ہجرت نبوی کا دوسرا سال

روزہ کے فضائل و آداب

پنج وقتہ نمازاورجمعہ کی نماز کے فضائل و آداب کی طرح روزہ کے فضائل و آداب بھی بتلائے گئے۔

  عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیَّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: “ یا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِیمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِیهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللهُ صِیَامَهُ فَرِیضَةً، وَقِیَامَ لَیْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِیهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فَرِیضَةً فِیهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ یُزَادُ فِی رِزْقِ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِیهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَیْءٌ  قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، لَیْسَ كُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُعْطِی اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِی شَرْبَةً لَا یَظْمَأُ حَتَّى یَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِیهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ

سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  شعبان کے آخری دن ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ سنایاجس میں  فرمایالوگو!ایک بہت بڑے مہینے نے تم پرسایہ ڈالاہے وہ بابرکت مہینہ ہے اس میں  ایک رات ہے جوایک ہزارمہینوں  سے بہترہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پرفرض کردیئے ہیں  اوراس کی راتوں  کاقیام نفلی رکھاہے ،اس میں  نفلی کام کرنے والا اور دنوں  کے فرض بجالانے والے جیساہے اوراس میں  فرض اداکرنے والے کواوردنوں  کے سترفرضوں  کے برابرثواب ملتاہے،یہ مہینہ صبرکامہینہ ہے اورصبرکا ثواب جنت ہے ، یہ مہینہ ہمدردی ،غم خواری اورمواساة کاہے اس مہینے میں  مومن کی روزی بڑھادی جاتی ہے، جوشخص اس ماہ میں  کسی روزے دارکاروزہ کھلوائے اس کے گناہوں  کی بخشش ہو جاتی ہے اوراس کی گردن جہنم سے آزادہوجاتی ہے اوراسے بھی روزے دارجتناثواب ملتاہے لیکن روزے دارکاثواب گھٹتانہیں ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیاکہ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں  سے ہرشخص کوتواتنی وسعت نہیں  کہ روزے دارکاروزہ کھلوائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاصرف ایک گھونٹ دودھ سے یاایک کھجورسے یاپانی کے گھونٹ سے ہی سہی،جس نے روزہ کھلوایااسے بھی اللہ باری تعالیٰ یہی ثواب عنایت فرماتاہے ،اورجوکسی روزے دارکوپیٹ بھرکرکھلادے اسے توپروردگارمیرے حوض کوثر کا پانی پلائے گاجس سے جنت میں  جانے تک پھرپیاسانہ ہوگا،یہ وہ مہینہ ہے جس کے اول دس دن رحمت کے ہیں ،درمیان کے دس دن مغفرت کے ہیں  اورآخری دس دن جہنم سے آزادی کے ہیں ،اس مہینے میں  جوشخص اپنے ماتحتوں  کے کام میں  کمی کردے ، اللہ اسے بخش دیتا ہے اورجہنم سے آزادکردیتاہے۔[1]

 ضعیف جدا

شیخ امام البانی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔[2]

  عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَظَلَّكُمْ شَهْرُكُمْ هَذَا بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،مَا دَخَلَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ شَهْرٌ خَیْرٌ لَهُمْ مِنْهُ، وَلَا دَخَلَ عَلَى الْمُنَافِقِینَ شَهْرٌ شَرٌّ لَهُمْ مِنْهُ بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،إِنَّ اللهَ یَكْتُبُ أَجْرَهُ وَنَوَافِلَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُوجِبَهُ، وَیَكْتُبُ وِزْرَهُ وَشَقَاءَهُ قَبْلَ أَنْ یُدْخِلَهُ، وَذَلِكَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یُعِدُّ لَهُ مِنَ النَّفَقَةِ فِی الْقُوَّةِ وَالْعِبَادَةِ، وَیُعِدُّ الْمُنَافِقُ اتِّبَاعَ غَفَلَاتِ الْمُسْلِمِینَ وَاتِّبَاعَ عَوْرَاتِهِمْ، فَهُوَ غُنْمٌ لِلْمُؤْمِنِ، وَنِقْمَةٌ لِلْفَاجِرِ

رمضان کی فضیلت میں  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے ایک روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو!یہ ماہ مبارک تم پرسایہ ڈالنے والاہے اس پاک ذات کی قسم جس کی میں  قسم کھاسکتاہوں  کہ مسلمانوں  پراس سے بہتراورکوئی مہینہ نہیں  آیااوراسی قسم سے میں  یہ بھی کہتاہوں  کہ منافقوں  پراس سے بدترکوئی مہینہ نہیں  آیا،میں  حلفاً بیان کرتاہوں  کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس مہینے کے آنے سے پہلے ہی اس کااجراوراس کے نوافل لکھ لیتاہے ،اسی طرح اس کے گناہ اور نافرمانیاں  بھی، اس لئے کہ مومن تواس کے آنے سے پہلے اس میں  عبادات وغیرہ کی تیاریاں  کرلیتے ہیں  اورمنافق بھی اس کے آنے سے پہلے ہی مسلمانوں  کی برائی ،ان کی ہجواورانکی ٹٹول میں  لگ جاتے ہیں ،یقین مانوکہ مسلمانوں  کے لئے یہ مہینہ بہت ہی غنیمت ہے اور فاجروں  وگنہگاروں  کے لیے یہ مصیبت ہے۔[3]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَأَبِی سَعِیدٍ، قَالَا:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: إِنَّ الصَّوْمَ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ اورابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزوجل فرماتاہے روزہ میرے لیے ہے اورمیں  ہی اس کی جزادوں  گا۔[4]

چانددیکھ کرروزہ رکھنااورچانددیکھ کرعیدمنانا:

اسلام نے عبادات ومعاملات کادارومدارسورج پرنہیں چاندپررکھاہے جیسے حج ،صیام ،عیدین ،زکوٰة ،مطلقہ یابیوہ کی عدت ، ایام رضاعت ،قرض وغیرہ جیسے اللہ تعالیٰ کاارشادہے

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔۔۔[5]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ،لوگ تم سے چاندکی گھٹتی بڑھتی صورتوں  کے متعلق پوچھتے ہیں  کہویہ لوگوں  کے لئے تاریخوں  کی تعیین کی اورحج کی علامتیں  ہیں ۔

رمضان المبارک کامہینہ یاتوشعبان المعظم کے تیس دن پورے کرلینے سے یارمضان کاچانددیکھ  لینے سے شروع ہوتاہے ،اگرمطلع ابرآلودہوتوشعبان المعظم کےتیس دن پورے کرلینے چائیں  کیونکہ اسلامی مہینہ یاتوانتیس دن کاہوتاہے یاپورےتیس دن کا،اس سے زائدکانہیں  ہوتا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ فَقَالَ:لاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کاذکرکیااور ارشادفرمایاتم جب تک چاندنہ دیکھونہ روزہ رکھو اور نہ افطار کرو(عیدنہ کرو) اوراگرچاندنظرنہ آئے توتیس کی گنتی پوری کرلو[6]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِینَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہینہ انتیس دن کابھی ہوتاہے ،اس لئے جب تک چاندنہ دیکھ لوروزہ نہ رکھولیکن اگرچاندتم سے پوشیدہ ہوجائے توتیس کی گنتی پوری کرلو۔[7]

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:  قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ قَالَ: قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صُومُوا لِرُؤْیَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِهِ، فَإِنْ غُبِّیَ عَلَیْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِینَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویاابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے کہ چانددیکھ کرروزہ رکھواورچانددیکھ کرافطارکروپس اگرچاندتم سے پوشیدہ ہوجائے توشعبان کے تیس دن مکمل کرلو۔[8]

اس سلسلہ میں  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی روایت بھی موجودہے۔

چاندکی گواہی پرروزہ رکھنا:

اگرخودچاندنہیں  دیکھاتودوسرے مسلمان کی گواہی پرروزہ رکھے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:تَرَائِى النَّاسُ الْهِلَالَ، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّی رَأَیْتُهُ فَصَامَهُ ،وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِیَامِهِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےلوگوں  نے چانددیکھا(یعنی چانددیکھنے کی کوشش کی)میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی کہ میں  نے چانددیکھاہے  تو(میری اس شہادت پر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی روزہ رکھااورلوگوں  کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔[9]

عیدکاچاند:

اوراگرشہرکے آس پاس کے مقام سے بھی گواہی مل جائے توروزے ختم کرکے عیدکا اعلان کردیاجائے گا۔

عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ،فَقَدِمَ أَعْرَابِیَّانِ، فَشَهِدَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاللهِ لَأَهَلَّا الْهِلَالَ أَمْسِ عَشِیَّةً،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ یُفْطِرُوا،زَادَ خَلَفٌ فِی حَدِیثِهِ،:وَأَنْ یَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ

ربعی بن حراش   رحمہ اللہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں  لوگوں  نے رمضان کے آخری د ن میں  اختلاف کیا،پس دواعرابی (دیہاتی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں  نے اللہ کانام لے کرگواہی دی کہ ہم نے کل شام چانددیکھاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں  کوحکم دیاکہ روزہ ختم کردیں ،امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ حدیث کے راوی خلف کی روایت میں  اتنااضافہ ہے کہ آپ نے یہ حکم بھی دیاکہ لوگ دوسرے دن صبح کوعیدکی نمازکے لئے عیدگاہ تشریف لے جائیں ۔[10]

 شک کے دن کاروزہ :

شعبان کے آخری دن میں  رمضان کے لئے احتیاطاً شک کاروزہ رکھناجائزنہیں  کیو نکہ شریعت نے رمضان کے روزوں  کی ابتداکواس کے چانددیکھ لینے پرموقوف کیاہے تو ایساکرنے والاصریح نص کے امرااورنہی کے مخالف ہے،ہاں  اگراتفاقاًکسی شخص کی ایسے دن میں  موافقت ہوجائے کہ وہ اس میں  روزہ رکھتاہے توروزہ رکھ سکتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ یَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ، إِلَّا أَنْ یَكُونَ رَجُلٌ كَانَ یَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْیَصُمْ ذَلِكَ الیَوْمَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم میں  سے کوئی رمضان المبارک سے پہلے ایک یادودن ہرگزروزہ نہ رکھے ہاں  ایساآدمی مستثنیٰ ہے جو روزہ رکھتاہوتووہ اس دن میں  روزہ رکھے۔[11]

فَقَالَ عَمَّارٌ:  مَنْ صَامَ هَذَا الْیَوْمَ، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےجس شخص نے شک والے دن کاروزہ رکھااس نے ابوالقاسم کی نافرمانی کی۔[12]

چاندکاچھوٹابڑاہونا:

جس ماہ رمضان کے انتیس روزے ہوں  اورعیدکاچاندنظرآجائے تولوگ اس پریہ تبصرہ کرتے ہیں  کہ دیکھئے یہ چاندتوبڑاہے ،کوئی کہتاہے کہ یہ دودن کا چاند ہے اورکسی کا کہنا

ہو تا ہے کہ یہ تین دن کاچاندہے حالانکہ اس دن سے ایک دن پہلے انہوں  نے چاندنہیں  دیکھاتھا،اس سلسلہ میں  روایت ہے۔

 عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ، قَالَ: خَرَجْنَا لِلْعُمْرَةِ، فَلَمَّا نَزَلْنَا بِبَطْنِ نَخْلَةَ قَالَ: تَرَاءَیْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَیْلَتَیْنِ، قَالَ: فَلَقِینَا ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقُلْنَا: إِنَّا رَأَیْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَیْلَتَیْنِ،قَالَ: أَیَّ لَیْلَةٍ رَأَیْتُمُوهُ؟قَالَ فَقُلْنَا: لَیْلَةَ كَذَا وَكَذَا،فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللهَ مَدَّهُ لِلرُّؤْیَةِ، فَهُوَ لِلَیْلَةٍ رَأَیْتُمُوهُ

ابوالبختری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں ہم عمرہ کرنے کے لئے نکلے،جب ہم بطن نخلہ(کے مقام پر)اترے توہم نے چانددیکھا،بعض لوگوں  نے کہایہ توتیسری رات کاچاندہے اور بعض نے کہایہ دوسری رات کاچاندہے،راوی کہتاہے پس ہم عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے ملے اورہم نے انہیں  بتایاکہ ہم نے چانددیکھاتوبعض نے کہایہ تیسری رات کاچاندہے جب کہ بعض نے کہاکہ یہ دوسری رات کاہے،انہوں  نے دریافت کیاتم نے کس رات چانددیکھا؟ہم نے بتایاکہ فلاں  رات کوہم نے چانددیکھا،پس انہوں  نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے دیکھنے کے لئے بڑھادیاہے پس چانداسی رات کاہے جس رات کوتم نے اسے دیکھاہے۔[13]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ قَدْ أَمَدَّهُ لِرُؤْیَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ

دوسری روایت میں  یہ الفاظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے چاندکوتمہارے دیکھنے کے لئے بڑھادیاہے پس اگروہ پوشیدہ ہوجائے تواس کی گنتی کو پوراکرلو۔([14]

ہرشہریابستی کے رہنے والوں  کی اپنی رؤیت کااعتبارہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادکہ چانددیکھ کرروزہ رکھو اورچانددیکھ کرافطار(عید)کروسے مرادہرشہریابستی والے اس فرمان کے مخاطب ہیں ،اور عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کی حدیث اس حکم کومتعین کردیتی ہے یہ حدیث آگے آرہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک اورخلفاء راشدین اور بعد کے خلفاء سے یہ بات قطعاًثابت نہیں  ہے کہ مدینتہ الرسول میں  نظرآنے والے چاندکودوسرے شہروں  اورممالک کے لئے کافی قراردیاگیاہویایہ کہ مدینہ میں  چاندنظر آنے کے بعددوسرے شہروں  میں  بھی چاندکے ہونے کے حکم کو جاری کردیاگیاہو،کاتب وحی امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  جب ان کے ہاں  چاندجمعہ کی رات کو نظر آیا اور مدینہ میں  ہفتہ کی شام کودکھائی دیاتوعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے اپنے ہاں  نظرآنے والے چاندہی کوکافی قراردیااوروضاحت فرمائی کہ ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کاحکم دیاہے ۔

چنانچہ پہلے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کی روایت ملاحظہ فرمائیں ۔

أَخْبَرَنِی كُرَیْبٌ،أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ ابْنَةَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِیَةَ، بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَیْتُ حَاجَتَهَا فَاسْتَهَلَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَیْنَا الْهِلَالَ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِینَةَ فِی آخِرِ الشَّهْرَ، فَسَأَلَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَیْتُمُ الْهِلَالَ؟ قُلْتُ: رَأَیْتُهُ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: أَنْتَ رَأَیْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا، وَصَامَ مُعَاوِیَةُ، قَالَ: لَكِنَّا رَأَیْنَاهُ  لَیْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُهُ حَتَّى نُكْمِلَ الثَّلَاثِینَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَفَلَا تَكْتَفِی بِرُؤْیَةِ مُعَاوِیَةَ وَصِیَامِهِ، قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

کریب  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں ام الفضل بنت حارث  رضی اللہ عنہ  نے مجھے شام میں  (امیر)معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس بھیجامیں  وہاں  گیااوران کاکام پوراکیا،وہیں  رمضان کاچاندنظرآیاجبکہ میں  شام میں  تھامیں  نے خودبھی جمعہ کی رات چانددیکھاپھراسی مہینہ کے آخرمیں  مدینہ آیاتوعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے مجھ سے وہاں  کے متعلق پوچھا،پھرانہوں  نے چاند کا ذکر کیا انہوں  نے پوچھاتم نے کب چاند دیکھا؟میں  نے کہاجمعہ کی رات کو،انہوں  نے فرمایاکہ تم نے خودچانددیکھاتھا؟میں  نے کہاجی ہاں  اوردوسرے لوگوں  نے بھی دیکھا تھا اور انہوں  نے روزہ رکھااور(امیر)معاویہ  رضی اللہ عنہ  نے بھی روزہ رکھا، عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے فرمایالیکن ہم نے ہفتہ کی رات کوچانددیکھاتھااورہم روزے رکھتے رہیں  گے یہاں  تک کہ ہم تیس روزے رکھ لیں  اوریاپھرخودچانددیکھ لیں ،میں  نے کہاکہ کیاآپ معاویہ  رضی اللہ عنہ  کی رؤیت اورروزوں  کا اعتبارنہیں  کرتے؟انہوں  نے فرمایا،نہیں (یہ بات نہیں  بلکہ)ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کاحکم دیاہے۔[15]

اس حدیث سے کئی باتیں  واضح اورثابت ہوتی ہیں ۔

x  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے دوردرازکی رؤیت کااعتبا رنہیں  کیابلکہ مدینہ منورہ کے لئے وہیں  کی رؤیت کااعتبارکیا۔

x  شام والوں  کی رؤیت کوانہی لوگوں  کے لئے صحیح قراردیا۔

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے فرمایاکہ ہم تیس روزے مکمل کریں  گے یااس سے قبل ہم چانددیکھ لیں  اورہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساہی حکم فرمایاہے،عام احادیث میں  چاندکے متعلق یہی حکم ہے کہ چانددیکھ کرروزے شروع کیے جائیں  اورچانددیکھ کرہی روزے ختم کیے جائیں  اورچاندنظرنہ آنے کی صورت میں  تیس کی گنتی پوری کی جائے  هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کاحکم دیاہے۔

کایہی مطلب ہے اوراس طرح کی احادیث عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے بھی مروی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُقَدِّمُوا الشَّهْرَ بِصِیَامِ یَوْمٍ ،وَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ثُمَّ صُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ،فَإِنْ حَالَ دُونَهُ غَمَامَةٌ، فَأَتِمُّوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِینَ

چنانچہ عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایارمضان سے قبل روزہ نہ رکھوچاند دیکھ کرروزہ رکھواورچانددیکھ کرافطار(عید)کرو،اوراگر(چاندکے درمیان)بادل حائل ہوجائیں  توتیس دن کی گنتی پوری کرو۔[16]

اسی طرح کی ایک مزیدروایت سنن نسائی میں  ہے،ابن عباس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےعَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:صُومُوا لِرُؤْیَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِینَ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا چاند دیکھ کرروزے رکھواورچاند کودیکھ کرموقوف کرو،اگرابرآجائے توتیس دن کاشمارپوراکرلو[17]

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے اختلاف مطالع کے متعلق جووضاحت  بیان فرمائی ان سے اس مسئلہ پرکسی صحابی یاتابعی نے اختلاف نہیں  کیا،لہذااس مسئلہ میں  صحابہ کرام اورتابعین کرام کا اجماع منعقدہوگیااوراس کے خلاف صحابہ کرام اورتابعین سے کچھ ثابت نہیں اوراگرمتاخرین نے اس سلسلہ میں  کچھ کہاہے تووہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے اوربس۔ سلف صالحین نے حدیث عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے یہی مسئلہ اخذکیاہے چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ  نے صحیح مسلم میں  حدیث کریب  رحمہ اللہ  پریہ باب قائم کیا۔

بَیَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا یَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ

ہرشہرمیں  وہیں  کی رؤیت معتبرہے اوراگرکسی دوسرے شہرمیں  چانددیکھاجائے جواس شہرسے دورہوتواس شہرکے لئے اس کی رؤیت معتبرنہیں  ہے۔[18]

امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس حدیث پریہ باب قائم کیا ہے

مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُهُمْ

ہرشہروالوں  کے لئے ان ہی کی رؤیت معتبرہے۔

حَدِیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِیثِ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتَهُمْ

اورحدیث نقل کرنے کے بعدامام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کی حدیث حسن صحیح غریب ہے اوراس حدیث پراہل علم کاعمل ہے اوروہ یہ کہ ہرشہروالوں  کے لئے انہی کی رؤیت معتبرہے۔[19]

امام ابوداود رحمہ اللہ  نے اس حدیث پران الفاظ میں  باب باندھاہے۔

إِذَا رُئِیَ الْهِلَالُ فِی بَلَدٍ قَبْلَ الْآخَرِینَ بِلَیْلَةٍ

اگرایک شہرمیں  دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چانددکھائی دے۔[20]

اورامام نسائی رحمہ اللہ  نےباب باندھاہے۔

اخْتِلَافُ أَهْلِ الْآفَاقِ فِی الرُّؤْیَةِ

اگرچاندکے دیکھنے میں  ملکوں  میں  اختلاف ہوتوایسی صورت میں  کیاکیاجائے؟۔

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  کاباب ہے۔

بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى أَهْلِ كُلِّ بَلْدَةٍ صِیَامُ رَمَضَانَ لِرِؤْیَتِهِمْ لَا رُؤْیَةِ غَیْرِهِمْ

حدیث باب اس بات کی دلیل ہے کہ تمام شہروں  کے رہنے والوں  کے یہ رمضان کے روزے ان کی اپنی ہی رؤیت سے واجب ہیں  نہ کہ ان کے غیر(دوسروں  شہروں )کی رؤیت سے(یعنی دوسرے مقام کی رؤیت کاان کے لئے کوئی اعتبارنہیں  صرف اپنی ہی رؤیت کااعتبارکیاجائے گا)۔[21]

xچانددیکھنے کی دعایہ ہے۔

اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالْإِیمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّی وَرَبُّكَ اللهُ

ترجمہ:اے اللہ اس کو ہم پرامن وایمان اورسلامتی واسلام کے ساتھ نکال،اے چاند!میرااورتیرارب اللہ ہے [22]

x  روزے کے لئے نیت ضروری ہے،

عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیَّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

علقمہ بن وقاص سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااعمال کادارومدارنیتوں  پرہے۔[23]

عَنْ حَفْصَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ لَمْ یُجْمِعِ الصِّیَامَ قَبْلَ الفَجْرِ، فَلاَ صِیَامَ لَهُ

ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  سے صحیح سندکے ساتھ حدیث مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے طلوع فجرسے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کاکوئی روزہ نہیں ۔[24]

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوگیاکہ رمضان المبارک کے روزے کے لئے نیت ضروری ہے اس کے بغیرروزہ نہیں  ہوتااورروزہ دارکوروزہ کی نیت رات سے ہی کرلینی چاہیے اگررات کونہ کرسکے توطلوع فجرسے پہلے بہرکیف کرلینی چاہیے جبکہ نفلی روزہ میں  طلوع آفتاب کے بعدبھی نیت کی جاسکتی ہے ،نیت دل کے ارادہ کوکہتے ہیں  اس میں  عربی یاکسی بھی زبان میں  مخصوص عبارت بناکرزبان سے اداکرنادرست نہیں  ہے،سحری کی کوئی خاص دعاصحیح حدیث سے ثابت نہیں  ہےکیونکہ ایسی کوئی دعا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین  رحمہ اللہ  سے ثابت ہےاس لئے ایساکرناخلاف سنت اوربدعت پرمبنی عمل ہے۔

  عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمًا وَحَضَرَ رَمَضَانُ،  أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَكَةٍ، فِیهِ خَیْرٌ یُغَشِّیكُمُ اللهُ [فِیهِ] فَتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَتُحَطُّ الْخَطَایَا، وَیُسْتَجَابُ فِیهِ الدُّعَاءُ، فَیَنْظُرُ اللهُ إِلَى تَنَافُسِكُمْ  وَیُبَاهِی بِكُمْ مَلَائِكَتَهُ،  فَأَرُوا اللهَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ خَیْرًا، فَإِنَّ الشَّقِیَّ مِنْ حُرِمَ فِیهِ رَحْمَةَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرمضان کے پہلے روزے کے د ن صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے مجمع میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ فرمایااے لوگو!تمہارے پاس رمضان آپہنچا،برکتی مہینہ آگیا، لوگو!رب کی رحمت نے تمہیں  ڈھانک لیا،دیکھواللہ کی رحمتیں  اتررہی ہیں ،گناہ بخشے جارہے ہیں ،دعائیں  قبول ہورہی ہیں ،لوگو!تمہارااس ماہ میں  ایک دوسرے سے عبادتوں  اورنیکیوں  میں  بڑھ جانے کی کوشش کرنااللہ دیکھ رہاہے بلکہ اس کافخروہ اپنے فرشتوں  میں  کررہاہےپس تم بھی اللہ کواپناجوش وخروش دکھاؤ،حقیقی بدنصیب وہ ہے جواس ماہ مبارک میں  بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔[25]

x  عبادت صیام کی جزاء وثواب کاذمہ اللہ تعالیٰ نے خودلیاہے ۔

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ:كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِهِ  ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ یَرْفُثْ وَلاَ یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْیَقُلْ إِنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ،  وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِیحِ المِسْكِ،  لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِیَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم کاہرعمل روزوں  کے علاوہ اسی کے لئے ہے اورروزہ خاص میرے لئے ہے اورمیں  ہی روزوں  کابدلہ دوں  گااورروزہ ڈھال ہے توجب تم میں  سے کوئی روزہ رکھے تووہ اس دن نہ بیہودہ گفتگوکرے اورنہ کوئی فحش کام کرے اوراگرکوئی اسے گالی دے یااس سے جھگڑے تواسے چاہیے کہ وہ آگے سے کہہ دے کہ میں  روزہ سے ہوں ،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ روزہ رکھنے والے کے منہ کی بواللہ کے ہاں  قیامت کے دن مشک کی خوشبوسے زیادہ (پاکیزہ) اور خوشبودارہوگی،اورروزہ رکھنے والے کے لئے دوخوشیاں  ہیں  جس کی وجہ سے وہ خوش ہوگا(ایک یہ کہ)جب روزہ افطارکرتاہے تووہ اپنی اس افطاری سے خوش ہوتاہے (دوسرا)جب وہ اپنے رب سے ملے گاتووہ اپنے روزہ سے خوش ہوگا۔[26]

