ہجرت نبوی کا پہلا سال

سلیمان رضی اللہ عنہ (فارسی) کاقبول اسلام

ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنی کہانی خوداس طرح بیان کی

 كُنْتُ رَجُلًا فَارِسِیًّا مِنْ أَهْلِ أَصْبَهَانَ مِنْ قَرْیَةٍ یُقَالُ لَهَا جَیُّ ، وَكَانَ أَبِی دِهْقَانَ قَرْیَتِهِ، وَكُنْتُ أَحَبَّ خَلْقِ اللهِ إلَیْهِ، لَمْ یَزَلْ بِهِ حُبُّهُ إیَّایَ حَتَّى حَبَسَنِی فِی بَیْتِهِ كَمَا تُحْبَسُ الْجَارِیَةُ، وَاجْتَهَدْتُ فِی الْمَجُوسِیَّةِ حَتَّى كُنْتُ قَطْنَ النَّارِالَّذِی یُوقِدُهَا، لَا یَتْرُكُهَا تَخْبُو سَاعَةً،قَالَ: وَكَانَتْ لِأَبِی ضَیْعَةٌ عَظِیمَةٌ، فَشُغِلَ فِی بُنْیَانٍ لَهُ یَوْمًا، فَقَالَ لِی: یَا بُنَیَّ، إنِّی قَدْ شُغِلْتُ فِی بُنْیَانِی هَذَا الْیَوْمَ عَنْ ضَیْعَتِی، فَاذْهَبْ إلَیْهَا فَاطَّلَعَهَا. وَأَمَرَنِی فِیهَا بِبَعْضِ مَا یُرِیدُ، ثُمَّ قَالَ لِی: وَلَا تَحْتَبِسُ عَنِّی فَإِنَّكَ إنْ احْتَبَسْتَ عَنِّی كُنْتُ أَهَمَّ إلَیَّ مِنْ ضَیْعَتِی، وَشَغَلَتْنِی عَنْ كُلِّ شَیْءٍ مِنْ أَمْرِی

ہم ملک فارس کے شہراصفہان کے مضافات میں قصبہ جئی کے رہنے والے تھے،میرے والدزمین داراورقوم کانمبردارتھا،اسے مجھ سے بڑی محبت تھی اوراپنی محبت کی وجہ سے مجھے گھرسے باہرنہیں جانے دیاجاتاتھا،میں اپنے مجوسی مذہب میں اتنامتشددتھاکہ ایک آتش کدے کامجاوربن گیااورجلتی ہوئی آگ کوکبھی بجھنے نہیں دیتاتھاایک دفعہ ایک مکان کی تعمیرکے سلسلہ میں میراباپ کھیتوں میں نہ جاسکااس نے مجھ سے کہااے سلمان !میں یہاں مصروف ہوں تم کھیتوں میں جاؤاور ان کی مناسب دیکھ بھال کرواورمجھے کچھ اورکام بتلاکرکہاتاکیدکی کہ زیادہ دیرمت کرناورنہ مجھے تکلیف ہوگی اورمجھے اپنی زمینوں کھیتوں سے زیادہ تمہاری فکرلاحق ہوگی اور مجھے سارے کام چھوڑکرتمہاری تلاش میں نکلناپڑے گا

قَالَ: فَخَرَجْتُ أُرِیدُ ضَیْعَتَهُ الَّتِی بَعَثَنِی إلَیْهَا، فَمَرَرْتُ بِكَنِیسَةٍ مِنْ كَنَائِسِ النَّصَارَى، فَسَمِعْتُ أَصْوَاتَهُمْ فِیهَا وَهُمْ یُصَلُّونَ، وَكُنْتُ لَا أَدْرِی مَا أَمْرُ النَّاسِ، لِحَبْسِ أَبِی إیَّایَ فِی بَیْتِهِ، فَلَمَّا سَمِعْتُ أَصْوَاتَهُمْ دَخَلْتُ عَلَیْهِمْ أَنْظُرُ مَا یَصْنَعُونَ، فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ أَعْجَبَتْنِی صَلَاتُهُمْ وَرَغِبْتُ فِی أَمْرِهِمْ وَقُلْتُ: هَذَا وَاَللَّهِ خَیْرٌ مِنْ الدِّینِ الَّذِی نَحن عَلَیْهِ، فو الله مَا بَرِحْتُهُمْ حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ، وَتَرَكْتُ ضَیْعَةَ أَبِی فَلَمْ آتِهَا

اللہ کاکرنایہ ہواکہ کھیتوں پرجاتے ہوئے میراگزرایک گرجے کے پاس سے ہواجواس وقت نمازپڑھ رہے تھے اوران کے پڑھنے کی اونچی اونچی آوازیں آرہی تھیں ، ہروقت گھرمیں محبوس رہنے کی وجہ سے میں دوسرے مذاہب سے ناواقف تھا، تجسس میں گرجاکے اندرچلاگیاکہ دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں ، جب میں نے انہیں نمازپڑھتے دیکھاتومجھے ان کاطریقہ عبادت بہت پسندآیااورمیں نے دل میں خیال کیاکہ ان کادین ہمارے دین سے عمدہ ہے،شام تک میں وہیں کھڑا ان کی عبادت کاطریقہ دیکھتارہااورکھیتوں کی دیکھ بھال کے لئے نہ جاسکا،

 ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: أَیْنَ أَصْلُ هَذَا الدِّینِ؟قَالُوا: بِالشَّامِ، فَرَجَعْتُ إلَى أَبِی، وَقَدْ بَعَثَ فِی طَلَبِی، وَشَغَلْتُهُ عَنْ عَمَلِهِ كُلِّهِ، فَلَمَّا جِئْتُهُ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ أَیْنَ كُنْتَ؟ أَوَلَمْ أَكُنْ عَهِدْتُ إلَیْكَ مَا عَهِدْتُ؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: یَا أَبَتِ، مَرَرْتُ بِأُنَاسٍ یُصَلُّونَ فِی كَنِیسَةٍ لَهُمْ، فَأَعْجَبَنِی مَا رَأَیْتُ من دینهم، فو الله مَا زِلْتُ عِنْدَهُمْ حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ،قَالَ: أَیْ بُنَیَّ، لَیْسَ فِی ذَلِكَ الدِّینِ خَیْرٌ، دِینُكَ وَدِینُ آبَائِكَ خَیْرٌ مِنْهُ،قَالَ: قُلْتُ لَهُ: كَلَّا وَاَللَّهِ، إنَّهُ لَخَیْرٌ مِنْ دِینِنَاقَالَ:فَخَافَنِی، فَجَعَلَ فِی رِجْلِی قَیْدًا، ثُمَّ حَبَسَنِی فِی بَیْتِهِ

میں نے ان لوگوں سے پوچھاتمہارے دین کامرکزی مقام کہاں ہے اوراس کی تعلیم کہاں سے شروع ہوتی ہے ؟انہوں نے کہااس دین کامرکزی مقام ملک شام ہے جہاں سے یہ چشمہ پھوٹاہے،یہ ساری معلومات کرکے شام کے وقت گھرلوٹاتوپتہ چلا میرے دیرسے آنے کی وجہ سے میرے والد پریشان ہیں اور میری تلاش میں آدمی بھیجے ہوئے ہیں ،میں ان کے پاس پہنچاتوانہوں نے پوچھابیٹااتنی دیرتم کہاں رہے؟کیامیں نے تمہیں جلدی واپس گھرآنے کی تاکید نہیں کی تھی،میں نے کہااباجان !میں کھیتوں پرجاتے ہوئے ایک گرجاکے پاس سے گزراوہ اس وقت نمازپڑھ رہے تھےمجھے ان کی عبادت کایہ طریقہ بہت پسندآیااورمیں سارادن وہیں کھڑاان کودیکھتارہا،میرے والدنے کہابیٹاان کادین تمہارے آباؤاجدادکے دین سے اچھانہیں ہے،میں نے کہانہیں ابا جان واللہ! ان کا دین ہمارے دین سے اچھا ہے، میری دوٹوک رائے سن کرمیرے والدکومیرے بارے میں خطرہ لاحق ہوگیااورانہوں نے میرے پاؤں میں زنجیرڈال کرگھر میں ایک طرف ڈال دیا۔

 اصفہان سے شام کی طرف بھاگ جانا:

قَالَ: وَبَعَثْتُ إلَى النَّصَارَى فَقُلْتُ لَهُمْ: إذَا قَدِمَ عَلَیْكُمْ رَكْبٌ مِنْ الشَّامِ فَأَخْبَرُونِی بِهِمْ،قَالَ: فَقَدِمَ عَلَیْهِمْ رَكْبٌ مِنْ الشَّامِ تُجَّارٌ مِنْ النَّصَارَى، فَأَخْبَرُونِی بِهِمْ فَقُلْتُ لَهُمْ: إذَا قَضَوْا حَوَائِجَهُمْ، وَأَرَادُوا الرَّجْعَةَ إلَى بِلَادِهِمْ، فَآذَنُونِی بِهِمْ. قَالَ: فَلَمَّا أَرَادُوا الرَّجْعَةَ إلَى بِلَادِهِمْ أَخْبَرُونِی بِهِمْ،فَأَلْقَیْتُ الْحَدِیدَ مِنْ رِجْلَیَّ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ،فَلَمَّا قَدِمْتُهَا، قُلْتُ: مَنْ أَفَضْلُ أَهْلُ هَذَا الدِّینِ عِلْمًا؟قَالُوا: الْأُسْقُفُ فِی الْكَنِیسَةِ

میں نے کسی نہ کسی طورپرنصرانیوں کوپیغام بھیجاکہ جب تمہارے پاس شام کی طرف سے کوئی قافلہ آئے تومجھے اطلاع کردینا،کچھ عرصہ بعدایک قافلہ شام سے آیاتو انہوں نے مجھے اطلاع کردی،میں نے کہاجب قافلہ روانہ ہونے لگے توپھرمجھے اطلاع کریں ،چنانچہ میں نے کسی طرح اپنے پیرسے زنجیر کاٹی اورقافلہ کے ساتھ شام بھاگ گیا،شام پہنچ کرمیں نے دریافت کیاکہ اس دین کاسب سے بڑاعالم کون ہے ؟انہوں ایک گرجے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس کے اندر جو پادری ہیں وہ اس وقت سب سے بڑے عالم اورہمارے رہنماہیں ،

قَالَ فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ لَهُ: إنِّی قَدْ رَغِبْتُ فِی هَذَا الدِّینِ، فَأَحْبَبْتُ أَنَّ أَكُونَ مَعَكَ، وَأَخْدُمُكَ فِی كَنِیسَتِكَ، فَأَتَعَلَّمَ مِنْكَ، وَأُصَلِّیَ مَعَكَ،قَالَ: اُدْخُلْ، فَدَخَلْتُ مَعَهُ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلُ سَوْءٍ، یَأْمُرُهُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَیُرَغِّبُهُمْ فِیهَا، فَإِذَا جَمَعُوا إلَیْهِ شَیْئًا مِنْهَا اكْتَنَزَهُ لِنَفْسِهِ، وَلَمْ یُعْطِهِ الْمَسَاكِینَ، حَتَّى جَمَعَ سَبْعَ قِلَالٍ مِنْ ذَهَبٍ وَوَرِقٍ قَالَ: فَأَبْغَضْتُهُ بُغْضًا شَدِیدًا لِمَا رَأَیْتُهُ یَصْنَعُ ،ثُمَّ مَاتَ، فَاجْتَمَعَتْ إلَیْهِ النَّصَارَى لِیَدْفِنُوهُ،فَقُلْتُ لَهُمْ: إنَّ هَذَا كَانَ رَجُلَ سَوْءٍ، یَأْمُركُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَیُرَغِّبُكُمْ فِیهَا، فَإِذَا جِئْتُمُوهُ بِهَا، اكْتَنَزَهَا لِنَفْسِهِ، وَلَمْ یُعْطِ الْمَسَاكِینَ مِنْهَا شَیْئًا

میں نے گرجامیں داخل ہوکرپادری سے کہامجھے آپ کادین بہت پسندآیاہے میں چاہتاہوں کہ آپ کے ساتھ رہوں ، آپ کی خدمت بھی کروں اورعلم حاصل کرکے آپ کے ساتھ نمازاداکرسکوں ،اس نے اجازت دے دی اورمیں اس کے ساتھ گرجامیں رہنے لگا،مگر چندروزکے تجربہ کے بعد وہ پادری براآدمی ثابت ہواوہ بڑاحریص اورطامع تھا،وہ دوسرے لوگوں کو غریبوں ،محتاجوں ،بیواؤں وغیرہ کی خدمت پراکساتااورصدقات اورخیرات کاحکم دیتا مگر جب وہ صدقہ کرتے تووہ انہیں غریبوں ومساکین پرخرچ کرنے کے بجائے سارامال اپنی جیب میں ڈال لیتا،اس طرح اس نے ناجائز طریقوں سے اشرفیوں کے سات مٹکے بھر لئے، مجھے اس کایہ کرداردیکھ کراس سے نفرت ہوگئی اورمیں اس کوبراجاننے لگا،جب وہ مراتوعیسائی حسن عقیدت کے ساتھ اسی تجیزوتکفین کے لئے جمع ہوئے، تومیں نے انہیں کہایہ شخص بہت براآدمی تھایہ تمہیں غریبوں پرخرچ کرنے کے لئے صدقہ کاحکم دیتاتھامگران پرایک حبہ بھی خرچ کرنے کے بجائے ساراکاسااکاسارااپنی جیب میں ڈال لیتاتھا،

 قَالَ: فَقَالُوا لِی: وَمَا عِلْمُكَ بِذَلِكَ؟قَالَ: قُلْتُ لَهُمْ: أَنَا أَدُلُّكُمْ عَلَى كَنْزِهِ، قَالُوا: فَدُلَّنَا عَلَیْهِ، قَالَ: فَأَرَیْتُهُمْ مَوْضِعَهُ، فَاسْتَخْرَجُوا مِنْهُ سَبْعَ قِلَالٍ مَمْلُوءَةً ذَهَبًا وَوَرِقًا، قَالَ: فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا: وَاَللَّهِ لَا نَدْفِنُهُ أَبَدًا، قَالَ:فَصَلَبُوهُ، وَرَجَمُوهُ بِالْحِجَارَةِ، وَجَاءُوا بِرَجُلٍ آخَرَ، فَجَعَلُوهُ مَكَانَهُ قَالَ: یَقُولُ سَلْمَانُ: فَمَا رَأَیْتُ رَجُلًا لَا یُصَلِّی الْخَمْسَ، أَرَى أَنَّهُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْهُ (وَ) أَزْهَدَ فِی الدُّنْیَا، وَلَا أَرْغَبَ فِی الْآخِرَةِ، وَلَا أَدْأَبَ لَیْلًا وَنَهَارًا مِنْهُ،قَالَ: فَأَحْبَبْتُهُ حُبًّا لَمْ أُحِبَّهُ شَیْئًا قَبْلَهُ،

