مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

دین ابراہیمی کے متلاشی حضرات

رسالت اسماعیلی کی وجہ سے اہل عرب جانتے تھے کہ اصل دین، دین ابراہیمی ہے اوربت پرستی کی ابتداعمروبن لحی نے کی تھی،جس کی وجہ سے ساراعرب ہی بتوں کی نجاست میں مبتلاتھااس زمانہ جاہلیت میں جبکہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعہدبالکل ہی قریب تھا کچھ ایسے لوگ بھی موجودتھے جو اسماعیل علیہ السلام کی تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات کی بناپرجو بالکل مٹ نہیں گئے تھے علی الاعلان توحید کا اعلان کرتے اوراسے ہی اصل دین تسلیم کرتے ہوئے شرک سے نفرت ، بتوں کی پرستش سے کراہت ،توہمات ورسم ورواج سے بیزاری ، زنا کاری سے دوری ،لڑکیوں کوزندہ دفن سے روکتے اوراس کے لئے عملی اقدامات اٹھاتے اورقتل وغارت سے منع کرتے ،الغرض عرب میں جتنی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں ان سے دوری کاکھلااظہار کرتے تھے، وہ جانتے تھے کہ یہ بت محض بے بس ہیں یہ نہ توکسی کونفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ نقصان،جونہ دیکھ سکتاہے اورنہ سن سکتاہے ،یہ لوگ  اللّٰہ کو اکیلا مانتے اورقبروں سے دوبارہ اٹھنے اورروزقیامت جس روز  اللّٰہ انسان کے اعمال کے مطابق سزایاجزادیں گے کے قائل تھے ،یہ لوگ وضوکرتے اورنمازپڑھتے تھے مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھاکہ نماز پڑھتے کیسے ہیں ،جیسے ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے تین برس قبل نمازپڑھتے تھے،یہ لوگ روزہ رکھتے ،استغفارکرتے اور اعتکاف کرتے تھے ، یہ لوگ کہتے تھے کہ ان کی قوم کا کوئی مذہب نہیں ہے یہ دین ابراہیمی کوبالکل ہی بھلاچکے ہیں ،ان توحید پرستوں میں قیس بن ساعدة الایادی، امیہ بن ابی ا لصلت، سوید بن عمرو المصطلقی، وکیع بن سلمہ بن زہیر الایادی ، عمرو بن جندب الجہنی،ابوقیس صرمہ بن ابی انس، ورقہ بن نوفل بن اسدبن العزی ، زید بن عمروبن نفیل بن عبدالعزی ،عثمان بن الحویرث بن اسد بن عبدالعزی، عبید اللّٰہ بن حجش بن رماب،عامربن الظرب العدوانی ،علاف بن شہاب التمیمی ، المتلمس بن امیہ الکنانی ، زہیربن ابی سلمیٰ ، خالدبن سنان بن غیث العبسی ، عبد اللّٰہ القضاعی تھے، جنہیں حنفا ء کے نام سے یادکیاجاتاہے ، یہ موحدین تین گناہوں  اللّٰہ کے ساتھ شرک،قتل ناحق اور زنا سے اجتناب کرتے تھے ۔

اہل مکہ سال میں ایک مرتبہ ایک بت کے پاس جمع ہوکراس کاطواف کرتے اور رسومات عبودیت اداکرکے اس کے نام پرجانورذبح کرتے تھے،اسی میلے میں ورقہ بن نوفل بن اسدبن عبدالعزیٰ بن قصیٰ جو ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے چچاذادبھائی تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کابیٹاعبید اللّٰہ بن حجش ،عثمان بن حویرث بن اسدبن عبد العزیٰ اورزیدبن عمروبھی تھے یہ چاروں میلے سے دورہٹ کرایک دوسرے سے سچ بولنے اوررازداری کاحلف لے کریوں بات چیت کرنے لگے،تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کسی مذہب کی پابندنہیں ،انہوں نے دین ابراہیمی ترک کرکے بتوں کی پوجاشروع کررکھی ہے،جونہ توسنتے ہیں اورنہ ہی دیکھتے ہیں ،وہ نہ توکسی کانقصان کرسکتے ہیں اورنہ ہی کسی کوکوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں ،پھرآخرہم ان پتھروں کاکیوں طواف کریں ؟دوستو!بخداجس دین پرہم چل رہے ہیں وہ دین حق نہیں آؤ ہم سب مل کر دین حق کی تلاش شروع کریں ، یہ طے کرکے چاروں دین حق کی تلاش میں مختلف شہروں ،علاقوں اورملکوں کی خاک چھاننے لگے،جس کانتیجہ یوں نکلا۔

ورقہ بن نوفل:

انہوں نے نصرانیوں کی کتابوں سے کافی علم حاصل کرلیااوراصنام پرستی چھوڑکر عیسائی مذہب اختیارکرلیااورمرتے دم تک اسی دین کے پیروکاررہے۔

عبید اللّٰہ بن جحش :

وأما عبید الله بن جحش فانه أسلم وهاجر إلى الحبشة وتنصر بها ومات على النصرانیة

یہ سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے ،یہ گوں ناگوں کی کیفیت میں مبتلارہے اورکوئی مذہب اختیارنہیں کیاجب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین دی تومسلمان ہو گئے اور اہل مکہ کے ظلم وستم سے مجبور ہوکراپنی اہلیہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان جومسلمان ہوچکی تھیں کے ساتھ حبشہ ہجرت کی ،مگروہاں اسلام ترک کرکے مرتدہوگیااورعیسائی مذہب اختیار کر لیااوراسی مذہب پر حبشہ میں فوت ہوااوراس کی اہلیہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بن سفیان کوام المومنین بننے کاعظیم شرف حاصل ہوا۔

عثمان بن الحویرث:

وَأَمَّا عُثْمَانُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ فَقَدِمَ عَلَى قَیْصَرَ مَلِكِ الرّوم، فتنصّر وحسلت مَنْزِلَتُهُ عِنْدَهُ

یہ عبدالعزی ٰ (ابولہب )کے پوتے تھے، دین ابراہیمی کی تلاش میں نکلے توشہنشاہ روم قیصرکی خدمت میں حاضرہوئے اورعیسائیت قبول کرلی جس کی وجہ سے قیصرکے دربارمیں ان کی اچھی قدرومنزلت ہوگئی۔[1]

زیدبن عمروبن نفیل :

وَأَمَّا زَیْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ فَوَقَفَ فَلَمْ یَدْخُلْ فِی یَهُودِیَّةٍ وَلَا نَصْرَانِیَّةٍ، وَفَارَقَ دِینَ قَوْمِهِ، فَاعْتَزَلَ الْأَوْثَانَ وَالْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَالذَّبَائِحَ الَّتِی تُذْبَحُ عَلَى الْأَوْثَانِ

یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے چچاذادبھائی تھے،یہ توقف کی حالت میں رہے اوراس وقت کے دومذہبوں یہودئیت اورعیسائیت میں سے کسی کو اختیار نہیں کیا مگر اپنی قوم کے دین بت پرستی سے بیزارو متنفر رہے اورقوم کوبتوں کی پرستش پرکھل کرمذمت کرتے ،وہ نہ تو بتوں کے نام پرذبح کیے ہوئے جانوروں کاگوشت نہ کھاتے اورنہ ہی اہل مکہ کی کسی رسم میں حصہ لیتے،وہ غیر اللّٰہ کے نام پرجانورذبح کرنے کو بڑاجرم سمجھتے۔[2]

ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔

عن زید بن حارثة، خرجت مع رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوما حارا من أیام مكة، حَتَّى إِذَا كَانَ بِأَعْلَى الْوَادِی لَقِیَهُ زَیْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ،فحیا أحدهما الآخر تحیة الجاهلیة فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یا زید! مَالِی أَرَى قَوْمَكَ قَدْ شَنِفُوا لَكَ؟قال: وَاللهِ یا محمد إن ذلك لغیر نائلة لی منهم، ولكنی خرجت أبتغی هذا الدین حتى أقدم على أحبار فدك، فوجدتهم یعبدون اللَّه ویشركون به فقلت: ما هذا الدین الّذی أبتغی،فقال شَیْخٍ منهم: إنك لتسأل عن دین ما نعلم أن أحدا یعبد اللَّه به إلا شیخا بالحیرة، فخرجت، حتى أقدم فلما رآنی قال:مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ بَیْتِ اللهِ، مِنْ أَهْلِ الشَّوْكِ وَالْقَرَظَةِ، فقال: إن الّذی تطلب قد ظهر ببَلَدِكَ، قد بعث نَبِیٌّ قَدْ طَلَعَ نَجْمُهُ، وجمیع من رأیتهم فی ضلال، فلم أحسّ بشیء بعد یا محمد وجمیع من رأیتهم فی ضلال،فلم أحسّ بشیء بعد یا محمد

زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک روزجبکہ مکہ میں شدیدگرمی تھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے باہرروانہ ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیچھے سوارتھے ،پس ہم نے زیدبن عمروبن نفیل سے ملاقات کی اورہم میں سے ہرایک نے دوسرے کوسلام کیا،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے زید!یہ کیابات ہے کہ تمہاری قوم کوتمہارامخالف پاتاہوں ؟ کہااللہ کی قسم اے محمد!یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے مجھ میں بے دینی نہیں پائی بلکہ میں صحیح دین کی جستجومیں نکلا اورخیبرکے علمائے دین کے پاس حاضر ہواتومیں نے انہیں دیکھاکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگردوسروں کواس کاشریک بھی مانتے ہیں ،میں نے دل میں کہاکہ جس دین کی مجھے تلاش ہے یہ وہ دین نہیں ،اس لئے میں وہاں سے مایوس واپس ہونے لگاتوانہی میں سے ایک بزرگ نے مجھ سے کہاکہ تم اس دین کے متعلق معلوم کرناچاہتے ہوجس کی پیروی کرتے ہوئے ہم کسی شخص کوخداکا عبادت گزارنہیں پاتے بخیرایک بزرگ کے جو حیرہ میں مقیم ہیں ، میں وہاں سے روانہ ہوکراس کی خدمت میں حاضرہواانہوں نے مجھے دیکھ کرپوچھاتم کون ہو؟ میں نے عرض کیامیں بیت اللہ والوں میں سے ہوں ،انہوں نے کہاجس دین الہٰی کی تمہیں تلاش ہے وہ خودتمہارے شہر میں ظاہرہوچکاہے ، ایک پیغمبر مبعوث ہوچکے ہیں ، ان کے ستارے طلوع ہوچکے ہیں اورباقی تم نے جن لوگوں کودیکھاہے وہ سب کے سب گمراہ ہیں ، زیدبن عمروکہتے ہیں کہ اے محمد!مجھے کوئی نئی بات محسوس نہیں ہوئی۔[3]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، “ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ، قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الوَحْیُ، فَقُدِّمَتْ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةٌ، فَأَبَى أَنْ یَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ: إِنِّی لَسْتُ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلَّا مَا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ، وَأَنَّ زَیْدَ بْنَ عَمْرٍو كَانَ یَعِیبُ عَلَى قُرَیْشٍ ذَبَائِحَهُمْ، وَیَقُولُ: الشَّاةُ خَلَقَهَا اللَّهُ، وَأَنْزَلَ لَهَا مِنَ السَّمَاءِ المَاءَ، وَأَنْبَتَ لَهَا مِنَ الأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُونَهَا عَلَى غَیْرِ اسْمِ اللَّهِ،

عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوحی نازل ہونے سے پہلے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیدبن عمروبن نفیل سے مقام بلدح کے نشیبی علاقہ میں ملاقات ہوئی ، رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بتوں کے نام پرذبح کیے ہوئے جانورکا گوشت رکھا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے انکارفرمادیا پھروہ دستر خوان زیدبن عمرو کے سامنے پیش کیاگیاتوجن لوگوں نے دسترخوان بچھایاتھاان سے کہامیں بھی ان جانوروں کاگوشت نہیں کھاتاجن کوتم بتوں کے نام پرذبح کرتے ہومیں صرف وہ گوشت کھاتاہوں جن پرذبح کے وقت  اللّٰہ تعالیٰ کانام لیاگیاہو،اور قریش کومذمت کرتے ہوئے کہتے تمہیں ایساعمل کرتے ہوئے حیانہیں آتی کہ جس جانور کو  اللّٰہ تعالیٰ نے پیداکیا،آسمان سے اس کوپینے کے لئے پانی بہم پہنچایااورزمین سے اس کے لئے چارہ اگایاپھرتم اسے غیر اللّٰہ کے نام پرذبح کرتے ہو۔[4]

قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ كُنْتُ جَالِسًا بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، وَكَانَ زَیْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ قَاعِدًا، فَمَرَّ بِهِ أُمَیَّةُ بْنُ أَبِی الصَّلْتِ فَقَالَ: كَیْفَ أَصْبَحْتَ یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ؟ قَالَ: بِخَیْر قَالَ: هَلْ وَجَدْتَ؟قَالَ: لا، وَلَمْ آلُ مِنْ طَلَبٍ،فَقَالَ:

سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں صحن کعبہ میں آکربیٹھا ، میرے قریب ہی زید بن عمروبن نفیل بھی بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں امیہ بن ابی صلت زیدبن عمرو کے پاس آیااوران کومخاطب کرکے کہنے لگااے بھلائی کے طلبگار! تمہاراکیاحال ہے ؟ٍا نہوں نے جواب دیابہترہے ,پوچھاجس دین کی تمہیں تلاش تھی کیاتم نے وہ دین پالیاہے؟ جواب دیاکہ ابھی تک تونہیں پا سکا حالانکہ اس کی تلاش میں میں نے کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا اس پراس نے ایک شعرکہا

كُلُّ دِینٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ، إِلا مَا قَضَى اللَّهُ وَالْحَنِیفَةُ بُورُ

قیامت کے دن صرف دین حنیف اوراس دین کے بارے میں جس کواللہ تعالیٰ حق ہونے کافیصلہ فرمادےباقی ہردین فاسدوباطل قرار پائے گا،

أما إن هذا النبی الذی ینتظر منا ومنكم أو من أهل فلسطین قال ولم أكمن سمعت قبل ذلك بنبی ینتظر ولا یبعث قال فخرجت أرید ورقة بن نوفل فكان كثیر النظر فی السماء كثیر همهمة الصدر قال فاستوقفته ثم اقتصصت علیه الحدیث، فَقَالَ: نعم یا ابْنَ أخی، أَبَى أهل الكتاب والعلماء إلا أن هَذَا النَّبِیّ الَّذِی ینتظر من أوسط العرب نسبًا، ولی علم بالنسب، وقومك أوسط العرب نسبًا قَالَ: قلت: یا عم، وما یَقُولُ النَّبِیّ؟قلت: یَقُولُ ما قیل لَهُ، إلا أَنَّهُ لا ظلم ولا تظالم،قال فلما بعث رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آمنت وصدقت

یہ نبی آخرالزمان جن کا انتظار ہورہا ہے یاتوہم میں سے یاتم میں سے یاپھراہل فلسطین میں سے ہوں گے،سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے قبل میں نے کسی سے یہ نہیں سناتھاکہ کسی نبی کاانتظار کیا جا رہاہے یاوہ مبعوث ہونے والاہے،یہ بات سن کرمیں ورقہ بن نوفل کے پاس چلاآیاجودین کے بارے میں اچھی سمجھ بوجھ رکھتاتھا،میں نے اس سے یہ تمام سرگزشت بیان کی،جسے سن کروہ بولاہاں اے میرے بھتیجے !تمام اہل کتاب اورعلماء کااس پراتفاق ہے کہ وہ نبی جس کے ظہورکاانتظارکیاجارہاہے وہ عرب کے عالی نسب خاندان سے ہوگا،مجھے حسب و نسب کے بارے میں کافی معلومات ہیں جس کی بنا پر کہتا ہوں کہ تمہاری قوم نسبی حیثیت سے تمام عرب میں اعلیٰ وممتازہے،میں نے کہاعم محترم !یہ نبی کیا فرمائیں گے ؟جواب دیاانہیں بذریعہ وحی جوکچھ بتایاجائے گاوہ وہی بیان کریں گے ،آپ کی بعثت کے بعددنیاسے ظلم واستبدادکاخاتمہ ہوجائے گا،ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تومیں آپ پرایمان لے آیااورمیں نے آپ کی تصدیق کی۔[5]

دفن ہونے والی لڑکیوں کوبچانا:

بنوتمیم میں لڑکیوں کوزندہ دفن کردینے کارواج تھا، شاعر فرزدق کے داداصعصعہ اورزیدبن عمروبن نفیل انہیں اس عمل سے روکتے اوران لڑکیوں کووالدین سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے تاکہ ان کی جان ان کے شقی القلب والدسے بچ جائے،وہ ان لڑکیوں کے سنگدل باپوں سے گزارش کرتے ہوئے کہتے ۔

وَكَانَ یُحْیِی المَوْءُودَةَ، یَقُولُ لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَقْتُلَ ابْنَتَهُ، لاَ تَقْتُلْهَا، أَنَا أَكْفِیكَهَا مَئُونَتَهَا فَیَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ قَالَ لِأَبِیهَا: إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَیْكَ، وَإِنْ شِئْتَ كَفَیْتُكَ مَئُونَتَهَا

اس لڑکی کی جان مت لومیں اس کے تمام اخراجات کا ذمہ لیتاہوں ،چنانچہ وہ لڑکیوں کواپنی آغوش شفقت میں لے لیتے،جب وہ جوان ہوتیں توپھر ان لڑکیوں کے والدین کے پاس جاتے اور عرض کرتے کہ تمہاری بیٹی اب جوان ہوچکی ہے اگرتم پسند کرو تو اسے تمہارے حوالے کردوں اور اگرپسندنہیں کرتے تومیں خوداس کی شادی کے تمام مصارف برداشت کرکے اس کو رخصت کردیتاہوں ۔[6]

چچاکاظلم وستم :

وَكَانَ الْخَطَّابُ قَدْ آذَى زَیْدًا، حَتَّى أَخْرَجَهُ إلَى أَعَلَى مَكَّةَ، فَنَزَلَ حِرَاءَ مُقَابِلَ مَكَّةَ، وَوَكَّلَ بِهِ الْخَطَّابُ شَبَابًا مِنْ شَبَابِ قُرَیْشٍ وَسُفَهَاءَ مِنْ سُفَهَائِهَا، فَقَالَ لَهُمْ:لَا تَتْرُكُوهُ یَدْخُلُ مَكَّةَ، فَكَانَ لَا یَدْخُلُهَا إلَّا سِرًّا مِنْهُمْ، فَإِذَا عَلِمُوا بِذَلِكَ آذَنُوا بِهِ الْخَطَّابَ فَأَخْرَجُوهُ وَآذَوْهُ كَرَاهِیَةَ أَنْ یُفْسِدَ عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ، وَأَنْ یُتَابِعَهُ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى فِرَاقِهِ،

مگر ان کے چچاخطاب کو اپنے معبودوں کے خلاف کھلم کھلامخالفت پسندنہ آئی اس نے جیساکہ ہمیشہ سے بااختیار لوگوں کا وطیرہ ہے کہ کسی طرح حق کو دھمکیوں ، طاقت اورلالچ سے دبادیاجائے مکہ کے غنڈوں کوان کے پیچھے لگادیاجوانہیں ہروقت پریشان رکھتے تاکہ انہیں اتناوقت ہی نہ ملے جووہ بتوں کوبرابھلاکہہ سکیں ، مگر سچ کبھی اس طرح کے ظلم وستم سے پسپاہواہے جواب میدان چھوڑ جاتا،خطاب نے انہیں بڑی اذیتیں پہنچائیں جس سے مجبورہوکروہ مکہ سے نکل کر مگرمکہ کے سامنے کوہ حرا پر رہنے لگے، مگر خطاب کا دل اب بھی ٹھنڈانہ ہوااسے زیدبن عمرو سے خطرہ تھاکہ وہ ان کے دین کو بگاڑدے گااوررفتہ رفتہ لوگ اس کے ہم نواہوجائیں گے چنانچہ اس کے سدباب کے لئے اس نے قریش کے نوجوانوں اوراوباشوں کوذمہ داری سونپی کی زیدبن عمرو کومکہ میں داخل نہ ہونے دیں ،مگرزیدکبھی کبھارنظربچاکر مکہ میں آجاتے مگر جیسے ہی ان اوباشوں کوپتہ چلتا اس کی اطلاع خطاب تک پہنچادیتے جوانہیں تکلیفیں پہنچا کرپھرمکہ سے باہرنکال دیتا،دین حق کی تلاش میں وہ مکہ مکرمہ سے نکل کرموصل اورجزیرہ خرات سے ہوتے ہوئے شام پہنچ گئے۔[7]

فَلَقِیَ عَالِمًا مِنَ الیَهُودِ فَسَأَلَهُ عَنْ دِینِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّی لَعَلِّی أَنْ أَدِینَ دِینَكُمْ، فَأَخْبِرْنِی، فَقَالَ: لاَ تَكُونُ عَلَى دِینِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِیبِكَ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، قَالَ زَیْدٌ مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَلاَ أَحْمِلُ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ شَیْئًا أَبَدًا، وَأَنَّى أَسْتَطِیعُهُ فَهَلْ تَدُلُّنِی عَلَى غَیْرِهِ، قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ یَكُونَ حَنِیفًا، قَالَ زَیْدٌ: وَمَا الحَنِیفُ؟ قَالَ: دِینُ إِبْرَاهِیمَ لَمْ یَكُنْ یَهُودِیًّا، وَلاَ نَصْرَانِیًّا، وَلاَ یَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ، فَخَرَجَ زَیْدٌ فَلَقِیَ عَالِمًا مِنَ النَّصَارَى فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: لَنْ تَكُونَ عَلَى دِینِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِیبِكَ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، قَالَ: مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، وَلاَ أَحْمِلُ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، وَلاَ مِنْ غَضَبِهِ شَیْئًا أَبَدًا، وَأَنَّى أَسْتَطِیعُ فَهَلْ تَدُلُّنِی عَلَى غَیْرِهِ، قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ یَكُونَ حَنِیفًا، قَالَ: وَمَا الحَنِیفُ؟ قَالَ: دِینُ إِبْرَاهِیمَ لَمْ یَكُنْ یَهُودِیًّا وَلاَ نَصْرَانِیًّا ، وَلاَ یَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ، فَلَمَّا رَأَى زَیْدٌ قَوْلَهُمْ فِی إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ خَرَجَ، فَلَمَّا بَرَزَ رَفَعَ یَدَیْهِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَشْهَدُ أَنِّی عَلَى دِینِ إِبْرَاهِیمَ

وہاں ان کی ملاقات ایک یہودی سے ہوئی ،زیدبن عمرونے یہودیت قبول کرنے سے پہلے اس سے ان کے دین کے بارے میں وضاحت چاہی ،اس یہودی نے کہا ہمارےدین میں تم اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک تم  اللّٰہ کے غضب کے ایک حصہ کے لئے تیارنہ ہوجاؤ ،یہ سن کرزیدبن عمروبولے میں اس کے غضب سے بھاگ کرہی میں یہاں آیا ہوں ،پھراللہ کے غضب کومیں اپنے اوپرکبھی نہ لوں گااورنہ مجھ میں اسے اٹھانے کی طاقت ہے،پھرزیدبن عمرونے اس یہودی سے کہاکیاتم مجھے کسی اوردوسرے دین کاکچھ پتہ بتاسکتے ہو؟اس عالم نے کہامجھے کسی اور دین کاعلم نہیں ہاں اگرتم حنیف ہوجاؤ تو  اللّٰہ تعالیٰ کے غضب سے بچ سکتے ہو،زید بن عمرونے سوال کیاحنیف کیاہے؟اس عالم نے جواب دیاحنیف دین ابراہیم علیہ السلام ہے جونہ تویہودی تھے اورنہ نصرانی وہ صرف  اللّٰہ کی عبادت کرتے تھے، یہاں سے نکل کرزیدبن عمرو ایک عیسائی عالم کے پاس چلے گئے اوراس سے بھی وہی سوال کیاجویہودی عالم سے کیا تھااس عالم نے بھی یہی کہاکہ تم ہمارے دین میں آؤ گے تواللہ تعالیٰ کی لعنت میں سے ایک حصہ لوگے،زیدبن عمرو بولے میں  اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت سے ہی بچنے کے لئے تویہ سب کچھ کررہاہوں ،اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کا غضب اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں اورنہ میں اس کا غضب اٹھاسکتاہوں ،پھراس عالم سے سوال کیاکیاتم میرے لئے اس کے سواکوئی اوردین بتلاسکتے ہو،اس عالم نے جواب دیامیری نظرمیں توصرف ایک دین حنیف سچادین ہے،زیدبن عمرو نے اس سے بھی سوال کیاحنیف کیاہے؟عالم نے جواب دیا وہ دین ابراہیم علیہ السلام ہے جونہ تو یہودی تھے اورنہ نصرانی وہ  اللّٰہ تعالیٰ کے سواکسی کی عبادت نہیں کرتے تھے،چنانچہ زیدبن عمرو یہودی اورنصرانی عالم سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ بات سنی تو واپس چلے آئے اور شہرسے باہر آ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اورکہاالٰہی! گواہ رہنامیں آج سے ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم ہوں ۔[8]

