ہجرت نبوی کا پہلا سال

رضاعت کے مسائل

xرضاعت کاحکم کتنی باردودھ پلانے سے ثابت ہوتاہے۔

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ فِیمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ، بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُنَّ فِیمَا یُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے قرآن میں یہ حکم نازل کیاگیاتھاکہ دس باردودھ پیناجبکہ اس کے پینے کایقین ہوجائے نکاح کوحرام کردیتاہے پھریہ حکم پانچ مرتبہ یقینی طورپردودھ پینے سے منسوخ ہوگیا،پھررسول اللہﷺنے وفات پائی اس وقت پانچ کی تعدادقرآن میں پڑھی جاتی تھی۔[1]

فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَكَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ

سہلہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہےانہوں نے سالم کوپانچ مرتبہ دودھ پلایاپھروہ اس کے بچے کی جگہ ہوگیا۔[2]

أَنَّهَا لَا تُحَرِّمُ إلَّا خَمْسُ رَضَعَاتٍ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسی مذہب کوقوی قرار دیا ہے۔

امیرصنعانی رحمہ اللہ نے بھی اسی کوترجیح دی ہے۔[3]

اس مسئلہ میں فقہانے اختلاف کیاہے۔

لَا یُحَرِّمُ إلَّا الْخَمْسُ الرَّضَعَاتُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَیْرِ وَالشَّافِعِیِّ وَرِوَایَةٌ عَنْ أَحْمَدَ

امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ،اورامام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب منقول ہے، اور یہی موقف راجح ہے۔

أَنَّ قَلِیلَ الرَّضَاعِ وَكَثِیرَهُ یُحَرِّمُ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ اورجمہور کاموقف ہےتھوڑایازیادہ جتنابھی دودھ پی لے حرمت ثابت ہوجائے گی خواہ ایک مرتبہ ہی پیے۔

فَأَفَادَ بِمَفْهُومِهِ تَحْرِیمَ مَا فَوْقَ الِاثْنَتَیْنِ

اسحاق رحمہ اللہ ،ابوعبیدہ رحمہ اللہ ،ابوثور رحمہ اللہ اورابن منذر رحمہ اللہ کاموقف ہےتین مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے ،ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے ۔

جو حضرات تین رضعوں کے قائل ہیں انکے دلائل یہ ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ،إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریمﷺنے فرمایاایک دفعہ اوردودفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ [4]

ایک روایت میں یہ لفظ ہیں

لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ وَالْإِمْلَاجَتَانِ

پستان کوایک مرتبہ منہ میں ڈالنے یادومرتبہ منہ میں ڈالنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔[5]

xرضاعت کتنی عمرمیں ثابت ہوگی؟

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ یُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ إِلاَّ مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِی الثَّدْیِ، وَكَانَ قَبْلَ الفِطَامِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاصرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جوانتڑیوں کوکھول دے اوردودھ چھڑانے کی مدت (یعنی دوسال کی عمر) سے پہلے ہو۔[6]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:فَقَالَ:انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ المَجَاعَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاضرورغورکرلیاکروکہ تمہارے بھائی کون ہیں کیونکہ رضاعت اسی وقت معتبرہے جب بھوک کے وقت دودھ پیاجائے۔[7]

اگرچہ دودھ پلانے کی مدت نص قرآن

 ۔۔۔حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ۔۔۔۝۲۳۳        [8]

مکمل دوسال سے ثابت ہے لیکن اس کے باوجوداس میں اختلاف کیاگیاہے۔

امام احمد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابویوسف رحمہ اللہ اورامام محمد رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ مدت رضاعت دوسال ہے ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ،امام شعبی رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ اورامام ابوثور رحمہ اللہ سے بھی یہی موقف مروی ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ مدت رضاعت اڑھائی سال ہے ،ان کی دلیل یہ آیت ہے

۔۔۔ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا۔۔۔۝۱۵           [9]

ترجمہ:اوراس کے حمل اوردودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔

حالانکہ اس آیت میں بھی مدت رضاعت دوسال ہی ہے جبکہ مزیدچھ ماہ حمل کی کم ازکم مدت ہے،

