بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ الروم

سورہ کے شروع میں  سلطنت روم جوعروج پرتھی مشرک ایرانیوں  کے ہاتھوں  شکست اورپھردوبارہ غلبہ کی عظیم پیش گوئی کی گئی جوحرف بحرف سچی ثابت ہوئی ، رومیوں  نے نو سالوں  میں  ایرانیوں  کے جاہ وجلال کواپنے پیروں  تلے روندڈالااورسلطنت ایران کے قلب میں  رومی جھنڈاگاڑدیا ،انسانوں  کو بتایا گیاکہ عقیدہ آخرت سے لاتعلقی کی بناپر انسان غلط اندازے لگاکران پراندھااعتمادکرلیتاہےحالانکہ عقیدہ آخرت کسی بھی انسان کوسیدھے راستے پر چلانے  کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے،پھر توحید کی تعلیم دے کرشرک جوفطرت سلیمہ کے برعکس ہے کی نفی کی گئی، اللہ کے وجوداوراس کی وحدانیت کا لمبا ذکرہے پھربارش کی مثال دی گئی کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اوراس میں  ہرابھراسبزالہلہانے لگتاہے بالکل ایسے ہی جب انسان رب کی رحمت میں  آجاتاہے توپھراس انسان سے ہرطرف خیرو نیکی ہی پھیلتی ہے ، اس لئے بزرگوں  کے خودساختہ رسم ورواج اورمذہب سے تائب ہوکر اسلام کے دائرہ میں  داخل ہوکررب سے اپنے گناہوں  لغزشوں  کی توبہ کرلینی چاہیے ورنہ موت کے بعدتوتوبہ نہیں  کی جاسکتی جس کانتیجہ رب کاہولناک دائمی عذاب ہے،منکرین آخرت کی ذلت ورسوائی کاذکرہے کہ وہاں  کوئی سفارشی کام نہ آئے گا ، اعمال صالحہ میں  ایمان ، اعمال صالحہ، مصیبتوں  پر صبر، مساکین ویتیموں  اورقرابت داروں  کے حقوق کی وضاحت فرمائی گئی اور کفریہ باطل اعمال سے بچنے کی تلقین فرمائی، اس کے علاوہ فرقہ واریت کی مذمت فرمائی ،سود اور زکواة کافرق واضح کیاگیا۔

غلبہ روم اورغلبہ اسلام ،دومعجزاتی پیشگوئیاں :

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے آٹھ سال پہلے کاواقعہ ہے کہ قیصرماریسMauricکے خلاف بغاوت ہوئی اورایک شخص فوکاس Fhocasتخت سلطنت پرقابض ہوگیااس شخص نے پہلے توقیصرکی آنکھوں  کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں  کوقتل کرایاپھرخودقیصرکوقتل کراکرباپ بیٹوں  کے سر قسطنطنیہ میں  برسرعام لٹکوادیے اوراس کے چندروزبعداس کی بیوی اورتین لڑکیوں  کوبھی مرواڈالا،اس واقعہ سے ایران کے بادشاہ خسروپرویزکوروم پرحملہ آورہونے کے لئے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا،قیصرماریس اس کامحسن تھااسی کی مدد سے پرویزکوایران کاتخت نصیب ہواتھااسے وہ اپناباپ کہتاتھااس بناپراس نے اعلان کیاکہ میں  غاصب فوکاس سے اس ظلم کابدلہ لوں  گاجواس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈھایاہے۔۶۰۳ء میں  اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کاآغازکیااورچندسال کے اندروہ فوکاس کی فوجوں  کوپے درپے شکستیں  دیتاہواایک طرف ایشائے کوچک میں  ایڈیسا(موجودہ اورفا)تک اوردوسری طرف شام میں  حلب اورانطاکیہ تک پہنچ گیا،روم کے اعیان سلطنت یہ دیکھ کرکہ فوکاس ملک کونہیں  بچاسکتاافریقہ کے گورنرسے مددکے طالب ہوئے ،اس نے اپنے بیٹے ہرقل Heracliusکوایک طاقت وربیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کردیاگیااس کی جگہ ہرقل قیصربنایاگیااوراس نے برسراقتدارآکرفوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیاجواس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا ، یہ ۶۱۰ء کا واقعہ ہے اوریہ وہی سال ہے جس میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پرسرفرازہوئے،خسروپرویزنے جس اخلاقی بہانے کوبنیادبناکرجنگ چھیڑی تھی،فوکاس کے عزل اورقتل کے بعدوہ ختم ہو چکا تھا ، اگر واقعی اس کی جنگ کامقصدغاصب فوکاس سے اس کے ظلم کابدلہ لیناہوتاتواس کے مارے جانےپراسے نئے قیصرسے صلح کرلینی چاہئے تھی مگراس نے پھربھی جنگ جاری رکھی اوراب اس جنگ کواس نے مجوسیت اورمسیحیت کی مذہبی جنگ کارنگ دے دیا،عیسائیوں  کے جن فرقوں  (نسطوری اوریعقوبی) کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسانے ملحد قراردے کرسالہاسال سے تختہ مشق ستم بنارکھاتھاان کی ساری ہمدردیاں  بھی مجوس حملہ آوروں  کے ساتھ ہو گئیں  ، اوریہودیوں  نے بھی مجوسیوں  کاساتھ دیاحتی کہ خسرو پرویز کی فوج میں  بھرتی ہونے والے یہودیوں  کی تعدادچھبیس ہزارتک پہنچ گئی،ہرقل آکراس سیلاب کوروک نہ سکا،تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جواسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی،اس کے بعد۶۱۳ء میں  دمشق فتح ہواپھر۶۱۴ء میں  بیت المقدس پرقبضہ کرکے ایرانیوں  نے مسیحی دنیاپرقیامت ڈھا دی،نوےہزارعیسائی اس شہرمیں  قتل کیے گئے ، ان کاسب سے زیادہ مقدس کلیسا،کینستہ القیامہHoly Sepuichre برباد کر دیا گیا،اصلی صلیب جن کے متعلق عیسائیوں  کاعقیدہ تھاکہ اسی پرمسیح نے جان دی تھی مجوسیوں  نے چھین کرمدائن پہنچادی،لاٹ پادری زکریاکوبھی وہ پکڑلے گئے اورشہرکے تمام بڑے بڑے گرجوں  کوانہوں  نے مسمار کردیااس فتح کے بعدایک سال کے اندر اندرایرانی فوجیں  اردن،فلسطین اورجزیرہ نمائے سیناکے پورے علاقے پرقابض ہوکرحدودمصرتک پہنچ گئیں ،یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ مکرمہ میں  ایک اوراس سے بدر جہازیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپاتھی،یہاں  توحیدکے علمبردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں  اورشرک کے پیروکارسرداران قریش کی رہنمائی میں  ایک دوسرے سے برسر جنگ تھے اورنوبت یہاں  تک پہنچ گئی تھی کہ ۶۱۵ء میں  مسلمانوں  کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھربارچھوڑکرحبش کی عیسائی سلطنت میں  (جوروم کی حلیف تھی)پناہ لینی پڑی ، اس وقت سلطنت روم پرایران کے غلبے کاچرچاہرزبان پرتھا،مکے کے مشرکین اس پربغلیں  بجارہے تھے اور مسلمانوں  سے کہتے تھے کہ دیکھوایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں  اوروحی ورسالت کے ماننے والے عیسائی(جوخودکوتورات وانجیل کی طرف منسوب کرتے تھے) شکست پرشکست کھاتے چلے جا رہے ہیں ،اسی طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمہیں  اورتمہارے دین کومٹاکررکھ دیں  گے،ان حالات میں  قرآن مجیدکی سورۂ روم نازل ہوئی اوراس میں  یہ پیشین گوئی کی گئی کہ قریب کی سرزمین میں  رومی مغلوب ہوگئے ہیں  مگراس مغلوبیت کے بعدچندسال کے اندرہی وہ غالب آجائیں  گے اوروہ دن وہ ہوگاجب کہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہورہے ہوں  گے، اس میں  ایک کے بجائے دوپیشین گوئیاں  تھیں  ایک یہ کہ رومیوں  کو غلبہ نصیب ہوگادوسری یہ کہ مسلمانوں  کوبھی اسی زمانے میں  فتح حاصل ہو گی ،بظاہردوردورتک کہیں  اس کے آثار موجودنہ تھے کہ ان میں  سے کوئی ایک پیشین گوئی بھی چندسال کے اندرپوری ہوجائے گی،ایک طرف مٹھی بھرمسلمان تھے جومکے میں  مارے اورکھدیڑے جارہے تھے اوراس پیشین گوئی کے بعدبھی آٹھ سال تک ان کے لئے غلبہ وفتح کا کوئی امکان کسی کونظرنہ آتا تھا، دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی،۶۱۹ء تک پورا مصرایران کے قبضہ میں  چلاگیااورمجوسی فوجوں  نے طرابلس کے قریب پہنچ کراپنے جھنڈے گاڑدیئے ، ایشیائے کوچک میں  ایرانی فوجیں  رومیوں  کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں  اور۶۱۷ء میں  انہوں  نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون  Chalcedon (موجودہ قاضی کوئی)پرقبضہ کر لیا ، قیصرنے خسروکے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں  ہرقیمت پرصلح کرنے کے لئے تیار ہوں مگراس نے جواب دیاکہ اب میں  قیصرکواس وقت تک امان نہ دوں  گاجب تک وہ پابزنجیرمیرے سامنے حاضرنہ ہواوراپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوند آتش کی بندگی نہ اختیارکرلے ،آخرکارقیصراس حدتک شکست خوردہ ہوگیاکہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ Carhage (موجودہ ٹیونس)منتقل ہو جانے کاارادہ کر لیا ، مورخ گبن کے بقول قرآن مجیدکی اس پیشین گوئی کے بعدبھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصورتک نہ کرسکتاتھاکہ رومی سلطنت ایران پرغالب آ جائے گی بلکہ غلبہ تودرکناراس وقت توکسی کویہ امیدبھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی ،

فخرج بها أبو بكر الى المشركین وقال لتظهرنّ الروم على فارس بعد بضع سنین فقال أبى بن خلف كذبت فتراهنا على عشر قلائص من كل واحد منهما وجعلا الاجل ثلاث سنین فأخبر أبو بكر رسول الله صلّى الله علیه وسلم بذلك فقال زد فى الخطر وأبعد فى الاجل فجعلا مائة قلوص الى تسع سنین

قرآن مجیدکی یہ آیات جب نازل ہوئیں  توکفارمکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اورابی بن خلف بعض روایت کے مطابق ابوجہل نے  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ  سے شرط باندھی کہ اگرتین سال کے اندررومی غالب آگئے تودس اونٹ میں  دوں  گاورنہ دس اونٹ تم کودینے ہوں  گے ،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کواس شرط کا جب علم ہواتوآپ نے فرمایاکہ قرآن میں  فِی بِضْعِ سِنِینَ کے الفاظ آئے ہیں  جن کااطلاق دس سے کم پر ہوتاہے اس لئے دس سال کے اندرکی شرط کرو اور اونٹوں  کی تعداد بڑھاکرسوکردو،چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے ابی بن خلف سے پھربات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندرفریقین میں  سے جس کی بات غلط ثابت ہوگی وہ سواونٹ دے گا،۶۲۲ء میں  سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے اور ادھر قیصرہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحراسودکے راستے طرابزون کی طرف روانہ ہواجہاں  اس نے ایران پر پشت کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کی ، اس جوابی حملے کی تیاری کے لئے قیصرنے کلیساسے روپیہ مانگااورمسیحی کلیسا کے اسقف اعظم سرجیس Sergiusنے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لئے گرجاؤ ں  کے نذرانوں  کی جمع شدہ دولت سودپرقرض دی ،ہرقل نے اپناحملہ ۶۲۳ء میں  ارمینیاسے شروع کیا اور دوسرے سال ۶۲۴ء میں  اس نے اذربائیجان میں  گھس کرزرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ Clorumiaکوتباہ کردیااورایرانیوں  کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجادی،اللہ کی قدرت کہ یہی وہ سال تھاجس میں  مسلمانوں  کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں  فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔[1]

اس طرح وہ دونوں  پیشین گوئیاں  جوسورۂ روم میں  کی گئی تھیں دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے(ساتویں  سال) بیک وقت پوری ہوگئیں ،پھرروم کی فوجیں  ایرانیوں  کو مسلسل دباتی چلی گئیں ،نینویٰ کی فیصلہ کن لڑائی ۶۲۷ء میں  انہوں  نے سلطنت ایران کی کمر توڑ دی،اس کے بعدشاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد(دسکرة الملک)کوتباہ کردیا گیا اورآگے بڑھ کر ہرقل کے لشکرعین طیسفون Ctesiphonکے سامنے پہنچ گئے جواس وقت ایران کادارالسلطنت تھا،۶۲۸ء میں  خسروپرویزکے خلاف گھرمیں  بغاوت رونما ہوئی وہ قید کیا گیا اس کی آنکھوں  کے سامنے اس کے اٹھارہ بیٹے قتل کردیئے گئے اور چند روز بعد وہ خود قیدکی سختیوں  سے ہلاک ہوگیا،یہی سال تھاجس میں  صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن فتح عظیم کے نام سے تعبیرکرتاہے،اوریہی سال تھاجس میں  خسروکے بیٹے قبادثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دست بردارہوکراوراصلی صلیب واپس کرکے روم سے صلح کرلی،۶۲۹ء میں  قیصرمقدس صلیب کواس کی جگہ رکھنے کے لئے خودبیت المقدس گیااوراسی سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  عمرة القضااداکرنے کے لئے ہجرت کے بعدپہلی مرتبہ مکہ مکرمہ میں  داخل ہوئے ، اس کے بعدکسی کے لئے بھی اس امرمیں  شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی

وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِیرٌ

عرب کے بکثرت مشرکین اس پرایمان لے آئے۔[2]

ابی بن خلف کے وارثوں  کوہارمان کرشرط کے اونٹ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے حوالے کرنے پڑے،وہ انہیں  لے کرنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے ،آپ نے حکم فرمایاکہ انہیں  صدقہ کر دیا جائے ، کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں  جوئے کی حرمت کاحکم نہیں  آیا تھا ،مگراب حرمت کاحکم آچکاتھااس لئے حربی کافروں  سے شرط کامال تولے لینے کی اجازت دے دی گئی مگرہدایت کی گئی کہ اسے خوداستعمال کرنے کے بجائے صدقہ کر دیا جائے۔[3]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الم ‎﴿١﴾‏ غُلِبَتِ الرُّومُ ‎﴿٢﴾‏ فِی أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُونَ ‎﴿٣﴾‏ فِی بِضْعِ سِنِینَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿٤﴾‏ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ یَنصُرُ مَن یَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿٥﴾‏ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٦﴾‏ یَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ ‎﴿٧﴾‏ أَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوا فِی أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ ‎﴿٨﴾(الروم)
الف، لام، میم ،رومی مغلوب ہوگئے ہیں  نزدیک کی زمین پراور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں  گے چند سال میں  ہی، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، اس روز مسلمان شادمان ہوں  گےاللہ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، اصل غالب اور مہربان وہی ہے،  اللہ کا وعدہ ہےاللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں  کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں  جانتے، وہ تو (صرف) دنیاوی زندگی کے ظاہر کو (ہی) جانتے ہیں ، اور آخرت سے تو بالکل ہی بےخبر ہیں ،کیا ان لوگوں  نے اپنے دل میں  یہ غور نہیں  کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے سے مقرر وقت تک کے لیے (ہی) پیدا کیا ہے، ہاں  اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں  ۔

