکمت ومشیت ہوئی توعذاب نازل کردے گاورنہ آخرت کے عذاب سے تم بچ نہ سکوگے ،جب قوم نے شعیب  علیہ السلام  کی دعوت کومکمل طورپرردکردیاتو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق اہل ایمان کوبستی سے نکل جانے کو کہا جیسے فرمایا

فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ۝۰ۚ فَكَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۝۹۳ۧ [200]

ترجمہ:اورشعیب  علیہ السلام  یہ کہہ کران کی بستیوں  سے نکل گئے کہ اے برادران قوم! میں  نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں  پہنچادئے اورتمہاری خیرخواہی کاحق اداکردیاہے اب میں  اس قوم پرکیسے افسوس کروں  جوقبول حق سے انکارکرتی ہے۔

جب تم اہل ایمان دیادکفرسے باہرنکل گے تو اللہ تعالیٰ نے دونوں  قبیلوں  کی طرف ان کی مانگ وخواہش وطلب کے نتیجے میں  مختلف شکلوں  میں  عذاب بھیجے، اصحاب الایکہ نے آسمانی عذاب مانگاتھااس لئے  اللہ  تعالیٰ نے ان پرآندھی بھیجی جس سے ان کی حرکتیں  بند ہوگئیں ایک بادل بھیج دیااوروہ چھتری کی طرح ان پر چھاکر اس وقت تک آگ برساتارہا جب تک ان کو بالکل تباہ نہ کردیااوراصحاب مدین کو ایک زمینی بھونچال کے ساتھ زوردار چنگھاڑنے آلیاجس کی ہولناکی سے ان کے دل کلیجے پھٹ گئے اوران کی آوازیں  بندہوگئیں  ،صبح ہوئی توسب لوگ جن کواپنی طاقت وقوت پرفخروغرورتھا رب سے مانگے ہوئے معمولی سے عذاب کونہ روک سکے اوروہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا، یقیناً اس میں  ایک نشانی ہے مگران میں  سے اکثرلوگ ماننے والے نہیں  ہیں  اورحقیقت یہ ہے کہ تیرارب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔

وَإِنَّهُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٩٢﴾‏ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ ‎﴿١٩٣﴾‏ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ ‎﴿١٩٤﴾‏ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِینٍ ‎﴿١٩٥﴾‏ وَإِنَّهُ لَفِی زُبُرِ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٩٦﴾‏ أَوَلَمْ یَكُن لَّهُمْ آیَةً أَن یَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿١٩٧﴾‏ وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَىٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِینَ ‎﴿١٩٨﴾‏ فَقَرَأَهُ عَلَیْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِینَ ‎﴿١٩٩﴾‏ كَذَٰلِكَ سَلَكْنَاهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٢٠٠﴾‏ لَا یُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّىٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ ‎﴿٢٠١﴾‏ فَیَأْتِیَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٢٠٢﴾‏ فَیَقُولُوا هَلْ نَحْنُ مُنظَرُونَ ‎﴿٢٠٣﴾(الشعراء
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن)رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے، آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کردینے والوں  میں  سے ہوجائیں ، صاف عربی زبان میں  ہے، اگلے نبیوں  کی کتابوں  میں  بھی اس قرآن کا تذکرہ ہے، کیا انہیں  یہ نشانی کافی نہیں  کہ حقانیت قرآن کو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں ، اور اگر ہم کسی عجمی شخص پر نازل فرماتے پس وہ ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے، اسی طرح ہم نے گنہگاروں  کے دلوں  میں  اس انکار کو داخل کردیا ہے، وہ جب تک دردناک عذابوں  کو ملاحظہ نہ کرلیں  ایمان نہ لائیں  گے، پس وہ عذاب ان کو ناگہاں  آ جائے گا انہیں  اس کا شعور بھی نہ ہوگا اس وقت کہیں  گے کہ کیا ہمیں  کچھ مہلت دی جائے گی؟ ۔

سورۂ کے آغازمیں  کتاب مبین کاذکرکیاگیاتھااوراس کے بعدجن قوموں  نے سرکشی دکھائی ان کاانجام ذکرکیاگیااب سلسلہ کلام کودوبارہ اسی جگہ سے شروع فرمایاکہ یہ کتاب مبین جس کی یہ لوگ محض فخروغروراورہٹ دھرمی کی وجہ سے تکذیب کررہے ہیں  رب العالمین نے قیامت تک کے لئے لوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کی ہے ، اس کلام کوفرشتوں  میں  سب سے افضل ،سب سے طاقتوراورامانت دارجبرائیل  علیہ السلام  نے فرشتوں  کی کڑی حفاظت میں  لاکرتمہارے دل پروحی کی ہےاس لئے یہ ہرطرح کی ملاوٹ سے پاک ہے ،جیسے فرمایا:

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللهِ ۔۔۔۝۹۷ [201]

ترجمہ:کہہ دے کہ جوکوئی دشمن ہے جبریل  علیہ السلام  کاتواسے معلوم ہوکہ اسی نے یہ قرآن اللہ کے حکم سے تیرے دل پرنازل کیاہے ۔

