بعثت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورۂ  النجم

اس سورۂ میں  کفارمکہ کوان کے غلط رویوں  اورطریقوں  پرمتنبہ کیاگیاہے ، کلام کے آغازمیں  ستارے کے وقت غروب کی قسم کھاکر کہاگیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہکے یابھٹکے ہوئے نہیں  اور نہ ہی یہ عظیم الشان کلام وہ خودگھڑکرپیش کررہے ہیں  ،بلکہ یہ ساراکلام وحی الٰہی ہے جس میں  حقائق کابیان ہے ،معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کی قدرت وبادشاہت کے عجائب وغرائب کابچشم خود مشاہدہ کیااورجوفرشتہ وحی لے کرآتاہے اس کوبھی اپنی آنکھوں  سے دیکھاہے،اس کے بعدان مضامین کی طرف اشارہ ہے۔

xلات ،منات،اورعزی جن کوتم اللہ کی بیٹیاں  قراردے کراپنامعبود سمجھتے ہویہ سب غلط مفروضے ہیں  اورحقیقت کاان سے قطعاًکوئی تعلق نہیں  ،تم ان کی عبادت وپرستش اس لئے کرتے ہوکہ یہ اللہ کے ہاں  تمہاری شفاعت کریں  گے تویادرکھوکہ مقرب فرشتے ہوں  یاانبیاء ورسل ،نیک آدمی ہوں  یا کوئی اورمخلوق اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں  منوا سکتے ، شفاعت کاحق جس کوملے گاوہی اللہ کے ہاں  کلام کرسکے گااورجس کے حق میں  شفاعت کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں  شفاعت قبول بھی کی جائے گی،تم نے اپنے ہی اوہام وخیالات کوعقیدے کادرجہ دے دیاہے جس کاانجام انتہائی ہولناک اوربھیانک ہوگا۔

xاس کائنات کامالک ومختاراورنظام کائنات چلانے کے لئے تدبیریں  کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے اس بارے میں  نہ کوئی اس کامشیرہے اورنہ ہی کسی فردکواللہ تعالیٰ نے مجاز بنایاہے،اللہ تعالیٰ کائنات کے ذرے ذرے اوران کے حقائق سے آگاہ ہے ،وہ تمہارے اعمال اورحرکات وسکنات کودیکھ رہاہے اگرتم برائی کے بعدتوبہ کرلوتو تمہاری بخشش پرقادرہے اوراگرتم اپنے گناہوں  پراصرارکرتے رہے اورزبان سے پاکدامنی اورپاکیزگی کے دعوے داربنے رہے توقیامت کے روزتمہاری دوعملی تمہارے کسی بھی کام نہ آئے گی۔

xقرآن مجیدانہی نظریات وعقائدکاذکرکرتاہے جواس سے قبل ابراہیم  علیہ السلام اورموسیٰ  علیہ السلام نے دنیاوالوں  کوبتائے ہیں ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیااورنرالادین لے کرنہیں  آئے کہ تم حیرت واستعجاب میں  ڈوبے چلے جاتے ہو،پہلی نافرمان قوموں  عاد،ثمود،قوم نوح اورقوم لوط کی تباہی وہلاکت بھی اسی غروروتکبراورہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوئی تھی جس کے آج تم شکارہو چکے ہو ،ان اقوام کی تباہی اتفاقی حادثہ نہ تھا،اوراس حقیقت کویادرکھوکہ فیصلہ کاوقت آپہنچا ہے اب یہ کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گایہی خبرتم تک پہنچانے کے لئے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کوشش کر رہے ہیں ، آج یہ باتیں  تمہیں مذاق لگتی ہیں ،تم ان باتوں  کوسننے کے بجائے شورشراباکرتے ہو،اس غلط روش سے باز آجا ؤ اوراپنے حقیقی معبودکے سامنے جھک جاؤ  ، اسی کی عبادت کرو،اسی کے احکام پرعمل کرو،ان الفاظ پرجب سورۂ مکمل ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آیت سجدہ کی تلاوت کے بعدسجدہ کیاتویہ کفاربھی اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکے اور سجدہ ریزہوگئے،یہ وہ لوگ تھے جن کے سراورگردنیں  پتھرکے بتوں  کے سامنے تو جھک سکتی تھیں  لیکن اللہ وحدہ کاتصوران کے دل ودماغ میں  نہیں  آتاتھا ، بہرحال اس سورت کی آیت سجدہ سن کروہ بے اختیار سجدے میں  گرگئے اوریہ بھی قرآن کا اعجاز تھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ‎﴿١﴾‏ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَىٰ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَىٰ ‎﴿٥﴾(النجم)
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے  کوئی بات کہتے ہیں ، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے، اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایاہے۔

قسم ہے تارے کی جب کہ وہ رات کے اختتام پرفجرکے وقت غروب ہوا،جیسے فرمایا:

فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۝۷۵ۙوَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ۝۷۶ۙاِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ۝۷۷ۙ  [1]

ترجمہ:پس نہیں ! میں  قسم کھاتاہوں  تاروں  کے مواقع کی،اوراگرتم سمجھوتویہ بہت بڑی قسم ہے کہ یہ ایک بلندپایہ قرآن ہے۔

فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۝۱۵ۙالْجَـــوَارِ الْكُنَّسِ۝۱۶ۙوَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ۝۱۷ۙوَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۝۱۸ۙ  [2]

ترجمہ:پس نہیں  ،میں  قسم کھاتاہوں  پلٹنے والے اورچھپ جانے والے تاروں  کی،اوررات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی اورصبح کی جبکہ اس نے سانس لی۔

قَالَ الشَّعْبِیُّ وَغَیْرُهُ: الْخَالِقُ یُقسِم بِمَا شَاءَ مِنْ خَلْقه، وَالْمَخْلُوقُ لَا یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یُقْسِمَ إِلَّا بِالْخَالِقِ

امام شعبی رحمہ اللہ اوردیگرکئی اہل علم نے کہاہے کہ خالق اپنی مخلوق میں  سے جس کی چاہے قسم کھاسکتاہے  مگرمخلوق کوخالق کے سوااورکسی کی قسم نہیں  کھانی چاہیے۔[3]

اورجواب قسم میں  فرمایا اے اہل قریش !تمہارارفیق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ گمراہ ہواہے اور نہ بہکاہے بلکہ وہ ایک نہایت سلیم الطبع اورداناوفرزانہ آدمی ہے، وہ اپنی خواہش نفس اورذاتی غرض سے کچھ گفتگونہیں  کرتابلکہ دعوت توحید،حیات بعدالموت،آخرت ، حشرنشراوراعمال کی جزا کی جوخبریں  اللہ تعالیٰ اس پربذریعہ وحی نازل فرماتا ہے وہ اسے پوری امانت ودیانت کے ساتھ تمہیں  پہنچادیتاہے ،اورسنت بھی رسول اللہ کی طرف بھیجی ہوئی وحی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۔۔۔ ۝۱۱۳  [4]

ترجمہ:اللہ نے تم پرکتاب اورحکمت نازل کی ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَاقَالَ: إِنِّی لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہم سے مزاح اورخوش طبعی کرتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایامیں سچ بات کے سواکوئی بات نہیں  کرتا۔[5]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ،أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ لَیْسَ بِنَبِیٍّ مِثْلُ الْحَیَّیْنِ، أَوْ مِثْلُ أَحَدِ الْحَیَّیْنِ،: رَبِیعَةَ وَمُضَرَفَقَالَ رَجُلٌ: یَا رسول الله، أو ما رَبِیعَةُ مِنْ مُضَرَ؟قَالَ:إِنَّمَا أَقُولُ مَا أَقُولُ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناایک شخص کی شفاعت کے ساتھ جونبی نہیں  ہوگاربیعہ ومضرجیسے دوقبیلوں  یاان میں  سے ایک قبیلے کے برابرلوگ جنت میں  ضرورداخل ہوں  گے، ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاربیعہ کاتعلق بھی قبیلہ مضرہی سے نہیں  ہے ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  جو کچھ کہتاہوں  وہ وحی الٰہی کی روشنی میں  کہتاہوں ۔[6]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَیْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُرِیدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِی قُرَیْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَیْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ یَتَكَلَّمُ فِی الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِیهِ، فَقَالَ: اكْتُبْ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا یَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ

اسی طرح عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ  سے منقول ہےمیں  جوکچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنتاتھاوہ سب لکھ لیا کرتا تھاتاکہ اسے حفظ کرلوں ،  (بعض)قریشیوں  نے مجھے منع کیا اورانہوں  نے کہاتوہربات جوسنتاہے لکھ لیتاہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک انسان ہیں ،غصے اور خوشی(دونوں  حالتوں )میں  گفتگوکرتے ہیں  تومیں  نے لکھناموقوف کردیا اوریہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کی،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دہن مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایافرمایالکھ لیاکروقسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے!اس سے سوائے حق کے اورکچھ نکلتاہی نہیں  ہے۔[7]

محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی انسان سکھانے والانہیں  ہے بلکہ اسے اللہ کی طرف سے مقررزبردست ظاہری اورباطنی قوت والے اورمکرم فرشتہ جبرائیل  علیہ السلام  نے تعلیم دی ہے ، جیسےفرمایا

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ۝۱۹ۙذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ۝۲۰ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۝۲۱ۭ [8]

ترجمہ:یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے جو بڑی توانائی رکھتاہے ،عرش والے کے ہاں  بلندمرتبہ ہے،وہاں  اس کاحکم ماناجاتاہےوہ بااعتمادہے۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ۝۹۷ [9]

ترجمہ:ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے جو پہلے آئی ہوئی کتابوں  کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں  کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔

ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ‎﴿٦﴾‏ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎﴿٨﴾‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ‎﴿١٠﴾‏ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ‎﴿١١﴾‏ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا یَرَىٰ ‎﴿١٢﴾(النجم)
جو زور آور ہے پھر وہ سیدھا کھڑا ہوگیااور وہ بلند آسمان کے کناروں  پر تھا، پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا پس وہ دو کمانوں  کے  بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جوبھی پہنچائی، دل نے جھوٹ نہیں  کہا (پیغمبر نے) دیکھا، کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں ۔

وہ قوت ،خلق ،ظاہری وباطنی جمال کاحامل ہے ،پھر جبرائیل  علیہ السلام  آسمان کے مشرقی کنارے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے اپنی اصلی شکل میں  نمودارہوئے اور سیدھے کھڑے ہو گئے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ۝۲۳ [10]

ترجمہ:اس نے اس پیغامبرکوروشن افق پردیکھاہے۔

پھر وہ آسمان دنیاکے نیچے افق اعلیٰ سے زمین کی طرف اترتے ہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اورآپ کے اوپرفضامیں معلق ہوگئے پھروہ آپ کی طرف جھکے اوراس قدرقریب ہوگئے کہ فاصلہ دو کمانوں  یا دو ہاتھوں کے برابر یا اس سے کچھ کم رہ گیا تب اس نے اللہ کے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کووحی پہنچائی جووحی بھی اسے پہنچانی تھی ،بعض کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس رات کواللہ تعالیٰ کودیکھاتھااس سلسلہ میں  امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

وَقَالَ الْبَیْهَقِیُّ: فِی حَدِیثِ شَرِیكٍ زِیَادَةٌ تَفَرَّدَ بِهَا، عَلَى مَذْهَبِ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ، یَعْنِی قَوْلَهُ:ثُمَّ دَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّى، فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى،قَالَ: وَقَوْلُ عَائِشَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِی هُرَیْرَةَ فِی حَمْلِهِمْ هَذِهِ الْآیَاتِ على رؤیته جبریل أصح وَهَذَا الَّذِی قَالَهُ الْبَیْهَقِیُّ هُوَ الْحَقُّ فِی هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، وَلَا یُعْرَفُ لَهُمْ مُخَالِفٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فِی تَفْسِیرِ هَذِهِ الْآیَةِ بِهَذَا

