ہجرت نبوی کا پہلا سال

زکوٰة کی فرضیت

زکوٰة کے لفظی معنیٰ پاکیزگی اورنموکے ہیں ۔

زکوٰة کے باے میں قرآن وسنت میں جوکچھ کہاگیاہے اس پرنظرڈالنے سے تومحسوس ہوتاہے کہ عبادات میں اس کامقام نمازسے بس ایک ہی درجہ نیچے ہے ،قرآن میں ایمان کے بعدجہاں اعمال صالحہ کاذکرآتاہے بالعموم صرف دواعمال کاذکرکیاجاتاہے ایک نمازکااوردوسرے زکوٰة کا،حالانکہ نماز اور زکوٰة کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت سے اچھے اعمال واخلاق ہیں جن کاوجودمعیاری مومن ومسلم بننے کے لئے ضروری ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ نمازاورزکوٰة دین میں اتنااہم مقام رکھتے ہیں کہ جس نے ان دونوں کواچھی طرح اداکرلیااس نے گویاپورے دین پرعمل کرنے کی پکی ضمانت اورعملی شہادت فراہم کردی ،

اسلام میں دوطرح کے حقوق ہیں ایک حقوق اللہ اوردوسرے حقوق العباد۔

نمازحقوق اللہ کامغزہے توزکوٰة حقوق العبادکا۔

جس طرح اگرایک شخص واقعی نمازکاحق اداکردے توممکن ہی نہیں کہ وہ مسجدسے باہر آکراللہ کوبھول جائے اسی طرح اگرایک شخص زکوٰة کاحق اداکردے تویہ ممکن نہیں کہ اللہ کی مخلوق کے حقوق پامال کرتارہے،قرآن اس حقیقت کی باربارتلقین کرتاہے کہ دین وایمان میں زندگی اسی وقت آسکتی ہے جب اللہ کی محبت ہردوسری محبت پرغالب اور آخرت کی طلب ہردوسری طلب پرمقدم ہو ، نمازاورزکوٰة انسان کوایساہی اللہ سے محبت کرنے والااور آخرت پسندبنانے کی سب سے زیادہ موثرتدبیریں ہیں ،نمازانسان کواللہ اورآخرت کی طرف لے جاتی ہے اورزکوٰة اسے دنیاکی طرف لڑھک جانے سے محفوظ رکھتی ہے،اللہ تعالیٰ کی رضااورآخرت کی کامیابی کا راستہ اگرکڑی چڑھائی کاراستہ ہے تویہ دونوں چیزیں اس راستے پرسفرکرنے والے انسانی عمل کی گاڑی کے دوانجن ہیں ،نمازکاانجن اسے آگے سے کھنچتاہے اورزکوٰة کاانجن اسے پیچھے سے دھکیلتاہے اوراسی طرح گاڑی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

تزکیہ نفس :

زکوٰة کاحقیقی اوربنیادی مقصد جس کاتعلق بالکل شخص کی اپنی ذات سے ہوتاہے ،وہ یہ ہے کہ زکوٰة دینے والے کادل دنیاکی حرص سے پاک ہوکرنیکی اورتقویٰ کے کاموں کے لئے تیارہوجائے،ہرشخص جانتاہے کہ دنیاکی محبت ہی وہ چیز ہے جوخداپرستی کی اصل دشمن ہے جو انسان کواللہ اورآخرت سے بیگانہ بناکررکھ دیتی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادنیاکی محبت تمام برائیوں کی جڑہے،دنیاکی محبت مختلف شکلوں میں آسکتی ہے لیکن اس کی سب سے معروف اورخطرناک شکل دولت کی محبت ہے ،آپ ﷺنے اسی کوامت مسلمہ کے لئے سب سے بڑاخطرہ بتایاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا(سب سے بڑا)فتنہ مال ہے،اگرآدمی اپنے آپ کواس فتنے کی گرفت سے بچالے تو اور بہت سی برائیوں سے بچ سکتاہے اوراچھائیاں نشونماپاسکتی ہیں ،زکوٰة کابنیادی مقصدمحض اس بات سے حاصل نہیں ہوتاکہ اپنی دولت کاایک حصہ نکال کرکسی غریب کو دے دیا جائے بلکہ اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب اس عمل کے پیچھے سچی نیت اورعملی اہتمام ہواورصرف اللہ کی رضاکاحصول ومقصودہو،نام ونمودکی خواہش یاکسی پراحسان دھرنے کا جذبہ کارفرمانہ ہو،لینے والے کی عزت نفس کوٹھیس نہ پہنچائی جائے ، زکوٰة پاک کمائی سے اداکی جائے اورزکوٰة کے لئے جوچیزیں دی جائیں وہ عمدہ قسم کی ہوں ،جس طرح نماز کاظاہری پہلواس کے ارکان ہیں لیکن اصل چیز اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ ہونا ہے ، اسی طرح زکوٰة کاظاہری پہلوادائیگی نقدوجنس ہے لیکن اس کاباطن دنیاکے مقابلے میں آخرت کو فوقیت دینا ہے،اورباطن کے تقاضے اس وقت پورے ہوسکتے ہیں جب اوپرکی شرائط کاخیال رکھاجائے۔

امدادباہمی :

زکوٰة کادوسرامقصدیہ ہے کہ ملت کے نادارافرادکی مددکی جائے تاکہ ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں ،

نبی اکرمﷺنے فرمایااللہ نے ان پرزکوٰة فرض کی ہے کہ ان کے امراسے لی جائے اورغربامیں تقسیم کردی جائے،اوریہ غرباکاایساحق ہے جس کی خاطراسلامی حکومت تلواربھی اٹھاسکتی ہے ۔

دین میں اس بات کی جواہمیت ہے اس کاپورااندازہ اس حدیث سے ہوتاہے،

ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَبِیتُ شَبْعَانَ وَجَارُهُ إِلَى جَنْبِهِ جَائِعٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص مومن نہیں ہوسکتاجوخودتوسیرہوکرکھالے اوراس کے پہلومیں اس کاپڑوسی بھوکارہے۔[1]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: یَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِی، قَالَ: یَا رَبِّ كَیْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِی عِنْدَهُ؟ یَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِی، قَالَ: یَا رَبِّ وَكَیْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِی فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِی، یَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَیْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِی، قَالَ: یَا رَبِّ كَیْفَ أَسْقِیكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِی فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَیْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِی

اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم !میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی، وہ کہے گا اے پروردگار ! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے،اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، وہ کہے گا اے پروردگار! میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا اور حالانکہ تو تو رب العالمین ہے،تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم !میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا،وہ کہے گا اے پروردگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے،اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔[2]

جودین ایک حاجت مندکی بھوک پیاس کوخوداللہ تعالیٰ کی بھوک پیاس سے تعبیرکرتاہواندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس کے ہاں غریبوں اورناداروں کی حاجت برآری کی کیااہمیت ہوگی۔

دین کی نصرت:

زکوٰة کاایک اورمقصددین کی حفاظت اورنصرت ہے ،قرآن مجیدمیں اہل ایمان سے جگہ جگہ مطالبہ کیاگیاہے کہ تم اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے جہادکرو، جہاں اہل ایمان کی بنیادی صفات بیان کی جاتی ہیں ان میں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے جہادکرنے کی بات لازماًموجودہوتی ہے،اس کامفہوم بالکل واضح ہے اوروہ یہ کہ دین کی خاطرجہادکرنے کے لئے جن مصارف کی بھی ضرورت پڑے انہیں اپنے پاس سے مہیاکرو،دین کی حفاظت ونصرت معمولی کام نہیں اس لئے اس کی خاطر اپنی دولت خرچ کرنابھی معمولی کام نہیں ۔

زکوٰة پچھلی تمام اقوام میں بھی فرض تھی۔

جس طرح روزہ پچھلی تمام قوموں میں فرض تھااسی طرح زکوٰة کایہ حکم پہلی دفعہ نہیں دیاگیابلکہ یہ اسحاق علیہ السلام اوریعقوب علیہ السلام کی ملت میں بھی فرض تھی۔

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ۝۰ۭ وَیَعْقُوْبَ نَافِلَةً۝۰ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ۝۷۲وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَاۗءَ الزَّكٰوةِ۝۰ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ۝۷۳ۙۚ         [3]

ترجمہ:اور ہم نے اُسے اسحاق عطا کیا اور یعقوب اس پر مزید اور ہر ایک کو صالح بنایا،اورہم نے ان کوامام بنادیاجوہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اورہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اورنمازقائم کرنے اورزکوٰة دینے کی ہدایت کی اوروہ ہمارے عبادت گزارتھے۔

ملت اسماعیل میں بھی زکوٰة فرض تھی۔

 وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ۝۰ۡاِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا۝۵۴ۚوَكَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ۝۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا۝۵۵     [4]

ترجمہ: اور اس کتاب میں اسماعیل علیہ السلام کاذکرکرووہ وعدے کاسچاتھااوررسول نبی تھا،وہ اپنے گھروالوں کو نماز اورزکوٰة کاحکم دیتاتھااوراپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔

ملت بنی اسرائیل میں بھی زکوٰة فرض تھی۔

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ۝۴۳          [5]

ترجمہ:نمازقائم کروزکوٰة دواورجولوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللهَ۝۰ۣ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰى وَالْیَتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ۔۔۔۝۰۝۸۳ [6]

ترجمہ:یادکرو،اسرائیل کی اولادسے ہم نے پختہ عہدلیاتھاکہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرنا،ماں باپ ،رشتے داروں کے ساتھ،یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا،لوگوں سے بھلی بات کہنا،نمازقائم کرنااورزکوٰة دینا۔

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ۝۵ۭ [7]

ترجمہ:اوران کواس کے سواکوئی حکم نہیں دیاگیاتھاکہ اللہ کی بندگی کریں ،اپنے دین کواس کے لئے خالص کر کےبالکل یک سوہوکر،اورنمازقائم کریں اورزکوٰة دیں یہی نہایت صحیح ودرست دین ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں بھی زکوٰة فرض تھی۔

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙوَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا۝۳۱۠ۖ          [8]

ترجمہ:میں اللہ کابندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اورنبی بنایااوربابرکت کیاجہاں بھی میں رہوں اورنمازاورزکوٰة کی پابندی کاحکم دیاجب تک میں زندہ رہوں ۔

اللہ تعا لیٰ نے زکوٰة اداکرنااہل ایمان کی صفات میں بیان کیا۔

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۔۔۔۝۱۷۷    [9]

ترجمہ:نیکی یہ نہیں کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یامغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کواوریوم آخراورملائکہ کواوراللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اوراس کے پیغمبروں کودل سے مانے اوراللہ کی محبت میں اپنادل پسندمال رشتے داروں اوریتیموں پر،مسکینوں اورمسافروں پر،مددکے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پراورغلاموں کی رہائی پرخرچ کرے،نمازقائم کرےاورزکوٰة دے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۔۔۔[10]

ترجمہ:جولوگ ایمان لے آئیں اورنیک عمل کریں اورنمازقائم کریں اورزکوٰة دیں ،ان کااجربے شک ان کے رب کے پاس ہے۔

