بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ طہ

اس سورہ میں  فرمایاگیاکہ کسی کے دل میں  ایمان پیداکرناآپ کاکام نہیں  ،آپ کاکام نصیحت اوریاددہانی کرناہے تاکہ لوگوں  کے دلوں  میں  خوف خداپیدا ہو اورجواس کی پکڑ سے بچناچاہے وہ اس نصیحت کوسن کرسیدھی راہ اپنالے ،کیونکہ عرب میں  کثیرتعدادمیں  یہودیوں  کی موجودگی اوراہل عرب پریہودیوں  کے علمی وذہنی تفوق کی وجہ سے ، نیز روم اورحبش کی عیسائی سلطنتوں  کے اثرسے بھی عربوں  میں  بالعموم موسٰی کونبی کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتاتھا اس لئے سورہ میں  موسٰی کے واقعہ کی جزئیات کوبیان کیا گیا اور بتایا گیا کہ جیسے فرعون کودعوت حقہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے ہرمیدان میں ذلت ورسوائی ہوئی ایسے ہی عنقریب تمہاراانجام بھی ظاہر ہونے والاہے،جادوگروں  کے کرداروں  کو پیش کر کے بتایاگیاکہ جیسے ہی ان پرحق واضع ہواانہوں  نے جابروسرکش فرعون کے خوف ولالچ کے باوجود فوراًدعوت حقہ کوقبول کرلیا اور اپنی عزیز جان کی پرواہ نہ کی لہذاتم بھی ان کی روش کواپناؤ اورہٹ دھرمی چھوڑکردعوت دین قبول کرلو،سامری اوراس کے بچھڑے کاعبرت ناک انجام بتایاگیا،ابلیس کی رب کے حضور سرکشی اوراس کے مکروفریب کاذکر کیا گیااورسمجھایاگیاشیطان کی طرح اکڑ نہ جاؤ بلکہ آدمیت کایہ تقاضایہ ہوناچاہیے کہ جیسے ہی اپنی غلطی کااحساس ہوفوراًرب کے حضور گڑگڑانے لگے اور معافی چاہے ،کفارو مشرکین مکہ کوسمجھایا گیا کہ نبوت کامنصب ایسانہیں  کہ ہرکوئی شخص اسے خودحاصل کرسکے بلکہ یہ توصرف رب کی حکمت پرمنحصر ہے کہ کس کویہ منصب عنایت کرنا ہے ، اس سورہ میں   اللہ کاذکراس کی خشیت،اس کی حمدوثنا،ہدایات،رب کے پسندیدہ اعمال صالحہ،تزکیہ نفس،مبلغ کے لئے نصیحت ،قیامت کاذکر اور اقامت صلواة کاحکم دیا گیا اور بتایا گیا کہ دنیامیں  اندھے نہ ہوجاؤ رزق دیناہماراکام ہے ،رزق کمانے کاکام دوسرے نمبرپرہوناچاہیے،پہلے نمبرپردین ہی ہوناچاہیے اوراس کے مقابلے میں  سرکشی ، ہٹ دھرمی ، اسراف،جھوٹ،دین سے اغراض اوررب کی ہرطرح کی نافرمانی سے بچنے کی تلقین کی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

طه ‎﴿١﴾‏ مَا أَنزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ ‎﴿٢﴾‏ إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن یَخْشَىٰ ‎﴿٣﴾‏ تَنزِیلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى ‎﴿٤﴾‏ الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ‎﴿٥﴾‏ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ ‎﴿٦﴾‏ وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ‎﴿٧﴾‏ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ‎﴿٨﴾‏(طہ)
طہ،ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں  اتارا کہ تو مشقت میں  پڑجائے بلکہ اس کی نصیحت کے لیے جو اللہ سے ڈرتا ہے، اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے،جو رحمٰن ہے عرش پر قائم ہے، جس کی ملکیت آسمانوں  اور زمین اور ان دونوں  کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے،  اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بہترین نام اسی کے ہیں  ۔

طہ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کی طرف وحی بھیجنے ، قرآن نازل کرنے اورآپ کوشریعت عطاکرنے کایہ مقصدنہیں  کہ جولوگ اس پاکیزہ دعوت کوقبول نہیں  کرتے ان کے کفرپرفرط تاسف اوران کے عدم ایمان پرحسرت سے اپنے آپ کومشقت میں  ڈال لے اورغم میں  پڑجائے،جیسے فرمایا

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓی اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۝۶  [1]

ترجمہ: اچھاتواے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !شایدتم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان دینے والے ہواگریہ اس تعلیم پرایمان نہ لائے ۔

عَنِ الضَّحَّاكِ: لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ عَلَى رَسُولِهِ، قَامَ بِهِ هُوَ وَأَصْحَابُهُ،فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ مِنْ قُرَیْشٍ: مَا أُنْزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى مُحَمَّدٍ إِلَّا لِیَشْقَى!فأنزل الله طه مَا أَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى

ضخاک رحمہ اللہ  سے روایت ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پرقرآن نازل فرمایاتوآپ نے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے قیام میں  خوب قرآن مجیدپڑھناشروع کردیاتھا یہ دیکھ کر مشرکین قریش کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پریہ قرآن اس لیے نازل کیاگیاہے تاکہ وہ مشقت میں  پڑجائیں ، اس موقع پراللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ’’ طہ،ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں  اتارا کہ تو مشقت میں  پڑجائے  بلکہ اس کی نصیحت کے لیے جو اللہ سے ڈرتا ہے ۔‘‘[2]

اسے توبس ایک نصیحت اور دیادہانی کے لئے نازل کیاگیا ہے تاکہ جس کے دل میں  اللہ کاخوف چھپاہووہ اسے سن کرسنبھل جائے اوراپنی آخرت کی ابدی زندگی کی فکر کرے ، جیسے فرمایا

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙوَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚ  [3]

ترجمہ:جوشخص ڈرتاہے وہ نصیحت قبول کرلے گااوراس سے گریزکرے گاوہ انتہائی بدبخت جوبڑی آگ میں  جائے گا۔

ایک مقام پر فرمایا

ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ۙ  [4]

ترجمہ:یہ ان لوگوں  کے لئے ہدایت ہے جوتقویٰ اختیار کرنا چاہیں ۔

قَالَ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،سَمِعْتُ مُعَاوِیَةَ، خَطِیبًا یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ یُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِی الدِّینِ

حمیدبن عبدالرحمٰن سے روایت ہےمیں  نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سناوہ خطبہ میں  فرمارہے تھےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناکہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیرو بھلائی کاارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عنایت فرما دیتا ہے۔[5]

اس قرآن کوانسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اس ہستی نے نازل ہے جس نے ساتوں زمینوں  اور ساتوں  بلندوبالا آسمانوں  کو تخلیق کیاہے ،وہ رحمان(کائنات کے)تخت سلطنت پر جلوہ فرماہےاوروہی خالق اس عظیم الشان کائنات کا بلافصل حکمران ہے،جوکچھ آسمانوں  یا زمینوں  میں  ہے یاآسمان وزمین کے درمیان ہے یعنی ملائکہ،جن وانس ، حیوانات،جمادات ونباتات وغیرہ یازمین کے سب سے نچلے حصہ میں  ہےسب بلاشرکت غیرے اسی کی ملکیت ہے ،اقتدارالٰہی میں  ان کاکوئی حصہ نہیں  اوروہ خوداپنی ذات کے لئے کسی نفع ونقصان ،موت وحیات اوردوبارہ اٹھائے جانے پرکوئی اختیارنہیں  رکھتے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔  ۝۵۴  [6]

ترجمہ:اسی کی خلق ہے اوراسی کاامرہے ۔

ایک مقام پر یوں  فرمایا:

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ۝۰ۭ یَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ۔۔۔ ۝۱۲ۧ  [7]

ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اورزمین کی قسم سے بھی انہی کی مانند،ان کے درمیان حکم نازل ہوتارہتاہے ۔

تم اپنے اوپر روا مشرکین کے ظلم وستم کی فریادرب کی بارگاہ میں پکارپکارکرکہووہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ تربات بلکہ تمہارے دلوں  کی خفی سے خفی تربات تک کو جانتاہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۶   [8]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں  کا بھید جانتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔

وہ اللہ وحدہ لاشریک ہے،اس کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ،اس کی ذات وصفات اورافعال میں کوئی اس کا شریک نہیں  ہے ،اورنہ کوئی اس کے سوا قابل عبادت ہے جس کے سامنے محبت،تذلل،خوف،امیداورانابت کا اظہار کیا جائے اوراس کوپکاراجائےاوروہ بہترین صفات کا مالک ہے،جیسے فرمایا

وَلِلهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ۔۔۔ ۝۱۸۰  [9]

ترجمہ:اللہ اچھے ناموں  کامستحق ہےاس کواچھے ہی ناموں  سے پکارو۔

پس اسی وحدہ لاشریک سے محبت رکھی جائے ،اسی پر ایمان لایاجائے او ر اسی کی اطاعت کی جائے ۔

وَهَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ مُوسَىٰ ‎﴿٩﴾‏ إِذْ رَأَىٰ نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّی آتِیكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى ‎﴿١٠﴾‏ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِیَ یَا مُوسَىٰ ‎﴿١١﴾‏ إِنِّی أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ‎﴿١٢﴾‏ وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوحَىٰ ‎﴿١٣﴾‏ إِنَّنِی أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِی وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِی ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ أَكَادُ أُخْفِیهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ ‎﴿١٥﴾‏ فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ ‎﴿١٦﴾(طہ)
تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بھی معلوم ہےجبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں  سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے، بہت ممکن ہے کہ میں  اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں  یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ، جب وہ وہاں  پہنچے تو آواز دی گئی اے موسٰی!یقیناً میں  تیرا پروردگار ہوں  تو اپنی جوتیاں  اتار دے کیونکہ تو پاک میدا طویٰ میں  ہے، اور میں  نے تجھے منتخب کرلیا ہے اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن، بیشک میں  ہی اللہ ہوں ،  میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں  پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ ، قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں  پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں  تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو، پس اب اس کے یقین سے تجھ کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا ۔

رب کاکلام کرنا:اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاتمہیں  موسیٰ کے معاملات کے بارے میں  خبرپہنچی ہے کہ جب وہ مدین میں  معاہدہ کے مطابق دس سال کاعرصہ گزار کرمصرواپس جا رہے تھے ، رات کا وقت اورسردیوں  کے دن تھے،موسیٰ   علیہ السلام  کوہ طورکے دامن میں  تھے کہ نگاہ موسیٰ   علیہ السلام نے کوہ طورپر ایک روشن آگ دیکھی،انہوں  نے اپنے گھروالوں  سے کہا ذرا ٹھیرو میں  نے دورایک آگ دیکھی ہے میں  وہاں  جاتاہوں شاہدکہ تمہارے لئے ایک آدھ انگارالے آؤ ں  تاکہ رات بھرسردی سے بچاؤ  کابندوبست ہوجائے یااس آگ پر موجودلوگوں  سے مجھے صحیح راستے کے متعلق کوئی رہنمائی مل جائے،  موسٰی پڑاوکی جگہ سے روانہ ہوکرآگ کے پاس پہنچے توکوہ طورکے دائیں  جانب سے پکاراگیا،جیسے فرمایا

وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا۝۵۲  [10]

ترجمہ: ہم نے اس کوطورکے داہنی جانب سے پکارااوررازکی گفتگوسے اس کوتقرب عطا کیا ۔

فَلَمَّآ اَتٰىہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ۔۔۔۝۳۰ۙ  [11]

ترجمہ:وہاں  پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا۔

اے موسٰی ! بلاشبہ میں  تمہارا پروردگار ہوں  جواس وقت تم سے کلام کررہاہوں  تم اس وقت وادی مقدس طویٰ میں  ہو ، جیسے فرمایا

اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۶ۚ  [12]

ترجمہ:جب اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں  پکاراتھا۔

اس لئے اظہارتواضع اورشرف وتکریم کے طورپراپنی جوتیاں  اتار دو،

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی قَوْلِهِ: فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ قَالَ: كانتا مِنْ جلد حمار میت فقیل لَهُ اخلعها

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابوطالب اورسلف میں  سے کئی ایک حضرات کاآیت کریمہ ’’تواپنی جوتیاں  اتاردے۔‘‘کے بارے میں قول ہے کہ آپ کی جوتیاں  گدھے کی کھال سے تھیں  اورپاک نہ تھیں  اس لیے انہیں  اتارنے کاحکم دیاگیاتھا ۔[13]

وَقِیلَ: إِنَّمَا أَمَرَهُ بِخَلْعِ نَعْلَیْهِ تَعْظِیمًا لِلْبُقْعَةِ

یہ بھی کہاجاتاہے کہ اس مبارک جگہ کی تعظیم کے پیش نظرآپ کویہ حکم دیاگیاتھا۔[14]

میں  نے تجھے دنیاکے لوگوں  میں سے منتخب کر کے اپنابرگزیدہ کرلیا ہے ، اپنی نبوت ورسالت اورہمکلامی کے لئے چن لیاہے،جیسے فرمایا

قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّى اصْطَفَیْتُكَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِكَلَامِیْ۔۔۔۝۱۴۴  [15]

ترجمہ:فرمایا اے موسیٰ! میں  نے تمام لوگوں  پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔

اس وحی کوپورے غوروتوجہ سے سن جوتیری طرف کی جارہی ہے ، میں  ہی اللہ ہوں  میرے سواکوئی الٰہ نہیں  ہے یعنی میں  ہی جہانوں  کوپیداکرنے اورپالنے والا ہوں  ،میری مخلوق میں  کوئی بھی میری ذات وصفات اوراعمال میں  میرا ہمسر،شریک ، ساجھی اوربرابری کرنے والا نہیں ، میں  اس سے پاک ہوں  کہ کوئی مجھ سا ہو ، سارے جہانوں  پر حکومت اور اقتدار میراہے ،ہرطرح کی طاقتیں  اورقدرتیں  میرے اختیارمیں  ہیں  ، میں  جوچاہتا ہوں  کر گزرتا ہوں  ،میں  تمام عیوب سے پاک اور نقصان سے دور ہوں ، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں  ،کیونکہ الوہیت اللہ تعالیٰ کاوصف ہے اورعبودیت بندے کا وصف ہے اس لئے خصوصی طورنمازکی اہمیت وفضیلت کوواضح کرنے کے لئے حکم دیا میرے ذکرکی خاطر نماز قائم کرو، نماز ذکرالٰہی کا بہترین اورافضل ترین طریقہ ہے ،

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ۔۔۔ [16]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔

وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ

اوروہ شریعت ہی نہیں  جس میں  نماز نہیں ۔[17]

جیسے فرمایا

اُتْلُ مَآاُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ۝۰ۭ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ۔۔۔۝۰۝۴۵  [18]

ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ) تلاوت کرواس کتاب کی جوتمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اورنمازقائم کرویقیناً نمازفحش اوربرے کاموں  سے روکتی ہے اوراللہ کا ذکراس سے بھی زیادہ بڑی چیزہے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ غَفَلَ عَنْهَا، فَلْیُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللهَ یَقُولُ: {أَقِمِ الصَّلَاةِ لِذِكْرِی}  [19]

انس  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم میں  سے اگرکسی کونیندآجائے یاغفلت ہوجائے توجب یادآجائے نمازپڑھ لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے’’ میری یادکے وقت نماز قائم کرو۔‘‘[20]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: مَنْ نَسِیَ صَلاَةً فَلْیُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص سوتے میں  یابھول میں  نمازکاوقت گزاردے اس کاکفارہ یہی ہے کہ یادآتے ہی نماز پڑھ لے  اس کے سوا اورکفارہ نہیں ۔[21]

ایک وقت مقررہ پرقیامت کی گھڑی آنے والی ہے ،جس میں  اس عظیم الشان کائنات کانظام درہم برہم ہو جائے گا،آزمائش کامدعاپورا کرنے کے لئے میں اس کے برپا ہونے کاعلم چاہے وہ مقرب فرشتے ہوں  یاانبیاء کسی کونہیں  دوں  گا ، جیسے فرمایا

یَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ۝۰ۭ وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا۝۶۳  [22]

ترجمہ:لوگ آپ سے پوچھتے ہیں  کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی ؟ کہو اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے تمہیں  کیا خبر! شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو۔

اِنَّ اللهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۔۔۔ ۝۳۴ۧ  [23]

ترجمہ:اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔

۔۔۔ہُوَ۝۰ۭۘؔثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً۔۔۔۝۱۸۷  [24]

ترجمہ:وہ زمین وآسمان پربھاری پڑرہی ہے بس وہ اچانک آجائے گی۔

تاکہ اس روز ہرعامل کو خواہ اس نے ذرہ بھرنیکی کی ہو خواہ بدی اپنے عمل کاپوراپورابد لہ د یا جائے ، جیسے فرمایا

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ۝۸ۧ  [25]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

۔۔۔لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ  [26]

ترجمہ: تاکہ اللہ برائی کرنے والوں  کو ان کے عمل کابدلہ دے اور ان لوگوں  کواچھی جزا سے نوازے جنہوں  نے نیک رویہ اختیارکیاہے ۔

اِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا۝۰ۚ سَوَاۗءٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۶  [27]

ترجمہ:جاؤ اب جھلسو اس کے اندر، تم خواہ صبر کرو یا نہ کروتمہارے لیے یکساں  ہے، تمہیں  ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔

پس اپنی خواہشوں  کے غلام،اپنی خواہشات نفس کوالٰہ بنانے والے،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ۔۔۔۝۲۳  [28]

ترجمہ:پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا۔

اور قیامت کے منکر لوگ ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۝۴۹ [29]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں جب ہم صرف ہڈیاں  اور خاک ہو کر رہ جائیں  گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں  گے؟۔

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲  [30]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں  کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے اور ہڈیوں  کا پنجر بن کر رہ جائیں  گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۝۶۷  [31]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں  کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں  گے تو ہمیں  واقعی قبروں  سے نکالا جائے گا ؟۔

وَقَالُوْٓا اِنْ ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۲۹  [32]

ترجمہ: آج یہ لوگ کہتے ہیں  کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں  گے۔

اِنْ ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۳۷۠ۙ  [33]

ترجمہ:زندگی کچھ نہیں  ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی، یہیں  ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں  ہیں  ۔

وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۚ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ۝۲۴   [34]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں  ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں  جو ہمیں  ہلاک کرتی ہو، درحقیقت اس معاملہ میں  ان کے پاس کوئی علم نہیں  ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں  کرتے ہیں  ۔

میرے بندوں  کواللہ کی ذات وصفات اوراعمال ،عقیدہ حیات بعد الموت ،حساب کتاب اورجزامیں  بہکا نہ پائیں  کہ وہ آخرت سے بے خوف ہوکر صرف اس زندگی کوہی اپنا محوربنالیں  اورجوجی میں  آئے کرتے پھریں  ،اگر گمراہ لوگ اپنی چالوں  اورباطل دلیلوں سے اس عقیدہ میں  شبہات اور بگاڑ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے توان کے چنگل میں  پھنس جانے والاشخص بدبختی اورنقصان اٹھانے والوں  میں  شامل ہوگا،جیسے فرمایا

وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَالُہٗٓ اِذَا تَرَدّٰى۝۱۱ ۭ  [35]

ترجمہ:اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے؟۔

جبکہ اللہ اورروزآخرت پر ایمان لانے والوں  کے بارے میں  فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِـُٔــوْنَ وَالنَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۹     [36]

ترجمہ:مسلمان ہوں  یایہودی،صابی ہوں  یاعیسائی جوبھی اللہ اورروزآخرپرایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گابے شک اس کے لئے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۔

وَمَا تِلْكَ بِیَمِینِكَ یَا مُوسَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ قَالَ هِیَ عَصَایَ أَتَوَكَّأُ عَلَیْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِی وَلِیَ فِیهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ ‎﴿١٨﴾‏ قَالَ أَلْقِهَا یَا مُوسَىٰ ‎﴿١٩﴾‏ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعَىٰ ‎﴿٢٠﴾‏ قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِیدُهَا سِیرَتَهَا الْأُولَىٰ ‎﴿٢١﴾‏ وَاضْمُمْ یَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ آیَةً أُخْرَىٰ ‎﴿٢٢﴾‏ لِنُرِیَكَ مِنْ آیَاتِنَا الْكُبْرَى ‎﴿٢٣﴾‏(طہ)
اے موسٰی ! تیرے اس دائیں  ہاتھ میں  کیا ہے ؟ جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں  ٹیک لگاتا ہوں  اور جس سے میں  اپنی بکریوں  کے لیے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں  اور بھی اس میں  مجھے بہت سے فائدے ہیں ، فرمایا اے موسٰی ! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے،ڈالتے ہی وہ سانپ بن کر دوڑنے لگی، فرمایا بے خوف ہو کر اسے پکڑ لے،  ہم اسے اسی پہلی سی صورت میں  دوبارہ لادیں  گے، اور اپنا ہاتھ بغل میں  ڈال لے تو وہ سفید چمکتا ہوا ہو کر نکلے گا لیکن بغیر کسی عیب (اور روگ) کے، یہ دوسرا معجزہ ہے، یہ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں  دکھانا چاہتے ہیں  ۔

موسٰی ہاتھ میں  ایک لاٹھی لئے کھڑے تھے اوراس کے متعلق صرف اتناہی جانتے تھے کہ وہ ان کاسہارااوربکریوں  کے لئے پتے جھاڑنے کاایک ذریعہ ہے باری تعالیٰ نے موسٰی کی گھبراہٹ دور کرنے اورجتلانے کی غرض سے پوچھااے موسٰی !یہ تیرے ہاتھ میں  کیاچیزہے؟کلیم  اللہ موسٰی نے جواب دیایہ میری لاٹھی ہےچلتے وقت میں  اس کا سہارا لے لیتاہوں  اور میں اس سے بکریوں  کاچارہ درخت سے جھاڑلیتاہوں  اوراس سے دوسرے بہت سے کام بھی لیتاہوں ،اس طرح رب نے موسٰی کومطلع فرماکر اور لکڑی کا احساس دلا کر ، ہوشیاراوربخوبی بیدار کر کے حکم دیااے موسٰی !اپنی اس لاٹھی کوزمین پرپھینک دے،موسٰی نے حکم کی تعمیل کی اورلاٹھی کوزمین پرپھینک دیامگرزمین پرگرتے ہی لاٹھی ایک زبردست اژدھے کی صورت میں  اختیار کرکے ادھرادھرتیرکی طرح فراٹے بھرنے لگی،جیسے فرمایا

وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ۝۰ۭ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ كَاَنَّہَا جَاۗنٌّ۔۔۔۝۳۱  [37]

ترجمہ:اور (حکم دیا گیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی جوں  ہی کہ موسی  علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے۔

موسٰی عالم الغیب تونہیں  تھے کہ انہیں  علم ہوتاکہ اگلے لمحہ کیاہونے والاہے اپنی لاٹھی کی یہ کیفیت دیکھ کرموسٰی بشری تقاضوں  کے مطابق سہم گئے،اللہ تعالیٰ نےفرمایااے موسیٰ ! اس فراٹے بھرتے ہوئے اژدھے کوبے خوف وخطر ہوکرپکڑلوہم اسے دوبارہ اپنی پہلی حالت میں  لاٹھی بنادیں  گے، موسٰی نے ہمت کرکے اژدھے کوپکڑلیاجسے پکڑتے ہی وہ اژدھا دوبارہ لاٹھی بن گئی ، اللہ تعالیٰ نے دوسراحکم فرمایااے موسٰی اپناہاتھ اپنی بغل میں  دبالو یہ چاندکی طرح چمکتاہوا نکلے گااورتمہیں  کسی طرح کی کوئی تکلیف معلوم نہ ہو گی، موسیٰ   علیہ السلام  نے حکم کی تعمیل کی اور جب ہاتھ بغل سے باہرنکالاتوخوب چمکتاہوا نکلا، فرمایایہ دوسری نشانی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ۔۔۔۝۳۲ [38]

