بعثت نبوی کا پانچواں سال

 مضامین سورۂ النمل

اس سورہ میں  قرآن مجیدکی عظمت اوررب کی طرف سے نازل ہونے کاذکرہے اورفرمایاگیاکہ اس کتاب سے فائدہ وہ لوگ اٹھاسکتے ہیں ،اس کی بشارتوں  کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں  جواس پرایمان لائیں  اوراپنی عملی زندگی میں  بھی اطاعت واتباع کارویہ اختیارکریں ،آخرت پرایمان اوراعمال کی جواب دہی کا مضمون بیان کیا گیا،سابقہ قوموں  فرعون،قوم ثمود، اورقوم لوط کے نظریات وعقائدکاتذکرہ کرکے اہل مکہ سے پوچھاگیاکہ کیاتم بھی ان عقائدونظریات کے شکارنہیں  ہوجن کی وجہ سے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ، شرک اور آخرت کے منکرین کاتذکرہ ہواکہ جب کوئی شخص اس نظریے پرکاربندہوجائے کہ زندگی یہی ہے اوراس کے بعدجوابدہی یا احتساب نام کی کوئی چیزنہیں  ہو گی توایسے شخص میں  حق وباطل میں  تمیزکی صلاحیت ہی نہیں  رہتی اورپھرعذاب الٰہی ایسے شخص کواپنی لپیٹ میں  لے لیتاہے ،اوراللہ کی زمین کواس فسادسے پاک کر دیتا ہے، ایسے لوگوں  کوان کی غفلت ،ضدوہٹ دھرمی کے باوجودراہ راست کی دعوت دینااورآخرت کے بارے میں  تنبیہ اس سورہ کاخاصہ ہے،اس سورہ میں  سلیمان  علیہ السلام  کو عطا کی گئی نبوت ، وسعت حکومت ،اورمال و دولت کاذکرکرکے بتایاگیاکہ ان کو ایسی شوکت وحشمت عطاکی گئی تھی جس کو تم تصورہی نہیں  کرسکتے ، مگر وہ اس دنیاکی نعمتوں  کو پا کر گمراہ نہیں  ہوئے بلکہ دنیاوی الائشوں  سے بچے رہے اور آخرت میں  جواب دہی کے خوف سے لرزاں  رہتے تھےاورہماری عطا کی ہوئی نعمتوں  پراحساس شکر سے سربسجود ہوکر عاجزی وانکساری سے ہماری حمدوثنا بیان کرتے رہتے تھے،یمن کی دولت مند اورعقل مندملکہ کابھی ذکرکیاگیاجوایک مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی مگراسے آخرت میں  جواب دہی کا احساس تھا ، وہ جب سلیمان  علیہ السلام  سے ملی اور اسلام کی حقیقت اس پر روشن ہوئی تویہ دیکھے بغیرکے اس کے عقائدونظریات تبدیل کرنے پروہ ملکہ بھی رہے گی یانہیں  اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اورکسی چیزکی پرواہ نہیں  کی ، توحیدباری تعالیٰ کے لئے کائنات کے نظام کودلائل کے طورپرپیش کیااورغوروفکرکی دعوت دی اورآخرت کے عقیدے پربھی دلائل دیئے گئے ، اور بتایاگیاکہ اس دعوت حقہ کو قبول کرناخودتمہارے لئے ہی فائدہ مندہے اورنہ مانناتمہارے ہی لئے نقصان اورخسارے کاباعث ہو گا ، صلواة،زکواة،اپنی اور معاشرتی اصلاح کی تلقین کی گئی اوربرائی کے فروغ،  اللہ کی زمین پرفساداورفعل ہم جنس پرستی پرمذمت کی گئی،عبرت ونصیحت کے لئے ایسے لوگوں  کی مثالیں  پیش کی گئیں  جو زندگی کے مختلف طبقوں  سے تعلق رکھتے ہیں ، بیت  اللہ کی عظمت کابھی ذکرہے،سابقہ امتوں  کی طرح کفارمکہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے تم ہمیں  ڈراتے ہووہ عذاب جلدی لے آؤ مگررب کے ہرکام میں  کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے ،رب عذاب نازل کرنے میں  جلدی نہیں  کرتابلکہ بندوں  کوہر ممکن مہلت دیتاہے کہ وہ توبہ کرلیں  اور سیدھے راستے پرگامزن ہو جائیں  ،کفارمکہ اس دیرکواپنے حق میں  استعمال کرتے کہ اگریہ رسول سچاہوتاتوعذاب نازل نہ ہوجاتا ،  اللہ نے اس سورہ میں  فرمایاکہ عذاب توآن پہنچا ہے اب اس کے لئے جلدی مت کرو،پھرکائنات میں  بکھری شہادتوں  اورخودانسان کے اندرجوشہادت ہے اسے توحیدکے حق میں  پیش کیااور تردید شرک کرتے ہوئے کفارو مشرکین کے دل ودماغ میں  بسے ہوئے شکوک وشہبات کودورکیاگیااورپھرانہیں  وعیدعذاب کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ ہرطرح کی شہادتوں  کے باوجود محض ضدوہٹ دھرمی کی وجہ سے دعوت حقہ کے انکارکے نتیجہ میں  عذاب آیاہی کرتاہے ،کفارمکہ کے ظلم وجبرسے مجبورہوکرمسلمان پرامن پناہ گاہ کے لئے ہجرت کررہے تھے ان کی ہمت و حوصلہ کی تلقین کی گئی،اس سورہ میں  بتایا گیا کہ دین اسلام محض توحید اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے زبانی اقرارہی کانام نہیں  ہے بلکہ جورب کی طرف سے نازل ہواہے اسے من وعن اپنانے اوراپنے کردارمیں  سمونے کانام ہے ،جس سے ایک موحدمومن کی اصلی پہچان ہوتی ہے ،مختلف اشیاء کی حلت وحرمت کے متعلق بھی چند احکامات بیان کئے گئے، اس کے علاوہ ایک مبلغ کوتبلیغ دین کے لئے کس طرح دعوت دینی چاہیے کوبھی بیان کیاگیاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

طس ۚ تِلْكَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِینٍ ‎﴿١﴾‏ هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ یُوقِنُونَ ‎﴿٣﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿٤﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِی الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ ‎﴿٥﴾‏ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِن لَّدُنْ حَكِیمٍ عَلِیمٍ ‎﴿٦﴾(النملٌ
طس، یہ آیتیں  ہیں  قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی، ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں  کے لئے جو نماز قائم کرتے ہیں  اور زکوة ادا کرتے ہیں  اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  ، جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں  لاتے ہم نے انہیں  ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے ہیں پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ، یہی لوگ ہیں  جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں  بھی وہ سخت نقصان یافتہ ہیں ،بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔

طس،یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل قرآن مجیدکی آیات ہیں  ،جوواضح طورپرحق وباطل کافرق نمایاں  کردیتا ہے،یہ کتاب دنیاوی وآخروی زندگی میں  مکمل ہدایت ورہنمائی کرنے اورجہنم سے نجات اورجنت میں  داخل ہونے کی بشارت دینے والی ہے، اس جلیل القدرکتاب سے راہ یاب وہی ہوں  گے جوہدایت کے طالب ہوں  گے ، اور عملی زندگی میں  اس کی ہدایات اوراحکام پرعمل پیراہوں  گے ،جو اللہ رب العالمین کو وحدہ لاشریک اوراسی کواپناالٰہ مانتے ہیں ،محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مان کران کی اطاعت کرتے ہیں  ،ان پرنازل آخری کتاب قرآن مجید پر،مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے اورروزجزاپر ایمان رکھتے ہیں ،اورعملاًاتباع واطاعت کے لئے خضوع وخشوع کے ساتھ فرض اورنفلی نماز قائم کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انہیں  جوپاکیزہ رزق عطا فرمایا ہے اس میں  سے مستحقین کو فرض اورنفلی زکوٰة اداکرتے ہیں  اور جو آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں ،جیسے فرمایا

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُـقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۳ۙوَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ  [1]

ترجمہ:جوغیب پرایمان لاتے ہیں نمازقائم کرتے ہیں جورزق ہم نے ان کودیاہے اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ،جوکتاب تم پرنازل کی گئی ہے (یعنی قرآن)اورجوکتابیں  تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں  ان سب پرایمان لاتے ہیں  اور آخرت پریقین رکھتے ہیں ۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کااصول ہے کہ جونیک کام کی طرف راغب ہوگااس کے لئے نیکی کاراستہ اورجوبدی کی طرف جاناچاہتاہے اس کے لئے بدی کا راستہ آسان کردیتاہےلیکن ان دونوں  میں  سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنایہ انسان کے اپنے ارادے پرمنحصرہے ،اس لئے فرمایاکہ جولوگ حیات بعد الموت اور روزجزا کو جھٹلاتے ہیں  ان کے لئے ہم نے ان کے اعمالوں  کومزین کر دیا ہے اس لئے گمراہی کے جس راستے پروہ چل رہے ہوتے ہیں اس کی حقیقت سے وہ آشنانہیں  ہوتے اورصحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں  پاتے ،ایسے گمراہ لوگوں  کے لئے ملک الموت کاروح قبض کرتے وقت،عالم برزخ اورپھرروزحشرمیں دردناک سزاہے اورآخرت میں  یہی سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں ،اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! بلاشبہ یہ قرآن تم پرحکمت ودانائی ،علم ودانش میں  کامل ایک حکیم وعلیم ہستی القاکررہی ہے۔

‏ إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّی آنَسْتُ نَارًا سَآتِیكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِیكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ‎﴿٧﴾‏ فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِیَ أَن بُورِكَ مَن فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٨﴾‏ یَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٩﴾‏ وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ یُعَقِّبْ ۚ یَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّی لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ ‎﴿١٠﴾‏ إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١١﴾‏ وَأَدْخِلْ یَدَكَ فِی جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ ۖ فِی تِسْعِ آیَاتٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ ‎﴿١٢﴾‏ فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آیَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿١٣﴾‏ وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿١٤﴾(النمل)
 (یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں  سے کہا کہ میں  نے آگ دیکھی ہے، میں  وہاں  سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں  گا تاکہ تم سینک تاپ کرلو، جب وہاں  پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں  ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں  کا پالنے والا ہے، موسٰی ! سن بات یہ ہے کہ میں  ہی اللہ ہوں  غالب با حکمت، تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا، اے موسٰی ! خوف نہ کھا  میرے حضور میں  پیغمبر ڈرا نہیں  کرتے، لیکن جو لوگ ظلم کریں  پھر اس کے عوض نیکی کریں  اس برائی کے پیچھے تو میں  بھی بخشنے والا مہربان ہوں ، اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں  ڈال، وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے ،تو نو نشانیاں  لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا، یقیناً وہ بدکاروں  کا گروہ ہے،پس جب ان کے پاس آنکھیں  کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے، انہوں  نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر، پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں  کا انجام کیسا کچھ ہوا۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !(انہیں  اس وقت کاقصہ سناؤ )جب موسیٰ بن عمران مدین میں  دس سال گزارکر اپنی اہلیہ کے ساتھ واپس مصرآرہے تھے ، جب موسیٰ   علیہ السلام جزیرہ نمائے سیناکے جنوبی حصے میں  پہنچے جو اب کوہ سینااورجبل موسیٰ کہلاتاہے تورات کے اندھیرے میں  علاقہ سے واقفیت نہ ہونے کے باعث راستے سے بھٹک گئے اورسردی بھی زوروں  پرتھی، اسی اثنامیں  انہوں  نے دور ایک آگ دیکھی تو اپنی اہلیہ سے کہاتم یہیں  ٹھہرومجھے دور ایک آگ سی نظرآئی ہےمیں  وہاں  جاکر صحیح راستہ کے بارے میں  معلوم کرکے آتا ہوں  اور اگر معلومات نہ مل سکیں  توکم ازکم آگ کاکوئی سلگتاہواانگارلے آتاہوں  تاکہ تم اسے تاپ کرسردی سے بچاؤ کرلو ، جب موسیٰ چلتے چلتے اس جگہ پہنچے جہاں  آگ کے شعلے لپکتے نظرآئے تھے تو دیکھاکہ ایک سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلندہورہے ہیں مگرنہ کچھ جل رہاتھااورنہ کوئی دھواں  اٹھ رہاتھا،موسیٰ   علیہ السلام  حیران وپریشان ہوکریہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک غیبی آواز بلند ہوئی کہ مبارک ہے وہ جواس آگ میں  ہے(مگراس سے یہ نہ سمجھ لیاجائے کہ اللہ اس آگ یادرخت میں  حلول کیے ہواتھاجس طرح بہت سے مشرک سمجھتے ہیں  بلکہ یہ مشاہدہ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغازمیں  انبیاء کوبالعموم سرفرازکیا جاتا ہے،کبھی فرشتے کے ذریعے سے ،کبھی اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہم کلامی سے)

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُهُ: لَمْ تَكُنْ نَارًا، إِنَّمَا كَانَتْ نُورًا یَتَوَهَّج

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایاحقیقت میں  یہ آگ نہیں  تھی بلکہ نوربرس رہاتھا۔ [2]

وَفِی رِوَایَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: نُورُ رَبِّ الْعَالَمِینَ

ایک روایت میں  ہے یہ اللہ رب العالمین کانورتھا۔[3]

اورجواس کے ماحول میں  ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{وَمَنْ حَوْلَهَا}قَالَ: یَعْنِی الْمَلَائِكَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  ’’ اور جو اس کے ماحول میں  ہے۔ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی فرشتوں  میں  سے جووہاں  موجودہے۔[4]

اے موسیٰ !اللہ ہرطرح کے عیوب ونقائص اورتمام محدودیتوں  سے پاک ہے اور اللہ ہی سب جہان والوں  کاپالنہارہے ، درخت سے اس آوازکوسن کر موسیٰ   علیہ السلام کو تعجب ہواتو اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ!تعجب نہ کرمیں  اللہ رب العالمین ہوں ،میں  سب پرغالب اوراپنے اقوال وافعال میں  حکمت والاہوں  ،پھرحکم فرمایاموسیٰ اپنے عصا کو زمین پر پھینک دو ، موسیٰ  علیہ السلام  نے تعمیل حکم میں  عصا کوزمین پرپھینک دیا،اب جوموسیٰ   علیہ السلام نے دیکھاکہ زمین پرگراہواعصا سانپ کی طرح پھن اٹھائے پھنکاررہا ہےاورتیزی سے ادھر ادھر فراٹے رہا ہے،موسیٰ   علیہ السلام عالم الغیب تونہیں  تھے جو یہ جانتے کہ عصاکے زمین پرگرتے ہی وہ سانپ بن جائے گا اس لئے رات کے اندھیرے،خاموشی اورتنہائی میں یہ عجیب وغریب منظر دیکھ کرموسیٰ  علیہ السلام کوطبعی خوف محسوس ہوا اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے پیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے ہوئے اورپیچھے مڑکربھی نہ دیکھا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااے موسیٰ ! اپنے دل میں  کسی قسم کاڈروخوف نہ کھاؤ جب میں  کسی کورسول بناتاہوں تو ان کی حفاظت کاذمہ دار ہوتاہوں ،جیسےفرمایا

۔۔۔یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۝۰ۣ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ۝۳۱ [5]

ترجمہ:موسیٰ   علیہ السلام پلٹ آاورخوف نہ کر،توبالکل محفوظ ہے ۔

الایہ کہ کسی رسول سے کوئی قصور سرزدہوگیا ہو پھر اگر برائی کے بعد قصورکرنے والے نے نادم ہوکر بھلائی کاراستہ اختیارکرلیا تومیرے ہاں  اس کے لئے عفوودرگزر کا دروازہ کھلا ہواہے ،جیسے فرمایا

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى۝۸۲ [6]

ترجمہ:البتہ جوتوبہ کرے اورایمان لائے اورنیک عمل کرےپھرسیدھاچلتارہے اس کے لئے میں  بہت درگزر کرنے والا ہوں  ۔

 وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [7]

ترجمہ: اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا ۔

جب موسیٰ  علیہ السلام کادل جم گیاتودوسراحکم فرمایا اب اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں  ڈالو،تمہاراہاتھ بغیرکسی تکلیف کے چمکتاہوانکلے گا،ان دومعجزات کے ساتھ جو نو نشانیوں  میں  سے ہیں  ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ۔۔۔ ۝۱۰۱ [8]

ترجمہ: ہم نے موسیٰ  علیہ السلام کونونشانیاں  عطاکی تھیں  جوصریح طورپردکھائی دے رہی تھیں ۔

(وہ نونشانیاں  یہ تھیں ،عصا کا سانپ بن جانا، بغل میں  ہاتھ ڈالنے سے وہ بغیرکسی تکلیف کے سورج کی طرح چمکتاہوانکلتاتھا،موسیٰ   علیہ السلام کے پیشگی اعلان کے مطابق پورے ملک میں  قحط پڑ جانا، طوفان ،ٹڈی دل کاٹوٹ پڑنا،غلے کے ذخیروں  میں  سرسریاں  اورانسانوں  وحیوانات میں  جوئیں  پڑ جانا، مینڈکوں  کے بے شمارلشکروں  کا امنڈ اپڑنا اور خون )

فرعون اور اس کی قوم کے پاس دعوت توحیددینے کے لئے جاؤ ، انہوں  نے اللہ کی زمین میں  ظلم وفسادکابازارگرم کر رکھا ہے ،چنانچہ موسیٰ   علیہ السلام خلعت رسالت پہن کرفرعون کے دربارمیں  پہنچے ، اسے اوراس کے سرداروں  کو دعوت توحیدپیش کی اور اپنی رسالت کی سچائی میں  دونوں  معجزے دکھائے ، معجزات دیکھ کران کے دل اس کی حقانیت کے قائل ہو گئے تھے مگر انہوں  نے ظلم اور استکبار کی بنا پر اور اس لئے کہ وہ غلام قوم کے فردہیں  ان واضح معجزات کو جادو قرار دیا ،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ۝۴۷ۚ [9]

ترجمہ:کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں  پر ایمان لے آئیں  ؟ اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے۔

