ہجرت نبوی کا پہلا سال

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کاکنواں وقف کرنا

مکہ مکرمہ سے جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تودیکھاکہ یہاں کے تمام کنویں کھاری پانی کے ہیں صرف ایک کنواں بئررومہ میٹھے پانی کا تھا جس کامالک ایک یہودی تھا جوبغیردام کسی کوپانی نہیں دیتاتھا ،فقراء مسلمین کومیٹھاپانی حاصل کرنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی

وَقَالَ عُثْمَانُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ یَشْتَرِی بِئْرَ رُومَةَ، فَیَكُونُ دَلْوُهُ فِیهَا كَدِلاَءِ المُسْلِمِینَ،فَاشْتَرَاهَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی ہے جوبئررومہ کوخریدلے اوراپناڈول اس میں اس طرح ڈالے جس طرح اورمسلمان ڈالیں (یعنی اسے وقف کردے) آخرسیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے اس کوخریدلیا۔[1]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ یَشْتَرِیهَا مِنْ خَالِصِ مَالِهِ، فَیَكُونَ دَلْوُهُ فِیهَا كَدُلِیِّ الْمُسْلِمِینَ، وَلَهُ خَیْرٌ مِنْهَا فِی الْجَنَّةِ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی ہے جوبئررومہ کواپنی حلال کمائی سے خرید لےاوراپناڈول اس میں اس طرح ڈالے جس طرح اورمسلمان ڈالیں (یعنی اسے وقف کردے)تواس کے لئے جنت میں ایک چشمہ ہے۔ [2]

ایک روایت میں ہے

مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الجَنَّةُ

جوشخص بئررومہ کوکھودے گا(اوراسے مسلمانوں کے لئے وقف کردے گا)تواسے جنت کی بشارت ہے۔[3]

ایک روایت میں ہے

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ یَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ غَفَرَ اللهُ لَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص بئررومہ کوخریدے گااللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا۔[4]

فَاشْتَرَاهَا بِخَمْسَةٍ وَثَلَاثِینَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَتَجْعَلُ لِی مِثْلَ الَّذِی جَعَلْتَهُ له عَیْنًا فِی الْجَنَّةِ إِنِ اشْتَرَیْتُهَا؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: قَدِ اشْتَرَیْتُهَا، وَجَعَلْتُهَا لِلْمُسْلِمِینَ

آخرسیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بئررومہ کو پینتیس ہزاردرہم میں خرید لیاپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرمیں بئررومہ کوخریدلوں تومجھے جنت میں ایک چشمہ عنایت ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں نے وہ چشمہ خریدلیاہے اوراسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیاہے۔[5]

الغرض سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدست مبارک پراللہ تعالیٰ کی مغفرت ،جنت اورجنت کے ایک چشمہ کے معاوضہ پرفروخت کردیااس طرح مدینہ منورہ کا ہرشخص میٹھے پانی کے اس چشمہ سے فیض یاب ہونے لگا۔

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کاقبول اسلام

جب حسان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیااس وقت ان کی عمرساٹھ سال کی تھی،

كان حسان قدیم الإسلام

حسان رضی اللہ عنہ نے ہجرت کےفوراًمدینہ منورہ میں اسلام قبول کیااوربیعت کاشرف حاصل کیااس طرح مدینہ منورہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں وہ فوقیت رکھتے ہیں ،

 یكنى أَبَا الْوَلِیدِ، وقیل: أَبُو عبد الرحمن ، وقیل: أَبُو الحُسَامِ

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کی مشہور کنیت ابوالولیدہے،یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کی کنیت ابوعبدالرحمٰن تھی،اوریہ بھی کہاجاتاہےابوالحسام تھی۔[6]

وأمه الفریعة بنت خالد بْن حبیش

ان کی والدہ کانام فریعہ رضی اللہ عنہا بنت خالدبن حبیش تھا۔[7]

ان کی والدہ کوبھی قبول اسلام اور صحابیت کاشرف حاصل ہوا

أَسْلَمَتْ الْفُرَیْعَةُ بِنْتُ خَالِدٍ وَبَایَعَتْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ان کی والدہ فریعہ رضی اللہ عنہا بنت خالدنے اسلام قبول کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔[8]

حسان رضی اللہ عنہ کے اباؤاجداداپنے قبیلے کے رئیس تھے ،قلعہ فارع جومسجدنبوی سے مغرب کی جانب باب الرحمة کے سامنے واقع تھاان کامسکن تھا

عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِینَ سَنَةً، سِتِّینَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَسِتِّینَ فِی الْإِسْلَامِ

انہوں نے ایک سوبیس سال کی عمر پائی ا نہوں نے ساٹھ سال جاہلیت میں گزارے اورتقریباًاتنے ہی سال اسلام کی حالت میں گزارے۔[9]

انہوں نے اپنے پیچھے ایک فرزند(عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ )چھوڑا،اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے سے پہلے وہ تمام عرب میں اپنی شاعری کاسکہ بٹھاچکے تھے اورعرب کابچہ بچہ انہیں ایک قادرالکلام شاعرکی حیثیت سے جانتاتھا

قَالَ أبو عبیدة: واجتمعت العرب على أن أشعر أهل المدر أهل یثرب، ثم عَبْد القیس، ثم ثقیف، وعلى أن أشعر أهل المدرحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ

