بعثت نبوی کا بارهواں سال

سورۂ الفاتحہ کے  مسائل

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ‎﴿١﴾‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢﴾‏ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ‎﴿٣﴾‏ مَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ ‎﴿٤﴾‏ إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ ‎﴿٥﴾‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ ‎﴿٧﴾‏

سفیان بن عینیہ سے  روایت ہے  کہ سورت فاتحہ نمازکوپوراکرنے  والی ہے ، اس لئے  سورت فاتحہ کانمازمیں  پڑھنابہت ضروری ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ یَقْرَأْ فِیهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِیَ خِدَاجٌ،  ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس شخص(ہرنمازی،  چاہے  وہ سری نماز پڑھ رہاہوہویاجہری، فرض نماز ہویانفل اکیلانمازپڑھ رہاہویاامام کے  پیچھے  مقتدی ہو) کی نمازنہیں  جس نے  سورہ فاتحہ نہیں  پڑھی(تین مرتبہ فرمایا) وہ نمازناقص ہے  ناقص ہے  ناقص ہے ۔ [1]

اوراسی روایت میں  سورہ فاتحہ کونمازکہاگیاہے  جیساکہ اس میں  ہے

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَیْنِی وَبَیْنَ عَبْدِی نِصْفَیْنِ: فَنِصْفُهَا لِی،  وَنِصْفُهَا لِعَبْدِی،  وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَءُوا یَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ} [الفاتحة: 2] یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِی عَبْدِی،  یَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ} [الفاتحة: 1]،  یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَیَّ عَبْدِی،  یَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ}،  یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِی عَبْدِی،  یَقُولُ الْعَبْدُ {إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ} [الفاتحة: 5]،  یَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَیْنِی وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ،  یَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ،  صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ،  وَلَا الضَّالِّینَ} [الفاتحة: 7]،  یَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ

اللہ   تعالیٰ فرماتاہے میں  نے  نماز کو اپنے  اوراپنے  بندے  کے  درمیان دونصف حصوں  میں  تقسیم کردیاہے  اس کاایک نصف میرے  لئے  ہے  اوردوسرامیرے  بندے  کے  لئے  اورمیرے  بندے  کے  لئے  وہ سب کچھ ہے  جواس نے  مانگا، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاپڑھو، بندہ کہتا ہے تعریف   اللہ   ہی کے  لیے  ہے  جو تمام کائنات کا رب ہے   اللہ   تعالیٰ جواب میں  فرماتاہے  کہ میرے  بندے  نے  میری حمدبیان کی، بندہ کہتاہے نہایت مہربان اور رحم فرمانے  والا ہے ،   اللہ   عزوجل فرماتاہے  میرے  بندے  نے  میری ثناکی ، بندہ کہتاہے  روز جزا کا مالک ہے ،   اللہ   عزوجل فرماتاہے  میرے  بندے  نے  میری بزرگی بیان کی، بندہ کہتاہے  ہم تیری عبادت کرتے  ہیں  اورتجھ سے  ہی مددمانگتے  ہیں  ، تو  اللہ   فرماتاہے  یہ میرے  اوربندے  کے  مابین ہے  اورمیرے  بندے  کے  لئے  وہ سب کچھ ہے  جواس نے  مانگا، بندہ کہتاہے  ہمیں  سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں  کا راستہ جن پر تو نے  انعام فرمایاجو معتوب نہیں  ہوئے  جو بھٹکے  ہوئے  نہیں  ہیں  ،    اللہ   تعالیٰ فرماتاہے  یہ میرے  بندے  کے  لئے  ہے  اورمیرے  بندے  کے  لئے  وہ سب کچھ ہے  جواس نے  مانگا۔ [2]

ان تمام دلائل سے  ثابت ہواکہ نمازمیں  سورہ فاتحہ کی قرا ء ت فرض ہے  اوراس کے  بغیرنمازنہیں  ہوتی۔

وَهَذَا مَذْهَبُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِیِّ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِینَ فَمَنْ بَعْدَهُمْ

جمہورصحابہ وتابعین، امام مالک رحمہ   اللہ   اور امام شافعی رحمہ   اللہ   سب اسی کے  قائل ہیں  ۔

أَنَّ مَذْهَبَ الْحَنَفِیَّةِ أَنَّ قِرَاءَةَ الْفَاتِحَةِ لَیْسَتْ بِفَرْضٍ بَلْ هِیَ وَاجِبَةٌ قَالُوا الْفَرْضُ عِنْدَنَا مُطْلَقُ الْقِرَاءَةِ لِقَوْلِهِ تعالى فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ

احناف کے  نزدیک نمازمیں  سورہ فاتحہ کی قراء ت فرض نہیں  بلکہ واجب ہے (یعنی فاتحہ کے  بغیربھی نمازہوجاتی ہے )اس آیت میں  مطلق قراء ت کاذکرہے  اوروہ ایک آیت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’ اب جتنا قرآن آسانی سے  پڑھ سکتے  ہو پڑھ لیا کرو۔ ‘‘[3]

واضح رہے  کہ احناف کاموقف کمزورروایات واستدلال پرمبنی ہے ، اس کی کچھ تفصیل یوں  ہے

۔ ۔ ۔  فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰن۔ ۔ ۔ [4]

اب جتنا قرآن آسانی سے  پڑھ سکتے  ہو پڑھ لیا کرو۔

فاتحہ کی فرضیت کے  موقف کوردکرنے  کے  لئے  احناف یہ آیت بطوردلیل پیش کرتے  ہیں  حالانکہ یہ عام ہے  اس کی تخصیص حدیث

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رِوَایَةً یَبْلُغُ بِهَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

عبادہ بن صامت سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ارشادفرمایاوہ نمازنہیں  جس میں  سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے ۔ نے  کردی ہے ۔ [5]

احناف کا کہناہے کہ حدیث میں مذکورفَهِیَ خِدَاجٌ کا معنی ہے کہ سور ہ فاتحہ کے بغیرنمازناقص ہوجاتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ نمازباطل نہیں ہوتی، حالانکہ خِدَاجٌ سے یہاں ایسانقص مراد ہے جو فسادو بطلان کو لازم ہے کیونکہ یہ لفظ عرب میں اس وقت استعمال ہوتاتھا جب اونٹنی حمل ساقط کر دیتی اور گراہوابچہ مردارہوتاہے جوکہ کسی فائدے کانہیں جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی بات ثابت کی ہے ، علاوہ ازیں اس کی مویدیہ حدیث بھی ہے

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا یَقْرَأُ فِیهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ارشادفرمایاایسی نمازکفایت نہیں  کرتی جس میں  سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے ۔ [6]

ہررکعت میں  سورہ فاتحہ پڑھناواجب ہے :

مسی الصلاة کوآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  نمازکی تعلیم دیتے  ہوئے  فرمایا

وَافْعَلْ ذَلِكَ فِی صَلاَتِكَ كُلِّهَا

پھرتم اپنی بقیہ پوری نمازمیں  اسی طرح کرو۔ [7]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی قَتَادَةَ،  عَنْ أَبِیهِ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: یَقْرَأُ فِی الرَّكْعَتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ،  وَیُسْمِعُنَا الْآیَةَ أَحْیَانًا،  وَیَقْرَأُ فِی الرَّكْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ بِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ

ابوقتادہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ظہرکی پہلی دورکعتوں  میں  سورہ فاتحہ اوردوسورتیں  پڑھتے  تھے  اوردوسری دورکعتوں  میں  صرف سورہ فاتحہ پڑھتے  تھے ۔  [8]

اورہمیں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  حکم دیا

وَصَلُّواكَمَا رَأَیْتُمُونِی أُصَلِّی

اسی طرح نمازپڑھوجیسے  تم مجھے  نمازپڑھتے  دیکھو۔ [9]

قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ فَرْضًا فِی كُلِّ رَكْعَةٍ

چنانچہ ابن حزم رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  سورۂ  فاتحہ ہرنمازکی ہررکعت میں  فرض ہے ۔ [10]

وَالصَّحِیحُ الَّذِی عَلَیْهِ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ وُجُوبُ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ

حافظ ابن حجر رحمہ   اللہ   اورامام نووی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اور صوابدید موقف یہی ہے  جوسلف وخلف جمہورکے  نزدیک ہے  کہ ہررکعت میں  دورہ فاتحہ فرض ہے ۔ [11]

امام شوکانی رحمہ   اللہ   بھی اسی کے  قائل ہیں  ۔ [12]

وَأَنَّ الْفَاتِحَةَ مُتَعَیِّنَةٌ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ لِكُلِ أَحَدٍ عَلَى الْعُمُومِ

امام قرطبی رحمہ   اللہ   کاموقف ہے فاتحہ ہر رکعت میں  عموما(امام ہو یا ماموم،  سری ہو یا جہری) متعین ہے ۔ [13]

اکثرعلماء نے  سورہ فاتحہ کونمازکارکن قراردیاہے ،

وَلِأَنَّ الْقِرَاءَةَ رُكْنٌ فِی الصَّلَاةِ

امام احمد بن حنبل ، امام مالک رحمہ   اللہ   اورامام شافعی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  سورۂ فاتحہ نمازکارکن ہے ۔ [14]

هَذِهِ الرِّوَایَةُ نَصٌّ صَرِیحٌ فِی رُكْنِیَّةِ الْفَاتِحَةِ

ابن حجر رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ روایت سورہ فاتحہ نماز کی رکنیت پر دلالت کناں  ہے ۔ [15]

وَرُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِهَا

ابن قدامہ رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  سورہ فاتحہ نمازکے  رکنوں  میں  سے  ایک رکن ہے ۔ [16]

فَالْحَاصِلُ أَنَّ اسْتِدْلَالَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَجُمْهُورِهِمْ بِأَحَادِیثِ الْبَابِ عَلَى رُكْنِیَّةِ الْفَاتِحَةِ فِی الصَّلَاةِ صَحِیحٌ لَا غُبَارَ عَلَیْهِ

عبدالرحمٰن مبارکپوری نے  طرفین کے  دلائل کو زیر بحث لانے  کے  بعد فرماتے  ہیں  کہ اہل علم کی اکثریت اور جمہور علماء سورۂ فاتحہ کو نمازکی رکنیت کے قول ہی کو راجح قرار دیتے  ہے کیونکہ ان ادلہ قاطعہ میں  اشکال نہیں  ۔ [17]

خواہ کوئی مقتدی ہو:

گزشتہ بیان کردہ فاتحہ کی رکنیت کے  تمام دلائل اس کاثبوت ہیں  ، مثلاًحدیث

لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

اس شخص کی کوئی نماز نہیں  جس نے  امام کے  پیچھے  سورہ فاتحہ نہ پڑھی۔ [18]

میں  عموم ہے  کہ کوئی بھی نمازہواورکوئی بھی شخص ہو خواہ مقتدی ہویاامام ہویامنفردہو، کسی کی کوئی نمازفاتحہ کے  بغیرنہیں  ہوتی،

امام بخاری رحمہ   اللہ   نے  باب قائم کیاہے ،

بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا،  فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ،  وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ

امام اورمقتدی کے  لئے  حضروسفرہرحال میں  سری اورجہری سب نمازوں  میں  قراء ت کے  وجوب کابیان۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ،  قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَثَقُلَتْ عَلَیْهِ الْقِرَاءَةُ،  فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ:لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ» قُلْنَا: نَعَمْ هَذًّا یَا رَسُولَ اللَّهِ،  قَالَ:لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِهَا

عبادہ بن صامت رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ایک مرتبہ نمازفجرمیں  بعض صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم اجمعین بھی رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ قرآن مجیدپڑھتے  رہے  جس کی وجہ سے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم پرقراء ت بوجھل ہو گئی، نمازختم ہونے  کے  بعد جب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھاکہ شاید تم لوگ امام کے  پیچھے  کچھ پڑھتے  ہو؟صحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم نے  عرض کیاہاں  اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تو آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ارشادفرمایاتم ایسامت کیاکرو(یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھاکرو)البتہ سورۂ فاتحہ ضرورپڑھ لیاکروکیونکہ اس کے  پڑھے  بغیرنمازنہیں  ہوتی۔ [19]

 أی فی كل ركعة منفردًا أو إمامًا أو مأمومًا،  سواء أسرّ الإمام أو جهر

مشہورشارح بخاری علامہ قسطلانی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  ہررکعت میں  (ہرنمازی کو)خواہ اکیلا یاامام ، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے  یابلندآوازسے  سورہ فاتحہ پڑھناضروری ہے  ۔  [20]

وَفِی الحَدِیث دَلِیل على أَن قِرَاءَة الْفَاتِحَة وَاجِبَة على الإِمَام وَالْمُنْفَرد وَالْمَأْمُوم فِی الصَّلَوَات كلهَا

علامہ کرمانی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  (عبادہ رضی   اللہ   عنہ )کہ حدیث اس امرپرصاف دلیل ہے  کہ سورہ فاتحہ کاپڑھناامام اوراکیلے  اورمقتدی سب کے  لیے  تمام نمازوں  میں  واجب ہے ۔ [21]

اسْتدلَّ بِهَذَا الحَدِیث عبد الله بن الْمُبَارك وَالْأَوْزَاعِیّ وَمَالك وَالشَّافِعِیّ وَأحمد وَإِسْحَاق وَأَبُو ثَوْر وَدَاوُد على وجوب قِرَاءَة الْفَاتِحَة خلف الإِمَام فِی جَمِیع الصَّلَوَات

علامہ عینی رحمہ   اللہ   لکھتے  ہیں  اس حدیث (عبادہ رضی   اللہ   عنہ )سے  امام عبد  اللہ   بن مبارک رحمہ   اللہ   ، امام اوزاعی رحمہ   اللہ   ، امام مالک رحمہ   اللہ   ، امام شافعی رحمہ   اللہ   ، امام احمد رحمہ   اللہ   اورامام اسحٰق رحمہ   اللہ   ، امام ابوثور رحمہ   اللہ   ، امام داؤد رحمہ   اللہ   نے (مقتدی کے  لیے )امام کے  پیچھے  تمام نمازوں  میں  سورہ فاتحہ پڑھنے  کے  وجوب پردلیل پکڑی ہے ۔ [22]

وَقِرَاءَةُ الْفَاتِحَةِ لِلْقَادِرِ عَلَیْهَا فَرْضٌ مِنْ فُرُوضِ الصَّلَاةِ وَرُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِهَا وَمُتَعَیِّنَةٌ لَا یَقُومُ مَقَامَهَا تَرْجَمَتُهَا بِغَیْرِ الْعَرَبِیَّةِ وَلَا قِرَاءَةُ غَیْرِهَا مِنْ الْقُرْآنِ وَیَسْتَوِی فِی تَعَیُّنِهَا جَمِیعُ الصَّلَوَاتِ فَرْضُهَا وَنَفْلُهَا جَهْرُهَا وَسِرُّهَا وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالْمُسَافِرُ وَالصَّبِیُّ وَالْقَائِمُ وَالْقَاعِدُ وَالْمُضْطَجِعُ وَفِی حَالِ شِدَّةِ الْخَوْفِ وَغَیْرِهَا سَوَاءٌ فِی تَعَیُّنِهَا الْإِمَامُ وَالْمَأْمُومُ وَالْمُنْفَرِدُ

امام نووی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  جوشخص سورۂ فاتحہ پڑھ سکتاہے  (یعنی اس کویہ سورۂ  یادہے )اس کے  لیے  اس کاپڑھنانمازکے  فرائض میں  سے  ایک فرض اورنمازکے  ارکان میں  سے  ایک رکن ہے  اوریہ سورۂ فاتحہ نمازمیں  ایسی معین ہے  کہ نہ تواس کی بجائے  غیرعربی میں  اس کاترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے  اورنہ ہی قرآن مجیدکی کوئی دیگرآیت، اوراس تعین فاتحہ میں  نمازیں  برابرہیں  ، فرض ہوں  یانفل، جہری ہویاسری،  اورمرد،  عورت،  مسافر،  لڑکا(نابالغ) اورکھڑاہوکرنمازپڑھنے  والا اوربیٹھ کریالیٹ کرنمازپڑھنے  اورحالت خوف وامن میں  نمازپڑھنے  والاسب اس حکم میں  برابر ہیں  اوراس تعین فاتحہ میں  امام ، مقتدی اور اکیلانمازپڑھنے  والا(بھی) برابرہیں  ۔ [23]

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِیثِ فِی القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَالتَّابِعِینَ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،  وَابْنِ الْمُبَارَكِ،  وَالشَّافِعِیِّ،  وَأَحْمَدَ،  وَإِسْحَاقَ: یَرَوْنَ القِرَاءَةَ خَلْفَ الإِمَامِ

امام ترمذی رحمہ   اللہ   عبادہ بن صامت رضی   اللہ   عنہ کی حدیث کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  امام کے  پیچھے  (سورۂ  فاتحہ) پڑھنے  کے  بارے  میں  اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کااسی حدیث پرعمل ہے  اورامام مالک رحمہ   اللہ   ، امام عبد  اللہ   بن مبارک رحمہ   اللہ   ، (شاگردامام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   )امام شافعی رحمہ   اللہ   ، امام احمد رحمہ   اللہ   ، امام اسحٰق(بھی)امام کے  پیچھے  سورۂ فاتحہ پڑھنے  کے  قائل تھے ۔ [24]

قال الخطابی فی المعالم : هذا الحدیث نص بأن قراءة فاتحة الكتاب واجبة على من صلى خلف الإمام،  سواء جهر الإمام بالقراءة أو خافت بها.وإسناده جید لا طعن فیه

امام خطابی رحمہ   اللہ   معالم السنن شرح ابوداودمیں  لکھتے  ہیں  یہ حدیث نص صریح ہے  کہ مقتدی کے  لیے  سورۂ فاتحہ کاپڑھناواجب ہے  خواہ امام قرات بلندآوازسے  پڑھے  یاآہستہ سے  کیونکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  خاص مقتدیوں  کوخطاب کرکے  سورۂ فاتحہ پڑھنے  کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورئہ فاتحہ پڑھے  بغیرکسی کی نمازہی نہیں  ہوتی ،  اس حدیث کی سندبہت ہی پختہ ہے  جس میں  طعن کی کوئی گنجائش نہیں  ۔ [25]

قال الإمام البخاری فی جزء القراءة : تواتر الخبر عن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لا صلاة إلا بقراءة أم القرآن

امام بخاری رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  اس بارے  میں  کہ بغیر سورۂ فاتحہ پڑھے  نمازنہیں  ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  تواتر(یعنی جم غفیر روایت کرتے  ہیں  )کے  ساتھ احادیث مروی ہیں  ۔ [26]

من قال بتعین الفاتحة وانہ لایجزی قراء ة غیرھا قد دارمع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلخ حدالتواترمع تایید ذلک بعمل السلف والخلف

امام عبدالوہاب رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  جن علماء نے  سورۂ  فاتحہ کونمازمیں  متعین کیاہے  اورکہاہے  کہ سورۂ  فاتحہ کے  سواکچھ اورپڑھناکفایت نہیں  کرسکتااولاًتوان کے  پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے  ہیں  کہ تواترکوپہنچنے  والی ہیں  ، ثانیاًسلف وخلف(صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام)کاعمل بھی تعین فاتحہ درنمازکی تائیدکرتاہے [27]

مسک الختام شرح بلوغ المرام میں  ہے

واین حدیث راشواھد بساراست

یعنی قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے  شواھد بہت زیادہ ہیں  ۔ [28]

وَالْأَحَادِیثُ فِی هَذَا الْبَابِ كَثِیرَةٌ

تفسیرابن کثیرمیں  ہے قرات فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں  ۔ [29]

علامہ شعرانی رحمہ   اللہ   نے  لکھاہے  کہ امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   اورامام محمد رحمہ   اللہ   کایہ قول کہ مقتدی کوالحمد نہیں  پڑھناچاہیے  ان کاپراناقول ہے ، امام اعظم رحمہ   اللہ   اورامام محمد رحمہ   اللہ   نے  اپنے  اس پرانے  قول سے  رجوع کر لیا ہے  اورمقتدی کے  لیے  الحمدپڑھنے  کوسری نمازمیں  مستحسن اورمستحب بتایاہے  چنانچہ علامہ موصوف لکھتے  ہیں

لابی حنیفة ومحمد قولان احدھماعدم وجوبھاعلے  الماموم بل ولاتسن وھذٰاقولھماالقدیم وادخلہ محمدفی تصانیفہ القدیمة وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانییھما استحسانھاعلے  سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخا فقة لحدیث المرفوع لاتفعلوا الا بامرالقراٰن وفی روایة لاتقرئ وابشئی اذاجھرت الابامرالقراٰن وقال عطاء کانوایرون علی الماموم القراء ة فیما یجھر فیہ الامام وفی مایسرفرجامن قولھماالاول الی الثانی احتیاطًا

امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   اورامام محمد رحمہ   اللہ   کے  دوقول ہیں  ایک یہ کہ مقتدی کوالحمدپڑھنانہ واجب ہے  اورنہ سنت اوران دونوں  اماموں  کایہ قول پراناہے  اورامام محمد رحمہ   اللہ   نے  اپنی قدیم تصنیفات میں  اسی قول کودرج کیاہے  اوران کے  نسخے  اطراف وجوانب میں  منتشرہوگئے  ، اوردوسراقول یہ ہے  کہ مقتدی کونمازسری میں  الحمد پڑھنامستحسن ہے  علی سبیل الاحتیاط، اس واسطے  کہ حدیث مرفوع میں  واردہواہے  کہ نہ پڑھو مگر سورۂ فاتحہ، اورایک روایت میں  ہے  کہ جب میں  بہ آوازبلندقرات کروں  توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۂ فاتحہ، اورعطا رحمہ   اللہ   نے  کہا کہ لوگ (صحابہ رضی   اللہ   عنہم وتابعین رحمہ   اللہ   )کہتے  تھے  کہ نمازسری وجہری دونوں  میں  مقتدی کوپڑھناچاہیے  پس امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   اورامام محمد رحمہ   اللہ   نے  احتیاطًاپنے  پہلے  قول سے  دوسرے  قول کی طرف رجوع کیا۔