چنانچہ اب دیکھ لوکہ اس سرکش قوم کا کیسا عبرت ناک انجام ہواہم نے ان سب کوسمندرمیں  غرق کرکے نشان عبرت بنادیا،پس اے نبی کو جھٹلانے والوں !تم ہمارے نبی آخر الزماں  کوجھٹلاکرکیسے سکون وآرام سے بیٹھ سکتے ہو۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِیرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٥﴾‏ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ یَا أَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَأُوتِینَا مِن كُلِّ شَیْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ‎﴿١٦﴾‏ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ‎﴿١٧﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ یَا أَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿١٨﴾‏ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَىٰ وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِكَ فِی عِبَادِكَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١٩﴾(النمل)
اور ہم نےیقیناً داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا اور دونوں  نے کہا تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں  اپنے بہت سے ایمان دار بندوں  پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے اور کہنے لگے لوگو ! ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ میں  سے دیئے گئے ہیں ، بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے، سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں  سے جمع کیے گئے (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی، جب وہ چیونٹیوں  کے میدان میں  پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیو نٹیو ! اپنے اپنے گھروں  میں  گھس جاؤایسا نہ ہو کہ بے خبری میں  سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں  روند ڈالے ،اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں  تیری نعمتوں  کا شکر بجا لاؤں  جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں  اور میرے ماں  باپ پر اور میں  ایسے نیک اعمال کرتا رہوں  جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں  میں  شامل کر لے۔

(دوسری طرف)ہم نے داود علیہ السلام  اوراس کے بیٹے سلیمان  علیہ السلام  کوحقیقت کاوسیع علم عطاکیاتھااوران دونوں  نے کہایہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں  پر فضیلت عطا فرماکرمملکت کی فرمانروائی کے لئے منتخب کیاہے ،پھر داود  علیہ السلام کی وفات کے بعد۹۶۵قبل مسیح میں ان کاچھوٹابیٹاسلیمان  علیہ السلام نبوت اورخلافت کا وارث قرارپایاان کی مملکت موجودہ فلسطین وشرق اردن اورشام کےایک حصہ پرمشتمل تھی جبکہ داود  علیہ السلام  کی کوئی میراث ہی نہ تھی اگرتھی تواسے صدقہ کردیاگیا،

فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں  ہوتی جوکچھ ہم نے چھوڑاوہ صدقہ ہے۔[10]

حَدَّثَنِی أَبُو بَكْرٍ وَحَلَفَ بِاللَّهِ أَنَّهُ لَصَادِقٌ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: إِنَّ النَّبِیَّ لَا یُورَثُ، وَإِنَّمَا مِیرَاثُهُ فِی فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِینَ وَالْمَسَاكِینِ

ایک اورروایت میں  سیدابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانبی کا وارث کوئی نہیں  ہوتاجوکچھ وہ چھوڑتاہے وہ مسلمانوں  کے فقراء اور مساکین میں  تقسیم کیا جاتاہے۔ [11]

اللہ تعالیٰ نے سلیمان  علیہ السلام  کویہ انفرادی خصوصیات وفضیلت عطا فرمائی تھی جس میں  وہ پوری تاریخ انسانیت میں  ممتاز ہیں   اللہ نے انہیں علم نبوت، حکمت ،مال ، جن وانس اور طیور و حیوانات کی تسخیر کے علاوہ بطور اعجاز پرندوں  اوردوسرے جانداروں  کی بولیاں  بھی سکھلائی تھیں ،وہ چونٹی کی بات بھی سن کرسمجھ لیتے تھے،ان کی بادشاہت کے شایان شان ان کا ایک محل تھاجس کا فرش شیشہ کےبنا ہوا تھا،ان کاایک شاہی تخت بھی تھا جس پر جلوہ افروزہو کروہ امور سلطنت سرانجام دیتے تھے ،اوران کے حکم سے ہواصبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اورشام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ،جیسے فرمایا

وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْہَا۔۔۔۝۸۱ [12]

ترجمہ:اور سلیمان  علیہ السلام کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں  ہم نے برکتیں  رکھی ہیں ۔

وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ۔۔۔۝۱۲ [13]

ترجمہ:اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک ۔

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۝۳۵فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَاۗءً حَیْثُ اَصَابَ۝۳۶ۙ [14]

ترجمہ:اور کہا کہ اے میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے،تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا ۔

الغرض  اللہ تعالیٰ نے انہیں  نبوت، بادشاہت ،دولت وحشمت اورطاقت عطافرمادی تھی،سلیمان  علیہ السلام  کے پاس بڑے لشکرتھے جب کبھی کوچ کرناہوتاتو اتنے بڑے لشکرکو انسانوں  ، جنوں ،پرندوں  اورحیوانات وغیرہ کے الگ الگ گروہوں  میں تقسیم کردیاجاتاتھا اوریہ بھی خیال رکھاجاتاتھاکہ شاہی لشکرکسی بدنظمی اور انتشارکاشکارنہ ہو جائےاس لئے ان گروہوں  کو راستوں  میں  روک روک کردرست کیا جاتا تھا،

قَالَ مُجَاهِدٌ: جَعَلَ عَلَى كُلِّ صِنْفٍ وَزَعَةًیَرُدُّونَ أُولَاهَا عَلَى أُخْرَاهَا لِئَلَّا یَتَقَدَّمُوا فِی الْمَسِیرِكَمَا یَفْعَلُ الْمُلُوكُ الْیَوْمَ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ آپ نے ہرصف پرنگہبان بھی مقررکررکھے تھے جواول سے آخرتک کی ترتیب کی پابندی کراتے تھے  اوراس طرح چلتے ہوئے کوئی ایک دوسرے سے پیش قدمی نہیں  کرسکتاتھا جیساکہ آج کل بھی بادشاہ کراتے ہیں ۔[15]

ایک دفعہ سلیمان  علیہ السلام  کے حکم سے کہیں  کوچ کرنے کے لئے ان کے تمام لاؤ لشکر جمع کیے گئے ، انہوں  نے اپنے لشکروں  کے ہمراہ ایک جلوس کی شکل میں  کوچ فرمایااورچلتے چلتے وہ چیونٹیوں  کی وادی میں  جا پہنچے (وادی نمل اسدوداورغزہ کے درمیان عسقلان کے مضافات میں  واقع ہے ) ان میں  ایک چیونٹی نے اتنے بڑے لشکرکاخطرہ محسوس کرکے دوسری چیونٹیوں  کو خبردار کردیاکہ اے چیونٹیو! سلیمان  علیہ السلام  کالشکرآرہاہے تم سب اپنے اپنے بلوں  میں  گھس جاؤ کہیں  ایسانہ ہوکہ تم سب اس کے لشکریوں کے پاؤ ں سے کچلی جاؤ اورانہیں  خبرتک نہ لگے،یعنی  سلیمان   علیہ السلام کی عظمت وفضیلت کے باوجود چیونٹی بھی جانتی تھی کہ سلیمان  علیہ السلام  عالم الغیب نہیں  ہیں  ،چیونٹی جیسی حقیرمخلوق کی گفتگوسن اور سمجھ کر سلیمان  علیہ السلام  مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اور رب کی بخشش کی ہوئی نعمتوں  پرکہ  اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنابڑا احسان کیا ہوا ہے، ان کے دل میں  شکر گزاری کا شدید احساس ہوا اور وہ رب کریم کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری سے دعا کرنے لگے ۔اے میرے رب !جوعظیم الشان قوتیں  اورصلاحیتیں  تونے مجھے عنایت کی ہیں وہ ایسی ہیں  کہ اگرمیں  ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہو جاؤ ں  تو حد بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں  نہ معلوم کہاں  سے کہاں  نکل جاؤ ں  اس لئے اے میرے پروردگار !اتنی ساری نعمتیں  بخش کر جو احسان تونے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اس پر مجھے قابومیں  رکھنا کہ میں  حدسے باہرنہ نکل جاوں  اور شکرنعمت پر قائم رہنے کے بجائے کفران نعمت کرنے لگوں  اورمجھے توفیق عطافرماکہ میں ایسے اعمال کروں  جوتجھے پسند آئیں  اور تو مجھ سے راضی ہوجائے ،اوراے میرے رب! آخرت میں  مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک وصالح بندوں  کے ساتھ جنت میں  داخل فرمانا ۔

قانون الٰہی ہے کہ جولوگ اللہ کی نعمتوں  کاشکراداکرتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں  میں  برکت عطا فرماتا ہے،جیسے فرمایا

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۝۷ [16]

ترجمہ:اور یاد رکھوتمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں  تم کو اور زیادہ نوازوں  گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا ، فَإِنَّهُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُهُ قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسیدھے سیدھے اورحق کے قریب رہو اوریہ بات جان لو کہ کوئی بھی شخص صرف اپنے عمل سے جنت میں  نہیں  جائے گاصحابہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں  میں  بھی اس وقت تک جنت میں  نہیں  جاؤ ں  گا جب تک  اللہ  تعالیٰ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں  نہیں  ڈھانک لے گی۔[17]

عَنْ أَبِی الصِّدِّیقُ النَّاجِیِّ، قَالَ: خَرَجَ سُلَیْمَانُ  عَلَیْهِ  السَّلَامُ، یَسْتَسْقِی، فَإِذَا هُوَ بِنَمْلَةٍ مُسْتَلْقِیَةٍ عَلَى ظَهْرِهَا، رَافِعَةً قَوَائِمِهَا إِلَى السَّمَاءِ، وَهِیَ تَقُولُ: اللَّهُمَّ، إِنَّا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِكَ، وَلَا غِنَى بِنَا عَنْ سُقْیَاكَ، وَإِلَّا تَسْقِنَا تُهْلِكْنَا  فَقَالَ سُلَیْمَانُ عَلَیْهِ السَّلَامُ: ارْجِعُوا فَقَدْ سُقِیتُمْ بِدَعْوَةِ غَیْرِكُمْ

سیدناابوبکرصدیق سےمروی ہےایک مرتبہ سلیمان  علیہ السلام  استسقاء کے لئے نکلے تو دیکھاکہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤ ں  آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعاکررہی ہے اے اللہ!ہم بھی تیری مخلوق ہیں ،پانی برسنے کی محتاجی ہمیں  بھی ہے اگر پانی نہ برساتوہم ہلاک ہوجائیں  گی،چیونٹی کی دعاسن کر سلیمان  علیہ السلام نے لوگوں  میں  اعلان کرادیاکہ واپس لوٹ چلوکسی اورہی کی دعا سے تم پانی پلائے جاؤ گے۔[18]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ  فَأَمَرَ بِجَهَازِهِ فَأُخْرِجَ مِنْ تَحْتِهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِبَیْتِهَا فَأُحْرِقَ بِالنَّارِ  فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ: فَهَلَّا نَمْلَةً وَاحِدَةً

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا زمانہ ماضی میں  ایک نبی ایک درخت کے نیچے سے گزرے ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں  نے اس کے چھتے کے متعلق حکم دیا تو وہ درخت کے نیچے سے نکالا گیا پھر اس کے گھر کی بابت حکم دیا تو اسے آگ میں  جلا دیا گیاانہوں  نے چیونٹیوں  کے سوراخ میں  آگ لگانے کاحکم دے دیا اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ اے پیغمبر!محض ایک چیونٹی کے کاٹنے پر تونے ایک گروہ کے گروہ کوجوہماراتسبیح خواں  تھاہلاک کردیاتجھے بدلہ لیناتھاتواسی سے لیتے۔[19]

‏ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِیدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَیَأْتِیَنِّی بِسُلْطَانٍ مُّبِینٍ ‎﴿٢١﴾‏ فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَقِینٍ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنِّی وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِیَتْ مِن كُلِّ شَیْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِیمٌ ‎﴿٢٣﴾‏ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ أَلَّا یَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ۩ ‎﴿٢٦﴾(النمل)
آپ نے پرندوں  کاجائزہ لیا اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں  ہدہد کو نہیں  دیکھتا ؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے ؟ یقیناً میں  اسے سزا دوں  گایا اسے ذبح کر ڈالوں  گا یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے، کچھ زیادہ دیر نہیں  گزری تھی  کہ آکر اس نے کہا میں  ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں  کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں ، میں  سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں ، میں  نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے، میں  نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام انہیں  بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں  آتے کہ اسی اللہ کے لیے سجدے کریں  جو آسمانوں  اور زمینوں  کی پوشیدہ چیزوں  کو باہر نکالتا ہے، اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں  ، وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔

ایک اورموقعہ پرسلیمان  علیہ السلام  نے پرندوں  کواپنے دربار میں پیش ہونے کاحکم دیاسب پرندے حاضرہوگئے آپ  علیہ السلام  نے ان کاجائزہ فرمایاتوان پرندوں  میں  ہد ہد پرندے کوغائب پایا آپ نے فرمایاکیا ہدہد غیرحاضرہے یاموجودتوہے اورمجھے نظرنہیں  آرہاہےاگروہ کہیں  غائب ہوگیاہے اورمیرے فرمان کے مطابق حاضرنہیں  ہواتومیں  اسے سخت سزا دوں  گا یا اسے ذبح ہی کرڈالوں  گایا پھرمیرے سامنے اپنی غیرحاضری کی کوئی صاف ،واضح معقول دلیل بیان کرے،

قَالَ مُجَاهِدٌ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ، وَغَیْرُهُمَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَغَیْرِهِ: كَانَ الْهُدْهُدُ مُهَنْدِسًا یَدُلُّ سُلَیْمَانَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، عَلَى الْمَاءِ، إِذَا كَانَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ طَلَبَهُ فَنَظَرَ لَهُ الْمَاءَ فِی تُخُومِ الْأَرْضِ، كَمَا یَرَى الْإِنْسَانُ الشَّیْءَ الظَّاهِرَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، وَیَعْرِفُ كَمْ مِسَاحَةُ بُعْدِهِ مِنْ وَجْهِ الْأَرْضِ، فَإِذَا دَلَّهُمْ عَلَیْهِ أَمَرَ سُلَیْمَانُ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، الْجَانَّ فَحَفَرُوا لَهُ ذَلِكَ الْمَكَانَ، حَتَّى یَسْتَنْبِطَ  الْمَاءَ مِنْ قَرَارِهِ

مجاہد رحمہ اللہ اورسعیدبن جبیر رحمہ اللہ وغیرہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  اوردیگرائمہ تفسیرسے روایت کیاہے کہ یہ ہدہدانجینئرتھا سلیمان  علیہ السلام جب جنگلوں  اورصحراؤ ں  میں  ہوتے تویہ پانی کی نشاندہی کرتا تھا یہ زمین کہ گہرائیوں  میں  پانی کواسی طرح دیکھ لیاکرتاتھاجیسے انسان زمین کے باہرکی چیزوں  کودیکھتاہےاورہدہدیہ بھی بتادیاکرتاتھاکہ پانی زمین کے اندرکتنی گہرائی میں  ہے،جب یہ نشان دہی کردیتاتو سلیمان  علیہ السلام جنوں  کوحکم دیتے کہ وہ زمین کھودیں  اوراس طرح ان کے کھودنے سے پانی نکل آتاتھا۔[20]

کچھ ہی دیرمیں مواحد ہدہدجو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کامکمل احساس وشعور رکھتا تھاان کے حضورپیش ہوگیا اور کہا اے سلیمان!  علیہ السلام  میں  ایک ایسی خبرلایاہوں جوآپ کے علم میں  ہی نہیں  ہے (وہ سلیمان  علیہ السلام کو عالم غیب نہیں  جانتاتھا) میں  ایک ملک جس کا نام سباہے (سباشمالی عرب متصل عراق کی مشہورتجارت پیشہ قوم تھی جس کادارالحکومت مارب تھاجس میں  چارقدیم حکمران عورتوں  کے نام ملتے ہیں )کے مطابق میں  سچی اور یقینی اطلاع لے کر حاضرہوا ہوں  (ہدہدکے لئے یہ امرباعث تعجب تھاکہ) اس قوم پرایک عورت حکمرانی کرتی ہے،

عَنِ الْحَسَنِ،وَهِیَ بَلْقَیسُ بِنْتُ شَرَاحِیلَ مَلَكَةُ سَبَأٍ

حسن بصری فرماتے ہیں  کہ اس عورت سے مرادبلقیس بنت شراحیل ہے جوسباکی ملکہ تھی۔[21]

اللہ تعالیٰ نے اسے طبعی زندگی کی ہرطرح کی نعمت سے نوازر کھا ہے، اس کے علاوہ اس کاایک بڑاعظیم الشان تخت بھی ہے(کہاجاتاہے کہ اس تخت کاطول ۸۰ ہاتھ عرض ۴۰ ہاتھ اوراونچائی ۳۰ ہاتھ تھی،جس میں  موتی ،سرخ یاقوت اورسبز زمرد جڑے ہوئے تھے) جس پربیٹھ کروہ امورسلطنت سرانجام دیتی ہے ،مواحدہدہدنے بڑی حیرت واستعجاب کے اندازمیں  کہاکہ میں  نے یہ بھی دیکھاہے کہ وہ  اللہ  تعالیٰ جو کائنات کاخالق ومالک ہےجواپنے خزانوں  سے جس کوجتناچاہے نوازتاہے، جس رب نے اس قوم کو طبعی زندگی کی ہرنعمت مہیاکررکھی ہے جس کی وجہ سے وہ خوش حالی کی زندگی گزاررہے ہیں  مگروہ گمراہ قوم اپنے رب کی نعمتوں  اوررحمتوں کوبھول کرشیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے، رب کوسجدہ کرنے کے بجائے اس کی مخلوق اور نشانی سورج کو پوجتی اوراسے سجدہ کرتی ہے(سبا کے متعدددیوی دیوتاوں  میں  سے ایک شمس دیوتابھی تھاجس کی تمام جنوبی عرب میں  پرستش کی جاتی تھی،اہل سباکاایک کتبہ ملاجوکبھی کسی معابد پر نصب کیا گیا ہوگا جس پر لکھا ہے