وہ لوگ بولے تمہارے پاس اس بات کاکیاثبوت ہے؟میں نے ان کووہ جگہ بتلائی جہاں اس کاخزانہ مدفون تھا،انہوں نے زمین کھودکرسونے چاندی سے بھرے ہوئے ساتوں مٹکے باہرنکال لئے،ثبوت ملنے کے بعدوہ کہنے لگے واللہ یہ شخص تودفن کرنے کے قابل نہیں ہے،چنانچہ انہوں نے اسے سولی پرچڑھاکرپتھروں سے سنگسار کیا ، پھراس پادری کی جگہ دوسراپادری آیاجوہرلحاظ سے پہلے پادری سے بہترتھا،میں نے دن رات اس سے زیادہ عبادت کرنے والا،دنیاسے بے رغبت اورآخرت کا شائق آدمی نہیں دیکھا، مجھے اس کے کردارکی وجہ سے اس سے بہت محبت ہوگئی جتنی اس سے پہلے کسی سے نہیں ہوئی تھی،

قَالَ: فَأَقَمْتُ مَعَهُ زَمَانًا طَوِیلًا، ثُمَّ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُفَقُلْتُ لَهُ: یَا فُلَانُ، إنِّی قَدْ كُنْتُ مَعَكَ وَأَحْبَبْتُكَ حُبًّا لَمْ أُحِبَّهُ شَیْئًا قَبْلَكَ، وَقَدْ حَضَرَكَ مَا تَرَى مِنْ أَمْرِ اللهِ تَعَالَى، فَإِلَى مَنْ تُوصِی بِی؟ وَبِمَ تَأْمُرُنِی؟قَالَ:أَیْ بُنَیَّ، وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُ الْیَوْمَ أَحَدًا عَلَى مَا كُنْتُ عَلَیْهِ، فَقَدْ هَلَكَ النَّاسُ، وَبَدَّلُوا وَتَرَكُوا أَكْثَرَ مَا كَانُوا عَلَیْهِ، إلَّا رَجُلًا بِالْمَوْصِلِ، وَهُوَ فُلَانٌ، وَهُوَ عَلَى مَا كُنْتُ عَلَیْهِ فَالْحَقْ بِهِ

میں ایک عرصہ تک اس پادری کے ساتھ رہاپھراس کو بھی موت نے آلیااس وقت میں نے اس سے پوچھامیں ایک مدت تک آپ کے ساتھ رہااورمجھے آپ سے اس قدرمحبت ہوگئی ہے جواورکسی سے نہیں ہوئی اب جبکہ آپ اس دنیا کو چھوڑکرآخرت کے سفرپرروانہ ہورہے ہیں مجھے کیاحکم دیتے ہیں اورکس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں اس نے کہابیٹا!واللہ آج میں کوئی ایساآدمی نہیں جانتا جوہمارے طریقے پر کاربندہو،لوگ بربادہوچکے ہیں ،انہوں دین حق کوبدل ڈالاہے اوراللہ تعالیٰ کے اکثراحکامات کوپس پشت ڈال دیاہے،ہاں موصل میں ایک اس نام کا پادری ہے وہ اسی طریقے پرعمل پیراہے جس پرمیں عمل کرتا رہا ہوں ،تم اس کے پاس چلے جاؤ۔

 موصل کے لاٹ پادری کے پاس :

قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ الْمَوْصِلِ ، فَقُلْتُ لَهُ: یَا فُلَانُ، إنَّ فُلَانًا أَوْصَانِی عِنْدَ مَوْتِهِ أَنْ أَلْحَقَ بِكَ، وَأَخْبَرَنِی أَنَّكَ عَلَى أَمْرِهِ، فَقَالَ لِی: أَقِمْ عِنْدِی، فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَوَجَدْتُهُ خَیْرَ رَجُلٍ عَلَى أَمْرِ صَاحِبِهِ، فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ مَاتَ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قُلْتُ لَهُ: یَا فُلَانُ، إنَّ فُلَانًا أَوْصَى بِی إلَیْكَ، وَأَمَرَنِی بِاللُّحُوقِ بِكَ، وَقَدْ حَضَرَكَ مِنْ أَمْرِ اللهِ مَا تَرَى، فَإِلَى مِنْ تُوصِی بِی؟ وَبِمَ تَأْمُرُنِی؟ قَالَ:یَا بُنَیَّ، وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا عَلَى مِثْلِ مَا كُنَّا عَلَیْهِ، إلَّا رَجُلًا بِنَصِیبِینَ ، وَهُوَ فُلَانٌ، فَالْحَقْ بِهِ

جب وہ فوت ہوگیااوراسے دفن کردیاگیاتومیں موصل میں اس پادری کے پاس چلاآیااوراسے ساری بات بتلائی ،اس نے اپنے ساتھ ٹھیرنے کی اجازت دے دی،واقعی وہ بہت اچھاآدمی تھااوراپنے دوست کے طریقے پرچلتاتھامگرکچھ ہی دنوں بعد اس کوبھی موت نے آخرت کامسافربنادیا،جب وہ مرنے لگاتومیں کہافلاں پادری نے مجھے آپ کے پاس آنے کی وصیت کی تھی اب جبکہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جارہے ہیں مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں اورکس بات کاحکم کرتے ہیں ،وہ پادری بولابیٹاواللہ میں کوئی ایساآدمی نہیں جانتاجوہماری طرح دین حق کاپابندہو،ہاں نصیبین میں فلاں آدمی ہے ۔

 نَصِیبِین کے لاٹ پادری کے پاس :

فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ نَصِیبِینَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِی، وَمَا أَمَرَنِی بِهِ صَاحِبُهُ، فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِی، فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ،فَوَجَدْتُهُ عَلَى أَمْرِ صَاحِبِیهِ. فَأَقَمْتُ مَعَ خیر رجل، فو الله مَا لَبِثَ أَنْ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ،فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَهُ: یَا فُلَانُ، إنَّ فُلَانًا كَانَ أَوْصَى بِی إلَى فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصَى بِی فُلَانٌ إلَیْكَ، قَالَ: فَإِلَى مَنْ تُوصِی بِی؟ وَبِمَ تَأْمُرُنِی؟قَالَ: یَا بُنَیَّ، وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِیَ أَحَدٌ عَلَى أَمْرِنَا آمُرُكَ أَنْ تَأْتِیَهُ إلَّا رَجُلًا بِعَمُورِیَّةَ مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَإِنَّهُ عَلَى مِثْلِ مَا نَحْنُ عَلَیْهِ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ فَأْتِهِ، فَإِنَّهُ عَلَى أَمْرِنَا

جب وہ مرگیااوردفن کردیاگیا تو میں نصیبین میں رہنے والے آدمی کے پاس آگیااورساراواقعہ سنایااورجوکچھ میرے استادنے حکم دیاتھاوہ اسے بتایااس نے کہااگریہ بات ہے تومیرے پاس ٹھیرجاؤچنانچہ میں اس کے پاس رہ پڑا،میں نے اسے اس کے دونوں دوستوں کی طرح اچھاآدمی پایاتھوڑی مدت بعدوہ بھی موت کی آغوش میں چلا گیا، وقت نزع میں نے اس سے کہا فلاں آدمی نے مجھے آپ کے پاس آنے کی وصیت کی تھی ،اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں اورکس بات کاحکم کرتے ہیں ،اس نے کہابیٹاواللہ !مجھے کوئی ایساآدمی معلوم نہیں جوہمارے طریقے پرچلتاہواورمیں تمہیں اس کے پاس جانے کی وصیت کروں ،ہاں ملک روم کے شہرعموریہ میں ایک آدمی ہمارے طریقے اورمسلک پر کار بندہے اگرچاہوتواس کے پاس چلے جاؤ۔

 عموریہ کے لاٹ پادری کے پاس :

فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ عَمُورِیَّةَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِی، فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِی،فَأَقَمْتُ عِنْدَ خَیْرِ رَجُلٍ، عَلَى هُدَى أَصْحَابِهِ وَأَمْرِهِمْ،قَالَ: وَاكْتَسَبْتُ حَتَّى كَانَتْ لِی بَقَرَاتٌ وَغُنَیْمَةٌ،قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ بِهِ أَمْرُ اللهِ تَعَالَى،فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَهُ: یَا فُلَانُ، إنِّی كُنْتُ مَعَ فُلَانٍ، فَأَوْصَى بِی إلَى فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصَى بِی فُلَانٌ إلَى فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصَى بِی فُلَانٌ إلَیْكَ، فَإِلَى مَنْ تُوصِی بِی؟ وَبِمَ تَأْمُرُنِی؟قَالَ: أَیْ بُنَیَّ، وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ أَصْبَحَ الْیَوْمَ أَحَدٌ عَلَى مِثْلِ مَا كُنَّا عَلَیْهِ مِنْ النَّاسِ آمُرُكَ بِهِ أَنْ تَأْتِیَهُ، وَلَكِنَّهُ قَدْ أَظَلَّ زَمَانُ نَبِیٍّ، وَهُوَ مَبْعُوثٌ بِدِینِ إبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، یَخْرُجُ بِأَرْضِ الْعَرَبِ، مُهَاجَرُهُ إلَى أَرْضٍ بَیْنَ حَرَّتَیْنِ، بَیْنَهُمَا نَخْلٌ،بِهِ عَلَامَاتٌ لَا تَخْفَى، یَأْكُلُ الْهَدِیَّةَ، وَلَا یَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، وَبَیْنَ كَتِفَیْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتُ أَنْ تَلْحَقَ بِتِلْكَ الْبِلَادِ فَافْعَلْ،قَالَ: ثُمَّ مَاتَ وَغُیِّبَ

جب وہ بھی فوت ہوگیاتومیں اس کے دفن سے فارغ ہوکرعموریہ میں اس شخص کے پاس چلاگیااوراسے ساراماجراکہہ سنایااس نے بھی اپنے ساتھ ٹھیرنے کی اجازت دے دی ، وہ بھی بہت اچھاآدمی ثابت ہوااوراپنے ساتھیوں کے مسلک پر گامزن تھا، وہاں میں نے محنت مزدوری کرکے کچھ گائیں اور بکریاں خریدلیں ان پرگزاراکرتااوراس شخص سے دین سیکھتا،پھراس کے لئے بھی اللہ کاحکم آگیا،نزع کے وقت میں نے اس سے وہی کہاجواس سے پہلے اس کے ساتھیوں سے کہتاچلاآرہاتھا، اس نے کہااے بیٹے!میں ایساکوئی شخص نہیں پاتاجوان لوگوں کے طریقے پرچلتاہواورمیں تمہیں اس کے پاس جانے کی وصیت کروں ہاں البتہ اب ایک نبی کے مبعوث ہونے کاوقت آگیاہے جوابراہیم علیہ السلام کے دین پرہوگااورہجرت فرماکرایک ایسے شہرمیں سکونت اختیار کرے گاجودونوں طرف سے سنگلاخ ترین میدانوں میں گھیراہواہوگا،وہاں کھجورکےباغات بکثرت ہوں گے،اس کی نبوت کی علامتیں واضح ہوں گی ،وہ ہدیہ قبول کرے گا مگرصدقہ کامال نہیں کھائے گا،اس کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرنبوت ہوگی،اگرہوسکے تووہاں چلے جاؤ،پھروہ اللہ تعالیٰ کوپیاراہوگیا۔

 وادی القریٰ میں پہنچنا:

وَمَكَثْتُ بِعَمُورِیَّةَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ أَمْكُثَ، ثُمَّ مَرَّ بِی نَفَرٌ مِنْ كَلْبٍ تُجَّارٌ، فَقُلْتُ لَهُمْ: احْمِلُونِی إلَى أَرْضِ الْعَرَبِ وَأُعْطِیكُمْ بَقَرَاتِی هَذِهِ وَغُنَیْمَتِی هَذِهِ،قَالُوا: نَعَمْ،فأعْطَیْتُهُمُوها وَحَمَلُونِی مَعَهُمْ،حَتَّى إذَا بَلَغُوا وَادِیَ الْقُرَى ظَلَمُونِی، فَبَاعُونِی مِنْ رَجُلٍ یَهُودِیٍّ عَبْدًا،فَكُنْتُ عِنْدَهُ، وَرَأَیْتُ النَّخْلَ، فَرَجَوْتُ أَنْ یَكُونَ الْبَلَدَ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، وَلَمْ یَحِقْ فِی نَفْسِی

اس کے بعدجب تک اللہ نے چاہا میں عموریہ میں رہاپھربنوکلب کے ایک تجارتی قافلے سے میری ملاقات ہوئی،میں نے انہیں کہاکہ وہ مجھے ملک عرب میں پہنچادیں جس کے عوض میں تمہیں اپنی ساری گائیں اوربکریاں دے دوں گا،اس پروہ راضی ہوگئے، میں نے اپنی ساری گائیں اوربکریاں ان کے حوالے کردیں اورمجھے اپنے ساتھ لے کر چل پڑے،جب وہ وادی القریٰ میں پہنچے توان کی بیت میں فتورآگیااورانہوں نے مجھے غلام ظاہرکرکے ایک یہودی کے پاس بیچ دیا،اورمیں اس کے پاس رہنے لگا،میں نے وہاں کھجوریں دیکھیں توخیال کیاکہ شایدیہ وہی شہر ہے جس کی میرے استادنے خبردی تھی مگرمیرادل اس پرمطمئن نہیں تھا ۔

 مدینہ منورہ میں پہنچنا:

فَبَیْنَا أَنَا عِنْدَهُ، إذْ قَدِمَ عَلَیْهِ ابْنُ عَمٍّ لَهُ مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ مِنْ الْمَدِینَةِ، فَابْتَاعَنِی مِنْهُ، فَاحْتَمَلَنِی إِلَى الْمَدِینَة، فو الله مَا هُوَ إلَّا أَنْ رَأَیْتُهَا فَعَرَفْتهَا بِصِفَةِ صَاحِبِی، فَأَقَمْتُ بِهَا،وَبُعِثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ مَا أَقَامَ، لَا أَسْمَعُ لَهُ بِذكَرٍ مَعَ مَا أَنَا فِیهِ مِنْ شُغْلِ الرِّقِّ، ثُمَّ هَاجَرَ إِلَى الْمَدِینَة

ایک مرتبہ جب میں اس کے پاس تھامدینہ سے اس یہودی کاچچازادبھائی آیاجوبنوقریظہ سے تعلق رکھتا تھاوہ مجھے اس یہودی سے خریدکرمدینہ میں لے آیا،اللہ کی قسم !جونہی میں نے یہ شہردیکھا،پادری کی بتلائی نشانیوں کودیکھ کرفوراپہچان لیاکہ انہوں نے اسی شہرکاذکرکیاتھا،میں خوشی خوشی وہاں رہنے اور اس یہودی کے درختوں کاکام کرتارہا ، ادھرمکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اورجب تک اللہ نے چاہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رہے ،میں غلامی کی مصروفیت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی ذکرنہ سن سکا،پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی خوشخبری سننا:

قَالَ سَلْمَانُ: فو الله إنِّی لَفِی رَأْسِ عِذْقٍ لِسَیِّدِی أَعْمَلُ لَهُ فِیهِ بَعْضَ الْعَمَلِ، وَسَیِّدِی جَالِسٌ تَحْتِی، إذْ أَقْبَلَ ابْنُ عَمٍّ لَهُ حَتَّى وَقَفَ عَلَیْهِ، فَقَالَ: یَا فُلَانُ، قَاتَلَ اللهُ بَنِی قَیْلَةَ، وَاَللَّهِ إنَّهُمْ الْآنَ لَمُجْتَمِعُونَ بِقُبَاءَ عَلَى رَجُلٍ قَدِمَ عَلَیْهِمْ مِنْ مَكَّةَ الْیَوْمَ، یَزْعُمُونَ أَنَّهُ نَبِیٌّ،قَالَ سَلْمَانُ: فَلَمَّا سَمِعْتُهَا أَخَذَتْنِی الْعُرَوَاءُ. فَقَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَالْعُرَوَاءُ: الرِّعْدَةُ مِنْ الْبَرْدِ وَالِانْتِفَاضُ، فَإِنْ كَانَ قَالَ سَلْمَانُ:مَعَ ذَلِكَ عَرَقٌ فَهِیَ الرُّحَضَاءُ، وَكِلَاهُمَا مَمْدُودٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّی سَأَسْقُطُ عَلَى سَیِّدِی، فَنَزَلْتُ عَنْ النَّخْلَةِ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِابْنِ عَمِّهِ ذَلِكَ: مَاذَا تَقُولُ؟ (مَاذَا تَقُولُ)؟فَغَضِبَ سَیِّدِی، فَلَكَمَنِی لَكْمَةً شَدِیدَةً، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلِهَذَا؟ أَقْبِلْ عَلَى عَمَلِكَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا شَیْءَ، إنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَثْبِتَهُ عَمَّا قَالَ

سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میں کھجورکی چوٹی پرکوئی کام کررہاتھا،میراآقابھی اس کے نیچے بیٹھاہواتھا ،اس کاچچازاد بھائی آیااورکہنے لگااللہ تعالیٰ بنوقیلہ کو(دونوں قبائل اوس وخزرج کوبنوقیلہ کہتے ہیں )ہلاک کرے وہ قبامیں ایک ایسے شخص کے پاس بھاگے جارہے ہیں جوآج ہی مکہ مکرمہ سے آیاہے اور کہتا ہے کہ وہ نبی اورپیغمبر ہے ،ان لوگوں نے اس کے دعوی پریقین کرلیاہے اوران کے بچوں اورعورتوں تک میں ہیجان ہے،سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واللہ یہ سنتے ہی میرے بدن پرلرزہ اورکپکپی طاری ہوگی اورمیں کانپنے لگا،میرے دل نے گواہی دی کہ میرامطلوب اورمقصودآپہنچا،مجھے اندیشہ لاحق ہواکہ جسم میں اس طرح لرزہ کی وجہ سے اپنے آقاکے اوپرنہ گرپڑوں ،اس لئے دل کوتھامے جلدی سے نیچے اترآیااوراپنے آقاکے چچازادسے پوچھامحترم آپ نے کیاکہاہے ؟ذراپھرسے بیان کرنا،میراسوال سنتے ہی میراآقامیرے تجسس اوربدحواسی پرچراغ پاہوگیااوراس نے غصہ سے میرے منہ پر زور سے طمانچہ مارااورکہاتجھے اس سے کیاغرض ہےتواپنے کام سے غرض رکھ،میں نے کہاکچھ نہیں میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا تھاکہ انہوں نے کیاکہاہے؟۔[1]

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تحقیق وتصدیق کرنا:

قَدْ جَمَعْتُهُ فَلَمَّا أَمْسَیْتُ أَخَذْتُهُ، ثُمَّ ذَهَبْتُ بِهِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِقُبَاءَ ، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: إنَّهُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّكَ رَجُلٌ صَالِحٌ، وَمَعَكَ أَصْحَابٌ لَكَ غُرَبَاءُ ذَوُو حَاجَةٍ، وَهَذَا شَیْءٌ قَدْ كَانَ عِنْدِی لِلصَّدَقَةِ، فَرَأَیْتُكُمْ أَحَقَّ بِهِ مِنْ غَیْرِكُمْ، قَالَ: فَقَرَّبْتُهُ إلَیْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: كُلُوا، وَأَمْسَكَ یَدَهُ فَلَمْ یَأْكُلْ،قَالَ:فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: هَذِهِ وَاحِدَةٌ

سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ،میں نے اپنی کھجوریں جمع کررکھی تھیں ،میں وہ لیکرشام کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ قبامیں بنی عمروبن عوف کے ہاں تشریف فرما تھے،میں نے کہامجھے معلوم ہواہے کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں اورآپ کے ہمراہ کچھ مسافراورغریب لوگ ہیں میں یہ صدقہ دیناچاہتاہوں اورسمجھتاہوں کہ دوسروں کی نسبت آپ لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں اسے قبول فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مطہرکے لئے صدقہ قبول کرنے سے انکارفرمادیااورفرمایاکہ میں صدقہ نہیں کھاتااور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایااس کاصدقہ لے لواورکھاؤمیں نے اپنے دل میں کہایہ ایک علامت پوری ہوئی،

قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفْتُ عَنْهُ، فَجَمَعْتُ شَیْئًا، وَتَحَوَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْمَدِینَةِ، ثُمَّ جِئْتُهُ بِهِ فَقُلْتُ لَهُ: إنِّی قَدْ رَأَیْتُكَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، وَهَذِهِ هَدِیَّةٌ أَكْرَمْتُكَ بِهَا،قَالَ: فَأَكَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَكَلُوا مَعَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: هَاتَانِ ثِنْتَانِ

پھرمیں نے کچھ اورکھجوریں جمع کیں اس وقت تک آپ مدینہ میں منتقل ہوچکے تھے ،میں کسی وقت وہ کھجوریں لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کی میں نے دیکھاہے کہ آپ علیہ السلام صدقہ کامال نہیں کھاتے اس لئے احترام کے پیش نظرآپ کے لئے ھدیہ لایاہوں اسے قبول فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھدیہ قبول فرمالیا اورخودبھی کھایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی اپنے ساتھ کھانے کاحکم فرمایا،میں نے دل میں کہایہ دوسری نشانی بھی پوری ہوگئی

ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِبَقِیعِ الْغَرْقَدِ ، قَدْ تَبِعَ جِنَازَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ، (وَ) عَلَیَّ شَمْلَتَانِ لِی، وَهُوَ جَالِسٌ فِی أَصْحَابِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ أَنْظُرُ إلَى ظَهْرِهِ، هَلْ أَرَى الْخَاتَمَ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، فَلَمَّا رَآنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَدْبَرْتُهُ عَرَفَ أَنِّی أَسْتَثْبِتُ فِی شَیْءٍ وُصِفَ لِی، فَأَلْقَى رِدَاءَهُ عَنْ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إلَى الْخَاتَمِ فَعَرَفْتُهُ، فَأَكْبَبْتُ عَلَیْهِ أُقَبِّلُهُ وَأَبْكِی

(دوچارروز کے بعد)ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے،اس وقت آپ نے دوچادریں زیب تن کی ہوئی تھیں ،میں تیسری مرتبہ حاضرخدمت ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تشریف فرماتھے میں نے سلام عرض کیااورآپ کے پیچھے کھڑاہوکرکچھ دیکھنے لگاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھ کرکہ کسی نے اس کوکوئی نشانی بتائی ہے اوریہ اس کی تصدیق کرناچاہتاہے اپنی چادر کندھوں سے نیچے پھینک دی ، میں نے مہرنبوت دیکھ کرتیسری نشانی بھی درست پائی ،پھرکیا تھا میں نے جھک کرمہرنبوت کوبوسہ دیااورروپڑا،آپ بھی روپڑے ،

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَى إِلَیَّ رِدَاءَهُ ، وقَالَ: یَا سَلْمَانُ! انْظُرْ إِلَى مَا أُمِرْتُ بِهِ ، قَالَ: فَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ بَیْنَ كَتِفَیْهِ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامِ

مہرنبوت کے بارے میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرمبارک اپنے کندھوں سے نیچے کرلی اورفرمایااے سلمان رضی اللہ عنہ !جوتم دیکھناچاہتے ہودیکھ لو، سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دونوں کندھوں کے درمیان مہرنبوت دیکھ لی جوایک کبوترکے انڈے کی طرح تھی۔[2]

أَبُو زَیْدٍ، قَالَ:قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْتَرِبْ مِنِّی ، فَاقْتَرَبْتُ مِنْهُ ،فَقَالَ:أَدْخِلْ یَدَكَ فَامْسَحْ ظَهْرِی، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ یَدِی فِی قَمِیصِهِ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، فَوَقَعَ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ بَیْنَ إِصْبَعَیَّ، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ:شَعَرَاتٌ بَیْنَ كَتِفَیْهِ.

مہرنبوت کے بارے میں عمرو رضی اللہ عنہ بن اخطب انصاری فرماتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایامیرے قریب آؤ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا تو فرمایا اپنا پاتھ میرے کرتے میں داخل کرواورمیرے پشت پرہاتھ پھیرو، میں نے اپناہاتھ کرتے میں داخل کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پرپھیرا،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت مبارک سے کرتااٹھاکرفرمایااے ابوزید رضی اللہ عنہ !ذرامیری پیٹھ پرہاتھ پھیرو،میں نے تعمیل ارشادکی اورہاتھ پشت مبارک سے مہرنبوت پرپہنچا تو مہر نبوت میری دو انگلیوں کے درمیان آ گئی جو بالوں کا ایک گچھا تھی۔[3]

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ادھر سامنے آجاؤ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکربیٹھ گیااے عباس رضی اللہ عنہ !جس طرح میں نے تمہیں اپناواقعہ سنایاہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ واقعہ سن کربہت محفوظ ہوئے،میں اسی وقت مشرف باسلام ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرورہوئے

فَاتَهُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَدْرٌ وَأُحُدٌ،ثُمَّ قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَاتِبْ یَا سَلْمَانُ، فَكَاتَبْتُ صَاحِبِی عَلَى ثَلَاثِ ماِئَةِ نَخْلَةٍ أُحْیِیهَا لَهُ بِالْفَقِیرِ ، وَأَرْبَعِینَ أُوقِیَّةً. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: أَعِینُوا أَخَاكُمْ، فَأَعَانُونِی بِالنَّخْلِ، الرَّجُلُ بِثَلَاثِینَ وَدِیَّةً ، وَالرَّجُلُ بِعِشْرِینَ وَدِیَّةً، وَالرَّجُلُ بِخَمْسَ عَشْرَةَ وَدِیَةً، وَالرَّجُلُ بِعَشْرٍ، یُعِینُ الرَّجُلُ بِقَدْرِ مَا عِنْدَهُ، حَتَّى اجْتَمَعَتْ لِی ثَلَاثُ ماِئَةِ وَدِیَّةٍ،فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ یَا سَلْمَانُ فَفَقِّرْ لَهَا

سلمان رضی اللہ عنہ اپنی غلامی کی وجہ سے جنگ بدر اور جنگ احدمیں شریک نہیں ہوسکے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسلمان رضی اللہ عنہ !اپنے آقاسے مکاتبت (مالک کوقیمت دے کرآزادہونے کوکتابت یا مکاتبت کہتے ہیں )کرلوچنانچہ میں نے اپنے آقاسے اس شرط پر مکاتبت کی کہ گڑھے کھودکرکھجوروں کے تین سودرخت لگاؤں اورچالیس اوقیہ سونابھی اداکروں جب سارے درخت ہرے بھرے ہوکربڑھنے لگیں تب میں آزادہوجاؤں گا،میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایاکہ اپنے بھائی کی آزادی میں مددکرو،چنانچہ کسی نے نرسری کے تیس،کسی نے بیس ،کسی نے پندرہ اورکسی نے دس پودے دینے کا وعدہ کیا،جب تین سو پودے پورے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ سلمان! جہاں درخت لگانے ہیں پہلے جاکروہاں گڑھے کھودواورپھرآکرمجھے اطلاع دویہ پودے میں اپنے ہاتھ سے لگاؤں گا۔

 فَإِذَا فَرَغْتَ فَأْتِنِی أَكُنْ أَنَا أَضَعُهَا بِیَدَیَّ. قَالَ: فَفَقَّرْتُ وَأَعَانَنِی أَصْحَابِی، حَتَّى إذَا فَرَغْتُ جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ،فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعِی إلَیْهَا، فَجَعَلْنَا نُقَرِّبُ إلَیْهِ الْوَدِیَّ، وَیَضَعُهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ، حَتَّى فَرغْنَا، فو الّذی نَفْسُ سَلْمَانَ بِیَدِهِ مَا مَاتَتْ مِنْهَا وَدِیَّةٌ وَاحِدَةٌ . قَالَ: فَأَدَّیْتُ النَّخْلَ وَبَقِیَ عَلَیَّ الْمَالُ. فَأُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ بَیْضَةِ الدَّجَاجَةِ مِنْ ذَهَبٍ، مِنْ بَعْضِ الْمَعَادِنِ،فَقَالَ: مَا فَعَلَ الْفَارِسِیُّ الْمُكَاتَبُ؟قَالَ: فَدُعِیتُ لَهُ، فَقَالَ خُذْ هَذِهِ، فَأَدِّهَا مِمَّا عَلَیْكَ یَا سَلْمَانُ،

