بعثت نبوی کا بارهواں سال

شب برات یعنی معراج کی عید

عیدیں  اورتہوارمذاہب وادیان کی خاص نشانیاں  ہوتی ہیں  اوران کاثبوت صرف کتاب وسنت سے  ہی لیاجاسکتاہے  لہذابغیرشرعی دلیل کے  کسی دن یارات کو تہوار والااجتماع اورنمازیاروزہ کے  استحباب کے  عقیدہ سے  خاص عبادت کرناجائزنہیں  ہے  ، اسلام   اللہ   تعالیٰ کانازل کردہ پسندیدہ دین ہے  جوقیامت تک باقی رہے  گااس سے  پہلے  تمام ادیان ومذاہب کواس نے  منسوخ کردیاہے  ، دین اسلام میں  صرف دوعیدوں  عیدالفطراورعیدالاضحیٰ کاثبوت ہے  اس کے  علاوہ کسی اور عیدکاثبوت تودورکی بات ہے  تصورتک نہیں  ہے ، اسلام نے  ان دوعیدوں  کے  سواباقی تمام تہواروں  کوباطل قراردیاہے ،

عَنْ أَنَسٍ،  قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ وَلَهُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُونَ فِیهِمَا،  فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِیهِمَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ،  فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَیْرًا مِنْهُمَا: یَوْمَ الْأَضْحَى،  وَیَوْمَ الْفِطْرِ

جیسے  انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے جب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لائے  تو اہل مدینہ دومخصوص دنوں  میں  کھیل کو د اور خوشیوں  کا مظاہرہ کرتے  تھے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھایہ دودن کیاہیں  ؟انہوں  نے  کہاہم دورجاہلیت میں  ان دنوں  میں  کھیلتے  کودتے  اور خوشیاں  منایاکرتے  تھے ،  تو رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایابے  شک   اللہ   تعالیٰ نے  تمہیں  ان کے  بدلے  دوبہترین دن دے  دیئے  ہیں  ، ایک عیدالاضحیٰ اوردوسرا عید الفطر کا دن۔ [1]

شب برات یامعراج کی عیدجسے  لوگ ستائیس رجب کی رات کودھوم دھام سے  مناتے  ہیں  ،  پرسوز تقریروں  ، تلاوت قرآن اورگڑگڑاکردعاؤں  میں  گزارتے  ہیں  ، بعض لوگ عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  منسوب من گھڑت قصہ معراج عزت واحترام سے  پڑھتے  ہیں  ، ابوہارون العبدی کذاب ومتروک کی طویل من گھڑت حدیث پڑھتے  ہیں  جس میں  واقعہ معراج افسانوی اندازمیں  بیان کیا گیاہے حالانکہ صحیح یہ ہے  کہ معراج کی رات کاتعین ثابت ہے  اورنہ کسی صحیح تاریخ کاثبوت ہے ، کسی صحابی رضی   اللہ   عنہ رسول سے  یہ رات منانا ثابت نہیں  اورنہ ہی وہ اس رات میں  کوئی خاص عبادت کرتے  تھے  ،  سلف صالحین میں  سے  بھی کسی نے  معراج کی رات کاتعین کیاہے  اورنہ دن یامہینے  کااورنہ کسی نے  اس مخصوص رات میں  قیام یامخصوص دن میں  روزہ کی ترغیب دی ہے  بلکہ یہ تمام چیزیں  بعدوالے  لوگوں  کی ایجادہیں  ،