ترجمہ:یہ دوروشن نشانیاں  ہیں  تیرے رب کی طرف سے فرعون اوراس کے درباریوں  کے سامنے پیش کرنے کے لئے۔

اس لئے کہ ہم لوگوں  کے سامنے حجت اوردلیل پیش کرنے کے لئے تجھے اپنی بڑی نشانیاں  دکھانے والے ہیں ۔

اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ‎﴿٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی ‎﴿٢٥﴾‏ وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی ‎﴿٢٦﴾‏ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِی ‎﴿٢٧﴾‏ یَفْقَهُوا قَوْلِی ‎﴿٢٨﴾‏ وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَهْلِی ‎﴿٢٩﴾‏ هَارُونَ أَخِی ‎﴿٣٠﴾‏ اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی ‎﴿٣١﴾‏ وَأَشْرِكْهُ فِی أَمْرِی ‎﴿٣٢﴾‏ كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیرًا ‎﴿٣٣﴾‏ وَنَذْكُرَكَ كَثِیرًا ‎﴿٣٤﴾‏ إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِیرًا ‎﴿٣٥﴾‏(طہ)
اب تو فرعون کی طرف جا اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! میرا سینہ میرے لیے کھول دےاور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں  اور میرا وزیر میرے کنبے میں  سے کر دےیعنی میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) کو، تو اس سے میری کمر کس دے اور اسے میرا شریک کار کر دے تاکہ ہم دونوں  بکثرت تیری تسبیح بیان کریں  اور بکثرت تیری یاد کریں ، بیشک تو ہمیں  خوب دیکھنے بھالنے والا ہے ۔

اب تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے ربویت اورالوہیت کادعویٰ کیاہواہے ،جیسے فرمایا

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  [39]

ترجمہ:پھر اس نے کہا میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں  ۔

اوروہ ظلم وسرکشی میں  تمام حدوں  کوعبورکرچکاہے، چنانچہ اس موقعہ پر موسیٰ  علیہ السلام  نےانبیاء علیہم السلام کے طریقے کی طرح باری تعالیٰ کے حضور حاجت روائی کے مطابق دست بدستہ ایک زبردست دعاکی اے میرے رب !میرے دل میں  اس منصب عظیم کوسنبھالنے کی ہمت پیداکردے اور میرے کام میں  آسانی پیدافرما دے اگر تو خودمیرامددگارنہ بنا تویہ بھاری بوجھ میرے کمزورشانے نہیں  اٹھاسکیں  گے اورمیرے رب!میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں  پوری وضاحت وبلاغت سے تیراپیغام پہنچا سکوں  اور اگر ضرورت پیش آئے تواپنادفاع بھی کرسکوں اور میرے بھائی ہارون کو میرا مشیر اوربوجھ اٹھانے والاساتھی بناکر میراہاتھ اورکمرمضبوط فرما ،یعنی اسے بھی نبی اور رسول بنادے تاکہ ہم تیری حمدوثنا ، تسبیح اچھی طرح بیان کریں ،ہروقت تیری پاکیزگی بیان کرتے رہیں  اوربیٹھتے اٹھتے اورلیٹتے بکثرت تجھے یاد کریں ،

قَالَ مُجَاهِدٌ: لَا یَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ الذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا، حَتَّى یَذْكُرَ اللَّهَ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَمُضْطَجِعًا

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس وقت تک کوئی بندہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کاذکرکرنے والانہیں  ہوسکتاجب تک وہ کھڑے،بیٹھے اورلیٹے ہرحال میں  اللہ تعالیٰ کاذکرنہ کرے۔[40]

اے اللہ!توہمارے حال ، ہماری کمزوری اورہمارے عجزکوجانتاہے اس لئے جس طرح بچپن سے توہم پر احسان کرتاچلاآتاہے اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں  محروم نہ رکھ ، یہ تیرا رحم وکرم ہے کہ تونے ہمیں  برگزیدہ کیا،ہمیں  نبوت عطافرمائی اورتیری ان نعمتوں  پر ہم تیرے شکر گزارہیں  اورتیرے لئے ہی تمام تعریفیں  سزاوارہیں ۔

قَالَ قَدْ أُوتِیتَ سُؤْلَكَ یَا مُوسَىٰ ‎﴿٣٦﴾‏ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً أُخْرَىٰ ‎﴿٣٧﴾‏ یَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّی وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّی وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَیْنِی ‎﴿٣٩﴾‏ إِذْ تَمْشِی أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن یَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِینَ فِی أَهْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ یَا مُوسَىٰ ‎﴿٤٠﴾‏ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِی ‎﴿٤١﴾‏ اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآیَاتِی وَلَا تَنِیَا فِی ذِكْرِی ‎﴿٤٢﴾‏ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ‎﴿٤٣﴾‏ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهُ یَتَذَكَّرُ أَوْ یَخْشَىٰ ‎﴿٤٤﴾(طہ)
جناب باری تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ تیرے تمام سوالات پورے کردیے گئے ،ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے جبکہ ہم نے تیری ماں  کو وہ الہام کیا جس کا ذکر اب کیا جا رہا ہے کہ تو اسے صندوق میں  بند کر کے دریا میں  چھوڑ دے،  پس دریا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا، اور میں  نے اپنی طرف کی خاص محبت و مقبولیت تجھ پر ڈال دی تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں  کے سامنے کی جائے،(یاد کر) جبکہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگر تم کہو تو میں  اسے بتادوں  جو اس کی نگہبانی کرے، اس تدبیر سے ہم نے تجھے پھرتیری ماں  کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں  ٹھنڈی رہیں  اور وہ غمگین نہ ہو، اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا اس پر بھی ہم نے تمہیں  غم سے بچا لیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا، پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں  میں  ٹھہرا رہا، پھر تقدیر الٰہی کے مطابق اے موسٰی ! تو آیا اور میں  نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرمایا لیا، اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں  ہمراہ لیے ہوئے جااور خبردار میرے ذکر میں  سستی نہ کرنا، تم دونوں  فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے، اسے نرمی سے سمجھاؤ  کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔

قبولیت دعا:

موسٰی کی ساری گزارشات سن کررب کریم نے فرمایااے موسیٰ  علیہ السلام  تیری دعائیں  قبول کی جاتی ہے،ہم تجھ کوانشراح صدرعطاکردیں  گے ،تیرے معاملے کوآسان کر دیں  گے ، تیری زبان کی گرہ کھول دیں  گے اورزبان اتنی صاف کردیں  گے کہ لوگ بات سمجھ لیں  گے اورہم تیرے بھائی ہارون کوتیراوزیرمقررکرکے تیرے ہاتھ مضبوط کر دیں  گے ، قبولیت دعاکی خوشخبری کے ساتھ مزیدتسلی اورحوصلے کے لئے  اللہ تعالیٰ نے موسٰی کے بچپن سے اب تک کے احسان کاذکرکرکے فرمایااے موسٰی !ہم نے تمہاری مانگ کے مطابق سب عطافرما کراحسان کیاہے مگر اس سے بیشتر بھی ہم تم پربڑے بڑے احسان کرچکے ہیں جب تم معصوم دودھ پیتے بچے تھے تمہاری والدہ کوفرعون اور فرعونیوں  کا ہر وقت کھٹکا لگا رہتاتھا ڈرو خوف سے وہ ہر وقت کانپتی رہتی تھیں کہ وہ تمہیں  دوسرے اسرائیلی بچوں  کی طرح قتل نہ کردیں ، اس وقت ہم نے تمہاری ماں  کی طرف وحی کی تھی کہ اس نومولود بچے کودودھ پلاکرایک ٹوکری میں  لٹاکر دریائے نیل میں  بہادو،ہماری مخلوق دریااس بچے کوڈبونے کے بجائے ہماری مقررکردہ جگہ ساحل پرلاڈالے گا اورہماری قدرت سے میرا اوراس بچے کا دشمن ہی اسے اٹھائے گا،جیسے فرمایا

فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا۔۔۔۝۸  [41]

ترجمہ:آخرکار فرعون کے گھر والوں  نے اسے (دریا سے ) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے۔

اوراس کا کچھ بھی بگاڑنہ پائے گابلکہ ہم اس کے دل میں  اس بچے کی محبت ڈال دیں  گے چنانچہ ایساہی ہوااور ہماری تدبیرکے مطابق وہ فرعون جوبے شماربچوں  کوقتل کرواچکاتھا اس کے حکم اوراجرت اداکرکے تم اپنی والدہ کی گودمیں  ہماری نظروں  کے سامنے پرورش پاتے رہے اوراے موسٰی !وہ وقت بھی یاد کرو جب تمہاری بہن تمہاری ٹوکری کے ساتھ ساتھ تمہاری نگرانی کے لئے چل رہی تھی پھراسی نے دایاتلاش کرنے والی عورتوں  سے کہاتھاکہ کیا میں  تمہیں  ایسے گھرکاپتہ بتاوں  جواس بچے کی خوب اچھی طرح کفالت کرے جوانہوں  نے منظورکرلی اوراس طرح ہم نے تم کو دوبارہ تمہاری والدہ کی گودمیں  پہنچا دیاتاکہ اسے تمہاری جدائی کارنج وغم دورہوجائے اوراس کادل مطمئن اور آنکھیں  بھی ٹھنڈی رہیں  ،جیسے فرمایا

وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓی اَہْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَہٗ لَكُمْ وَہُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ۝۱۲   [42]

ترجمہ:اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والیوں  کی چھاتیاں  حرام کر رکھی تھیں  ،یہ حالت دیکھ کر اس لڑکی نے ان سے کہا میں  تمہیں  ایسے گھر کا پتہ بتاؤں  جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں  اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں ؟ ۔

اور اے موسٰی ! تم نے ایک قبطی کوبلاقصورقتل کرڈالاتھااورفرعونیوں  کے پھندے میں  پھنس ہی چکے تھے مگرہم نے وہاں  سے بھی تمہیں  نجات دی،جیسے فرمایا

 قَالَ لَا تَخَفْ۝۰۪ۣ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ۝۲۵ [43]

ترجمہ: اس نے کہا کچھ خوف نہ کرو اب تم ظالم لوگوں  سے بچ نکلے ہو ۔

اس طرح ہم نے تمہیں  مختلف آزمائشوں  سے گزارااوران تمام مواقع آزمائش میں  ہم ہی تیری مدداورچارہ سازی کرتے رہے اورپھرقبطی کے قتل کے بعدتم یہاں  سے نکل کر مدین چلے گئے اوردس سال وہاں  رہے،اب توایسے وقت میں  آیاہے جووقت میں  نے اپنے فیصلے اورتقدیرمیں  تجھ سے ہم کلامی اورنبوت کے لئے لکھاہواتھا اورجب تم موزوں  عمر (چالیس سال ) کوپہنچ گئے تو تمہیں  نبوت سے سرفراز کیا اوراپنے لطف وکرم سے اپنے کام کے لئے تیار کر لیا ہے تواورتیرابھائی میری نشانیوں  یعنی میرے دلائل وبراہین اورمعجزات کے ساتھ دعوت اسلام دینے کے لئے جاؤ  اور دیکھوتم نمازاورمیرے ذکرمیں  سستی نہ کرنا ،جاوتم دونوں  فرعون کے پاس کہ وہ کفر،سرکشی ، ظلم واستبداد کی تمام حدودپھلانگ گیاہے ،اس سے لفظی آداب کاخیال رکھتے ہوئے نرمی ،ملائمت وشائستگی کے ساتھ نہایت سہل اورلطیف بات کرنا،جیسے فرمایا

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِیْلِہٖ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۝۱۲۵   [44]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں  سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو ۔

شایدوہ اس نرم گوئی کےسبب نصیحت قبول کرے یاڈرجاے،جیسے فرمایا

۔۔۔لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝۶۲  [45]

ترجمہ: ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے۔

قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن یَفْرُطَ عَلَیْنَا أَوْ أَن یَطْغَىٰ ‎﴿٤٥﴾‏ قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِی مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ‎﴿٤٦﴾‏ فَأْتِیَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآیَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ‎﴿٤٧﴾‏ إِنَّا قَدْ أُوحِیَ إِلَیْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ‎﴿٤٨﴾‏(طہ)
دونوں  نے کہا اے ہمارے رب ! ہمیں  خوف ہے کہ کہیں  فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں  بڑھ نہ جائے، جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں  تمہارے ساتھ ہوں  اور سنتا اور دیکھتا رہوں  گا، تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں  تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں  موقوف کر، ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں ، اور سلامتی اس کے لیے ہے جو ہدایت کا پابند ہوجائے، ہمارے طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لیے عذاب ہے۔

اندیشے :

موسیٰ  علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام  دونوں  نے عرض کی اے ہمارے رب !فرعون بڑاہی سرکش ہے جیسے ہی ہم اس سے بات کریں  گے ہمیں  اندیشہ ہے کہ وہ ہم پرظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے ،تیراپیغام پہنچانے اوراس پرحجت قائم کرنے سے پہلے ہی وہ ہمیں  کسی عقوبت خانے میں  نہ ڈال دے،اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی وتشفی فرمائی اورارشاد فرمایا تمہیں  اس سے جو اندیشے اوروسوسے لاحق ہیں  ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں  گے،تم اس سے جوکچھ بھی کہوگے اس کے جواب میں  فرعون اوراس کے درباری جوکچھ جواب دیں  گے ہم اسے سنتے اورتمہارے اوراس کے طرزعمل کودیکھتے رہیں  گے اوراس کے مطابق میں  تمہاری مدداوراس کی چالوں  کوناکام کر دیں  گا  اس لئے تمہارے دل میں کسی قسم کی گھبراہت اورڈروخوف کااندیشہ نہیں  رہناچاہیے،اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں  ہے میری اجازت کے بغیرتووہ سانس تک نہیں  لے سکتا،ہم نے تمہیں  رسالت کا جوفریضہ سونپا ہے اس کے بعدہم تمہاری حفاظت سے غافل نہیں  ہوجائیں  گے بلکہ ہماری مددونصرت اورمعاونت ہردم تمہارے ساتھ ہوگی ،جاؤ اس کے پاس اورکہو کہ ہم تیرے رب کی طرف سے آئے ہیں  اوراس سے کہوسلامتی اسی کے لئے ہے جورب کی نازل کردہ ہدایات،فرامین اورقائم کردہ حدود کاپابندہوجائے، اور ہم نے جودو معجزات یدبیضا اورعصا تمہیں  عطافرماکر واضح حجتیں  عطا فرما دیں  ہیں  ،تمہیں  قوی اورمضبوط بنادیاہے ان کوہماری نشانی کے طورپراس کودکھلاؤ شایدوہ اپنے دردناک انجام پر غور وفکر کرکے ہماری شدیدپکڑسے ڈرجائے اور راہ راست اختیار کرے، اوراس کواچھی طرح سمجھادینا کہ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہم دونوں  بھائیوں  کو تمہیں  خبردار کرنے اوراتمام حجت کے لئے تمہاری طرف بھیجاہے تو اب  اللہ تعالیٰ سے ڈرکہ وہ تمہیں  اپنے ظلم وستم اور اعمال بد کے سبب اپنی گرفت میں  نہ لے لئے اورپھر دنیا اورآخرت میں  تجھے کوئی جائے امان نہ ملے، بنی اسرائیل کوجن کواس نے چارسو سال سے اپناغلام بناکر ذلت آمیز عذاب میں  جکڑرکھاہے،وہ انہیں  تکلیف وایذا پہنچانے کے بجائے ان کے ساتھ سلوک واحسان کرے اور انہیں  اپنی گرفت سے آذادکرکے تمہارے ساتھ بھیج دے ،تاکہ تم انہیں  شام کی سرزمین پر لے جاؤ  جس کا اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے،اورواضح کردینا کہ جواس پاکیزہ دعوت کوجھٹلائے گا اور منہ موڑے گا اس کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے ،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۝۳۷ۙوَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۳۸ۙ فَاِنَّ الْجَــحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰى۝۳۹ۭ

[46]

ترجمہ:تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی ،دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔

فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى۝۱۴ۚلَا یَصْلٰىہَآ اِلَّا الْاَشْقَى۝۱۵ۙالَّذِیْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۱۶ۭ [47]

ترجمہ:پس میں  نے تم کو خبردار کر دیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے ،اس میں  نہیں  جھلسے گا مگر وہ انتہائی بد بخت،جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى۝۳۱ۙوَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۳۲ۙ  [48]

ترجمہ:مگر اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی،بلکہ جھٹلا یا اور پلٹ گیا۔

قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا یَا مُوسَىٰ ‎﴿٤٩﴾‏ قَالَ رَبُّنَا الَّذِی أَعْطَىٰ كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ‎﴿٥٠﴾‏ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ ‎﴿٥١﴾‏ قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّی فِی كِتَابٍ ۖ لَّا یَضِلُّ رَبِّی وَلَا یَنسَى ‎﴿٥٢﴾‏ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِیهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ ‎﴿٥٣﴾‏ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّأُولِی النُّهَىٰ ‎﴿٥٤﴾‏ ۞ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِیهَا نُعِیدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ‎﴿٥٥﴾‏(طہ)
فرعون نے پوچھا کہ اے موسٰی ! تم دونوں  کا رب کون ہے ؟ جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی، اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں  کا حال کیا ہونا ہے، جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں  کتاب میں  موجود ہے نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے، اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایاہے اور اس میں  تمہارے چلنے کے لیے راستے بنائے ہیں  اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے، پھر برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں ، تم خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں  کو بھی چراؤ، کچھ شک نہیں  کہ اس میں  عقلمندوں  کے لیے  بہت سی نشانیاں  ہیں ، اسی زمین میں  سے ہم نے تمہیں  پیدا کیا اور اسی میں  پھر واپس لوٹائیں  گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں  گے۔

فرعون تواپنی بادشاہی اوراپنے لشکروں  ،عظیم الشان گاڑیوں ،بڑے بڑے رتھوں  اورخزانوں کے بل بوتے پرلوگوں  کی جانوں  پرقابض ومتصرف تھااسے یہ قدرت حاصل تھی کسی کے ساتھ جوسلوک کرے ،اس کی زبان ہی قانون تھااس گھمنڈمیں  وہ خودکورب اعلیٰ کہتاتھاجیسےفرمایا

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ ۔۔۔      ۝۳۸  [49]

ترجمہ:اورفرعون نے کہااے اہل دربار! میں  تو اپنے سواتمہارے کسی خداکونہیں جانتا۔

وہ وجود باری تعالیٰ کامنکرتھا، اللہ تعالیٰ کا پیغام سن کر بات کوبدلنے کے لئے وجود خالق کے انکارکے طورپر غروروتکبرسے پوچھااے موسٰی !تم دونوں  کارب کون ہے؟ موسٰی نے جواب دیااے فرعون !میرارب اکیلاہے اس کاکوئی ہمسر نہیں  ، اس کا کوئی شریک کارنہیں  ،وہ کسی سے پیدانہیں  ہوااورنہ ہی اس سے کوئی پیدا ہواہے۔

لَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙ  [50]

ترجمہ:نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔

وہ بیوی اور اولادکی ضروریات سے مبراء ہے ،

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ  ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ       [51]

ترجمہ: وہ تو آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں  ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

کائنات کی ہرچیزکوفناہے مگرمیرارب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

 كُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [52]

ترجمہ:ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے،اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔

 اسے نہ نیندآتی ہے اورنہ اونگھ ۔

۔۔۔لَا تَاْخُذُہٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ۔۔۔۝۲۵۵  [53]

ترجمہ:نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔

ساری قدرتیں  ،طاقتیں  اوراختیار اس کے قبضہ قدرت میں  ہیں  ، اس نے اپنی قدرت کاملہ سے سات دنوں  میں  سات زمینوں  اور بغیرستونوں  کے سات بلندآسمانوں  اوران دونوں  کے درمیان جوکچھ ہے تخلیق فرمایا اور ان کے اوپراپنی شان کے لائق اپنے عرش پرمتمکن ہوا ۔

ہُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۴        [54]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فر ما ہوا ۔

اس نے دن کو آگ کی طرح چمکتا دھمکتاہوا سورج ، رات کوٹھنڈی روشنی بکھرنے والا چانداوران گنت ستاروں  کے جھرمٹ تخلیق فرمائے اوران کی بلندی اوروسعت یہ سب چیزیں  آسمان دنیا کی رونق وزینت کاباعث ہیں ۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ  [55]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۔۔۔۝۱۲    [56]

ترجمہ:اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں  سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا ۔

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔۔۔۝۵ [57]

ترجمہ:ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں  سے آراستہ کیا ہے ۔

ان کی طے شدہ گردشوں  سے رات ودن وجودمیں  آتے ہیں  جس میں  تم معاش کے کام اورآرام کرتے ہواور ان کی گردشوں  سے وہ موسموں  کو وجود میں  لاتاہے جس کی وجہ سے انواع واقسام کے پھل ،سبزیاں ،اجناس اور چارے حاصل ہوتے ہیں  ،ان کی گردشوں  سے تم ماہ وسال کی گنتی معلوم کرتے ہو۔

 ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ۝۵  [58]

ترجمہ:وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھٹنے بھڑھنے کی منزلیں  ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں  تاکہ تم اس سے برسوں  اور تاریخوں  کے حساب معلوم کرو ۔

اوران ستاروں  سے رات کو راستہ معلوم کرتے ہو۔

۔۔۔ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۱۶      [59]

ترجمہ: اور تاروں  سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں  ۔

وَہُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔۔۔۝۹۷  [60]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں  کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں  میں  راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔

اوراس نے سمندروں  کی جوزمین کوچاروں  طرف سے گھرے ہوئے ہیں تخلیق فرمائی جس میں  کھارے پانی کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کے چشمے بھی رواں  دواں  ہیں  اوراس کی قدرت سےایک دوسرے میں  ملتے نہیں ۔

۔۔۔وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا۔۔۔۝۶۱ۭ   [61]

ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں  کے درمیان پردے حائل کر دیے۔

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۝۱۹ۙبَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۝۲۰ۚ    [62]

ترجمہ:دو سمندروں  کو اس نے چھوڑ دیا کہ با ہم مل جائیں ،پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں  کرتے ۔

اس کی تسخیرقدرت کا ایک ادنیٰ نمونہ یہ ہے جس میں  تمہاراکوئی کمال یا ہنرنہیں بلکہ  اللہ تعالی ٰ کاحکم اور اس کی مشیت ہے کہ اس نے ہوااور پانی کوایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندرکی سطح پر تمہاری بڑی بڑی کشتیاں  جن کے ذریعہ سے تم سفر اور تجارت کرتے ہو رواں  دورں  رہتی ہیں  ورنہ وہ چاہےتوہواکی تندی وسرکشی اور پانی کی پہاڑوں  جیسی موجوں  کی طغیانی کے آگے تمہاری کشتیوں  اورجہازوں  کاچلناناممکن ہو جائے۔

وَاٰیَةٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّــتَہُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۴۱ۙوَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْكَبُوْنَ۝۴۲ وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْہُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَہُمْ وَلَا ہُمْ یُنْقَذُوْنَ۝۴۳ۙ                                [63]

ترجمہ:ان کے لے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں  سوار کر دیا اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں  اور پیدا کیں  جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ،ہم چاہیں  تو ان کو غرق کر دیں ، کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں  ۔

یہ سب کچھ اس لئے کیاکہ تم ان نعمتوں  پررب کا شکراداکرو جو اس تسخیر بحرکی وجہ سے تمہیں  حاصل ہے ،پھران سمندروں  سے بادلوں  کواٹھاکرجہاں  چاہتا ہے بارش برسا دیتا ہے جس سے مردہ پڑی ہوئی زمین ہری بھری ہو جاتی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔ ۝۱۶۴  [64]

ترجمہ:بارش کے اس پانی میں  جسے اللہ اوپرسے برساتاہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کوزندگی بخشتاہے ۔

آسمان سے برستا ہوا یہ پانی، پہاڑوں  سے نکلتے ہوئے یہ رواں  دواں  دریا ، زمین کے نیچے سے نکلتاہوا میٹھاپانی اورزمین کی روئیدگی کودیکھو جن کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے مگررب اس سے کئی اقسام کے مختلف ذائقوں  والے انواع و اقسام کے پھل ،طرح طرح کی اجناس،مختلف سبزیاں  اور جانوروں  کے چارے نکال لاتاہے۔

 وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۔۔۔۝۴ [65]

ترجمہ:اور دیکھوزمین میں  الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں  جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں  ہیں ، کھجور کے درخت ہیں  جن میں  کچھ اکہرے ہیں  اور کچھ دوہرےسب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں  ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں  اور کسی کو کمتر ۔

اور مختلف نباتات پیداہوتی ہیں  جس سے تم بیماری میں  علاج کرتے ہو،میرے رب نے ہی ہوامیں  اڑتے ہوئے چھوٹے بڑے رنگارنگ پرندے، جنگلوں  میں  کئی اقسام کے درندے ، اورزمین پر رینگنے والے حشرات ارض، تمہارے لئے پالتوجانورگائے ، بھیڑ بکری،اونٹ ، گدھے ،خچراورگھوڑے وغیرہ تخلیق فرمائے ، ادنیٰ واعلیٰ سب مخلوقات اس کی ہی حمدخواں ہیں ، اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کے لئے مسخرکردیا ہے ، اس نے فرشتوں  کونورسے ، جنوں  کوآگ کی لپٹ سے اورانسانوں  کومٹی سے بہترین طورپر تخلیق کیا ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚوَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۝۲۷  [66]

ترجمہ:ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایااور اس سے پہلے ہم جنوں  کو آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔

اور جو شکل و صورت انسان کے لئے مناسب حال تھی اسے عنایت کی۔

 لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [67]

ترجمہ:ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔

دوسری مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو قوت گویائی عطاکرکے سب جانداروں  پر فضیلت بخشی ، اسے اچھے اوربرے کا فرق معلوم کرنے کی تمیز دی۔

وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [68]

ترجمہ:اور دونوں  نمایاں  راستے اسے(نہیں ) دکھا دیے؟۔

اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰى۝۱۲ۡ ۖ  [69]

ترجمہ:بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے ۔

اور جوشکل وصورت و جسامت جانوروں  کے لئے مطابقت رکھتی تھی وہ جانوروں  کوعطاکی ،ہرمخلوق کواس کی طبعی ضرورت کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا اس کے مطابق ہی ہرمخلوق سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعارکے دن گزارتی ہے ،جیسے فرمایا

الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ ۔۔۔۝۷ۚ [70]

ترجمہ:جس نے ہرچیزکوبہترین طریقے سے تخلیق کیا۔

وہ ہی ہرمخلوق کاچاہے پتھرمیں  چھپاہواایک کیڑاہی کیوں  نہ ہو روزی رساں  ہے ،اپنی مشیت سے جس کسی کو چاہتاہے فراغی سے دیتاہے اورجس کی روزی چاہے تنگ کردیتا ہے۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ   [71]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے ۔

وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ۔۔۔۝۷۱   [72]

ترجمہ:اور دیکھو اللہ نے تم میں  سے بعض کو بعض پر رزق میں  فضیلت عطا کی ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۰ۧ  [73]

ترجمہ:تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔

۔۔۔اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۸۲ۧ   [74]

ترجمہ: اللہ اپنے بندوں  میں  سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۳۷  [75]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے(جس کا چاہتا ہے)۔

جس کوچاہے عزت وتمکنت سے ہمکنار کرتا ہے اورجسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتا ہے۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۲۶    [76]

ترجمہ:کہو! پروردگار! ملک کے مالک! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دےبھلائی تیرے اختیار میں  ہے۔

اپنی حکمت ومشیت کے مطابق کسی انسان کو لمبی عمرعطافرماتاہے کہ وہ بالکل بچوں  کی ماننداورکمزورہوجاتاہے اورکسی کومختصرزندگی دیتا ہے۔

وَاللہُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ۝۰ۣۙ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـیْــــًٔـاٌ۔۔۔۝۷۰ۧ    [77]

ترجمہ:اور دیکھو اللہ نے تم کو پیدا کیا پھر وہ تم کو موت دیتا ہے اور تم میں  سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ۔

 وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۝۰ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـیْــــًٔا۔۔۔۝۵  [78]

ترجمہ: ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں  ایک وقت خاص تک رحموں  میں  ٹھیرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں  نکال لاتے ہیں  پھر تمہیں  پرورش کرتے ہیں  تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں  سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔

وہ یہ سب کام اپنی قدرت کے کلمے کن سے کرتا ہے بس وہ کہتاہے ہوجااوروہ چیز وجود میں  آجاتی ہے۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [79]

ترجمہ: وہ آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔قَالَ كَذٰلِكِ اللہُ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۷  [80]

ترجمہ: اللہ جو چاہتاہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [81]

ترجمہ: ہمیں  کسی چیز کو وجود میں  لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں  کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں  ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۳۵ۭ            [82]

ترجمہ:وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

وہ جوچاہے کرگزرتاہے اس کے حکم اور مشیت کوٹالنے والااورکوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

۔۔۔ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللہِ شَـیْـــًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّہْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۔۔۔۝۱۷ [83]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! ان سے کہو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں  اور تمام زمین والوں  کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے؟ ۔

وہ عالم غیب ہے ، رات ہو یا دن ، اندھیرا ہویا اجالا ،خلوت ہویا جلوت ، پہاڑوں  بیابانوں  غاروں  ،جنگلوں  اور صحراؤ ں میں تمہارے حال سے باخبر رہتا ہے۔

۔۔۔وَہُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴   [84]

ترجمہ:وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں  بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔

وہ تمہارے سینوں  کے چھپے بھید اور آنکھوں  کی خیانت جانتاہے۔

اِنَّ اللہَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِـیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۳۸    [85]

ترجمہ:بے شک اللہ آسمانوں  اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں  کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹  [86]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴  [87]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں  کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہوسب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں  کا حال تک جانتا ہے۔

یہ توحیدکے چند دلائل وبراہین ہیں  اگر تم اس پر ایمان نہیں  لاتے تو  اللہ تعالیٰ کی بات کے بعدکس کی بات ہے اس کی نشانیوں  کے بعدکون سی نشانیاں  ہیں  جن پرتم ایمان لاؤ  گے ،اللہ رب العالمین کے یہ چند اوصاف اس کی ذات بابرکات اوراس کی قوتوں  وطاقتوں  کو ماننے کے لئے کافی ہیں  ،کیونکہ لوگوں  کواپنے گزرے آباؤ اجداد کابڑا احترام ہوتا ہے اوروہ ان کے خلاف کچھ سنناپسندنہیں  کرتے فرعون نے اسی نفسیاتی نکتہ کواستعمال کرتے ہوئے لوگوں  کو اکسانے اور سامعین کے اوران کی توسط سے پوری قوم کے دلوں  میں  تعصب کی آگ بھڑکانے کے لئے بڑا سخت سوال کیاپوچھااے موسٰی! اچھایہ بتاؤ کہ اگربات یہی ہے کہ رب صرف وہی ایک  اللہ تعالیٰ ہی ہے تویہ ہم سب کے باپ دادا جو صدہابرس سے نسل درنسل دوسرے بہت سے معبودوں  کی بندگی کرتے چلے آرہے ہیں ان کی تمہارے نزدیک کیاپوزیشن ہے ،کیاوہ سب عذاب کے مستحق تھے؟ اور کیاان سب کی عقلیں  ماری گئی تھیں ؟موسٰی نے فرعون کے خطرناک سوال کے جواب میں  فرمایااس کا علم میرے رب کے سوا کسی کونہیں ،اس کاعلم ہر چیز پرمحیط ہے اس کی نظر سے کوئی چیزاوجھل یامخفی نہیں ۔

اِنَّ اللہَ لَا یَخْفٰى عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۵ۭ [88]

ترجمہ:زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں  ۔

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ۝۰ۭ وَمَا یَخْفٰى عَلَی اللہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۳۸  [89]

ترجمہ:پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں  اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں  اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں  ہےنہ زمین میں  نہ آسمانوں  میں ۔

اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَـہْرَ وَمَا یَخْفٰى۝۷ۭ   [90]

ترجمہ: وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو بھی ۔

نہ ہی اسے نسیان لاحق ہوتاہے جبکہ انسانوں  میں یہ دونوں  نقص موجودہیں ،وہ لوگ جوکچھ بھی کر کے  اللہ تعالیٰ کے ہاں جاچکے ہیں  ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات میرارب جانتاہے میرے رب کے پاس کتاب موجودہے جس میں  سب کچھ درج ہے ان سے جو بھی معاملہ کرناہے اس کووہی جانتاہے وہ ان کے اعمال کے مطابق جزاوسزا دے گا۔موسیٰ  علیہ السلام نے فرمایا

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ۔۔۔۝۰۝۱۰۲  [91]

ترجمہ:(اے فرعون!)توخوب جانتاہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں  زمین اور آسمانوں  کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں  کی ہیں ۔

مگرتم ان سے منہ پھیرتے ہو،جیسے فرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ۝۱۰۵  [92]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں  میں  کتنی ہی نشانیاں  ہیں  جن پرسے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں  اورذراتوجہ نہیں  کرتے ۔

اورفرمایا میرا رب وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے مسخرکرکے بچھونابنادیا۔

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَةً وَّبَاطِنَةً۔۔۔۝۲۰   [93]

ترجمہ:کیا تم لوگ نہیں  دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں  کی ساری چیزیں  تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں ؟۔

جس میں  تم رہائشی اوردفاعی عمارتیں  تعمیرکرتے ہو،باغات لگاتے ہو، کاشتکاری کے لئے اس میں  ہل چلاتے ہو اور اللہ نے اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ،تجارتی ضروریات کے لئے ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لئے تمہارے چلنے کوراستے بنائے۔

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۳۱                     [94]

ترجمہ:اور اس میں  کشادہ راہیں  بنا دیں شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں  ۔

اورتمہاری ضروریات کے لئے اوپر سے پانی برسایاجس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔ ۝۱۶۴      [95]

ترجمہ:بارش کے اس پانی میں  جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے ۔

وَاللہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۶۵ۧ             [96]

ترجمہ:(تم ہر برسات میں  دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مردہ پڑی ہوئی زمین میں  اس کی بدولت جان ڈال دی۔

وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَیُحْیٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔۝۲۴                   [97]

ترجمہ: اور آسمان سے پانی برساتا ہےپھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔

وَاللہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔۝۹  [98]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہےپھر وہ بادل اٹھاتی ہیں  پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں  اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں  جو مری پڑی تھی۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۷  [99]

ترجمہ:خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے،ہم نے نشانیاں  تم کوصاف صاف دکھادی ہیں  شایدکہ تم عقل سے کام لو ۔

پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کے اجناس،انواع و اقسام کے مختلف ذائقوں  والے پھل ،طرح طرح کی سبزیاں  اور چارے پیداکیے جنہیں  تم خودبھی استعمال میں  لاتے ہو اوراپنے جانوروں  کوبھی چراتے ہو،اگرتم میں  کچھ بھی عقل ہے تویہ چندنشانیاں میرے رب کی معرفت کے لئے کافی ہیں  ،اورفرمایااللہ نے اسی زمین کی مٹی سے انسان کی تخلیق کی ہے ، تمہاری چندروزہ عارضی طبعی زندگی کے بعد جس میں  اللہ تعالیٰ کے فرامین اور حدود کو پامال کرکے اس رب کے عطاکردہ چندٹکے پاکر تکبروعنادکی وجہ سے تمہاری گردنیں  اکڑی ہوئی ہیں  تم پر موت طاری کرتا ہے اور جس طرح اللہ انسان کو عدم سے وجودمیں  لایاتھااسی طرح جب چاہے گا دوبارہ زندہ کرکے اعمال کی جواب دہی کے لئے اپنے حضورلاکھڑا کرے گا اور ہر عمل کرنے والے کواس کے اعمال کا بدلہ دینے کے لئے میزان قائم کرے گا اور محسنین کواس کے احسان کی اور بدکاروں کوان کے اعمال کے مطابق جزاوسزا دے گا یہ کام اس کے لئے بہت آسان ہیں  جنہیں  کرتے ہوئے اسے کسی قسم کی تھکن یاتکلیف نہیں  ہوتی ۔

وَلَقَدْ أَرَیْنَاهُ آیَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ ‎﴿٥٦﴾‏ قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یَا مُوسَىٰ ‎﴿٥٧﴾‏ فَلَنَأْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ‎﴿٥٨﴾‏ قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّینَةِ وَأَن یُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ‎﴿٥٩﴾‏(طہ)
ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں  دکھا دیں  لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کردیا، کہنے لگا اے موسٰی ! کیا تو اسی لیے آیا ہے کہ ہمیں  اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے، اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں  اسی جیسا جادو ضرور لائیں  گے پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں  اور نہ تو، صاف میدان میں  مقابلہ ہو،موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہوجائیں ۔

جادوگربلانے کافیصلہ:

ہم نے فرعون کوآفاق وانفس کے تمام دلائل اورمعجزات دکھائے مگروہ ان سب کوجھٹلائے چلاگیااورایمان نہ لایااوردونوں معجزات کو دیکھ کربڑے فخروغرورسے موسٰی سے کہنے لگاتم اپنے جادوکے بل بوتے پرہمیں  اپنے ملک سے باہرنکال دینا چاہتے ہوہم بھی تیرے مقابلے میں  ایساہی زبردست جادولاتے ہیں  جن کاتم مقابلہ نہیں  کرسکوگے ،ہماراہی بول بالاہوگاپھرتم شرمندگی وخجالت سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوگے ،اب جس وقت اور جس جگہ تومقابلہ کرناچاہتاہے خودہی طے کر لے،جس کی خلاف ورزی نہ تم کرو گے اورنہ ہم ،مقابلہ لوگوں  کے سامنے صاف اورکھلے میدان میں  ہوگا، فرعون کامدعایہ تھاکہ ایک دفعہ جادوگروں  سے لاٹھیوں  اوررسیوں  کے سانپ بنواکردکھادوں  ، جادوکا مقابلہ جادوسے ہوجائے گاجس سے موسٰی شکست فاش کھاجائیں  گے توموسٰی کے معجزے کاجواثرلوگوں  کے دل ودماغ پرہواہے وہ دور ہو جائے گا اوران کے دین ودھرم کا بول بالارہے گاجبکہ یہ موسٰی کی منہ مانگی مرادتھی موسٰی نے فرمایاالگ کوئی دن اورجگہ مقرر کرنے کی کیاضرورت ہے جشن کادن قریب ہے جس میں  تمام ملک کے لوگ دارالسلطنت میں  کھینچ کرآجاتے ہیں  وہیں  میلے کے میدان میں  مقابلہ ہوجائے تاکہ ساری قوم دیکھ اور سن لے اوروقت بھی چاشت کاہونا چاہیے تاکہ تمہیں ،تمہارے درباریوں  ،سرداروں  اورعام لوگوں  کے دل ودماغ میں  شک وشبہ کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے ،اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ معجزے اورجادوکافرق سب پرظاہرہوجائے چنانچہ جشن ،میلہ ،عیدکادن طے ہوگیا(جووہ انیس جولائی کونئے سال کے شروع میں سالانہ ایک مخصوص جگہ پر مناتے تھے) فرعون نے ہرکاروں  کوحکم دیاکہ ملک میں  جہاں  جہاں  کوئی ماہر جادوگرموجودہواسے یہاں  لے آؤ اوراسی طرح عوام کوبھی ترغیب دی گئی کہ وہ میلے کے دن اس حق وباطل کامقابلہ دیکھنے کے لئے دن چڑھے جمع ہوجائیں ۔  

فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَیْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ ‎﴿٦٠﴾‏ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَىٰ ‎﴿٦١﴾‏ فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَیْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَىٰ ‎﴿٦٢﴾‏ قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ یُرِیدَانِ أَن یُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَیَذْهَبَا بِطَرِیقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ ‎﴿٦٣﴾‏ فَأَجْمِعُوا كَیْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَىٰ ‎﴿٦٤﴾‏(طہ)
پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا، موسٰی (علیہ السلام) نے ان سے کہا تمہاری شامت آچکی،اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افتراء نہ باندھو کہ وہ تمہیں  عذابوں  سے ملیامیٹ کردے، یاد رکھو وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا جس نے جھوٹی بات گھڑی، پس یہ لوگ آپس کے مشوروں  میں  مختلف رائے ہو گئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے، کہنے لگے یہ دونوں  محض جادوگر ہیں  اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں  تمہارے ملک سے نکال باہر کریں  اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کریں ، تو تم بھی اپنا کوئی داؤ اٹھا نہ رکھو پھر صف بندی کرکے آؤجو آج غالب آگیا وہی بازی لے گیا۔

جادوگروں  کودعوت حق :

دوردرازکاسفرکرکے سارے جادوگرایک وقت میں  تودارالسلطنت میں  داخل نہیں  ہوئے تھے لہذاجوبھی مصرمیں  پہنچتاگیاموسٰی اپنے فرض منصبی کے مطابق اس کودین حق کی دعوت دیتے رہے،دلائل سےرب کی توحیدکی نشانیاں  بیان کرتے رہے ،دعوت حقہ کی پاکیزگی بتلاتے اوررب کی سخت گرفت سے ڈراتے رہے،جنت کی دلفریبیاں ،اس کی نعمتیں  اورجہنم کی ہولناکیاں  بیان فرماتے رہے، یہانتک کہ فرعون اپنے سارے مکروفریب کے ہتھکنڈے جمع کرکے مقررہ دن اور وقت پرمقابلے میں  آگیا اوراپنے تخت پر بیٹھا سامنے دست بدستہ کھڑے جادو گروں  کو قرب خصوصی سے نوازنے کی ترغیب دینے لگا ، دارالسلطنت میں مقابلہ دیکھنے کے لئے پورے ملک سے خلقت ٹوٹی پڑرہی تھی، جب سب لوگ جمع ہوگئے توموسٰی نے بھی سب جادوگروں کومخاطب کرکے وعظ فرمایا اور انہیں  عذاب الہٰی سے ڈرایافرمانے لگے دیکھو اللہ تعالیٰ پرجھوٹ نہ باندھو اگرایسا کرو گے تووہ رب ایک سخت عذاب سے تمہیں تباہ وبرباد کر دے گا،لوگوں  کی آنکھوں  میں  دھول جھونک کر باطل مسلک کوسچ بنانے کے جتن نہ کرو ، حق وسچ ہمیشہ سرخرواورجھوٹ ہمیشہ ہی نامرادہوتاہے ، اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ، وہی ہرچیز کا خالق، مشکل کشااور روزی رساں  ہے اور تمام کائنات اس کے اشارے پرچل رہی ہے جس کو ایک مقررہ دن وہ ختم کردے گااورپھرتمہیں تمہاری قبروں  سے دوبارہ زندہ کرکے تمہارے اعمال کا محاسبہ کرے گااوراس کے مطابق جزاء وسزامقررفرمائے گا ، جادوگروں  نے جوکچھ اب تک سناتھااورموسیٰ   علیہ السلام نے ان کوجوتبلیغ کی تھی اس سے اپنے دلوں  میں  اپنی کمزوری کو خود محسوس کررہے تھے ،ان کومعلوم تھاکہ موسٰی نے فرعون کے دربارمیں  جوکچھ دکھایاتھاوہ جادو نہیں  تھا،وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں  ڈرتے اورہچکچاتے ہوئے آئے تھے جب عین موقع پرموسٰی نے ان کوللکارکرمتنبہ کیاتوان کاعزم یکایک متزلزل ہوگیا اور ان میں  باہم اختلاف پیداہوگیااورچھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے کہ اس بڑے تہوارکے موقع پرجبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی جمع ہیں  ، کھلے میدان اوردن کی پوری روشنی میں  یہ مقابلہ کرنامناسب بھی ہے یانہیں ؟ اگر یہاں  ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کافرق کھل گیاتو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی بعض کہنے لگے کہیں  واقعی موسٰی  اللہ  کے رسول ہی نہ ہوں  اورکچھ اس کے برعکس راے کا اظہارکرنے لگے آخر کارکچھ لوگ کہنے لگے موسیٰ علیہ السلام  اوراس کابھائی ہارون  علیہ السلام  دونوں  محض جادوگر ہیں اگریہ اپنے جادوکے زورپرغالب آگئے تواشراف و سادات ان کی طرف مائل ہو جائیں  گے جس سے ہمارا اقتدارخطرے میں  پڑ جائے گااوران کے اقتدارکا امکان بڑھ جائے گا،بنی اسرائیل تمہاری غلامی سے نجات پاجائیں  گے اور اپنے مشرکانہ دھرم کو صحیح جانتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے بہترین طریقہ یامذہب اسے بھی یہ ملیامیٹ کرڈالیں  گے ،جیسے ہردور میں  باطل مذہب اورفرقے کے پیروکاراسی زعم فاسد میں  مبتلا ہوتے ہیں ، جادو گرآپس میں مشورہ طے کرکے باآواز بلند کہنے لگے موسیٰ   علیہ السلام اور ہارون  علیہ السلام  دونوں  بھائی ماہرفن زبردست جادوگرہیں آج اپنے سارے فن ،ساری تدابیراکٹھی کرکے متحد ہوکر ،ایکا کر کے ہوشیاری اور دانائی سے جم کر مقابلہ کرو کہیں  سستی نہ کرلینا بس یہ یادرکھناکہ پھرموقعہ نہیں  ملے گا آج جوفتح مندہواوہی سربلندرہے گی۔

الُوا یَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ ‎﴿٦٥﴾‏ قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ ‎﴿٦٦﴾‏ فَأَوْجَسَ فِی نَفْسِهِ خِیفَةً مُّوسَىٰ ‎﴿٦٧﴾‏ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ ‎﴿٦٨﴾‏ وَأَلْقِ مَا فِی یَمِینِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَیْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ أَتَىٰ ‎﴿٦٩﴾(ط)(
کہنے لگے اے موسٰی ! یا توتو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں ،جواب دیا کہ نہیں  تم ہی پہلے ڈالو،  اب تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں  اور لکڑیاں  ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں ، پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں  ڈر محسوس کیا، ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا، اور تیرے دائیں  ہاتھ میں  جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے، انہوں  نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں  سے بھی آئے کامیاب نہیں  ہوتا۔

