بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ القصص

سورہ کے آغازمیں  موسٰی کابطورتمثیل ذکرکرکے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پرشہبات واعتراضات کاجواب دیاگیا،تفصیل کے ساتھ موسٰی کی ولادت وپرورش کا ذکر فرمایاکہ اس دور میں  جب متکبروسرکش فرعون کے حکم سے بنی اسرائیل کے بچوں  کاقتل عام جاری تھا  اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اورموسی علیہ السلام  انہی قبطیوں  کے بادشاہ کے گھر پرورش پاتے رہے جو اپنی حکومت کی حفاظت کے لیے بنی اسرائیل کے بچوں  کوقتل کروارہاتھا، اس طرح اہل مکہ کوباورکرایاکہ جب رب کاکسی کام کے بارے میں  فیصلہ ہوجاتا ہے تووہ کام ہو کر رہتا ہے اورکسی قسم کے نامساعدحالات راہ کی رکاوٹ نہیں  بنتے،اہل مکہ کایہ سوال کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نبوت کہاں  سے مل گئی اوربیٹھے بٹھائے یہ نبی کیسے بن گئے فرمایاکہ کسی کو منصب رسالت پرفائزکرنے کے لیے کسی مجمع کی ضرورت نہیں  ہوتی چنانچہ دیکھ لوجب موسی علیہ السلام  کونبوت دینے کاوقت آیاتھا تو انہیں  مدین سے واپس مصرجاتے ہوئے کوہ طور پر بلاکر خاموشی سے اس منصب پر فائزکردیاگیاتھااورکسی کوکانوں  کان خبربھی نہ ہوئی تھی،موسٰی اورجادوگروں  کے مقابلے کوپیش کرکے فرمایاکہ رب جب کسی سے کوئی کام لینے کافیصلہ فرماتا ہے تو اس کے لئے کسی قوت وطاقت اور لاؤ لشکرجیسے اسباب کاہوناضروری نہیں  ،اسباب و وسائل کی کمیابی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں  بنتی ، اہل مکہ کے اس مطالبہ پر کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  موسٰی جیسامعجزہ کیوں  نہیں  دکھاتے تو فرمایاکہ قوم فرعون نے موسٰی کے معجزات دیکھے تھے مگر وہ ان پرایمان نہیں  لائے تھے توکیا ضروری ہے کہ تم معجزات دیکھ کر ایمان لے آؤ گے؟رب نے فرمایاموسٰی کی قوم نے ان کے معجزات کوجادوقراردیاجس کے نتیجہ میں  وہ ہمارے عذاب میں  گرفتارہوکرغرق ہو کر عبرت کانشان بن گئے ، اب تم بھی رسول سے معجزات مانگ رہے ہواس طرح اپنی بربادی کوخوددعوت دے رہے ہوکیوں  کہ ہماری یہ سنت ہے کہ جب کوئی قوم معجزات طلب کرے اوروہ طلب پوری کر دی جائے مگر وہ قوم ایمان نہ لائے توان کی ہلاکت وبربادی یقینی ہوجاتی ہے ،عیسائیوں  کاتذکرہ فرماکراہل مکہ کوشرم دلائی کہ باہرسے یہ لوگ آکرایمان کی دولت سے فیض یاب ہو رہے ہیں  جب کہ تم اپنے گھرآئی ہوئی رب کی رحمت کونہیں  سمیٹ رہے،تم ہمارے رسول کی تکذیب کرتے ہوکیایہ بات ان کی رسالت کی تائیدنہیں  کرتی کہ وہ  ہزاروں  برس قبل کے واقعات تفصیل کے ساتھ تمہیں  من وعن سناتے ہیں  جبکہ تم اہل مکہ اوریہودی بھی جواہل کتاب ہیں  ان واقعات کی تفصیلات سے لاعلم ہو ، جب کہ ان کے پاس وحی کے علم کے سوااورکوئی ذریعہ علم بھی نہیں  ،اہل مکہ دنیادارلوگ تھے انہیں  اپنی عزت وشہرت اوراپنی دھاک کی پڑی ہوئی تھی کہ اگرہم نے اپنے بزرگوں  کے دین کو چھوڑا تویکایک اس ملک سے ہماری مذہبی،سیاسی اورمعاشرتی بالادستی یک دم ہی ختم ہوجائے گی اورعرب کے سب سے زیادہ بااثرقبیلے کی حیثیت کھو کر اس سرزمین میں  ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں  رہے گی، اس کے جواب میں  فرمایا گیا کہ حق وباطل کافیصلہ دنیاوی مفادات کے پیش نظرنہیں  بلکہ اخروی زندگی جوہمیشہ کی زندگی ہے اس کی بنیادپر ہوناچاہیے، مسلمانوں  کے اوصاف کے بارے میں  بتایاکہ وہ بیہودہ قوم کے اعمال سے گریزکرتے ہوئے سلامتی کی راہ اپناتے ہیں ،اعمال صالحہ اور فی سبیل  اللہ خرچ کرنے کی رغبت دلائی ، رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایاکہ ہدایت دینارب کا کام ہے تمہارانہیں ،دنیاوی اسباب کی حقیقت بتائی کہ یہ تومحض چندروز کاکھیل ہے ، مگر اس کایہ ہرگز مطلب نہیں  کہ تم ترک دنیاکرکے رہبانیت اختیارکرلوکیونکہ آخرت کی کامیابی کاراستہ اسی دنیاہی سے نکلتاہے،اسی ضمن میں  قارون کی دولت اورشان وشوکت کا بھی ذکر کیاگیا جس کے زعم میں  اس نے موسی علیہ السلام  کی پیش کردہ دعوت ہدایت کوٹھکرا کر رب کاباغی بن گیااوراللہ نے اسے اس کے گھرسمیت زمین میں  دھنسادیا ،پھررب نے اپنی قدرت واختیار اوراپنی نعمتوں کا ذکر اور آخرت میں  کامیابی کی شرائط بیان کیں ، پھر آخرمیں  رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے مسلمانوں  کوتنبیہ کی گئی کہ ہوس اقتدارمیں  ہرگزنہ پڑنا ،یہی اصل میں  فسادکی جڑہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

طسم ‎﴿١﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِینِ ‎﴿٢﴾‏ نَتْلُو عَلَیْكَ مِنْ نَبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣﴾‏ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِیَعًا یَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ یُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَیَسْتَحْیِی نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٤﴾‏ وَنُرِیدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ ‎﴿٥﴾‏ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا یَحْذَرُونَ ‎﴿٦﴾‏(القصص)
’’طٰسمّ ،یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی، ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں، یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیتا تھا، بیشک وشبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے،پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں ، اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔‘‘

طٰسمّ،یہ کتاب مبین کی آیات ہیں ،ہم آپ کوآپ کی نبوت کی دلیل کے طورپرصدیوں  قبل موسیٰ   علیہ السلام اورفرعون کے کچھ ٹھیک ٹھیک انوکھے اورتعجب انگیز واقعات سناتے ہیں جبکہ اس سارے واقعہ کی تفصیلات سے اہل مکہ اورخودیہودی بھی بے بہرہ ہیں ،اس واقعہ سے اہل ایمان ہی عبرت حاصل کریں  گے اوراس کی تصدیق کریں  گے ،واقعہ یوں  ہے کہ فرعون نے اپنے اقتدار،سلطنت ،لشکروں  اوراپنے تکبر وسرکشی کی بناپر اللہ کی زمین پرظلم وستم کابازارگرم کررکھاتھااوراپنے آپ کوبڑامعبود کہلاتاتھا ،جیسے فرمایا

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ [1]

ترجمہ:پھر اس نے کہا میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔

اس نے ملک کے باشندوں  کو متفرق گروہوں  میں  تقسیم کررکھاتھااوراس وقت کی افضل ترین قوم بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد کو اپنے تسلط کے بل بوتے پراپناغلام بناکر انتہائی پستی میں  دھکیل دیا تھا اور انہیں  ہمیشہ اپناغلام رکھنے کے لئے یہ تدبیر اپنائی کہ ان کے پیدا ہونے والے لڑکوں  کو تووہ قتل کروادیتااوران کی لڑکیوں  کوجیتا چھوڑ دیتا تاکہ نہ تو مردوں  کی قوت ہو گی اورنہ ہی کوئی بغاوت سر اٹھائے گی ،اس طرح بتدریج ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے اوریہ دوسری قوموں  میں  گم ہوکررہ جائے ، اس طرح اس نے  اللہ  کی زمین کو فساد سے بھردیا تھا دوسرا گروہ حکمران طبقہ کاتھاجن کوہرطرح کی مراعات اورامتیازات حاصل تھے اس لئے وہ بڑے خوش حال اور بڑے ہی ظالم وجابر تھے، ان حالات میں   اللہ  تعالیٰ کی رحمت جوش میں  آئی کہ اس کمزور و بے بس قوم پر اپنا فضل وکرم اوراحسان کرے،ان پرسے ذلت کے تمام نشانات مٹادے اور انہیں  ظالم وجابر متعصب قبطی النسل بادشاہ (فرعون) اور اس کی قوم سے نجات دیکرارض شام کا وارث بنا دے ، اور قوم بنی اسرائیل کواس وقت دنیاکی امامت اور دین کا پیشوابنایا جائے تاکہ فرعون وہامان اوراس کے لشکرکوجس ضعیف قوم کی طرف سے بغاوت وخروج اورغالب ہونے کاکھٹکا لگارہتاتھااسی کے ہاتھوں  ان کے ظلم واستبدادکانتیجہ ان کے آگے آئے ، جیسے فرمایا

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْہَا۝۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ بِمَا صَبَرُوْا۝۰ۭ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ۝۱۳۷ [2]

ترجمہ:اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں  کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں  سے مالامال کیا تھااس طرح بنی اسرائیل کے حق میں  تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں  نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔

كَذٰلِكَ۝۰ۭ وَاَوْرَثْنٰہَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۵۹ ۭ [3]

ترجمہ:یہ تو ہوا ان کے ساتھ(اور ﴿دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں  کا وارث کر دیا۔

وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِیهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَأَلْقِیهِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِی وَلَا تَحْزَنِی ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَیْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٧﴾‏ فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِینَ ‎﴿٨﴾‏ وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِی وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَنْ یَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٩﴾(القصص)
’’ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج نہ کرناہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانےوالے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں،آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا، کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطا کار ، اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنالیں اور یہ لوگ شعور ہی نہیں رکھتے تھے ۔‘‘

ان حالات میں  ایک بنی اسرائیلی غلام عمرام (عمران) کے ہاں  ایک بیٹی ، اورایک بیٹے ہارون جوکسی طرح قتل سے بچ گئے تھے کے بعدبالائی مصر(جنوبی مصر)میں  دارالحکومت طیبہ یاتھیبس جواب الاقصرکہلاتاہے میں  ایک لڑکا پیدا ہوا، اس وقت کے بادشاہ کانام رمییسیس ثانی کابیٹامنفتاح تھاجو مصرکے حکمرانوں  کے انیسویں  خاندان سے تھا جوبہت ہی ظالم وجابرتھااورغروروتکبرمیں  حدسے گزرگیاتھاجب یہ بچہ پیداہوا تو اللہ  تعالیٰ نے اس کی والدہ جن کانام یوکابدبتلایا جاتا ہے کے دل میں  بات ڈال دی کہ جب تک وہ قبطیوں  سے کوئی شدید خطرہ محسوس نہ کریں  بے فکرہوکربچے کودودھ پلاتی رہیں  اورجب محسوس کریں  کہ فرعون کے جاسوسوں  کوان کی پیدائش کا علم ہوگیاہے اوران کی جان کو خطرہ لاحق ہے تواپنے نومولودبچے کوایک ٹوکری میں  رکھ کر دریا نیل میں  بہادیں  اورپھرکسی طرح کااندیشہ دل میں  نہ لائیں ، اس بچے کو میرا بہت بڑادشمن ٹوکری سے اٹھالے گا مگرہماری حکمت ومشیت کے تحت بہت جلدہی ہم اس نومولود بچے کودوبارہ تمہاری طرف لوٹا دیں  گے اورجلیل القدربشارت سنائی کہ جب یہ بچہ بڑا ہو گا انہیں  منصب رسالت پر فائزکریں  گے، گویا اللہ  تعالیٰ کی طرف سے بچے کی والدہ کو اس بات کامکمل اشارہ تھاکہ فرعون مصراپنی ہرکوشش کے باوجود اس بچہ کوقتل یازک پہنچا نے پر قادرنہ ہو سکے گا، چنانچہ تین ماہ تک بچے کی والدہ اپنے بچے کوچھپاکر دودھ پلاتی رہیں  ،فرعون کے ہرکارے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں  کی بو سونگتے پھرتے تھے جنہیں  قتل کرکے وہ بڑی فرحت ومسرت محسوس کرتے تھے ایک دن خطرہ محسوس کر کے بچے کی والدہ نے بچے کومصرکے صوبہ قنامیں  دریائے نیل کے مشرقی کنارے پرطیبہ یا ثیبہ (Thebes ) کے مقام پر(جوآمون دیوتاکی پوجاکے لئے مشہورہوا) ٹوکری میں  رکھ کرالوہی رہنمائی میں  دریاکے سپردکردیا،ٹوکری لہروں  پر بہتی ہوئی فرعون کے محل کے پاس پہنچ گئی، فرعون کے اہل کاروں  نے ٹوکری کو دریامیں  بہتے دیکھاتولالچ میں  مبتلاہوکردریامیں  کودپڑے مگروہاں  دیکھاکہ ایک خوبصورت بچہ ٹوکری میں  لیٹاہواہے، ٹوکری میں  بچے کو دیکھ کروہ یہ توسمجھ گئے کہ یہ کسی اسرائیلی غلام کی اولادہے جسے کسی نے فرعون کے خوف سے دریامیں  بہادیاہے مگروہ فرعون مصر کی اجازت کے بغیراس کو قتل نہیں  کر سکتے تھے اس لئے ٹوکری کوبچے سمیت لاکرفرعون رعمسیس ثانی کے حضورپیش کردیا،دربارمیں  فرعون کے منصب داروں  ہامان وغیرہ اور لشکر کے سرداروں نے اس اسرائیلی بچے کوقتل کرنا چاہا مگر اللہ نے فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم جن کی کوئی اولادنہیں  تھی کے دل میں  رحم ڈال دیااس نے اپنے خاوندسے گزارش کی کہ وہ اس بچے کوقتل نہ کریں  ہو سکتاہے کہ یہ بڑا ہو کرہمارے لئے مفید ثابت ہو یاہم اسے اپنابیٹابنالیں  اور یہ ہم دونوں  کی آنکھوں  کی ٹھنڈک اوردل کاسروربنے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مقدرفرما دیا کہ وہ بچہ فرعون کی بیوی کو فائدہ دےجس نے یہ بات کہی تھی ،جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام کونبوت سے سرفرازفرمایاتواس نے اسلام قبول کرنے میں  سبقت کی ،فرعون نے اپنی ملکہ کی اس خواہش کا احترام کیا اور اپنے انجام کی بے خبری میں ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے اوراس بچے کوقتل نہ کیااوراپنی ملکہ کے سپردکردیااوراس نے بچے کانام موسیٰ رکھا،جس کے قبطی زبان میں  معنی ہیں  میں  نے اسے پانی سے نکالا،اورانہیں  علم ہی نہ تھاکہ لوح محفوظ میں  کیادرج ہے ، جسے وہ اپنابچہ بنارہے ہیں  یہ تووہی بچہ ہے جس کومارنے کے لئے سینکڑوں  بچوں  کو موت کی نیندسلادیا گیا ہے،یعنی تقدیرالہٰی کے مقابلے میں  احتیاط کام نہیں  آتی۔

وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِنْ كَادَتْ لَتُبْدِی بِهِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٠﴾‏ وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّیهِ ۖ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿١١﴾‏ ۞ وَحَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَیْتٍ یَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ ‎﴿١٢﴾‏(القصص)
’’موسی(علیہ السلام) کی والدہ کا دل بےقرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے،موسی(علیہ السلام) کی والدہ نے اس کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعونیوں کو اس کا علم بھی نہ ہوا، ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا یہ کہنے لگی کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی اس بچے کے خیر خواہ۔‘‘

رب کی وحی کے مطابق انہوں  نے بے خوف وخطراتنابڑا عمل توکردیا مگربشری تقاضے کے تحت ماں  کی ممتاکوبچے کے بغیرچین کہاں  سے ملتا،صدمے اورقلق سے ان کادل سخت بے قراراورغم سے اڑاجارہاتھا،یہ بے قراری یہاں  تک بڑھ گئی کہ وہ بچے کی پیدائش اورپھراسے دریامیں  بہادینے کاذکرکرنے کے قریب قریب تھیں  مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطافرمائی اور انہوں  نے صبرکیااوررازفاش نہ کیا،موسٰی کو دریا میں  بہا دینے کے بعدموسٰی کی والدہ نے تدبیرکے طورپران کی بڑی بہن(مریم) سے کہاکہ دریاکے کنارے سے کچھ دور لاتعلق ہوکر تاکہ اس کے دشمنوں  کو پتہ نہ چلے کہ تم اس ٹوکری کے ساتھ ساتھ چلتی رہواور اس پرنظررکھواوردیکھوکہ اس ٹوکری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیامعاملہ کرتاہے ، چنانچہ ماں  کے حکم کی تعمیل میں  موسٰی کی بہن دریاکے بہاؤ کے ساتھ ساتھ نہایت محتاط ہوکر کچھ دور ٹوکری پرنگاہ رکھ کر چلتی رہیں اورکانوں  کان فرعون کے اہل کاروں  کوعلم ہی نہ ہو سکاکہ ٹوکری کے تعاقب میں  کوئی چل رہاہے ،جب ملکہ مصرنے موسٰی کوگودلے لیاتوپہلامسئلہ نومولود بچے کودودھ پلانے کاآیاچنانچہ بچے کودودھ پلانے کے لئے دودھ والی عورتوں کوبلایاگیامگربچے نے  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے کسی عورت کابھی دودھ نہ پیا اوربھوک سے روتارہا،اس صورت حال میں ملکہ کے حکم پرکئی عورتیں جلدازجلداور دودھ پلانے والیوں  کی تلاش میں  تھیں ،موسٰی کی بڑی بہن جوتمام حالات کاجائزہ لے رہی تھیں  نے سرسری طورپر ان تلاش کرتی عورتوں  سے کہااگرتم مناسب سمجھوتومیں  تمہیں  ایسے گھرکاپتہ بتاؤ ں  جواس بچے کودودھ پلائے اجرت بھی کم لے اورمکمل خیرخواہی کے ساتھ اس کی پرورش بھی کرے ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمَّا قَالَتْ ذَلِكَ أَخَذُوهَاوَشَكُّوا فِی أَمْرِهَا وَقَالُوا لَهَا: وَمَا یُدْرِیكِ نُصْحَهُمْ لَهُ وَشَفَقَتَهُمْ عَلَیْهِ؟  فَقَالَتْ: نُصْحُهُمْ لَهُ وَشَفَقَتُهُمْ عَلَیْهِ رَغْبَتُهُمْ فِی ظُؤُورة  الْمَلِكِ وَرَجَاءُ مَنْفَعَتِهِ، فَأَرْسَلُوهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  جب موسیٰ  علیہ السلام کی بہن نے یہ بات کہی توانہوں  نے لڑکی کوپکڑلیا اوراس کے بارے میں  شک میں  پڑگئے اورکہنے لگے کہ تجھے کیسے معلوم ہواکہ وہ اس کے بارے میں  خیرخواہی وشفقت سے کام لیں  گے،اس نے جواب دیاکہ اس لیے کہ وہ بادشاہ کی خوشی اورمنفعت کی خواہش مندہے،یہ جواب سن کرانہوں  نے لڑکی کوچھوڑدیا۔[4]

ان عورتوں  نے یہ بات ملکہ سے جاکرکہہ دی ،ملکہ نے موسیٰ   علیہ السلام  کی بہن کی بات مان لی اور فوراًہی موسٰی کی والدہ کوبلوالیاانہوں  نے جیسے ہی بچہ کوگود میں  اٹھایااورچھاتی سے لگا کر دودھ پلایا تو اللہ کی تدبیر و مشیت سے آپ غٹاغٹ دودھ پینے لگے،فرعون نے بچے کی بہترین نگہداشت کے لئے اجرت طے کرکے بچے کو ان کے حوالے کردیاگیا،انہو ں  نے اپنے بیٹے کوسینے سے لگاکر اپنے دل کوٹھنڈاکیا اور  اللہ تعالیٰ کاشکراداکیااس طرح  اللہ تعالیٰ جس کاوعدہ کبھی جھوٹانہیں  ہوتا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ۔۔۔۝۴۷ [5]

ترجمہ:اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔

وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا یُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۶ [6]

ترجمہ:یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کرتا مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں  ۔

اس نے موسٰی کی والدہ سے کیا ہوا وعدہ اپنی خفیہ تدبیرسے پوراکردیاان کی آنکھوں  کو ٹھنڈا اور دل کومسرورکردیا،چنانچہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں  کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثرلوگ بے علم ہوتے ہیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـیْـــًٔـا وَّھُوَخَیْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَشَرٌّ لَّكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۲۱۶ۧ [7]

ترجمہ:ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں  ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں  پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو، اللہ جانتا ہے ، تم نہیں  جانتے۔

۔۔۔ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـیْــــًٔـا وَّیَجْعَلَ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا۝۱۹ [8]

ترجمہ: ہو سکتا ہے کہ ایک چیزتمہیں  پسندنہ ہومگراللہ نے اسی میں  بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٣﴾‏ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَیْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٤﴾‏ وَدَخَلَ الْمَدِینَةَ عَلَىٰ حِینِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِنْ شِیعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِی مِنْ شِیعَتِهِ عَلَى الَّذِی مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَیْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِینٌ ‎﴿١٥﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٦﴾‏ قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِیرًا لِلْمُجْرِمِینَ ‎﴿١٧﴾(القصص)
’’ پس ہم نے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایاتاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزردہ خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،اور جب (موسیٰ علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں، اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے، یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اوریہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مکا مارا جس سے وہ مرگیا ،موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے، یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ، پھر دعا کرنے لگا کہ اے پروردگار ! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف فرما دے، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے، کہنے لگے اے میرے رب ! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گناہ گار کا مددگار نہ بنوں گا۔‘‘

اس طرح موسٰی اپنی والدہ کی گودمیں پرورش پانے لگے جب وہ قوت اورعقل وفہم کوپہنچ گئے توقادرمطلق نے انہیں  حکمت ودانائی ،فہم وفراست اورقوت فیصلہ اوردینی اور دنیاوی علوم سے یابعدمیں  کوہ طورپروادی مقدس طویٰ میں  علم وحکمت سے نوازا،احسان کرنے والوں  کوہم اسی طرح جزادیتے ہیں ،جب موسیٰ   علیہ السلام جوانی اورشعورکے دورمیں  داخل ہوئے توآپ نے ہرطرف ظلم وجورکی حکمرانی دیکھی جس سے آپ کوشدیدنفرت ہوگئی ،انہی ایام میں  ایک دن موسٰی شہرکے انتہائی حصہ پرواقع محل سے نکل کر شہرمیں  ایسے وقت داخل(صبح سویرے ،

فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ نِصْفُ النَّهَارِ

بعض کہتے ہیں گرمی میں نصف النہارمیں  قیلولے کے وقت،یاسردیوں  میں مغرب اورعشاکے درمیان )

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: یَقُولُونَ فِی الْقَائِلَةِ، قَالَ: وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ یہ مغرب وعشاء کے درمیان کاوقت تھا۔[9]