ابوعبیدہ رحمہ اللہ ہی کاقول ہے کہ بالاتفاق صحرا کے تمام باشندوں میں اہل مدینہ کے پھرقبیلہ عبدالقیس کے اورپھربنوثقیف کے اشعار اچھے ہیں اوراہل مدینہ میں سب سے بڑے شاعرحسان رضی اللہ عنہ ہیں ۔[10]

عہدجاہلیت میں حسان رضی اللہ عنہ بھی دوسرے شعراء کی طرح شراب کے رسیا تھےمگرقبول اسلام کے بعدانہوں نے کبھی شراب کوچھواتک نہیں ۔

دورجاہلیت کے عرب امی ہونے کے باوجوداپنی بعض خصوصیات کی بناپراس زمانے کی بہت سی قوموں پرفوقیت رکھتے تھے ،یہ لوگ ناخواندہ ،ناشائستہ اورغیرمہذب تھے لیکن زبان کی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے اپناجواب نہیں رکھتے تھے ،اپنی خطابت وشاعری پران کواس قدرنازتھاکہ دنیاکی دوسری قوموں کوعجم(گونگا)قراردیتے تھے ، ہرقبیلہ کا شاعراپنی قوم کے فضائل ومحائدکاعلمبردارہوتاتھا،یہ لوگ اپنے زوربیان سے جس کوچاہتے سربلندکردیتے تھے اورجس کوچاہتے تھے بدنام ورسواکرڈالتے ،ذاتی پسند یا ناپسندکے علاوہ وہ اپنی شاعری کوقومی اورسیاسی ضروریات کے لیے بھی استعمال کرتے تھے ،قبائل کی عزت وناموس اورحکمرانوں کی آبروان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اس لیے بڑے بڑے سرداران کے آگے آنکھیں بچھاتے تھے اوربڑے بڑے سورماان سے خوف کھاتے تھے،جب وہ کسی کی مدح یاہجومیں شعرکہتے تووہ برقی روکی طرح سارے عرب میں پھیل جاتے اورزبان زدعوام وخواص ہوجاتے،عربوں کے یہی لیل ونہارتھے کہ عرب کی وادی غیرذی زرع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحیدکامشرکین مکہ نے جوجواب دیااسی کانتیجہ تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپناگھرباراوروطن عزیزچھوڑکرمدینہ منورہ ہجرت کرگئے لیکن مشرکین مکہ کادل اس سے بھی ٹھنڈانہ ہوااوران کے شعراء نے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہجومیں اشعارکہہ کہہ کرعرب میں پھیلانے شروع کردیئے،یہ اشعار چند دنوں کے اندر اندر ہزاروں میل دورتک پہنچ جاتے تھے اورمدینہ منورہ تومکہ مکرمہ سے صرف تین سومیل دورتھا

فقال قائل لعلىّ بن أبى طالب: اهْجُ عَنَّا الْقَوْمَ الَّذِینَ یَهْجُونَنَافَقَالَ:إِنْ أذن لی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَلْتُ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، ائْذِنْ لَهُ ، فقال رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَلِیًّا لَیْسَ عِنْدَهُ مَا یُرَادُ فِی ذلك منه، أو: لیس فی ذلك لك.ثُمَّ قَالَ: مَا یَمْنَعُ الْقَوْمُ الَّذِینَ نَصَرُوارَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسِلاحِهِمْ أَنْ یَنْصُرُوهُ بِأَلْسِنَتِهِمْ؟ فَقَالَ حَسَّانٌ: أَنَا لَهَا، وَأَخَذَ بِطَرْفِ لِسَانِهِ وَقَالَ: وَاللهِ ما یسرّنى به مقول بَیْنَ بُصْرَى وَصَنْعَاءَ،وَقَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ تَهْجُوهُمْ وَأَنَا مِنْهُمْ؟ فَقَالَ: وَاللهِ لأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِینِ

جب مسلمانوں تک آئے دن ایسے اشعارپہنچنے لگے توان کوسخت تکلیف ہوئی اورانہوں نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ شعرائے مکہ کی ہجوؤں کاجواب دیں ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کہامیں اس کام کے لیے تیارہوں بشرطیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں ،ان کاجواب سن کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ رسالت میں عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے ماں باپ آپ پرقربان،شعراء مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کی ہجویں کہہ کہہ کرعرب میں ان کی اشاعت کررہے ہیں آپ ارشادفرمائیں توسیدناعلی رضی اللہ عنہ ان کی خرافات کاجواب دیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدناعلی رضی اللہ عنہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکی طرف متوجہ ہوکرفرمایاجن لوگوں نے میری تلوار سے مددکی ہے کیاوہ اپنی زبان سے میری مدافعت نہیں کرسکتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادسن کرحسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کھڑے ہوئے اوراپنی زبان نکال کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودکھائی اورپھربڑے جوش سے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کام کے لیے میں حاضرہوں اللہ کی قسم !مجھے بصرائے شام اور صنعائے یمن کے درمیان اس کلام سے زیادہ کوئی کلام پسندنہ ہوگاجودشمنان رسالت کے جواب میں ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ان لوگوں کی ہجوکیسے کروگے جن کے خاندان سے میں خود ہوں ، انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان میں سے اس طرح نکالوں گاجس طرح آٹے کے خمیرسے (یاگندھے ہوئے آٹے میں )سے بال کھینچ لیاجاتاہے۔[11]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشکش کوبنظرتحسین دیکھا اوران کومشرکین کی ہجوگوئی کاجواب دینے کی خدمت تفویض فرمادی۔