 معرکہ روم وفارس :

ا،ل،م،فارس کی آتش پرست حکومت رومی عیسائی حکومت پرغالب آگئی ہے مگر اپنی اس مغلوبیت کے چند سال بعد رومی عیسائی حکومت آتش پرست ایرانیوں پرغالب آ جائیں  گے،

عَنْ نِیَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الأَسْلَمِیِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُونَ فِی بِضْعِ سِنِینَ،

فَكَانَتْ فَارِسُ یَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ قَاهِرِینَ لِلرُّومِ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ یُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَیْهِمْ لأَنَّهُمْ وَإِیَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وَفِی ذَلِكَ قَوْلُ اللهِ تَعَالَى: {وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللهِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَاءُ وَهُوَ العَزِیزُ الرَّحِیمُ} فَكَانَتْ قُرَیْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لأَنَّهُمْ وَإِیَّاهُمْ لَیْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ وَلاَ إِیمَانٍ بِبَعْثٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآیَةَ، خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ یَصِیحُ فِی نَوَاحِی مَكَّةَ {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُونَ فِی بِضْعِ سِنِینَ} قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ لأَبِی بَكْرٍ: فَذَلِكَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ، زَعَمَ صَاحِبُكَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِی بِضْعِ سِنِینَ، أَفَلاَ نُرَاهِنُكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: بَلَى، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الرِّهَانِ

نیاربن مکرم اسلمی سے مروی ہےجب یہ آیات’’الف، لام، میم ،رومی مغلوب ہوگئے ہیں  نزدیک کی زمین پراور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں  گےچند سال میں  ہی۔‘‘ نازل ہوئیں توایرانی رومیوں  پرغالب تھے اورمسلمان یہ چاہتے تھے کہ رومیوں  کو ایرانیوں  سے غلبہ حاصل ہوجائے کیونکہ یہ دونوں (مسلمان اوررومی) کتاب والے تھےاسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں  منائیں  گے،اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔‘‘اورقریش اس بات کوپسندکرتے تھے کہ ایرانی غالب آجائیں  کیونکہ یہ دونوں  اہل کتاب نہیں  تھے اورنہ ہی ان کادوبارہ زندہ کیے جانے ہی پرایمان تھا توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے مکہ مکرمہ کی گلیوں  ،بازاروں  میں  ان کی تلاوت شروع کردی ’’ا،ل،م،رومی قریب کی سر زمین میں  مغلوب ہو گئے ہیں  ،اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں  گے۔‘‘ توقریش کے کچھ لوگوں  نے ان سے کہاکہ اسی کواپنے اورتمہارے درمیان طے کرتے ہیں ، تمہارے نبی کادعویٰ ہے کہ چند سالوں  میں  رومی ایرانیوں  پرغالب آجائیں  گے توکیااس پربات پرہم آپ سے شرط نہ لگالیں ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکیوں  نہیں ،لیکن یادرہے یہ بات شرط حرام ہونے سے قبل کی ہے،

فَارْتَهَنَ أَبُو بَكْرٍ وَالمُشْرِكُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ، وَقَالُوا لأَبِی بَكْرٍ: كَمْ تَجْعَلُ البِضْعُ ثَلاَثُ سِنِینَ إِلَى تِسْعِ سِنِینَ، فَسَمِّ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ وَسَطًا تَنْتَهِی إِلَیْهِ،قَالَ: فَسَمَّوْا بَیْنَهُمْ سِتَّ سِنِینَ، قَالَ: فَمَضَتِ السِّتُّ سِنِینَ قَبْلَ أَنْ یَظْهَرُوا، فَأَخَذَ الْمُشْرِكُونَ رَهْنَ أَبِی بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَتِ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ،  فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَبِی بَكْرٍ تَسْمِیَةَ سِتِّ سِنِینَ، لأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ  فِی بِضْعِ سِنِینَ، قَالَ: وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِیرٌ

الغرض سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورمشرکین نے آپس میں  شرط رکھ لی،پھرانہوں  نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا البِضْعُ کالفظ توتین سے نوتک کے لیے استعمال ہوتاہے لہذاااپ ان میں  سے کسی ایک متوسط کانام لے کراسے متعین کردیں ،تاہم اس طرح چھ سال کی مدت کاتعین کرلیاگیا،راوی کابیان ہے کہ چھ سال گزرگئے اوررومی غالب نہ آئے توانہوں  نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے بطورشرط رکھے ہوئے مال کولے لیا،پھرجب ساتواں  سال شروع ہواتورومی ایرانیوں  پر غالب آگئے، اورچھ سال کی مدت کے تعین کی وجہ سے مسلمانوں  نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ پراعتراض کیاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو  فِی بِضْعِ سِنِینَ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے،بہرحال ساتویں  سال رومیوں  کے غلبے کودیکھ کربہت سے لوگ قرآن مجید کی اس پیش گوئی کی صداقت کی وجہ سے مسلمان ہوگئے تھے۔[4]

فرمانروائی اللہ ہی کی ہے،اس نے ہی اپنی مشیت وحکمت سے رومیوں  کوشکست اور آتش پرستوں  کوفتح نصیب کی ہے اوربعدمیں  بھی وہی آتش پرستوں  کو شکست اوررومیوں  کو فتح ونصرت سے ہمکنارکرے گا اوررومیوں  کا یہ غلبہ اس دن ہو گا جب مسلمان غزوہ بدر۶۲۴ء میں  اللہ کی بخشی ہوئی عظیم فتح پردوہری خوشیاں  منائیں  گےاورمشرکین سوگ منا رہے ہوں  گے(اوریہ قرآن مجیدکے معجزات میں  سے ایک معجزہ ہے) اللہ وحدہ لاشریک ہی عزت وغلبہ کامالک ہےوہ جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتااورذلیل ورسوا کر دیتا ہے اورجس کو چاہتاہے عزت سے سرفرازکرتاہے،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶  [5]

ترجمہ:کہو! پروردگار! ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔ جسے چاہے، عزّت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے ،بھلائی تیرے اختیار میں  ہے،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اور وہ اپنے مومن بندوں  پربہت زیادہ رحم کرنے والا ہے،یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے ،اس لئے تم اللہ کےاس وعدے پریقین رکھواوراسے حتمی سمجھواس مدت کے اندریہ وعدہ یقیناًپوراہوکررہے گا اور اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کرتا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا یُخْلِفُ اللہُ الْمِیْعَادَ۝۲۰  [6]

ترجمہ: یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کرتا۔

مگر اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کاکیاہواوعدہ حق ہے،لوگ تواللہ مسبب الاسباب پرنہیں صرف دنیاوی زندگی کے اسباب و وسائل پرہی نظررکھتے ہیں لیکن آخرت پر دلالت کرنے والے آثاروشواہد سے غافل ہیں ،

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: وَاللَّهِ لَبَلَغَ  مِنْ أَحَدِهِمْ بِدُنْیَاهُ أَنَّهُ یَقْلِبُ الدِّرْهَمَ عَلَى ظُفْرِهِ، فَیُخْبِرُكَ بِوَزْنِهِ،وَمَا یُحْسِنُ أَنْ یُصَلِّیَ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ واللہ!کئی شخص دنیاداری میں  اس قدرماہرہوتے ہیں  کہ وہ اگرچاہیں  توناخن پردرہم رکھ کراس کاوزن بتادیں   مگرانہیں  اچھے طریقے سے نمازپڑھنی نہیں  آتی۔[7]

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ:{یَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ عَنِ الآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ} یَعْنِی: الْكُفَّارُ، یَعْرِفُونَ عُمْرَانَ الدُّنْیَا  وَهُمْ فِی أَمْرِ الدِّینِ جُهَّالٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  آیت کریمہ’’لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں  اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں ۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں کافردنیااوراس کے سازوسامان کے بارے میں  توبہت کچھ جانتے ہیں  مگراموردین کے بارے میں  یہ جاہل ہیں ۔[8]

کیا تکذیب کرنے والوں  نے کبھی اپنے وجودپر غور و فکر نہیں  کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ انہیں  عدم سے وجودمیں  لایا؟اورپھرپانی کے ایک حقیرقطرے سے اس کی تخلیق کی اوراس کی نسل کوبڑھایا۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۸ۚ  [9]

ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۲۰ۙ  [10]

ترجمہ:کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں  پیدا نہیں  کیا۔

پھر اللہ نے زمین اوروسیع وعریض آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں ایک خاص مقصدکہ تمہیں  آزمائے کہ تم میں  سے کون اچھے عمل کرتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔۔۔  ۝۲ۙ   [11]

ترجمہ:تاکہ تم لوگوں  کو آزما کر دیکھے تم میں  سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔

اور ایک خاص وقت تک کے لئے پیدا کیاہے ،جیسے فرمایا

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۲  [12]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے۔

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۳  [13]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں  کو ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  برحق اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔

یعنی اگروہ اپنی تخلیق اورکائنات اوراس کے نظام پرغورکرتے جس کاذرہ ذرہ اپنے خالق کی الوہیت ، ربوبیت اورقدرت کاملہ کوبیان کررہاہے تویقینا ًاللہ تعالیٰ کے وجود،اس کی الوہیت وربوبیت اوراس کی قدرت کاملہ کاانہیں  ادراک ہوجاتااوروہ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لے آتے،مگرکائنات کے نظام میں  غوروفکر کے فقدان کی وجہ سے اکثر لوگ حیات بعدالموت اورمیدان محشرمیں  اپنے رب کی بارگاہ میں  پیش ہونے کے منکر ہیں اوراس بڑے دن کے لئے کوئی تیاری نہیں  کررہے۔

أَوَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٩﴾‏ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِینَ أَسَاءُوا السُّوأَىٰ أَن كَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿١٠﴾(الروم)
کیا انہوں  نے زمین میں  چل پھر کر یہ نہیں  دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں  کا انجام کیسا (برا) ہوا؟  وہ ان سے بہت زیادہ توانا (اور طاقتور) تھےاور انہوں  نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی،  اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے، یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم کرتا لیکن (دراصل) وہ خود اپنی جانوں  پر ظلم کرتے تھے، پھر آخرش برا کرنے والوں  کا بہت ہی برا انجام ہوا اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کو جھٹلاتے تھے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے۔

اس زمین میں بیشمار قومیں  آبادہوئیں  ،اللہ نے ہرقوم ،ہربستی میں  ان کی رشدوہدایت کے لئے انہی میں  سے رسول مبعوث فرمائے،مگرہرقوم نے یاتو آخرت کاانکار کیایااس سے غافل ہوکررہی یاحیات بعدالموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجادکرلئے جن سے آخرت کاعقیدہ بے معنی ہوکررہ گیا،اس عقیدے کے انکارسے لوگوں  کے اخلاق بگڑگئے اوروہ اپنے آپ کوغیرذمہ دارسمجھ کرشتربے مہاربن گئے اورانہوں  نے اللہ کی زمین پر ظلم وفساداورفسق وفجورکی حدکردی ،انہی عقائدبدکی بدولت قوموں  پرقومیں  تباہ ہوتی چلی گئیں ،اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو تباہ شدہ اقوام کی طرف اشارہ فرمایاکہ تم سے پہلے بھی اس زمین پرلوگ آبادتھے جوتم سے زیادہ دولت مند،زیادہ جسمانی طاقت وقوت کے حامل اورزیادہ معاشی ذرائع ووسائل کے مالک تھے،تم توکھیتی باڑی سے ناآشناہومگران اقوام نےبہت زیادہ زراعت وکاشتکاری کی اورخوب پیداوارحاصل کی تھی ، انہوں  نےزمین میں  پوشیدہ معدنیات سے بھی فائدہ اٹھایاتھا،ان اقوام نے بڑے پیمانے پر عظیم الشان تعمیری کام کیے تھے اور ایک شاندارتمدن کوجنم دیا تھا ،انہوں  نے دنیا کے ملکوں  میں  بڑی فتوحات حاصل کی تھیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی رشدوہدایت کے لئے ان کی طرف پے درپے انبیاء بھیجے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کے واضح دلائل تھے،انہوں  نے لوگوں  کوواضح دلائل اورمعجزے دکھاکراللہ کی توحید،رسالت اورآخرت پرایمان لانے کی دعوت دی مگر انہوں  نے دنیاہی پرنازاں  ہوکر دعوت حق کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کی تکذیب کی،بشررسولوں  کامذاق اڑایا اوراپنی سیاہ کاریوں  میں  مشغول رہے،دعوت حق کاراستہ روکنے کی سازشیں  کرتے رہے ،اہل ایمان کو دین حق سے پھیرنے کے لئے ظلم وستم کاہتھیارآزماتے رہے آخرایک وقت مقررہ کے بعداللہ کاعذاب ان پرٹوٹ پڑااورتمام ترقوتوں ،ترقیوں  اورفراغت وخوش حالی کے باوجود ہلاکت ان اقوام کامقدربن کررہی،جیسے فرمایا

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ۝۰ۭ هَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ۝۳۶  [14]

ترجمہ:ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں  کو ہلاک کر چکے ہیں  جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں  اور دنیا کے ملکوں  کو انہوں  نے چھان مارا تھا پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟۔ جوتباہی ان قوموں  پرآئی وہ ان پراللہ کاظلم نہ تھاکیونکہ اللہ اپنے بندوں  پرظلم نہیں  کرتابلکہ یہ عذاب توان پردعوت حق کی تکذیب اورطاغوت کی بندگی کی وجہ سےنازل ہوا تھا ، پھرجب قہرالٰہی ان پرٹوٹاتواس وقت ان کے معبودوں  میں  سےکوئی ہستی ان کے کسی کام نہ آئی،ان کی مادی ترقی،ذرائع واسباب انہیں  اللہ کے عذاب سے نہ بچاسکی پھرکیاتم اپنے گرداگردان شاندارمگرکافرقوموں  کی تباہی کے آثاروکھنڈرات اورنشانات دیکھ کرعبرت حاصل نہیں  کرتے جواپنی تہذیب اوراپنے تمدن سمیت پیوندخاک ہوگئیں ؟ ۔

اللَّهُ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿١١﴾‏ وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَلَمْ یَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِینَ ‎﴿١٣﴾(الروم)
اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو گناہ گار حیرت زدہ رہ جائیں  گے اور ان تمام تر شریکوں  میں  سے ایک بھی ان کا شفارشی نہ ہوگا اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں  کے منکر ہوجائیں  گے۔