مقابلہ حق وباطل :

مقابلہ کے میدان میں  جادوگرموسٰی  سے مخاطب ہوکرکہنے لگے اے موسٰی !پہلے تم اپناجادوڈالتے ہویاہم ڈالیں ،موسٰی نے پہلے انہیں  اپنے ہر طرح کے   شعبدے ڈالنے کے لئے کہاتاکہ تمام حاضرین پرواضح ہوجائے کہ جادوگروں  کی اتنی بڑی تعداد جوفرعون جمع کرکے لے آیاہے اوراس طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں  سے وہ خوف زدہ نہیں  ہیں ،دوسرے جادوگروں  کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں  جب معجزہ ربی سے چشم زدن میں  خاک ہوجائیں  گی تواس کااثربھی بہت اچھارہے گااور جادوگربھی یقینا ًیہ سوچنے پرمجبور ہو جائیں  گے کہ موسٰی کی پاکیزہ دعوت جادونہیں  بلکہ اسے رب کی تائیدوحمایت حاصل ہے کہ آن واحدمیں  اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے شعبدہ بازیوں  کونگل گئی،چنانچہ موسٰی کے انہیں  پہل کرنے پرجادوگروں  نے بڑے زبردست جادوکامظاہرہ کیااوردعویٰ کرتے ہوئے بولے فرعون کی عزت کی قسم! ہم ہی غالب ہوں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ۝۴۴    [100]

ترجمہ: اور بولے فرعون کے اقبال کی قسم ! ہم ہی غالب رہیں  گے۔

اورجادوسے لوگوں  کی آنکھوں  پرنظربندی کرکے اپنی رسیوں  اور لاٹھیوں  کومیدان مقابلہ میں  پھنکاجس سے سارا میدان سانپوں  سے بھرگیا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ۝۱۱۶        [101]

ترجمہ:انہوں  نے جو اپنے انچھر پھینکے تو نگاہوں  کو مسحور اور دلوں  کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے۔

اتنے سارے سانپوں  کو لہراتے ہوئے دیکھ کر لوگ دہشت ذدہ ہوگئے، جادوکے زورسے موسٰی کوبھی ان کی پھینکی ہوئی رسیاں  اورلکڑیاں  سانپ کی طرح دوڑتی ہوئی اپنی طرف لپکتی ہوئی محسوس ہوئیں  حالانکہ رسیاں  اور لکڑیاں  حقیقتاً سانپ نہیں  بنی تھیں  اورنہ بن سکتی تھیں بلکہ صرف فریب نظرتھا،اس دہشت ناک منظرکودیکھ کرموسٰی نے بھی دل میں  بشری طبعی خوف محسوس کیا اور شایدیہ بھی خوف ہوکہ میری لاٹھی ڈالنے سے قبل ہی کہیں  لوگ ان شعبدہ بازیوں  سے متاثرنہ ہو جائیں ،موسٰی کوتویہ علم نہیں  تھاکہ ان کے ہاتھ پرکس نوعیت کامعجزہ ظہور پذیر ہونے والاہے یایہ خوف اس لئے ہواکہ ان جادوگروں  نے جوشعبدے دکھلائے وہ لاٹھیوں  ،رسیوں  کے ذریعہ ہی دکھلائیں  ہیں  جبکہ موسٰی کے پاس بھی لاٹھی ہی تھی جسے انہوں  نے زمین پرپھینکناتھا،موسٰی کے دل میں  خیال پیداہواکہ دیکھنے والے اس شبہے اورمغالطے میں  نہ پڑجائیں  اوروہ یہ نہ سمجھ لیں  کہ دونوں  نے ایک ہی قسم کاجادوپیش کیا ہے اس لئے فیصلہ کیسے ہوکہ کون ساجادوہے اورکون سامعجزہ؟کون غالب ہوااورکون مغلوب؟مغالطے کی وجہ سے مقصدحاصل نہیں  ہوسکے گا موسٰی کے اندیشوں  اورخوف کو دورکرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ نے فرمایااے موسٰی !کسی لحاظ سے بھی تمہیں  ڈرنے یاخوف ذدہ ہونے کی ضرورت نہیں تو ہی ان پرغالب وبرتر رہے گااپنے دائیں  ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں  پھینک دے،حکم ملتے ہی موسیٰ   علیہ السلام  نے اپنی لاٹھی میدان میں  پھینک دی جو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک زبردست اژدھا بن گئی، جس نے حاضرین کے دیکھتے ہی دیکھتے میدان میں  دوڑتے چھوٹے بڑے سارے سانپوں  کے طلسم فریب کونگل کر میدان کو صاف کردیا،ہمیشہ کی طرح  اللہ  تعالیٰ نے حق کوکامیاب وکامران اور سربلند کیااور باطل کی گردن سرنگوں  ہوگئی۔

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱    [102]

ترجمہ:اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیاباطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

نظارادیکھنے کے لئے آئے ہوئے سب لوگوں  نے جان لیاکہ جادوگروں  کے شعبدوں  میں کچھ اصلیت نہیں  تھی ،یہ توایک فریب نظر تھا،بس ریت کی ایک دیوارتھی جوہواکاایک جھونکابھی برداشت نہ کرسکی،سچ ہے جھوٹ، مکروفریب کی تدابیر، جادوٹونکے کتنے ہی زبردست کیوں  نہ ہوں  کامیاب نہیں  ہوسکتے ، اللہ تعالیٰ کی بات ہی ہمیشہ سر بلندرہتی ہے اورباطل کبھی بھی سربلندنہیں  ہو سکتا،جیسےفرمایا

 ۔۔۔وَكَلِمَةُ اللهِ هِىَ الْعُلْیَا۔۔۔  ۝۴۰ [103]

ترجمہ: اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے ۔

فَأُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ ‎﴿٧٠﴾‏ قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِیرُكُمُ الَّذِی عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِی جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ‎﴿٧١﴾(طہ)
اب تو تمام جادوگر سجدے میں  گرپڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام)کے رب پر ایمان لائے،  فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے ؟ یقیناً یہی تمہارا بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، (سن لو) میں  تمہارے ہاتھ پاؤں  الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں  میں  سولی پر لٹکوا دوں  گا اور تمہیں  پوری طرح معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں  سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔

جادوگروں  کاقبول حق :

کسی بھی سربراہ کی چندخصوصیات ہوتی ہیں  اس کی نگاہ دوررس اوربارک بین ہو،کسی بات کی گہرائی میں  اترنے کی صلاحیت رکھتاہو،غروروتکبرسے کنارہ کش اورہٹ دھرمی کے بجائے حق بات کوقبول کرنے کامزاج رکھتا ہو،اپنے ساتھیوں  کے ساتھ نرم گفتاراورہمدردہو،مگرفرعون ان تمام صلاحیتوں  سے خالی تھااس نے موسٰی  علیہ السلام اوران کی پاکیزہ دعوت کواہمیت ہی نہ دی حالانکہ موسٰی نے اس سے حکومت تو نہیں  چاہی تھی ، اپنے لئے کوئی عہدہ یامال ودولت تو نہیں  چاہاتھا،اب یہ اس کی بدبختی کہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح براہین و دلائل کے باوجوداپنی ضدوہٹ دھرمی کی بناپرمنکرہی رہااس کے مقابلے میں اب جادوگروں  کودیکھیں  جن کی ساری زندگی کفروشرک میں  گزری تھی مالک الارض وسماوات کی عبادت کے بجائے جادو اور اس کی رسومات سیکھنے اورسکھانے میں  گزری تھی، اللہ تعالیٰ سے اتنے بے خوف تھے کہ انعام واکرام کے لالچ میں  وقت کے رسول کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے اورڈٹ کرمقابلہ کیابھی، مگرجب انہوں  نے حق کوفتح مند اورجادوکی ذلت وبے چارگی دیکھی تو حق تک پہنچنے میں  انہیں  کچھ دیرنہیں  لگی ،فرعون ان کی نظروں  میں  ہیچ ہوگیا، انہیں فرعون جیسے ظالم وجابر بادشاہ کاکوئی خوف نہ آیا،فرعون کی بادشاہی کی ساری طاقت وقوت کوپائے حقارت سے ٹھکرا دیا ، انعام واکرام اوردربارمیں  بلندمرتبہ سب بھول گئے، موسیٰ   علیہ السلام  کی پیش کردہ دعوت حق ان کے رگ وریشے میں  سماگئی اوروہ فوراًبے اختیارسجدے میں  گر گئے اورسب مجمع کے سامنے منہ سے بول اٹھے کہ ہم ایمان لے آئے رب العالمین پرجوپروردگارہے موسیٰ اورہارون  علیہ السلام  کا ،جیسے فرمایا

فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ۝۴۶ۙقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۷ۙرَبِّ مُوْسٰی وَهٰرُوْنَ۝۴۸      [104]

ترجمہ:اس پرسارے جادوگربے اختیار سجدے میں  گرپڑے اوربول اٹھے کہ مان گئے ہم رب العالمین کو، موسی  علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام  کے رب کو۔

وَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ۝۱۲۰ۚۖقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۲۱ۙرَبِّ مُوْسٰی وَہٰرُوْنَ۝۱۲۲     [105]

ترجمہ:اور جادوگروں  کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں  سجدے میں  گرا دیاکہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو ،اس رب کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں  ۔

ایساعمل کرکے جادوگروں نے محض اپنی شکست ہی کا اعتراف نہیں  کیاکہ فرعون یہ کہہ سکتاکہ ایک بڑے جادوگر موسیٰ   علیہ السلام نے اپنے سے چھوٹے جادو گروں  کونیچادکھادیاہےبلکہ اتنے بڑے مجمع کے سامنے سجدے میں  گرکرموسیٰ   علیہ السلام  اور ہارون  علیہ السلام  کے رب پرایمان لے آنااس بات کاکھلااعلان واقرارتھاکہ موسیٰ   علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام  جو ہدایت لے کرمبعوث ہوئے ہیں  وہ ہمارے جادوکے فن کی چیزہی نہیں  ہے ،ایسا کام کسی انسان کانہیں  بلکہ صرف اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ سے ہی انجام پذیر ہو سکتا ہے ، فرعون جونہایت جھوٹا ، مکار اور بڑاہٹ دھرم شخص تھاہکابکارہ گیا،اتنے بڑے مجمع میں  اپنی واضح ہارپراس کی سٹی گم ہوگئی، اس کے لئے یہ واقعہ بڑاعجیب اورنہایت حیرت ناک تھاکہ جن جادوگروں کے ذریعہ سے وہ فتح وغلبہ اورنصرت کی آس لگائے بیٹھا تھا،وہ نہ صرف مغلوب ہوگئے بلکہ موقع پر ہی اس رب پرایمان لے آئے جس نے موسٰی وہارون  علیہ السلام  کودلائل نبوت دے کر اس کی طرف بھیجاتھا،فرعون اوراس کے مقربین نے وقت کے رسولوں  کے مقابلے کے لئے ایک بڑی چال چلی تھی مگررب کی چال کے آگے کس کی چال کامیاب ہو سکتی ہے  اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں  کی چال کوالٹاانہی پر پلٹ دیا ، جیسے فرمایا

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ۔۔۔۝۲۶     [106]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ( حق کو نیچا دکھانے کے لیے)ایسی ہی مکاریاں  کر چکے ہیں  تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی ۔

فرعون نے تمام ملک کے ماہر جادوگروں  کوبلاکر منظر عام پر اس لئے مظاہرہ کرایاتھاکہ عوام الناس کوموسٰی کے جادوگر ہونے کایقین دلائیں  یاکم ازکم شک ہی میں  ڈال دیں  لیکن اس مقابلہ میں  شکست کھانے کے بعدخود ان کے اپنے بلائے ہوئے ماہرین فن نے بالاتفاق فیصلہ کردیاکہ موسٰی جوچیزپیش کررہے ہیں  وہ ہرگزجادونہیں  بلکہ خالق الارض وسماوات کی طاقت وقوت کاکرشمہ ہے جس کے آگے کسی جادو کازورنہیں  چل سکتا، لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غوروفکرسے کام لیتااورموسیٰ   علیہ السلام  کی فتح مبین کوکھلے دل ودماغ سے تسلیم کرکے گھرآئی ہوئی ایمان کی دولت سمیٹ لیتاوہ آتش غضب سے دیوانہ ہو گیااور پانسہ پلٹتے دیکھ کر سیاسی قلابازی کھائی کہ وہ اس سارے معاملہ کوموسٰی اور جادوگروں  کی سازش قرار دیدے اورپھرجادوگروں  کوجسمانی عذاب اورقتل کی دھمکی دے کران سے اس الزام کا اقبال کرالےجس سے وہ ڈرامائی اثرکافورہوجائے جادوگروں  کی شکست پھران کے سجدے میں  گرنے اوررب پرایمان لانے سے رعایاپرمرتب ہواتھا، یہ سوچ کر اس نے جادوگروں  کوکہا میں  نے ابھی کسی کی کامیابی یاناکامی کااعلان نہیں  کیاتھا،میں  نے ابھی تمہیں  ان دونوں  کے الٰہ کوماننے کی اجازت دی ہی نہیں  تھی کہ تم ان دونوں  کے الٰہ پرایمان لے آئے ، پھرجادوگروں  پرالزام لگاکربولاتم سب اس کے چیلے لگتے ہو اورتمہاری سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح سے تم ہمیں  جویہاں  کے مالک اور حکمران ہیں یہاں  سے بے دخل کردواورخودہماری جگہ سنبھال لو(یہ سیاسی بات کرکے فرعون نے اپنی رعایاکوجویہ فیصلہ کن مقابلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے یہ یقین دلانے کی سعی کی کہ جادوگروں  کاموسیٰ   علیہ السلام  اورہارون  علیہ السلام  کے رب پرایمان لانا محض ملی بھگت ہے ،یہ ملی بھگٹ انہوں  نے یوں  طے کی ہوگی کہ یہ ماہر فن جادوگرموسیٰ   علیہ السلام  سے جان بوجھ کرشکست کھا جائیں  گے ،اس سے لازماًملک میں مذہبی انقلاب برپا ہو جائے گا اور قوم اپنے آبائی دین پرقائم نہ رہ سکے گی جس سے فائدہ اٹھا کریہ حکومت پرقبضہ کر لیں  گے اورپھریہ سب مل کرحکومت کے مزے لوٹیں  گے،جیسے فرمایا

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝۰ۚ اِنَّ ہٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْہَآ اَہْلَہَا۔۔۝۱۲۳ [107]

ترجمہ:فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں  تمہیں  اجازت دوں  ؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں  نے اس دارالسّلطنت میں  کی تاکہ اس کے مالکوں  کو اقتدار سے بےدخل کر دو ۔

(اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں  معلوم ہوا جاتا ہےتمہاری اس شکست میں  موسیٰ   علیہ السلام  کے کسی معجزے کاکوئی تعلق نہیں )پھرجادوگروں  کوقتل وتعذیب کی دھمکیاں  دینی شروع کردیں کہ ابھی تمہیں  معلوم ہوجاتاہے کہ اس خطرناک سازش کے بدلے میں  میں  تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوں  ، میں  تمہارے دایاں  ہاتھ اوربایاں  پیرکٹوادوں  گاتاکہ تم ہلنے جلنے کے قابل ہی نہ رہواوراس پربس نہیں  کروں  گامزید تمہیں  کھجورکے تنوں  پر سولی پرلٹکادوں  گا،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کوقول ہے کہ یہ سزائیں  سب سے پہلے فرعون ہی نے دی تھیں ۔[108]

قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ قَطَعَ الْأَیْدِی وَالْأَرْجُلِ مِنْ خِلَافٍ فِرْعَوْنُ،قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ صَلَبَ فِی جُذُوعِ النَّخْلِ فِرْعَوْنُ

سب سے پہلے فرعون نے ہی مخالف سمت میں  ہاتھ پاؤ ں  کاٹے،اورسب سے پہلے فرعون نے ہی کھجورکے تنوں  پرپھانسی دی۔[109]

پھرتمہیں  اندازہ ہوجائے گاکہ موسٰی کے رب کی سزا دردناک ، دیرپا ہے یا میری۔

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالَّذِی فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِی هَٰذِهِ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ‎﴿٧٢﴾‏ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطَایَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَیْرٌ وَأَبْقَىٰ ‎﴿٧٣﴾‏ إِنَّهُ مَن یَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا یَمُوتُ فِیهَا وَلَا یَحْیَىٰ ‎﴿٧٤﴾‏ وَمَن یَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ ‎﴿٧٥﴾‏ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ ‎﴿٧٦﴾(طہ)
انہوں  نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں  ان دلیلوں  پر جو ہمارے سامنے آچکیں  ہیں  اور اس اللہ پر جس نے ہمیں  پیدا کیا ہے اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیاوی زندگی میں  ہی ہے، ہم (اس امید سے) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں  معاف فرما دے اور (خاص کر) جادوگری (کا گناہ) جس پر تم نے ہمیں  مجبور کیا ہے، اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، بات یہی ہے کہ جو بھی گناہ گار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں  حاضر ہوگا اس کے لیے دوزخ ہے جہاں  نہ موت ہوگی اور نہ زندگی ،اور جو بھی اس کے پاس ایمان کی حالت میں  حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہوں  گے اس کے لیے بلند وبالا درجے ہیں ، ہمیشگی والی جنتیں  جن کے نیچے نہریں  لہریں  لے رہی ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ( ہمیشہ)رہیں  گے،یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا ۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت وہ جادوگرمشرک جودن کے ابتدائی حصہ میں  حق کے مقابلے میں  تلے کھڑے تھے، جوچندلمحوں  بیشتر اپنے آبائی دین کی حمائت ونصرت کے لئے گھروں  سے چل کرآئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کوموسٰی کے حملہ سے بچالیاتوسرکارسے ہمیں  انعام واکرام توملے گا اسی دن کے دوسرے پہرمیں  مومن بن کررب کے ہاں  بلند درجوں  پر فائز ہوئے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتِ السَّحَرَةُ سَبْعِینَ رَجُلًا أَصْبَحُوا سَحَرَةً وَأَمْسَوْا شُهَدَاءَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے یہ جادوگرسترآدمی تھے جوصبح کے وقت جادوگرمگرشام کوشہداء تھے۔[110]

چند لمحوں  میں  ایمان کی حلاوت نے ان جادوگروں  کی سیرت وکردار میں  کتنابڑاانقلاب برپاکردیااب جو نعمت ایمان نصیب ہوئی توانہی کی حق پرستی اوراولوالعزمی اس حد کوپہنچ گئی کہ تھوڑی دیرپہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جاتے تھے اب اس کی کبریائی اورجبروت کوٹھوکر مار رہے ہیں  اوران بدترین سزاوں  کوبھگتنے کے لئے تیارہیں  جن کی وہ دھمکی دے رہاہے مگرحق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں  جس کی صداقت ان پرکھل چکی ہے اہل ایمان نے کہاہم نے رب پرایمان لاکرکوئی جرم نہیں  کیاجس کی توہمیں  سزا دینا چاہتاہے یہ توہمارے کردارکی بہت بڑی خوبی ہے کہ جب حقیقت حال ہمارے سامنے صاف واضع ہوکر ظاہر ہو گئی توہم نے غروروتکبرمیں ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرنے کے بجائے اس ایمان کی دولت اورلذت کے مقابلے میں  تمام دنیاوی مفادات ٹھکرادیئے اورسچ کومان لیا تاکہ رب ہماری خطاوں  اور گناہوں  کومعاف فرما دے اوراس جادوگری پربھی جس پرتونے ہمیں  مجبورکیاتھااب یہ تو ہرگز نہیں  ہوسکتاکہ واضح ہدایت کی نشانیوں  کے آجانے کے بعدتجھے ترجیح دیں  تو ہمارے لئے جوسزا چاہے تجویزکرلے تجھے اختیارہے مگراس سے زیادہ تواور کیا سزادے سکتاہے کہ ہماری طبعی زندگی کاگلاکاٹ دے اس کے بعدتو تجھے کوئی اختیار نہیں  ،جادوگروں  نے اپنے آپ کوہرسزاکے لئے پیش کرکے ثابت کردیا کہ ان کاموسٰی کی صداقت پرایمان لانا کسی سازش کانہیں  بلکہ سچے اعتراف حق کانتیجہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جومجرم بن کراپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لئے جہنم کاہولناک عذاب ہے جس میں  وہ موت اور زندگی کے درمیان لٹکتارہے گا ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ۝۰ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ۝۳۶ۚ [111]

ترجمہ:اور جن لوگوں  نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں  اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں  کوئی کمی کی جائے گی، اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں  ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو ۔

وَیَتَجَنَّبُہَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ    [112]

ترجمہ:اور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت ،جو بڑی آگ میں  جائے گاپھر نہ اس میں  مرے گا اور نہ جیے گا۔

 وَنَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ۝۰ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ۝۷۷       [113]

ترجمہ:وہ پکاریں  گے اے مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے وہ جواب دے گاتم یوں  ہی پڑے رہو گے۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِینَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا یَمُوتُونَ فِیهَا وَلَا یَحْیَوْنَ، وَلَكِنْ نَاسٌ – أَوْ كَمَا قَالَ – تُصِیبُهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ – أَوْ قَالَ: بِخَطَایَاهُمْ – فَیُمِیتُهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا صَارُوا فَحْمًا أَذِنَ فِی الشَّفَاعَةِ، فَجِیءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ، فَیُبَثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَیُقَالُ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِیضُوا عَلَیْهِمْ، فَیَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِی حَمِیلِ السَّیْلِ “ قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حِینَئِذٍ: كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ بِالْبَادِیَةِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا وہ جہنمی جو اس میں  ہمیشہ رہیں  گے ان پر نہ تو موت آئے گی اور نہ ہی انہیں  زندگانی نصیب ہوگی،لیکن کچھ لوگ جوگناہوں  کی وجہ سے دوزخ میں  جائیں  گے،دوزخ کی آگ انہیں  ماردے گی حتی کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں  گے  توان کے بارے میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی پھر انہیں  اس طرح لایا جائے گاکہ وہ گروہ در گروہ ہوں  گے اورانہیں  جنت کی نہروں  پرپھیلادیاجائے گااورکہاجائے گااے اہل جنت !ان پرپانی ڈالو، تووہ اس طرح اگیں  گے جیسے سیلاب کی گزرگاہ میں  نرم ونازک سی نباتات اگتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے اس تشبیہ کو سننے کے بعد قوم میں  سے ایک شخص نے کہایوں  معلوم ہوتاہے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاتعلق اہل بادیہ سے ہو۔[114]

اورجواس کے حضور ایمان اورعمل صالحہ لے کر حاضرہوگا ایسے سب لوگوں  کے لئے بلنددرجے ہیں ،