بسم اللہ ھذامابناہ شمریرش یسدة الشمس

ترجمہ:شمریرعش نے سورج دیبی کے لئے یہ بنایا۔

(یونانی مورخ پلینی ۷۹ء کے مطابق سباشہرمیں  سورج دیوتاکی پرستش کے لئے ساٹھ ہیکل تھے) اس طرح وہ قوم شرک وکفر کی اندھیری راہوں  میں بھٹک رہی ہے اورانہیں  یہ سمجھ نہیں  آرہی کہ سجدہ صرف  اللہ  تعالیٰ ہی کوکریں  جوتمام جہانوں  کو پیدا کرنے والاہے اورسجدے کامستحق ہے ،اس کو ہی اپنی حاجات وضروریات کے لئے پکاریں  جو حاجات پوری کرنے کی قدرت وطاقت رکھتاہے اوراس پرہی بھروسہ کریں  وہ الٰہ جوعظمت والے عرش عظیم کامالک ہے جس پروہ اپنی شان کبرائی کے مطابق مستوی ہے جو آسمانوں  اورزمین کی تمام ظاہرو پوشیدہ چیزوں  کویعنی آسمان سے بارش برساتااورزمین سے اس کی مخفی چیزیں  نباتات ،معدنیات اوردیگرزمینی خزانے باہرنکالتاہے اوروہ سب کچھ بھی جانتاہے جوتم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو،جیسے فرمایا

اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۷۷ [22]

ترجمہ:اور کیا یہ جانتے نہیں  ہیں  کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں  اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں  اللہ کو سب باتوں  کی خبر ہے۔

۔۔۔ وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ۝۹۹ [23]

ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہو ۔

۔۔۔ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَہْرَكُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ۝۳ [24]

ترجمہ: وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے۔

سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ۝۱۰ [25]

ترجمہ:تم میں  سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں  چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں  چل رہا ہواس کے لیے سب یکساں  ہیں ۔

شیطان نے انہیں حسب طریقہ ان کے اعمال بدبڑے خوبصورت ومزین کرکے دکھائے ہوئے ہیں  جس سے وہ  اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ صراط مستقیم پر چلنے سے روک دیئے گئے ہیں  اور رب کے سیدھے راستہ کوڈوھنڈنہیں  پارہے ہیں  ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ، النَّمْلَةِ، وَالنَّحْلَةِ، وَالْهُدْهُدِ، وَالصُّرَدِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاچارجانوروں کوقتل نہ کروچیونٹی ،شہدکی مکھی ، ہدہداورصردیعنی لٹورا ۔[26]

قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ اذْهَب بِّكِتَابِی هَٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ قَالَتْ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ إِنِّی أُلْقِیَ إِلَیَّ كِتَابٌ كَرِیمٌ ‎﴿٢٩﴾‏ إِنَّهُ مِن سُلَیْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ‎﴿٣٠﴾‏ أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِی مُسْلِمِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالَتْ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی أَمْرِی مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ ‎﴿٣٢﴾‏ قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِیدٍ وَالْأَمْرُ إِلَیْكِ فَانظُرِی مَاذَا تَأْمُرِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ یَفْعَلُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَإِنِّی مُرْسِلَةٌ إِلَیْهِم بِهَدِیَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(النمل)
سلیمان نے کہا اب ہم دیکھیں  گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے، میرے اس خط کو لے جاکر انہیں  دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ، وہ کہنے لگی اے سردارو ! میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو بخشش کرنے والے مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے یہ کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجاؤ، اس نے کہا اے میرے سردارو ! تم میرے اس معاملہ میں   مجھے مشورہ دو میں  کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں  کرتی، ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں ، آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں  آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں ، اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں  گھستے ہیں  تو اسے اجاڑ دیتے ہیں  اور وہاں  کے باعزت لوگوں  کو ذلیل کردیتے ہیں  اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں  گے، میں  انہیں  ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں  پھر دیکھ لوں  گی کہ قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ۔

سلیمان  علیہ السلام  ایک مشرک قوم کی روئدادسن کرکہاں  خاموش رہ سکتے تھے،وہ تواسلام کی تبلیغ ،وعظ ونصیحت،دعوت حق اوراسلام کے نفاذ اوردبدبہ کے لئے جہادفی سبیل  اللہ میں  بڑے پر جوش تھے ، سلیمان  علیہ السلام  نے ہدہدکی تمام روئدادسن کرتحقیق شروع کردی کہنے لگے ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں  کہ اگرتوواقعی ہی سچاہے توقابل معافی ہے اوراگراپنی جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہے توقابل سزا ہے ،اس لئے فورا ًاسی وقت خط لکھ کرہدہدکے حوالہ کردیااورحکم دیا کہ میرایہ نامہ لے جاکران لوگوں  کی فرمانرواملکہ کی طرف ڈال دے اورفوری واپس نہیں  آجانابلکہ ایک جانب ہٹ کرچھپ جانااور دیکھنا کہ میرے بھیجے ہوئے فرمان پران کاکیاردعمل ہوتاہے اوروہ آپس میں  کیاگفتگوکرتے ہیں  اور کن عزائم کا اظہار کرتے ہیں ،مواحدہدہد نے حکم کے مطابق سلیمان  علیہ السلام  کاخط لے جاکرسورج کی پجاری ملکہ کے پاس(جس کااصل مرکزحکومت جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغرب میں  یمن کا مغربی علاقہ تھالیکن رفتہ رفتہ اس کادائرہ مشرق میں  حضرموت تک وسیع ہوگیا یہاں  تک کہ ان کی حکومت حبشہ تک پھیل گئی تھی ، آثارقدیمہ یمن کے موجودہ دارلحکومت صنعاء کے شمال مشرق میں  ۱۷۵ کلومیڑکے فاصلے پرمملکت سباکے آثارپائے جاتے ہیں ) جبکہ وہ خلوت میں  تھی اس کی گودمیں پھینک دیا،ملکہ نے اس عجیب وغریب طورپرآئے ہوئے خط کوجلدی سے مہرتوڑکر پڑھااورنفس مضمون سے واقف ہوکر حکومت کے سب امراء ،رؤ سا، وزرااور سرداروں  کودربارمیں  بلایااوراونچی آوازمیں کہنے لگی کہ میری طرف ایک بہت اہم اورمعززخط پھینکاگیاہے جوسلیمان  علیہ السلام  کی طرف سے لکھا گیا ہے اوربسم اللہ الرحمٰن الرحیم یعنی بخشش کرنے والے اور مہربان  اللہ کے نام سے شروع ہوا ہے (سب سے پہلے سلیمان  علیہ السلام  نے خط پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھی )اس خط میں  ہمیں  بے چوں  وچراں تمام معبووں  کوچھوڑکر قبول اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم سلیمان  علیہ السلام  کے مقابلے میں  سرکشی ،غروروتکبراورفوجی قوت کی برتری کااظہار کرنے کے بجائے مسلمان بن کرفرمانبر داری کرتے ہوئے ان کے دربارمیں  حاضر ہوں ،خط کانفس مضمون سناکرملکہ بولی اے سرداران قوم! اس مسئلہ پرمجھے اپنامشورہ دوکیونکہ میں  اپناکوئی بھی قطعی فیصلہ تمہاری موجودگی اورمشاورت کے بغیرنہیں  کرتی، سرداروں  نے متفقہ جواب دیااے ملکہ! ہم نہایت تجربہ کاراور پامردی سے لڑنے والے جنگجو ہیں ،ہمیں  اپنی قوت پر اعتمادہے اوراسلحہ کی بھی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں  ہے،ہم میدان جنگ میں  دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  ،اردگردکے لوگ بھی مانتے اور جانتے ہیں  کہ ہماری طاقت مسلم ہے ،ہم اپنے دین ودھرم اور سلطنت کی آزادی ووسعت کے لئے جان کی بازی لگانے کوتیارہیں  اس لئے ہمیں  سلیمان  علیہ السلام  کے آگے جھکنے اور دبنے کی کوئی حاجت نہیں  ہے ، اب حکومت آپ کے ہاتھوں  میں  ہے اوران حالات میں اس امر کافیصلہ بھی آپ نے ہی کرناہے کہ اس وقت کیا کرناچاہیے ہم توآپ کے تابع فرمان ہیں  آپ جوبھی حکم دیں  گی ہم اسے بجالائیں  گے ،اس طرح سب سرداروں  نے لڑائی اورمقابلے کی رغبت دلائی تھی،یہودیوں  میں  اس ملکہ کانام بلقیس مشہور تھاجو بعد میں  مسلمانوں  میں  بھی رائج ہوگیا،یہ داناملکہ کس خاندان سے تھی اور سلیمان   علیہ السلام  کی طرف کس طرف سے گئی تھی اس بارے میں  کئی رائیں  ہیں ، توراة کے مطابق وہ کس سباکے خاندان سے تھی اورقبیلہ کالقب عبدشمس تھا،بعض اہل تاریخ ملکہ سبا کو حمیرکے بادشاہ شرجیل کی بیٹی لکھتے ہیں  حالانکہ بادشاہ شرجیل اور سلیمان   علیہ السلام  میں  ڈیڑھ ہزار برس کی دوری ہے، ترگوم کے مطابق اس کاملک فلسطین کے مشرق میں  ہے (جوئش انسائیکوپیڈیا مضمون سبا) انجیل کے مطابق وہ فلسطین کے جنوب سے آئی تھی(متی ۱۲،۴۲ ۔لوقا ۱۱،۳۱) یوسیفوس اسرائیلی تاریخ کے مطابق وہ مصروحبشہ کی شہزادی تھی (ذکرسلیمان جلداول)اہل حبش اس کوحبشی کہتے ہیں (جوئش انسائیکوپیڈیا مضمون سبا) یوسیفوس ، ترگام اورانجیل کے مطابق کہ وہ مصرکی شہزادی تھی متفقاًغلط ہے،اصل میں  وہ جنوبی عرب میں  یمن کی ملکہ تھی جو بڑی ہوشیار،سمجھ داراورعاقبت اندیش تھی،ایک پرندے کے پاس سے خط پاکر وہ بہت کچھ سمجھ گئی تھی کہ سلیمان  علیہ السلام  جواسلام کی دعوت دے رہے ہیں کے مقابلے میں  لاؤ لشکراور مقابلے کی قوت کوئی حقیقت نہیں  رکھتا ہے،اس لئے اس نے اپنے فرمانبردار وزیروں  اورمشیروں  سے کہابیشک تم لوگوں  نے صحیح کہا ہے کہ ہم طاقتوراورجنگجوقوم ہیں  مگرہمیں  جلد بازی کا مظاہرہ نہیں  کرناچاہیے بلکہ ہمیں  پہلے سلیمان  علیہ السلام کی فوجی طاقت وقوت کا اندازہ لگاناچاہیے اورپھرفیصلہ کرناچاہیے کہ آیاہم اس سے جنگ کریں  یااطاعت قبول کرلیں ،میں  ایک ترکیب کرتی ہوں  کہ قاصدوں  کو کچھ بیش بہا،قیمتی، نفیس تحائف دے کر اس بادشاہ کی طرف جس کی پرندے بھی تابعداری کرتے ہیں  روانہ کرتی ہوں  ان تحائف کے بہانے سے قاصدخفیہ طورپراس بادشاہ کی شان وشوکت،فوجی وعسکری قوت ، ان کی تعداداوراسلحہ وغیرہ کااندازہ لگا کر واپس آئیں  گے اورہمیں  یہ بھی اندازہ ہوجائے گاکہ آخر وہ ہم سے کیاچاہتے ہیں  ،ان قاصدوں  کی لائی ہوئی اطلاع کے مطابق ہی ہم کوئی اقدام کریں  گے اگرواقعی ہی وہ ایسی ہی فوجی قوت اورشان وشوکت کا مالک ہے جواس نے ظاہرکی ہے تواس سے جنگ کرنانہایت مضرہوگا جس سے ہمیں  سوائے ہماری بربادی کے سواکچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ با دشاہوں  کاوطیرہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کوفتح کرتے ہیں  تواسے تہس نہس اوراجاڑکر کے رکھ دیتے ہیں  اور وہاں  کے صاحب حیثیت اورذی عزت لوگوں  کوذلیل ورسوا کرتے ہیں  ، کہیں  ایساہی ہمارے ساتھ نہ ہوجائے بہت ممکن ہے کہ وہ ان تحائف کو قبول کرلیں  اورانہیں ہم پرچڑھائی کرنے کی نوبت ہی نہ پڑے(اس طرح ملکہ نے معاملات کوپرامن طورپرحل کرنے کا عزم کیا) اگروہ ایساکریں  گے توپھروہ صرف ایک بادشاہ ہے اورمقابلہ کرنے میں  کوئی حرج نہیں  ،ہدہدیہ ساری کاروائی بیٹھاسکون سے سنتارہاپھروہاں  سے اڑکرواپس سلیمان  علیہ السلام  کے پاس آیااورملکہ کے دربارکی ساری کاروائی اورملکہ کے خفیہ ارادوں  کی مکمل اطلاع دی کہ اس کے کیاعزائم ہیں اورکن مقاصدکے حصول کے لئے وہ اپنے قاصدروانہ کررہی ہے ۔

فَلَمَّا جَاءَ سُلَیْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ اللَّهُ خَیْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ ارْجِعْ إِلَیْهِمْ فَلَنَأْتِیَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ‎﴿٣٧(النمل)
پس جب قاصد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو ؟  مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں  دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو ، جا ان کی طرف واپس لوٹ جا، ہم ان (کے مقابلہ) پر وہ لشکر لائیں  گے جن کے سامنے پڑنے کی ان میں  طاقت نہیں  اور ہم انہیں  ذلیل و پست کرکے وہاں  سے نکال باہر کریں  گے ۔

بہت جلد ہدہدکے پیغام کی عملی تصدیق ہوگئی جس سے اس کی جان بخشی ہوئی اوراس نے رب کاشکراداکیا،جب ملکہ کاسفیرسلیمان  علیہ السلام  کے دربارمیں  پہنچااوراس نے ملکہ کے قیمتی ونفیس تحائف سلیمان  علیہ السلام  کو پیش کئے مگرسلیمان  علیہ السلام  نے ان کی طرف مطلقاًالتفات نہیں  فرمایااورقاصدوں  کوغصہ سے کہنے لگے کیاتم ان ہیرے جواہرات کے تحائف سے جن کوتم نہایت اعلی اورقیمتی سمجھ رہے ہوبہت خوش ہوکہ مجھے پیش کرکے اپنی امارت کارعب ڈال سکوگے اوراس طرح مجھے اپنے ارادوں  پرعمل کرنے سے بازرکھ سکوگے کہ تم اپنے مشرکانہ دین پرقائم رہوتویادرکھویہ تمہاری خام خیالی ہے مجھے میرے رب نے جن بے بہا مال خزانوں ،نعمتوں ،بے مثال مستحکم بادشاہت اورنبوت سے جتنانوازاہواہے وہ ساری کائنات میں  کسی کونہیں  دیاتمہاری یہ چند حقیر چیزیں اور لال وجوہرات سے جواس نے تمہیں  دیں  ہیں  کہیں  زیادہ ہے جس کی کوئی نسبت ہی نہیں ،میں  مال وزراورفوجی قوت وطاقت کے اعتبارسے تم سے کہیں  بہترحالت میں  ہوں ،اے سفیر ! اپنی ملکہ کے بھیجے ہوئے تحفے واپس لے جاؤ اورتم لوگ ہی اس ہدیے پرفخرکرو اور خوش رہو، میرا مقصود دنیاکامال وزریاحکومت کاپھیلاؤ نہیں  بلکہ دعوت توحیدکاپہنچانااوراس کاعملی نفاذہے اس لئے میں  توان لال وجواہرات سے خوش ہونے سے رہا(پھرسلیمان  علیہ السلام  نے فوجی یلغار کی دھمکی دی )اورجاکراپنی قوم کو خبردار،ہوشیار کردے کہ اگروہ سورج دیوتا کی پرستش کوچھوڑکر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف نہ پلٹے تو وہ مقابلے کی تیاری کر لیں   میں  ان کے خلاف جہادفی سبیل  اللہ کاآغازکروں  گااور تمہاری قوم پرایسے عظیم الشان اوربہت بڑے لشکرلے کرچڑھائی کروں  گاکہ تم ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت وہمت اپنے اندر نہیں  پاؤ گے ،ہم تمہارے تخت وتاج کوروند کرتمہارافخروغرورخاک میں  ملاڈالیں  گے ،تمہاری عوام کا خوب کشت وخون بہائیں  گے ، بچے کچھے لوگوں  کو اسیربنائیں  گے ، حکمرانوں  اور سرداروں  کو ان کی سلطنت سے ذلت وحقارت کے ساتھ نکال باہر کریں  گے اوروہ ہمیشہ کے لئے ذلیل وخوارہوکررہ جائیں  گے ،ملکہ کے سفیر نے اپنے قیمتی تحائف اٹھائے اورتھکے قدموں اپنے ملک واپس روانہ ہوااورملکہ کے دربارمیں  پہنچ کر سلیمان  علیہ السلام  کاجہادوقتال کاپیغام اورملکہ کے حکم کے موجب جوکچھ دیکھ کراندازہ کیا تھا کہ سلیمان  علیہ السلام  کے پاس صرف انسانوں  ہی کی فوج نہیں  بلکہ اس کے پاس تو جنات کی بھی ایک بڑی فوج ہے ،اس کاحکم توپرندے وحیوانات بھی مانتے ہیں  اورتواورہوابھی ان کے تابع فرمان ہے سب کے سامنے گوش گزارکردیا،سلیمان  علیہ السلام  کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگالیاکہ سلیمان  علیہ السلام  عام بادشاہوں  کی طرح اپنی حکومت کوزیادہ سے زیادہ علاقوں  تک فروغ دینے کی خواہش رکھنے اورمال ودولت سے خزانے بھرنے والالالچی بادشاہ نہیں  ہے اورجس طرح کی فوجیں  اس کے ساتھ ہیں  وہ اپنی مختصرسی فوج کے ساتھ سلیمان  علیہ السلام  کا مقابلہ نہیں  کرسکےگی اس کے علاوہ اس کی دعوت بھی دنیا کے دوسرے بادشاہوں  سے بھی مختلف ہے کہ میں  اورمیری قوم اپناآبائی مذہب سورج دیوتاکی پرستش کرنا چھوڑکر مسلمان ہوجائیں ،اس لئے بہتریہی ہے اس کی بات مان لی جائے ،سب باتوں  کاجائزہ لے کراس نے اپنی قوم سے کہاکہ بظاہرتو یہی معلوم ہوتاہے کہ میں  اس کی حکومت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کاماتحت ہوناقبول کرلوں ،میں  خودکواوراپنی قوم کوتباہی وبربادی سے بچانے کے لئے اس بادشاہ کی اطاعت وفرمانبرداری کے اظہار کے طورپر اس کی طرف جاتی ہوں ،چنانچہ ملکہ نے مطیع و منقادہوکرسلیمان  علیہ السلام  کے پاس آنے کی تیاریاں  شروع کردیں  ،رب العزت نے بذریعہ وحی سلیمان  علیہ السلام  کوبھی ملکہ کی روانگی اور حاضر خدمت ہونے کی پیشگی اطلاع دے دی تو سلیمان  علیہ السلام نے ملکہ کو مزیداپنی اعجازی شان دکھانے کاپروگرام بنایااورانکے پہنچنے سے قبل ہی اس کاتخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