جس طرح اللہ وحدہ لاشریک مخلوقات کوپہلےپیداکرنے پرقادرہے اسی طرح انہیں مرنے کے بعدجب ان کی ہڈیاں  بھی منتشرہوچکی ہوں  گی دوبارہ زندہ کرنے پربھی قادر ہے بلکہ دوبارہ پیداکرناپہلی مرتبہ سے زیادہ آسان ترہے،جب وقت مقررہ پروہ تمام اولین وآخرین کوانہی جسم وجان کے ساتھ ان کی قبروں  سے دوبارہ زندہ کرے گااس دن منکرین آخرت وہ سخت دن اپنے سامنے دیکھ کرحیران وششدررہ جائیں  گے،اس دن اللہ تمام اولین وآخرین کومیدان محشرمیں  جمع کرکے ان کوعطاکی گئی بے شمار نعمتوں  اوران کے اعمال کاحساب لے گا ،عدل وانصاف کے لئےمیدان محشرمیں  ترازوعدل نصب کردیاجائے گا،فرشتے تمام جن وانس کے ہاتھوں  میں  نامہ اعمال تھمادیں  گے ، مجرمین جنہوں  نے اللہ سے بغاوت اوررسولوں  کی تعلیم وہدایت کوقبول کرنے سے انکارکیاہوگا،جوآخرت کی جوابدہی کے منکریااس سے بے فکررہے ہوں  گے ،جو دنیا میں  اللہ کی بندگی کرنے کے بجائے دوسروں  اوراپنے نفس کی بندگی کرتے رہے ہوں  گے ،وہ جواللہ تعالیٰ،رسولوں  اورآخرت پرایمان لائے ہوں  گے مگردانستہ اپنے رب کی نافرمانیاں  کی ہوں  گی اورآخروقت تک اپنی باغیانہ روش پرڈٹے رہے ہوں  گے،ان کا بھی کوئی اللہ کی بارگاہ میں  شفاعت کرنے والانہیں  ہوگا، وہ جوملائکہ،انبیاء ،اولیاء اور صالحین کو الٰہی صفات واختیارات کاحامل قراردے کران کے حضورمراسم عبودیت انجام دیتے رہے تھے مگر تمام ملائکہ،انبیاء ،اولیاء اور صالحین اس بات سے انکارکردیں  گے کہ یہ لوگ انہیں  اللہ کاشریک گردان کران کی عبادت کرتے تھے ،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶  [15]

ترجمہ:آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتےبلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں  گے۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِہَةً لِّیَكُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا۝۸۲ ۧ [16]

ترجمہ: ان لوگوں  نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں  تاکہ وہ ان کے پشتیبان ہوں  ، کوئی پشتیبان نہ ہوگاوہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں  گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے۔

اوران کی شفاعت سے انکار کر دیں  گے ،وہ جو بے شعوریابے جان چیزیں  جیسے چاند،سورج، سیارے، درخت، پتھر اور حیوانات  وغیرہ کی پرستش کرتے رہے ظاہرہے وہ بھی شفاعت کے لئے اللہ کی بارگاہ میں  آگے نہیں  بڑھیں  گے ،وہ جنہوں  نے خودکوشش کرکے ،مکروفریب سے کام لے کر،جھوٹ کے جال پھیلاکریاطاقت استعمال کرکے دنیا میں  اللہ کے بندوں  سے اپنی بندگی کرائی ہوگی مثلاً شیطان ، جھوٹے مذہبی پیشوااورظالم وجابرحکمران وغیرہ یہ خودگرفتاربلاہوں  گے اوراپنی نجات کے لئے کوشیاں  ہوں  گے وہ دوسروں  کی شفاعت کیا کریں  گے الغرض شرک کاارتکاب کرنے والوں  کے لئے اللہ کے ہاں  کوئی سفارشی نہیں  ہوگا،جب مشرکین کووہاں  کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی تو امیدکے سارے راستے بندپاکرانتہائی مایوس ودل شکستہ ہو جائیں  گے،ان کی تمام افتراپردازیاں  گم ہوجائیں  گی،اللہ کے حکم سے انہیں عذاب جہنم میں  جھونک دیا جائے گا،جیسے فرمایا

اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ۝۲۴ۙمَّنَّاعٍ لِّــلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِۨ۝۲۵ۙالَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللهِ اِلٰـــهًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۝۲۶  [17]

ترجمہ:حکم دیا گیا پھینک دو جہنم میں  ہر کٹے کافر کوجو حق سے عناد رکھتا تھاخیر کو روکنے والا ، حد سے تجاوز کرنے والا تھااورشک میں  پڑا ہوا تھا، اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو الٰہ بنائے بیٹھا تھا،ڈال دو اسے سخت عذاب میں ۔

اس وقت یہ مشرکین ان خودساختہ معبودوں  سے بے زاری کااظہارکریں  گے جن کوانہوں  نے اللہ کاشریک ٹھیرارکھاتھااورمعبوداپنے پجاریوں  سے اظہاربے زاری کرتے ہوئے کہیں  گے۔

۔۔۔ تَبَرَّاْنَآ اِلَیْكَ۝۰ۡمَا كَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ۝۶۳  [18]

ترجمہ:ہم آپ کے سامنے براء ت کا اظہار کرتے ہیں یہ ہماری تو بندگی نہیں  کرتے تھے۔

جب کہ ان کے مقابل اہل ایمان جوصبح وشام اپنے رب کی تسبیح وتمحیدکرتے تھے کی عزت وتکریم کی جائے گی اوروہ جنت کے عالی شان باغات میں  اپنے رب کی عطافرمائی ہوئی انواع واقسام کی نعمتوں  پر خوش ہوں  گے اوراس کاشکراداکررہے ہوں  گے۔

 وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۴۳  [19]

ترجمہ: اور وہ کہیں  گے کہ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں  راستہ دکھایا ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے ، اس وقت ندا آئے گی کہ یہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں  ان کے اعمال کے بدلے میں  ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے۔

وَقَالُوا الْحَـمْدُ لِلہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۝۳۴ۙ  [20]

ترجمہ:اور وہ کہیں  گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا، یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَیْثُ نَشَاۗءُ۝۰ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۝۷۴  [21]

ترجمہ: اور وہ کہیں  گے شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا اب ہم جنت میں  جہاں  چاہیں  اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ، پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں  کے لیے۔

وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یَوْمَئِذٍ یَتَفَرَّقُونَ ‎﴿١٤﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِی رَوْضَةٍ یُحْبَرُونَ ‎﴿١٥﴾‏ وَأَمَّا الَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَٰئِكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ‎﴿١٦﴾‏ فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِیًّا وَحِینَ تُظْهِرُونَ ‎﴿١٨﴾(الروم)
اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن (جماعتیں ) الگ الگ ہوجائیں  گی، جو ایمان لا کر نیک اعمال کرتے رہے وہ تو جنت میں  خوش و خرم کردیئے جائیں  گےاور جنہوں  نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں  کو اور آخرت کی ملاقات کو جھوٹا ٹھہرایا تھا وہ سب عذاب میں  پکڑ کر حاضر رکھے جائیں  گے، پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو،  تمام تعریفوں  کے لائق آسمان و زمین میں  صرف وہی ہے، تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔

جس روز قیامت برپا ہو گی ، اس دن دنیاکی تمام جتھ بندیاں  جوتم نےقوم ونسل،قبیلہ وبرادری ،نسل ووطن ،معاشی وسیاسی مفادات کی بنیادپربانٹ رکھی ہیں ٹوٹ جائیں  گی اورخالص عقیدے اوراخلاق وکردارکی بنیادپر مومن اورکافر الگ گروہوں  میں  بٹ جائیں  گے،ایک مقام پرفرمایا کہ اس وقت لوگ تین گروہوں  میں  تقسیم ہوجائیں  گے ۔

 وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً۝۷ۭفَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ۝۸ۭوَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَةِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ۝۹ۭوَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ  [22]

ترجمہ:تم لوگ اس وقت تین گروہوں  میں  تقسیم ہو جاؤ  گے،دائیں  بازو والے ، سو دائیں  بازو والوں  (کی خوش نصیبی ) کا کیا کہنا،اور بائیں  بازو والے ، تو بائیں  بازو والوں  (کی بدنصیبی ) کا کیا ٹھکانااور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں ۔

جو لوگ ایمان لائے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  وہ جنت کے عظمت وشان والے باغوں  میں  شاداں  و فرحاں  ہوں  گے،اور ہرطرح کی لذتوں  اوردل پسندچیزوں  سے شادکام ہوں  گے،اور جنہوں  نے دعوت حق کوجھٹلایا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ ہمیشہ اللہ کے عذاب میں  مبتلا رکھے جائیں  گے،پس جب تمہیں  ایمان وعمل صالح اورکفروتکذیب کاانجام معلوم ہوگیاہے تو تم صبح وشام اپنے معبودحقیقی اللہ وحدہ لاشریک کی یادکے لئے وقت مقررہ پر نمازقائم کرو ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۝۱۰۳  [23]

ترجمہ: نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے ۔

آسمانوں  اور زمین کی تمام مخلوقات بھی اپنے رب کی حمدوستائش کرتی ہیں ،گوتم ان کی حمدکوسمجھ نہیں  سکتے،جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۴۴  [24]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  بیان کر رہی ہیں  جو آسمان و زمین میں  ہیں  ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو ۔

اورظہروعصرکے وقت بھی نمازقائم کرو اور فرض نمازوں  کے بعدنوافل اوراپنے رب کےاذکارو تسبیحات بیان کرو۔یعنی نمازکے اوقات زوال آفتاب سے عشاتک ہیں  اوراس کے بعد فجر کا وقت ہے،نمازکے اوقات کے سلسلہ میں  مزیدفرمایا

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔۔۔۝۰۝۱۱۴ۚ  [25]

ترجمہ:اور دیکھو نماز قائم کرو دن کے دونوں  سروں  پر اور کچھ رات گزرنے پر۔

یعنی صبح اورمغرب اورعشا کے اوقات۔

۔۔۔وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا۝۰ۚ وَمِنْ اٰنَاۗیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّــحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۝۱۳۰  [26]

ترجمہ:اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے ، اور رات کے اوقات میں  بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں  پر بھی۔

یعنی فجر،عصر،مغرب اورعشا۔

یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَیُحْیِی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ ‎﴿١٩﴾(الروم)
(وہی) زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے،  اسی طرح تم (بھی) نکالے جاؤ گے ۔

وہ قادرمطلق اللہ جوزندہ نباتات مردہ زمین سے ،خوشہ بیج کے دانے سے ،درخت گھٹلی سے ،چوزہ انڈے سے،انسان کونطفے سے،نطفے کو انسان سے اورمومن کو کافرسے اور کافرکومومن سےپیداکرتاہے ،الغرض اس وحدہ لاشریک کوہرچیزپرقدرت حاصل ہے،ان متذکرہ بالاچیزوں  کے برعکس اللہ بے جان مادے کے اندرزندگی کی روح پھونک کربے شمارجیتے جاگتے حیوانات،نباتات اورانسان وجودمیں  لارہاہے،جوبنجر،مردہ پڑی زمین کوبارش کے پانی سے زندہ کر دیتا ہے اوروہ لہلہااٹھتی ہے،پھول جاتی ہے اور ہرقسم کی خوش منظرنباتی زندگی کے خزانے اگلناشروع کردیتی ہے،جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙ لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۝۰ۙ وَمَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۳۵  [27]

ترجمہ: اِن لوگوں  کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہےہم نے اس زمین کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ،ہم نے اس میں  کھجوروں  اور انگوروں  کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالےتاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ، یہ سب کچھ اِن کے اپنے ہاتھوں  کا پیدا کیا ہوا نہیں  ہے ،پھر کیا یہ شکر ادا نہیں  کرتے ؟۔

 وَتَرَى الْاَرْضَ ہَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِیْجٍ۝۵ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُـحْیِ الْمَوْتٰى وَاَنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۶ۙوَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَا۝۰ۙ وَاَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۷  [28]

ترجمہ:اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہےپھر جہاں  ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی ، یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ مردوں  کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،اور یہ (اس بات کی دلیل ہے ) کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اس میں  کسی شک کی گنجائش نہیں  ، اور اللہ ضرور ان لوگوں  کو اٹھائے گا جو قبروں  میں  جاچکے ہیں ۔

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۵۷   [29]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہےپھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے ) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہےدیکھو اس طرح ہم مردوں  کو حالت موت سے نکالتے ہیں  شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔

یہ دونوں  طرح کی پیدائشیں  اس مالک کی قدرت کی مظہر ہیں ،نہ اس پر کوئی کام بھاری ہے نہ بوجھل ،یہ سب دیکھ کربھی اگرکوئی شخص یہ سمجھتاہے کہ اس کارخانہ ہستی کو چلانے والا اللہ انسان کے مرجانے کے بعداسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجزہے توحقیقت میں  وہ عقل کااندھاہے جسے یہ روشن حقائق نظرنہیں  آتے،جس طرح اپنی زندگی میں  تم ان حقائق کامشاہدہ کرتے ہواسی طرح اللہ تمہیں  اعمال کی جزاوسزاکے لئے تمہاری قبروں  سے دوبارہ زندہ کرکے کھڑاکرے گا اورتم سے تمہارے اعمال کی جوابدہی کرے گا۔

وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِینَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ یُرِیكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِی بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ ‎﴿٢٥﴾(الروم)
اور اس کی نشانیوں  میں  سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں  پیدا کیں  تاکہ تم آرام پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی، یقیناً غورو فکر کرنے والوں  کے لیے اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں ،اس (کی قدرت) کی نشانیوں  میں  سے آسمانوں  اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں  اور رنگوں  کا اختلاف (بھی) ہے ، دانش مندوں  کے لیے اس میں  یقیناً بڑی نشانیاں  ہیں ، اور (بھی) اس کی (قدرت کی) نشانی تمہاری راتوں  اور دن کی نیند میں  ہے اور اس کے فضل (یعنی روزی) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے، جو لوگ (کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں  ان کے لیے اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں ، اور اس کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ (بھی) ہے کہ وہ تمہیں  ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لیے بجلیاں  دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے، اس میں  (بھی) عقلمندوں  کے لیے بہت سی نشانیاں  ہیں ، اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں ،  پھر بھی جب وہ تمہیں  آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے۔

یہاں  سے وہ متعددآیات شروع ہوتی ہیں  جوالوہیت میں  اللہ تعالیٰ کے یکتاہونے،اس کی عظمت کے کمال،اس کی مشیت کے نفوذ،اس کی قدرت واقتدار،اس کی صنعت کے جمال اوراس کی بے پایاں  رحمت واحسان پردلالت کرتی ہیں ،فرمایااللہ وحدہ لاشریک کی بے شمارقدرتوں  کی نشانیوں  میں  سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے جدامجد آدم  علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚ  [30]

ترجمہ:ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚ         [31]

ترجمہ:ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ [32]

ترجمہ:انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا ۔

پھرپانی کے ایک حقیرقطرے سے۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ۔۔۔۝۴  [33]

