ہجرت نبوی کا تیسرا سال

سورةآل عمران1تا32

مضامین سورةآل عمران:اس سورہ کے آغازمیں راسخ العقیدہ مسلمانوں کی علامات اوراوصاف کاذکرکیاگیا،پھرنصاریٰ کے مذہب میں جواعتقادی گمراہیوں ،اخلاقی خرابیوں اورعملی کمزوریاں پیدا ہوئیں ان کے ذکر کرنے کے بعدان کمزوریوں کی اصلاح کے اقدامات کابیان ہے،مگرجب انہوں نے اس دعوت حقیقی کوتسلیم نہ کیاتوپھرسچ اورجھوٹ کوواضع کرنے کے لئے دعوت مباہلہ دی گئی،یہودکی سازشی سرشت وجبلت کاذکراوران کی سازشیں ،جنگ احدمیں مسلمانوں کی خامیوں اورکمزوریوں کی نشان دہی اور ان کے ازالے کے لئے ہدایات اور عام معافی کااعلان اوررسول الله کی امت کوبہترین امت قراردیاگیااوراس کی بقاکے اصول بتلائے گئے،سب سے آخرمیں باری تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے اظہاراوردعا پر ہے۔

الم ‎﴿١﴾‏ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ ‎﴿٢﴾‏ نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ ‎﴿٣﴾‏ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ ‎﴿٤﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَا یَخْفَىٰ عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ ‎﴿٥﴾‏ هُوَ الَّذِی یُصَوِّرُكُمْ فِی الْأَرْحَامِ كَیْفَ یَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٦﴾(آل عمرا ن)
الف لام میم،اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے، جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا ،ا س سے پہلے لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر اور قرآن بھی اسی نے اتارا ، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، بدلہ لینے والاہے،یقیناً اللہ تعالیٰ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ،وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح کی چاہتا ہے بناتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

ا،ل،م،اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کااعلان فرمایا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی معبودبرحق ہے، اس کے سواکوئی معبود نہیں ہے، اس کے سوا جس معبودکی پرستش کی جاتی ہے وہ باطل ہے،اللہ وہ زندہ جاویدہستی ہے جس نے اس عظیم الشان کائنات کوبغیرکسی نمونے کے تخلیق کیا اوراس کے ہرطرح کےکجی سے پاک نظام کوچلارہاہے۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ یَرْفَعُهُ قَالَ: اسْمُ اللهِ الْأَعْظَمِ الَّذِی إِذَا دُعِیَ بِهِ أَجَابَ فِی ثَلَاثٍ: سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ وَطَهَ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہےجس ذریعےسےدعا کی جائے تورد نہیں ہوتی،ایک یہ آ ل عمران کی آیت اللّٰهُ لَآاِلٰهَ اِلَّاھُوَ ۙ الْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ دوسری آیت الکرسی میں اللهُ لَاإِلَهَ إِلَّاهُوَالْحَیُّ الْقَیُّومُ

اورتیسری سورہ طہ  وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّومِ ۔[1]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم یقول فِی هَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ الۗمَّۗ۝۱ۙاللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙالْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ، إِنَّ فِیهِمَا اسْمَ اللهِ الْأَعْظَمِ

اسماء بنت یزید بن السکن رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سناکہ ان دوآیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے۔[2]

اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ ۝۲۵۵ [3

الۗمَّۗ۝۱ۙاللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙالْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ۝۲ۭ [4]

اورجس نے آپ پرحق ساتھ اس جلیل القدر کتاب قرآن مجیدکونازل کیا ہے، جوان کتابوں اورصحیفوں کی تائیدو تصدیق کرنے والا ہے جوپہلے انبیاء پر ہوئی تھیں ، اوراس عظیم الشان کتاب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کےانسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اورعیسیٰ علیہ السلام پرانجیل نازل کی تھی مگراب ان کتابوں کادورختم ہوگیا،اب اللہ تعالیٰ نے دلائل وبراہین قاطعہ کے ساتھ قرآن مجید نازل فرمایاہے جوحق وباطل، ہدایت وضلالت،گمراہی اورراہ راست میں فرق کرنے والا ہےتاکہ کسی شخص کے پاس کوئی حجت ودلیل باقی نہ رہے،لہذا اب جولوگ اللہ کے اس فرامین کوقبول کرنے سے انکار کریں گے ان کویقینا  ًسخت ترین سزاملے گی،اللہ بے پناہ طاقت کامالک ہے اور جواس کے فرمان کی نافرمانی کرےاس کابدلہ لینے والاہے،اس کاعلم تمام کائنات پرمحیط ہے،جیسے متعدد مقامات پر فرمایا

۔۔۔ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۰ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۝۸۰ [5]

ترجمہ:میرے رب کاعلم ہرچیزپرچھایاہواہےپھرکیاتم ہوش میں نہ آؤگے؟۔

۔۔۔وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔۝۰۝۸۹ [6]

ترجمہ:ہمارے رب کاعلم ہرچیزپرحاوی ہے۔

۔۔۔ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸ [7]

ترجمہ:ہرچیزپراس کاعلم حاوی ہے۔

ۥۙ۔۔۔ وَّاَنَّ اللهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [8]

ترجمہ:اوریہ کہ اللہ کاعلم ہرچیزپرمحیط ہے۔

لہذاوہ اس عظیم الشان کائنات کی تمام ظاہروپوشیدہ حقیقتوں کاجاننے والاہے،اس وسیع وعریض کائنات،بحروبرکی ان گنت مخلوقات، اورتمہاراخالق اللہ وحدہ لاشریک ہی تو ہے جوتمہاری ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہتاہے تمہاری شکل و صورت بناتا ہے، جیسے ایک مقام پرفرمایا

 ۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ۝۰ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ۝۶ [9]

ترجمہ:وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے، یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے، بادشاہی اس کی ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے پھر تم کدھر سے پھرائے جارہے ہو؟۔

اللہ جس کے ہرکام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہےاس کے سواکوئی اور عبادت کے لائق نہیں ہے،اسی اللہ وحدہ لاشریک نے یہ آخری کتاب تمام انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تم پرنازل کی ہے۔

هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آیَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِهِ ۗ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا یَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٧﴾‏ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ‎﴿٨﴾‏ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ ‎﴿٩﴾(آل عمران)
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ، اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں ، اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ، اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے،اے ہمارے رب ! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

ہماری سمجھ سے بلندآیات :اللہ وحدہ لاشریک نے یہ کتاب تم پرنازل کی ہے،جس میں دوطرح کی آیات ہیں ،ایک محکمات جن میں عقائد،عبادات،اخلاق،فرائض اور امرونواہی کےاحکام ومسائل اورقصص وحکایات ارشادہوئے ہیں ،ان آیات کامفہوم واضح اوراٹل ہے،اوران کے سمجھنے میں کسی کوشخص کومشکل پیش نہیں آتی،اوریہی کتاب کی اصل اوربنیادی تعلیمات بنیادہیں ،جیسے فرمایا

 الۗرٰ۝۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ۝۱ۙ [10]

ترجمہ:ا ،ل، رٰ۔ فرمان ہے ، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں ، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔

اس لئے ہرمتشابہ کوانہی کی روشنی میں سمجھناچاہیےاوردوسری متشابہات آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی ہستی،قضاوقدرکے مسائل،جنت ودوزخ اورملائکہ وغیرہ ہیں یعنی ماوراعقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے انسانی عقل قاصرہویاان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہویاکم ازکم ایساابہام ہوجس سے عوام کوگمراہی میں ڈالناممکن ہو،جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے یعنی جوسیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں وہ محکم اورواضح ارشادات کوچھوڑکر فتنہ برپاکرنے کے لئے ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اوران کوفلسفیانہ استدلال کے ذریعے اپنی من مرضی کےمعنی پہنانے کی کوشش کیاکرتے ہیں ،حالانکہ ان کاحقیقی مفہوم اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا۔

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: {مِنْهُ آیَاتٌ مُحْكَمَاتٌ} فَهُنَّ حُجَّةُ الرَّبِّ وَعِصْمَةُ الْعِبَادِ، وَدَمْغُ الْخُصُومِ وَالْبَاطِلِ لَیْسَ لَهُنَّ تَصْرِیفٌ وَلَا تَحْرِیفٌ عَمَّا وُضِعْنَ عَلَیْهِ {مُتَشَابِهَاتٌ} فِی الصِّدْقِ لَهُنَّ تَصْرِیفٌ وَتَحْرِیفٌ وَتَأْوِیلٌ، ابْتَلَى اللهُ فِیهِنَّ الْعِبَادَ كَمَا ابْتَلَاهُمْ فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، أَلَّا یُصْرَفْنَ إِلَى الْبَاطِلِ وَلَا یُحَرَّفْنَ عَنِ الْحَقِّ

محمدبن اسحاق بن یسا ر رحمہ اللہ ،جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں ۔‘‘ بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں رب کی حجت،بندوں کی عصمت،مدمقابل اورباطل کادرہوتاہے اوران میں کوئی تصریف وتحریف نہیں ہوسکتی جبکہ متشابہات بھی مبنی برصدق ہوتی ہیں لیکن ان میں تصریف وتحریف اورتاویل ہوسکتی ہے ،اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے بندوں کی آزمائش کرتاہے جیساکہ حلال وحرام میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتاہے کہ ان کو باطل کی طرف نہ پھیراجائے اورحق سے انہیں الگ نہ کیاجائے۔[11]جیسےاللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں فرمایا

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝۵ [12]

ترجمہ:وہ رحمان (کائنات کے) تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔

وَسُئِلَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الِاسْتِوَاءِ، فَقَالَ: الِاسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ، وَالْكَیْفِیَّةُ مجهولة، والإیمان به واجب، والسؤال عند بِدْعَةٌ