چنانچہ میں نے اپنے دوستوں کے تعاون سے تین سو گڑھے کھودے اورآکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ وہاں تشریف لائے ،ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پودے پکڑاتے جاتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کواپنے مبارک ہاتھ سے نصب کرتے جاتے تھےحتی کہ پورے تین سودرخت لگادیئےاوربرکت کی دعافرمائی،اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے ایک سال گزرنے نہ پایاتھاکہ سب پودوں پرپھل آگیااور ان میں سےایک پودابھی خشک نہیں ہواسب کے سب ہی سرسبزوشاداب ہوگئے اوراس طرح تین سوپودے لگانے کی شرط پوری ہوگئی صرف سونااداکرنا باقی رہ گیا،اس کااللہ تعالیٰ نے اس طرح سبب بنایاکہ سونے کی بعض کانوں سے آمدہ مرغی کے انڈے جیساسوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ مسکین مکاتب یعنی فارسی کہاں ہے؟اس کوبلاؤ،لوگوں نے مجھے آوازدی میں حاضرہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ سونالواوراپنے آقاسے حساب بے باق کردو،

قَالَ: قُلْتُ: وَأَیْنَ تَقَعُ هَذِهِ یَا رَسُولَ اللهِ مِمَّا عَلَیَّ؟فَقَالَ: خُذْهَا فَإِنَّ اللهَ سَیُؤَدِّی بِهَا عَنْكَ. قَالَ: فَأَخَذْتهَا فَوَزَنْتُ لَهُمْ مِنْهَا،وَاَلَّذِی نَفْسُ سَلْمَانَ بِیَدِهِ أَرْبَعِینَ أُوقِیَّةً، فَأَوْفَیْتُهُمْ حَقَّهُمْ مِنْهَا، وَعَتَقَ سَلْمَانُ،فَشَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ الْخَنْدَقَ حُرًّا، ثُمَّ لَمْ یَفُتْنِی مَعَهُ مَشْهَدٌ

میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے جتنا سونادیناہے یہ اس سے بہت کم ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ لے لواللہ تعالیٰ برکت کرے گااورتمہاری قیمت اداہوجائے گی ، میں نے وہ سونالے لیا،اوراللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے میں نے ان کو چالیس اوقیہ سونا (تقریبا چار سو درہم)دے کر پوری قیمت اداکردی اور آزادہوگیا،پھرجنگ خندق کی لڑائی میں ایک آزادآدمی کی حیثیت سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوااوراس کے بعدکسی جنگ سے غیر حاضر نہیں رہا۔[4]

سلیمان فارسی جن کی کنیت ابوعبداللہ تھی مگراپنے کردارکی خوبی کی وجہ سے مدینہ منورہ میں سلمان الخیرکے لقب سے مشہورتھے۔

عابدوزاہد علماء اورافضل صحابہ میں ان کاشمارہوتاتھا۔

كَانَ سلمَان الْفَارِسِی رضی الله عنه قد اختصم المهاجرون والأنصار فیه، فقال المهاجرون: هو منا، وقال الأنصار: هو منا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَیْتِ، قال: فكان فی حیز المهاجرین

مہاجرین کادعویٰ تھاکہ سلمان ہم میں سے ہیں جبکہ انصارکہتے تھے سلمان ہم میں سے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلمان اہل بیت میں سے ہیں اورفرمایاوہ مہاجرین میں فضیلت والے ہیں ۔[5]

وكان إذا قیل له: ابن من أنت؟قال: أنا سلمان ابن الإسلام من بنی آدم،أَنَاسَلْمَانُ بْنُ الْإِسْلَامِ

جب کوئی ان سے والدکانام پوچھتا توکہتے تو سلمان رضی اللہ عنہ جواب دیتے میں اسلام بن بنی آدم کابیٹا ہوں ۔ [6]

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدسلمان فارسی رضی اللہ عنہ عرصہ تک مدینہ منورہ میں قیام کیا،فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں انہوں نے عراق میں سکونت اختیارکرلی ،ایران پر لشکرکشی کے وقت وہ بھی مجاہدین اسلام میں شریک ہوگئے اورکئی معرکوں میں دادشجاعت دی،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے مرتبہ شناس تھے انہوں نے سلمان رضی اللہ عنہ کومدائن کی گورنری پر مقرر فرمایا

كَانَ عَطَاءُ سَلْمَانَ خَمْسَةَ آلافٍ وَكَانَ إِذَا خَرَجَ عَطَاؤُهُ أَمْضَاهُ وَیَأْكُلُ مِنْ سَفِیفِ یدیه

اورچاریاپانچ ہزاردرہم ان کی تنخواہ مقررفرمائی لیکن اس مرددرویش کی گورنری کی کیفیت عجیب تھی جوتنخواہ ملتی اسے مساکین میں تقسیم کردیتے

اورخوداپنےہاتھوں سےچٹائی بنتے اوراس کی آمدنی پرگزارہ کرتے تھے۔[7]

اورچٹائی کی آمدنی کاایک تہائی بھی اللہ کی راہ میں خیرات کردیتے ،

النُّعْمَانَ بْنَ حُمَیْدٍ یَقُولُ: دَخَلْتُ مَعَ خَالِی عَلَى سَلْمَانَ بِالْمَدَائِنِ وَهُوَ یَعْمَلُ الْخُوصَ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: أَشْتَرِی خُوصًا بدرهم فأعمله فأبیعه دَرَاهِمَ فَأُعِیدُ دِرْهَمًا فِیهِ وَأَنْفِقُ دِرْهَمًا عَلَى عِیَالِی وَأَتَصَدَّقُ بِدِرْهَمٍ، وَلَوْ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخطاب نهانی عنه ما انتهیت

نعمان بن حمیدسے مروی ہےمیں اپنے ماموں کے ہمراہ مدائن میں سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیاوہ چٹائی بن رہے تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سناکہ ایک درہم کھجورکے پتے خریدتا ہوں اسے بنتاہوں اورتین درہم میں فروخت کردیتاہوں ،ایک درہم اسی میں لگا دیتا ہوں اورایک درہم اپنے اہل وعیال پرخرچ کرتاہوں اورایک درہم اللہ کی راہ میں خیرات کردیتاہوں ،اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب مجھے منع نہ فرماتے تومیں اس سے بازنہ آتا۔[8]

عَنْ هُرَیْمٍ، قَالَ:رَأَیْتُ سَلْمَانَ الْفَارِسِیَّ عَلَى حِمَارٍ عُرْیٍ وَعَلَیْهِ قَمِیصٌ سُنْبُلانِیُّ قَصِیرٌ ضَیِّقُ الأَسْفَلِ، قَالَ وَرَأَیْتُ الصِّبْیَانَ یَحْضُرُونَ خَلْفَهُ فَقُلْتُ: أَلا تَنَحَّوْنَ عَنِ الأَمِیرِ؟فَقَالَ: دَعْهُمْ فَإِنَّمَا الْخَیْرُ وَالشَّرُّ فِیمَا بَعْدَ الْیَوْمِ

ہریم سے مروی ہےمیں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کوایک تنگ اورچھوٹی سی قمیص میں ملبوس ہوکربغیرزین کے ایک معمولی گدھے پرسوار ہوکرجاتے دیکھاہے، میں نے لڑکوں کوجوان کے پیچھے تھے اور ان کودیکھ کرہنستے اورمذاق اڑاتے تھے کہاتم لوگ امیرسے دورنہیں ہوتے، سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہیں چھوڑدو خیروشرکااندازہ تواس زندگی کے بعدہوگاآج جتناجی چاہے ہنس لیں ۔[9]

ان کے پاس اونٹ کے بالوں کا ایک بوسیدہ کمبل تھا،دن کے وقت اسے اپنے بدن پرڈال لیتے اوررات کوسوتے وقت اوڑھ لیتے ،

عَنْ ثَابِتٍ أَنُّ سَلْمَانَ كَانَ أَمِیرًا عَلَى الْمَدَائِنِ وَكَانَ یَخْرُجُ إِلَى النَّاسِ فِی أَنْدَرْوَرْدَ وَعَبَاءَةٍ فَإِذَا رَأَوْهُ، قَالُوا: كُرْكَ آمَذْ كُرْكَ آمَذْ

ثابت سے مروی ہے سلمان رضی اللہ عنہ مدائن کے امیرتھے جب وہ اپنے درویشانہ لباس میں ملبوس باہرنکلتے تولوگ کہتے گرگ آمد،گرگ آمد۔[10]

ثَابِتٌ، قَالَ: كَانَ سَلْمَانُ أَمِیرًا عَلَى الْمَدَائِنِ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ بَنِی تَیْمِ اللهِ مَعَهُ حِمْلُ تِینٍ. وَعَلَى سَلْمَانَ أَنْدَرْوَرْدُ وَعَبَاءَةٌ. فَقَالَ لِسَلْمَانَ: تَعَالَ احْمِلْ.وَهُوَ لا یَعْرِفُ سَلْمَانَ، فَحَمَلَ سَلْمَانُ فَرَآهُ النَّاسُ فَعَرَفُوهُ فَقَالُوا: هَذَا الأَمِیرُ،أَصْلَحَ اللهُ الْأَمِیرَ، نَحْمِلُ عَنْكَ، وَیَا أَبَا عَبْدِ اللهِ نَحْمِلُ عَنْكَ، أَبَا عَبْدِ اللهِ نَحْمِلُ عَنْكَ

ثابت سے مروی ہےسلمان مدائن کے امیرتھے،شام کے بنی تیم اللہ میں سے ایک شخص آیاجس کے ہمراہ انجیرکی ایک گٹھری تھی،وہ مدائن کے بازارمیں جارہے تھے کہ ان کاحلیہ دیکھ کراس شخص نے انہیں مزدورسمجھ کراپناسامان اٹھانے کے لیے کہا، وہ سلمان رضی اللہ عنہ کوپہچانتانہیں تھا،سلمان رضی اللہ عنہ سامان اٹھاکراس کے پیچھے پیچھے چل دیئے ،راستے میں لوگوں نے دیکھاتوانہیں پہچان لیاتوکہایہ توامیرہیں ، ایک روایت میں ہے لوگوں نے کہا اے امیر!آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھارکھاہے لائے ہم پہنچادیتے ہیں ،اے ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ !ہم پہنچادیتے ہیں ،اے ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ !ہم پہنچادیتے ہیں ۔[11]

قَالَ: لَمْ أَعْرِفْكَ،فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: لَا حَتَّى أَبْلُغَ مَنْزِلَكَ

سامان کامالک ہکابکارہ گیااورنہایت شرمندہ ہوکرکہامیں آپ کوپہچانانہیں تھااوران کے سرسے سامان اترواناچاہامگرسلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایانہیں تونے یہ سامان اٹھواکراپنے مکان تک لے جانے کاارادہ کیاتھااب میں اسے منزل مقصود پر پہنچا کر ہی دم لوں گا۔[12]

عَنْ أَبِی قِلَابَةَ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ عَلَى سَلْمَانَ وَهُوَ یَعْجِنُ. قَالَ فَقَالَ: أَیْنَ الْخَادِمُ؟قَالَ:بَعَثْنَاهَا لِحَاجَةٍ فَكَرِهْنَا أَنْ نَجْمَعَ عَلَیْهَا عَمَلَیْنِ

ابی قلابہ سے مروی ہےایک دفعہ ایک شخص فارسی رضی اللہ عنہ کے گھر گیا دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے آٹا گوندھ رہے ہیں ،پوچھاکہ خادم کہاں ہے؟سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیااسے کسی کام سے بھیجاہے میں یہ مناسب نہیں سمجھتاکہ دودوکاموں کابوجھ اس پرڈالوں ۔[13]

ایک دن کسی شخص نے سلمان رضی اللہ عنہ کوگالیاں دیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایابھائی اگرقیامت کے دن میرے گناہوں کاپلہ بھاری ہوگاتوجوکچھ تونے کہاہے میں اس سے بھی بدترہوں اور اگرمیرے گناہوں کاپلہ ہلکاہواتوتیری بات سے مجھے کیاڈرہے۔

وَإِنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ: أَنَا أَبْنِی لَكَ بَیْتًا تسكن فیه؟ فقَالَ: مَا لِی بِهِ حَاجَةٌ، فَمَا زَالَ الرَّجُلُ حتى قَالَ له: إِنِّی أَعْرِفُ الْبَیْتَ الَّذِی یُوَافِقُكَ، قَالَ: فَصِفْهُ لِی، قَالَ: أَبْنِی لَكَ بَیْتًا إِذَا أَنْتَ قُمْتَ فِیهِ أَصَابَ رَأْسَكَ سَقْفُهُ، وَإِذَا أَنْتَ مَدَدْتَ فِیهِ رِجْلَیْكَ أَصَابَتِ الْجِدَارُ. قَالَ: نَعَمْ . فَبَنَى لَهُ

ایک مرتبہ ایک شخص نے سلمان رضی اللہ عنہ سے کہاآپ بے گھراوربے درہیں میں آپ کے لیے ایک مکان بنانا چاہتا ہوں ،سلمان رضی اللہ عنہ نے انکارکیاکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہےلیکن وہ شخص پیہم اصرارکرتارہاآخرسلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایااگرتم میرے لیے گھربناہی چاہتے ہوتواس طرح بنادوجس طرح میں کہوں ، اس شخص نے کہافرمایئے میں کیسا گھر بنا دوں ؟فرمایا تواس طرح بناؤکہ اگرلیٹوں توپیردیواروں سے لگیں اوراگرکھڑاہوں توسرچھت سے مل جائے،اس شخص نے کہاٹھیک ہے میں ایساہی بنادوں گا، چنانچہ اس شخص نے ان کی خواہش کے مطابق مختصرسی جھونپڑی بنادی[14]

سلمان رضی اللہ عنہ نے بہت لمبی عمرپائی ، اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں مثلاً اسی سال،ایک سوپچاس سال اوردوسوپچاس سال،