ترجمہ:اس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَةٍ۔۔۔۝۷۷  [34]

ترجمہ:کیا انسان دیکھتا نہیں  ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ۔۔۔۝۰۝۲  [35]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ۔

ماں  کے پیٹ میں  تمہاری بہترین طریق پر تخلیق کی۔

۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔۔۔۝۶  [36]

ترجمہ:وہ تمہاری ماؤں  کے پیٹوں  میں  تین تین تاریک پردوں  کے اندر تمہیں  ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے  یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں  ) تمہارا رب ہے ، بادشاہی اسی کی ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں  ہے۔

تمہیں  بہترین قابلیتیں  اورصلاحیتیں  ،عقل وشعور، احساسات وجذبات اورتخیل کی عجیب قوتیں  ،بولنے کی صلاحیت اورنیکی وبدی کی راہ الہام کی۔

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ  [37]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی ۔

وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ  [38]

ترجمہ:اور دونوں  نمایاں  راستے اسے(نہیں ) دکھا دیے ؟۔

اور تمہیں تولیدی قوت بخشی اوراس طرح لڑکے اورلڑکیاں  پیداکرکےتمہاری نسل چلائی ، اوراب تم کسب معاش اوردیگرحاجات وضروریات کے لئے زمین کے گوشے گوشے میں  پھیلتے چلے جا رہے ہو۔

قُلْ ہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴  [39]

ترجمہ:ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  زمین میں  پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔

الْأَشْعَرِیَّ یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ: جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْیَضُ، وَالْأَسْوَدُ، وَبَیْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِیثُ، وَالطَّیِّبُ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزوجل نے آدم کوایک مٹھی مٹی سے پیداکیاہے جسے اس نے تمام روئے زمین سے جمع فرمایاتھا،چنانچہ آدم کی اولاداس مٹی کے لحاظ سے ہوئی ہے کئی سرخ ہیں  اورکئی سفید،کئی سیاہ ہیں  اورکئی ان کے بین بین،کئی نرم خوہیں  اورکئی سخت طبیعت،کئی بری طبیعت کے مالک ہوتے ہیں  اورکئی اچھی اورعمدہ طبیعت والے۔[40]

اور اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ اس نے اپنی کمال رحمت سے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ایک متناسب طریقے پر عورتیں  بنائیں  ، جوتم سے مشابہت رکھتی ہیں  مگران کی جسمانی ساخت،مختلف ذہنی ونفسی اوصاف اورمختلف جذبات ہیں  تاکہ اللہ سے عہدباندھ کرتم انہیں  اپنی بیویاں  بناؤ  اورجوڑاجوڑاہوجاؤ ، اور ان کے پاس سکون وراحت،آرام وآسائش حاصل کرو ،جیسے فرمایا

ہُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْكُنَ اِلَیْہَا۔۔۔۝۱۸۹  [41]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔

اوراللہ نے تم دونوں  کے درمیان محبت،مودت، رحمت والفت،ہمدردی وغم خواری اوررحم ومہربانی ڈال دی جس کی بناپرتم ایک دوسرے کوسہولت اورآسائشیں  بہم پہنچاتے ہو، یقینا ً اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں  ،اور اس کی قدرتوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ اس نے بغیرستونوں  کے بلندوبالا،وسیع وعریض آسمان۔

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲ [42]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۱۰  [43]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے جو تم کو نظر آئیں  ۔

ان گنت چمکتے ستارے۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ  [44]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

اور اپنے اپنے مدارمیں  تیرتے سیارے بنائے۔

وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۳۳  [45]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک ایک فلک میں  تیر رہے ہیں ۔

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰  [46]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ، سب ایک ایک فلک میں  تیر رہے ہیں  ۔

اوران کاہرطرح سے کجی سے پاک نظام قائم کیا۔

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّهُوَحَسِیْرٌ۝۴  [47]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے، تم رحمان کی تخلیق میں  کسی قِسم کی بے ربطی نہ پاؤ  گے، پھر پلٹ کر دیکھوکہیں  تمہیں  کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نگاہ دوڑاؤ  تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

اوراس نے زمین کوٹھوس شکل میں  بنایااوراس میں  نموکی صلاحیت رکھی اوراس کواپنی جگہ قائم رکھنے کے لئے اس میں  بلندوبالامختلف رنگوں  کے ٹھوس پہاڑوں  کومیخوں  کی طرح گاڑدیا،ان پہاڑوں  میں  گزرنے کے لئے درے بنائے،جیسے فرمایا

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ۝۰۠ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۳۱  [48]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں  پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں  لے کر ڈھلک نہ جائے، اور اس میں  کشادہ راہیں  بنا دیں شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں ۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِیْہَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۰ۚ  [49]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش (بچھونا) بنایا اور اس میں  تمہارے لئے راستے کر دیئے تاکہ تم راہ پا لیا کرو۔

وَاللہُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙلِّتَسْلُكُوْا مِنْہَا سُـبُلًا فِجَاجًا۝۲۰ۧ  [50]

ترجمہ:اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیاتاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں  میں  چلو ۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِیْہَا سُـبُلًا۔۔۔۝۵۳  [51]

ترجمہ: وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں  تمہارے چلنے کو راستے بنائے۔

زمین پرپانی کاذخیرہ سمندربنائےاورپہاڑوں  سے میدان کی طرف دریاؤ ں  کے راستے بنائے اور گھنےجنگل اور وسیع صحرا بنائےاورتمہاری مختلف ضروریات کے لئےطرح طرح کے جمادات ونباتات اگائے۔

۔۔۔وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۭ فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝۵۳  [52]

ترجمہ: اور اوپر سے پانی برسایاپھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔

تمہاری بے شمارزبانوں اورہر زبان کے مختلف لہجے اوراسلوب اور تمہارے رنگوں  اور چہروں  کے خدوخال، جسمانی ساخت اور قدوقامت کا اختلاف ہے، یقینا ًاس میں  دانشمند لوگوں  کے لیے اللہ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں  ہیں ،اور اللہ وحدہ لاشریک کی قدرتوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دن اور رات کو نیند کرکے آرام حاصل کرتے ہواور دن اوررات کوتجارت وکاروباریامزدوری کےلئےاس کے فضل کو تلاش کرتے ہو،جیسے فرمایا

وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۷۳  [53]

ترجمہ:یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں ) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو شاید کہ تم شکر گزار بنو۔

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۔۔۔۝۶۷  [54]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں  سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا ۔

اَللہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۔۔۔۝۶۱  [55]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں  سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَصَابَنِی أَرَقُّ اللَّیْلِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قُلِ اللهُمَّ غَارَتِ النُّجُومُ، وهَدَأَتِ الْعُیُونُ، وَأَنْتَ حَیٌّ قَیُّومٌ، یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ أَنِمْ عَیْنِی وأهْدِئْ لِیَلِی ،فَقُلْتُهَا فَذَهَبَ عَنْی

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےراتوں  کومیری نینداچاٹ ہوجایاکرتی تھی،میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بات کی شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ دعاپڑھاکرو’’

 اللهُمَّ غَارَتِ النُّجُومُ، وهَدَأَتِ الْعُیُونُ، وَأَنْتَ حَیٌّ قَیُّومٌ، یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ أَنِمْ عَیْنِی وأهْدِئْ لِیَلِی

‘‘میں  نے جب یہ اس دعاکو پڑھا تونیندنہ آنے کی بیماری اللہ کے فضل وکرم سے دورہوگئی۔[56]

یقیناً اس میں  اللہ کی قدرتوں  کی بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو دلائل کوغورسے سنتے، تدبروتفکرکرتے اورسمجھتے ہیں  ، اور اللہ وحدہ لاشریک کی قدرتوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ وہ تمہیں  بجلی کی گرج اور چمک دکھاتا ہے جس سے تم دہشت زدہ ہوجاتے ہوکہ کہیں  بجلی گرنے سے کوئی ہلاک نہ ہوجائے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِہَا مَنْ یَّشَاۗءُ وَہُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللہِ۔۔۔۝۱۳ۭ  [57]

ترجمہ:وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں  کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں  جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں  گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں  جھگڑ رہے ہوتے ہیں  ۔

یازیادہ بارش ہونے سے کھیتیاں  بربادنہ ہو جائیں  اوراس کے ساتھ امیدیں  بھی وابستہ کرتے ہوکہ بارشیں  ہوں  گی توزمین میں  جان پڑجائے گی اورخوب فصل پیداکرے گی ، جیسے فرمایا

ہُوَالَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَـمَعًا۔۔۔۝۱۲ۚ  [58]

ترجمہ:وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں  چمکاتا ہے جنہیں  دیکھ کر تمہیں  اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں  اور امیدیں  بھی بندھتی ہیں ۔

اوریہ بھی اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کی نشانی ہے کہ وہ ہواؤ ں  کے ذریعے سے سمندروں  سے کڑوےپانی کواٹھاتاہے اورپھربادلوں  کوجہاں  چاہتاہے بھیج کر آسمان سے میٹھا پانی برساتا ہے پھر اس پانی کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔ ۝۱۶۴  [59]

ترجمہ: بارش کے اس پانی میں  جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے ۔

وَاللہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔۝۶۵ۧ  [60]

ترجمہ:(تم ہر برسات میں  دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مردہ پڑی ہوئی زمین میں  اس کی بدولت جان ڈال دی ۔

یقینا اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو عقل وشعور سے کام لیتے ہیں ،اوراس نشانی کودیکھ کریقین کرلیتے ہیں  کہ جس طرح اللہ نے اس مردہ زمین کوزندہ کردیا ہے اسی طرح وہ ہماری موت کے بعدہمیں  بھی اپنی قبروں  سےدوبارہ زندہ کرسکتاہے، جیسے فرمایا

وَاللہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۝۹  [61]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہےپھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں  اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں  جو مری پڑی تھی، مرے ہوئے انسانوں  کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

اور اللہ وحدہ لاشریک کی قدرتوں میں  سے ایک یہ ہے کہ اس نے بغیرستونوں  والا بلندوبالا ، وسیع وعریض آسمان اورفرش کی طرح پھیلی ہوئی زمین اوراس کے نظام کواپنے حکم سے قائم کررکھاہے،وہ دونوں  متزلزل ہوتے ہیں  نہ آسمان زمین پرگرتاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۝۰ۥۚ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۔۔۔۝۴۱  [62]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں  اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ٹلیں  نہیں ، اور اگر وہ ٹل جائیں  تو اس کے سوا کوئی نہیں  ہے جو انہیں  تھام سکے۔

مگر جب قیامت برپاہوگی تو اللہ کے حکم سےآسمان وزمین کایہ نظام درہم برہم ہو جائے گاپھراللہ ایک نیاعالم نئے نظام کے تحت تخلیق فرمائے گا،جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ۔۔۔۝۴۸  [63]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں  اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں  گے۔

اورپھرصورکی ایک آوازپرتمام انسان زمین کے گوشے گوشے سے اپنی قبروں  سے زندہ ہوکراپنے اعمال کی جوابدہی کے لئےمیدان محشرمیں  جمع ہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙفَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ۝۱۴ ۭ [64]

ترجمہ:حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی اور یکایک یہ کھلے میدان میں  موجود ہوں  گے۔

اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ۝۵۳  [65]

ترجمہ:ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں  گے۔

وَلَهُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَهُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَیْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢٧﴾(الروم)
اور زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے، وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے، اسی کی بہترین اور اعلٰی صفت ہے آسمانوں  میں  اور زمین میں  بھی، اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے۔

آسمان وزمین کے درمیان جوکچھ ہے سب اللہ وحدہ لاشریک کی ملکیت ہے ،ہرچیزاس کی مخلوق اورمملوک ہے ،اللہ کی قدرت ،سطوت،سلطنت پرچیزپرمحیط ہے تمام مخلوق اس کے جلال وکمال کے سامنے مجبوروبے بس اور عاجز ولاچار ہے ،ابتدائی پیدائش بھی اللہ تعالیٰ نے کی تھی اور پھر وہی اس کا اعادہ بھی کرے گا ،اورتمام مخلوق کی موت کے بعدان کی تخلیق کااعادہ کرنااس کے لیے آسان ترہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ۔۔۔۝۴  [66]

ترجمہ:بےشک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہےپھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

اَوَلَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِیُٔ اللہُ الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ۝۱۹  [67]

ترجمہ:کیا ان لوگوں  نے کبھی دیکھا ہی نہیں  ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقینا یہ(اعادہ تو)اللہ کے لیے آسان تر ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ  كَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِیبُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: لَنْ یُعِیدَنِی، كَمَا بَدَأَنِی، وَلَیْسَ أَوَّلُ الخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ یَكُنْ لِی كُفْئًا أَحَدٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے ابن آدم مجھے جھٹلاتاہے اوراسے یہ نہیں  چاہئے تھاوہ مجھے برابھلاکہتاہے اوریہ بھی اسے لائق نہ تھا، اس کا جھٹلاناتویہ ہے کہ کہتاہے جس طرح اللہ نے مجھے پیداکیاہے ،اس طرح دوبارہ پیدانہیں  کرسکتاحالانکہ دوسری مرتبہ کی پیدائش پہلی دفعہ کی پیدائش سے بالکل ہی آسان ہوا کرتی ہے،اس کامجھے براکہنایہ ہے کہ کہتاہے کہ اللہ کی اولادہے حالانکہ میں  احدہوں میں  صمدہوں جس کی نہ اولادہےنہ ماں  باپ اورجس کاکوئی ہمسرنہیں ۔[68]

اس عظیم الشان کائنات میں  اس کی صفت سب سے برتر ہے،کوئی چیزاس کے مثل نہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔ لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ۔۔۔  ۝۱۱  [69]

ترجمہ: کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ۔

وَقَالَ قَتَادَةُ: مَثَله أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَلَا رَبَّ غَیْرُهُ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  اس کی مثل یعنی صفت اورشان یہ ہے کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں  اورنہ کوئی پروردگار ہے۔[70]

اور وہ کامل غلبے والا اوربے پایاں  حکمت کامالک ہے،اس نے اپنے غلبے کی بناپر مخلوقات کووجود بخشا اور اپنی حکمت کی بناپراپنی بنائی چیزوں  کومہارت سے بنایااوران کے اندر اپنی شرع کوبہترین طریقے سے مشروع کیا۔

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِی مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِیهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِیفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٢٨﴾(الروم)
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے جو کچھ ہم نے تمہیں  دے رکھا ہے کیا اس میں  تمہارے غلاموں  میں  سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں  برابر درجے کے ہو ؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں  کا ،ہم عقل رکھنے والوں  کے لیے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں  بیان کرتے ہیں ۔

 شرک کی تردیدکے لئے ایک مثال:

مشرکین مکہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ آسمان وزمین اوراس کے درمیان جوکچھ ہے ان کاخالق ومالک اللہ ہے،مگراس کے باوجوداللہ کی بعض مخلوقات کوالٰہی صفات واختیارات کا مظہر قراردے کران کواللہ کاشریک ٹھیراتے تھے ،ان کومشکل کشا،حاجت رواسمجھ کردعائیں  مانگتے،ان کی خوشنودی کے لئے نذریں  اورنیازیں  پیش کرتے اورمراسم عبودیت بجا لاتے ،

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ یَقُولُونَ:لَبَّیْكَ لَا شَرِیكَ لَكَ  إِلَّا شَرِیكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےحج وعمرے کے موقعہ پرمشرکین لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھےہم تیرے دربارمیں  حاضرہیں  ،تیراکوئی شریک نہیں  مگروہ کہ وہ خوداورجس چیز کاوہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں  ہے،یعنی ہمارے شریکوں  کا اور ان کی ملکیت کاتوہی اصلی مالک ہے۔[71]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ مشرک جولبیک پکارتے تھے اس پریہ آیت نازل ہوئی جس میں  اللہ تعالیٰ نے شرک کی قباحت اوربرائی واضح کرنے کے لئے ان کے نفوس سے مثال فرمائی کہ اللہ ہی کی مخلوق میں  سے چندبندے جوکسی طرح تمہاری غلامی میں  آگئے ہیں  کیاتم یہ گواراکرتے ہوکہ وہ تمہارے کسی حکم میں  کسی اورکوترجیح دیں  ،ہرگزنہیں  بلکہ تم ان پرعارضی ملکیت کے باعث مکمل اختیارکے خواں  ہوتواللہ جوسچامالک ہے وہ کیسے گواراکرے گاکہ اس کے حکم میں  کسی کوشریک کیاجائے؟کیاوہ لونڈی غلام تمہارے تمام اموال میں  تمہارے شریک بن گئے ہیں ؟ہرگز نہیں جب تم یہ پسندنہیں  کرتے کہ تمہارے غلام جوتمہارے ہی جیسے انسان ہیں  وہ تمہارے مال ودولت میں  شریک ہو جائیں  اورہروقت یہ دھڑکا لگا رہے کہ کہیں  وہ تمہاری جائیداداورملکیت کو تقسیم کرکے برابربرابرنہ بانٹ لیں  توپھریہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں  ، پیغمبر ہو ں  ، اولیا وصلحا ہوں  ، شجروحجرکے بنائے ہوئے معبود،وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں  جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اوراس کی مخلوق ہیں ؟جیسے فرمایا

وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ۝۰ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰی مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَاۗءٌ۔۔۔۝۰۝۷۱  [72]

ترجمہ:اور دیکھو اللہ نے تم میں  سے بعض کو بعض پر رزق میں  فضیلت عطا کی ہے پھر جن لوگوں  کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں  ہیں  کہ اپنا رزق اپنے غلاموں  کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں  تاکہ دونوں  اس رزق میں  برابر کے حصہ دار بن جائیں ۔

اورکیاجس طرح تم مشترکہ کاروباریاجائیدادمیں  خرچ کرتے ہوئے ڈرمحسوس کرتے ہوکہ دوسرے شریک بازپرس کریں  گے توکیاتم اپنے غلاموں  سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزادلوگ)آپس میں  ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ہرگزنہیں ،یعنی جس طرح غلام آقاکے رزق میں  شریک ہوکراس کی ہمسری نہیں  کرسکتااسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں  ہوسکتا توپھر اللہ کی پیداکی ہوئی مخلوقات کی بھی عبادت کرنا اور انہیں  الٰہی صفات واختیارات کاحامل قراردے کر اس کے ساتھ کیوں  شریک کرتے ہو،اللہ توحید کے دلائل کھول کھول کر بیان کرتاہے تاکہ تم اپنی عقلوں  کواستعمال میں  لاکر اس صاف اورنہایت واضح مسئلہ پرغوروتدبرکرو۔

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَیْرِ عِلْمٍ ۖ فَمَن یَهْدِی مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّینِ حَنِیفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ۚ لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ ۞ مُنِیبِینَ إِلَیْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٣١﴾‏ مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَكَانُوا شِیَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ ‎﴿٣٢﴾‏(الروم)
بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش پرستی کر رہے ہیں ، اسے کون راہ دکھائے جسے اللہ تعالیٰ راہ سے ہٹا دے،  ان کا ایک بھی مددگار نہیں  ،پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں ، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں  کو پیدا کیا ہے، اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں  یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ  نہیں  سمجھتے،(لوگو ! ) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں  سے نہ ہوجاؤ، ان لوگوں  میں  سے جنہوں  نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے، ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔

مگر یہ مشرکین بغیرکسی دلیل وبرہان کےراہ راست کوچھوڑکراپنی خواہشات نفس کے پیچھے چل پڑے ہیں ، چنانچہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ جس شخص کے اندرہدایت کی طلب اور آرزوہی نہ ہو، جوسیدھی سیدھی عقل کی بات خودنہ سوچے اورنہ کسی کے سمجھانے سے سمجھنے کے لئے تیارہو،جسے اپنی دائمی زندگی اورعذاب جہنم کاکوئی خوف ہی نہ ہوتوپھراس کی عقل پراللہ کی پھٹکارپڑجاتی ہے،اوراللہ اس کے لئےوہی اسباب پیداکرتاچلاجاتاہے جواسے بھٹکاکرروزبروزحق سے دورلیے چلے جاتے ہیں  ، پھرایسے لوگوں  کو اللہ کے سوا اورکوئی راہ راست پرنہیں  لاسکتا،جیسے فرمایا

۔۔۔اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ۝۰ۭ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلًا۝۸۸ [73]

ترجمہ:کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں  بخشی اسے تم ہدایت بخش دو ؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں  پا سکتے ۔

گویہ دوسروں  کواپنا کار ساز اور مددگار مانتے ہیں  لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان الٰہی کاکوئی دوست نہیں ،جب حقیقت تم پرواضح ہوچکی ہے اورتمہیں  خوب معلوم ہوگیاہے کہ اس عظیم الشان کائنات کا،تمام مخلوقات کا اورخود انسانوں  کاخالق ومالک اورحاکم ذی اختیارایک اللہ وحدہ لاشریک کے سوااورکوئی نہیں  ہے تو پھریکسو ہو کرملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ ،اس دین پرجویہ جلیل القدرکتاب پیش کررہی ہے،جس میں  بندگی ،عبادت اوراطاعت کامستحق اللہ وحدہ لاشریک کے سوااورکوئی نہیں ،جس میں  الوہیت اوراس کی صفات واختیارات اور حقوق میں  قطعاًکسی کوبھی اللہ کے ساتھ شریک نہیں  ٹھیرایاجاتا،یہ وہ دین ہے جسےاللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پسند فرمایاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔۔۔۝۱۹  [74]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۸۵  [75]

ترجمہ:اس فرماں  برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں  وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

۔۔۔اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔۝۰۝۳  [76]

ترجمہ: آج میں  نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔

رب کی فطرت سلیمہ پروہی قائم ہے جواس دین اسلام کاپابندہے یعنی توحیدپرجس پراللہ نے تمام انسانوں  کوپیداکیاہےاورروزاول میں  اسی کاسب سے اقرار لیا گیا تھا کیا میں  تمہارارب نہیں  ہوں ؟توسب نے اقرارکیاتھاکہ بیشک توہی ہمارارب ہے،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ أَوْ یُنَصِّرَانِهِ أَوْ یُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ البَهِیمَةُ بَهِیمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِیهَا مِنْ جَدْعَاءَ، ثُمَّ یَقُولُ: {فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا لاَ تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّینُ القَیِّمُ}[77]

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ ہرپیداہونے والے بچے کودین اسلام پرپیدافرماتاہے(اوریہ توحیداس کی فطرت میں  ،جبلت میں  موجود ہے لیکن پھر ماحول،یادیگرعوارض اور)اس کے ماں  باپ اس کویہودی،عیسائی اورمجوسی وغیرہ بنادیتے ہیں ،اس کی مثال ایسی ہے جیسی جانورکابچہ صحیح سالم پیدا ہوتاہے، کسی کوتم دیکھتے ہوکان کٹاہواپیداہوپھرابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ اللہ کی اس فطرت کااتباع کروجس پراس نے انسان کو پیدا کیا ہے،اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں  کوئی تبدیلی ممکن نہیں یہی سیدھادین ہے۔‘‘[78]

چنانچہ اس فطرت پرقائم رہو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کو پیدا کیا ہے۔اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کسی کے بدلنے سے بدلی نہیں  جاسکتی ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَإِبْرَاهِیمُ النَّخَعی، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْر، وَمُجَاهِدٌ، وعِكْرِمة، وَقَتَادَةُ، وَالضَّحَّاكُ، وَابْنُ زَیْدٍ  فِی قَوْلِهِ: {لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ} أَیْ: لِدِینِ اللَّهِ.وَقَالَ الْبُخَارِیُّ: قَوْلُهُ: {لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ} : لِدِینِ اللَّهِ، خَلْقُ الْأَوَّلِینَ: [دِینُ الْأَوَّلِینَ] ، وَالدِّینُ وَالْفِطْرَةُ: الْإِسْلَامُ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،ابراہیم نخفی رحمہ اللہ ،سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ،مجاہد رحمہ اللہ ،عکرمہ رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ  اورابن زید رحمہ اللہ نے ارشادباری تعالیٰ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں  جاسکتی۔‘‘کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے دین میں  کوئی تبدیلی نہیں  ہوسکتی،اورامام بخاری رحمہ اللہ نے’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں  جاسکتی۔‘‘ کے معنی اللہ کے دین کے بیان کیے ہیں  اورفرمایااس کے معنی پہلے لوگوں  کے دین کے ہیں   اورفطرت سے مراداسلام ہے ۔[79]

اورفطرت سلیمہ پرقائم رہناہی بالکل سیدھا اور درست دین ہے ، جواللہ تعالیٰ اوراس کے عزت وتکریم کے گھرتک پہنچاتاہےمگر اکثر لوگ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں  کرتے ،تم سب فطری آوازپر غیراللہ کی بندگی کاطریقہ چھوڑکر اللہ کی بندگی کی طرف پلٹ آؤ  اوراللہ مالک یوم الدین کے غیض وغضب سے ڈرو جوایک وقت مقررہ پرتم سے تمہارے عقائدو اعمال کی بابت جواب طلبی کرے گا، اوراپنے معبودحقیقی کی یادکے لئے وقت مقررہ پر نماز قائم کرو اورایمان وتقویٰ اوراقامت صلوٰة سے گریز کرکے مشرکین میں  سے نہ ہوجاؤ ،

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ الْعَهْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ الصَّلَاةُ  فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ

عبداللہ بن بریدہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سنا ہمارے اورمشرکین کے درمیان فرق کرنے والی نمازہے لہذاجوشخص نماز  ترک کردیتاہے وہ کفرکرتاہے ۔[80]

جنہوں  نے اصل دین اسلام چھوڑکریااس میں  دانستہ من مانی تبدیلیاں  کرکے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں  میں  بٹ گئے ہیں  ، ہر ایک فرقہ اورہرگروہ اس زعم باطل میں  مبتلاہے کہ وہ حق پرہےاوردوسرے باطل پرہیں  ،جیسے فرمایا

فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۵۳  [81]

ترجمہ:مگر بعد میں  لوگوں  نے اپنے دین کو آپس میں  ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں  وہ مگن ہے۔

اور جوسہارے انہوں  نے تلاش کررکھے ہیں  جن کووہ دلائل سے تعبیرکرتے ہیں ان پر خوش اورمطمئن ہیں  کے پاس جو کچھ ہے اسی میں  وہ مگن ہےحالانکہ حق پرصرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمادی،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَى أُمَّتِی مَا أَتَى عَلَى بنی إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِیَةً لَكَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِكَ ، إِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِی النَّارِ إِلا مِلَّةً وَاحِدَةً  ، قَالُوا: مَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں  میں  اتنی مطابقت ہو گی جتنی جوتیوں  کے جوڑے میں  ایک دوسرے کے ساتھ، یہاں  تک کہ اگر ان کی امت میں  سے کسی نے اپنی ماں  کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں  بھی ایسا کرنے والا آئے گا،بنی اسرائیل بہترفرقوں  میں  تقسیم ہوئے تھے اورمیری امت تہترفرقوں  میں  تقسیم ہوگی،ایک کے سواسب جہنم میں  جائیں  گے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کونساگروہ ہوگا،فرمایا وہ گروہ میرے اورمیرے صحابہ کے طریقے پرچلنے والاہوگایعنی کتاب وسنت پر۔[82]

عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ،ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِی الْجَنَّةِ، وَهِیَ الْجَمَاعَةُ

اورمعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کی روایت میں  ہے بہترگروہ جہنم میں  جائیں  گے اورایک گروہ جنت میں  جائے گااوریہی الجماعة ہوگا۔[83]

وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِیبِینَ إِلَیْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِیقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ لِیَكْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ أَمْ أَنزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ یَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ یُشْرِكُونَ ‎﴿٣٥﴾(الروم)
لوگوں  کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں  کرتے ہیں ،  پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں  سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے تاکہ وہ اس چیز کی ناشکری کریں  جو ہم نے دی ہے، اچھا تم فائدہ اٹھالو ابھی ابھی تمہیں  معلوم ہوجائے گا، کیا ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے جو اسے بیان کرتی ہے، جسے یہ اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہیں ۔

لوگوں  کا حال یہ ہے کہ جب انہیں  کوئی دکھ،بیماری ،معاشی پریشانی ،اولادنہ ہونے اوربدامنی کی تکلیف پہنچتی ہےاورامیدوں  کے سہارے ٹوٹنے لگتے ہیں  تو اپنے باطل معبودوں  کوفراموش کرکے،انہیں  بے بس اوربے اختیار جان کرنہایت عاجزی اور دلسوزی کے ساتھ کائنات کے اصل فرمانروااللہ وحدہ لاشریک کو پکارتے ہیں  پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں  چکھا دیتا ہے،انہیں  مشکلات ومصائب ،بیماری ،رزق کی تنگی اوربدامنی سے نجات عطافرمادیتاہے تو یکایک ان میں  سے کچھ لوگ اللہ کوچھوڑکرایسی ہستیوں  کے آستانوں  پر نذریں  اورنیازیں  چڑھاناشروع کرنے لگتے ہیں جوان کی خوش بختی اوربدبختی ،ان کے فقراورغناپرکوئی اختیارنہیں  رکھتیں ،جیسے فرمایا

 وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَ۝۵۳ۚثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙ  [84]

ترجمہ:تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے ،پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں  لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں  سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں  کو( اس مہربانی کے شکریے میں ) شریک کرنے لگتا ہے ۔

ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۲۲فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۔۔۔۝۲۳  [85]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں  چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں  میں  سوار ہو کر باد موافق پر فرحاں  و شاداں  سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں  کے تھپیڑے لگتے ہیں  اور مسافر سمجھ لیتے ہیں  کہ گھِر گئے، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں  مانگتے ہیں  کہ اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں  گے،مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں  بغاوت کرنے لگتے ہیں  ۔

فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ۝۶۵ۙلِـیَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰهُمْ۝۰ۚۙ وَلِیَتَمَتَّعُوْا۝۰۪ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ۝۶۶  [86]

ترجمہ:جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں  تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں  ، پھر جب وہ انہیں  بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکا یک یہ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کا کُفرانِ نعمت کریں  اور (حیاتِ دنیا کے ) مزے لوٹیں  اچھا، عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا۔

اچھا،اس دنیاکی عارضی زندگی میں  خوب مزے اڑالو !اللہ کے احسانات وعنایات کی ناشکری کرلو، اپنے ازلی دشمن شیطان کے ساتھی بن کرجوعقائدواعمال چاہے اختیار کرلو، دعوت حق سے منہ موڑکردنیاکی رنگینیوں  میں  گم ہوجاؤ ،مگرقیامت کے روزجب اعمال ترازوعدل میں تولے جائیں  گے،ذرہ ذرہ کاحساب ہوگااس وقت تمہیں  اپنے عقائدو اعمال کے بے وزن اوربے حقیقت ہونے کاحال معلوم ہو جائے گا،کیا ہم نے ان پرشرک کی صداقت پر کوئی سند اور دلیل نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہوکہ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ ساتھ غیراللہ کوبھی کچھ قدرت واختیارحاصل ہے اوروہ تم لوگوں  کے کام بنایاکریں  گے۔

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ إِذَا هُمْ یَقْنَطُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ وَیَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ ۚ ذَٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِینَ یُرِیدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَیْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِیدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ‎﴿٣٩﴾‏(الروم)
اور جب ہم لوگوں  کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں  تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں  اور اگر انہیں  ان کے ہاتھوں  کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں ، کیا انہوں  نے یہ نہیں  دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے  کشادہ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ، اس میں  بھی ان لوگوں  کے لیے جو ایمان لاتے ہیں  نشانیاں  ہیں ،پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے ، یہ ان کے لیے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں ،  ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں ،تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں  کے مال میں  بڑھتا رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  نہیں  بڑھتا اور جو کچھ صدقہ زکوة تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں  اپنا دوچند کرنے والے ہیں

انسان کے چھچھورے پن اورکم ظرفی کوبیان فرمایاکہ جب ہم لوگوں  کوکچھ مال ودولت،اقتدار اورعزت وحیثیت عطافرمادیتے ہیں  تو لوگوں  کی اکثریت کے دماغوں  میں  فخروغرورکاایسانشہ چڑھتا ہے کہ یہ اللہ کوخاطرمیں  لاتے ہیں  اورنہ اللہ کےبندوں  کو،مگر جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں  سے ان پر کوئی فقراوربیماری آتی ہے تواس کے دور ہونے کے بارے میں  دل شکستہ اورناامیدہونے لگتے ہیں اورذلیل سے ذلیل حرکت کرگزرتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَیَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ۝۹وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّـیِّاٰتُ عَنِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ۝۱۰ۙ  [87]

ترجمہ:اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں  تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے،اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں  تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدّر پار ہوگئےپھر وہ پھولا نہیں  سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔

البتہ اہل ایمان اس سے مستثنٰی ہیں  ،وہ تکلیف میں  صبر اور راحت میں  اللہ کاشکر (اعمال صالحہ اختیار)کرتے ہیں ،خلق خداکے ساتھ تواضع اورفیاضی سے پیش آتے ہیں ،جیسے فرمایا

 اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۱  [88]

ترجمہ:اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں  تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں  اور وہی ہیں  جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔

عَنْ صُهَیْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجِبْتُ مِنْ أَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ لَهُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، كَانَ ذَلِكَ لَهُ خَیْرًا، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ، كَانَ ذَلِكَ لَهُ خَیْرًا

صہیب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں  کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں  سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں  ہے،اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہےاور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔[89]

کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ اللہ ہی اپنی مشیت وحکمت سےجس کا چاہتا ہے رزق میں  وسعت اورفراخی کردیتا ہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اوروہ روزی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۰ۧ   [90]

ترجمہ:تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۶۲  [91]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں  میں  سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

وہ جس کوچاہتاہے عزتوں  سے ہمکنارکردیتاہے اور جس کوچاہتاذلیل ورسوا کردیتاہے،جس کوچاہتاہے اقتدارعطافرماتاہے اورجس سے چاہتاچھین لیتا ہے،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶  [92]

ترجمہ:تو کہہ اے اللہ ! بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے توچاہے ذلیل کرتا ہے سب خوبی تیرے ہاتھ میں  ہے بیشک تو ہر چیزپر قادر ہے۔

یقینا ًاس میں  اہل ایمان کے لئے اللہ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں  ہیں جورزق میں  اللہ تعالیٰ کی مشیت وحکمت کے مطابق عطاکردہ کشادگی اورتنگی سے عبرت حاصل کرتے ہیں  ،پس اے صاحب ثروت مومنو! اللہ مالک حقیقی کے عطافرمائے ہوئے مال میں  سےضرورت مندرشتہ دار وں کی احسان سمجھ کرنہیں  بلکہ ان کااپنے مال پرحق سمجھ کرمدد کرو ، انہیں  ہدیہ دو،ان سے نیک سلوک کرو،ان سے عزت وتکریم سے پیش آؤ ،ان کی لغزشوں  سےدرگزرکرواوران کی بدکلامی پررواداری سے کام لو، مسکینوں  کوجسے فقروفاقہ نے دو چارکردیاہواتناعطاکردوجس سے ان کے کھانے پینے اورلباس کی ضرورت پوری ہوجائے،بیواؤ ں  کی مددکروجن کاکوئی سہارانہ ہو اور غریب الوطن مسافروں  کی مددکرو جس کا زادراہ ختم ہوگیاہو،قرابت داروں ،مساکین اورمسافروں  کوعطاکرنا ان لوگوں  کے لیے بہترہے جو اللہ کی خوشنودی ،ثواب کثیراورجنت میں  اللہ کے دیدار سے مشرف ہونا چاہتے ہوں  اور ایسے ہی لوگ جوحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباداداکرتےرہیں  گے فلاح پانے والے ہیں ،جیسے فرمایا

یَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۝۰ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۝۲۱۵        [93]

ترجمہ:لوگ پوچھتے ہیں  ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر رشتے داروں  پر یتیموں  اور مسکینوں  اور مسافروں  پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہو گا۔

۔۔۔وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ۔۔۔۝۱۷۷  [94]

ترجمہ: اور اللہ کی محبت میں  اپنا دل پسندمال رشتے داروں  اور یتیموں  پر ، مسکینوں  اور مسافروں  پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں  پر اور غلاموں  کی رہائی پر خرچ کرے ۔ اگراس سے اللہ کی رضاوخوشنودی مقصودنہ ہوتوعطاکرنے والے کے لئے کوئی اجروثواب نہیں  خواہ اس شخص کواس سے کتناہی فائدہ کیوں  نہ پہنچاہوجسے عطاکیاگیاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۱۱۴  [95]

ترجمہ: اور جو شخص یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے تو ہم اسے بڑا ثواب دیں  گے۔

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى۝۰ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۶۲قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَآ اَذًى ۔۔۔   ۝۲۶۳ [96]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  خرچ کرتے ہیں  اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں  جتاتے ، نہ دکھ دیتے ہیں  ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں ،ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔

اورمعاوضہ کی نیت سے بھی کسی پراحسان مت کرو،جیسے فرمایا

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۝۶۠ۙ [97]

ترجمہ:اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔

جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں  کے اموال میں  شامل ہو کر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں  بڑھتا بلکہ اس کی نحوست دنیاوآخرت میں  تباہی کا باعث ہے،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۝۰۠ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۳۰ۚ  [98]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ، اُمید ہے فلاح پاؤ  گے۔

ایک مقام پرسودکھانے والے کی حالت کے بارے میں  فرمایا

اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَایَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَـمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۝۰ۘ وَاَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۝۰ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْــتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَـفَ۝۰ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللهِ۝۰ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷۵                                        [99]

ترجمہ:مگرجو لوگ سود کھاتے ہیں  ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤ لا کر دیا ہو اور اس حالت میں  ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں  تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام، لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خواری سے باز آ جائے ، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے،اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہےجہاں  وہ ہمیشہ رہے گا۔

اورپھرسختی سے حکم فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۲۷۸فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ۝۰۝۲۷۹ [100]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں  پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہولیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ  کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجة الوداع کے موقعہ پرسودکوختم کرنے کااعلان فرمادیا،اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو،جیسے فرمایا

 الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰى۝۱۸ۚوَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓى۝۱۹ۙ [101]

ترجمہ:جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہےاس پر کسی کا کوئی احسان نہیں  ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔

اسی کو دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ قیامت کے روزان کااجروثواب کئی گنابڑھاکرعطافرمائے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَیِّبٍ، وَلاَ یَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّیِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ یَتَقَبَّلُهَا بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یُرَبِّیهَا لِصَاحِبِهِ، كَمَا یُرَبِّی أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص حلال کمائی سے ایک کھجورکے برابرصدقہ کرتاہے اوراللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کوقبول کرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتاہے پھرصدقہ کرنے والے کے فائدے کے لئے اس میں  زیادتی کرتاہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانورکے بچے کوکھلاپلا کر بڑھاتاہے یہاں  تک کہ وہی ایک کھجور بڑھ کراحدپہاڑکے برابرہوجاتی ہے۔[102]

اللَّهُ الَّذِی خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ یُمِیتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن یَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَیْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَهُم بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٤١﴾‏(الروم)
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا پھر روزی دی، پھر مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا بتاؤ تمہارے شریکوں  میں  سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں  سے کچھ بھی کرسکتا ہو، اللہ تعالیٰ کے لیے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں ، خشکی اور تری میں  لوگوں  کی بد اعمالیوں  کے باعث فساد پھیل گیا، اس لیے کہ انہیں  ان کے بعض کرتوتوں  کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے، (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں ۔

زمین کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں  مضمرہے:

اللہ ہی نے خشکی وتری میں  تمہیں  اوربے شمارانواع واقسام کی مخلوقات کو پیداکیاہے ،جس نےخشکی وتری میں  تمہارے اورتمام مخلوقات کے لئے رزق کے جملہ وسائل فراہم کیے ہیں  اورایساانتظام کردیاکہ رزق کی گردش سے ہرایک کوکچھ نہ کچھ حصہ پہنچ جائے،وہی ایک وقت مقررہ پرتمہیں  موت سے ہمکنارکرتاہے ،پھرجب چاہے گا تمہارے اعمال کی جزاکے لئے دوبارہ زندہ کرے گا،اللہ کوچھوڑکر تم جن ہستیوں  کی پرستش کررہے ہوکیاکسی میں  یہ قدرت وطاقت ہے کہ وہ کسی کوپیداکرسکیں ؟کیاوہ خشکی وتری میں  چھوٹی بڑی تمام مخلوقات کورزق بہم پہنچاسکتے ہیں ؟کیاموت وزیست ان کے قبضہ قدرت میں  ہے؟کیاوہ کسی کے مرجانے کے بعدکسی کوزندہ کردینے پرقادرہیں ؟اور تم ایسی ہستیوں  کواللہ کاشریک ٹھیراتے ہوجوکسی طرح بھی ان امورمیں  تصرف کی قدرت نہیں  رکھتے ،جب ان کے قبضہ قدرت میں  کچھ نہیں  توتم نے انہیں  کس وجہ سے معبود بنایا ہوا ہے ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہاخالق ،رازق اورموت وزندگی کامالک ہے ،وہی قیامت کے روزاولین وآخرین کوزندہ کرے گا،اس کی مقدس،منزہ معظم اورعزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کاشریک ہویااس جیساہویااس کے برابرہویااس کی اولادیاماں  باپ ہوں ،وہ واحدہے صمدہے اس کاکوئی کفونہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [103]

ترجمہ:کہو،وہ اللہ ہے  یکتا،اللہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں ،نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاداور کوئی اس کا ہمسر نہیں  ہے۔

انسانوں  نے اپنے معاشرے اورآبادیوں  میں  امن وسکون کوتہ وبالاکررکھاہے،وہ ایک دوسرے پرظلم ڈھارہے ہیں ،اللہ کی مقررکی ہوئی حدوں  کوپامال اوراخلاقی ضابطوں  کو توڑرہے ہیں ،انسانوں  نےقتل وخونریزی کابازارگرم کر رکھا ہے ،چنانچہ جب انسان نے اللہ کی نافرمانیوں  کواپناوطیرہ بنالیاتوپھرمکافات عمل کے طورپراللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورتنبیہ آفات ارضی وسماوی کانزول ہوا ،

وَقَالَ زَیْدُ  بْنُ رُفَیْع: فی قوله ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، انْقِطَاعَ الْمَطَرِ عَنِ الْبَرِّ یُعْقِبُهُ الْقَحْطُ؟وَعَنِ الْبَحْرِ تَعْمَى  دَوَابُّهُ

زیدبن رفیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’خشکی اور تری میں  فساد برپا ہوگیا ہے ۔‘‘کامفہوم یہ ہے خشکی میں  بارش نہ ہونے کے نتیجے میں  قحط کا پیداہونااور بحرمیں  بارش نہ ہونے سے وہاں  کے جانوروں  کااندھاہوجانا۔[104]

عَنْ مُجَاهِدٍ:ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر قَالَ: فَسَادُ الْبَرِّ: قَتْلُ ابْنِ آدَمَ، وَفَسَادُ  الْبَحْرِ: أَخْذُ السَّفِینَةِ غَصْبًا

اورمجاہد رحمہ اللہ ’’خشکی اور تری میں  فساد برپا ہوگیا ہے ۔کے بارے میں  کہتے ہیں خشکی میں  فسادپھیلنے سے مراد انسانوں  کاقتل، اورتری میں  فسادسے مرادکشتیوں  کاغصب کرلیناہے۔[105]

وَقَالَ أَبُو الْعَالِیَةِ: مَنْ عَصَى اللَّهَ فِی الْأَرْضِ فَقَدْ أَفْسَدَ فِی الْأَرْضِ؛ لِأَنَّ صَلَاحَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ بِالطَّاعَةِ

ابوالعالیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں  جوشخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتاہے وہ زمین کوفتنہ وفسادسے بھرتاہے کیونکہ زمین وآسمان کی درستی اللہ کی طاعت پرموقوف ہے۔[106]

شایدکہ آفات الٰہیہ کودیکھ کریہ لوگ حقیقت کوسمجھیں  اوراپنے تخیلات کی غلطی کومحسوس کرکے اللہ کی طرف رجوع کرلیں ،

اس مضمون کومتعددمقامات پر فرمایا

۔۔۔وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۱۶۸ [107]

ترجمہ:اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات سے آزمائش میں  مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں ۔

اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ یَذَّكَّرُوْنَ۝۱۲۶                                                  [108]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں  ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں  نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔

۔۔۔ وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ۔۔۔۝۳۱ۧ                                 [109]

ترجمہ:جن لوگوں  نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر ان کے کرتوتوں  کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں  نازل ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جس معاشرے کانظام اطاعت الٰہی پرقائم ہواوراللہ کی حدیں  نافذہوں  ،ظلم کی جگہ عدل کادوردورہ ہو،وہاں  امن وسکون اوراللہ کی طرف سے خیروبرکت کا نزول ہوتاہے،

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: حَدٌّ یُعْمَلُ بِهِ فِی الْأَرْضِ، خَیْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا أَرْبَعِینَ صَبَاحًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایازمین میں  ایک حدکاقائم ہونازمین والوں  کے حق میں  چالیس دن کی بارش سے بہترہے۔[110]

وَالسَّبَبُ فِی هَذَا أَنَّ الْحُدُودَ إِذَا أُقِیمَتْ، انْكَفَّ النَّاسُ -أَوْ أَكْثَرُهُمْ، أَوْ كَثِیرٌ مِنْهُمْ -عَنْ تَعَاطِی الْمُحَرَّمَاتِ، وَإِذَا ارْتُكِبَتِ الْمَعَاصِی كَانَ سَبَبًا فِی مِحَاقِ  الْبَرَكَاتِ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

اس کاسبب یہ ہے کہ جب حدودقائم کی جائیں  توبہت سے لوگ محرمات کے ارتکاب سے بازآجاتے ہیں  اورجب معاصی اورمحرمات کوترک کردیاجائے تویہ آسمانوں  اورزمین سے برکتوں  کے حصول کاسبب ہے۔

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِیٍّ الأَنْصَارِیِّ، أَنَّهُ كَانَ یُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَیْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ:مُسْتَرِیحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِیحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ:العَبْدُ المُؤْمِنُ یَسْتَرِیحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ یَسْتَرِیحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ

اورابوقتادہ بن ربعی انصاری  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کرگزرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اسے آرام مل گیایااس سے آرام مل گیا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے آرام مل گیایااس سے آرام مل گیا کاکیامطلب ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مومن بندہ دنیاکی مشقتوں  اور تکلیفوں  سے اللہ کی رحمت میں  نجات پاجاتاہے اسے آرام مل گیااوراس سے آرام مل گیا کامطلب ہے کہ جب ایک بدکار(فاجر)آدمی فوت ہوجاتاہے توبندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں  کرتے شہراوردرخت اورجانوربھی آرام پاتے ہیں ۔[111]

قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِن قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِینَ ‎﴿٤٢﴾(الروم)
  زمین میں  چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں  کا انجام کیا ہوا جن میں  اکثر لوگ مشرک تھے ۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان مشرکین سے کہواللہ کی زمین میں  گھوم کر تباہ شدہ اقوام کے آثاروکھنڈرات کوعبرت کی نگاہ سے دیکھو، ان تمام قوموں  کوجن خرابیوں  نے تباہ وبربادکیاان سب کی بنیادطاغوت کی بندگی تھاجس میں  ڈوب کروہ نفس کی بندگی کرنے لگے ، ان کے رسولوں  نے انہیں  دعوت حق پہنچائی ،اللہ کی وحدانیت اورربوبیت کے دلائل بیان کیے ، ایمان لانے پر خوشخبریاں  اورتکذیب کرنے کے عذاب سے ڈراتے رہے، مگران تمام اقوام نے دعوت کوپرکاہ برابراہمیت نہ دی ،انہوں  نے اس پاکیزہ دعوت کوایک کان سے سنااور دوسرے سے نکال دیا،اور اپنی طاقت وقوت ،ذرائع واسباب اور اپنے معبودان باطلہ پربھروسہ کرکے اللہ کی دعوت کی تکذیب کرتے رہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں  سوچنےسمجھنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت دی ،انہیں  راہ راست پرلانے کے لئے چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے تاکہ وہ ان پرسوچ وبچارکریں  اورپلٹ آئیں مگراس ڈھیل پروہ اوردلیرہوگئے اوراللہ کے عذاب کابھی مطالبہ کردیا،آخر اللہ کاعذاب ان پرٹوٹ پڑااوراللہ نے انہیں  اس عظیم جرم میں  صفحہ ہستی سے نیست ونابودکردیا اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طرف سے مذمت ،لعنت اورلگاتاررسوائی ان کا پیچھاکرتی رہی ،پس ان اقوام کے عبرت ناک انجام سےسبق لواورپلٹ آؤ ،اگروقت گزرگیاتوپھرسوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّینِ الْقَیِّمِ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ یَوْمَئِذٍ یَصَّدَّعُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ مَن كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهُ ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنفُسِهِمْ یَمْهَدُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْكَافِرِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ أَن یُرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِیُذِیقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَلِتَجْرِیَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٤٦﴾‏(الروم)
پس آپ اپنا رخ اس سچے اور سیدھے دین کی طرف ہی رکھیں  قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس کا ٹل جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ہی نہیں ، اس دن سب متفرق ہوجائیں  گے، کفر کرنے والوں  پر ان کے کفر کا وبال ہوگا اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں  اپنے فضل سے جزا دے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے وہ کافروں  کو دوست نہیں  رکھتاہے،اس کی نشانیوں  میں  سے خوشخبریاں  دینے والی ہواؤں  کو چلانا بھی ہے اس لیے کہ تمہیں  اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے، اور اس لیے کہ اس کے حکم سے کشتیاں  چلیں  اور اس لیے کہ اس کے فضل کو تم ڈھونڈو اور اس لیے کہ تم شکر گزاری کرو۔

اللہ کے پسندیدہ دین پرمستحکم ہوجاؤ :

پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! قبل اس کے کہ وقت مقررہ پر قیامت برپاہوجائے جس کونہ اللہ خودٹالے گااورنہ کوئی اورہستی اس کو ٹال یاروک سکتی ہے،اللہ کے سچے دین اسلام پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اورنیکیوں  سے اپنادامن بھرلو،وہ ایساسخت دن ہوگاجب لوگ پھٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں  گے،ایک گروہ مومنین کاہوگااورایک گروہ مجرمین کاہوگا،پھرجس نے دعوت حق کی تکذیب اورطاغوت کی بندگی کی ہوگی وہ اپنے کفروشرک کادردناک وبال خوداٹھائے گاکوئی اورنہیں  اور جن لوگوں  نے دعوت حق کوقبول کرکےاعمال صالحہ اختیارکیے ہوں  گے ، وہ بھی کسی اورکے لئے نہیں  بلکہ خود اللہ کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل ہونے اوروہاں  اعلیٰ منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں تاکہ اللہ ایمان لانے والوں  اور اعمال صالحہ کرنے والوں  کو اپنے فضل سے ان کی نیکیوں  کااجرسات سوگنابلکہ اس سے بھی بڑھا چڑھاکر دے،یقیناً اللہ کافروں  کو پسند نہیں  کرتا، اس کی قدرت کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ وہ بارش برسانے والی ہواؤ ں  کوبھیجتاہے تاکہ تمہیں  اپنی رحمت کامزہ چکھائے، اوراس لئے بھی کہ ان موافق اورمناسب ہواؤ ں  سے سمندروں  اور دریاؤ ں  میں  بادبانی کشتیاں  چلیں  اور تم ان کے ذریعےایک مقام سے دوسرے مقام پر جا کر تجارت وکاروبارکرواوراس کا فضل تلاش کرو اوران ظاہروباطنی نعمتوں  جن کاکوئی شمارہی نہیں  ہے پراللہ کی بندگی واطاعت کرو ۔

 وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ اللَّهُ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهُ فِی السَّمَاءِ كَیْفَ یَشَاءُ وَیَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلِ أَن یُنَزَّلَ عَلَیْهِم مِّن قَبْلِهِ لَمُبْلِسِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَیْفَ یُحْیِی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْیِی الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٥٠﴾‏(الروم)
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی اپنے رسولوں  کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے پاس دلیلیں  لائے، پھر ہم نے گناہ گاروں  سے انتقام لیا، ہم پر مومنوں  کی مدد کرنا لازم ہے ،اللہ تعالیٰ ہوائیں  چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں  پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں  پھیلا دیتا ہےاور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں  اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں  اور جنہیں  اللہ چاہتا ہے ان بندوں  پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہوجاتے ہیں ، یقین ماننا کہ بارش ان پر برسنے سے پہلے پہلے تو وہ ناامید ہو رہے تھے، پس آپ رحمت الٰہی کے آثار دیکھیں  کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زندہ کردیتا ہے ؟ کچھ شک نہیں  کہ وہی مردوں  کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر ہر چیز پر قادر ہے۔

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ جس طرح اللہ نے آپ کورسول بناکرآپ کی قوم کی طرف بھیجاہے اسی طرح آپ سے پہلے بھی اللہ نے گزشتہ امتوں  میں  انہی میں  سے رسول مبعوث کیے ، لوگوں  کی رشدوہدایت کے لئے اللہ نے رسولوں  پراپناکلام نازل کیا،رسولوں  نے اپنی اپنی قوم کوتوحیدواخلاص کی دعوت دی اوراپنے موقف کی صداقت ظاہرکرنے کے لئے کائنات فطرت میں  ہرسوپھیلی اللہ وحدہ لاشریک کی نشانیاں  دکھائیں  ، توحیدکے صاف ،روشن اورواضح دلائل پیش کیے ، معجزات سے اپنی صداقت کوظاہرکیا مگران واضح نشانیوں  کے باوجودبہت قلیل تعدادمیں لوگ ایمان لائے اورایک کثیرتعداد کائنات میں  پھیلی نشانیوں  اورمعجزات کو دیکھ کراندھے بن کرتوحید سے انکار پر جمے رہے،اللہ نے بڑے عذاب سے قبل چھوٹے چھوٹے عذاب بھیج کر انہیں  غوروفکرکے لئے مہلت دی مگر انہوں  نے اللہ سے سرکشی و بغاوت کی روش اپنائے رکھی، بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پراللہ نے انہیں  بڑے عذاب کے شکنجے میں  کس دیااورانبیاء کی پیروی کرنے والے اہل ایمان کی مددکی ،اللہ نے اپنے فضل سے اپنے نفس پریہ لازم کر لیا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں  کی نصرت وتائیدکرے گایعنی محمدمصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والو!اگرتم تکذیب کی روش پرقائم رہے توتم پربھی عذاب نازل ہوگااورہم تمہارے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوفتح ونصرت سے سرفرازکریں  گے ، اللہ نے ہواؤ ں  کی گردش کاایک نظام قائم فرمایاہے،یہ ہوائیں  بادلوں  کو اٹھاتی ہیں ،پھراللہ رب العالمین ان بادلوں  کواکٹھاکرتااورگہراکرکے مختلف ٹکڑوں  میں  تقسیم کرکے پھیلادیتاہےاوراللہ بارش برسانے سے پہلے باران رحمت کی خوشخبری دینے کے لئے بھینی بھینی ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں  بھیجتا ہےپھراللہ اپنی مشیت سےجہاں  چاہتاہے ان بادلوں  سے پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے برساتا ہے اور بارش کے بعد ضرورت مند لذت وسرورمحسوس کرتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے یہ بارش نہ ہونے سے مایوس ہورہے تھے،اورنگاہ عبرت سے دیکھوکہ جس طرح بارش کے نزول سے مردہ ، بنجرپڑی ہوئی زمین یکایک زندہ ہوجاتی ہے اوراس میں  کھیتیاں  لہلہانے لگتی ہیں اورقسم قسم کے خوبصورت نباتات اگاتی ہے ،وہ ہستی جوزمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کرتی ہے وہی قیامت کے دن مردوں  کوبھی ان کی قبروں  سے زندہ نکالے گی،

اس مضمون کوایک مقام پریوں  بیان فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۵۷  [112]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤ ں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے ، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے ) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے،دیکھو اس طرح ہم مُردوں  کو حالت موت سے نکالتے ہیں  شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔

وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِیحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوا مِن بَعْدِهِ یَكْفُرُونَ ‎﴿٥١﴾‏ فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِینَ ‎﴿٥٢﴾‏ وَمَا أَنتَ بِهَادِ الْعُمْیِ عَن ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ ۞ اللَّهُ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَیْبَةً ۚ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِیمُ الْقَدِیرُ ‎﴿٥٤﴾(الروم)
اور اگر ہم باد تند چلا دیں  اور یہ لوگ انہی کھیتوں  کو (مرجھائی ہوئی) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں  تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں  ، بیشک آپ مردوں  کو نہیں  سنا سکتے اور نہ بہروں  کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں  جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں ، اور نہ آپ اندھوں  کو ان کی گمراہی سے ہدایت کرنے والے ہیں  آپ تو صرف ان ہی لوگوں  کو سناتے ہیں  جو ہماری آیتوں  پر ایمان رکھتے ہیں پس وہی اطاعت کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں  کمزوری کی حالت میں  پیدا کیا، پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔

اور اگر ہم ان ہی کھیتوں  کوجن کوہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیاتھاان پرسخت گرم یاسخت ٹھنڈی ہوا یاآندھیاں بھیج کران کی لہلہاتی کھیتیوں  کوتباہ وبربادکردیں  توبارش سے خوش ہونے والے یہی لوگ اللہ کی گزشتہ نعمتوں  کوبھول کر اس کی ناشکری کرنے لگیں  گے ،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ۝۶۳ۭءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ۝۶۴لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ۝۶۵اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ۝۶۶ۙبَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۶۷    [113]

ترجمہ:کبھی تم نے سوچا یہ بیج جو تم بوتے ہوان سے کھیتیاں  تم اُگاتے ہو یا ان کے اُگانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں  تو اِن کھیتیوں  کو بھس بنا کر رکھ دیں  اور تم طرح طرح کی باتیں  بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑ گئی بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! جس طرح مردے فہم وشعورسے عاری ہوتے ہیں اورانہیں  کوئی آوازنہیں  پہنچائی جاسکتی اسی طرح ان لوگوں  کے ضمیربھی مردہ ہوچکے ہیں اس لئےیہ آپ کی دعوت کوسمجھنے اورقبول کرنے سے قاصرہیں  ، اورجس طرح بہروں  کوکوئی اپنی بات نہیں  پہنچاسکتااسی طرح ان لوگوں  نے اپنے دلوں  پرقفل چڑھارکھے ہیں  کہ سب کچھ سنتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں  سمجھتےاورجب یہ داعی کی شکل دیکھ کرہی دوربھاگناشروع کردیں تو دعوت حق ان کے کانوں  میں  کس طرح پڑسکتی ہے اورکیوں  کران کے دل ودماغ میں  سما سکتی ہے،اور تم دل کےاندھوں  کوجوراستہ دیکھناہی نہ چاہیں  ان کی گمراہی سے نکال کر راہ راست نہیں  دکھا سکتے ہو البتہ اللہ توہرچیزپرقدرت رکھتاہے وہ چاہے تومردوں  کو زندوں  کی آوازیں  سناسکتاہے،ہدایت وضلالت اللہ ہی طرف سے ہے،تم تو صرف انہی لوگوں  کودعوت حق سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سر تسلیم خم کر دیتے ہیں  ، جیسے فرمایا

اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ۝۰ۭؔ وَالْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ۝۳۶۬ [114]

ترجمہ: دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں  جو سننے والے ہیں ، رہے مردے ، تو انہیں  تو اللہ بس قبروں  ہی سے اُٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں  پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں  گے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے وسعت علم ،عظمت اقتداراورکمال حکمت کو بیان فرمایاکہ اللہ ہی تو ہے جس نے پانی کے ایک بے حیثیت قطرے سے یاعالم طفولیت سےتمہاری پیدائش کی ابتدا کی پھر اس کے بعد بتدریج تمہیں  بھرپور جوانی کی قوت وطاقت بخشی دی یعنی قوائے عقلی وجسمانی کی تکمیل کردی ، پھر اس جوانی کے بعد بتدریج طاقتیں ،قوتیں  اور صلاحیتیں  گھٹاکرتمہیں  کمزور اورپھر بوڑھا کر دیاکہ دیکھنا،سننا،چلناپھرنا،اٹھنابیٹھنامشکل ہوگیا، اللہ اپنی حکمت ومشیت سے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَیْرَ سَاعَةٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَانُوا یُؤْفَكُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی كِتَابِ اللَّهِ إِلَىٰ یَوْمِ الْبَعْثِ ۖ فَهَٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلَٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَنفَعُ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُونَ ‎﴿٥٧﴾‏(الروم)
اور جس دن قیامت برپا ہوجائے گی گناہ گار لوگ قسمیں  کھائیں  گے کہ (دنیا میں ) ایک گھڑی کے سوا نہیں  ٹھہرے،  اسی طرح بہکے ہوئے ہی رہےاور جن لوگوں  کو علم اور ایمان دیا گیا وہ جواب دیں  گے کہ تم تو جیسا کہ  کتاب اللہ میں  ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے، آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں  مانتے تھے، پس اس دن ظالموں  کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا ۔

دنیامیں واپسی ناممکن ہوگی :اورجب ایک وقت مقررہ پر اللہ کے حکم سے قیامت قائم ہوگی اور تمام اولین وآخرین کوزمین کے گوشے گوشے سےان کی قبروں  سے زندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع کیاجائے گااس دن آخرت کے شدائداورہولناک احوال دیکھ کر مجرمین کی دنیاوی زندگی کے عیش وآرام اورساری آسائشیں  خواب ہوکررہ جائیں  گی اوروہ جھوٹی قسمیں  کھاکھاکرکہیں  گے کہ وہ دنیامیں  یاقبرمیں  ایک گھڑی سے زیادہ نہیں  ٹھہرے تھے ،اللہ تعالیٰ فرمائے گایہ دنیاکے اندربھی ہمیشہ حقائق سے صرف نظرکرکےایسے غلط اندازےلگاتے تھے ،وہاں  بھی یہ حقیقت کے ادراک سے محروم تھے اوران کاعقیدہ تھاکہ کوئی قیامت قائم نہیں  ہونی ،حیات بعدازموت ایک دھوکاہے ،مرنے کے بعدکوئی زندگی نہیں جس میں  اللہ کے سامنے پیش ہوکراعمال کاحساب دینا ہے ،کوئی جزاوسزانہیں ،کوئی جنت ودوزخ نہیں ، مگراہل علم و ایمان جنہیں  حقیقت کاشعورتھاجن کا ایمان تھاکہ ایک روزاللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوکراعمال کاحساب دیناہے،اوروہ ان لوگوں  کودلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ان لوگوں  سے کہیں  گے اللہ کی قضاوقدر کے مطابق جواس نے اپنے حکم میں  تمہارے لئے مقررکردی تھی تمہیں  اس قدرعمردی گئی تھی کہ جس میں  نصیحت حاصل کرنے والانصیحت حاصل کرسکتاتھا،تدبرکرنے والااس میں  تدبر کر سکتا تھااورعبرت پکڑنے والااس میں  عبرت پکڑسکتاتھامگرتم نے کچھ بھی غوروتدبرنہ کیاحتی کہ قیامت آگئی اورتم اس حال کوپہنچ گئے ،یہ وہی روزحشرہے جس کے بارے میں  باربار تمہیں  تنبیہ کی جاتی تھی مگرتم اس کا انکارکرتے ،اس کا مذاق اڑایا کرتے اوراس کامطالبہ کرتے تھے ،اس دن گناہ گاروں  کی کوئی معذرت قبول نہیں  کی جائے گی یعنی اگروہ جھوٹ بولتے ہوئے یہ سمجھیں  کہ ان پرحجت قائم نہیں  ہوئی یاایمان لاناان کے بس میں  نہ تھاتواہل علم وایمان کی گواہی بلکہ خودان کی اپنی کھالوں ،ان کے ہاتھوں  اور پاؤ ں  کی گواہی سے ان کوجھٹلادیاجائے گا،جیسے فرمایا

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰  [115]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں  پہنچ جائیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی کہ وہ دنیا میں  کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔

اگر معذرت کی اجازت چاہیں  کہ ان کواب دنیامیں  واپس لوٹادیاجائے تاکہ وہاں  توبہ واطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کاازالہ کرلیں  کیونکہ توبہ ،ایمان اورعمل صالح کی طرف رجوع کرنے کے سارے مواقع وہ کھوچکے ہوں  گے،اس لئے انہیں دنیامیں  بھیج کریہ موقع نہیں  دیاجائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ یَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِیْنَ۝۲۴ [116]

ترجمہ:اور اگر رجوع کا موقع چاہیں  گے تو کوئی موقع انہیں  نہ دیا جائے گااوروہ ہمیشہ زیرعتاب رہیں  گے۔

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِی هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَلَئِن جِئْتَهُم بِآیَةٍ لَّیَقُولَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ كَذَٰلِكَ یَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلَا یَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِینَ لَا یُوقِنُونَ ‎﴿٦٠﴾‏(الروم)
بیشک ہم نے اس قرآن میں  لوگوں  کے سامنے کل مثالیں  بیان کردی ہیں ، آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لائیں   یہ کافر تو یہی کہیں  گے کہ تم (بیہودہ گو) بالکل جھوٹے ہو،اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کے دلوں  پر جو سمجھ نہیں  رکھتے یوں  ہی مہر لگا دیتا ہے، پس آپ صبر کریں  یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے، آپ کو وہ لوگ ہلکا (بےصبرا) نہ کریں  جو یقین نہیں  رکھتے۔

ہم نے اپنی عنایت اورلطف وکرم سے حقائق کوواضح کرنے کے لئے اس قرآن میں  اللہ کی توحیداوررسولوں  کی صداقت اوراسی طرح شرک کی تردیدکے بے شماردلائل مختلف انداز سے لوگوں  کو سمجھایا ہےمگراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم خواہ کوئی دلائل دکھاؤ اوران کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ لے آؤ  جن لوگوں  نے اپنے کفروطغیان، ضدوہٹ دھرمی اور تعصبات کی بناپردعوت حق پرایمان لانے سے انکار کر دیا ہے وہ بڑی سے بڑی نشانی اورواضح سے واضح دلائل کودیکھ کربھی یہی کہیں  گے کہ ہم راہ راست پرہیں  اور تم جو کچھ بیان کررہے ہووہ باطل ہے یعنی وہ حق کوباطل اورباطل کوحق ہی کہیں  گے،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [117]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں  پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہےان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکر نہیں  دیتے جب تک کہ درد ناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں ۔

اللہ بے علم لوگوں  کے دلوں  پر ٹھپّہ لگا دیتا ہے پھران کے دلوں  میں  کوئی بھلائی داخل نہیں  ہوسکتی،جیسے فرمایا

۔۔۔كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ۝۱۰۱   [118]

ترجمہ:دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں  پر مہر لگا دیتے ہیں  ۔

۔۔۔كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللہُ عَلٰی كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ۝۳۵ [119]

ترجمہ: اسی طرح اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے ۔

پس اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !جاہلوں  کابغض وعناد،ان کی تکذیب وتضحیک ،ان کی ہٹ دھرمی اور دل آزارباتوں  پرصبراوردرگزرکریں  اوراپنی دعوت الیٰ اللہ اورجس چیزکاآپ کوحکم دیاگیاہے اس پرثابت قدم رہیں  اوراس سے سرموانحراف نہ کریں ،اللہ نے آپ سے مددکاجووعدہ کیاہے وہ یقیناًحق ہے جوبہرصورت پوراہوگا،اللہ ایک دن تمہیں  ان پر غالب کرے گا،تمہاری امدادفرمائے گااور مجرمین سے ضرورانتقام لے گا۔

[1] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ۳۱۹۲

[2] جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ ۳۱۹۴

[3] تفہیم القرآن۷۲۴تا۷۲۸؍۳

[4] جامع ترمذی  أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ۳۱۹۴

[5] آل عمران۲۶

[6] الزمر۲۰

[7] تفسیرابن ابی حاتم۳۰۸۸؍۹

[8]تفسیرطبری۷۶؍۲۰

[9] السجدة۸

[10] المرسلات۲۰

[11] الملک۲

[12] الرعد۲

[13] الاحقاف۳

[14] ق۳۶

[15]الاحقاف۵،۶

[16] مریم۸۱،۸۲

[17] ق۲۴تا۲۶

[18] القصص۶۳

[19] الاعراف۴۳

[20] فاطر۳۴

[21] الزمر۷۴)

[22] الواقعة۷تا۱۰

[23] النسائ۱۰۳

[24] بنی اسرائیل۴۴

[25] ھود۱۱۴

[26] طہ۱۳۰

[27] یٰسین۳۳تا۳۵

[28] الحج۵تا۷

[29] الاعراف۵۷

[30] الحجر۲۶

[31] المومنون۱۲

[32] الرحمٰن۱۴

[33] النحل۴

[34] یٰسین۷۷

[35] الدھر۲

[36] الزمر۶

[37] الشمس۸

[38] البلد۱۰

[39] الملک۲۴

[40] مسنداحمد۱۹۶۴۲،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۶۹۳،جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۵۵

[41] الاعراف۱۸۹

[42] الرعد۲

[43] لقمان۱۰

[44] الصافات۶

[45] الانبیاء ۳۳

[46] یٰسین۴۰

[47] الملک۳،۴

[48] الانبیاء ۳۱

[49] الزخرف۱۰

[50] نوح۱۹،۲۰

[51] طہ۵۳

[52] طہ۵۳

[53] القصص۷۳

[54] یونس۶۷

[55] المومن۶۱

[56] المعجم الکبیر للطبرانی۴۸۱۷

[57] الرعد۱۳

[58]الرعد۱۲

[59] البقرة۱۶۴

[60] النحل۶۵

[61] فاطر۹

[62] فاطر۴۱

[63] ابراہیم۴۸

[64] النازعات۱۳،۱۴

[65] یٰسین۵۳

[66] یونس۴

[67] العنکبوت۱۹

[68] صحیح بخاری کتاب التفسیرسُورَةُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ۴۹۷۴

[69] الشوریٰ۱۱

[70] تفسیرطبری۹۴؍۲۰،تفسیرابن ابی حاتم۳۰۹۰؍۹

[71] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ التَّلْبِیَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا ۲۸۱۵

[72] النحل۷۱

[73] النسائ۸۸

[74] آل عمران۱۹

[75] آل عمران۸۵

[76] المائدة۳

[77] الروم: 30

[78] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۂ الروم بَابُ لاَ تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ۴۷۷۵،صحیح مسلم کتاب القدربَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ ۶۷۵۵، مسند احمد ۷۷۱۲

[79] تفسیرابن کثیر۳۱۴؍۶

[80] مسنداحمد۲۲۹۳۷

[81] المومنون۵۳

[82] جامع ترمذی ابواب الایمان مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ۲۶۴۱،شرح السنة للبغوی۱۰۴،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۲

[83] سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ شَرْحِ السُّنَّةِ ۴۵۹۷، مسند احمد ۱۶۹۳۷، المعجم الکبیر للطبرانی ۸۸۴،سنن الدارمی۲۵۶۰، مستدرک  حاکم ۴۴۳

[84] النحل۵۳،۵۴

[85] یونس۲۲،۲۳

[86] العنکبوت۶۵،۶۶

[87] ھود۹،۱۰

[88] ھود۱۱

[89] مسنداحمد۱۸۹۳۴

[90] بنی اسرائیل۳۰

[91] العنکبوت۶۲

[92] آل عمران۲۶

[93] البقرة۲۱۵

[94] البقرة۱۷۷

[95] النسائ۱۱۴

[96]البقرة ۲۶۲،۲۶۳

[97] المدثر۶

[98] آل عمران۱۳۰

[99] البقرة۲۷۵

[100] البقرة  ۲۷۸،۲۷۹

[101] الیل۱۸،۱۹

[102] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ الصَّدَقَةِ مِنْ كَسْبٍ طَیِّبٍ۱۴۱۰،صحیح مسلم کتاب الزکوٰةبَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا۲۳۴۲، مسنداحمد۸۳۸۱، مسندالبزار ۸۹۸۰، صحیح ابن حبان ۳۳۱۹، السنن الکبری للبیہقی۷۷۴۶

[103] الاخلاص۱تا۴

[104] تفسیرابن ابی حاتم۳۰۹۲؍۹

[105] تفسیرابن ابی حاتم۳۰۹۲؍۹، تفسیر طبری ۱۰۷؍۲۰

[106] تفسیرطبری۲۸۸؍۱

[107] الاعراف۱۶۸

[108] التوبة۱۲۶

[109] الرعد۳۱

[110] سنن نسائی کتاب قطع السارق باب التَّرْغِیبُ فِی إِقَامَةِ الْحَدِّ ۴۹۰۸،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ إِقَامَةِ الْحُدُودِ۲۵۳۸،مسنداحمد۸۷۳۸،المعجم الصغیر للطبرانی ۹۶۶،صحیح ابن حبان ۴۳۹۷،شعب الایمان ۶۹۹۶، مسند ابی یعلی ۶۱۱۱

[111] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ۶۵۱۲،۶۵۱۳،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی مُسْتَرِیحٍ وَمُسْتَرَاحٍ مِنْهُ۲۲۰۲،سنن نسائی کتاب الجنائز باب اسْتِرَاحَةُ الْمُؤْمِنِ بِالْمَوْتِ۱۹۳۳، مسنداحمد۲۲۵۳۶،صحیح ابن حبان۳۰۰۷،شعب الایمان ۸۸۲۶،السنن الکبری للنسائی۲۰۶۸،السنن الکبری للبیہقی۶۵۷۴، مصنف عبد الرزاق۶۲۵۴

[112] الاعراف۵۷

[113] الواقعة۶۳تا۶۷

[114] الانعام۳۶

[115] حم السجدة۲۰

[116] حم السجدة۲۴

[117] یونس۹۶،۹۷

[118] الاعراف۱۰۱

[119] المومن۳۵

Related Articles