امام مالک رحمہ اللہ بن انس سے پوچھاگیاکس طرح مستوی ہے؟امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایاقائم ہونامعلوم ہے (یعنی واضح لفظ ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں )اس کی کیفیت نامعلوم ہے ،اس پرایمان لاناواجب ہے، اوراس کے بارے میں سوال کرنابدعت ہے۔[13]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: تَلاَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الآیَةَ: {هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْكَ الكِتَابَ، مِنْهُ آیَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتَابِ، وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ}، فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الفِتْنَةِ، وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِهِ، وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلَّا اللَّهُ، وَالرَّاسِخُونَ فِی العِلْمِ یَقُولُونَ: آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الأَلْبَابِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَإِذَا رَأَیْتِ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكِ الَّذِینَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پرکتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جواصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنے کی طلب اوران کی مرادکی جستجوکے لئے،حالانکہ ان کی حقیقی مرادکوسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا،اورپختہ اورمضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم توان پرایمان لاچکے یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں ،اورنصیحت توصرف عقلمندحاصل کرتے ہیں ۔‘‘ تلاوت فرمائی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجب تم ایسے لوگوں کودیکھوجومتشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوں تویادرکھوکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کااللہ تعالیٰ نے (آیت بالامیں )ذکربتلایاہے اس لیے اس سے بچتے رہو۔[14]

اسی طرح صفات باری سے متعلق بھی جس قدرآیات ہیں ان کوان کے ظاہری معانی پرمحمول کرنااورتاویل نہ کرنااوران کی حقیقت اللہ کے حوالہ کردینایہی سلف صحالحین کاطریقہ ہے،اوران کی تاویلات کے پیچھے پڑنااہل زیغ کاطریقہ ہے۔بخلاف اس کے پختہ علم والے، صحیح العقیدہ مسلمانوں کی سات صفات بیان فرمائیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا محکمات اورمتشابہات دونوں طرح کی آیات پرایمان ہے،یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ،اوراس کی طرف سے نازل ہونے والی چیزمیں تعارض اورتناقض نہیں ہوسکتابلکہ یہ ایک دوسرے کی تائیداورتصدیق کرتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا۝۸۲ [15]

ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔

اورسچ یہ ہے کہ اللہ کی نصیحت سے اہل دانشمندلوگ ہی سبق حاصل کرتے ہیں ۔

نَافِعُ بْنُ یَزِیدَ قَالَ: یُقَالُ: الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ الْمُتَوَاضِعُونَ لِلَّهِ، الْمُتَذَلِّلُونَ لِلَّهِ فِی مَرْضَاتِهِ، لَا یَتَعَاطَوْنَ مَنْ فَوْقَهُمْ، وَلَا یُحَقِّرُونَ مَنْ دُونَهُمْ.

نافع بن یزید رحمہ اللہ سے رویت ہےراسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ لیے تواضع کرنے والے ہوں ،اللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول کے لیے اپنے آپ کوکھپادینے والے ہوں ، اپنے سے بڑوں کے حفظ مراتب کالحاظ رکھتے ہوں ، اورچھوٹوں کوحقیرنہ سمجھتے ہوں ۔[16]

یَا رَسُولَ اللَّهِ، سُورَةً جَامِعَةً،فَأَقْرَأَهُ رَسُولُ اللَّهِ: { إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا}، حتى أتى على آخرها: {من یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذرةٍ خَیْرًا یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مثقال ذرةٍ شراً یره}، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِی بَعَثَك بِالْحَقِّ، مَا أُبَالِی أَلا أَزِیدَ عَلَیْهَا حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک صحابی حاضرہوئے اورپوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جامع سورت کونسی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی۔‘‘ [17] تلاوت فرمائی ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخرمیں پہنچے،’’پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘یہ آیت اس صحابی کے دل میں اترگئی اس نے عرض کیااللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجاہےیہ آیت مجھے پوری زندگی کے لئے کافی ہے۔[18]

یہ راسخ العقیدہ لوگ اللہ سے گڑگڑاکر دعا کرتے رہتے ہیں کہ پروردگار!جب تونےہمیں سیدھے رستہ پرلگادیاہے توپھراس کے بعدہمیں ان لوگوں کے دلوں کی طرح نہ کردیناجومتشابہات کے پیچھے پڑکرحق سے روگردانی کرتےہیں ، اپنی رحمت خاص سے ہمیں صراط مستقیم پرقائم ودائم رکھ ،یعنی ہمیں ایسی عظیم رحمت عطافرماجس کے ساتھ توہمیں نیکیوں کی توفیق اورگناہوں سے ہماری حفاظت کرے،یقیناًتیرے انعامات وعطیات بے حدوسیع اورتیرے احسانات بے شمارہیں ،تیری سخاوت سے ہرمخلوق بہرور ہوتی ہے۔

حَدَّثَنِی شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ: قُلْتُ لأُمِّ سَلَمَةَ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ؟ قَالَتْ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ: یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَى دِینِكَ قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا لأَكْثَرِ دُعَائِكَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَى دِینِكَ؟ قَالَ: یَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّهُ لَیْسَ آدَمِیٌّ إِلاَّ وَقَلْبُهُ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ، فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ. فَتَلاَ مُعَاذٌ {رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَیْتَنَا}.

شہربن ہوشب رحمہ اللہ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثرکونسی دعامانگاکرتے تھے،انہوں نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثریہ دعامانگاکرتے تھے،اے دلوں  پھیرنے والے ،میرے دل کو اپنے دین پرجماہوارکھ۔میں نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اکثریہ دعااے دلوں کے پھیرنے والے ،میرے دل کو اپنے دین پرجماہوارکھ کیوں کرتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ! کوئی آدمی ایسانہیں جس کا دل اللہ کی دوانگلیوں میں نہ ہو،پھرجسے وہ چاہتاہے قائم رکھتاہے یعنی دین حق پراورجسے چاہتاہے اس کادل ٹیڑھاکردیتاہے،پھریہ دعاپڑھتے رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔[19]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَیْقَظَ مِنَ اللَّیْلِ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ، اللَّهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِی، وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اللَّهُمَّ زِدْنِی عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِی بَعْدَ إِذْ هَدَیْتَنِی، وَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسےمروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوجاگتے تویہ دعاپڑھتے ، تیرے سواکوئی معبودنہیں ،توپاک ہے،اے اللہ!میں تجھی سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتاہوں اورتیری رحمت کاسوالی ہوں ،اے اللہ!میرے علم میں اضافہ فرمااورہدایت دے دینے بعدمیرے دل کوگمراہ نہ کردینا(اے میرے رب!)مجھے اپنے پاس سے رحمت عنایت فرما،بے شک توہی عنایت کرنے والاہے۔[20]

اے ہمارے پروردگار! تویقیناًسب لوگوں کوایک مقررہ روزاعمال کی جزاکے لئےجمع کرنے والاہے،جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ،اورتیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا لَن تُغْنِیَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَیْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ ‎﴿١٠﴾‏ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿١١﴾‏(آل عمران)
کافروں کوان کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالیٰ (کے عذاب)سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں ،جیسا آل فرعون کا حال ہوا اور ان کا جو ان سے پہلے تھے انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ان کے گناہوں پر پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔

پچھلی سرکش اقوام کواللہ تعالیٰ بہت مال ودولت سے نوازاتھاجس سے وہ اس غلط فہمی میں مبتلاہوگئے کہ وہ سرکشی ،بغاوت اورہرطرح کی اخلاقی برائیوں کے باوجوداللہ کے پسندیدہ ہیں ،اگراللہ ان سے ناراض ہوتاتووہ انہیں یہ سب کچھ کیوں عطافرماتا،اس بناپرجب اللہ کےپیغمبرانہیں

اللہ عذاب سےڈراتے تووہ بے خوف ہوکر کہتے تھے وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا۝۰ۙ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ۝۳۵ [21]

ترجمہ:انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہرگز سزا پانے والے نہیں ہیں ۔

دنیامیں توجوان پربیتی مگر قیامت کے روزانہیں اپنی توقع کے برعکس صورت حال کاسامناکرناپڑے گاجیسے فرمایا۔

وَبَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۴۸ [22]

ترجمہ:وہاں اپنی کمائی کے سارے برے نتائج ان پر کھل جائیں گے اور وہی چیز ان پر مسلط ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کے ہاں مال واولادکی کوئی قدرنہیں بلکہ اللہ وحدہ لاشریک پرغیرمتزلزل ایمان اوراعمال صالحہ کی قدروقیمت ہے جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ [23]

ترجمہ:یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے عمل کی دُہری جزا ہے اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔

مدینہ منورہ میں یہودیوں کے پاس بھی مال ودولت تھی ،جنگی اسلحہ جات اورجنگجوبھی تھےجس پروہ بہت اترارہے تھے ،چنانچہ فرمایاجن لوگوں (یہودیوں ) نے حق کوخوب جاننے پہچاننے کے باوجود دعوت حق سےکفرکارویہ اختیارکیاہے،انہیں اللہ کے دردناک عذاب کےمقابلے میں نہ ان کامال کچھ کام دے گا،نہ اولاداورنہ حیثیت ومرتبہ ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ۝۵۵ [24]

ترجمہ:ان کے مال و دولت اور ان کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکارِ حق ہی کی حالت میں دیں ۔

۔۔۔فَلَا یَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ۝۴ [25]

ترجمہ:دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔

یہ اس دنیاکایہ عارضی فائدہ حاصل کرلیں لیکن انجام کارانہوں نے جہنم میں ہی داخل ہوناہے جوبدترین جائے قرارہے،ان مکذبین کاانجام بھی ویساہی المناک ہوگا جیسافرعون کے سرداروں اوران سے پہلے کے جابر،سرکش،مالوں اورلشکروں والی اقوام کا ہو چکاہے، انہوں نے آیات الٰہی کوجھٹلایا،رسولوں کی لائی ہوئی پاکیزہ تعلیمات کوتسلیم کرنے سے انکارکیا،اللہ کے پیغمبروں اوراہل ایمان کامذاق اڑایااوراللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکر کامطالبہ عذاب کردیاجس کانتیجہ یہ ہواکہ اللہ نے ان اقوام پر ان کے گناہوں کے سبب عذاب نازل فرمایا ،پھرمشکل کی اس گھڑی میں ان کامال ودولت کچھ کام آیا اورنہ ہی اولاداورنہ ہی ان کے معبودہی ان کی کوئی دادرسی سکے ،اورحق یہ ہے کہ اللہ سخت سزادینے والاہے۔