ہوئے جب کہ لوگوں  کے آرام کاوقت تھا اور سب غفلت میں  پڑے ہوئے تھے ،بازاروں  میں  آمدورفت بھی نہیں  تھی کیا دیکھتے ہیں  کہ دو آدمی جن میں  سے ایک بنی اسرائیلی اوردوسراایک قبطی تھاآپس میں  جھگڑرہے ہیں  ، قبطی اس پرحاوی تھااوربنی اسرائیلی کوبیگار پر کہیں لے جانا چاہتا تھا ،لوگوں  کوعلم تھاکہ موسیٰ  علیہ السلام  فرعون کے منہ بولے بیٹے ہیں  اوربنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے موسٰی کو دیکھ کر اسرائیلی نے مظلومانہ انداز سے ان کومددکے لئے پکارا اورقبطی کازوروظلم بیان کیاجس پر موسٰی نے اسے مظلوم ہی سمجھا اور قبطی کوغصہ سے ایک زور دار گھونسہ لگایا موسی  علیہ السلام  اسے ہرگز قتل نہیں  کرناچاہتے تھے مگر ایک پیغمبرکامکہ بھلاوہ کیا برداشت کرتاوہیں  ڈھیرہوگیا،یہ دیکھ کر موسٰی گھبرا گئے اوران کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ قتل ایک سنگین جرم ہے جوان سے ہو گیا ہے ،تاسف سے کہنے لگے مجھ سے توایک شیطانی فعل سرزد ہوگیا ہے بیشک شیطان انسان کا کھلادشمن ہے اور ہروقت گمراہ کرنے کی تاک میں  لگا رہتا ہے، چنانچہ  اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کی طرح کہ غصہ یانادانستگی میں  جب ان سے کوئی خطا سرزد ہوجاتی ہے تووہ اس پر خاموشی اختیار نہیں  کرلیتے کہ توبہ کرلیں  گے ابھی توبہت عمرپڑی ہے بلکہ فوراً اسے شیطانی عمل جان کررب کے حضوراپنی مغفرت کی دعاکرنے لگتے ہیں  ، جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝۰۠ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝۰ۣ۠ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۝۱۳۵ [10]

ترجمہ:اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں  تو معاً اللہ انہیں  یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں  کی معافی چاہتے ہیں  کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں  کرتے۔

اسی طرح موسٰی کایہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں  تھاتاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتاتھاجس کے لئے انہوں  نے بخشش ضروری سمجھی ،دوسرا انہیں  یہ بھی خطرہ لاحق ہواکہ اگرفرعون کو اس قتل کی اطلاع مل گئی تووہ انہیں  اس قبطی کے بدلے میں  قتل کردے گا چنانچہ آپ  علیہ السلام اسی لمحہ توبہ و استغفار کرتے ہوئے رب کے حضور عاجزی وفروتنی سے کہنے لگے اے میرے رب! میں  نے نادانستگی میں  ایک بے گناہ کوقتل کرکے اپنے نفس پرظلم کر لیا ہےمجھے اپنی رحمت وکرم سے معاف کردے اوراس کاپردہ بھی ڈھانک دے تاکہ دشمنوں  کوپتہ نہ چلے ،علیم و بصیر ،غفورورحیم رب نے ان کی دعا قبول فرمائی اوران کو معاف کردیا، مسلمان ایک سوراخ سے دوبار نہیں  ڈساجاتاموسٰی نے رب سے کہااے میرے مولا !مجھے معاف کرکے تونے جوجاہ وعزت ، بزرگی اور نعمت عطافرمائی ہے اور ساتھ ہی مجھ پر بڑا احسان یہ کیا ہے کہ میرے قتل کافعل چھپارہ گیا ہے اور دشمن قوم کے کسی فردنے مجھے ایسا کرتے نہیں  دیکھاجس  سے مجھے بچ نکلنے کاموقعہ مل گیا ہے اب میں  عہدکرتا ہوں  کہ میں  آئندہ کبھی کسی کافر کایاجوتیرے حکموں  کامخالف ہو گا کسی معاملے میں  موافقت اوراس کا مددگار نہیں  بنوں گا ۔

فَأَصْبَحَ فِی الْمَدِینَةِ خَائِفًا یَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِی اسْتَنصَرَهُ بِالْأَمْسِ یَسْتَصْرِخُهُ ۚ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ إِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِینٌ ‎﴿١٨﴾‏ فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن یَبْطِشَ بِالَّذِی هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ یَا مُوسَىٰ أَتُرِیدُ أَن تَقْتُلَنِی كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِیدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِی الْأَرْضِ وَمَا تُرِیدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِینَ ‎﴿١٩﴾‏(القصص)
صبح ہی صبح ڈرتے اندیشہ کی حالت میں  خبریں  لینے شہر میں  گئےکہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مدد طلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے،موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اس میں  شک نہیں  تو تو صریح بےراہ ہے ،پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا وہ فریادی کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے تو تو ملک میں  ظالم و سرکش ہوناہی چاہتا ہے اور تیرا ارادہ ہی نہیں  کہ ملاپ کرنے والوں  میں  سے ہو۔

موسٰی کے دل میں  قانون کاکھٹکاتوتھاہی کہ دیکھیں  ایک قبطی کے قتل کے خلاف کیا کاروائی کی جاتی ہے اس لئے دوسرے دن ادھر ادھر جھانکتے اوراپنے بارے میں  اندیشوں  میں  مبتلاہوکر جارہے تھے کہ دیکھاکہ وہی اسرائیلی جس نے ان سے گزشتہ روزمددمانگی تھی کسی اورقبطی سے جھگڑرہاتھااورانہیں  دیکھ کر دوبارہ مددکی درخواست کررہاتھا،اس کی مددکے لئے آپ  علیہ السلام  آگے بڑھے اس کوڈانت ڈپٹ کی کہ تم توبڑے فتنہ پروراورجھگڑالوآدمی معلوم ہوتے ہو،کل بھی تولڑتاہواپایاگیاتھااورآج پھرکسی سے دست بہ گریبان ہو اور قبطی کوروکنے کے لئے ہاتھ بڑھایاتووہ اسرائیلی اپنے کمینہ پن اوربزدلی سے یہ سمجھاکہ وہ انہیں  ڈانٹنے کے بعدمارنے کے لئے آرہے ہیں  اوران کے مکے کانتیجہ وہ ایک دن پہلے ہی دیکھ چکاتھا اس لئے اس نے اپنی جان بچانے کے لئے خوف وہراس کی حالت میں  فوراًچیخناچلاناشروع کردیا اوراپنی حماقت سے کل کے قتل کا راز فاش کردیا کہنے لگا اے موسٰی !کیا تو مجھے اس طرح قتل کرنا چاہتاہے جیسے کل تونے ایک شخص کو مکامار کرقتل کردیاہے تم تو لوگوں  کی اصلاح کے بجائے فتنہ وفسادبڑھاناچاہتے ہواورزمین پر سرکش بن کررہناچاہتے ہو،اب تک توکسی کوعلم نہ تھا کہ قبطی کا قتل کس نے کیاتھامگراس قبطی نے دربار میں  جا کراس بات کی مخبری کردی کہ ایک دن پہلے قتل ہونے والے قبطی کا قاتل موسٰی ہےجب ان الفاظ کی بازگشت دربارمیں  سنی گئی تو بھرے دربارمیں  اس بات پرغوروفکرشروع ہوگیا۔

‏ وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِینَةِ یَسْعَىٰ قَالَ یَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ یَأْتَمِرُونَ بِكَ لِیَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّی لَكَ مِنَ النَّاصِحِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٢١﴾‏وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّی أَن یَهْدِیَنِی سَوَاءَ السَّبِیلِ ‎﴿٢٢﴾‏(القصص)
شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا اے موسٰی ! یہاں  کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں  پس تو جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواہ مان، پس موسیٰ (علیہ السام) وہاں  سے خوفزدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے، کہنے لگے اے پروردگار ! مجھے ظالموں  کے گروہ سے بچا لے،اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو  کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا۔

ہرانسان کے کچھ بہی خواہ اورکچھ دشمن ہوتے ہیں  جب اہل دربارکومعاملہ کاعلم ہواکہ قبطی کاقتل جو فرعون کے قبیلہ سے تھا موسٰی نے کیاہے ہیں  ،منصب داروں  اور لشکروں  کے سرداروں  میں  قصاص میں  موسٰی کے قتل کی گرماگرم باتیں  ہونے لگیں ،وہاں  موسٰی کاایک گمنام ہمدردبھی موجودتھا،وہ یہ باتیں  سن کردربار سے کھسک گیااورقبل اس کے کہ کوئی حتمی فیصلہ ہوجائے شہرکے آخری کنارے پرواقع فرعون کے محل سے دوڑتا ہواآیااوربولااے موسٰی !میں  تمہاراہمدرد اورخیرخواہ ہوں  ،قبطی کے قتل کے قصاص میں  تمہارے بارے میں  مشورے ہورہے ہیں  قبل اس کے کہ وہ کسی نتیجے پرپہنچیں  آپ میری مانیں  اور فورا ًیہاں  سے نکل جائیں اوراپنی جان بچائیں ،موسٰی توپہلے ہی ڈرے ہوئے تھے اورصورت حال کاجائزہ لینے گھرسے نکلے تھے اب یہ خبرسن کرمزیدسہم گئے کہ اب ان کیخلاف کیاکاروائی ہوتی ہے، موسٰی نے اس شخص کی بات پراعتمادکیا اورفرعون کی گرفت سے بچنے کے لئے کوئی وقت ضائع کئے بغیر شہرطیبہ سے نکل کھڑے ہوئے ،اوررب سے دعافرمائی اے میرے رب ! مجھے ان ظالموں  سے امان میں  رکھ ،موسٰی نے کبھی شہرسے باہر سفرنہیں  کیاتھاکہ انہیں  راستوں  کا علم ہوتا جبکہ یہ واقعہ اتفاقاًپیش آگیاتھااس لئے فوری طور رب پربھروسہ کرکے جدھررخ تھا ادھرچل پڑے ،اور رب سے دعاکرنے لگے  میں  اپنے رب سے امیدکرتاہوں  کہ وہ مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے،  اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اورانہیں  سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائی ،

فَذَكَرُوا أَنَّ اللَّهَ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى، بَعَثَ لَهُ مَلَكًا عَلَى فَرَسٍ، فَأَرْشَدَهُ إِلَى الطَّرِیقِ

مفسرین نے ذکرکیاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے گھوڑے پرسوارایک فرشتے کوبھیج دیاجس نے راستے کے بارے میں  آپ کی رہنمائی کی،فَاللَّهُ أَعْلَمُ  ۔[11]

چنانچہ آپ طیبہ سے ساڑھے چھ سوکلومیڑشمال میں  منف(ممفس)پہنچے اور پھر صحرائے سیناء اورایلہ سے ہوتے ہوئے مصری اثرواقتدار سے بالکل آزاد قبیلہ بنی مدیان میں  پہنچ گئے

لأجل النسب الذی بینه وبینهم لأن مدین من ولد إبراهیم، وموسى ومن ولد یعقوب بن إسحاق بن إبراهیم

جوابراہیم  علیہ السلام  کی اولادسے تھاجبکہ موسٰی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم  علیہ السلام  کی نسل سے تھے،اس طرح اہل مدین اورموسٰی کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا۔[12]

وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِی حَتَّىٰ یُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَیْخٌ كَبِیرٌ ‎﴿٢٣﴾‏ فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ ‎﴿٢٤﴾‏(القصص)
مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں  کی ایک جماعت وہاں  پانی پلا رہی ہے ،اور دو عورتیں  الگ کھڑی ( اپنے جانوروں  کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں ، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وہ بولیں  کہ جب تک یہ چروا ہے واپس نہ لوٹ جائیں  ہم پانی نہیں  پلاتیں  اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ، پس آپ نے خود ان جانوروں  کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف  ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار ! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں  اس کا محتاج ہوں ۔

جس الحی والقیوم رب پرموسٰی کوبھروسہ تھااس نے انہیں  بخیریت مصرسے مدین میں  پہنچادیا(مدین کاقبیلہ بحرقلزم کے مشرقی کنارے اورعرب کے مغرب شمال کے ایسے حصہ میں  آباد تھاجس کوشام سے متصل حجازکآخری حصہ کہاجاسکتاہے،یہ پہاڑی وادی سرسبزاورشاداب تھی،یہاں  پردومتصل کنوئیں  تھے جومغائرشعیب سے ڈیڑھ میل دورتھے ) اور فرعون مصرکے اہل کارانہیں  مصرمیں  ہی تلاش کرتے رہے، مدین میں  ایک بڑا کنواں  تھاجس سے لوگ اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے تھے اورجانوروں  کوبھی وہیں  سے پانی پلاتے تھے ،موسٰی وہیں  پرپہنچے اورایک طرف بیٹھ کرلوگوں  کوکام کرتے دیکھنے لگے( اس جگہ کو آج کل البدع کہتے ہیں  اوروہاں  ایک چھوٹاساقصبہ آبادہے) وہاں  انہوں  نے دیکھاکہ سب لوگ تو اپنے اپنے جانوروں  کوکنویں  سے پانی کھینچ کھینچ کر پلارہے ہیں  جبکہ ان سے ہٹ کردولڑکیاں  اپنی بکریوں  کو ادھرآنے سے روک رہی ہیں  اور جانور پانی پر آنے کے لئے بیتاب ہوئے جاتے تھے ،موسٰی کوان کی حالت پررحم آیا کہ یہ خودتوکنویں  سے پانی نکال کربکریوں  کوپلانہیں  سکتیں  اوردوسرے چرواہے ان کی مدد کے روادار نہیں  تو لڑکیوں  (صفورااوراولیا،یاصفورااورشرفا)کے پاس جاکرپوچھاکہ تم ایک طرف ہوکرکیوں  کھڑی ہو اور جانوروں  کوپانی کیوں  نہیں  پلا رہیں  ، لڑکیوں  نے جواب دیاہمارے گھرمیں  مردصرف ہمارے والد ہی ہیں  اوروہ اس قدر کمزوراورضعیف ہیں  کہ جانوروں  کو قابونہیں  کرسکتے اورنہ گھاٹ پرپانی پلانے کی مشقت برداشت کر سکتے ہیں  اس لئے ہم دوبہنیں  ہی جانوروں  کی دیکھ بھال کرتی ہیں  ، مردوں  کی اس بھیڑمیں  بکریوں  کوپانی پلاناہمارے بس میں  نہیں  ہے جب یہ سب چرواہے اپنے جانور لے کرچلے جائیں  گے توہم ان کابچا کھچاپانی اپنی بکریوں  کو پلاکرگھرلوٹ جائیں  گے،لڑکیوں  کی مجبوری سن کرموسٰی فورا ًان کی مددکے لئے آگے بڑھے اوراکیلے کنویں  سے پانی کے ڈول نکال کرجانوروں  کو پلادیااس طرح لڑکیاں جلد اپنے گھرکولوٹ گئیں  ، موسیٰ   علیہ السلام  مصر سے مدین تک ایک لمبافاصلہ بغیرکسی سواری کے طے کرکے آئے تھے اور سفرکی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے ،جانوروں  کوپانی پلا کر ایک سایہ داردرخت کے نیچے جاکربیٹھ گئے اوررب سے دعا کرنے  لگےاے میرے رب! تو اپنی رحمت وکرم سے جوبھی بھلائی میرے لئے نازل فرمائے میں  اس احسان کامحتاج ہوں ،یعنی میں  اس وقت کھانے کاسخت ضرورت مندہوں ،

عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، فِی قَوْلِهِ: {إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ}قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ مُوسَى قَالَهَا وَأَسْمَعَ الْمَرْأَةَ

عطاء ا بن سائب کہتے ہیں  موسیٰ  علیہ السلام نے جب یہ دعا’’ اے پروردگار ! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں  اس کا محتاج ہوں ۔‘‘مانگی تواللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعاان میں  سے ایک عورت کوبھی سنادی تھی۔[13]

فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِی عَلَى اسْتِحْیَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِی یَدْعُوكَ لِیَجْزِیَكَ أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِینُ ‎﴿٢٦﴾(القصص)
اتنے میں  ان دونوں  عورتوں  میں  سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں  تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں ) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں ، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے  اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی ، ان دونوں  میں  سے ایک نے کہا کہ ابا جی ! آپ انہیں  مزدوری پر رکھ لیجئے کیونکہ جنہیں  آپ اجرت پر رکھیں  ان میں  سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔

اللہ تعالیٰ نے موسٰی کی اس دعاکوبھی قبول فرمایاموسٰی کودرخت کے سائے میں  بیٹھے کچھ ہی دیرگزری تھی اس اثنامیں  لڑکیوں  نے والدمحترم کوجاکرایک اجنبی کی اس ہمدردی اور احسان کاساراواقعہ بیان کردیا،انہوں  نے ایک لڑکی سے کہاکہ اس اجنبی آدمی کو میرے پاس بلا لاؤ چنانچہ ان دونوں  لڑکیوں  میں  سے ایک حیاوحجاب سے بے نیازاوربے باکی سے نہیں بلکہ پاک دامن عفیفہ عورتوں  کے دستور کی طرح اپنی چادرمیں  لپٹی شرم وحیا(جوعورت کی اچھی فطرت اورخلق حسن پردلالت کرتی ہے)کے ساتھ چلتی ہوئی موسٰی کے پاس آئی،

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ، جَاءَتْ تَمْشِی عَلَى اسْتِحْیَاءٍ،قَائِلَةً بِثَوْبِهَا عَلَى وَجْهِهَا لَیْسَتْ بِسَلْفَعِ خَرَاجَةٍ وَلَّاجَةٍ

عمروبن میمون سے روایت ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ شرماتی اورلجاتی ہوئی آئی، اورچہرے کوکپڑے سے چھپارکھاتھا وہ کوئی جری عورت اوراندرباہرزیادہ آنے جانے والی نہ تھی ۔[14]

اوردانائی و صداقت کے ساتھ کہ کسی بات کاشبہ بھی نہ رہےکچھ دورکھڑے ہوکر صاف صاف لفظوں  میں  کہنے لگی کہ اے اجنبی! میرے والد اس احسان کابدلہ اتارنے جو آپ نے ہماری بکریوں  کوپانی پلا کرکیاہے اورمزدوری دینے کے لئے اپنے پاس بلارہے ہیں ، موسٰی نظریں  نیچی کئے بات سنتے رہے،موسیٰ   علیہ السلام کو یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوااس لئے لڑکی بات سن کر خاموشی کے ساتھ اس لڑکی کے آگے آگے چلتے ہوئے اس بزرگ کے پاس پہنچ گئے، بزرگ(ثیرون) نے بڑی محبت سے حال احوال پوچھا تو موسٰی نے اپنی تمام آپ بیتی ان کے گوش گزار کر دی،اس بزرگ نے موسٰی کاخوف دورکرنے اور دل جوئی کرتے ہوئے کہااب کوئی رنج وخوف نہ کرواللہ نے تمہیں  ان ظالم لوگوں  سے نجات دے دی ہے اورتم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہوجہاں  فرعون کاکوئی اختیارنہیں  ہے (اس زمانے میں  مصرکی حکومت جزیرہ نمائے سیناء کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی ، خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل جن پربنی مدیان آبادتھے مصری اثرواقتدار سے آزادتھے ) اس بزرگ کی دونوں بیٹیاں  بھی قریب بیٹھی رؤ داد سن رہی تھیں  ،وہ اکیلے موسٰی کو پھرتی کے ساتھ بھاری ڈول سے کنویں  سے اکیلے پانی نکالتے دیکھ ہی چکی تھیں ،وہی لڑکی جو آپ  علیہ السلام کو بلا کرلائی تھی بڑی ہی معاملہ فہم اور دانا تھی ،وہ آپ کی شرافت ودیانت اور حسن اخلاق کامشاہدہ بھی کرچکی تھی، ویسے بھی انسان کاچہرہ اوراس کی گفتگو اس کے کردارکا آئینہ دار ہوتاہے، وہی اپنے والدمحترم سے کہنے لگی اباجان! اس شخص کو اپنی بکریاں  چرائی پرملازم رکھ لیجئے کیونکہ ملازم وہ اچھا ہوتاہے جس میں  کام کرنے کی قوت وقدرت ہو اورمزیدامانتداربھی ہو،جس انسان کے اندریہ دو صلاحیتیں  ہوں  تووہ بہترین شخص بن جاتا ہے ،

قَالَ عُمَرُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وشُریح الْقَاضِی، وَأَبُو مَالِكٍ، وقَتَادَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَغَیْرُ وَاحِدٍ: لَمَّا قَالَتْ: {إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الأمِینُ}قَالَ لَهَا أَبُوهَا: وَمَا عِلْمُكِ بِذَلِكَ؟قَالَتْ: إِنَّهُ رَفَعَ الصَّخْرَةَ الَّتِی لَا یَطِیقُ حَمْلَهَا إِلَّا عَشَرَةُ رِجَالٍ،وَإِنَّهُ لَمَّا جِئْتُ مَعَهُ تقدمتُ أمامهُ،فَقَالَ لِی: كُونِی مِنْ وَرَائِی، فَإِذَا اجْتَنَبْتُ الطَّرِیقَ فَاحْذِفِی [لِی] بِحَصَاةٍ أَعْلَمُ بِهَا كَیْفَ الطَّرِیقُ لِأَتَهَدَّى  إِلَیْهِ

عمر،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،قاضی شریح،ابومالک،قتادہ رحمہ اللہ ،محمدبن اسحاق اوردیگرکئی مفسرین نے کہاہے جب اس نے یہ کہا ’’ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں  وہی ہو سکتاہے جو مضبوط اورامانت دارہو۔‘‘ تواس نے کہاتجھے کیسے معلوم ہواکہ یہ طاقتواراورامانت دارہے؟اس نے جواب دیااس کی طاقت کایہ عالم ہے کہ کنوئیں  کاوہ پتھرجسے دس آدمی مل کر اٹھاتے ہیں  وہ اس اکیلے ہی نے اٹھالیاتھااورامانت کایہ حال ہے کہ جب میں  اس کے ساتھ واپس آئی تواس کے آگے آگے چل رہی تھی،اس نے کہاتومیرے پیچھے ہوجا اگرمیں  راستہ بھول جاؤ ں  توکنکری مارکرمجھے مطلع کردیناتومجھے معلوم ہوجائے گاکہ صحیح رستہ کون ساہے۔[15]

یوسف  علیہ السلام  نے بھی جن کی صداقت کاسارامصرگواہ تھا عزیزمصرسے یہی بات کہی تھی،

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۝۰ۚ اِنِّىْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ۝۵۵  [16]

ترجمہ:یوسف علیہ السلام  نے کہا ، ملک کے خزانے میرے سپردکیجئے، میں  حفاظت کرنے والابھی ہوں  اورعلم بھی رکھتاہوں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: أَفَرَسُ النَّاسِ ثَلَاثَةٌ: أَبُو بَكْرٍ حِینَ تَفَرَّسَ فِی عُمَر، وَصَاحِبُ یُوسُفَ حِینَ قَالَ: {أَكْرِمِی مَثْوَاهُ}[17] ، وَصَاحِبَةُ مُوسَى حِینَ قَالَتْ: {یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الأمِینُ} .