یقال له شاعررَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعرکے لقب سے پکارے جاتے تھے۔[12]

عَنْ أَبِی عُبَیْدَةَ قَالَ: فُضِّلَ حَسَّانٍ عَلَى الشُّعَرَاءِ بِثَلاثٍ،كَانَ شَاعِرَ الأَنْصَارِ فِی الْجَاهِلِیَّةِ،وَشَاعِرَ النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَیَّامِ النُّبُوَّةِ، وَشَاعِرَ الْیَمَنِ كُلِّهَا فِی الإِسْلامِ

ابوعبیدہ سے مروی ہےحسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کودوسرےشعراء پرتین طرح کی فضیلت ہے، دورجاہلیت میں وہ انصارکے شاعرتھے،عہدرسالت میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعرتھےاور زمانہ اشاعت اسلام میں تمام یمن کے بہترین شاعرتھے۔[13]

حسان رضی اللہ عنہ نے اس جوش اخلاص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کاحق اداکیاکہ کسی دوسرے کے لیے ان کی پروازخیال کی بلندی تک پہنچنامحال ہوگیا،ان کے دوشعرملاحظہ فرمائیں ۔

واحسن منک لم ترقط عینی،واجمل منک لم تلذالنسائ

آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے ہرگزنہیں دیکھا،اورنہ آپ سے زیادہ خوبروکسی عورت نے کوئی بچہ جنا

خلقت مبراًمن کل عیب ،کانک قدخلقت کماتشائ

آپ ہرعیب سے پاک پیداکیے گئے ،گویاآپ جیساپسندفرماتے تھے ویسے ہی پیداہوئے

حسان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سینکڑوں اشعارکہے لیکن کسی شعرمیں بھی کوئی خلاف حقیقت بات نہ کہی۔چنداشعارملاحظہ فرمایئے۔

نَبِیُّ أتَانَا بَعْدَ یَأْسٍ وَفَتْرَةٍة،مِنَ الرُّسْلِ وَالأَوْثَانُ فِی الْأَرْضِ تُعْبَدُ

وہ اللہ کے ایک نبی ہیں جومایوسی اورانبیاء کے گزرنے کے بعدہمارے پاس تشریف لائے جب دنیامیں بتوں کی پرستش ہونے لگی تھی

فَأَمْسَى سِرَاجًامنیراوَهَادِیًا،یَلُوحُ كَمَا لَاحَ الصَّقِیلُ المُهَنَّدُ

وہ ہمارے لیے روشن چراغ بن گئےاورہادی،وہ اس طرح درخشاں وتاباں نمودارہوئے جیسے صیقل کی ہوئی ہندی تلوارچمکتی ہے

وأنْذَرَنَا نَارًا وَبَشَّرَ جَنَّةً،وعَلَّمَنَا الإسْلَامَ فَاللَّهَ نَحْمَدُ

انہوں نے ہم کوآتش جہنم سے ڈرایااورجنت کی خوشخبری سنائی،انہوں نےہم کواسلام کی تعلم دی جس پرہم اللہ کاشکراداکرتے ہیں

ہجرت نبوی کے بعدوہ اہل مکہ کی حرماں نصیبی اوراہل مدینہ کی خوش بختی پریوں اظہارخیال کرتے ہیں ۔

لَقَدْ خَابَ قَوْمٌ غَابَ عَنْهُمْ نَبِیُّهُمْ ، وَقُدِّسَ مَنْ یَسْرِی إِلَیْهِمْ وَیَغْتَدِی

بے شک وہ قوم نامرادہوئی جن کے پاس سے ان کانبی چلاگیا،اوران لوگوں نے عزت پائی جن کے پاس وہ تشریف لائے اورانہوں نے صبح کی

تَرَحَّلَ عَنْ قَوْمٍ فَزَالَتْ عُقُولُهُمْ ، وَحَلَّ عَلَى قَوْمٍ بِنُورٍ مُجَدَّدِ

جس قوم سے اس کاپیغمبرچلاگیااس کی عقل بھی جاتی رہی،اورجن لوگوں میں تشریف لاکرپیغمبرنے قیام فرمایاان کواپنے نورسے روشن کیا

هداهم به بعد الضلالة ربهم ، وأرشدهم من یبتغ الحق یرشد

ان(اہل مدینہ)کے رب نے گمراہی کے بعدہدایت نصیب فرمادی ،اوران کوسیدھاراستہ دکھایاجوحق کی پیروی کرتاہے وہ ہدایت پاتاہے

حسان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے ساتھ ساتھ کفارکی ہجومیں بھی دفترکے دفترکہہ ڈالے ،انہوں نے اس جوش خروش سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے نام لیواؤں کی مدافعت کی اورشعراء مشرکین کی ہجوؤں کاجواب ایسے موثراورپرزورالفاظ میں دیاکہ وہ سرپیٹ کررہ گئے ،حسان رضی اللہ عنہ کی ہجوؤں میں اتنی تیزی ،گرمی ،کاٹ اورفصاحت وبلاغت ہوتی تھی کہ کفاراس سے پناہ مانگتے تھے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے دوجاں نثاروں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ اورکعب رضی اللہ عنہ بن مالک انصاری نے بھی شعراء مشرکین کی ہجوؤں کاجواب نہایت موثرپیرائے میں دیالیکن اس باب باب میں حسان رضی اللہ عنہ کی مساعی جمیلہ سب پرفوقیت لے گئیں ،