حافظ ابوبکر بیہقی  رحمہ اللہ اس حدیث کے جملے کوجس میں  ہے کہ’’ پھراللہ تعالیٰ قریب ہوااوراترآیابس بقدردوکمان کے ہوگیابلکہ اورنزدیک۔‘‘شریک نامی راوی کی زیادتی بتاتے ہیں  جس میں  وہ منفردہیں ،اس لیے بعض حضرات نے کہاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس رات اللہ رب العزت کودیکھا، لیکن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  اور  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  ان آیتوں  کواس پرمحمول کرتے ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبریل علیہ السلام  کو دیکھایہی زیادہ صحیح ہے اورامام بیہقی رحمہ اللہ کا فرمان بالکل حق ہے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں  سے کوئی اس آیت کی اس تفسیرمیں  ان کامخالف نہیں  ہے ۔[11]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ:سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟  قَالَ:نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے اللہ تعالیٰ کودیکھاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب فرمایاوہ تونورہے میں  اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔[12]

ابْنُ مَسْعُودٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِیلَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبرائیل  علیہ السلام  کوان کی اصل صورت میں  دیکھا تھاان کے چھ سوبازوتھے۔[13]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ فِی هَذِهِ الْآیَةِ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى}[14]، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ رَأَیْتُ جِبْرِیلَ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، عَلَیْهِ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، یُنْتَثَرُ مِنْ رِیشِهِ التَّهَاوِیلُ: الدُّرُّ وَالْیَاقُوتُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےآیت کریمہ’’اسے توایک مرتبہ اوربھی ددیکھاتھا۔‘‘کی تفسیرمیں  روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے جبریل  علیہ السلام کو سدرة المنتہیٰ کے پاس دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اوران کے پروں  سے موتیوں  اوریاقوت کے ٹکڑے گررہے تھے۔[15]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظرنے جوکچھ دیکھا اس کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مقدس نے نظرکادھوکایاواہمہ قرارنہیں  دیا ، جووحی کی گئی تھی اسے سن کرشکوک وشبہات کا شکارنہیں  ہوابلکہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم قدرت کو تسلیم کیا،اب کیاتم اس حقیقت پراس سے جھگڑتے ہو،اعتراض کرتے ہوجسے وہ باحوش وحواس دن دہاڑے اپنی آنکھوں  سے دیکھتا ہے۔

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ‎﴿١٣﴾‏ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ‎﴿١٤﴾‏ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ‎﴿١٥﴾‏ إِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشَىٰ ‎﴿١٦﴾‏ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ‎﴿١٨﴾‏(النجم)
اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سدرة المنتہیٰ کے پاس، اسی کے پاس جنتہ الماویٰ ہے،  جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی،  یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں  میں  سے بعض نشانیاں  دیکھ لیں ۔

اورایک مرتبہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معراج کے موقع پر جبرائیل  علیہ السلام کو چھٹے یاساتویں  آسمان کے انتہائی سرے پرواقع بیری کے درخت کے پاس ان کی اصل شکل میں  اپنی طرف اترتے دیکھا،

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:لَمَّا أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، انْتُهِیَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِیَ فِی السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، إِلَیْهَا یَنْتَهِی مَا یُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَیُقْبَضُ مِنْهَا، وَإِلَیْهَا یَنْتَهِی مَا یُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَیُقْبَضُ مِنْهَا، قَالَ:  {إِذْ یَغْشَى} [16]السِّدْرَةَ مَا یَغْشَى ، قَالَ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: “ فَأُعْطِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِیَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِیَ خَوَاتِیمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ یُشْرِكْ بِاللهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَیْئًا، الْمُقْحِمَاتُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومعراج ہواتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم چھٹے آسمان پرسدرة المنتٰی تک پہنچے جو کہ چھٹے آسمان میں  واقع ہے، زمین سے جوچیز اوپر کی طرف عروج کرتی ہے اس کے پاس آکررک جاتی ہےاورپھرلے لیاجاتاہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے جووحی وغیرہ نازل ہوتی ہے وہ بھی یہاں  آکرٹھیرجاتی ہے پھرلے لیاجاتاہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’سدرہ پرجو چھا رہا تھاسوچھارہاتھا۔‘‘   عبداللہ  رضی اللہ عنہ نے فرمایاسونے کے پتنگے(یعنی بیری کاوہ درخت جس کے گرد سونے کے پروانے منڈلارہے تھے ،فرشتوں  کاعکس اس پرپڑرہاتھا جو رب کی تجلیات کامظہرتھا،یہ ایسادل کش منظرتھاجس کی شان اورکیفیت بیان نہیں  کی جاسکتی) پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کووہاں  پرتین چیزوں  سے نوازاگیاپانچ وقتہ نمازیں ،سورۂ البقرہ کی آخری آیات اوراس مسلمان کی مغفرت کاوعدہ جوشرک کی آلودگیوں  سے پاک ہوگا۔[17]

اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ دیکھ کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں  اپنے مقصودسے ہٹ کر دائیں  بائیں  ہوئیں  اورنہ حدسے بلنداور متجاوزہوئیں  اوراس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں  جنت وجہنم وغیرہ کامشاہدہ کیا،جیسے فرمایا

۔۔۔لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا۔۔۔۝۱ [18]

ترجمہ: تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں  کا مشاہدہ کرائے ۔

أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ ‎﴿١٩﴾‏ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ‎﴿٢٠﴾‏ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ ‎﴿٢١﴾‏ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِیزَىٰ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنْ هِیَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ ‎﴿٢٣﴾‏ أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّىٰ ‎﴿٢٤﴾‏ فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَىٰ ‎﴿٢٥﴾‏(النجم)
کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور منات تیسرے پچھلے کو، کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں  ہیں ؟  یہ تو اب بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے، دراصل یہ صرف نام ہیں  جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں  نے ان کے لیے رکھ لیے ہیں  اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں  اتاری، یہ لوگ صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں  کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں  اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے،کیا ہر شخص جو آرزو کرے اسے میسر ہے ؟  اللہ ہی کے ساتھ ہے یہ جہان اور وہ جہان۔

کفارمکہ کااہل ایمان پرظلم وستم جاری تھا،چندلوگ ان کی غفلت سے فائدہ اٹھاکران کے چنگل سے بچ نکلنے میں  کامیاب ہوچکے تھے،اب یہ لوگ چوکناتھے کہ کوئی اورمسلمان خاندان مکہ سے ہجرت نہ کرسکے تاکہ کوئی اورخبرباہرنہ جاسکے،جب رمضان المبارک کامہینہ آیاتواللہ تعالیٰ نے سورہ نجم نازل فرمائی ،جس میں  اہل مکہ کوسمجھایاگیاکہ تم یہ تسلیم کرتے ہوکہ اس عظیم الشان کائنات کواور تمہیں  اللہ وحدہ لاشریک نے پیداکیاہے، ،تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ ہرچیزپراقتداراکیلے اللہ ہی کاہے ،تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ اس کائنات کامنتظم اللہ رب العزت ہی ہے جوہرجاندارکواپنی رحمت سے رزق دیتاہے،تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ اللہ ہی نے چاندوسورج کوتمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے،تم یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ آسمان سے بارش اللہ تعالیٰ ہی برساتاہے،جس سے مردہ زمین زندہ ہوکرسرسبزوشاداب ہوجاتی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَتَرَى الْاَرْضَ ہَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِیْجٍ۝۵ [19]

ترجمہ: اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہےپھر جہاں  ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۔۔۔۝۳۹ [20]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے ۔

اسی طرح جب تم سمندرمیں  کشتیوں  پرسوار ہوکر سفر کر رہے ہوتے ہواورناگہانی مصیبت میں  گھرجاتے ہوتواپنے معبودوں  کوبھول کرخالص اللہ کومددکے لیے پکارتے ہو،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۲۲ [21]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں  چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں  میں  سوار ہو کر باد موافق پر فرحاں  و شاداں  سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں  کے تھپیڑے لگتے ہیں  اور مسافر سمجھ لیتے ہیں  کہ گھِر گئے، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں  مانگتے ہیں  کہ اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں  گے۔

یہ توہے معبودحقیقی ،جس کی قدرتوں  کوتم تسلیم کرتے ہو اب ذرااپنی دیویوں  کے بارے میں بتاؤ تم نے کبھی لات، عزیٰ اورتیسری دیوی منات کی حقیقت پرکچھ غوربھی کیاہے ؟ کیاانہوں  نے بھی کچھ تخلیق کیاہے ؟کیاوہ بارش برساسکتے ہیں ؟کیاوہ تمہیں  ،تمہارے مویشیوں  اوردوسری مخلوقات کو رزق دے سکتے ہیں ؟کیاوہ مشکلات میں  تمہاری دادرسی کرسکتے ہیں ؟ہرگزنہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جس دین کی تم پیروی کررہے ہواس کی بنیادمحض ظن وگمان اورمن مانے مفروضات پرقائم ہے ،تمہارے گمراہ آباؤ اجدادنے اللہ تعالیٰ کے ناموں  میں  الحاد اورشرک کی جسارت کرتے ہوئے لات کوالٰہ سے مشتق کرکے موسوم کیاجوعبادت کامستحق ہے ،عزیزسے عزیٰ اورمنان سے منات کومشتق کیا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوگئے کہ یہ نام ان اوصاف سے مشتق ہیں  جن سے یہ متصف ہیں  ، اس طرح تمہارے آباؤ اجداد نے خود کواوراپنے بعدآنے والے دیگرگمراہ لوگوں  کو فریب اورگمراہی میں  مبتلا کر دیا ہے ،ان دیویوں  کوتم نے اللہ رب العالمین کی بیٹیاں  قراردے لیااور اس عقیدہ کوگھڑتے وقت تم نے یہ بھی نہ سوچاکہ لڑکیوں  کی پیدائش پر تمہارے منہ سیاہ پڑ جاتے ہیں  اورتم لڑکیوں  کی بجائے اولاد نرینہ کے خواہش مندہو ،جیسے فرمایا

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَكَظِیْمٌ۝۵۸ۚ [22]

ترجمہ:جب ان میں  سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَكَظِیْمٌ۝۱۷ [23]

ترجمہ:اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں  اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں  سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔

مگراللہ تعالیٰ جوتمام مخلوقات کاخالق ہے کے لیے بزعم خود بیٹیاں  تجویزکرتے ہویہ توپھربڑی بھونڈی اورظالمانہ تقسیم ہوئی ! دراصل تمہاری یہ دیویاں دوسرے دیوتا کچھ بھی نہیں  ہیں ،یہ نہ کسی کونفع پہنچا سکتے ہیں  اورنہ نقصان ،یہ تومعانی سے خالی بس چندنام ہیں جوتم نے اورتمہارے جاہل اورگمراہ آباؤ اجدادنے رکھ لیے ہیں  ،اوران سے من مانی قدرتیں  منسوب کردی ہیں حالانکہ الوہیت وربوبیت اوررزاقیت میں  برائے نام بھی ان کاکوئی حصہ نہیں  ہے ، جن معبودوں  کایہ حال ہووہ عبادت کا ذرہ بھراستحقاق نہیں  رکھتے ، حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض ظن وگمان کی پیروی کررہے ہیں  اورخواہشات نفس کے مریدبنے ہوئے ہیں ،حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس واضح ہدایت آچکی ہے جوتوحیدونبوت اوران تمام امورمیں  ان کی رہنمائی کرتی ہے جن کے بندے محتاج ہیں  ، کیا انسان جوکچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے؟یعنی جس کوچاہے اپنا معبود بنا لے ؟یاانسان جس چیزکی آرزوکرتاہے وہ اسے ضرورملتی ہے ؟جیسے فرمایا

لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ۝۰ۭ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا یُّجْزَ بِہٖ۝۰ۙ وَلَا یَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا۝۱۲۳ [24]

ترجمہ:انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں  پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں  پر ،جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں  اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا تَمَنَّى أَحَدُكُمْ، فَلْیَنْظُرْ مَا یَتَمَنَّى، فَإِنَّهُ لَا یَدْرِی مَا یُكْتَبُ لَهُ مِنْ أُمْنِیَّتِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی تمناکرے تواسے چاہیے کہ وہ دیکھے کہ وہ کیاتمناکررہاہے کیونکہ وہ نہیں  جانتاکہ اس کی خواہش وتمنا میں  سے کیالکھاجائے گا ۔[25]