تاکہ توان لوگوں  میں  شامل ہوجو( اللہ کی طرف سے اللہ کی مخلوق کو)کفروشرک اور بداعمالوں  سے ڈرانے اورایمان اورعمل صالحہ پرخوشخبری دینے والے ہیں ،یہ کلام صاف اور فصیح عربی زبان میں  ہے،اس کلام کوہم نے آسان بنایاہے جسے ہرکوئی باآسانی سمجھ سکتاہے ،جیسے فرمایا

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲ [202]

ترجمہ:ہم نے اسے نازل کیاہے قرآن بناکرعربی زبان میں  تاکہ تم(اہل عرب) اس کواچھی طرح سمجھ سکو۔

 وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِیًّا۔۔۔۝۰۝۳۷ۧ [203]

ترجمہ:اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیاہے ۔

قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّـقُوْنَ۝۲۸ [204]

ترجمہ :ایساقرآن جوعربی زبان میں  ہے جس میں  کوئی ٹیڑھ نہیں  ہے تاکہ یہ برے انجام سے بچیں ۔

اس کتاب مبین کی تعلیمات نئی نہیں  ہیں  بلکہ سابقہ آسمانی کتب میں  بھی یہی تعلیمات موجود ہیں  ،اگراہل مکہ آسمانی کتب سے ناآشناہیں  توان کے گردوپیش کے علاقوں میں  بنی اسرائیل کے اہل علم موجود ہیں  ، اوروہ اچھی طرح جانتے ہیں  کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے کتابیں  نازل کی تھیں  اوران میں  جوتعلیمات دی تھیں  یہ کلام بھی اسی ہستی کانازل کر دیا ہے اورانہی تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اہل مکہ کی ہٹ دھرمی کاحال تویہ ہے کہ محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  انکی زبان میں  یہ کلام پڑھ کرسناتے ہیں  توکہتے ہیں  کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خودتصنیف کرلیاہے ،لیکن اگرہم اس فصیح وبلیغ آخری کتاب کوبطورمعجزہ کسی غیراہل زبان پربھی نازل کردیتے تویہ(قریش) کہتے کہ اس کی زبان ہماری سمجھ میں  نہیں  آتی ،اورکہتے بڑی ہی عجیب بات ہے کہ عربوں  کی طرف عجمی زبان میں  کتاب نازل کی گئی ہے جوہماری زبان میں  نہیں ،جیسے فرمایا:

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ۝۰ۭؔ ءَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ۔۔۔۝۰۝۴۴ۧ [205]

ترجمہ:اگرہم اس کوعجمی قرآن بناکربھیجتے تویہ لوگ کہتے کیوں  نہ اس کی آیات کھول کربیان کی گئیں  ؟ کیاہی عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اورمخاطب عربی۔

اوروہ عجمی ان کے سامنے فصیح عربی کلام پڑھ کر سناتا تب بھی یہ مختلف بہانے تراشتے اور ایمان نہ لاتے ،جیسےفرمایا

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِیْنٌ۝۷ [206]

ترجمہ: اگر ہم تیرے اوپرکاغذمیں  لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کردیتے اوریہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں  سے چھوکربھی دیکھ لیتے توجن لوگوں  نے نہیں  مانا وہ کہتے ہیں  کہ یہ توکھلا جادو ہے ۔

ایک اورمقام پرمشرکین کی حالت یوں  بیان فرمائی

 وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَ۝۱۴ۙلَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۝۱۵ۧ [207]

ترجمہ:اوراگرہم ان پرآسمان کاکوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں  چڑھنے لگتے تویہ کہتے کہ ہماری آنکھوں  کو دھوکاہورہاہے بلکہ ہم پرجادوکردیاگیاہے۔

وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ۝۱۱۱ [208]

ترجمہ:اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں  کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں  کو ہم ان کی آنکھوں  کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے ، اِلا یہ کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو (کہ یہ ایمان لائیں ) مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں  کرتے ہیں ۔

اس عظیم کلام کوسن کریہ مشرکین محض بغض وعنادمیں  اس کے مضامین ،پاکیزہ تعلیمات اور تکذیب کرنے والی قوموں  کے عبرت ناک واقعات پرغوروتدبرنہیں  کرتے بلکہ اس کی تردیدکے حربے ڈھونڈھنے لگتے ہیں  ،یہ لوگ اس وقت تک اللہ وحدہ لاشریک کی ذات وصفات واعمال ،تمہاری رسالت اور اس منزل کلام پرایمان نہیں  لائیں  گے جب تک کہ تباہ شدہ اقوام جیسے عذاب الیم میں  مبتلانہ ہو جائیں  ، مگرجب اللہ کا درد ناک عذاب بے خبری میں  اچانک مشرکین پرآ پڑتا ہے تومشاہدہ عذاب کے بعد انہیں  یقین آجاتاہے کہ رسولوں  نے سچ کہاتھا،اس وقت وہ حسرت وافسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتے ہیں  کاش! ہمیں  ایمان لانے اورعمل صالح کرنے کی کچھ گھڑیاں  مزیدمل جائیں  ،جیسے فرمایا

وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِـــعِ الرُّسُلَ۔۔۔۝۴۴ۙ  [209]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! اس دن سے تم انہیں  ڈراؤ جب کہ عذاب انہیں  آلے گا اس وقت یہ ظالم کہیں  گے کہ اے ہمارے ربّ!ہمیں  تھوڑی سے مہلت اور دیدے ہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں  گے اور رسولوں  کی پیروی کریں  گے۔