وَقَالَ زُفَرُ: مُدَّةُ الرَّضَاعِ ثَلَاثُ سِنِینَ

زفر رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ مدت رضاعت تین سال ہے۔[10]

پہلاموقف راجح ہے اورگزشتہ تمام دلائل اس کاثبوت ہیں ۔

xرضاعت کی وجہ سے نسبی رشتے حرام ہوجاتے ہیں اورکسی اختلاف کی صورت میں دودھ پلانے والی کی بات قبول کی جائے گی۔

أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الوِلاَدَةُ

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جوپیدائش سے ہوتے ہیں (رضاعت یعنی دودھ پینے سے ایسارشتہ ہوجاتاہے کہ دودھ پلانے والی عورت،اس کاخاوندجس سے دودھ ہے،اس کی بیٹی،ماں ، بہن،پوتی، نواسی،پھوپھی، بھتیجی،بھانجی، باپ،دادا،نانا، بھائی، پوتا، نواسہ، چچا، بھتیجا،بھانجایہ سب شیرخوارکے محرم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ پانچ باردودھ چوساہو اورمدت رضاعت یعنی دوبرس کے اندرپیاہولیکن جس بچے یابچی نے دودھ پیااس کے باپ بھائی یابہن یاماں ،نانی،خالہ،ماموں وغیرہ دودھ دینے والی عورت یااس کے شوہرپرحرام نہیں ہوتے،توقاعدہ کلیہ یہ ٹھیراکہ دودھ پلانے والی کی طرف سے توسب لوگ دودھ پینے والے کے محرم ہوجاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خودیااس کی اولادصرف محرم ہوتی ہے،اس کے باپ،بھائی،چچا،ماموں ،خالہ وغیرہ یہ محرم نہیں ہوتے)۔[11]

عُقْبَةُ بْنُ الحَارِثِ، أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ یَحْیَى بِنْتَ أَبِی إِهَابٍ، قَالَ:قَالَ: فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنِّی، قَالَ: فَتَنَحَّیْتُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ:وَكَیْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ أَنْ قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا فَنَهَاهُ عَنْهَا

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیاتوایک سیاہ رنگ والی عورت آئی اور کہنے لگی میں نے تم دونوں کودودھ پلایاہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتوآپ ﷺنے فرمایااب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہوجبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہےچنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جداکردیااوراس خاتون نے دوسرےآدمی سے نکاح کرلیا۔[12]

أَنَّ عُثْمَانَ، فَرَّقَ بَیْنَ أَهْلِ أَبْیَاتٍ بِشَهَادَةِ امْرَأَةٍ

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے چارآدمیوں اوران کی بیویوں کے درمیان رضاعت کے مسئلہ میں ایک عورت کی گواہی کی وجہ سے جدائی کرائی۔[13]

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،امام احمد رحمہ اللہ ،امام طاوس رحمہ اللہ ،امام زہری رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ ،ابن ابی ذئب رحمہ اللہ اورعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ چارعورتوں سے کم کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ دوعورتیں گواہی میں ایک مردکے برابرہیں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ صرف دومردیاایک مرداوردوعورتوں کی شہادت قبول کی جائے گی ،

ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے،

 ۔۔۔وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۔۔۔ ۝۲۸۲ [14]

ترجمہ:اپنے مردوں میں سے دوگواہ بنالو

بلَا یُفِیدُ شَیْئًا لِأَنَّ الْوَاجِبَ بِنَاءُ الْعَامِّ عَلَى الْخَاصِّ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الْحَدِیثَ أَخَصُّ مُطْلَقًا

حالانکہ یہ آیت عام ہے اورحدیث خاص ہے اورعام کوخاص پرمحمول کرناواجب ہے۔[15]