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۱۶۲ۧ  [11]

ترجمہ:مگران میں سے جولوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اورایماندارہیں وہ سب اس تعلیم پرایمان لاتے ہیں جواے نبی!تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اورجوتم سے پہلے نازل کی گئی تھی ،اس طرح کے ایمان لانے والے اورنمازوزکوٰة کی پابندی کرنے والے اوراللہ اورروزآخرپرسچاعقیدہ رکھنے والے لوگوں کوہم ضروراجرعظیم عطاکریں گے۔

اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ۝۵۵   [12]

ترجمہ:تمہارے رفیق توحقیقت میں صرف اللہ اوراللہ کارسول اوروہ اہل ایمان ہیں جونمازقائم کرتے ہیں ،زکوٰة دیتے ہیں اوراللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ۔

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ۔۔۔۝۰۝۷۱ [13]

ترجمہ:مومن مرداورمومن عورتیں ،یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کاحکم دیتے اوربرائی سے روکتے ہیں ،نمازقائم کرتے ہیں ،زکوٰة دیتے ہیں اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن پراللہ کی رحمت نازل ہوکررہے گی۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ۝۶۰ۙ         [14]

ترجمہ:اورجن کاحال یہ ہے کہ دیتے ہیں جوکچھ بھی دیتے ہیں اوردل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹناہے۔

 رِجَالٌ۝۰ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ۝۰۠ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۝۳۷ۤۙ      [15]

ترجمہ:جنہیں تجارت اورخریدوفروخت اللہ کی یادسے اوراقامت نمازوادائے زکوٰة سے غافل نہیں کردیتی،وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اوردیدے پتھراجانے کی نوبت آجائے گی۔

اللہ تعا لیٰ نے زکوٰة اداکرنے کے فوائدبیان فرمائے۔

یہ نیک اعمال میں سے ہے۔

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۔۔۔۝۱۷۷    [16]

ترجمہ:نیکی یہ نہیں کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یامغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کواوریوم آخراورملائکہ کواوراللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اوراس کے پیغمبروں کودل سے مانے اوراللہ کی محبت میں اپنادل پسندمال رشتے داروں اوریتیموں پر،مسکینوں اورمسافروں پر،مددکے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پراورغلاموں کی رہائی پرخرچ کرے ، نماز قائم کرے اورزکوٰة دے۔

زکوٰة ا داکرناباعث اجرہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷          [17]

ترجمہ: جو لوگ ایمان لے آئیں اورنیک عمل کریں اورنمازقائم کریں اورزکوٰة دیں ان کااجربے شک ان کے رب کے پاس ہے اوران کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ۔

زکوٰة ا داکرناگناہوں کاکفارہ اورجنت میں داخلے کاسبب ہے۔

وَلَقَدْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا۝۰ۭ وَقَالَ اللهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ ۔۔۔۝۱۲  [18]

ترجمہ:اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہدلیاتھااوران میں بارہ نقیب مقررکیے تھے اوران سے کہاتھاکہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگرتم نے نمازقائم رکھی اورزکوٰة دی اور میرے رسولوں کومانااوران کی مددکی اوراپنے اللہ کواچھاقرض دیتے رہے تویقین رکھوکہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کردوں گااورتم کوایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی۔

زکوٰة اداکرنااللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کے حصول کاایک ذریعہ ہے۔

 ۔۔۔قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ۝۰ۚ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ۚ [19]

ترجمہ: جواب میں ارشادہواسزاتومیں جسے چاہتاہوں دیتاہوں مگرمیری رحمت ہرچیزپرچھائی ہوئی ہے اوراسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گاجونافرمانی سے پرہیز کریں گے زکوٰة دیں گے اورمیری آیات پرایمان لائیں گے۔

زکوٰة ا داکرناجان ومال کی حفاظت کاباعث ہے۔

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۝۰ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِیْلَهُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵           [20]

ترجمہ:پس جب حرام مہینے گزرجائیں تومشرکین کوقتل کروجہاں پاؤاورانہیں پکڑواورگھیرواورہرگھاٹ میں ان کی خبرلینے کے لئے بیٹھو،پھراگروہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اورزکوٰة دیں توانہیں چھوڑدو،اللہ درگزرفرمانے والااوررحم فرمانے والاہے۔

زکوٰة اداکرنامال کی زیادتی اورفراوانی کاباعث ہے۔

وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۟ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللهِ۝۰ۚ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ ۔۔۔۝۳۹          [21]

ترجمہ: جو سود تم دیتے ہوتاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکروہ بڑھ جائے ،اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا،اورجوزکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہواسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں ۔

زکوٰة ا داکرنامحسنین کی صفات میں سے ہے۔

هُدًى وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَ۝۳ۙالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ۝۴ۭاُولٰۗىِٕكَ عَلٰی هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵            [22]

ترجمہ:ہدایت اوررحمت نیکوکارلوگوں کے لئے ،جونمازقائم کرتے ہیں ،زکوٰة دیتے ہیں اور آخرت پریقین رکھتے ہیں ،یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پرہیں اوریہی فلاح پانے والے ہیں ۔

زکوٰة ا دانہ کرنامشرکین کی صفات میں سے ہے۔

وَوَیْلٌ لِّـلْمُشْرِكِیْنَ۝۶ۙالَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ۝۷ۙ [23]

ترجمہ:تباہی ہے ان مشرکوں کے لئے جوزکوٰة نہیں دیتے اورآخرت کے منکر ہیں ۔

اوراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اموال میں ایک حصہ مقررفرمایا۔

وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙلِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵۠ۙ  [24]

ترجمہ: جن کے مالوں میں سائل اورمحروم کاایک مقررحق ہے۔

چنانچہ ا نہیں مقاصدکے حصول کے لئے قرآن مجیدمیں تیس مرتبہ مسلمانوں پرچارقسم کے اموال جن پرانسانی زندگی کادارومدارہے زکوٰة فرض فرمائی،جس کی تفصیل کتب احادیث میں یوں مذکورہے۔

۱۔ چوپا ئے جانور،اونٹ،گائے ،بکری وغیرہ۔

۲۔ سونا چاندی اورنقدی وغیرہ۔

۳۔ ہر قسم کی تجارت کاسامان جس کی تجارت شرعاجائزہے۔

۴۔ ز مین سے حاصل ہونے والی چیزیں غلہ،پھل،سبزیاں ،معدنیات،دفینے وغیرہ ۔


۱۔جا نوروں کی زکوٰة

جانور وں کی زکوٰة ادانہ کرنے کی وعید:

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْتَهَیْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ – أَوْ: وَالَّذِی لاَ إِلَهَ غَیْرُهُ، أَوْ كَمَا حَلَفَ،مَا مِنْ رَجُلٍ تَكُونُ لَهُ إِبِلٌ، أَوْ بَقَرٌ، أَوْ غَنَمٌ، لاَ یُؤَدِّی حَقَّهَا إِلَّا أُتِیَ بِهَا یَوْمَ القِیَامَةِ،أَعْظَمَ مَا تَكُونُ وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَاكُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَیْهِ أُولاَهَا، حَتَّى یُقْضَى بَیْنَ النَّاسِ

ابوزر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیاتھااورآپ فرمارہے تھے،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا(آپ نے قسم اس طرح کھائی)اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں ،یاجن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو(اس تاکیدکے بعدفرمایا)کوئی بھی ایساشخص جس کے پاس اونٹ،گائے یابکری ہو اوروہ ان کاحق(زکوٰة) ادانہیں کرتاہو توقیامت کے روزاسے لایاجائے گااوروہ جانورزیادہ سے زیادہ قدآوراورموٹے ہونے کی حالت میں لائے جائیں گے اسے اپنے پاؤں سے روندتے اورسینگوں سے مارتے ہوئے گزریں گے جب آخروالے گزرجائیں گے توپہلے والے دوبارہ لائے جائیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے گا۔[25]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِیدَتْ لَهُ، فِی یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى یُقْضَى بَیْنَ الْعِبَادِ فَیَرَى سَبِیلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے یہ سزااس دن ملتی رہے گی جس کی مقدارپچاس ہزارسال ہے، اس کے بعدوہ جنت یاجہنم کی طرف جانے کااپناراستہ دیکھے گا۔[26]

وہ جانو رجن کی زکوٰة لی جاتی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء نے جن جانوروں کی زکوٰة لی ہے وہ تین قسم کے ہیں اونٹ،گائے اوربکری۔واضح رہے کہ زکوٰة میں بھینس گائے کی

جنس میں اوربھیڑاوردنبہ بکری کی جنس میں شمارہوتی ہے۔

مویشیوں کی زکوٰة کی شرطیں :

مویشیوں کی زکوٰة فرض ہونے کی دوشرطیں ہیں ۔

ایک تویہ کہ نصاب کاپہنچنے کے بعدان پرایک سال گزرجائے۔

دوسری یہ کہ ان کی پرورش ساراسال یاسال کے اکثرحصے میں جنگلوں ،پہاڑوں یاسبزے کے میدانوں میں چرانے سے ہوتی ہو۔

اگرزیادہ انحصارچرانے پرہولیکن کبھی کبھارگھرپربھی چاراڈالاجائے توزکوٰة میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اونٹوں کی زکوٰة جورسول اللہ ﷺنے مقررفرمائی:

أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ مِنَ الإِبِلِ ،وَلَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں ہے،اورپانچ اوقیہ سے کم(چاندی)میں زکوٰة نہیں ،اسی طرح پانچ وسق سے کم(غلہ)میں زکوٰة نہیں ۔[27]

مالک اپنی مرضی سے دیناچاہے توالگ بات ہے۔

چوبیس اونٹوں تک کی زکوٰة بکریوں کی صورت میں اداکی جائے گی۔

پانچ سے نواونٹوں تک: ایک بکری

دس سے چودہ اونٹوں تک: دوبکریاں

پندرہ سے انیس اونٹوں تک: تین بکریاں

بیس سے چوبیس اونٹوں تک:چاربکریاں زکوٰة میں لی جائیں گی۔

پچیس سے پینتیس اونٹوں تک: ایک بنت مخاض(ایک سالہ اونٹنی جس کی عمرکادوسراسال شروع ہو)

۳۶سے ۴۵ اونٹوں تک: ایک بنت لبون(دوسالہ اونٹنی جس کی عمرکاتیسراسال شروع ہو)

۴۶ سے ۶۰ا ونٹوں تک :ایک حقہ(تین سالہ اونٹنی جس کی عمرکاچوتھاسال شروع ہو)

۶۱سے ۷۵ا ونٹوں تک: ایک جذعہ(چارسالہ اونٹنی جس کی عمرکاپانچواں سال شروع ہو)

۷۶سے ۹۰ا ونٹوں تک: دوبنت لبون۔

۹۱سے ۱۲۰ا ونٹوں تک:دوحقہ۔

ایک سوبیس سے آگے ہردس کے بعدکل تعدادچالیس یاپچاس پرتقسیم ہوجاتی ہے،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراونٹ ایک سوبیس سے زیادہ ہوجائیں تو ہرچالیس میں ایک بنت لبون اورہرپچاس میں ایک حقہ ہوگا۔