﴾‏ قُل لِّلَّذِینَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ‎﴿١٢﴾‏ قَدْ كَانَ لَكُمْ آیَةٌ فِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ یَرَوْنَهُم مِّثْلَیْهِمْ رَأْیَ الْعَیْنِ ۚ وَاللَّهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهِ مَن یَشَاءُ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِی الْأَبْصَارِ ‎﴿١٣﴾‏ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ‎﴿١٤﴾‏(آل عمران)
کافروں سے کہہ دیجئے ! کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف جمع کئے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانا ہے، یقیناً تمہارے لیے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں ، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دو گنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لیے بڑی عبرت ہے، مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کردی گئی ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان دار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

کفارکوتنبیہ فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہودی جنہوں نے اللہ کی دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہےان سے کہہ دوکہ وہ وقت بہت قریب ہے جب تم اپنی دولت،اسلحہ جات،مضبوط قلعوں اورلڑنے والے جنگجوؤں کے باوجود دنیامیں مغلوب ہوجاؤگے اورقیامت کے روزجانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانکے جاؤگے اورجہنم بڑاہی براٹھکانہ ہے،چنانچہ یہ پیش گوئی جلدپوری ہوگئی ،بنوقینقاع جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولڑنے کی دھمکی دی تھی کہ آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ایک فنون حرب سے ناآشنااور ناتجربہ کارقوم یعنی قریش سے مقابلہ میں آپ ان پر غالب ہو گئے ،واللہ اگرہم سے مقابلہ ہواتوآپ کواچھی طرح معلوم ہوجائے گاکہ ہم میدان جنگ کے شیر ہیں ، مرد میدان اور تلواروں کے دھنی ہیں اوربنونضیرکومدینہ منورہ سے جلاوطن کردیاگیا،بنوقریظہ کے جنگجو قتل کیے گئے،یہودکاگڑھ خیبربھی فتح ہوگیااورتمام یہودیوں پرجزیہ عائد کر دیا گیا، فرمایا تمہارے لئے ان دوگروہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورکفارقریش میں ایک عظیم عبرت تھاجومیدان بدرمیں ایک دوسرے سے نبردآزماہوئے ، ایک گروہ قلت تعداد اوربے سروسامانی کے باوجود اللہ کاکلمہ سربلندکرنے کے لئے لڑرہاتھااوردوسراگروہ کافرتھا،سرسری نگاہ سےدیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کفارکالشکرمسلمانوں سے دوچندہے۔

قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: قَدْ نَظَرْنَا إِلَى الْمُشْرِكِینَ، فَرَأَیْنَاهُمْ یُضَعَّفُونَ عَلَیْنَا، ثُمَّ نَظَرْنَا إِلَیْهِمْ فَمَا رَأَیْنَاهُمْ یَزِیدُونَ عَلَیْنَا رَجُلًا وَاحِدًا،وَذَلِكَ قَوْلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذْ یُرِیكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَیْتُمْ فِی أَعْیُنِكُمْ قَلِیلًا وَیُقَلِّلُكُمْ فِی أَعْیُنِهِمْ} وَإِذْ یُرِیكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَیْتُمْ فِی أَعْیُنِكُمْ قَلِیلًا وَیُقَلِّلُكُمْ فِی أَعْیُنِهِمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہم نے مشرکوں کاجائزہ لیاتومعلوم ہواکہ وہ ہم سے دوگناہیں اورہم نے پھرانہیں دیکھاتویوں نظرآیاکہ تعدادمیں ہمارے برابرہیں ان میں ایک آدمی بھی زیادہ نہیں ہے اوراس وقت جب تم ایک دوسرے مدمقابل ہوئے توکافروں کوتمہاری نظروں میں تھوڑاکرکے دکھاتاتھااورتم کوان کی نگاہوں میں تھوڑا کرکے دکھاتاتھا،یہی معنی ہیں اس ارشادباری تعالیٰ کے’’ وَإِذْ یُرِیكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَیْتُمْ فِی أَعْیُنِكُمْ قَلِیلًا وَیُقَلِّلُكُمْ فِی أَعْیُنِهِمْ ۔‘‘[26]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَقَدْ قُلِّلُوا فِی أَعْیُنِنَاحَتَّى قُلْتُ لِرَجُلٍ إِلَى جَانِبِی تَرَاهُمْ سَبْعِینَ؟ قَالَ: أَرَاهُمْ مِائَةً،قَالَ: فَأَسَرْنَا رَجُلًا مِنْهُمْ فَقُلْنَا: كَمْ كُنْتُمْ؟قَالَ: أَلْفَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کافرہماری نظروں میں بہت تھوڑے کر دکھائے گئے حتی کہ میں نے اپنے پاس کھڑے ایک شخص سے پوچھاکیاکافروں کی تعداد ستر(۷۰)ہوگی؟اس نے کہامیرے خیال میں ایک سو ہوں گے ،اورہم نے جب ان کے ایک قیدی سے یہ پوچھاکہ تمہاری تعدادکتنی تھی؟ تواس نے کہاایک ہزار۔[27]

اگرچہ حقیقی فرق سہ چندتھا،ان کے پاس جنگی اسلحہ بھی زیادہ تھا،مشرکین عرب کی حمایت بھی انہیں حاصل تھی مگراس جنگ کےنتیجے نے ثابت کردیا کہ اللہ اپنی فتح ونصرت سے جس کوچاہتاہے مدد دیتاہے،دیدہ بینارکھنے والوں کے لئے اس میں بڑی عبرت ونصیحت پوشیدہ ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قُرَیْشًا یَوْمَ بَدْرٍ فَقَدِمَ الْمَدِینَةَ جَمَعَ یَهُودَ فِی سُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعٍ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، أَسْلِمُوا قَبْلَ أَنْ یُصِیبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قُرَیْشًا ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ لَا تَغُرَّنَّكَ نَفْسُكُ أَنَّكَ قَتَلْتَ نَفَرًا مِنْ قُرَیْشٍ كَانُوا أَغْمَارًا لَا یَعْرِفُونَ الْقِتَالَ، إِنَّكَ وَاللَّهِ لَوْ قَاتَلْتَنَا لَعَرَفْتَ أَنَّا نَحْنُ النَّاسُ، وَأَنَّكَ لَمْ تَأْتِ مِثْلَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ: {قُلْ لِلَّذِینَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ}[28] إِلَى قَوْلِهِ: {لِأُولِی الْأَبْصَارِ} [29]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر حالات وواقعات سے فارغ ہونے کے بعدجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقینقاع کے بازارمیں یہودیوں کوجمع کیااورفرمایااے یہودیو! مسلمان ہوجاؤکہ تمہیں بھی قریشیوں کی سی سزااورذلت کاسامنانہ کرناپڑے،انہوں نے جواب دیااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) توہمیں اپنے ساتھیوں کی طرح خیال کرتاہے اورتجھے وہ معرکہ گھمنڈمیں نہ ڈال دے جس میں تونے فنون جنگ سے نابلدچندلوگوں کوہرادیاتھایہ توتجھے ان کے مقابلے میں ایک موقع مل گیاتھااللہ کی قسم !اگرہم سے لڑائی ہوئی توبتادیں گے کہ ہم جنگجوہیں اورہم جیسوں سے تونے کبھی پنجہ آزمائی نہ کی ہوگی، تواللہ تعالیٰ نے انہی کے بارے میں آل عمران کی آیات بارہ اورتیرہ نازل فرمادیں

قُلْ لِّـلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ۝،قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا۝۰ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ۝۰ۭ وَاللهُ یُـؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ۝  ۔[30]

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس،خوبصورت عورتیں ،کثیر اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر،چیدہ گھوڑے، اعلی نسل کی گائے ،اونٹ اوربکریاں اورزرخیززرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں ،مگریہ سب دنیاکی چندروزہ زندگی کامال ومتاع ہے تاکہ ان کے ذریعے سے ہم لوگوں کی آزمائش کریں ،جیسے فرمایا

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷ [31]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا تَرَكْتُ بَعْدِی فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے بعدمردوں کے لئے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کرنقصان دینے والااورکوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے ۔[32]

قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَیْرٍ مِّن ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ ‎﴿١٥﴾‏الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿١٦﴾‏ الصَّابِرِینَ وَالصَّادِقِینَ وَالْقَانِتِینَ وَالْمُنفِقِینَ وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْأَسْحَارِ ‎﴿١٧﴾‏ آل عمران)
آپ کہہ دیجئے ! کیا میں تمہیں اس سے بہت ہی بہتر چیز بتاؤں ؟ تقویٰ والوں کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، سب بندے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں ،جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے اس لیے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا، جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرماں برداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو!میں تم کوایسی چیز نہ بتاؤں جودنیاکی رعنائی وزیبائی اوریقینی طورپرزوال پذیرہوجانے والی نعمتوں سے کہیں اچھی ہے ؟جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، اللہ کی مقررکردہ حدودکوپامال نہ کریں ان کے لیے ان کے رب کے پاس انواع واقسام کے پھل دار گھنے سایوں والے درختوں کے باغ ہیں جن کے نیچے نتھرے پانی،مختلف ذائقوں کی شرابوں ،دودھ اورشہدکی نہریں بہتی ہوں گی،اورایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا،کسی کان نے نہیں سنااورنہ کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آسکتاہے،وہاں انہیں موت کاخوف نہیں ہوگابلکہ ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،خوبصورت ،بڑی اورشرمیلی نگاہوں والی، نوجوان ہم سن پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوران سب نعمتوں سے بڑھ کروہ اللہ کی رضامندی وخوشنودی سے سرفرازہوں گے ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝۰ۭ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اَكْبَرُ۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۷۲ۧ [33]

ترجمہ:ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ،ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی یہی بڑی کامیابی ہے۔