راجح قول یہی ہے کہ دودھ پلانے والی اکیلی عورت کی گواہی بھی قبول کی جائے گی ۔

xکیاکسی بڑی عمرکے لڑکے کودودھ پلاناجائزہے؟

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ سَالِمًا، مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِی حُذَیْفَةَ وَأَهْلِهِ فِی بَیْتِهِمْ، فَأَتَتْ تَعْنِی ابْنَةَ سُهَیْلٍ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا یَبْلُغُ الرِّجَالُ. وَعَقَلَ مَا عَقَلُوا. وَإِنَّهُ یَدْخُلُ عَلَیْنَا. وَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا ،فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِیهِ تَحْرُمِی عَلَیْهِ، وَیَذْهَبِ الَّذِی فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے سالم رضی اللہ عنہ ،ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کاآزادکردہ غلام ان کے ساتھ گھرمیں رہتاتھا ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہما آئیں اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سالم ابوحذیفہ کاآزادکردہ غلام ہمارے گھرمیں ہمارے ساتھ ہی رہتاہے وہ مردکی حدبلوغت کوپہنچ گیاہے اورمیں خیال کرتی ہوں کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اس سے کراہت ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایاتم سالم رضی اللہ عنہ کو اپنادودھ پلادو تواس پرحرام ہوجائے گی اوروہ کراہت جوابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں ہے جاتی رہےگی۔[16]

فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَكَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ

اس حکم کے بعد سہلہ رضی اللہ عنہا نے سالم رضی اللہ عنہ کوپانچ مرتبہ دودھ پلایا پھر وہ اس کے بچے کی جگہ ہوگیا۔[17]

أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ تَقُولُ:وَاللهِ مَا نَرَى هَذَا إِلَّا رُخْصَةً أَرْخَصَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ خَاصَّةً، فَمَا هُوَ بِدَاخِلٍ عَلَیْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ، وَلَا رَائِینَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم!ہم تویہی جانتے ہیں کہ یہ سالم رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص رخصت تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے ایسادودھ پلاکرکسی کونہیں لائے۔[18]

بڑے لڑکے کودودھ پلانے کے متعلق صرف ایک حدیث ہی ہے

إنَّ إرْضَاعَ الْكَبِیرِ یَثْبُتُ بِهِ التَّحْرِیمُ،وَإِلَیْهِ ذَهَبَ عَلِیّ وعَائِشَةُ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ وَاللیْثُ بْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عُلَیَّةَ وَحَكَاهُ النَّوَوِیُّ عَنْ دَاوُد الظَّاهِرِیِّ، وَإِلَیْهِ ذَهَبَ ابْنُ حَزْمٍ

اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ،عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ،امام عطا رحمہ اللہ ،امام لیث رحمہ اللہ ،امام داود رحمہ اللہ اورامام ابن حزم اسی کے قائل ہیں کہ اگرباوقت ضرورت بڑی عمرکے لڑکے کودودھ پلادیاجائے توحرمت ثابت ہوجائے گی۔[19]

جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صرف دوسال سے کم عمرمیں پلائے گئے دودھ سے ہی حرمت ثابت ہوگی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاموقف راجح ہے،

لَكِنَّهَا رَأَتْ الْفَرْقَ بَیْنَ أَنْ یَقْصِدَ رَضَاعَةً أَوْ تَغْذِیَةً. فَمَتَى كَانَ الْمَقْصُودُ الثَّانِی لَمْ یُحَرِّمْ إلَّا مَا كَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ. وَهَذَا هُوَ إرْضَاعُ عَامَّةِ النَّاسِ. وَأَمَّا الْأَوَّلُ فَیَجُوزُ إنْ اُحْتِیجَ إلَى جَعْلِهِ ذَا مَحْرَمٍ. وَقَدْ یَجُوزُ لِلْحَاجَةِ مَا لَا یَجُوزُ لِغَیْرِهَا

مسئلہ رضاعت میں بچپن کا اعتبارکیا جائے گاالاکہ کوئی حاجت وضرورت پیش آجائے جیساکہ بڑی عمرکے آدمی کی رضاعت کامسئلہ ہے کہ جسے کسی عورت کے پاس جانابھی ضروری ہو اوراس عورت کااس سے پردہ کرنابھی دشوارہوجیساکہ سالم کاابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ معاملہ تھا،اس طرح کے بڑی عمرکے آدمی کواگرعورت نے دودھ پلا دیا تو اس آدمی کے لئے دودھ پیناقابل تاثیر ہوگا ، نیز ایسی صورت کے علاوہ دودھ پینے کی مدت بچپن کی عمرہی ہے۔[20]