گائے(بھینس) کی زکوٰة:

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجاتوانہیں حکم دیا

وَفِی الْبَقَرِ فِی كُلِّ ثَلَاثِینَ تَبِیعٌ ،وَفِی الْأَرْبَعِینَ مُسِنَّةٌ

ہرتیس گایوں میں سے ایک تبیع یاتنیعہ(ایک سال کابچھڑایا بچھڑی جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہو)لیں اورہرچالیس گایوں میں سے ایک مسنہ(دوسال سے زیادہ کا نر یا مادہ جسکاسامنے کادانت گرچکاہو)لیں ۔ [28]

تیس سے کم گایوں میں زکوٰة نہیں ،اونٹوں کی طرح یہاں بھی ساٹھ سے آگے ہردس کے بعدکل تعدادتیس یاچالیس کے ہندسوں پرتقسیم ہوجاتی ہے، تفصیل اس طرح ہوگی۔

۳۰ سے ۳۹گا یوں تک:ایک تبیع یاتبیعہ(ایک سال کابچھڑایابچھڑی جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہو)

۴۰سے ۴۹گا یوں تک        :ایک مسنہ(دوسال سے زیادہ کانریامادہ جسکاسامنے کادانت گرچکاہو)

۶۰سے ۶۹گایو ں تک:دوتبیع یاتبیعہ

۷۰سے ۷۹گا یوں تک:ایک تبیع یاتبیعہ اورایک مسنہ

۸۰ سے ۸۹گا یوں تک:دومسنہ

۹۰ سے ۹۹گایو ں تک        :تین تبیع یاتبیعہ

الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہرتیس گایوں میں سے ایک تبیع یاتبیعہ اورہرچالیس گایوں میں سے ایک مسنہ لیاجائے گا۔

گائے بھینس کی زکوٰة میں نراورمادہ دونوں دیئے جاسکتے ہیں ،یہاں صرف تبیع اورمسن کی عمرمقررہے،مالک اپنی خوشی سے بڑی عمرکاجانوردے تو جائز ہے ۔

 چرنے والی بکریوں کی زکوٰة:

وَقَالَ سُفْیَانُ:لاَ یَجِبُ حَتَّى یَتِمَّ لِهَذَا أَرْبَعُونَ شَاةً، وَلِهَذَا أَرْبَعُونَ شَاةً

سفیان ثوری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےزکوٰة اس وقت تک واجب نہیں ہوسکتی کہ دونوں شریکوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں نہ ہوجائیں ۔[29]

چالیس سے ایک سوبیس بکریوں تک:ایک بکری

ایک سوبیس سے دوسوبکریوں تک:دوبکریاں

دوسوایک سے تین سوتیس بکریوں تک:تین بکریاں

اس کے بعدہرسوپرایک بکری زکوٰة پڑے گی،جیساکہ تین سومیں تین بکریاں ،چارسومیں سے چاربکریاں ،پانچ سومیں سے پانچ بکریاں ہوں گی۔

تین سوکے بعدجوسینکڑہ کم ہوگااس میں زکوٰة نہیں ،جیساکہ تین سوسے تین سوننانوےبکریوں تک تین بکریاں اورچارسوسے چارسوننانوےبکریوں تک چاربکریاں ہوں گی۔[30]

نوٹ۔

وَلاَ یُخْرَجُ فِی الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ، وَلاَ تَیْسٌ إِلَّا مَا شَاءَ المُصَدِّقُ

صدقہ میں بوڑھایاعیب دارجانوریاسانڈھ نہ نکالاجائے،ہاں صدقہ لینے والاعامل چاہے توجائزہے۔[31]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الیَمَنِ، قَالَ:فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کویمن بھیجاتوان سے فرمایاالبتہ ان کی عمدہ چیزیں (زکوٰة کے طورپرلینے سے) پرہیز کرنا۔[32]

البتہ صاحب مال نہایت خوش دلی سے حق واجب سے زیادہ عمدہ مال دیناچاہےتوقبول کیاجاسکتاہے۔

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا، فَمَرَرْتُ بِرَجُلٍ، فَلَمَّا جَمَعَ لِی مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَیْهِ فِیهِ إِلَّا ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَدِّ ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَتُكَ، فَقَالَ: ذَاكَ مَا لَا لَبَنَ فِیهِ، وَلَا ظَهْرَ، وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِیَّةٌ عَظِیمَةٌ سَمِینَةٌ، فَخُذْهَا، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، وَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ قَرِیبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِیَهُ، فَتَعْرِضَ عَلَیْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلْتُهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَیْكَ رَدَدْتُهُ، قَالَ: فَإِنِّی فَاعِلٌ، فَخَرَجَ مَعِی وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِی عَرَضَ عَلَیَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےمصدق بنا کر بھیجا میں ایک شخص کے پاس پہنچا جب اس نے اپنا مال اکھٹا کیا تومیں نےاس پرصرف ایک بنت مخاض(ایک سالہ اونٹنی)ہی واجب پائی، میں نے اس سے کہا ایک بنت مخاض دے دو تمھاری یہی زکوٰة واجب ہے، وہ بولایہ دودھ والی ہے اور نہ سواری کے قابل ہے! اس کے بجائے یہ ایک جوان اورموٹی تازی اونٹنی ہےاسے لے لو،میں نے اس سے کہا جس چیزکامجھے حکم نہیں ہے میں وہ کیوں کرلے سکتاہوں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے قریب ہی ہیں اگرچاہوتواس کی خدمت میں چلے جاؤاورجوکچھ مجھے دے رہے ہوانہیں جاکرپیش کردو اگر آپ قبول فرما لیں تو میں لے لوں گااگروہ نامنظورکریں تومیں بھی قبول نہیں کرتا،اس نے کہامیں یہی کرتاہوں ،چنانچہ وہ میرے ساتھ چل پڑااوروہ اونٹنی بھی ساتھ لے گیاجووہ مجھے دے رہاتھاحتی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،

فَقَالَ لَهُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، أَتَانِی رَسُولُكَ لِیَأْخُذَ مِنِّی صَدَقَةَ مَالِی، وَایْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا رَسُولُهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِی، فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَیَّ فِیهِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، وَذَلِكَ مَا لَا لَبَنَ فِیهِ، وَلَا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَیْهِ نَاقَةً فَتِیَّةً عَظِیمَةً لِیَأْخُذَهَا فَأَبَى عَلَیَّ، وَهَا هِیَ ذِهْ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا یَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَاكَ الَّذِی عَلَیْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَیْرٍ آجَرَكَ اللَّهُ فِیهِ، وَقَبِلْنَاهُ مِنْكَ، قَالَ: فَهَا هِیَ ذِهْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْضِهَا، وَدَعَا لَهُ فِی مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ

تو وہ شخص بولا اے اللہ کے نبی ﷺ! آپ کا قاصدمیرے مال کی زکوٰة لینےکے لیے میرے پاس پہنچاہےاوراللہ کی قسم! اس سے پہلے نہ تو اللہ کے رسول میرے مال میں تشریف لائے ہیں اور نہ ہی ان کے نمائندہ نے دیکھا ہے،سو میں نے اس کے لیے اپنا مال جمع کیا تواس نے بتایاکہ میرے مال میں صرف ایک بنت مخاض واجب ہے اوراس عمرکاجانور نہ دودھ دیتا ہے اور نہ سواری کے قابل ہوتا ہے،سو میں نے اسے ایک شاندار جوان اونٹنی پیش کی کہ اسے قبول کرلےمگراس نے لینے سے انکار کر دیا اور وہ اونٹنی یہ ہے!اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اسے آپ کے پاس لے آیا ہوں آپ اس کو قبول فرما لیجئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھ پروہی فرض ہے لیکن اگر تو اپنی خوشی سے نیکی کرناچاہئےتواس کا اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کا اجروثواب عطا فرمائے گا اور ہم تجھ سے یہ قبول کرلیتےہیں ،وہ شخص بولا اوروہ یہ رہی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسے لے آیاہوں توآپ اسے قبول فرمالیجئے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے وصول کرلینے کاحکم فرمایا اور اس کے مال میں خیر و برکت کی دعا فرمائی۔[33]

اگرکسی کے پاس ایک ہی عمریاایک ہی جنس یاا یک ہی درجے کے جانورہوں توزکوٰة بھی اسی قسم سے لی جائے گی مثلاًسبھی اعلی یاادنیٰ ہیں یاسبھی نریامادہ ہیں توانہی میں سے زکوٰة لی جائے گی۔

پا لتوجانوروں کی زکوٰة:

اونٹ،بکریوں یاگائے بھینس کی پرورش اگرچارہ ڈال کرکی جاتی ہوتوان میں زکوٰة نہیں ہے ان سے حاصل ہونے والی آمدن ا گرساتھ ہی ساتھ خرچ ہوتی رہے تواس پربھی زکوٰة نہیں البتہ اگرجمع ہوجائے تودوسرے مال کی زکوٰة اداکرتے وقت اس کے ساتھ اس میں سے بھی زکوٰة اداکی جائے گی،اگریہ جانورتجارت کے لئے رکھے گئے ہیں توہرسال ان کی قیمت کااندازہ کرکے اڑھائی فیصدزکوٰة اداکی جائے گی۔مرغیوں اوردوسرے جانوروں کے فارموں کابھی یہی حکم ہے۔

 گھوڑوں ،گدھوں اورخچروں کی زکوٰة:

یہ جانورخواہ جنگل میں چرنے والے ہوں یاچارے پرپرورش پاتے ہوں ،اسی طرح خواہ سواری کے لئے ہوں یاافزائش نسل کے لئے ان پرزکوٰة نہیں ،البتہ اگران سے حاصل ہونے والی آمدن آدمی کے مال میں جمع ہوتی رہی ہے توسال کے آخرمیں دوسرے مال کی زکوٰة اداکرتے وقت اس کی زکوٰة بھی اداکرے گا،اسی طرح اگریہ جانورتجارت کے لئے ہیں تودوسرے سامان تجارت کی طرح ان کی قیمت کااندازہ کرکے اڑھائی فیصدزکوٰة اداکرے۔

۲۔ نقدی اورسونے چاندی کی زکوٰة

مال کی دوسری قسم جس میں زکوٰة فرض ہے وہ سونااورچاندی ہے،اس میں سونے اورچاندی کے زیوربھی شامل ہیں اورنقدی(روپیہ پیسہ ) کابھی یہی حکم ہے۔

نقدی کی زکوٰة ادانہ کرنے کی وعید:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَلَمْ یُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ یَوْمَ القِیَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِیبَتَانِ یُطَوَّقُهُ یَوْمَ القِیَامَة

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کواللہ تعالیٰ نے مال دیااوراس نے اس کی زکوٰة ادانہ کی تو قیامت کے دن اس کے لئے اس کے مال کوایک (نہایت زہریلے)گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی، جس کی آنکھوں کے اوپردوسیاہ نقطے ہوں گے وہ اس کے گلے میں ڈال دیاجائے گا