قال: أهل العلم یقولون: عاش سلمان ثلاثمائة وخمسین سنة

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسوپچاس سال والی روایت کوترجیح دی ہے۔[15]

حفظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ کی عمرکے بارے میں جس قدربھی اقوال ہیں سب اس پرمتفق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ڈھائی سو سال تھی۔

وَتُوُفِّیَ سَنَةَ خَمْسٍ وَثَلَاثِینَ، فِی آخِرِ خِلَافَةِ عُثْمَانَ

سلمان رضی اللہ عنہ خلافت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دنوں میں دوسوپچاس سال کی عمرمیں فوت ہوئے۔[16]

دَخَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ عَلَى سَلْمَانَ یَعُودُهُ. قَالَ فَبَكَى سَلْمَانُ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ:مَا یُبْكِیكَ یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ؟ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْكَ رَاضٍ. وَتَلْقَى أَصْحَابَكَ.وَتَرِدُ عَلَیْهِ الْحَوْضَ، قَالَ سَلْمَانُ: وَاللهِ مَا أَبْكِی جَزَعًا مِنَ الْمَوْتِ وَلا حِرْصًا عَلَى الدُّنْیَا وَلَكِنَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ إِلَیْنَا عَهْدًا فَقَالَ: لِتَكُنْ بُلْغَةُ أَحَدِكُمْ مِنَ الدُّنْیَا مِثْلَ زَادِ الرَّاكِبِ وَحَوْلِی هَذِهِ الأَسَاوِدُ، قَالَ وَإِنَّمَا حَوْلَهُ جَفْنَةٌ أَوْ مَطْهَرَةٌ أَوْ إِجَّانَةٌ، قَالَ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ اعْهَدْ إِلَیْنَا بِعَهْدٍ نَأْخُذُهُ بَعْدَكَ، فَقَالَ: یَا سَعْدُ اذْكُرِ اللهَ عِنْدَ هَمِّكَ إِذَا هَمَمْتَ وَعِنْدَ حُكْمِكَ إِذَا حكمت وعند یدك إذا قسمت

مرض الموت میں سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص ان کی عیادت کے لیے گئے ، سلمان رضی اللہ عنہ زارزاررونے لگے ،سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھااے ابوعبداللہ(سلمان رضی اللہ عنہ کی کنیت)یہ رونے کاکونسامحل ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے راضی رخصت ہوئے ،مرنے کے بعدتم اپنے ساتھیوں سے ملوگے اورحوض کوثرپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آؤگے، سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیااللہ کی قسم !میں موت سے نہیں گھبراتااورنہ مجھے دنیاکی خواہش ہے بلکہ اس لیے روتا ہوں کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہدلیاتھاکہ تم میں سے ہرایک کادنیاسے انتہائی عیش ایساہوناچاہیے جیسے سوارکاتوشہ،اور میرے اردگرد یہ اسباب جمع ہو گیا ہے،یہ اسباب جس کی وجہ سے سلمان رضی اللہ عنہ گریہ وزاری کررہے تھے محض ایک بڑے پیالے،ایک لوٹے،ایک بوسیدہ کمبل اورایک تسلہ پرمشتمل تھا(گھرکے کل سامان کی قیمت بیس بائیس درہم سے زیادہ نہ تھی ،تکیہ کی جگہ سرکے نیچے دواینٹیں رکھی ہوئی تھیں ) سعد رضی اللہ عنہ نے کہااے ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ !ہمیں کوئی وصیت کیجئے کہ آپ کے بعداسے اختیارکریں ، آپ رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرمائی کہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو اورجب حکم کروتواس وقت اللہ کو یاد کرواورجب تقسیم کروتوقبضے کے وقت اللہ کویادکرو۔[17]

عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَیْوَةَ، قَالَ:قَالَ أَصْحَابُ سَلْمَانَ لِسَلْمَانَ: أَوْصِنَا، فَقَالَ: مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ یَمُوتَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ غَازِیًا أَوْ فِی نَقْلِ الْقِرَاءَةِ فَلْیَمُتْ. وَلا یَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ فَاجِرًا وَلا خَائِنًا

رجاء بن حیوة سے مروی ہےسلمان رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے ان سے کہاہمیں وصیت کیجئے،انہوں نے کہاجوشخص تم میں سے حج یاعمرہ یاجہادفی سبیل اللہ یاتحصیل قرآن میں مرسکے تواسے اس میں مرناچاہیے تم میں سے کوئی شخص فاجر(بدکار) اور خائن (دغاباز)ہوکرہرگزنہ مرے۔[18]

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ مِثْلُ لُقْمَانَ الْحَكِیمِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے سلمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاسلمان رضی اللہ عنہ علم وحکمت میں لقمان حکیم کے برابر تھے۔[19]

عن عائشة أم المؤمنین رضی الله عنها، قالت: كان لسلمان مجلس من رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ینفرد به باللیل حتى كاد یغلبنا على رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سلمان رضی اللہ عنہ رات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اتنی دیرتک رہتے تھے کہ ہمیں (ازواج مطہرات)کواندیشہ ہواکہ کہیں ہمارے حصوں کاوقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلمان رضی اللہ عنہ کی معیت میں نہ گزاریں ۔[20]

ابْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَنِی رَبِّی بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأَخْبَرَنِی أَنَّهُ سُبْحَانَهُ یُحِبُّهُمْ: عَلِیٌّ، وَأَبُو ذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَسَلْمَانُ

ابوبریدہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے مجھے چارآدمیوں کے ساتھ محبت رکھنے کاحکم دیاہے اورمجھے خبردی ہے کہ وہ (اللہ)بھی ان سے محبت رکھتاہے ، پوچھاگیاوہ کون ہیں فرمایاسیدناعلی رضی اللہ عنہ ،مقداد رضی اللہ عنہ ،سلمان رضی اللہ عنہ اورابوذر رضی اللہ عنہ ۔[21]

عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ، عَلَى سَلْمَانَ، وَصُهَیْبٍ وَبِلالٍ فِی نَفَرٍ، فَقَالُوا: مَا أَخَذَتْ سُیُوفُ اللهِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللهِ مَأْخَذَهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَیْخِ قُرَیْشٍ وَسَیِّدِهِمْ، وَأَتَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ،فَقَالَ: یَا أَبَا بَكْرٍ، لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ، لِئَنْ كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ جَلَّ وَعَلا ، فَأَتَاهُمْ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: یَا إِخْوَتَاهُ، أَغْضَبْتُكُمْ؟ قَالُوا: لا، یَا أَبَا بَكْرٍ، یَغْفِرُ اللهُ لَكَ

عائذ بن عمروسے مروی ہےایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ ،بلال رضی اللہ عنہ اورصہیب رضی اللہ عنہ ایک جگہ اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے اتفاق سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ان تینوں بزرگوں نے کہااللہ کی کوئی تلواراس دشمن خداکی گردن پرنہیں پڑی، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بھی کہیں قریب تھے انہوں نے فرمایایہ شخص قریش کاسردارہے تمہیں ایسی سخت بات اس کے بارے میں نہیں کہنی چاہیے تھی،تینوں بزرگوں نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے ارشادکوپسندنہ کیا، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوریہ واقعہ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !شایدتم نے ان لوگوں کوناراض کردیاہے ،انہیں ناراض کرناگویااللہ کوناراض کرناہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادسن کر سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ پشیمان ہوئے اورفوراًان بزرگوں کے پاس آئے اورپوچھاکیاآپ مجھ سے خفاہیں ؟ انہوں نے کہانہیں اے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اللہ تعالیٰ آپ کومعاف کرے۔[22]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: دَخَلَ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ فَأَلْقَاهَا لَهُ، فَقَالَ سَلْمَانُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ ،فَقَالَ عُمَرُ: حَدِّثْنَا یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ فَأَلْقَاهَا إِلَیَّ ثُمَّ قَالَ لِی:یَا سَلْمَانُ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْخُلُ عَلَى أَخِیهِ الْمُسْلِمِ فَیُلْقِی لَهُ وِسَادَةً إِكْرَامًا لَهُ إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اوروہ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے توانہوں نے ازراہ تکریم اپنی پشت کاتکیہ سلمان رضی اللہ عنہ کوپیش کردیا،سلمان رضی اللہ عنہ نے کہااللہ اوراس کے رسول نے سچ فرمایا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااے ابوعبداللہ!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنائیں ،سلمان رضی اللہ عنہ نے کہامیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومیرے سامنے ڈال دیااورفرمایااے سلمان رضی اللہ عنہ !اگرکوئی مسلمان اپنے بھائی سے ملنے جائے اوروہ ازراہ تعظیم اس کے لیے اپناتکیہ پیش کردے تواللہ اس کی مغفرت فرمادے گا ۔[23]

وكان رَسُول اللهِ قد آخى بین سلمان وأبی الدرداء، وسكن أَبُو الدرداء الشام، وسكن سلمان العراق، فكتب أَبُو الدرداء إِلَى سلمان: سلام علیك، أما بعد، فإن الله رزقنی بعدك مالًا وولدًا، ونزلت الأرض المقدسة،فكتب إلیه سلمان: سلام علیك، أما بعد، فإنك كتبت إلی أن الله رزقك مالًا وولدًا فاعلم أن الخیر لیس بكثرة المال والولد، ولكن الخیر أن یكثر حلمك، وأن ینفعك علمك وكتبت إِلَى أنك نزلت الأرض المقدسة، وَإِن الأرض لا تعمل لأحد، اعمل كأنك ترى، واعدد نفسك من الموتى

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے لکھاہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابودرداء رضی اللہ عنہ اورسلمان رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیاتھا،سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدابودرداء رضی اللہ عنہ شام چلے گئے جہاں وہ بہت آسودہ حال ہوگئے ،ایک دفعہ انہوں نے سلمان رضی اللہ عنہ کو جوعراق میں مقیم تھےخط لکھاکہ میں یہاں بہت خوش ہوں ،اللہ تعالیٰ نے مال اوراولاددونوں نعمتیں عطافرمائی اورمیراقیام ارض مقدس میں ہے،سلمان رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں لکھااسلام علیکم ،امابعد،تم نے لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال اوراولادسے نوازاہواہے بھائی تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ مال اوراولادکی کثرت یاارض مقدس میں ہوناخیرنہیں بلکہ خیریہ ہے کہ تم کوئی ایساعمل کروجوآخرت میں تمہارے کام آئے۔[24]

ایک دفعہ کسی شہرکی فتح کے بعداپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس میں داخل ہوئےتوجگہ جگہ اشیائے خوردونوش کے ڈھیردیکھے ،ایک ساتھی نےفرط مسرت سے بیخودہوکرکہادیکھیے اللہ تعالیٰ نے کیاکچھ عطافرمایاہے،سلمان رضی اللہ عنہ نے اسے ٹوک کرکہابھائی کس بات پرخوش ہورہے ہویہ بھی توخیال کروکہ ایک ایک دانہ کے ساتھ حساب کتاب کی ذمہ داری بھی تو میرے سرآپڑی ہے۔

عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ قَالَ: رَأَیْتُ سَلْمَانَ الْفَارِسِیَّ فِی سَرِیَّةٍ هُوَ أَمِیرُهَا عَلَى حِمَارٍ وَعَلَیْهِ سَرَاوِیلٌ وَخَدَمَتَاهُ تَذَبْذَبَانِ، وَالْجُنْدُ یَقُولُونَ: قَدْ جَاءَ الْأَمِیرُ، فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّمَا الْخَیْرُ وَالشَّرُّ بَعْدَ الْیَوْمِ

عبدالقیس کے ایک شخص سے مروی ہےجس زمانے میں سلمان رضی اللہ عنہ مدائن کے گورنرتھے اورتیس ہزارنفوس پرحکومت کرتے تھے ایک مرتبہ مدائن سے شام اس حال میں تشریف لے گئے کہ بغیرزین کے ایک گدھے پر سوارتھے اورگاڑھے کا پیوند لگا لباس زیب تن کررکھاتھا،لوگوں نے کہااے امیر!آپ نے یہ کیاحال بنا رکھا ہے ؟ فرمایابھائی آرام وراحت توصرف آخرت کے لیے ہے ۔[25]

أَنَّ سَلْمَانَ جَاءَ یَزُورُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُبْتَذَلَةً فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ لَیْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِی شَیْءٍ مِنَ الدُّنْیَا، قَالَ:فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رَحَّبَ سلمان وَقَرَّبَ لَهُ طَعَامًا. قَالَ سَلْمَانُ: اطْعَمْ. قَالَ:إِنِّی صَائِمٌ، قَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَیْكَ إِلا مَا طَعِمْتَ، إِنِّی لَسْتُ بِآكِلٍ حَتَّى تَطْعَمَ.قَالَ: وَبَاتَ سَلْمَانُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَاءِ، فَلَمَّا كَانَ اللیل قام أبو الدرداء فحبسه سلمان.قَالَ: یَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لأَهْلِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ، قال: فلما كان وجه الصبح قال:قُمِ الآنِ. فَقَامَا فَصَلَّیَا، ثُمَّ خَرَجَا إِلَى الصَّلاةِ. قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَیْهِ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ سَلْمَانُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا قَالَ سَلْمَانُ

ابوجیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سلمان رضی اللہ عنہ کے مواخاتی بھائی ابودرداء رضی اللہ عنہ انصاری بے حدعابدوزایدتھے دن کوروزہ رکھتے تھے اوررات رات بھرعبادت میں مشغول رہتے تھےایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ ان سے ملنے کے لیے گئے وہ گھرسے باہرتھے ان کی اہلیہ کوآشفتہ حال دیکھاتوپوچھاکہ تم نے اپنی حالت کیابنارکھی ہے؟انہوں نے جواب دیاکس کے لیے بناؤسنگارکروں تمہارے بھائی نے دنیاکوترک کردیاہے، جب ابودرداء گھرتشریف لائے توسلمان رضی اللہ عنہ کودیکھ کربہت مسرورہوئے ان کے سامنے کھانارکھااورخودمعذرت کی کہ میں روزے سے ہوں ،سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں نے قسم کھائی ہے کہ اگرتم نہیں کھاتے تومیں بھی نہیں کھاؤں گاپھرابودرداء کے قریب ہی لیٹ گئے ،کچھ رات گزرنے پرابودرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے توان کاہاتھ پکڑلیااورفرمایااے ابودرداء رضی اللہ عنہ !تم پرتمہارے رب کاتم پرحق ہے،تمہاری بیوی کاتم پرحق ہے ،تم جسم کاتم پرحق ہے،تمہیں سب کاحق داروں کا حق اداکرناچاہیے، صبح ہوئی تودونوں نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی فرمایا جو سلمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کہاتھا۔[26]