الرَّضَاعُ الْمُحَرِّمُ مَا كَانَ فِی الصِّغَروَرُوِیَ هَذَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ الْمُسَیَّبِ، وَأَزْوَاجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَلَا عائشة

مسئلہ رضاعت میں بچپن کا اعتبار کیا جائے گااور یہ قول عبداللہ بن عمر ،ابن مسیب اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے مروی ہے سوائے عائشہ۔[21]

صدیق حسن خان رحمہ اللہ اسی کوبرحق گردانتے ہیں ۔ [22]

xکیادوسال تک دودھ پلاناضروری ہے؟

یہ اس صورت کاحکم ہے جبکہ زوجین ایک دوسرے سے علیحدہ ہوچکے ہوں خواہ طلاق کے ذریعے سے یاخلع یافسخ اورتفریق کے ذریعے سے اورعورت کی گودمیں دودھ پیتابچہ ہو

۔۔۔فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا۔۔۔۝۲۳۳ [23]

ترجمہ:اگرفریقین باہمی رضامندی اورمشورے سے دودھ چھڑاناچاہیں توایساکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

xکیاکسی اورعورت سے دودھ پلوایاجاسکتاہے؟

۔۔۔وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔۔۔۝۰۝۲۳۳ [24]

ترجمہ:اگرکوئی اپنی اولادکوغیرعورت سے دودھ پلوانے کاخیال کرتاہے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دودھ پلوانے کاجوکچھ معاوضہ طے ہوجائے وہ معروف طریقے پرادا کردیا جائے۔

xاگرکسی نے بہن کادودھ پیاہوتوان کی اولادوں کے بارے میں کیاحکم ہے؟

فی الحقیقت رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جونسب وولادت سے ہوتے ہیں ،اس صورت میں دودھ پینے والااپنی بہن کارضاعی بیٹاہوگااوربہن کی اولاد اس کے رضاعی بہن بھائی ہوں گے اوراس کی اولادکے چچااورپھوپھیاں ہوں گے لہذاان کاباہم نکاح جائزنہیں ہوگا۔

xرضاعت کامعاوضہ کیاہے؟

عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الأَسْلَمِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یُذْهِبُ عَنِّی مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ؟ فَقَالَ: غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ.

حجاج بن حجاج اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺسے سوال کیا اے اللہ کے رسولﷺ!میں دودھ پلانے کاحق کس طرح اداکرسکتاہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک غلام یالونڈی(لے کراسے دے دے)۔[25]

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ضعیف روایت ہے۔

وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیمَا فَعَلْنَ فِی أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿٢٣٤﴾‏(البقرہ)
تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ، پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ،اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے خبردار ہے۔

خاوندکے انتقال کے بعدمیعادو عدت:

عدت ایسی مدت ہے جسے عورت شادی کی وجہ سے اپنے شوہرکی وفات پریااس کے چھوڑدینے پرولادت (وضع حمل)کے ساتھ یا حیضوں کے ساتھ یامہینوں کے ساتھ گزارتی ہے۔ [26]

کتاب وسنت اوراجماع کے ساتھ عدت عورت پرواجب ہے۔[27]

زمانہ جاہلیت میں بیوہ عورت کی توزندگی ہی حرام تھی،

فَقَالَتْ زَیْنَبُ: كَانَتِ المَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّیَ عَنْهَا زَوْجُهَا، دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِیَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِیبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ، حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ، فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَیْءٍ إِلَّا مَاتَ ،ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً، فَتَرْمِی، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِیبٍ أَوْ غَیْرِهِ

زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا خاوندمرجاتاتووہ عورت عدت گزارنے کے لئے ایک نہایت تنگ وتاریک کوٹھڑی میں داخل ہوجاتی،سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبو کااستعمال ترک کردیتی ،یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا،پھرکسی چوپائے یا بکری یا کسی پرندے کواس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہرآنے کے لئے اس پرہاتھ پھیرتی ،ایساکم ہوتاتھاکہ وہ کسی جانورپرہاتھ پھیردے اوروہ مرنہ جائے،اس کے بعدوہ نکالی جاتی اوراسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی،اب وہ خوشبووغیرہ کوئی بھی چیزاستعمال کرسکتی تھی۔[28]