اب بقول علامہ شعرانی رحمہ   اللہ   امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   کے  نزدیک بھی امام کے  پیچھے  الحمد پڑھناجائزہوابلکہ مستحسن ومستحب۔ چنانچہ اسی حدیث اوراس کے  مثل اورحدیث صححیہ کودیکھ کرخودمذہب حنفی کے  بڑے  بڑے  فقہاء وعلماء امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   کے  قول قدیم کوچھوڑکرامام کے  پیچھے  الحمد پڑھنے  کے  قائل وفاعل ہوگے  ، بعض تونمازسری اورجہری دونوں  میں  اوربعض فقط نمازسری میں  ۔ (تفصیل کیلئے  ’’توضیح الکلام فی وجوب القراءة خلف الامام از ارشاد الحق اثری ملاحظہ فرمائیں  )

بعض أَصْحَابنَا استحسنوا ذَلِك على سَبِیل الِاحْتِیَاط فِی جَمِیع الصَّلَوَات وبعضھم فی السریة فقط وعلیہ فقھاء الحجاز والشام

علامہ عینی رحمہ   اللہ   شرح بخاری میں  لکھتے  ہیں  ہمارے  بعض فقہاء حنفیہ ہرنمازمیں  خواہ سری ہوخواہ جہری امام کے  پیچھے  الحمد پڑھنے  کواحتیاطاًمستحسن بتاتے  ہیں  اوربعض فقہاء فقط نمازسری میں  اورمدینہ اورملک شام کے  فقہاء کااسی پرعمل ہے ۔ [30]

وَرُوِیَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ اسْتَحْسَنَ قِرَاءَةَ الْفَاتِحَةِ لِلْمُؤْتَمِّ فِی السِّرِّیَّةِ وَرُوِیَ مِثْلُهُ عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ صَرَّحَ بِهِ فِی الْهِدَایَةِ الْمُجْتَبَى شَرْحِ مُخْتَصَرِ الْقُدُورِیِّ وَغَیْرِهِمَا وَهَذَا هُوَ مُخْتَارُ كَثِیرٍ مِنْ مَشَایِخِنَا

مولوی عبدالحی رحمہ   اللہ   لکھتے  ہیں  امام محمد رحمہ   اللہ   سے  مروی ہے  کہ انہوں  نے  امام کے  پیچھے  سورۂ  فاتحہ پڑھنے  کونمازسری میں  مستحسن بتایاہے  اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ   اللہ   سے  روایت کیاگیاہے  اوراسی کوہمارے  بہت سے  مشائخ نے  اختیار کیا ہے ۔ [31]

اورشیخ الاسلام نظام الملتہ والدین مولاناعبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے  لقب سے  مشہورہیں  اوررئیس اہل تحقیق کے  نام سے  بھی آپ یادکیے  گئے  ہیں  اورباتفاق علماء ماوراالنہ روخراسان مذہب حنفی کے  ایک مجتہدہیں  آپ باوجودحنفی المذہب ہونے  کے  امام اعظم رحمہ   اللہ   صاحب کے  مسلک قدیم کوچھوڑکرامام کے  پیچھے  الحمد پڑھنے  کومستحب کہتے  ہیں  اورخودبھی پڑھتے  اورفرماتے  تھے

لوکان فی فمی یوم القیمٰة جمرة احب الی من ان یقال لاصلوة لک

اگرقیامت کے  روزمیرے  منہ میں  انگاراہوتومیرے  نزدیک یہ اس سے  بہترہے  کہ کہاجائے  کہ تیری تونمازہی نہیں  ہوئی۔ [32]

وهو أنه لم یَرِد فی حدیث مرفوع صحیح النهی عن قراءة الفاتحة خلف الإمام،  وكل ما ذكروه مرفوعاً فیه إما لا أصل له،  وإما لا یصح

علمائے  احناف کے  چوٹی کے  عالم مولانا عبدالحی حنفی لکھنوی فرماتے  ہیں  کسی مرفوع حدیث میں  امام کے  پیچھے  سورۂ  فاتحہ پڑھنے  کی نہی(منع)واردنہیں  ہوئی ہے  اوراس بارے  میں  علمائے  حنفیہ جس قدردلائل ذکرکرتے  ہیں  یاتووہ بالکل بے  اصل اورمن گھڑت ہیں  یاوہ صحیح نہیں  ہیں  ۔ [33]

فظهر أنه لا یوجد معارض لأحادیث تجویز القراءة خلف الإمام مرفوعاً

امام کے  پیچھے (سورۂ  فاتحہ)پڑھنے  کی احادیث کے  معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں  پائی جاتی۔ [34]

حنفیہ کے  دلائل کے  جواب ذکرکرنے  کے  بعدفرماتے  ہیں  گفتگوکاخلاصہ یہ ہے

وبالجملة لا یظهر لأحادیث تجویز القراءة خلف الإمام معارض یساویها فی الدرجة،  ویدل على المنع

امام کے  پیچھے  (سورۂ  فاتحہ)پڑھنے  کی احادیث کے  درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں  ہے  اورنہ ہی (امام کے  پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے  کے )منع پرکوئی حدیث دلالت کرتی ہے ۔ [35]

جب ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  یہ روایت بیان کی

مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ یَقْرَأْ فِیهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِیَ خِدَاجٌ،  ثَلَاثًا غَیْرُ تَمَامٍ

جس نے  بغیرفاتحہ کے  نمازپڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے  ،  تین مرتبہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا۔  [36]

اس حدیث میں  سورۂ فاتحہ پڑھے  بغیرنمازکے  لیے  لفظ خِدَاجٌ کااستعمال کیاگیاہے  ،

قَوْلُهُ: فَهِیَ خِدَاجٌ،  مَعْنَاهُ: نَاقِصَةٌ نَقْصَ فَسَادٍ وَبُطْلانٍ،  تَقُولُ الْعَرَبُ: أَخْدَجَتِ النَّاقَةُ: إِذَا أَلْقَتْ وَلَدَهَا وَهُوَ دَمٌ لم یستبن خلقه فهی مُخْدَجُ،  وَالْخِدَاجُ: اسْمٌ مَبْنِیٌّ منه

چنانچہ امام خطابی رحمہ   اللہ   معالم السنن شرح ابوداودپر فَهِیَ خِدَاجٌ کامعنی لکھتے  ہیں  جس نمازمیں  سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے  وہ فاسداورباطل ہے  ، اہل عرب اس وقت بولتے  ہیں  جب اونٹنی اپنے  بچے  کواس وقت گرادے  کہ وہ خون ہواوراس کی خلقت وپیدائش ظاہرنہ ہوئی ہو، اوراسی سے  لفظ خداج لیاگیا ہے  ، ثابت ہواکہ خداج وہ نقصان ہے  جس سے  نمازنہیں  ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے  مردہ بچہ جیسی ہے ۔ [37]

یَا أَبَا هُرَیْرَةَ،  إِنِّی أَكُونُ أَحْیَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ ؟وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا یَا فَارِسِیُّ فِی نَفْسِكَ

راوی ابوسائب نے  کہااے  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ میں  بعض اوقات امام کے  پیچھے  ہوتا ہوں  اس وقت کیاکریں  ؟ ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایااے  فارسی !اسے  اپنے  نفس میں  ( یعنی بغیرآواز نکالے )پڑھ لیاکرو۔ [38]

اقْرَأْ بِهَا یَا فَارِسِیُّ فِی نَفْسِكَ

کامعنی دل میں  تدبروتفکراورغورکرنانہیں  ہے  بلکہ اس کامطلب یہ ہے  کہ زبان کے  ساتھ آہستہ آہستہ سورۂ  فاتحہ پڑھاکر۔

وَالْمُرَادُ بِقَوْلِهِ:اقْرَأْ بِهَا فِی نَفْسِكَ أَنْ یَتَلفَظَّ بِهَا سِرًّا دُونَ الْجَهْرِ بِهَا وَلَا یَجُوزُ حمَلُهُ عَلَى ذِكْرِهَا بِقَلْبِهِ دُونَ التَّلَفُّظِ بِهَا لِإِجْمَاعِ أَهْلِ اللِّسَانِ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ لَا یُسَمَّى قِرَاءَةً وَلِإِجْمَاعِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ ذِكْرَهَا بِقَلْبِهِ دُونَ التَّلَفُّظِ بِهَا لَیْسَ بِشَرْطٍ وَلَا مَسْنُونٍ،  فَلَا یَجُوزُ حَمَلُ الْخَبَرِ عَلَى مَا لَا یَقُولُ بِهِ أَحَدٌ وَلَا یُسُاعِدُهُ لِسَانُ الْعَرَبِ

امام بیہقی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  اس قول اقْرَأْ بِهَا فِی نَفْسِكَ  سے  مرادیہ ہے  کہ زبان سے  آہستہ آہستہ پڑھ اوراس کوذکرقلب یعنی تدبروتفکروغورپرمحمول کرناجائزنہیں  کیونکہ اہل لغت کااس پراجماع ہے  کہ اس کوقرات نہیں  کہتے  اوراہل علم کااس پربھی اجماع ہے  کہ زبان سے  تلفظ کئے  بغیرصرف دل سے  ذکرکرنانمازکی صحت کے  لئے  نہ شرط ہے  اورنہ ہی سنت لہذاحدیث کوایسے  معنی پرحمل کرناجس کاکوئی قائل نہیں  اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے  جائزنہیں  ۔ [39]

{وَاذْكُرْ رَبّك فِی نَفْسك} أَیْ سِرًّا

تفسیرجلالین میں  ’’وَاذْكُرْ رَبّك فِی نَفْسك ‘ ‘کا معنی لکھاہے    اللہ   تعالیٰ کو زبان سے  آہستہ یادکر۔ [40]

اقْرَأْ بِهَا یَا فَارِسِیُّ فِی نَفْسِكَ کامعنی لکھتے  ہیں  مَعْنَاهُ اقْرَأْهَا سِرًّا بِحَیْثُ تُسْمِعُ نَفْسَكَ وَأَمَّا مَا حَمَلَهُ عَلَیْهِ بَعْضُ الْمَالِكِیَّةِ وَغَیْرُهُمْ أَنَّ الْمُرَادَ تَدَبُّرُ ذَلِكَ وَتَذَكُّرُهُ فَلَا یُقْبَلُ لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ لَا تُطْلَقُ إِلَّا عَلَى حَرَكَةِ اللِّسَانِ بِحَیْثُ یُسْمِعُ نَفْسَهُ

امام نووی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  اس کامعنی یہ ہے  کہ (امام کے  پیچھے )سورۂ آہستہ پڑھاکراس طرح کہ توخودسے  اوربعض مالکیہ نے  اس کو سوچنے  اورتدبروفکرپرمحمول کیاہے  وہ بالکل غلط ہے  اورنامقبول ہے  کیونکہ قرات کا اطلاق حرکت لسان(زبان)پرہی ہوتاہے  یعنی جب تک زبان نہ ہلے  اورفاتحہ کے  الفاظ زبان سے  ادانہ کیے  جائیں  اس کوقرات (پڑھنا) نہیں  کہتے ۔ [41]

اورحدیث میں  قرات (پڑھنے )کاحکم ہے  لہذاجب تک مقتدی فاتحہ کوزبان سے  نہیں  پڑھے  گااس وقت تک حدیث پرعمل نہیں  ہوگا۔

لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ فِعْلُ اللِّسَانِ

ہدایہ میں  ہے  کیونکہ قرات(پڑھنا)زبان کاکام ہے ۔ [42]

إلَّا أَنْ یَقْرَأَ الْخَطِیبُ قَوْله تَعَالَى {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ} [43]الْآیَةَ،  فَیُصَلِّی السَّامِعُ فِی نَفْسِهِ.