دنیااورآخرت کامالک اورمتصرف تواللہ ہی ہے،وہ جس کوچاہتاہے اپنی مشیت سے بے بہاعطا فرماتا ہے اورجس کوچاہتاہے محروم کردیتا ہے، لہذا امرالٰہی ان کی آرزوؤ ں  کے تابع ہے نہ ان کی خواہشات کے موافق۔

وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِی السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِی شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن یَشَاءُ وَیَرْضَىٰ ‎﴿٢٦﴾‏ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَیُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِیَةَ الْأُنثَىٰ ‎﴿٢٧﴾‏ وَمَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ‎﴿٢٨﴾(النجم)
اور بہت سے فرشتے آسمانوں  میں  ہیں  جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں  دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے ،بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں  رکھتے وہ فرشتوں  کا زنانہ نام مقرر کرتے ہیں  حالانکہ انہیں  اس کا علم نہیں  وہ صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بیشک وہم (گمان) حق کے مقابلے میں  کچھ کام نہیں  دیتا۔

جولوگ معبودحقیقی کوچھوڑکر فرشتوں  اوردیگرہستیوں  کی عبادت کرتے ہیں  انہوں  نے اپنے نزدیک یہ فرض کرلیاہے کہ ان کے یہ دیوی دیوتااللہ تعالیٰ سے ان کے کام بنوا سکتے ہیں  اورقیامت کے روزاللہ کی بارگاہ میں  ان کی شفاعت کریں  گے ،حالانکہ جب تک اللہ نہ چاہے تمام مقرب ومکرم ملائکہ مل کربھی اللہ تعالیٰ سے اپنی کوئی بات نہیں  منوا سکتے

۔ ۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔۝۰۝۲۵۵ [26]

ترجمہ:کون ہے جواس کی جناب میں  اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔

تو پتھرسے تراشی ہوئی یہ مورتیاں  اورتھان اورمدفون بزرگ جن سے یہ امیدلگائے ہوئے ہیں  انہیں کیانفع پہنچائیں  گی جن سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں ،جولوگ دعوت حق پرایمان نہیں  لاتے اور حیات بعد الموت اور اعمال کی جزاوسزاکوجھٹلاتے ہیں  وہ فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  قراردے کران کے زنانہ نام رکھنے کی جسارت کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ اَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ۝۰ۭ سَـتُكْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْــَٔــلُوْنَ۝۱۹ [27]

ترجمہ:انہوں  نے فرشتوں  کو جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں  عورتیں  قرار دے لیا، کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں  نے دیکھی ہے ؟ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں  اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔

حالانکہ اس طرح کے عقائد جوان لوگوں  نے اختیارکررکھے ہیں  ان میں  سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اوردلیل پرمبنی نہیں  ہے بلکہ ظن و گمان فاسد،جہالت ، خواہشات نفسی پرمبنی مشرکانہ عقائد اور خواہشات نفس کے موافق بدعات ان کے نظریات کی دلیل ہیں  جن کی خاطریہ بعض اوہام کوحقیقت سمجھ بیٹھے ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِیَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا ، وَلاَ تَجَسَّسُوا ، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُواوَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابدگمانی سے بچتے رہوبدگمانی اکثرتحقیق کے بعدجھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اورکسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے مت پڑو ، کسی کاعیب خواہ مخواہ مت ٹٹولواورکسی کے بھاؤ پربھاؤ نہ بڑھاؤ اورحسدنہ کرو،بغض نہ رکھو،کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو  بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں  بھائی بھائی بن کر رہو۔[28]

حالانکہ دین وہی صحیح ہے جوحقیقت کے مطابق ہواورحقیقت لوگوں  کی خواہشات کے تابع نہیں  ہواکرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں  وہی حقیقت ہوجائے،اس سے مطابقت کے لئے قیاس وگمان کام نہیں  دیتا بلکہ اس کے لئے علم درکار ہے ،اوروہ علم جب کامل ، واضح اورمضبوط ترین دلائل وبراہین کے ساتھ ان کے سامنے پیش کیاجاتاہے تویہ اس سے منہ موڑتے ہیں  اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھیراتے ہیں  جو انہیں  صحیح بات بتا رہا ہے،اس گمراہی میں  ان کے مبتلاہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں  آخرت اوراللہ کی بارگاہ میں  حساب کتاب کی کوئی فکرنہیں بس دنیاہی ان کی مطلوب ومقصود بنی ہوئی ہے ،ان کی تمام کوششیں  اوردوڑدھوپ دنیااوراس کی لذات وشہوات تک محدودہیں  اس لئے نہ انہیں  صحیح علم کی کوئی طلب ہے نہ اس بات کی کوئی پرواہ کہ جن عقائدکی یہ پیروی کررہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں  یانہیں ۔

فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إِلَّا الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ‎﴿٢٩﴾‏ ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰ ‎﴿٣٠﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ‎﴿٣١﴾‏ الَّذِینَ یَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِی بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ‎﴿٣٢﴾‏(النجم)
تو آپ اس سے منہ موڑ لیں  جو ہماری یاد سے منہ موڑے اور جن کا ارادہ بجز زندگانی دنیا کے اور کچھ نہ ہو،  یہی ان کے علم کی انتہا ہے، آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہے اس سے بھی جو راہ یافتہ ہے، اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں  کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں  کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے، اور ان لوگوں  کو جو بڑے گناہوں  سے بچتے ہیں  اور بےحیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے گناہ کے ، بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے، وہ تمہیں  بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں  زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں  کے پیٹ میں  بچے تھے ، پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگاروں  کو خوب جانتا ہے ۔

اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جوشخص(شایدولیدبن مغیرہ ) اللہ کاکلام اوروعظ ونصیحت سنناہی گوارانہیں  کرتااسے سمجھانے پراپناوقت ضائع نہ کروکیونکہ ایساشخص کسی ایسی دعوت کوقبول کرنے پرتیارنہ ہوگا جس کی بنیاداللہ پرستی پرہو،جودنیاکے مادی فائدوں  سے بلندترمقاصداوراقدارکی طرف بلاتی ہواورجس میں  اصل مطلوب آخرت کی ابدی فلاح وکامرانی کو قراردیاجا رہا ہو، اس قسم کے مادہ پرست اوراللہ بیزارانسان پراپنی محنت صرف کرنے کے بجائے توجہ ان لوگوں  کی طرف کرو جو اللہ کا ذکر سننے کے لئے تیار ہوں  اوردنیاپرستی کے مرض میں  مبتلانہ ہوں ،

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى یَدْعُوَ بِهَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ لأَصْحَابِهِ: اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِكَ مَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ الیَقِینِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَیْنَا مُصِیبَاتِ الدُّنْیَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِیبَتَنَا فِی دِینِنَا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لاَ یَرْحَمُنَا.

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی مجلس سے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں ’’  اے اللہ ہم میں  اپنے خوف کو اتنا تقسیم کر دے کہ ہمارے اور ہمارے گناہوں  کے درمیان حائل ہو جائے   اور اپنی فرمانبرداری ہم میں  اتنی تقسیم کر دے کہ وہ ہمیں  جنت تک پہنچا دے اور اتنا یقین تقسیم کر دے کہ ہم پر دنیا کی مصیبتیں  آسان ہو جائیں  اور جب تک ہم زندہ رہیں  ہماری سماعت، بصر اور قوت سے مستفید کر اورکردے ہماراوارث ہماری نسلوں  سے،اور  اے اللہ! ہمارا انتقام اسی تک محدود کر دے جو ہم پر ظلم کرےاور  ہمیں  دشمنوں  پر غلبہ عطاء فرمااورہمارے دین میں  مصیبت نازل نہ فرمااوردنیا ہی کو ہمارا اصل مقصد نہ بنا اور نہ دنیا کو ہمارے علم کی انتہا بنا اورہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کرجوہم پررحم نہ کرے۔ ‘‘[29]

یہ بات تیرارب ہی زیادہ جانتاہے کہ کون راہ راست سے بھٹک گیاہے اورکون سیدھے راستے پرگامزن ہے ،اورزمین اورآسمانوں  کی ہر چیز کاخالق، مالک ا ورمتصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے،اسے اس کے حال پرچھوڑدوتاکہ اللہ حق کی تکذیب اوراعمال قبیحہ کرنے والوں  کوان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان لوگوں  کولازوال انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازے جنہوں  نے دعوت حق کوقبول کیااوراعمال صالحہ اختیارکیے ہیں ،جوکبیرہ گناہوں  اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیزکرتے ہیں الایہ کہ بشری تقاضوں  کے تحت کچھ لغزشیں ان سے سرزدہوجائیں تواللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں  معاف فرمادے گا،جیسے فرمایا

 اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا۝۳۱ [30]

ترجمہ:اگرتم ان بڑے بڑے گناہوں  سے پرہیز کرتے رہوجن سے تمہیں  منع کیاجارہاہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں  کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں  گے اورتم کو عزت کی جگہ داخل کریں  گے۔

ایک مقام پرفرمایا

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [31]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)کہہ دوکہ اے میرے بندو! جنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ یقیناًاللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہےوہ تو غفورورحیم ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچوں  نمازیں  جمعہ سے جمعہ تک، اور رمضان سے رمضان تک، ان کے درمیان ہونے والے تمام (صغیرہ)گناہوں  کا کفارہ ہیں   اگر کبائر سے اجتناب کیاجائے۔[32]

بلاشبہ تیرے رب کادامن مغفرت بہت وسیع ہے،وہ تمہیں  اس وقت سے بخوبی جانتاہے جب اس نے زمین سے تمہیں  پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤ ں  کے پیٹوں میں  ابھی جنین ہی تھے،پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو ،اپنے اعمال صالحہ کی تعریفیں  کرنے نہ بیٹھ جاؤ ، مدح کے حصول کی خواہش کی بنا پر لوگوں  کواپنے نفس کی طہارت کی خبرنہ دیتے پھرو،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝۰ۭ بَلِ اللهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَاۗءُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۝۴۹  [33]

ترجمہ: تم نے ان لوگوں  کوبھی دیکھا جوبہت اپنی پاکیزگی نفس کادم بھرتے ہیں حالانکہ پاکیزگی تواللہ ہی جسے چاہتاہے عطاکرتاہے ،اور(انہیں  جوپاکیزگی نہیں  ملتی تو درحقیقت )ان پرذرہ برابرظلم نہیں  کیاجاتا۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمَّیْتُ ابْنَتِی بَرَّةَ، فَقَالَتْ لِی زَیْنَبُ بِنْتُ أَبِی سَلَمَةَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ هَذَا الِاسْمِ، وَسُمِّیتُ بَرَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ، اللهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ فَقَالُوا:بِمَ نُسَمِّیهَا؟ قَالَ: سَمُّوهَا زَیْنَبَ

محمدبن عمروبن عطا رحمہ اللہ  فرماتے ہیں زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھاکہ تم نے اپنی بچی کاکیانام رکھا ہے؟ میں  نے بتایاکہ میں  نے اپنی لڑکی کانام برہ (نیک صالحہ) رکھاہے ،  توانہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس نام سے منع فرمایاہے  خود میرا نام بھی برہ تھا جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم خوداپنی برتری اورپاکی آپ نہ بیان کرو،تم میں  سے نیکی والوں  کاعلم پورے طورپراللہ ہی کوہے،لوگوں  نے کہا  پھر ہم اس کاکیانام رکھیں  ؟ فرمایا زینب نام رکھو۔[34]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: أَثْنَى رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: وَیْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، ثُمَّ قَالَ:مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لاَ مَحَالَةَ، فَلْیَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِیبُهُ،وَلاَ أُزَكِّی عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ یَعْلَمُ ذَلِكَ مِنْهُ

ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی،آپ نے فرمایاافسوس! تونے اپنے ساتھی کی گردن ماری،تونے اپنے ساتھی کی گردن ماری ،کئی مرتبہ(آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی طرح فرمایا)پھر ارشادفرمایا اگرکسی کے لئے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہوجائےتویوں  کہے کہ میراگمان فلاں  کی طرف ایساہے حقیقی علم اللہ ہی کوہے،میں  اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں  کہہ سکتامیں  سمجھتاہوں  وہ ایساایساہے اگراس کاحال جانتاہو۔[35]

عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ،  أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ یَمْدَحُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  فَعَمَدَ الْمِقْدَادُ فَجَثَى عَلَى رُكْبَتَیْهِ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلًا ضَخْمًا فَجَعَلَ یَحْثُو فِی وَجْهِهِ الْحَصَاةَ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَیْتُمُ الْمَدَّاحِینَ، فَاحْثُوا فِی وُجُوهِهِمِ التُّرَابَ

ہمام بن حارث سے مروی ہےایک شخص سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کی تعریف بیان کرنے لگا مقداد رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں  کے بل بیٹھے اوروہ موٹے آدمی تھے اورتعریف کرنے والے کے منہ پر کنکریاں  ڈالنے لگے، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے کہااے مقداد!تم کوکیاہوا؟وہ بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب تم تعریف کرنے والوں  کودیکھوتوان کے چہروں  پرخاک ڈالو۔[36]

اللہ ہی بہترجانتاہے کہ واقعی متقی کون ہے۔

أَفَرَأَیْتَ الَّذِی تَوَلَّىٰ ‎﴿٣٣﴾‏ وَأَعْطَىٰ قَلِیلًا وَأَكْدَىٰ ‎﴿٣٤﴾‏ أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَیْبِ فَهُوَ یَرَىٰ ‎﴿٣٥﴾‏ أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِی صُحُفِ مُوسَىٰ ‎﴿٣٦﴾‏ وَإِبْرَاهِیمَ الَّذِی وَفَّىٰ ‎﴿٣٧﴾‏ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ‎﴿٣٨﴾‏ وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ‎﴿٣٩﴾‏ وَأَنَّ سَعْیَهُ سَوْفَ یُرَىٰ ‎﴿٤٠﴾‏ ثُمَّ یُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ‎﴿٤١﴾‏ وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ ‎﴿٤٢﴾‏ وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ ‎﴿٤٣﴾‏ وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا ‎﴿٤٤﴾‏ وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ‎﴿٤٥﴾‏ مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ ‎﴿٤٦﴾‏ وَأَنَّ عَلَیْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَىٰ ‎﴿٤٧﴾‏ وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ ‎﴿٤٨﴾‏النجم)
کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے منہ موڑ لیا اور بہت کم دیا اور ہاتھ روک لیا، کیا اسے علم غیب ہے کہ وہ (سب کچھ) دیکھ رہا ہے، کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں  دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں  میں  ہے، اور وفادار ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں   میں  تھاکہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہےاور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے،اوریہ کہ اسی نے جوڑا یعنی نر مادہ پیدا کیا ہے نطفہ سے جب وہ ٹپکایا جاتا ہے،اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوبارہ پیدا کرنا ہے اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایا دیتا ہے۔

پہلے صحیفوں  کی تعلیم :

نَزَلَتْ فِی الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ،  كَانَ قَدِ اتَّبَعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى دِینِهِ، فَعَیَّرَهُ بَعْضُ الْمُشْرِكِینَ، وَقَالَ لَهُ: أَتَرَكْتَ دِینَ الْأَشْیَاخِ وَضَلَلْتَهُمْ؟قَالَ: إِنِّی خَشِیتُ عَذَابَ اللَّهِ  فَضَمِنَ الَّذِی عَاتَبَهُ إِنْ هُوَ [وافقه ورجع إلى شركه ] أعطاه كذا من ماله أَنْ یَتَحَمَّلَ عَنْهُ عَذَابَ اللَّهِ ، فَرَجَعَ الْوَلِیدُ إِلَى الشِّرْكِ وَأَعْطَى الَّذِی عَیَّرَهُ بَعْضَ ذَلِكَ الْمَالِ الذی ضمن [ثم بخل ] وَمَنْعَهُ تَمَامَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَفَرَأَیْتَ الَّذِی تَوَلَّى  أَدْبَرَ عن الإیمان

یہ آیت ولیدبن مغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی، ولیدبن مغیرہ قریش کے بڑے سرداروں  میں  سے ایک تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سرداروں  اورلوگوں  کی طرح اسے بھی دعوت اسلام پیش کی ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے متاثرہوکریہ اسلام قبول کرنے پرتیارہوگیا،مگرجب بعض مشرک دوستوں  کومعلوم ہواکہ وہ مسلمان ہونے کاارادہ کر رہا ہے توانہوں نے کہا اے ولید بن مغیرہ !کیاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں  میں  آکراپنے آبائی دین کوچھوڑکرگمراہی اختیارکرلوگے؟اگر تمہیں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باتوں  سے عذاب آخرت کاخطرہ پیداہواہے توآخرت سے بے فکری اوردین کی حقیقت سے بے خبری کی بنا پر کہنے لگااتنی رقم مجھے دے دواورمیں  اس بات کاذمہ لیتاہوں  کہ تمہارے بدلے وہاں  کا عذاب میں  بھگت لوں  گا، ولیدنے اپنے دوست کی یہ بات مان لی اورصراط مستقیم پر چڑھتے چڑھتے رہ گیا،مگرجورقم اس نے اپنے مشرک دوست کودینی طے کی تھی وہ بھی ازروئے بخل،طمع، خودغرضی، نامردی وبے دلی سے بس تھوڑی سی اداکی اورکافی ساری روک لی۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’تم نے اس شخص کو بھی جو راہ خدا سے پھر گیا ۔‘‘[37]

اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا پھر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم نے اس شخص کوبھی دیکھاجسے اپنے رب کی عبادت اورتوحیدکاحکم دیاگیاتھامگراس نے اس سے منہ موڑا اور اعراض کیا،اگراس کانفس قلیل سے عمل پرآمادہ ہوابھی تواس پرقائم نہ رہابلکہ اس نے بخل سے کام لیااوراپنے ہاتھ کو روک لیاکیونکہ احسان اس کی عادت اورفطرت نہیں  ، اس کی فطرت تواپنے معبودحقیقی کی اطاعت سے روگردانی اورنیکی پرعدم ثبات ہے ،بایں  ہمہ وہ اپنے نفس کوپاک گردانتاہے اوراسے وہ منزلت عطاکرتاہے جواللہ تعالیٰ نے عطا نہیں  کی ، کیااس کے پاس غیب کاعلم ہے اوراس کے بارے میں  خبر دیتا ہے؟یاوہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتاہے یادونوں  باتوں  کوجمع کرنے کی جسارت کرتاہے ،کیااس مدعی کووہ خبریں  نہیں  پہنچیں  جوقرآن مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے موسیٰ   علیہ السلام اورابراہیم  علیہ السلام کے صحیفوں  میں  بیان ہو چکی ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙصُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ [38]

ترجمہ:یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں  میں  بھی کہی گئی تھی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں  میں ۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {وَإِبْرَاهِیمَ الَّذِی وَفَّى} أَتُدْرُونَ مَا وَفَّى؟ . قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: وفَّى عَمَلَ یَوْمِهِ، أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ فِی النَّهَارِ.

ابوامامہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا’’ابراہیم جس نے وفا کاحق اداکردیا۔‘‘کیاتم جانتے ہواس کاکیامطلب ہے؟ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااللہ اوراس کارسول بہتر جاتے ہیں ، فرمایاہر روز ابراہیم  علیہ السلام  دن نکلتے ہی چاررکعت اداکیاکرتے تھے یہی ان کی وفاداری تھی۔[39]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، وَأَبِی ذَرٍّ،  عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِی أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَكْفِكَ آخِرَهُ

ابودرداء رضی اللہ عنہ اورابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہےاے ابن آدم ! اول دن میں  تومیرے لیے چاررکعت نمازاداکرلے میں  آخر دن تک تیری کفایت کروں  گا۔[40]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص ہمیشہ دو رکعت چاشت کی پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائیں  گے اگرچہ وہ سمندرکی جھاگ کے برابر ہوں ۔ [41]

xیہ کہ ہرشخص خوداپنے فعل کاذمہ دارہے اورہرشخص جوکچھ بھی پائے گااپنے عمل کا پھل پائے گا یہ نہیں  کہ باپ گناہ کرے اوربیٹابھگتے ،بیٹاگناہ کرے اورباپ بھگتے۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۔۔۔۝۱۸ [42]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والاکسی دوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گا اور اگر کوئی لداہوانفس اپنابوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گاتواس کے بارکاایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گاچاہے وہ قریب ترین رشتہ دارہی کیوں  نہ ہو۔

اور ابراہیم  علیہ السلام  اور موسیٰ   علیہ السلام  کی تعلیمات کے سراسرخلاف عیسائیوں  کے عقیدے کے مطابق گناہ تووہ کریں  اور سولی پرعیسیٰ   علیہ السلام  لٹک جائیں  یایہ کہ وہ پہلے ہی سے سولی پرلٹک کر ان کے گناہ بخشوا کر چلے گئے اورانہیں  سرٹیفیکٹ دے گئے کہ بس میرا اقرار کرلینااس کے بعدجس کوچاہے قتل کردیناتمہاراکچھ نہیں  بگڑے گاحالانکہ کسی شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پرنہیں  ڈالی جا سکتی الایہ کہ اس فعل کے صدور میں  اس کا اپناکوئی حصہ ہو۔

xاوریہ کہ کوئی شخص اگر چاہے بھی توکسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں  لے سکتااورنہ اصل مجرم کو اس بناپرچھوڑاجاسکتاہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لئے کوئی اورآدمی اپنے آپ کو پیش کررہاہے ۔

xاوریہ کہ کوئی شخص سعی وعمل کے بغیرکچھ نہیں  پاسکتا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے پراس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں  لیکن تین چیزوں  کاثواب جاری رہتاہےوہ صدقہ جواس کے انتقال کے بعدبھی جاری رہے (یعنی وہ صدقہ جومیت نے اپنی زندگی میں  خودکیاہونہ کہ وہ جومیت کی طرف سے اس کی وفات کے بعدکیاجائے) وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے (تصنیف شدہ کتابیں  وغیرہ) نیک اولادجواس کے لئے دعاکرتی رہے(اولادکے بدنی ومالی ہرنیک کام کااجروالدین کوملتارہتاہے خواہ وہ نیت کریں  یانہ کریں  کیونکہ اولادوالدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے)۔[43]

جیسے باری تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نُـحْیِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۲ۧ  [44]

ترجمہ:ہم یقیناًایک روزمردوں  کوزندہ کرنے والے ہیں جوکچھ افعال انہوں  نے کیے ہیں  وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں  اورجوکچھ آثارانہوں  نے پیچھے چھوڑے ہیں  وہ بھی ہم ثبت کررہے ہیں ۔

اورمرنے کے بعدتمام مخلوقات دوبارہ زندہ ہوکراللہ کے حضور لوٹیں  گی ،

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الْأَوْدِیِّ، قَالَ: قَامَ فِینَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَقَالَ:یَا بَنِی أَوْدٍ إِنِّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَعْلَمُونَ الْمَعَادَ إِلَى اللَّهِ، ثُمَّ إِلَى الْجَنَّةِ أَوْ إِلَى النَّارِ

عمروبن میمون اودی  رحمہ اللہ سے روایت ہےمعاذبن جبل رضی اللہ عنہما ہمارے پاس کھڑے ہوئے اورانہوں  نے کہااے بنی اوس!میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاتمہارے پاس قاصدہوں  تم جانتے ہوکہ آخرت میں  سب کواللہ تعالیٰ کے پاس جاناہے اورپھرجنت کی طرف جاناہوگایادوزخ کی طرف۔[45]

جہاں  جن وانس کے اعمال کی جانچ پڑتال ہوگی اوریہ دیکھا جائے گاکہ دنیامیں  کون کیااچھایابراعمل کرکے آیاہے ، کسی کاعمل اوراس کی کوشش چھپی نہیں  رہ سکے گی اوروہ اپنی نیکی اوربرائی میں  تمیزکرسکے گا جیسےفرمایا

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۰۵ۚ  [46]

ترجمہ:اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں  سے کہہ دوکہ تم عمل کرواللہ اوراس کارسول اورمومنین سب دیکھیں  گے کہ تمہاراطرزعمل اب کیارہتاہے ،پھرتم اس کی طرف پلٹائے جاؤ  گے جو کھلے اورچھپے سب کوجانتاہے اوروہ تمہیں  بتادے گاکہ تم کیاکرتے رہے ہو۔

ایک مقام پرفرمایا

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [47]