عَنْ عَائِشَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ:اهْجُهُمْ ، فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ یَرْضَ، فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ فَلَمَّا دَخَلَ حَسَّانُ قَالَ: قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ، ثُمَّ دَلَعَ لِسَانَهُ فَجَعَلَ یُحَرِّكُهُ ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِیَنَّهُمْ فَرْیَ الْأَدِیمِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَیْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِی فِیهِمْ نَسَبًا حَتَّى یَخْلُصَ لَكَ نَسَبِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہےجب شعراء قریش کی ہجوؤں کاجواب دینے کاارادہ کیاگیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ کوکہلابھیجاکہ قریش کی ہجوکاجواب دوانہوں نے تعمیل ارشادکی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی جوابی ہجوپسندنہ آئی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کویہ کام کرنے کے لیے فرمایاانہوں نے بھی ہجوکاجواب دیامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپسندنہ آیا، اس کے بعد حسان رضی اللہ عنہ کوپیغام بھیجاکہ تم یہ کام کرولوگ ان کے پاس گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام پہنچایاتوانہوں نے بے ساختہ کہااب وقت آیاہے کہ وہ شیربلایاجائے جواپنی دم ہلارہاہے ،پھرانہوں نے بڑے پرعزم لہجے میں کہامیں ان کواپنی زبان سے ٹھیک کردوں گا(یاٹکڑے ٹکڑے کردوں گا)اورواقعی انہوں نے جوکہاتھااسے کردکھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کوشعراء مشرکین کے مقابلہ میں اپنی اوراپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی مدافعت پرمامورفرمایاتوانہیں ہدایت فرمائی کہ جواب دینے سے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرلیاکروکیونکہ وہ انساب عرب سے خوب واقف ہیں ۔[14]

چنانچہ حسان رضی اللہ عنہ اکثرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاتے تھے اوران سے انساب کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو بتلاتےتھے کہ ہجومیں فلاں فلاں عورتوں کوچھوڑدیناوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادیاں ہیں اورحسان رضی اللہ عنہ اسی کے مطابق عمل کرتے تھے وہ اپنے اشعارمیں مشرکین پراس طرح چوٹ کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش سے نسبی تعلق رکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرمطلق کوئی حرف نہ آتا تھا ۔

ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچچاتھالیکن اسلام کابدترین دشمن تھاحسان رضی اللہ عنہ اس کی ہجواس طرح کرتے ہیں ۔

ابا لھب ابلغ بَأَنَّ مُحَمَّدًا ،سیعلوبماادی وان کنت راغما

ابولہب کوپہنچادوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فریضہ نبوت اداکرنے کی وجہ سے ضروربلندمراتب حاصل کریں گے اگرچہ یہ بات تیری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو

وان کنت قدکذبتہ وخذلتہ،وحیداوطارعت الحجین الضراغما

اگرچہ تونے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلایااور(خاندان)تنہاتونے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورسواکرنے کی کوشش کی اوربزدل کمینوں کی تونے پیروی کی

سمت ھاشم لاکرمات والعلیٰ،وغودرت نی کاب من اللوم جانما

بنی ہاشم عزت اوربلندمراتب پرفائزہوئے لیکن توملامت کے رنج وغم میں آلودہ کرکے چھوڑدیاگیا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازادبھائی ابوسفیان بن حارث اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام کے سخت دشمن تھے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکہنے سے بھی گریزنہ کیا،حسان رضی اللہ عنہ نے ان کی اس طرح خبرلی۔

لعمرك إنّ إلّك فی قریش، كإلّ السّقب من رأل النّعام

تیری جان کی قسم تیرارشتہ قریش سے ایساہی ہے، جیساکہ اونٹ کے بچے کارشتہ شترمرغ کے بچے سے ہو

فلاتفخربقوم لست منھم،ولاتک کاللئام بنی ھاشم

توایسی قوم پرفخرمت کرجن میں سے تونہیں ہے،توتوخبیث بنی ہشام جیسابھی نہیں

رؤساء قریش میں ابوجہل اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھا،معرکہ بدرمیں وہی کفارکومکہ سے کھینچ لایاتھا،حسان رضی اللہ عنہ نے اس کی مذمت اس طرح کی۔

فقدلعن الرحمٰن جمعًایقودھم،دعی بنی شجح لحرب محمد

بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے گروہ پرلعنت کی ،جس کوشجاعت کاایک جھوٹادعویدارمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے لایاہے

مشوم لعین کان قدمًامبغضا،یبین فیہ اللوم من کان یھتد

وہ خبیث اورلعین ہے ہمیشہ سے اس کوبراسمجھاجاتاہے،جوشخص راہ حق کی ہدایت پاتاہے وہ اس کوملامت کرتاہے

فدلاھم فی الغی حتی تھافتوا،وکان مضلاً امرہ غیرمرشد

وہ لوگوں کوگمراہی کی طرف راغب کرتاہے یہاں تک کہ لوگ اس کے گردجمع ہوگئے ،حالانکہ اس کاحکم گمراہ کرنے والاہے ہدایت کرنے والانہیں

فانزل ربی للنبی جنودہ،وایدہ بالنصرفی کل مشھد

اللہ نے نبی کریم کی مددکے لیے اپنالشکربھیجا،اورہرلڑائی میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وفتح سے تائیدکی