کفایہ میں  ہے جب خطیب آیت

’’یَا أَیهَا الَّذین آمنُوا صلوا عَلَیْهِ وسلموا تَسْلِیمًا‘‘ [44]

پڑھے  توسامعین کوچاہیے  کہ اپنی زبان سے  آہستہ درود پڑھ لیں  ۔ [45]

یعنی فِی نَفْسِهِ کامعنی زبان سے  آہستہ اور پوشیدہ پڑھنا ہے  ۔

ان حوالہ جات سے  واضح ہوگیاکہ فی نفسک کامعنی دل میں  تدبراورغوروفکرکرنا، لغت اوراہل علم اورخود فقہا کی تصریحات کے  خلاف ہے  اورصحیح معنی یہ ہے  کہ زبان سے  آہستہ پڑھا کراور یہی حدیث کا مقصودہے ۔

عبادہ بن صامت رضی   اللہ   عنہ سے  ایک مرفوع روایت میں  یہ الفاظ بھی مروی ہیں

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس شخص کی کوئی نماز نہیں  جس نے  امام کے  پیچھے  سورہ فاتحہ نہ پڑھی۔ [46]

اس کی سند کو مولانا انور شاہ کشمیری نے  صحیح قرار دیا ہے ۔ [47]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:اقْرَأْ خَلْفَ الْإِمَامِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے امام کے  پیچھے  سورہ فاتحہ پڑھو۔ [48]

امام بیہقی رحمہ   اللہ   نے  اسے  صحیح کہاہے  جیساکہ کنزمیں  ہے ۔

وَذَهَبَ الشَّافِعِیُّ وَأَصْحَابُهُ إلَى وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ عَلَى الْمُؤْتَمِّ مِنْ غَیْرِ فَرْقٍ بَیْنَ الْجَهْرِیَّةِ وَالسِّرِّیَّةِ ،  وَذَهَبَ أَحْمَدُ وَمَالِكٌ أَنَّ الْمُؤْتَمَّ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِی الصَّلَاةِ الْجَهْرِیَّةِ ،  لَكِنَّ الْحَنَفِیَّةَ قَالُوا: لَا یُقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ لَا فِی سِرِّیَّةٍ وَلَا فِی جَهْرِیَّةٍ

امام شافعی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  ہررکعت میں  امام ، مقتدی اورمنفردسب کے  لئے  سورہ فاتحہ پڑھناواجب ہے  خواہ سری نمازہویاجہری ہوفرض ہویانفل ہو،  امام مالک رحمہ   اللہ   اورامام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   کا موقف ہے  کہ جہری نمازوں  میں  نہیں  بلکہ صرف سری نمازوں  میں  سورہ فاتحہ پڑھی جائے  گی، جبکہ احناف کاموقف ہے  کہ مقتدی قراء ت نہیں  کرے  گاخواہ سری نماز ہو یا جہری ہو۔ [49]

اس سلسلہ میں  احناف کے  دلائل یہ ہیں  ، ارشادباری تعالیٰ ہے

وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا ۔ ۔ ۔ [50]

ترجمہ: اور جب قرآن پڑھاجائے  تواسے  غورسے  سنواورخاموش ہوجاؤ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

ابوموسیٰ اشعری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاامام جب قرات کرے  توخاموش رہو۔ [51]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ،  فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ

جابر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا جس کے  آگے  امام ہوتوامام کی قرات ہی اس کی قرات ہے ۔ [52]

یادرہے  کہ یہ تینوں  دلائل عام ہیں  کہ جن کی تخصیص متعدددیگر احادیث سے  ہوجاتی ہے  مثلاً

لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

سورہ فاتحہ کے  علاوہ کچھ نہ پڑھو

اور

 لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِیهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

اس شخص کی کوئی نمازنہیں  جس نے  اس میں  سورہ فاتحہ نہیں  پڑھی ۔ [53]

امام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   کی دلیل یہ حدیث ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِیهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ:هَلْ قَرَأَ مَعِیَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟،  فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ،  یَا رَسُولَ اللَّهِ،  قَالَ:إِنِّی أَقُولُ مَالِی أُنَازَعُ الْقُرْآنَ؟،  قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا جَهَرَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ایک جہری نمازسے  فراغت کے  بعدپوچھا کیاتم میں  سے  کسی نے  ابھی میرے  ساتھ قرا ء ت کی ہے  ؟ایک آدمی نے  کہاہاں  اے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  کہتاہوں  کہ مجھے  کیا ہوگیاہے  کہ میں  قرآن کے  ساتھ جھگڑ رہاہوں  ،  راوی کہتاہے  کہ اس کے  بعد لوگ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ جہری نمازوں  میں  قراء ة سے  بازآگئے ۔ [54]

اس حدیث کی وضاحت راوی حدیث ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  خودفرمادی ہے  کہ جب کسی شخص نے  ان سے  سوال کیاکہ میں  بعض اوقات امام کے  پیچھے  ہوتاہوں  توانہوں  نے  جواب دیا

اقْرَأْ بِهَا یَا فَارِسِیُّ فِی نَفْسِكَ

اے  فارسی!اسے  اپنے  نفس میں  پڑھ لیاکرو۔ [55]

اس سے  معلوم ہواکہ امام کے  پیچھے  جہری نمازوں  میں  صحابہ آوازنکال کرپڑھنے  سے  بازآگئے  تھے  جبکہ ہلکی آوازسے  فاتحہ پڑھتے  تھے ، اس وقت امام شافعی رحمہ   اللہ   کاموقف راجح ہے ،

هذا الحدیث نص بأن قراءة فاتحة الكتاب واجبة على من صلى خلف الإمام سواء جهر الإمام بالقراءة أو خافت بها

امام خطابی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  امام کے  پیچھے  فاتحہ کی قرآء ت واجب ہے  خواہ امام جہری قرآء ت کر رہا ہو یا سری ۔ [56]

وَقَالَ الشَّافِعِیُّ : لَا تُجْزِئُ أَحَدًا صَلَاةٌ حَتَّى یَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ،  إِمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا،  جَهَرَ إِمَامُهُ أَوْ أَسَرَّ.

امام قرطبی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  امام شافعی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  کہ ہررکعت میں  امام ، مقتدی اورمنفردسب کے  لئے  سورہ فاتحہ پڑھناواجب ہے  خواہ سری نمازہویاجہری ہوفرض ہویانفل ہو۔ [57]

قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ الْحَقُّ

امام شوکانی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  حق یہی ہے  کہ امام کے  پیچھے  بھی قراء ت (فاتحہ)واجب ہے ۔ [58]

فَرْضٌ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ كُلِّ صَلَاةٍ إمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا

ابن حزم رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  امام اورمقتدی دونوں  پرفاتحہ پڑھنا فرض ہے ۔ [59]

لم یَرِد فی حدیث مرفوع صحیح النهی عن قراءة الفاتحة خلف الإمام،  وكل ما ذكروه مرفوعاً فیه إما لا أصل له،  وإما لا یصح

عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  کسی صحیح مرفوع حدیث میں  امام کے  پیچھے  فاتحہ پڑھنے  کی ممانعت مروی نہیں  ہے  اگرکوئی ایسی حدیث ہے  تویااس کی کوئی اصل نہیں  یاوہ صحیح نہیں  ہے ۔ [60]

والأرجح وجوبهافإذا لم یسكت الإمام فی الصلاة الجهریة قرأها المأموم ولو فی حالة قراءة إمامه

ابن باز رحمہ   اللہ   کاکہناہے جہری نمازمیں  بھی اگر امام تلاوت کررہا ہو تو بھی مقتدی پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے [61]

جہری نمازوں  میں  امام کے  پیچھے  فاتحہ کے  علاوہ قراء ت قرآن:

جہری نمازوں  میں  امام کے  پیچھے  فاتحہ کے  علاوہ قراء ت قرآن جائزنہیں  ہے  البتہ سری نمازوں  میں  جائزہے  جیساکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جہری نمازکے  متعلق فرمایا

لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

سورہ فاتحہ کے  علاوہ کچھ نہ پڑھو۔

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ،  فَجَعَلَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَهُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى،  فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:أَیُّكُمْ قَرَأَ أَوْ أَیُّكُمُ الْقَارِئُ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا،  فَقَالَ:قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِیهَا

اور سری نمازکے  متعلق عمران بن حصین رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  نمازظہرپڑھائی توایک شخص آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پیچھے  سورۂ الاعلی کی قراء ت کرنے  لگاجب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازسے  فارغ ہوئے  توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھاتم میں  سے  کون پڑھ رہا تھا؟اس آدمی نے  کہامیں  ،  توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا میں  جان گیاتھاکہ تم میں  سے  کسی نے  مجھے  قرات میں  الجھایا ہے ۔ [62]

وَفِیهِ دَلِیلٌ عَلَى إثْبَاتِ الْقِرَاءَةِ فِی الصَّلَاةِ السِّرِّیَّةِ

محل شاہد یہ ہے  کہ نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اس آدمی کوقراء ت سے  منع نہیں  فرمایا جس سے  معلوم ہواکہ سری نمازوں  میں  امام کے  پیچھے  فاتحہ کے  بعد کوئی سورت پڑھ لیناثابت ہے ۔ [63]

بعض لوگوں  کاخیال ہے  کہ مقتدی کوجہری نمازوں  میں  امام کے  سکتوں  کے  وقفوں  میں  فاتحہ کی قراء ت کرنی چاہیے  جیساکہ بعض آثارصحابہ اس پردلالت کرتے  ہیں  ، لیکن یاد رہے  کہ یہ عمل ضروری نہیں  ہے  مقصودسورہ فاتحہ پڑھناہے  اسے  کسی طرح بھی پڑھ لیاجائے  کیونکہ ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  جب امام کے  پیچھے  فاتحہ کی قراء ت کے  متعلق پوچھا گیا تو انہوں  نے  فرمایا

اقْرَأْ بِهَا یَا فَارِسِیُّ فِی نَفْسِكَ

اے  فارسی! اسے  اپنے  نفس میں  پڑھ لو۔ [64]

اورامام بیہقی رحمہ   اللہ   نے  یہ لفظ نقل کیے  ہیں

قُلْتُ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ , فَكَیْفَ أَصْنَعُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ؟قَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِی نَفْسِكَ

سائل نے  پوچھااے  ابوہریرہ جب امام جہری قراء ت کرے  تومیں  کیاکروں  ؟اس پرابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایا اسے  اپنے  نفس میں  پڑھ لو۔ [65]

معلوم ہواکہ سورہ فاتحہ کوکسی حال میں  بھی نہیں  چھوڑناچاہیے  خواہ امام کے  ساتھ پڑھے  یابعدمیں  پڑھے ۔ [66]

اورخودحنفیوں  کی مشہورکتاب میں  امام محمد رحمہ   اللہ   کا یہ فتوی موجود ہے

وَیُسْتَحْسَنُ عَلَى سَبِیلِ الِاحْتِیَاطِ فیما یروى عن محمد رحمه الله

امام محمد رحمہ   اللہ   سے  مروی ہے کہ سورۂ فاتحہ کاامام کے  پیچھے  پڑھ لیناہی احتیاطاًمستحسن ہے ۔ [67]