ثُمَّ خَرَجَ یَطْلُبُ دِینَ إبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، وَیَسْأَلُ الرُّهْبَانَ وَالْأَحْبَارَ، حَتَّى بَلَغَ الْمَوْصِلَ وَالْجَزِیرَةَ كُلَّهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ فَجَالَ الشَّامَ كُلَّهُ، حَتَّى انْتَهَى إلَى رَاهِبٍ بِمَیْفَعَةٍ مِنْ أَرْضِ الْبَلْقَاءِ كَانَ یَنْتَهِی إلَیْهِ عِلْمُ أَهْلِ النَّصْرَانِیَّةِ فِیمَا یَزْعُمُونَ، فَسَأَلَهُ عَنْ الْحَنِیفِیَّةِ دِینِ إبْرَاهِیمَ، فَقَالَ: إنَّكَ لَتَطْلُبُ دِینًا مَا أَنْتَ بِوَاجِدٍ مَنْ یَحْمِلُكَ عَلَیْهِ الْیَوْمَ، وَلَكِنْ قَدْ أَظَلَّ زَمَانُ نَبِیٍّ یَخْرُجُ مِنْ بِلَادِكَ الَّتِی خَرَجْتَ مِنْهَا، یُبْعَثُ بِدِینِ إبْرَاهِیمَ الْحَنِیفِیَّةِ، فَالْحَقُّ بِهَا، فَإِنَّهُ مَبْعُوثٌ الْآنَ، هَذَا زَمَانُهُ.

زیدبن عمروبن نفیل راہبوں اوراحبارسے دریافت کرتے ہوئے موصل اورجزیرہ پہنچے،پھروہاں سے ملک شام کاگشت لگایایہاں تک کہ ملک البقاء کے شہرمیفعة میں ایک راہب سے ملاقات کی،نصرانیوں کے بقول یہ راہب ان کے مذہب کاایک زبردست عالم تھا زیدنے اس سے دین ابراہیم کے متعلق سوال کیا،اس عالم نے کہااے زید!اس زمانے میں تجھ کودین ابراہیم کابتلانے والاکوئی فردنہیں ملے گامگرتویہ بات جان لے کہ اب ایک نبی کے ظہورکازمانہ قریب آپہنچاہے اوروہ نبی اس شہرمیں ہوں گے جہاں سے توآیاہے،وہ دین ابراہیم اورملت حنیف کے ساتھ مبعوث ہوں گے یہی ان کے ظہورکازمانہ ہے۔[9]

أَسَمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: لَقَدْ رَأَیْتُ زَیْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ شَیْخًا كَبِیرًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إلَى الْكَعْبَةِ، وَهُوَ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، وَاَلَّذِی نَفْسُ زَیْدِ ابْن عَمْرٍو بِیَدِهِ، مَا أَصْبَحَ مِنْكُمْ أَحَدٌ عَلَى دِینِ إبْرَاهِیمَ غَیْرِی، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّهمّ لَوْ أَنِّی أَعْلَمُ أَیَّ الْوُجُوهِ أَحَبُّ إلَیْكَ عَبَدَتْكَ بِهِ، وَلَكِنِّی لَا أَعْلَمُهُ، ثُمَّ یَسْجُدُ عَلَى رَاحَتِهِ.

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے زیدبن عمروبن نفیل کوبہت بڑھاپے کی حالت میں دیکھاہے وہ کعبہ کے ساتھ اپنی پشت لگائے بیٹھے رہتے تھے اورقریش سے کہتے تھے اے گروہ قریش!قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں زیدبن عمروکی جان ہےمیرے سواتم میں سے کوئی شخص بھی دین ابراہیمی علیہ السلام پرنہیں ہے،پھر کہتے اے اللہ ! اگرمجھے معلوم ہوتاکہ کس طریقے سے تیری عبادت تجھے زیادہ پسندہے تومیں اس طریقہ پرتیری عبادت کرتامگرافسوس کہ میں تیری عبادت کاطریقہ نہیں جانتا،پھراپنی ہتھیلی پرپیشانی رکھ کرسجدہ کیا۔[10]

إذ قال إلهی أنفی لك عَانٍ رَاغِمُ، مَهْمَا تُجَشِّمْنِی فَإِنِّی جَاشِمُ، الْبِرَّ أبغى لا انحال

نیزوہ مودب کھڑے ہوکرکہتے اے اللہ!میں انتہائی ذلت وعاجزی کے ساتھ تیرے سامنے اپنی ناک رگڑتاہوں تومجھے جتنی بھی پرمشقت عبادت کاحکم دے گامیں اسے بخوشی قبول کروں گا،میں تیری اطاعت کی توفیق چاہتاہوں ، مال ودولت کاخواہاں نہیں ہوں ،وہ قریش کومخاطب کرکے کہتے تھے اے گروہ قریش !تم ریاکاری سے بچتے رہوکیونکہ وہ افلاس پیداکرتی ہے ،اس طرح زیدبن عمروبن نفیل نے اپنی ساری زندگی اس سچ کی تبلیغ میں صرف کردی۔[11]

عن أسماء بنت أبی بكر قالت رأیت زید بن عمرو بن نفیل مسندا ظهره إلى الكعبة فی الجاهلیة وهو یقول یا معشر قریش إیاكم والزنا فإنه یورث الفقر

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے دورجاہلیت میں زیدبن عمروبن نفیل کو کعبہ سے پشت لگاکرکہتے ہوئے سنا اے گروہ قریش!زناکاری سے بچوکیونکہ زناکاری سے افلاس پیداہوتاہے۔[12]

وكان یقول: یا معشر قریش، إیاكم والربا فإنه یورث الفقر

اوروہ کہتے تھے اے گروہ قریش !سودخوری سے بچواس سے افلاس پیدا ہوتا ہے۔ [13]

اس طرح زیدبن عمروبن نفیل نے اپنی ساری زندگی اس سچ کی تبلیغ میں صرف کردی۔

تُوُفِّیَ وَقُرَیْشٌ تَبْنِی الْكَعْبَةَ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ الْوَحْی عَلَى رَسُولِ اللَّهِ بِخَمْسِ سِنِینَ

اورنبوت سے پانچ برس قبل جب بیت اللہ کی تعمیرہورہی تھی زیدبن عمرو بن نفیل نے انہی دنوں انتقال کیا۔[14]

انتقال کے وقت انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعافرمائی الٰہی اگر تونے مجھے اپنے رسول کی زیارت سے محروم رکھاہے تومیرے بیٹے سعدکواس خیروبرکت سے محروم نہ رکھنا،

وَجَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبِی كَانَ كَمَا رَأَیْتَ، وَكَمَا بَلَغَكَ، فَأَسْتَغْفِرُ لَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أُمَّةً وَحْدَهُ

جب سلام ہر سو پھیل چکااورمشرکین کے لئے مغفرت کی دعاکی ممانعت ہوچکی تھی ان کے بیٹے سعد رضی اللہ عنہ جوعشرہ مبشرہ صحابہ میں سے ہیں اور سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوزیدکے چچا زاد بھائی تھے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیساکہ آپ جانتے ہیں یاجیسے آپ نے دیکھاہے کیاہم زیدبن عمروبن نفیل کے لئے مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اورفرمایا وہ قیامت کے دن اکیلاایک امت کے قائم مقام اٹھایا جائے گا۔[15]

ابوقیس صرمتہ بن ابی انس انصاری:

ان کاتعلق بنونجارسے تھااسی زمانہ میں جب چند دوسرے لوگ دین حق کی تلاش میں تھے،

وَكَانَ رَجُلًا قَدْ تَرَهَّبَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَلَبِسَ الْمُسُوحَ، وَفَارَقَ الْأَوْثَانَ، وَاغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ وَتَطَهَّرَ مِنْ الْحَائِضِ مِنْ النِّسَاءِ، وَهَمَّ بِالنَّصْرَانِیَّةِ، ثُمَّ أَمْسَكَ عَنْهَا، وَدَخَلَ بَیْتًا لَهُ، فَاِتَّخَذَهُ مَسْجِدًا لَا تَدْخُلُهُ عَلَیْهِ فِیهِ طَامِثٌ وَلَا جُنُبٌ، وَقَالَ: أَعْبُدُ رَبَّ إبْرَاهِیمَ، حَیْنَ فَارَقَ الْأَوْثَانَ وَكَرِهَهَا، حَتَّى قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَأَسْلَمَ وَحَسُنَ إسْلَامُهُ، وَهُوَ شَیْخٌ كَبِیرٌ

یہ بھی بتوں کی بے بسی وبے کسی کوجان کران کی عبادت سے تائب ہوگئے تھے ، اورٹاٹ کالباس پہن کررہبانیت اختیارکرلی تھی،یہ غسل جنابت کرتے،شراب اورہرنشہ آورچیزکوناپسندکرتے تھے،پہلے انہوں نے عیسائی ہونے کاارادہ کیامگررک گئے اور کہتے تھے کہ میں صرف ابراہیم علیہ السلام کے رب کی عبادت کرتاہوں ،انہوں نے اپنے گھرکومسجدبنادیاجس میں جنبی اورحیض والی عورتوں کاداخلہ منع تھااس صاف ستھری مسجدمیں عبادت کرتے رہتے ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرماکرمدینہ میں تشریف لائے توبہت بوڑھے ہوچکے تھے ،حاضرہوکراسلام قبول کرلیا۔[16]

ان کا ایمان واسلام شک وشبہ سے بالاتھا،روزہ کی فرضیت کے بعدسحری سے متعلق یہ آیت

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [17]

ترجمہ: کھاوپیوحتی کہ فجرسے سفیددھاگہ ،سیاہ دھاگے سے ممتازہو جائے۔

انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، انہوں نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حکمت سے بھرپورکئی شعرکہے۔

            یقول أبو قیس وأصبح غادیا ، ألا ما استطعتم من وصاتی فافعلوا

            أوصّیكم بالبرّ والخیر والتّقى ، وإن كنتم أهل الرّئاسة فاعدلوا

            وإن أنتم أمعرتم فتعفّفوا،وإن كان فضل الخیر فیكم فأفضلوا[18]۔

سواد رضی اللہ عنہ بن قارب :

كان كاهنا فی الجاهلیة

سواد رضی اللہ عنہ بن قارب اسلام قبول کرنے سے پہلے کہانت کاکام کرتے تھے،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ، قال: بینما عمر بن الخطاب رضی الله عنه جالس ومعه أصحابه إذ مر رجل فسلم علیه فقال رجل من القوم: یا أمیر المؤمنین أتعرف هذا المسلم؟ قال: هذا سواد بن قارب الذی أتاه رئیه من الجن بظهور رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فدعا عمر الرجل فَقَالَ: أَنْتَ سَوَادُ بْنُ قَارِبٍ؟قَالَ: نَعَمْ یا أمیر المؤمنین قَالَ: أَنْتَ على ما كنت علیه من كَهَانَتِكَ؟ قال:فَغَضِبَ الرجل غضبا شدیدا ثم قال: یا أمیر المؤمنین: ما استقبلنی بهذا منذ أسلمت أحد غیرك، فقال له عمر: ما كنا علیه من الشرك أعظم مما كنت علیه من كهانتك

محمدبن کعب القرضی سے مروی ہے ایک دن ایک شخص کاسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ہواکسی نے کہا امیر المومنین ! کیا آپ اس گزرنے والے شخص کوجانتے ہیں ،پوچھاوہ کون ہے ؟جواب ملاکہ وہ سوادبن قارب ہے جس کواس کے ہمراز جن نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہورکی خبردی تھی ،یہ سن کرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بلابھیجا اور پوچھا تم سوادبن قارب ہو؟سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھاتم ابھی تک کہانت کاکام کرتے ہو؟یہ سن کرسواد رضی اللہ عنہ بن قارب ناراض ہو گیا اورعرض کیااے امیر المومنین! میرے مسلمان ہونے کے بعد کسی نے مجھ سے ایسی بات نہیں کہی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اس میں تعجب کیاہے جس شرک میں ہم مبتلاتھے وہ تمہاری کہانت سے بڑاتھا،

فأخبرنی بِإِتْیَانِكَ رَئِیَّكَ بِظُهُورِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ!قَالَ: نعم یا أمیر المؤمنین بَیْنَا أَنَا ذَاتَ لَیْلَةٍ بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ، إِذْ أَتَانِی فَضَرَبَنِی بِرِجْلِهِ وَقَالَ: قُمْ یَا سَوَادُ بْنَ قَارِبٍ اسْمَعْ مَقَالَتِی وَاعْقِلْ، إِنْ كُنْتَ تَعْقِلُ، إِنَّهُ قَدْ بُعِثَ رَسُولٌ مِنْ لُؤَیِّ بْنِ غَالِبٍ یَدْعُو إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ فلما كان فی اللیلة الثانیة أَتَانِی فَضَرَبَنِی بِرِجْلِهِ وَقَالَ: قُمْ یَا سَوَادُ بْنَ قَارِبٍ اسْمَعْ مَقَالَتِی وَاعْقِلْ، إِنْ كُنْتَ تَعْقِلُ، إِنَّهُ قَدْ بُعِثَ رَسُولٌ مِنْ لُؤَیِّ بْنِ غَالِبٍ یَدْعُو إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الثَّانِیَةُ،أَتَانِی فَضَرَبَنِی بِرِجْلِهِ وَقَالَ: قُمْ یَا سَوَادُ بْنَ قَارِبٍ اسْمَعْ مَقَالَتِی وَاعْقِلْ، إِنْ كُنْتَ تَعْقِلُ، إِنَّهُ قَدْ بُعِثَ رَسُولٌ مِنْ لُؤَیِّ بْنِ غَالِبٍ یَدْعُو إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ

پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاکہ وہ انہیں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہورکے بارے میں اپنے ہمراز جن کی خبرسنائیں ، سوادبن قارب نے عرض کیامیں ایک رات سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھاکہ میرا ہمراز جن آیا اور اپنا پاوں مارکرکہنے لگااے سواد بن قارب !اٹھ اور میری بات سن اوراگرسمجھتاہے توسمجھ قبیلہ لوئی بن غالب سے ایک رسول مبعوث ہواہے جو  اللّٰہ اوراس کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے، اسی طرح وہ دوسری رات میرے پاس آیااورکہا اے سوادبن قارب !اٹھ اور میری بات سن اوراگرسمجھتاہے توسمجھ قبیلہ لوئی بن غالب سے ایک رسول مبعوث ہوا ہے جو اللّٰہ اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دیتاہے، اسی طرح وہ تیسری رات میرے پاس آیااورکہا اے سوادبن قارب ! اٹھ اور میری بات سن اوراگرسمجھتاہے توسمجھ قبیلہ لوئی بن غالب سے ایک رسول مبعوث ہواہے جو اللّٰہ اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دیتاہے،

فلما أصبحت شددت على راحلتی رحلها وصرت إلى مكة، فقیل لی: قد صار إلى المدینة، فأتیت المدینة فصرت إلى المسجد فعلقت ناقتی، فإذا رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جماعة من أصحابه قال: ففرح رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه فرحا شدیدا

اس بات سے متاثرہوکرمیں نے اپنی سواری کوتیارکیااورمکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگیاوہاں پہنچ کرمعلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرچکے ہیں میں واپس مدینہ منورہ آگیااورمسجدنبوی پرپہنچااپنی اونٹنی کوباندھااس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں اپنی اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرمیں نے اپنے ہمرازجن کاواقعہ شعروں میں سنایا اوراسلام قبول کرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بہت خوش ہوئے۔[19]

سواد رضی اللہ عنہ بن قارب کااپنی قوم کوبچانا:

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدجب قبیلہ دوس کواس کی خبرپہنچی توفتنہ ارتدادنے سراٹھایا،تواس وقت سواد رضی اللہ عنہ بن قارب نے بہترین کردار کا مظاہرہ کیا اور قوم کووعظ ونصیحت کرتے ہوئے کہا اے گروہ ازد!کسی بھی قوم کی سعادت مندی اس میں ہے کہ وہ دوسروں سے نصیحت پکڑیں اوریہ اس کی بدبختی ہے کہ وہ اپنے آپ سے نصیحت پکڑیں ،جوشخص تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتاوہ اس کے لئے نقصان رساں ثابت ہوتے ہیں ،اورجس کی حفاظت حق نہیں کرتاباطل بھی اس کی حفاظت سے عاجز ہے ،جس حقیقت کے پیش نظرتم کل مسلمان ہوئے تھے اسی حقیقت کے پیش نظرآج بھی مسلمان رہ سکتے ہو، تمہیں معلوم ہے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے دورقوم پرحملہ کیا تو کامیاب رہے اورتم سے زیادہ تعدادوالی قوم کودھمکی دی توان کوڈرنے پرمجبورکردیااورتم کوتمہاری تعدادیاسامان حرب نے نہیں بچایا،ہر مصیبت بھول جاتی ہے مگروہ مصیبت نہیں بھولتی جس کے کچوکے لوگ دیرتک محسوس کریں ،مصیبت زدہ لوگوں کواپنی مصیبت اس سے زیادہ یادرکھنی چاہیے جتنی کہ اہل عافیت یادرکھتے ہیں ،  اللّٰہ کے نبی علیہ السلام نے تم سے اپناہاتھ بندرکھاجب تک تم نے اس سے اپناہاتھ روکے رکھا،پس تم ہمیشہ اہل مصیبت سے دورہوتے اوراہل عافیت میں داخل ہوتے رہے حتی کہ تمہارے خطیب اور نقیب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں حاضرہوئے ،خطباء نے وہاں موجودلوگوں کے متعلق اورنقباء نے غیرحاضرلوگوں کے بارے میں شہادت دی مجھے معلوم نہیں شاید لوگ فتنہ ارتدادکی طرف لپکیں اگر ایسا ہواتوسلامتی سوچ وبچار اورعقل وخرد سے کام لینے میں ہے اور  اللّٰہ تعالیٰ جس کوپسندکرتاہے تم بھی اس کوپسندکرو،قوم نے ان کی بات سنی اور اسے قبول کیااس طرح سواد رضی اللہ عنہ بن قارب نے اپنی قوم کوگمراہی سے بچایا ۔

قیس بن ساعدہ الایادی:

ان کاتعلق قبیلہ ایادبن سعدسے تھا،یہ مرنے کے بعددوبارہ زندگی کے قائل تھے،

قال: كأنی به عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ بِعُكَاظٍ یَقُولُ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ اجْتَمِعُوا، وَاسْتَمَعُوا وَعُوا، مَنْ عَاشَ مَاتَ، وَمَنْ مَاتَ فَاتَ، وَكُلُّ مَا هُوَ آتٍ آتٍ

انہوں نے ایک موقعہ پرعکاظ کے میلے میں سرخ اونٹ پر سوارہوکر کہا تھا جوزندہ ہے وہ ایک دن ضرورمرے گا اور جو مر ا وہ فوت ہوگیااورجوچیزآنے والی ہے وہ آنے والی ہے ۔[20]

یہ حکیم عرب تھے ،عربوں کے نزدیک ان کی حکمت ضرب المثل تھی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:لَمَّا قَدِمَ وَفْدُ إِیَادٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّكُمْ یَعْرِفُ قُسَّ بْنَ سَاعِدَةَ الْإِیَادِیَّ؟قَالُوا: مَاتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ قُسَّ بْنَ سَاعِدَةَ مَا أَنْسَاهُ، وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِ بِسُوقِ عُكَاظٍ فِی الشَّهْرِ الْحَرَامِ عَلَى جَمَلٍ لَهُ أَوْرَقَ أَحْمَرَ وَهُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ، وَیَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ عَلَیْهِ حَلَاوَةٌ وَهُوَ یَقُولُ: أَیُّهَا النَّاسُ اجْتَمِعُوا وَاسْتَمِعُوا وَاحْفَظُوا وَعُوا، مَنْ عَاشَ مَاتَ، وَمَنْ مَاتَ فَاتَ، وَكُلُّ مَا هُوَ آتٍ آتٍ، إِنَّ فِی السَّمَاءِ لَخَبَرًا، وَإِنَّ فِی الْأَرْضِ لَعِبَرًا، مِهَادٌ مَوْضُوعٌ، وَسَقْفٌ مَرْفُوعٌ، وَنُجُومٌ تَمُورُ، وَبِحَارٌ لَا تَغُورُ،أَقْسَمَ قُسٌّ قَسَمًا حَقًّا إِنَّ لِلَّهِ دِینًا هُوَ أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلَیْهِ مِنْ دِینِكُمُ الَّذِی أَنْتُمْ عَلَیْهِ، مَا لِی أَرَى النَّاسَ یَذْهَبُونَ وَلَا یَرْجِعُونَ،أَرَضُوا بِالْمُقَامِ هُنَاكَ فَأَقَامُوا، أَمْ تُرِكُوا هُنَاكَ فَنَامُوا؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دفعہ قبیلہ ایادکاایک وفدرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتوآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قیس کے بارے میں دریافت فرمایا وفدکے لوگوں نے جواب دیاکہ وہ فوت ہوگیاہے ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اللّٰہ تعالیٰ قیس پر رحم کرے میں نے اسے اونٹ پرسوارعکاظ کے میلے میں دیکھاہے جولوگوں سے کہہ رہاتھالوگو!سنواوریادرکھو جوزندہ ہے وہ ایک دن ضرورمرے گا اور جومراوہ فوت ہو گیا اور جوچیزآنے والی ہے(یعنی قیامت) وہ آنے والی ہے، بلاشبہ آسمان میں خبرہے اورزمین میں عبرت کے سامان ہیں ،سمندرجوش ماررہاہے اورستارے ڈوب رہے ہیں ،آسمان بلندہے اورگڑھے پست ہیں ،قیس  اللّٰہ کی قسم کھاکرکہتاہے کہ اس کادین تمہارے دین سے پسندیدہ ہے،یہ کیاحالت ہے کہ لوگ جاتے ہیں اورواپس نہیں آتے ؟ کیاوہاں کی رہائش پسندکرکے وہیں رہ پڑے ہیں یاان کوچھوڑدیاگیاہے اوروہ سوگئے ہیں ؟راستہ ہموارہے لیکن عمل مختلف ہے ،

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَنْشَدَ قُسُّ بْنُ سَاعِدَةَ أَبْیَاتًا مِنَ الشِّعْرِ لَمْ أَحْفَظْهَا عَنْهُ،فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: أَنَا حَضَرْتُ ذَلِكَ الْمَقَامَ، وَحَفِظْتُ تِلْكَ الْمَقَالَةَ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا هِیَ؟فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ قُسُّ بْنُ سَاعِدَةَ فِی آخِرِ كَلَامِهِ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے کچھ اشعاربھی پڑھے تھے جومجھے یاد نہیں رہے ،سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے  اللّٰہ کے رسول مجھے وہ اشعاریادہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے کیاکہاتھا؟سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس نے کہاتھا۔

فِی الذَّاهِبِینَ الْأَوَّلِینَ ،مِنَ الْقُرُونِ لَنَا بَصَائِرْ

پہلی گزرنے والی صدیوں میں ہمارے لئے سمجھ بوجھ کے بہت سامان ہیں

لَمَّا رَأَیْتُ مَوَارِدًا،  لِلْمَوْتِ لَیْسَ لَهَا مَصَادِرْ

جب میں نے موت کے گھات دیکھے کہ ان میں داخل ہونے والے واپس نہیں آتے

وَرَأَیْتُ قَوْمِیَ نَحْوَهَا،تَمْضِی الْأَصَاغِرُ وَالْأَكَابِرْ

اوراپنی قوم کودیکھاکہ سب چھوٹے بڑے ادھرہی جارہے ہیں

لَا یَرْجِعُ الْمَاضِی إِلَیَّ ، وَلَا مِنَ الْبَاقِینَ غَابِرْ

کوئی جانے والاواپس نہیں آتااورنہ باقی رہنے والوں میں سے کوئی پیچھے رہتاہے

أَیْقَنْتُ أَنِّی لَا مَحَالَةَ ، حَیْثُ صَارَ الْقَوْمُ صَائِرْ

تومجھے یقین ہوگیاہے کہ مجھے بھی لازمی طورپروہاں جاناہے جہاں میری قوم گئی ہے

قیس بن ساعدہ کا یہ خطبہ کئی طریقوں سے مروی ہے مگرہرروایت میں کوئی نہ کوئی راوی وضاع اور کذاب ہے۔