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں تین شخصوں  کی سی زیرکی،معاملہ فہمی،دانائی اوردوربینی کسی اورمیں  نہیں  پائی گئی، سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کی دانائی جب کہ انہوں  نے اپنے بعدخلافت کے لئے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کومنتخب کیااوریوسف  علیہ السلام کے خریدنے والے مصدی جنہوں  نے بیک نظریوسف کو پہچان لیااورجاکراپنی اہلیہ سے فرمایا ’’ انہیں  اچھی طرح رکھو۔‘‘ اوراس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں  نے موسیٰ   علیہ السلام کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی ’’انہیں  اپنے کام پررکھ لیں بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں  وہی ہو سکتاہے جومضبوط اور امانت دارہو۔‘‘[18]

‏ قَالَ إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَیَّ هَاتَیْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِی ثَمَانِیَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِیدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْكَ ۚ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالَ ذَٰلِكَ بَیْنِی وَبَیْنَكَ ۖ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِیلٌ ‎﴿٢٨﴾‏(القصص)
اس بزرگ نے کہا میں  اپنی دونوں  لڑکیوں  میں  سے ایک کو آپ کے نکاح میں  دینا چاہتا ہوں  اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں  ، ہاں  اگر آپ دس سال پورے کریں  تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہیں  ، میں یہ ہرگز نہیں  چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں  ڈالوں ، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں  گے، موسی(علیہ السلام) نے کہا خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی میں  ان دونوں  مدتوں  میں  سے جسے           پورا کروں  مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو، ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں  اس پر اللہ (گواہ اور) کارساز ہے۔

بزرگ نے بیٹی کے مشورے پرکچھ روزغوروفکرکیااورپسندکیااورکسی مناسب وقت پرموسٰی کوملازم رکھنے کے بجائے کہااگرتم آٹھ سال تک میری بکریاں  چراؤ  تومیں  اپنی دو بیٹیوں  میں  سے ایک بیٹی کانکاح تم سے کردیناچاہتاہوں  ،اوراس کے علاو ہ مزید دوسال کاتمہیں  اختیارہے کہ چاہے میری خدمت کرویانہ کرویہ تم پرلازم نہ ہوگا،اگرتم یہ شرط منظورکروتومیں  تم سے سختی سے کام نہ لوں  گااورتم مجھے ایک نیک کردارآدمی پاو گے ، موسیٰ   علیہ السلام  نے جواس وقت ایک ٹھکانے کے طالب تھے بزرگ کی یہ پیشکش تسلیم کرلی اور خود کو آٹھ سال یا دس سال کے لئے ملازمت کے لئے پیش کردیااو ر تاکیداًبزرگ سے کہہ دیاآٹھ سال یادس سال میں  جو مدت پوری کر دوں  مگراس کے بعدمجھ پرآپ کاکوئی حق مزدوری لازم نہیں  ہوگا اورنہ مطالبہ کیا جائے گاچنانچہ موسٰی اور بزرگ نے  اللہ علیم وبصیرکوگواہ بناکرقول وقرارکو پکاکرلیا ۔

فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّی آتِیكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِیَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن یَا مُوسَىٰ إِنِّی أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ یُعَقِّبْ ۚ یَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِینَ ‎﴿٣١﴾‏ اسْلُكْ یَدَكَ فِی جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ ‎﴿٣٢﴾‏(القصص)
جب حضرت مو سی (علیہ السلام) نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں  کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی، اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو ! میں  نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں  وہاں  سے کوئی خبر لاؤں  یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں  تاکہ تم سینک لو، پس جب وہاں  پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں  کنارے کے درخت میں  سے آواز دئیے گئے کہ اے موسٰی ! یقیناً میں  ہی اللہ ہوں  سارے جہانوں  کا پروردگار،  اور یہ بھی آواز آئی کہ اپنی لاٹھی ڈال دے، پھر جب اس نے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھن پھنا  رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہوگئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا، ہم نے کہا اے موسٰی ! آگے آ ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن والا ہے ،اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں  ڈال وہ بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا نکلے گا بالکل سفید اور خوف سے (بچنے کے لئے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے ، پس یہ دونوں  معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں  فرعون اور اس کی جماعت کی طرف،  یقیناً وہ سب کے سب بےحکم اور نافرمان لوگ ہیں  ۔

چنانچہ موسٰی  نے آٹھ سال کے بجائے دس سال ملازمت پوری کی اوربزرگ نے اپنے وعدہ کے مطابق اپنی چھوٹی بیٹی(صفورائ) کی شادی آپ  علیہ السلام  سے کردی ایک عرصہ سے آپ  علیہ السلام اپنے گھر والوں  سے دورپردیس میں  تھے اب جب انہوں  نے درازمدت یعنی دس سال بھی پوری کردی ،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ:سَأَلَنِی یَهُودِیٌّ مِنْ أَهْلِ الحِیرَةِ أَیَّ الأَجَلَیْنِ قَضَى مُوسَى،قُلْتُ: لاَ أَدْرِی، حَتَّى أَقْدَمَ عَلَى حَبْرِ العَرَبِ فَأَسْأَلَهُ،فَقَدِمْتُ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:قَضَى أَكْثَرَهُمَا، وَأَطْیَبَهُمَا  إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ فَعَلَ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ سےمروی ہےحیرہ کے یہودی نےسعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا موسیٰ   علیہ السلام نے(اپنے مہرکے اداکرنے میں )کون سی مدت پوری کی تھی؟ (یعنی آٹھ سال کی یادس سال کی ،جن کاقرآن میں  ذکرہے)میں  نے کہاکہ مجھے معلوم نہیں ،ہاں عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں  حاضر ہوکرپوچھ لوں (توپھرتمہیں  بتادوں  گا)چنانچہ میں  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کی خدمت میں  حاضرا ہوا اور ان سے یہی سوال کیاتوآپ نے فرمایابڑی مدت (دس سال کی)پوری کی جودونوں  مدتوں  میں  بہترتھی، اس لیے کہ اللہ کے رسول جو بات کہتے ہیں  وہ پوری کرتے ہیں ۔[19]

تودل میں  اشتیاق پیدا ہواکہ اب جبکہ وہ فرعون بھی فوت ہوچکاہےاوراس طویل مدت میں  لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کوبھی بھول چکے ہوں  گے، اگرمیں  خاموشی کے ساتھ مصرچلا جاؤ ں  اوراپنی والدہ ،بڑی بہن اوربھائی سب سے مل لوں  اوران کی خیروعافیت معلوم کروں  تو شایدکسی کومیراپتہ بھی نہیں  چلے گا،چنانچہ آپ نے اپنے سسرمحترم سے اجازت چاہی جوانہوں  نے دے دی اورزادراہ کے طورپرکچھ بکریاں  بھی دیں ،مصرکی طرف سفرکرتے ہوئے جب موسیٰ   علیہ السلام  جزیرہ نماسینا کے جنوبی علاقہ سے (جہاں  پر ۷۴۹۶  فٹ بلندکوہ طور ہے،جس کی اہم ترین چوٹی جبل موسٰی ۲۲۸۵میڑبلندہے جہاں  موسٰی کو نبوت عطاہوئی تھی،یہاں  ۵۲۷ء میں عیسائی بادشاہ قسطنطین نے ایک گرجا بنوایاتھااس کے دوسوبرس بعدقصر جسٹینین نے خانقاہ بنوائی جس میں  کنیسہ کوبھی شامل کرلیا ) گزر رہے تھے کہ رات نے ہرسواپنے پرپھیلادئیے ، چنانچہ موسیٰ   علیہ السلام  نے وہیں  پڑاؤ  ڈال دیا ، پہاڑوں  کی گھاٹیوں  کے درمیان اندھیرا اور سخت سردی تھی،موسٰی اردگرد کاجائزہ لینے لگے کہ سردی سے بچاؤ کے لئے کہیں  کوئی پناہ گاہ یا آگ نظرآئے توحاصل کی جائے،جائزہ لیتے لیتے اچانک موسیٰ   علیہ السلام کو دورایک آگ جلتی ہوئی نظرآئی،اس شدیدسردی میں  آگ ایک نعمت سے کم نہیں  تھی ،موسٰی نے اپنی اہلیہ سے کہاتم یہاں  آرام وسکون سے بیٹھومیں  نے دورآگ روشن دیکھی ہے میں  وہاں  جاتاہوں  اور وہاں  سے تمہارے سینکنے، تاپنے کے لئے کچھ آگ لے آتاہوں  تاکہ سردی کی شدت کچھ کم ہوجائے اور ساتھ ہی کچھ روشنی بھی ہوجائے ،ہم سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں  ممکن ہے کوئی آدمی مل جائے اور میں  اس سے صحیح راستہ بھی معلوم کرلوں  (خیال تھا دنیا کا راستہ ملنے کا اور وہاں  مل گیا عقبیٰ کاراستہ)مو سی  علیہ السلام  پڑاؤ کی جگہ سے روانہ ہوکرقبلہ کی جانب چلے جب آگ تلاش کرتے کرتے وادی کے دائیں  کنارے پرمبارک خطے میں  پہنچے توموسٰی کو دائیں  ہاتھ کی طرف سے ایک سرسبزوشاداب درخت سے جس میں  آگ کے شعلے نکلتے دکھائی دیتے تھے لیکن آگ کسی چیزمیں  جلتی ہوئی دکھائی نہیں  دیتی تھی موسٰی کوپکاراگیا کہ اے موسٰی ! میں  ہوں  رب العالمین جواس وقت تم سے کلام کررہاہوں ، میں  ہی جہانوں  کوپیدا کرنے اورپالنے والا ہوں ، میرے سوا کوئی رب نہیں  ،میں  ہی تمہارا اورساری مخلوقات کارب ہوں ،میری مخلوق میں  کوئی بھی میرا ہمسر،شریک ، ساجھی اورساتھی نہیں ، میں  اس سے پاک ہوں  کہ کوئی مجھ ساہو، سارے جہانوں  پرحکومت اور اقتدار میراہے ،ہر طرح کی طاقتیں  اور قدرتیں  میرے اختیار میں  ہیں  ،میں  جوچاہتاہوں  کر گزرتا ہوں  میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۝۱۰۷ [20]

ترجمہ:بےشک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے ۔

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۝۱۶ۭ [21]

ترجمہ:اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے ۔

میں  تمام عیوب سے پاک اور نقصان سے دور ہوں ،میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں  حکم دیااے موسٰی! اپنی اس لاٹھی کوزمین پر پھینک دے،موسٰی نے حکم کی تعمیل کی اورلاٹھی کوزمین پرپھینک دیامگرزمین پرگرتے ہی لاٹھی ایک زبردست اژدھے کی صورت میں  پھنپھناتی ہوئی لگی اورادھرادھرتیرکی طرح فراٹے بھرنے لگی ، اپنی لاٹھی کی یہ کیفیت دیکھ کرموسٰی بشری تقاضوں  کے مطابق سہم گئے اورمارے دہشت کے اپنی جگہ پرٹھیرنہ سکے اورالٹے پاؤ ں  بھاگ کھڑے ہوئے کہ مڑکربھی نہ دیکھا ، وہیں  اللہ تعالیٰ نے آوازدی اے موسٰی !واپس ادھرآؤ اورمطلق ڈریاخوف نہ کھاؤ  تم ہماری امان میں  محفوظ ہو،تمہیں  کوئی چیزنقصان نہیں  پہنچاسکتی اوراے موسٰی !ہمارے پیغمبر ہمارے حضورڈرانہیں  کرتے، باری تعالیٰ کے تسلی کے کلمات سن کرموسٰی کی گھبراہٹ دورہوگئی اوروہ اطمینان قلب سے کھڑے ہوگئے،یہ پہلامعجزہ عطافرماکراللہ تعالیٰ نے دوسراحکم فرمایااے موسٰی !اپناہاتھ اپنی بغل میں  دبالویہ چاندکی طرح چمکتاہوانکلے گااورتمہیں  کسی طرح کی کوئی تکلیف معلوم نہ ہو گی،موسیٰ   علیہ السلام  نے حکم کی تعمیل کی اورجب ہاتھ بغل سے باہر نکالاتوخوب چمکتاہوانکلا ، رب کائنات نے آپ  علیہ السلام  کو یہ دوسرامعجزہ عنایت فرمایاپھررب کاارشادہواجب کبھی کوئی ایساخطرناک موقع آئے جس سے تمہارے دل میں  خوف پیدا ہو تواپنا بازو بھنچ لیا کرو اس سے تمہارادل قوی ہو جائے گا اوررعب ودہشت کی کوئی کیفیت تمہارے اندرباقی نہیں  رہے گی ،یہ دومعجزات لے کراب تم فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ  اور بطوراپنی صداقت کی دلیل کے طور پر ان کے سامنے پیش کرو اوران نافرمان ،فاسق وفاجر،سرکش لوگوں  کوہماری راہ کی پاکیزہ دعوت دو انہوں  نے ہماری زمین پرفتنہ وفساد اورفسق وفجور کابازارگرم کر رکھا ہے ،ظلم و جبرپرکمربستہ ہیں ، ہمارے عطا کردہ مال ودولت اورحکومت سے وہ انتہائی متکبر ہو گئے ہیں  ، اپنی سرکشی وطغیانی میں  ہماری بغاوت پرکمرکس چکے ہیں  ، موسیٰ  علیہ السلام  سر جھکا کر باادب ارشادباری تعالیٰ سنتے رہے۔

قَالَ رَبِّ إِنِّی قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَن یَقْتُلُونِ ‎﴿٣٣﴾‏ وَأَخِی هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْءًا یُصَدِّقُنِی ۖ إِنِّی أَخَافُ أَن یُكَذِّبُونِ ‎﴿٣٤﴾‏ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِیكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا یَصِلُونَ إِلَیْكُمَا ۚ بِآیَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(القصص)
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا پروردگار ! میں  نے ان کاایک آدمی قتل کردیا تھا اب مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے بھی قتل کر ڈالیں  ، اور میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) مجھ سے بہت زیادہ فصیح زبان والا ہے تو اسے میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج کہ وہ مجھے سچا مانے، مجھے تو خوف ہے کہ وہ سب مجھے جھٹلا دیں  گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں  گے اور تم دونوں  کو غلبہ دیں  گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں  گے بسبب ہماری نشانیوں  کے، تم دونوں  اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں  گے ۔

چونکہ موسیٰ   علیہ السلام  کے ہاتھوں  نادانستگی میں  ایک قبطی قتل ہوگیاتھااس لئے موسٰی کے دل میں  دوباتیں  آئیں  ایک تو فرعون کی عظمت وجباریت کاخوف اوردوسرااپنے ہاتھوں  ایک قبطی کا قتل،اس لئے باری تعالیٰ کے حضورگزارش کی کہ اے میرے رب! میں  نے ایک قبطی کوبلاقصورمارڈالاتھاجس کی وجہ سے مجھے اپناگھرباراور ملک چھوڑنا پڑامجھے اب جاتے ہوئے ڈرو خوف لگ رہاہے کہ کہیں  وہ مجھے قصاص میں  قتل نہ کرڈالیں اورمجھے ڈرہے کہ وہ ظالم لوگ مجھے جھٹلائیں  گے،میرے کنبے میں  سے میرے بھائی ہارون  علیہ السلام  کو بھی نبوت سے سرفراز فرماکیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح زبان ہے تاکہ وہ اپنی فصاحت لسانی سے میراخارجی اورظاہری معاون ومددگار بنے اور میری رسالت کی تصدیق کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے اوردل بھی بڑھا رہے ، اوریہ بھی بات ہے کہ دوآوازیں  بہ نسبت ایک آوازکے زیادہ مضبوط اوربااثرہوتی ہے ،میں  اکیلا رہا توڈر ہے کہ کہیں  وہ مجھے جھٹلانہ دیں  اور ہارون  علیہ السلام  ساتھ ہواتومیری باتیں  بھی لوگوں  کوسمجھادیاکرے گااورمیری زبان کی گرہ بھی کھول دے،جیسے فرمایا

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ۝۲۷ۙیَفْقَـــہُوْا قَوْلِیْ۝۲۸۠وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ۝۲۹ۙہٰرُوْنَ اَخِی۝۳۰ۙاشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِیْ۝۳۱ۙوَاَشْرِكْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ۝۳۲ۙ  [22]

ترجمہ:اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ، اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے،ہارون جو میرا بھائی ہےاس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبوط کراور اس کو میرے کام میں  شریک کر دے۔

اورموسٰی کی ساری گزارشات سن کررب کریم نے فرمایااے موسیٰ  علیہ السلام ! ہم نے تمہاری گزارش قبول کی ،تیراہاتھ مضبوط کرنے کے لئے تیرے بھائی ہارون  علیہ السلام  کونبوت سے سرفراز فرما کرتمہاراساتھی اورمددگاربنادیاگیاہے،جیسے فرمایا

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى۝۳۶  [23]

ترجمہ: فرمایادیاگیاجوتونے مانگااے موسیٰ۔

 وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا۝۵۳ [24]

ترجمہ:اور اپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارون علیہ السلام  کو نبی بنا کر اسے(مددگار کے طور پر) دیا۔

اورفرمایافرعون اپنی فرعونیت میں  اوراس کے حوالی موالی مقابلے پرآئیں  گے مگرہم نے جونشانیاں  تمہیں  دی ہیں  ان کے بل پر تمہاراکچھ نہیں  بگاڑسکیں  گے بلکہ تم اورتمہارے پیروکارہی غالب رہیں  گے،جیسے فرمایا

كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۲۱ [25]

ترجمہ:اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں  اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں  گے فی لواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ [26]

ترجمہ:یقین جانوکہ ہم اپنے رسولوں  اورایمان لانے والوں  کی مدداس دنیاکی زندگی میں  بھی لازماکرتے ہیں  اوراس روزبھی کریں  گے جب گواہ کھڑے ہوں  گے۔

فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآیَاتِنَا بَیِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِی آبَائِنَا الْأَوَّلِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ رَبِّی أَعْلَمُ بِمَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ مِنْ عِندِهِ وَمَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۖ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرِی فَأَوْقِدْ لِی یَا هَامَانُ عَلَى الطِّینِ فَاجْعَل لِّی صَرْحًا لَّعَلِّی أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّی لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٣٨﴾‏(القصص)
پس جب ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے دیئے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے وہ کہنے لگے یہ تو صرف گھڑا گھڑایا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں  کے زمانہ میں  کبھی یہ نہیں  سنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے میرا رب تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے جو اس کے پاس کی ہدایت لے کر آتا ہے اور جس کے لیے آخرت (اچھا) انجام ہوتا ہے،  یقیناً بےانصافوں  کا بھلا نہ ہوگا، فرعون کہنے لگا اے درباریو ! میں  تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں  جانتا، سن اے ہامان ! تو میرے لیے مٹی کو آگ سے پکوا پھر میرے لیے ایک محل تعمیر کرتو میں  موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں  اسے میں  تو جھوٹوں  میں  سے ہی گمان کر رہا ہوں ۔

موسٰی کی نمایاں علامات اورواضح نشانیاں  جوان کے مامورمن  اللہ ہونے پرشاہدتھیں  دوسرے ایسی روشن دلیلیں  جوان کی پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کاثبوت دے رہی تھیں  تیسرے زندگی کے مسائل ومعاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں  دیکھ کرہرمعقول آدمی یہ جان سکتاتھاکہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا،خودغرض آدمی نہیں  دے سکتا لے کر آئے تھے مگر فرعون اوراس کے درباریوں  نے جب دعوت توحیدسن لی اور دونوں  معجزے دیکھ لئے توچاہیے تویہ تھاکہ اتنی پاکیزہ دعوت اور واضح نشانیوں  دیکھ کرایمان کی دولت حاصل کرتے ،مگر انہوں  نے اس کے برخلاف اپنے غروروتکبراورہٹ دھرمی میں  تکذیب وعناد کی راہ اپنائی اور معجزات کے بارے میں کہنے لگے یہ توتمہارا بنایا ہوا نمائشی شعبدہ ہے،اورموسیٰ  علیہ السلام  نے جودعوت توحیدپیش کی اس کے بارے میں  فرعون کہنے لگایہ دعوت کہ بہت سے معبودوں  کوچھوڑکرصرف ایک ہی اللہ کی عبادت کی جائے،اسی کو پکاراجائے اوراسی پربھروسہ کیاجائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے ،یہ دعوت نہ ہم نے سنی ہے اورنہ ہی اس توحید سے ہمارے آباؤ اجدادواقف تھے ، مگریہ بھی اس نے جھوٹ بولاتھاکیونکہ اس سے پہلے یوسف  علیہ السلام  مصرمیں  دعوت توحیددے چکے تھے ، چنانچہ ایک مقام پر فرمایا

وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَازِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِهٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا۝۰۝۳۴ۚ ۖ [27]

ترجمہ:اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس بینات لے کرآئے تھے مگرتم ان کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک ہی میں  پڑے رہے ،پھرجب ان کا انتقال ہوگیاتوتم نے کہااب ان کے بعداللہ کوئی رسول ہرگزنہ بھیجے گا۔

موسٰی نے فورا ً جواب دیامجھ سے اورتم سے زیادہ ہدایت کاجاننے والارب کائنات ہے اس لئے اس رب کی طرف سے جو ہدایت آئے گی وہی صحیح ہوگی یاتمہارے اور تمہارے آباؤ اجداد کی بات صحیح مانی جائے گی،وہی رب جانتاہے کون ہدایت پر ہے اوراللہ کی رضامندی اوراس کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرارپاتاہے عنقریب تم دیکھ لوگے کہ  اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کس کا ساتھ دیتی ہے بھلاظلم وتکبرمیں  ڈوبے مشرکوں ،اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدودوں  کوتوڑنے والوں  کاانجام بھی کبھی اچھا ہواہے،فرعون کہنے لگا اے اہل دربار!میں  تواپنے سوا تمہارے کسی الٰہ کو نہیں  جانتا،یعنی میں  اکیلاتمہاراالٰہ اورمعبودہوں ،اگرمیرے سواکوئی اورالٰہ ہوتاتومیرے علم میں  ضرورہوتا،ملاحظہ کریں  فرعون نے یہ نہیں  کہا

مَا  لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ

میرے سواتمہاراکوئی معبودنہیں  بلکہ یہ کہا

۔۔۔مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ۔۔۔ [28]

میں  تمہارااپنے سواکوئی معبودنہیں  جانتا۔

جیسے فرمایا

 فَحَشَرَ فَنَادٰى۝۲۳ۡۖفَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ [29]

ترجمہ:اور لوگوں  کو جمع کر کے اس نے پکارکرکہا میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں  ۔

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ۝۲۹ [30]

ترجمہ:فرعون نے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں  میں  شامل کر دوں  گا جو قید خانوں  میں  پڑے سڑ رہے ہیں ۔

اورتمسخراڑاتے ہوئے اپنے وزیر ہامان کوجواس کے معاملات کا بندوبست کرنے والاتھا کہنے لگااے ہامان! آگ میں  پکی ہوئی اینٹیں  تیارکرکے میرے لئے ایک بہت اونچا اورمضبوط مینار تیارکرجس پرچڑھ کرمیں  آسمان کے دروازوں  تک پہنچ سکوں  اور دیکھوں  کہ واقعی ہی موسٰی کامیرے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جسے وہ کہتاہے کہ وہ اوپرہے اوروہ زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے کاخالق اورمدبرہے،وہی اکیلااس عظیم الشان کائنات کاپالنہارہے، مگر حقیقت یہ ہے میں  تو اسے جھوٹوں  میں  گمان کرتاہوں ،اس کی دعوت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ جیسےفرمایا

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْـبَابَ۝۳۶ۙاَسْـبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰى وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا ۝۳۷ۧ  [31]