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجَنَّةُ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَیْنَ كُلِّ دَرَجَتَیْنِ مَسِیرَةُ مِائَةِ عَامٍ، وَقَالَ عَفَّانُ: كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاهَا دَرَجَةً، وَمِنْهَا تَخْرُجُ الْأَنْهَارُ الْأَرْبَعَةُ، وَالْعَرْشُ مِنْ فَوْقِهَا، وَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت کے سودرجے ہیں اور ہر دو درجوں  کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہےاورعفان نے فرمایااتنافاصلہ ہے جتنا آسمان اورزمین کے درمیان ہےاورفردوس جنت کاسب سے اعلیٰ درجہ ہے اس سے چارنہریں  نکلتی ہیں  اوراس کے اوپرعرش ہےلہذاتم جب اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو فردوس کاسوال کرو۔[115]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ أَهْلَ الجَنَّةِ یَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا یَتَرَاءَوْنَ الكَوْكَبَ الدُّرِّیَّ الغَابِرَ فِی الأُفُقِ، مِنَ المَشْرِقِ أَوِ المَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَهُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الأَنْبِیَاءِ لاَ یَبْلُغُهَا غَیْرُهُمْ ، قَالَ:بَلَى وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا المُرْسَلِینَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنتی لوگ اپنے سے بلندکمرے والوں  کواوپرسے اسی طرح دیکھیں  گے جیسے چمکتے ستارے کوجوصبح کے وقت رہ گیا ہو آسمان کے کنارے پورب یاپچھم میں  دیکھتے ہیں ،ان میں  ایک دوسرے سے افضل ہوگا،لوگوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توانبیاء کے محل ہوں  گے جنہیں  ان کے سوااورکوئی نہ پاسکے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ،اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے یہ ان لوگوں  کے لیے ہوں  گے جواللہ تعالیٰ پرایمان لائے اور انبیاء کی تصدیق کی۔[116]

وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَمِنْهُمْ وَأَنْعَمَا

اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں  ہےاورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ یقیناانہی میں سے ہیں  اوربڑی فضیلت والے ہیں ۔[117]

گھنے سایوں  والے سدابہارباغ ہیں  جن کے نیچے انواع اقسام کی نہریں  بہ رہی ہوں  گی ،ان میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے،یہ جزا ہے اس شخص کی جس نےشرک سے خودکوپاک کرلیا، اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی اوران تمام امورکی پیروی کی جس کی خبرپیغمبروں  نے دی۔

وَلَقَدْ أَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِی فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ ‎﴿٧٧﴾‏ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِیَهُم مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْ ‎﴿٧٨﴾‏ وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَىٰ ‎﴿٧٩﴾(طہ)
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں  رات میرے بندوں  کو لے چل،اوران کے لیے دریامیں  خشک راستہ بنالے پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر، فرعون نے اپنے لشکروں  سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے والا تھا، فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں  ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا۔

جب موسٰی نے لمبے عرصہ تک دعوت توحیددے کر فرعون اوراس کی قوم پرہدایت پہنچانے کی ہرطرح کی حجت قائم کردی ،ہرطرح کی کھلی کھلی نشانیاں  دکھادیں  ،رب نے بھی آخری عذاب سے بیشتر چھوٹے چھوٹے عذاب دے کرانہیں  راہ ہدایت پرپلٹنے کاموقع مہیاکیاکہ شایدوہ رب کے حضور عاجزی پراترآئیں  اورصراط مستقیم پرچل پڑیں  اپنے گناہوں  پر پشیمان ہوکررب سے اپنی مغفرت چائیں مگروہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں  ہوئے اورتکذیب روش پرقائم رہے،بنی اسرائیل پر ان کاظلم وستم کم ہونے کے بجائے بڑھتاہی گیا توآخر رب نے فرعون اوراس کی قوم کومہلت کی گھڑیاں  ختم کردینے کافیصلہ فرمایاکیونکہ اب اس کے بغیرکوئی اورچارہ کارنہیں  تھاکہ انہیں  عذاب سے دوچار کرکے رہتی دنیاتک عبرت بنادیا جائے تاکہ آنے والی قوموں  اورنسلوں  تک یہ بات پہنچ جائے کہ  اللہ تعالیٰ کی بات ہی سربلندرہتی ہے اورکفروشرک چاہے کیسی شان وقوت سے آئے ذلیل وخوارہی ہوکررہتاہے،  اللہ تعالیٰ نے موسٰی کوحکم بھیجاکہ راتوں  رات بنی اسرائیل کولیکرمصرسے ہجرت کرجائیں  تاکہ جب تک فرعون کوبنی اسرائیل کے فرارکاعلم ہووہ لوگ کافی دورنکل چکے ہوں  اورپیشگی تسلی دیتے ہوئے فرمایافرعون تمہیں  اتنی آسانی سے جانے نہیں  دے گاجب اسے تمہارے فرارکا پتہ چلے گاتووہ تمہارا تعاقب کرے گااس موقعہ پر اورسمندرکے بیچ سے گزرتے ہوئے گھبرانانہیں ،چنانچہ موسٰی نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں  میں  ہجرت کے احکامات روانہ کردیئے کہ سب لوگ مصرسے ہجرت کے لئے تیاررہیں ،چنانچہ ایک خاص رات مقررکردی گئی کہ اس رات تمام بنی اسرائیل نے مہاجربن کرنکل پڑناہے ،اوراس مقررہ رات کوموسیٰ   علیہ السلام نے بنی اسرائیل اورغیراسرائیلی کو جمع کرکے ایک بڑے قافلہ کی شکل میں  تھیبس سے کوچ کردیا،بحراحمرسے بحرروم (میڈیٹرینین )تک کاپوراعلاقہ کھلاہواتھامگراس علاقہ کے تمام راستوں  پرفوجی چھاؤ نیاں  تھیں  جن سے بخیریت نہیں  گزراجاسکتا تھااس لئے موسیٰ   علیہ السلام نے بحراحمرکی طرف جانے والاراستہ اختیارکیاتاکہ سمندرکے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سیناکی طرف نکل جائیں ،صبح جب فرعون کوبنی اسرائیل کے فرارکاعلم ہواتووہ بنی اسرائیل کوپکڑنے کے لئے اپنے لشکرلے کرآپہنچا،جیسے فرمایا

فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِیْنَ۝۶۰ [118]

ترجمہ:صبح ہوتے یہ لوگ ان کے تعاقب میں  چل پڑے۔

توبنی اسرائیل جن کے دلوں  میں  ابھی ایمان جاگزین نہیں  ہواتھافرعون کے لشکرکودیکھ کر گھبراگئے اورکہنے لگے کہ اب توہم پکڑے گئے ،جیسے فرمایا

فَلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓی اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ۝۶۱ۚ [119]

ترجمہ:جب دونوں  گروہوں  کا آمناسامناہواتو موسی  علیہ السلام  کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔

موسی  علیہ السلام  نے جن کواپنے رب پرکامل یقین تھافرمایا

 قَالَ كَلَّا۝۰ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ۝۶۲  [120]

ترجمہ: ہرگزنہیں  میرے ساتھ میرارب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ   علیہ السلام کوحکم دیا کہ اپناعصا سمندر پر ماراور سمندرمیں  سے سوکھی سڑک بنالے ،جیسے فرمایا

 فَاَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۝۰ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۝۶۳ۚ   [121]

ترجمہ:ہم نے موسی   علیہ السلام  کووحی کے ذریعہ سے حکم دیاکہ ماراپنا عصا سمندرپر،یکایک سمندر پھٹ گیااوراس کاہرٹکڑاایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہوگیا۔

اور اس میں  بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں  کے گزرنے کے لئے بارہ خشک راستے بن گئے، جس میں  سے بنی اسرائیل بڑے آرام سے گزرکردوسرے کنارے پرپہنچ گئے ،بنی اسرائیل کے گزرتے ہی فرعون بھی ان راستوں  میں  اپنے لشکرسمت داخل ہوگیامگرابھی وہ بیچ راستے میں  ہی تھاکہ اللہ کے حکم سے راستے کے دونوں  طرف کی موجیں  آپس میں  مل گئیں  اور فرعون اوراس کا لشکر ڈوب کرہلاک ہوگیا، فرعون نے اپنی قوم کوگمراہ ہی کیاتھاکوئی صحیح رہنمائی نہیں  کی تھی ۔

 یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ قَدْ أَنجَیْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ‎﴿٨٠﴾‏ كُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِیهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِی ۖ وَمَن یَحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِی فَقَدْ هَوَىٰ ‎﴿٨١﴾‏ وَإِنِّی لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ ‎﴿٨٢﴾(طہ)
اے بنی اسرائیل ! دیکھو ہم نے تمہیں  تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں  طرف کا وعدہ اور تم پر من وسلویٰ اتارا، تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ اور اس میں  حد سے آگے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہوجائے وہ یقیناً تباہ ہوا، ہاں  بیشک میں  انہیں  بخش دینے والا ہوں  جو توبہ کریں  ایمان لائیں  نیک عمل کریں  اور راہ راست پر بھی رہیں ۔

احسانات کی یاددہانی :

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پراپنی نعمتوں  اوراحسانات کاتذکرہ فرمایااے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں  تمہارے دشمن فرعون اوراس کے لشکر کوتمہاری آنکھوں  کے سامنے سمندر میں  غرق کرکے ان کے ظلم وستم سے نجات دلائی ، جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰      [122]

ترجمہ:پھروہیں  تمہاری آنکھوں  کے سامنے فرعونیوں  کوغرقاب کیا۔

اورموسیٰ   علیہ السلام کوحکم دیاتھابچھڑے کی پرستش کے جرم کی توبہ کے لئے تمہارے سترنمائندے ساتھ لے کرکوہ طورکے مشرقی دامن میں  چالیس دن کے لئے آئیں  تاکہ اللہ تمہارے سامنے ان سے ہمکلام ہو اور تمہاری دینی نعمت کی تکمیل  کے لئے شریعت عطاکرے ،اوربے آب وگیاہ بیابان کی چالیس (۴۰) سال کی دشت نوردی میں  تمہیں فاقوں  سے بچانے کے لئے مسلسل باافراط رزق سے نوازا جو تمہیں  بلامشقت حاصل ہوجاتاتھا تاکہ اللہ قادرمطلق نے جوپاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاکرشکراداکرواور حدسے تجاوزنہ کروورنہ تم پرمیر ا عذاب ٹوٹ پڑے گا اورجس پرمیراعذاب نازل ہوتاہے وہ پھرخائب وخاسرہوکرجہنم میں  داخل ہوکرہی رہتا ہے ، البتہ جوبخوف الٰہی کفروشرک ،فسق وفجور اوربدعات سے توبہ کرلے اور اللہ وحدہ لاشریک ، اس کے فرشتوں ،نازل کردہ کتابوں ،اس کے رسولوں  اورقیامت کے دن پرایمان لے آ ئے اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں  عمل صالحہ اختیارکرے اور اس پر ثابت قدم رہےتووہ بہت زیادہ بخشنے والابے پایاں  رحمت کامالک ہے ۔

وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ یَا مُوسَىٰ ‎﴿٨٣﴾‏ قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِی وَعَجِلْتُ إِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ ‎﴿٨٤﴾‏ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ‎﴿٨٥﴾‏ فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ یَا قَوْمِ أَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن یَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِی ‎﴿٨٦﴾‏ قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِیُّ ‎﴿٨٧﴾‏ فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِیَ ‎﴿٨٨﴾‏ أَفَلَا یَرَوْنَ أَلَّا یَرْجِعُ إِلَیْهِمْ قَوْلًا وَلَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ‎﴿٨٩﴾(طہ)
اے موسٰی ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کرکے) کون سی چیز جلدی لے آئی ؟ کہا کہ وہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں  اور میں  نے اے رب ! تیری طرف جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہوجائے، فرمایا ! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں  ڈال دیا اور انہیں  سامری نے بہکا دیا ہے، پس موسیٰ (علیہ السلام) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو ! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں  کیا تھا ؟ کیا اس کی مدت تمہیں  لمبی معلوم ہوئی ؟ بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو ؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا، انہوں  نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کے خلاف نہیں  کیا بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے انھیں  ہم نے ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے، پھر اس نے لوگوں  کے لیے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے اور موسیٰ کا بھی،لیکن موسیٰ بھول گیا ہے، کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں  دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں  دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے۔

موسٰی کورب سے ملاقات کابڑاشوق تھاہم کلامی کایہ دوسراموقعہ تھاجب وہ سترآدمیوں  کولیکرکوہ سیناکی طرف چلے تو رب سے شوق ملاقات میں  ان آدمیوں  سے آگے بڑھ گئے اوروہ لوگ پیچھے رہ گئے، جب مطلوبہ جگہ یعنی کوہ سیناکے داہنی جانب وقت سے پہلے پہنچ گئے تورب نے موسٰی سے پوچھااے موسٰی !تمہیں  اپنی قوم سے پہلے میرے حضورکیا چیز لے کرآئی؟ موسٰی نے عرض کیااے میرے رب! وہ لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں  مجھے توتیری رضاکی طلب اوراس کی جلدی تھی،رب نے فرمایاسنوہم نے تیری قوم کو آزمائش میں  ڈال دیاہے اور وہ گمراہ ہوگئے ہیں سامری نے بچھڑابناکرانہیں  اس کی پرستش پرلگادیاہے،موسٰی کو بنی اسرائیل کے مشرکانہ فعل کاسن کرسخت غصہ ہوااوروہ غیظ وغضب کی حالت میں  واپس قوم کے پاس آئے اورانہیں  زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہاکہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں  کاوعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں  حاصل ہوتی رہی ہیں ،تمہارے رب نے تمہیں  مصرسے بخیروخیریت نکالاجبکہ تمہارے پاس سمندرعبورکرنے کاکوئی ذریعہ نہیں  تھا،تمہیں  فرعون کی غلامی سے نجات دی اورتمہاری آنکھوں  کے سامنے فرعون اوراس کے سرداروں  کوسمندرمیں  غرق کردیا،تمہارے لئے اس تپتی صحرا میں  بادلوں  کے سائے ،خوراک اور پانی کے بارہ چشموں  کا بندوبست فرمایا ،کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں  ہوئے،اب اس نے تمہیں  شریعت جیسی عظیم نعمت عطاکرنے کاجووعدہ کیاتھاکیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا،کیااللہ کاوعدہ پوراہونے میں  مدت درازلگ گئی تھی یاپھر رب کے باغی بن کر عذاب کودعوت دیناچاہتے تھے اورجووعدہ تم نے مجھ سے کیاتھاکہ جب تک میں  کوہ طور سے واپس نہ آجاؤ ں  تم  اللہ کی اطاعت اوراس کی عبادت پرقائم رہوگے اس کی بھی تم نے خلاف ورزی کی ہے اوربڑی ہی بری حرکت کی ہے ،تم لوگ چنددن بھی صبرنہیں  کر سکتے تھے کہ میری واپسی کا انتظار ہی کرلیتے اوردیکھتے کہ رب نے تمہیں کیاہدایت دی ہے،قوم کے لوگوں  فرسودہ عذرکرتے ہوئے کہاکہ اے موسٰی !ہم نے اپنے اختیار سے کچھ نہیں  کیاہے بلکہ یہ غلطی ہم سے اضطراری طورپرسرزدہوگئی ،اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بہترسمجھاکہ(فرعونیوں  سے مستعارلئے ہوئے) زیورات ایک گڑھے میں  پھینک دیں  پھرسامری نے ان زیورات کواٹھالیا اور انہیں  پگھلا کر ایک بچھڑا بنا ڈالاجس میں  ہواکے اندراورباہرآنے جانے سے بیل کی سی آوازنکلتی تھی،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ  لَا وَاللَّهِ مَا كَانَ خُوَارُهُ إِلَّا أَنْ یَدْخُلَ الریح فی دبره فیخرج فِیهِ، فَیُسْمَعَ لَهُ صَوْتٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے اللہ کی قسم !اس کی آوازکی بھی حقیقت یہ ہے کہ جب ہوااس کے دبرسے داخل ہوکرمنہ سے خارج ہوتی توایک آوازسی پیداہوجاتی تھی۔[123]

اس آوازسے بنی اسرائیل بہکاوے میں  آگئے اور چند لوگوں  نے یہ کہناشروع کردیاکہ موسیٰ اللہ سے ملنے طورپرگئے ہیں  جبکہ تمہارااورموسیٰ کامعبودتویہ ہے ، موسٰی تو بھول گئے ، اللہ تعالیٰ نے حماقت بیان فرمائی کیاوہ دیکھتے نہ تھے کہ سونے کا وہ بے جان بچھڑا ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ہی دنیاوآخرت میں  نفع ونقصان کاکچھ اختیار رکھتا ہے جبکہ معبودتووہی ہوسکتاہے جوفریادسننے اورنفع ونقصان پہنچانے اورحاجت روائی پرقدرت رکھتاہو۔

وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ یَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِی وَأَطِیعُوا أَمْرِی ‎﴿٩٠﴾‏ قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عَاكِفِینَ حَتَّىٰ یَرْجِعَ إِلَیْنَا مُوسَىٰ ‎﴿٩١﴾‏ قَالَ یَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَیْتَهُمْ ضَلُّوا ‎﴿٩٢﴾‏ أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَیْتَ أَمْرِی ‎﴿٩٣﴾‏ قَالَ یَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلَا بِرَأْسِی ۖ إِنِّی خَشِیتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ‎﴿٩٤﴾(طہ)
اور ہارون (علیہ السلام)نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو ! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرواور میری بات مانتے چلے جاؤ،  انہوں  نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں  گے،  موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اے ہارون ! انہیں  گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا، ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں  جائے بھائی ! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں  آپ یہ (نہ) فرمائیں  کہ تو نے بنی اسرائیل میں  تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔

موسی  علیہ السلام  کے آنے سے پہلے ہی ہارون  علیہ السلام  نے ان کوہرچندسمجھایابجھایا کہ لوگو! سامری نے سونے کوپگھلاکر جو بچھڑاڈھالاہے اس کی وجہ سے تم آزمائش میں  پڑ گئے ہوتمہارارب تو رحمٰن ہے جس کی طرف سے تمام نعمتوں  کافیضان جاری ہے،لہذااس کے سامنے جھکواوراس بچھڑے کی پرستش چھوڑکر تم میری پیروی کرواور میری بات مانو ،مگروہ لڑنے مرنے پرتیارہوگئے اور ہارون  علیہ السلام  کی بات ماننے سے صاف انکارکردیا اورکہا جب تک موسی  علیہ السلام  ہمارے پاس واپس نہ آجائے ہم تواسی کی عبادت وتعظیم میں  لگے رہیں  گے ،قوم کے رنگ ڈھنگ دیکھ کرمجبوراًہارون  علیہ السلام  خاموش ہوگئے ،قوم کوڈانٹنے کے بعدموسی  علیہ السلام  پھراپنے حقیقی بھائی ہارون  علیہ السلام  کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں  ملامت کرتے ہوئے کہااے ہارون! جب تم نے انہیں  بچھڑے کی پرستش کرتے ہوئے دیکھاتوکس چیز نے تمہیں  روکاتھاکہ میرے طریقے پرعمل نہ کرویامیرے پیچھے آکرمجھے اس کی اطلاع نہ دو،میں  تمہیں  اپنی جانشینی سونپ کرگیاتھامگر تم نے نیابت کاصحیح حق ادانہیں  کیا ،جیسے فرمایا

وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۱۴۲   [124]

ترجمہ: موسیٰ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے پیچھے تم میری قوم میں  میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں  کے طریقے پر نہ چلنا ۔

ہارون  علیہ السلام  نے رقت قلبی سے جواب دیااے میری ماں  کے بیٹے ! میری داڑھی نہ پکڑنہ میرے سرکے بال کھینچ،میں  نے ہرممکن کوشش سے ان کواس راہ سے روکنے کی کوشش کی اور کوئی کوتاہی نہیں  برتی لیکن مجھے اس بات کاڈرتھاکہ کہیں  واپس آکرتومجھے یہ نہ کہے کہ تونے بنی اسرائیل کے درمیان تفریق ڈال دی اورمیرے آنے کا انتظار کیوں  نہ کیا۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یَا سَامِرِیُّ ‎﴿٩٥﴾‏ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ‎﴿٩٦﴾‏ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِی الْحَیَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِی ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ‎﴿٩٧﴾‏ إِنَّمَا إِلَٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ‎﴿٩٨﴾‏(طہ)
موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں  دکھائی نہیں  دی، تو میں  نے فرستادہ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں  ڈال دیا اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لیے بھلی  بنادی،کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں  تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہرگز نہیں  ٹلے گا، اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کئے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں  ریزہ ریزہ اڑادیں گے، اصل بات یہی ہے کہ تم سب کا معبود برحق صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں ، اس کا علم تمام چیزوں  پر حاوی ہے ۔

انجام سامری :

اب موسٰی اصل مجرم سامری جوایک مکاراورفتنہ پردازشخص تھاکی طرف متوجہ ہوئے اورپوچھاتونے کیاکیاتھااس نے جواب دیاکہ میں  نے  اللہ کے فرستادہ (جبرائیل  علیہ السلام ) کو گزرتے ہوئے دیکھا جوان لوگوں  کونظرنہ آئے، میں  نے اس کے گھوڑے کے سم کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھالی اورسنبھال کارکھ لی،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ، قَالَ: مِنْ تَحْتِ حَافِرِ فَرَسِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آیت’’ پس میں  نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی ۔‘‘کامطلب یہ ہے میں  نے جبریل کے گھوڑے کے پاؤ ں  کے نیچے سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی۔ [125]

اس مٹی کومیں  نے پگھلے ہوئے زیورات میں  ڈال دیاتو اس سے ایک قسم کی آوازآنی شروع ہو گئی جوان کے فتنے کاباعث بن گئی ،میرے نفس نے مجھے ایساہی سمجھایااورمیں  نے اس کے مطابق کام کیا،مگرموسیٰ   علیہ السلام نے سامری کے گھڑے ہوئے اس پرفریب افسانے کواس کے منہ پردے مارااور اسے بددعادی مجھ سے دورہوجا،اس دنیاکی زندگی میں تواپنی زبان سے خود ہی سے لوگوں  کومطلع کرتارہے گا کہ میں  اچھوت ہوں  مجھے ہاتھ نہ لگانامجھ سے دور رہومجھے نہ چھونا اورآخرت کا عذاب تیرے حیلہ وفن اور مکر و فریب کے مطابق اس دنیاکی سزا کے علاوہ ہوگاجوتجھے بھگتنا پڑے گا ، چنانچہ موسٰی کی بددعاسے زندگی بھرکے لئے معاشرے سے اس کے تعلقات ٹوٹ گئے اور وہ اچھوت بن کررہ گیا چنانچہ اسے چھوتے ہی چھونے والا اور سامری دونوں  بخار میں  مبتلا ہو جاتے، اس لئے جب سامری کسی انسان کودیکھتاتوفوراًچیخ اٹھتااورکہتامجھے نہ چھوناتاکہ وہ بخارکے عذاب سے بچ جائے ، پھر یہ انسانوں  کی بستی سے نکل کرجنگل میں  چلاگیااورجانوروں  کے ساتھ زندگی گزار کر مرکھپ گیا اور یوں  عبرت کانمونہ بنارہا اور اے سامری !اب تو اپنے اس ا لٰہ کی بے بسی و لاچاری بھی دیکھ لے گاجس کی توتعظیم وعبادت کرتاتھا ،جس کی محبت تیرے دل میں  رچ بس گئی تھی کہ ہم اس کاکیاحشرکرتے ہیں  ہم شرک کے اس آثار کو تیزآگ میں  جلا ڈالیں  گے اور اس کانام ونشان تک مٹادینے کے لئے اس کاریزہ ریزہ دریامیں  بہا دیں  گے،چنانچہ موسیٰ   علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اس کوتلف کردیا ،پھرآپ  علیہ السلام  اپنی قوم سے مخاطب ہوکربولے اے میری قوم کے لوگو! یادرکھوتمہار ا ا لٰہ توبس ایک  اللہ ہے جس کاکوئی ہمسر اور شریک نہیں  ،نہ اسے کسی نے جناہے اورنہ اس نے کسی کوجنا ہے اس کی بیوی یا اولاد نہیں  وہ ان ضروریات سے مبراہے ،چنانچہ صرف اسی کے ساتھ محبت کی جائے ،اسی پرامیدیں  رکھی جائیں ،اپنی مشکلات وپریشانیوں  اوردکھ دردمیں اسی کو پکاراجائے ،وہی مشکل کشا،حاجت روا،روزی رساں  اورنفع ونقصان کامالک ہے،صرف وہی تمام تکالیف،پریشانیوں  اورمشکلات کودورکردینے کی قدرت رکھتا ہے ، اوروہ اپنے عرش پر بیٹھا کائنات کاکاروبار چلا رہا ہے اس کاعلم ہرچیز پر حاوی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [126]