ایک انہی پرکیاموقوف ، ہرظالم وفاسق عذاب کودیکھتے ہی سیدھاہوجاتاہے،جیسے فرعون عذاب الٰہی میں  گرفتارہواتوفوراًکہنے لگا

۔۔۔حَتّٰٓی  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰ [210]

ترجمہ: جب فرعون ڈوبنے لگاتوبول اٹھامیں  نے مان لیاکہ خداوندحقیقی، اس کے سواکوئی نہیں  ہے جس پربنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں  بھی سراطاعت جھکادینے والوں  میں  سے ہوں ۔

مگراللہ نے ہر قوم اورہرانسان کو مہلت کاایک وقت مقرر کر رکھا ہےجب وہ گھڑیاں ختم ہوجاتی ہیں  تو پھر مزیدوقت نہیں  دیاجاتا۔ جیسے فرمایا

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَحْدَہٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِہٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ  [211]

ترجمہ: جب انہوں  نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں  ان سب معبودوں  کا جنھیں  ہم شریک ٹھیراتے تھے ،مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعدان کاایمان ان کے لئے کچھ بھی نافع نہ ہوسکتاتھاکیوں  کہ یہی اللہ کامقررضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں  میں  جاری رہاہے اوراس وقت کافر لوگ خسارے میں  پڑگئے۔

فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَؕ۰۰۲۰۰لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَۙ۰۰۲۰۱ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا یُمَتَّعُونَ ‎﴿٢٠٧﴾‏ وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْیَةٍ إِلَّا لَهَا مُنذِرُونَ ‎﴿٢٠٨﴾‏ ذِكْرَىٰ وَمَا كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿٢٠٩﴾‏ وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیَاطِینُ ‎﴿٢١٠﴾‏ وَمَا یَنبَغِی لَهُمْ وَمَا یَسْتَطِیعُونَ ‎﴿٢١١﴾‏ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ‎﴿٢١٢﴾(الشعراء)
پس کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ، اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں  کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا پھر انہیں  وہ عذاب آلگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھےتو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں  سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا،  ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں  کیا ہے مگر اسی حال میں  کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے نصیحت کے طور پر اور ہم ظلم کرنے والے  نہیں  ہیں ، اس قرآن کو شیطان نہیں  لائے نہ وہ اس قابل ہیں  نہ انہیں  اس کی طاقت ہے بلکہ وہ سننے سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں ۔

کیونکہ قریش عذاب کوتسلیم ہی نہیں  کرتے تھے اس لئے پچھلی قوموں  کی طرح وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوچیلنج کرتے تھے کہ اگرتواپنے دعویٰ میں  سچاہے تولے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں  ڈراتے ہو،اس کے جواب میں  فرمایاکہ یہ لوگ ہمارے دردناک عذاب کوہیچ سمجھ کرعذاب کی جلدی مچارہے ہیں ،یایہ گمان رکھتے ہیں  کہ ہم عذاب نازل کرنے کی قدرت نہیں  رکھتے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت سے فوراًان پرعذاب نازل نہ کرے اور انہیں  دنیاکی دلفریبیوں  اور رنگینیوں  سے تمتع کرنے کوایک لمبی مہلت دے دے اورپھرقوم عادوثمود،قوم لوط اوراصحاب الایکہ جیساعذاب ان پراچانک ٹوٹ پڑے توان کی یہ حیثیت ومرتبہ اوروہ سامان زیست جوان کوملا ہوا ہےجس پریہ اتراتے ہیں  ان کے کس کام آئے گا؟ کیاوہ انہیں  اللہ کے عذاب سے بچاسکے گا؟نہیں  یقینا ًنہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یَوَدُّ اَحَدُ ھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ۝۰ۚ وَمَا ھُوَبِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ۔۔۔  ۝۹۶ۧ [212]

ترجمہ: ان میں  سے ایک ایک شخص یہ چاہتاہے کہ کسی طرح ہزاربرس جئے ،حالانکہ لمبی عمر بہرحال اسے عذاب سے تودورنہیں  پھینک سکتی۔

وَمَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗٓ اِذَا تَرَدّٰى۝۱۱ۭ [213]

ترجمہ:اور اس کا مال آخراس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے؟ ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَةً، ثُمَّ یُقَالُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟   هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِیمٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ،وَیُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا، مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیُصْبَغُ صَبْغَةً فِی الْجَنَّةِ، فَیُقَالُ لَهُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ مَا مَرَّ بِی بُؤْسٌ قَطُّ، وَلَا رَأَیْتُ شِدَّةً قَط