ترجمہ:فرعون نے کہااے ہامان!میرے لئے ایک بلندعمارت بناتاکہ میں  راستوں  تک پہنچ سکوں ،آسمانوں  کے راستوں  تک اورموسیٰ کے الٰہ کوجھانک کر دیکھوں مجھے تویہ موسیٰ جھوٹاہی معلوم ہوتاہے۔

وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَیْنَا لَا یُرْجَعُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِی الْیَمِّ ۖ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُونَ ‎﴿٤١﴾‏ وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِی هَٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِینَ ‎﴿٤٢﴾(القصص)
اس نے اس کے لشکروں  نے ناحق طریقے پر ملک میں  تکبر کیا اور سمجھ لیا کہ وہ ہماری جانب لوٹائے ہی نہ جائیں  گے،  بالآخر ہم نے اس کے لشکروں  کو پکڑ لیا اور دریا برد کردیا، اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں  کا انجام کیسا کچھ ہوا؟  اور ہم نے انہیں  ایسے امام بنا دیئے کہ لوگوں  کو جہنم کی طرف بلائیں  اور روز قیامت مطلق مدد نہ کئے جائیں  اور ہم نے اس دنیا میں  بھی ان کے پیچھے اپنی لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی بدحال لوگوں  میں  سے ہوں  گے ۔

بڑائی اورساری حمدوستائش توہمارے رب وحدہ لاشرک کی ہے جوتمام کائنات کاخالق اورمالک ہے حکومت اسی کی ہے اور فرمان بھی اسی کاچلتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۵۴  [32]

ترجمہ: خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ، بڑا برکت ہے اللہ سارے جہانوں  کا مالک و پروردگار ۔

فرعون اوراس کے سردار ملک مصر میں  بغیرکسی دلیل واستحقاق کے اپنے آپ کوبڑاسمجھتے رہے،عدوان کامظاہرہ کرتے ہوئے انہوں  نے ہٹ دھرمی اورتکذیب کاراستہ اپنایا اور اپنی موت کوبھولے رہے ،رب کے بندوں  کے ساتھ متکبرانہ رویہ رکھااوران پرناحق ظلم وستم کے پہاڑتوڑتے رہے اور یہ سمجھے کہ وہ ہمیشہ رب کی عطاکردہ نعمتوں  سے بہرہ مندرہیں  گے ان کوکبھی موت نہیں  آئے گی اوردوبارہ زندہ ہوکررب کواپنے ظلم و ستم اورنعمتوں  کی ناشکری کاحساب نہیں  دیں  گے،جب ان کاکفروطغیان حدسے بڑھ گیااوروہ کسی طرح بھی دعوت حق کوقبول کرنے پرآمادہ نہ ہوئے تو بالآخرایک صبح  اللہ تعالیٰ معجزانہ طریق پرسمندرمیں بنے ہوئے بارہ خشک راستوں  سے بنی اسرائیلیوں  کو بخیروعافیت ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر نکال کرلے گیا،اتنی دیر تک پانی اللہ کے حکم سے نہایت بلندوبالاپہاڑوں  کی شکل میں  کھڑارہاجب تک کہ لاکھوں  بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں  سے گزرنہ گیا ،اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام  کواپنا عصا دوبارہ سمندرپرمارنے سے منع فرمادیاتاکہ فرعون اپنے جوش غضب میں  لشکرسمیت ان راستوں  میں  اتر آئے اور بلندوبالا پہاڑوں  کی طرح کھڑاپانی دونوں  اطراف سے آکر مل جائے، فرعون اوراس کا لشکربھی اپنے غلاموں  کو پکڑنے کے لئے کہ شکاربس قریب ہی تھاآؤ دیکھانہ تاؤ ان کے تعاقب میں  ان سمندری راستوں  میں  داخل ہوگیاحالانکہ فرعون کو اتنی تو سمجھ ضرورہوگی کہ سمندرکااس طرح تقسیم ہوکرپہاڑوں  کی طرح جم جانااوردرمیان میں  کیچڑکی جگہ خشک راستے بن جانااوربنی اسرائیل کوراستہ دے دیناکسی عام انسان کے جادوکی طاقت ہرگزنہیں  ہوسکتی اس میں  یقیناًموسیٰ  علیہ السلام  کے رب کی قدرت کارفرما ہے ، مگراس کی فہم وفراست رب نے معطل فرمادی، اس کی زندگی کی مہلت ختم ہونے کو تھی،موت اس کے سرپرمنڈلانے لگی ،رب کریم اس کوہمیشہ کے لئے عبرت کی داستان بنانے والا تھا ، جب فرعون اور اس کالشکربنی اسرائیل کے تعاقب میں  سمندرکے ان بارہ راستوں  کے درمیان میں  پہنچے جبکہ بنی اسرائیل دوسرے کنارے پرپہنچ چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کوحسب سابق جاری ہو جانے کاحکم صادر فرمادیااس طرح دیکھتے ہی دیکھتے فرعون رعمسیس ثانی کابیٹافرعون منفتاح سمیت سارالشکرپانی میں  ڈوب کراپنے انجام کو پہنچا ، جبکہ دوسرے کنارے پر کھڑے بنی اسرائیل قبطیوں  کے ڈوبنے کاسارا منظر دیکھ رہے تھے ،جیسے فرمایا:

وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰  [33]

ترجمہ:یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا پھر اس میں  سے تمہیں  بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں  تمہاری آنکھوں  کے سامنے فرعونیوں  کو غرقاب کیا۔

۔۔۔اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ۝۱۳  [34]

ترجمہ:انہیں  ہم نے اس طرح ہلاک کردیاکہ کوئی ان کوبچانے والانہ تھا۔

(جدید تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ۱۴۴۷  قبل مسیح کوپیش آیا)اس طرح یہ ظالم لوگ اللہ ،اس کے رسول اورحیات بعدالموت سے انکار،دعوت حق کوروکنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈوں  ،باطل معبودوں  کی پرستش ،اہل ایمان پرظلم وستم اور اپنی بداعمالیوں  کے سبب دوزخیوں  کے امام بن گئے ، اوراسی سبب صبح و شام ان پرآگ پیش کی جاتی ہے ، جیسے فرمایا

اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶  [35]

ترجمہ:دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں اورجب قیامت کی گھڑی آجائے گی توحکم ہوگاکہ آل فرعون کوشدید تر عذاب میں  داخل کرو۔ اورروزمحشروہ اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے کہیں  سے کوئی مددنہ پاسکیں  گے ،دنیامیں  بھی ذلت ورسوائی ان کامقدربنی اورروزآخرت اللہ کی رحمت سے دور ہوں  گے ، جیسے فرمایا

وَاُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ۝۹۹  [36]

ترجمہ:اوران لوگوں  پردنیامیں  بھی لعنت پڑی اورقیامت کے روزبھی پڑے گی ،کیسابراصلہ ہے یہ جوکسی کوملے۔

فرعون کے غرق ہونے کے بعدلوگوں  کواس کی لاش پانی میں  تیرتی ہوئی ملی،جہاں  سے یہ لاش ملی اس مقام کوجبل فرعون کہتے ہیں ،دستورکے مطابق ہرفرعون کو قیمتی جواہرات ، اور ضرورت کی اشیاء کے ہمراہ علیحدہ مقبرہ میں دفن کیاجاتاتھامگراس فرعون کوپانی سے نکال کرعجلت میں  فرعون امنحوتب کے مقبرہ میں  دفن کردیاگیا،اس مغرور ومردودفرعون منفتاح کی لاش پرسے ۱۹۰۷ء میں  سرگرافٹن ایلٹ سمتھ نے اس کی ممی (مومیا)پرسے پٹیاں  کھولی تھیں  تواس کی لاش پر کافی سمندری نمک لگاہوا تھا اور ناک کے سامنے کے حصہ کے علاوہ محفوظ تھی جومصری عجائب خانہ ( قاہرہ )میں  رکھی ہوئی اپنی بے بسی ولاچاری کا اعلان کررہی ہے مگران عبرت ناک نشانیوں  کودیکھ کر بھی آئندہ نسلوں  میں  ایسے لوگ بھی پیداہوں  گے جواللہ کی واضح نشانیوں  سے صرف نظر کریں  گے، اس عارضی قیام گاہ میں  اپنی خواہشوں  کے بندے بن جائیں  گے ، اللہ وحدہ لاشریک اوراس کی صفات کو بھول کرگزشتہ قوموں  کی طرح بے شمارباطل معبودگھڑ لیں  گے اوراللہ کوچھوڑکراپنی پریشانیوں ،مشکلات وغیرہ میں  انہیں  پکاریں  گے ،انہیں  سے امیداوربھروسہ رکھیں  گے، جاہ ومنصب اورمال ودولت کے نشہ میں  آخرت کی جوابدہی کوبھول جائیں  گے ، اللہ کی پاکیزہ تعلیمات کومٹانے پر کمر بستہ ہوں  گے اور شرک وکفر ، فحاشی وبدکاری پھیلانے پر مسرور وشاداں  ہوں  گے، مگرانہیں  گزشتہ اقوام سے یہ سبق ضرورحاصل کرلینا چاہیے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا ہر چیزکوفناہے ،جیسے فرمایا:

كُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ  [37]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہےاور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

جو مظلوموں  کے ساتھ ہے، اگروہ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائیں ،صرف اسی سے امیداور بھروسہ کریں ،اس کے دین کی اشاعت ونفاذکے لئے نکلیں ،اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں  اس پر صبرو صلوة  کے ساتھ اس قادرمطلق سے مدد مانگیں  تووہ ہمیشہ حق کو سربلند اور باطل کوہمیشہ مٹاکرعبرت انگیز بنا دیتا ہے ۔

اس واقعہ میں  اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے والوں  کے لئے ایک نشانی ہے کہ ظلم وجبر،اس کی قوتیں  اورطاقتیں  چاہئے کیسی ہی چھاجائیں مگراللہ تعالیٰ کاکلمہ ہی سربلند اور باطل ہمیشہ ہی سرنگوں  رہتا ہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى۝۰ۭ وَكَلِمَةُ اللہِ ہِىَ الْعُلْیَا۝۰ۭ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰  [38]

ترجمہ: اس نے کافروں  کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِیًا فِی أَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِینَ ‎﴿٤٥﴾(القصص)
اور ان اگلے زمانے والوں  کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی کتاب عنایت فرمائی جو لوگوں  کے لیے دلیل اور ہدایت و رحمت ہو کر آئی تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ،اور طور کے مغرب کی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو تو موجود تھا اور نہ تو دیکھنے والوں  میں  سے تھا لیکن ہم نے بہت سی نسلیں  پیدا کیں  جن پر لمبی مدتیں  گزر گئیں ، اور نہ تو مدین کے رہنے والوں  میں  سے تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیتوں  کی تلاوت کرتا بلکہ ہم ہی رسولوں  کے بھیجنے والے ہیں ۔

پچھلی قوموں  یعنی قوم نوح،قوم عادوثمود،قوم لوط،قوم فرعون وغیرہ کوانبیاء ے سابقین کی تعلیمات سے روگردانی کے نتیجہ میں  صفحہ ہستی سے مٹادیاگیا،جیسے فرمایا

وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهٗ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِ۝۹ۚفَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّهِمْ فَاَخَذَهُمْ اَخْذَةً رَّابِیَةً۝۱۰ [39]

ترجمہ:اوراسی خطائے عظیم کاارتکاب فرعون اوراس سے پہلے کے لوگوں  نے اورتل پٹ ہوجانے والی بستیوں  نے کیا،ان سب نے اپنے رب کے رسول کی بات نہ مانی تواس نے ان کوبڑی سختی کے ساتھ پکڑا۔

اورپھرانسانیت کی ہدایت ور ہنمائی کے لئے موسیٰ   علیہ السلام کوتوراة عطاکی گئی،جس میں  بصیرتیں ،ہدایت ورہنمائی اوررحمت تھی تاکہ لوگ حق کوپہچان کر اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائیں  اوراس کے پیغمبروں  کی اطاعت کریں  جوانہیں  خیرورشداورحقیقی فلاح کی طرف دعوت دیتے ہیں  ،مشرکین مکہ اپنے آباؤ اجددکے مشرکانہ دین کی بقاکے لئے اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوغیرنبی اور معاذاللہ جھوٹاثابت کردیں ،اس سلسلہ میں ان کی مددکے لئے حجازکی بستیوں  میں  اہل کتاب یہود کے علماء اور عیسائیوں  کے راہب موجودتھے ، چنانچہ کھلے چیلنج کے اندازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کے ثبوت میں  تین باتیں  پیش کی گئیں ،فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جب ہم نے حجاز کے مغربی جانب جزیرہ نمائے سیناکے پہاڑ پرموسیٰ  علیہ السلام  کووحی ورسالت سے نوازاتھاتم وہاں  موجود نہ تھے اورنہ ہی یہ منظردیکھنے والوں  سے تھےبلکہ یہ غیب کی وہ باتیں  ہیں  جو ہم وحی کے ذریعے سے آپ کو بتلا رہے ہیں اورنہ ہی اس وقت موجودتھے جب بنی اسرائیل کے سترنمائندوں  کوبچھڑے کی پرستش کے جرم کی معافی مانگنے اور شریعت کی پابندی کا ازسرنو اطاعت کاعہداستوار کرنے کے لئے وہاں  بلایاگیاتھا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا  ۝۱۵۵  [40]

ترجمہ: اور اس نے اپنی قوم کے سترآدمیوں  کومنتخب کیاتاکہ وہ(اس کے ساتھ)ہمارے مقررکیے ہوئے وقت پرحاضرہوں ۔

موسیٰ   علیہ السلام کے بعد تمہارے زمانے تک تقریبا دو ہزار سال کے عرصہ میں  ہم بہت سی امتیں  پیداکرچکے ہیں ،جن میں  وقت کے ساتھ ساتھ لوگ دین کوبھول گئے اورانہوں  نے اللہ کے حکموں  کوپس پشت ڈال دیااوراس کے عہدکوفراموش کردیا،یعنی طول زمان کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت ورسالت کوبالکل ہی بھلابیٹھے ،اس لئے آپ کی نبوت پر انہیں  تعجب ہورہاہے اوراسے ماننے کوتیارنہیں  ہیں ،اورتم اہل مدین کے درمیان بھی موجود نہیں  تھے کہ آپ خودا س واقعہ کی تفصیلات سے آگاہوتے جب موسیٰ   علیہ السلام مصرسے فرار ہوکر وہاں  پہنچے اورجوکچھ وہاں  ان کے ساتھ پیش آیااور پھر دس سال کا ایک لمباعرصہ وہاں  گزارکراپنے وطن مصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تھے، ان تمام واقعات کی ٹھیک ٹھیک تفصیلات ہم بذریعہ وحی آپ تک پہنچاتے ہیں ۔

مَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَیْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِیرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَلَوْلَا أَن تُصِیبَهُم مُّصِیبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ فَیَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِیَ مِثْلَ مَا أُوتِیَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ یَكْفُرُوا بِمَا أُوتِیَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ ‎﴿٤٨﴾(الققصص)
اور نہ تو طور کی طرف تھا جب کہ ہم نے آواز دی بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے اس لیے کہ تو ان لوگوں  کو ہوشیار کر دے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں  پہنچا کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں  ان کے اپنے ہاتھوں  آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں  نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں  کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں  میں  سے ہوجاتے ،پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں  کہ یہ وہ کیوں  نہیں  دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ (علیہ السلام)، اچھا تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں  نے کفر نہیں  کیا تھا، صاف کہا تھا کہ یہ دونوں  جادوگر ہیں  جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں  اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں ۔

اورآپ کوہ طورکی وادی مقدس طویٰ میں  بھی موجودنہیں  تھے جب اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت ایک سرسبزدرخت میں  سے موسیٰ  علیہ السلام کوپکاراتھااورانہیں  منصب نبوت سے نواز کر دو معجزے عطا فرمائے تھےاورانہیں  حکم دیاکہ وہ اس ظالم قوم کے پاس جائیں  انہیں  ہماراپیغام پہنچائیں ،انہیں  ہماری نشانیاں  اورمعجزات دکھائیں  مگرآپ صدیوں  قبل رونما ہونے والے ان تمام واقعات کومن وعن پیش کررہے ہیں جواس بات کی دلیل ہیں  کہ آپ اللہ کے سچے پیغمبرہیں  ،اگرآپ رسول برحق نہ ہوتے توموسیٰ   علیہ السلام  کے اس واقعہ کاعلم بھی آپ کونہ ہوتا،اس کے علاوہ بھی قرآن مجیدنے کفارو مشرکین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کے ثبوت میں  متعددجگہوں  پرچیلنج دیاہےمگرکوئی اس چیلنج کی تردیدنہ کرسکا جیسے فرمایا

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ۝۰ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۝۰۠ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ۝۴۴  [41]

ترجمہ: اے نبی !یہ غیب ہیں  جوہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں  ورنہ تم اس وقت وہاں  موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ مریم کاسرپرست کون ہواپنے قلم پھینک رہے تھے ،اورنہ تم اس وقت حاضرتھے جب ان کے درمیان جھگڑابرپاتھا۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ۝۰ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْكُرُوْنَ۝۱۰۲  [42]

ترجمہ:اے نبی !یہ قصہ غیب کی خبروں  میں  سے ہے جوہم تم پروحی کررہے ہیں  ورنہ تم اس وقت موجودنہ تھے جب یوسف  علیہ السلام  کے بھائیوں  نے آپس میں  اتفاق کرکے سازش کی تھی ۔

 تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَآ اِلَیْكَ۝۰ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۔۔۔۝۰۝۴۹ۧ  [43]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ غیب کی خبریں  ہیں  جوہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کوجانتے تھے اورنہ تمہاری قوم ۔

ایک مقام پر عام طورپروحی کے بارے میں  فرمایا

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ  ۝۹۹ۖ ۚ [44]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں  تم کوسناتے ہیں ۔

یہ تو تمہارے رب کارحم وکرم ہے کہ وہ تمہیں گزشتہ صدیوں  کے تمام عبرت انگیزواقعات کو ٹھیک ٹھیک بہم پہنچا رہا ہے تاکہ تم ان لوگوں  کوجن کے پاس تم سے پہلے طویل زمانے سے کوئی ڈرانے اور خوشخبری دینے والانہیں  آیا رب کی شدید گرفت اور عذاب جہنم سے ڈراؤ اوراس کی رحمت اورجنتوں  کی بشارت دوشایدکہ وہ خیروشرکے فرق پرغوروفکر کریں  اور سیدھے راستے کی طرف آ جائیں ، اور اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے اتمام حجت کے طورپرآپ کومبعوث کیاہے تاکہ کفروشرک اور اپنی بد اعمالیوں  کے سبب کوئی مصیبت ان پر اچانک ٹوٹ پڑے تووہ اس وقت یہ نہ کہہ سکیں  کہ اے ہماے پروردگار!تم نے ہماری طرف کوئی حق وباطل کے فرق کوظاہرکرنے اورصحیح راستہ بتلانے والاکیوں  نہ بھیجا تاکہ ہم دعوت اسلام قبول کرتے اورتیری اوراس رسول کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیار کرتے۔

 اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰی طَاۗىِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۱۵۶ۙاَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَہْدٰی مِنْہُمْ۝۰ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَةٌ۝۰ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَصَدَفَ عَنْہَا۔۔۔۝۱۵۷  [45]

ترجمہ:اب تم یہ نہیں  کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں  کو دی گئی تھی اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے،اور اب تم یہ بہانہ بھی نہیں  کر سکتے کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ راست رو ثابت ہوتے، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے، اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے ۔

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۔۔۔۝۱۶۵  [46]

ترجمہ:یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں  کے پاس اللہ کے مقابلہ میں  کوئی حجّت نہ رہے ۔

یٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُـبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰی فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ۝۰ۡفَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ۝۰ۭ وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۹ۧ  [47]

ترجمہ: اے اہل کتاب !ہمارایہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیاہے اوردین کی واضح تعلیم تمہیں  دے رہاہے جبکہ رسولوں  کی آمدکاسلسلہ ایک مدت سے بندتھاتاکہ تم یہ نہ کہہ سکوکہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والااورڈرانے والانہیں  آیا،سودیکھواب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والاآگیا۔

مگرجب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق(قرآن مجید) آگیاجس میں  کوئی شک وشبہ نہیں ،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۔۔۔۝۲ۙ  [48]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں  کوئی شک نہیں  ہے۔

۔۔۔لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۳۷ ۣ [49]

ترجمہ:اس میں  کوئی شک نہیں  کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔

تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۲ۭ  [50]

ترجمہ:اس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔

توکلام اللہ کی تکذیب اوراس پرلایعنی اعتراضات کرتے ہوئے کہتے ہیں جس طرح موسیٰ   علیہ السلام پراکٹھی کتاب نازل ہوئی تھی ،یہ کتاب اس طرح اکٹھی نازل ہونے کے بجائے ٹکڑوں  میں  کیوں  نازل ہورہی ہےاس لئے یہ من جانب اللہ نہیں  ہے، حالانکہ یہ توقرآن کاکمال ہے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہوکراللہ کے رسول کوثابت قدمی واستقامت اور مومنین کے ایمان میں  اضافہ کرتارہا،جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝۳۲وَلَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۝۳۳ ۭ [51]

ترجمہ:منکرین کہتے ہیں  اس شخص پرساراقرآن ایک ہی وقت میں  کیوں  نہ اتاردیاگیا؟ہاں  ایسااس لئے کیاگیاہے کہ اس کواچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں  اور(اسی غرض کے لئے)ہم نے اس کوایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے اور(اس میں  یہ مصلحت بھی ہے)کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یاعجیب سوال)لے کرآئے اس کاٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں  دے دیااوربہترین طریقے سے بات کھول دی۔

مگریہ ان کی کٹ حجتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لئے موسیٰ   علیہ السلام پرتوراة مقدس نازل فرمائی تھی مگران لوگوں  نے اس کاانکارکردیاتھااوراللہ کے عطا کردہ معجزوں  کودیکھ کرکہنے لگے یہ دونوں  پیغمبر توجادوگرہیں  جوایک دوسرے کے پشت پناہ ہیں  اوربرملاانکارکرتے ہوئے کہاہم کسی رسول کونہیں  مانتے۔

بعض مفسرین لکھتے ہیں  جیسے موسیٰ   علیہ السلام کوجوبڑے بڑے زبردست معجزات عطاکیے گئے تھےاللہ اس رسول کو کیوں  نہیں  عطاکرتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایاجن لوگوں  نے موسیٰ   علیہ السلام کے معجزات دیکھے تھےوہ بھی توایمان نہیں  لائے تھے، جیسے فرمایا

فَكَذَّبُوْہُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُہْلَكِیْنَ۝۴۸ [52]

ترجمہ:پس انہوں  نے دونوں  کو جھٹلایا اور ہلاک ہونے والوں  میں  جا ملے۔

کیا ضروری ہے کہ تم اس قسم کے معجزات دیکھ کرایمان لے آؤ ؟ ان لوگوں  نے توموسیٰ   علیہ السلام  کے معجزات کودیکھ کرصاف طورپرکہاتھاکہ یہ دونوں  بھائی جادوگرہیں  جوہمیں  اپنے آباؤ  اجداد کے طریقہ سے ہٹاکراپنی بڑائی منواناچاہتے ہیں ہم تو ہرگزان پرایمان نہیں  لائیں  گے ، جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَاۗءُ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ۝۷۸ [53]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں  اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں  بڑائی تم دونوں  کی قائم ہو جائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں  ہیں ۔