اللہ اپنے بندوں کے عقائد، اعمال وافعال اوران کی نیتوں اورارادوں پرگہری نظر رکھتاہےاوربخوبی جانتاہے کہ کون اس کے انعام کا مستحق ہےاورکون نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے ان پرہیزگاربندوں کی صفت بیان فرمائی ،یہ وہ لوگ ہیں جواپنی دعاؤں میں درخواست کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار!ہم تجھ پر،تیری کتابوں پراورتیرے رسولوں پر ایمان لائے ،ہمارے اس ایمان کے باعث اپنے فضل وکرم سےہمارے گناہوں ، خطاؤں اورلغزشوں سے درگزر فرمااورہمیں عذاب جہنم سے نجات دے،یہ متقی پرہیزگار لوگ راہ حق میں پوری استقامت دکھانے والے ہیں ،نافرمانی کے کاموں سے پرہیزکرتے ہیں ، اوراللہ کی تقدیرکے مطابق پیش آنے والےمصائب ومشکلات میں صبر سے کام لیتے ہیں ،اوراپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں ،خلوص نیت سےاللہ کی اطاعت بجالاتے ہیں اورجوکچھ اللہ نے انہیں عطافرمایاہے اس میں سے اللہ کی راہ میں بیواؤں ،یتیموں ،مسکینوں ، ضرورت مندوں اورمحتاجوں پر خرچ کرتے ہیں اوررات کی آخری گھڑیوں میں (جودعاؤں کی قبولیت کاوقت ہے) اپنے رب سے بخشش و مغفرت کی درخواست کرتے ہیں ،جیسے یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا

 سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۹۸ [34]

ترجمہ:اس نے کہامیں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا ، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَیْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقَى ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی، فَأَسْتَجِیبَ لَهُ مَنْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ، مَنْ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرَ لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماراپروردگاربلندبرکت والاہررات کواس وقت آسمان دنیاپرآتاہے جب رات کاآخری تہائی حصہ رہ جاتاہے وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعاکرنے والاہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ،کوئی مجھ سے مانگنے والاہے کہ میں اسے دوں ، کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والاہے کہ میں اس کوبخش دوں ،یہاں تک کہ طلوع فجر کا وقت ہوجاتا ہے۔[35]اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔

حَدَّثَنِی نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ یُحْیِی اللَّیْلَ صَلَاةً فَیَقُولُ: یَا نَافِعُ: أَسْحَرْنَا؟ فَیَقُولُ: لَا، فَیُعَاوِدُ الصَّلَاةَ فَإِذَا قُلْتُ: نَعَمْ، قَعَدَ یَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَیَدْعُو حَتَّى یُصْبِحَ

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کونمازادافرماتے توکہتے اے نافع!کیاہم وقت سحرمیں داخل ہوگئے ہیں ؟میں کہتا نہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ دوبارہ نمازشروع کردیتے جب میں کہتاہاں !سحرہوگئی ہے تووہ دعااوراستغفارمیں مصروف ہوجاتے حتی کہ صبح ہوجاتی۔[36]

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَهُمْ ۗ وَمَن یَكْفُرْ بِآیَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿١٩﴾‏ فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِّلَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ ‎﴿٢٠﴾‏(آل عمران)
اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا ہے، پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا ہے اور اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دیجئے ! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو ؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہدایت والے ہیں اور اگر یہ رو گردانی کریں تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے۔

اللہ عزوجل اپنی وحدت کاخودشاہدہے:اللہ تعالیٰ جوسب سے زیادہ سچاگواہ ہے خوداپنی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہے کہ پورے عالم وجودمیں اس کی اپنی ذات کے سواکوئی ہستی ایسی نہیں ہے جوخدائی کی صفات سے متصف ہو،خدائی کے اقتدارکی مالک ہواورخدائی کے حقوق کی مستحق ہو ،اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے،کائنات کی تمام مخلوقات اس کی پیداکردہ اور غلام ہیں اوراپنی ہرضرورت کے لئے اپنے خالق کی محتاج ہیں ،اوراللہ کے بعدسب سے زیادہ معتبر شہادت اللہ کی نورانی مخلوق فرشتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

لٰكِنِ اللهُ یَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ۝۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَشْهَدُوْنَ۝۰ۭ وَكَفٰی بِاللهِ شَهِیْدًا۝۱۶۶ۭ [37]

ترجمہ:(لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں ) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبی ! جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے ، اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے۔

اورسب اہل علم بھی جوکتاب وسنت کے علم سے بہرورہیں کی متفقہ شہادت رہی ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی اس عظیم الشان کائنات کامالک ومدبرہے ،وہ انصاف پرقائم ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں اوربندوں کے معاملات کے فیصلے کرنے میں ازل سے انصاف کے ساتھ متصف ہے،امرونہی میں بھی اس کاراستہ صراط مستقیم ہے خلق وتقدیرمیں بھی، اس زبردست اور حکمت والے کے سوافی الواقع کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے،اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے،جس کی دعوت و تعلیم ہرپیغمبراپنے اپنے دورمیں اپنی اپنی قوم کو پیش کرتے رہے ہیں ،اوراب سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاکےتمام انسانوں کوپیش کررہے ہیں ،جیسے متعددمقامات پر فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَیُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۵۸ [38]

ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے ، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبیِّ اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی ، اُمید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَۨا۝۱ۙ [39]

ترجمہ:نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کر دینے والا ہو ۔

چنانچہ یہودہوں یانصاریٰ سب پرلازم ہے کہ وہ اللہ آخری پیغمبرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراللہ کے پسندیدہ دین اسلام پرایمان لائیں ،اس کے علاوہ اللہ کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ۝۰ۚ وَھُوَفِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۸۵ [40]

ترجمہ:اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی یہودی یانصرانی میراحال سنے اورمیری لائی ہوئی چیز(قرآن) پرایمان لائے بغیرمرجائے تووہ جہنم میں جائے گا۔[41]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ وجوہ سے انبیاء کرام علیہ السلام پر فضیلت دی گئی ہے، مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے ،رعب ذریعے میری مدد کی گئی ،میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا، اور میرے لئے تمام روئے زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی، اورمیں تمام مخلوقات کی طرف بھیجا گیا ہوں ، اورمیرے اوپرنبوت ختم کی گئی۔[42]

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں ، جو مجھ سے پہلے کسے کو نہ دی گئی تھیں ، مجھے ایک مہینہ کی راہ سے رعب ذریعہ مدد دی گئی ،زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنا دی گئی لہذا میری امت میں جس شخص پر نماز کا وقت (جہاں ) آ جائے اسے چاہیے کہ (وہیں زمین پر) نماز پڑھ لے ، میرے لئے مال غنیمت حلال کر دئیے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لئے حلال نہ کئے گئے تھے، مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی ، اورتمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لئے عام طورپرنبی بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ [43]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ غُلاَمٌ یَهُودِیٌّ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ:أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِیهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقُولُ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک یہودی لڑکا(عبدالقدوس)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتاتھا،ایک دن وہ بیمار پڑگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مزاج پرسی لئے تشریف لائےاوراس کے سرہانے بیٹھ گئے اوراس سے کہاکہ مسلمان ہوجاؤ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھاباپ وہیں موجودتھااس نے کہاکہ(کیامضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ کہتے ہیں مان لے،چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہرنکلے توآپ نے فرمایاکہ اللہ پاک کاشکرہے جس نے اس بچے کومیرے ذریعے سےآگ سے بچا لیا۔[44]

اللہ کے پیغمبرمبعوث ہونے اوراللہ کی کتابیں نازل ہونے کے باوجود اہل کتاب یہودونصاریٰ نے اصل دین کے عقائد،اصول اوراحکام میں ردوبدل کرکےجوباہمی اختلاف اورفرقہ بندیاں کیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپس کے بغض وحسد میں اپنی جائزحدسے بڑھ کر حقوق، فائدے اورامتیازات حاصل کرناچاہتے تھے،جیساکہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کہتے ہیں ۔

 وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰی شَیْءٍ۝۰۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ۝۰ۙ وَّھُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۔۔۔ ۝۱۱۳ [45]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں ۔

اورجوکوئی اللہ کے نازل کردہ احکام وہدایات کی اطاعت سے انکارکردے،اللہ کواس سے حساب لیتے کچھ دیرنہیں لگتی،اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !اب اگریہ لوگ تم سے توحیدباری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑاکریں ، توان سے کہو میں نے اورمیرے پیروؤں نے تواپنے مالک کے آگے سرتسلیم خم کردیاہے،ہم تواللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے قائل ہوچکے ہیں ،ہم توخالص اپنے خالق ومالک اوررازق کی ہی بندگی کریں گے،جس کاکوئی ساجھی نہیں جس کاکوئی بیٹااورجس کی کوئی بیوی نہیں جیسے فرمایا

قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللهِ۝۰ۣؔ عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۝۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۰۸ [46]

ترجمہ: تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔

اوراے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !اہل کتاب یہودونصاریٰ اورغیراہل کتاب مشرکین مکہ دونوں سے پوچھوکیاتم نے بھی اپنے آباؤاجداد کے مشرکانہ دین کوچھوڑکراس اصلی اورحقیقی دین کوقبول کرتے ہو؟اگرانہوں نے دعوت اطاعت وبندگی قبول کرلی تووہ راہ راست پاگئے، اوراگراس دعوت حق سے منہ موڑتے ہیں توتم پرصرف پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری تھی،آگے اللہ خوداپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے،وہ جانتاہے کہ ہدایت کامستحق کون ہے اورضلالت کامستحق کون ۔

إِنَّ الَّذِینَ یَكْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَیَقْتُلُونَ الَّذِینَ یَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٢١﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِینَ ‎﴿٢٢﴾‏(آل عمران)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں ، تو اے نبی ! انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے،ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں ۔

انبیاء قاتل بنی اسرائیل :اہل کتاب کی سرکشی وبغاوت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ وہ اللہ کے احکام وہدایات کوماننے سے انکارکرتے ہیں اورپیغمبروں کوجن پرایمان لانا، ان کی اطاعت کرنااوران کی مددکرناان پرفرض تھامگرانہوں نےانہیں ناحق قتل کیا اورایسے داعیان حق کے بھی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جوامربالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ،اوریہ تکبرکی انتہاہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا،یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس عمدہ ہو اور اس کے جوتے اچھے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ جمیل یعنی اچھا اور آراستہ ہے اور جمال یعنی اچھائی و آرائستگی کو پسند کرتا ہے، اور تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ مانا جائے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھا جائے۔[47]