اللہ تعالیٰ نے اتنی درازمدت سوگ وعدت کے زمانے کومحدودکیاجوعورت کے لئے بلائے عظیم تھی اورصرف اس قدرمدت رکھی تاکہ عورت کاطبعی غم ختم ہوجائے اوریہ بھی معلوم ہوجائے کہ اسے حمل تونہیں ہے،چنانچہ اگراسے حمل نہ ہوتو اللہ نے عدت(شمارکے دن) کی میعادچارماہ دس دن مقرر فرمائی ،اورعدت کی اس مدت میں سوگ مناناواجب ہے،

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم قال :لا یحل لامرأة تؤمن بِالْلَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحد عَلَى مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اورزینب بن جحش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی بھی عورت کے لیے جس کااللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پرایمان ہویہ حلال نہیں کہ وہ کسی بھی میت پرتین راتوں سے زیادہ سوگ منائے، ہاں البتہ وہ اپنے شوہرکی وفات کی صورت میں چارماہ دس دن تک سوگ منائے گی۔[29]

وَهَذَا الْحُكْمُ یَشْمَلُ الزَّوْجَاتِ الْمَدْخُولَ بِهِنَّ وَغَیْرَ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ بالإجماع

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حکم سب عورتوں کے لیے ہے خواہ ان کے شوہروں کاان سے ازواجی تعلق قائم ہواہویانہ ہواہو،اس مسئلہ پرتمام علماءوفقہاءکااجماع ہے۔[30]

وَیَجِبُ الْإِحْدَادُ عَلَى جَمِیعِ الزَّوْجَاتِ الْمُتَوَفَّى عَنْهُنَّ أَزْوَاجُهُنَّ، سَوَاءٌ فِی ذَلِكَ الصَّغِیرَةُ وَالْآیِسَةُ وَالْحُرَّةُ وَالْأَمَةُ، وَالْمُسَلَمَةَ وَالْكَافِرَةُ، لِعُمُومِ الْآیَةِ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں نیزان تمام بیویوں کے لیے جن کے شوہرفوت ہوجائیں یہ سوگ مناناواجب ہے خواہ وہ بہت چھوٹی عمرکی ہوں یاحیض سے ناامیدہوگئی ہوں یاآزادہوں یالونڈی ہوں یامسلمان ہوں یاکافرہوں کیونکہ آیت کریمہ کے عموم کاتقاضایہ ہے۔[31]

اس عدت وفات میں عورت کوزیب وزینت کی حتی کہ سرمہ لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ ابْنَتِی تُوُفِّیَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَیْنَهَا، أَفَتَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا، كُلَّ ذَلِكَ یَقُولُ:لاَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا هِیَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِی الجَاهِلِیَّةِ تَرْمِی بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الحَوْلِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کےرسول ﷺ! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اس کو سرمہ لگائیں ؟ رسول اللہ ﷺنے دو یا تین بار فرمایا نہیں نہیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ چار مہینے دس دن تک انتظار کرے، اور تم میں سے ایک عورت جاہلیت کے زمانہ میں ایک سال کے بعد مینگنی پھیکنتی تھی (اس کے بعد عدت سے باہرہوتی تھی)۔[32]

اورنہ خاوندکے مکان سے کسی اورجگہ منتقل ہونے کی اجازت ہے۔

أَنَّ الْفُرَیْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ،وَهِیَ أُخْتُ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِی بَنِی خُدْرَةَ، فَإِنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِی طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ،فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِی، فَإِنِّی لَمْ یَتْرُكْنِی فِی مَسْكَنٍ یَمْلِكُهُ، وَلَا نَفَقَةٍ؟قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ،

فریعہ رضی اللہ عنہا بنت مالک بن سنان سے مروی ہےاوریہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی کہ آپ کی اجازت لے کراپنے خاندان بنی خدرہ میں چلی جاؤں ،کیونکہ میراشوہراپنے ان غلاموں کی تلاش میں گیا تھا جو بھاگ گئے تھے،وہ مقام قدوم کے اطراف میں تھے کہ میرے شوہرنے ان کو جا لیا مگر انہوں نے اس کو قتل کرڈالا،چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لینے کے لئے آئی تھی کہ مجھے اپنے اہل میں لوٹ جانے کی اجازت دیں کیونکہ میرے شوہرنے اپنی ملکیت میں کوئی گھرنہیں چھوڑاتھااورنہ ہی نفقہ چھوڑاتھا؟بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے سن کر(پہلے تو)اجازت دی دی،