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَیْهِ الْمَلَائِكَةُ بَقِیَّةَ شَهْرِ رَمَضَانَ كُلِّهِ، وَصَافَحَهُ جِبْرِیلُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِیلُ رَقَّ قَلْبُهُ، وَكَثُرَتْ دُمُوعُهُ،فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ تَرَ إِنْ لَمْ  یَكُنْ عِنْدَهُ ذَلِكَ؟قَالَ:لُقْمَةٌ أَوْ كِسْرَةُ خُبْزٍ، فَقَالَ آخَرُ: أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَكُنْ عِنْدَهُ ذَلِكَ؟قَالَ:فَمَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ، قَالَ: فَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَكُنْ عِنْدَهُ؟ قَالَ: فَشَرْبَةُ مَاءٍ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص ماہ رمضان میں  کسی روزے دارکاحلال کمائی سے روزہ کھلوائے اس کے لئے فرشتے رمضان شریف کی راتوں  میں  دعائیں  کرتے رہتے ہیں اورلیلة القدرمیں  جبرئیل  علیہ السلام  اس سے مصافحہ کرتے ہیں  جس کی نشانی یہ ہے کہ خوف خدادل کونرم کردے اورآنکھوں  سے آنسوجاری ہوجائیں  ،سلیمان  رضی اللہ عنہ  نے سوال کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !پیٹ بھرکرکھلانے کی طاقت کسی کونہ ہوتو؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامٹھی بھرکھانے سے ہی سہی، میں  نے کہاایک لقمہ کھانے کابھی نہ ہوتو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادودھ کے ایک گھونٹ سے ہی سہی،میں  نے کہااوراے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ بھی کسی کے پاس نہ ہوتو؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپانی کے گھونٹ سے ہی روزہ کھلوادے اسے بھی یہی ثواب ہے۔[27]

x  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان کے دنوں  میں  اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے فرمایااس میں  چارکلمات بکثرت پڑھاکرو،دوتووہ ہیں  جن سے تم اپنے رب کوراضی کرلوگے اوردووہ ہیں  جوتمہارے لئے اشدضروری ہیں  ،جن دوکلمات سے اللہ خوش ہوتاہے وہ تواس کی توحیدکی گواہی اوراس سے استغفارہے اورجن دوکلمات سے تم کبھی بھی بے  نیازنہیں  ہووہ باری تعالیٰ سے جنت کی طلب اورجہنم سے بچاوکی طلب ہے( یعنی یوں  کہاکرو

اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،أَسْتَغْفِرُ اللهَ، اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ۔[28]

    مَالِكِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا رَقِیَ عَتَبَةً، قَالَ:آمِینَ ثُمَّ رَقِیَ عَتَبَةً أُخْرَى، فقَالَ:آمِینَ ثُمَّ رَقِیَ عَتَبَةً ثَالِثَةً، فقَالَ:آمِینَ ثُمَّ، قَالَ:أَتَانِی جِبْرِیلُ، فقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَهُ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ، قُلْتُ: آمِینَ، قَالَ: وَمَنْ أَدْرَكَ وَالِدَیْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ، قُلْتُ: آمِینَ، فقَالَ: وَمَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْكَ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ، قُلْ: آمِینَ، فَقُلْتُ: آمِینَ

مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرمضان کے مبارک مہینہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منبرپرچڑھنے لگے ،پہلے زینہ پرآمین کہی،پھردوسرے زینہ پرآمین کہی اورپھرتیسرے زینہ پربھی آمین فرمائی ثُمَّ،پھر فرمایا میرے پاس جبرئیل  علیہ السلام آئے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے رمضان کامہینہ پایاپھراسے بخشانہ گیااسے اللہ دورڈال دے،میں  نے کہاآمین،پھرجبرائیل  علیہ السلام  نے کہاجواپنے ماں  باپ کوپائے یاان دونوں  میں  سے ایک کوپھرجہنمی بنے اس پربھی اللہ کی پھٹکارہو،میں  نے کہا آمین ، پھرجبرئیل  علیہ السلام نے فرمایاجس کے سامنے تیراذکرکیاجائے اورپھربھی وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر)درودنہ پڑھے اسے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دورڈال دے ،میں  نے کہاآمین۔ [29]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ وَلَمْ یَصُمْهُ فَقَدْ شَقِیَ، وَمَنْ أَدْرَكَ وَالِدَیْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ یَبَرَّهُ فَقَدْ شَقِیَ، وَمَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ فَقَدْ شَقِیَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص رمضان المبارک کامہینہ پائے اوروہ روزے نہ رکھے وہ بدنصیب ہے،وہ شخص اپنے بوڑھے والداوروالدہ یاان میں  سے ایک کوپائے اوران کی خدمت نہ کرے وہ بدنصیب ہے،وہ شخص جس کے سامنے میراذکرکیاجائے اوروہ مجھ پردرودنہ بھیجے وہ بدنصیب ہے۔[30]

x  کیونکہ روزہ اللہ کی خوشنو دی حاصل کرنے کے لئے رکھاجاتاہے اس لئے جہنم سے دوری کاباعث ہے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْ عَبْدٍ یَصُومُ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللهِ، إِلَّا بَاعَدَ اللهُ، بِذَلِكَ الْیَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِینَ خَرِیفًا

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاجس آدمی نے ایک دن اللہ تعالیٰ کے راستے میں  روزہ رکھاتواللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کواس کے منہ سے سترسال کی مسافت تک دورکردے گا[31]

  وَعَن أبی أُمَامَة رَضِی الله عَنهُأَن النَّبِی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ من صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیل الله جعل الله بَینه وَبَین النَّار خَنْدَقًا كَمَا بَین السَّمَاء وَالْأَرْض

ابوامامہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس شخص نے جہاد فی سبیل کے دوران ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی خندق بنا دیتا ہے جیسے کہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔[32]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیل الله جعل الله بَینه وَبَین النَّار خَنْدَقًا كَمَا بَین السَّمَاء وَالْأَرْض

ایسی ایک روایت ابودردا رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس شخص نے جہاد فی سبیل کے دوران ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی خندق بنا دیتا ہے جیسے کہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔[33]

وَعَن عَمْرو بن عبسة رَضِی الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیل الله بَعدت مِنْهُ النَّار مسیرَة مائَة عَام

عمروبن عبسہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس شخص نے جہاد فی سبیل کے دوران ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ سے سوسال کی مسافت تک دور کردے گا۔ [34]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یَقُولُ: أَن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَعْطَیْت أمتِی فِی شهر رَمَضَان خمْسا لم یُعْطهنَّ نَبِی قبلی ، أما وَاحِدَة فَإِنَّهُ إِذا كَانَ أول لَیْلَة من شهر رَمَضَان نظر الله عز وَجل إِلَیْهِم وَمن نظر الله إِلَیْهِ لم یعذبه أبدا،وَأما الثَّانِیَة فَإِن خلوف أَفْوَاههم حِین یمسون أطیب عِنْد الله من ریح الْمسك،وَأما الثَّالِثَة فَإِن الْمَلَائِكَة تستغفر لَهُم فِی كل یَوْم وَلَیْلَة،وَأما الرَّابِعَة فَإِن الله عز وَجل یَأْمر جنته فَیَقُول لَهَا استعدی وتزینی لعبادی أوشك أَن یستریحوا من تَعب الدُّنْیَا إِلَى دَاری وكرامتی،وَأما الْخَامِسَة فَإِنَّهُ إِذا كَانَ آخر لَیْلَة غفر الله لَهُم جَمِیعًا،فَقَالَ رجل من الْقَوْم أَهِی لَیْلَة الْقدر فَقَالَ لَا ألم تَرَ إِلَى الْعمَّال یعْملُونَ فَإِذا فرغوا من أَعْمَالهم وفوا أُجُورهم

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایارمضان المبارک میں  میری امت کوپانچ چیزیں  عطافرمائی گئیں  جواس سے پہلے کسی نبی کوعطانہیں  کی گئیں ، پہلی چیزیہ کہ رمضان المبارک کی پہلی رات کواللہ تعالیٰ بندوں  پرنظرڈالتاہے اورجس کی طرف اللہ عزوجل نظرڈالتاہے اسے کبھی عذاب نہیں  دیتا، دوسری بات یہ کہ جب بندہ بولتاہے اوراس کے منہ سے جوخوشبونکلتی ہے اللہ تعالیٰ کووہ مشک کی خوشبوسے زیادہ پسندیدہ ہے، تیسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس شخص کے لیے دن رات مغفرت کی دعاکرتے رہتے ہیں ، چوتھی بات یہ کہ  اللہ عزوجل جنت کوحکم فرماتاہے اور اسے کہتاہے میرے بندوں کے لیے تیارہوجااورزینت اختیارکرلےقریب ہے کہ وہ دنیا سے تھک ہارکر میرے گھر اور کرامت میں سکون حاصل کرے گا، پانچویں بات یہ کہ رمضان المبارک کی آخری رات کواللہ تعالیٰ سب بندوں کوبخش دیتاہے، ایک آدمی نے کہا کیا یہ لیلة القدر ہے فرمایا نہیں کیا تم مزدوروں کو کام کرتے ہوئےنہیں دیکھتے کہ جب وہ اپنی مزودری سے فارغ ہوتے ہیں تو انہیں ان کی مزودری دی جاتی ہے۔[35]

x  عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ، وَصَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَحَجَّ الْبَیْتِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسلام پانچ چیزوں کانام ہے،اول اللہ تعالیٰ کاایک ہونے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہونے کی گواہی دینا ، دوسرے پانچ وقت نماز ادا کرنا ، تیسرےاگرمال ودولت ہوتواس میں سے زکواة اداکرنا،چوتھے ماہ رمضان کے روزے رکھنا ، اورپانچویں اگرمال ہوتوزندگی میں کم ازکم ایک بار حج بیت اللہ کرنا۔[36]

اگرکوئی شخص ان میں سے کسی ایک کوبھی چھوڑدے وہ ان پانچوں چیزوں کاچھوڑنے والاہے اوراس کااسلام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ فِی غَیْرِ رُخْصَةٍ رَخَّصَهَا اللهُ لَهُ لَمْ یَقْضِ عَنْهُ صِیَامُ الدَّهْرِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابلاشرعی عذررمضان کا روزہ چھوڑنے والا اس ماہ کاایک روزہ بھی بلااجازت شرع ترک کردے اورپھرساری زندگی روزے رکھتارہے تب بھی اس گناہ کی تلافی نہ ہوسکے گی ۔[37]

حكم الألبانی: ضعیف

x  جوشخص اس مبارک مہینے میں بھی اللہ کوراضی نہ کرے وہ بڑاہی بدنصیب ہے۔

x  جوشخص وقت سے پہلے جان بو جھ کرروزہ کھول دے اس کوجہنم میں معلق لٹکادیاجائے گااوربارباراس کی باچھیں چیری جائیں گی،جن سے خون رستارہے گااوروہ کتے کی طرح چیخے گا ۔

أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِیُّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِی رَجُلَانِ فَأَخَذَا بِضَبْعَیَّ فَأَتَیَا بِی جَبَلًا وَعْرًا فَقَالَا لِی: اصْعَدْ فَقُلْتُ:إِنِّی لَا أُطِیقُهُ ، فَقَالَا: إِنَّا سَنُسَهِّلُهُ لَكَ فَصَعِدْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِی سَوَاءِ الْجَبَلِ إِذَا أَنَا بِأَصْوَاتٍ شَدِیدَةٍ فَقُلْتُ:مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟قَالُوا: هَذَا عَوَىُ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِی فَإِذَا أَنَا بِقَوْمٍ مُعَلَّقِینَ بِعَرَاقِیبِهِمْ مُشَقَّقَةُ أَشْدَاقُهُمْ تَسِیلُ أَشْدَاقُهُمْ دَمًا، قَالَ: قُلْتُ:مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِینَ یُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ

ابوامامہ باہلی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ فرمارہے تھے ایک مرتبہ میں  سورہاتھامیرے پاس دوآدمی آئے انہوں  نے میرے بازوسے پکڑااوروہ دونوں  مجھے ایک مشکل پہاڑکے پاس لے آئے اورانہوں  نے کہاکہ اس پرچڑھو،میں  نے کہامیں  اس پرچڑھنے کی استطاعت نہیں  رکھتا،انہوں  نے کہاہم اس کوآپ کے لیے آسان کردیتے ہیں  تومیں  اس پرچڑھ گیاحتی کہ جب پہاڑکے درمیان میں  تھاتومیں  نے خوفناک آوازیں  سنیں  تومیں  نے کہایہ کیسی آوازیں  ہیں ؟انہوں  نے کہایہ آگ والوں  کی چیخ وپکاراورواویلہ ہے،پھرمجھے ایک جگہ کے جایاگیاتومیں  نے وہاں  کچھ لوگوں  کودیکھاکوالٹے لٹکائے گئے تھے ،ان کی باچھیں (منہ کی دونوں  اطراف)پھاڑی ہوئی تھیں  اوران سے خون بہہ رہاتھامیں  نے کہایہ کون ہیں ؟انہوں  نے کہایہ وہ لوگ ہیں  جوروزہ افطارکے وقت سے پہلے ہی کھول دیتے تھے۔[38]

یہ سزاتوان لوگوں  کی ہے جوروزہ رکھنے کی باوجوداسے پورانہیں  کرتے توان لوگوں  کی سزاکتنی سنگین ترین ہوگی جوروزہ سرے سے رکھتے ہی نہیں ۔

x  قرآن مجیدکارمضان المبارک سے گہراتعلق ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ۔۔۔[39]

ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے جس میں  قرآن نازل کیا گیا۔

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ [40]

ترجمہ:(یقیناً) ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں  نازل کیا۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: نُزل الْقُرْآنُ جُمْلَةً مِنَ السَّمَاءِ الْعُلْیَا، إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، لَیْلَةَ الْقَدْرِ، ثم نزل مفصّلاً

سعیدبن جبیرسے مروی ہےقرآن کریم اس مہینہ میں  لیلة القدرکی رات میں  ایک ہی مرتبہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیاگیاپھر اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سےحسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل ہوتارہا۔[41]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:نُزِّلَ الْقُرْآنُ جُمْلَةً فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَكَانَ إِذَا أَرَادَ اللهُ أَنْ یُحْدِثَ مِنْهُ شَیْئًا أَحْدَثَهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےقرآن کریم اس مہینہ میں  لیلة القدرکی رات میں  ایک ہی مرتبہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیاگیاپھر اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سےحسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل ہوتارہا۔[42]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:نَزَلَ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَنَزَلَ بَعْدُ فِی عِشْرِینَ سَنَةً

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےقرآن کریم اس مہینہ میں  لیلة القدرکی رات میں  ایک ہی مرتبہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیاگیاپھرتئیس سال تک اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سےحسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل ہوتا رہا۔[43]

x  رمضان المبارک کی آمدہو تے ہی روئے زمین سے شرمیں  کمی واقع ہوجاتی ہے ۔

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ ،  وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِینُ

ابوہریرہ t سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب رمضان آتاہے تورمضان کی اول رات سےجنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بندکردیے جاتے ہیں ،اور سرکش جن اورگمراہ کن شیاطین کو زنجیروں  میں  جکڑدیاجاتاہے۔[44]

اورجس قدروہ غیررمضان میں  فسادبرپاکرتے ہیں  اس ماہ مبارک میں  نہیں  کرپاتے ،یہی وجہ ہے کہ لوگ نیکی وخیرات ، تلاوت قرآن مجید،ذکرباری تعالیٰ،انفاق فی سبیل اللہ،قیام اللیل اوردیگرنیک اعمال میں  بکثرت حصہ لیتے ہیں ۔

   عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِینُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ،  وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ یُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ،وَنَادَى مُنَادٍ:یَا بَاغِیَ الخَیْرِ أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِوَذَلِكَ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاجب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیطانوں  اورشریرجنوں  کوزنجیروں  میں  جکڑدیاجاتاہے،اس مہینے میں جہنم کے دروازے بندہوجاتے ہیں  اوران میں  سے ایک بھی نہیں  کھلتااور  جنت اوررحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں  اورآخرتک ایک بھی بندنہیں  ہوتا،اور آوازلگانے والا آواز دیتاہے اے خیرو بھلائی کے طالب آگے بڑھواوراے برائی کے طالب رک جاواوراللہ کے لئے کچھ لوگ آگ سے آزادکیے جاتے ہیں  اوریہ (آزادی کا عمل) ہر رات ہوتا رہتا ہے۔[45]

 عَنْ سَهْلٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ فِی الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الرَّیَّانُ، یَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا یَدْخُلُ مَعَهُمْ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ ،یُقَالُ: أَیْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ

سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں  ایک دروازہ ہے جس کوریان کہتے ہیں  قیامت کے روز روزہ دارلوگ جنت میں  اس دروازہ سے جائیں  گے ، ان کے سواکوئی اس دروازے سے داخل نہیں  ہوگا،پکاراجائے گاروزہ دارکہاں  ہیں ؟وہ اٹھ کھڑے ہوں  گےجب وہ جاچکیں  گے تویہ دروازہ بندہوجائے گااورکوئی اس میں  نہ جاسکے گا۔ [46]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ: الرَّیَّانُ. قَالَ: یُقَالُ: یَوْمَ الْقِیَامَةِ: أَیْنَ الصَّائِمُونَ؟ هَلُمُّوا إِلَى الرَّیَّانِ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ أُغْلِقَ ذَلِكَ الْبَابُ

سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاجنت میں  ایک دروازہ ہے جس کوریان کہتے ہیں ،قیامت کے روزاس دروازہ سے پکاراجائے گاروزہ دارکہاں  ہیں ،وہ اس دروازہ پرجمع ہوجائیں  گےاورجب آخری شخص بھی اس میں  داخل ہوجائے گاتویہ دروازہ بندکردیاجائے گا۔[47]

x   روزہ دارکواللہ تعالیٰ باب الریا ن سے جنت میں  داخل کرے گااوراس کوان گنت نعمتیں  عطافرمائے گااوراس سے خوش ہوکرملے گا۔

   حُذَیْفَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَیُّكُمْ یَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الفِتْنَةِ،  قُلْتُ أَنَا كَمَا قَالَهُ،  قَالَ: إِنَّكَ عَلَیْهِ أَوْ عَلَیْهَا لَجَرِیءٌ،  قُلْتُ:فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِی أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ وَالنَّهْیُ ،قَالَ: لَیْسَ هَذَا أُرِیدُ، وَلَكِنِ الفِتْنَةُ الَّتِی تَمُوجُ كَمَا یَمُوجُ البَحْرُ،قَالَ: لَیْسَ عَلَیْكَ مِنْهَا بَأْسٌ یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، إِنَّ بَیْنَكَ وَبَیْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا،   قَالَ: أَیُكْسَرُ أَمْ یُفْتَحُ؟قَالَ: یُكْسَرُقَالَ: إِذًا لاَ یُغْلَقَ أَبَدًا

حذیفہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے پاس تھے تو انہوں  نے کہا تم میں  سے کون ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی فتنوں  کے بارے میں  حدیث زیادہ یاد ہے،میں  نے کہامجھے اچھی طرح یادہے، کہا تو بہت جرأت مند ہے اور وہ حدیث کیسی ہے،میں  نے کہا میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے آدمی کے گھر والوں  اور اس کے مال اور اس کی جان اور اولاد اور پڑوسی میں  فتنہ ہے اور ان کا کفارہ روزے نماز صدقہ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا ہیں ، تو سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے کہا میں  نے ان کا ارادہ نہیں  کیا بلکہ میرا ارادہ وہ فتنے ہیں  جو سمندر کی موجوں  کی طرح آئیں  گے،میں  نے کہا اے امیر المومنین آپ کو اس سے کیا غرض ہے بے شک آپ کے اور ان فتنوں  کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے کہا اس دروزاے کو توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا،میں  نے کہ نہیں  بلکہ اسے توڑا جائے گا، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر کبھی بند نہ کیا جا سکے گا ۔[48]

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ:   قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ یَزْدَادُ فِیهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ

سلمان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شعبان کے آخری دن خطبہ ارشادفرمایایہ مہینہ ہمدردی ،غم خواری اورمواساة کاہے اس مہینے میں  عبادت گزار مومن کی روزی میں  برکت دی جاتی ہے۔ [49]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِیهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایایہ وہ مہینہ ہے جس کے اول دس دن رحمت کے ہیں ،درمیان کے دس دن مغفرت کے ہیں  اورآخری دس دن جہنم سے آزادی حاصل کرنےکے ہیں ۔[50]

قال الأعظمی: إسناده ضعیف علی بن زید بن جدعان ضعیف

عظمی کہتے ہیں  اس روایت کی سندضعیف ہے اس روایت میں  راوی علی بن زیدجدعان ضعیف ہے۔

x  اس مہینے میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکتیں  اوررحمتیں  نازل ہوتی ہیں  ۔

x  یہ مہینہ گناہوں  کی معافی اوردعا ؤں  کی قبولیت کاہے ۔

 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:  إِنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:  إِنَّ الْجَنَّةَ لَتُنَجَّدُ وَتُزَخْرَفُ مِنَ الْحَوْلِ إِلَى الْحَوْلِ لِدُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَإِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِیحٌ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ یُقَالُ لَهَا الْمُثِیرَةُ، تُصَفِّقُ وَرَقَ أَشْجَارِ الْجَنَّةِ وَحِلَقَ الْمَصَارِیعِ، فَیُسْمَعُ لِذَلِكَ طَنِینٌ لَمْ یَسْمَعِ السَّامِعُونَ أَحْسَنَ مِنْهُ، وَتَجِیءُ الْحُورُ الْعِینُ حَتَّى تَقِفَ بَیْنَ یَدَیْ شُرَفِ الْجَنَّةِ، فَیُنَادِینَ: هَلْ مِنْ خَاطِبٍ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَیُزَوِّجَهُ؟ ثُمَّ یَقُلْنَ: یَا رِضْوَانُ، مَا هَذِهِ اللیْلَةُ؟ فَیُجِیبُهُمْ بِالتَّلْبِیَةِ، ثُمَّ یَقُولُ: یَا خَیْرَاتٌ حِسَانٌ، هَذِهِ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ

عبداللہ بن عباس سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سناکہ رمضان المبارک کے لئے جنت سال بھرسنواری جاتی ہے اوررمضان کے اول رات ایک لطیف ہواعرش سے چلتی ہےجسے مثیرہ کہتے ہیں  جوجنتی درختوں  کے پتوں  وغیرہ کولگتی ہوئی گزرجاتی ہے جن سے ایک نہایت سریلی آوازپیداہوتی ہے،اس وقت حوریں  نداکرتی ہیں  کہ کوئی ہے جواللہ تعالیٰ سے ہماری خواہشگاری کرے؟پھر آواز لگاتی ہیں  اے رضوان ! یہ رات کیا ہے؟ تو تلبیہ کو صورت میں  انہیں  جواب دیا جاتاہے کہ اے خوب سیرت وخوب صورت یہ رمضان کی پہلی رات ہے۔

فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجِنَانِ لِلصَّائِمِینَ مِنْ أُمَّةِ أَحْمَدَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ یَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: یَا رِضْوَانُ، افْتَحْ بَابَ الْجِنَانِ، یَا مَالِكُ، أَغْلِقْ أَبْوَابَ النَّارِ عَنِ الصَّائِمِینَ مِنْ أُمَّةِ أَحْمَدَ عَلَیْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ، یَا جِبْرِیلُ اهْبِطْ إِلَى الْأَرْضِ فَصَفِّدْ مَرَدَةَ الشَّیَاطِینِ وَغُلَّهُمْ بِالْأَغْلَالِ، ثُمَّ اقْذِفْ بِهِمْ فِی لُجَجِ الْبِحَارِ حَتَّى لَا یُفْسِدُوا عَلَى أُمَّةِ حَبِیبِی صِیَامَهُمْ، قَالَ: وَیَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ ثَلَاثَ مِرَارٍ: هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِیَهُ؟هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوبَ عَلَیْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ مَنْ یُقْرِضِ الْمَلِیءَ غَیْرَ الْمُعْدِمِ، وَالْوَفِیَّ غَیْرَ الْمَظْلُومِ؟