فَإِن جهر الإِمَام لم یقْرَأ إِلَّا عِنْد الإسكاته،  وَإِن خَافت فَلهُ الخیره

شاہ ولی   اللہ   محدث دہلوی فرماتے  ہیں  اگرامام بلندآوازسے  قرات پڑھتاہوتومقتدی امام کے  سکتہ کے  وقت پیچھے  پیچھے  الحمدشریف پڑھتاجائے  اوراگروہ آہستہ سے  پڑھتاہے  تو مقتدی کواختیارہے  (جس طرح چاہے  پڑھ لے )۔ [68]

فان قراء تھافریضة وھی رکن تبطل الصلوٰة بترکھا

شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ   اللہ   اپنی کتاب میں  فرماتے  ہیں  سورۂ فاتحہ کاپڑھنافرض ہے  اور(یہ سورۂ )نمازکارکن ہے  اس کے  نہ پڑھنے  سے  نمازباطل ہوجاتی ہے ۔ [69]

وَالْأَحَادِیثُ فِی هَذَا الْبَابِ كَثِیرَةٌ

امام ابن کثیر رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  اس مسئلہ پربہت احادیث موجودہیں  ۔ [70]

بَعْضُ أَصْحَابِنَا یَسْتَحْسِنُونَ ذَلِكَ عَلَى سَبِیلِ الِاحْتِیَاطِ فِی جَمِیعِ الصَّلَوَاتِ وَبَعْضُهُمْ فِی السِّرِّیَّةِ فَقَطْ وَعَلَیْهِ فُقَهَاءُ الْحِجَازِ وَالشَّامِ

تحفة الاحوذی میں  ہے  بعض فقہائے  حنفیہ ہرنمازمیں  خواہ سری ہوخواہ جہری امام کے  پیچھے  الحمدپڑھنے  کواحتیاطاًمستحسن بتاتے  ہیں  اوربعض فقہافقط سری میں  اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے  فقہا کااسی پرعمل ہے ۔ [71]

بعض لوگ عمومی دلائل سے  لوگوں  کو سورۂ  فاتحہ پڑھنے  سے  روکتے  ہیں  جوصحیح نہیں  ہے  ، بعض لوگ یہ آیت پیش کرتے  ہیں  ۔

وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴ [72]

ترجمہ:جب قرآن تمہارے  سامنے  پڑھا جائے  تو اسے  توجہ سے  سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے ۔

حالانکہ یہ آیت مشرکین مکہ جوقرآن کی تلاوت کے  وقت شورمچاتے  تھے  تاکہ سننے  والااس کونہ سن سکے  اس کے  جواب میں  نازل ہوئی تھی

خِطَابٌ مَعَ الْكُفَّارِ فِی ابْتِدَاءِ التَّبْلِیغِ وَلَیْسَ خِطَابًا مَعَ الْمُسْلِمِینَ

امام رازی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ ابتدائے  تبلیغ میں  کفارکومخاطب ہوکرکہی گئی تھی،  یہ مسلمانوں  کونہیں  کہی گئی۔ [73]

كَانَ الْمُشْرِكُونَ یَأْتُونَ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذا صَلَّى،  فَیَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ بِمَكَّةَ: لَا تَسْمَعُوا لِهذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیهِ . فَأَنْزَلَ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ جَوَابًا لَهُمْ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا

امام قرطبی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جب نمازپڑھتے  تومشرکین شورمچاتے  تھے ، بعض لوگوں  نے  مکہ میں  ایک دوسرے  سے  کہایہ قرآن مت سنواورشورمچاؤ،   اللہ   تعالیٰ نے  جواب میں  یہ آیت نازل فرمائی کہ جب قرآن پڑھاجائے  توخاموشی سے  سنوشایدتم ہدایت پاؤ ۔ [74]

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأَبُو هُرَیْرَةَ وَجَابِرٌ وَعَطَاءٌ وَابْنُ الْمُسَیَّبِ وَالزُّهْرِیُّ وَعُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: إِنَّهَا فِی الْمُشْرِكِینَ كَانُوا إِذَا صَلَّى الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُونَ: لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیهِ فَنَزَلَتْ جَوَابًا لَهُمْ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما ، ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ ، جابربن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ ، عطاء ، ابن المسیب ، زہری اورعبید  اللہ   بن عمرکہتے  ہیں  یہ آیت مشرکین کے  لیے  نازل ہوئی تھے  کیونکہ جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازپڑھتے  تھے  تووہ کہتے  تھے  اس قرآن کونہ سنواورشورمچاؤ، اس کے  جواب میں  یہ آیت نازل فرمائی۔ [75]

چنانچہ ثابت ہواکہ اس آیت

 وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ[76]

کانمازکے  ساتھ کوئی تعلق نہیں  ہے ۔

اسی طرح جنازہ کی نمازمیں  سورۂ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے  جیساکہ دوسری نمازوں  میں  کیونکہ حدیث

 لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِیهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

اس شخص کی کوئی نمازنہیں  جس نے  اس میں  سورہ فاتحہ نہیں  پڑھی ۔ [77]

ہرنمازکوشامل ہے ۔

مسئلہ آمین :

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،  قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ {وَلَا الضَّالِّینَ}قَالَ:آمِینَ،  وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ

وائل بن حجر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جب سورۂ فاتحہ کے  آخرمیں  ولاالضالین کہتے  توآمین کہتے  اوراس کے  ساتھ اپنی آوازبلندفرماتے ۔ [78]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ رَفَعَ صَوْتَهُ،  فَقَالَ: آمِینَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ام القرآن(سورہ فاتحہ) کی قرات سے  فارغ ہوتے  توآپ اونچی آوازسے  آمین کہتے ۔ [79]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ،  فَأَمِّنُوا،  فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِینُهُ تَأْمِینَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجب امام آمین کہے  توتم بھی آمین کہو، جس شخص کی آمین فرشتوں  کی آمین کے  مطابق ہوگی تو اس کے  پہلے  سب گناہ معاف کردیئے  جاتے  ہیں  ۔ [80]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِینَ،  وَقَالَتِ المَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ: آمِینَ،  فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  جب کوئی تم میں  سے  آمین کہے  اورفرشتوں  نے  بھی اسی وقت آسمان پرآمین کہی اس طرح ایک کی آمین دوسرے  کی آمین کے  ساتھ مل گئی تواس کے  پچھلے  تمام گناہ معاف ہوجاتے  ہیں  ۔ [81]

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَنَّ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا،  مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْإِمَامَ یَجْهَرُ بِآمِینَ،  إِذْ مَعْلُومٌ عِنْدَ مَنْ یَفْهَمُ الْعِلْمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ یَقُولَ: آمِینَ،  عِنْدَ تَأْمِینِ الْإِمَامِ،  هَذَا عَیْنُ الْمُحَالِ،  وَمَا لَا یَتَوَهَّمُهُ عَالِمٌ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ یَقُولَ آمِینَ إِذَا قَالَهُ إِمَامُهُ وَهُوَ لَا یَسْمَعُ تَأْمِینَ إِمَامِهِ

امام ابن خزیمہ رحمہ   اللہ   اس حدیث کی تشریح میں  فرماتے  ہیں  اس حدیث سے  ثابت ہواکہ امام اونچی آوازسے  آمین کہے  کیونکہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم متقدی کوامام کی آمین کے  ساتھ آمین کہنے  کاحکم اس صورت میں  دے  سکتے  ہیں  جب مقتدی کومعلوم ہوکہ امام آمین کہہ رہاہے  ،  کوئی عالم تصورنہیں  کرسکتاکہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم مقتدی کوامام کی آمین کے  ساتھ آمین کہنے  کاحکم دیں  جب کہ وہ اپنے  امام کی آمین کوسن نہ سکے ۔ [82]

عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ قَالَ: صَلَّیْتُ وَرَاءَ أَبِی هُرَیْرَةَ،  فَقَرَأَ:{بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ} [83] ،  ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتَّى بَلَغَ {وَلَا الضَّالِّینَ} [84]فَقَالَ: آمِینَ،  وَقَالَ النَّاسُ: آمِینَ،

نعیم مجمر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ہم نے  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ کے  اقتدامیں  نمازپڑھی، انہوں  نے  بسم   اللہ   الرحمٰن الرحیم پڑھی پھر سورۂ  فاتحہ پڑھی، جب آپ رضی   اللہ   عنہ ولاالضالین پرپہنچے  توآپ نے آمین کہی اورجولوگ آپ رضی   اللہ   عنہ کی اقتدامیں  نمازاداکررہے  تھے  انہوں  نے  بھی آمین کہی۔ [85]

عِكْرِمَةَ،  یَقُولُ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَلَهُمْ رَجَّةٌ فِی مَسَاجِدِهِمْ بِآمِینَ،  إِذَا قَالَ الْإِمَامُ:غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ

عکرمہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  دیکھاکہ امام جب ’’ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ ‘‘کہتا تو لوگوں  کے  آمین کہنے  کی وجہ سے  مسجدگونج جاتی تھی۔ [86]

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ:مَا حَسَدَتْكُمُ الْیَهُودُ عَلَى شَیْءٍ،  مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِینِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجس قدریہودی سلام اورآمین سے  چڑتے  ہیں  اتنا کسی اور چیز سے  نہیں  چڑتے  پس تم کثرت سے  آمین کہو۔ [87]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا حَسَدَتْكُمُ الْیَهُودُ عَلَى شَیْءٍ،  مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى آمِینَ،  فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِینَ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجس قدریہودی (اونچی آوازمیں  )آمین سے  چڑتے  ہیں  اتنا کسی اورچیزسے  نہیں  چڑتے  پس تم بہت آمین کہنا۔ [88]

مُعَاذٍ، فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْیَهُودَ قَوْمٌ سَئِمُوا دِینَهُمْ،  وَهُمْ قَوْمٌ حُسَّدٌ،  وَلَمْ یَحْسِدُوا الْمُسْلِمِینَ عَلَى أَفْضَلَ مِنْ ثَلَاثٍ: رَدِّ السَّلَامِ،  وَإِقَامَةِ الصُّفُوفِ،  وَقَوْلِهِمْ خَلْفَ إِمَامِهِمْ فِی الْمَكْتُوبَةِ: آمِینَ

معاذبن جبل رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایایہودی اپنے  دین سے  اکتاچکے  ہیں  وہ حاسدقوم ہیں  وہ جن اعمال پرمسلمانوں  سے  حسدکرتے  ہیں  ان میں  سے  افضل ترین یہ ہیں  سلام کا جواب لوٹانا، صفوں  کوقائم کرناان کافرض نمازوں  میں  امام کے  پیچھے  آمین کہنا۔ [89]

عَنِ ابْنِ أُمِّ الْحُصَیْنِ،  عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَیْنِ: أَنَّهَا كَانَتْ تُصَلِّی خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَفٍّ مِنَ النِّسَاءِ،  فَسَمِعَتْهُ یَقُولُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ} بَلَغَ: {وَلَا الضَّالِّینَ} [90]،  قَالَ: آمِینَ حَتَّى سَمِعْتُهُ وَأَنَا فِی صَفِّ النِّسَاءِ،

ام حصین رضی   اللہ   عنہ نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پیچھے  نمازپڑھی ، رسول اکرم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  جب ولاالضالین پڑھاتوآمین کہی جسے  ام حصین رضی   اللہ   عنہ نے  سناحالانکہ وہ عورتوں  کی صف میں  تھیں  ۔ [91]