لا شعر على رأسه لكثرة سمه وطول عمره

سانپ کے جسم پرتوبال ہوتے ہی نہیں لہذاگنجے سے مرادیہ ہےکثرت زہریادرازی عمرکی وجہ سے اس کے سرپرسے چمڑاتک اڑچکاہوگا)

ثُمَّ یَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَیْهِ یَعْنِی بِشِدْقَیْهِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ،ثُمَّ تَلاَ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ ھُوَخَیْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ

پھروہ اس کے منہ کے دونوں کناروں (باچھوں )کوپکڑے گااورکہے گامیں تیرامال ہوں میں تیراخزانہ ہوں ، پھریہ آیت پڑھی’’ جولوگ اس چیزمیں بخل کرتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطافرمائی ہے وہ اسے اپنے لئے اچھاہرگزخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے براہے ،جلدہی جس میں انہوں نے بخل کیاہے وہ قیامت کے دن ان کے گلے میں ڈال دیاجائے گا۔‘‘[34]

وَالَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۴ۙیَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ۝۰ۭ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵        [35]

ترجمہ:اورجولوگ سونے اورچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اورانہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،ایک دن آئے گاکہ اسی سونے چاندی پرجہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اورپہلوں اورپیٹھوں کوداغاجائے گا،یہ ہے وہ خزانہ جوتم نے اپنے لئے جمع کیاتھالواب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کامزہ چکھو۔

سونے چاندی کانصاب اورزکوٰة کی مقدار

أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ نہیں ہے(پانچ اوقیہ کے دوسودرہم ہوتے ہیں )اورپانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں ہے اورپانچ وسق سے کم (غلہ)میں زکوٰة نہیں ۔[36]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ، وَحَالَ عَلَیْهَا الْحَوْلُ، فَفِیهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَلَیْسَ عَلَیْكَ شَیْءٌ یَعْنِی فِی الذَّهَبِ حَتَّى یَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِینَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِینَارًا، وَحَالَ عَلَیْهَا الْحَوْلُ، فَفِیهَا نِصْفُ دِینَارٍ، فَمَا زَادَ، فَبِحِسَابِ ذَلِكَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہارے پاس دوسودرہم ہوں اوران پرسال گزرجائے توان میں پانچ درہم(زکوٰة) ہے،اورسونے میں تم پرکچھ نہیں حتی کہ تمہارے پاس بیس دینارہوں ،پس جب تمہارے پاس بیس دینارہوں اوران پرایک سال گزرجائے توان میں نصف دینار(زکوٰة)ہے پھرجوزیادہ ہووہ اس کے حساب سے ہوگا۔[37]

ان احادیث سے معلوم ہواکہ سونے چاندی اورنقدی کی زکوٰة کے لئے دوشرطیں ہیں ایک یہ کہ چاندی دوسودرہم اورسونابیس دیناریااس سے زیادہ ہو،دوسری یہ کہ اس پرسال گزرچکاہوتب اس میں سے چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصدزکوٰة فرض ہوگی۔

موجود ہ اوزان کے لحاظ سے چاندی اورسونے کانصاب:

دوسودرہم کی مودارکے متعلق پاک وہندکے علماء میں مشہوریہی ہے کہ وہ ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہیں جوگراموں کے لحاظ سے تقریباً۶۱۱ گرام بنتے ہیں اوربیس دینارساڑھے سات تولے سونے کے برابرہیں جوسواستاسی ۰۲۷ ۸۷ گرام بنتے ہیں لیکن تحقیق سے بیس دینار سونے اوردوسودرہم چاندی کاوزن مندرجہ بالامقداروں سے کم بنتاہے،چنانچہ شیخ ابوبکرالجزائری نے الجمل فی زکاة العمل ۲۷،۲۸ میں اوروکتورعبداللہ بن محمدبن احمد العطار نے الزکاة میں بیس دینارکوسترگرام سونے کے برابر اوردوسودرہم کو۴۶۰گرام چاندی کے برابرقراردیاہے ،ان حضرات نے ایک دینارکاوزن ساڑھے تین گرام سونااورایک درہم کاوزن ۳ ۰ ۲گرام چاندی قرار دیا ہے ۔مفتی عبدالرحمٰن الرحمانی نے بھی اپنے رسالہ المیزان فی الاوزان میں اسی کودرست قراردیاہے۔یہ مقدارعام معروف ساڑھے باون تولے کی چاندی اورساڑھے سات تولے سونے سے کافی کم ہے،مگرتحقیق پرمبنی ہے اوراحتیاط کاتقاضابھی یہی ہے کہ سوناچاندی اس نصاب کوپہنچ جائیں توزکوٰة اداکی جائے۔

اوزان کے متعلق مفتی عبدالرحمٰن الرحمانی صاحب کی تحقیق کاخلاصہ:

فاعلم أنّ الإجماع منعقد منذ صدر الإسلام وعهد الصّحابة والتّابعین أنّ الدّرهم الشّرعیّ هو الّذی تزن العشرة منه سبعة مثاقیل من الذّهب والأوقیّة منه أربعین درهما وهو على هذا سبعة أعشار الدّینار ووزن المثقال من الذّهب اثنتان وسبعون حبّة من الشّعیر فالدّرهم الّذی هو سبعة أعشاره خمسون حبّة وخمسا حبّة وهذه المقادیر كلّها ثابتة بالإجماع

ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں صدراسلام اورعہدصحابہ وتابعین سے لے کرآج تک اس بات پر اجماع ہے کہ درہم شرعی وہ ہے جس کے دس درہم سات مثقال(دینار)سونے کے برابرہوں اوراس کاایک اوقیہ چالیس درہم کاہوتاہے اس کے مطابق ایک درہم ۱۰؍۷دینار کے برابرہوگااورسونے کاایک مثقال (دینار) بہتر (۷۲)جوکے دونوں کے برابرہوتاہے ،اس کے مطابق وہ درہم جو۱۰؍۷ دینارکے برابرہے وہ ۵۰۵؍۲جوکے دانوں کے برابر ہوگااوریہ تمام اندازے اجماع سے ثابت ہیں ۔[38]

وَالْمِثْقَالُ لَمْ یَتَغَیَّرْ جَاهِلِیَّةً وَلَا إسْلَامًا، وَهُوَ اثْنَانِ وَسَبْعُونَ حَبَّةً، وَهِیَ شَعِیرَةٌ مُعْتَدِلَةٌ لَمْ تُقَشَّرْ وَقُطِعَ مِنْ طَرَفَیْهَا مَا دَقَّ وَطَالَ، وَالْمُرَادُ بِالدَّرَاهِمِ الدَّرَاهِمُ الْإِسْلَامِیَّةُ الَّتِی كُلُّ عَشَرَةٍ مِنْهَا سَبْعَةُ مَثَاقِیلَ۔۔۔۔ وَوَزْنُ الدِّرْهَمِ سِتَّةُ دَوَانِقَ، وَالدَّانِقُ ثَمَانِ حَبَّاتٍ وَخُمُسَا حَبَّةٍ، فَالدِّرْهَمُ خَمْسُونَ حَبَّةً وَخُمُسَا حَبَّةٍ

شربینی نے المغنی میں فرمایا مثقال میں جاہلیت اوراسلام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی وہ ۷۲دانے درمیانے جوکے برابرہے جس کاچھلکااتراہوانہ ہواوردونوں طرفوں سے لمباباریک حصہ کاٹ دیاگیا ہو،درہم اسلامی وہ ہے جس کے دس درہم سات مثقال کے برابرہوں ۔۔۔آگے چل کرلکھاہےاوردرہم ۵؍۲ ۰ ۵۰ جوکے دانے کے برابر ہے ۔ [39]

أَنَّ دِینَارَ الذَّهَبِ بِمَكَّةَ وَزْنُهُ: اثْنَانِ وَثَمَانُونَ حَبَّةً وَثَلَاثَةُ أَعْشَارِ حَبَّةٍ بِالْحَبِّ مِنْ الشَّعِیرِ الْمُطْلَقِ ، وَوَزْنُ الدِّرْهَمِ الْمَكِّیِّ سَبْعٌ وَخَمْسُونَ حَبَّةً وَسِتَّةُ أَعْشَارِ حَبَّةٍ وَعُشْرُ حَبَّةٍ

ابن حز م رحمہ اللہ نے اپنے تجربے کے مطابق دینارکو۱۰؍۸۲۰۳ آٹھ معتدل جوکے دانے کے برابر اوردرہم کو۵۷۰۶۱(ستاون اعشاریہ اکسٹھ)جوکے برابر لکھا ہے۔ [40]

صاحب قاموس نے لفظ (المکوک)کی تشریح میں درہم کو۴۸ حبہ کے برابرلکھاہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اکثرمحدثین وفقہاء کے مطابق دینار۷۲ دانے جواوردرہم ۵؍۵۰۰۲ دانے جوکے برابرہے۔

صاحب قاموس کے مطابق درہم اڑتالیس جوکے برابر ہے ۔

پچاس اوراڑتالیس کافرق معمولی ہے جودانوں کے اختلاف کی وجہ سے ہوجاتاہے ،اس تحقیق کے مطابق ۷۲دانے جوتولے جائیں توساڑھے تین گرام کے برابرہوتے ہیں لہذا ایک دینارساڑھے تین گرام اوربیس دینارسترگرام سونے کے برابرہوں گے اگرکسی شخص کے پاس سترگرام سوناہے تواس پرزکوٰة فرض ہے،اس طرح ۵؍۵۰۰۲ جوکے دانے تولے جائیں تو۲۰۳(دواعشاریہ تین)گرام کے برابرہوتے ہیں یہ ایک درہم کاوزن ہے لہذادوسودرہم ۴۶۰گرام چاندی کے برابرہوں گے اور یہی چاندی کانصاب ہے۔

 نقدی کا نصاب:

رسول اللہ ﷺکے زمانے میں بیس دیناراوردوسودرہم کی قیمت تقریباًبرابرتھی،موجودہ دورمیں چارسوساٹھ گرام چاندی کی قیمت سترگرام سونے کی قیمت سے بہت ہی کم ہے،سوال یہ ہے کہ اس دورمیں زکوٰة فرض ہونے کے لئے چارسوساٹھ گرام چاندی کی قیمت نصاب ہوگی یاسترگرام سونے کی،اس کاجواب یہ ہے کہ فقراء کے لئے زیادہ مفیدیہی ہے کہ چاندی کی قیمت کونصاب بنایاجائے اوراحتیاط بھی اسی میں ہے لیکن اگرکوئی شخص سونے کی قیمت کونصاب بناکراس سے کم نقدی ہونے کی صورت میں زکوٰة ادانہ کرے تواسے گناہ گارنہیں کہاجاسکتا۔

مسئلہ ۱۔اگرکسی کے پاس چاندی بھی ہواورسونابھی مگرچاندی دوسودرہم سے کم ہواورسونابیس دینارسے کم ہوتونہ سونے پرزکوٰة ہوگی نہ چاندی پر۔دونوں کی قیمت جمع کرکے نصاب نہیں بنایاجائے گاکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کاالگ الگ نصاب مقررفرمایاہے،البتہ اس کے پاس اگرکچھ نقدی بھی ہواورسونااورچاندی بھی توسونے یاچاندی میں سے جس کے ساتھ روپے ملانے سے نصاب پوراہوتاہواس میں سے زکوٰة دی جائے گی۔