محمدی امت کے روزے داروں  کے لیے جنتوں  کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،پھراللہ عزوجل فرماتاہے اے رضوان ! جنتوں  کے دروازے کھول دے، اے مالک ! امت محمدیہ کے روزے داروں  کے لیے جہنم کے دروازے بند کر دے،اے جبرائیل سرکش شیاطین کو جکڑ اور پابند سلاسل کرکے سمندروں  میں  پھینک دو تاکہ میرے حبیب کی امت کے روزوں  کو خراب نہ کریں ، اوراللہ عزوجل رمضان کی ہررات تین مرتبہ ندا لگاتاہے کیا کوئی سائل ہے جس کومیں  عطا کروں ؟ کوئی تائب ہے جس کی توبہ قبول کروں ؟کوئی استغفارکرنے والاہے جس کے گناہوں  سے درگزرفرماؤں ؟ کوئی ہے جوایسے اللہ کوقرض دے جونہ مفلس ہے نہ کم دینے والا؟بلکہ پورادینے والااورظلم نہ کرنے والاہے۔[51]

 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:   وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ مہینہ غمخواری اورصبرکرنے کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔[52]

x  مسلمانوں  کے لئے اس سے بہتراور منافقوں  کے لئے اس سے برامہینہ کوئی نہیں ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَظَلَّكُمْ شَهْرُكُمْ هَذَا بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،مَا دَخَلَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ شَهْرٌ خَیْرٌ لَهُمْ مِنْهُ، وَلَا دَخَلَ عَلَى الْمُنَافِقِینَ شَهْرٌ شَرٌّ لَهُمْ مِنْهُ بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو!یہ ماہ مبارک تم پرسایہ ڈالنے والاہے اس پاک ذات کی قسم جس کی میں  قسم کھاسکتاہوں  کہ مسلمانوں  پراس سے بہتراورکوئی مہینہ نہیں  آیااوراسی قسم سے میں  یہ بھی کہتاہوں  کہ منافقوں  پراس سے بدترکوئی مہینہ نہیں  آیا۔[53]

x  اللہ تعالیٰ اس مہینے میں  دس لاکھ مسلما نوں  کوجہنم سے آزادکردیتاہے جوجہنم کے لائق ہوتے ہیں  اورآخری رات پورے مہینے کی گنتی کے برابر۔

   عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ أَدْرَكَهُ شَهْرُ رَمَضَانَ بِمَكَّةَ فَصَامَهُ كُلَّهُ وَقَامَ مِنْهَا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ؛ كَتَبَ اللهُ تَعَالَى لَهُ مِائَةَ أَلْفِ شَهْرِ رَمَضَانَ بِغَیْرِ مَكَّةَ، وَكَتَبَ لَهُ كُلَّ یَوْمٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ،وَكُلَّ لَیْلَةٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ، وَكُلَّ یَوْمٍ حِمْلَانَ فَرَسٍ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،  وَكُلَّ یَوْمٍ حَسَنَةً، وَكُلَّ لَیْلَةٍ حَسَنَةً

عبداللہ بن عباس سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ جوشخص اس ماہ مبارک کومکہ میں  گزارے اوراس کے روزوں  کی بخوبی حفاظت کرے اوراپنی طاقت بھرقیام بھی کرتارہے اس کودوسری جگہ ایک لاکھ رمضان گزارنے کے برابرثواب ملتاہے اورہردن اورہررات کے بدلے ایک غلام آزادکرنے کاثواب ملتاہے اورہردن میں  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  ایک سواری دینےاورہررات اوردن کے عوض نیکیاں  ملتی ہیں ۔[54]

x    رمضان کے دنوں  میں  نفلی اعمال وعبادا ت سے قرب الہٰی کاوہ درجہ ملتاہے جوعام دنوں  میں  کسی فرض کی ادائیگی سے نہیں  ملتا۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَقِیَامَ لَیْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِیهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ،

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااوراس کی راتوں  کاقیام نفلی رکھاہے ،اس میں  نفلی کام کرنے والا اور دنوں  کے فرض بجالانے والے جیساہے۔[55]

x  جوشخص رمضان میں  ایک فرض اداکر تاہے اسے سترفرضوں  کے برابراجروثواب دیاجاتاہے ۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ أَدَّى فِیهِ فَرِیضَةً كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااوراس میں  فرض اداکرنے والے کواوردنوں  کے سترفرضوں  کے برابرثواب ملتاہے۔[56]

  ابْنَ عَبَّاسٍ، یُحَدِّثُنَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِامْرَأَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مَا مَنَعَكِ أَنْ تَحُجِّی مَعَنَا؟قَالَتْ: لَمْ یَكُنْ لَنَا إِلَّا نَاضِحَانِ فَحَجَّ أَبُو وَلَدِهَا وَابْنُهَا عَلَى نَاضِحٍ وَتَرَكَ لَنَا نَاضِحًا نَنْضِحُ عَلَیْهِ،قَالَ:فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِی، فَإِنَّ عُمْرَةً فِیهِ تَعْدِلُ حَجَّةً

عطاء بن ابی رباح  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  نے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کوکہتے ہوئے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک انصاری عورت سے کہاتمہیں  ہمارے ساتھ حج پرجانے میں  کون سی چیز مانع ہے ؟تواس عورت نے کہاکہ ہمارے پاس صرف دواونٹ ہیں  ایک پرمیراشوہراوربیٹاحج پرگئے ہیں  اورہمارے پاس باقی ایک اونٹ ہے جس پرہم پانی وغیرہ لاد کر لاتے ہیں  تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عورت سے کہاجب رمضان المبارک کامہینہ آئے توعمرہ کرلیناکیونکہ رمضان المبارک کاعمرہ حج کے برابرثواب رکھتاہے۔[57]

x  رمضان المبارک میں  اللہ تعالیٰ کاذکرکرنے والا بخشاجاتاہے اوردعاکرنے والامحروم نہیں  رہتا۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَاكِرُ اللهِ فِی رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ اللهِ فِیهِ لَا یَخِیبُ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایارمضان المبارک میں  اللہ تعالیٰ کاذکرکرنے والا بخشاجاتاہے اوردعاکرنے والامحروم نہیں  رہتا۔[58]

  أَخْبَرَنِی عَطَاءٌ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الزَّیَّاتِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِیحِ المِسْكِ

عطاءبن ابوصالح کہتے ہیں  میں  نےابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقسم ہے اس ذ ات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے کہ روزہ دارکے منہ کی خوشبواللہ تعالیٰ کومشک وعنبر،کستوری سے زیادہ پسندیدہ ہے (یہ بومخلوق کے ہاں  ناگوارلیکن خالق حقیقی کے ہاں  بہت محبوب ہے)۔[59]

x  روزہ دارکے لئے فرشتے استغفارکرتے رہتے ہیں  اورہرروزاس کے لئے جنت کی نعمتیں  بڑھتی رہتی ہیں  ۔

 أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِهِ ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ یَرْفُثْ وَلاَ یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْیَقُلْ إِنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان کے ہر عمل کا بدلہ ہے، مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں  ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں  اورروزہ جہنم کے عذابوں  کی ڈھال ہے ،پس روزہ دارکوچاہیے کہ فحش بات نہ کہے اورجہالت کی بات (مثلاً مذاق ، جھوٹ،چیخناچلانا،شوروغل مچاناوغیرہ)بھی نہ کرے اور اگر کوئی اس سے لڑے یااسے گالی دے تواسے چاہئے کہ وہ کہہ دے کہ میں  روزہ دارہوں ۔[60]

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِیَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاروزہ دارکودوخوشیاں  ہوتی ہیں ایک طلوع فجرسے لیکرغروب آفتاب تک افطارکے وقت ہوتی ہے اوردوسری حقیقی خوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے وقت جب اعمال حسنہ کی پوری پوری جزاء ملنے سے ہوگی،جس دن دوسری چیزکام نہیں  آئے گی۔[61]

x  ہرہرروزہ کے عوض اللہ تعالیٰ روزہ دار کوحوروقصوراورغلمان اوردرجات جنت وغیرہ وغیرہ طرح طرح کی نعمتیں  عطافرماتاہے ۔

x  روزہ تندرستی کاسبب اورجسم کی زکوا ة اورآدھاصبرہے ۔

عَن أبی هُرَیْرَة رَضِی الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم لكل شَیْء زَكَاة وَزَكَاة الْجَسَد الصَّوْم وَالصِّیَام نصف الصَّبْر

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرشئے کی زکوٰة ہوتی ہے اورجسم کی زکوٰة روزہ ہے اورروزہ ادھاصبرہے۔[62]

شیخ البانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ ضعیف روایت ہے،اس روایت کی سندمیں  موسی بن عبیداللہ الز یری ہے جوضعیف ہے۔

x  روزہ گناہوں  سے مغفرت وکفارہ کا سبب ہے ،پانچ نمازیں  اورایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اورایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیان والے گناہوں  کاکفارہ ہیں  بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہوں  سے اجتناب کرتاہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پانچ نمازیں  اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیان میں  ہونے والے گناہوں  کا کفارہ ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں  سے اجتناب کرے۔[63]

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ لَیْلَةَ القَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جو شخص شب قدر میں  ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کھڑا ہو اسکے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ، اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔[64]

x  روزے داراورجہنم کے درمیان اللہ تعا لیٰ آسمان وزمین سے بھی زیادہ دوری ڈال دیتاہے ۔

عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِیِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَامَ فِی سَبِیلِ اللهِ یَوْمًا فَرْضًا بَاعَدَهُ اللهُ مِنْ جَهَنَّمَ، كَمَا بَیْنَ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَبَیْنَ الْأَرَضِینَ السَّبْعِ

عتبہ بن عبدسلمی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاجس شخص نے اللہ کی راہ میں  ایک دن کافرض روزہ رکھااللہ تعالیٰ جہنم کواس سے ساتوں  آسمانوں  اورساتوں  زمینوں  کے برابر دور کر دیتا ہے ۔[65]

x  گرمیوں  میں  روزہ کی پیاس برداشت کرنے والے کواللہ تعالیٰ قیامت کے دن پیاس سے بچائے گا،صائم کے ہونٹوں  کی خشکی کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی کوقیامت کے دن منورکردے گا۔

 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ فیَقُولُ الصِّیَامُ: أَیْ رَبِّ، إِنِّی مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِی فِیهِ،وَیَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیهِ،قَالَ:فَیُشَفَّعَانِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاروزہ اورقرآن دونوں  اللہ تعالیٰ سے روزے داراورتلاوت قرآن کرنے والے کی سفارش اور شفاعت کریں  گے،روزہ کہے گا اے میرے رب !میں  نے اسے دن بھرکھانے پینے اورشہوات سے منع رکھااس کی بخشش فرمادے  اورقرآن کہے گااے میرے رب! میں  نے اسے راتوں  کی نیند سے منع رکھااس کی بخشش فرمادے، چنانچہ دونوں  کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔[66]

x  روزہ قیامت کے روزاورقبرمیں  روزہ دا رکی شفاعت کرتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْمَیِّتَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ إِنَّهُ یَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، كَانَتِ الصَّلَاةُ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَكَانَ الصِّیَامُ عَنْ یَمِینِهِ، وَكَانَتِ الزَّكَاةُ عَنْ شِمَالِهِ، وَكَانَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَیْهِ، فَیُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ، فَتَقُولُ الصَّلَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى عَنْ یَمِینِهِ، فَیَقُولُ الصِّیَامُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى عَنْ یَسَارِهِ، فَتَقُولُ الزَّكَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْهِ، فَتَقُولُ فَعَلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک جب میت کوقبرمیں  دفن کیاجاتاہے تووہ واپس پلٹنے والے لوگوں  کے جوتوں  کی آوازسنتی ہےاگرمرنے والامومن ہوتواس کی نمازاس کے سرکے پاس کھڑی ہوجاتی ہے،اورروزہ اس کے دائیں  جانب آجاتاہے اور زکوٰة اس کے بائیں  جانب آجاتی ہےجبکہ دیگرنیکی کے کام صدقہ،صلہ رحمی،لوگوں  کے ساتھ کی ہوئی نیکیاں  اوردیگراحسان اس کے پاؤں  کے پاس ہوتے ہیں ، عذاب کافرشتہ سرکی طرف سے آتاہے تونمازکہتی ہے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں ،پھروہ دائیں  طرف سے آناچاہتاہے توروزہ کہتاہے میری طرف سے بھی کوئی راستہ نہیں ، پھروہ بائیں  جانب سے آناچاہتاہے توزکوٰة رکاوٹ بن جاتی ہے،پھر پاؤں  کی طرف سے آناچاہتاہے تودیگرنیک اعمال(مثلا ً)صدقہ،صلہ رحمی،لوگوں  کے ساتھ کی ہوئی نیکیاں  اوراحسانات رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔[67]

x  روزہ شہوات کاعارضی طورپرکچل دیتاہے۔

فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَیْسَ لَنَا شَیْءٌ،یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم جس زمانہ میں  جوان تھے اور ہم کو کچھ میسر نہ تھا تو ہم سے ایک دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے نوجوانوں  کی جماعت! تم میں  سے جوشادی کے اسباب کی طاقت رکھتاہواسے ضرورشادی کرنی چاہیے بیشک یہ اس کی نظر اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضامن ہے اور جو استطاعت نہیں  رکھتااس پرروزہ رکھناضروری ہے کیونکہ روزہ اس کی شہوت کوتوڑنے والا ہے۔ [68]

   عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزہ دارکی افطاری کے وقت کی دعاردنہیں  کی جاتی۔

لہذاروزہ دارکواس وقت دین ودنیاکی بہتری کے لئے دعائیں  کرنی چائیں ،اوراس وقت اللہ تعالیٰ ہرروزساٹھ ہزارآدمیوں  کوجہنم سے آزاد کر دیتا ہے مگرناواقف مسلمان اس مبارک وقت کوبیکارکھودیتے ہیں ،بھائیو!اس وقت کی قدرکریں  اور اسے یونہی نہ کھودیں  بلکہ اس وقت دعااورذکراللہ میں  مشغول رہا کریں ،

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے اس وقت یہ دعاپڑھنی مروی ہے

قَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْكَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، یَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِی

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں  افطارکے وقت میں  نے عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ کویہ دعاپڑھتے ہوئے سنا’’اے اللہ! میں  تجھ سے باوسیلہ تیری رحمت کے جس نے تمام چیزوں  کوگھیررکھاہے اپنے کل گناہوں  کی معافی طلب کرتا ہوں ۔‘‘[69]

حكم الألبانی:ضعیف

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سب لوگوں  سے زیادہ سخی تھے ،اورسب سے بڑھ کر اس مہینے میں  آندھی سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا یَكُونُ فِی رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاهُ جِبْرِیلُ، وَكَانَ یَلْقَاهُ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تمام لوگوں  میں  خیر و بھلائی کے معاملہ میں  بہت سخی تھے اور خصوصاً رمضان میں  تو بہت سخاوت کرتے تھے(فقراء وغرباء اورتیماء وغیرہ کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ سخاوت مجاہدین کے لئے کی جاتی، قیدیوں  کوآزادکردیاکرتے تھے اورکسی سائل کومحروم نہ پھیرتے،اوربکثرت تلاوت قرآن اورنوافل اوراحسان اورذکراللہ کیا کرتے تھے) رمضان کی ہر شب میں   جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے سامنے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے چنانچہ جبرائیل سے ملاقات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سخاوت ہوا کے جھونکوں  سے بھی بڑھ جاتی تھی۔[70]

x روزے دارکے روبروکھاناتناول کیے جانے کے وقت فرشتے درودبھیجتے ہیں ۔

أُمِّ عُمَارَةَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْهَا، قَالَ: وَثَابَ إِلَیْهَا رِجَالٌ مِنْ قَوْمِهَا، قَالَ: فَقَدَّمَتْ إِلَیْهِمْ تَمْرًا، فَأَكَلُوا، فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُهُ؟ فَقَالَ: إِنِّی صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ مَا مِنْ صَائِمٍ یَأْكُلُ عِنْدَهُ مَفَاطِیرُ، إِلَّا صَلَّتْ عَلَیْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى یَقُومُوا

ام عمارہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے ہاں  تشریف لائےتو ان کی قوم کے کئی اشخاص بھی ان کے گھرجمع ہوگئے، میں  نے سب کے لیے کھجوریں  پیش کیں سب نے انہیں  تناول کیالیکن ان میں  سے ایک شخص الگ ہوگیا،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کاکیا ماجرا ہے؟اس شخص نے عرض کی میں  روزے سے ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاسنو،یقیناًکوئی روزے دارایسانہیں  کہ روزے کے بغیرلوگ اس کے روبروکھائیں  مگرفرشتے تب تک اس پردرودبھیجتے رہتے ہیں  جب تک وہ کھانے والے وہاں  سے اٹھ نہ جائیں ۔[71]

أُمُّ عُمَارَةَ بِنْتُ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْهَا فَقَرَّبَتْ إِلَیْهِ طَعَامًا  فَقَالَ لَهَا: كُلِی، فَقَالَتْ: إِنِّی صَائِمَةٌ،  فَقَالَ: إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُصَلِّی عَلَى الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ حَتَّى یَفْرُغُوا

ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے ہاں  تشریف لائے میں  نے مہمانوں  کے سامنے کھانا پیش کیا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم بھی کھاؤ،میں  نے عرض کیا کہ میں  روزے سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب روزے دارکے سامنے کھایاجائے تویقیناًفرشتے اس پران کھانے والوں  کے کھانے سے فراغت تک دعائیں  کرتے رہتے ہیں ۔[72]

x  اگرمسلمان رمضان کی بزرگیاں  بخوبی معلوم کرلیں  توساراسال رمضان ہونے کی تمناکریں ۔

الغرض رمضان المبارک کامہینہ بڑاہی برکتی مہینہ ہے ،اوراس بابرکت مہینے کے تمام دنوں  میں  روزہ دارکوچاہیے کہ وہ تمام امورزندگی میں  دین اسلام کوپیش نظررکھے اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت سے بال بال بچے،قول وعمل میں  جھوٹ،غیبت،چغل خوری،گالی گلوچ،لوگوں  پرزیادتی،خیانت،دھوکابازی،ناجائزطریقہ سے مال جمع کرنا،فہم وبصیرت کے ہوتے ہوئے قول وعمل میں  جہالت سے کام لیناوغیرہ رذائل سے اجتناب کرے وگرنہ اللہ کوروزہ دارکے بھوکے پیاسے رہنے سے کوئی سروکار نہیں  ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ وَالجَهْلَ ، فَلَیْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ أَنْ یَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص قول وعمل میں  جھوٹ ،جہالت کے کام نہیں  چھوڑتاتواللہ تعالیٰ کواس کے کھاناپیناچھوڑنے سے کوئی سروکارنہیں  ہے۔[73]

اورخاص طورپر آخری طاق رات دنوں  میں  ذوق وشوق سے قیام کرنااورصدقہ خیرات کی کثرت کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے ۔

رمضان المبارک کے غزوات وسرایا

x  سترہ رمضان المبارک دوہجری غزوہ بدرا لکبریٰ

xرمضان المبارک دوہجری سریہ عمیربن عدی

xرمضان المبارک چھ ہجری سریہ عبداللہ بن عتیک

xرمضان المبارک سات ہجری سریہ  غالب بن عبداللہ لیثی

xرمضان المبارک آٹھ ہجری سریہ ابوقتادہ بن ربعی انصاری  رضی اللہ عنہ

xبیس رمضان المبارک آٹھ ہجری فتح مکہ

xرمضان آٹھ ہجری سریہ خالدبن ولید   رضی اللہ عنہ

x دس رمضان ۹۳ہجری فتح سندھ،یوم باب الاسلام

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سب سے زیادہ روزہ ر کھنے والے تھے ۔

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: لَا یُفْطِرُ  وَیُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا یَصُومُ، وَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِیَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُهُ فِی شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِیَامًا فِی شَعْبَانَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روزے رکھتے تھے یہاں  تک کہ ہم کہتے کہ آپ افطارنہیں  کریں  گےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  افطارکرتے توہم کہتے کہ آپ روزے نہیں  رکھیں  گے، اورمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کورمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اورمہینہ میں  پورامہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں  دیکھااورنہ ہی میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوشعبان کے مہینہ کے علاوہ کسی اورمہینہ میں  اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے دیکھا۔[74]

x  جب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواس کثرت سے روزے رکھتے ہوئے دیکھتے توان کی بھی خواہش ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے زیادہ سے زیادہ اپناوقت عبادت میں  بسرکریں  ۔

عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنْتُ أَصُومُ الدَّهْرَ وَأَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَیْلَةٍ، قَالَ: فَإِمَّا ذُكِرْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَیَّ فَأَتَیْتُهُ،فَقَالَ لِی:أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَیْلَةٍ؟فَقُلْتُ: بَلَى، یَا نَبِیَّ اللهِ، وَلَمْ أُرِدْ بِذَلِكَ إِلَّا الْخَیْرَ،قَالَ:فَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ، قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ ،فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَلِزَوْرِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَلِجَسَدِكَ عَلَیْكَ حَقًّا

عبداللہ بن عمروبن عاص  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں میں  ہمیشہ روزے رکھتاتھااورہرشب (ساری رات)قرآن پڑھتاتھااورکہا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے میراذکرہوایاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے بلابھیجا،غرض میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوا،اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہمیں  خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہواورساری رات قرآن پڑھتے ہو؟ میں  نے کہاہاں  اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اورمیرااس سے سوائے خیرکے اورکوئی مقصدنہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ تجھے یہی کافی ہے کہ تو ہر مہینہ میں  تین دن روزے رکھ لیاکر، میں  نے عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں  تواس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتیری بیوی کابھی تجھ پرحق ہے اور تیرے مہمان کابھی تجھ پرحق ہے اورتیرے جسم کابھی تجھ پرحق ہے،

فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ كَانَ أَعْبَدَ النَّاسِ، قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، وَمَا صَوْمُ دَاوُدَ؟قَالَ:كَانَ یَصُومُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا، قَالَ: وَاقْرَأِ الْقُرْآنَ فِی كُلِّ شَهْرٍ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ عِشْرِینَ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ عَشْرٍ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ سَبْعٍ ، وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ

اس لئےتم داود  علیہ السلام  کا روزہ اختیارکرو جواللہ تعالیٰ کے نبی تھے اورسب لوگوں  میں  سب سے زیادہ  اللہ کی عبادت کرنے والے تھے،انہوں  نے کہامیں  نے عرض کیااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! داود   علیہ السلام کے روزے کس طرح تھے ؟آپ نے فرمایاوہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اورایک دن افطارکرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہرمہینے ایک قرآن مجیدختم کیاکر،میں  نے عرض کیااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں  تواس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابیس دنوں  میں  ایک قرآن مجیدپڑھ لیاکر،میں  نے عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  تواس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادس دن میں  ایک قرآن مجیدپڑلیاکر،میں  نے عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  تواس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھرتوسات دن میں  ایک قرآن مجید پڑھ لیاکراوراس سے زیادہ اپنے آپ کومشقت میں  مت ڈال(اس لیے کہ اس سے کم میں  تدبراورتفکرقرآن میں  ممکن نہیں )

فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَلِزَوْرِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَلِجَسَدِكَ عَلَیْكَ حَقًّا قَالَ: فَشَدَّدْتُ، فَشُدِّدَ عَلَیَّ،قَالَ: وَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكَ لَا تَدْرِی لَعَلَّكَ یَطُولُ بِكَ عُمْرٌ،قَالَ:فَصِرْتُ إِلَى الَّذِی قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَبِرْتُ وَدِدْتُ أَنِّی كُنْتُ قَبِلْتُ رُخْصَةَ نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

کیونکہ تیری بیوی کابھی تجھ پرحق ہے اور تیرے مہمان کابھی تجھ پرحق ہے اورتیرے جسم کابھی تجھ پرحق ہے، عبداللہ ابن عمرو  رضی اللہ عنہ  نے کہاکہ میں  نے سختی کی پھرمجھ پرسختی کی گئی ، عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایاکہ تو نہیں  جانتاشایدکہ تیری عمرلمبی ہو(تواتنابارتم پرگراں  ہوگااوراموردین میں  خلل آئے گا) عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  پھرمیں  اس عمرتک پہنچ گیاجس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے نشاندہی فرمائی تھی اورجب میں  بوڑھاہوگیاتومیں  یہ چاہنے لگاکہ کاش کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دی گئی رخصت میں  قبول کرلیتا۔[75]