جیسے کفارمکہ کہاکرتے تھے

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ۝۰۔۔۔ ۝۳۱  [54]

ترجمہ:یہ کافرکہتے ہیں  کہ ہم ہرگزاس قرآن کونہ مانیں  گے اورنہ اس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کوتسلیم کریں  گے۔

‏ قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ فَإِن لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥٠﴾‏ وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٥١﴾(القصص)
کہہ دے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں  سے زیادہ ہدایت والی ہو میں  اسی کی پیروی کروں  گا، پھر اگر یہ تیری نہ مانیں  تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں ، اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں  کو ہدایت نہیں  دیتا،اور ہم برابر پے درپے لوگوں  کے لیے اپنا کلام بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں  ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواگرتمہارے پاس کوئی کتاب اللہ موجودہو جوقرآن اورتورات سے بڑھ کرہدایت کی حامل ہو تواسے پیش کرومیں  اسی کااتباع کروں  گاکیونکہ میں  تو ہدایت کاطالب اورپیروہوں اگرتم اپنی بات میں  سچے ہو،اوراگروہ قرآن مجیداورتورات سے زیادہ ہدایت ورہنمائی کرنے والی کتاب پیش نہ کرسکیں اوریقیناًپیش نہیں  کر سکیں  گے توجان لوکہ انہیں  دلیل وبرہان کی کوئی حاجت نہیں بلکہ یہ تومجرد خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں  نے اپنی خواہشوں  کوہی اپناالٰہ بنارکھاہےاوراس شخص سے بڑھ کرکون گمراہ ہوگاجواللہ کی ہدایت ورہنمائی کوچھوڑکراپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے،اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں  کوہرگزہدایت نہیں  بخشتاجوانبیاء کی تکذیب کریں  ، آیات الٰہی سے اعراض کریں  اورکفروعناداورتعصبات پرجم کرپنے ہاتھوں  ہدایت کے دروازے بندکردیں اورگمراہی کے دروازے اوراس کی راہوں  کواپنے لئے کھول لیں  اورہم رسول کے بعددوسرارسول اورایک کتاب کے بعددوسری کتاب کے ذریعہ سے حق بات ان تک پہنچاتے رہے ہیں  تاکہ وہ تباہ شدہ اقوام کے عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کرکے اللہ اوراس کے رسول اوراس کی کتاب پر ایمان لے آئیں  اورجہنم کے ہولناک عذاب سے بچ جائیں ۔

الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ هُم بِهِ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ وَإِذَا یُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ أُولَٰئِكَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَیْكُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاهِلِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ إِنَّكَ لَا تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَن یَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ‎﴿٥٦﴾‏(القصص)
 جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور جب اس کی آیتیں  ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں  تو وہ کہہ دیتے ہیں  کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ، یہ اپنے کئے ہوئے صبر کے بدلے دوہرا اجر دئیے جائیں  گے ، یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں  اور ہم نے جو انہیں  دے رکھا ہے اس میں  سے دیتے رہتے ہیں ،اور جب بیہودہ بات کان میں  پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں  اور کہہ دیتے ہیں  کہ ہمارے عمل ہمارے لیے اور تمہارے عمل تمہارے لئے، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں  سے (الجھنا) نہیں  چاہتے، آپ جسے چاہیں  ہدایت نہیں  کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے، ہدایت والوں  سے وہی خوب آگاہ ہے۔

ہجرت حبشہ کے بعدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت اوردعوت کی خبریں  وہاں  پھیلیں  تو

عَنْ سَعِیدٍ , قَالَ:نَزَلَتْ فِی أَصْحَابِ النَّجَاشِیِّ الَّذِینَ أَسْلَمُوا وَكَانُوا سَبْعِینَ رَجُلا فَقَرَأَ عَلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ یس فَبَكَوْا وَأَسْلَمُوا

سعیدبن جبیرکہتے ہیں نجاشی شاہ حبشہ کی طرف سے ستر عیسائی بزرگ علماء کاایک وفد تحقیق حال کے لئے مکہ مکرمہ آیا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں سورۂ یٰسین کی چندآیات سنائیں  جسے سن کروہ رونے لگے اورمسلمان ہوگئے۔[55]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:ثُمَّ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِمَكَّةَ، عِشْرُونَ رَجُلًا أَوْ قَرِیبٌ مِنْ ذَلِكَ مِنْ النَّصَارَى، حِینَ بَلَغَهُمْ خَبَرُهُ مِنْ الْحَبَشَةِ  فَوَجَدُوهُ فِی الْمَسْجِدِ،فَجَلَسُوا إلَیْهِ وَكَلَّمُوهُ وَسَأَلُوهُ  وَرِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ فِی أَنْدِیَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ مَسْأَلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا أَرَادُوا، دَعَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَتَلَا عَلَیْهِمْ الْقُرْآنَ،  فَلَمَّا سَمِعُوالْقُرْآنَ فَاضَتْ أَعَیْنُهُمْ مِنْ الدَّمْعِ، ثُمَّ اسْتَجَابُوا للَّه  ، وَآمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ  وَعَرَفُوا مِنْهُ مَا كَانَ یُوصَفُ لَهُمْ فِی كِتَابِهِمْ مِنْ أَمْرِهِ

اورمحمدبن اسحاق کہتے ہیں ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ ہی میں  تشریف رکھتے تھے اوربیس یابیس کے قریب عیسائیوں  کاوفدملک حبش سے آیایہ وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خبرسن کرمحض آپ کودیکھنے کے لیے آیاتھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت مسجدحرام میں  تشریف رکھتے تھے انہوں  نے وہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی،اورقریش کے لوگ بھی تجسس سے کھڑے ان کوبغوردیکھ رہے تھے،وفدکے لوگوں نے آپ سے کچھ سوالات کیےجن کاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  تسلی بخش جواب دے دیااورپھرانہیں  دعوت اسلام پیش کی اورقرآن کریم سے چندآیات ان کے سامنے پڑھیں ، چونکہ یہ لوگ لکھے پڑھے ، سنجیدہ اورروشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں  پراثرکیاتوان کی آنکھوں  سے آنسوجاری ہو گئے ، چنانچہ انہوں  نے قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اورفوراًدائرہ اسلام میں  داخل ہوگئے اورانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوان اوصاف کی بناپرپہچان لیاجوان کی کتابوں  میں  مذکورتھے

فَلَمَّا قَامُوا عَنْهُ اعْتَرَضَهُمْ أَبُو جَهْلِ ابْن هِشَامٍ فِی نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ، فَقَالُوا لَهُمْ: خَیَّبَكُمْ اللَّهُ مِنْ رَكْبٍ! بَعَثَكُمْ مَنْ وَرَاءَكُمْ مِنْ أَهْلِ دِینِكُمْ تَرْتَادُونَ لَهُمْ لِتَأْتُوهُمْ بِخَبَرِ الرَّجُلِ، فَلَمْ تَطْمَئِنَّ مَجَالِسُكُمْ عِنْدَهُ، حَتَّى فَارَقْتُمْ دِینَكُمْ وَصَدَّقْتُمُوهُ بِمَا قَالَ، مَا نَعْلَمُ رَكْبًا أَحْمَقَ مِنْكُمْ. أَوْ كَمَا قَالُوا فَقَالُوا لَهُمْ: سَلَامٌ عَلَیْكُمْ، لَا نُجَاهِلُكُمْ، لَنَا مَا نَحْنُ عَلَیْهِ، وَلَكُمْ مَا أَنْتُمْ عَلَیْهِ، لَمْ نَأْلُ أَنْفُسَنَا خَیْرًا

جب یہ لوگ ایمان کی انمول دولت حاصل کرکے مسجدحرام سے نکل کرجارہے تھے کہ ابوجہل بن ہشام اوراس کے چند ساتھیوں  نے انہیں  راستہ میں  روکااورکہنے لگے اللہ تمہیں  نامرادکرے تم بڑے بے وقوف اوراحمق ہواورکہا تمہارے ہم مذہب لوگوں  نے تمہیں  یہاں  تحقیق حال کے لئے بھیجاتھاتمہاراکام تویہ تھاکہ جوکچھ تم نےدیکھا ،سنااور سمجھا اسے ان لوگوں  تک من وعن پہنچادومگرتم نے تھوڑی دیر میں  ہی اپناآبائی مذہب چھوڑ دیا تم سے زیادہ بے وقوف لوگ ہم نے کبھی نہیں  دیکھے، وفدکے لوگوں  نے بڑے تحمل سے جواب دیابھائیوں  تم پرسلام ہے،ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں  کرسکتےہمیں  اپنے طریقے پرچلنے دواورتم اپنے راستے پرگامزن رہو،ہم جان بوجھ کرہدایت وبھلائی سے محروم نہیں  رہ سکتے۔[56]

چنانچہ کفارمکہ کوعیسائیوں  کے تذکرے سے شرم دلائی کہ کہاں  کہاں  سے لوگ آکراس نعمت عظیم سے مستفیدہورہے ہیں اوررحمت الٰہی کے مستحق بن رہے ہیں  اورتم اپنے گھر میں  اس چشمہ فیض سے محروم رہے جاتے ہو ،چنانچہ فرمایاجن لوگوں  کوتم سے پہلے کتاب یعنی انجیل دی گئی تھی وہ اس قرآن کوکلام اللہ ہی سمجھتے ہیں ،وہ جانتے ہیں  کہ ان دونوں  کتابوں  کے سوتے ایک ہی جگہ سے پھوٹ رہے ہیں اس لئے اس پرایمان لاتے ہیں ،اورجب یہ پاکیزہ کلام انہیں  سنایاجاتاہے تواسے غورسے سنتے ہیں  اوراس کے سامنے سرتسلیم خم کرکے کہتے ہیں  ہم اس پردل وجاں  سے ایمان لائے،یہ ہمارے رب کی طرف سے بر حق نازل ہواہےکیونکہ یہ ان کتابوں  کے موافق ہے جنہیں  انبیاء ورسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں  اوران کتابوں  میں  جوکچھ مذکورہے اس کے عین مطابق ہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙوَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹۞  [57]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ان لوگوں  سے کہہ دوکہ تم اسے مانویانہ مانوجن لوگوں  کواس سے پہلے علم دیاگیاہے انہیں  جب یہ سنایاجاتاہے تووہ منہ کے بل سجدے میں  گرجاتے ہیں  اورپکاراٹھتے ہیں  پاک ہے ہمارارب!اس کاوعدہ توپوراہوناہی تھااوروہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں  اوراسے سن کران کاخشوع اوربڑھ جاتاہے ۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا۝۰ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۸۲وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیْنَ۝۸۳  [58]

ترجمہ:تم اہل ایمان کی عداوت میں  سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں  کے لیے دوستی میں  قریب تر ان لوگوں  کو پاؤ گے جنہوں  نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں  ،یہ اس وجہ سے کہ ان میں  عبادت گزار عالِم اور تارک الدّنیا فقیر پائے جاتے ہیں  اور ان میں  غرور نفس نہیں  ہے،جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں  جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں  آنسوؤں  سے تر ہو جاتی ہیں  وہ بول اٹھتے ہیں  کہ پروردگار ! ہم ایمان لائے ، ہمارا نام گواہی دینے والوں  میں  لکھ لے ۔ اوران کاقول ہے کہ ہم توپہلے سے مسلم ہیں  ،یعنی ہم نے کوئی نیادین اختیارنہیں  کیابلکہ ہم توپہلے بھی انبیاء اورکتب آسمانی کے ماننے والے تھے اورہمارادین اسلام ہی تھااور اب بھی اس کتاب اورنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لاکر ہم مسلمان ہی ہیں ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۔۔۔۝۰۝۱۹  [59]

ترجمہ: درحقیقت اللہ کے نزدیک تودین صرف اسلام ہے۔

نوح   علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاتھا

 ۔۔۔اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللهِ۝۰ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۷۲  [60]

ترجمہ: میرا اجر تواللہ کے ذمہ ہے اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ میں  مسلموں  میں  شامل ہوکر رہوں ۔

مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ۔۔۔ ۝۶۷  [61]

ترجمہ:ابراہیم نہ یہودی تھےنہ نصرانی بلکہ وہ یکسومسلم تھے۔

اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ۝۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۳۱وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبُ۝۰ۭ یٰبَنِىَّ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۳۲ۭاَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ۝۰ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ۝۰ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۝۱۳۳  [62]

ترجمہ: جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم (تابع فرمان)ہوجا تو اس نے کہامیں  مسلم ہوگیارب العالمین کے لئے،اوراسی چیزکی وصیت کی ابراہیم  علیہ السلام  نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے بھی یہی کہ اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو پسندکیاہے لہذا تم کوموت نہ آئے مگراس حال میں  کہ تم مسلم ہو،کیاتم اس وقت موجودتھے جب یعقوب کی وفات کاوقت آیا؟جبکہ اس نے اپنی اولادسے پوچھاکس کی بندگی کروگے تم میرے بعد؟ انہوں  نے جواب دیاہم بندگی کریں  گے آپ کے معبوداورآپ کے باپ داداابراہیم  علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام  اوراسحاق علیہ السلام  کے معبودکی ، اس کواکیلامعبودمان کراورہم اسی کے مسلم ہیں ۔

اورابراہیم  علیہ السلام اوراسماعیل  علیہ السلام نے یہ دعامانگی تھی۔

 رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ۔۔۔۝۱۲۸  [63]

ترجمہ: اے ہمارے رب !ہم کواپنامسلم بنااورہماری نسل سے ایک امت پیداکرجوتیری مسلم ہو۔

لوط  علیہ السلام  کے واقعہ میں  فرمایا

فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۶ۚ  [64]

ترجمہ:ہم نے قوم لوط کی بستی میں  ایک گھرکے سوامسلمانوں  کاکوئی گھرنہ پایا۔

یوسف   علیہ السلام نے رب العزت سے یوں  دعاکی تھی۔

۔۔۔  تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۝۱۰۱  [65]

ترجمہ:مجھ کومسلم ہونے کی حالت میں  موت دے اورصالحین کے ساتھ ملا۔

سلیمان  علیہ السلام  کادین بھی اسلام تھااورجب ملکہ سبا ان پرایمان لائی تواس نے کہا

۔۔۔ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۴ۧ [66]

ترجمہ:میں  سلیمان  علیہ السلام  کے ساتھ رب العالمین کی مسلم ہوگئی۔

موسیٰ   علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاتھا

وَقَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ۝۸۴  [67]

ترجمہ:موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو ! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔

بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کادین اسلام ہی تھا۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا۔۔۔۝۴۴  [68]

ترجمہ:ہم نے تورات نازل کی جس میں  ہدایت اورروشنی تھی اسی کے مطابق وہ نبی جومسلم تھے ان لوگوں  کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے ۔

فرعون بھی جانتاتھا کہ بنی اسرائیل کامذہب اسلام ہے اس لئے سمندرمیں  غرق ہوتے ہوئے اس نے یہی کہا تھا

۔۔۔حَتّٰٓی  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰  [69]

ترجمہ: حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں  نے مان لیا کہ خداوندحقیقی اس کے سوا کوئی نہیں  ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں  بھی سرِ اطاعت جھکا دینے والوں  میں  سے ہوں ۔

اور عیسیٰ  علیہ السلام  کے حواریوں  کادین بھی یہی تھا۔

وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ ٰاٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ۝۰ۚ قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ۝۱۱۱  [70]

ترجمہ:اورجبکہ میں  نے حواریوں  پروحی کی کہ ایمان لاؤ  مجھ پراورمیرے رسول پرتوانہوں  نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حتمی بات بیان فرمائی کہ اب کوئی یہودی ہویانصرانی یامجوسی دین اسلام کے سوااورکوئی دین قبول نہیں  کیا جائے گاجوازل سے اللہ کاپسندیدہ دین ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ۝۰ۚ وَھُوَفِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۸۵  [71]

ترجمہ: اس فرماں  برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں  وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

اوران لوگوں  کوجوپہلے بھی مسلم تھے یعنی جوقومی ونسلی اوروطنی گروہی تعصبات سے بچ کر عیسیٰ   علیہ السلام اوران پرنازل شدہ کتاب انجیل پرایمان رکھتے تھے اوردین حق پرثابت قدم رہے، کوئی شبہ ان کے ایمان کومتزلزل کرسکااورنہ کوئی ریاست وشہوت ان کواپنے ایمان سے ہٹاسکی ،اورپھرجب نبی آخرالزماں  کی بعثت ہوئی تومسیحیت کاراستہ چھوڑکررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اوران پرنازل کتاب پربھی بے تکلف ایمان لائے ،ایسے لوگوں  کواللہ ان کی ثابت قدمی کے صلے میں  دوہرااجروثواب عطا فرمائے گا ،

حَدَّثَنِی أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ثَلاَثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، آمَنَ بِنَبِیِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِیهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتین شخص ہیں  جن کودوہرااجرملے گاان میں  سے ایک وہ ہے جواہل کتاب میں  سے تھااوراپنے نبی پرایمان رکھتاتھا اور پھر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایااورغلام مملوک جواپنے مجازی آقاکی فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہےاوروہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہوجسے وہ ادب وعلم سکھائے پھرآزادکرکے اس سے نکاح کرلے۔[72]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ: إِنِّی لَتَحْتَ رَاحِلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ، فَقَالَ قَوْلًا حَسَنًا جَمِیلًا وَكَانَ فِیمَا قَالَ:مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَیْنِ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَیْنِ، وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْنَا، وَمَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ فَلَهُ أَجْرُهُ وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْنَا

اورابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سواری کے پاس تھاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بہت اچھی اورخوبصورت بات بیان فرمائی،آپ نے منجملہ دیگر باتوں  کے یہ بھی فرمایادونوں  کتابوں  والوں  میں  سے جواسلام قبول کرلے اسے دگنابدلہ ملے گااس کے حقوق وفرائض ہمارے حقوق وفرائض ہی کی طرح ہوں  گے اورمشرکین میں  سے جوشخص اسلام قبول کرے تواسے ایک اجرملے گا اوراس کے حقوق وفرائض ہمارے حقوق وفرائض ہی کی طرح ہوں  گے۔[73]

ایسے لوگ برائی،جھوٹ ،ظلم اور شرارتوں  کاجواب قول وفعل سے نیکی، صداقت ،انصاف اور شرافت سے دیتے ہیں ، اوراللہ نے انہیں  جورزق عطا فرمایاہے اس میں  سے اللہ کی راہ میں  ،اس کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں ، ضرورت مندوں ،بیواؤ ں ، اسیروں  اور مسافروں  پر دل کھول کرخرچ کرتے ہیں ،اور جب انہوں  نے مشرکین سے سب وشتم اوردین کے ساتھ استہزا سنا تورحمان کے عقلمند بندوں  کی مانندشرافت وبردباری سے یہ کہہ کرایک طرف ہو گئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اورتمہارے اعمال تمہارے لئے،یعنی ہرشخص کواسی اکیلے کے عمل کی جزادی جائے گی ،اس پرکسی دوسرے کے عمل کابوجھ نہیں  ڈالا جائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۱۵  [74]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

۔۔۔وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْہَا۝۰ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔۔۔۝۱۶۴  [75]

ترجمہ:ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اٹھاتا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۔۔۔۝۱۸   [76]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنی حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہو۔

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۷  [77]

ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔

تم کوسلام ہے،یعنی تم لوگ ہم سے بھلائی کے سواکچھ نہیں  سنوگے ، ہم کسی معاملے میں  بھی جاہلوں  سے بحث اور گفتگو کرکے نہیں  الجھتے ،شعب بنوہاشم سے نکل کرچنددنوں  بعد ابو طالب بیمار ہوگئےجب ان کاآخری وقت آیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کامل خیرخواہی کے ساتھ اپنی حدتک انتہائی کوشش کی کہ ہمدرداورغم گسارچچاکلمہ الاالٰہ الااللہ پڑھ لے تاکہ اس کاخاتمہ بالخیر ہواور روز قیامت اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کر سکیں  چنانچہ

أَن رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَبِی طَالِبٍ عِنْدَ مَوْتِهِ،  وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیّةَ فَقَالَ:یَا عَمّ قُلْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَك بِهَا عِنْدَ اللهِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ وَابْنُ أَبِی أُمَیّةَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلّةِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ؟ فَقَالَ أَنَا عَلَى مِلّةِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ

ابوطالب کی موت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے گھرمیں داخل ہوئے    لیکن وہاں  دوسرے رؤ سائے قریش کے ساتھ ابوجہل اورعبداللہ بن ابی امیہ بھی موجودتھے  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااےچچاآپ کلمہ الاالٰہ الااللہ کوپڑھ لیں  تاکہ قیامت کے روزمیں  اللہ کی بارگاہ میں  گواہی دوں اورآپ کی شفاعت کرسکوں ، ابوجہل اورعبداللہ بن امیہ کہنے لگے اے ابوطالب! کیاتواپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھرجائے گا؟  ابو طالب کی زبان سے آخرکلمہ یہی نکلاکہ میں  ملت عبدالمطلب پرہی جان دیتاہوں  اس طرح کفرپرہی ان کاخاتمہ ہوگیا۔[78]

سَعِیدُ بْنُ المُسَیِّبِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الوَفَاةُ، جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ المُغِیرَةِ، فَقَالَ: أَیْ عَمِّ قُلْ: لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ  فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ: أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ؟ فَلَمْ یَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُهَا عَلَیْهِ ، وَیُعِیدَانِهِ بِتِلْكَ المَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ یَقُولَ: لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِینَ} [79] وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِی أَبِی طَالِبٍ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّكَ لا تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ} [80]

جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے پاس آئے (اس وقت) ابوطالب کے پاس ابوجہل اورعبداللہ بن امیہ بھی موجود تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سے فرمایا اے میرے چچا !صرف ایک کلمہ الاالٰہ الااللہ کہہ دیجئے تو میں  اللہ کے ہاں  اس کی وجہ سے (آپ کی بخشش کے لئے) عرض و معروض کرنے کا مستحق ہو جاؤں  گا، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابوطالب تم عبدالمطلب کے دین سے پھرے جاتے ہو؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بارباران سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف یہی ایک کلمہ پڑھ لیں )اوریہ دونوں  بھی اپنی بات ان کے سامنے بارباردہراتے رہے(کہ کیاتم عبدالمطلب کے مذہب سے پھرجاؤ گے؟) حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ (میں ) عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں ،تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں  اس کے لئے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں  گا جب تک مجھے روکا نہ جائے  تو یہ آیت نازل ہوئی، ’’ نبی اور ایمان والوں  کے لئے مناسب نہیں  ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں  اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہوں  جب کہ انہیں  یہ ظاہر ہو چکا کہ وہ دوزخی ہیں ۔‘‘اورخاص ابوطالب کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہاگیا ’’ آپ جسے چاہیں  ہدایت نہیں  کر سکتے البتہ اللہ ہدایت دیتاہے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتاہے۔‘‘[81]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا یَوْمَ القِیَامَةِ فَقَالَ: لَوْلاَ أَنْ تُعَیِّرَنِی بِهَا قُرَیْشٌ أَنَّ مَا یَحْمِلُهُ عَلَیْهِ الْجَزَعُ، لأَقْرَرْتُ بِهَا عَیْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّكَ لاَ تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ}.