ترجمہ:اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَیْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا ‎﴿٩٩﴾‏ مَّنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وِزْرًا ‎﴿١٠٠﴾‏ خَالِدِینَ فِیهِ ۖ وَسَاءَ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حِمْلًا ‎﴿١٠١﴾‏ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًا ‎﴿١٠٢﴾‏ یَتَخَافَتُونَ بَیْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا ‎﴿١٠٣﴾‏ نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُولُونَ إِذْ یَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِیقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا یَوْمًا ‎﴿١٠٤﴾‏(طہ)
اس طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں  بیان فرما رہے ہیں  اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں  ، اس سے جو منہ پھیر لے گا وہ یقیناً قیامت کے دن اپنا بھاری بوجھ لادے ہوئے ہوگا جس میں  ہمیشہ ہی رہے گا،  اور ان کے لیے قیامت کے دن (بڑا) برا بوجھ ہے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور گناہ گاروں  کو ہم اس دن (دہشت کی وجہ سے) نیلی پیلی آنکھوں  کے ساتھ گھیر لائیں  گے، وہ آپس میں  چپکے چپکے کہہ رہے ہوں  گے کہ ہم تو (دنیا میں ) صرف دس دن ہی رہے،جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں  اس کی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ، ان میں  سب سے زیادہ اچھی راہ والا کہہ رہا ہوگا  کہ تم صرف ایک ہی دن رہے۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح ہم نے صدیوں  پہلے فرعون اورموسیٰ کاقصہ بیان کیاہے اس طرح آپ کوباخبرکرنے کے لئے سابقہ انبیاء کے عبرت انگیز حالات وواقعات بھی بیان کررہے ہیں  تاکہ آپ عبرت کے ان پہلوؤ ں  کولوگوں  کے سامنے حق الیقین کے ساتھ نمایاں  کریں تاکہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈریں  اورسیدھی راہ اختیارکریں  ،اورہم نے عظیم نوازش کے طورپر تمہیں قرآن کریم عطاکیاہےتاکہ لوگ اس سے نجات وسعادت کاراستہ اختیار کریں اورجوکوئی اس سے روگردانی کرے گا،اس پرایمان نہیں  لائے گا اوراس کی ہدایات اورفرامین سے پہلوتہی کرے گا اس کانامہ اعمال نیکیوں  سے خالی اوربرائیوں  سے پرہوگا،اورایسے سب لوگ جن کانامہ اعمال نیکیوں  سے خالی اور گناہوں  سے بھراہواہوگاہمیشہ ہمیشہ عذاب جہنم میں  مبتلارہیں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ۔۔۔۝۱۷     [127]

ترجمہ:اور انسانی گروہوں  میں  سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔

جس سے وہ نہ بچ سکیں  گے اورنہ ہی بھاگ سکیں  گے، جیسے فرمایا

كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ۧ     [128]

ترجمہ:جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں  گے پھر اسی میں  دھکیل دیے جائیں  گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝۰ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْـرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۰              [129]

ترجمہ:اور جنہوں  نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں  گے اسی میں  دھکیل دیے جائیں  گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے ۔

اورقیامت کے دن ان کے لئے (اس جرم کی ذمہ داری کا بوجھ)بڑاتکلیف دہ بوجھ ہوگا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ القَرْنِ قَدِ التَقَمَ القَرْنَ وَاسْتَمَعَ الإِذْنَ مَتَى یُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاصاحب قرن یعنی اسرافیل  علیہ السلام  قرن کو منہ سے لگائےکھڑ ا ہے اورکان لگائے ہوئے ہے کہ کب رب اسے پھونکنے حکم دے اوروہ اس میں  پھونک مار دے۔[130]

صورکی آوازکے ساتھ ہی سب متنفس اپنی قبروں  سے نکل کرمیدان محشرکی طرف دوڑنے لگیں  گےاس وقت مجرموں  کے دیدے شدت ہول اوردہشت سے پتھرائے ہوئے ہوں  گے،میدان محشرکی طرف دوڑتے ہوئے مجرم اپنی لمبی دینوی زندگی کوجسے انہوں  نے عیش وآرام اورلہوولعب میں  گنوادیاتھا اوربرزخی زندگی کوجسے وہ ناممکن سمجھتے تھے دونوں  ہی کو بہت قلیل سمجھیں  گے اوراندازہ لگاکرآپس میں  سرگوشیاں  کریں  گے کہ دنیامیں  مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں  گے ، ایک مقام پر فرمایا

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّیْنَ۝۱۱۳  [131]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ پوچھے گابتاؤ  زمین میں  تم کتنے سال رہے؟وہ کہیں  گے ایک دن یادن کابھی کچھ حصہ ہم وہاں  ٹھیرے ہیں  شمارکرنے والوں  سے پوچھ لیجئے ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝۵۵وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ۝۰ۡفَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۵۶ [132]

ترجمہ: اور جب وہ ساعت برپا ہوگی تو مجرم قسمیں  کھا کھا کر کہیں  گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں  ٹھیرے ہیں  اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں  دھوکا کھایا کرتے تھےمگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں  گے کہ خدا کے نوشتے میں  تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روز حشر ہےلیکن تم جانتے نہ تھے۔

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّیْنَ۝۱۱۳قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱۴    [133]

ترجمہ:پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا بتاؤ زمین میں  تم کتنے سال رہے؟وہ کہیں  گے ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں  ٹھیرے ہیں  شمار کرنے والوں  سے پوچھ لیجیے، ارشاد ہوگا تھوڑی ہی دیر ٹھیرے ہوناکاش! تم نے یہ اس وقت جانا ہوتا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہمیں  خوب معلوم ہے کہ وہ کیا اندازے لگا رہے ہوں  گے اورکیاباتیں  کررہے ہوں  گے ، اورہم یہ بھی جانتے ہیں  کہ اس وقت ان میں  سے جوزیادہ سے زیادہ عاقل اور محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گاکہ نہیں  ، تمہاری دنیاکی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔

الغرض کفارکودنیا کی زندگی مختصراور ایک خواب کی طرح معلوم ہوگی۔

وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُهَا رَبِّی نَسْفًا ‎﴿١٠٥﴾‏ فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ‎﴿١٠٦﴾‏ لَّا تَرَىٰ فِیهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا ‎﴿١٠٧﴾‏ یَوْمَئِذٍ یَتَّبِعُونَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا ‎﴿١٠٨﴾‏ یَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِیَ لَهُ قَوْلًا ‎﴿١٠٩﴾‏ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا یُحِیطُونَ بِهِ عِلْمًا ‎﴿١١٠﴾‏(طہ)
وہ آپ سے پہاڑوں  کی نسبت سوال کرتے ہیں  تو آپ کہہ دیں  کہ انہیں  میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا اور زمین کو بالکل ہموار صاف میدان کرکے چھوڑے گا جس میں  تو نہ کہیں  موڑ توڑ دیکھے گا نہ اونچ نیچ، جس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں  گے جس میں  کوئی کجی نہ ہوگی اور اللہ رحمٰن کے سامنے تمام آوازیں  پست ہوجائیں  گی سوائے کھسر پھسر کے تجھے کچھ بھی سنائی نہ دے گا، اس دن سفارش کچھ کام نہ آئے گی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے، جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہےمخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں  ہوسکتا۔

یہ لوگ قیامت کوناممکن سمجھتے ہوئے بطوراستہزا تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخراس دن یہ فلک بوس پہاڑکہاں  چلے جائیں  گے؟اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ میرارب انہیں  زمین سے اکھاڑپھینکے گااوریہ ہوامیں  دھنکی ہوئی روئی کے گالوں  کی طرح اڑتے پھریں  گے اوروہ آپس میں  ٹکراکرریزہ ریزہ ہوجائیں  گے اورپھر دھول بن کرزمین پرپھیل جائیں  گے ، جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ       [134]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اُون کی طرح ہوں  گے۔

اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ۝۱ۙلَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ۝۲ۘخَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ۝۳ۙاِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ   [135]

ترجمہ:جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گاتو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگاوہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت ہوگی،زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی،اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں  گےکہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں  گے ۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَةً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔۔۔۝۸۸    [136]

ترجمہ:آج تو پہاڑوں  کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں  مگر اس وقت یہ بادلوں  کی طرح اڑ رہے ہوں  گے۔

وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً۔۔۔۝۴۷ۚ [137]

ترجمہ:فکر اس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں  کو چلائیں  گےاور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے۔

وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۝۱۰ۭ [138]

ترجمہ:اور پہاڑ اڑے اڑے پھریں  گے۔

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [139]

ترجمہ: زمین اس وقت ایک بارگی ہلا ڈالی جائےگی،اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں  گےکہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں  گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ۝۹ۙ    [140]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں  گے ۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّہِیْلًا۝۱۴ [141]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں  گے اور پہاڑوں  کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں ۔

وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ۝۱۰ۙ [142]

ترجمہ:اور پہاڑ دھنک ڈالے جائیں  گے۔

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [143]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ       [144]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں  گے۔

ساری گہری وادیوں  ، دریاؤ ں  اورسمندروں  اوراونچی نیچی جگہیں  کو پاٹ دیا جائے گا اوراللہ تعالیٰ زمین کوایساہموارچٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  دیکھنے والے کوکوئی نشیب و فرازنظر نہیں  آئے گااورزمین کی اسی نئی شکل پر حشر قائم ہوگا،جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ۔۔۔ ۝۴۸      [145]

ترجمہ:وہ دن جبکہ زمین بدل کرکچھ سے کچھ کردی جائے گی ۔

ادر وسرے صورکی آوازکے ساتھ ہی سب لوگ اپنی قبروں  سے نکل کر پکارنے والے کی پکارپرسیدھے دوڑتے چلے آئیں  گے اورکسی طرف التفات نہیں  کریں  گے ، جیسے فرمایا

مُّہْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِ۔۔۔۝۸   [146]

ترجمہ:پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں  گے۔

اورمیدان محشرمیں آوازیں  رحمان کے آگے دب جائیں  گی اوراس پرہیبت سماں  میں سوائے قدموں  کی چاپ یاکھسرپھسرکے کچھ سنائی نہ دے گا،سب لوگ نظریں  نیچی کیے ، گھٹنوں  کے بل گرے رب رحمٰن کے فیصلے کے منتظرہوں  گے،کسی کومعلوم نہیں  ہوگاکہ اس کے ساتھ کیاسلوک ہونے والاہے ،ہرشخص اپنے ماں  باپ ،بھائی بہن ،بیوی ، اولاد اوردوست احباب کوبھول کرصرف اپنے معاملے میں  مشغول ہوگا،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ   [147]

ترجمہ: اس روزآدمی اپنے بھائی اوراپنی ماں  اوراپنے باپ اوراپنی بیوی اوراپنی اولادسے بھاگے گا،ان میں  سے ہرشخص پراس دن ایساوقت آ پڑے گاکہ اسے اپنے سواکسی کاہوش نہ ہوگا۔

اس روز بادشاہی صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہوگی۔

 اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۔۔۔  ۝۲۶  [148]

ترجمہ:اس روزحقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی ۔

کسی کودم مارنے کی جرات نہ ہوگی کجاکہ کوئی سفارش کے لئے بطورخودزبان کھول سکے ، جیسےفرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۝۲۵۵     [149]

ترجمہ:کون ہے جواس کی اجازت کے بغیراس کے حضورسفارش کرسکے ۔

یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ ۔۔۔۝۱۰۵ [150]

ترجمہ:جب وہ دن آئے گاتوکسی کوبات کرنے کی مجال نہ ہوگی الا یہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے ۔

وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَـیْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللهُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَرْضٰى۝۲۶ [151]

ترجمہ: آسمانوں  میں  کتنے ہی فرشتے موجودہیں  ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں  آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں  اس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سنناچاہے ۔

۔۔۔وَلَا یَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى۔۔۔ ۝۲۸ [152]

ترجمہ:وہ کسی کی سفارش نہیں  کرتے بجزاس کے جس کے حق میں  سفارش سننے پراللہ راضی ہو۔

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ  ۔۔۔۝۲۳    [153]

ترجمہ:اوراللہ کے حضورکوئی شفاعت بھی کسی کے لئے نافع نہیں  ہوسکتی بجزاس شخص کے جس کے لئے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۝۰ۭۤۙ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۝۳۸  [154]

ترجمہ: جس روزروح اورملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمان اجازت دے اورجوٹھیک بات کہے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:یَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ یَوْمَ القِیَامَةِ، فَیَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى یُرِیحَنَا مِنْ مَكَانِنَا۔۔۔فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّی، فَإِذَا رَأَیْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِی مَا شَاءَ اللَّهُ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی، ثُمَّ یُقَالُ لِی: ارْفَعْ رَأْسَكَ: سَلْ تُعْطَهْ، وَقُلْ یُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّی بِتَحْمِیدٍ یُعَلِّمُنِی، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِی حَدًّا، ثُمَّ أُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ،ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا مِثْلَهُ فِی الثَّالِثَةِ، أَوِ الرَّابِعَةِ، حَتَّى مَا بَقِیَ فِی النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ القُرْآنُ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےاللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں  کوجمع کرے گا اس وقت لوگ کہیں  گے کہ اگرہم اپنے رب کے حضورمیں  کسی کی شفاعت لے جائیں  تونفع بخش ثابت ہو سکتی ہے،ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں  ۔۔۔لوگ تمام انبیاء سے مایوس ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئیں  گے،فرمایا  اس وقت میں  اپنے رب سے (شفاعت کی)اجازت چاہوں  گااورسجدہ میں  گرجاؤ ں  گااللہ تعالیٰ جتنی دیرتک چاہے گامجھے سجدہ میں  رہنے دے گا پھر قادرمطلق فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپناسراٹھاؤ  مانگو تمہاری بات سنی جائے گی ،شفاعت کروتمہاری شفاعت قبول کی جائے گی،میں  اپنے رب کی اس وقت ایسی حمدوبیان کروں  گاکہ جواللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گاپھرشفاعت کروں  گااورمیرے لئے حدمقررکردی جائے گی اورمیں  لوگوں  کوجہنم سے نکال کرجنت میں  داخل کروں  گا اوراسی طرح سجدہ میں  گرجاؤ ں  گا،تیسری یاچوتھی مرتبہ جہنم میں  صرف وہی لوگ رہ جائیں  گے جنہیں  قرآن نے روکاہے(یعنی جن کے جہنم میں  ہمیشہ رہنے کاذکرقرآن میں  صراحت کے ساتھ ہے)۔[155]

کیونکہ اللہ کے سواکسی کوبھی کسی کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کی بابت پوراعلم نہیں  ہے جبکہ اللہ علام الغیوب ہے اوروہ لوگوں  کے پچھلے کارناموں  اورکرتوتوں  کا حال جانتاہے اس لئے اس بات کافیصلہ بھی اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ کون کون لوگ فرشتوں ، انبیاء وصالحین کی سفارش کے مستحق ہیں  ۔

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ‎﴿١١١﴾‏ وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا ‎﴿١١٢﴾‏ وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَصَرَّفْنَا فِیهِ مِنَ الْوَعِیدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ أَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ‎﴿١١٣﴾‏ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن یُقْضَىٰ إِلَیْكَ وَحْیُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا ‎﴿١١٤﴾(طہ)
تمام چہرے اس زندہ اور قائم دائم اور مدبر اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں  گے، یقیناً وہ برباد ہوا جس نے ظلم لاد لیا اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان والا بھی ہو تو نہ اسے بےانصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا،  اسی طرح ہم نے تجھ پر عربی میں  قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں  ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیزگار بن جائیں  یا ان کے دل میں  سوچ سمجھ تو پیدا کرے، پس اللہ عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے، تو قرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے، ہاں  یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا۔

ابھی تولوگ اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں  سرجھکانے کے بجائے مزاروں اوردرگاہوں  پرسرجھکاناپسندکرتے ہیں مگرمیدان محشرمیں  لوگوں  کے سرکمال عاجزی کے ساتھ اس زندہ اورقائم دائم مدبرکے آگے جھک جائیں  گے،اس روزجس شخص نے اللہ کی ذات وصفات اوراعمال میں  کسی کوشریک کرکے ظلم عظیم کیاہوگا،یاحقوق العباد کا مرتکب ہوکرکسی پرظلم کیاہوگایادنیاکی رنگینیوں  اوردلفریبیوں  میں  مست رہ کرخودپرظلم کیاہوگاوہ کامیابی کامنہ نہ دیکھے گایعنی جہنم میں  داخل ہوگا،اس لئے کہ اس روزاللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گااورہرصاحب حق کواس کاحق دلائے گاحتی کہ ایک سینگ والی بکری نے بغیرسینگ والی بکری پرظلم کیاہوگاتواس کابھی بدلہ دلایاجائے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، حَتَّى یُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الْقَرْنَاءِ نَطَحَتْهَا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم قیامت کے دن حقداروں  کے حق اداکروگے یہاں  تک کہ بے سینگ والی بکری کابدلہ سینگ والی بکری سے لیاجائے گا۔[156]

عَنْ ثَوْبَانَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُقْبِلُ الْجَبَّارُ تَعَالَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیَثْنِی رِجْلَهُ عَلَى الْجِسْرِوَعِزَّتِی وَجَلَالِی، لَا یُجَاوِزُنِی الْیَوْمَ ظُلْمُ ظَالِمٍ،فَیَنْصِفُ الْخَلْقَ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ  حَتَّى إِنَّهُ لَیَنْصِفُ الشَّاةَ الْجَمَّاءَ، مِنَ الْعَضْبَاءِ بِنَطْحَةٍ نَطَحَها

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم،کسی ظالم کے ظلم کومیں  اپنے سامنے گزرنے نہ دوں  گا  پھروہ لوگوں  کوایک دوسرے سے پوراپوراحق دلوائے گایہاں  تک کہ بغیرسینگوں  والی بکری کابھی سینگوں  والی بکری سے اسے سینگ مارنے کابدلہ دلوائے گا۔ [157]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ

جابربن عبداللہ انصاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایالوگو!ظلم سے بچوکیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں  میں  سے تاریکیاں  ہیں  اورتم بخیلی سے بچوکیونکہ تم سے پہلے لوگوں  کوبخیلی نے تباہ کیا  بخیلی کی وجہ سے (مال کی طمع ہوئی) جس کی وجہ سے انہوں  نے خون کیے  اورحرام کوحلال کیا۔[158]

اوراللہ واحدلاشریک کی ذات وصفات اور اعمال میں  کسی کوشریک کرنا ظلم عظیم ہے اورناقابل معافی بھی،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَیَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [159]

ترجمہ:یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

اوروہ شخص جو اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائے اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں  نیک عمل کرے گااس کے ساتھ کسی طرح کا ظلم اور حق تلفی نہیں  کی جائے گی ،یعنی نہ اس پردوسروں  کے گناہوں  کابوجھ ڈالاجائے گااورنہ نیکیوں  کااجرکم دیاجائے گا ، اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے خاص اپنے ہاں  سے عربی زبان میں  جوقرآن تمہیں  عطافرمایاہے ،وہ وسیع مضامین،پاکیزہ تعلیمات اورعمدہ نصائح سے لبریزہے اورہم نے اس میں  لوگوں  کواسماء ،تباہ شدہ قوموں  کے عبرت ناک واقعات ، کبھی گناہوں  کے آثاراوران سے پیدا ہونے والے عیوب کوبیان کرکے، کبھی قیامت کی ہولناکیوں  اوراس کے دل کوہلادینے والے مناظرکوبیان کرکے اورکبھی جہنم کے مناظراوراس میں  دیئے جانے والے مختلف انواع کے عذاب اورعقوبتوں  کاذکرکرکے تنبیہات کی ہیں  شایدکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈریں  اورگناہوں  اورفواحش کے ارتکاب سے بازآجائیں  یاغفلت سے چونکیں  اورتباہ شدہ قوموں  کے حالات سے عبرت حاصل کرکے ان کے اندرتقویٰ اور اطاعت کاجذبہ پیداہوجائے ، کلام کاخاتمہ کرتے ہوئے فرمایاپس اللہ تعالیٰ ہرنقص اور ہر کمزوری سے پاک ،بلنداورجلیل ترہے ،جس کاوصف حاکمیت ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک ہے ،شروع شروع میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کووحی اخذکرنے کی عادت نہ پڑی تھی ،اس لئے وحی کویادرکھنے کے لئے آپ جبرائیل   علیہ السلام کے ساتھ ساتھ جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے تھےجس سے کلام میں  خلل واقع ہوتاتھا اوروحی پربھی پوری توجہ مرکوزنہ رہتی تھی اس لئے پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۂ قیامہ میں  ایساکیاتواللہ تعالیٰ نے سلسلہ کلام کوتوڑ کر فرمایا

 لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ۝۱۶ۭاِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ۝۱۷ۚۖفَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ۝۱۸ۚثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ۝۱۹ۭ                                         [160]

ترجمہ: اسے یاد کرنے کی جلدی میں  اپنی زبان کوباربارحرکت نہ دو،اسے یاد کرا دینااورپڑھوادیناہمارے ذمہ ہے ، لہذا جب ہم اسے سنارہے ہوں  توغورسے سنتے رہو، پھراس کا مطلب سمجھا دینابھی ہمارے ہی ذمہ ہے ۔

پھردوسری مرتبہ سورۂ اعلیٰ میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکیاتوآپ کوتسلی اور اطمینان دلایا گیاکہ

 سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى۝۶ۙ    [161]

ترجمہ: ہم اسے پڑھوادیں  گے اور آپ بھولیں  گے نہیں ۔

اس سورۂ میں  بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہی فعل سرزد ہوا تو فرمایا

۔۔۔وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ۔۔۔۝۰۝۱۱۴ [162]

ترجمہ: دیکھوقرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کیاکروجب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کونہ پہنچ جائے۔

ان تین جگہوں  کے بعدآپ پریہ کیفیت بند ہو گئی ،

چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’’ دیکھوقرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کیاکروجب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کونہ پہنچ جائے۔ ‘‘نازل ہوئی

فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِیلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللهُ

تواس کے بعدجبرائیل  علیہ السلام  آتے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بخاموشی گردن جھکاکرسنتے اوران کی روانگی کے بعدوہی الفاظ آپ حسب وعدہ الٰہی اپنے اصحاب کوسنادیاکرتے تھے۔[163]