قَالَ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ أَیُّكُمْ یَأْتِینِی بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن یَأْتُونِی مُسْلِمِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ قَالَ عِفْرِیتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّی عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ أَمِینٌ ‎﴿٣٩﴾‏ قَالَ الَّذِی عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِیكَ بِهِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّی غَنِیٌّ كَرِیمٌ ‎﴿٤٠﴾‏(النمل)
آپ نے فرمایا اے سردارو ! تم میں  سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے،  ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں  اس سے پہلے ہی پہلے میں  اسے آپ کے پاس لا دیتا ہوں ،  یقین مانئے کہ میں  اس پر قادر ہوں  اور ہوں  بھی امانت دار ،جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں  اس سے بھی پہلے میں  اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ، جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں  شکر گزاری کرتا ہوں  یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری  کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ)غنی اور کریم ہے۔

وَقَالَ السُّدِّیُّ، وَغَیْرُهُ: كَانَ یَجْلِسُ لِلنَّاسِ لِلْقَضَاءِ وَالْحُكُومَاتِ وَلِلطَّعَامِ  مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ إِلَى أَنْ تَزول الشَّمْسُ

سدی اوردیگرائمہ نے لکھاہے سلیمان علیہ السلام  عوام الناس کے مقدمات کےفیصلے فرمانے،امورحکومت چلانے اورخوراک وغیرہ کے لیے صبح سے نصف النہارتک لوگوں  کے لیے دربار منعقدفرماتے تھے۔ [27]

دل ہی دل میں ملکہ کا تخت منگوانے کافیصلہ کرکے جب وہ اپنے تخت شاہی پربیٹھ گئے تو فرمایااے اہل دربار!اس سے قبل کہ اہل سبا اسلام لاکراورمیرے مطیع فرمان بن کر میرے دربار میں  آئیں  میں  چاہتاہوں  کہ اس ملکہ کاتخت شاہی اس کے یہاں  پہنچنے سے قبل یہاں  لایاجائے، وقت نہایت کم ہے تم میں  سے کون اس کاتخت شاہی میرے پاس لاکر حاضرکرتا ہے ، سلیمان  علیہ السلام  کی فرمائش سن کرایک قوی ہیکل جن نے کہا(وہ یقیناًایک قوی ہیکل جن ہی تھاجنہیں  اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں  غیرمعمولی قوتوں  سے نوازاہے کیونکہ کسی انسان کے لئے چاہے وہ کتناہی زور آور ہویہ ممکن ہی نہیں  ہے کہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا)جائے اورپھروہاں  سے تخت شاہی اٹھالائے اورڈیڑھ ہزارمیل کایہ فاصلہ جسے دوطرفہ شمارکیا جائے توتین ہزارمیل بنتا ہے تین چار گھنٹوں  میں  طے کرلے ،ایک طاقت ورسے طاقت ورانسان بھی اول تواتنے بڑے تخت کواٹھاہی نہیں  سکتااوراگروہ مختلف لوگوں  یاچیزوں  کا سہارالے کراٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں  اتنا سفر کیوں  کرممکن ہے) میں  اس سے قبل کہ آپ دربار برخاست کریں  (یعنی نصف النہارتک )میں  وہ تخت آپ کی خدمت میں  حاضر کردوں  گا اللہ نے مجھے اس کام کی طاقت وقوت دے رکھی ہے اور ساتھ ہی میں  امانت داربھی ہوں  اورمیں  اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہوں  کہ اس تخت میں  لگے سوناچاندی ،ہیرے جواہرات میں کوئی ہیراپھیری بھی نہیں  کروں  گااوربطورامانت آپ کے سپردکردوں  گا ، سلیمان  علیہ السلام  نے فرمایا مگرمیں  اس سے بھی پہلے چاہتا ہوں ،آپ  علیہ السلام  کے دربارمیں  ایک ایساشخص بھی موجودتھاجس کے پاس کتاب الہٰی کاعلم تھا،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ :آصِفٌ كَاتِبُ سُلَیْمَانَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں  یہ سلیمان  علیہ السلام کاکاتب آصف تھا۔[28]

وَكَذَا رَوَى مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ: أَنَّهُ آصِفُ بْنُ بَرْخِیَاءَ، وَكَانَ صِدِّیقًا یَعْلَمُ الِاسْمَ الْأَعْظَمَ

محمدبن اسحاق نے بھی یزیدبن رومان سے روایت کیاہے کہ یہ آصف بن برخیاتھاجوایک سچاشخص تھااوراسم اعظم جانتاتھا۔[29]

عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ:مُؤْمِنُ الْإِنْسِ وَاسْمُهُ آصِفٌ

قتادہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں  یہ انسانوں  میں  سے ایک مومن تھا اور اس کانام آصف تھا۔[30]

سلیمان  علیہ السلام  کے اس جلدی کے تقاضے کوسن کربولا اے سلیمان  علیہ السلام !میں  اس تخت کوآپکے سکون سے پلک جھپکنے سے بیشترآپ کی خدمت میں حاضرکردیتاہوں ،  اللہ تعالیٰ نے کرامت اوراعجازکے طورپراس وزیرمیں  یہ قدرت عطاکردی اورسلیمان  علیہ السلام  نے دوسری طرف مڑکر جودیکھاتووہاں  ملکہ کے ہیرے جواہرات سے جگمگ جگمگ کرتے خوبصورت عالی شان تخت کوموجودپایاجونہی سلیمان  علیہ السلام  نے تخت کواپنے روبروپایاوہ بے اختیار پکار اٹھے یہ صرف میرے رب کافضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں  شکرگزاری کرتا ہوں  یامیں  ناشکری کی راہ اختیارکرتاہوں ،جورب کاشکربجالائے گااورنیک عمل کرے گاوہ اپناہی فائدہ کرے گااور جو ناشکری کی اوربرائی کی راہ پرچلے گاوہ اپنا ہی نقصان کرے گا،  اللہ تعالیٰ بندوں  کی بندگی سے بے نیازہے اورخودبندوں  سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاج نہیں  ،جیسے فرمایا

 مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۔۔۔۝۰۝۴۶ [31]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا ، جو بدی کرے گا اس کا وبال اُسی پر ہوگا ۔

مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْہِ كُفْرُہٗ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُوْنَ۝۴۴ۙ [32]

ترجمہ:جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہےاور جن لوگوں  نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں ۔

اورموسیٰ   علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۸  [33]

ترجمہ:اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں  تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں  آپ محمود ہے ۔

 عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ،

اورابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت ہے اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں  نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں  نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  ہدایت دوں  تم مجھ سے ہدایت مانگو میں  تمہیں  ہدایت دوں  گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  کھلاؤں  تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں  تمہیں  کھانا کھلاؤں  گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  پہناؤں  تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں  تمہیں  لباس پہناؤں  گا ، اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں  سارے گناہوں  کو بخشتا ہوں  تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں  تمہیں  بخش دوں  گا۔

یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

اے میرے بندو! تم مجھے ہرگز نقصان نہیں  پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو،اے میرے بندو! اگر تم سب اولین و آخرین اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں  کچھ بھی اضافہ نہیں  کر سکتے، اور اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں  کچھ کمی نہیں  کر سکتے، اے میرے بندو! اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں  کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں  ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں  تو پھر بھی میرے خزانوں  میں  اس قدر بھی کمی نہیں  ہوگی جتنی کہ سمندر میں  سوئی ڈال کر نکالنے سے، اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں  کہ جنہیں  میں  تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں  پھر میں  تمہیں  ان کا پورا پورا بدلہ دوں  گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے ۔[34]

قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِی أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِینَ لَا یَهْتَدُونَ ‎﴿٤١﴾‏ فَلَمَّا جَاءَتْ قِیلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِینَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِینَ ‎﴿٤٣﴾(النمل)
حکم دیا کہ اس تخت میں  کچھ پھیر بدل کر دو تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ راہ پالیتی ہے یا ان میں  سے ہوتی ہے جو راہ نہیں  پاتے، پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا (دریافت کیا)گیا کہ ایسا ہی تیرا (بھی)تخت ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے، ہمیں  اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے ،اسے انہوں  نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی، یقیناً وہ کافر لوگوں  میں  تھی۔

اب سلیمان  علیہ السلام  نے حکم فرمایاکہ فوری طورپر اس تخت کے رنگ وروپ اوروضع وہیئت میں  تبدیلی کردو تاکہ ملکہ کی آزمائش کریں  کہ وہ اپناتخت پہچان لیتی ہے یانہیں  ، پس تخت میں  کچھ تغیروتبدیلی کردی گئی، جب ملکہ سبا اپنے سرداروں ،فوجی دستوں  اوربہت سے اونٹوں  جن پرخوشبوکی چیزیں ،بہت ساسونا اور بیش قیمت جواہرلدے ہوئے تھے کے ہمراہ بڑے تزک واحتشام کے ساتھ مآرب یمن سے بیت المقدس تک ڈیڑھ ہزارمیل کاپردشوارفاصلہ طے کرکے سلیمان  علیہ السلام  کے پاس پہنچی، ملکہ نے سلیمان   علیہ السلام  کوایک سوبیس قنطار سونا ، قیمتی جواہرات اوربے نظیرخوشبوئیں  نذر گزاریں (تاریخ ایام) توانجان طرح سے تخت اس کے سامنے رکھ دیاگیااوراس سے کہاگیاکہ کیاتیراتخت ایساہے،ملکہ اپنے تخت کو پہچان گئی مگراس نے دانائی ظاہرکی اور صاف الفاظ میں  تخت اپناہونے کا اقرارنہیں  کیابلکہ محتاط ہوکربیچ کی بات کی اوربولی یہ تو گویاوہی ہےاورہمیں  توپہلے ہی علم ہوگیا تھا کہ آپ واقعی ہی نبی ہیں  اورہم تابع فرمان ہوگئے تھے، کیونکہ داناملکہ کاتعلق ایک کافرقوم سے تھاجو باطل معبودوں  کی پرستش کرتی تھی اس لئے وہ توحیدکی حقیقت سے بے خبر رہی تھی ، جس کی وجہ سے ان کے کفر نے انہیں  توحیدالہٰی اور اللہ  کی عبادت سے روک رکھاتھامگرجب دعوت کی حقیقت کھلی تو فورا ًایمان لے آئی۔

قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَیْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِیرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٤﴾‏(النمل)
اس سے کہا گیا کہ محل میں  چلی چلو، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں  کھول دیں ، فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے، کہنے لگی میرے پروردگار ! میں  نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اب میں  سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرماں  بردار بنتی ہوں ۔

سلیمان  علیہ السلام  نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہردکھانے کے بعدمناسب سمجھاکہ ملکہ کواپنی اس دنیاوی شان وشوکت کی بھی ایک چھوٹی سی جھلک دکھلادی جائے جس میں   اللہ  تعالیٰ نے انہیں  تاریخ انسانیت میں  ممتازکیاتھاچنانچہ ملکہ جو صاف وشفاف شیشے کابناہوامحل دیکھ کرہی حیرت زدہ تھی جس کافرش بھی صاف وشفاف شیشے کاتھاجس کے نیچے پانی سے لبالب حوض تھا اور آنے والاشیشےاورپانی کاامتیازنہیں  کرسکتاتھابلکہ اسے یہی معلوم ہوتاتھاکہ نیچے پانی ہی پانی ہے،سلیمان  علیہ السلام  نے دوراندیش ملکہ کو اس شیشے کے محل میں  داخل ہونے کوکہا،داناملکہ جب محل میں  داخل ہونے لگی تواسے بھی شیشے کاچکنافرش پانی معلوم ہواچنانچہ ملکہ نے اپنے کپڑوں  کوپانی سے بچانے کے لئے اپنے کپڑے سمیٹ کر پائنچے چڑھالئے جس سے اس کی پنڈلیاں  ننگی ہوگئیں ، سلیمان  علیہ السلام  نے فرمایاآپ کوغلطی لگی یہ پانی نہیں  بلکہ یہ توشیشے کاچکنافرش ہے،داناملکہ سلیمان  علیہ السلام  کے دربارکے ٹھاٹ باٹ ، انکی رفعت و عظمت ،شان و شوکت اورسلطنت آتے ہی دیکھ چکی تھی کہ جن وانس سب دربارمیں  موجود ہیں اوربیچ میں  تخت سلیمانی ہے، ساتھ ہی آپ  علیہ السلام  کی سیرت ونیکی کوبھی پرکھ رہی تھی،سلیمان  علیہ السلام  نے جودعوت حق دی اسے بھی بغورسنااوراس کی حقانیت سے متاثرہوچکی تھی اب جو یہ انوکھی چیزدیکھی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کااحساس ہوااوروہ کھسیانی ہو گئی چنانچہ فورا ً رب کی طرف جھک گئی اورکہنے لگی،اے میرے رب !میں  نے اپنے اوپر بڑاظلم کیا اب میں  سلیمان  علیہ السلام  کے ساتھ رب العالمین پرایمان لے آئی جوخالق ،مالک ، متصرف اور مختارکل ہے میں اسی کوہی اپنامعبودبرحق مانتی ہوں  اوراپنے باطل معبودوں  سے بیزار ہوں  اورشرک وکفرسے توبہ کرتی ہوں  اورحکومت سباکوسلیمان  علیہ السلام  کے زیرفرمان کردیا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِیقَانِ یَخْتَصِمُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَكَانَ فِی الْمَدِینَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَیِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٥١﴾‏ فَتِلْكَ بُیُوتُهُمْ خَاوِیَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ وَأَنجَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا وَكَانُوا یَتَّقُونَ ‎﴿٥٣﴾ّ(النمل)
یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو، پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں  لڑنے جھگڑنے لگے ،آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو ! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں  کر مچا رہے ہو؟  تم اللہ سے استغفار کیوں  نہیں  کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے، وہ کہنے لگے ہم تیری اور تیرے ساتھیوں  کی بد شگونی لے رہے ہیں  ؟ آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں  ہے بلکہ تم فتنے میں  پڑے ہوئے لوگ ہو، اس شہر میں  نو سردار تھے  جو زمین میں  فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں  کرتے تھے، انہوں  نے آپس میں  بڑی قسمیں  کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں  پر ہم چھاپہ ماریں  گے اور اس کے وارثوں  سے صاف کہہ دیں  گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں  ،انہوں  نے مکر (خفیہ تدبیر)کیا اور ہم نے بھی، اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے ،(اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کردیا،  یہ ہیں  ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں ، جو لوگ علم رکھتے ہیں  ان کے لیے اس میں  بڑی نشانی ہے،  ہم نے ان کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچالیا۔

صالح   علیہ السلام کوہم نے ان کی قوم ثمودکی طرف دعوت توحیددینے کے لئے بھیجا انہوں  نے اپنی قوم سے کہااے میری قوم ! طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروجوتمہاراخالق ومالک ہے ،جوتمہیں  آسمان وزمین سے رزق عطافرماتاہے ،جوتمہاری پکارکوسنتااورتمہاری حاجات کوپوراکرتاہے ،جس کے ہاتھ میں  ہرطرح کی طاقت اوراختیارہے ،صالح   علیہ السلام کی دعوت پران کی قوم کے چندکمزورحیثیت مگر سلیم الفطرت لوگ ایمان لے آئےمگرقوم کی اکثریت سرکشی پرہی تلے رہی ،اس طرح ہمیشہ کی طرح اہل حق اور کفروشرک کے پیروکاروں  میں  محاذآرائی شروع ہوگئی ،جیسے فرمایا

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ۝۰ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۷۵قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۝۷۶ [35]

ترجمہ:اس کی قوم میں  سے جوسرداراپنی بڑائی کاگھمنڈرکھتے تھے انہوں  نے ان لوگوں  سے جوکمزوربناکررکھے گئے تھے جوان میں  سے ایمان لائے تھے کہا کہ کیاواقعی تم یہ جانتے ہوکہ صالح   علیہ السلام اپنے رب کی طرف سے بھیجاگیاہے؟انہوں  نے جواب دیاہم اس چیزپرایمان رکھتے ہیں  جس کولے کروہ بھیجے گئے ہیں ،ان متکبرین نے کہاجس چیزپرتم ایمان لائے ہواس کے ہم کافرہیں ۔

صالح   علیہ السلام شرک میں  ڈوبے ہوئے لوگوں  کوخلوص وہمدردی سے رب کی نشانیوں  پردلیل پردلیل دیتے تاکہ قوم کے لوگ ایمان لے آئیں  اوراپنی گزشتہ بداعمالیوں  پر رب سے گڑگڑاکرمعافی چاہیں  اورآئندہ زندگی میں  عمل صالحہ اختیارکریں ،مگرشومئی قسمت وہ لوگ جہنم میں  داخل ہونے کے لئے شیربن کررہے ،اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق بڑے عذاب سے بیشترآخری موقعہ کے لئے چھوٹے چھوٹے جھٹکے دیتاہے تاکہ لوگ کسی طرح ڈر جائیں  اوراس کے حضور گڑگڑاکراپنے گناہوں  کی معافی طلب کر کے عذاب جہنم سے بچ جائیں مگرقوم کے لوگ نصیحت حاصل کرنے کے بجائے صالح   علیہ السلام کوہی مودالزام ٹھیراتے ، انہیں  بدشگونی کانشان کہتے کہ آپ اورآپ کے پیرو کاروں  کی نحوست کی وجہ سے ہم ان مصائب ومشکلات کاشکارہیں ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللهِ۔۔۔۝۷۸ [36]