ترجمہ:پھرجس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گا۔

عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِیَةَ، عَمِّ الْأَحْنَفِ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمْ، فَسَمِعْتُهُ یَقْرَأُ هَذِهِ الْآیَةَ: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ، وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ} [48] ، فَقُلْتُ: وَاللهِ، لَا أُبَالِی أَنْ لَا أَسْمَعَ غَیْرَهَا حَسْبِی حَسْبِی

حسن سے مروی ہےصعصعہ بن معاویہ رضی اللہ عنہما  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت’’ پھرجس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گا۔‘‘ تلاوت فرمائی، اس آیت کوسن کروہ بولااللہ کی قسم ! مجھے صرف یہی آیت کافی ہےاورزیادہ اگرنہ بھی سنوں  تو کچھ اورسننے کی ضرورت نہیں ۔[49]

پھرجوامتحان میں کامیاب ہوگیا اسے دائمی نعمتوں  سے بھری جنت میں  عزت واحترام کے ساتھ داخل کیاجائے گا اورجوناکام رہا اسے ذلت کے ساتھ جہنم کے درناک عذاب میں  دھکیل دیاجائے گا ،فرحت ومسرت ، حزن وغم، خیروشر دونوں  کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں  ، اچھی یابری قسمت کاسرابھی اسی کے ہاتھ میں  ہے ،اگرکسی کوراحت ومسرت نصیب ہوئی ہے تواسی کے دینے سے ہوئی ہے اور اگرکسی کومصائب وآلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیاہے ،وہ جس کوچاہتاہے تونگری عطا فرما دیتا ہے ، مال وجائیداداورغلام ان کے قبضہ میں  دے دیتا ہے اوروہ کسی کامحتاج نہیں  ہوتااورجسے چاہتا ہے محتاج بنادیتاہے، اس کائنات میں  کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں  جو مشکل کشا، حاجت رواہو،یاگنج بخش یادستگیرہو یاقسمتوں  کے بنانے اور بگاڑنے میں  کسی قسم کا دخل رکھتی ہو یا خزانے بخشنے یا واپس لینے کی قدرت رکھتی ہو،جو اللہ موت دینے اور زندگی بخشنے پرقدرت رکھتا ہے ،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ۔۔۔۝۲ۙ [50]

ترجمہ:جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا ۔

اورجونطفے کی ایک حقیرسی بوندسے انسان جیسی مخلوق پیدا کرتا ہے بلکہ ایک ہی مادہ تخلیق وطریق پیدائش سے عورت اورمردکی دوالگ صنفیں  پیدا کر دکھاتاہے اوراس میں  تمام حیوانات ،ناطق وغیرناطق جانور شامل ہیں ،جیسے فرمایا

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭاَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰى۝۳۷ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙفَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۳۹ۭ اَلَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۴۰ۧ [51]

ترجمہ:کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو(رحم مادر میں  ) ٹپکا جاتا ہے؟پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیےپھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں  بنائیں ،کیا وہ اس پر قادر نہیں  ہے کہ مرنے والوں  کو پھر سے زندہ کردے ؟۔

اس اللہ کی قدرت کاملہ کے لئے انسان کو دوبارہ ان کی قبروں  سے زندہ کردیناکچھ دشوارنہیں  ہے،جیسے اس نے ابتداء پیداکیاتھااس طرح مرنے کے بعددوبارہ قبروں  سے جسم وجان کے ساتھ زندہ کرے گاان کوایک مقررہ دن میں  اکٹھا کرے گا اور ہرشخص کو فرداًفرداًاس کے اعمال کے مطابق نیک کاموں  میں  بے بہاجزااوربدکاموں  کی دردناک سزا دے گا،جیسے فرمایا:

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [52]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں  گے۔

اس لیے اپنے معبودحقیقی کی بے بہانعمتوں  کاشکراداکریں  اورہرطرف سے منہ موڑکرصرف اسی وحدہ لاشریک کی عبادت کریں  ۔

وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَىٰ ‎﴿٤٩﴾‏ وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَىٰ ‎﴿٥٠﴾‏ وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَىٰ ‎﴿٥١﴾‏ وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَىٰ ‎﴿٥٢﴾‏ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ ‎﴿٥٣﴾‏ فَغَشَّاهَا مَا غَشَّىٰ ‎﴿٥٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ ‎﴿٥٥﴾‏(النجم)
اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے اور یہ کہ اسی نے عاد اول کو ہلاک کیا ہے اور ثمود کو بھی (جن میں  سے) ایک کو بھی باقی نہ رکھا اور اس سے پہلے قوم نوح کو، یقیناً وہ بڑے ظالم اور سرکش تھے، اور موتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں  کو) اسی نے الٹ دیا، پھر اس پر چھا دیا جو چھایا، پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں  جھگڑے گا ؟۔

اہل مصرکی طرح عرب میں  قبیلہ خزاعہ بھی ستاروں  کی پرستش کرتا تھا ،ان کاعقیدہ تھاکہ ستارہ شعریٰ لوگوں  کی قسمتوں  پراثراندازہوتاہے ،اس لیے اس روشن ترین ستارے کانام لے کرفرمایاکائنات کی ہرچیزکی طرح شعریٰ(جسے مرزم الجوزائ،الکلب الاکبر،الکلب الجبار،الشعریٰ العبوروغیرہ بھی کہتے ہیں ) کابھی وہی رب ہے جس کی طرف تمہیں  دعوت دی جارہی ہے اوروہی تمہاری قسمتوں  کو بناتاہے ،اوریہ کہ اسی نے قوم ہود کودعوت حق کی تکذیب اورسرکشی کے سبب سات راتیں  اورآٹھ دن مسلسل تندوتیزہوابھیج کر ہلاک کردیااورصرف ہود  علیہ السلام پرایمان لانے والوں  کوبچالیاگیاجوعادثانیہ کہلائے،جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۝۶۠ۙاِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۝۷۠ۙالَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۝۸۠ۙ [53]

ترجمہ:تم نے دیکھانہیں  کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیااونچے ستونوں  والے عادارم کے ساتھ جن کے مانندکوئی قوم دنیاکے ملکوں  میں  پیدانہیں  کی گئی ہے۔

اورصالح   علیہ السلام کی قوم ،قوم ثمودکوبھی دعوت حق کی تکذیب اوراللہ کی اونٹنی کوقتل کرنے کے سبب پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا،اوران اقوام سے پہلے قوم نوح   علیہ السلام کودعوت اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں  پانی میں  غرق کردیاکیوں  کہ وہ سخت ظالم وسرکش لوگ تھے،اورقوم لوط کی بستیوں  کوصبح کے وقت زلزلے کی ہولناک آوازنے آ دبوچا ،جس سے خوابیدہ آتش فشاں  ایک ہولناک دھماکے سے پھٹ پڑا جس نے پوری ہی بستی کوالٹ پلٹ کرزیروزبرکردیاپھران پرنشان زدہ پتھروں  کا انتہائی خطرناک مینہ برسایا ،جیسے فرمایا

وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۝۵۸ۧ [54]

ترجمہ:اور برسائی ان لوگوں  پر ایک برسات ، بہت ہی بری برسات تھی وہ ان لوگوں  کے حق میں  جو متنبہ کیے جا چکے تھے۔

خوفناک زلزلے اورآتش فشاں  کے پھٹنے کے دھماکے سے یہ زمین بحیرہ روم سے ۴۰۰میڑنیچے دھنس گئی اور پانی ان پرپھیل گیا اور۴۰۰میڑگہری ایک جھیل بن گئی ،جسے بحیر میت ، بحر مردار یا بحرلوط کہتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں  ہمیشہ کے لیے عبرت کانشان بنادیا ، پس اے انسان!تو اپنے رب کی کن کن نعمتوں  میں  شک کرے گا اور جھٹلائے گا؟

أَیْ: فَفِی أَیِّ نِعَمِ اللَّهِ عَلَیْكَ أَیُّهَا الْإِنْسَانُ تَمْتَرِی؟ قَالَهُ قَتَادَةُ

اے انسان !تجھے اپنے بارے میں  اللہ تعالیٰ کی کن نعمتوں  کے بارے میں  شک ہے؟یہ قتادہ  رحمہ اللہ کاقول ہے۔[55]

جبکہ وہ اتنی واضح ہیں  کہ کوئی اس کاانکارکرہی نہیں  سکتا۔

هَٰذَا نَذِیرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ ‎﴿٥٦﴾‏ أَزِفَتِ الْآزِفَةُ ‎﴿٥٧﴾‏ لَیْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ ‎﴿٥٨﴾‏ أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِیثِ تَعْجَبُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ‎﴿٦٠﴾‏ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ ‎﴿٦١﴾‏(النجم)
یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں  پہلے ڈرانے والوں  میں  سے، آنے والی گھڑی قریب آگئی ہے، اللہ کے سوا اس کا (وقت معین پر کھول) دکھانے والا (اور کوئی نہیں  ، پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو ؟اور ہنس رہے ہو ؟ روتے نہیں  بلکہ تم کھیل رہے ہو ۔

جس طرح پہلے پیغمبروں  نے اپنی اپنی قوموں  کو دعوت اسلام پیش کی تھی ،اس دعوت پرایمان لانے والوں  کوجنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  کی خوشخبری دی تھی اور جھٹلانے والوں  کواللہ کے المناک عذاب سے ڈرایاتھا مگران اقوام نے تعصبات،بغض وحسداورفخروغرورمیں  اس دعوت کوجھٹلایااوراس کامذاق اڑایا،انہی رسولوں  کو جن کے کردارکے وہ گواہ تھے دیوانہ قراردیا،ان سے عجیب وغریب معجزات کامطالبہ کیاگیا،اس دعوت کی پاداش میں انہیں  سنگسار کرنے اورشہربدرکرنے کی دھمکیاں  دی گئیں  اور کئی ایک کوقتل بھی کردیاگیا،مشرکانہ دین کوسربلنداوراللہ کے پاکیزہ دین کوسرنگوں  کرنے کے لیے مکروفریب کے جال بچھائے،اہل ایمان کواپنی مشرکانہ ملت پرواپس لانے کے لیے ان پرظلم وستم ڈھائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق انہیں  سوچنے،سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت دی مگراس پروہ اوراکڑگئے، آخرایک مقررہ وقت پراللہ نے ان پر اپناعذاب نازل کیاپھروہ نہ خوداس عذاب کودفع کرسکے اورنہ ان کے معبودہی ان کے کچھ کام آئے اوراللہ نے انہیں  نیست ونابودکرکے ہمیشہ کے لیے عبرت کانشان بنادیا اور اب سیدالمرسلین محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجیدکے ذریعہ سے جواصلاح کی طلب رکھنے والوں  کی رائے ، عقل،راست بازی ،ثابت قدمی اور ایمان وایقان میں  اضافہ کرتا ہے تم لوگوں  کواسی طرح خبردارکررہے ہیں  جس طرح پہلی ہلاک شدہ اقوام کوپیغمبروں  کے ذریعہ متنبہ کیا گیا تھا ،مگرتم لوگ اس دعوت پر غوروتدبر کرکے اس پرایمان لانے اور اعمال صالحہ اختیارکرکے عذاب جہنم سے نجات حاصل کرنے کی بجائے اپنی اخروی دائمی زندگی سے غافل ہوجبکہ قیامت کی گھڑی تم سے بالکل قریب آچکی ہے اور اس کی علامات واضح ہوگئیں جیسے فرمایا

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ۔۔۔۝۱ [56]