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے چچا!کلمہ لاالٰہ الااللہ پڑھ لومیں  قیامت کے دن اس کی گواہی دوں  گا،ابوطالب نے کہااگرمجھے قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہوتاکہ میں  نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کلمہ پڑھ لیاتومیں  اسے کہہ کرتیری آنکھوں  کوٹھنڈی کردیتاتواللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی  ’’آپ جسے چاہیں  ہدایت نہیں  کر سکتے البتہ اللہ ہدایت دیتاہے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے۔ ‘‘[82]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کواس بات کابڑاقلق اور صدمہ تھا،اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی !آپ کاکام صرف تبلیغ ودعوت اوررہنمائی ہے ،تمہاری شدید خواہش ہے کہ تمہارے عزیزواقارب اور تمہاری قوم کے لوگ دین اسلام قبول کر لیں  مگر آپ کے چاہنے سے کچھ نہیں  ہوتاخواہ کوئی آپ کوکتناہی محبوب کیوں  نہ ہو، کسی کو ہدایت دینایانہ دینا اللہ کے اختیارمیں  ہے ، جیسے فرمایا

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۲۷۲  [83]

ترجمہ:اے نبی ! لوگوں  کو ہدایت بخش دینے کی ذمّے داری تم پر نہیں  ہے، ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳  [84]

ترجمہ:مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں  سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں  ہیں ۔

اوریہ انمول نعمت وہ اپنی حکمت کے ساتھ انہی لوگوں  کوعطا فرماتاہے جوحق قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں  اگرآپ کے عزیزواقارب اورقوم وقبیلہ کے لوگ حق قبول کرنے کی تمنا نہیں  رکھتے تو انہیں  یہ نعمت کیسے عطاکی جاسکتی ہے۔

وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ۚ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا یُجْبَىٰ إِلَیْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْیَةٍ بَطِرَتْ مَعِیشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِیلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ یَبْعَثَ فِی أُمِّهَا رَسُولًا یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ ‎﴿٥٩﴾‏(القصص)
کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے تابع داربن جائیں  تو ہم تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں ، کیا ہم نے انہیں  امن وامان اور حرمت والے حرم میں  جگہ نہیں  دی ؟ جہاں  تمام چیزوں  کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں  جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں ، لیکن ان میں  سے اکثر کچھ نہیں  جانتے، اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں  تباہ کردیں  جو اپنی عیش و عشرت میں  اترانے لگی تھیں ، یہ ہیں  ان کی رہائش کی جگہیں  جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد کی گئیں  اور ہم ہی ہیں  آخر سب کچھ کے وارث ، تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں  کرتا جب تک کہ ان کی بڑی بستی میں  اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انہیں  ہماری آیتیں  پڑھ کر سنا دے اور ہم بستیوں  کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں  جب کہ وہاں  والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں ۔

قریش مکہ کاخیال تھاکہ اگرہم ایک دم اپنے آبائی دین کوترک کرکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے دین کواختیارکرلیں  گے توبیت اللہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے تمام عرب میں  ہماری شہرت ،دولت ،اثرورسوخ اور عقیدت کی جودھاک بیٹھی ہوئی ہے وہ یک لخت ختم ہوجائے گی،اورہم اس سرزمین میں  بے یارومددگارہوکررہ جائیں  گے ،ہمیں  لوگوں  سے دشمنی کاسامناکرناپڑے گااورمال وتعدادمیں  زیادہ مضبوط مخالفین سے جنگ وپیکار سے دوچارہوناپڑے گا(مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامربن نوفل تھا)یعنی اہل مکہ کو کامل یقین تھاکہ اللہ اپنے دین کوفتح ونصرت سے نوازے گانہ اپنے کلمہ کوبلندکرے گابلکہ باطل ہی سربلندرہے گا،اس لئے دعوت اسلام قبول کرلینے سے انہیں  دینی سے زیادہ اپنادنیاوی مفاداورحیثیت خطرے میں  نظرآرہی تھی،ان کے اس خیال کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تمہارایہ عذرغیرمعقول ہے ،کیاتم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے عرب میں  چارسوپھیلی بدامنی کی اس سرزمین کوامن کی جگہ بنایاہے ، قریب وبعیدکے لوگ بیت اللہ کا احترام کرتے ہیں اس لئے اہل حرم کونقصان نہیں  پہنچایاجاتا،جب یہ شہرتمہارے کفروشرک کی حالت میں  کامل امن کی جگہ ہے تویہ کیسے ہوسکتاہے کہ جب اللہ کے سچے دین کوقبول کروگے توامن اٹھ جائے گا،یہ تواللہ کی رحمت ہی ہے کہ اس میں  پیداوارنہ ہونے کے باوجودہرطرف سے انواع واقسام کے ثمرات نہایت فراوانی سے کھنچے چلے آتے ہیں تاکہ تم اللہ کارزق کھاؤ  اور اس کاشکراداکرو مگرتم میں  سے اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں  ، کیا تم لوگ اپنے چاروں  طرف پھیلے عادوثمود،سبا،مدین اورقوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں  کے کھنڈرات نہیں دیکھتے ،وہ لوگ بھی تمہاری طرح اپنی خوشحالی اورعیش وعشرت پرپھول گئے تھے،انہوں  نے بھی باطل معبودوں  پرتکیہ کرتے ہوئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرنے سے انکارکردیاتھا ، تمہاری طرح انہوں  نے بھی رسولوں  کی تعلیمات سے استہزاکیاتھا، دعوت حق کوروکنے کے لئے مسلمانوں  پرظلم وستم کابازارگرم کیاتھا ،آخر ایک وقت مقررہ پراللہ نے ان سے نعمتیں  چھین لیں  اور پھراللہ کاعذاب ان پرنازل ہوا پھر دیکھ لوسرکشی کرنے والوں  کاانجام کیا ہوا ،جیسے فرمایا:

وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ  وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۱۳  [85]

ترجمہ:اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں  کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں  کو ان کے کرتوتوں  کا یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں  ان پر چھا گئیں ،ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں  سے ایک رسول آیا مگر انہوں  نے اس کو جھٹلا دیا آخرکار عذاب نے ان کو آلیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے ۔

کیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ ان کے وہ مضبوط گھرجن پران کوبڑا فخرو غرورتھاویران پڑے ہوئے ہیں  جن پروحشت برس رہی ہے اور نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں  مستقل رہنا پسندنہیں  کرتااورآخراللہ ہی وارث ہوکررہا، یعنی ہم بندوں  کے وارث ہیں  ،ہم انہیں  موت دیں  گے اورتمام نعمتیں  ہماری طرف لوٹ آئیں  گی جوہم نے ان کوعطاکی تھیں  ، تم لوگ بھی انہی تباہ شدہ بستیوں  والوں کے نقش قدم پرچل رہے ہوکیا تمہارے پاس کوئی ایسی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں  اور بدکاریوں  نے ان خوشحال قوموں  کواللہ کے عذاب کا مستحق بنادیاانہی کے طریقے پرچل کرتم بچ جاؤ گے،اللہ تعالیٰ کسی بستی کوتباہ وبربادنہیں  کرتاجب تک کہ اس میں  کوئی رسول بھیج کرمتنبہ نہیں  کر دیتا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵  [86]

ترجمہ:اور ہم عذاب دینے والے نہیں  ہیں  جب تک کہ(لوگوں  کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے )ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ۔

مگر جب وہ رسولوں  کی تنبیہ پربھی اپنی کج روی سے بازنہیں  آئے تواللہ نے انہیں  صفحہ ہستی سے مٹادیا ،اوراللہ کسی بستی کوہلاک کرنے والانہیں  ہے جب تک کہ اس کے رہنے والے کفراور معاصی کاارتکاب کرکے ظالم نہ ہوجائیں ۔

وَمَا أُوتِیتُم مِّن شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَزِینَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَیْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٠﴾‏ أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِینَ ‎﴿٦١﴾‏ وَیَوْمَ یُنَادِیهِمْ فَیَقُولُ أَیْنَ شُرَكَائِیَ الَّذِینَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ قَالَ الَّذِینَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَغْوَیْنَا أَغْوَیْنَاهُمْ كَمَا غَوَیْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَیْكَ ۖ مَا كَانُوا إِیَّانَا یَعْبُدُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ وَقِیلَ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا یَهْتَدُونَ ‎﴿٦٤﴾‏(القصص)
ؤاور تمہیں  جو کچھ دیا گیا ہے صرف زندگی دنیا کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں  اللہ کے پاس جو ہے وہ بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے کیا تم نہیں  سمجھتے، کیا وہ شخص جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا ہے جسےوہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانی دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا،  اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں  پکار کر فرمائے گا کہ تم جنہیں  اپنے گمان میں  میرا شریک ٹھہرا رہے تھے کہاں  ہیں  ، جن پر بات آچکی وہ جواب دیں  گے کہ اے ہمارے پروردگار ! یہی وہ ہیں  جنہیں  ہم نے بہکا رکھا تھا، ہم نے انہیں  اس طرح بہکایا جس طرح ہم بہکے تھے ،ہم تیری سرکار میں  اپنی دست برادری کرتے ہیں  یہ ہماری عبادت نہیں  کرتے تھے ، کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں  کو بلاؤ، وہ بلائیں  گے لیکن انہیں  وہ جواب تک نہ دیں  گے اور سب عذاب دیکھ لیں  گے ، کاش! یہ لوگ ہدایت پالیتے۔

اے لوگو!یہ دنیااوراس کی رونقیں  ودلفریبیاں  جن پرتم ریجھ گئے ہو سب حقیرو عارضی اورختم ہونے والی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس جونعمتیں تیارکر رکھی ہیں  وہ لازوال اوردائمی ہیں  کیاتم غوروفکرنہیں  کرتے ،جیسے فرمایا

مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ۔۔۔۝۰۝۹۶ [87]

ترجمہ:جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والاہے اورجوکچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والاہے ۔

۔۔۔وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝۱۹۸   [88]

ترجمہ: اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں  کے لیے وہی سب سے بہتر ہے۔

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ ۭ [89]

ترجمہ:مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔

قَالَ:سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا، أَخَا بَنِی فِهْرٍ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللَّهِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ فِی الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ

مستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کی قسم!دنیا،آخرت کے مقابلے میں  ایسی ہے جیسے تم میں  کوئی شخص اپنی انگلی سمندرمیں  ڈبوکر نکال لے،دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں  انگلی میں  کتناپانی ہوگا؟۔[90]

بھلاوہ مومن جوآخرت کے لئے کوشاں  ہے اور وعدہ الٰہی کے مطابق روز قیامت لازوال نعمتوں  سے بہروہ ہونے والاہے اوروہ شخص جسے ہم نے صرف حیات دنیاکا کچھ سروسامان دے دیاہواوروہ آخرت سے غافل ہوکراپنی دنیامیں  مشغول ہو ،اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروہ کی ہو اور نہ انبیاء ومرسلین کی اطاعت کی ہوپھروہ روزقیامت اپنی نافرمانی اور بداعمالیوں  کے سبب سزاکے لئے پیش کیاجانے والاہوکیایہ دونوں  برابرہوسکتے ہیں ؟،جیسے فرمایا

 اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا۝۰ۭؔ لَا یَسْـتَوٗنَ۝۱۸ ۬ [91]

ترجمہ:بھلا کہیں  یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں  برابر نہیں  ہو سکتے ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙوَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙوَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚوَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۔۔۔۝۲۲  [92]

ترجمہ:اندھا اور آنکھوں  والا برابر نہیں  ہے،نہ تاریکیاں  اور روشنی یکساں  ہیں ،نہ ٹھنڈی چھاؤں  اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے،اور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں ۔

یہ لوگ حساب و کتاب کے اس دن کوبھول نہ جائیں جب اللہ تعالیٰ انہیں  میدان محشرمیں  جمع کرے گا اور ساری خلقت کے سامنے طنزکے طورپر سوال کرے گاکہاں  ہیں  وہ اصنام،جن یااشخاص جنہیں  زعم باطل تم دنیامیں  میں  میری الوہیت میں  شریک گردانتے تھے، مشکلات اور پریشانیوں  میں  انہیں  مددکے لئے پکارتے تھے ،ان کے نام کی نذرونیاز دیتے تھے ،چڑھاوے چڑھاتے ، قربانیاں  وچراغاں  کرتے اوردھوم دھام سےعرس مناتے تھے ،ان سے امیدیں  ، توقعات اوربھروسہ رکھتے تھے ، وہ رو ز محشر تمہاری کچھ بھی مدد کر سکنے کے اہل ہیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝۰ۚ وَمَا نَرٰی مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۝۰ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۹۴ۧ [93]

ترجمہ:(اور اللہ فرمائے گا) لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہو گئے جیسا ہم نے تمہیں  پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا، جو کچھ ہم نے تمہیں  د نیا میں  دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں  کو بھی نہیں  دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں  ان کا بھی کچھ حصّہ ہے، تمہارے آپس کے سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے۔

اس سے پہلے کہ شریک ٹھیرانے والے جواب دیں  داعیان کفرو ضلال اور شیاطین جن وانس سبقت کرتے ہوئے اپنی صفائی میں  کہیں  گے اے ہمارے پروردگار!ہم خودتو سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے تھے ہی مگران لوگوں  پرہماراکوئی زوروجبر نہیں  تھابس ہمارے ادنیٰ سے اشارے پرہماری طرح انہوں  نے بھی گمراہی اختیارکرلی ،ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں  کرتے اورنہ ہماراان سے کوئی تعلق ہے، اور معبودین جن کی لوگ دنیامیں  عبادت کرتے تھے اس بات سے ہی انکار کر دیں  گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے ،چنانچہ کہیں  گے یہ ہماری بندگی نہیں  کرتے تھے بلکہ یہ لوگ درحقیقت اپنی خواہشات نفس یاشیاطین کی عبادت کرتے تھے ، جیسے فرمایا

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶ ۝۱۶۷ۧ   [94]

ترجمہ:اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوااوررہنماجن کی دنیامیں  پیروی کی گئی تھی اپنے پیرووں  سے بے تعلقی ظاہرکریں  گے مگرسزاپا کر رہیں  گے اوران کے سارے اسباب ووسائل کاسلسلہ کٹ جائے گا ۔

 وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ  [95]

ترجمہ:ان لوگوں  نے اللہ کوچھوڑکراپنے کچھ الٰہ بنارکھے ہیں  کہ وہ ان کے پشتیبان ہوں  گے ،کوئی پشتیبان نہ ہوگاوہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں  گے اورالٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے ۔

 وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶  [96]

ترجمہ:آخراس شخص سے زیادہ بہکا ہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارتے ہیں  جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کوپکاررہے ہیں  اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکر ہوں  گے ۔

ابراہیم  علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاتھا

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۵ۤۙ  [97]

ترجمہ:تم نے دنیاکی زندگی میں  تواللہ کو چھوڑ کربتوں  کواپنے درمیان محبت کاذریعہ بنالیاہے مگرقیامت کے روزتم ایک دوسرے کاانکاراورایک دوسرے پرلعنت کروگے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اورکوئی تمہارامددگارنہ ہو گا۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گاجس طرح دنیامیں  تم اپنے شریکوں  کو اپنی مدد کے لئے پکارتے تھے اب اپنی مددکے لئے انہیں  کو پکارو تاکہ وہ تمہاری بخشش کی سفارش کرسکیں  یاتمہیں  عذاب جہنم سے بچاسکیں یا عذاب میں  کچھ تخفیف ہی کراسکیں  یاخوداپنی کوئی مددکرسکیں ،یہ بدبخت میدان محشرکاحال دیکھ کربھی انہیں  پکاریں  گے لیکن وہاں  کس کی جرات ہوگی کہ یہ کہے کہ ہاں  ہم تمہاری مددکے لئے آ رہے ہیں ، جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ مَّوْبِقًا۝۵۲وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۝۵۳ۧ      [98]

ترجمہ: پھر کیاکریں  گے یہ لوگ اس روزجب کہ ان کارب ان سے کہے گاکہ پکارواب ان ہستیوں  کوجنہیں  تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے ،یہ ان کوپکاریں  گے مگروہ ان کی مددکونہ آئیں  گے اورہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کاگڑھامشترک کر دیں  گے ،سارے مجرم اس روزآگ دیکھیں  گے اورسمجھ لیں  گے کہ اب انہیں  اس میں  گرناہے اوروہ اس سے بچنے کے لئے کوئی جائے پناہ نہ پائیں  گے۔

آخرہرطرف سے مایوس ہوکرانہیں  یقین ہوجائے گاکہ وہ جھوٹے اورسزاکے مستحق ہیں اس لئے ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں توآرزو کریں  گے کہ کاش دنیامیں  ہدایت کاراستہ اختیار کر لیتے توآج اس عذاب سے بچ جاتےاورکہیں  گے کاش! ہمیں  ایک موقع اوردیاجاتا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا ۔۔۔ ۝۱۶۷ۧ     [99]

ترجمہ:اوروہ لوگ جودنیامیں  ان کی پیروی کرتے تھے کہیں  گے کہ کاش! ہم کوپھرایک موقع دیاجاتاتوجس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہرکررہے ہیں  ہم ان سے بیزار ہو کر دکھادیتے ۔

وَیَوْمَ یُنَادِیهِمْ فَیَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٦٥﴾‏ فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْأَنبَاءُ یَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ فَأَمَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَن یَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِینَ ‎﴿٦٧﴾(القصص)
اس دن انہیں  بلا کر پوچھے گا کہ تم نے نبیوں  کو کیا جواب دیا ؟پھرتو اس دن ان کی تمام دلیلیں  گم ہوجائیں  گی اور ایک دوسرے سے سوال تک نہ کریں  گے، ہاں  جو شخص توبہ کرلے ایمان لے آئے اور نیک کام کرے یقین ہے کہ وہ نجات پانے والوں  میں  سے ہوجائے گا۔

توحیدکی بازپرس کے بعدرسالت کے متعلق سوال ہوگااورلوگ اس دن کوہرگزنہ بھولیں  جب اللہ تعالیٰ خلقت کوجمع کرکے پوچھے گامیں  نے جوانبیاء ورسل تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث کیے تھے کیاتم نے ان کی تصدیق کی اوران کی دعوت پرلبیک کہاتھا؟کیاان کی اطاعت کادم بھراتھا؟کیاان کے ساتھ کھڑے ہوکرہمارے نازل کردہ دین کوخودپراورمعاشرے پرنافذکرنے کی کوئی کوشش کی تھی یاان کی تکذیب اورمخالفت کی تھی، اس وقت وہ لاجواب ہوجائیں  گے ،شرم سے ان کے سرجھک جائیں  گے اور ایک دوسرے سے بھی نہیں  پوچھ سکیں  گےالبتہ جوشخص ابھی کفروضلالت اوراپنی بداعمالیوں  پرتوبہ واستغفارکرلے اور اللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آئے اوران کی ہدایت کے مطابق عمل صالحہ اختیارکرلے تووہ اللہ کوغفورورحیم پائے گا،اللہ اس کے گناہوں  کوچاہے وہ کتنے ہی کیوں  نہ ہوں مٹادے گا،جیسے فرمایا

 ۔۔۔كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۝۰ۙ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ابِجَــہَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ۝۰ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵۴      [100]

ترجمہ:تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے، یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں  سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے ۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳  [101]

ترجمہ:(اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، وہ تو غفور رحیم ہے ۔

اورامیدکی جاسکتی ہے کہ اللہ اسے انمول اور لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل فرمادے گا جہاں  ہمہ وقت خدمت کرنے کوموتیوں  کی طرح چمکتے ہوئے نوجوان خدام ہوں  گے،جیسے فرمایا

وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ كَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴  [102]

ترجمہ:اور ان کی خدمت میں  وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں  گے جو انہی کے لیے مخصوص ہوں  گے ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

جوانہیں  طرح طرح کے میوہ جات ، انواع و اقسام کے ذائقوں  والے پھل ،صحیح اندازے سے بھرے ہوئے مختلف شرابوں  کے جام اوربھنے ہوئے پرندوں  کاگوشت پیش کریں  گے ،جیسے فرمایا

عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ۝۱۵ۙمُّتَّكِـــِٕیْنَ عَلَیْہَا مُتَقٰبِلِیْنَ۝۱۶یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙبِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۝۱۸ۙلَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙوَفَاكِہَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ   [103]

ترجمہ:مرصع تختوں  پرتکیے لگا آمنے سامنے بیٹھیں  گے،ان کی مجلسوں  میں  ابدی لڑکےشراب چشمہ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہوں  گے،جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان میں  فتور آئے گا اور وہ ان کے سامنے طرح طرح لذیذ پھل پیش کریں  گے کہ جسے چاہیں  چن لیں  ،اور پرندوں  کے گوشت پیش کریں  گے کہ جس پرندے کا چاہیں  استعمال کریں  ۔

وَاَمْدَدْنٰہُمْ بِفَاكِہَةٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۝۲۲  [104]

ترجمہ:ہم ان کے ہر طرح کے پھل اور گوشت جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا خوب دیے چلے جائیں  گے۔

حسن وجمال میں  یکتا حوریں  ہوں  گی ، جیسے فرمایا

وَحُوْرٌ عِیْنٌ۝۲۲ۙكَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ  [105]

ترجمہ:اور ان کے لیئے خوبصورت آنکھوں  والی حوریں  ہوں  گی ،ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

جنہیں  کسی جن یاانس نے دیکھاہے نہ ہی چھواہے ،جیسے فرمایا

فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚفَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۷ۚكَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ  [106]

ترجمہ:ان نعمتوں  کے درمیان شرمیلی نگاہوں  والیاں  ہوں  گی جنہیں  ان جنتیوں  سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوا نہ ہوگاا پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔

وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ۝۴۸ۙكَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ۝۴۹  [107]

ترجمہ:اور ان کے پاس نگاہیں  بچانے والی ، خوبصورت آنکھوں  والی عورتیں  ہوں  گی،ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی ۔

جواپنے شوہروں  سے محبت کرنے والی ہوں  گی،اورسب سے بڑی نعمت رب کی رضاوخوشنودی ہوگی ۔

وَرَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ وَرَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا یُعْلِنُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٧٠﴾‏(القصص)
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ،ان میں  سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ ہی کے لیے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں ،ان کے سینے جو کچھ چھپاتے ہیں  اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں  آپ کا رب سب کچھ جانتا ہے،وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، دنیا اور آخرت میں  اسی کی تعریف ہے،  اسی کے لیے فرماں  روائی ہےاور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے۔

اے لوگو!ساتوں زمینیں  وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایاہے ،جیسے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۵۹    [108]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی (کائنات کے تخت سلطنت)عرش پر جلوہ فرما ہوا۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۴    [109]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا ۔

سب خیروشراسی کے ہاتھ میں  ہے ،اسی نے طرح طرح کی مخلوقات چاہے وہ خشکی پرہے یاسمندرمیں  یاآسمان پر پیداکی ہیں  اوراسی نے اپنے علم سے تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے تقدیریں  لکھ دیں  ہیں ،ان تمام کاموں  میں اس کا کوئی شریک یامددگار یابیوی یااولادنہیں  ہے وہ اکیلا اپنی حکمت ومشیت سے جوچاہتاہے پیدافرماتاہے اورجسے چاہتا ہے مٹادیتاہے ، وہ مختارکل ہے کوئی اس سے جواب طلبی کرنے والانہیں  ، وہ اپنے کاموں  کے لئے انسانوں ، فرشتوں ،جنوں  اوردوسرے بندوں   میں سے جسے چاہتا ہے اوصاف ،صلاحیتیں  اور طاقتیں  عطافرماکر منتخب فرما لیتاہے اور جو کام اس سے لیناہوتاہے لے لیتا ہے ، اس کے مقابلے میں  کسی کوسرے سے کوئی اختیار نہیں  ہے کہ اللہ کے بندوں  کو الٰہی صفات کا حامل گردان کر مشکل کشا،حاجت روا ، روزی رساں  ، اولادیں  دینے والا،دکھ ، بیماری اور صحت دینے والا،قسمتوں  کابنانے اور بگاڑنے والابنادیں  ، اللہ تعالیٰ ان کے اس شرک سے پاک اوربالاتر ہے ،تیرارب خوب جانتا ہے جو یہ لوگ اپنے دلوں  میں  چھپائے ہوئے ہیں  اورجوکچھ ظاہرکرتے ہیں ،جیسے فرمایا:

سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ۝۱۰  [110]

ترجمہ:تم میں  سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں  چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں  چل رہا ہو اس کے لیے سب یکساں  ہیں  ۔

وہی ایک اللہ وحدہ لاشریک ہے جس کے سواکوئی عبادت کامستحق نہیں  ، دنیااورآخرت میں  ہر طرح کی حمدوثنااسی کے لئے ہے ، اوردنیاکی ہرمخلوق اپنے اپنے طریقے سے اس کی حمدوثنابیان کررہی ہے ،ساری کائنات میں  اسی کی فرمانروائی ہے، جیسے فرمایا

یُسَبِّــحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ۝۰ۡوَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱  [111]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۴۴  [112]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  بیان کر رہی ہیں  جو آسمان و زمین میں  ہیں  ، کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۝۴۱  [113]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں  وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں  اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔

۔۔۔یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۲۴ۧ    [114]

ترجمہ: ہر چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے۔

یُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِـیْمِ۝۱    [115]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے،بادشاہ ہے نہایت مقدس،زبردست اورحکیم۔

تمام اختیارات اورقوتیں  اسی کے قبضہ قدرت میں  ہیں  ، اور ایک وقت مقررہ پرتم اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اس کی طرف پیش ہونے والے ہوتب وہ تم میں  سے ہرایک کواس کے اچھے اوربرے عمل کی جزادے گا۔

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَیْكُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَیْرُ اللَّهِ یَأْتِیكُم بِضِیَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ ‎﴿٧١﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَیْرُ اللَّهِ یَأْتِیكُم بِلَیْلٍ تَسْكُنُونَ فِیهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٧٣﴾(القصص)
کہہ دیجئے کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے؟ کیا تم سنتے نہیں  ہو؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتادو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ جس میں  تم آرام حاصل کرو،  کیا تم دیکھ نہیں  رہے ہو؟ اسی نے تو تمہارے لیے اپنے فضل و کرم سے دن رات مقرر کردیئے ہیں  کہ تم رات میں  آرام کرو اور دن میں  اس کی بھیجی ہوئی روزی تلاش کرو، یہ اس لیے کہ تم شکر ادا کرو ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمارنعمتوں  میں  سے صرف دوبڑی نعمتوں  کاذکرفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان عقل سے پیدل لوگوں سے کہوتم لوگوں  نے اپنے بے شمارمعبودوں  کوطرح طرح کے الٰہی اختیارات سونپ رکھے ہیں ،کوئی روزی دینے والا ،کوئی بارش برسانے والا ،کوئی اولادیں  دینے والا ،کوئی مشکل کشائی اورحاجت روائی کرنے والا ، کوئی تندرستی اورصحت بخشنے والاہے ،مگرکبھی تم لوگوں  نے اس چیزپربھی غوروفکرکیاہے کہ اگراللہ تعالیٰ جس نے یہ عظیم کائنات تخلیق کی ہے اور ایک مقررہ وقت کے لئے اس کاایک مکمل نظام بنایا ہے،جس میں  رات اوردن کانظام بھی ہے۔

 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡكُلٌّ یَّجْرِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔ ۝۲۹  [116]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ رات کو دن میں  پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ، اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے ، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ۝۰ۚ یُكَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُكَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۵    [117]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۳   [118]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں  کو ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں  برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

اگراللہ تمہارے کفروشرک اوربداعمالیوں  کی بدولت رات اوردن کایہ نظام ختم فرمادے اور ہمیشہ کے لئے تم پررات طاری کر دے توکیااللہ کے سواتمہاراکوئی ایسا معبودہے جو تمہیں  سورج کی روشنی عطاکرسکے جس کی روشنی وحدت میں  تمہاری زندگی،زرعی اورمعاشی نظام چلتاہے،کیاتم کسی دلیل کوسمجھتے نہیں  ہو؟اوران سے پوچھواوراگراسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لئے تم پردن قائم کردے تو اللہ وحدہ لاشریک کے سواتمہارے کس معبودمیں  یہ قدرت ہے کہ تمہیں  رات لاکردے جس میں  تم سکون وراحت حاصل کرسکو؟، جیسے فرمایا

وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝۶۲    [119]

ترجمہ:وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے۔

ایک مقام پر رزق کے بارے میں  چیلنج فرمایا

اَمَّنْ هٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ۔۔۔۝۰۝۲۱  [120]

ترجمہ: بتاؤ ! کون ہے جوتمہیں رزق دے سکتاہے اگررحمان اپنارزق روک لے۔

پانی کے بارے میں  چیلنج فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِیْنٍ۝۳۰ۧ  [121]

ترجمہ:کبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگرتمہارے کنوؤ ں  کاپانی زمین میں  اترجائے توکون ہے جواس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں  تمہیں  لاکردے گا۔

 اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰  [122]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں  کھول کر دیکھایہ پانی جو تم پیتے ہو،اسے تم نے بادل بر سایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں  ؟ہم چاہیں  تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں  پھر کیوں  تم شکر گزار نہیں  ہوتے ؟۔

یقینا ًاللہ کے سواکوئی کچھ نہیں  کرسکتا،توکیاتم اللہ کی نشانیوں  کودیکھتے نہیں ،سوچتے نہیں کہ جب ان باطل معبودوں  کو کوئی طاقت ،قوت اوراختیارات حاصل نہیں  توان کی پرستش کیوں  کی جائے،یہ تواسی کافضل وکرم اوررحمت ہے کہ تمہارے کفروشرک اورنافرمانیوں کے باوجوددن اور رات کایہ نظام قائم کیاہواہےتاکہ تم رات کی تاریکی، خاموشی اور ٹھنڈک میں  سارے دن کی تگ ودوکے بعدسکون حاصل کرواوررات کے سکون کے بعددن کی روشنی میں  زمین پرپھیل جاؤ اور کسب ومحنت کے ذریعے اللہ کافضل یعنی روزی تلاش کرسکو،اس لئے اس کے اس احسان پر زبان سے اس کی حمدوثناکے ساتھ ساتھ عملی طورپربھی اللہ کے عطاکردہ مال ودولت،صلاحیتوں  اورتوانائیوں  کواس کے احکام وہدایات کے مطابق استعمال کرو ۔

وَیَوْمَ یُنَادِیهِمْ فَیَقُولُ أَیْنَ شُرَكَائِیَ الَّذِینَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِیدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٧٥﴾‏(القصص)
اور جس دن انہیں  پکار کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جنہیں  تم میرے شریک خیال کرتے تھے وہ کہاں  ہیں  ؟  اور ہم ہر امت میں  سے ایک گواہ الگ کرلیں  گے  کہ اپنی دلیلیں  پیش کرو، پس اس وقت جان لیں  گے کہ حق اللہ تعالیٰ کی  طرف سے ہے، اور جو کچھ افترا وہ جوڑتے تھے سب ان کے پاس سے کھو جائے گا۔

اورجب اللہ تعالیٰ میدان محشرمیں  مشرکین کوپکارکرپوچھے گاکہاں  ہیں  میرے وہ شریک جن کاتم گمان رکھتے تھے؟ جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا یَتَّبِـــعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۶۶ [123]

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خود ساختہ) شریکوں  کو پکار رہے ہیں  وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں  اور محض قیاس آرائیاں  کرتے ہیں ۔

اوراللہ ہرامت کے پیغمبرکواس امت سے یااس امت کے کسی ہدایت یافتہ شخص کو جس نے اس امت میں  دعوت حق کا فریضہ انجام دیا الگ کھڑاکردے گااورمشرکین سے پوچھے گاکہ دنیامیں  میرے پیغمبروں  کی دعوت توحیداورہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کتابوں کے باوجودتم جومیرے شریک ٹھیراتے تھے اوراللہ کے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے اس کی دلیل پیش کروجس کی بناپرتمہیں  معاف کیاجاسکے مگر انہیں  کوئی دلیل نہ سوجے گی اوروہ دم بخود وساکت کھڑے رہیں  گے اس وقت یہ یقین کرلیں  گے کہ فی الواقع عبادتوں  کے لائق اللہ کے سوااورکوئی نہیں  ہے اور وہ سارے جھوٹ فریب ان کے کسی کام نہیں  آئیں  گے

إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَیْهِمْ ۖ وَآتَیْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ ‎﴿٧٦﴾‏ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِیبَكَ مِنَ الدُّنْیَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَیْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٧٧﴾‏ قَالَ إِنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِی ۚ أَوَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا یُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٧٨﴾(القصص)
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے لیکن ان پر ظلم کرنے لگا، ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں  اٹھا سکتے تھے ، ایک بار اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اتر امت! اللہ تعالیٰ اترانے والوں  سے  محبت نہیں  رکھتا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں  سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ، اور اپنےدنیوی  حصے کوبھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں  فساد کا خواہاں  نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں  کو ناپسند رکھتا ہے،قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے، کیا اسے اب تک یہ نہیں  معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں  کو غارت کردیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے اور گنہگاروں  سے ان کے گناہوں  کی باز پرس ایسے وقت نہیں  کی جاتی۔

قارون اوراس کاانجام:

بنی اسرائیل میں  ایک قارون نامی شخص تھا،وہ فرعون کے بڑے سرداروں  اورمقربین میں  سے ایک تھا،فرعون نے اسے اپنی قوم پر عامل مقررکیاہواتھا ، بجائے اس کے کہ یہ اپنی قوم پررحم وشفقت کابرتاؤ کرتایہ بھی قبطی سرداروں  کی طرح اپنی قوم پربہت ظلم و ستم ڈھاتا تھا،جب موسیٰ   علیہ السلام  خلعت نبوت حاصل کرکے فرعون کودعوت اسلام پیش کرنے کے لئے آئے تویہ شخص ان پرایمان لانے کے بجائے اپنے مالی مفادات کے لئے فرعون سے جاملااوران کے ساتھ مل کر موسیٰ   علیہ السلام کوجادوگر کہنے لگا،جیسے فرمایا

وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۝۲۳ۙاِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۲۴   [124]

ترجمہ:ہم نے موسیٰ  علیہ السلام  کواپنی نشانیوں  اورکھلی دلیل کے ساتھ فرعون اورہامان اورقارون کی طرف بھیجامگرانہوں  نے کہایہ ایک جادوگرہے سخت جھوٹا۔

ایک جگہ قارون کی حیثیت یوں  بیان فرمائی،

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ۝۰ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَ۝۳۹ۚۖ [125]

ترجمہ:اورقارون وفرعون وہامان کوہم نے ہلاک کیا،موسیٰ ان کے پاس بینات لے کرآیامگرانہوں  نے زمین میں  اپنی بڑائی کازعم کیاحالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم وکرم سے اسے بہت مال ودولت عطاکیاہواتھاجس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کے خزانوں  کی چابیوں  کابوجھ اتنا وزنی تھاکہ ایک طاقت ور جماعت(سات سے دس تک لوگ) بھی انہیں  اٹھاتے ہوئے دقت اورگرانی محسوس کرتی اوربوجھ کی وجہ سے ادھرادھرلڑکھڑاتے ہوئے وزن اٹھاتی تھی، مال ودولت کی فراونی کی وجہ سے اس کادماغ عرش پر پہنچ چکاتھا،غروروتکبرمیں  وہ کسی کوکچھ سمجھتاہی نہ تھا ،وہ اس دولت کو  اللہ  کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے بخیل بن گیااوردولت کودیکھ دیکھ کرجینے لگا،اس کی قوم کے علمانے اس سے کہااے قارون !زمین پر رہ اور غرور و تکبرکی راہ نہ اپنا، اللہ نے تمہیں  جومال واسباب دیے ہوئے ہیں  اس پر اللہ کاناشکرانہ بن ،  اللہ تعالیٰ غروروتکبرکرنے والوں  اور بخیل کوپسندنہیں  کرتا،تجھے تویہ چاہیے کہ  اللہ تعالیٰ نے تمہیں جونعمتیں  عنایت کی ہیں  اسے ایسی جگہوں  اورراہوں  پرخرچ کرجہاں   اللہ  پسند کرتا ہے، اس زادراہ سے تیری آخرت سنورے گی اوروہاں  تجھے اس کابے اندازہ اجروثواب ملے گا، ہمارامقصدیہ نہیں  کہ اس دولت سے دنیامیں  کچھ عیش وعشرت حاصل نہ کربلکہ اعتدال کے ساتھ جائز نعمتوں  سے  فائدہ اٹھاحلال کھا،پی اورپہن اورنکاح  سے راحت حاصل کر مگرصرف اپنی ذات میں  گم نہ ہوجا، جہاں  اپنے نفس کاخیال رکھ وہاں   اللہ نے تم پرجوحقوق رکھے ہیں انکو بھی فراموش نہ کر،اللہ نے تیرے مال پرتیری اولاد،عزیزواقارب ،مساکین ،محرومین کابھی حصہ رکھاہواہے ،اس لئے ہرحق دارکواس کاحق اداکر اورجیسے  اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیاہے توبھی شکرانے کے طورپر دوسروں  کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کراورجومفسدانہ رویہ تونے اپنایاہواہے اسے بدل دے ، اللہ کی مخلوق کوایذا پہنچانے اورانہیں  حقیرسمجھنا چھوڑ دے ،معصیت کا ارتکاب نہ کراوراللہ کی زمین میں فسادنہ پھیلااوریہ ہمیشہ یادرکھ کہ  اللہ فسادپھیلانے والوں  کوپسند نہیں  کرتا،جواب میں  قارون جوالحادکاعقیدہ رکھتا تھا اللہ نے اسے جودنیاوی کمال عطافرمایاتھااس پرمتکبرتھابولاآپ لوگ اپنی وعظ و نصیحت کواپنے پاس ہی رکھیں  مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں  ، میں  ایک عقلمند،زیرک اور داناوبیناشخص ہوں اور اسے  اللہ بھی جانتاہے  اللہ نے مجھے جوعلم دیاہے اس علم کی وجہ سے مجھے اس دولت کامستحق سمجھتے ہوئے دی ہے۔

قَالَ إِنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِی۔۔۔[126]

ترجمہ :(قارون نے )کہاکہ مجھے یہ سب کچھ میری اپنی سمجھ کی بناپردیاگیاہے۔

قَالَ قَتَادَةُ:عَلى عِلْمٍ عِنْدِی بِوُجُوهِ الْمَكَاسِبِ

قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  اس نے کہایہ مال مجھے کمائی کے تجربے اورعلم کی بدولت ملاہے۔[127]

وقال آخرون:عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللَّهِ أَنِّی لَهُ أَهْلٌ

دیگراہل علم نے اس آیت کی تفسیرمیں  کہاوہ کہتاتھاکہ یہ مال ودولت تومجھے اس لیے ملاکہ میں  اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اس کااہل اورحقدارہوں ۔[128]

جیسے فرمایا

 وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ۔۔۔۝۵۰  [129]

ترجمہ:مگر جوں  ہی کہ سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں  ، یہ کہتا ہے کہ میں  اسی کا مستحق ہوں  ۔

وهذا معنى قول مجاهد: أوتیته على شرف

مجاہد رحمہ اللہ کے قول کامعنی بھی یہی ہے کہ وہ کہتاتھایہ مال وثروت مجھے بزرگی اورشرف کی بناپرملاہے ۔

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ، فِی قَوْلِهِ  {إِنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِی} قَالَ: لَوْلَا رِضَا اللَّهِ عَنِّی وَمَعْرِفَتُهُ بِفَضْلِی مَا أَعْطَانِی هَذَا

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم نے’’تو اس نے کہا ” یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے ۔‘‘ کی تفسیربیان کی ہےفرماتے ہیں  کہ اس کامفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی نہ ہوتااوراسے میری فضیلت معلوم نہ ہوتی تووہ مجھے یہ مال عطانہ فرماتا۔[130]

یعنی وہ اس کمال کومحض اپنی قابلیت کانتیجہ سمجھااوراب بھی اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں  کہ ان کی ترقی کارازان کااعلی تعلیم یافتہ ہونا ،بہترین پلاننگ اور انتھک محنت ہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا۝۰ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ۔۔۔۝۰۝۴۹  [131]

ترجمہ: اورجب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اپھار دیتے ہیں  توکہتاہے کہ یہ تومجھے علم کی بناپردیاگیاہے ۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: إِنَّ ثَلاَثَةً فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ: أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى، بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَبْتَلِیَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَیُّ شَیْءٍ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، قَدْ قَذِرَنِی النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، فَأُعْطِیَ لَوْنًا حَسَنًا، وَجِلْدًا حَسَنًا، فَقَالَ: أَیُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: الإِبِلُ،  أَوْ قَالَ: البَقَرُ، هُوَ شَكَّ فِی ذَلِكَ: إِنَّ الأَبْرَصَ، وَالأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا الإِبِلُ، وَقَالَ الآخَرُ: البَقَرُ ، فَأُعْطِیَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: یُبَارَكُ لَكَ فِیهَا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل کے تین آدمی ایک ابرص دوسرا نابینا تیسرے گنجے کو اللہ تعالیٰ نے آزمانا چاہا تو ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا وہ فرشتہ ابرص کے پاس آ کر کہنے لگا کون سی چیز تجھ کو زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا مجھ کو اچھی رنگت اور خوبصورت چمڑہ مل جائے جس سے لوگ مجھ کو اپنے پاس بیٹھنے دیں  اور گھن نہ کریں ، فرشتہ نے اپنا ہاتھ اس کے بدن پر پھیر دیا تو وہ فورا ًاچھا ہو گیا اور خوبصورت رنگت اور اچھی کھال نکل آئی،پھر اس سے دریافت کیا تجھ کو کون سا مال محبوب ہے؟ اس نے کہا اونٹ یا گائے (راوی کو اس میں  شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں  سے ایک نے اونٹ مانگا اور دوسرے نے گائے) لہذا ایک گابھن اونٹنی اس کو عطا کی فرشتہ نے کہا اللہ تعالیٰ برکت دے،

وَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ: أَیُّ شَیْءٍ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ، وَیَذْهَبُ عَنِّی هَذَا، قَدْ قَذِرَنِی النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِیَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَیُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: البَقَرُ، قَالَ: فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا، وَقَالَ: یُبَارَكُ لَكَ فِیهَا،

پھر گنجے کے پاس آیا آ کر کہا کہ تجھ کو کون سی چیز مرغوب ہے؟ اس نے کہا میرے اچھے بال نکل آئیں  اور یہ بلا مجھ سے دور ہو جائے کہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، فرشتہ نے اپنا ہاتھ اس کے سرپر پھیر دیا تو وہ فورا ًاچھا ہو گیا اور اس کے سرپرخوبصورت بال نکل آئے، پھر پوچھا تجھ کو کونسا مال پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے، فرشتے نے اس کوایک گابھن گائےدے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں  برکت عنایت کرے،

وَأَتَى الأَعْمَى فَقَالَ: أَیُّ شَیْءٍ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ: یَرُدُّ اللَّهُ إِلَیَّ بَصَرِی، فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَیْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَیُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَیْكَ؟ قَالَ الغَنَمُ: فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا،

پھر اندھے کے پاس آ کر پوچھا تجھ کو کیا چیز مطلوب ہے؟اس نےکہا میری آنکھوں  کو درست کر دو کہ تمام لوگوں  کو دیکھ سکوں ، فرشتہ نے اس کی آنکھوں  پر ہاتھ پھیر دیااللہ تعالیٰ نے اس کی نگاہ درست کر دی،پھرفرشتہ نے دریافت کیا تجھ کو کونسا مال پیارا ہے؟اس نےکہا بکری،لہذا اس کو ایک گابھن بکری عطا کر دی،

 فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَنَمٍ، ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الأَبْرَصَ فِی صُورَتِهِ وَهَیْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِینٌ، تَقَطَّعَتْ بِیَ الحِبَالُ فِی سَفَرِی، فَلاَ بَلاَغَ الیَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِی أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الحَسَنَ، وَالجِلْدَ الحَسَنَ، وَالمَالَ ، بَعِیرًا أَتَبَلَّغُ عَلَیْهِ فِی سَفَرِی، فَقَالَ  لَهُ: إِنَّ الحُقُوقَ كَثِیرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّی أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ یَقْذَرُكَ النَّاسُ، فَقِیرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَیَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ،

تینوں  کے جانوروں  نے بچے دیئے تھوڑے دنوں  میں  ان کے اونٹوں ، گائیوں  سے اور بکریوں   سے جنگل بھر گیا، پھر بحکم خداوندی فرشتہ اسی پہلی صورت میں  کوڑھی کے پاس آیا اور کہا میں  ایک مسکین آدمی ہوں  میرے سفر کا تمام سامان ختم ہو گیا ہے آج میرے پہنچنے کا اللہ کے سوا کوئی ذریعہ نہیں  پھر میں  اللہ کے نام پر جس نے تجھے اچھی رنگ اور عمدہ کھال عنایت کی تجھ سے ایک اونٹ کا خواستگار ہوں  کہ اس پر سوار ہر کر اپنے گھر پہنچ جاوں ،وہ بولا یہاں  سے آ گے بڑھ دور ہو مجھے اور بھی بہت سے حقوق ادا کرنے ہیں  میرے پاس تیرے دینے کی گنجائش نہیں  ہے، فرشتہ نے کہا شاید میں  تجھ کو پہچانتا ہوں  کیا تو کوڑھی نہ تھا کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے؟کیا تو مفلس نہیں  تھا؟ پھر تجھ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال عنایت فرمایا،اس نے کہا واہ! کیا خوب! یہ مال تو کئی پشتوں  سے باپ دادا کے وقت سے چلا آتا ہے،فرشتہ نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو ویسا ہی کر دے جیسے پہلے تھا

وَأَتَى الأَقْرَعَ فِی صُورَتِهِ وَهَیْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، فَرَدَّ عَلَیْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَیْهِ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَیَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ،

پھر فرشتہ گنجے کے پاس اسی صورت میں  آیا اور اسی طرح اس سے بھی سوال کیا اس نے بھی ویسا ہی جواب دیا، فرشتہ نے جواب دیا اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ تجھ کو ویسا ہی کرے جس طرح پہلے تھا

وَأَتَى الأَعْمَى فِی صُورَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِینٌ وَابْنُ سَبِیلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِیَ الحِبَالُ فِی سَفَرِی، فَلاَ بَلاَغَ الیَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِی رَدَّ عَلَیْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِی سَفَرِی، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِی، وَفَقِیرًا فَقَدْ أَغْنَانِی، فَخُذْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لاَ أَجْهَدُكَ الیَوْمَ بِشَیْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِیتُمْ، فَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنْكَ، وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَیْكَ

پھر اندھے کے پاس اسی پہلی صورت میں  آیا اور کہا میں  مسافر ہوں  بے سامان ہو گیا ہوں  آج خدا کے سوا اور تیرے سوا کوئی ذریعہ میرے مکان تک پہنچنے کا نہیں  ہے میں  اس کے نام پر جس نے دوبارہ تمہیں  بینائی بخشی ہے تجھ سے ایک بکری مانگتا ہوں  کہ اس سے اپنی کاروائی کر کے سفر پورا کروں ،اس نے کہا بیشک میں  اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرام سے مجھ کو بینائی عنایت فرمائی جتنا تیرا دل چاہے لے جا اور جتنا چاہے چھوڑ جا بخدا میں  تجھ کو کسی چیز سے منع نہیں  کرتا، فرشتہ نے کہا تو اپنا مال اپنے پاس رکھ مجھ کو کچھ نہ چاہئے مجھے تو فقط تم تینوں  کی آزمائش منظور تھی سو ہو چکی اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہو اور ان دونوں  سے ناراض۔[132]

اللہ تعالیٰ نے جواب دیا تقویٰ توتمہاری فضیلت بن سکتاہے مگر قوت اورمال کی فراوانی تمہاری فضیلت کاباعث نہیں ،اگریہ ہمارامعیارہوتاتو اس سے بیشتر اس سے زیادہ مال ودولت والوں  کوفضیلت دیتے اور انہیں  تباہ وبرباد نہ کرتے، اس لئے قارون کواپنی دولت پراتناگھمنڈکرنے اوراسے ہمارے ہاں  باعث فضیلت گرداننے کاکوئی جوازنہیں ، اورمجرم توہمیشہ ہی یہی دعویٰ کیاکرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے لوگ ہیں ،وہ کب ماناکرتے ہیں کہ ان کے اندرکوئی برائی ہے، مگران کی سزاان کے اپنے اعتراف گناہ پرمنحصرنہیں  ہوتی، ان کاجب مواخذہ کیاجاتاہے توان سے پوچھ کرنہیں  پکڑاجاتاکہ بتاؤ تمہارے گناہ کیا ہیں ۔

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا یَا لَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِیَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ‎﴿٧٩﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَیْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا یُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ ‎﴿٨٠﴾‏(القصص)
پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں  نکلا تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش کہ ہمیں  بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے، ذی علم لوگ انہیں  سمجھانے لگے کہ افسوس ! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں  ملے گی، جو اللہ پر ایمان لائیں  اور نیک عمل کریں  ، یہ بات انہی کے دل میں  ڈالی جاتی ہے جو صبروسہار والے ہوں ۔

ایک روزقارون اپنی قوم میں  پوری آرائش وزینت اورخدام وحشم کے ساتھ اتراتاہوا نکلا،توچندایمان کے دعوی دارمگر دنیادارلوگ قارون کی دولت وامارت اورشان وشوکت کودیکھ کربے حدمتاثر ہوئے، ان کے منہ میں  پانی بھرآیاکہنے لگے اے کاش !ہمیں  بھی وہ سب کچھ حاصل ہوجاتاجوقارون کے پاس ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے کتنے شاندار نصیب لکھ دیئے ہیں ،یہ توقسمت کادھنی ہے، ان کی باتیں  سن کراہل علم کہنے لگےتمہاری دنیاکی طلب کودیکھ کر تمہارے حال پرتوبس افسوس ہی کیاجاسکتاہے بیوقوفو !  اللہ نے اپنے ہاں  جوبے شمار پاکیزہ نعمتیں اپنے مومن اورنیک بندوں  کے لئے تیارکررکھی ہیں ، وہ اس ناپائداردنیاکے مال ودولت سے بدرجہا بہتراوردیرپاہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ میں  نے اپنے نیک بندوں  کے لیے وہ تیارکیاہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ،کسی کان نے سنانہیں  اورنہ ہی کسی انسان کے دل میں  اس کاکوئی تصورآسکتاہے۔‘‘ اگرچاہوتویہ آیت پڑھ لو ’’پس کوئی نفس نہیں  جانتاکہ اس کے لیے آنکھوں  کی ٹھنڈک میں  سے کیاکچھ چھپاکر رکھا گیا ہے،اس عمل کی جزاکے لیے جووہ کیاکرتے تھے۔‘‘[133]

تمہیں   اللہ کے ہاں  درجات حاصل کرنے کے لئے اس چندروزہ زندگی کی مشکلات پروا ویلاکرنے کے بجائے صبروشکرسے گزارناچاہیے، یادرکھوجنت صابروں  کاحصہ ہے،

قَالَ السُّدِّیُّ: وَمَا یُلَقَّى الْجَنَّةَ  إِلَّا الصَّابِرُونَ. كَأَنَّهُ جَعَلَ ذَلِكَ مِنْ تَمَامِ كَلَامِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ

سدی رحمہ اللہ  نے کہاہے’’یہ بات انہی کے دل میں  ڈالی جاتی ہے جوصبروسہاروالے ہوں ۔‘‘   اس کے معنی یہ ہیں  کہ جنت صرف صابرلوگوں  ہی کوملے گی ،انہوں  نے گویااہل علم ہی کے کلام کوباقی حصہ قراردیاہے۔[134]

فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ یَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِینَ ‎﴿٨١﴾‏ وَأَصْبَحَ الَّذِینَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ یَقُولُونَ وَیْكَأَنَّ اللَّهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَیَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَیْكَأَنَّهُ لَا یُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٢﴾(القصص)
 (آخرکار) ہم نے اس کے محل سمیت زمین میں  دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں  میں  سے ہوسکا،اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں  کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے  کہ کیا تم نہیں  دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں  میں  سے جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور تنگ بھی ؟ اگ ر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں  بھی دھنسا دیتا ، کیا دیکھتے نہیں  ہو کہ ناشکروں  کو کبھی کامیابی نہیں  ہوتی ۔

اللہ تعالیٰ قارون کے اس بے جا غروروتکبرپر غضبناک ہوااور زمین کوحکم دیاکہ قارون اوراس کی دولت کودھنسا دے چنانچہ قارون اپنے مال ودولت سمیت جس پراسے بڑا فخروغرورتھاجسے وہ اپنے علم کی بناپر اپنااستحقاق سمجھتاتھا زمین میں  دھنس گیا، کوئی اس کاحامی وناصرنہ تھاجواسے اس عذاب سے نجات دلاتا اورنہ ہی وہ اپنی مددآپ کرسکا اور اس کانام ونشان تک باقی نہ رہا،(مولاناسیوہاروی قصص القران میں  لکھتے ہیں  کہ یہ واقعہ میدان تیہ کاہے اس لئے کہ قرآن نے اسے غرق فرعون سے متعلق واقعات کے بعد بیان کیاہے ) اللہ تعالیٰ کوتوتواضع اورعاجزی پسندہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَمَا رَجُلٌ یَتَبَخْتَرُ، یَمْشِی فِی بُرْدَیْهِ قَدْ أَعْجَبَتْهُ نَفْسُهُ، فَخَسَفَ اللهُ بِهِ الْأَرْضَ، فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیهَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک شخص دوچادریں  پہنے اکڑ کرچل رہا تھا اللہ نے اس کوزمین میں  دھنسادیاگیا   اوروہ قیامت تک دھنستا چلاجائے گا۔[135]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَیْنَا رَجُلٌ فِیمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ خَرَجَ فِی بُرْدَیْنِ أَخْضَرَیْنِ، یَخْتَالُ فِیهِمَا، أَمَرَ اللَّهُ الْأَرْضَ فَأَخَذَتْهُ، وَإِنَّهُ لَیَتَجَلْجَلُ فِیهَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم سے پہلے لوگوں  میں  ایک شخص دوسبزرنگ کی چادروں  میں  اتراتاہوانکلا تواللہ تعالیٰ نے زمین کاحکم دیاتواس نے اسے پکڑلیااوربلاشبہ وہ قیامت تک زمین میں  دھنستاہی چلاجائے گا۔[136]

اب وہ لوگ جنہوں  نے قارون کوقسمت کادھنی کہاتھااور اس جیسی دولت چاہی تھی کہنے لگے اب ہم نے اپنی آنکھوں  سے دیکھ لیاواقعی یہ سچ ہے کہ دولت مند ہوناکچھ  اللہ کی رضا مندی کاسبب نہیں یہ تواس کی حکمت ومشیت ہے کہ وہ جسے چاہے بے حدو حساب دے دے اورجسے چاہے نپاتلاد ے وہ اپنی حکمتوں  کو خودجانتاہے،اوراگر ہم پر اللہ  کا لطف وکرم اوراحسان ہوتا تو  اللہ ہمیں  بھی قارون کے ساتھ زمین میں  دھنسادیتا، افسوس !ہم کویادنہ رہاکہ کافردنیاوآخرت میں نجات نہیں  پاسکتے ،چنانچہ قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اورمعصیت کاراستہ اختیارکیاتودیکھ لواس کاانجام کیساہوا ۔

‏ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لَا یُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَیْرٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِینَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّی أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٨٥﴾ (القصص)
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کردیتے ہیں  جو زمین میں  اونچائی بڑائی اور فخر نہیں  کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں ،  پرہیزگاروں  کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے، جو شخص نیکی لائے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے بد اعمالی کرنے والوں  کو ان کے انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کرتے تھے، جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے !کہ میرا رب اسے بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور اس سے بھی جو کھلی گمراہی میں  ہے۔

ہم جنت اورآخرت کی نعمتیں  صرف انہی لوگوں  کوعطاکریں  گے جن کے دل فخروغرورسے خالی ہوں  گے ،جولوگ اللہ کی زمین پرسرکشی کرنے اورجبارومتکبربن کررہنے کے بجائے دنیاکی زندگی تواضع،فروتنی،عاجزی اوراخلاق کے ساتھ گزاردیں ،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ،قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ:إِنَّ اللهَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جنت میں  نہ جائے گاوہ شخص جس کے دل میں  رتی برابربھی غرورووگھمنڈہوگا، ایک شخص نے کہا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ہرایک آدمی چاہتاہے اس کاجوتااچھاہواورکپڑے اچھے ہوں (توکیایہ بھی غروروگھمنڈہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ،نہیں ،یہ توخوبصورتی ہے ،اللہ جمیل ہے اور جمال کوپسندکرتاہے،تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں  کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں ۔[137]

اورجوکسی معاملہ میں حق سے تجاوزنہیں  کرتے ،اوربہترین انجام تواللہ سے غائبانہ ڈرنے اورنافرمانی سے پرہیزکرنے والوں  کاہے،جوہمارے پاس دنیاسے نیکیاں ،بھلائیاں  کماکرلائے گا یعنی حقوق اللہ اورحقوق العبادصحیح طورپرسرانجام دے کرآئے گا اللہ اسے ان نیکیوں  سے بہتراجروثواب عطافرمائے گاجوکم ازکم دس گناتوضرورہی ہے اورجس کے لئے اللہ چاہیے گااس سے بھی زیادہ ،کہیں  زیادہ عطافرمائے گا ،اورجواعمال بد کماکرلائے گااسے اس کے عین مطابق بدلہ دیاجائے گا،جیسے فرمایا

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا۝۰ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۱۶۰    [138]

ترجمہ:جواللہ کے حضورنیکی لے کرآئے گااس کے لئے دس گناہ اجرہے اور جو بدی لے کرآئے گااس کواتناہی بدلہ دیاجائے گاجتنااس نے قصورکیاہے اورکسی پرظلم نہ کیاجائے گا ۔

وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱  [139]

ترجمہ:اسی طرح اللہ جس کے عمل کوچاہتاہے افزونی عطافرماتاہےوہ فراخ دست بھی ہے اورعلیم بھی ۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۝۰ۚ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۝۸۹وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ۝۰ۭ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۹۰  [140]

ترجمہ:جوشخص بھلائی لے کرآئے گااس سے زیادہ بہترصلہ ملے گااورایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں  گے اور جوبرائی لیے ہوئے آئے گاایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں  پھینکے جائیں  گے، کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! قرآنی تعلیمات کولوگوں  تک پہنچانے اوراس کی رہنمائی میں  دنیاکی اصلاح کی ذمہ داری آپ کوسونپی گئی ہےاورآپ سے اس کے بارے میں  پوچھا جائے گا ،جیسے فرمایا

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ۝۶ۙ  [141]

ترجمہ:پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں  سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں  اور پیغمبروں  سے بھی پوچھیں ( کہ انہوں  نے پیغام رسانی کا فرض کہاں  تک انجام دیا اور انہیں  اس کا کیا جواب ملا) ۔

یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۔۔۔۝۱۰۹     [142]

ترجمہ:جس روز اللہ سب رسولوں  کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں  کیا جواب دیا گیا ۔

۔۔۔وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّہَدَاۗءِ۔۔۔ ۝۶۹    [143]

ترجمہ:انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں  گے ۔

اور اللہ آپ کواس مرتبے پرپہنچانے والاہے جس کاتصوربھی یہ لوگ آج نہیں  کرسکتے ،مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوان کے آبائی مشرکانہ مذہب سے انحراف کی بناپرگمراہ سمجھتے تھے ، ان کوجواباً فرمایاکہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ْان سے کہہ دو کہ اللہ علام الغیوب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں  ہوں  جواللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں  یاتم ہوجواللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کوقبول نہیں  کررہے؟

وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن یُلْقَىٰ إِلَیْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِیرًا لِّلْكَافِرِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ وَلَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ آیَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَیْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٨٨﴾‏(القصص)
آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا،اب آپ کو ہرگز کافروں  کا مددگار نہ ہونا چاہیے ،خیال رکھیئے کہ یہ کفار آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کی تبلیغ سے روک نہ دیں  اس کے بعد کہ یہ آپ کی جانب اتاری گئیں ، تو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں  اور شرک کرنے والوں  میں  سے نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارنا بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں ، ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اس کا منہ (اور ذات) اسی کے لیے فرماں  روائی ہے اور تم اس کی طرف لو ٹائے جاؤ گے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !نبوت سے قبل آپ کے وہم وگمان میں  بھی نہیں  تھاکہ آپ کورسالت کے لئے چناجائے گااورآپ پرکتاب الٰہی کانزول ہوگا ،جیسے فرمایا

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ۝۰ۡۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِهٖ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۶  [144]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ اگراللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تومیں  کبھی یہ قرآن تمہیں  نہ سناتابلکہ اس کی خبرتک وہ تم کونہ دیتاآخرمیں  اس سے پہلے ایک عمرتمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیااتنی سی بات بھی نہیں  سمجھتے۔

۔۔۔مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۔۔۔۝۰۝۵۲ۙ  [145]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اورایمان کیاہوتاہے مگرہم نے اس وحی کوایک نوربنادیاجس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں  اپنے بندوں  میں  سے جس کی چاہتے ہیں ۔

یہ حکمتوں  سے بھرپورکتاب تومحض تمہارے رب کی رحمت سے تم پرنازل ہوئی ہے ،کفارومشرکین کے شوروغوغا،ان کی مخالفت ورکاوٹیں  اورایذارسانی  کے باوجودآپ اپنی پوری تن دہی اوریکسوئی سے رب کی طرف بلانے کاکام کرتے رہیں  ،اورایساکبھی نہ ہونے پائے کہ کفارومشرکین آپ کواس کی تبلیغ واشاعت سے اوران کے مطابق عمل کرنے سے بازرکھ سکیں ،چنانچہ آپ ہرطرف سے بے خوف ہوکرلوگوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیں  اورشرک کرنے والوں  میں  سے نہ ہوں ،اوراللہ کے سواکسی اورکی دعا کے ذریعے، نذرونیازکے ذریعے سے،اور قربانی کے ذریعے سے عبادت نہ کرنااس کے سواکوئی معبودنہیں  ہے ،اللہ خالق کائنات کے سواکائنات کی ہرچیزایک مقررہ وقت پر تباہ وبرباد ہونے والی ہے،جیسے فرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ [146]

ترجمہ:ہرچیزجواس زمین پرہے فناہوجانے والی ہے اورصرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔

عَنْ أَبِی  هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ، كَلِمَةُ لَبِیدٍ أَلاَ كُلُّ شَیْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسب سے سچی بات جوکسی شاعرنے کہی ہووہ ہے جولبیدنے کہی ہے خبردار!سن لواللہ کے سواہرچیزباطل ہے۔[147]

کائنات کی فرمانروائی اس کاحق ہے وہ جوچاہے نافذہوتاہے اوراسی کاحکم جس کاوہ ارادہ کرے چلتاہے ، اورایک وقت مقررہ پرتم سب اس کی بارگاہ میں  حاضرہونے والے ہوتاکہ وہ نیکوں  کوان کی نیکیوں  کی جزااوربدکاروں  کوان کی بدیوں  کی سزادے۔

[1] النازعات۲۴

[2] الاعراف۱۳۷

[3] الشعراء ۵۹

[4] تفسیرابن کثیر۲۲۳؍۶،تفسیرطبری۵۳۴؍۱۹،عن السدی وابن جریج

[5] الحج۴۷

[6] الروم۶

[7] البقرة۲۱۶

[8] النسائ۱۹

[9] تفسیرابن کثیر۲۲۵؍۶

[10] آل عمران۱۳۵

[11] تفسیرابن کثیر ۲۲۶؍۶

[12] ایسر التفاسیر ۶۴؍۴

[13] تفسیر طبری۵۵۷؍۱۹

[14] تفسیرابن ابی حاتم۲۹۶۵؍۹

[15] تفسیرابن کثیر ۲۲۹؍۶

[16] یوسف۵۵

[17] یُوسُفَ: 21

[18] مستدرک حاکم۳۳۲۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۷۰۵۸، تفسیر ابن کثیر۲۲۹؍۶، تفسیر طبری ۱۹؍۱۵،تفسیرابن ابی حاتم۲۹۶۶؍۹

[19] صحیح بخاری کتاب الشھادات بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الوَعْدِ۲۶۸۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۶۳۷

[20] ھود۱۰۷

[21] البروج۱۶

[22] طہ۲۷تا۳۲

[23] طہ۳۶

[24] مریم۵۳

[25] المجادلة۲۱

[26] المومن۵۱

[27] المومن ۳۴

[28] القصص۳۸

[29] النازعات۲۳،۲۴

[30] الشعراء ۲۹

[31] المومن ۳۶، ۳۷

[32] الاعراف۵۴

[33] البقرة۵۰

[34] محمد۱۳

[35] المومن۴۶

[36] ھود۹۹

[37] الرحمٰن۲۶،۲۷

[38] التوبة۴۰

[39] الحاقة۹،۱۰

[40] الاعراف۱۵۵

[41]آل عمران ۴۴

[42]یوسف ۱۰۲

[43] ھود۴۹

[44] طہ۹۹

[45] الانعام۱۵۶،۱۵۷

[46] النسائ۱۶۵

[47] المائدة۱۹

[48] البقرة۲

[49] یونس۳۷

[50] السجدة۲

[51] الفرقان ۳۲، ۳۳

[52] المومنون۴۸

[53] یونس۷۸

[54] سبا۳۱

[55] تفسیر ابن ابی حاتم  ۱۱۸۵؍۴

[56] ابن ہشام۳۹۲؍۱،البدایة والنہایة۲۰۳؍۴،الروض الانف۲۴۰؍۳،عیون الاثر۱۵۰؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۶؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۴۰؍۲، السیرة الحلبیة ۴۸۷؍۱

[57] بنی اسرائیل۱۰۷تا۱۰۹

[58] المائدة۸۲،۸۳

[59] آل عمران ۱۹

[60] یونس ۷۲

[61] آل عمران۶۷

[62]البقرة ۱۳۱ تا۱۳۳

[63] البقرة۱۲۸

[64] الذاریات ۳۶

[65] یوسف۱۰۱

[66] النمل ۴۴

[67]یونس۸۴

[68] المائدة۴۴

[69] یونس۹۰

[70] المائدة۱۱۱

[71] آل عمران۸۵

[72] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ تَعْلِیمِ الرَّجُلِ أَمَتَهُ وَأَهْلَهُ ۹۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۷

[73] مسنداحمد۲۲۲۳۴

[74] بنی اسرائیل۱۵

[75] الانعام۱۶۴

[76] فاطر۱۸

[77] الزمر۷

[78] الروض الانف۱۹؍۴

[79] التوبة: 113

[80] القصص: 56

[81] صحیح بخاری  کتاب تفسیر سورۂ القصص بَابُ قَوْلِهِ إِنَّكَ لاَ تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ۴۷۷۲

[82] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ القَصَصِ ۳۱۸۸

[83]البقرة۲۷۲

[84] یوسف۱۰۳

[85] النحل۱۱۲،۱۱۳

[86] بنی اسرائیل۱۵

[87] النحل۹۶

[88] آل عمران۱۹۸

[89] الاعلیٰ۱۶،۱۷

[90] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۷۱۹۷،مسنداحمد۱۸۰۰۹،صحیح ابن حبان ۴۳۳۰، السنن الکبری للنسائی ۱۱۷۹۷

[91] السجدة۱۸

[92] فاطر۱۹تا۲۲

[93] الانعام۹۴

[94] البقرة۱۶۶

[95] مریم ۸۱،۸۲

[96] الاحقاف ۵،۶

[97] العنکبوت۲۵

[98] الکہف ۵۲،۵۳

[99] البقرة۱۶۷

[100] الانعام۵۴

[101] الزمر۵۳

[102] الطور۲۴

[103] الواقعة۱۵تا۲۱

[104] الطور۲۲

[105] الواقعہ۲۲،۲۳

[106] الرحمٰن۵۶تا۵۸

[107] الصافات۴۸،۴۹

[108] الفرقان۵۹

[109] السجدة۴

[110] الرعد۱۰

[111] التغابن۱

[112] بنی اسرائیل۴۴

[113] النور۴۱

[114] الحشر۲۴

[115] الجمعة۱

[116] لقمان۲۹

[117] الزمر۵

[118] الاحقاف۳

[119] الفرقان۶۲

[120] الملک۲۱

[121] الملک۳۰

[122] الواقعة۶۸تا۷۰

[123]یونس ۶۶

[124] المومن۲۳،۲۴

[125] العنکبوت۳۹

[126] القصص۷۸

[127] تفسیر القرطبی ۲۶۶؍۱۵، زاد المسیر فی علم التفسیر۳۹۳؍۳، تفسیر السمعانی ۱۵۷؍۴

[128] تفسیرالبغوی۹۳؍۴

[129] حم السجدة۵۰

[130] تفسیرطبری۶۲۶؍۱۹

[131] الزمر۴۹

[132] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ۳۴۶۴، صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر ۷۴۳۱

[133] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۴،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا  باب صفة الجنة۷۱۳۲، جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ۳۱۹۷،مسنداحمد۹۶۴۹

[134] تفسیرابن کثیر۲۵۵؍۶

[135] صحیح مسلم کتاب اللباس والزینة بَابُ تَحْرِیمِ التَّبَخْتُرِ فِی الْمَشْیِ مَعَ إِعْجَابِهِ بِثِیَابِهِ۵۴۶۷، صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الخُیَلاَءِ ۵۷۹۰ ،مسندابی یعلی ۶۳۳۴

[136] مسنداحمد۱۱۳۵۶

[137] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ۲۶۵

[138] الانعام۱۶۰

[139] البقرة۲۶۱

[140] النمل ۸۹،۹۰

[141] الاعراف۶

[142] المائدة۱۰۹

[143] الزمر۶۹

[144] یونس۱۶

[145] الشوری ۵۲

[146] الرحمٰن۲۶،۲۷

[147] صحیح بخاری  كتاب مناقب الأنصار بَابُ أَیَّامِ الجَاهِلِیَّةِ۳۸۴۱،صحیح مسلم كتاب الشِّعْرِ باب فِی إِنْشَادِ الشِّعْرِالاشعار۵۸۸۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَدَبِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی إِنْشَادِ الشِّعْرِ۲۸۴۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ الشِّعْرِ ۳۷۵۷،مسند احمد۱۰۰۷۴

Related Articles