ترجمہ:اگرانہیں  کوئی فائدہ پہنچتاتوکہتے ہیں  یہ اللہ کی طرف سے ہے اوراگرکوئی نقصان پہنچتاتوکہتے کہ اے نبی!یہ آپ کی بدولت ہے،کہوسب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ۝۰ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَیَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــیْمٌ۝۱۸قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ۝۰ۭ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۝۱۹ [37]

ترجمہ:بستی والے کہنے لگے ہم تو تمہیں  اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں  اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں  گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے،رسولوں  نے جواب دیا تمہاری فال بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے ،کیا یہ باتیں  تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں  نصیحت کی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو ۔

قوم فرعون بھی موسیٰ   علیہ السلام کے بارے میں  یہی کہتی تھی

فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَـنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗ۔۔۔۝۱۳۱ [38]

ترجمہ: جب ان پر کوئی اچھاوقت آتاتوکہتے کہ ہمارے لئے یہی ہے اورجب کوئی مصیبت آجاتی توموسیٰ  علیہ السلام اوران کے ساتھیوں  کی نحوست کواس کاذمہ دارٹھیراتے ۔

یعنی مشرکین کاذہن ایک ہی ہوتاہے اس لئے ہرقوم نے اپنے نبی کویہی الفاظ کہے ۔ صالح   علیہ السلام کہتے مجھے یامیرے پیروکاروں  کوالزام دینے کے بجائے آنکھیں  کھول کردیکھو اور غورکرومیں  یامیرے پیرو کارنحوست کاباعث نہیں  بلکہ اس کااصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضاوقدراسی کے اختیارمیں  ہے ، اللہ تعالیٰ ایک خاص وقت تک تمہارے کفر کی وجہ سے تمہیں  مصائب میں  مبتلا کرکے تنبیہ کررہاہے ،اگرمصائب سے بچناچاہتے ہو تو کفروشرک کا راستہ ترک کرواورمیری دعوت پرسنجیدگی سے غورکرو،رب پرایمان لاؤ  اورحدسے تجاوزکرنے اور فسادبرپاکرنے والوں  کے بجائے میری اطاعت کرو، جیسےفرمایا

فَاتَّقُوا اللهَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۵۰ۚوَلَا تُطِیْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ۝۱۵۱ۙالَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ۝۱۵۲ [39]

ترجمہ:اللہ سے ڈرواورمیری اطاعت کرو،ان بے لگام لوگوں  کی اطاعت نہ کروجوزمین میں  فسادبرپاکرتے ہیں  اورکوئی اصلاح نہیں  کرتے ۔

پھر اللہ سے بخشش ومغفرت طلب کروتاکہ تم پرسے مسلط عذاب ٹل جائے اورجومصائب تم پرنازل ہورہے ہیں  ختم ہوجائیں  اوران کے بجائے اللہ کی رحمتیں  نازل ہوں ، اگر ایسانہیں کروگے تو جب وہ چاہے گا اپنا عذاب بھیج دے گا جس میں  تم لوگ پس کررہ جاؤ گے ،مگروہ لوگ ہٹ دھرمی ،عنادوسرکشی سے کہتے ہمیں  تمہارے رب کے عذاب کی کوئی فکرنہیں  ہے جتنی جلدی تم عذاب لاسکتے ہولے آؤ ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷  [40]

ترجمہ: اور صالح سے کہہ دیا کہ لے آوہ عذاب جس کی تو ہمیں  دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں  میں  سے ہے۔

صالح   علیہ السلام نے انہیں  سمجھایا کہ اے میری قوم! اللہ کاعذاب بڑاہی المناک ہوتاہے اس لئے ایمان قبول کرنے کے بجائے اپنے کفرپرہی کیوں  اصرار کررہے ہوجوباعث عذاب ہے ، اس لئے بھلائی طلب کرو اوربھلائی کی ہی جلدی کرو اور برائی کی جلدی نہ مچاؤ ،اب قوم کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا،حق کے مقابلے میں  وہ دلیل توکیالاتے ،ان کے نوبڑے سرداروں  رعی ، رعم ، ھریم ،داب،صواب،مطع،قداربن سالف نے جوملک میں  فتنہ وفسادبرپاکرتے رہتے تھےانہی کے مشورہ سے اللہ کی نشانی اونٹنی کومارڈالاگیاتھا،جیسے فرمایا

فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ۝۲۹  [41]

ترجمہ: آخرکار ان لوگوں  نے اپنے آدمی کو پکارا اور اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔

اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىہَا۝۱۲۠ۙ [42]

ترجمہ:جب اس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی بپھر کر اٹھا۔

جب انہوں  نے محسوس کیاکہ اونٹنی کومارڈالنے سے ان پرکوئی عذاب نازل نہیں  ہواتوان کاحوصلہ بڑھ گیااورانہوں  نے صالح   علیہ السلام کوقتل کرنے کا مشترکہ منصوبہ بنایا،انہوں  نے آپس میں  کہااللہ کی قسم کھاکر عہدکرلوکہ ہم صالح   علیہ السلام اوراس کے گھروالوں  پرشبخون ماریں  گے،چنانچہ طے پایا کہ فلاں  رات کو مختلف قبائل کے چند نوجوان رات کوکسی وقت صالح اوران کے گھروالوں  کو ہلاک کرکے منتشرہوجائیں اوراس رات ہم سب سردار بستی سے باہر چلے جائیں  گےتاکہ قبائلی رسم ورواج کے مطابق جب ان کے قبیلے کا سردار ان کے خون کادعویٰ کرے تووہ کسی ایک قبیلے کوملزم نہ ٹھیراسکے اورہم اپنی عدم موجودگی کی وجہ سے کہہ دیں  گے کہ ہمیں  توعلم نہیں  کہ یہ واردات کون کرگیا ،اس طرح قاتل کبھی نہیں  پکڑاجائے گا اورصالح   علیہ السلام کاکام بھی تمام ہو جائے گا،نہ رہے بانس گااورنہ بجے گی بانسری ،اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ خطرناک منصوبہ توانہوں  نے تیارکیا ، پھرایک چال ہم نے بھی چلی جس کی انہیں  خبرنہ تھی پھر دیکھ لو ہمارے پیغمبرکے خلاف ان کی چال کا انجام کیاہوا،اس سے قبل کہ وہ اپنے منصوبہ کوبروئے کارلاتے ہم نے کفروشرک،حق کی تکذیب اور دوسری بداعمالیوں  کی پاداش میں  ان پرزلزلہ اوربجلی کی ہیبت ناک کڑک کا عذاب نازل کیااورچندلمحوں  میں  نوسرداروں  سمیت پوری قوم کوصفحہ ہستی سے مٹادیا ،ان کے محفوظ ومضبوط گھرمکینوں  سے خالی ہوگئے گویاوہاں  کبھی کوئی بساہی نہ تھا،وہ مکانات جوکبھی اس قوم کافخروغرورتھے ان کواب خونخواربھیڑیوں  نے آبادکررکھاہے ،کہاں  ہیں  وہ جنہوں  نے معبودان باطلہ کے زعم میں  سرکشی وبغاوت کی ،اللہ کے ذلت آمیزعذاب نے ان کوروندڈالا،ان کی دست درازیوں  نے ان کوپامال کردیا ،اس واقعہ میں  حقائق جاننے والوں کے لئے ایک نشان عبرت ہے ،اورہم نے ان چند لوگوں  کواس عذاب سے بچالیاجواللہ تعالیٰ ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں ،روزآخرت اوراچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتے تھے اورشرک اورگناہ سے بچتے تھے اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب حجرسے گزرے توفرمایامعجزے طلب نہ کرنا، صالح   علیہ السلام کی قوم نے معجزہ مانگاتھا(آخرتباہ وبربادہوگئی)پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درے بتلائے جس سے اونٹنی برآمدہوئی تھی اورجس میں  داخل ہوتی تھی۔[43]

‏ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْیَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ یَتَطَهَّرُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ فَأَنجَیْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِینَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهِم مَّطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِینَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَیْرٌ أَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٥٩﴾‏(النمل)
اور لوط کا (ذکر کر) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو؟  یہ کیا بات ہے کہ تم عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  کے پاس شہوت سے آتے ہو ؟ حق یہ ہے کہ تم بڑی ہی نادانی کر رہے ہو ، قوم کا جواب بجز اس کہنے کہ اور کچھ نہ تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے شہر بدر کردو، یہ تو بڑے پاکباز بن رہے ہیں ، پس ہم نے اسے اور اس کے اہل کو بجز اس کی بیوی کے سب کو بچا لیا، اس کا اندازہ تو باقی رہ جانے والوں  میں  ہم لگا ہی چکے تھے ،  اور ان پر ایک (خاص قسم کی) بارش برسادی، پس ان دھمکائے ہوئے لوگوں  پر بری بارش ہوئی،تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ  ہی کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں  پر سلام ہے، کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ جنہیں  یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔

اورلوط  علیہ السلام  کوہم نے اس کی قوم کی طرف بھیجاجوعموریہ اورسدوم میں  رہتی تھی اور لوطیت میں  مبتلاتھی،چنانچہ لوط  علیہ السلام  نے اپنی قوم سے کہاتم ایسا خلاف فطرت اور ایساگندہ کام کرتے ہو جسے عقل وفطرت انتہائی فحش اورشریعت قبیح گردانتی ہے ،اورتمہاری سرکشی اس حدسے بھی تجاوزکرگئی ہے کہ اپنی مجلسوں  میں  کھلے عام بے حیائی کاکام کرتے ہوئے اور چھپنے کی زحمت بھی گوارانہیں  کرتے ؟جیسے فرمایا

۔۔۔وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَ۔۔۔۝۲۹ [44]

ترجمہ:اورتم اپنی مجلسوں  میں  براکام کرتے ہو۔

کیاتمہارایہی چلن ہے کہ عورتوں  کو چھوڑکرجن کوتمہارے آرام وسکون کے لئے پیداکیاگیاہے غیرطبعی شہوت رانی کے لئے مردوں  کے پاس جاتے ہو؟جیسے فرمایا

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۵ۙ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۝۱۶۶ [45]

ترجمہ:کیاتم دنیاکی مخلوق میں  سے مردوں  کے پاس جاتے ہو اورتمہاری بیویوں  میں  تمہارے رب نے تمہارے لئے جوکچھ پیداکیاہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟بلکہ تم لوگ توحد سے ہی گزرگئے ہو۔

مگراس گھناؤ نی لذت کشی کاتم عنقریب کیساسخت خمیازہ بھگتو گےاس سے تم بے خبرہو ،

وَذَلِكَ فَاحِشَةٌ عَظِیمَةٌ، اسْتَغْنَى الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ

اوریہ زبردست فحاشی ہے کہ مردمردوں  سے اورعورتیں  عورتوں  سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں ۔

مگر اس کی قوم نے بطورطنزاوراستہزاکے ساتھ کہا لوط   علیہ السلام  اوراس کے گھر والوں  کوجو بڑے پاکبازبنتے ہیں  اپنی بستی سے نکال باہرکرو ،جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ۝۰ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ۝۸۲ [46]

ترجمہ:مگراس کی قوم کاجواب اس کے سواکچھ نہ تھاکہ نکالوان لوگوں  کواپنی بستیوں  سے بڑے پاکبازبنتے ہیں  یہ۔

اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقررہ پرعذاب نازل کیااوراپنی سنت کے مطابق لوط  علیہ السلام  اوراس کے گھروالوں  کوراتوں  رات اس عذاب سے بچا لیا مگراس کی بیوی جواپنی مشرک قوم کے دین پر قائم اوران کی بد اعمالیوں  کوپسندکرنے والی تھی،تقدیرالٰہی میں جس کا ہلاک ہوناپہلے ہی لکھاجاچکاتھا اس لئے اپنی قوم کے ساتھ پیچھے رہ گئی ،پھرصبح ہوتے ہی اللہ نے ان کی بستیوں  کوان پر الٹ دیااور اس کے بعدان پرپکی مٹی کے نشان ذدہ پتھروں  کی تابڑتوڑ بارش برسائی ،وہ بہت ہی بری برسات تھی ان لوگوں  کے حق میں  جن کو پیغمبروں  کے ذریعے ڈراکر حجت قائم کردی گئی تھی لیکن وہ اپنی بدفعلیوں  میں  مست رہے ،جیسے فرمایا

وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۝۱۷۳ [47]

ترجمہ:اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں  پر نازل ہوئی۔

وہ خطہ آج تک عبرت وموعظت کی تصویر بنا ہوااہل جہاں  کویہ بتاتاہے کہ نبی کی مخالفت کاانجام کیا ہوا کرتاہے،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کہو!اللہ ہی ہرطرح کی حمدوستائش،مدح وثناء کامستحق ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں  انبیاء و مرسلین پر جنہیں  اس نے تمام جہانوں  سے رسالت اور بندوں  کی رہنمائی کے لئے منتخب کیا،جیسے فرمایا

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۱۸۰ۚوَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۸۱ۚوَالْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۸۲ۧ [48]

ترجمہ:پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک ، ان تمام باتوں  سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ،اور سلام ہے مرسلین پر،اور ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔

تاکہ لوگ طاغوت کی بندگی کے بجائے صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں  ،

فَكَانَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ هَذِهِ [الْآیَةَ ] یَقُولُ: بَلِ اللَّهُ خَیْرٌ وَأَبْقَى وَأَجَلُّ وَأَكْرَمُ

مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب اس آیت کی تلاوت فرماتے توفورا ًاس کے جواب میں  فرماتے۔، نہیں  بلکہ اللہ ہی بہترہے اوروہی باقی رہنے والااوربزرگ وبرترہے ۔ [49]

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ ‎﴿٦٠﴾‏ أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٦١﴾‏(النمل)
بھلا بتاؤ توکہ آسمانوں  کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی ؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگادیئے ؟ ان باغوں  کے درختوں  کو تم ہرگز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں  (سیدھی راہ سے) ، کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں  جاری کردیں  اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں  کے درمیان روک بنادی، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟  بلکہ ان میں  سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکین سے دوٹوک سوال پوچھواللہ تعالیٰ جو تمام کائنات اورتمہاراخالق ومالک اوررازق ہے بہترہے یاتمہارے وہ معبودجنہیں  تم اللہ کاشریک بنارہے ہیں ،جنہوں  نے نہ کچھ تخلیق کیاہے ،جیسے فرمایا

اَ یُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَـیْــــًٔـا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۱۹۱ۡۖ [50]

ترجمہ:کیسے نادان ہیں  یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شرک ٹھیراتے ہیں  جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ۔

نہ اللہ کے ساتھ تخلیق میں  شریک ہیں  ، جیسے فرمایا

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَكُنْ لَّہٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَلَمْ یَكُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْہُ تَكْبِیْرًا۝۱۱۱ۧ [51]

ترجمہ:اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں  اللہ ہی کے لئے ہیں  جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں  کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔

اورنہ جن کے قبضہ میں  کوئی قدرت واختیارہے ؟جیسے فرمایا

اَفَمَنْ هُوَقَاۗىِٕمٌ عَلٰی كُلِّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۝۰ۚ وَجَعَلُوْا لِلهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ قُلْ سَمُّوْهُمْ۝۰ۭ اَمْ تُنَبِّـــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ۔۔۔ ۝۰۝۳۳  [52]

ترجمہ:پھرکیاوہ جوایک ایک متنفس کی کمائی پرنظررکھتاہے (اس کے مقابلے میں  جسارتیں  کی جارہی ہیں  کہ)لوگوں  نے اس کے کچھ شریک ٹھیرارکھے ہیں ؟اے نبی!ان سے کہو(اگرواقعی وہ اللہ کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں  تو ) ذراان کے نام لو کہ وہ کون ہیں ؟کیاتم اللہ کوایک نئی بات کی خبردے رہے ہوجسے وہ اپنی زمین میں  نہیں  جانتا،یاتم لوگ بس یونہی جومنہ میں  آتاہے کہہ ڈالتے ہو؟۔

چونکہ مشرکین یہ تسلیم کرتے تھے کہ کائنات کی تخلیق ،آسمان سے پانی برسانااورزمین سے چیزیں  پیداکرنا اللہ کے قبضہ قدرت میں  ہے ،جیسےفرمایا

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۔۔۔۝۰۝۶۳ۧ[53]

ترجمہ: اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کوجلااٹھایا تووہ ضرورکہیں  گے اللہ نے ۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۔۔۔ ۝۸۷ۙ [54]

ترجمہ:اوراگرتم ان سے پوچھوکہ انہیں  کس نے پیدا کیاہے تویہ خودکہیں  گے کہ اللہ نے۔

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللهُ۔۔۔۝۳۱ [55]

ترجمہ:ان سے پوچھوکون تم کوآسمان اورزمین سے رزق دیتاہے ؟یہ سماعت اوربینائی کی قوتیں  کس کے اختیارمیں  ہیں ؟کون جاندارکو بے جان میں  سے اوربے جان کو جاندار میں  سے نکالتاہے ؟کون اس نظام عالم کی تدبیرکررہاہے ؟وہ ضرورکہیں  گے کہ اللہ ۔