عَنْ أَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: رَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا، أَوْ رَجُلٌ أَمَرَ بِالْمُنْكَرِ وَنَهَى عَنِ الْمَعْرُوفِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ {وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَیَقْتُلُونَ الَّذِینَ یَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ}[48] إِلَى قَوْلِهِ: {وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِینَ} [49] ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ” یَا أَبَا عُبَیْدَةَ قَتَلَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ ثَلَاثَةً وَأَرْبَعِینَ نَبِیًّا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ فِی سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ فَقَامَ مِائَةُ رَجُلٍ وَسَبْعُونَ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَأَمَرُوا مَنْ قَتَلَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَقُتِلُوا جَمِیعًا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ، فَهُمُ الَّذِینَ ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ

ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے پوچھااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب کسے ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکسی نبی کومارڈالے یاکسی ایسے شخص کوجوبرائی کابتانے والااوربھلائی سے بچانے والاہو،تکبروغرورہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ’’جولوگ اللہ کے احکام وہدایات کوماننے سے انکارکرتے ہیں ، اوراس کے پیغمبروں کوناحق قتل کرتے ہیں ، اورایسے لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جوخلق خدامیں سے عدل وراستی کاحکم دینے کے لیے اٹھیں ،ان کودردناک سزاکی خوش خبری سنادو،یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیاوآخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اوران کا مددگار کوئی نہیں ہے۔‘‘اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بنی اسرائیل نے تنتالیس نبیوں کودن کے اول حصہ میں ایک ہی ساعت میں قتل کیا،پھرایک سو ستر بنواسرائیل کے وہ ایماندارجوانہیں روکنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے انہیں بھلائی کاحکم دے رہے تھے اوربرائی سے روک رہے تھے ،ان سب کوبھی اسی دن کے آخری حصہ میں قتل کردیا،اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہی کاذکرکیاہے۔[50]

عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ فِی الْیَوْمِ تَقْتُلُ ثَلَاثَمِائَةِ نَبِیٍّ ثُمَّ تَقُومُ سُوقُ بَقْلِهِمْ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بنواسرائیل نے تین سونبیوں کودن کے شروع میں قتل کیا اورشام کوسبزی پالک بیچنے بیٹھ گئے۔[51]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جن کرتوتوں پریہ آج خوش ہورہے ہیں ،جس پران کے دل شادہیں اس پر انہیں جہنم کےدردناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، رَجُلٌ قَتَلَهُ نَبِیٌّ، أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا، وَإِمَامُ ضَلَالَةٍ، وَمُمَثِّلٌ مِنَ الْمُمَثِّلِینَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت سب سے زیادہ عذاب اس شخص کوہوگاجسے کسی نبی نے قتل کیاہوگایااس نے کسی نبی کوقتل کیاہوگا اور ضلالتوں  امام اور مثلہ کرنے والے۔[52]

چونکہ انہوں نے اپنی قوتیں اورصلاحیتیں اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کوروکنے کے لئے صرف کیں اس لئے ان کے اعمال دنیاوآخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اورآخرت میں ان کاکوئی مددگاراورسفارشی نہیں ہوگا۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِّنَ الْكِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّىٰ فَرِیقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِی دِینِهِم مَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ فَكَیْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیهِ وَوُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿٢٥﴾(آل عمران)
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں ایک حصہ کتاب کا دیا گیا ہے، وہ اپنے آپس کے فیصلوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں ، پھر بھی ایک جماعت ان کی منہ پھیر کر لوٹ جاتی ہے، اس کی وجہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں تو گنے چنے چند دن ہی آگ جلائے گی، ان کی گھڑی گھڑائی باتوں نے انہیں ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے، پس کیا حال ہوگا جبکہ ہم انہیں اس دن جمع کریں گے ؟ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو اپنا اپنا کیا پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔

یہودکے باطل عقائد:اللہ تعالیٰ نے یہودونصاریٰ کی تردیدکرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم نے یہودونصاریٰ کے علماکودیکھا جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تورات وانجیل پرایمان رکھتے ہیں اوراس کے مطابق عمل پیراہیں مگرجب انہیں کہاجاتاہے کہ انہی کتابوں کوسندمان کراس کے فیصلے کے آگے سرجھکادواورجوکچھ اس کی روشنی میں حق ثابت ہواسے حق تسلیم کرلو اورجواس کی روشنی میں غلط ثابت ہواسے باطل تسلیم کرکے چھوڑدومگر ان میں سے ایک کثیرتعداداس سے پہلوتہی کرتی ہے اوراس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیرجاتےہیں ،اس کے برعکس مومنین کاکرداریہ ہے۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱ [53]

ترجمہ:ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

کتاب اللہ کے ماننے سے گریزواعراض کی وجہ ان کایہ زعم باطل ہے کہ وہ اپنے آپ کواللہ کاچہیتاسمجھتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ اول توآتش دوزخ ہمیں مس تک نہ کرے گی اوراگرفرض محال دوزخ کی سزاہم کوملے گی بھی توبس گنے چنے چندروزکے لئے ہی ہو گی یعنی سات روزتاکہ گناہوں کی جوآلائش لگ گئی ہے وہ صاف ہوجائے،اس کے بعد ہم سیدھے جنت میں داخل کردیے جائیں گے،ان کے بے سروپاخیال اور خودساختہ عقیدوں نے ان کواپنے دین کے معاملے میں دھوکے اورفریب میں مبتلا رکھا ہے،مگراس روزان کاکیاحال ہوگاجب ہم انہیں روزقیامت میدان محشرمیں جمع کریں گے، اس روزان کے یہ دعوے اورغلط عقائدان کے کچھ کام نہ آئیں گے،اس روز تو اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کوبروے کارلانے کے بعدہرشخص کواس کے چھوٹے بڑے،اچھے اوربرے اعمال کی پوری پوری جزا دے گااورکسی پرزرہ برابرظلم نہ ہوگا۔

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِیَدِكَ الْخَیْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢٦﴾‏ تُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِی اللَّیْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٢٧﴾(ال عمران)
آپ کہہ دیجئے اے اللہ ! اے تمام جہان کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے ،تو ہی بےجان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بےجان پیدا کرتا ہے، تو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بیشمار روزی دیتا ہے۔

مالک الملک کی حمدوثنائ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے رب کی تعظیم اوراس کاشکربجالانے لئے ان الفاظ میں اس کی اعلیٰ صفات بیان کرو!اے میرے پروردگار!تومالک الملک ہے،آسمان وزمین کی تمام سلطنت تیری ہی ہے،اس میں تبدیلیاں لانااورانتظام کرناسب تیرے اختیارمیں ہے،چنانچہ چندتبدیلیوں کاذکرفرمایاجو اللہ وحدہ لاشریک کے اختیارمیں ہیں ،فرمایاتواپنی حکمت ومشیت سےجسے چاہے حکومت دے اورجس سے چاہے اپناعطاکیاہوا چھین لے،توہی دینے والااورلینے والاہے،توجسے چاہے اپنی اطاعت کی وجہ سے عزت ومرتبہ بخشے دے، اورجس کوچاہے اپنی معصیت کی وجہ سے ذلیل وخوار کردے،تمام بھلائیاں صرف تیرے ہاتھ میں ہیں ،یہ تیری قدرت ہے کہ تورات کودن میں اوردن کورات میں داخل کرکے موسمی تغیرات کرتاہے،بیشک اس عظیم الشان کائنات پرپوراقبضہ اورتصرف تیراہی ہے،توہی جاندارمیں سے بے جان کو اوربے جان میں سے جاندارکونکالتاہے،اورجسے چاہتاہے بے حساب رزق عنایت فرمادیتاہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اورجسے چاہتاہے فقروفاقہ اورمصائب وآلام میں مبتلاکر دیتا ہے۔معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اوپرقرض کی شکایت کی

فَقَالَ:أَلَا آمُرُكَ بِكَلِمَاتٍ تَقُولُهُنَّ إِنْ كَانَ عَلَیْكَ أَمْثَالُ الْجِبَالِ قَضَاهُ اللهُ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: قُلِ: {اللهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ، وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ} [54] إِلَى قَوْلِهِ {بِغَیْرِ حِسَابٍ} [55]إِلَى الْآخِرِ، رَحْمَنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِیمَهُمَا، تُعْطَى مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، وتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، اللهُمَّ أَغْنِنِی عَنِ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں تمہیں وہ کلمات سکھلاؤں جس کے پڑھنے سے اگر تم پراحدپہاڑجتناقرض بھی ہوگاتواللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کاتمہارے لئے انتظام فرمادے گا،میں نے کہاکیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !

قَالَ: قُلِ: قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝(۲۶) تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ۝۰ۡوَتُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ۝۰ۡوَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۲۷ )رَحْمَنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِیمَهُمَا، تُعْطَى مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، وتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، اللهُمَّ أَغْنِنِی عَنِ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یہ آیت اے اللہ!ملک کے مالک!توجسے چاہے حکومت دے اورجس سے چاہے چھین لے،جسے چاہے عزت بخشے اورجس کوچاہے ذلیل کردے،بھلائی تیرے اختیارمیں ہے،بیشک توہرچیزپرقادرہے،رات کودن میں پروتاہوالے آتاہے اوردن کورات میں ، جاندار میں سے بے جان کونکالتاہے اوربے جان میں سے جاندارکو،اورجسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتاہے۔پڑھ کریہ دعا کرو ،اے دنیا وآخرت کے رحمان ورحیم تو جسے چاہے ان میں سے دے دے اور جسے چاہے نہ دے، اے اللہ! مجھے تنگ دستی سے لاپرواہ کردے اور قرض کا بوجھ مجھ سے اتار دے۔[56]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اسْمُ اللهِ الْأَعْظَمُ الَّذِی إِذَا دُعِیَ بِهِ أَجَابَ فِی هَذِهِ الْآیَةِ مِنْ آلِ عِمْرَانَ:

{ قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ۝۰ۡوَتُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ۝۰ۡوَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۲۷

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسم اعظم آل عمران کی اس آیت میں ہے جب اس نام سے اس سے دعاکی جائے تووہ قبول فرمالیتاہے’’اے اللہ!ملک مالک!توجسے چاہے حکومت دے اورجس سے چاہے چھین لے،جسے چاہے عزت بخشے اورجس کوچاہے ذلیل کردے،بھلائی تیرے اختیار میں ہے،بیشک توہر چیز پر قادر ہے،رات کودن میں پروتاہوالے آتاہے اوردن کورات میں ،جاندارمیں سے بے جان کونکالتاہے اوربے جان میں سے جاندارکو،اورجسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘[57]