وَقَالَ عَطَاءٌ: آمِینَ دُعَاءٌ أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: وَمَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً

عطاء رحمہ   اللہ   (تابعی)کہتے  ہیں  آمین دعاہے  عبد  اللہ   بن زبیر رضی   اللہ   عنہ اوران کے  مقتدی اتنی بلندآوازسے  آمین کہاکرتے  تھے  کہ مسجدگونج اٹھتی تھی۔ [92]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ،  عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَكَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ یُؤَمِّنُ عَلَى إِثْرِ أُمِّ الْقُرْآنِ؟ قَالَ:نَعَمْ،  وَیُؤَمِّنُ مَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى أَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً،  ثُمَّ قَالَ:إِنَّمَا آمِینَ دُعَاءٌ

امام ابن جریج رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  امام عطاء بن ابی رباح رحمہ   اللہ   سے  کہاکہ کیاعبد  اللہ   بن زبیر رضی   اللہ   عنہ سورۂ  فاتحہ کے  بعدآمین کہتے  ہیں  ؟ توآپ رحمہ   اللہ   نے  کہاہاں  ، پھرآپ نے  کہاآمین دعاہے ۔ [93]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: آمِینَ؟ قَالَ: لَا أَدَعُهَا أَبَدًا قَالَ: إِثْرَ أُمِّ الْقُرْآنِ فِی الْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ؟ قَالَ: وَلَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ الْأَئِمَّةَ یَقُولُونَ عَلَى إِثْرِ أُمِّ الْقُرْآنِ آمِینَ،  هُمْ أَنْفُسُهُمْ وَمَنْ وَرَاءَهُمْ حَتَّى أَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً

ابن جریح کہتے  ہیں  میں  نے  عطاء سے  آمین کے  بارے  میں  پوچھاتوانہوں  نے  فرمایاکہ میں  یہ کبھی بھی نہیں  چھوڑوں  گااورکہامیں  اماموں  کوسنتاہوں  وہ سورۂ  فاتحہ کے  بعدآمین کہتے  ہیں  وہ ائمہ مساجداوران کے  پیچھے  نمازپڑھنے  والے  لوگ آمین کہتے  ہیں  یہاں  تک کہ مسجدگونج اٹھتی ہے ۔ [94]

عَنْ عَطَاءٍ قَالَ:عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ یَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ إِمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا

امام عطاء کہتے  ہیں  عبد  اللہ   بن عمر رضی   اللہ   عنہما بلندآوازسے  آمین کہتے  تھے  چاہے  وہ امامت کرارہے  ہوتے  یامقتدی ہوتے ۔ [95]

عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ مِائَتَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی هَذَا الْمَسْجِدِ إِذَا قَالَ الْإِمَامُ : غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ ،  سَمِعْتُ لَهُمْ رَجَّةً بِآمِینَ

عطا رحمہ   اللہ   بن ابی رباح (تابعی)فرماتے  ہیں  میں  نے  دوسوصحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم کوپایاکہ وہ مسجدحرام یعنی بیت   اللہ   میں  جب امام غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کہتاتوسب بلندآوازسے  آمین کہتے  تھے ۔ [96]

والإنصاف أنَّ الجهر قویّ من حیث الدلیل

مولاناعبدالحی رحمہ   اللہ   حنفی فرماتے  ہیں  انصاف کی بات تویہ ہے  کہ اونچی آوازسے  آمین کہنے  کاثبوت بہت قوی ہے ۔  [97]

گویاآمین بالجہرکی مشروعیت پراجماع ہے مگراحناف کی مساجدآمین کہنے  پرخاموش ہیں  ۔

نمازکی مسنون قرات:

سورۂ  فاتحہ کے  بعدامام یامنفردنمازی جہاں  سے  چاہے  اورجتناچاہے  قرآن کریم پڑھ سکتاہے  لیکن یہاں  ہم رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی مختلف نمازوں  میں  قرات بیان کرتے  ہیں  ۔

نمازفجرکی قرات:

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی الْفَجْرِ بِ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ وَكَانَ صَلَاتُهُ بَعْدُ تَخْفِیفًا

جابربن سمرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازفجرمیں  سورۂ  ق پڑھتے  تھے  اورباقی نمازیں  ہلکی پڑھتے  تھے ۔ [98]

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنَ السِّتِّینَ إِلَى الْمِائَةِ

ابوبرزہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم صبح کی نمازمیں  ساٹھ آیتوں  سے  لے  کرسوآیتوں  تک پڑھتے  تھے ۔ [99]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: صَلَّى لَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الصُّبْحَ بِمَكَّةَ فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْمُؤْمِنِینَ حَتَّى جَاءَ ذِكْرُ مُوسَى،  وَهَارُونَ أَوْ ذِكْرُ عِیسَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ یَشُكُّ أَوِ اخْتَلَفُوا عَلَیْهِ أَخَذَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَعْلَةٌ فَرَكَعَ

عبد  اللہ   بن سائب رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مکہ مکرمہ میں  فجرکی نمازپڑھائی اور سورۂ مومنون شروع کی یہاں  تک کہ موسیٰ اورہارون علیہ السلام کاذکرآیایاعیسیٰ کا، محمدبن عبادکوشک ہے  یاراویوں  کااختلاف ہے ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کوکھانسی لگی تورکوع کردیا۔ [100]

عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ: أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْفَجْرِ وَاللَّیْلِ إِذَا عَسْعَسَ

عمروبن حریث رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کونمازفجرمیں  سورہ التکویر پڑھتے  ہوئے  سنا۔ [101]

عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِیِّ،  أَنَّ رَجُلًا،  مِنْ جُهَیْنَةَ أَخْبَرَهُ،  أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الصُّبْحِ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ فِی الرَّكْعَتَیْنِ كِلْتَیْهِمَا فَلَا أَدْرِی أَنَسِیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمْ قَرَأَ ذَلِكَ عَمْدًا

معاذبن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ جہنی سے  مروی ہے  بنوجہینہ کے  ایک شخص نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کوسناکہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم فجرکی نمازمیں  دونوں  رکعات میں  سورہ الزلزال پڑھ رہے  تھے ،  مجھے  نہیں  معلوم کہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم بھول گئے  تھے  یاعمداًاس کی قرات کی تھی۔ [102]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،  قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ فِی السَّفَرِ،  فَقَالَ لِی:یَا عُقْبَةُ،  أَلَا أُعَلِّمُكَ خَیْرَ سُورَتَیْنِ قُرِئَتَا؟ فَعَلَّمَنِی قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ،  وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ،  قَالَ: فَلَمْ یَرَنِی سُرِرْتُ بِهِمَا جِدًّا،  فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ صَلَّى بِهِمَا صَلَاةَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ،  فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ الْتَفَتَ إِلَیَّ،  فَقَالَ: یَا عُقْبَةُ،  كَیْفَ رَأَیْتَ؟

عقبہ بن عامر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  ایک سفرمیں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑے  چل رہاتھاکہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مجھ سے  فرمایااے  عقبہ!کیامیں  تمہیں  دوبہترین پڑھی گئی سورتیں  نہ سکھا دوں  ، چنانچہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مجھے  سورہ الفلق اورسورہ الناس سکھائیں  ،  کہتے  ہیں  کہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  محسوس کیاکہ میں  ان پرکوئی بہت زیادہ خوش نہیں  ہواہوں  ، کہاپھرجب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازفجرکے  لیے  اترے  اورلوگوں  کونمازپڑھائی تونمازمیں  یہی دوسورتیں  تلاوت کیں  ، جب آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازسے  فارغ ہوئے  تومیری طرف متوجہ ہوئے  اورفرمایااے  عقبہ رضی   اللہ   عنہ !کیساپایا(ان سورتوں  کو)۔ [103]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَفِّفُ الرَّكْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ حَتَّى إِنِّی لَأَقُولُ: هَلْ قَرَأَ بِأُمِّ الكِتَابِ؟

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم صبح کی (فرض)نمازسے  پہلے  کی دو (سنت) رکعتوں  کوبہت مختصررکھتے  تھے  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ان میں  سورۂ  فاتحہ بھی پڑھی یانہیں  میں  یہ بھی نہیں  کہہ سکتی۔ [104]

نمازظہراورعصرمیں  قرات:

عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ،  قُلْتُ لِخَبَّابٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ،  قُلْنَا: مِنْ أَیْنَ عَلِمْتَ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْیَتِهِ

ابومعمر رحمہ   اللہ   نے  خباب رضی   اللہ   عنہ سے  پوچھا کیارسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازظہروعصرمیں  قرات فرماتے  تھے ؟انہوں  نے  جواب دیاکہ ہاں  ، ہم نے  پوچھاکہ آپ کوکس طرح معلوم ہوتاتھا؟ انہوں  نے  بتایاکہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کی ریش مبارک ہلنے  سے ۔ [105]

یعنی آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم سری(بغیرآوازبلندکیے ) قرات فرماتے  تھے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،  أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی صَلَاةِ الظُّهْرِ فِی الرَّكْعَتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ قَدْرَ ثَلَاثِینَ آیَةً،  وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ قَدْرَ خَمْسَ عَشْرَةَ آیَةً أَوْ قَالَ نِصْفَ ذَلِكَ – وَفِی الْعَصْرِ فِی الرَّكْعَتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ قَدْرَ قِرَاءَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ آیَةً وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ قَدْرَ نِصْفِ ذَلِكَ

ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازظہرکی پہلی دورکعتوں  میں  ہررکعت میں  تیس آیتوں  کے  برابرقرات کرتے  تھے  اورپچھلی دورکعتوں  میں  پندرہ آیتوں  کے  برابریایوں  کہااس کاآدھااورعصرکی پہلی دورکعتوں  میں  ہررکعت میں  پندرہ آیتوں  کے  برابراورپچھلی دورکعتوں  میں  اس کاآدھا۔ [106]

یعنی ظہرکی آخری دونوں  رکعتوں  میں  سورۂ  فاتحہ کے  بعدقرات مسنون ہے ، اورکبھی آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم آخری دورکعتوں  میں  صرف سورۂ  فاتحہ کی قرات فرماتے  تھے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی قَتَادَةَ،  عَنْ أَبِیهِ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ فِی الأُولَیَیْنِ بِأُمِّ الكِتَابِ،  وَسُورَتَیْنِ،  وَفِی الرَّكْعَتَیْنِ الأُخْرَیَیْنِ بِأُمِّ الكِتَابِ وَیُسْمِعُنَا الآیَةَ

ابوقتادہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازظہراورعصرکی پہلی دورکعتوں  میں  سورۂ  فاتحہ اورکوئی ایک سورت پڑھتے  اورآخری دورکعتوں  میں  صرف سورۂ  فاتحہ پڑھتے  تھے  اوربعض اوقات ہمیں  کوئی آیت (بلندآوازسے  پڑھ کر)سنادیتے  تھے ۔ [107]

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،  أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ بِـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} [108]

جابربن سمرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ظہرکی نمازمیں  سورہ الاعلی پڑھتے  تھے ۔  [109]

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ،  وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَنَحْوِهِمَا مِنَ السُّوَرِ

جابربن سمرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازظہراورعصرمیں  سورۂ  الطارق اورسورہ البروج ، ان کی مثل سورتیں  پڑھاکرتے  تھے ۔ [110]