قبول اسلام سے پہلے عبداللہ بن زبعری قریش کے سربرآوردہ شاعرتھے،غزوہ احدمیں ایک اتفاقی حادثہ کی بناپرمسلمانوں کوسخت نقصان اٹھاناپڑا،ابن زبعریٰ نے اس کو مشرکین کی فتح قراردیااورچندفخریہ اشعارکہے جس میں حسان رضی اللہ عنہ کومخاطب کرکے اہل حق کوطعن وتشنیع کانشانہ بنایاگیا،حسان رضی اللہ عنہ نے اس کانہایت مسکت جواب دیا،غزوہ احدکی حقیقی نوعیت واضح کی اورساتھ ہی غزوہ بدرمیں کفارکی شرمناک شکست یاددلاکرابن زبعریٰ کوغیرت دلائی،ان کے جواب کے یہ تیورتھے۔

ذَهَبْتُ یَا بْنَ الزِّبَعْرَى وَقْعَةٌ ،كَانَ مِنَّا الْفَضْلُ فِیهَا لَوْ عَدَلْ

ابن الزبعریٰ کواس لڑائی(احد)کاحال خوب معلوم ہے،اگروہ انصاف سے کام لے توفضیلت ہمارے ہی لیے ہے

وَلَقَدْ نِلْتُمْ وَنِلْنَا مِنْكُمْ ، وَكَذَاكَ الْحَرْبُ أَحْیَانًا دُوَلْ

بے شک تم نے ہم سے اورہم نے تم سے خوب انتقام لیا،کبھی کبھی لڑائی اسی طرح پلٹے کھایاکرتی ہے

إذْ شَدَدْنَا شَدَّةً صَادِقَةً ، فَأَجَأْنَاكُمْ إلَى سَفْحِ الْجَبَلْ

جب ہم نے (غزوہ بدر)میں سخت حملہ کیا،توہم نے تم کوپہاڑی کی نشیب میں دھکیل دیا

فسدحنافی مقام واحد،منکم سبعین غیرالنتحل

ہم نے تم میں سے سترآدمیوں کوایک ہی جگہ پچھاڑدیا،جس میں ذرابھی جھوٹ نہیں

واسرنامنکم اعدادھم،فالنصرفتم مثل افلات الححجل

ہم نے تم میں سے بہتوں کواسیرکرلیا،اورتم شکست کھاکرمرغابیوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے

وَقَتَلْنَا كُلَّ رَأْسٍ مِنْهُمْ ، وَقَتَلْنَا كُلَّ جَحْجَاحٍ رِفَلْ

ہم نے تم میں سے ہرسردارکوقتل کیا،اورہرذی رتبہ بہادرکومارا

نَحْنُ لَا انتم بنی استاھھا،نَحْنُ الْبَأْسُ إذَا الْبَأْسُ نَزَلْ

ہم نہیں تم دم دباکربھاگنے والے ہو،جب معرکہ کارزاربرپاہوتاہے ہم میدان کارزارمیں ہوتے ہیں

ابی بن خلف سخت بدباطن مشرک تھاایک مرتبہ(ہجرت نبوی سے پہلے)وہ ایک بوسیدہ ہڈی لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہنے لگاتم کہتے ہوکہ اللہ مردوں کوزندہ کرے گا،بتاؤاس ہڈی کوکون زندہ کرسکتاہے؟حسان رضی اللہ عنہ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابی بن خلف ،عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ اورابوجہل کی مذمت اس طرح کرتے ہیں ۔

لَقَدْ وَرِثَ الضَّلَالَةَ عَنْ أَبِیهِ،أُبَیٌّ یَوْمَ فارقہ الرَّسُولُ

بے شک ابی اپنے باپ کی گمراہی کاوارث ہواہے،جبکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی اختیارکی

اجئت محمدًاعظمًارمیمًا،لتکذبہ وانت بہ جھول

کیاتونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بوسیدہ ہڈی لے کرآیاہےتاکہ توانہیں جھٹلاسکے حالانکہ توخوداس کی حقیقت سمجھنے سے قاصرہے

ونب ابناربیعة اذاطاعا،اباجھل لامھاالحبول

ربیعہ کے دونوں بیٹے تباہ ہوگئےجب انہوں نے ابوجہل کی پیروی کی ،ان کی مائیں ان پررونے والیاں ہیں ،

قدم على رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فأسلم وبعث معه رجلا من الأنصار إلى قومه لیسلموا، فقتل الأنصاری، ولم یستطع الحارث على المنع منه،ولما قتل الأنصاری الذی أجاره بعث بدیته سبعین بعیرًا، فأعطاها رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ورثته ، فأعطاها رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ورثته، وفیه یقول حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضى الله عنه

ایک مرتبہ عرب کے ایک قبیلے کا سردارحارث بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اسلام قبول کرکےعرض کی کہ کسی صاحب کو میرے ہمراہ کردیں تاکہ وہ میرے قبیلے کودین کی تعلیم دے،میں اس کی حفاظت کا ذمہ دارہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کواس کے ہمراہ کردیا،ان کوساتھ کے کرحارث اپنی قوم میں گیامگراس کی قوم نے غداری کی اورانصاری صحابی رضی اللہ عنہ کوشہیدکرڈالااورحارث اپنی قوم کوروک نہ سکےچنددن بعدحارث بن عوف اپنے قبیلے کی غداری پراظہارمذامت اوردیت کی ادائیگی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورانصاری کی دیت کے ستراونٹ پیش کیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ المناک واقعہ سن کربہت دکھ ہوالیکن حارث کی لجاجت آمیزمعذرت کودیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازراہ مروت خاموش رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کوان کے ورثاکے حوالے کردیااس موقع پرحسان رضی اللہ عنہ بن ثابت نے حارث اوراس کے قبیلے کی بدعہدی پربرجستہ دوشعرکہے