فقال النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لأبی الدرداء: سلمان أفقه منك

ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابودرداء رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوکرفرمایاسلمان رضی اللہ عنہ تم سے زیادہ دین کی واقفیت رکھتے ہیں ۔[27]

سلمان رضی اللہ عنہ کاخوف آخرت کایہ عالم تھاکہ وہ خودبھی اس سے لرزہ براندام رہتے تھے اورلوگوں کوبھی اس کی یاددلاتے رہتے تھے

قَالَ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ: ثَلَاثٌ أَعْجَبَتْنِی حَتَّى أَضْحَكَتْنِی: مُؤَمَّلُ الدُّنْیَا، وَالْمَوْتُ یَطْلُبُهُ، وَغَافِلٌ وَلَیْسَ بِمْغَفُولٍ عَنْهُ، وَضَاحِكٌ لَا یَدْرِی أَسَاخِطٌ عَلَیْهِ رَبُّ الْعَالَمِینَ أَمْ رَاضٍ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے تھےمجھے تین آدمیوں پربڑاتعجب ہوتاہے ایک وہ جوہروقت دنیاکی طلب میں ہے حالانکہ موت اس کی طلب میں ہے،دوسراوہ جوموت کو بھلا بیٹھاہے مگرموت اس سے غافل نہیں ہے،تیسراوہ جوقہقہہ مارکرہنستاہے حالانکہ اسے یہ علم نہیں کہ اللہ اس سے راضی ہے یاناراض۔[28]

وعن أبی هریرة قال:تخطّى سلمان الفارسی رضی الله عنه حلقة قریش وهم عند رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی مجلسه، فالتفت إلیه رجل منهم فقال: ما حسبك ونسبك، وبم اجترأت أن تتخطى حلقة قریش؟! قال: فنظر إلیه سلمان الفارسی فأرسل عینیه وبكى وقال: سألتنی عن حسبی ونسبی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دفعہ اکابرقریش کسی جگہ جمع ہوئے اوراپنے اپنے فضائل ومحائدبیان کررہے تھے سلمان رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس مجلس میں موجودتھے،ایک قریشی نے ان کی طرف مخاطب ہوکر کہاتمہاراحسب نسب کیاہے ،کیاتم قریش کی مجلس میں بیٹھنے کے قابل بھی ہو؟سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھااوران کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئیں اور کہا تم میراحسب نسب دریافت کرتے ہوتوسنو

خلقت من نطفة قذرة، فأما الیوم ففكرة وعبرة، وغداً جیفة منتنة، فإذا نشرت الدوافن، ونصبت الموازین، ودعی الناس لفصل القضاء فوضعت فی المیزان فإن أرجح المیزان فأنا شریف كریم، وإن أنقص المیزان فأنا اللئیم الذلیل، فهذا حسبی وحسب الجمیع

میراآغازایک نجس پانی سے ہوا اورانجام یہ ہوگاکہ ایک دن یہ جسم ایک بدبودارلاش کی شکل اختیارکرلے گااورحشرات الارض کی خوراک بن جائے گا پھرآخرت میں میزان عدل قائم کردیاجائے گااورلوگوں کوپکاراجائے گاکہ وہ آکراپنے اعمال کاوزن کرائیں ، زندگی کے سارے اعمال تولے جائیں گے اگرنیکیوں کاپلڑاجھک گیاتواللہ نے سرخ رو کیا اوراگربدیوں کاپلڑابھاری ہواتوپھردائمی ذالت اورعذاب ہے،میرایہ حسب اورنسب ہے اورسب انسانوں کاحسب نسب یہی ہے۔[29]

وثلاث أحزننی حتى أبكیننی:فراق محمد وحزبه، وهو المطلع، والوقوف بین یدی الله عزّ وجلّ، لا أدری إلى جنة یؤمر بی أم إلى نار

اکثرفرمایاکرتے تھے کہ تین چیزوں کاخیال مجھ کوسخت غمزدہ کردیتاہے اورمیری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ایک تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کی جدائی ، دوسری چیزقبرکاعذاب اورتیسری چیزقیامت کاڈر۔[30]

عن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْجَنَّةَ تَشْتَاقُ إِلَى ثَلاثَةٍ عَلِیٍّ، وَعَمَّارٍ، وَسَلْمَانَ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت تین اشخاص کی مشتاق ہے سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۔[31]

نمازمیں اضافہ:مکہ مکرمہ میں ظہر،عصراورعشاکی فرض نمازوں کی دودورکعتیں تھیں مگرہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ایک ماہ قیام کئے بعدان میں اضافہ کرکے چار چار رکعتیں کردی گئیں ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: فُرِضَتْ الصّلَاةُ رَكْعَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ ثُمّ هَاجَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْمَدِینَةِ، فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا وَتُرِكَتْ صَلاَةُ السَّفَرِ عَلَى الأُولَى

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے(پہلے)نمازصرف دورکعت فرض ہوئی تھی پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو فرض رکعات چاررکعات ہوگئیں ،البتہ سفرکی حالت میں نمازاپنی حالت میں باقی رکھی گئی۔[32]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: اُفْتُرِضَتْ الصَّلَاةُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَا اُفْتُرِضَتْ عَلَیْهِ رَكْعَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ، كُلَّ صَلَاةٍ، ثُمَّ إنَّ اللهَ تَعَالَى أَتَمَّهَا فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَأَقَرَّهَا فِی السَّفَرِ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ رَكْعَتَیْنِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سب سے پہلے جوچیزفرض کی گئی وہ نمازتھی اورابتدامیں ہرنمازکی دودورکعت تھی،پھراللہ تعالیٰ نے حضر میں ان کی چاررکعتیں کردیں اورسفرمیں وہی دوقائم رکھیں ۔[33]

‏ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَأَنِّی فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿١٢٢﴾‏ وَاتَّقُوا یَوْمًا لَّا تَجْزِی نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْئًا وَلَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ یُنصَرُونَ ‎﴿١٢٣﴾‏(البقرة)
’’اے اولاد یعقوب میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی،اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی ،نہ ان کی مدد کی جائے گی۔‘‘

مسلسل چوراسی آیات میں بنی اسرائیل پراللہ کی نعمتوں اوران کی نافرمانیوں کاذکرفرمایاگیاآخرمیں دوبارہ انہیں اللہ کی نعمتیں یاددلائی گئیں اورآخرت کے دن سے ڈرایا گیااورمتنبہ کیاگیا کہ اے بنی اسرائیل!یادکرومیری وہ نعمت جس سے میں نے تمہیں نوازاتھااوریہ کہ میں نے تمہیں اس وقت کی دنیاکی تمام اقوام پرفضیلت دی تھی تاکہ تم اللہ کاپیغام ان تک پہنچاؤ،اوراس دن سےڈرو جب کوئی شخص چاہے وہ ماں باپ ہوں ،اولادہو، کتناہی قریبی رشتہ دارہواورگہرادوست ہو کسی کے ذراکام نہ آئے گا،نہ کسی سے جہنم سے رہائی کے بدلے میں معذرت قبول کی جائےگی،نہ فدیہ قبول کیاجائے گا،نہ کوئی سفارش ہی آدمی کوفائدہ دے گی،اورنہ مجرموں کوکہیں سے کوئی مددپہنچ سکے گی۔جیسے فرمایا

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۝۸۸ۙاِلَّا مَنْ اَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۝۸۹ۭ [34]

ترجمہ:جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو ۔

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۝۵۷ [35]

ترجمہ:پس وہ دن ہوگا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔ ۔

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی ۖ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ ‎﴿١٢٤﴾‏ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَن طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاكِفِینَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِیلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿١٢٦﴾‏(البقرة)
’’جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے میری اولاد کو، فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں،ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن وامان کی جگہ بنائی، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو ،ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو،جب ابراہیم نے کہااے پروردگار !تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بےبس کر دوں گا، یہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان مشرکین اوراہل کتاب کوجوملت ابراہیمی کے دعویدارہیں ،انہیں ابراہیم علیہ السلام کی فرمانبرداری اوراطاعت گزاری کے واقعات توسناؤتاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ دین حنیف پر،اسوہ ابراہیمی پرکون قائم ہے،وہ یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب ؟یادکروجب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو چندباتوں میں آزمایااوروہ ہرآزمائش میں کامیاب وکامران رہے

 وَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙ [36]

ترجمہ:اور اس ابراہیم کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟۔

تواس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایااے ابراہیم علیہ السلام !میں تجھے سب لوگوں کاپیشوابنانے والاہوں ، یعنی ہرشخص تیری عظمت کاقائل ہوگااور وہ زندگی کے لائحہ عمل میں تیری پیروی کریں گے اورابدی سعادت کی منزل تک پہنچنے کے لئے تیرے پیچھے چلیں گے،ابراہیم نے عرض کیااے میرے پروردگار!کیامنصب امامت کایہ وعدہ میری اولادکے لئے بھی ہے؟اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس خواہش کوپوراکردیا

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔ ۝۲۷ [37]

ترجمہ:اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔

فَكُلُّ نَبِیٍّ أَرْسَلَهُ اللهُ وَكُلُّ كِتَابٍ أَنْزَلَهُ اللهُ بَعْدَ إِبْرَاهِیمَ فَفِی ذُرِّیَّتِهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُهُ عَلَیْهِ

پس ہرنبی جسے اللہ نے مبعوث کیااورہرکتاب جوابراہیم علیہ السلام کے بعدنازل فرمائی ،اس کا سلسلہ ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں رہا۔   [38]

اوراللہ تعالیٰ نے پیمبرزادگی کی جڑکاٹ کر جواب دیامیرایہ وعدہ صرف مومن اورصالح لوگوں کے لئے ہے ، مگر جوناخلف (گمراہ یہودی اورمشرک بنی اسماعیل) ہوں گے میراوعدہ ایسے ظالموں کے لئے نہیں ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِیقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللهِ یَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَیَتَدَارَسُونَهُ بَیْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْهِمْ السَّكِینَةُ، وَغَشِیَتْهُمْ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان سے دنیا کی پریشانیوں میں سے کسی ایک پریشانی کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک پریشانی کو دور فرمائے گا،جو شخص کسی مسلمان کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے اللہ دنیا و آخرت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا، جو شخص کسی تنگدست کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے اللہ دنیا و آخرت میں اس کے لئے آسانیاں پیدا کرے گا،اور بندہ جب تک اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد میں لگا رہتا ہے، اور جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ اس کی برکت سے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کرے اور آپس میں اس کا ذکر کرے اس پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے رحمت الٰہی ان پر چھا جاتی ہے اور فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں اور اللہ اپنے پاس موجود فرشتوں کے سامنے ان کا تذکرہ فرماتا ہے،اور جس کے عمل نے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جا سکے گا۔[39]

اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی دوخصوصیتیں بیان فرمائیں یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے ثواب کی جگہ بنایا چنانچہ جوایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت کرلیتاہے وہ باربارآنے کے لئے بے قراررہتاہے،اوراس گھرکوامن کی جگہ قرار دیا تھاچنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اپنے شرک کے باوجودبیت اللہ کاحددرجہ احترام کرتے تھے حتی کہ ان میں سے کوئی اگربیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کودیکھ بھی لیتاتھاتوتب بھی حدودحرم میں بدلہ نہیں لیتاتھا،

سَمِعَ جَابِرًا، یُحَدِّثُ عَنْ حَجَّةِ النَّبِیِّ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا طَافَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ عُمَرُ: هَذَا مَقَامُ أَبِینَا إِبْرَاهِیمَ؟قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: أَفَلَا تَتَّخِذُهُ مُصَلًّى؟ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى

جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی تفصیل بیان کرتے ہوئے روایت کیاہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف فرمایاتوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یہ ہمارے باپ کامقام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کیاہم اسے نمازکی جگہ بنالیں ؟ تواللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی’’تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو۔‘‘[40]

اورلوگوں کوحکم دیاتھاکہ جس پتھرپرکھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیرکی تھی اوراس پتھر پرابراہیم علیہ السلام کے پیروں کے نشانات پڑگئے تھےاس مقام پرطواف مکمل کرنے کے بعددورکعت نمازپڑھو،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ اللهَ فِی ثَلاَثٍ أَوْ وَافَقَنِی رَبِّی فِی ثَلاَثٍ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ لَوِ اتَّخَذْتَ مَقَامَ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى، فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى، وَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، یَدْخُلُ عَلَیْكَ البَرُّ وَالفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِینَ بِالحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللهُ آیَةَ الحِجَابِ ، قَالَ: وَبَلَغَنِی مُعَاتَبَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِهِ، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِنَّ، قُلْتُ: إِنِ انْتَهَیْتُنَّ أَوْ لَیُبَدِّلَنَّ اللهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا مِنْكُنَّ،حَتَّى أَتَیْتُ إِحْدَى نِسَائِهِ، قَالَتْ: یَا عُمَرُ، أَمَا فِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا یَعِظُ نِسَاءَهُ، حَتَّى تَعِظَهُنَّ أَنْت، فَأَنْزَلَ اللهُ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ یُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَات

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تین باتیں میری ایسی ہیں جو وحی الٰہی کے موافق ہوئیں یا یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری تین باتوں سے اتفاق کیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش !آپ مقام ابراہیم کونمازکے لیے کھڑے ہونے کی جگہ بنالیں ،چنانچہ تواس موقع پریہ آیت’’تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو۔‘‘ نازل ہوئی، دوسری بات یہ کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے پاس نیک وبدہرقسم کے لوگ آتے ہیں اچھا ہو اگر آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم فرمائیں تو اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی، تیسری یہ ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ آپ بیویوں سے ناراض ہیں تو میں ان کے پاس پہنچا اور کہا کہ دیکھو تم رسول اللہ کو ناراض نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر عورتیں اپنے رسول کو عطا فرما سکتا ہے،حتی کہ جب امہات المومنین میں سے ایک سے میں نے یہ کہاتوانہوں نے جواب دیا اے عمر!اپنی بیویوں کووعظ کرنے کے لیے کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کافی نہیں ہے کہ آپ نے انہیں وعظ شروع فرمادیاہے؟تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ بعیدنہیں کہ اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم تم سب بیویوں کوطلاق دے دے تواللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطافرمادے جوتم سے بہترہوں ،سچی مسلمان،باایمان ،اطاعت گزار،توبہ گزار،عبادت گزاراورروزہ دار،خواہ شوہردیدہ ہوں یاباکرہ۔‘‘[41]