   مُعَاذَةُ الْعَدَوِیَّةُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: مِنْ أَیِّ شَهْرٍ كَانَ یَصُومُ، قَالَتْ:مَا كَانَ یُبَالِی مِنْ أَیِّ أَیَّامِ الشَّهْرِ كَانَ یَصُومُ

معاذہ عدویہ سے مروی ہےمیں نےام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے دریافت کیا کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہرمہینے تین دنوں  کے روزے رکھتے تھے انہوں  نے فرمایا کہ ہاں !تومیں  نے عرض کیاکہ کونسے مہینے کے روزے رکھتے تھے ؟عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایاکہ دنوں  کی پرواہ نہیں  کرتے تھے ،مہینے کے جن دنوں  میں  سے چاہتے روزے رکھ لیتے تھے۔[76]

عبداللہ بن ابی کی نفرت ودشمنی

أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى قَطِیفَةٍ فَدَكِیَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ وَرَاءَهُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِی بَنِی الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍقَالَ: حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ، فَإِذَا فِی المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِینَ وَالمُشْرِكِینَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالیَهُودِ وَالمُسْلِمِینَ وَفِی المَجْلِسِ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ

اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم گدھے کی پالان پرفدک کی چادرڈال کراس پرسوارہوئے اوراسامہ رضی اللہ عنہ  بن زید کو اپنے پیچھے سوارکیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بنوحارث بن خزرج میں سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئےتشریف لے جارہے تھے،یہ غزوہ بدرسے پہلے کاواقعہ ہے،راستہ میں  ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں  عبداللہ بن ابی ابن سلول(منافق) بھی موجود تھا،یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کاقصہ ہے،اس مجلس میں  مسلمان ،مشرکین یعنی بت پرست اوریہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے انہیں میں  عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  بھی تھے ۔

فَلَمَّا غَشِیَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ،ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا،فَسَلَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِمْ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللهِ، وَقَرَأَ عَلَیْهِمُ القُرْآنَ،فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَیُّهَا المَرْءُ إِنَّهُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِنَا بِهِ فِی مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَیْهِ،قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ فَاغْشَنَا بِهِ فِی مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ  ذَلِكَ،فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَالیَهُودُ، حَتَّى كَادُوا یَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَنُوا

سواری کی (ٹاپوں  سے گرداڑی اور)مجلس والوں  پرپڑی توعبداللہ بن ابی نے چادرسے اپنی ناک کوڈھانک لیااوربطورتحقیرکہنے لگاکہ ہم پرگرد نہ اڑاو،اتنے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی قریب پہنچ گئے اورانہیں  سلام کیاپھرآپ سواری سے اترگئے اوراہل مجلس کودعوت اسلام پیش کی اورقرآن کی آیتیں  پڑھ کر سنائیں ،اس پرعبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگاجوکلام آپ نے پڑھ کر سنایاہے اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں  ہوسکتااگرچہ یہ کلام بہت اچھاہے پھربھی ہماری مجلسوں  میں  آکرہمیں  تکلیف نہ پہنچایاکریں ، اپنے گھربیٹھیں ،اگرکوئی آپ کے پاس جائے تواسے اپنی باتیں  سنایاکریں ،(یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ  رضی اللہ عنہ  نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہماری مجلسوں  میں  ضرورتشریف لایاکریں  ہم اسی کوپسندکرتے ہیں ، اس کے بعد مسلمان ،مشرکین اوریہودآپس میں  ایک دوسرے کوبرابھلاکہنے لگے اورقریب تھاکہ فساداورلڑائی تک نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں  خاموش اورٹھنڈاکردیا اور آخرسب لوگ خاموش ہوگئے،

ثُمَّ رَكِبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟یُرِیدُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَیٍّ،قَالَ: كَذَا وَكَذَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: یَا رَسُولَ اللهِ، اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ عَنْهُ،فَوَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْكَ الكِتَابَ لَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالحَقِّ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْكَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البُحَیْرَةِ عَلَى أَنْ یُتَوِّجُوهُ فَیُعَصِّبُوهُ بِالعِصَابَةِ،فَلَمَّا أَبَى اللهُ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِی أَعْطَاكَ اللهُ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَیْتَ

پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پرسوارہوکر وہاں  سے چلے آئے اورسعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  کے گھرتشریف لے گئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ سے بھی اس کاذکرکیاکہ اے سعد  رضی اللہ عنہ  !تم نے سنا ابوحباب کیاکہہ رہاتھا؟آپ کااشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا،اس نے اس طرح کی باتیں  کی ہیں ،سعد  رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس کو معاف فرمادیں  اوراس سے درگزرفرمائیں ،اس ذات کی قسم !جس نے آپ پرکتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجاہے جواس نے آپ پرنازل کیاہے،(آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے)اس شہر کے لوگ اس پرمتفق ہوچکے تھے کہ کہ اس کوتاج پہنا دیں  اور(شاہی)عمامہ اس کے سرپرباندھ دیں  ،لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کواس حق کے ذریعہ جوآپ کواس نے عطافرمایاہے ختم کردیاتواس پربگڑگیایہ جوکچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیاہے جوآپ نے ملاحظہ فرمایاہے

 فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ یَعْفُونَ عَنِ المُشْرِكِینَ، وَأَهْلِ الكِتَابِ، كَمَا أَمَرَهُمُ اللهُ، وَیَصْبِرُونَ عَلَى الأَذَى،قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا} [77]الآیَةَ، وَقَالَ اللَّهُ: {وَدَّ كَثِیرٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ} [78]إِلَى آخِرِ الآیَةِ،

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم مشرکین اوراہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اوران کی ایذا رسانیوں  پرصبرکیاکرتے تھے،ان کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی ’’مسلمانو! تمہیں  مال اور جان دونوں  کی آزمائشیں  پیش آکر رہیں  گی ، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں  سنو گے اگر ان سب حالات میں  تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے ۔‘‘ نیزفرمایا’’اہل کتاب میں  سے اکثرلوگ یہ چاہتے ہیں  کہ کسی طرح تمہیں  ایمان سے پھیرکرپھرکفرکی طرف پلٹالے جائیں  ،اگرچہ حق ان پرظاہرہوچکاہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بناپرتمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے ،اس کے جواب میں  تم عفوودرگزرسے کام لویہاں  تک کہ اللہ خودہی اپنافیصلہ نافذکردے،مطمئن رہو کہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔‘‘یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ میں  سختی کی اجازت فرمائی ۔ [79]

حارث  رضی اللہ عنہ بن سراقہ انصاری کی تمناشہادت :

عن أَنَسٍ، قَالَ:بَیْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْشِی إِذِ اسْتَقْبَلَهُ شَابٌّ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ أَصْبَحْتَ یَا حَارِثُ؟قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا بِاللهِ حَقًّا قَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ؟ فَإِنَّ لِكُلِّ قَوْلٍ حَقِیقَةً، قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، عَزَفَتْ نَفْسِی عن الدُّنْیَا فَأَسْهَرْتُ لَیْلِی وَأَظْمَأْتُ نَهَارِی  وَكَأَنِّی بِعَرْشِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ بَارِزًا،وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ یَتَزَاوَرُونَ فِیهِ، وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ یَتَعَاوَنَ فِیهَا، قَالَ: الْزَمْ، عَبْدٌ نَوَّرَ اللهُ الإِیمَانَ فِی قَلْبِهِ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ الله لِی بِالشَّهَادَةِ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ بدرسے کچھ عرصہ پہلے کاذکرہےمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ جارہاتھاکہ راستے میں  اپنے خیال میں  مگن انصارکاایک نوجوان ملا،سعادت مندنوجوان نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کوبڑے ادب سے سلام کیااوروہیں  کھڑے ہوگئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کے سلام کاجواب دیااورپھرشفقت آمیزپیرائے میں  اس سے پوچھا اے حارث!تمہارے شب وروزکیسے گزررہے ہیں ؟حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیااللہ کی توفیق سے حق کے ساتھ رات دن گزررہے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادیکھوتم کیابول رہے ہو؟ ہرقول کی ایک حقیقت ہوتی ہے،حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں  باپ آپ پرقربان،دنیاکی طرف چنداں  رغبت نہیں  رہی، رات یادالٰہی میں  گزارتاہوں اوردن بھرروزے سے رہتاہوں عین اس وقت یہ حالت ہے کہ خودکوعرش کی طرف پروازکرتے محسوس کررہاہوں ، جنت اوردوزخ مجھے اپنے سامنے نظرآرہے ہیں  اورمیں  لوگوں  کوگروہ درگروہ ان میں  داخل ہوتے دیکھ رہاہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ جس بندے کے دل کوروشن کردیتاہے وہ پھراللہ سے جدانہیں  ہوتا، حارث رضی اللہ عنہ کاچہرہ جوپہلے ہی نورسعادت سے درخشاں  تھاسیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشادسن کراوربھی چمک اٹھا اور انہوں  نے بے ساختہ عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !دعافرمائیں  اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے،  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی وقت دست مبارک اٹھائے اوربارگاہ خداوندی میں  دعاکی کہ الٰہی!اس نوجوان کی آرزوکوپوراکردے،چنانچہ غزوہ بدرمیں  سب سے پہلے یہی شہیدہوئے[80]

[1] شعب الایمان۳۳۳۶،صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷

[2] ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ ۲۱۳۵

[3] مصنف ابن ابی شیبة۸۸۷۶،مسنداحمد۸۸۷۰،صحیح ابن خزیمة۱۸۸۴،السنن الکبری للبیہقی۸۵۰۲

[4] مسنداحمد۱۱۰۰۹

[5] البقرة ۱۸۹

[6] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَیْتُمُ الهِلاَلَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَیْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا  ۱۹۰۶،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَالْفِطْرِ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَأَنَّهُ إِذَا غُمَّ فِی أَوَّلِهِ أَوْ آخِرِهِ أُكْمِلَتْ عِدَّةُ الشَّهْرِ ثَلَاثِینَ یَوْمًا  ۲۴۹۸،سنن نسائی کتاب الصیام ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الزُّهْرِیِّ فِی هَذَا الْحَدِیثِ۲۱۲۵،مشکوة المصابیح کتاب الصوم باب رویة الھلال۱۹۶۹  ،مسنداحمد۵۲۹۴،سنن الدارمی ۱۷۲۶،مسندالبزار۵۵۸۳،السنن الکبری للنسائی ۲۴۴۲،صحیح ابن حبان ۳۴۴۵،السنن الصغیرللبیہقی ۱۲۹۸،السنن الکبری للبیہقی ۷۹۲۲،شرح السنة للبغوی ۱۷۱۳

[7] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَیْتُمُ الهِلاَلَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَیْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا۱۹۰۷،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَالْفِطْرِ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَأَنَّهُ إِذَا غُمَّ فِی أَوَّلِهِ أَوْ آخِرِهِ أُكْمِلَتْ عِدَّةُ الشَّهْرِ ثَلَاثِینَ یَوْمًا۲۵۰۲ ،مشکوة المصابیح  کتاب الصوم باب رویة الھلال۱۹۶۹

[8] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَیْتُمُ الهِلاَلَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَیْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا۱۹۰۹  ،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَالْفِطْرِ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَأَنَّهُ إِذَا غُمَّ فِی أَوَّلِهِ أَوْ آخِرِهِ أُكْمِلَتْ عِدَّةُ الشَّهْرِ ثَلَاثِینَ یَوْمًا۲۵۱۴  ،مشکوة المصابیح کتاب الصوم باب رویة الھلال۱۹۷۰

[9]سنن ابوداود کتاب الصوم بَابٌ فِی شَهَادَةِ الْوَاحِدِ عَلَى رُؤْیَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ۲۳۴۲ ،مشکوة المصابیح کتاب الصوم باب رویة الھلال۱۹۷۹،سنن الدارمی۱۷۳۳

[10] سنن ابوداود کتاب الصوم بَابُ شَهَادَةِ رَجُلَیْنِ عَلَى رُؤْیَةِ هِلَالِ شَوَّالٍ۲۳۳۹