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَرْحَمُ اللَّهُ قُسَّ بْنَ سَاعِدَةَ، لَأَرْجُو أَنْ یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أُمَّةً وَحْدَهُ

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللّٰہ تعالیٰ قیس پررحم فرمائے میں امیدکرتاہوں کہ  اللّٰہ تعالیٰ اکیلے کوایک امت کے قائم مقام اٹھائے گا۔[21]

عمرو رضی اللہ عنہ بن عبسہ:

ان کابنوسلیم سے تعلق تھا،اسلام سے قبل ہی انہوں نے بت پرستی چھوڑدی تھی،

رَغِبْتُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِی فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَذَلِكَ أَنَّهَا بَاطِلٌ

کہتے ہیں میں جاہلیت میں بھی لوگوں کوگمراہی پرسمجھتاتھااوریہ سمجھتاتھاکہ یہ باطل معبودوں کی پرستش کررہےہیں ۔[22]

رَغِبْتُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِی فِی الْجَاهِلِیَّةِ، فَرَأَیْتُ أَنَّهَا آلِهَةٌ بَاطِلَةٌ، یَعْبُدُونَ الْحِجَارَةَ، وَالْحِجَارَةُ لا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ ، قَالَ: فَلَقِیتُ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ أَفْضَلِ الدِّینِ، فَقَالَ: یَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ مَكَّةَ یَرْغَبُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِهِ وَیَدْعُو إِلَى غَیْرِهَا، وَهُوَ یَأْتِی بِأَفْضَلِ الدِّینِ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِهِ فَاتَّبِعْهُ

ان کاایک قول ہےمیں جاہلیت میں بھی لوگوں کوگمراہی پرسمجھتاتھااورمیں سمجھتاتھاکہ یہ معبودوں کی پرستش کررہیں ،یہ لوگ پتھروں کی پرستش کررہے ہیں اورپتھر جونہ نفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ نقصان، کہتے ہیں میں اہل کتاب کے ایک شخص سے ملااوراس سے پوچھاسب سے افضل دین کیاہے؟ جس پراس شخص نے کہامکہ میں ایک شخص ہے جوبتوں کے خلاف باتیں کرتاہے اورانہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے وہ افضل دین ہے،چنانچہ یہ مکہ چلے آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کراسلام کی تعلیمات دریافت کیں اورآپ کی رسالت پرایمان لے آئے۔ [23]

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ؟ قَالَ:حُرٌّ وَعَبْدٌ قُلْتُ: مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:طِیبُ الْكَلَامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ. قُلْتُ: مَا الْإِیمَانُ؟ قَالَ:الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ. قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ. قَالَ: قُلْتُ : أَیُّ الْإِیمَانِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:خُلُقٌ حَسَنٌ . قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:طُولُ الْقُنُوتِ. قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ . قَالَ: قُلْتُ: فَأَیُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:مَنْ عُقِرَ جَوَادُهُ وَأُهْرِیقَ دَمُهُ . قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ السَّاعَاتِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:جَوْفُ اللَّیْلِ الْآخِرُ

عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کس کس نے اس دین کے معاملے میں آپ کی تابعداری کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآزادنے اورغلام نے ،میں نے کہااسلام کیسے کہتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپاکیزہ کلام کرنااورلوگوں کوکھاناکھلانا(اسلام ہے)میں نے کہاایمان کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصبرکرنااورنرم روی اختیارکرنا(ایمان ہے)میں نے کہاکون سااسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(وہ صاحب اسلام سب سے افضل ہے)جس کی زبان اورہاتھ(کے شر)سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ، میں نے کہاکون ساایمان افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحسن اخلاق،میں نے کہاکون سی نمازافضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالمبے قیام والی،میں نے کہاکون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارب کی ناپسندیدہ چیزوں کوچھوڑدینا،میں نے کہاکون ساجہادافضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(وہ مجاہدافضل ہے)جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جاتی ہیں اورجس کاخون بہادیاجاتاہے،میں نے کہاکون ساوقت افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارات کاآخری حصہ(یاآخری رات کادرمیانہ حصہ)۔[24]

 النابغہ الجعدی:

ان کاتعلق بنی عامربن صعصعہ سے تھا،

وَكَانَ یذكر فِی الجاهلیة دین إِبْرَاهِیم والحنیفیة، ویصوم ویستغفر فِیمَا ذكروا، وَقَالَ فِی الجاهلیة كلمته التی أولها:

جب ہرطرف گمراہی پھیلی ہوئی تھی یہ دین ابراہیم اوردین حنیف کی باتیں کیاکرتے تھے،روزے رکھتے اوراستغفارکرتے تھے،اوردورجاہلیت میں یہ کہاکرتے تھے

الحمد للَّه لا شریك لَهُ ،من لم یقلهافَنَفَسه ظلَما

وفیها ضروب من دلائل التوحید، والإقرار بالبعث والجزاء، والجنة والنارعمر الجعدی بعده عمرًا طویلًا قَالَ ابْن قتیبة:عمر النابغة الجعدی مائتین وعشرین سنة، ومات بأصبهان

اپنے کلام میں توحیدباری تعالیٰ،مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہوکراپنے اعمال کے مطابق جزاوسزاکاذکرکرتے تھے،انہوں نے بھی بعدمیں اسلام قبول کرلیاتھا، عمر الجعدی نے لمبی عمرپائی،ابن قتیبہ کہتے ہیں عمر النابغہ الجعدی نےدوسوبیس سال کی عمرپائی اوراصفہان میں وفات پائی۔ [25]

 امیہ بن ابی صلت ثقفی:

نبوت ورسالت کسبی یاوراثتی چیزنہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی ریاضت،کوشش یاعلمیت سے اس منصب جلیل کو حاصل کرلے ،یہ تورب کی نظرکرم ہے کہ انسانوں میں سے بہترین انسان کومنتخب فرماکراسے فطرت سلیم ،دانائی ،ضبط وتحمل اوربردباری عطافرماکربہترین خاندانوں میں پیداکرتاہے،اورجب وہ شخص پوری عمر کا ہو جاتاہے جوزیادہ ترچالیس سال کہی جاتی ہے تواسے باضابطہ طورپروحی بھیج کرلوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑاکرتاہے،اوراگرضرورت سمجھتاہے تواس پراپنی کتاب نازل کرتا ہے تاکہ انسان اِدھر ُادھر بھٹکتانہ پھرے بلکہ ان کتابوں سے رہنمائی حاصل کرکے صراط مستقیم پرگامزن رہے،آپ نبیوں کی پوری پوری سیرتیں پڑھ لیں یہ کہیں نہ پائیں گے کہ کسی نبی نے کبھی یہ فرمایا ہو کہ کیونکہ وہ ایک اونچے خاندان سے تعلق رکھتاتھااس لئے اسے امیدتھی کہ اسے رسول منتخب کرلیاجائے گایاکسی نبی کی اولادنے یہ کبھی کہاہوکہ کیونکہ وہ نبی کی اولادہے اس لئے نبوت اس کا حق بن گیاہے اگرایساہوتاتویعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے ہی نبی ہوتے مگرنبوت صرف یوسف علیہ السلام کوملی ،اسی طرح اسماعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے مگررسالت کسی کوبھی نہیں ملی ، الغرض کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کیونکہ وہ رب کابڑاعبادت گزاراورفرمابردارہے ،بڑے چلے اوربڑی ریاضت کرتاہے اس لئے رسالت اس کے لئے لکھ دی گئی ہے ،ایسابالکل نہیں ،یہ تورب کاکام ہے جودلوں کے بھیدجانتاہے کہ کس شخص کواس عظیم کام کے لئے کھڑاکرناہے ،یہ شخص امیہ بن ابی الصلت ثقفی بڑا زیرک آدمی تھا،طائف کارئیس اورشاعربھی تھا،تجارت کرتاتھااوراسی سلسلہ میں اس کا شام آنا جانا رہتاتھا،یہودی عالموں اورعیسائی راہبوں نے اپنی کتابوں میں پڑھ کرجن میں آپ کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی واضح صفات لکھی ہوئی تھیں اورعربی کاہنوں نے جن کی خبروں کادارومدارجنوں اورشیاطین پرتھا رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ علیہ السلام کے زمانہ کے نزدیک آنے کی خبریں دینی شروع کردی تھیں مگرعرب اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے اوراپنے بتوں کی دنیامیں مگن تھے، اس شخص نے یہودیوں کی چند مذہبی کتابیں بھی پڑھ لیں اورخودکوابلیس کی طرح بہت بڑا سمجھنے لگے ،اس کے دل میں یہ خیال پختہ ہوگیاکہ آنے والے نبی یہ صاحب ہی ہوں گے ،یہ اپنے اشعارمیں حکمت کی باتیں ،توحیدکا ذکر ،باری تعالیٰ کی عظمت وبزرگی اورجنت و جہنم کاذکرکرتے لیکن جب  اللّٰہ نے بنوہاشم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللّٰہ کو رسول بنا کر مبعوث فرمایااوراسے پتہ چلاتو اس کے خیالوں کی پوری عمارت دھڑم سے گرگئی،وہ غصے سے مغلوب ہوکرکف افسوس ملنے لگا چنانچہ اس نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان تو کیا لانا تھاکیونکہ ا س نے کسی دوسرے نبی پرایمان لانااپنی شان ومرتبت کے خلاف سمجھااور ابلیس کی طرح جوآدم علیہ السلام کامرتبہ ومنزلت دیکھ کررب کے حکم کوٹھکرا کر راندہ درگاہ ہوگیا ، اسی طرح یہ شخص بھی بغض و حسد میں مبتلاہوگیااورایمان کے بجائے کفرکی راہ اختیارکی، حسداتنی بری چیزہے جس کے بارے میں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حاسدشخص جنت میں داخل نہیں ہوگایہ شخص بھی ایک مرتبہ مسلمان ہونے کے لئے مدینہ میں آیامگراس کے بغض وحسد نے اسے اس سعادت سے محروم رکھا اورجس طرح آیاتھا اسی طرح کائنات کی سب سے بڑی نعمت کو ٹھکرا کر خالی ہاتھ واپس چلاگیا۔

وَقَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ أُمَیَّةُ بْنُ أَبِی الصَّلْت، یَرْثِی مَنْ أُصِیبَ مِنْ قُریش یَوْمَ بَدْرٍ كَانَ أمیة بْن أَبِی الصلت یشرب، قَالَ: فجاء غراب فنعب نعبة، ثم أقبل عَلَى أصحابه، فَقَالَ: تدرون ما قَالَ هذا الغراب؟ زعم أنی أشرب هذا الكأس، ثم أتكئ، فأموت قَالَ: فشرب الكأس، ثم اتكأ، فمات

ابن اسحاق کہتے ہیں جب جنگ بدربرپاہوئی توامیہ بن ابوصلت نے قتل ہونے والے مشرکین سرداروں پرآنسوبہائے اورمرثیے لکھ کردین اسلام کے خلاف اپنے بغض وعناد کا اظہار کیا،امیہ بن ابی صلت ایک مرتبہ چند نوجوانوں کے ساتھ شراب سے شغل میں مصروف تھاکہ ایک کوااس کے سرپرآکربیٹھااوردوتین مرتبہ آوازیں نکال کر اڑ گیا، اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا جانتے ہواس کوّے نے کیاکہاہے ،انہوں نے نفی میں جواب دیا،اس پریہ کہنے لگا وہ یہ کہہ کرگیاہے کہ امیہ شراب کا تیسرا پیالہ پینے کے بعد تکیہ لگانے پر مرجائے گا۔ [26]

فَقَالَ لَهُ أَصْحَابه مَا أَكثر مَا سمعنَا مثل هَذَا مِنْك بَاطِلا، فألحوا عَلَیْهِ حَتَّى شرب الكأس فَمَال فِی شقّ وأغمی عَلَیْهِ ثمَّ أَفَاق فَقَالَ لَا بَرِیء فأعتذر وَلَا قوی فأنتصر ثمَّ خرجت نَفسه

ساتھیوں نے کہاکوّے کی بات ہم ابھی جھوٹی کردیں گے ، چنانچہ امیہ نے اپنے ساتھیوں کی باتوں میں آکر کہا اچھاشراب کے جام بھرواورپیو،شراب کا دورچلنے لگا،جب امیہ نے شراب کا تیسرا جام پیا تو اس پر غشی طاری ہوگئی جب ہوش آیاتوچند شعر پڑھے اورایک لمبی سانس لے کروہی ڈھیرہوگیا۔[27]

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ الَّذِی آتَیْنَاهُ آیَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّیْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِینَ هُوَ أُمَیَّةُ بْنُ أَبِی الصَّلْتِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ تعالیٰ کاقول، اور اے نبی! ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا ۔(الاعراف۱۷۵) امیہ بن ابی صلت کے بارے میں نازل ہوئی۔[28]

ان کے لوگوں کے علاوہ سویدبن عمروالمصطلقی،وکیع بن سلمہ بن زہیرالایادی،عمروبن جندب الجہنی،عامربن الظرب،البعدوانی،علاف بن شہاب التمیمی،المتلمس بن امیہ الکنانی،زہیربن ابی سلمیٰ،خالدبن سنان بن غیث العبسی،عبداللہ القضاعی کے نام بھی تاریخ میں ملتے ہیں جنہیں حنفاء کے نام سے یادکیاجاتاتھا،یہ سب لوگ علی الاعلان توحیدکواصل دین کہتے تھے اورمشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کاصاف صاف اظہارکرتے تھے۔

[1] ابن ہشام۲۲۲؍۱

[2] ابن ہشام۲۲۴؍۱

[3] امتاع الاسماع۳۵۰؍۲،معجم الصحابة للبغوی۴۴۲؍۲،تاریخ دمشق۵۰۸؍۱۹

[4] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ۳۸۲۶

[5] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۴؍۳۰، اسدالغابة۳۱۰؍۳،تاریخ الخلفائ۳۱؍۱

[6] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ۳۸۲۸ ،ابن سعد۲۹۱؍۳،البدایة والنہایة ۲۹۹؍۲

[7] ابن ہشام۲۳۱؍۱

[8] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ۳۸۲۷

[9] ابن ہشام۲۳۱؍۱

[10]ابن ہشام۲۲۵؍۱،الروض الانف ۲۳۳؍۲

[11] البدایة والنہایة۲۳۷؍۲

[12] تاریخ دمشق۵۰۸؍۱۹،تهذیب الأسماء واللغات ۲۰۵؍۱

[13] اسدالغابة ۱۴۳؍۲

[14]تاریخ طبری ۵۱۳؍۱۱، ابن سعد۲۹۱؍۳ ،البدایة والنہایة۳۰۰؍۲

[15] معرفة الصحابة لابی نعیم۱۴۶؍۱

[16] ابن ہشام ۵۱۰؍۱،الاصابة فی تمیزالصحابة ۳۴۲؍۳

[17] البقرة ۱۸۷

[18] الإصابة فی تمییز الصحابة۳۴۲؍۳، التحفة اللطیفة فی تاریخ المدینة الشریفة۴۵۶؍۱

[19] المعجم الکبیر طبرانی ۶۴۷۵،تاریخ بغداد وذیوله ۱۳۲؍۱۹،تاریخ اسلام بشار ۵۹۳؍۱

[20] المعجم الکبیرللطبرانی ۱۲۵۶۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۰۱؍۲

[21] دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۱۰۳؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۱۰۱؍۲،عیون الآثر۸۳؍۱

[22] ابن سعد۱۶۴؍۴

[23] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۱۹۳؍۳

[24] مسند احمد ۱۹۴۳۵،مسند عبد بن حمید۳۰۰

[25]الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۱۵۱۵؍۴

[26] تاریخ بغداد ۵۰۵؍۶،تاریخ دمشق ۲۸۵؍۹

[27] الوافی بالوفیات ۲۲۷؍۹

[28] السیرة النبویة لابن کثیر۱۲۲؍۱،الموسوعة فی صحیح السیرة النبویة۲۵۹؍۱

Related Articles