یا حار من یغدر بذمة جاره ،منكم فإن محمدا لا یغدر

وأمانة المری ما استودعته، مثل الزجاجة صدعها لا یجبر۔[15]

فجعل الحارث یعتذر، ویقول: أنا بالله وبك یا رَسُول اللهِ من شر ابن الفریعة، فو الله لو مزج البحر بشره لمزجه، فقال النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دعه یا حسان، قال: قد تركته

انہیں سن کرحارث اس قدر پریشان اورخائف ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گڑگڑاکرعرض کی اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )میں ابن الفریعہ رضی اللہ عنہ کی ہجوسےبچنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ چاہتا ہوں ، یہ وہ شخص ہے کہ اپنی زبان کی تلخی اگرسمندرمیں ملادے تواللہ کی قسم سمندرکاساراپانی کڑواہوجائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے حسان رضی اللہ عنہ ! انہیں چھوڑدو،انہوں نے اس کی ہجوچھوڑدی۔[16]

عن عائشة قالت:كان رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یضع لحسان منبرا فی المسجد فینشد علیه قائما یهجو من قال فی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فقال رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إن الله یؤید حسان بروح القدس

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کومسجدمیں منبرپرکھڑاکیااوران کے ساتھ کھڑے ہوگئے وہ مشرکین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرہجوکاجواب دے رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے روح القدس کے ذریعے حسان رضی اللہ عنہ کی مددفرمائی۔[17]

الْبَرَاءَ یَقُولُ: أن رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال لِحَسّانَ اهجُهُم وهاجهم وجِبرِیلُ علیه السلام مَعَكَ.

براء بن عازب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کومخاطب ہوکرفرمایااے حسان رضی اللہ عنہ !مشرکین کی ہجوکروجبریل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہے۔[18]

فَقَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اهجهم كَأَنَّك تنضحهم بِالنَّبلِ

ایک موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااے حسان رضی اللہ عنہ !ان کی ہجو کرو تمہاری ہجوان کے دلوں کوتیرکی طرح چھیدڈالتی ہے۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ: یَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ أَیِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکرفرمایااے حسان رضی اللہ عنہ ! میری طرف سے جواب دے ساتھ ہی دعاکی الٰہی!روح القدس کے ذریعہ اس کی مددکر۔[20]

فی الحقیقت متعددمواقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کے اشعارکی تحسین فرمائی انہیں دعائیں دیں اورشعراء مشرکین کی خرافات کاجواب دینے کی تلقین بھی فرمائی۔قریب قریب تمام غزوات میں اورہراہم موقعہ پرحسان رضی اللہ عنہ نے اہل حق کی حمایت میں اورمشرکین کے خلاف نہایت پرجوش اشعارکہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسرور کیا اور اعدائے حق کے سینوں میں چھیدڈال دیئے،حسان رضی اللہ عنہ خودفرماتے تھے ۔

لسانی صارمٌ لا عیبَ فِیهِ ، وبحری ما تُكَدِّرُهُ الدِّلاءُ

میری زبان قاطع تلوارکی طرح تیزہےجس میں کوئی عیب نہیں اورمیرے کلام کاسمندرایساصاف وشفاف ہے جوڈول ڈالنے سے گدلانہیں ہوتا

ایک مرتبہ کسی مشرک کی ہجوکاجواب دیتے ہوئے انہوں نے یہ اشعارکہے۔

هجوتَ محمَّدًا فأجبتُ عَنْهُ ، ،وعندَ الله فِی ذاك الجزاءُ

تونے محمدکی ہجوکی تومیں نے آپ کی طرف سے اس کاجواب دیا،اوراس بات کی جزااللہ کے ہاں ہے

وجبریلُ رَسُول اللهِ فینا ، وَرُوحُ القدُسِ لیس لَهُ كفاءُ

اورہم میں اللہ کاامین جبریل علیہ السلام ہے، اورروح القدس ہے جس کاکوئی ہمسرنہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناتوفرمایا

جزاک اللہ علی اللہ الجنة

ہاں ہاں اللہ کے ہاں تیری جزاجنت ہے

حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدبھی طویل عرصہ تک حیات رہے،اس دوران میں وہ کبھی کبھی مسجدنبوی میں بیٹھ کرلوگوں کواپنے اشعارسنایاکرتے تھے،ایک روایت میں ہے

مَرَّ عُمَرُ بِحَسَّانَ وَهُوَ یُنْشِدُ فِی الْمَسْجِدِ فَوَقَفَ عَلَیْهِ فَقَالَ: تُنْشِدُ الشَّعْرَ فِی مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ لَهُ حَسَّانُ: قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ فِیهِ بِمَنْ هُوَ خَیْرٌ مِنْكَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَانْصَرَفَ عُمَرُ عَنْهُ