ترجمہ:قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ۔

جسے نہ تم روک سکوگے اورنہ تمہارے معبود،البتہ اللہ قادر مطلق چاہے تووہ اس کو ٹال سکتا ہے ، لہذااپنے بودے معبودوں  پرتکیہ کرنے کی بجائے اپنی نجات کی فکرکرواور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیراس پاکیزہ دعوت کوقبول کرلو ،اب کیا محمد رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق تمہیں  عجیب ، انوکھی اورنرالی لگتی ہے ؟جس پرتم ایک دوسرے کامنہ تکتے ہواوراس پاکیزہ تعلیمات کی ہنسی اڑاتے ہو،جسے تم سننانہیں  چاہتے اور شور مچاتے  ہوتاکہ کوئی اوربھی اسے نہ سننے پائے ؟ حالانکہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں  بلکہ تعجب تواس شخص کی عقل ، سفاہت اورگمراہی پرہوناچاہیے جواس جلیل القدرکلام پر تعجب کرتاہے ،تم اس بے مثل ،اسرار و حکمت سے بھر پور کتاب کی تضحیک کرنے اورتمسخراڑانے میں  جلدی کررہے ہو حالانکہ اس کے اوامرونواہی کوسن کر،اس کے وعدووعید پرتوجہ دے کراوراس کی سچی اوراچھی خبروں  کی طرف التفات کرکے اس سے متاثرہوتے ، ہلاک شدہ اقوام کاالمناک انجام دیکھ کر عبرت حاصل کرتے اور تمہارے سخت دل نرم پڑتے ،اللہ کی بے پایاں  رحمت اور اس کے عذاب کاسن کر تمہاری آنکھیں  روپڑتیں ،مگرتم اس پرتدبرکرنے سے غافل ہو جو تمہاری قلت عقل اورتمہارے دین کی کھوٹ پر دلالت کرتی ہے، کیاتمہیں اپنی اس گمراہی اور جہالت پر رونانہیں  آتا ؟ ابھی وقت ہے،مہلت کی کچھ گھڑیاں  ابھی باقی ہیں  اپنی اس گمراہ کن،مشرکانہ روش سے بازآجاؤ  ورنہ پھرسوائے پچھتاوے کےکچھ ہاتھ نہیں  آئے گا۔

‏ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ۩ ‎﴿٦٢﴾‏(النجم)
 اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو۔

اوراے مسلمانو!تم اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں  جھک جاؤ اوراس کی عبادت واطاعت کامظاہرہ کرکے قرآن کی تعظیم وتوقیرکااہتمام کرو ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:سَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهُ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَالجِنُّ وَالإِنْسُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے اس حکم کی تعمیل میں  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ،تمام مشرکوں  اورجنات وانسانوں نے بھی سجدہ کیا۔[57]

سرجھکاکاہل نہ ہو،اٹھ توسہی، بندہ ہونے کی علامت ہے یہی

ایک ضعیف روایت :

جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نَادٍ مِنْ أَنْدِیَةِ قُرَیْشٍ كَثِیرٍ أَهْلُهُ، فَتَمَنَّى یَوْمَئِذٍ أَنْ لَا یَأْتِیَهُ مِنَ اللَّهِ شَیْءٌ فَینَفِرُوا عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْهِ: {وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى[58], فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى}[59] أَلْقَى عَلَیْهِ الشَّیْطَانُ كَلِمَتَیْنِ:تِلْكَ الْغَرَانِقَةُ الْعُلَى، وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْجَى ، فَتَكَلَّمَ بِهَا. ثُمَّ مَضَى فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا. فَسَجَدَ فِی آخِرِ السُّورَةِ، وَسَجَدَ الْقَوْمُ جَمِیعًا مَعَهُ، وَرَفَعَ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ تُرَابًا إِلَى جَبْهَتِهِ فَسَجَدَ عَلَیْهِ، وَكَانَ شَیْخًا كَبِیرًا لَا یَقْدِرُ عَلَى السُّجُودِ.

روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دل میں  یہ تمناپیداہوئی کہ کاش قرآن میں  کوئی ایسی بات نازل ہوجائے جس سے اسلام کے خلاف کفارقریش کی نفرت دورہواوروہ کچھ قریب آجائیں ،یاکم ازکم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقیدنہ ہوجوانہیں  بھڑکادینے والی ہو،یہ تمناآپ کے دل ہی میں  تھی، ایک روزکعبہ میں  قریش کی ایک بڑی مجلس میں  بیٹھے تھے اور دل ہی دل میں  یہ تمنا اور آرزو کر رہے تھے کہ کوئی وحی نازل نہ ہو کہ جس سے قریش والے متنفر ہوں  تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرسورۂ نجم نازل ہوئی اورآپ نے اس کی تلاوت شروع فرمادی ،جب آپ آیت  ’’اب ذرابتاؤ ،تم نے کبھی اس لات اورعزیٰ اورتیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پرکچھ غوربھی کیاہے؟ ۔‘‘پر پہنچے تو توشیطان نے آپ کی زبان سے یہ الفاظ اداکردیئےیہ بلندمرتبہ دیویاں  ہیں  اوران کی شفاعت ضرورمتوقع ہے ۔ جب قریش نے یہ آیات سنیں  تو خوشی کے مارے پھولے نہ سمائے اس کے بعد آگے پھر آپ باقی آیات پڑھتے چلے گئے،جب آپ سورۂ کے اختتام پرپہنچے توآپ نے سجدہ کیاآپ کے ساتھ مشرک ومسلمان سب سجدے میں  گرگئے، سوائے ولید بن مغیرہ اور ابو احیحہ سعید بن العاصی کےجوبہت بوڑھےتھےاورسجدہ نہیں  کرسکتے تھےاس لئے انہوں  نے بطحاء سے ایک مٹھی مٹی کی بھرکراونچی لے جاکراس کو اپنے ماتھے سے لگا لیا،

فَرَضُوا بِمَا تَكَلَّمَ بِهِ , وَقَالُوا: قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ یُحْیِی وَیُمِیتُ , وَهُوَ الَّذِی یَخْلُقُ وَیَرْزُقُ، وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هَذِهِ تَشَفْعُ لَنَا عِنْدَهُ، إِذْ جَعَلْتَ لَهَا نَصِیبًا ، فَنَحْنُ مَعَكَ ،فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فَقَالَ مَاذَا صَنَعْتَ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّه وَقُلْتَ مَا لَمْ أَقُلْ لَكَ؟! فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِیدًا وَخَافَ مِنَ اللَّه خَوْفًا عَظِیمًا حَتَّى نَزَلَ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ كَادُوا لَیَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ، لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهُ} [60] . إِلَى قَوْلِهِ: {ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیرًا}[61] .

کفار قریش نے خوشی سے کہاکہ اب ہمارامحمدسے کیا اختلاف باقی رہ گیاہےہم بھی تویہی کہتے تھے کہ خالق ورازق اللہ ہی ہے البتہ ہمارے یہ معبوداس کے حضورمیں  ہمارے شفیع ہیں ، شام کوجبریل  علیہ السلام آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی  خدمت میں  آئے اورانہوں  نے کہاکہ آپ نےلوگوں  کے سامنے وہ چیز تلاوت فرمائی ہے جسے میں  نہیں  لایا ہوں ، اس پرآپ سخت مغموم ہوئے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا بڑا خوف پیدا ہواوغیرہ ،اللہ تعالیٰ نے بطورعتاب یہ آیات نازل فرمائیں ’’اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں  نے اس کوشش میں  کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی کہ تمہیں  فتنے میں  ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں  جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑواگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں  اپنا دوست بنا لیتےاور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمیں  مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے ، لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں  دنیا میں  بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے اور آخرت میں  بھی دوہرے عذاب کا، پھر ہمارےمقابلے میں  تم کوئی مددگار نہ پاتے۔‘’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  برابر رنج وغم میں  مبتلا رہے یہاں  تک کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے’’ اور اے محمد علیہ السلام !تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسابھیجاہے نہ نبی (جس کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہ آیاہوکہ)جب اس نے تمنا کی، شیطان اس کی تمنامیں  خلل اندازہوگیا ، اس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں  کرتاہے اللہ ان کو مٹا دیتاہے اور اپنی آیات کوپختہ کردیتاہے ،اللہ علیم ہے اورحکیم۔‘‘[62]

تفسیر ابن جریر،طبقات ابن سعد،مغازی موسیٰ بن عقبہ،سیرت ابن اسحاق اورابن ابی حاتم، ابن المنذر،ابن مردویہ اورطبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں  میں  نقل کیاہے) یہ واقعہ محمدبن قیس ،محمدبن کعب قرظی ،عروہ بن زبیر،ابوصالح ،ابوالعالیہ ،سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ  ،ابوبکربن عبدالرحمٰن بن حارث ،قتادہ رحمہ اللہ  ،مجاہد رحمہ اللہ ،سدی رحمہ اللہ  ،ابن شہاب زہری رحمہ اللہ  اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  (صحابی)کی سندوں  پرختم ہوتاہے ،اس قصہ میں  دوبہت بڑے اختلاف ہیں ایک تویہ کہ بتوں  کی تعریف میں  جوکلمات نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیے گئے ہیں  وہ قریب قریب ہرروایت میں  دوسری روایت سے مختلف ہیں ،یعنی پندرہ عبارتیں  الگ الگ الفاظ میں  ہیں ، دوسرا بڑااختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی روسے یہ الفاظ دوران وحی شیطان نے آپ پرالقاکردیئے اور آپ سمجھے کہ یہ بھی جبرائیل لائے ہیں ،کسی روایت میں  ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیراثرسہواآپ کی زبان سے نکل گئے ،کسی روایت میں  ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آگئی تھی اوراس حالت میں  یہ الفاظ نکلے ،کسی کابیان ہے کہ آپ نے یہ الفاظ قصداًکہے مگراستفہام انکاری کے طورپرکہے،کسی کاقول ہے کہ شیطان نے آپ کی آوازمیں  آواز ملاکریہ الفاظ کہہ دیئے اور سمجھا یہ گیاکہ آپ نے کہے ہیں ،اورکسی کے نزدیک کہنے والامشرکین میں  سے کوئی شخص تھا،امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ  ،قاضی عیاض رحمہ اللہ  ،ابن خزیمہ رحمہ اللہ  ،قاضی ابوبکرابن العربی رحمہ اللہ ،امام رازی رحمہ اللہ ،قرطبی رحمہ اللہ ،بدرالدین عینی رحمہ اللہ ، شوکانی رحمہ اللہ ،آلوسی رحمہ اللہ  وغیرہ اس قصے کوبالکل غلط قراردیتے ہیں ،جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،ابوبکرجصاص رحمہ اللہ  ،زمخشری رحمہ اللہ ،ابن جریر اس کوصحیح مانتے ہیں  ، علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جتنی سندوں  سے یہ قصہ ہواہے سب مرسل اورمنقطع ہیں  مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں  ملا،

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ  نے اس قصہ کے تمام راویوں  کومجروح قرار دیا ہے ۔

ابن خزیمہ رحمہ اللہ  سے اس کے متعلق پوچھاگیاتوانہوں  نے کہاکہ یہ زنادقہ کا گھڑاہوا ہے ۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ  کہتے ہیں  کہ اس کی کمزوری اسی سے ظاہرہے کہ صحاح ستہ کے مؤ لفین میں  سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں  نقل نہیں  کیااورنہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سندکے ساتھ ثقہ راویوں  سے منقول ہواہے ۔

امام فخر الدین رازی  رحمہ اللہ کہتے ہیں  یہ قصہ بالکل غلط،دسیسہ کاری اورمنافقین کی من گھڑت ہے جواسلام کونقصان پہنچاناچاہتے ہیں  ۔

امام نووی  رحمہ اللہ  نے بھی اس قول کو باطل قراردیاہے۔

وَأما الحَدِیث الَّذِی فِیهِ وأنهن الغرانیق العلى وَإِن شَفَاعَتهَا لترتجى فكذب بحت مَوْضُوع لِأَنَّهُ لم یَصح قطّ من طَرِیق النَّقْل وَلَا معنى للاشتغال بِهِ إِذْ وضع الْكَذِب لَا یعجز عَنهُ أحد

علامہ ابن حزم  رحمہ اللہ  کہتے ہیں وہ حدیث جس میں  وأنهن الغرانیق العلى وَإِن شَفَاعَتهَا کے کلمات بیان کیے گئے ہیں  سراسر جھوٹ ہے، روایت ودرایت کسی اعتبار سے بھی ایسی موضوع حدیث میں  دلچسپی لینے کے کوئی معنی نہیں  کیونکہ غلط روایت گھڑنے سے توکوئی بھی عاجزنہیں  ہوتا۔[63]

قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کر کے اسے بڑے پرزور طریقے سے ردکیاہے ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ  کہتے ہیں

وأقبح الأقوال التی رأیناها فی هذا الباب وأظهرها فسادا أنه صلّى الله علیه وسلّم أدخل تلك الكلمة من تلقاء نفسه حرصا على إیمان قومه ثم رجع عنها، ویجب على قائل ذلك التوبة كبرت كلمة تخرج من أفواههم إن یقولون إلا كذبا