 وَلَمْ یَقُمْ دَلِیلٌ مَعْلُومٌ لَا عَلَى شَهْرِهَا وَلَا عَلَى عَشْرِهَا وَلَا عَلَى عَیْنِهَا،  بَلِ النُّقُولُ فِی ذَلِكَ مُنْقَطِعَةٌ مُخْتَلِفَةٌ لَیْسَ فِیهَا مَا یُقْطَعُ بِهِ،  وَلَا شُرِعَ لِلْمُسْلِمِینَ تَخْصِیصُ اللَّیْلَةِ الَّتِی یُظَنُّ أَنَّهَا لَیْلَةُ الْإِسْرَاءِ بِقِیَامٍ وَلَا غَیْرِهِ،  وَلَا كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ یَقْصِدُونَ تَخْصِیصَ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ بِأَمْرٍ مِنَ الْأُمُورِ وَلَا یَذْكُرُونَهَا،  وَلِهَذَا لَا یُعْرَفُ أَیَّ لَیْلَةٍ كَانَتْ؟ وَإِنْ كَانَ الْإِسْرَاءُ مِنْ أَعْظَمِ فَضَائِلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَمَعَ هَذَا فَلَمْ یُشْرَعْ تَخْصِیصُ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلَا ذَلِكَ الْمَكَانِ بِعِبَادَةٍ شَرْعِیَّةٍ،  بَلْ غَارُ حِرَاءٍ الَّذِی ابْتُدِئَ فِیهِ بِنُزُولِ الْوَحْیِ وَكَانَ یَتَحَرَّاهُ قَبْلَ النُّبُوَّةِ لَمْ یَقْصِدْهُ هُوَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ مُدَّةَ مُقَامِهِ بِمَكَّةَ،  وَلَا خُصَّ الْیَوْمُ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْوَحْیُ بِعِبَادَةٍ وَلَا غَیْرِهَا وَلَا خُصَّ الْمَكَانُ الَّذِی ابْتُدِئَ فِیهِ بِالْوَحْیِ وَلَا الزَّمَانُ بِشَیْءٍ ،  وَمَنْ خَصَّ الْأَمْكِنَةَ وَالْأَزْمِنَةَ مِنْ عِنْدِهِ بِعِبَادَاتٍ لِأَجْلِ هَذَا وَأَمْثَالِهِ، كَانَ مِنْ جِنْسِ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِینَ جَعَلُوا زَمَانَ أَحْوَالِ الْمَسِیحِ مَوَاسِمَ وَعِبَادَاتٍ،  كَیَوْمِ الْمِیلَادِ،  وَیَوْمِ التَّعْمِیدِ،  وَغَیْرِ ذَلِكَ مِنْ أَحْوَالِهِ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ   اللہ   نے  فرمایااس رات کے  تعین، تاریخ یامہینہ پرکوئی دلیل نہیں  ہے بلکہ مختلف اقوال ہیں  (جن کی روایات بے  سنداورمن گھڑٹ ہیں  جن کاکوئی اعتبارنہیں  ) اس کے  علاوہ شرعی طورپرشب معراج کی عبادت مسلمانوں  کے  لئے  خاص نہیں  کی گئی ہے  ، مزیدفرمایاصحابہ کرام اورتابعین عظام معراج کی رات میں  عبادت کے  خاص کام نہیں  کرتے  تھے بلکہ وہ تو(اس اندازسے ) اس کاتذکرہ ہی نہیں  کرتے  تھے  اوریہ بات بھی معلوم نہیں  کہ وہ رات (متعین طورپر)کونسی تھی ؟اگرچہ یہ مسلم ہے  کہ معراج کی رات آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  خاص اور عظیم الشان فضائل اورمعجزوں  میں  سے  ہے  لیکن اس کے  باوجود شرعاًاس رات یااس جگہ (جہاں  سے  معراج ہوئی تھی )کوئی عبادت ضروری قرارنہیں  دی گئی بلکہ غارحراجس میں  ابتداوحی نازل ہوئی اوربعثت سے  پہلے  جہاں  آپ تشریف لے  جایاکرتے  تھے ، بعثت کے  بعدمکہ معظمہ میں  رہتے  ہوئے  بھی آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  یاکسی صحابی رضی   اللہ   عنہ نے  اس (غار) میں  عبادت مخصوصہ کاقصدنہیں  کیااورنہ نزول وحی کے  دن نزول وحی کے  باعث آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  یاصحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم نے  کسی عبادت کی تخصیص کی اورنہ جس جگہ اور جس وقت وحی کی ابتداہوئی کوئی عبادت مخصوص کی گئی، اورجن لوگوں  نے  مقامات اوراوقات مخصوصہ کوایسے  واقعات کی بناپرعبادات کے  لئے مخصوص کیاہے  وہ اہل کتاب ہیں  ، جنہوں  نے  مسیح علیہ السلام کے  حالات(پڑھ کر)مواسم عبادات مقررکرلئے  جیسے  یوم میلاداوریوم تعمیدوغیرہ ۔ [2]

بعض لوگ اس رات کی فضیلت میں  اس روایت سے  استدلال کرتے  ہیں  ۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ،  فَقُومُوا لَیْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا،  فَإِنَّ اللَّهَ یَنْزِلُ فِیهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْیَا،  فَیَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِیَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا،  حَتَّى یَطْلُعَ الْفَجْرُ