ایک مرتبہ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں اسی طرح اپنے اشعارپڑھ رہے تھے ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے اوران کے پاس کھڑے ہوئےاورفرمایاکیاتم نبی کریم کی مسجد میں بیٹھ کر اشعارپڑھ رہے ہو ؟ حسان رضی اللہ عنہ جلال میں آگئے اورانہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سےفرمایامیں آپ سے بہترہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجدنبوی کے اندراشعارپڑھاکرتاتھااس لیے مجھے ایساکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ ان کوجواب سن کر خاموش ہوگئے اورچلے گئے۔[21]

مرثیہ گوئی عربی شاعری کی ایک نمایاں صنف ہے اگرچہ اس صنف میں خنساء رضی اللہ عنہا شعرائے عرب پرفوقیت رکھتی ہیں لیکن حسان رضی اللہ عنہ بھی اس صنف میں بندنہیں تھے ،انہوں نے جو مرثیے کہے ان میں ان کے کلام کی تمام خصوصیات موجودہیں بالخصوص ان کے وہ مرثیے جوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پرکہےاپنی نظیرآپ ہیں ،یہ بیک وقت نعت یامدح رسول بھی ہیں اورمرثیے بھی جو حسان رضی اللہ عنہ کے دکھ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عقیدت ومحبت کاآئینہ دارہے۔

بِأَبِی وَأُمِّی مَنْ شَهِدْتُ وَفَاتَهُ ،فِی یَوْمِ الاثْنَیْنِ النَّبِیَّ الْمُهْتَدِی!

میرے ماں باپ اس ذات گرامی پرقربان ہوجائیں ،جن کے سانحہ ارتحال کے وقت میں خودموجودتھاجودوشنبہ کوپیش آیا

فَظَلِلْتُ بَعْدَ وَفَاتِهِ مُتَلَدِّدًا،مُتَلَدَّدًا یَا لَیْتَنِی لَمْ أُولَدْ

میں آپ کی وفات کے بعدہوش وحواس کھوبیٹھا،میں پریشان تھاکاش میں پیداہی نہ ہواہوتا

أَأُقِیمُ بَعْدَكَ بِالْمَدِینَةِ بَیْنَهُمْ؟ ، یَا لَیْتَنِی صُبِّحْتُ سُمَّ الأَسْوَدِ!

کیاآپ کے بعدمدینہ میں لوگوں کے درمیان ٹھہرسکوں گا؟،کاش مارسیاہ مجھے ڈس لیتااورمیں مرجاتا

وَاللهِ أَسْمَعُ مَا حَیِیتُ بِهَالِكٍ ،إِلا بَكَیْتُ عَلَى النَّبِیِّ مُحَمَّدِ

اللہ کی قسم!جب میں کسی مرنے والے کی خبرسنوں گا،تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرروؤں گاجب تک بھی زندہ رہوں

صَلَّى الْإِلَهُ وَمَنْ یَحُفُّ بِعَرْشِهِ ،وَالطَّیِّبُونَ عَلَى الْمُبَارَكِ أَحْمَدْ

اللہ اوروہ پاک فرشتے جواس کے عرش کوگھیرے ہوئے ہیں ،احمدمجتبیٰ پررحمت نازل کریں

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پرکس قدرملول ومحزون اوردل شکستہ تھے اس کااندازہ ان چنداشعارسے کیاجاسکتاہے۔

كنت السواد لناظرى ، فعمى علیك الناظر

آپ میری آنکھوں کی پتلی تھے،آپ کے بعددنیامیرے لیے اندھیرہوگئی

من شاء بعدك فلیمت ، فعلیك كنت أحاذر

اب کوئی مرے یاجئے،میں توصرف اسی برے دن سے ڈرتاتھا

وھل عدلت یومًارزبہ ھالک،رزیہ یوم مات فیہ محمد

کیاکسی ہلاک ہونے والے کی مصیبت ،اس دن کی مصیبت کامقابلہ کرسکتی ہے جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی

یدلّ على الرحمن من یقتدی به ، وینقذ من هول الخزایا ویرشد

آپ اس شخص کی الرحمٰن کی طرف رہنمائی فرماتے تھےجوآپ کی پیروی کرتاتھا،اوررسوائیوں سے بچاتے تھے اورراہ حق کی طرف ہدایت فرماتے تھے

فبكّی رسول الله یا عین عبرة ،ولا أعرفنك الدهر دمعك یجمد

اے آنکھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرآنسوبہا،میں نہیں سمجھتاکہ زمانہ میں کبھی تیرے آنسوخشک ہوں گے،

وما لك لا تبكین ذا النعمة التی ، على الناس منها سابغ یتغمّد

تجھے کیاہوگیاہے کہ توان نعمتوں کویادکرکے نہیں روئی،جولوگوں کوفیضیاب کیے ہوئے تھیں اوربے شمارتھیں

فجودی علیہ بالدموع واعولی،لفقد الذی لامثلہ الدھریوجد

اے آنکھ رسول اللہ پرآنسوبہااورآہ وزاری کر،ایک ایسی ذات کے جانے پرجواب زمانہ میں کبھی نہ پائی جائے گی

ومافقدالماضون مثل محمد،ولامثلہ حتی القیامة یفقد

گزرے ہوئے لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی کبھی گم نہیں کی ،اورنہ ان جیسی ذات گرامی اب قیامت تک گم کی جائے گی

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت نےایک مرتبہ یوں اپنے رنج وغم کااظہار کہا۔