اس بارے میں  سب سے زیادہ قبیح اورسب سے زیادہ شرانگیزقول جوہمارے سامنے آیاہے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس لالچ میں  کہ آپ کی قوم خوش ہو کر ایمان لے آئے خدانخواستہ یہ کلمہ اپنی طرف سے وحی میں  داخل فرمادیاپھرآپ نے اس کلمہ سے رجوع فرما لیا ایسا کہنے والے پرتوبہ کرناواجب ہے۔[64]

یایہ کہاجائے کہ شیطان نے آپ کی آوازکے ساتھ آواز ملاکر کہا توبھی شیطان کاآپ پر قادر ہوجاناہرگزدرست نہیں  اور اگریہ مان لیاجائے کہ شیطان کو (خدا نخواستہ)اس حد تک آپ پر قدرت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ آپ سے وحی لکھواسکے اورآپ کی زبان سے کفریہ کلمات جاری کرا سکے تو پھر صرف اسی ایک قصہ پرکیاموقوف ہے دوسرے مواقع پر بھی وحی ربانی شیطان کاایک کھلونابن کررہ جائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوشیطان کے غلبے سے محفوظ اور معصوم قراردے دیاہے ،محدث عصرعلامہ ناصرالدین البانی نے بھی  اپنے رسالہ میں سنداورمتن دونوں  اعتبارسے حدیث غرانیق کابطلان واضح کیاہے

القصة التی وقفنا علیها لكی نسردها روایة روایة۔[65]

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غورہے کہ سورۂ نجم رمضان المبارک پانچ بعثت نبوی کونازل ہوئی اورمعتبرترین روایات کی روسے سورۂ بنی اسرائیل گیارہ یابارہ بعثت نبوی کو معراج کے موقع پرنازل ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے چھ سات سال بعد عتاب نازل فرمایا،پھرسورۂ الحج کا یہ حصہ ذی الحجہ ایک ہجری کونازل ہوا یعنی یوں  کہاجائے کہ سورۂ بنی اسرائیل کے مزیددوڈھائی سال گزرجانے کے بعداللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان فرمایاگیاکہ یہ آمیزش توالقائے شیطانی سے ہوگئی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کر دیا ہے ،اب خودہی غورکرلیں  کہ فعل پانچ بعثت نبوی میں  ہوااوراس فعل پرعتاب چھ سات سال بعد ہواورشیطانی آمیزش کی تنسیخ کااعلان نوسال بعدہواکیایہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے ، واقعہ صرف اتناتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی اوراس کے خاتمے پرآپ نے سجدہ کیاتوقرآن کازورکلام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پرتاثیرانداز بیاں  سے تمام حاضرین مشرک ومسلمان سب سجدے میں  گرگئے، دراصل یہ روایت ایک جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرایک بہتان کے سوا کچھ نہیں ،اس روایت کوغلط کہنے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاتبلیغی منصب ہی بندوں  کواللہ کی عبادت کی طرف بلانااوربتوں  کے خلاف جنگ کرنا تھا ، اورآپ کی سب سے زیادہ مساعی بتوں  کے وجود کو یکسرمٹانے پر مرکوز تھیں اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسافرماتے توقرآن مجید کی ساری دعوت ہی ختم ہوجاتی،اس کے علاوہ یہ قول کلام الہٰی کے بھی مخالف ہے ، اللہ تعالیٰ تو تمام انبیاء ورسل کی امانت ودیانت کے بارے میں  فرماتاہے کہ ہمارے رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں  کہتے وہ تووہی بات کہتے ہیں  جوانہیں  وحی کی جاتی ہے، پس مذکورہ بالا دلائل کی بناپرہمیں  اجمالی طورپرمعلوم ہوگیاکہ یہ قصہ بالکل ہی گھڑاہواہے ،اس سلسلہ میں  صرف اتنا ہی ہواہے کہ مفسرین کے ایک طبقہ نے تفسیر کے سلسلہ میں  اسے بیان کیا ہے لیکن وہ اس روایت کی صداقت میں  تواترکی حدتک نہیں  پہنچ سکے،اورشریعت کایہ مسلمہ اصول ہے کہ صرف ایک اکیلی روایت حدتواترتک پہنچی ہوئی نقلی روایات وعقلی دلائل کامقابلہ نہیں  کرسکتی۔

وَبَلَغَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِینَ خَرَجُوا إلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، إسْلَامُ أَهْلِ مَكَّةَ، فَأَقْبَلُوا لِمَا بَلَغَهُمْ مِنْ ذَلِكَ، حَتَّى إذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ، بَلَغَهُمْ أَنَّ مَا كَانُوا تَحَدَّثُوا بِهِ مِنْ إسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا

بہرحال جب مسلمانوں  تک یہ افواہ پہنچی کہ مکہ کے حالات سدھرگئے ہیں  یاانہوں  نے ایسی باتیں  سنیں  جس سے وہ مطمئن ہوگئے تو انہوں  نے شوال میں  حبشہ سے واپسی کی راہ لی،مگرجب وہ لوگ مکہ سے صرف ایک دن کی مسافت پررہ گئے تواس خبرکی حقیقت ان پرکھل گئی کہ مسلمان ابھی تک مکہ میں  بدستورمظلوم ومقہورہیں ۔[66]

اب مسلمان شش وپنج میں  پڑگئے کہ اس صورت حال میں  وہ کیاکریں  چنانچہ کچھ مہاجرین توواپس حبشہ کی طرف لوٹ گئے ،کچھ چھپ چھپاکرمکہ میں  داخل ہوگئے یا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہما  کے سواباقی اشخاص کسی نہ کسی شخص کی پناہ میں  مکہ میں  داخل ہوگئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کونجاشی حبشہ کے ملک میں  امن وامان سے رہنے کاتذکرہ کیااہل مکہ ایک طاقتواراجنبی حکومت کی مہاجرمسلمانوں  سے ہمدردی اور حسن سلوک پربرافروختہ ہوگئے اور واپس آئے ہوئے مسلمانوں  کوکفارمکہ اوران کے قبیلوں نے آڑے ہاتھوں  لیاان پرلعن طعن کیااورانہیں  پہلے سے زیادہ تشددکیااورمظالم ڈھائےجوان کے انتہائی تعصب اورقساوت قلبی کامظرتھا ۔

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان سعیدبن عاص بن امیہ کی پناہ میں  داخل مکہ ہوئے۔

وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ بْنِ هِلَالِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُومٍ ، دَخَلَ بِجِوَارٍ مِنْ أَبِی طَالِبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَكَانَ خَالَهُ. وَأُمُّ أَبِی سَلَمَةَ: بَرَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

اورابوسلمہ بن عبدالاسد،ابوطالب بن عبدالمطلب کی پناہ میں  داخل ہوئے تھے کیونکہ ابوطالب ان کے ماموں  تھے اورابوطالب کی بہن برہ بنت عبدالمطلب ان کی ماں  تھیں ۔

عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونِ بْنِ حَبِیبٍ الْجُمَحِیُّ، دَخَلَ بِجِوَارِ مِنْ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِلَمَّا رَأَى عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ مَا فِیهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْبَلَاءِ، وَهُوَ یَغْدُو وَیَرُوحُ فِی أَمَانٍ مِنْ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ، قَالَ: وَاَللَّهِ إنَّ غُدُوِّی وَرَوَاحِی آمِنًا بِجِوَارِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ، وَأَصْحَابِی وَأَهْلُ دِینِی یَلْقَوْنَ مِنْ الْبَلَاءِ وَالْأَذَى فِی اللَّهِ مَا لَا یُصِیبُنِی، لَنَقْصٌ كَبِیرٌ فِی نَفْسِی، فَمَشَى إلَى الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ، فَقَالَ لَهُ: یَا أَبَا عَبْدِ شَمْسٍ، وَفَّتْ ذِمَّتُكَ، قَدْ رَدَدْتُ إلَیْكَ جِوَارَكَ،  فَقَالَ لَهُ: (لِمَ)  یَا بن أَخِی؟ لَعَلَّهُ آذَاكَ أَحَدٌ مِنْ قَوْمِی، قَالَ: لَا، وَلَكِنِّی أَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ، وَلَا أُرِیدُ أَنْ أَسْتَجِیرَ بِغَیْرِهِ؟

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہما  بنومخزوم کے رئیس ولید بن مغیرہ (خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے والد)کی پناہ میں  داخل ہوکر مکہ مکرمہ میں  امن وسکون سے رہنے لگے ، مگرکچھ ہی دنوں  بعدجب انہوں  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی حالت زارپرغورکیااوران کی تکالیف کودیکھ کران کوغیرت آئی اوردل میں  کہاکہ میراایک مشرک کی پناہ میں  رہنانہایت نامناسب ہے جبکہ مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور دوسرے پرستاران حق پرکس طرح ظم وستم کے پہاڑ توڑرہے ہیں  میں  بھی ان کے شریک رہوں  توبہترہے،چنانچہ وہ فیصلہ کرکے ولیدکے پاس پہنچے اوراس سے کہا کہ اے ابوشمس!تمہاری پناہ کومیں  تمہاری طرف واپس کرتاہوں ، ولیدبن مغیرہ نے پوچھاکیوں  اے بھتیجے! کیا سبب ہے اگرتوایساکرے گاتوضرورمیری قوم کے لوگ تجھے ایذاپہنچائیں  گے،عثمان  رضی اللہ عنہ  نے کہا مجھے فقط اللہ کی پناہ کافی ہے میں  اس کے سواکسی اورکی پناہ نہیں  چاہتا،

قَالَ: فَانْطَلِقْ إلَى الْمَسْجِدِ، فَارْدُدْ عَلَیَّ جِوَارِی عَلَانِیَةً كَمَا أَجَرْتُكَ عَلَانِیَةً،  قَالَ: فَانْطَلَقَا فَخَرَجَا حَتَّى أَتَیَا الْمَسْجِدَ، فَقَالَ الْوَلِیدُ: هَذَا عُثْمَانُ قَدْ جَاءَ یَرُدُّ عَلَیَّ جِوَارِی ،  قَالَ: صَدَقَ، قَدْ وَجَدْتُهُ وَفِیًّا كَرِیمَ الْجِوَارِ وَلَكِنِّی قَدْ أَحْبَبْتُ أَنْ لَا أَسْتَجِیرَ بِغَیْرِ اللَّهِ، فَقَدْ رَدَدْتُ عَلَیْهِ جِوَارَهُ  ثُمَّ انْصَرَفَ عُثْمَانُ،

ولیدنے کہا اگر تمہاری یہی مرضی ہے توپھرکعبة اللہ میں  جاکرسب لوگوں  کے سامنے میری پناہ سے نکلنے کااعلان کردوجیسے کہ میں  نے اعلان کے ساتھ تم کوپناہ دی تھی، چنانچہ ولیداورعثمان  رضی اللہ عنہ دونوں  مسجدالحرام میں  آئے اورولیدنے پکارکرکہاکہ اے لوگو!یہ عثمان  رضی اللہ عنہ میری پناہ کوواپس کرنے آیاہے،عثمان  رضی اللہ عنہ  نے کہایہ سچ کہتاہے ،اے اہل مکہ!میں  نے ولید کو ایک باوفا اور شریف انسان پایامگرمیں  خوداس کی پناہ واپس کرتاہوں  کیونکہ میں  اللہ کے سواکسی اورکی پناہ میں  نہیں  رہنا چاہتایہ کہہ کرعثمان  رضی اللہ عنہ وہاں  سے چلے آئے۔

وَلَبِیدُ بْنُ رَبِیعَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ كِلَابٍ فِی مَجْلِسٍ مِنْ قُرَیْشٍ یُنْشِدُهُمْ، فَجَلَسَ مَعَهُمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ لَبِیدٌ:أَلَا كُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ ،قَالَ عُثْمَانُ: صَدَقْتَ،قَالَ (لَبِیدٌ)  :وَكُلُّ نَعِیمٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ، قَالَ عُثْمَانُ: كَذَبْتَ، نَعِیمُ الْجَنَّةِ لَا یَزُولُ،قَالَ لَبِیدُ بْنُ رَبِیعَةَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، وَاَللَّهِ مَا كَانَ یُؤْذَى جَلِیسُكُمْ، فَمَتَى حَدَثَ هَذَا فِیكُمْ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: إنَّ هَذَا سَفِیهٌ فِی سُفَهَاءَ مَعَهُ، قَدْ فَارَقُوا دِینَنَا، فَلَا تَجِدَنَّ فِی نَفْسِكَ مِنْ قَوْلِهِ،