وَقَدْ كَانَ الْمَقَامُ مُلْصَقًا بِجِدَارِ الْكَعْبَةِ قَدِیمًا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَیج، حَدَّثَنِی عَطَاءٌ وَغَیْرُهُ مِنْ أَصْحَابِنَا: قَالُوا: أَوَّلُ مَنْ نَقَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

زمانہ قدیم میں مقام ابراہیم دیوارکعبہ کے ساتھ متصل تھا(بعدمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کعبے کے دروازے کی طرف حجراسودکے پاس دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب اسے پیچھے ہٹایاتھا)عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عطاء اوردیگرمفسرین سے روایت کیاہے کہ مقام ابراہیم کوسب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ہی نے منتقل کیاتھا۔[42]

وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَیْضًا عَنْ معمر عن حَمِید الأعرج، عن مجاهد قال: أول من أخر المقام إلى موضعه الآن، عمر بن الخطاب رضی الله عنه

عبدالرزاق رحمہ اللہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے کہ مقام ابراہیم کوسب سے پہلے اپنی موجودہ جگہ پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے منتقل کیاتھا۔

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍالْبَیْهَقِیُّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا: أَنَّ الْمَقَامَ كَانَ فِی زَمَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَزَمَانِ أَبِی بَكْرٍ مُلْتَصِقًا بِالْبَیْتِ، ثُمَّ أَخَّرَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

حافظ ابوبکربیہقی رحمہ اللہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کوبیان کیاہے کہ مقام ابراہیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیت اللہ ہی کے ساتھ متصل تھاپھرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اسے کچھ پیچھے ہٹادیاتھا۔[43]

اورابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کوتاکیدکی تھی کہ میرے اس گھرکوطواف اوراعتکاف اوررکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لیے شرک،کفرومعاصی،رجس ونجاست اورلغوکاموں سےمحفوظ رکھنا ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَّطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّاۗىِٕفِیْنَ وَالْقَاۗىِٕمِیْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۲۶ [44]

ترجمہ:اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

اور ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعابھی کی تھی اے میرے رب ! اس شہرکوامن کاشہربنادے،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ إِبْرَاهِیمَ حَرَّمَ بَیْتَ اللهِ وَأَمَّنَهُ، وَإِنِّی حَرَّمْتُ الْمَدِینَةَ مَا بَیْنَ لَابَتَیْهَا لَا یُصْطَادُ صَیْدُهَاوَلَا یُقْطَعُ عِضَاهَا

جابربن عبداللہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کوحرم اورامن والاقراردیاتھااورمیں مدینہ اوراس کے دونوں کناروں کے مابین کے علاقے کوحرم قراردیتاہوں ،لہذااس کے شکارکونہ ماراجائے اورنہ اس کی گھاس کوکاٹاجائے۔[45]

مکہ مکرمہ کواللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کے پیداکرنے سے پہلے بھی حرم قراردیاتھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ افْتَتَحَ مَكَّةَ: إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ یَحِلَّ القِتَالُ فِیهِ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَلَمْ یَحِلَّ لِی إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، لاَ یُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُهُ، وَلاَ یَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلاَ یُخْتَلَى خَلاَهُ فَقَالَ العَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَیْنِهِمْ وَلِبُیُوتِهِمْ، قَالَ:إِلَّا الإِذْخِرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ارشادفرمایااس شہرکواللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت والاقراردے دیاتھاجس دن اس نے آسمانوں اورزمین کوپیدافرمایاتھالہذااللہ تعالیٰ کے حرام قراردینے کی وجہ سے قیامت کے دن تک یہ شہرحرمت والاہے،مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس شہرمیں جنگ وقتال حلال نہ تھا اور میرے لیے بھی ایک دن کے کچھ حصے میں اسے حلال قراردیاگیااوراب اللہ تعالیٰ کے حرام قراردینے کی وجہ سے یہ روزقیامت تک حرمت والاہے، لہذااس کے کانٹے کونہ کاٹاجائے،اس کے شکارکونہ بھگایاجائے،اس کےگری پڑی چیزکوصرف وہی شخص اٹھائے جومالک تک چیزکوپہنچانے کے لیے اعلان کرائے، اسی طرح اس کی گھاس کوبھی نہ کاٹاجائے،عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اذخرنامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دیجئے کیونکہ یہ گھروں میں اورلوہاروں کی بھٹیوں میں استعمال ہوتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اذخرنامی گھاس متثنیٰ ہے۔[46]

اوراس کے باشندوں میں سے جواللہ وحدہ لاشریک اوریوم آخرت،حساب کتاب اورجزاوسزا کومانیں انہیں ہرقسم کے پھلوں کارزق دے،اللہ تعالیٰ نے یہ دعابھی قبول فرمائی یہ شہرامن کاگہوارہ ہے اوردنیابھرکے پھل فروٹ اورہرقسم کے غلے کی فراوانی ہے،اللہ تعالیٰ نےجواب میں فرمایاجواللہ کواورآخرت کو نہ مانے گااسے بھی میں دنیاکی چندروزہ زندگی کاسامان دوں گا،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ أَحَدٌ، أَوْ: لَیْسَ شَیْءٌ أَصْبَرَ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللهِ ، إِنَّهُمْ لَیَدْعُونَ لَهُ وَلَدًا، وَإِنَّهُ لَیُعَافِیهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ

ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتکلیف دہ بات کوسن کراللہ سے بڑھ کرصبرکرنے والااورکوئی نہیں ہے، لوگ اللہ کاشریک ٹھیراتے ہیں اوراس کابیٹابناتے ہیں لیکن اس کے باوجودوہ انہیں رزق عطاکرتااورعافیت سے نوازتاہے۔[47]

مگرآخرکاراسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گااوروہ بدترین جگہ ہے،جیسے فرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا۝۰ۚ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۴۸ۧ [48]

ترجمہ:کتنی ہی بستیاں ہیں جوظالم تھیں میں نے ان کوپہلے مہلت دی پھرپکڑالیااورسب کوواپس تومیرے ہی پاس آناہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [49]

ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ظالم کومہلت دیے رکھتاہے حتی کہ جب اسے پکڑلیتاہے توپھراسے چھوڑتانہیں ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آیت کی تلاوت فرمائی’’ اورتیرارب جب کسی ظالم بستی کوپکڑتاہے توپھراس کی پکڑایسی ہی ہواکرتی ہے فی الواقع اس کی پکڑبڑی سخت اوردردناک ہوتی ہے۔‘‘[50]

ایک جرمقانی شخص کاقبول اسلام

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:جَاءَ جُرْمُقَانِیٌّ إِلَى أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیْنَ صَاحِبُكُمْ هَذَا الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ؟ لَئِنْ سَأَلْتُهُ لَأَعْلَمَنَّ أَنَّهُ نَبِیٌّ أَوْ غَیْرُ نَبِیٍّ،قَالَ: فَجَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الْجُرْمُقَانِیُّ: اقْرَأْ عَلَیَّ، أَوْ قُصَّ عَلَیَّ، فَتَلَا عَلَیْهِ آیَاتٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ،فَقَالَ الْجُرْمُقَانِیُّ: هَذَا وَاللهِ الَّذِی جَاءَ بِهِ مُوسَى

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہےایک جرمقانی شخص(جرامقہ کی طرف نسبت ہے جوعجم میں ایک قوم ہے)آیااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دریافت کیاکہ تمہارے وہ صاحب کہاں ہیں جن کویہ زعم ہے کہ میں اللہ کا نبی ہوں ، میں ان سے کچھ سوالات کروں گاجس سے واضح ہوجائے گاکہ وہ اللہ کے نبی ہیں یانہیں ، اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کراس شخص نے کہاجووحی آپ پرنازل ہوتی ہے مجھے وہ سنائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام اللہ سے چندآیات اس کے سامنے تلاوت فرمائیں ،سوالات تواس نے کیاکرنے تھے کلام الہٰی سنتے ہی کہنے لگااللہ کی قسم! یہ تواس طرح کاکلام ہے جوموسیٰ علیہ السلام لائے تھے [51]

وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿١٢٧﴾‏ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٢٨﴾‏ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١٢٩﴾(البقرة)
 ’’ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے،اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرماں بردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ، اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔ ‘‘

اوریادکروجب ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام ہمارے حکم سےبیت اللہ کی بنیادیں بلندکرتے ہوئے اس کے اردگردگھوم رہے تھے اوراللہ تعالیٰ کے حضورعجزوانکساری سےدعاکرتے جاتے تھے اے ہمارے رب!ہماری ناچیزخدمت اپنی رحمت خاص سے قبول فرمالے،جوکچھ بھی کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اس سے درگزرفرما توسب کی سننے اورسب کچھ جاننے والاہے،

عَنْ وُهَیْبِ بْنِ الْوَرْدِ قَالَ: قَرَأَ وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا. زَادَ ابْنُ خُنَیْسٍ فِی حَدِیثِهِ، ثُمَّ یَبْكِی. فَقَالَ وُهَیْبٌ یَا خَلِیلَ الرَّحْمَنِ تَرْفَعُ قَوَائِمَ بَیْتِ الرَّحْمَنِ وَأَنْتَ مُشْفِقٌ أَنْ لَا یَقْبَلَ منك

وہیب بن وردسے روایت ہے انہوں نے اس آیت کریمہ’’اور یاد کرو ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے، اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔‘‘ تلاوت کی، اورروپڑے اورکہنے لگے اے خلیل الرحمٰن!آپ توبیت الرحمٰن کی بنیادیں استوارفرمارہے ہیں پھربھی ڈررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے عمل کوقبول نہیں فرمائے گا۔[52]

جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ۝۶۰ۙ [53]

ترجمہ:اورجن کاحال یہ ہے کہ دیتے ہیں جوکچھ بھی دیتے ہیں اوردل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹناہے(اوران کے صدقات وغیرہ قبول ہی نہ ہوں )۔

اورنہایت عاجزی سے دعافرمائی اے رب!ہم دونوں کومواحدمسلمان بنادے،ہمیں اپنے پسندیدہ دین اسلام پرثابت قدمی اوراس پراستقامت عطافرما،پھراپنی اولادکے لئے فکرمندہوکردعاکی اے میرے رب!ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھاجوتیری تابع فرمان ہو،ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتااورہماری کوتاہیوں اوربھول چوک سے درگزرفرمابیشک توبڑامعاف کرنے والااوررحم فرمانے والا ہے،اورچارکاموں کے لئے التجاکی ،اے ہمارے رب!ان لوگوں میں سے یعنی اسماعیل علیہ السلام سے اپناعظیم الشان رسول کھڑاکرنااوراس پراپنی کتاب وحکمت نازل کرنا تاکہ وہ تیری ہدایت لوگوں تک پہنچائے،ان کی تعلیم وتربیت ،تزکیہ نفس اورحکمت ودانش کاعملی طورپرسبق سکھائے،انہیں شرک وتوہمات کی آلائشوں ، اخلاق ، عادات ، معاشرت ، تمدن ،سیاست الغرض ہرچیزکوسنوارے تاکہ وہ لوگ شیطان کے پنجے سے نجات پاجائیں اورتیری رحمت ان کوڈھانک لے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ دعابھی مقبول فرمائی اوراسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا

هُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۲ۙ [54]

ترجمہ:وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اُٹھایاجو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عرب وعجم سب کے لئےعام ہے۔

 قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا۔۔۔ ۝۱۵۸ [55]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہوں کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہوں ۔

عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أَنَا دَعْوَةُ أَبِی إِبْرَاهِیمَ

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاہوں ۔[56]

وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِیمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاهُ فِی الدُّنْیَا ۖ وَإِنَّهُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١٣٠﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٣١﴾‏ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِیمُ بَنِیهِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿١٣٢﴾‏ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ‎﴿١٣٣﴾‏ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٣٤﴾‏(البقرة)
 ’’دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے ،جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہافرماں بردار ہوجا، انہوں نے کہامیں نے رب العالمین کی فرماں برداری کی،اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی کہ ہمارے بچو ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار ! تم مسلمان ہی مرنا، کیا(حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے ؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار رہیں گے،یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لیے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لیے ہے، ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کودنیاوآخرت میں جو عظمت وفضیلت عطافرمائی ہے وہ بیان فرمائی کہ ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کوپہچان لینے کے بعدکون ان کی طریقے اورمنہج سے روگردانی کرے گا، ملت ابراہیم سے اعراض اوربے رغبتی تووہ کرے گا جس نے خوداپنے آپ کوحماقت وجہالت میں مبتلاکرلیاہو، ابراہیم خلیل اللہ تووہ شخص تھاجس کوہم نے دنیامیں دین حق پہنچانےکے لیے چن لیاتھااورآخرت میں اس کاشمارصالحین میں ہوگااوربلندترین درجات پرفائزہوگا،اوریہ فضیلت وبرگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی جب اس کے رب نے اس سے کہااے ابراہیم علیہ السلام !اپنے پروردگارکے آگے سراطاعت خم کردےاوراس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق دنیامیں زندگی بسرکروتواس نے فورا ًفرمانبرداری سے عرض کیا میں اخلاص،توحید،محبت اورانابت کے طورپرجہانوں کے پروردگارکے سامنےسرتسلیم خم کرتاہوں ،

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ:وَمَنْ یَرْغَبُ عَن مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ قَالَ: رَغِبَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ وَابْتَدَعُوا الْیَهُودِیَّةَ وَالنَّصْرَانِیَّةَ، وَلَیْسَتْ مِنَ اللهِ وَتَرَكُوا دِینَ إِبْرَاهِیمَ. وَرُوِیَ عَنْ قَتَادَةَ نَحْوُ ذَلِكَ