كَانَ الضِّیَاءَ. وَكَانَ النُّورَ نَتْبَعُهُ،وَكَانَ بَعْدَ الإِلَهِ السَّمْعَ وَالْبَصَرَا

آپ سراپانوراورہدایت تھےجن کی اللہ کے بعدہم پیروی کرتے تھے،ہمارے کان اورہماری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے لیے وقف تھیں

فَلَیْتَنَا یَوْمَ وَارَوْهُ بِمَخْبَئِهِ،وَغَیَّبُوهُ وَأُلْقَوْا فَوْقَهُ الْمَدَرَا

کاش اس روزجب لوگوں نے آپ کوقبرمیں چھپایا،اورآپ کی قبرپرمٹی ڈالی

لَمْ یَتْرُكِ اللهُ مِنَّا بَعْدَهُ أَحَدًا ،وَلَمْ یَعِشْ بَعْدَهُ أُنْثَى وَلا ذَكَرَا

اللہ ہم میں سے کسی کوباقی نہ رکھتا،اورہم میں سے کسی مرداورعورت کوزندہ نہ چھوڑتا

حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کی مشرکین پرہجو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرمرثیے کے علاوہ ان کے مجموعہ کلام میں پندونصائح اورحکمت وموعظت پربھی مبنی بہت سے اشعار موجود ہیں ،ان کی چندمثالیں پیش ہیں ۔

والزم مجالسة الکرام وفعلھم،واذلاتبعت فالبصرن من تتبع

شریف لوگوں کے ساتھ بیٹھواٹھواوران کے افعال واعمال کی نقل کرو،اورجب کسی کی پیروی کروتوغورکروکہ کس کااتباع کررہے ہو

اعرض عن العوراء حیث سمتھا،واصفح کانک غافل لاتسمح

بری باتوں کے سننے سے پرہیزکیاکرو،جیسے تم نے ان کوسناہی نہیں

ندع السوال عن الاموروبحثھا،ولرب حافرحفرة ھویصرع

ہم کسی بات کی کھودکریدمیں نہیں پڑتے ،کیونکہ گڑھاکھودنے والابسااوقات اسی میں پچھاڑاجاتاہے

اخلاء الرخاء ھم کثیر،ولکن فی البلاء ھم قلیل

خوشحالی کے زمانے کے بہت دوست ہوتے ہیں ،لیکن تنگ دستی اورمصیبت میں بہت کم رہ جاتے ہیں

لاتنبعن غوایة لصبابة،ان الغوایتہ کل شر تجمح

عشق ومحبت کی گمراہی میں مت پڑو،بے شک اس قسم کی گمراہی تمام برائیوں کوجمع کردیتی ہے

وکل اخ یقول اناوفی،ولکن لیس یفعل مایقول

ہردوست یہی کہتاہے کہ میں باوفاہوں ،لیکن جوکچھ وہ کہتاہے وقت آنے پراس پرعمل نہیں کرتا

سویٰ خل لہ حسب ودین،نذاک لمایقول ھوالفعول

سوائے اس دوست کے جوشریف النسل اوردین دارہو،وہ جوکچھ کہے گاوہی کرے گا

مختصریہ کہ حسان رضی اللہ عنہ نے اپنے زورکلام سے دشمنان حق کاناطقہ بندکردیااوراہل حق کواس قدرمسرورکیاکہ خودلسان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت پائی۔

[1] صحیح بخاری کتاب المساقات بَابٌ فِی الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ المَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِیَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَیْرَ مَقْسُومٍ

[2] مسند احمد۵۵۵

[3] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا، وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ المُسْلِمِینَ۲۷۷۸،وفضائل أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِی عَمْرٍو القُرَشِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ،جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب عثمان ابن عفان۳۷۰۳،السنن الکبریٰ للبیہقی۱۱۹۳۳

[4] مصنف ابن ابی شیبة۳۲۰۲۳، مسند البزار ۳۹۱، السنن الکبری للنسائی۴۳۷۶،صحیح ابن خزیمة۲۴۸۷،صحیح ابن حبان۶۹۲۰،سنن دارقطنی۴۴۳۶

[5] المعجم الکبیرللطبرانی۱۲۲۶

[6] رجال صحیح مسلم ۳۳۵،۱۶۷؍۱، تھذیب الاسماء وللغات ۱۱۷، ۱۵۶؍۱،تھذیب الکمال فی اسماء الرجال ۱۷؍۶،تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۷۸؍۱۲

[7] تھذیب الکمال فی اسماء الرجال ۱۷؍۶

[8] ابن سعد۲۷۲؍۸

[9] معرفة الصحابة لابی نعیم ۸۴۵؍۲

[10] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۳۴۵؍۱

[11] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۳۴۲؍۱، اسدالغابة۶؍۲

[12] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۳۴۱؍۱

[13] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۳۴۵؍۱

[14] معرفة الصحابة لابی نعیم۸۴۶؍۲

[15] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۲۹۶؍۱

[16] اسدالغابة۶۳۰؍۱

[17] معجم الصحابة للبغوی۱۵۰؍۲

[18] التاریخ الکبیرللبخاری بحواشی محمود خیل ۲۹؍۳،تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۸۱؍۱۲

[19] طبقات فحول الشعرائ۲۱۷؍۱

[20] معرفة الصحابة لابی نعیم ۸۴۵؍۲

[21] معجم الصحابة لابن قانع ۱۹۹؍۱

Related Articles