مسئلہ۲۔ا گربیوی کامال الگ ہے تونصاب کوپہنچنے پراسے اپنے مال کی زکوٰة خوداداکرناہوگی۔

دوران سا ل حاصل ہونے والے مال کی زکوٰة:

جب کسی شخص کے پاس نصاب کے برابرمویشی یاسوناچاندی ہو،پھرسال کے دوران اسے مزیدمال حاصل ہوجائے تو کیااس کی زکوٰة پہلے مال کے ساتھ دی جائے گی یاان کیلئے الگ سال کاحساب ہوگا؟

اس کاجوا ب یہ ہے کہ اگروہ مال پہلے مال کے نتیجے میں ملاہے مثلاًجانوروں کے بچے دینے کی وجہ سے مال بڑھ گیایاپہلے مال کے نفع میں مزیدمال گیاتواس کی زکوٰة پہلے مال کے ساتھ ہی دے جائے گی کیونکہ یہ پہلامال ہی ہے جوبڑھ گیاہے اوراگرکسی الگ ذریعے سے حاصل ہواہے مثلاًوراثت یاہبہ میں کچھ مال مل گیاہے یاروان سال مزدوری سے حاصل ہواتواس پرزکوٰة اس وقت فرض ہوگی جب اس پرسال گزرجائیگاکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کوکوئی نیامال ملے توجب تک اس پرسال نہ گزرے اس پرزکوٰة نہیں ،ہاں اپنی سہولت اورزیادہ ثواب کے لئے پہلے مال کے ساتھ ملاکرزکوٰة دے دے توجائزہے بلکہ بہترہے۔

۳۔ مال تجا رت کی زکوٰة

مال تجارت میں زکوٰة کی فرضیت:

مال کی تیسری قسم جس میں زکوٰة فرض ہے تجارت کامال ہے خواہ کسی بھی قسم کی ہوجب اس پرسال گزرجائے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ[41]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!جومال تم نے کمائے ہیں اس میں سے بہترحصہ راہ اللہ خرچ کرو ۔

وَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ وَسَائِرُ الْأُمَّةِ – إِلَّا مَنْ شَذَّ – مُتَّفِقُونَ عَلَى وُجُوبِهَا فِی عَرْضِ التِّجَارَةِ، سَوَاءٌ كَانَ التَّاجِرُ مُقِیمًا أَوْ مُسَافِرًا، وَسَوَاءٌ كَانَ مُتَرَبِّصًا وَهُوَ الَّذِی یَشْتَرِی التِّجَارَةَ وَقْتَ رُخْصِهَا وَیَدَّخِرُهَا إِلَى وَقْتِ ارْتِفَاعِ السِّعْرِ أَوْ مُدِیرًا كَالتُّجَّارِ الَّذِینَ فِی الْحَوَانِیتِ، سَوَاءٌ كَانَتِ التِّجَارَةُ بَزًّا مِنْ جَدِیدٍ، أَوْ لَبِیسٍ، أَوْ طَعَامًا مِنْ قُوتٍ أَوْ فَاكِهَةٍ، أَوْ أُدْمٍ، أَوْ غَیْرَ ذَلِكَ، أَوْ كَانَتْ آنِیَةً كَالْفَخَّارِ وَنَحْوِهِ، أَوْ حَیَوَانًا مِنْ رَقِیقٍ أَوْ خَیْلًا، أَوْ بِغَالًا، أَوْ حَمِیرًا، أَوْ غَنَمًا مَعْلُوفَةً، أَوْ غَیْرَ ذَلِكَ، فَالتِّجَارَاتُ هِیَ أَغْلَبُ أَمْوَالِ أَهَلِ الْأَمْصَارِ الْبَاطِنَةِ، كَمَا أَنَّ الْحَیَوَانَاتِ الْمَاشِیَةَ هِیَ أَغْلَبُ الْأَمْوَالِ الظَّاهِرَةِ

حافظ ا بن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں معدودے چندافرادکے سواائمہ اربعہ اوردیگرائمہ محدثین اس بات پرمتفق ہیں کہ تجارت کے سامان میں زکوٰة واجب ہے،خواہ تاجرمقیم ہوں یا مسافر ،ارزانی کے وقت سامان خریدکرگرانی کاانتظارکرنے والے تاجرہوں یاعام دوکاندارجوہروقت اورہرنرخ پرخریدوفروخت میں مصروف رہتے ہیں ،تجارت کامال نئے یاپرانے کپڑے ہوں یاکھانے پینے کاسامان،ہرقسم کاغلہ،پھل فروٹ،سبزی،گوشت ،مٹی،چینی،دھات وغیرہ کے برتن ہوں یاجاندارچیزیں غلام ،گھوڑے،خچر اور گدھے وغیرہ،گھرمیں پلنے والی بکریاں ہوں یاجنگل میں چرنے والے ریوڑ غرض تجارت کے ہرقسم کے مال میں زکوٰة فرض ہے[42]

 مال تجا رت سے زکوٰة اداکرنے کاطریقہ:

سال گزرنے پرجب زکوٰة اداکرنی ہوتوآدمی کوچاہیے کہ وہ نقدی جواس کے پاس موجودہے اوروہ سامان تجارت جواس کی دکان یاکارخانے یاگودام وغیرہ میں فروخت کیلئے یاخام مال کی صورت میں موجودہے،اس کی قیمت کااندازہ کرکے جمع کرلے،اس کے ساتھ وہ قرض بھی جواس نے کسی سے لیناہے اورآسانی سے اس کے ملنے کی امیدہے جمع کرلے پھراگرکسی کاقرض اداکرناہے تووہ اس رقم میں سے نکال دے ،باقی جوکچھ بچے اس میں سے اڑھائی فیصدکے حساب سے زکوٰة اداکردے۔

مسئلہ: جس قرض کے واپس ملنے کی امیدنہ ہواس میں ہرسال زکوٰة نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے پاس موجودمال کے حکم میں نہیں ہے ،جب وہ واپس ملے تواس میں سے ایک سال کی زکوٰة اداکردے۔

مسئلہ: دکان یاکارخانے کی عمارت،مشینری،فرنیچر اورالماریاں وغیرہ جن کی خریدوفروخت نہیں کی جاتی ان پرزکوٰة نہیں ہے،اسی طرح گاڑیوں یاکرایہ پرچلنے والی دوسری چیزوں کی قیمت پرزکوٰة نہیں ہے البتہ زکوٰة اداکرتے وقت دوسرے مال کے ساتھ ان سے حاصل ہونے والے مال کی بھی زکوٰة اداکی جائے گی،ہاں دکان،مکان، گاڑی، مشینری یاکوئی بھی چیزجوتجارت کے لئے ہواس کی قیمت کااندازہ کرکے ہرسال زکوٰة اداکرناہوگی۔

۴۔ زمین کی پیداوارکی زکوٰة(عشر)

اللہ تعالیٰ کاحکم ہے

۔۔۔ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ۔۔۔[43]

ترجمہ:اس کی کٹائی کے دن اس کاحق اداکرو۔

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالعُیُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِیًّا العُشْرُ وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتاہویاوہ خودبخودنمی کی وجہ سے سیراب ہوجاتی ہوتواس کی پیداوارمیں دسواں حصہ( زکوٰة) لیاجائےاوروہ زمین جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کرسیراب کیاجاتاہواس کی پیداوار میں بیسواں حصہ (زکوٰة ) لیا جائے۔[44]

أَنَّ الْعُشْرَ یَجِبُ فِیمَا سُقِیَ بِغَیْرِ مُؤْنَةٍ، كَاَلَّذِی یَشْرَبُ مِنْ السَّمَاءِ وَالْأَنْهَارِ، وَمَا یَشْرَبُ بِعُرُوقِهِ، وَهُوَ الَّذِی یُغْرَسُ فِی أَرْضٍ مَاؤُهَا قَرِیبٌ مِنْ وَجْهِهَا، فَتَصِلُ إلَیْهِ عُرُوقُ الشَّجَرِ، فَیَسْتَغْنِی عَنْ سَقْیٍ، وَكَذَلِكَ مَا كَانَتْ عُرُوقُهُ تَصِلُ إلَى نَهْرٍ أَوْ سَاقِیَةٍ. وَنِصْفُ الْعُشْرِ فِیمَا سُقِیَ بِالْمُؤَنِ، كَالدَّوَالِی وَالنَّوَاضِحِ

یعنی اگرزمین کسی ایسے ذریعے سے سیراب ہوتی ہوجس میں مشقت نہ ہویاکم مشقت ہو مثلا ًبارش ، شبنم،اولے،زمینی نمی و رطوبت اورچشموں وغیرہ سے تواس میں دسواں حصہ زکوٰة نکالناضروری ہے لیکن اگرکسی مشقت طلب ذریعے سے سیراب کی جاتی ہو مثلاً اونٹ،بیل یاآدمی پانی لاکرسیراب کریں یاکنوئیں یاٹیوب ویل سے پانی لاکر،یاپانی خریدکرسیراب کیاجائے ،یاجیسے آج کل معین رقم اداکرکے نہری پانی سے فصلوں کو سیراب کیاجاتاہے توان سب صورتوں میں بیسواں حصہ زکوٰة ہوگی۔

زمین سے حاصل شدہ پیداوارپردسواں یابیسواں حصہ واجب الاداء ہے

لَا نَعْلَمُ فِی هَذَا خِلَافًا

اس پرامت نے اجماع کیا ہے۔[45]

عَنْ أَبِی مُوسَى، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، حِینَ بَعَثَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْیَمَنِ یُعَلِّمَانِ النَّاسَ أَمْرَ دِینِهِمْ لَا تَأْخُذُوا الصَّدَقَةَ إِلَّا مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ، الشَّعِیرِ، وَالْحِنْطَةِ وَالزَّبِیبِ وَالتَّمْرِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اورمعاذ رضی اللہ عنہ کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف لوگوں کو احکام دین کی تعلیم کی غرض سے بھیجا تو فرمایا جو ، گندم،منقی اورکھجور ان چاراصناف کے علاوہ کسی غلے پرزکوٰة وصول نہ کرنا۔[46]

سنن ابن ماجہ کی روایت میں مکی کالفظ زیادہ ہے،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِی هَذِهِ الْخَمْسَةِ: فِی الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِیرِ، وَالتَّمْرِ، وَالزَّبِیبِ، وَالذُّرَةِ

عبداللہ بن عمرو بن عاص سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ چیزوں میں زکوٰة مقرر فرمائی گندم ، جو ، کھجور ، کشمش اور جوار۔[47]

ضعیف جدا

لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔[48]

اس طرح چاراصناف ہی ثابت ہیں لہذاان ہی سے عشرلیا جائے گا،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،امام ابن مبارک رحمہ اللہ ،امام حسن رحمہ اللہ ،امام ابن سیرین رحمہ اللہ اورامام شعبی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ،امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی قول مروی ہے۔[49]