اس لئے ان کو اپنی غلطی پرمتنبہ کرنے کے لئے اپنی وحدانیت کے لئے کائنات کے آفاقی نظام کوبطوردلیل بیان کیااوراپنی قدرت وتخلیق کے ایک ایک کرشمہ کی طرف انگلی اٹھا کر پوچھا کہ بتلاؤ وہ کون ہستی ہے جس نے سات آسمانوں  اورزمین کواوران کے درمیان جوکچھ ہے پیدا کیا ، پھرتمہارے رزق کے لئے آسمان سے پانی برسایا پھراسی ایک پانی سے انواع و اقسام ،رنگ وخوشبو اور ذائقوں  کے خوشنماباغات اورنباتات اگائے ، اوران میں  ایک ربط ضبط اورتنظیم پیدانہ کرتے توان درختوں  کااگانا،ان میں  ربط،ضبط اورتنظیم پیداکرنا تمہارے یا تمہارے معبودوں  کے بس میں  نہ تھا؟جب تم تسلیم کرتے ہوکہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے اختیارمیں  ہے توپھرتم اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ معبودان باطلہ کو اس کا شریک کیوں  گردانتے ہو؟کوئی ہستی یہ افعال سرانجام دینے کی قدرت نہیں  رکھتی ہےمگراس کے باوجودیہ لوگ اللہ کا ہمسراورنظیرٹھیراتے ہیں  ، پھر دوسرا سوال کیاگیاکہ بتلاؤ وہ کون سی ہستی ہے جس نے زمین کوتمہارے لئے جائے قرار بنایا،جیسے فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً ۔۔۔۝۶۴ [56]

ترجمہ:وہ اللہ ہی توہے جس نے تمہارے لئے زمین کو جائے قرار بنایااور اوپر آسمان کاگنبدبنادیا۔

اور زمین کے اندر دریاؤ ں  کی گزرگاہیں  بنائیں  اوراس میں  بلندوبالا پہاڑوں  کو میخوں  کی طرح گاڑ دیاتاکہ زمین ایک طرف ڈھلک نہ پڑے،جیسے فرمایا

وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔۝۱۵ۙ [57]

ترجمہ:اس نے زمین میں  پہاڑوں  کی میخیں  گاڑ دیں  تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے۔

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ۔۔۔۝۳۱ [58]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں  پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں  لے کر ڈھلک نہ جائے۔

اورپانی کے میٹھے،خوش ذائقہ اورکڑوے پانی کے دوذخیروں  کے درمیان ایک نظرنہ آنے والا پردہ حائل کر دیا ؟ جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ۝۰ۚ وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا۝۵۳ [59]

ترجمہ:اوروہی ہے جس نے دو سمندروں  کو ملا رکھاہے،ایک لذیذ و شیریں  دوسراتلخ وشوراور دونوں  کے درمیان ایک پردہ حائل ہے،ایک رکاوٹ ہے جوانہیں  گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے۔

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۝۱۹ۙ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۝۲۰ۚ [60]

ترجمہ:دو سمندروں  کو اس نے چھوڑ دیا کہ با ہم مل جائیں ،پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں  کرتے۔

کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورالٰہ بھی ہے جوان کاموں  میں  اس کے ساتھ شریک ہے؟ہرگزنہیں  ،وہ وحدہ لاشریک ہے ، کسی مخلوق کے ہاتھ میں  کوئی قدرت واختیارنہیں ،تمام مخلوق اپنی بقاا وررزق کے لئے اسی کی محتاج ہےمگر ان میں  سے اکثرلوگ نہیں  جانتے ۔

‏ أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَیَكْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِیلًا مَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ أَمَّنْ یَهْدِیكُمْ فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ أَمَّنْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَمَنْ یَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٦٤﴾‏ قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ ‎﴿٦٥﴾(النمل)
’’بےکس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے کون قبول کر کے سختی کو دور کردیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے ؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو،کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے، اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں، ان سب سے اللہ بلند وبالا تر ہے، کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ، کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھاکھڑے کئے جائیں گے؟۔‘‘

مشرکین عرب اس بات کوتسلیم کرتے تھے کہ مصیبتوں  کوٹالنے والا،انسانوں  کوزمین میں  بسانے والا،ستاروں  کے ذریعے بحروبرمیں  رہنمائی کرنے والا،آسمان سے بارش برسانے والا،خلقت کوپیداکرنے والا،اپنی لاتعدادمخلوقات کوآسمان وزمین سے رزق دینے والا،غیب کاعلم رکھنے والااللہ ہی ہے ،چنانچہ ان کوان کے عقیدے کے مطابق حقیقت سے روشناس کرنے کے لئے فرمایاکون ہے جوبے قرارکی دعاسنتاہے جبکہ وہ اسے پکارے اورکون اس کی تکلیف رفع کرتاہے؟یعنی تمہارے اپنے عقیدے کے مطابق اللہ وحدہ لاشریک ہی دعاؤ ں  کوسنتاہے اور مشکلات وپریشانیوں  کودور کرتاہے ، جیسے فرمایا

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۔۔۔۝۰۝۶۷ [61]

ترجمہ:جب سمندرمیں  تم پر مصیبت آتی ہے تواس ایک کے سوادوسرے جن جن کوتم پکارا کرتے ہووہ سب گم ہوجاتے ہیں مگرجب وہ تم کوبچاکرخشکی پرپہنچادیتاہے توتم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔

ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِهِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۲۲فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۝۰۝۲۳ [62]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جوتم کوخشکی اورتری میں  چلاتاہے،چنانچہ جب تم کشتیوں  میں  سوار ہوکربادموافق پرفرحاں  وشاداں  سفرکررہے ہوتے ہواورپھریکایک باد مخالف کا زور ہوتاہے اورہرطرف سے موجوں  کے تھپیڑے لگتے ہیں  اورمسافرسمجھ لیتے ہیں  کہ طوفان میں  گھرگئے ہیں ،اس وقت سب اپنے دین کواللہ ہی کے لئے خالص کر کے اس سے دعائیں  مانگتے ہیں  کہ اگر تو نے ہم کواس بلاسے نجات دے دی توہم شکرگزاربندے بنیں  گے مگرجب وہ ان کوبچالیتاہے توپھروہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں  بغاوت کرنے لگتے ہیں  ۔

۔۔۔ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَ۝۵۳ۚ [63]

ترجمہ:پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں  لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو ۔

تواللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکردوسروں  کوکیوں  پکارتے ہو،اور(کون ہے جو)تمہیں  زمین کاخلیفہ بناتاہے ؟یعنی اللہ ہی ہے جو ایک امت کے بعددوسری امت ،ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعددوسری نسل پیداکرتاہے اورتم کوزمین میں  تصرف اورفرمانروائی کے اختیارات عطا کرتا ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَاۗءُ كَـمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ۝۱۳۳ۭ [64]

ترجمہ:اگروہ چاہے توتم لوگوں  کولے جائے اورتمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں  کوچاہے لے آئے جس طرح اس نے تمہیں  کچھ اور لوگوں  کی نسل سے اٹھایاہے۔

وَهُوَالَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَآ اٰتٰىكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۶۵ۧ [65]

ترجمہ: وہی ہے جس نے تم کوزمین کاخلیفہ بنایااورتم میں  سے بعض کوبعض کے مقابلہ میں  زیادہ بلنددرجے دیے تاکہ جوکچھ تم کودیاہے اس میں  تمہاری آزمائش کرے۔

توکیا اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی اورالٰہ کوبھی یہ قدرت حاصل ہے، تم لوگ کم ہی نصیحت حاصل کرتے اوربہت کم تدبرکرتے ہو، اوروہ کون ہے جوخشکی اورسمندرکی تاریکیوں  میں  تم کوراستہ دکھاتاہے،یعنی وہ اللہ ہی ہے جو ستاروں کو درخشانی عطافرماکرخشکی اورسمندرکی تاریکیوں  میں  تم کوراستہ دکھاتا ہے، جیسے فرمایا

وَعَلٰمٰتٍ۝۰ۭ وَبِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُوْنَ۝۱۶ [66]

ترجمہ: اس نے زمین میں  راستہ بتانے والی علامتیں  رکھ دیں  اورتاروں  سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔

 وَہُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔۔۔۝۹۷ [67]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں  کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں  میں  راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔

اورکون اپنی رحمت کے آگے ہواؤ ں  کوخوشخبری دے کر بھیجتاہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بارش  سے پہلے ٹھنڈی اوربھینی خوشبوؤ ں  والی ہواؤ ں  کوخوشخبری دے کربھیجتا ہے جس سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں  میں  خوشی کی لہردوڑجاتی ہے ،کیا اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو بھی یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ یہ تمام افعال سرانجام دے سکے ، اللہ بہت بالاوبرترہے ہرطرح کے شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ، اوروہ کون ہے جو خلق کی ابتداکرتااورپھراس کااعادہ کرتا ہے ؟ جیسے فرمایا

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ۝۱۲ۭاِنَّہٗ ہُوَیُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ۝۱۳ۚ [68]

ترجمہ:درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے،وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

وَہُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَیْہِ۔۔۔۝۲۷ۧ [69]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہےپھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔

یعنی اللہ ہی اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کوبے نمونہ پیداکررہاہے پھر ایک وقت مقررہ پر تمام کائنات کوتباہ کردے گااور جب چاہے گااعمال کی جزاکے لئے روز قیامت انسانوں  کو دوبارہ زندگی عطافرمائے گا،جب تم اللہ کو پہلی دفعہ پیداکرنے پر قادرمانتے ہوتو کسی چیزکودوبارہ پیداکرناتوبہت آسان ہے اس پرقادرکیوں  نہیں  مانتے ؟اورکون تم کو آسمان وزمین سے رزق دیتاہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برسا کر زمین سے اس کے مخفی خزانے یعنی غلہ ومیوہ جات جات اور جانوروں  کے لئے چارہ پیداکرتا ہے،جیسے فرمایا

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِیْہَا سُـبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۭ فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝۵۳كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰى۝۵۴ۧ  [70]

ترجمہ:وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں  تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی ، کھاؤ اور اپنے جانوروں  کو بھی چراؤ، یقینا اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  عقل رکھنے والوں  کے لیے ۔

اور زمین سے برکتوں  کے دروازے کھول دیتا ہے، کیااللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی ہے جویہ سب کچھ کرنے کی قدرت رکھتا ہو؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے کہو!اگرتمہارے پاس معبودان باطلہ کی پرستش کے لئے کوئی دلیل ہے توپیش کرو اوراگر دلیل پیش نہیں  کر سکتے توپھراس حقیقت کااعتراف کرلوکہ تمہاراموقف باطل ہے کہ یہ سارے کام تو اللہ وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت واختیارمیں ہوں  مگربندگی وعبادت کامستحق تم کسی اور کو سمجھو یا اس کے ساتھ کسی اورکوبھی شریک سمجھو ،جیسے فرمایا

وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ۝۰ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝۱۱۷ [71]

ترجمہ:اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارےجس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں  تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے، ایسے کافر کبھی فلاح نہیں  پا سکتے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے کہو!اللہ کے سواآسمانوں  اورزمین میں  کوئی غیب کاعلم نہیں  رکھتااوروہ نہیں  جانتے کہ وہ کب قبروں  سے اٹھائے جائیں  گے،یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں  اللہ تعالیٰ متفرد ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ،اسی طرح غیب کے علم میں  بھی وہ متفرد ہے اس کے سوا کوئی علام الغیوب نہیں ،جیسے فرمایا

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹  [72]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنہیں  اس کے سواکوئی نہیں  جانتا،بحروبرمیں  جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے،درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسا نہیں  جس کا اسے علم نہ ہو،زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسانہیں  جس سے وہ باخبرنہ ہو،خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھاہواہے ۔

اِنَّ اللهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ۝۰ۚ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ۝۰ۚ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَام۝۰ِۭ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا۝۰ۭ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۳۴ۧ  [73]

ترجمہ:اس گھڑی کاعلم اللہ ہی کے پاس ہے وہی بارش برساتاہے وہی جانتاہے کہ ماؤ ں  کے پیٹوں  میں  کیاپرورش پارہاہے،کوئی متنفس نہیں  جانتاکہ کل وہ کیاکمائی کرنے والا ہے اورنہ کسی شخص کویہ خبرہے کہ کس سرزمین میں  اس کوموت آنی ہے،اللہ ہی سب کچھ جاننے والااورباخبر ہے۔

 ۔۔۔یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ وَسِعَ كُرْسِـیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ وَلَا یَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا۝۰ۚ وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۝۲۵۵ [74]

ترجمہ :وہ جانتاہے جوکچھ مخلوقات کے سامنے ہے اورجوکچھ ان سے اوجھل ہے ،اوراس کے علم میں  سے کسی چیز پربھی وہ احاطہ نہیں  کرسکتے الایہ کہ وہ جس چیزکاچاہے انہیں  علم دے۔

اوراس کے برگزیدہ بندوں  یعنی نبیوں  اوررسولوں  کوبھی اتناہی علم ہوتا ہے جتنااللہ تعالیٰ وحی والہام کے ذریعے سے انہیں  بتلادیتاہے ، اورجوعلم کسی کے بتلانے سے حاصل ہواس کے عالم کوعالم الغیب نہیں  کہا جاتا،عالم الغیب تووہ ہے جوبغیرکسی واسطے اورذریعے کے ذاتی طورپر ہر چیز کا علم رکھے ، ہرحقیقت سے باخبرہواورمخفی سے مخفی چیزبھی اس کے دائرہ علم سے باہرنہ ہو،یہ صفت صرف اورصرف اللہ کی ہے اس لئے صرف وہی علام الغیوب ہے ،اس کے سوا کائنات میں  کوئی عالم الغیب نہیں ،

فَقَالَتْ:وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا}[75]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےجوشخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  آئندہ کل کوپیش آنے والے حالات کاعلم رکھتے ہیں  وہ بھی جھوٹاہے اور انہوں  نے اس آیت کی تلاوت کی ’’ اورکوئی شخص نہیں  جانتاکہ کل کیاکرے گا۔‘‘[76]

وَقَالَ قَتَادَةُ: إِنَّمَا جَعَلَ اللَّهُ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثِ خَصَلَاتٍ  : جَعَلَهَا زِینَةً لِلسَّمَاءِ، وَجَعَلَهَا یُهْتَدَى بِهَا، وَجَعَلَهَا رُجُومًا [لِلشَّیَاطِینِ]، فَمَنْ تَعَاطَى فِیهَا غَیْرَ ذَلِكَ فَقَدْ قَالَ بِرَأْیِهِ، وَأَخْطَأَ حَظَّهُ، وَأَضَاعَ نَصِیبَهُ وتكلَّف مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ. وَإِنَّ نَاسًا جَهَلَة بِأَمْرِ اللَّهِ، قَدْ  أَحْدَثُوا مِنْ هَذِهِ النُّجُومِ كِهَانَةً: مَنْ أعْرَس بِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا، كَانَ كَذَا وَكَذَا. ومَنْ سَافَرَ بِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا، كَانَ كَذَا وَكَذَا. ومَنْ وُلِدَ بِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا، كَانَ كَذَا وَكَذَا. وَلَعَمْرِی مَا مِنْ نَجْمٍ إِلَّا یُولَدُ بِهِ الْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ، وَالْقَصِیرُ وَالطَّوِیلُ، وَالْحَسَنُ وَالدَّمِیمُ، وَمَا علْمُ هَذَا النَّجْمِ وَهَذِهِ الدَّابَّةِ وَهَذَا الطَّیْرِ بِشَیْءٍ مِنَ الْغَیْبِ! وَقَضَى اللَّهُ: أَنَّهُ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ.

قتادہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصدکے لئے بنائے ہیں  یہ آسمان کی زینت ہیں  اوریہ بھولے بھٹکوں  کے لئے رہنمائی کاذریعہ ہیں  اوریہ شیطان کو سنگسار کرنے کی لیے ہیں ،کسی اوربات کااس کے ساتھ عقیدہ رکھنا، اپنی رائے سے بات بنانااورخودساختہ تکلیف اوراپنی عافیت کے حصہ کوکھوناہےاورجاہلوں  نے ستاروں  کے ساتھ علم نجوم کومتعلق رکھ کر فضول باتیں  بنائی ہیں  کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے گاتویہ یہ ہوگافلاں  ستارے کے وقت سفرکرنے سے یہ ہوتاہے،فلاں  ستارے کے وقت پیدا ہوگاتو ایسا ایسا ہوگا،وغیرہ ،  یہ سب ڈھکوسلے ہیں ،ان کے قیاسات کے خلاف اکثرہوتارہتاہے ،ہرستارے کے وقت کوئی کالا، گورا، ٹھنگنا، لمبا، خوبصورت اور بدصورت پیدا ہوتا رہتا ہے،نہ کوئی جانورغیب جانتاہے اورنہ کسی پرندے سے غیب حاصل ہوسکتاہے ؟اورنہ ستارے غیب کی رہنمائی کرسکتے ہیں جبکہ اللہ کافیصلہ تویہ ہے’’ آسمان وزمین میں  اللہ کے سواکوئی غیب نہیں  جانتاانہیں  تو اپنے جی اٹھنے کاوقت بھی معلوم نہیں ۔‘‘[77]

اورجن کے متعلق انہیں  گمان ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں ،اوراسی بناپرانہیں  اللہ کاشریک ٹھیرالیاگیاہے ،حالانکہ فرشتے ،جن،انبیاء اوراولیاء کوتواپنے مستقبل کی بھی خبرنہیں  ہے اور وہ تویہ بھی نہیں  جانتے کہ اللہ انہیں  قبروں  سے کب دوبارہ زندہ فرمائے گا ،جیسے فرمایا

اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ [78]

ترجمہ:مردہ ہیں  نہ کہ زندہ ، اور ان کو کچھ معلوم نہیں  ہے کہ انہیں  کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۔

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِی شَكٍّ مِنْهَا ۖ بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ لَقَدْ وُعِدْنَا هَٰذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٦٨﴾‏ قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٦٩﴾‏ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِی ضَیْقٍ مِمَّا یَمْكُرُونَ ‎﴿٧٠﴾(النمل)
’’بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوچکا ہے بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں، کافروں نے کہا کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی کیا ہم پھر نکالے جائیں گے، ہم اور ہمارے باپ دادوں کو بہت پہلے سے یہ وعدے دیئے جاتے رہے، کچھ نہیں یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں، کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا ،آپ ان کے بارے میں غم نہ کریں اور ان کے داؤں گھات سے تنگ دل نہ ہوں۔‘‘

ان کاعلم توآخرت کے وقوع کاوقت جاننے سے بھی عاجزہے،جیسے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل  علیہ السلام کے سوال کے جواب میں  فرمایاتھا

مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ

اس کی بابت جس سے پوچھ رہے ہووہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں  جانتا۔ [79]

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت کے بارے میں  شک وشبہ میں  مبتلا ہیں  اور اختلال عقل وبصیرت کی وجہ سے آخرت پریقین سے محروم ہیں ،حیات بعدالموت کے منکرین کہتے ہیں  کیاجب ہم اور ہمارے باپ دادامٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے ہوں  گے توہمیں  واقعی قبروں  سے نکالاجائے گا؟ یہ بعیدازامکان بات ہے ،ایسی خبریں  ہم اور ہمارے آباؤ اجداد سنتے چلے آرہے ہیں  ،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۸۳  [80]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں  کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے اور ہڈیوں  کا پنجر بن کر رہ جائیں  گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں  اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں  یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں ۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭقُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ۝۱۸ۚ [81]

ترجمہ:بھلا کہیں  ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں  اور مٹی بن جائیں  اور ہڈیوں  کا پنجر رہ جائیں  اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں  ؟اور کیا ہمارے اگلے وقتوں  کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں  گے ؟ان سے کہو ہاں ، اور تم (اللہ کے مقابلے میں  ) بےبس ہو ۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙ  [82]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں  گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان لوگوں  سے کہو ، یقینا اگلے اور پچھلے سب۔

اس کے جواب میں  دعوت فکردی کہ اگریہ صرف پہلے لوگوں  کے قصے کہانیاں  ہیں  توپھرزمین میں  چل پھرکر رسولوں  اور قیامت کی تکذیب کرنے والی قوموں  کے آثار و کھنڈرات کودیکھوکہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پرعذاب نازل کر کے انہیں  نیست ونابودکردیااوراہل ایمان کو اس عذاب سے بچالیا،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگریہ لوگ آپ کے وعظ ونصیحت کے باوجود عذاب الٰہی کے مستحق بنناچاہتے ہیں  توتم خوامخواہ ان کے حال پررنج وافسوس نہ کرواورنہ ان کی گھٹیاچالوں  پرکبیدہ خاطر ہو،اللہ تمہاراحامی وناصرہے یہ تمہاراکچھ نہیں  بگاڑ سکتے ، جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللهُ۝۰ۭ وَاللهُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰ [83]

ترجمہ:وہ اپنی چال چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہاتھااوراللہ سب سے بہترچال چلنے والاہے۔

وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٧١﴾‏ قُلْ عَسَىٰ أَنْ یَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِی تَسْتَعْجِلُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَیَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا یُعْلِنُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِی كِتَابٍ مُبِینٍ ‎﴿٧٥﴾(النمل)
’’کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو، جواب دیجئے ! کہ شاید بعض وہ چیزیں جن کی تم جلدی مچا رہے ہو تم سے بہت ہی قریب ہوگئی ہوں ،یقیناً آپ کا پروردگار تمام لوگوں پر بڑے ہی فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپا رہے ہیں اور جنہیں ظاہر کر رہے ہیں،آسمان اور زمین کی کوئی پوشیدہ چیز بھی ایسی نہیں جو روشن اور کھلی کتاب میں نہ ہو۔‘‘

قیامت کے منکر:

اورقیامت کے منکرین بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں ،ہم تمہاری دعوت کارد اورتمہارے خلاف کاروائیاں  بھی کرچکے ہیں مگرجس عذاب کی تم ہمیں  دھمکی دیتے رہتے ہووہ نازل نہیں  ہوااگرتم اپنے دعویٰ میں  سچے ہوبتلاؤ وہ عذاب کب نازل ہوگا ؟اللہ تعالیٰ نے انہیں  ڈراتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو جس عذاب کے لئے تم جلدی مچا رہے ہوہوسکتاہے تمہارے نزدیک آپہنچاہواوراگرتم نے سیدھی راہ اختیارنہ کی تووقت مقررہ پروہ نازل ہوکررہے گا ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہُوَ۝۰ۭ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّكُوْنَ قَرِیْبًا۝۵۱ [84]

ترجمہ:وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں  گےاچھا تو یہ ہوگا کب؟ تم کہوکیا عجب وہ وقت قریب ہی آلگا ہو ۔

حقیقت یہ ہے کہ عذاب میں  تاخیربھی اللہ رب العالمین کے فضل وکرم کاایک حصہ ہے،وہ لوگوں  کوگناہوں  سے تائب ہونے اورسنبھلنے کے لئے مہلت دیتا ہے لیکن پھربھی لوگ اس مہلت سے فائدہ حاصل نہیں  کرتے اوراللہ کی عنایت کی ناشکری کرتے ہیں ، جوبغض وکینہ یہ اپنے سینوں  کے اندرچھپائے ہوئے ہیں  اورچالیں  یہ چل رہے ہیں ، تیرارب ان سے خوب باخبرہے،جیسے فرمایا

 سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۝۱۰  [85]

ترجمہ:تم میں  سے کوئی شخص خواہ زورسے بات کرے یاآہستہ اورکوئی رات کی تاریکی میں  چھپاہواہویادن کی روشنی میں  چل رہاہو،اس کے لئے سب یکساں  ہیں ۔

وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی۝۷ [86]

ترجمہ:تم چاہے اپنی بات پکارکرکہووہ توچپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تربات بھی جانتاہے ۔

اَلَآ اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ۝۰ۭ اَلَاحِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ۝۰ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵  [87]

ترجمہ:دیکھویہ لوگ اپنے سینوں  کوموڑتے ہیں  تاکہ اس سے چھپ جائیں ، خبردارجب یہ کپڑوں  سے اپنے آپ کوڈھانپتے ہیں اللہ ان کے چھپے کوبھی جانتا ہے اورکھلے کوبھی ، وہ توان بھیدوں  سے بھی واقف ہے جوسینوں  میں  ہیں ۔

آسمان وزمین کی کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں  ہے جس کاذرہ ذرہ لوح محفوظ میں  ثبت نہ ہو ،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ۝۷۰ [88]

ترجمہ:کیا تم نہیں  جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں  ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں  درج ہے، اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں  ہے۔

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ یَقُصُّ عَلَىٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَكْثَرَ الَّذِی هُمْ فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿٧٦﴾‏ وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٧٧﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ یَقْضِی بَیْنَهُمْ بِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْعَلِیمُ ‎﴿٧٨﴾‏ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِینِ ‎﴿٧٩﴾‏ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَمَا أَنْتَ بِهَادِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ ‎﴿٨١﴾(النمل)
’’یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں، اور یہ قرآن ایمان والوں کے لیے یقیناً ہدایت اور رحمت ہے، آپ کا رب ان کے درمیان اپنے حکم سے سب فیصلے کر دے گا، وہ بڑا ہی غالب اور دانا ہے، پس آپ یقیناً اللہ ہی پر بھروسہ رکھیے، یقیناً آپ سچے اور کھلے دین پر ہیں،بیشک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کرسکتے ہیں آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں پھر وہ فرماں بردار ہوجاتے ہیں۔‘‘

یہودی تورات اورنصاری انجیل کے حامل تھے ،اس طرح ٰ دونوں  گروہ ہی حاملین کتاب تھے مگرایک ہی دعوت کے باوجودان کے عقائدمختلف تھے ،اس لئے وہ مختلف فرقوں  اورگروہوں  میں  بٹے ہوئے تھے، یہودعیسٰی  علیہ السلام کی تنقیص اورتوہین کرتے تھے اورعیسائیوں  نے عیسیٰ  علیہ السلام  کی شان میں  غلوکرتے ہوئے انہیں  اللہ کابیٹاقراردے دیا ،چنانچہ فرمایاکہ قرآن مجیدایسی کتاب ہے جو حق وباطل کافرق ظاہرکردیتی ہے، اگریہ دونوں  حاملین کتاب اس آخری کتاب قرآن کے بیان کردہ حقائق کوتسلیم کرلیں  توان کے عقائدی اختلافات ختم اوران کاتفرق وانتشارکم ہوسکتاہے ،اوریہ کتاب ایمان لانے والوں  کے لئے سراسر ہدایت اورمجسم رحمت ہے،یقیناً اللہ تعالیٰ روزقیامت ان دونوں  گروہوں  اورتمہارے مخالفین کے درمیان اختلافات کافیصلہ کرکے حق کوباطل سے ممتازفرمادے گااوراسی کے مطابق جزاوسزاکااہتمام فرما دے گا،وہ تمام خلائق پرغالب ہے ،اس لئے اس کے فیصلے کونافذہونے سے کوئی طاقت روکنے کی قدرت نہیں  رکھتی اوروہ تمام ظاہری وباطنی باتوں کاعلم رکھتاہے ،اس لئے اس کے فیصلے میں  کسی غلطی کاامکان نہیں  ہے ،پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یقیناًتم اسی دین حق پرہوجوانبیاء لے کرمبعوث ہوتے رہے ہیں ،اس لئے اپنامعاملہ اللہ کے سپردکردیں  اوراسی پر بھروسہ رکھیں ،کچھ شک نہیں  کہ آپ مردوں  کو سناسکتے ہیں  نہ بہروں  کو،ان کی مثال بھی ان جیسی ہے ،یہ لوگ بھی حق وباطل کافرق سمجھنے سے قاصراور حق سے مکمل طورپرگریزاں  اورمتنفرہیں ،اورجن لوگوں  نے جان بوجھ کرحق کی طرف سے اپنی آنکھیں  بندکرلی ہوں  تم ان کی رہنمائی نہیں  کر سکتے ،جیسے فرمایا

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [89]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم جسے چاہواسے ہدایت نہیں  دے سکتے مگراللہ جسے چاہتاہے ہدایت دیتاہے اوروہ ان لوگوں  کوخوب جانتاہے جوہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

تم تووعظ ونصیحت ا نہی لوگوں  کوسناسکتے ہوجوہماری آیات کوغوروفکرسے سنتے ہیں ،اس پرتدبرکرتے ہیں  اوران پرایمان لاکرفرماں  برداربن جاتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ۝۰ۭؔ وَالْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ۝۳۶۬  [90]

ترجمہ: دعوت حق پرلبیک وہی لوگ کہتے ہیں  جوسننے والے ہیں ،رہے مردے تو انہیں  تواللہ بس قبروں  ہی سے اٹھائے گااورپھروہ (اس کی عدالت میں  پیش ہونے کے لئے ) واپس لائے جائیں  گے۔

 وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ یُكَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَهُمْ یُوزَعُونَ ‎﴿٨٣﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِآیَاتِی وَلَمْ تُحِیطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا یَنْطِقُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ أَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّیْلَ لِیَسْكُنُوا فِیهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٨٦﴾(النمل)
’’جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا، ہم زمین سے ان کے لیے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے،اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کر لائیں گے پھر وہ سب کے سب الگ کر دیئے جائیں گے، جب سب کے سب آپہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے میری آیتوں کو باوجودیکہ تمہیں ان کا پورا علم نہ تھا کیوں جھٹلایا ؟ اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کرتے رہے ؟بسبب اس کے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا ان پر بات جم جائے گی اور وہ کچھ بول نہ سکیں گے، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم نے رات کو اس لیے بنایا ہے کہ وہ اس میں آرام حاصل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنایا ہے، یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان و یقین رکھتے ہیں۔‘‘

دابتہ الارض:

اورجب اللہ کی زمین پر نیکی کاحکم دینے والااوربرائی سے روکنے والاکوئی نہیں  رہے گایعنی جب قیامت قریب آجائے گی توہم چاشت کے وقت زمین سے ایک جانور نکالیں  گے، اسے نطق بخشیں  گے اوروہ خرق عادت کے طورپر انسانوں  سے کلام کرے گا،

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: مَا تَذَاكَرُونَ؟قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آیَاتٍ – فَذَكَرَ – الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِیرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ

حذیفہ بن اسیدغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بیٹھے قیامت کا ذکر کر رہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عرفات سے آئے ہمیں  ذکرمیں  مشغول دیکھ کرفرمایاکیاباتیں  کر رہے ہو؟  ہم نے عرض کیاقیامت کے بارے میں  گفتگوکررہے ہیں ، فرمایاقیامت اس وقت تک قائم نہیں  ہوگی جب تک تم دس نشانیاں  نہ دیکھ لو، پھرذکرکیادھویں  کا اوردجال کا  اورزمین کے جانورکااورافتاب کامغرب سے نکلنااورعیسیٰ ابن مریم کے اترنے کا اوریاجوج ماجوج کےنکلنے کااور مغرب،مشرق اورجزیرہ عرب میں  تین جگہوں  پرزمین کا دھنسنا اوران سب نشانیوں  کے بعدایک آگ پیداہوگی جولوگوں  کویمن سے نکالے گی اورہانکتی ہوئی محشرکی طرف لے جائے گی۔[91]

ایک روایت میں  اتنازیادہ ہے

تَنْزِلُ مَعَهُمْ إِذَا نَزَلُوا، وَتَقِیلُ مَعَهُمْ

وہ آگ لوگوں  کے ساتھ رہے گی جہاں  وہ اتریں  گے آگ بھی اترپڑے گی اورجب وہ دوپہرکوسوئیں  گے توآگ بھی ٹھیرجائے گی ۔[92]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ الْآیَاتِ خُرُوجًا، طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، وَأَیُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِیبًا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناسب سے پہلی نشانی جوظاہر ہوگی وہ ہے سورج کامشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کانکلنا،ان دونوں  میں  سے جوپہلے ظاہرہوگی دوسری اس کے فوراًبعدہی ظاہرہوجائے گی۔[93]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَبَادَرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا: طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَالدَّجَّالَ، وَالدُّخَانَ، وَدَابَّةَ الْأَرْضِ، وَخُوَیْصَّةَ أَحَدِكُمْ، وَأَمْرَ الْعَامَّةِ

اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچھ باتوں  کے ظاہرہونے سے پہلے پہلے جلدی سے نیک اعمال کرلو! سورج کامغرب سے طلوع ہواور  دھواں  اوردجال اور جانور، موت اور قیامت۔[94]

اوردابتہ الارض نکلنے کی علت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنی یہ نشانی اس لئے دکھلائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں  یاآیتوں  پریقین نہیں  کرتے تھے ،اور اس دن کاتصورکروجب ہم ہر امت میں  سے ان لوگوں  کی ایک کثیرتعداد گھیرلائیں  گے جوہماری آیات کوجھٹلایا کرتے تھے ، پھران کو زانیوں  کاگروہ،شرابیوں  کاگروہ وغیرہ کے لحاظ سے ترتیب وارکھڑا کیا جائے گا،جیسے فرمایا

اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۲۲ۙ [95]

ترجمہ:(حکم ہوگا)گھیرلاؤ سب ظالموں  اور ان کے ساتھیوں  اوران معبودوں  کوجن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر بندگی کیاکرتے تھے ۔

ایک مقام پرفرمایا

وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۝۷۠ۙ [96]

ترجمہ:اورجب جانیں (جسموں  سے) جوڑ دی جائیں  گی۔

جب سب لوگ جمع ہو جائیں  گے تواللہ تعالیٰ نہایت غیض و غضب سے پوچھے گامیں  نے تمہاری طرف دعوت حق بھیجی تھی ،مگر تم نے میری توحیداوردعوت کے دلائل سمجھنے اور غوروفکر کے بغیرہی کیوں  جھٹلا دیا تھا ، اگریہ بات نہیں  تووہ وجہ بتلاؤ جس کی بناپر تمہیں  میری باتوں  پرغوروفکر کرنے کاموقعہ نہیں  ملا؟ کیونکہ یہ وہ لوگ ہوں  گے جوایمان اور نیکیوں  سے تہی دامن ہوں  گے ،جیسے فرمایا:

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى۝۳۱ۙوَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۳۲ۙ [97]

ترجمہ: مگراس نے نہ سچ مانااورنہ نمازپڑھی،بلکہ جھٹلایااورپلٹ گیا ۔

اس لئے ان کے پاس کوئی عذرنہیں  ہوگا،جیسے فرمایا

هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَ۝۳۵ۙوَلَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۝۳۶ [98]

ترجمہ:یہ وہ دن ہے جس میں  وہ کچھ بولیں  گے اورنہ انہیں  موقع دیاجائے گاکہ کوئی عذرپیش کریں  ۔

اس لئے ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب کاوعدہ پوراہوجائے گا،اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمارنشانیوں  میں  سے صرف دوعظیم نشانیوں کاذکرفرمایاکہ کیاتم لوگ روزانہ اس کا مشاہدہ نہیں  کرتے تھے کہ ہم نے تمہاری ضروریات کے مطابق زمین اورسورج کاتعلق قائم کیاتھا جس کی وجہ سے تم رات کے پرسکون اندھیرے میں  سکون حاصل کرتے تھے اوردن کو روشن کیاتھاتاکہ تم کسب معاش اوردیگرمصروفیات میں  مشغول ہوسکو ،اسی میں  اللہ کی کامل وحدانیت کی نشانیاں  تھیں  ان لوگوں  کے لئے جو ایمان لاتے تھے۔

وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِی أَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَیْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ یَوْمَئِذٍ آمِنُونَ ‎﴿٨٩﴾‏ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٠﴾(النمل)
’’ جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب آسمانوں والے اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے ،اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے، اورآپ پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے ، یہ ہے صنعت اللہ کی جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے، جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ باخبر ہے،جو لوگ نیک عمل لائیں گے انہیںاس سے بہتر بدلہ ملے گا اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے اور جو برائی لے کر آئیں گے وہ اوندھے منہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے،صرف وہی بدلہ دیئے جاؤ گے جو تم کرتے رہے ۔‘‘

اوراس دن کیاگزرے گی جب اسرافیل  علیہ السلام اللہ کے حکم سے صورمیں پھونک ماریں  گے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا الصُّورُ؟قَالَ: قَرْنٌ یُنْفَخُ فِیهِ

عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک اعرابی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی صورکیاہے؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ ایک سینگ ہے جس میں  پھونکاجائے گا ۔[99]

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:الصُّورُ كَهَیْئَةِ الْقَرْنِ یُنْفَخُ فِیهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  صورایک سینگ کی طرح ہے جس میں  پھونکاجائے گا۔[100]