قَالَتْ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِی الْحُجْرَةِ، أَوْ فِی الْمَسْجِدِ، دَعَانِی، أَوْ أَمَرَ بِی، فَدُعِیتُ لَهُ، فَقَالَ:كَیْفَ قُلْتِ؟ فَرَدَدْتُ عَلَیْهِ الْقِصَّةَ الَّتِی ذَكَرْتُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِی،قَالَتْ: فَقَالَ:امْكُثِی فِی بَیْتِكِ حَتَّى یَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ،قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِیهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَرْسَلَ إِلَیَّ فَسَأَلَنِی عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ فَاتَّبَعَهُ، وَقَضَى بِهِ

پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلی حتی کہ جب میں حجرے یامسجدنبوی میں تھی توآپﷺنے مجھے بلایایابلوایا اورفرمایاتونے کیسے کہا ہے ؟تومیں نے اپناقصہ یعنی شوہرکاواقعہ دوبارہ دوہرایا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے(شوہرکے) مکان میں اقامت رکھ حتی کہ کتاب اللہ کی (بیان کی ہوئی)مدت پوری ہوجائے،کہتی ہیں پھرمیں نے اسی مکان میں اپنی عدت کی مدت چارماہ اوردس دن پوری کی،مزیدفرماتی ہیں جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کادورخلافت آیاتوانہوں نے میری طرف پیغام بھیجااورمجھ سے اس مسئلہ کی تفصیل دریافت کی اورمیں نے انہیں (تفصیل سے)خبردی،چنانچہ انہوں نے اسی پرعمل کیااوراسی کے مطابق فیصلہ کیا۔[33] لیکن اگروہ حاملہ ہوتواس کی عدت وضع حمل ہے۔

۔۔۔وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔۔۔ ۝۴       [34]

ترجمہ: اور حاملہ عورتوں کی عدّت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضِع حمل ہو جائے۔

فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ،فَدَخَلَ عَلَیْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ لَهَا: مَا لِی أَرَاكِ تَجَمَّلْتِ لِلْخُطَّابِ، تُرَجِّینَ النِّكَاحَ؟ فَإِنَّكِ وَاللهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَیْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ،قَالَتْ سُبَیْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِی ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی حِینَ أَمْسَیْتُ، وَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ،فَأَفْتَانِی بِأَنِّی قَدْ حَلَلْتُ حِینَ وَضَعْتُ حَمْلِی، وَأَمَرَنِی بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِی

سعدابن خولہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے کچھ ہی دن بعدان کے یہاں بچہ تولد ہوا،نفاس کے دن جب وہ گزارچکیں تونکاح کاپیغام بھیجنے والوں کے لئے انہوں نے اچھے کپڑے پہنے،اس وقت بنوعبدالدارکے ایک صحابی ابوالسنابل رضی اللہ عنہ بن بعلبک ان کے یہاں گئے اوران سے کہامیراخیال ہے کہ تم نے نکاح کاپیغام بھیجنے والوں کے لئے یہ زیب و زینت(آرائش وزیبائش)اختیار کی ہے، شایدتمہارانکاح کرنے کاارادہ ہے ؟لیکن اللہ کی قسم! جب تک(سعد رضی اللہ عنہ کی وفات پر) چار مہینے دس دن نہ گزرجائیں تم نکاح کے قابل نہیں ہو سکتیں ، سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ جب ابوالسنابل نے مجھ سے یہ بات کہی تومیں نےشام ہوتے ہی کپڑے پہنے اور رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضرہوکراس کے بارے میں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےمسئلہ پوچھا،آپ ﷺنے فرمایاکہ بچہ پیداہونے کے بعدعدت سے نکل چکی ہوں اور اب اگرتم چاہوتو نکاح کر سکتی ہوں ۔[35]