لَّا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۖ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللَّهِ فِی شَیْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَیُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِیرُ ‎﴿٢٨﴾‏ قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِی صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ یَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢٩﴾‏یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهُ أَمَدًا بَعِیدًا ۗ وَیُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ‎﴿٣٠﴾‏(آل عمران)
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گاوہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگریہ کہ ان کے شر سے کس طرح بچاؤ مقصود ہو، اوراللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے،کہہ دیجئے ! کہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ تعالیٰ( بہرحال) جانتا ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسے معلوم ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش ! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت سی دوری ہوتی،اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔

مسلمانوں کوہدایت اورمنافقین کوتنبیہ :کیونکہ کافراللہ کے دشمن ہیں اوراہل ایمان کے بھی دشمن ہیں اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سختی سے فرمایاکہ مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کوجواپنے مکروفریب اورغلیظ چالوں سےاللہ کے نورکوبجھاناچاہتے ہیں اپنارفیق اوریارومددگارہرگزنہ بنائیں ،اسی مضمون کومتعدد مقامات پریوں فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِیَاۗءَ۔۔۔ ۝۱ [58]

ترجمہ: اے لو گو ایمان لائےہو میرے اوراپنےدشمنوں کودوست  نہ بناؤ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۭ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا۝۱۴۴ [59]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ

مِنْهُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۵۱ [60]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو !یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے ، یقینا ًاللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۵۷ [61]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ ، اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔

کفارتوایک دوسرے کے دوست ہیں اس لئے اگرتم ان سے ترک تعلق نہیں کروگے تو بڑا فسادپھیل جائے گا،جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِیْرٌ۝۷۳ۭ [62]

ترجمہ: جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔

یہودونصاریٰ اوردوسرے کفارتوایک طرف اگرتمہارے باپ ،بھائی اوردوسرے بھائی بند بھی ایمان کے بجائے کفرسے محبت رکھیں توان کوبھی اپنارفیق نہ بناؤ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳ [63]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ، تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔

الغرض جواللہ کے دشمنوں کو اپنارفیق اورمددگاربنائے گااس کااللہ سے کوئی تعلق نہیں ،اس کااللہ کے دین سے کوئی حصہ نہیں ہے، ہاں ،اگرتم کافرحکومت میں رہتے ہواورتمہیں اپنی جان کاخطرہ ہے اوراظہاردوستی کے بغیران کے شرسے بچناممکن نہ ہوتوبظاہردوستانہ رویہ کااظہارکرسکتے ہومگردل میں ان کی طرف رغبت اوران سے حقیقی محبت نہ ہو۔

وَیُذْكَرُ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ: إِنَّا لَنَكْشِرُ فِی وُجُوهِ أَقْوَامٍ، وَإِنَّ قُلُوبَنَا لَتَلْعَنُهُمْ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکچھ لوگ ایسے ہیں جن سامنے ہم ہنستے اورخوشی کااظہارکرتے ہیں مگر ہمارے دل ان پرلعنت کرتے ہیں ۔[64]

وَقَالَ الحَسَنُ: التَّقِیَّةُ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ

امام بخاری رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کایہ قول بیان کیاہےکہ کفارسے شرسے بچاؤکی یہ صورت قیامت تک باقی رہے گی۔ [65]

اللہ تمہیں اپنے دبدبے اوراپنے عذاب سے ڈراتاہے لہذااس کی نافرمانی کرکے اس کی ناراضگی مول نہ لوورنہ وہ تمہیں اس کی سزادے گا،اوریہ کبھی نہ بھولوکہ ایک مقررہ دن تمہیں اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرپیش ہوناہے،پھروہ ترازوعدل میں تمہارے اعمال کاوزن کرے گا،ان پرمحاسبہ کرے گا اورسزاوجزادے گاجیسے فرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [66]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ [67]

ترجمہ:پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے، اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گےاور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۸ۙفَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ۝۹ۭ [68]

ترجمہ:اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہو گی۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُؤْتَى بِابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُوقَفُ بَیْنَ كَفَّتَیِ الْمِیزَانِ وَیُوَكَّلُ بِهِ مَلَكٌ، فَإِنْ ثَقُلَ مِیزَانُهُ نَادَى الْمَلَكُ بِصَوْتٍ یُسْمِعُ الْخَلَائِقَ: سَعِدَ فُلَانٌ سَعَادَةً لَا یَشْقَى بَعْدَهَا أَبَدًا , وَإِنْ خَفَّتْ مِیزَانُهُ نَادَى الْمَلَكُ بِصَوْتٍ یُسْمِعُ الْخَلَائِقَ: شَقِیَ فُلَانٌ شَقَاوَةً لَا یَسْعَدُ بَعْدَهَا أَبَدًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابن آدم کوقیامت روزلایاجائے گااورانہیں میزان عدل کے قریب کھڑاکردیاجائے گااورفرشتہ ان کے اعمال کاوزن کرے گااگراس شخص کے اعمال کاوزن بھاری ہوجائے گاتواونچی آوازسے پکارے گاکہ تمام خلقت اس کی آوازسنے گی فلاں شخص کامیاب وکامران رہااس کے بعدوہ کبھی بھی محروم نہیں رہے گا،اوراگراس شخص کے اعمال کاوزن ہلکا ہوجائے گاتواونچی آوازسے پکارے گاکہ تمام خلقت اس کی آوازسنے گی فلاں شخص ناکام ونامراد رہااس کے بعد وہ کبھی بھی کامیاب وکامران نہیں رہے گا۔[69]

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کے بارے میں فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کوخبردار کردو کہ تمہارے دلوں میں جوکچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یاظاہرکرواللہ بہرحال اسے جانتاہے ،زمین اورآسمانوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیزبھی اس کے علم سے باہرنہیں ، اوراس کااقتدار ہرچیزپرحاوی ہے،ایک مقررہ وقت پریوم حساب آنے والاہے جب ہرنفس اپنی زرہ برابر بھلائی یابرائی کاصلہ پائے گا،جیسے متعددمقامات پر فرمایا

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ [70]

ترجمہ:اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [71]

ترجمہ:پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔

اس روزانسان اپنی برائیوں کودیکھ کرشدیدترین غم کی وجہ سے آرزو کرے گاکہ کاش! اس کے اوران(برائیوں )کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی ،شیطان جودنیامیں اس کے ساتھ رہتااوراللہ کی نافرمانیوں اوربرائیوں پراکساتا رہتا تھا، انسان اس سے بھی بیزاری کااظہارکرتےہوئےیوں کہے گا۔

حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ۝۳۸ [72]

ترجمہ: آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بعد ہوتا تو تو بد ترین ساتھی نکلا۔

اوربڑی حسرت وافسوس سے کہے گا۔

۔۔۔ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ۝۵۶ۙ [73]

ترجمہ:افسوس! میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا بلکہ میں تو اُلٹا مذاق اُڑانے والوں میں شامل تھا ۔

اوراپنی ذلت ورسوائی کودیکھ کر تمناکریں گے۔

یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ۔۔۔۝۰۝۴۲ۧ [74]

ترجمہ: اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش! زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔

ایک مقام پرگناہ گاروں کے حسرت وافسوس کویوں بیان فرمایا۔

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ [75]

ترجمہ:ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور ک گا کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا، ہائے میری کم بختی کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔

اللہ تمہیں اپنے دردناک عذاب سے ڈراتاہے اوروہ اپنے بندوں کانہایت خیرخواہ ہے اس لئے وہ تمہیں قبل ازوقت ایسے اعمال سے متنبہ کر رہا ہے جوتمہارے برے انجام کا سبب بن سکتے ہیں ۔

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ فِی قَوْلِهِ: {وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ} قَالَ: مِنْ رَأْفَتِهِ بِهِمْ أَنْ حَذَّرَهُمْ نَفْسَهُ

حسن بصری رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ قول وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتاہے اوروہ اپنے بندوں کانہایت خیرخواہ ہے۔کے بارے میں فرماتے ہیں یہ بھی اس کی رحمت وشفقت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کواپنی ذات سے ڈرایا ہے۔[76]

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٣١﴾‏ قُلْ أَطِیعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْكَافِرِینَ ‎﴿٣٢﴾(آل عمران)
کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارےگناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا ۔

اللہ سے محبت کادعویٰ:یہودونصاری ٰ اپنے آپ کومحب اورمحبوب بتایاکرتے تھے اورمشرکین عرب بھی بتوں کی عبادت کرنے کی یہی وجہ بتلایاکرتے تھے کہ ہم اللہ کی محبت کی غرض سے ان کی پوجاکرتے ہیں اصل مقصودہمیں محبت الہٰی ہے،ان دونوں  حق میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایاگیاکہ اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہو،اگرتم اس اونچے مرتبے کادعویٰ رکھتے ہوجس سے بلندکوئی مرتبہ نہیں تواس کے لئے صرف دعویٰ کافی نہیں بلکہ یہ دعویٰ سچاہوناچاہیے ،اس کے سچاہونے کی دلیل یہ ہے کہ سیدالمرسلین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اقوال ،افعال ،عقائد،اعمال اورظاہروباطن ہرحال میں ہو،پس جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتاہے ،اللہ کی محبت اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے تواللہ اس سے محبت رکھتاہے اوراس کے گناہ معاف فرمادیتاہے ،اس پراپنی بے پناہ رحمتیں نچھاور فرماتاہے اوراسے تمام حرکات وسکنات میں راہ راست پرقائم رکھتاہے ،جس نے سیدعرب وعجم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی وہ اللہ سےمحبت رکھنے والانہیں کیونکہ اللہ کی محبت کاتقاضارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے ،جب اتباع موجودنہیں تویہ محبت نہ ہونے کی دلیل ہے ،اس صورت میں اگروہ رسول سے محبت کا دعویٰ کرتاہے تواس کادعویٰ جھوٹاہے، اوراگرمحبت موجودبھی ہوتواس کی شرط اتباع کے بغیرایسی محبت بے کارہے ،جتنی کسی میں اتباع رسول ہوگی اسی قدراس میں ایمان اوراللہ کی محبت کاحصہ ہوگا،اورجس طرح اتباع میں کمی ہوگی اسی قدرایمان اوراللہ کی محبت میں نقص ہوگا۔