کیونکہ علم بھلائی ہے اوربھلائی اللہ کی طرف سے ملتی ہے اس لئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا کرتے رہوکہ اے پروردگار!مجھے مزیدقرآن وحدیث کاعلم عطاکر ۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ انْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتَنِی، وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعُنِی، وَزِدْنِی عِلْمًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا مانگا کرتے تھے’’ اے اللہ! جو علم آپ نے مجھے عطا فرمایا اس سے نفع بھی دیجئے اور مجھے ایسے علوم سے نواز دیجئے جو میرے لئے نافع اور مفید ہوں  اور میرے علم میں  خوب اضافہ فرما دیجئے اور ہر حال میں  تمام تعریفیں  آپ ہی کے لیے ہیں ۔‘‘[164]

 ایک روایت میں  یہ الفاظ زیادہ ہیں

وَأَعُوذُ بِاللَّهِ  مِنْ عَذَابِ النَّارِ

میں  اللہ سے آگ کے عذاب سے پناہ مانگتاہوں ۔

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ‎﴿١١٥﴾‏ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَىٰ ‎﴿١١٦﴾‏ فَقُلْنَا یَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ ‎﴿١١٧﴾‏ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِیهَا وَلَا تَعْرَىٰ ‎﴿١١٨﴾‏ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِیهَا وَلَا تَضْحَىٰ ‎﴿١١٩﴾‏(طہ)
ہم نے آدم کو پہلے ہی تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں  کوئی عزم نہیں  پایا،  اور جب ہم نے فرشتوں  سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے صاف انکار کردیا تو ہم نے کہا اے آدم ! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں  کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں  پڑجائے یہاں  تو تجھے یہ آرام ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا اور نہ تو یہاں  پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتا ہے ۔

ہم نے اس سے پہلے آدم کوایک حکم دیاتھاکہ اس درخت کاپھل نہ کھانا۔

وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِـئْتُمَـا۝۰۠ وَلَا تَـقْرَبَا  ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۳۵ [165]

ترجمہ:پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی، دونوں  جنت میں  رہو اور یہاں  بفراغت جو چاہو کھاؤ مگراس درخت کارخ نہ کرناورنہ ظالموں  میں  شمارہوگے۔

اورابلیس سے ہوشیاروچوکنارہناوہ تمہاراکھلادشمن ہے ،شیطان آدم  علیہ السلام کے پاس ایک ناصح کی صورت میں  آیااورحیلہ سازی کے ساتھ آدم  علیہ السلام سے بات چیت کی ،اوریہ اچھی طرح جاننے کے باوجودکہ شیطان ان کادشمن ہے وہ ابلیس کے فریب میں  آکر اللہ کی دی ہوئی تنبیہ اورفہمائش کو بھول گیااورہم نے اس میں  عزم نہ پایا، یاد کرووہ وقت جبکہ ہم نے آدم   علیہ السلام کواپنے دونوں  ہاتھوں  سے تخلیق کر کے اوراس میں  اپنی طرف سے کچھ پھونک کرفرشتوں  کوحکم دیاتھاکہ اکرام وتعظیم کے لئے آدم کوسجدہ کرو ، سب فرشتے توتعمیل حکم میں بغیرچوں  وچرا ں سجدہ میں  گرگئے مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کے غرورمیں  اللہ کاحکم ماننے  سے صاف انکار کردیا اورکہاکہ یہ مٹی سے بناہے اور میں  آگ سے میں  اس سے بہترہوں ،جیسے فرمایا

۔۔۔قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ۝۰ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ۝۱۲       [166]

ترجمہ: بولامیں  اس سے بہتر ہوں  تونے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے ۔

 ۔۔۔قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۝۶۱ۚ    [167]

ترجمہ: اس نے کہا کیا میں  اس کو سجدہ کروں  جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔

حکم عدولی اورتکبر کے جرم میں  اللہ تعالیٰ نے ابلیس کوقیامت تک کے لئے دھتکاردیااورآدم   علیہ السلام کوجنت میں  داخل فرماکر ہدایت کی کہ دیکھو یہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا کھلا دشمن ہے اگرتم نے حکم کی خلاف ورزی کی توجنت کی راحتوں  اورآسائشوں  سے محروم کردیے جاؤ گے ، یہاں  تو تمہارے لئے سرکاری طورپر ابتدائی ضروریات کی چیزیں  پاکیزہ غذا،صاف شفاف ٹھنڈا پانی ، حریری لباس اوررہائش کاانتظام کردیاگیاہے اورتم یہاں  آرام وسکون سے رہ رہے ہو ۔

فَوَسْوَسَ إِلَیْهِ الشَّیْطَانُ قَالَ یَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا یَبْلَىٰ ‎﴿١٢٠﴾‏ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ‎﴿١٢١﴾‏ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدَىٰ ‎﴿١٢٢﴾‏ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا یَأْتِیَنَّكُم مِّنِّی هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَىٰ ‎﴿١٢٣﴾‏ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِی فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِی أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِیرًا ‎﴿١٢٥﴾‏ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آیَاتُنَا فَنَسِیتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْیَوْمَ تُنسَىٰ ‎﴿١٢٦﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ یُؤْمِن بِآیَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ ‎﴿١٢٧﴾‏(طہ)
لیکن شیطان نے اسےوسوسہ ڈالا کہنے لگا کہ کیا میں  تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں  کہ جو کبھی پرانی نہ ہو ، چنانچہ ان دونوں  نے اس درخت سے کچھ کھالیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے،  آدم (علیہ السلام)نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا، پھر اس کے رب نے نوازا اس کی توبہ قبول کی اور اس کی راہنمائی کی،  فرمایا تم دونوں  یہاں  سے اتر جاؤ تم آپس میں  ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں  پڑے گا، اور (ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں  رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں  گے، وہ کہے گا کہ الٰہی ! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں  اٹھایا ؟ حالانکہ میں  تو دیکھتا بھالتا تھا، (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں  کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے، ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں  جو حد سے گزر جائےاور اپنے رب کی آیتوں  پر ایمان نہ لائے اور بیشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے۔

لیکن شیطان نے آدم  علیہ السلام  کوپرفریب باتوں  سے پھسلایا کہنے لگا اے آدم!کیامیں  تمہیں  اس درخت کے بارے میں  بتلاؤ ں  جس سے ابدی زندگی اور ایسی بادشاہت حاصل ہوگی جوکبھی منقطع نہ ہوگی ،ایک مقام پر شیطان کی گفتگو یوں  بیان فرمائی۔

۔۔۔وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ۝۲۰   [168]

ترجمہ:اوراس نے کہاکہ تمہارے رب نے تم کواس درخت سے صرف اس لئے روک دیاہے کہ کہیں  تم دونوں  فرشتے نہ ہوجاؤ یاہمیشہ جیتے نہ رہو۔

أَبَا هُرَیْرَةَ، یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ مَا یَقْطَعُهَا  وَهِیَ شَجَرَةُ الْخُلْدِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت میں  ایک ایسادرخت ہے کہ سواراگرسوسال تک بھی اس کے سائے میں  چلتارہے تووہ کبھی ختم نہ ہواوریہ شجرخلدہے۔[169]

جب شیطان نے نرمی اورحیلہ سازی کے ساتھ فرشتہ بننے ، ابدی زندگی اورلازوال سلطنت حاصل ہونے کالالچ دیااورساتھ ہی اس نے قسم بھی کھائی کہ وہ ان کامخلص دوست ہے،جیسے فرمایا

وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ۝۲۱ۙ [170]

ترجمہ:اور اس نے قسم کھاکر ان سے کہا کہ میں  تمہارا سچا خیر خواہ ہوں  ۔

تو فوری تحریص کے زیراثردونوں (میا ں  بیوی ) شیطان کے بہکاوے میں  آگئے اوراس ممنوعہ درخت کاپھل کھاگئے، نافرمانی کاصدورہوتے ہی فورا ًہی ان کے سرکاری حریری لباس اترگئے اوران کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور سترپوشی کے لئے دونوں  اپنے آپ کو جنت کے پتوں  سے ڈھانکنے لگے ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ۔۔۔۝۲۲   [171]

ترجمہ: اخرکار جب انہوں  نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں  کو جنّت کے پتّوں  سے ڈھانکنے لگے۔

آدم نے ممنوعہ درخت کاپھل کھاکر اپنے رب کی نافرمانی کی اورراہ راست سے بہک گیا،مگراپنی غلطی کااحساس ہوتے ہی آدم   علیہ السلام  نے رب کی بارگاہ میں  نادم ہوکر توبہ کی عرضداشت پیش کی۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳       [172]

ترجمہ:دونوں  بول اُٹھے اے ربّ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ًہم تباہ ہو جائیں  گے ۔

پھراس کے رب نے اس کی توبہ قبول کرلی اوراسے برگزیدہ کرکے راہ راست کی طرف رہنمائی بخشی، اورمعیشت کاسرکاری انتظام ختم کر کے فرمایاتم دونوں  فریق( یعنی انسان اورشیطان) یہاں  سے نیچے زمین پر اتر جاو، تم ایک دوسرے کے دشمن رہوگے اب ا گراللہ تعالیٰ تمہاری طرف کوئی رسول مبعوث فرمائے،اورتمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے ان پرکتابیں  نازل کرے توجوکوئی رسول کی اطاعت کرے گااور میری نازل کردہ کتاب کی اتباع کرے گاوہ شخص نہ دنیامیں  بھٹکے گانہ آخرت میں  بدبختی میں  مبتلا ہو گا اور جو میرے ذکر(درس ونصیحت)سے منہ موڑے گااس کے لئے دنیامیں  تنگ زندگی ہوگی ، یعنی اس کی قبرکوتنگ کرکے عذاب میں  مبتلا کر دیاجائے گا ، بعض نے اس سے مراد وہ قلق واضطراب ،بے چینی اوربے کلی مرادلی ہے جس میں  اللہ کی یادسے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں ،جیسے فرمایا

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ [173]

ترجمہ: ہم نے کہاکہ تم سب یہاں  سے اتر جاؤ  پھرجومیری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے توجولوگ اس ہدایت کی پیروی کریں  گے ان کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہ ہوگااور جو اس کوقبول کرنے سے انکارکریں  گے اورہماری آیات کو جھٹلائیں  گے وہ آگ میں  جانے والے ہیں ، جہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

ایک مقام پر فرمایا

وَلَنُذِیْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۲۱ [174]

ترجمہ:اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیامیں (کسی نہ کسی چھوٹے)عذاب کامزاانہیں  چکھاتے رہیں  گے شایدکہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آ جائیں  ۔

اور قیامت کے روز ہم اسے اندھااٹھائیں  گے ،جیسے فرمایا

قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَآ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ۝۱۰۴ [175]

ترجمہ:دیکھوتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں  آگئی ہیں اب جوبینائی سے کام لے گااپناہی بھلاکرے گا اور جو اندھا بنے گاخودنقصان اٹھائے گامیں  تم پرکوئی پاسبان نہیں  ہوں ۔

۔۔۔وَنَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ۔۔۔  ۝۹۷     [176]

ترجمہ:ان لوگوں  کوہم قیامت کے روزاوندھے منہ کھینچ لائیں  گے اندھے گونگے اوربہرے ،ان کا ٹھکاناجہنم ہے ۔

وہ شخص نہایت ذلت اوردل گرفتگی کے ساتھ عرض کرے گا پروردگار!دنیامیں  تومیں  بصیرت والا تھا یہاں  مجھے اندھا کیوں  اٹھایا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گاہاں اسی طرح تو ہماری آیات کو جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں  تونے روگردانی کی تھی، اسی طرح آج بعینہ تیرے عمل کے مطابق تجھے عذاب میں  چھوڑدیاجائے گا،جیسے فر مایا

۔۔۔ فَالْیَوْمَ نَنْسٰـىهُمْ كَـمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ یَوْمِهِمْ ھٰذَا۝۰ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ۝۵۱ [177]

ترجمہ:آج ہم بھی انہیں  اسی طرح بھلادیں  گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کوبھولے رہے اورہماری آیتوں  کاانکارکرتے رہے۔

اس طرح ہم حدسے تجاوز کرنے والے اوراپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو ( دنیا میں )بدلہ دیتے ہیں  اورآخرت کاعذاب نہایت المناک اوردائمی ہے،جیسے فرمایا

لَہُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ۝۳۴ [178]

ترجمہ:ایسے لوگوں  کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں  عذاب ہے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے، کوئی ایسا نہیں  جو انہیں  اللہ سے بچانے والا ہو ۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: أَنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادنیاکی سزاآخرت کے عذابوں  کے مقابلے میں  بہت ہی ہلکی اورناچیزہے۔[179]

أَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ یَمْشُونَ فِی مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّأُولِی النُّهَىٰ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُّسَمًّى ‎﴿١٢٩﴾(طہ)
کیا ان کی رہبری اس بات نے بھی نہیں  کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں  ہلاک کردی ہیں  جن کے رہنے سہنے کی جگہ یہ چل پھر رہے ہیں ، یقیناً اس میں  عقلمندوں  کے لیے بہت سی نشانیاں  ہیں ، اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شدہ اور وقت معین کردہ نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا ۔

پھرکیا مکذبین اورمشرکین مکہ کوتاریخ کے اس سبق سے کوئی رہبری نہ ملی کہ ان سے پہلے کتنی ہی امتوں  کوہم ان کے کفروشرک،مال ودولت ،حیثیت ومرتبہ اورجتھوں  کے غرور و تکبرمیں  رسولوں  کی تکذیب و استہزا،اللہ کی نازل کردہ کتابوں  سے روگردانی اوربداعمالیوں  کے سبب عبرت کانشان بناچکے ہیں  جن کی تباہ شدہ بستیوں  کے آثار کویہ اپنی آنکھوں  سے دیکھتے اوران پر گزرتے رہتے ہیں ؟جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِہِمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ۝۰ۭ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ۝۲۶ [180]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں  کو (ان تاریخی واقعات میں  ) کوئی ہدایت نہیں  ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں  کو ہم ہلاک کر چکے ہیں  جن کے رہنے کی جگہوں  میں  آج یہ چلتے پھرتے ہیں  ؟ اس میں  بڑی نشانیاں  ہیں  ، کیا یہ سنتے نہیں  ہیں  ؟۔

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۝۴۶ [181]

ترجمہ:کیا یہ لوگ زمین میں  چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں  اندھی نہیں  ہوتیں  مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں  جو سینوں  میں  ہیں  ۔

توجس کفروتکذیب اورہٹ دھرمی کی روش پردوسری امتوں  کونشان عبرت بنایاجاچکا ہے توتمہیں  کس چیزنے بے خوف کیاہواہے کہ تم پراللہ کاعذاب نازل نہیں ہوگا،جیسے فرمایا

اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَةٌ فِی الزُّبُرِ۝۴۳ۚاَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ۝۴۴    [182]

ترجمہ: کیا تمہارے کفارکچھ ان لوگوں  سے بہترہیں ؟یاآسمانی کتابوں  میں  تمہارے لئے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے ؟یاان لوگوں  کاکہنایہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھاہیں  اپنا بچاؤ  کرلیں  گے ؟۔

اوران میں  سے کوئی چیزبھی تم پرصادق نہیں  آتی۔

درحقیقت ان عبرت ناک واقعات میں  اہل عقل ودانش،عقل سلیم ،فطرت مستقیم لوگوں  کے لئے بڑی نشانیاں  ہیں  ، اگر اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے لئے ہرقوم کے لئے مہلت کا ایک وقت مقررنہ کرچکاہوتا تواللہ ان پربھی عذاب مسلط کر چکاہوتااوریہ بھی عبرت کے نشان بن چکے ہوتے۔جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ۔۔۔  ۝۴۵   [183]

ترجمہ:اگرتیرے رب نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کردی ہوتی توان اختلاف کرنے والوں  کے درمیان فیصلہ چکادیا جاتا۔

۔۔۔وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ۔۔۔۝۱۴    [184]

ترجمہ: اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا ۔

فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ ‎﴿١٣٠﴾‏ وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَهُمْ فِیهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَأَبْقَىٰ ‎﴿١٣١﴾‏ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ‎﴿١٣٢﴾(طہ)
پس ان کی باتوں  پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، رات کے مختلف وقتوں  میں  بھی اور دن کے حصوں  میں  بھی تسبیح کرتا رہ، بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہوجائے ،اور اپنی نگاہیں  ہرگز چیزوں  کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں  سے مختلف لوگوں  کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں  تاکہ انہیں  اس میں  آزمالیں ، تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت)بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے، اپنے گھرانے کے لوگوں  پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی  اس پر جما رہ،ہم تجھ سے روزی نہیں  مانگتےبلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں ، آخر میں  بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔

پس اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم !جوتلخ وترش باتیں  یہ مشرکین بناتے ہیں  اس سے دل برداشتہ نہ ہواور بے خوف وخطر اپنافریضہ تبلیغ وتذکیربجالاتے رہو،اوراللہ نے مہلت کی جو چند گھڑیوں  انہیں  بخشی ہوئی ہیں  ان پرصبرکرو،اورتحمل وبرداشت حاصل کرنے کے لئے سورج نکلنے سے پہلے یعنی نمازفجر اورغروب ہونے سے پہلے یعنی نمازعصر اور رات کے اوقات میں  یعنی عشااورتہجد میں  نمازقائم کرو اورظہراورمغرب کے وقت بھی،جیسے فرمایا

اَقِـمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۝۷۸وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۝۰ۤۖ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝۷۹ [185]

ترجمہ:نمازقائم کروزوال آفتاب سے لے کررات کے اندھیرے تک(ظہرسے لے کرعشاتک کی چاروں  نمازیں ) اورفجرکے قرآن کابھی التزام کروکیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے ،اوررات کوتہجد پڑھویہ تمہارے لئے نفل ہے بعیدنہیں  کہ تمہارارب تمہیں  مقام محمودپر پہنچا دے گا۔

 وَلَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۝۴ۭوَلَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۝۵ۭ       [186]

ترجمہ:تمہارے لئے بعدکادور یقیناًپہلے دورسے بہترہے اور عنقریب تمہارارب تمہیں اتنادے گا کہ تم خوش ہوجاؤ  گے ۔

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَیْلَةً  یَعْنِی البَدْرَ  فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِی رُؤْیَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا ثُمَّ قَرَأَ: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوبِ} [187]

جریر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چودھویں  کے چاندکودیکھااور فرمایاتم اپنے رب کواسی طرح دیکھوگے جس طرح اس چاندکودیکھتے ہوکہ اس کے دیکھنے میں  تم کوئی تکلیف محسوس نہیں  کرتے، پس ہوسکے کہ طلوع آفتاب سے قبل اورغروب آفتاب سے پہلے نماز ادا کرنے سے مغلوب نہ ہوجاؤ تاایساضرورکرو، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مذکورہ بالاآیت کریمہ ’’اوراپنے رب کی حمدکے ساتھ تسبیح کرتے رہوطلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے ۔‘‘ کی تلاوت فرمائی۔[188]

عَنْ عِمَارَةَ بْنِ رُوَیْبَةَ:سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَنْ یَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا

اورعمارہ بن رویبہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناکہ وہ شخص ہرگزجہنم میں  داخل نہ ہوگاجس نے سورج کے طلوع وغروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی۔[189]

اس کےنتیجہ میں  آپ کووہ مقام ودرجہ حاصل ہوجائے گاجس سے تمہارادل باغ باغ ہوجائے گا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى یَقُولُ لِأَهْلِ الجَنَّةِ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ؟ فَیَقُولُونَ: لَبَّیْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْكَ، فَیَقُولُ: هَلْ رَضِیتُمْ؟ فَیَقُولُونَ: وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَى وَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَیَقُولُ: أَنَا أُعْطِیكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالُوا: یَا رَبِّ، وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ؟ فَیَقُولُ: أُحِلُّ عَلَیْكُمْ رِضْوَانِی، فَلاَ أَسْخَطُ عَلَیْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گااے جنت کے لوگو! تووہ عرض کریں  گے لبیک وسعدیک اے ہمارے پروردگار! اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتم خوش ہو؟وہ عرض کریں  گے اے ہمارے پروردگار!ہم کیوں  کرخوش نہ ہوں  جب کہ تونے ہمیں  وہ کچھ عطافرمادیاہے جواپنی مخلوق میں  سے اورکسی کو بھی نہیں  دیا،اللہ تعالیٰ فرمائے گامیں  تمہیں  اس سے بھی بہتردیتاہوں ،وہ عرض کریں  گے اے ہمارے رب!اس سے بہترکیاچیزہے؟اللہ تعالیٰ فرمائے گامیں  تمہیں  اپنی خوش نودی سے سرفرازکرتاہوں  اورآج کے بعدمیں کبھی بھی تم سے ناراض نہیں  ہوں  گا۔[190]

 عَنْ صُهَیْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ: {لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِیَادَة    ،[191] قَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، نَادَى مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا یُرِیدُ أَنْ یُنْجِزَكُمُوهُ، فَیَقُولُونَ: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ یُثَقِّلْ مَوَازِینَنَا، وَیُبَیِّضْ وُجُوهَنَا، وَیُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَیُجِرْنَا مِنَ النَّارِ  قَالَ:فَیُكْشَفُ لَهُمُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُونَ إِلَیْهِ قَالَ:فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَیْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْیُنِهِمْ

صہیب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت کریمہ’’جن لوگوں  نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل ۔‘‘تلاوت فرمائی، جب جنتی جنت میں  اوردوزخی دوزخ میں  داخل ہوجائیں  گے توایک منادی کرنے والامنادی کرے گااے جنت کے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے ایک وعدہ کیاتھااوروہ چاہتاہے کہ اسے پورا فرما دے،وہ عرض کریں  گے کون ساوعدہ؟کیااس نے ہمارے میزانوں  کوبھاری نہیں  کردیااوراس نے ہمارے چہروں  کومنورنہیں  فرما دیااورہمیں  جہنم سے دورکرکے جنت میں  داخل نہیں  فرمادیا،اسی دوران حجاب کودورکردیاجائے گااوروہ اللہ تعالیٰ کے دیدارسے فیض یاب ہوں  گے،اللہ کی قسم !اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدارسے زیادہ اچھی چیزانہیں  عطا نہیں  فرمائی ہوگی۔[192]

اورہم نے ان میں  سے مختلف لوگوں  کودینوی زندگی کے لئے جومال ودولت ،حیثیت ومرتبہ اور شان وشوکت عطاکررکھی ہے اسے رشک کی نگاہوں  سے مت دیکھو ،وہ توہم نے انہیں  آزمائش میں ڈالنے کے لئے دیاہوا ہے ، جیسےفرمایا

لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ۝۱۹۶ۭمَتَاعٌ قَلِیْلٌ۝۰ۣ ثُمَّ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِھَادُ۝۱۹۷ [193]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیاکے ملکوں  میں  اللہ کے نافرمان لوگوں  کی چلت پھرت تمہیں  کسی دھوکے میں  نہ ڈالے ،یہ محض چندروزہ زندگی کاتھوڑاسالطف ہے پھریہ سب جہنم میں  جائیں  گے جو بدترین جائے قرارہے ۔

وَلَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ۝۸۷لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ۔۝۸۸ [194]

ترجمہ: ہم نے تم کوسات ایسی آیتیں  دے رکھی ہیں  جوبارباردہرائی جانے کے لائق ہیں  اورتمہیں  قرآن عظیم عطاکیاہے ،تم اس متاع دنیاکی طرف آنکھ اٹھاکرنہ دیکھوجوہم نے ان میں  سے مختلف قسم کے لوگوں  کودے رکھی ہے ۔

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷    [195]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ یہ جوکچھ سروسامان بھی زمین پرہے اس کوہم نے زمین کی زینت بنایاہے تاکہ ان لوگوں  کوآزمائیں  ان میں  کون بہترعمل کرنے والاہے ۔

اورتیرے رب کاعطاکیاہواپاک رزق جوتم اپنی محنت سے کماتے ہووہ خواہ کتناہی تھوڑاہووہی بہترہے اور آخرت تک باقی رہنے والاہے ، جیسے فرمایا:

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ       [196]

ترجمہ:مگرتم لوگ دنیاکی زندگی کوترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہترہے اورباقی رہنے والی ہے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے ،دیکھاکہ آپ ایک کھری چٹائی پرلیٹے ہوئے ہیں  اوربے سروسامانی کایہ عالم کہ گھرمیں  چمڑے کی دوچیزوں  کے علاوہ کچھ نہیں ،

قَالَ: فَابْتَدَرَتْ عَیْنَایَ، قَالَ:مَا یُبْكِیكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟قُلْتُ:یَا نَبِیَّ اللهِ، وَمَا لِی لَا أَبْكِی وَهَذَا الْحَصِیرُ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِیهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَاكَ قَیْصَرُ وَكِسْرَى فِی الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِوَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ،فَقَالَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْیَا؟ قُلْتُ: بَلَى

بے سروسامانی کایہ عالم دیکھ کرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کی آنکھوں  میں  سے بے اختیار آنسوآگئےنبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھااے ابن خطاب! کیابات ہے کیوں روتے ہو؟میں  نےعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  کیوں  نہ روؤ ں  اورحال یہ ہے کہ یہ چٹائی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بازوئے مبارک پراثرکرگئی ہے اوریہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاخزانہ ہےکہ نہیں  دیکھتامیں  اس میں  مگر وہی جودیکھتاہوں  اوریہ قیصر اور کسریٰ ہیں  کہ پھلوں  اور نہروں  میں آرام و عشرت میں  زندگی بسرکررہے ہیں ،  اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں   اورآپ کا یہ خزانہ ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا اے خطاب کے بیٹے !کیاتم اس پرراضی نہیں  ہوکہ ہمارے لئے آخرت کی بھلائیاں  ہیں  اوران کے لئے دنیاکی عارضی چیزیں ؟ میں  نے کہا کیوں  نہیں  (میں  راضی ہوں )۔[197]

عَنِ أَبِی سعید إِنَّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أخوف مَا أخاف علیكم مَا یفتح الله لكم مِنْ زهرة الدُّنْیَا قالوا: وما زهرة الدُّنْیَا یا رَسُول الله قَالَ: بركات الأَرْض .