عدت گزارنے کے بعدعورتوں کوحق حاصل ہے کہ وہ زیب وزینت اختیارکریں اوراولیاکی اجازت ومشاورت سے کسی اورجگہ نکاح کابندوبست کریں تواس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔

قَالَ الْعَوْفِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: إِذَا طُلِّقَتِ الْمَرْأَةُ أَوْ مَاتَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَإِذَا انْقَضَّتْ عِدَّتُهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهَا أَنْ تَتَزَیَّنَ وتتصنَّع وَتَتَعَرَّضَ لِلتَّزْوِیجِ، فَذَلِكَ الْمَعْرُوفُ

عوفی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ جب عورت کوطلاق مل جائے یااس کاشوہرفوت ہوجائے اوراس کی عدت پوری ہوجائے پھراس کے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ وہ زیب وزینت کواختیارکرکے آرائش وزیبائش کااہتمام کرکے اپنے آپ کونکاح کے لیے پیش کرے اوراس سلسلہ میں دستوراورمعروف کوپیش نظر رکھے۔[36]

عَنْ مُجَاهِدٍ، {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیمَا فَعَلْنَ فِی أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ} قَالَ: النِّكَاحُ الْحَلَالُ الطَّیِّبُ

ابن جریج رحمہ اللہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیاہے’’ پھرجب عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقہ سے جوچاہیں کریں ۔‘‘اس سے مرادحلال وطیب نکاح ہے۔[37]

یعنی بیوہ کے عقدثانی کوبرانہ سمجھناچاہیے اورنہ اس میں روکاوٹ ڈالنی چاہیے،اللہ تمہارے ظاہری اورباطنی ، چھوٹ بڑے تمام اعمال کوجانتا ہے ۔

[1] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ التَّحْرِیمِ بِخَمْسِ رَضَعَاتٍ۳۵۹۷،موطاامام مالک کتاب الرضاع باب جَامِعُ مَا جَاءَ فِی الرَّضَاعَةِ۱۹،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ هَلْ یُحَرِّمُ مَا دُونَ خَمْسِ رَضَعَاتٍ۲۰۶۲،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْقَدْرُ الَّذِی یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ ۳۳۰۹

[2] سنن ابوداودکتاب النکاح باب فی من حرم بہ۲۰۶۱

[3] سبل السلام ۳۱۰؍۲

[4] مسنداحمد۲۴۰۲۶،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابٌ فِی الْمَصَّةِ وَالْمَصَّتَیْنِ۳۵۹۰،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ هَلْ یُحَرِّمُ مَا دُونَ خَمْسِ رَضَعَاتٍ۲۰۶۳،جامع ترمذی ابواب الرضاعہ بَابُ مَا جَاءَ لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ ۱۱۵۰،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ۱۹۴۲ ،صحیح ابن حبان ۴۲۲۷

[5] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابٌ فِی الْمَصَّةِ وَالْمَصَّتَیْنِ۳۵۹۱،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ۱۹۴۱،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْقَدْرُ الَّذِی یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ ۳۳۱۰ ، مصنف عبدالرزاق ۱۳۹۲۲،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۶۲۵

[6] جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الرَّضَاعَةَ لاَ تُحَرِّمُ إِلاَّ فِی الصِّغَرِ دُونَ الحَوْلَیْنِ ۱۱۵۲

[7] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ رَضَاعَ بَعْدَ حَوْلَیْنِ۵۱۰۲ ،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ إِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ ۳۶۰۶،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی رِضَاعَةِ الْكَبِیرِ۲۰۵۸،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ لَا رَضَاعَ بَعْدَ فِصَالٍ ۱۹۴۶، مسنداحمد۲۵۷۹۰،سنن الدارمی ۲۳۰۲

[8] البقرة ۲۳۳

[9] الاحقاف ۱۵

[10] المغنی ۱۷۷؍۸

[11] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاتِی أَرْضَعْنَكُمْ ۵۰۹۹، صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ۳۵۶۸،مسند احمد ۲۵۴۵۳