انس بن  مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقیامت کے روزاہل دوزخ میں  سے اس شخص کولایاجائے گاجودنیاداروں  میں  آسودہ تراورخوش عیش تھاپھرآگ میں  ایک غوطہ دلواکر پوچھا جائے گااے آدم کے بیٹے!کیا تونے دنیامیں  کبھی راحت بھی اٹھائی تھی؟ کیا تجھے کبھی کوئی نعمت بھی ملی تھی، تووہ کہے گااللہ کی قسم! اے میرے رب! میں  نے کبھی کوئی راحت نہیں  دیکھی ،اوراہل جنت میں  سےایک شخص کولایاجائے گاجودنیامیں  سب لوگوں  سے سخت تکلیف میں  رہاتھااسے جنت میں  ایک بارغوطہ دیا جائے گا اورپھراس سے پوچھاجائے گااے آدم کے بیٹے! کیاتونے کبھی کوئی تکلیف بھی دیکھی ہے ؟ کیاتجھ پرشدت اوررنج بھی گزراہے؟ تووہ کہے گا اللہ کی قسم!مجھ پرتوکبھی تکلیف نہیں  گزری اورمیں  نے توکبھی شدت اورسختی نہیں  دیکھی۔[214]

(دیکھو)اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی قوم کواس وقت تک ہلاک نہیں  کرتا جب تک کہ ان میں  کوئی خبردار کرنے والانہ بھیج دے،مگرجب قوموں  نے رسولوں  کی دعوت حق کو قبول نہ کیاتوہم نے انہیں  صفحہ ہستی سے مٹاکررہتی دنیاتک نشان عبرت بنادیا،جیسے فرمایا

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَـــقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًا۝۱۶ [215]

ترجمہ:اور ہم عذاب دینے والے نہیں  ہیں  جب تک کہ (لوگوں  کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ،جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں  تو اس کے خوشحال لوگوں  کو حکم دیتے ہیں  اور وہ اس میں  نافرمانیاں  کرنے لگتے ہیں  تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں  ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں  ۔

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا۝۰ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِی الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ۝۵۹  [216]

ترجمہ:اورتیرارب بستیوں  کوہلاک کرنے والانہ تھاجب تک کہ ان کے مرکزمیں  ایک رسول نہ بھیج دیتاجوان کو ہماری آیات سناتااورہم بستیوں  کوہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے ۔

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۔۔۔۝۰۝۱۶۵ [217]

ترجمہ:یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اورڈرانے والے بناکر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کومبعوث کردینے کے بعدلوگوں  کے پاس اللہ کے مقابلے میں  کوئی حجت نہ رہے ۔

کیونکہ قریش اس دعوت حق کوروکنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پریہ الزام لگاتے تھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں  اور کوئی شیطان ان کی طرف یہ کلام القاکرتاہے اس کے جواب میں  فرمایاکہ اس کتاب مبین کوشیاطین لے کرنہیں  اترے ہیں  ، کیاشیاطین جن کاکام لوگوں  کوشرک کی غلاظت میں  غرق کرنا،لوگوں  میں  شروفسادکی آگ بھڑکانا،قتل وغارت پرابھارنا،فسق وفجور کی طرف رغبت دلانا اور آخرت کی بازپرس سے بے خوف کرناہے وہ لوگوں  کو شرک وبت پرستی سے روکیں  گے ،ظلم اوربداخلاقیوں  سے منع کریں  گے،آخرت کی بازپرس کاخوف دلائیں  گے، نیکو کاری اورراستبازی اور اللہ کی مخلوق پراحسان کی تلقین کریں  گے گویادونوں  ایک دوسرے کی ضداورباہم منافی ہیں ،اور

شیا طین اگرراستبازی اورنیکی کی تعلیم القاکرنابھی چاہیں  تواس کی طاقت بھی نہیں  رکھتے ،جیسے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے جن و انس کوچیلنج دیا

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا۝۸۸ [218]

ترجمہ:کہہ دوکہ اگرانسان اورجن سب کے سب مل کراس قرآن جیسی کوئی چیزلانے کی کوشش کریں  تونہ لاسکیں  گے ،چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگارہی کیوں  نہ ہوں ۔

۔۔۔قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸  [219]

ترجمہ:کہواگرتم اپنے اس الزام میں  سچے ہو تو ایک سورۂ اس جیسی تصنیف کرلاؤ اورایک اللہ کو چھوڑ کرجس جس کوبلاسکتے ہومددکے لئے بلالو ۔

اورشیاطین تواس کلام کے آس پاس بھی نہیں  پھٹک سکتے کہ کچھ سن گن لے پائیں  اوراپنے دوستوں  کوبتلاسکیں ۔

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ ‎﴿٢١٣﴾‏ وَأَنذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ ‎﴿٢١٤﴾‏ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢١٥﴾‏ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٢١٦﴾‏ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ ‎﴿٢١٧﴾‏ الَّذِی یَرَاكَ حِینَ تَقُومُ ‎﴿٢١٨﴾‏ وَتَقَلُّبَكَ فِی السَّاجِدِینَ ‎﴿٢١٩﴾‏ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٢٢٠﴾(الشعراء)
پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں  میں  سے ہوجائے ،اپنے قریبی رشتہ والوں  کو ڈرا دے، اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ جو بھی ایمان لانے والا ہو کر تیری تابعداری کرے، اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں  تو اعلان کر دے  کہ میں  ان کاموں  سے بیزار ہوں  جو تم کر رہے ہو، اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ، جو تجھے دیکھتا رہتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں  کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی ،وہ بڑا ہی سننے والا اور خوب ہی جاننے والا ہے۔