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ وَغَیْرُهُ مِنَ السَّلَفِ: زَعَمَ قَوْمٌ أَنَّهُمْ یُحِبُّونَ اللهَ فَابْتَلَاهُمُ اللهُ بِهَذِهِ الْآیَةِ، فَقَالَ: {قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْكُمُ اللهُ

حسن بصری رحمہ اللہ اوردیگرکئی علماء نے فرمایاہے کہ کئی لوگوں نے یہ گمان کیاکہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ ’’اے نبی !لوگوں سے کہہ دوکہ اگرتم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہوتومیری پیروی کرو،اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ ذریعے سے انہیں آزمائش میں ڈال دیاہے۔[77]

وَقَالَ ابْنُ أَبِی أَوْفَى: النَّاجِشُ: آكِلُ رِبًا خَائِنٌ وَهُوَ خِدَاعٌ بَاطِلٌ لاَ یَحِلُّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الخَدِیعَةُ فِی النَّارِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

ابن ابی اوفیٰ سےمروی ہے ناجش سودخوراورخائن ہے اورنجش فریب ہے،خلاف شرع بالکل درست نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافریب دوزخ میں لےجائے گا، اور جو شخص ایساکام کرے جس کاحکم ہم نے نہیں دیا(یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے)تووہ مردودہے (یعنی وہ مسترد ہے)۔[78]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سےاللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کوبخش دے گااوراللہ بہت بخشنے والانہایت مہربان ہے،اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ اللہ وحدہ لاشریک اوراس آخری رسول کی اطاعت کرو،وہ جس کام کاحکم دیں اسے بخوشی بجالاؤاورجس چیزسے روک دیں اس سے پرہیزکرو،پھراگروہ تمہاری یہ دعوت حق قبول نہ کریں تویقیناًیہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جواس کی اوراس کے رسول کی اطاعت میں انکارکرتے ہوں ۔

غزوہ بحران(فرع کے نواح میں )ربیع الثانی تین ہجری

أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ بِهَا جَمْعًا مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ كَثِیرًا،وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ،فخرج فی ثلاثمائة رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى بَلَغَ بُحْرَانَ، مَعْدِنًا بِالْحِجَازِ مِنْ نَاحِیَةِ الْفُرُعِ ، فَأَقَامَ بِهَا شَهْرَ رَبِیعٍ الْآخِرِ وَجُمَادَى الْأُولَى، ثُمَّ رَجَعَ إلَى الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا،إِنَّمَا كَانَتْ غَیْبَتُهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ عَنِ الْمَدِینَةِ عَشَرَةَ أَیَّامٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی کہ بنی سلیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف ایک بڑی جمعیت جمع کرلی ہے مگریہ کہناکہ آپ بنوسلیم کی سرکوبی کے لئے بحران نامی علاقے کی طرف روانہ ہوئے تھے صحیح نہیں ، کیونکہ بنوسلیم تونجدمیں آبادتھے فرع میں نہیں ،اورفرع نجدسے کافی دورہے،دراصل یہ ایک بڑی فوجی طلایہ گردی تھی جس کامقصداردگردکے علاقوں پرمسلمانوں کارعب ودبدبہ قائم کرناتھا،ربیع الثانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پر اپناقائم مقام مقررفرمایا،اورتین سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت لیکر حجازکے معدان میں مقام بحران پر (جوحجازکے اندرفرع کے اطراف میں ایک معدنیاتی مقام ہے،فرع اورمدینہ منورہ کے درمیان تقریباً۹۶میل کافاصلہ ہے ) تک پہنچے ،اورربیع آخراور ۱۶جمادی الاولیٰ تک وہاں قیام فرماکربلاکسی جدال وقتال واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے،واقدی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دس راتیں مدینہ منورہ سے باہررہے۔[79]

سریہ زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ قردہ(نجد)کی طرف(جمادی الآخرتین ہجری)

قریش مکہ گرمیوں میں شام کی طرف تجارتی سفرکرتے تھے ،گرمی کاموسم آچکاتھا مگرجس قدیم راستے سے تجارتی قافلے ملک شام کولے جایاکرتے تھے غزوہ بدرکے واقعات کی وجہ سے انہیں اس راہ میں اندیشے پیداہوگئے تھےمگر شام کی طرف تجارتی سفراختیارکرنابھی اہم تھا،جب قافلہ تیارہوگیاتواس قافلے کامیرکارواں صفوان بن امیہ کومقررکیا گیا تھا،اس نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی اورکہامجھے مشورہ دوکہ ہم اپناتجارتی مال لے کرشام کس طرح جائیں جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ہماری ساحل کے ساتھ قدیم شاہراہ مسلمانوں کی وجہ سے محفوظ نہیں رہی اوراس ساحل پرمقیم قبائل نے مسلمانوں سے مصالحت کے سمجھوتے کرلئے ہیں ،غزوہ بدرمیں انکی فتح ونصرت کی وجہ سے ان کادھاک ہرطرف بیٹھ گئی ہے اور عام لوگ بھی انہی کے ہم نوابن گئے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتاکہ ان سے کیسے نمٹیں اورشام جانے کاکونساراستہ اختیارکریں ،اگرہم ان کے رعب ودبدبے سے خوف زدہ ہوکراپناقافلہ روانہ نہ کرسکے تواپنی تمام جمع پونجی یہیں پرخرچ کرڈالیں گے اورہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا،اسودبن عبدالمطلب نے کہاتم نے جوکہاوہ صحیح ہے وہ راستہ اب ہمارے لئے پرصعوبت بن گیاہے مگرکیایہ ضروری ہے کہ تم ساحل کے راستے ہی شام کاسفراختیارکروجبکہ مدینہ کے مشرق میں کافی فاصلے سے ایک راستہ نجد سے ہوتاہوا عراق کی طرف سے شام کو جاتا ہے،اسودبن عبدالمطلب کی یہ تجویزتسلیم کرلی گئی مگرقریش اس راستے سے کبھی نہیں گزرے تھے اس لئے اس راستے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے تھے۔

وَاسْتَأْجَرُوا رَجُلًا مِنْ بَنِی بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، یُقَالُ لَهُ: فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ یَدُلُّهُمْ فِی ذَلِكَ عَلَى الطَّرِیقِ

اس مسئلہ کاحل یہ طے ہواکہ قافلہ کی رہبری کے لئے قبیلہ بکربن وائل کے فرات بن حیان کوجواس اس راستے سے اچھی طرح واقف ہے آجرت پرساتھ لے لیاجائے۔

قَالَ ابْنُ هِشَامٍ:فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ، مِنْ بَنِی عِجْلٍ، حَلِیفٌ لِبَنِی سَهْمٍ

ابن ہشام کہتے ہیں یہ فرات بن حیان بنی عجل سے تھے جوبنی سہم کے حلیف تھے ۔

چنانچہ ابوسفیان بن حرب،صفوان بن امیہ اورحویطب بن عبدالعزیٰ اورعبداللہ بن ابی ربیعہ (یہ چاروں فتح مکہ پر اسلام لائے) نے رہبری کے لئے فرات بن حیان عجلی کوہمراہ لیااوربڑی خاموشی سے مال تجارت لیکر عراق کے راستے سے شام روانہ ہوئے،مگرعشق اورمشک چھپائے نہیں چھپتا۔

وَقَدِمَ الْمَدِینَةَ نُعَیْمُ بْنُ مَسْعُودٍ الْأَشْجَعِیّ، وَهُوَ عَلَى دِینِ قَوْمِهِ، فَنَزَلَ عَلَى كِنَانَةَ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ فِی بَنِی النّضِیرِ فَشَرِبَ مَعَهُ، وَشَرِبَ مَعَهُ سَلِیطُ بْنُ النّعْمَانِ بْنِ أَسْلَمَ وَلَمْ تُحَرّمْ الْخَمْرُ یَوْمَئِذٍ وَهُوَ یَأْتِی بَنِی النّضِیرِ وَیُصِیبُ مِنْ شَرَابِهِمْ. فَذَكَرَ نُعَیْمٌ خُرُوجَ صَفْوَانَ فِی عِیرِهِ وَمَا مَعَهُمْ مِنْ الْأَمْوَالِ،فَخَرَجَ مِنْ سَاعَتِهِ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، وَمَعَهُ فِضَّةٌ كَثِیرَةٌ، وَهِیَ عُظْمُ تِجَارَتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زید بن حَارِثَةَ فِی مِائَةِ رَاكِبٍ،وغزوة زید بن حارثة بثنیة القردة

نعیم بن مسعود اشجعی مدینہ منورہ سے بنی نضیر آکر کنانہ بن ابی الحقیق کے ہاں ٹھہرے جو ابھی اپنی کے دین پر تھے، سلیط بن نعمان رضی اللہ عنہ اسلام سے بہرہ ور ہوچکے تھے، دونوں شراب نوشی میں مگن تھے،یہ اس وقت کی بات ہے جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی ،جب نعیم بن مسعودنشے میں چورہوگیاتواس نے قریشی قافلہ کارازفاش کردیا،سلیط بن نعمان رضی اللہ عنہ نے اس اہم اورخفیہ خبرکوسن کربرق رفتاری سے سفرکیااورمدینہ پہنچ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس قافلہ کی خبر دے دی،قافلہ کے ساتھ بڑا سرمایہ تھا اور سونے چاندی کے برتن سے لداہواتھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس قافلہ کے روانگی کی خبرہوئی تو زیدبن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابواسامہ تھی کو سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاایک سوار دستہ دے کران کی طرف روانہ فرمایا،زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے قافلہ کوپکڑنے کے لئے برق رفتاری سے سفرکیااورقافلہ کو قردہ نامی چشمہ پرجب وہ قیام کے لئے اتر رہے تھے جالیا۔

(قروہ نجدکی وادی الرمہ میں بنی نعامہ کاچشمہ ہے۔

ذو القردة من أرض نجد

ذوالقردہ بھی نجدمیں ہے مگرشایدیہ قروہ سے مختلف جگہ ہے۔[80]