[12] صحیح بخاری کتاب الشھادات بَابُ شَهَادَةِ الإِمَاءِ وَالعَبِیدِ ۲۶۵۹، وکتاب النکاح بَابُ شَهَادَةِ المُرْضِعَةِ ۵۱۰۴،وکتاب العلم بَابُ الرِّحْلَةِ فِی المَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ، وَتَعْلِیمِ أَهْلِهِ۸۸، وکتاب البیوع بَابُ تَفْسِیرِ المُشَبَّهَاتِ ۲۰۵۲،جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ فِی شَهَادَةِ الْمَرْأَةِ الوَاحِدَةِ فِی الرَّضَاعِ ۱۱۵۱، مسنداحمد۱۶۱۵۴،مصنف عبدالرزاق ۱۳۹۶۷

[13] مصنف عبدالرزاق ۱۳۹۶۹

[14] البقرة ۲۸۲

[15] نیل الاوطار۳۷۸؍۶

[16]صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ رِضَاعَةِ الْكَبِیرِ۳۶۰۱

[17] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ الأَكْفَاءِ فِی الدِّینِ۵۰۸۸ ،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ رِضَاعَةِ الْكَبِیرِ۳۶۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ رِضَاعِ الْكَبِیرِ ۱۹۴۴،سنن نسائی کتاب النکاح بَابُ رِضَاعِ الْكَبِیر۳۳۲۵،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِیمَنْ حَرَّمَ بِهِ۲۰۶۱ ، موطاامام مالک کتاب الرضاع مَا جَاءَ فِی الرَّضَاعَةِ بَعْدَ الْكِبَرِ۱۴، مسند احمد۲۴۱۰۸

[18] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ رِضَاعَةِ الْكَبِیرِ

[19]نیل الاوطار ۳۷۲؍۶

[20] مجموع الفتاوی ۶۰؍۳۴

[21] زاد المعاد ۵۱۳؍۵ ، سبل السلام ۳۱۲؍۲

[22] الروضة الندیة۸۸؍۲

[23] البقرة ۲۳۳

[24] البقرة ۲۳۳

[25] جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ مَا یُذْهِبُ مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ۱۱۵۳ ،سنن نسائی کتاب النکاح باب حَقُّ الرَّضَاعِ وَحُرْمَتُهُ۳۳۳۱،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الرَّضْخِ عِنْدَ الْفِصَالِ۲۰۶۴، مسند احمد ۱۵۷۳۳، سنن الدارمی ۲۳۰۰،صحیح ابن حبان ۴۲۳۰ ،سنن الکبری للنسائی۵۴۵۹

[26] فتح الباری ۴۹۳؍۹

[27] صحیح ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الْمُطَلَّقَةِ الْحَامِلِ إِذَا وَضَعَتْ ذَا بَطْنِهَا بَانَتْ۲۰۲۷

[28] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ تُحِدُّ المُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۵۳۳۷،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ وُجُوبِ الْإِحْدَادِ فِی عِدَّةِ الْوَفَاةِ، وَتَحْرِیمِهِ فِی غَیْرِ ذَلِكَ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ ۳۷۲۸

[29] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ تُحِدُّ المُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۵۳۳۴،صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ۳۷۲۵،مسنداحمد۲۶۷۵۴

[30] تفسیرابن کثیر۶۳۵؍۱

[31] تفسیرابن کثیر۶۳۸؍۱

[32] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ تُحِدُّ المُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۵۳۳۶،صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ۳۷۲۸،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۲۲۹۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِی عِدَّةِ المُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۱۱۹۷

[33] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْمُتَوَفَّى عَنْهَا تَنْتَقِلُ ۲۳۰۰ ،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ أَیْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا؟۱۲۰۴،سنن نسائی کتاب الطلاق باب عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا مِنْ یَوْمِ یَأْتِیهَا الْخَبَرُ ۳۵۶۲، موطاامام مالک کتاب الطلاق باب مُقَامُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، فِی بَیْتِهَا، حَتَّى تَحِلَّ۱۶۱،مستدرک حاکم۲۸۳۲،مسنداحمد۲۷۰۸۷،سنن الدارمی ۲۳۳۳، صحیح ابن حبان۴۲۹۲

[34] الطلاق۴

[35] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی باب ۱۰،ح۳۹۹۱،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ۳۷۲۲

[36] تفسیرابن ابی حاتم۴۳۷؍۲

[37] تفسیرابن ابی حاتم ۴۳۷؍۲

Related Articles