کفارومشرکین کومتنبہ کرنے کے لئے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکونہ پکارواگرتم بھی اللہ کے سواکسی اورکومعبودکی حیثیت سے پکاربیٹھوگے تواللہ کی پکڑ سے بچ نہ سکوگے ،یعنی اگررسول بھی جواللہ کوسب سے بڑھ کرعزیزومحبوب ہوتاہے شرک میں  مبتلاہوکراللہ کے عذاب سے نہیں  بچ سکتے توکوئی دوسرااللہ کی ذات وصفات و اعمال میں  شرک کرکے کیسے نجات کی امیدکر سکتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ۔۔۔[220]

ترجمہ:جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھیرایااس پراللہ نے جنت حرام کردی اوراس کاٹھکاناجہنم ہے ۔

اپنے قریب ترین رشتہ داروں  کوآخرت کے المناک عذاب سے صاف صاف متنبہ کرو، کیونکہ دین میں  نبی اوراس کے خاندان کے لئے کوئی امتیازی مراعات نہیں  ہیں ،اس لئے میدان محشرمیں کسی کانسب اورکسی کے ساتھ تعلق کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گا ،اس روز معاملہ ایمان اورعمل صالح کی بنیاد پرہوگا،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ {وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ} [221]قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّفَا، فَقَالَ:یَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، یَا صَفِیَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَیْئًا، سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِئْتُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب آیت ’’اپنے قریب ترین رشتہ داروں  کوڈراؤ ۔‘‘ نازل ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہاڑی پرچڑھ کراپنی قوم کودعوت توحیددی تھی اس وقت فرمایاتھااے فاطمہ رضی اللہ عنہا  بنت محمد،اے صفیہ رضی اللہ عنہا  بنت عبدالمطلب ،اے عبدالمطلب کے بیٹو!میں  اللہ کے سامنے تم کونہیں  بچاسکتاالبتہ میرے مال میں  سے تم جوجی چاہے مانگ لو۔[222]

اور جو لوگ اللہ وحدہ لاشریک پر،تمہاری رسالت ، آسمانی کتابوں ،فرشتوں ،تقدیر اور روز آخرت پر ایمان لے آئیں  اور تمہاری پیروی اختیارکریں  ان کے ساتھ محبت ومودت ،حسن اخلاق اوراحسان کارویہ اختیارکرو ،لیکن اگر وہ تمہاری فرمانبرداری سے منہ موڑیں  توان سے بے تعلقی اوراپنی بیزاری کااظہارکردواورصاف صاف کہہ دوکہ میراکام تمہیں  متنبہ کر دینا ہے اس کے بعدتمہارے کسی فعل کی ذمہ داری مجھ پرنہیں  ہے اپنے اعمال کانتیجہ تم خودبھگتوگے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۔۔۔۝۱۳۹ۙ [223]

ترجمہ:ہمارے اعمال ہمارے لیے تمہارے اعمال تمہارے لیے ۔

۔۔۔اَللہُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۭ لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۝۱۵ۭ [224]

ترجمہ: اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی،ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں  اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! اس امت میں  سے جس کے کان میں  میری رسالت کی بات پڑ جائے خواہ یہودی ہویانصرانی ،پھروہ مجھ پرایمان نہ لائے توضروروہ جہنم میں  جائے گا۔[225]

اورکسی بڑی سے بڑی طاقت کی ذرہ بھرپرواہ نہ کرو اوراس غالب اوررحیم ہستی پربھروسہ کروجوتمہیں  اس وقت دیکھ رہاہوتاہے جب تم اٹھتے بیٹھتے اور راتوں  کوتنہائی میں نماز کے لئے اٹھتے ہو اورقیام ،رکوع وسجودمیں  مصروف ہوتے ہو،اوراللہ تعالیٰ اس تمام دوڑدھوپ اورتگ ودوسے بخوبی واقف ہے جوآپ سجدہ گزار ساتھیوں  کی معیت میں  اس کے بندوں  کی اصلاح کے لئے کررہے ہیں  ، جیسے فرمایا

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا۔۔۔۝۴۸ۙ [226]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے رب کافیصلہ آنے تک صبرکروتم ہماری نگاہ میں  ہو۔

وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ۔۔۔۝۶۱ [227]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جس حال میں  بھی ہوتے ہو اور قرآن میں  سے جو کچھ بھی سناتے ہواور لوگوتم بھی جو کچھ کرتے ہو اس سب کے دوران میں  ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں  ۔

اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اورجاننے والاہے۔

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ ‎﴿٢٢١﴾‏ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِیمٍ ‎﴿٢٢٢﴾‏ یُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ‎﴿٢٢٣﴾‏ وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ‎﴿٢٢٤﴾‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِی كُلِّ وَادٍ یَهِیمُونَ ‎﴿٢٢٥﴾‏ وَأَنَّهُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ ‎﴿٢٢٦﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِیرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ ‎﴿٢٢٧﴾‏(الشعراء)
کیا میں  تمہیں  بتاؤں  کہ شیطان کس پر اترتے ہیں ، وہ ہر جھوٹے گناہ گار پر اترتے ہیں  ،  (اچٹتی) ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں  اور ان میں  سے اکثر جھوٹے ہیں  ،شاعروں  کی پیروی وہ کرتے ہیں  جو بہکے ہوئے ہوں ، کیا آپ نے نہیں  دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں  سر ٹکراتے پھرتے ہیں  اور وہ کہتے ہیں  جو کرتے نہیں ، سوائے ان کے جو  ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، جنہوں  نے ظلم کیا ہے  وہ بھی ابھی جان لیں  گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بات کاردکرتے ہوئے فرمایالوگو!کیامیں  تمہیں  بتاؤ ں  کہ شیاطین کس پراتراکرتے ہیں ؟شیطان انبیاء وصالحین پرنہیں  وہ تو کاہن ،جوتشی ،فال گیر، رمال اورعامل قسم کے لوگ جوغیب دانی کاڈھونگ رچاتے پھرتے ہیں  پراترتا ہے،اورجوکچھ باتیں  کسی طرح چوری چھپے سن لینے میں  کامیاب ہوجاتے ہیں  اور آکران کاہنوں  کوبتلادیتے ہیں اوروہ اپنی طرف سے بہت ساجھوٹ ملاکرلوگوں  کے کانوں  میں  پھونکتے پھرتے ہیں ،