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ بِاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى

جابربن سمرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نمازظہرمیں  سورہ اللیل پڑھتے  تھے ۔  [111]

کبھی آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم طویل قرات فرماتے  تھے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،  قَالَ:لَقَدْ كَانَتْ صَلَاةُ الظُّهْرِ تُقَامُ فَیَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْبَقِیعِ فَیَقْضِی حَاجَتَهُ. ثُمَّ یَتَوَضَّأُ. ثُمَّ یَأْتِی وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِمَّا یُطَوِّلُهَا

ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے بعض اوقات ظہرکی نمازکھڑی ہوجاتی پھرجانے  والابقیع کوجاتااورحاجت سے  فارغ ہوکرگھرسے وضوکرکے  آتااوررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم پہلی رکعت میں  ہوتے  اس قدراس کولمبا کرتے ۔ [112]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی قَتَادَةَ،  عَنْ أَبِیهِ،  قَالَ: فَظَنَنَّا أَنَّهُ یُرِیدُ بِذَلِكَ أَنْ یُدْرِكَ النَّاسُ الرَّكْعَةَ الْأُولَى

ابوقتادہ کہتے  ہیں  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم پہلی رکعت کواس لیے  لمبافرماتے  تھے  تاکہ لوگ پہلی رکعت میں  شریک ہوسکیں  ۔ [113]

نمازمغرب میں  قرات:

جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ،  عَنْ أَبِیهِ،  قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَرَأَ فِی المَغْرِبِ بِالطُّورِ

جبیربن مطعم رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو مغرب کی نمازمیں  سورۂ  طورپڑھتے  ہوئے  سنا۔ [114]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ أُمَّ الفَضْلِ سَمِعَتْهُ وَهُوَ یَقْرَأُ: {وَالمُرْسَلاَتِ عُرْفًا} [115]

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے ام فضل کی بیٹی حارثہ رضی   اللہ   عنہ کہتی ہیں  میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کومغرب کی نمازمیں  سورۂ  مرسلات پڑھتے  ہوئے  سنا۔ [116]

وَرُوِیَ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِی صَلاةِ الْمَغْرِبِ بِسُورَةِ الأَعْرَافِ،  فَرَّقَهَا فِی رَكْعَتَیْنِ.

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مغرب کی نماز سورۂ  الاعراف کے  ساتھ نمازپڑھی اوراس سورت کودونوں  رکعتوں  میں  متفرق پڑھا۔ [117]

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِی صَلَاةِ الْمَغْرِبِ بِحم الدُّخَانِ

عبد  اللہ   بن عتبہ بن مسعودسے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مغرب کی نماز میں  سورہ الدخان پڑھی۔ [118]

نمازعشاء میں  قرات:

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ: وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ فِی العِشَاءِ،  وَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا مِنْهُ أَوْ قِرَاءَةً

براء بن عازب رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کونمازعشاء میں  سورہ التین پڑھتے  ہوئے  سنااورمیں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  زیادہ خوش آوازکسی کونہیں  سنا ۔  [119]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِیَّ،  قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ بِنَاضِحَیْنِ وَقَدْ جَنَحَ اللَّیْلُ،  فَوَافَقَ مُعَاذًا یُصَلِّی،  فَتَرَكَ نَاضِحَهُ وَأَقْبَلَ إِلَى مُعَاذٍ،  فَقَرَأَ بِسُورَةِ البَقَرَةِ أَوِ النِّسَاءِ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَبَلَغَهُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْهُ،  فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَشَكَا إِلَیْهِ مُعَاذًا،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا مُعَاذُ،  أَفَتَّانٌ أَنْتَ – أَوْ أَفَاتِنٌ – ثَلاَثَ مِرَارٍ:فَلَوْلاَ صَلَّیْتَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ،  وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا،  وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى،  فَإِنَّهُ یُصَلِّی وَرَاءَكَ الكَبِیرُ وَالضَّعِیفُ وَذُو الحَاجَةِ

جابربن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ایک شخص پانی اٹھانے  والے  دواونٹ لیے  ہوئے  آیارات تاریک ہوچکی تھی اس نے  معاذ رضی   اللہ   عنہ کونمازپڑھاتے  ہوئے  پایا اس لیے  اپنے  اونٹوں  کوبٹھاکر(نمازمیں  شریک ہونے  کے  لیے ) معاذ رضی   اللہ   عنہ کی طرف بڑھا،  معاذ رضی   اللہ   عنہ نے  نمازمیں  سورۂ  بقرہ یا سورۂ   نساء شروع کی، چنانچہ وہ شخص نیت توڑکرچل دیا پھر اسے  معلوم ہواکہ معاذ رضی   اللہ   عنہ نے  اس کو(مجھے )برابھلاکہاہے اس لیے  وہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااور معاذ رضی   اللہ   عنہ کی شکایت کی، نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااے  معاذ رضی   اللہ   عنہ !کیاتم لوگوں  کوفتنہ میں  ڈالتے  ہوآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  تین بار فتان یافاتن کہا،  تم نے  سورتیں  الاعلی،  الشمس، اوراللیل کیوں  نہ پڑھیں  کیونکہ تمہارے  پیچھے  بوڑھے ، کمزوراورحاجت مندنمازپڑھتے  ہیں  ۔ [120]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ مُعَاذٌ،  یُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَأْتِی فَیَؤُمُّ قَوْمَهُ،  فَصَلَّى لَیْلَةً مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَأَمَّهُمْ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ فَقَالُوا لَهُ: أَنَافَقْتَ؟ یَا فُلَانُ،  قَالَ: لَا. وَاللهِ وَلَآتِیَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَأُخْبِرَنَّهُ. فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ،  إِنَّا أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّى مَعَكَ الْعِشَاءَ،  ثُمَّ أَتَى فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَاذٍ فَقَالَ:یَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟ اقْرَأْ بِكَذَا وَاقْرَأْ بِكَذَا قَالَ سُفْیَانُ: فَقُلْتُ لِعَمْرٍو،  إِنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ،  حَدَّثَنَا عَنْ جَابِرٍ،  أَنَّهُ قَالَ: اقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالضُّحَى،  وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى،  وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَقَالَ عَمْرٌو نَحْوَ هَذَا

جابر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے معاذبن جبل رضی   اللہ   عنہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ نماز پڑھتے  اورپھر واپس آکرہمارے  امامت کراتے  تھے  ، ایک رات نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  تاخیرسے  نمازپڑھائی اورایک بارروایت کیا کہ عشاء کی نمازآپ نے  تاخیرسے  پڑھائی اور معاذ رضی   اللہ   عنہ نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  ساتھ نمازپڑھی اورپھرآکراپنی قوم کی امامت کی اور سورۂ بقرہ پڑھنی شروع کی توقوم میں  سے  ایک آدمی علیحدہ ہوگیااوراس نے  الگ ہی اپنی نمازپڑھی تواسے  کہا گیا کیا تومنافق ہوگیاہے  اے  فلاں  ؟اس نے  کہامیں  منافق نہیں  ہواہوں  ، چنانچہ وہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورکہا معاذ رضی   اللہ   عنہ آپ کے  ساتھ نمازپڑھتے  ہیں  پھرواپس جاکرہماری امامت کراتے  ہیں  اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !اورہم آب پاشی کی اونٹنیوں  والے  ہیں  اپنے  ہاتھوں  سے  کام کرتے  ہیں  (گزشتہ رات)وہ آئے  اورہماری امامت کرائی اورسورئہ بقرہ پڑھنے  لگے ، توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااے  معاذ رضی   اللہ   عنہ !کیاتوفتنے  میں  ڈالنے  والاہے ؟ کیاتوفتنے  میں  ڈالنے  والاہے ؟وہ پڑھواوروہ پڑھو،  ابوزبیرنے  نام لے  کرکہاکہ سورہ الاعلی اورسورہ اللیل پڑھو۔ [121]

یعنی امام کواپنے  مقتدیوں  کالحاظ رکھتے  ہوئے  نمازمختصرپڑھانی چاہیے ۔

[1] صحیح بخاری کتاب صفة الصلوٰةبَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ عن عبادہ بن صامت ۷۵۶ ، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَاعن ابی ہریرہؓ۸۷۸،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۸۲۱،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ۲۹۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۸۳۸،سنن نسائی کتاب الافتتاح باب تَرْكُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ فِی فَاتِحَةِ الْكِتَابِ۹۱۰،موطاامام مالک کتاب الصلوٰة باب القراء ة خلف الامام ۔۔۔۳۹،صحیح ابن حبان۷۷۶

[2] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۸۲۱ ، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَاعن ابی ہریرہؓ۸۷۸،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ ۲۹۵۳ ، سنن نسائی کتاب الافتتاح باب تَرْكُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ فِی فَاتِحَةِ الْكِتَابِ۹۱۰،مسنداحمد۷۲۹۱،صحیح ابن خزیمة ۵۰۲

[3]تحفة الاحوذی۵۶؍۲

[4] المزمل۲۰

[5] مسند احمد ۲۲۶۷۷، سنن دارقطنی ۱۲۲۵،صحیح ابن خزیمة ۴۸۸،سنن ابوداودکتاب الصلاة باب من ترک القراء ة فی صلاتہ بفاتحة الکتاب ۸۲۳

[6]صحیح ابن حبان۱۷۸۹،صحیح ابن خزیمة۴۹۰

[7] صحیح بخاری کتاب صفة الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ۷۵۷

[8]مسند احمد ۲۲۶۲۷، صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ القِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ۷۵۹،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ وَالْعَصْرِعن قتادہؓ۱۰۱۳

[9] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ، إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمْعٍ، وَقَوْلِ المُؤَذِّنِ: الصَّلاَةُ فِی الرِّحَالِ، فِی اللَّیْلَةِ البَارِدَةِ أَوِ المَطِیرَةِ۶۳۱، وکتاب الادب بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ ۶۰۰۸

[10] المحلی بالاثار۲۶۸؍۲

[11] فتح الباری ۲۴۲؍۲،شرح النووی علی مسلم ۱۰۳؍۴

[12] نیل الاوطار۲۴۶؍۲،السبل الجرار۱۳۱؍۱

[13] تفسیرالقرطبی۱۱۹؍۱

[14] المغنی۳۴۴؍۱

[15] تحفة الاحوذی۵۴؍۲

[16] المغنی۳۴۳؍۱

[17] تحفة الاحوذی۵۵؍۲

[18] مسنداحمد۲۲۶۷۷

[19] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ۸۲۳،جامع ترمذی کتاب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ۳۱۱، مسند احمد ۲۲۶۹۴

[20] إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری۸۵؍۲

[21] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۰؍۶

[22] عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۰؍۶

[23] المجموع شرح المهذب۳۲۶؍۳

[24] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ ۳۱۱

[25] مرعاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح۱۶۲؍۳

[26] مرعاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح۱۰۶؍۳

[27]۔میزان کبرےٰ۱۶۶؍۱

[28] مسک الختام شرح بلوغ المرام ۲۱۹؍۱

[29] تفسیرابن کثیر۱۰۸؍۱

[30]عمدة القاری شرح صحیح البخاری۱۴؍۶

[31] تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی۱۹۵؍۲

[32]امام الکلام۲۰

[33] التعلیق الممجد على موطأ محمد۴۲۷؍۱

[34] التعلیق الممجد على موطأ محمد ۴۲۸؍۱

[35] التعلیق الممجد على موطأ محمد۴۲۸؍۱

[36]صحیح بخاری کتاب صفة الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ عن عبادہ بن صامت ۷۵۶ ،صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَاعن ابی ہریرہ ؓ۸۷۸،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۸۲۱،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ۲۹۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۸۳۸،موطاامام مالک کتاب الصلوٰة باب القراء ة خلف الامام ۔۔۔۳۹،صحیح ابن حبان۷۷۶،مسنداحمد۱۰۱۹۸