[11] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ لاَ یَتَقَدَّمُ رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ وَلاَ یَوْمَیْنِ۱۹۱۴

[12] سنن ابوداود کتاب الصوم بَابُ كَرَاهِیَةِ صَوْمِ یَوْمِ الشَّكِّ ۲۳۳۴، جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ صَوْمِ یَوْمِ الشَّكِّ۶۸۶ ،سنن نسائی کتاب الصیام باب صِیَامُ یَوْمِ الشَّكِّ۲۱۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِی صِیَامِ یَوْمِ الشَّكِّ۱۶۴۵،سنن الدارمی  ۱۷۲۴

[13] صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ بَیَانِ أَنَّهُ لَا اعْتِبَارَ بِكُبْرِ الْهِلَالِ وَصِغَرِهِ، وَأَنَّ اللهَ تَعَالَى أَمَدَّهُ لِلرُّؤْیَةِ فَإِنْ غُمَّ فَلْیُكْمَلْ ثَلَاثُونَ۲۵۲۹ ،مصنف ابن ابی شیبة۹۰۲۷،صحیح ابن خزیمة۱۹۱۹

[14] صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ بَیَانِ أَنَّهُ لَا اعْتِبَارَ بِكُبْرِ الْهِلَالِ وَصِغَرِهِ، وَأَنَّ اللهَ تَعَالَى أَمَدَّهُ لِلرُّؤْیَةِ فَإِنْ غُمَّ فَلْیُكْمَلْ ثَلَاثُونَ۲۵۳۰،مصنف ابن ابی شیبة۹۰۲۸، مسنداحمد۳۵۱۵،صحیح ابن خزیمة۱۹۱۵،سنن الدارقطنی۲۲۱۰

[15] سنن ابوداودکتاب الصوم بَابٌ إِذَا رُئِیَ الْهِلَالُ فِی بَلَدٍ قَبْلَ الْآخَرِینَ بِلَیْلَةٍ۲۳۳۲،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا یَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ ۲۵۲۸،جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُهُمْ ۶۹۳،سنن نسائی کتاب الصیام باب اخْتِلَافُ أَهْلِ الْآفَاقِ فِی الرُّؤْیَةِ ۲۱۱۳، مسنداحمد۲۷۸۹،صحیح ابن خزیمة۱۹۱۶،سنن الدارقطنی ۲۲۱۱،السنن الکبری للبیہقی۸۲۰۵،معرفة السنن والآثار۸۸۰۵

[16] جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الصَّوْمَ لِرُؤْیَةِ الهِلاَلِ وَالإِفْطَارَ لَهُ۶۸۸،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ مَنْ قَالَ: فَإِنْ غُمَّ عَلَیْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِینَ۲۳۲۷،سنن نسائی کتاب الصیام باب ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى مَنْصُورٍ فِی حَدِیثِ رِبْعِیٍّ فِیهِ۲۱۲۹

[17] سنن نسائی کتاب الصیام ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى مَنْصُورٍ فِی حَدِیثِ رِبْعِیٍّ فِیهِ ۲۱۲۷

[18]صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ بَیَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا یَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ۲۵۲۸

[19] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُهُمْ ۶۹۳

[20] سنن ابوداودكِتَاب الصَّوْمِ بَابٌ إِذَا رُئِیَ الْهِلَالُ فِی بَلَدٍ قَبْلَ الْآخَرِینَ بِلَیْلَةٍ۲۳۳۲

[21] صحیح ابن خزیمة۱۹۱۶،۲۰۵؍۳

[22] مسنداحمد۱۳۹۷

[23] صحیح بخاری کتاب الایمان كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۱

[24] جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ لاَ صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یَعْزِمْ مِنَ اللیْلِ ۷۳۰

[25] مسند الشامیین للطبرانی ۲۲۳۸ ،عمدة القاری شرح صحیح البخاری۲۶۹؍۱۰،ترتیب الأمالی الخمیسیة للشجری۱۲۳۴،الفتح الربانی لترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی۲۳۵؍۹، فتح المنعم شرح صحیح مسلم۴۸۹؍۴

[26]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ هَلْ یَقُولُ إِنِّی صَائِمٌ إِذَا شُتِمَ۱۹۰۴،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ ۲۷۰۶،جامع ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّوْمِ۷۶۶

[27] مكارم الأخلاق للطبرانی ۱۴۶،شعب الایمان۳۶۶۹،مسندالبزار۲۵۰۱،فضائل الاوقات للبیہقی۷۲

[28] صحیح ابن خزیمہ۷۲۵

[29] صحیح ابن حبان۴۰۹

[30] المعجم الاوسط للطبرانی۳۸۷۱

[31] ۔صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ فِی سَبِیلِ اللهِ لِمَنْ یُطِیقُهُ، بِلَا ضَرَرٍ وَلَا تَفْوِیتِ حَقٍّ۲۷۱۱ ،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابٌ فِی صِیَامِ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ ۱۷۱۸

[32] الترغیب والترھیب للمنذری۱۴۶۸،جامع ترمذی  أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّوْمِ فِی سَبِیلِ اللهِ۱۶۲۴

[33] الترغیب والترھیب للمنذری۱۹۶۴،المعجم الاوسط للطبرانی۳۵۷۴

[34] الترغیب والترھیب للمنذری۱۴۶۵،المعجم الکبیرللطبرانی۷۸۷۲

[35] الترغیب والترھیب للمنذری۱۴۷۷،شعیب الایمان۳۳۳۱،فضائل الاوقات للبیہقی۳۶

[36] جامع ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ۲۶۰۹

[37] سنن ابوداودکتاب الصوم بَابُ التَّغْلِیظِ فِی مَنْ أَفْطَرَ عَمْدًا ۲۳۹۶،مسنداحمد۹۹۰۸،سنن الدارمی۱۷۵۶

[38] مستدرک حاکم۱۵۶۸،السنن الکبری للنسائی۳۲۷۳،صحیح ابن خزیمة۱۹۸۶،صحیح ابن حبان۷۴۹۱،فضائل الاوقات للبیہقی۱۴۰

[39] البقرة۱۸۵

[40] القدر۱

[41] التفسیر من سنن سعید بن منصور۷۹،۲۹۳؍۲

[42] السنن الکبری للنسائی۷۹۳۶

[43] الایمان لابن مندہ۷۰۳،مستدرک حاکم۳۳۹۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۰۱۸۷

[44] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ إِبْلِیسَ وَجُنُودِهِ۳۲۷۷، وکتاب الصیام بَابٌ: هَلْ یُقَالُ رَمَضَانُ أَوْ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَمَنْ رَأَى كُلَّهُ وَاسِعًا ۱۸۹۹،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ ۲۴۹۵،مسنداحمد۷۷۸۰

[45] جامع ترمذی ابواب الصوم  بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ۶۸۲،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ۱۶۴۲،مشکوٰة المصابیح کتاب الصوم الفصل الثانی۱۹۶۰

[46]صحیح بخاری  کتاب الصوم بَابٌ الرَّیَّانُ لِلصَّائِمِینَ۱۸۹۶ ،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ۲۷۱۰

[47] مسنداحمد۲۲۸۱۸

[48] مسنداحمد۲۳۴۱۲،صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ الصَّوْمُ كَفَّارَةٌ ۱۸۹۵،وکتاب مواقیت الصلاةبَابٌ الصَّلاَةُ كَفَّارَةٌ۵۲۵ ،صحیح مسلم کتاب الایمان كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ  بَابٌ فِی الْفِتْنَةِ الَّتِی تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ۷۲۶۸،وكِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ رَفْعِ الْأَمَانَةِ وَالْإِیمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ، وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ۳۶۹

[49] صحیح ابن خزیمة ۱۸۸۷، شعب الایمان۳۳۳۶،أمالی المحاملی  روایة ابن یحیى البیع۲۹۳

[50] صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷،شعب الایمان۳۳۳۶

[51] اخبار مکة للفاکھی ۱۵۷۵

[52] صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷،شعب الایمان۳۳۳۶

[53] مصنف ابن ابی شیبة۸۸۷۶،مسنداحمد۸۸۷۰،صحیح ابن خزیمة۱۸۸۴،السنن الکبری للبیہقی ۸۵۰۲

[54] اخبار مکة للفاکھی ۱۵۷۴

[55] صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷،شعب الایمان۳۳۳۶

[56] صحیح ابن خزیمة۱۸۸۷،شعب الایمان۳۳۳۶

[57] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَضْلِ الْعُمْرَةِ فِی رَمَضَانَ۳۰۳۸

[58] المعجم الاوسط۶۱۷۰

[59] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ هَلْ یَقُولُ إِنِّی صَائِمٌ إِذَا شُتِمَ۱۹۰۴

[60] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ هَلْ یَقُولُ إِنِّی صَائِمٌ إِذَا شُتِمَ۱۹۰۴

[61]صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ هَلْ یَقُولُ إِنِّی صَائِمٌ إِذَا شُتِمَ۱۹۰۴

[62] الترغیب والترھیب للمنذری۱۴۵۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابٌ فِی الصَّوْمِ زَكَاةُ الْجَسَدِ ۱۷۴۵

[63] مسنداحمد۹۱۹۷،صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ  بَابُ الْصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْجُمُعُةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانِ إِلَى رَمَضَانَ مُكفِّرَاتٌ لِمَا بَیْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ۵۵۲

[64] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا وَنِیَّةً ۱۹۰۱،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ التَّرْغِیبِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، وَهُوَ التَّرَاوِیحُ۱۷۸۱،مسنداحمد۹۴۴۵،سنن الدارمی۱۸۱۷

[65] الجهاد لابن أبی عاصم۱۷۲

[66] شعب الایمان۱۸۳۹،الزهد والرقائق لابن المبارك ۱۱۴؍۲، مسنداحمد ۶۶۲۶، مستدرک حاکم۲۰۳۶

[67] صحیح ابن حبان۳۱۱۳،المعجم الاوسط للطبرانی۲۶۳۰،مستدرک حاکم۱۴۰۳،اثبات عذاب القبرللبیہقی۶۷

[68] صحیح بخاری  کتاب النکاح بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ، لِأَنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَهَلْ یَتَزَوَّجُ مَنْ لاَ أَرَبَ لَهُ فِی النِّكَاحِ۵۰۶۶، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَیْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ۳۳۹۸ ،مسنداحمد۳۵۹۲،المعجم الاوسط للطبرانی۱۷۸۴

[69] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابٌ فِی الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ۱۷۵۳

[70] صحیح بخاری کتاب بَدْءِ الوَحْیِ كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۶،وكِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَكُونُ فِی رَمَضَانَ۱۹۰۲،وكِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۲۰،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ  بَابُ كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ الْمُرْسَلَةِ۶۰۰۹

[71] مسنداحمد۲۷۰۵۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابٌ فِی الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ۱۷۴۸

[72] مسنداحمد۲۷۴۷۲،صحیح ابن حبان۳۴۳۰، جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ۷۸۵

[73] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ۶۰۵۷

[74] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ صِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَیْرِ رَمَضَانَ، وَاسْتِحْبَابِ أَنْ لَا یُخْلِیَ شَهْرًا عَنْ صَوْمٍ۲۷۲۱

[75] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ یُفْطِرِ الْعِیدَیْنِ وَالتَّشْرِیقَ، وَبَیَانِ تَفْضِیلِ صَوْمِ یَوْمٍ، وَإِفْطَارِ یَوْمٍ۲۷۲۹ ،صحیح بخاری کتاب الصیام بَابُ حَقِّ الضَّیْفِ فِی الصَّوْمِ۱۹۷۴،۱۹۷۵،وکتاب الادب بَابُ حَقِّ الضَّیْفِ۶۱۳۴،وکتاب النکاح بَابٌ لِزَوْجِكَ عَلَیْكَ حَقٌّ۵۱۹۹

[76] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صِیَامِ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۲۷۴۴

[77] آل عمران: 186

[78] البقرة: 109

[79] صحیح بخاری کتاب المرضی بَابُ عِیَادَةِ المَرِیضِ، رَاكِبًا وَمَاشِیًا، وَرِدْفًا عَلَى الحِمَارِ۵۶۶۳، وکتاب الادب بَابُ كُنْیَةِ المُشْرِكِ ۶۲۰۷،وکتاب التفسیرسورہ آل عمرانبَابُ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا  عن اسامہ۴۵۶۶،صحیح مسلم کتاب الجہاد بَابٌ فِی دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى اللهِ، وَصَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِینَ۴۶۵۹

[80] اسدالغابة۶۵۰؍۱

Related Articles