ابوالعالیہ رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے ایساطریقہ ایجادکرلیاتھاجواللہ تعالیٰ کامقررکردہ نہیں تھااوراس میں انہوں نے ملت ابراہیمی کی بھی مخالفت کی تھی۔[57]

اس قول کی تائیداس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے

 مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۶۷اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِـاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۭ وَاللهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۶۸ [58]

ترجمہ:ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا،ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کاسب سے زیادہ حق اگرکسی کوپہنچتاہے توان لوگوں کوپہنچتاہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اوراب یہ نبی علیہ السلام اوراس کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حق دارہیں ،اللہ صرف انہی کاحامی ومددگارہے جوایمان رکھتے ہیں ۔

اوراسی توحیدکواس نے وراثت کی طورپراپنی اولادمیں منتقل کیاتھا،بنی اسرائیل کیوں کہ یعقوب علیہ السلام کی اولادتھے اس لئے یعقوب علیہ السلام کاخاص طورپرذکرفرمایا اوراسی توحید کی وصیت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کوکرگیاتھااس نے کہاتھاکہ میرے بچو!اللہ تعالیٰ نے تم پررحم اوراحسان کرتے ہوئے تمہارے لیے دین اسلام کو پسندکیاہے

 اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۔۔۔ ۝۱۹ [59]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک دین صرف الاسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ [60]

ترجمہ:اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

۔۔۔ اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔۝۳ [61]

ترجمہ:آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔

لہذامرتے دم تک اسی طریق زندگی پرکاربند رہنا،اسی میں تمہاری دنیاوی ترقی وخوشحالی اورآخرت میں اللہ کی خوشنودی اورکامیابی وکامرانی ہے، یہودیوں کوزعم تھاکہ وہ ملت ابراہیم اوران کے بعدملت یعقوب پرہیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی تردیدفرمائی کہ توپھرکیاتم اس وقت وہاں موجودتھے جب یعقوب علیہ السلام اس دنیاسے رخصت ہورہا تھا ؟اوراس نے تمہیں یہودیت پرقائم رہنے کی وصیت کی تھی ،حالانکہ اس نے تووقت وفات بطورامتحان اپنے بیٹوں سے پوچھاتھا!اے میرے بیٹو!میرے اس دنیاسے جانے بعدتم کس کی بندگی کروگے؟ سب بیٹوں نے انہیں ایساجواب دیاجس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں ،انہوں نے جواب دیاہم اسی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھیرائیں گےجسے آپ نے اورآپ کے بزرگوں ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام اوراسحاق علیہ السلام نے اپناالٰہ ماناہے اورہم اسی کے مطیع وفرمانبردار ہیں ،یعنی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں کویہودیت کی نہیں بلکہ دین اسلام کی وصیت فرمائی تھی ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاتم انبیاء کی طرف اپنی نسبت کرکے کہتے ہوکہ ہم توجنتوں میں جائیں گے اوردوزخ کی آگ تمہیں نہیں چھوئے گی مگریہ تمہاری خام خیالی ہی ہے،وہ تمہارے آباؤاجداد تھےجواس دنیاسے چلےگئے،انہوں نے جواعمال کیےاللہ انہیں اس کی جزادے گااورجوکچھ تم اعمال کروگے اس کاصلہ تمہیں ہی ملے گا ،نہ ان لوگوں سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھاجائے گا اورنہ تم سے ان کے اعمال کے بارے میں بازپرس ہوگی،میدان محشرمیں ہرشخص فرداًفرداًاللہ کے حضورحاضرہوگا۔

وَّنَرِثُهٗ مَا یَقُوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا۝۸۰ [62]

ترجمہ:جس سروسامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا۔

وَكُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [63]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔

اورہرشخص اپنے اعمال کاخودجوابدہ ہوگااورخودہی جزاوسزاکامستحق ہوگا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورجس شخص کواس کے عمل نے پیچھے رکھاتواس کاحسب نسب اسے آگے نہیں لے جاسکے گا۔[64]

یعنی پیغمبروں اوربزرگوں کی اولادہوناکچھ مفیدنہیں بلکہ عمل عمدہ کرناچاہیے۔

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٣٥﴾‏ قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَىٰ وَعِیسَىٰ وَمَا أُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ‎﴿١٣٦﴾‏ (البقرة(
’’یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے، تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیںاور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے، اے مسلمانو ! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس چیز پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو دیئے گئے ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں ۔ ‘‘

ملت ابراہیم کی دعوت:جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہودیوں اورنصرانیوں کودعوت اسلام دیتے ،انہیں اللہ تعالیٰ کاآخری کلام پڑھ کرسناتے ،جسے سن کران کے دل تسلیم کرتے مگراپنی ہٹ دھرمی سے انکارکرتے اور مسلمانوں کوگمراہ کرنے کے لئے کہتے تم اس وقت تک ہدایت حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ یہودی یانصرانی نہیں ہوجاتے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ صُورِیَّا الْأَعْوَرُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا الْهُدَى إِلَّا مَا نَحْنُ عَلَیْهِ فَاتَّبِعْنَا یَا مُحَمَّدُ تَهْتَدِی، وَقَالَتِ النَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ فِیهِمْ {قَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا} [65]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن صوریااعورنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاہدایت توصرف وہ ہے جس پرہم ہیں لہذااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی ہماری پیروی کریں تاکہ ہدایت حاصل کرسکیں اسی طرح عیسائیوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےیہی کہاتھاتواس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ’’یہودی کہتے ہیں یہودی ہوتوراہ راست پاؤگے،عیسائی کہتے ہیں عیسائی ہوتوہدایت ملے گی۔‘‘ نازل فرمائی۔[66]

اللہ تعالیٰ نے فرمایاان سے کہو یہودیت یانصرانیت کواختیارنہ کرو بلکہ ہمارے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کروجوپکامواہدتھا،جس کی پیروی میں ہدایت اورجس کی ملت سے روگردانی کرناکفراورگمراہی ہےاورجن کوتم اپنا پیشواتسلیم کرتے ہو۔ایمان کامعیاربیان فرمایاکہ مسلمانو!کہوکہ ہم ایمان لائے اللہ تعالیٰ پرکہ وہ واجب الوجودہے،وہ وحدہ لاشریک ہے،وہ ہرصفت کمال سے متصف اور ہرنقص اورعیب سے منزہ ہے،تمام عبادات کااکیلاوہی مستحق ہے،اوران عبادات میں کسی بھی پہلوسے کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں ،اوراس قرآن پرجوہماری ہدایت و رہنمائی کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۔۔۔ ۝۱۱۳ [67]

ترجمہ:اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے ۔

اوراللہ کی طرف سے جوصحیفے اورکتابیں ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام اوراولادیعقوب علیہ السلام اورجوموسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام اورسابقہ تمام پیغمبروں پر نازل ہوئی تھی ہم ان سب پر اجمالا ً ایمان رکھتے ہیں ،

سُلَیْمَانَ بْنَ حَبِیبٍ الْمُحَارِبِیَّ یَقُولُ:إِنَّمَا أُمِرْنَا أَنْ نُؤْمِنَ بِالتَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِیلِ وَلَا نَعْمَلَ بِمَا فِیهَا

سلیمان بن حبیب کاقول ہے ہمیں یہ حکم دیاگیاہے کہ ہم تورات وانجیل کے ساتھ ایمان لائیں لیکن ان کے مطابق عمل نہ کریں ۔[68]

عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:آمِنُوا بِالتَّوْرَاةِ وَالزَّبُورِ وَالْإِنْجِیلِ وَلِیَسَعْكُمُ الْقُرْآنُ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتورات،زبوراورانجیل کے ساتھ ایمان تولاؤلیکن عمل کرنے کے لیے تمہیں قرآن ہی کافی ہے۔[69]

اورکسی کتاب یارسول کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے،جیسے فرمایا

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ۝۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۝۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ۝۲۸۵ [70]

ترجمہ:رسول اس ہدایت پرایمان لایاہے جواس کے رب کی طرف سے اس پرنازل ہوئی ہے اورجولوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کودل سے تسلیم کرلیاہے ،یہ سب اللہ اوراس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اوراس کے رسولوں کومانتے ہیں اوران کاقول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کوایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ،ہم نے حکم سنااوراطاعت قبول کی ،مالک ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اورہمیں تیری ہی طرف پلٹناہے۔

اورجولوگ اللہ اوراس کے رسولوں میں تفریق کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا۝۱۵۰ۙاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا۝۱۵۱ [71]

ترجمہ:جولوگ اللہ اوراس کے رسولوں سے کفرکرتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ اللہ اوراس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اورکہتے ہیں کہ ہم کسی کومانیں گے اورکسی کونہ مانیں گے اورکفروایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کاارادہ رکھتے ہیں ،وہ سب پکے کافرہیں اورایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزامہیاکررکھی ہے جوانہیں ذلیل وخوارکردینے والی ہوگی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَانَ أَهْلُ الكِتَابِ یَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالعِبْرَانِیَّةِ، وَیُفَسِّرُونَهَا بِالعَرَبِیَّةِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الكِتَابِ وَلا تُكَذِّبُوهُمْ، وَقُولُوا: {آمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاہل کتاب تورات کوعبرانی زبان میں پڑھتے اورمسلمانوں کے لیے عربی میں اس کی تفسیربیان کیاکرتے تھےتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانو! تم اہل کتاب کی تصدیق کرواورنہ تکذیب بلکہ یہ کہہ دیاکروکہ’’ ہم اللہ تعالیٰ پراورجواس نے ہماری طرف نازل فرمایا ایمان لاتے ہیں ۔‘‘[72]

البتہ اب عمل قرآن پرہوگاکیونکہ قرآن نے ان تمام کتابوں کومنسوخ کردیاہے، اورہم اللہ وحدہ لاشریک کے مطیع وفرمانبردارہیں ۔

[1] ابن ھشام ۲۱۹؍۱ ، دلائل النبوة ۲۵۸؍۱

[2] دلائل النبوة للبیہقی۲۶۵؍۱،امتاع الاسماع۱۷۴؍۲،الخصائص الکبری۱۰۱؍۱

[3] مسند احمد۲۰۷۳۲

[4] ابن ہشام۲۲۲؍۱

[5] شرف المصطفی۴۵؍۶ ،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۶۵؍۴، الکامل فی التاریخ۶۵؍۲

[6] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۴؍۲

[7] ابن سعد۶۵؍۴

[8] ابن سعد ۶۷؍۴

[9] ابن سعد۶۵؍۴

[10] ابن سعد۶۵؍۴

[11] شعب الایمان ۷۹۶۲

[12] ابن سعد ۶۶؍۴

[13] الجامع معمربن راشد۱۹۴۶۴،ابن سعد۶۷؍۴

[14]۔ الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۴؍۲،شعب الایمان۱۰۲۵۷

[15] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۱۸؍۳

[16] اسد الغابة ۵۱۰؍۲

[17] ابن سعد۶۸؍۴

[18] ابن سعد ۶۹؍۴

[19] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۵؍۲

[20] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۴؍۲

[21] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۴؍۲

[22] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ سَلْمَانَ، وَصُهَیْبٍ، وَبِلَالٍ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ۶۴۱۲،مسنداحمد۲۰۶۴۰،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۴؍۲

[23] مستدرک حاکم۶۵۴۲،مكارم الأخلاق للطبرانی۱۵۱،أخلاق النبی وآدابه لابی الشیخ الاصبہانی۵۳؍۴

[24] اسدالغابة۵۱۰؍۲

[25] الزهد لأبی داود السجستانی ۲۵۵

[26] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۳۷؍۲

[27] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۱۹؍۳

[28] شعب الایمان۱۰۱۶۹،حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء۲۰۷؍۱

[29] مختصر تاریخ دمشق لابن عساكر ۳۹؍۱۰

[30] مختصرتاریخ دمشق۵۲؍۱۰

[31] اسدالغابة۵۱۰؍۲

[32] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ التَّارِیخِ، مِنْ أَیْنَ أَرَّخُوا التَّارِیخَ۳۹۳۵

[33]ابن ہشام۲۴۳؍۱،الروض الانف۲۸۴؍۳

[34] الشعرائ۸۸،۸۹

[35] الروم۵۷

[36] النجم۳۷

[37] العنکبوت۲۷

[38] تفسیرابن کثیر۴۱۰؍۱

[39] مسنداحمد۷۴۲۷،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ۶۸۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ ۲۲۵

[40] تفسیرابن ابی حاتم۲۲۶؍۱

[41] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى ۴۴۸۳

[42] موسوعة الصحیح المسبور من التفسیر بالمأثور۲۳۳؍۱

[43] تفسیرابن کثیر۴۱۷؍۱

[44] الحج۲۶

[45] السنن الكبرى للنسائی۴۲۷۰

[46] صحیح بخاری كِتَابُ الجِزْیَةِ بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ۳۱۸۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ تَحْرِیمِ مَكَّةَ وَصَیْدِهَا وَخَلَاهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا، إِلَّا لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ۳۳۰۲

[47] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى۶۰۹۹

[48] الحج۴۸

[49] [هود: 102]

[50] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ:وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ۴۶۸۶،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱

[51]مسنداحمد۲۰۸۸۴،الخصائص الکبریٰ ۳۱۹؍۱

[52] تفسیرابن ابی حاتم ۲۳۳؍۱

[53] المومنون۶۰

[54] الجمعة۲

[55] الاعراف۱۵۸

[56] مستدرک حاکم ۳۵۶۶،الخصائص الکبری ۱۶؍۱،تاریخ طبری ۱۶۱؍۲،ابن ہشام ۱۶۶؍۱،الروض الانف ۱۰۸؍۲،عیون الآثر۴۳؍۱،ابن سعد۱۱۹؍۱،البدایة والنھایة۳۳۵؍۲

[57] تفسیرابن ابی حاتم۲۳۸؍۱

[58] آل عمران۶۷،۶۸

[59] آل عمران۱۹

[60] آل عمران۸۵

[61] المائدة۳

[62] مریم۸۰

[63] مریم۹۵

[64] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ۶۸۵۳

[65] البقرة: ۱۳۵

[66] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۱؍۱

[67] النساء ۱۱۳

[68] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۳؍۱

[69] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۳؍۱

[70] البقرة۲۸۵

[71] النساء ۱۵۰،۱۵۱

[72] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا ۴۴۸۵

Related Articles