[37]مرعاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح۱۱۲؍۳

[38] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَاعن ابی ہریرہؓ۸۷۸،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ۲۹۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۸۳۸،موطاامام مالک کتاب النداء للصلاة باب القراء ة خلف الامام فیھالایجھرفیہ بالقراء ة۳۹، مسند احمد۹۹۳۲،سنن الدارقطنی ۱۱۸۹،صحیح ابن حبان ۱۷۸۴، صحیح ابن خزیمہ۵۰۲

[39] القراء ة خلف الام للبیہقی۳۱؍۱

[40] تفسیرالجلالین۲۲۶؍۱

[41] عون المبعود ۲۸؍۳،مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح۱۱۳؍۳

[42]الھدایة فی شرح بدایة المبتدی۵۵؍۱،العنایة شرح الہدایة۳۰۱؍۲

[43] الأحزاب: 56

[44] الاحزاب ۵۶

[45] العنایة شرح الہدایة۳۴۴؍۱

[46] السنن الصغیرللبیہقی۵۳۵

[47] فص الحنام ۱۴۷

[48] شرح معانی الآثار۱۲۱۹،السنن الکبری للبیہقی۲۹۳۹

[49] نیل الاوطار ۲۵۰؍۲

[50] الاعراف۲۰۴

[51] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ التَّشهُّدِ فِی الصَّلَاةِ۹۰۵،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة پارہ ۶بَابُ التَّشَهُّدِ۹۷۳،وبَابُ الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ۶۰۴،سنن نسائی کتاب الافتتاح باب تَأْوِیلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۹۲۳،مسنداحمد۱۹۷۲۳،سنن الدارقطنی ۱۲۴۳

[52] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا بَابُ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا۸۵۰،شرح معانی الاثار۱۲۹۴،سنن دارقطنی۱۲۳۳

[53] تفسیر القرطبی۱۱۹؍۱

[54] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ إِذَا لَمْ یَجْهَرِ الْإِمَامُ بِقِرَاءَتِهِ۸۲۶،موطاامام مالک کتاب الصلاة باب من کرہ القراء ة بفاتحة الکتاب اذاجھر الامام۴۳،جامع ترمذی کتاب الصلوٰہ بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ۳۱۱،سنن نسائی کتاب الافتتاح تَرْكُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِیمَا جَهَرَ بِهِ۹۲۰ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ۸۴۹، مسنداحمد۲۸۴؍۲،صحیح ابن حبان ۱۸۴۹،السنن الکبری للنسائی ۹۹۳،السنن الکبری للبیہقی ۲۸۹۲،عبدالرزاق۲۷۹۵

[55]صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَا۸۷۸

[56] معالم السنن۲۰۵؍۱

[57] تفسیرقرطبی۱۱۹؍۱

[58] نیل الاوطار۲۵۳؍۲

[59] المحلی بالاثار۲۶۵؍۲

[60] التعلیق الممجد۴۲۷؍۱

[61]۔الفتاوی الاسلامیة۲۶۰؍۱

[62] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ نَهْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَهْرِهِ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ إِمَامِهِ۸۸۷،سنن ابوداود ابواب صلوٰة السفرپارہ ۸بَابُ مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ إِذَا لَمْ یَجْهَرِ الْإِمَامُ بِقِرَاءَتِهِ۸۲۸،سنن نسائی کتاب الافتتاح تَرْكُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِیمَا لَمْ یَجْهَرْ فِیهِ۵۲۰، ۵۲۱، مسند احمد ۱۹۸۱۵،صحیح ابن حبان ۱۸۴۵

[63] نیل الاوطار ۲۶۲؍۲،شرح النووی علی مسلم ۱۰۹؍۴

[64] صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِی كُلِّ رَكْعَةٍ، وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ یُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ، وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَیَسَّرَ لَهُ مِنْ غَیْرِهَاعن ابی ہریرہؓ۸۷۸

[65] القراء ة خلف الامام للبیہقی ۵۸،۳۴؍۱

[66] تحفة الاحوذی ۲۴۸؍۲)

[67] الھدایة فی شرح ہدایة المبتدی۵۶؍۱

[68] حجة   اللہ   البالغة۱۴؍۲

[69] غنیة الطالبین ۵۳

[70] تفسیرابن کثیر۱۰۸؍۱

[71] تحفة الاحوذی۱۹۵؍۲

[72] الاعراف ۲۰۴

[73] تفسیر الرازی ۴۴۰؍۱۵

[74] تفسیر القرطبی۳۵۳؍۷

[75] تفسیرالبحرالمحیط۲۶۱؍۵

[76] الاعراف ۲۰۴

[77]تفسیر القرطبی۱۱۹؍۱

[78] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ التَّأْمِینِ وَرَاءَ الْإِمَامِ ۹۳۲،جامع ترمذی ابواب الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی التَّأْمِینِ ۲۴۸،سنن الدارقطنی۱۲۶۷،السنن الکبری للبیہقی۲۴۴۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۲،صحیح ابن خزیمة ۵۷۱، التلخیص الحبیر۵۸۱؍۱

[79] صحیح ابن خزیمة۵۷۱،السنن الکبری للبیہقی ۲۴۵۲،صحیح ابن حبان۱۸۰۶

[80] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ ۷۸۰،صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ التَّسْمِیعِ، وَالتَّحْمِیدِ، وَالتَّأْمِینِ ۹۱۵ ،سنن ابوداود کتاب الصلاةبَابُ التَّأْمِینِ وَرَاءَ الْإِمَامِ ۹۳۶،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ التَّأْمِینِ ۲۵۰،السنن الکبری للنسائی۱۰۰۲،صحیح ابن خزیمة ۵۷۰

[81] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ ۷۸۱،السنن الکبری للنسائی ۱۰۰۴، شرح السنة للبغوی۵۹۰

[82] صحیح ابن خزیمة ۵۷۰

[83] الفاتحة: 1

[84] الفاتحة: 7

[85]صحیح ابن خزیمة۴۹۹،۶۸۸،شرح معانی الآثار۱۱۸۵،صحیح ابن حبان۱۷۹۷،سنن الدارقطنی۱۱۶۸،مستدرک حاکم۸۴۹

[86] مصنف ابن ابی شیبة۷۹۶۳

[87] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصوات بَابُ الْجَهْرِ بِآمِینَ ۸۵۶

[88] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصوات بَابُ الْجَهْرِ بِآمِینَ ۸۵۷

[89] المعجم الاوسط۴۹۱۰

[90] الفاتحة: 7

[91] نصب الرایة۳۷۱؍۱،المعجم الکبیرللطبرانی۳۸۳

[92] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ ۷۸۰،شرح السنة للبغوی۵۸۶

[93] مصنف عبدالرزاق۲۶۴۰

[94] مصنف عبدالرزاق۲۶۴۳

[95] السنن الکبری للبیہقی ۲۴۵۴

[96] السنن الکبری للبیہقی ۲۴۵۵

[97]التعلیق الممجد۴۴۶؍۱

[98]صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ۱۰۲۷

[99] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ ۱۰۳۱،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْفَجْرِ ۸۱۸،السنن الکبری للبیہقی۴۰۱۴،صحیح ابن خزیمة۵۳۰،مسنداحمد۱۹۷۶۴

[100] صحیح مسلم کتاب الصلوٰہ بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ۱۰۲۲،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلَاةِ فِی النَّعْلِ ۶۴۹ ،مسنداحمد۱۵۳۹۵

[101]صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ۱۰۲۳

[102] سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابُ الرَّجُلِ یُعِیدُ سُورَةً وَاحِدَةً فِی الرَّكْعَتَیْنِ ۸۱۶،السنن الکبری للبیہقی۴۰۲۱

[103] سنن ابوداودکتاب الوتربَابٌ فِی الْمُعَوِّذَتَیْنِ ۱۴۶۲،السنن الکبری للنسائی ۷۷۹۹،صحیح ابن خزیمة۵۳۵،السنن الکبری للطبرانی۹۲۶،السنن الکبری للبیہقی۴۰۴۸

[104] صحیح بخاری کتاب التہجدبَابُ مَا یُقْرَأُ فِی رَكْعَتَیِ الفَجْرِ ۱۱۷۱،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَیْ سُنَّةِ الْفَجْرِ ۱۶۸۴،سنن ابوداودکتاب التطوع بَابٌ فِی تَخْفِیفِهِمَا ۱۲۵۵

[105] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ مَنْ خَافَتَ القِرَاءَةَ فِی الظُّهْرِ وَالعَصْرِ ۷۷۷

[106] صحیح مسلم کتاب الصلاةباب یطول فی الركعتین الأولیین ۴۵۲

[107] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابٌ یَقْرَأُ فِی الأُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ۷۷۶، صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ۱۰۱۲ ،سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ ۷۹۸،سنن الدارمی۱۳۳۰، مسند احمد ۲۲۵۶۳

[108] الأعلى: 1

[109] صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ۱۰۳۰

[110] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ۸۰۵، جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ وَالعَصْرِ ۳۰۷،السنن الکبری للنسائی ۱۰۵۳،سنن الدارمی۱۳۲۷،شرح معانی الآثار۱۲۲۹،شرح السنة للبغوی ۵۹۴،السنن الکبری للبیہقی۴۰۲۸،صحیح ابن حبان۱۸۲۷،مسنداحمد۲۱۰۱۸

[111]صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ۱۰۲۹

[112] صحیح مسلم کتاب الصلاةباب یطول فی الركعتین الأولیین ۱۰۲۰،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ۸۲۵،السنن الکبری للنسائی۱۰۴۷

[113]سنن ابوداودکتاب الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ فِی الظُّهْرِ۸۰۰

[114] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الجَهْرِ فِی المَغْرِبِ ۷۶۵،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی المَغْرِب۱۰۳۵،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِی الْمَغْرِبِ ۸۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰہ بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۸۳۲،سنن الدارمی۱۳۳۲،مسنداحمد۱۶۷۳۵

[115] المرسلات: 1

[116] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ القِرَاءَةِ فِی المَغْرِبِ۷۶۳،صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ القِرَاءَةِ فِی المَغْرِبِ ۱۰۳۳، مسند احمد۲۶۸۸۴

[117] السنن الکبری للنسائی۱۰۶۵،شرح السنة للبغوی ۵۹۷

[118] السنن الکبری للنسائی۱۰۶۲

[119] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ القِرَاءَةِ فِی العِشَاءِ ۷۶۹،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِشَاءِ ۱۰۳۹،مسنداحمد۱۸۶۳۹

[120]صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ ۷۰۵

[121]صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِشَاءِ ۱۰۴۰،سنن ابوداودکتاب الصلوٰةبَابٌ فِی تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ ۶۰۰، مسنداحمد۱۴۳۰۷

Related Articles