شیخ البانی رحمہ اللہ اوردیگرچندعلماء نے اس روایت کو صحیح کہاہے لیکن فی الحقیقت یہ ثابت نہیں کیونکہ

أبو حذیفة سیئ الحفظ، وطلحة ابن یحیى التیمی مختلف فیه

اس میں راوی ابوحذیفہ سیئی الحفظ ہے،راوی سفیان ثاری مدلس کاعنعنہ ہے اورراوی طلحہ بن یحیی مختلف فیہ ہے۔

عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُؤْخَذَ مِنَ الْخَضْرَاوَاتِ صَدَقَةً

عطابن سائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن مغیرہ رحمہ اللہ نے موسیٰ بن طلحہ کی زمین سے سبزیوں کی زکوٰة لینے کاارادہ کیاتوموسیٰ بن طلحہ نے کہاتم ایسانہیں کرسکتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے اس میں زکوٰة نہیں ۔[50]

الصَّوَابُ مُرْسَلٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے۔[51]

عَنْ مُعَاذٍ , وَأَمَّا الْقِثَّاءُ وَالْبَطِّیخُ وَالرُّمَّانُ وَالْقَصَبُ فَقَدْ عَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکھیرا، ککڑی، تربوز،اناراورگنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰة معاف فرمائی ہے۔[52]

وَفِیهِ ضَعْفٌ وَانْقِطَاعٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اس روایت میں ضعف وانقطاع ہے۔[53]

چونکہ یہ ساری روایات ثابت نہیں ہیں اس لئے عمومی دلائل کی وجہ سے ہرزمینی پیداوارپر نصاب تک پہنچنے کے بعدزکوٰة فرض ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۔۔۔۝۰۝۲۶۷ [54]

ترجمہ:اورجوکچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالاہے۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے

فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالعُیُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِیًّا العُشْرُ

وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتاہویاوہ خودبخودنمی کی وجہ سے سیراب ہوجاتی ہوتواس کی پیداوارمیں دسواں حصہ زکوٰة ہے۔[55]

امام مالک رحمہ اللہ وامام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں صرف ایسی کھیتیوں اورپھلوں میں زکوٰة ہے جوکھانے اورذخیرہ کرنے کے قابل ہوں ،امام ابویوسف رحمہ اللہ اورامام محمد رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں لکڑی،گھاس اوربانس کے علاوہ ہرایسی چیزپرزکوٰة واجب ہے جسے زمین اگاتی ہے اوریہی مذہب راجح ہے۔[56]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ فِیمَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانچ وسق (تقریباً بیس من) سے کم (غلے)پرزکوٰة نہیں ۔[57]

ابن منذر[58] رحمہ اللہ ابن قدامہ[59] رحمہ اللہ ابن قیم رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں

لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

پانچ وسق سے کم پرزکوٰة نہیں ، اور جمہور اسی کے قائل ہیں

وَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ: تَجِبُ فِی قَلِیلِهِ وَكَثِیرِهِ

مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں پانچ وسق سے کم اورزیادہ ہرمقدارمیں زکوٰة واجب ہے۔

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَخَذَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے شہدسے دسواں حصہ وصول کیا۔[60]

عَنْ أَبِی سَیَّارَةَ الْمُتَعِیُّ،قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِی نَحْلًاقَالَ:أَدِّ الْعُشْرَ

ابوسیارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے کہااے اللہ کےرسول ﷺ!میرے پاس شہدکی مکھیاں ہیں توآپ ﷺنے فرمایاتودسواں حصہ اداکرو۔[61]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی العَسَلِ:فِی كُلِّ عَشَرَةِ أَزُقٍّ زِقٌّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے شہدکے متعلق فرمایا ہردس مشکوں میں ایک مشک(زکوٰة )ہے[62]

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں شہدمیں دسواں حصہ زکوٰة ہے،امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،ابن حزم رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ شہدمیں زکوٰة نہیں ،امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شہدمیں زکوٰة کوضروری نہیں سمجھا،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اگر شہدکی مکھیاں عشری زمین میں ہوں توزکوٰة ہے بصورت دیگرنہیں ،کیونکہ شہدبھی اس آیت

 ۔۔۔وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۔۔۔۝۰۝۲۶۷ [63]

ترجمہ:اورجوکچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالاہے۔

کے عموم میں بھی شامل ہے،اس لئے راجح یہی ہے کہ شہدمیں زکوٰة واجب ہے کیونکہ مکھیاں زمین کی فصلوں سے ہی اسے حاصل کرکے شہدبناتی ہیں ۔

زکوٰة عشرکے مصارف

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں صدقات خرچ کرنے کی آٹھ جگہیں بیان فرمائی ہیں ۔

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۝۰ۭ فَرِیْضَةً مِّنَ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۶۰ [64]

ترجمہ:یہ صدقات تودراصل فقیروں اورمسکینوں کے لئے ہیں اوران لوگوں کے لئے جوصدقات کے کام پرمامورہوں اوران کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو،نیزیہ گردنوں کے چھڑانے اورقرضداروں کی مددکرنے میں اورراہ اللہ میں اورمسافرنوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں ،ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اوراللہ سب کچھ جاننے والااورداناوبیناہے۔

فُقَرَاۗءِ:سے مرا دوہ شخص ہے جواپنی معیشت کے لئے دوسرے کی مددکامحتاج ہو۔

مَسٰكِیْنِ: وہ لو گ ہیں جوعام حاجت مندوں کی نسبت زیادہ خستہ حال ہو۔

وَالْعٰمِلِیْنَ :زکوٰ ة وعشرجمع کرنے پرمامورلوگ خواہ اسے جمع کرنے والے ہوں یاتقسیم کرنے والے یااس کاحساب رکھنے والے کرنے والے لوگ۔غرض زکوٰة وعشرکے کسی بھی شعبہ میں کام کرنے والے ہوں ،امیرانہیں ان کے کام کی جتنی مزدوری دے ،لے سکتے ہیں خواہ وہ غنی ہوں کیونکہ یہ ان کے کام کی مزدوری ہے۔

وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ: کے معنیٰ ہیں دل موہنا۔اس حکم سے مقصودیہ ہے کہ جولوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اورمال دے کران کے جوش عداوت کوٹھنڈاکیا جاسکتا ہو یاجولوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگرمال سے انہیں توڑاجائے توٹوٹ کرمسلمانوں کے مددگاربن سکتے ہوں یاجولوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اوران کی کمزوریوں کودیکھتے ہوئے اندیشہ ہوکہ اگرمال سے ان کی مددنہ کی گئی توپھرکفرکی طرف پلٹ جائیں گے،ایسے لوگوں کومستقل وظائف یاوقتی عطیے دے کراسلام کاحامی ومددگار یامطیع وفرماں برداریاکم ازکم بے ضرردشمن بنالیاجائے۔

وَفِی الرِّقَابِ: سے مرادغلاموں کوآزادکراناہے،خواہ ان کی پوری قیمت ان کے مالکوں کواداکرکے آزادکروایاجائے یامکاتبت یعنی(قسطوں میں اپنی قیمت اداکرکے آزادکردئیے جانے کامعاہدہ)کی صورت میں قسطوں کی ادائیگی میں مددکی جائے۔وہ مسلمان جوکفارکی قیدمیں ہوں ان کافدیہ بھی وَفِی الرِّقَابِ میں آتاہے،اسی طرح اگرکوئی بے گناہ مسلمان قیدہے تواسے قیدسے چھڑوانے میں خرچ کرنا بھی وَفِی الرِّقَابِ میں داخل ہے۔

وَالْغٰرِمِیْنَ: سے مرادوہ مقروض ہیں جن پراتناقرض چڑھ گیاہوجس کے اداکرنے کی سکت ان میں نہ ہو،ان کی تین قسمیں ہیں ،ایک وہ جنہوں نے اپنی ذاتی ضرورتوں یا کاروبارکے لئے قرض لیاہومگراداکرنے کے قابل نہ رہے سکے،دوسرے وہ جن کے مال کسی ناگہانی آفت مثلاًسیلاب آجانے یاآگ لگنے یاچوری ہوجانے سے برباد ہوگئے اوروہ قرض کے بوجھ تلے دب گئے،تیسرے وہ جنہوں نے صلح کروانے کے لئے کسی رقم یادیت وغیرہ کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھالی یاکسی مقروض کی ضمانت دی جس پرانہیں تاوان پڑگیا۔ان تمام صورتوں میں زکوٰة خرچ کی جاسکتی ہےبشرطیکہ اس نے وہ قرض کسی گناہ کے کام کے لئے نہ لیاہو۔ہاں توبہ کرلے تواسکی اعانت کی جائے گی۔اگرکوئی شخص مقروض فوت ہوجائے اورقرض اداکرنے کے لئے کچھ نہ چھوڑے توزکوٰة کی مدسے اس کاقرض اداکیاجاسکتاہے۔

وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: کالفظ عام ہے،تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضاہواس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ،اس میں شک نہیں کہ پورااسلام ہی سبیل اللہ یعنی اللہ کاراستہ ہے اس لئے علماء کے ایک گروہ نے یہ رائے ظاہرکی ہے کہ اس حکم کی روسے زکوٰة کامال ہرقسم کے نیک کاموں میں صرف کیاجاسکتاہے ،مگراس مقام پراسے نیکی کاہرکام مراد نہیں ، ورنہ فقراء ،مساکین وغیرہ کوالگ ذکرکرنے کی ضرورت نہیں تھی وہ سب بھی فی سبیل اللہ ہیں ،اس لئے بڑی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہدجس سے مقصود نظام کفرکومٹانااوراس کی جگہ نظام اسلامی کوقائم کرناہو۔

قرآن مجیداورحدیث میں سبیل اللہ کالفظ یاتوعام معنیٰ میں آیاہے جس سے مراداسلام اوراللہ کی رضاکاراستہ ہے یاپھرجہادفی سبیل اللہ جیسے قرآن مجیدمیں ہے ۔

لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ۔۔۔ ۝۲۷۳ۧ          [65]

ترجمہ:خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔

اسی طرح اس آیت میں بھی جہادمرادہے

 وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ۔۔۔ ۝۱۹۵  [66]

ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرواوراپنے ہاتھوں اپنے آپ کوہلاکت میں نہ ڈالو۔

جیسے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صراحت فرمائی[67]

ا ور خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:

وَأَمَّا خَالِدٌ فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِی سَبِیلِ اللهِ

خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اورجنگی سازوسامان اورگھوڑے سب فی سبیل اللہ وقف کر دیے ہیں ۔[68]

اس لئے مفسرین نے یہاں فی سبیل اللہ سے مرادجہادوقتال ہی لیاہے۔

چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

وَهُمُ الْغُزَاةُ وَمَوْضِعُ الرِّبَاطِ، یُعْطَوْنَ مَا یُنْفِقُونَ فِی غَزْوِهِمْ كَانُوا أَغْنِیَاءَ أَوْ فُقَرَاءَ. وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ، وَهُوَ تَحْصِیلُ مَذْهَبِ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللهُ

اس سے مرادلڑنے والے ہیں لڑائی میں خرچ کردہ مال انہیں دیا جائے گا اگرچہ اہل ثروت ہوں یا فقراء ، اوراکثرعلماء کاقول یہی ہے اورامام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کاحاصل بھی یہی ہے۔[69]

ہدایة ا لمجتہد میں ہے۔

وَأَمَّا فِی سَبِیلِ اللهِ: فَقَالَ مَالِكٌ: سَبِیلُ اللهِ مَوَاضِعُ الْجِهَادِ وَالرِّبَاطِ وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِیفَةَ. وَقَالَ الشَّافِعِیُّ: هُوَ الْغَازِی جَارُ الصَّدَقَةِ

فی سبیل اللہ کے متعلق مالک رحمہ اللہ نے فرمایااس سے مرادجہاداوررباط(دشمن کے مقابلے میں چھاونی ڈال کربیٹھنے)کی جگہیں ہیں ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایااورشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا اس سے مرادوہ غازی ہے جواس صدقہ کے پڑوس میں ہو۔

معالم میں ہے۔

أَرَادَ بِهَا الْغُزَاةَ فَلَهُمْ سَهْمٌ مِنَ الصَّدَقَةِ

اس سے مرادغازی لئے ہیں ان کے لئے صدقہ کاایک حصہ ہے۔[70]

ابن جریرطبری نے اپنی تفسیرمیں لکھا ۔

فَإِنَّهُ یَعْنِی: وَفِی النَّفَقَةِ فِی نُصْرَةِ دِینِ اللهِ وَطَرِیقِهِ وَشَرِیعَتِهِ الَّتِی شَرَعَهَا لِعِبَادِهِ بِقِتَالِ أَعْدَائِهِ، وَذَلِكَ هُوَ غَزْوُ الْكُفَّارِ

فی سبیل اللہ سے مراداللہ کے دین ،اس کے راستے اوراس کی شریعت میں خرچ کرناہے جواس نے اپنے بندوں کے لئے اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لئے مقرر فرمائی ہے اوروہ کفارسے جنگ ہے۔[71]

فی سبیل اللہ کی تفسیرمیں ابن کثیرنے فرمایا۔

فَمِنْهُمُ الْغُزَاةُ الَّذِینَ لَا حَقَّ لَهُمْ فِی الدِّیوَانِ

ا ن میں وہ غازی بھی شامل ہیں جن کادیوان میں حصہ نہیں ہے۔[72]

ابن کثیر نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ذکرکیاہے کہ فی سبیل اللہ میں حج کرنے والے بھی شامل ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراداسلام کی سربلندی کے لئے جہادوقتال کرنے والے لوگ ہیں اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جوکسی بھی طرح دنیامیں اسلام کوغالب اور کفرکومغلوب کرنے کی کوشش کررہے ہیں خواہ وہ دلیل وبرہان کے ساتھ ہویاہاتھ اورزبان کے ساتھ،البتہ اس مدکااولین مصداق وہی لوگ ہیں جوکفارسے لڑائی میں مصروف ہیں یاکفارکے خلاف لڑائی کے کسی بھی شعبہ میں شریک ہیں ۔

فائدہ:غاز ی فی سبیل اللہ کوصدقات میں سے دینے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ فقیریامسکین ہوبلکہ غنی کوبھی دیاجاسکتاہے۔

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِیٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِغَازٍ فِی سَبِیلِ اللهِ

عطابن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاپانچ آدمیوں کے علاوہ کسی غنی کے لئے صدقہ حلال نہیں جن میں پہلااللہ کی راہ میں لڑنے والاہے۔[73]

وَابْنِ السَّبِیْلِ :بعض اہل علم کے مطابق اس سے مرادوہ مسافرہے جواگرچہ اپنے وطن میں غنی ہے مگرسفرمیں اس کے پاس خرچ ختم ہوگیاہے اوراس کے لئے گھرپہنچنا مشکل ہوگیاہے ،ایسے مسافرپرزکوٰة خرچ کرناجائزہے ،الفاظ کے عموم اورلفظ (فی)کومدنظررکھیں تومسافروں کے لئے ہرقسم کی ضروریات مثلاًسڑکوں اورآرام گاہوں اور پانی وغیرہ کے انتظام پرصدقات کی اس مدمیں سے خرچ کیاجاسکتاہے اسے صرف ان مسافروں کے ساتھ خاص کرناجودوران سفرفقیرکے حکم میں ہوں لفظ کے عموم کو بلادلیل محدود کرناہے ۔

 زکوٰة وعشرکے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔

یہ بات یادرہنی چاہیے کہ زکوٰة وعشراداکردینے کے بعدبھی آدمی کے مال میں کچھ حقوق باقی رہتے ہیں جن کاادا کرناضر وری ہے مثلاًگرکسی شخص کے پاس مال ہے اوراس کے والدین ضرورت مندہیں تواس پران کی ضروریات پوری کرنافرض ہے اسی طرح مہمان کی ضیافت فرض ہےوہ یہ نہیں کہہ سکتاکہ میں زکوٰة اداکرچکاہوں اس لئے مجھ پروالدین کی خدمت یامہمان کی مہمان نوازی لازم نہیں ہے ،والدین کے علاوہ رشتہ داروں ،مسکینوں ،یتیموں کے حقوق کاخیال رکھنابھی ضروری ہے۔اگرآپ کاہمسایہ بھوکاہے اوراس کے پاس مال موجودہے تواس کے سیرہوکرکھاناجائزنہیں خواہ وہ زکوٰة اداکرہی چکاہو۔کفارسے لڑائی کے وقت اگرمجاہدین کوضرورت ہوتواسے پوراکرناہراس مسلمان پرلازم ہے جواس کی استطاعت رکھتاہو۔مال مویشیوں والے لوگوں پرزکوٰة کے علاوہ حاجتمندوں کوکچھ نہ کچھ دودھ وغیرہ دے دینابھی ان کے مال میں اللہ کاحق ہے،باغات اورفصلوں میں سے آنے جانے والوں اورمساکین کوکچھ نہ کچھ دے دینااللہ کاحق ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک باغ والوں کاقصہ ذکرفرمایاہے جومساکین کوکچھ دینے سے بخل کرتے ہوئے علی الصبح پھل توڑنے کے ارادے سے چلے،دیکھاتواللہ تعالیٰ نے آسمانی آفت کے ذریعے پہلے ہی ساراباغ نیست ونابودکردیاتھا(القلم۱۶تا۳۳)اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی کھجوروں کے پھلوں میں سے ایک آدھ خوشہ مسجدمیں لاکرلٹکادیتے تھے تاکہ فقراء مہاجرین تازہ پھل کھالیں ۔اس لئے ہمیں زکوٰة وعشراداکرنے کے بعدبھی اللہ کی راہ میں اپنامال خرچ کرتے رہناچاہیے،کیونکہ ہماراحقیقی مال وہی ہے جوہم نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیااورہم جوکچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اس سے ہمارے مال میں دنیامیں اضافہ ہوگااورآخرت میں بھی وہ ہمارے لئے ذخیرہ بنے گا۔

نوٹ۔بعض لوگوں نے مختلف مہینوں مثلاًشعبا ن المعظم،رمضان المبارک کوزکوٰة کے مہینے سمجھ رکھاہے جوکہ بلادلیل اورناجائزہے،حقیقت تویہ ہے کہ جب کسی کے پاس مال زکوٰة نصاب کوپہنچ جائے اوراس پرسال گزرجائے توجس ماہ میں زکوٰة کانصاب مکمل ہواتھااسی میں زکوٰة اداہوگی اورہرشخص کواس کاریکارڈ رکھناضروری ہے،اس میں یہ حکمت ہے کہ معاشرے میں ضرورت مندزکوٰة کے مستحقین کاسرکل بھی ساراسال چلتارہے۔

 عمرو رضی اللہ عنہ بن عبسہ سلمی کی مدینہ میں آمد

مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد عمرو رضی اللہ عنہ بن عبسہ نے عرض کیاتھا کہ وہ آپ کے ساتھ رہیں

قَالَ:إِنَّكَ لَا تَسْتَطِیعُ ذَلِكَ یَوْمَكَ هَذَا، أَلَا تَرَى حَالِی وَحَالَ النَّاسِ، وَلَكِنِ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَإِذَا سَمِعْتَ بِی قَدْ ظَهَرْتُ فَأْتِنِی

اس وقت آپ ﷺنے فرمایا تھا اس پرآشوب زمانے میں تم ایسانہیں کر سکتے کیا آپ میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھ رہے، ہاں جب تم سنوکہ میں ظاہر ہو گیا ہوں تومجھ سے آملنا، ابھی اپنے اہل وعیال کی طرف چلے جاؤ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں آگئے ،عمرو رضی اللہ عنہ بن عبسہ کہتے ہیں میں اپنے گھروالوں میں ہی تھا ،اور لوگوں سے رسول اللہ ﷺکے بارے میں خبریں لیتارہتاتھااورپوچھتارہتاتھایہاں تک کہ مدینہ منورہ والوں سے میری طرف کچھ لوگ آئے

فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی قَدِمَ الْمَدِینَةَ؟ فَقَالُوا النَّاسُ: إِلَیْهِ سِرَاعٌ وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ یَسْتَطِیعُوا ذَلِكَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِینَةَ فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ:نَعَمْ، أَنْتَ الَّذِی لَقِیتَنِی بِمَكَّةَ، قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى

میں نے ان سے دریافت کیاکہ اس طرح کے جوآدمی مدینہ منورہ میں آئے ہیں اس نے کیا کیا ہے؟انہوں نے کہالوگ ان کی طرف دوڑرہے ہیں (یعنی بڑی تیزی سے ان پرایمان لارہے ہیں )ان کی قوم کے لوگ انہیں قتل کرناچاہتے ہیں لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے،یہ تسلی بخش جواب سنکر عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کرعرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!کیاآپ مجھے پہچانتے ہیں ؟رسول اللہ ﷺنے فرمایاہاں تم وہی ہو جس نے مکہ میں مجھ سے ملاقات کی تھی،میں نے عرض کیاجی ہاں ،

فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ أَخْبِرْنِی عَمَّا عَلَّمَكَ اللهُ وَأَجْهَلُهُ، أَخْبِرْنِی عَنِ الصَّلَاةِ،قَالَ:صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِینَ تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ،ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى یَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ حِینَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَیْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّیَ الْعَصْرَ،ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ

پھرعرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!جواللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے مجھے اس کی خبر دیجئے اورمیں اس سے جاہل ہوں ،مجھے نمازکے بارے میں بھی خبر دیجئے (چنانچہ رسول اللہ ﷺنے نمازکی یوں تعلیم فرمائی)صبح کی نمازپڑھو، پھرنمازسے رکے رہویہاں تک کہ سورج نکل کربلندہوجائے کیونکہ جب سورج نکلتاہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتاہے اورکفاراس وقت اسے سجدہ کرتے ہیں ،پھر نمازپڑھو،کیونکہ اس وقت کی نمازکی گواہی فرشتے دیں گے اورحاضرہوں گے یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابرہوجائے،پھرنمازسے رکے رہوکیونکہ اس وقت جہنم جھونکی جاتی ہے،پھرجب سایہ آجائے تونمازپڑھو کیونکہ اس وقت کی نمازکی فرشتے گواہی دیں گے اورحاضرکیے جائیں گے ،یہاں تک کہ تم عصرکی نمازپڑھو، پھرسورج کے غروب ہونے تک نمازسے رکے رہو کیونکہ یہ شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے ،اوراس وقت کفاراس کوسجدہ کرتے ہیں ،

فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ فَالْوُضُوءَ، قَالَ:مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ یُقَرِّبُ وَضُوءَهُ فَیَتَمَضْمَضُ، وَیَسْتَنْشِقُ فَیَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا وَجْهِهِ، وَفِیهِ وَخَیَاشِیمِهِ،ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللهُ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْهِ إِلَى الْمِرْفَقَیْنِ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا یَدَیْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ،ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَهُ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ،ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْهِ إِلَى الْكَعْبَیْنِ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا رِجْلَیْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ،فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِی هُوَ لَهُ أَهْلٌ، وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ، إِلَّا انْصَرَفَ مِنْ خَطِیئَتِهِ كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

میں نے پھرعرض کیااے اللہ کے نبی ﷺ!وضوکے بارے میں بھی بتائیے،آپ ﷺنے فرمایاکہ تم میں سے کوئی آدمی بھی ایسانہیں جووضوکے پانی کی کلی کرے اورپانی ناک میں ڈالے اورناک صاف کرے مگریہ کہ اس کے منہ اورنتھنوں کے سارے گناہ جھڑجاتے ہیں ، پھرجب وہ منہ دھوتاہے جس طرح اللہ نے اسے حکم د یاہے تواس کے چہرے کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں کے ساتھ لگ کرپانی کے ساتھ گرجاتے ہیں ،پھرجب وہ اپنے پاوں ٹخنوں تک دھوتاہے تودونوں پاوں کے گناہ انگلیوں کے پوروں کی طرف سے پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں ،جب وہ اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوتاہے تواس کے دونوں ہاتھوں کے گناہ اس کے انگلیوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں ، پھرسرکامسح کرتاہے تواس کے سرکے گناہ اس کی بالوں کی نوکوں سے پانی کے ساتھ جھڑجاتے ہیں ، پھراپنے دونوں پیروں کوٹخنوں تک دھوتاہے تواس کے پیروں کے گناہ انگلیوں کی پیروں سے پانی کے ساتھ جھڑجاتے ہیں ،اگروہ کھڑے ہوکرنمازپڑھے اوراللہ کی حمدوثنااوراس کی بزرگی اس کے شایان شان بیان کرے اوراپنے دل کوخالص اللہ کے لئے فارغ کرلے تووہ آدمی اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجاتاہے جس طرح کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جناہے۔[74]

 أسلم قدیماً بمكة ثم رجع إلى بلاده، فأقام بها إلى أن هاجر بعد خیبر، وقبل فتح مكة، فشهده

ا ہل سیرکابیان ہے شروع ہی میں ایمان لے آئے اور اس کے اپنے شہر چلے گئے اور یہیں انہوں نےمستقل سکونت اختیارکرلی،انہوں نے فتح مکہ اورغزوہ طائف میں رسول اللہ ﷺکی ہمرکابی کاشرف حاصل کیا۔[75]

ان کی سال وفات کے بارے میں یقینی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتاالبتہ بعض ارباب سیرکہتے ہیں

مات فی أواخر خلافة عثمان

انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ذوالنورین کے عہد خلافت کے آخرمیں کسی وقت وفات پائی۔[76]

[1] شرح معانی والآثار ۱۱۶،البر والصلة للحسن بن حرب ۲۳۹،۱۲۳؍۱،مستدرک حاکم۷۳۰۷

[2] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ فَضْلِ عِیَادَةِ الْمَرِیضِ۶۵۵۶

[3] الانبیائ۷۲،۷۳

[4] مریم۵۴،۵۵

[5] البقرہ۴۳

[6] البقرة۸۳

[7] البینة۵

[8] مریم۳۰،۳۱

[9] البقرة۱۷۷

[10] البقرة۲۷۷

[11] النسائ۱۶۲

[12] المائدة۵۵

[13] التوبة۷۱

[14] المومنون۶۰

[15] النور۳۷

[16] البقرة۱۷۷

[17] البقرة۲۷۷

[18] المائدہ۱۲

[19] الاعراف۱۵۶

[20] التوبة۵

[21] الروم۳۹

[22] لقمان۳تا۵

[23] حم السجدة۶،۷

[24] المعارج۲۴،۲۵

[25] صحیح بخاری کتاب الز کوٰةبَابُ زَكَاةِ البَقَرِ ۱۴۶۰،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ۲۲۹۰،جامع ترمذی ابواب الزکاة بَابُ مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَنْعِ الزَّكَاةِ مِنَ التَّشْدِیدِ۶۱۷

[26] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ۲۲۹۰

[27] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ زَكَاةِ الوَرِقِ۱۴۴۷،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابُ مَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ۱۵۵۸

[28] سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابٌ فِی زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۵۷۲، جامع ترمذی ابواب الزکوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی زَكَاةِ البَقَرِ۶۲۲ ، سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ زَكَاةِ الْبَقَرِ۲۴۵۲،سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰةبَابُ صَدَقَةِ الْبَقَرِ۱۸۰۳،مسنداحمد۲۲۰۱۳

[29] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابٌ مَا كَانَ مِنْ خَلِیطَیْنِ، فَإِنَّهُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَهُمَا بِالسَّوِیَّةِ

[30] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ زَكَاةِ الغَنَمِ عن انس ۱۴۵۴

[31] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب لاتوخذفی الصدقة ھرمة ولاذات عوارولاتیس الاماشاءالمصدق۱۴۵۵

[32] صحیح بخاری کتاب الزکوٰةبَابٌ لاَ تُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ، وَلاَ تَیْسٌ، إِلَّا مَا شَاءَ المُصَدِّقُ۱۴۵۵

[33] سنن ابوداود کتاب الزکوٰة بَابٌ فِی زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۵۸۳

[34] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ وقول اللہ تعالی۱۴۰۳

[35] التوبة ۳۴،۳۵

[36] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ زَكَاةِ الوَرِقِ۱۴۴۷،وبَابٌ لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ۱۴۵۹

[37] سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابٌ فِی زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۵۷۳

[38] تاریخ ابن خلدون ۳۲۵؍۱

[39] مغنی المحتاج ۹۳؍۲

[40] المحلی بالآثار ۵۳؍۴

[41] البقرة ۲۶۷

[42] القواعد النورانیة الفقھیة لابن تیمیة ۱۳۴؍۱

[43] الانعام ۱۴۱

[44] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ العُشْرِ فِیمَا یُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِی ۱۴۸۳،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابُ صَدَقَةِ الزَّرْعِ۱۵۹۶،جامع ترمذی ابواب الزکوٰہ بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ فِیمَا یُسْقَى بِالأَنْهَارِ وَغَیْرِهَا۶۳۹،سنن نسائی کتاب الزلوٰةبَابُ مَا یُوجِبُ الْعُشْرَ وَمَا یُوجِبُ نِصْفَ الْعُشْرِ ۲۴۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰہ بَابُ صَدَقَةِ الزُّرُوعِ وَالثِّمَارِ ۱۸۱۷

[45] المغنی ۹؍۳،بدائع الصنائع ۵۴؍۲

[46] مستدرک حاکم ۱۴۵۹،سنن الدار قطنی ۴۸۲؍۲ ، معرفة السنن والآثار ۱۱۵؍۶

[47] سنن ابن ماجہ کتاب الزکاة بَابُ مَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ مِنَ الْأَمْوَالِ۱۸۱۵

[48]سنن ابن ماجہ کتاب الزکاة بَابُ مَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ مِنَ الْأَمْوَالِ۱۸۱۵

[49] المغنی ۴؍۳

[50] سنن الدارقطنی ۱۹۱۹

[51] تلخیص الحبیر۳۲۱؍۲

[52] سنن الدارقطنی ۱۹۱۵ ،مستدرک حاکم۱۴۵۸،معرفة السنن والآثار۸۱۹۴

[53] تلخیص الحبیر۳۲۱؍۲

[54] البقرة ۲۶۷

[55] صحیح بخاری کتاب الزکاةبَابُ العُشْرِ فِیمَا یُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِی۱۴۸۳ ،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابُ صَدَقَةِ الزَّرْعِ ۱۵۹۶

[56] فقہ الزکاة۳۵۵؍۱

[57]صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابٌ لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ۱۴۸۴، وبَابُ زَكَاةِ الوَرِقِ۱۴۴۷،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ باب لیس فیمادون خمسة اوسق صدقة ۲۲۶۳،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابُ مَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ۱۵۵۸،جامع ترمذی ابواب الزکوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَدَقَةِ الزَّرْعِ وَالتَّمْرِ وَالحُبُوبِ ۶۲۶،سنن نسائی کتاب الزکوٰة باب زَكَاةِ الْحِنْطَةِ۲۴۸۶ ،سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰة بَابُ مَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ مِنَ الْأَمْوَالِ ۱۷۹۳،موطاامام مالک کتاب الزکوٰةمَا تَجِبُ فِیهِ الزَّكَاةُ،مسنداحمد۱۱۷۰۷ ابن حزم رحمہ اللہ المحلی بالآ ثار۶۰؍۴

[58] نیل الاوطار۱۶۸؍۴

[59] المغنی لابن قدامہ۳؍۳

[60] سنن ابن ماجہ کتاب الزکاة بَابُ زَكَاةِ الْعَسَلِ ۱۸۲۴

[61]سنن ابن ماجہ کتاب الزکاة بَابُ زَكَاةِ الْعَسَلِ ۱۸۲۳، مسند احمد۱۸۲۴،السنن الکبری للبیہقی۷۴۵۸

[62]۔جامع ترمذی کتاب الزکاة بَابُ مَا جَاءَ فِی زَكَاةِ العَسَلِ۶۲۹

[63] البقرة ۲۶۷

[64] التوبة ۶۰

[65] البقرة ۲۷۳

[66]البقرة ۱۹۵

[67] سنن ابوداود،جامع ترمذی،سنن نسائی

[68] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ العَرْضِ فِی الزَّكَاةِ

[69] تفسیرالقرطبی۱۸۵؍۸

[70] مختصرتفسیرالبغوی۳۸۱؍۴

[71] تفسیرطبری ۵۲۷؍۱۱

[72] تفسیرابن کثیر۱۶۹؍۴

[73] سنن ابوداود کتاب الزکوٰة بَابُ مَنْ یَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِیٌّ ۱۶۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰة بَابُ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ۱۸۴۱

[74] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ۱۹۳۰

[75] الاصابة فی تمیزالاصحابة ۵۴۵؍۴

[76] الاصابة فی تمییز الصحابة ۵۴۷؍۴

Related Articles