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے تمہارے بارے میں  سب سے زیادہ خوف دنیاکی اس چمک کاہےجواللہ تعالیٰ تمہارے لیے کھول دے گا،  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !دنیاکی چمک سے کیامرادہے؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایازمین کی برکتیں ۔[198]

اور اپنے اہل وعیال کوبھی وقت کی پابندی کے ساتھ فرض اورنفل نمازکی تلقین کرو اورخودبھی اس کے پابند رہوتاکہ عذاب جہنم سے بچ جاؤ اوراقامت دین کوچھوڑکرحصول رزق میں  مشغول نہ ہوں ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِیْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۔۔۔۝۶                                                  [199]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہوبچاؤ  اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں  گے ۔

جس طرح تمام خلائق کے رزق کی کفالت ہم کرتے ہیں  اسی طرح آپ کوبھی ایسی جگہوں  سے رزق بہم پہنچائیں  گے جہاں  سے آپ کے وہم وگمان میں  بھی نہ ہوگا ،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَمَنْ یَّـتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۝۲ۙوَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔۔۔۝۳ [200]

ترجمہ: جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو ۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ۝۵۷اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۝۵۸ [201]

ترجمہ:میں  نے جن اور انسانوں  کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں  کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں  ،میں  ان سے کوئی رزق نہیں  چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں  کہ وہ مجھے کھلائیں  ، اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِی أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ،وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ یَدَیْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ

  زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: مَنْ كَانَتِ الدُّنْیَا هَمَّهُ، فَرَّقَ اللَّهُ عَلَیْهِ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ، وَلَمْ یَأْتِهِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ، وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِیَّتَهُ، جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ غِنَاهُ فِی قَلْبِهِ، وَأَتَتْهُ الدُّنْیَا وَهِیَ رَاغِمَةٌ

اورزیدبن ثابت رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوبیان فرماتے ہوئے سناجس شخص کا مقصود دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کے کام کومنتشرکردیتاہےاوراس کے فقرکواس کی دونوں  آنکھوں  کے درمیان کردیتاہے  اوردنیااسے اس قدرملتی ہے جواس کے لیے لکھ دی گئی ہو اورجس کی نیت میں  آخرت(کی کامیابی)ہوتواللہ تعالیٰ اس کے کام کومجتمع کر دیتا ہےاور اس کے دل کوغناسے بھردیتاہے اوردنیاذلیل ورسواہوکراس کے پاس چلی آتی ہے۔[202]

اور تقویٰ دنیااورآخرت دونوں  ہی میں  کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

وَقَالُوا لَوْلَا یَأْتِینَا بِآیَةٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ‎﴿١٣٣﴾‏ وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ ‎﴿١٣٤﴾‏ قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ ‎﴿١٣٥﴾‏(طہ)
انہوں  نے کہا کہ یہ نبی ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں  نہیں  لایا ؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں  کی واضح دلیل نہیں  پہنچی ؟ اور ہم اس سے پہلے ہی انہیں  عذاب سے ہلاک کردیتے تو یقیناً یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں  نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں  کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے،کہ دیجئے ! ہر ایک انجام کا منتظر ہے پس تم بھی انتظار میں  رہو، ابھی ابھی قطعاً جان لو گے کہ راہ راست والے کون ہیں           اور کون راہ یافتہ ہیں  ۔

قرآن حکیم سب سے بڑامعجزہ:

مشرکین ومکذبین کہتے ہیں  کہ یہ شخص اپنی رسالت کی صداقت میں  اپنے رب کی طرف سے ہماری خواہش کے مطابق کوئی نشانی(معجزہ)کیوں  نہیں  لاتا؟جیسےفرمایا

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۝۰۝۹۳ۧ [203]

ترجمہ:اورانہوں  نے کہاہم تیری بات نہ مانیں  گے جب تک کہ توہمارے لئے زمین کو پھاڑ کرایک چشمہ جاری نہ کردے ،یاتیرے لئے کھجوروں  اورانگوروں  کاایک باغ پیدا ہواورتواس میں  نہریں  رواں  کردے یاتوآسمان کوٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہے یااللہ اورفرشتوں  کورودرروہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لئے سونے کاایک گھربن جائے یاتوآسمان پرچڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کابھی ہم یقین نہ کریں  گے جب تک کہ توہمارے اوپرایک ایسی تحریرنہ اتارلائے جسے ہم پڑھیں ۔

اللہ تعالیٰ نے جواب فرمایااگرتم اپنے دعویٰ میں  سچے اورحق کے متلاشی ہوتو کیایہ بات معجزہ سے کم ہے کہ ایک رسول امی نے وہ عظیم الشان کتاب پیش کردی جس میں اب تک نازل ہونے والی تمام کتابوں  مثلاًتورات ،زبور،انجیل اور صحف ابراہیم وغیرہ کے مضامین اورتعلیمات کا عطرہےاورجس میں  صدیوں  قبل تباہ شدہ امتوں  کے صحیح صحیح عبرت ناک واقعات بیان کیے گئے ہیں ،اورگزشتہ کتب اور صحیفوں  میں  اس قرآن عظیم کی تصدیق بھی موجود ہے اوراس کولانے والے رسول کی بشارت بھی دی گئی ہے ،اوراس کے ساتھ یہ کتاب اس قدرآسان اورعام فہم ہے کہ ایک بدو بھی اسے آسانی سے پڑھ اورسمجھ سکتاہے ،جیسےفرمایا

اَوَلَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۵۱ ۧ[204]

ترجمہ: اورکیاان لوگوں  کے لئے یہ (نشانی)کافی نہیں  ہے کہ ہم نے تم پرکتاب نازل کی جوانہیں  پڑھ کرسنائی جاتی ہے؟درحقیقت اس میں  رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں  کے لئے جوایمان لاتے ہیں ۔

ایک مقام پر مکذبین کی ہٹ دھرمی یوں  بیان فرمائی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷     [205]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں  پرتیرے رب کاقول راست آگیاہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکرنہیں  دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتانہ دیکھ لیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنَ الأَنْبِیَاءِ نَبِیٌّ إِلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَیْهِ البَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَیَّ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرنبی کوایسے معجزے ملے کہ انہیں  دیکھ کرلوگ ان کی نبوت پر ایمان لے آئے لیکن مجھے جیتاجاگتااور ہمیشہ رہنے والا معجزہ دیا گیاہے یعنی اللہ کی یہ کتاب قرآن مجیدجوبذریعہ وحی مجھ پرنازل ہواہے ،پس مجھے امیدہے کہ قیامت کے دن تمام نبیوں  کے پیروکاروں  سے میرے پیروکارزیادہ ہوں  گے ۔[206]

اگرہم پیغمبرآخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم  کومبعوث کرنے اوراس پرکتاب نازل کرنے سے پہلے ان کوکسی عذاب سے ہلاک کردیتے توپھریہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں  نہ بھیجاکہ ذلیل ورسواہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیارکر لیتے؟

یہی بات ایک اورمقام پر یوں  بیان فرمائی گئی ہے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا ۔۔۔ ۝۱۰۹          [207]

ترجمہ:یہ لوگ کڑی قسمیں  کھاکھاکرکہتے ہیں  کہ اگرکوئی نشانی (یعنی معجزہ) ہمارے سامنے آجائے توہم اس پرایمان لے آئیں  گے ۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَہُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَہْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ۔۔۔۝۴۲ۙ                              [208]

ترجمہ:یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں  کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں  آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوہم نے تمہارایہ عذرکاٹ دیاہے ،یہ دعوت حق تمہارے شہر سے اٹھی ہے ،اب اس شہراور گردو نواح کے لوگ منتظر ہیں  کہ اس دعوت کاانجام کیا ہوتا ہے ،کیاکفرغالب رہتاہے یااسلام غالب آتا ہے پس اس کے بارے میں  گردش زمانہ کاانتظارکرو،تم میری موت کا انتظارکرومیں  تم پر عذاب الٰہی کے ٹوٹ پڑنے کاانتظار کرتا ہوں ،جیسے فرمایا

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ۔۔۔  ۝۵۲         [209]

ترجمہ: ان سے کہوتم ہمارے معاملے میں  جس چیزکے منتظر ہو وہ اس کے سوااورکیاہے کہ دو بھلائیوں  میں  سے ایک بھلائی ہے ۔

اورہم تمہارے معاملہ میں  جس چیزکے منتظرہیں  وہ یہ ہے کہ اللہ خودتم کوسزا دیتاہے یا ہمارے ہاتھوں  دلواتاہے ؟ اب اللہ کے فیصلے کے منتظر رہو، بہت جلد تمہیں  معلوم ہو جائے گا کہ اللہ کی مددسے کامیاب اورسرخروکون رہتاہے اورکون ذلیل وخوار ہوتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۝۴۲              [210]

ترجمہ:اچھا وہ وقت دور نہیں  ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں  خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں  دور نکل گیا تھا ۔

سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ۝۲۶          [211]

ترجمہ: کل ہی انہیں  معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون پرلے درجے کا جھوٹا اور بر خود غلط ہے۔

[1]الکہف ۶

[2] تفسیرابن ابی حاتم ۱۳۳۷۴، الدر المنثور۵۵۰؍۵

[3] الاعلیٰ۱۰تا۱۲

[4] البقرة۲

[5] صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ مَنْ یُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِی الدِّینِ ۷۱،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ ۲۳۸۹،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ۲۲۱،مسنداحمد۱۶۸۷۴

[6] الاعراف۵۴

[7] الطلاق۱۲1

[8] الفرقان۶

[9] الاعراف۱۸۰

[10] مریم ۵۲

[11] القصص۳۰

[12] النازعات۱۶

[13] تفسیر طبری ۲۷۸؍۱۸، تفسیرابن ابی حاتم۲۴۱۷؍۷،الدر المنثور۵۵۸؍۵

[14] تفسیرابن کثیر۲۷۶؍۵

[15] الاعراف۱۴۴

[16] الجمعة۹

[17] تفسیر القرطبی۱۲۳؍۱۱، الدر المنثور۷۰۶؍۱

[18] العنکبوت ۴۵

[19] طه: 14

[20] صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْفَائِتَةِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِیلِ قَضَائِهَا ۱۵۶۹، مسند احمد۱۲۹۰۹،السنن الکبری للبیہقی ۴۳۸۹

[21] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوٰة بَابُ مَنْ نَسِیَ صَلاَةً فَلْیُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ، وَلاَ یُعِیدُ إِلَّا تِلْكَ الصَّلاَةَ۵۹۷،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْفَائِتَةِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِیلِ قَضَائِهَا۱۵۶۶،السنن الکبری للبیہقی ۳۱۷۹

[22] الاحزاب۶۳

[23] لقمان ۳۴

[24] الاعراف۱۸۷

[25] الزلزال۷،۸

[26] النجم۳۱

[27] الطور۱۶

[28] الجاثیة۲۳

[29] بنی اسرائیل۴۹

[30] المومنون۸۲

[31] النمل۶۷

[32] الانعام۲۹

[33] المومنون۳۷

[34] الجاثیة۲۴

[35] الیل۱۱

[36] المائدة۶۹

[37] القصص۳۱

[38] القصص۳۲

[39] النازعات۲۴

[40] تفسیر القرطبی۱۸۶؍۱۴

[41] القصص۸

[42] القصص۱۲

[43] القصص۲۵

[44] النحل۱۲۵

[45] الفرقان۶۲

[46] النازعات۳۷تا۳۹

[47] الیل۱۴تا۱۶

[48] القیامة۳۱،۳۲

[49] القصص ۳۸

[50] الاخلاص۳

[51] الانعام۱۰۱

[52] الرحمٰن۲۶،۲۷

[53] البقرہ۲۵۵

[54] الحدید۴

[55] الصافات۶

[56] حم السجدة۱۲

[57] الملک۵

[58] یونس۵

[59] النحل۱۶

[60] الانعام۹۷

[61] النمل۶۱

[62] الرحمٰن۱۹،۲۰

[63] یٰسین۴۱تا۴۳

[64] البقرة۱۶۴

[65] الرعد۴

[66] الحجر۲۷

[67] التین۴

[68] البلد۱۰

[69] الیل۱۲

[70] السجدة۷

[71] الرعد۲۶

[72] النحل۷۱

[73] بنی اسرائیل۳۰

[74] القصص۸۲

[75] الروم۳۷

[76] آل عمران۲۶

[77] النحل۷۰

[78] الحج۵

[79] البقرة۱۱۷

[80] آل عمران۴۷

[81] النحل۴۰

[82]مریم۳۵

[83] المائدة۱۷

[84] الحدید۴

[85] فاطر۳۸

[86] المومن۱۹

[87] التغابن۴

[88] آل عمران۵

[89] ابراہیم۳۸

[90] الاعلی۷

[91] بنی اسرائیل۱۰۲

[92] یوسف ۱۰۵

[93] لقمان۲۰

[94] الانبیاء ۳۱

[95] البقرة۱۶۴

[96] النحل۶۵

[97] الروم۲۴

[98] فاطر۹

[99] الحدید۱۷

[100] الشعراء ۴۴

[101] الاعراف۱۱۶

[102] بنی اسرائیل۸۱

[103] التوبة۴۰

[104] الشعراء ۴۶تا۴۸

[105] الاعراف۱۲۰تا۱۲۲

[106] النحل۲۶

[107] الاعراف۱۲۳

[108] تفسیرابن کثیر۳۰۴؍۵

[109] تفسیرطبری۳۳۸؍۱۸

[110] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۲۸؍۷

[111] فاطر۳۶

[112] الاعلی۱۱تا۱۳

[113] الزخرف۷۷

[114]مسنداحمد۱۱۰۷۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ إِثْبَاتِ الشَّفَاعَةِ وَإِخْرَاجِ الْمُوَحِّدِینَ مِنَ النَّارِ۴۵۹

[115] مسند احمد ۲۲۶۹۵، جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ دَرَجَاتِ الجَنَّةِ۲۵۳۱،سنن ابن جاجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ۴۳۳۱

[116] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۵۶،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا  بَابُ تَرَائِی أَهْلِ الْجَنَّةِ أَهْلَ الْغُرَفِ، كَمَا یُرَى الْكَوْكَبُ فِی السَّمَاءِ۷۱۴۴

[117] سنن ابوداود كِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ باب ۳۹۸۷،جامع ترمذی  أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَاسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُثْمَانَ وَلَقَبُهُ عَتِیقٌ۳۶۵۸،مسنداحمد۱۱۲۰۶

[118] الشعراء ۶۰

[119]الشعراء۶۱

[120] الشعراء ۶۲

[121] الشعراء ۶۳

[122] البقرة۵۰

[123] تفسیرابن کثیر۳۱۱؍۵،تفسیرابن ابی حاتم۱۵۶۸؍۵

[124] الاعراف۱۴۲

[125] تفسیر طبری ۱۵۰؍۱۶

[126] الطلاق۱۲

[127] ھود۱۷

[128] الحج۲۲

[129] السجدة۲۰

[130] جامع ترمذی ابواب صفة القیٰمة بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الصُّورِ۲۴۳۱،وکتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ ۳۲۴۳، مسنداحمد ۳۰۰۸، شعب الایمان ۳۴۶، شرح السنة للبغوی۴۲۹۸

[131] المومنون ۱۱۲،۱۱۳

[132]الروم۵۵،۵۶

[133] المومنون۱۱۲تا۱۱۴

[134] القارعہ۵

[135] الواقعة۱تا۶

[136] النمل۸۸

[137] الکہف۴۷

[138] الطور۱۰

[139] الواقعة۴تا۶

[140] المعارج۹

[141] المزمل۱۴

[142] المرسلات۱۰

[143] النبا۲۰

[144] القارعہ۵

[145] ابراہیم۴۸

[146] القمر۸

[147] عبس۳۴تا۳۷

[148] الفرقان ۲۶

[149] البقرة۲۵۵

[150] ھود۱۰۵

[151] النجم۲۶

[152] الانبیاء ۲۸

[153] سبا ۲۳

[154] النبا۳۸

[155] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّار ۶۵۶۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِیهَا ۴۷۵، مسند احمد ۱۳۵۶۲،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۶۹، مسند ابی  یعلی۳۰۶۹

[156] ۔صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب  بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۸۰، جامع ترمذی ابواب القیامة  بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الْحِسَابِ وَالْقَصَاصِ ۲۴۲۰،مسند احمد۷۹۹۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۵۰۵،مسندابی یعلی۶۵۱۳،شرح السنة للبغوی۴۱۶۴

[157] المعجم الکبیر للطبرانی ۱۴۲۱،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۸۴۱۴

[158] صحیح مسلم کتاب البر والصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۶، مسنداحمد ۱۴۴۶۱، مستدرک حاکم ۲۶،شعب الایمان ۱۰۳۳۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۵۰۱، شرح السنة للبغوی ۴۱۶۱

[159] لقمان۱۳

[160] القیامة ۱۶ تا ۱۹

[161]الاعلیٰ ۶

[162] طہ ۱۱۴

[163] صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۵، صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الِاسْتِمَاعِ لِلْقِرَاءَةِ۱۰۰۴،شرح السنة للبغوی ۳۷۳۲

[164] سنن ابن ماجہ بَابُ الِانْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ ۲۵۱، وکتاب الدعاء بَابُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۸۳۳، شعب الایمان ۴۰۶۶

[165] البقرة ۳۵

[166] الاعراف۱۲

[167] بنی اسرائیل۶۱

[168] الاعراف۲۰

[169] مسند أبی داود الطیالسی۲۶۷۰

[170] الاعراف۲۱

[171] الاعراف۲۲

[172] الاعراف۲۳

[173] البقرة۳۸،۳۹

[174] السجدة۲۱

[175] الانعام ۱۰۴

[176] بنی اسرائیل۹۷

[177] الاعراف۵۱

[178] الرعد۳۴

[179] صحیح مسلم کتاب اللعان  بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ ۳۷۴۶، جامع ترمذی کتاب اللعان  بَابُ مَا جَاءَ فِی اللِّعَانِ ۱۲۰۲،۳۱۷۸، سنن نسائی كِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ عِظَةِ الْإِمَامِ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ عِنْدَ اللِّعَانِ ۳۵۰۳، مسنداحمد۴۶۹۳، مستدرک حاکم۸۷۹۶،مسندابی یعلی۵۶۵۶

[180] السجدة۲۶

[181] الحج۴۶

[182]القمر۴۳،۴۴

[183] حم السجدة۴۵

[184] الشوری۱۴

[185]بنی اسرائیل۷۸،۷۹

[186] الضحٰی۴،۵

[187] ق: 39

[188] صحیح بخاری كِتَابُ مَوَاقِیتِ الصَّلاَةِ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ ۵۵۴،وبَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ۵۷۳،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ  بَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۴،سنن ابوداود كِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الرُّؤْیَةِ ۴۷۲۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى۲۵۵۱،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۷۷، مسند احمد ۱۹۱۹۰

[189] مسنداحمد۱۷۲۲۰،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۶،سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابٌ فِی الْمُحَافَظَةِ عَلَى وَقْتِ الصَّلَوَاتِ ۴۲۷،السنن الکبری للنسائی۳۵۲

[190] صحیح بخاری كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۴۹،و كِتَابُ التَّوْحِیدِبَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَهْلِ الجَنَّةِ۷۵۱۸،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ إِحْلَالِ الرِّضْوَانِ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلَا یَسْخَطُ عَلَیْهِمْ أَبَدًا۷۱۴۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ باب۲۵۵۵،مسنداحمد۱۱۸۳۵

[191] یونس: 26

[192] مسنداحمد۱۸۹۴۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ  بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ یُونُسَ۳۱۰۵

[193] آل عمران۱۹۶،۱۹۷

[194] الحجر۸۷،۸۸

[195] الکہف۷

[196] الاعلی۱۶،۱۷

[197] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا۲۴۶۸ ، صحیح مسلم کتاب الطلاق  بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۱،صحیح ابن حبان ۴۱۸۸،شعب الایمان ۱۳۷۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۳۳۰۵، مسند ابی یعلی ۱۶۴

[198] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۴۲؍۷

[199] التحریم۶

[200] الطلاق۲

[201] الذاریات۵۶تا۵۸

[202] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْهَمِّ بِالدُّنْیَا۴۱۰۵

[203] بنی اسرائیل۹۰تا۹۳

[204] العنکبوت۵۱

[205]یونس ۹۶، ۹۷

[206] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابٌ كَیْفَ نَزَلَ الوَحْیُ، وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ ۴۹۸۱،صحیح مسلم کتاب الایمان  بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۵،مسنداحمد۸۴۹۱،السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۶۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۱۲

[207] الانعام۱۰۹

[208] فاطر۴۲

[209] التوبة۵۲

[210] الفرقان۴۲

[211] القمر۲۶

Related Articles