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سَأَلَ أُنَاسٌ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الكُهَّانِ،فَقَالَ:إِنَّهُمْ لَیْسُوا بِشَیْءٍ،فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَإِنَّهُمْ یُحَدِّثُونَ بِالشَّیْءِ یَكُونُ حَقًّا قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ الكَلِمَةُ مِنَ الحَقِّ یَخْطَفُهَا الجِنِّیُّ، فَیُقَرْقِرُهَا فِی أُذُنِ وَلِیِّهِ كَقَرْقَرَةِ الدَّجَاجَةِ، فَیَخْلِطُونَ فِیهِ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےبعض لوگوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کاہنوں  کے بارے میں  سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ کچھ نہیں  ہیں ،انہوں  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !بعض اوقات تووہ ٹھیک بات بتادیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ ٹھیک بات جوہوتی ہے اسے کبھی کبھارجن لے اڑتے ہیں  اورجاکراپنے دوست کے کان میں  پھونک دیتے ہیں  پھروہ اس کے ساتھ جھوٹ کی بہت سی آمیزش کرکے ایک داستان بنالیتا ہے۔[228]

رہے شعراء توان کے پیچھے گمراہ لوگ چلاکرتے ہیں ،کیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ وہ شاعرانہ تخیلات میں  آوارہ سرگشتہ بھٹکتے پھرتے ہیں  اورذاتی پسندوناپسندکے مطابق کبھی کسی مدح میں  آسمان وزمین کے قلابے ملاتے ہیں اور کبھی کسی کی مذمت میں  آسمان زمین سرپراٹھاتے ہیں ، کبھی یہ صدق کے بارے میں  باتیں  کرتے ہیں  اورکبھی کذب کے بارے میں  اوران کے قول وفعل میں  سخت تضادہوتاہے ،وہ دوسروں  کووہ  باتیں  کرنے کوکہتے ہیں  جوخود نہیں  کرتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَیْحًا یَرِیهِ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا

سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہما سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرکسی مردکاپیٹ پیپ سے بھرجائے یہاں  تک کہ اس کے پھیپھڑے تک جاپہنچے،یہ اس کے حق میں  بہترہے اپنے پیٹ میں  شعربھرنے سے۔[229]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ کاہن ہیں  اورنہ شاعر،اس لئے کہ یہ دونوں  ہی جھوٹے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ [230]

ترجمہ:ہم نے اس (نبی) کوشعرنہیں  سکھایاہے اورنہ شاعری اس کوزیب ہی دیتی ہے یہ توایک نصیحت ہے اورصاف پڑھی جانے والی کتاب ۔

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ۝۴۰ۙۚوَّمَا هُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۝۴۱ۙوَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۴۲ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۳ [231]

ترجمہ:یہ ایک رسول کریم کاقول ہے کسی شاعرکاقول نہیں  ہے تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو،اورنہ یہ کسی کاہن کاقول ہے تم لوگ کم ہی غورکرتے ہو،یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔

بجزان لوگوں  کے جوایمان لائے اورجنہوں  نے نیک عمل کیے اور اللہ کوکثرت سے یادکیااور جن کی شاعری کذب ومبالغہ سے پاک اور صداقت اور حقائق پرمبنی ہے ، جیسے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ  جوکافروں  کی ہجویہ شاعری کا جواب دیاکرتے تھے ،

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِحَسَّانَ: اهْجُهُمْ  أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِیلُ مَعَكَ

اوربراء بن عازب سے مروی ہےخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  حسان  رضی اللہ عنہ  کو فرماتے تھے ان (کافروں ) کی ہجو بیان کروجبرائیل  علیہ السلام  بھی تمہارے ساتھ ہیں  ۔[232]

كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ فِی الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ:إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاهِدُ بِسَیْفِهِ وَلِسَانِهِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَكَأَنَّ مَا تَرْمُونَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ

کعب بن مالک شاعر سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اشعار سے مشرکین کی مذمت بیان کیا کرو، مسلمان اپنی جان اور مال دونوں  سے جہاد کرتا ہےاس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی جان ہے، تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہو ایسا لگتا ہے کہ تم ان پر تیروں  کی بوچھاڑ برسا رہے ہو۔ [233]

جب ان پرظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا اورظلم کرنے والوں  کوعنقریب معلوم ہوجائے گاکہ وہ کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں ۔