جس سے آسمان وزمین کی تمام مخلوقات حواس باختہ ہوجائیں  گے،سوائے انبیاء ،شہدا اور اہل ایمان کے جنھیں  اللہ اکرام وتکریم بخش کرثابت قدمی عطافرمائے گااوروہ اس گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا،اورسب لوگ قبروں  سے نکل کر اور عاجزوپست ہوکر اللہ کی بارگاہ میں حاضرہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭ [101]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں  کے اندر جو بھی ہیں  سب اس کے حضوربندوں  کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔

آج توبلندوبالا ٹھوس پہاڑوں  کودیکھتاہے اورسمجھتاہے کہ یہ زمین میں  خوب جمے ہوئے ہیں  مگرجب اللہ کے حکم سے صورپھونکاجائے گاتو یہ بلندوبالاٹھوس پہاڑ بے وزن ہوکر بادلوں  کی طرح اڑرہے ہوں  گے،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً۔۔۔۝۴۷ۚ [102]

ترجمہ:فکر اس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں  کو چلائیں  گےاور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے۔

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭۙ [103]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا،اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا۝۹ۙوَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۝۱۰ۭ [104]

ترجمہ:وہ اس روز واقع ہوگا جب آسمان بری طرح ڈگمگائے گااور پہاڑ اڑے اڑے پھریں  گے ۔

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [105]

ترجمہ:اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں  گےکہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں  گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ۝۹ۙ [106]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں  گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّہِیْلًا۝۱۴ [107]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں  گے اور پہاڑوں  کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں ۔

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [108]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ  [109]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں  گے۔

یہ اللہ کی عظیم قدرت کا ادنیٰ ساکرشمہ ہوگاجس نے ہرچیزکوحکمت کے ساتھ استوار کیا ہے،اللہ نے تمہیں  جوصلاحیتیں  اورعقل وتمیزاورتصرف کے جواختیارات عطاکیے ہیں  ان کے بارے میں  وہ خوب جانتاہے کہ تم لوگ انہیں  کس طرح استعمال کررہے ہو، چنانچہ روزآخرت جو شخص ایمان اوراعمال صالحہ لے کرآئیگااسے دائمی طورپراس سے زیادہ انعام ملے گااورایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں  گے،جیسے فرمایا

لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ۔۔۔ ۝۱۰۳ [110]

ترجمہ: وہ انتہائی گھبراہٹ کاوقت ان کوذراپریشان نہ کرے گا۔

۔۔۔اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْٓ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۔۔۔۝۴۰ [111]

ترجمہ:خود ہی سوچ لو کہ آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں  جھونکا جانے والا ہے یا وہ جو قیامت کے روز امن کی حالت میں  حاضر ہوگا ؟ ۔

 ۔۔۔وَہُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ [112]

ترجمہ:اور وہ بلند و بالا عمارتوں  میں  اطمینان سے رہیں  گے ۔

اورجوبرائی لئے ہوئے آئے گاایسے سب لوگوں  کو سترہاتھ لمبی زنجیروں  سے چکڑکراورگلے میں  طوق ڈال کر اوندھے منہ جہنم میں  پھینک دیا جائے گا ،جیسے فرمایا

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ۝۰ۭ وَلَا یَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۶وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـیِّئَةٍؚبِمِثْلِهَا۝۰ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ۝۰ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ۝۰ۚ كَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷ [113]

ترجمہ:جن لوگوں  نے بھلائی کاطریقہ اختیارکیاان کے لئے بھلائی ہے اور مزیدفضل ،ان کے چہروں  پرروسیاہی اورذلت نہ چھائے گی وہ جنت کے مستحق ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے ،اورجن لوگوں  نے برائیاں  کمائیں  ان کی برائی جیسی ہے ویساہی وہ بدلہ پائیں  گے،ذلت ان پرمسلط ہوگی،کوئی اللہ سے بچانے والانہ ہوگاان کے چہروں  پرایسی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پرپڑے ہوئے ہوں  وہ دوزخ کے مستحق ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۝۰ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۸۴ [114]

ترجمہ:جوکوئی بھلائی لے کرآئے گااس کے لئے اس سے بہتربھلائی ہے اور جوبرائی لے کرآئے توبرائیاں  کرنے والوں  کوویساہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَـیِّاٰتِهِمْ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۷ [115]

ترجمہ: اورجولوگ ایمان لائیں  گے اورنیک اعمال کریں  گے ان کی برائیاں  ہم ان سے دورکردیں  گے اور انہیں  ان کے بہترین اعمال کی جزادیں  گے۔

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷وَالَّذِیْنَ یَسْعَوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰۗىِٕكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ۝۳۸ [116]

ترجمہ:یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولادنہیں  ہے جوتمہیں  ہم سے قریب کرتی ہو،ہاں  مگرجوایمان لائے اورنیک عمل کرےیہی لوگ ہیں  جن کے لئے ان کے عمل کی دوہری جزا ہےاوروہ بلندوبالا عمارتوں  میں  اطمینان سے رہیں  گے ،رہے وہ لوگ جوہماری آیات کونیچا دکھانے کے لئے دوڑدھوپ کرتے ہیں  تووہ عذاب میں  مبتلاہوں  گے۔

مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۴۰ [117]

ترجمہ:جوبرائی کرے گااس کواتناہی بدلہ ملے گاجتنی اس نے برائی کی ہوگی اورجونیک عمل کرے گاخواہ وہ مردہویاعورت بشرطیکہ ہووہ مومن ایسے سب لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے جہاں  ان کوبے حساب رزق دیاجائے گا۔

کیاتم لوگ اس کے سواکوئی اورجزا پا سکتے ہوکہ جیساکروویسابھرو؟

إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِی حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَیْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿٩١﴾‏ وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِینَ ‎﴿٩٢﴾‏ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَیُرِیكُمْ آیَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٣﴾‏(النمل)
’’مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے جس کی ملکیت ہر چیز ہے، اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں ہوجاؤں، اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، جو راہ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لیے راہ راست پر آئے گا اور جو بہک جائے تو کہہ دیجئے ! کہ میں صرف ہوشیار کرنے والوں میں سے ہوں، کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وہ عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم (خود) پہچان لو گے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے آپ کا رب غافل نہیں ۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہومجھے تویہی حکم دیاگیاہے کہ میں  اس شہرمکہ مکرمہ( جس میں  خانہ کعبہ ہے) کے رب کی بندگی کروں ،اسی کے حضورسرنیازجھکاؤ ں ،جیسے فرمایا

 فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَیْتِ۝۳ۙالَّذِیْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ۝۰ۥۙ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۝۴ۧ [118]

ترجمہ:لہذاان کوچاہیے کہ اس گھرکے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں  بھوک سے بچاکرکھانے کودیااورخوف سے امن عطاکیا۔

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ۝۰ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۴ۙ [119]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! کہہ دو کہ لوگو! اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں  ہو تو سن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں  ان کی بندگی نہیں  کرتا بلکہ صرف اسی خدا کی بندگی کرتا ہوں  جس کے قبضے میں  تمہاری موت ہے،مجھے حکم دیاگیاہےکہ میں  ایمان لانے والوں  میں  سے ہوں  ۔

جس کی عظمت یہ ہے کہ اللہ نے اسے حرمت وعزت والا بنایاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ:إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ  بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ یَحِلَّ القِتَالُ فِیهِ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَلَمْ یَحِلَّ لِی إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، لاَ یُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُهُ، وَلاَ یَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلاَ یُخْتَلَى خَلاَهُ فَقَالَ العَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَیْنِهِمْ وَلِبُیُوتِهِمْ، قَالَ:إِلَّا الإِذْخِرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے روزفرمایا یہ شہراس وقت سے باحرمت ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کوپیداکیاہے،یہ اللہ کی حرمت دینے سے حرمت والاہی رہے گایہاں  تک کہ قیامت آجائے،اس میں  شک نہیں  کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھی اور میرے لئے بھی دن کے ایک حصہ میں  حلال کی گئی اس کی حرمت قیامت تک قائم رہے گی،اس کا کانٹا نہ کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ یہاں  کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اس کی تشہیر کرےاور نہ وہاں  کی گھاس اکھاڑی جائے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے سناروں  اور گھروں  کے لئے اذخر کی اجازت دیجئے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔[120]

خاص چیزکی ملکیت کے بعدعام ملکیت کاذکرفرمایاکہ جوکائنات کی ہرچیزکا مالک ہے اس لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں  ،اور مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں  اللہ وحدہ لاشریک کامطیع اورفرماں  بردار ہوکر رہوں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۴ۙ [121]

ترجمہ:مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں  ایمان لانے والوں  میں  سے ہوں  ۔

اوراس آخری کتاب قرآن مجید کی تمہارے سامنے تلاوت کروں  تاکہ اس کے ذریعے سے تم ہدایت اوررہنمائی حاصل کرو ،اب جومیری دعوت حقہ پرایمان لائے گا اورعمل صالحہ اختیار کرے گااس میں  اس کااپناہی فائدہ ہے اوروہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا اور نعمتوں  بھری جنتوں  میں  عزت واکرام کے ساتھ رہے گا،اورجوحق کی تکذیب کرے گا اور اعمال بداختیارکرے گاتو اس کی اپنی مرضی ہے میراکام توصرف وعظ ونصیحت ہے، جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَآ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍ۝۱۰۸ۭ  [122]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دو کہ لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے، اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے، اور میں  تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں  ہوں  ۔

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْــتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۱۵ [123]

ترجمہ:جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہےاور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے،کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

اللہ تعالیٰ خودہی اس سے حساب لے گااو ر عذاب جہنم کامزاچکھائے گا ، جیسے فرمایا:

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [124]

ترجمہ:بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔

ان سے کہو ہرطرح کی حمدوثنا،تسبیح اورتمجیدات اللہ ہی کے لئے ہے جوکسی کواس وقت تک عذاب نہیں  دیتاجب تک حجت قائم نہیں  کردیتا،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ [125]

ترجمہ: اور ہم عذاب دینے والے نہیں  ہیں  جب تک کہ( لوگوں  کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں  ۔

بہت جلد وہ تمہیں  اپنی نشانیاں  دکھادے گاجس سے تم حق وباطل کے بارے میں  رہنمائی حاصل کرسکوگے،جیسے فرمایا

سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ۔۔۔۝۰۝۵۳ [126]

ترجمہ:عنقریب ہم ان کواپنی نشانیاں  آفاق میں  بھی دکھائیں  گے اوران کے اپنے نفس میں  بھی یہاں  تک کہ ان پریہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔

۔۔۔لِّـیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ۔۔۔۝۰۝۴۲ۙ [127]

ترجمہ:تاکہ جسے ہلاک ہوناہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہواورجسے زندہ رہناہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔

اورجو اعمال سے جوتم لوگ کرتے ہوتیرا رب اس سے غافل نہیں  ہے ۔

[1] البقرة۳،۴

[2] تفسیرابن کثیر۱۷۹؍۶

[3] تفسیرابن کثیر۱۷۹؍۶

[4] تفسیرطبری ۴۲۹؍۱۹

[5]القصص۳۱

[6]طہ ۸۲

[7] النسائ۱۱۰

[8] بنی اسرائیل۱۰۱

[9] المومنون۴۷

[10] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب فَرْضِ الخُمُسِ۳۰۹۳،مسنداحمد۹،مسندالبزار۲۵،مسندابی یعلی۲،شرح السنة للبغوی۲۷۴۱

[11]مسنداحمد ۷۸

[12] الانبیاء ۸۱

[13] سبا۱۲

[14] ص۳۶

[15] تفسیرابن کثیر۱۸۳؍۶

[16] ابراہیم۷

[17] صحیح بخاری کتاب  الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ۶۴۶۷،صحیح مسلم کتاب بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۲۲

[18] تفسیر ابن ابی حاتم۱۶۲۰۳

[19] صحیح بخاری بدء الخلق بَابٌ خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ، یُقْتَلْنَ فِی الحَرَمِ ۳۳۱۹ ،صحیح مسلم كتاب السَّلَامِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ قَتْلِ النَّمْلِ۵۸۴۹ ،سنن ابوداودکتاب  الادب باب فی قتل الذر۵۲۶۵،مسند احمد۸۱۳۰،السنن الکبری للنسائی۸۵۶۱،السنن الکبری للبیہقی۱۰۰۶۹، مسندابی یعلی۶۰۶۴،شرح السنة للبغوی۳۲۶۸

[20] تفسیرابن کثیر۱۸۴؍۶

[21] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۶۵؍۹

[22] البقرة۷۷

[23] المائدة۹۹

[24] الانعام۳

[25] الرعد۱۰

[26] سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ مَا یُنْهَى، عَنْ قَتْلِهِ۳۲۲۴، سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی قَتْلِ الذَّرِّ۵۲۶۷، مسنداحمد۳۰۶۶،سنن دارمی۲۰۴۲،مصنف عبد الرزاق۸۴۱۵

[27] تفسیرابن کثیر۱۹۲؍۶

[28] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۸۵؍۹

[29] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۸۵؍۹

[30] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۸۶؍۹

[31] حم السجدة ۴۶

[32] الروم۴۴

[33] ابراہیم۸

[34] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲،شعب الایمان ۶۶۸۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۵۰۳،شرح السنة للبغوی ۱۲۹۱

[35] الاعراف۷۵،۷۶

[36] النسائ۷۸

[37] یٰسین۱۸،۱۹

[38] الاعراف۱۳۱

[39] الشعراء ۱۵۰تا۱۵۲

[40] الاعراف۷۷

[41] القمر۲۹

[42] الشمس۱۲

[43] البدایة والنہایة

[44] العنکبوت۲۹

[45] الشعراء ۱۶۵،۱۶۶

[46] الاعراف۸۲

[47]الشعراء ۱۷۳

[48] الصافات۱۸۰تا۱۸۲

[49] تفسیرالقرطبی۲۲۱؍۱۳

[50] الاعراف۱۹۱

[51] بنی اسرائیل۱۱۱

[52] الرعد۳۳

[53] العنکبوت۶۳

[54] الزخرف۸۷

[55] یونس ۳۱

[56] المومن۶۴

[57] النحل۱۵

[58] الانبیاء ۳۱

[59] الفرقان۵۳

[60] الرحمٰن۱۹،۲۰

[61] بنی اسرائیل۶۷

[62] یونس۲۲،۲۳

[63] النحل۵۳

[64] الانعام ۱۳۳

[65] الانعام ۱۶۵

[66] النحل۱۶

[67] الانعام۹۷

[68] البروج۱۲،۱۳

[69]الروم۲۷

[70] طہ۵۳،۵۴

[71] المومنون۱۱۷

[72] الانعام ۵۹

[73] لقمان۳۴

[74] البقرة۲۵۵

[75]لقمان: ۳۴

[76] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ النجم ۴۸۵۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۴۳۹

[77] تفسیرابن کثیر۲۰۷؍۶،تفسیر ابن ابی حاتم۲۹۱۳؍۹

[78] النحل۲۱

[79] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ۹۳،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۶۹۵،جامع ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی وَصْفِ جِبْرِیلَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الإِیمَانَ وَالإِسْلاَمَ ۲۶۱۰،سنن نسائی کتاب الایمان وشرائعہ صِفَةُ الْإِیمَانِ وَالْإِسْلَامِ ۴۹۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِی الْإِیمَانِ۶۳

[80] المومنون۸۲،۸۳

[81] الصافات۱۶تا۱۸

[82] الواقعة۴۷تا۴۹

[83] الانفال۳۰

[84] بنی اسرائیل ۵۱

[85] الرعد۱۰

[86] طہ۷

[87] ھود۵

[88] الحج۷۰

[89] القصص۵۶

[90] الانعام۳۶

[91] صحیح مسلم کتاب الفتن بَابٌ فِی الْآیَاتِ الَّتِی تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ۷۲۸۵

[92]صحیح مسلم کتاب الفتن بَابٌ فِی الْآیَاتِ الَّتِی تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ۷۲۸۷

[93] صحیح مسلم کتاب الفتن بَابٌ فِی خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِی الْأَرْضِ، وَنُزُولِ عِیسَى وَقَتْلِهِ إِیَّاهُ، وَذَهَابِ أَهْلِ الْخَیْرِ وَالْإِیمَانِ، وَبَقَاءِ شِرَارِ النَّاسِ وَعِبَادَتِهِمُ الْأَوْثَانَ، وَالنَّفْخِ فِی الصُّورِ، وَبَعْثِ مَنْ فِی الْقُبُورِ۷۳۸۳،سنن ابوداودکتاب الملاحم بَابُ أَمَارَاتِ السَّاعَةِ۴۳۱۰

[94] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِی بَقِیَّةٍ مِنْ أَحَادِیثِ الدَّجَّالِ۷۳۹۷

[95] الصافات۲۲

[96] التکویر۷

[97] القیامة۳۱،۳۲

[98]المرسلات ۳۵، ۳۶

[99]جامع ترمذی  أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ   بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الصُّورِ۲۴۳۰

[100] المعجم الکبیرللطبرانی۹۷۵۵

[101] مریم۹۳

[102] الکہف۴۷

[103] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[104] الطور۹،۱۰

[105] الواقعة۵،۶

[106] المعارج۹

[107] المزمل۱۴

[108] النبا۲۰

[109] القارعہ۵

[110] الانبیاء ۱۰۳

[111] حم السجدة۴۰

[112] سبا۳۷

[113] یونس۲۶،۲۷

[114] القصص۸۴

[115] العنکبوت۷

[116] سبا۳۷،۳۸

[117] المومن۴۰

[118] القریش۳،۴

[119] یونس۱۰۴

[120] صحیح بخاری کتاب الجزئیہ والموادعہ بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ۳۱۸۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ تَحْرِیمِ مَكَّةَ وَصَیْدِهَا وَخَلَاهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا، إِلَّا لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ۳۳۰۲

[121] یونس۱۰۴

[122] یونس۱۰۸

[123] بنی اسرائیل۱۵

[124] الرعد۴۰

[125] بنی اسرائیل۱۵

[126] حم السجدة۵۳

[127] الانفال۴۲

Related Articles