اسی زمانے میں  جاہلی عرب کے مشہور شاعر ابوعقیل لبیدبن ربیعہ عامری جوابھی مسلمان نہیں  ہوئے تھے مکہ مکرمہ میں  آئےایک دن وہ قریش کی ایک مجلس میں  شعرپڑرہا تھا عثمان  رضی اللہ عنہ  بھی وہاں  موجودتھے جب لبید نے یہ مصرح پڑھا  ’’خبرداررہواللہ کے سواہرچیزباطل ہے۔‘‘ توعثمان  رضی اللہ عنہ  کے منہ سے بے اختیار پکاراٹھےتم نے سچ کہا،جب اس نے دوسرا شعر  ’’اورہرنعمت لامحالہ زائل ہونے والی ہے۔‘‘ پڑھا توعثمان  رضی اللہ عنہ  پھربول اٹھےیہ صحیح نہیں  ہے جنت کی نعمتیں  لازوال ہیں وہ کبھی زائل نہیں  ہوں  گی،   لبید نے قریش کومخاطب ہوکرکہااے قریش!اگریہ شخص اسی طرح مجھے ٹوکتارہاتومیں  اپناکلام نہ سناسکوں  گا، قریش میں  سے ایک شخص نے کہا یہ ایک جاہل شخص ہے اور چند جاہل بھی اس کے ساتھ ہیں  یہ ہمارے آباواجدادکے دین سے جداہوگئے ہیں   اس کے کہنے کاتم برانہ مناؤ ،

فَرَدَّ عَلَیْهِ عُثْمَانُ حَتَّى شَرِیَ أَمْرُهُمَا، فَقَامَ إلَیْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ فَلَطَمَ عَیْنَهُ فَخَضَّرَهَا  وَالْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ قَرِیبٌ یَرَى مَا بَلَغَ مِنْ عُثْمَانَ، فَقَالَ: أَمَا وَاَللَّهِ یَا بن أَخِی إنْ كَانَتْ عَیْنُكَ عَمَّا أَصَابَهَا لَغَنِیَّةٌ، لَقَدْ كُنْتَ فِی ذِمَّةٍ مَنِیعَةٍ، قَالَ: یَقُولُ عُثْمَانُ: بَلْ وَاَللَّهِ إنَّ عَیْنِی الصَّحِیحَةَ لَفَقِیرَةٌ إلَى مِثْلِ مَا أَصَابَ أُخْتَهَا فِی اللَّهِ،  وَإِنِّی لَفِی جِوَارِ مَنْ هُوَ أَعَزُّ مِنْكَ وَأَقْدَرُ یَا أَبَا عَبْدِ شَمْسٍ، فَقَالَ لَهُ الْوَلِیدُ: هَلُمَّ یَا بن أَخِی، إنْ شِئْتَ فَعُدْ إلَى جِوَارِكَ،  فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ: لَا أَرَبَ لِی فِی جِوَارِكَ

عثمان  رضی اللہ عنہ نے اس شخص کوجس نے انہیں  جاہل کہاتھاجواب دیااورباتوں  سے نوبت ہاتھاپائی تک پہنچ گئی اس شخص نے عثمان  رضی اللہ عنہ کواس زور سے تھپڑماراکہ ان کی آنکھ نیلی پڑگئی ، مجلس میں  ولیدبن مغیرہ بھی کھڑاہوادیکھ رہاتھاوہ کہنے لگااے بھتیجے!اگرتم میری پناہ میں  رہتے توتیری آنکھ کویہ صدمہ نہ پہنچتا،عثمان  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیااے ابوشمس!اللہ کی قسم ! میری تو دوسری آنکھ بھی راہ حق میں  اسی قسم کی چوٹ کھانے کے لئے بے قرار ہے،اوراے ابوشمس!بے شک میں  اب اس ذات کی پناہ میں  ہوں  جوتجھ سے بدرجہاباعزت اوربااختیار ہے،ولیدنے کہااے بھتیجے!میں  پھرتجھے کہتا ہوں  کہ میری پناہ میں  آجا،عثمان  رضی اللہ عنہ نے کہاہرگزنہیں ،مجھے تیری پناہ کی ضرورت نہیں  ہے۔[67]اس واقعہ کے بعدمشرکین مکہ نے مسلمانوں  پرسخت سے سخت ظلم وستم ڈھانے لگے ۔

[1] الواقعة۷۵تا۷۷

[2] التکویر۱۵تا۱۸

[3] شرح صحیح البخارى لابن بطال۹۷؍۶

[4] النسائ۱۱۳

[5] جامع الترمذی ابواب البر والصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمِزَاحِ۱۹۹۰، مسنداحمد۸۷۲۳، السنن الکبری للبیہقی ۲۱۱۷۳،شرح السنة للبغوی ۳۶۰۲

[6] مسنداحمد۲۲۲۱۵

[7] سنن ابوداود  کتاب العلم بَابٌ فِی كِتَابِ الْعِلْمِ۳۶۴۶،مسنداحمد۶۵۱۰،سنن الدارمی ۵۰۱،مستدرک حاکم۳۵۹،مصنف ابن ابی شیبة ۲۶۴۲۸

[8] التکویر۱۹تا۲۱

[9] البقرة۹۷

[10]التکویر ۲۳

[11] تفسیرابن کثیر۷؍۵

[12] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ:نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ، وَفِی قَوْلِهِ:رَأَیْتُ نُورًا۴۴۳

[13] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۷۷،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ النجم بَابُ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى۴۸۵۶ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۱۷۷، مسند احمد۳۷۸۰،صحیح ابن حبان ۶۴۲۷،شرح السنة للبغوی ۳۷۵۷

[14] النجم: 13

[15] مسنداحمد۳۹۱۵

[16] النجم: 16

[17] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی ذِكْرِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى ۴۳۱،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ ۳۲۷۶، سنن نسائی کتاب الصلوٰة باب فَرْضُ الصَّلَاةِ  ۴۵۲،مسندابن ابی شیبة۲۹۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۹۷،مسنداحمد۳۶۶۵،السنن الکبری للنسائی ۳۱۱،مسندابی یعلی ۵۳۰۳،شرح السنة للبغوی ۳۷۵۶

[18] بنی اسرائیل۱

[19] الحج۵

[20] حم السجدة۳۹

[21] یونس۲۲

[22] النحل۵۸

[23] الزخرف۱۷

[24] النسائ۱۲۳

[25] مسنداحمد۸۶۸۹

[26] البقرة۲۵۵

[27] الزخرف۱۹

[28] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا۶۰۶۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلة  بَابُ تَحْرِیمِ الظَّنِّ، وَالتَّجَسُّسِ، وَالتَّنَافُسِ، وَالتَّنَاجُشِ وَنَحْوِهَا ۶۵۳۶، مسند احمد۸۵۰۴،مسندالبزار۹۵۰۹،المعجم الاوسط ۸۴۶۱،صحیح ابن حبان ۵۶۸۷،شعب الایمان ۶۲۷۷، السنن الکبری للبیہقی ۱۱۴۵۷،شرح السنة للبغوی ۳۵۳۳

[29] جامع ترمذی کتاب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۵۰۲، السنن الکبری للنسائی ۱۰۱۶۱

[30] النساء ۳۱

[31] الزمر۵۳

[32] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْجُمُعُةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانِ إِلَى رَمَضَانَ مُكفِّرَاتٌ لِمَا بَیْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ۵۵۲، مسند احمد ۹۱۹۷، شعب الایمان ۳۳۴۷،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۷۵۹

[33] النساء ۴۹

[34] صحیح مسلم کتاب الاداب بَابُ اسْتِحْبَابِ تَغْیِیرِ الِاسْمِ الْقَبِیحِ إِلَى حَسَنٍ، وَتَغْیِیرِ اسْمِ بَرَّةَ إِلَى زَیْنَبَ وَجُوَیْرِیَةَ وَنَحْوِهِمَا ۵۶۰۹،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی تَغْیِیرِ الِاسْمِ الْقَبِیحِ ۴۹۵۳،المعجم الکبیرللطبرانی۷۰۹

[35] صحیح بخاری کتاب الشھادات بَابٌ إِذَا زَكَّى رَجُلٌ رَجُلًا كَفَاهُ ۲۶۶۲،صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمَدْحِ، إِذَا كَانَ فِیهِ إِفْرَاطٌ وَخِیفَ مِنْهُ فِتْنَةٌ عَلَى الْمَمْدُوحِ ۷۵۰۲، مسنداحمد۲۰۴۶۲،صحیح ابن حبان ۵۷۶۶،السنن الکبری للبیہقی ۲۱۱۳۵

[36] صحیح مسلم کتاب الزھد بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمَدْحِ، إِذَا كَانَ فِیهِ إِفْرَاطٌ وَخِیفَ مِنْهُ فِتْنَةٌ عَلَى الْمَمْدُوحِ۷۵۰۶،مسندابن ابی شیبة۴۸۵،مصنف ابن ابی شیبة۲۶۲۶۰

[37] تفسیر البغوی۳۱۲؍۴، زاد المسیرفی علم التفسیر ۱۹۱؍۴، تفسیر القرطبی ۱۱۱؍۱۷،تفسیراللباب فی علوم الکتاب۲۰۰؍۱۸،التفسیرالمظہری۱۲۳؍۹

[38] الاعلیٰ۱۸،۱۹

[39] تفسیرابن کثیر۴۰۹؍۱، تفسیر طبری ۱۶؍۲

[40] جامع ترمذی کتاب الوتربَابُ مَا جَاءَ فِی صَلاَةِ الضُّحَى۴۷۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۷۷۴۶،شرح السنة للبغوی ۱۰۰۹

[41] جامع ترمذی کتاب الوتربَابُ مَا جَاءَ فِی صَلاَةِ الضُّحَى۴۷۶ ،سنن ابن ماجہ کتاب  اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی صَلَاةِ الضُّحَى۱۳۸۲،مسنداحمد۱۰۴۴۷،مصنف ابن ابی شیبة۷۷۸۴

[42] فاطر۱۸

[43] صحیح مسلم کتاب الوصیةبَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ ۴۲۲۳،سنن نسائی کتاب الوصایا فَضْلُ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۳۶۸۱،سنن ابوداودکتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ ۲۸۸۰،جامع ترمذی ابواب الاحکام بَابٌ فِی الوَقْفِ ۱۳۷۶، مسند احمد ۸۸۴۴، صحیح ابن خزیمة۲۴۹۴،صحیح ابن حبان ۳۰۱۶،شعب الایمان ۳۱۷۳،السنن الکبری للنسائی ۶۴۴۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۶۳۵،مسندابی یعلی ۶۴۵۷، شرح السنة للبغوی ۱۳۹

[44] یٰسین۱۲

[45] مستدرک حاکم۲۸۱

[46] التوبہ۱۰۵

[47] الزلزال۷،۸

[48] الزلزلة: 8

[49] المعجم الکبیر للطبرانی۷۴۱۱، مستدرک حاکم ۶۵۷۱، السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۳۰

[50] الملک۲

[51] القیامة۳۶تا۴۰

[52] مریم۹۵

[53] الفجر۶تا۸

[54] النمل۵۸

[55] تفسیرابن کثیر۴۶۸؍۷

[56] القمر۱

[57]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ والنجم بَابُ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ۴۸۶۲

[58] النجم: 2

[59] النجم: 19

[60] الإسراء: 73

[61] الإسراء: 75

[62]تفسیر الرازی ۲۳۷؍۲۳، تفسیرطبری  ۶۶۳؍۱۸،أسباب نزول القرآن الواحدی ۳۱۱؍۱

[63] الفصل فی الملل والأهواء والنحل۱۸؍۴

[64] روح المعانی۱۷۷؍۹

[65] نصب المجانیق لنسف قصة الغرانیق۵۴؍۱

[66] ابن ہشام ۳۶۴؍۱، زادالمعاد۲۱؍۳

[67] ابن ہشام۳۷۰؍۱، دلائل النبوة للبیہقی ۲۹۱؍۲

Related Articles