[1] الکہف ۶

[2] فاطر۸

[3] الذاریات۲۰،۲۱

[4] یونس۹۹

[5] ھود۱۱۸،۱۱۹

[6] یٰسین۳۰

[7] الزخرف۶،۷

[8] المومنون۴۴

[9] الشعراء ۲۲۷

[10] الواقعة۷۱،۷۲

[11] یٰسین۳۳ تا۳۵

[12] یوسف۱۰۳

[13] یونس۸۳

[14] طہ۲۵تا۳۰

[15] القصص ۳۴

[16] القصص۳۵

[17] القصص ۳۸

[18] طہ۴۹

[19] الاخلاص۱تا۴

[20] الزخرف۸۱

[21] النسائ۱۷۱

[22] الانعام۱۰۱

[23] مریم۳۵

[24] المومنون۹۱

[25] الصافات۱۵۱،۱۵۲

[26] یونس۶۸

[27] القصص۸۸

[28] البقرة۲۵۵

[29] الفرقان۵۹

[30] السجدة۴

[31] لقمان۱۰

[32] الرعد۲

[33] الرعد۲

[34] الحدید۴

[35] طہ۵

[36] نوح۱۶

[37] النبا۱۳

[38] الصافات۶

[39] الملک۵

[40]حم السجدة۱۲

[41] یونس۵

[42] البقرة۱۸۹

[43] الانعام۹۷

[44] الرحمٰن۱۹،۲۰

[45] الفرقان۵۳

[46] النمل۶۱

[47] ابراہیم۳۲

[48] بنی اسرائیل۶۶

[49] لقمان۳۱

[50] الجاثیة۱۲

[51] النحل۶۵

[52] الرعد۴

[53] الانعام۹۹

[54] النحل۱۵

[55] الانبیاء ۳۱

[56] لقمان۱۰

[57] فاطر۲۷

[58] النحل۴۸،۴۹

[59] الحج۱۸

[60] بنی اسرائیل۴۴

[61] الانبیاء ۱۹

[62] النور۴۱

[63] الحج۶۵

[64] لقمان۲۰

[65] الجاثیة۱۲

[66] الحجر۲۶،۲۷

[67] الرحمٰن۱۴،۱۵

[68] التغابن۳

[69] المومن۶۴

[70] التین۴

[71] السجدة۷

[72] الشمس۸

[73] الرعد۲۶

[74] بنی اسرائیل ۳۰

[75] العنکبوت۶۲

[76] سبا۳۶

[77] آل عمران۲۶

[78] النحل۷۰

[79] الحج۵

[80] البقرة۱۱۷

[81] آل عمران۴۷

[82] النحل۴۰

[83] الانبیاء ۲۳

[84] یوسف۲۱

[85] التوبة۷۸

[86] الانعام۵۹

[87] الحدید۴

[88] المومن۱۹

[89] الزلزلہ۷،۸

[90] ق۳۸

[91] الجاثیة۶

[92] الصافات۱۲۵،۱۲۶

[93] الرحمٰن۱۷

[94] البقرة۲۸۵

[95] التوبة۳۲

[96] الصف۸

[97] طہ۶۵،۶۶

[98] الانبیاء۱۸

[99] بنی اسرائیل۸۱

[100] الاعراف۱۱۸تا۱۲۲

[101] الاعراف۱۲۳

[102] التوبة۱۲۰

[103] ھود۱۱۵

[104] یوسف۹۰

[105] السلسلة الصحیحة۳۱۳،مستدرک حاکم۴۰۸۸، صحیح ابن حبان۷۲۳،مسندابی یعلی ۷۲۵۴،مجمع الزوائد۱۷۳۴۸

[106] تفسیرابن ابی حاتم۲۷۷۳؍۸

[107] تفسیرابن کثیر۱۱۴۴؍۶

[108] الانبیاء ۵۲

[109] مریم۸۱،۸۲

[110] الانعام۸۰

[111]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۳۷، ۴۴۳۸

[112] مسنداحمد۱۵۴۹۲،مستدرک حاکم ۱۸۶۸،السنن الکبری للنسائی ۱۰۳۷۰

[113] الصافات۱۰۸تا۱۱۱

[114] مریم۴۷

[115] ابراہیم۴۱

[116] التوبة۱۱۴

[117] صحیح بخاری  کتاب سورۂ الشعراء وکتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ۳۳۵۰،مستدرک حاکم ۲۹۳۶،شرح السنة للبغوی ۴۳۰۹