زیدبن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہ کی اس اچانک کاروائی سے میرکارواں سمیت سب کوفرارکے علاوہ کوئی راستہ نظرنہ آیا،اوراہل قافلہ اپنامال واسباب بچانے کے لئے مقابلہ کرنے کے بجائے خوف ودہشت سے فرار ہو گئے، مگر رہبرقافلہ فرات بن حیان عجلی گرفتارہوگیا(کہاجاتاہے کہ دواورمردبھی گرفتارہوئے تھے) اس واقعہ کے وقت علاقے کے نواحی قبائل میں سے کسی نے قریش کی مددنہیں کی ، اس طرح مال واسباب سے لدے ہوئے سارے اونٹ زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ لگےجنہوں نے وہ سب لے جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا۔

وَأُسِرَ فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقِیلَ لَهُ إِنْ تُسْلِمْ تُتْرَكْ، فَأَسْلَمَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَتْلِ ، وَحَسُنَ إِسْلامُ فُرَاتٍ بَعْدَ ذَلِكَ

گرفتارہونے والوں میں فرات بن حیان عجلی بھی تھامدینہ منورہ پہنچ کراسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعوت اسلام پیش کی ورنہ تجھے قتل کردیاجائے گااس نے اسلام قبول کرلیاچنانچہ اسے قتل نہ کیاگیا ،اس کے بعد فرات کااسلام بہت اچھارہا۔[81]

 فَكَانَ الْخُمُسُ یَوْمَئِذٍ قِیمَةَ عِشْرِینَ أَلْفَ دِرْهَمٍ

قافلہ کے مال کی کثرت کااندازہ یوں لگایاجاسکتاہے کہ اس میں سے آپ نے اپناپانچواں حصہ نکالا تواس پانچویں حصہ کی قیمت بیس ہزار درہم تک پہنچی،یعنی غنیمت کی مجموعی مالیت ایک لاکھ درہم تھی۔[82]

غزوہ بدرکے بعد قریش کے لئے یہ اوردوسرابڑاتازیانہ تھا،ان کے دل پہلے ہی اپنے عزیزواقارب کے قتل سے رنج وغم میں ڈوبے ہوئے تھے ،ان کے جنگجواوربارعب سرداروں کے قتل سے ان کی ہوااکھڑچکی تھی اوروہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے تھے،اب انہیں فیصلہ کرناتھاکہ وہ اپناآبائی مذہب چھوڑکر مسلمان ہوجائیں یااپنی عزت وقارکوبلائے طاق رکھ کرجھک کرمسلمانوں کی طرف صلح کاہاتھ بڑھائیں اوردب کرزندگی گزاریں یاپھراپنی عزت ووقارکوزندہ کرنے کے لئے مسلمانوں پرایک بڑاحملہ کر کے ان سے نجات حاصل کریں ،اہل قریش نے ان تینوں راستوں میں سے آخری راستے کاانتخاب کیااوراس مقصدکے لئے تیاریاں شروع کردیں ۔

[1] تفسیرابن کثیر ۶۷۷؍۱

[2] البقرة۲۵۵

[3] آل عمران ۱،۲

[4] مسنداحمد۲۷۶۱۱

[5] الانعام۸۰

[6] الاعراف۸۹

[7] طہ۹۸

[8] الطلاق۱۲

[9] الزمر۶

[10] ھود۱

[11] تفسیرابن ابی حاتم۵۹۴،۵۹۲؍۲

[12] طہ۵

[13] تفسیرالرازی۱۴۷؍۷، تفسیر القرطبی ۲۴۵؍۱، تفسیر البحر المحیط ۲۸؍۳، تفسیر للباب فی علوم الکتاب۴۱؍۵

[14] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ مِنْهُ آیَاتٌ مُحْكَمَاتٌ ۴۵۴۷،صحیح مسلم کتاب العلم بَابُ النَّهْیِ عَنِ اتِّبَاعِ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ، وَالتَّحْذِیرِ مِنْ مُتَّبِعِیهِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الِاخْتِلَافِ فِی الْقُرْآنِ۶۷۷۵،سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ النَّهْیِ عَنِ الجِدَالِ وَاتِّبَاعِ الْمُتَشَابِهِ مِنَ الْقُرْآنِ ۴۵۹۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقراٰن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ۲۹۹۳

[15] النسائ۸۲

[16] روائع التفسیر ۴۶۰؍۱، البحر المدید فی تفسیر القرآن المجید۳۲۵؍۱،الأساس فی التفسیر۷۰۹؍۲

[17] الزلزال۷،۸

[18] تفسیرالقرآن من الجامع لابن وھب۱۵؍۱،موارد الظمآن الی زوائدابن حبان ۴۷۲،۱۲۹؍۱

[19] جامع ترمذی کتاب الدعوات باب دعاء یامقلب القلوب۳۵۲۲

[20] سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا تَعَارَّ مِنَ اللیْلِ۵۰۶۱حكم الألبانی : ضعیف

[21] سبا۳۵

[22] الزمر۴۸

[23] سبا۳۷

[24] التوبة۵۵

[25] المومن۴

[26] تفسیر طبری ۲۳۴؍۶

[27] تفسیرطبری۲۴۰؍۶

[28] آل عمران: 12

[29] آل عمران: 13

[30] تفسیرطبری۲۲۷؍۶

[31] الکہف۷

[32] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ شُؤْمِ المَرْأَةِ۵۰۹۶، صحیح مسلم کتاب الرقاق بَابُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْفُقَرَاءُ وَأَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءُ وَبَیَانِ الْفِتْنَةِ بِالنِّسَاءِ ۶۹۴۵،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی تَحْذِیرِ فِتْنَةِ النِّسَاءِ ۲۷۸۰ ، مسنداحمد۲۱۷۴۶، صحیح ابن حبان ۵۹۶۷

[33] التوبة۷۲

[34] یوسف۹۸

[35] صحیح بخاری کتاب التھجدبَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللیْلِ۱۱۴۵،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین باب الترغیب فی الدعاء والذکرفی آخر اللیل ۱۷۷۲، سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة باب ماجاء فی ای ساعات اللیل افضل ۱۳۶۶،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الرَّدِّ عَلَى الْجَهْمِیَّةِ۴۷۳۳، مسند احمد ۷۵۹۲، سنن الدارمی۱۵۲۰، صحیح ابن حبان۹۲۰

[36] تفسیرابن ابی حاتم۶۱۶؍۲

[37] النسائ۱۶۶

[38] الاعراف۱۵۸

[39] الفرقان۱

[40] آل عمران۸۵

[41] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ ۳۸۶، مسنداحمد۸۲۰۳

[42] صحیح مسلم کتاب المساجدباب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۷،جامع ترمذی ابواب السیر بَابُ مَا جَاءَ فِی الغَنِیمَةِ ۱۵۵۳،صحیح ابن حبان۲۳۱۳، ۶۴۰۱،۶۴۰۳

[43]صحیح بخاری کتاب التیمم باب وَقَوْلُ اللهِ تَعَالَى فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا، فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَیْدِیكُمْ مِنْهُ ۳۳۵،مسنداحمد۱۴۲۶۴،صحیح ابن حبان۶۳۹۸

[44]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ۱۳۵۶،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی عِیَادَةِ الذِّمِّیِّ۳۰۹۵،مسنداحمد ۱۳۳۷۵، صحیح ابن حبان۴۸۸۴

[45]البقرة۱۱۳

[46] یوسف۱۰۸

[47] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ۲۶۵

[48] آل عمران: 21

[49] آل عمران: 22

[50] تفسیر ابن ابی حاتم۶۲۱؍۲،تفسیرطبری۲۸۸؍۵، تفسیر القرطبی ۴۶؍۴،تفسیرابن کثیر۲۷؍۲

[51] تفسیرابن ابی حاتم ۱۲۶؍۱،الدر المنثورفی التفسیر بالماثور ۱۷۸؍۱،تفسیرابن کثیر۲۸۳؍۱،فتح القدیرللشوکانی ۱۱۰؍۱،فتحُ البیان فی مقاصد القرآن۱۸۴؍۱

[52] مسند احمد ۳۸۶۸

[53] النور۵۱

[54] آل عمران: 26

[55] آل عمران: 27

[56] المعجم الکبیرللطبرانی۳۳۲،۱۵۹؍۲۰ ،مجمع الزائد ۹۴۸۱،۱۰۰؍۴

[57] المعجم الکبیر للطبرانی ۱۲۷۹۲، ۱۷۱؍۱۲

[58] الممتحنة۱

[59] النسائ۱۴۴

[60] المائدة۵۱

[61]المائدة۵۷

[62] الانفال۷۳

[63] التوبة۲۳

[64] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ المُدَارَاةِ مَعَ النَّاسِ

[65]صحیح بخاری كِتَابُ الإِكْرَاهِ قبل الحدیث ۶۹۴۰ تعلیقاً

[66] الاعراف۸،۹

[67] المومنون۱۰۱تا۱۰۳

[68] القارعة۸،۹

[69] مسندالحارث۱۱۲۵،مسندالبزار۶۹۴۲،شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة۲۲۰۵،حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء ۱۷۴؍۶

[70] القیامة۱۳

[71] الزلزال۷،۸

[72] الزخرف۳۸

[73] الزمر۵۶

[74]النسائ۴۲

[75] الفرقان۲۷،۲۸

[76] تفسیرطبری۳۲۴؍۵،الدر المنثور۱۷۷؍۲

[77] تفسیرابن کثیر۳۲؍۲

[78] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ النَّجْشِ، وَمَنْ قَالَ لاَ یَجُوزُ ذَلِكَ البَیْعُ ، صحیح مسلم كِتَابُ الْأَقْضِیَةِ بَابُ نَقْضِ الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ، وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِعن عائشہ ۳۳۹۳ ،مسند احمد۲۵۱۲۸

[79] ابن ہشام۴۶؍۲،الروض الانف ۲۷۴؍۵،عیون الآثر۳۵۶؍۱،البدایة والنہایة۴؍۴، زادالمعاد ۱۷۰؍۳

[80] معجم البلدان ۲۴۸؍۴

[81] ابن ہشام ۵۰،۵۱؍۲،ابن سعد۲۷؍۲،مغازی واقدی ۱۹۸؍۱، الروض الانف ۲۷۹؍۵،عیون الآثر۳۵۸؍۱،تاریخ طبری ۴۹۲؍۲

[82] ابن سعد۲۷؍۲ ،مغازی واقدی ۱۹۸؍۱، شرح الزرقانی الموھب ۳۸۵؍۲

Related Articles