[118] تفسیرطبری۳۶۶؍۱۹،تفسیرابن ابی حاتم۲۷۸۳؍۸

[119]  تفسیر البغوی۱۱۹؍۶

[120] الاعراف ۳۸

[121] حم السجدة۲۹

[122]الاحزاب ۶۷،۶۸

[123] ص۶۴

[124] الاعراف۵۳

[125] الزخرف۶۷

[126] الاعراف۵۳

[127]الانعام۲۸

[128] المومنون۲۳

[129] نوح۳،۴

[130] نوح۱۰تا۱۹

[131] القمر۹

[132]المومنون ۲۴

[133] ھود۲۷

[134] الرعد۲۶

[135] ھود۲۹،۳۰

[136] البقرة۲۵۶

[137] نوح۲۳

[138] ھود۲۶

[139]ھود ۳۲ تا۳۴

[140] نوح ۲۶تا۲۸

[141]القمر۱۰

[142] ھود۳۶

[143] الاعراف۶۹

[144] الاعراف۶۹

[145] الفجر۸

[146] الفجر۶،۷

[147] حم السجدة۱۵

[148] ھود۵۹

[149] ھود۵۰

[150]ھود ۵۱

[151] الاعراف۶۶

[152] لقمان۱۳

[153] ھود۵۲

[154] ھود۵۳

[155] الانعام۲۵

[156] النحل۲۴

[157]الاعراف۷۰

[158] الاحقاف ۲۲

[159] حم السجدة ۱۶

[160] الاحقاف۲۴،۲۵

[161] القمر۱۹،۲۰

[162] الذاریات  ۴۱، ۴۲

[163]الحاقة ۶تا ۸

[164] الاعراف۷۴

[165] الحجر۸۲

[166] الاعراف۷۴

[167] النمل۴۸

[168] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا۳۳۷۸

[169]ھود۶۱

[170]الملک۶تا۱۰

[171] محمد۱۵

[172] ھود۶۲

[173] الفجر۹

[174] الاعراف ۷۴

[175] القمر۲۳تا۲۵

[176] الاعراف۷۵،۷۶

[177] النمل۴۸،۴۹

[178] بنی اسرائیل۵۹

[179] القمر۲۹

[180] الشمس۱۱تا۱۳

[181] ھود۶۵

[182] الحجر۸۳،۸۴

[183] الذاریات۴۳تا۴۵

[184] ھود ۶۷ ،۶۸

[185] القمر۳۰، ۳۱

[186]مروج الذہب ومعادن الجوھر للمسعودی ۴۲؍۱

[187] النمل۵۴،۵۵

[188] النمل۵۶

[189] العنکبوت۲۸،۲۹

[190] العنکبوت۳۰

[191] الحجر۶۵،۶۶

[192] ھود۸۲،۸۳

[193] الصافات ۱۳۷، ۱۳۸

[194] الاعراف ۸۵

[195] ھود۸۴

[196] الاعراف۸۵

[197] ھود۸۵،۸۶

[198] الاعراف۸۶

[199] الانفال ۳۲

[200] الاعراف ۹۳

[201] البقرة۹۷

[202] یوسف۲

[203] الرعد۳۷

[204] الزمر۲۸

[205] حم السجدة۴۴

[206] الانعام۷

[207] الحجر۱۴،۱۵

[208]  الانعام۱۱۱ 

[209] ابراہیم۴۴

[210] یونس۹۰

[211]المومن ۸۴،۸۵

[212] البقرة۹۶

[213] الیل۱۱

[214]صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ صَبْغِ أَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا فِی النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّهِمْ بُؤْسًا فِی الْجَنَّةِ۷۰۸۸ ، مسنداحمد۱۳۱۱۲

[215] بنی اسرائیل۱۵،۱۶

[216] القصص۵۹

[217] النسائ۱۶۵

[218] بنی اسرائیل ۸۸

[219] یونس۳۸

[220] المائدة۷۲

[221] الشعراء: 214

[222] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ۵۰۳،جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی إِنْذَارِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْمَهُ۲۳۱۰، مسند احمد۲۵۰۴۴،صحیح ابن حبان۶۵۴۸،السنن الکبری للبیہقی۱۲۶۴۹،شرح السنة للبغوی۳۷۴۳

[223] البقرة۱۳۹

[224] الشوری۱۵

[225] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۶، مسند احمد ۸۲۰۳،شرح السنة للبغوی ۵۶

[226] الطور۴۸

[227] یونس۶۱

[228] صحیح بخاری کتاب التوحید الجھمیة بَابُ قِرَاءَةِ الفَاجِرِ وَالمُنَافِقِ، وَأَصْوَاتُهُمْ وَتِلاَوَتُهُمْ لاَ تُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ ۷۵۶۱، وکتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ إِبْلِیسَ وَجُنُودِهِ۳۲۸۸،صحیح مسلم کتاب السلام  بَابُ تَحْرِیمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْیَانِ الْكُهَّانِ۵۸۱۷،مسنداحمد۲۴۵۷۰،صحیح ابن حبان ۶۱۳۶

[229] جامع ترمذی ابواب الاداب بَابُ مَا جَاءَ لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَیْحًا خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًاا ۲۸۵۱،صحیح مسلم کتاب الشعرباب فی انشادالاشعاروبیان اشعر۔۔۔۵۸۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ مَا كُرِهَ مِنَ الشِّعْرِ۳۷۶۰،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَیْحًا خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا  ۲۸۴۹،مسنداحمد۱۵۰۶،مسندابی یعلی ۷۹۷

[230] یٰسین۶۹

[231] الحاقة۴۰تا۴۳

[232] صحیح بخاری کتاب بدہ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۱۳،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل حسان بن ثابت ۶۳۸۷،مسنداحمد۱۸۶۵۰،السنن الکبری للنسائی ۵۹۸۰،السنن الکبری للبیہقی ۲۱۱۰۴،شرح السنة للبغوی ۳۴۰۷

[233] مسنداحمد۲۷۱۷۴، صحیح ابن حبان ۵۷۸۶،السنن الکبری للبیہقی ۲۱۱۰۸،شرح السنة للبغوی ۳۴۰۹

Related Articles