سیدناعلی رضی   اللہ   عنہ بن ابوطالب سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھواس لئے  کہ اس میں  غروب شمس سے  فجر طلووع ہونے  تک آسمان دنیا پر   اللہ   تعالیٰ نزول فرماتے  ہیں  اور یہ کہتے  ہیں  ہے  کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں  اس کی مغفرت کروں  ،  کوئی روزی کا طلبگار کہ میں  اس کو روزی دوں  ،  ہے  کوئی بیمار کہ میں  اس کو بیماری سے  عافیت دوں  ہے  کوئی ایسا ہے  کوئی ایساہے یہاں  تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔ [3]

إسناده ضعیف لضعف ابن یسرة واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبی یسرة

اس روایت کی اسناد ابن یسرہ کی وجہ سے  ضعیف ہے جس کانام ابوبکربن عبد  اللہ   بن محمدبن ابی یسرہ تھا۔

قال فیه أحمد بن حنبل وابن معین یضع الحدیث

اس سلسلہ میں  امام احمدبن حنبل رحمہ   اللہ   اورابن معین رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  یہ حدیثیں  گھڑاکرتاتھا،

حكم الألبانی ضعیف جدا أو موضوع

شیخ البانی رحمہ   اللہ   فرماتے  ہیں  یہ روایت ضعیف اورمن گھڑت ہے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں    اللہ   تعالیٰ کے  نام سے  جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ‎﴿١﴾‏(بنی اسرائیل)
پاک ہے  وہ   اللہ   تعالیٰ جو اپنے  بندے  کو رات ہی رات میں  مسجد حرام سے  مسجد اقصیٰ تک لے  گیا جس کے  آس پاس ہم نے  برکت دے  رکھی ہے ،  اس لیے  کہ ہم اسے  اپنی قدرت کے  بعض نمونے  دکھائیں  ، یقیناً   اللہ   تعالیٰ خوب سننے  دیکھنے  والا ہے

اللہ تبارک تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیات نازل فرمائیں ، آیت کے شروع میں ہی سبحان کا ذکر کیا گیا، عام طورپراس کااستعمال ایسے موقع پرہوتاہے جب کسی عظیم الشان واقعے کاذکرہواورچونکہ یہ ایک بہت بڑاغیرمعمولی واقعہ تھاجو اللہ تعالیٰ کی غیرمحدود قدرت سے رونماہو ا، اورسبحان کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ عظیم کتنا بھی محال ہو اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل نہیں اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں ، وہ تواپنی قدرت کالفظ کن سے پلک جھپکنے میں جوچاہے کرسکتاہے ، اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اورکوتاہیوں سے پاک ہے ، اوربتایا گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کورات کے ابتدائی حصہ میں روحانی طورپرنہیں بلکہ حالت بیداری میں جسم مبارک اورروح کے ساتھ علی الاطلاق تمام مساجدمیں سے جلیل ترین مسجد مسجد حرام سے ایلیاء میں مسجد اقصیٰ تک جوفضیلت والی مسجدوں میں شمارہوتی ہے لے جایاگیا، اورمکہ معظمہ سے القدس تک چالیس راتوں کادوردرازکا سفرپوری رات میں نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہو اپھراسی رات واپس لایاگیا، اسے اسراء کہتے ہیں اورپھرمسجد اقصٰی سے اپنے عجائبات اورآیات کبریٰ دکھانے کے لئے اپنے بندے اوررسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوگدھے سے بڑااورخچرسے چھوٹے براق پر سوار کرکے عالم بالالے جایاگیا ، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اوردیکھنے والا۔

سب سے  پہلے   اللہ   تعالیٰ نے  ارض مقدس کاتذکرہ ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے  وقت فرمایا

وَنَجَّیْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ۝۷۱ [4]

ترجمہ:اور ہم اسے  اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے  گئے  جس میں  ہم نے  دنیا والوں  کے  لیے  برکتیں  رکھی ہیں  ۔

ابراہیم علیہ السلام کے  بعداس کاذکر پانچ سوسال کے  وقفے  کے  بعدموسیٰ علیہ السلام کے  ذکرمیں  فرمایا

یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۝۲۱ [5]

ترجمہ: اے  برادرانِ قوم! اس مقدس سر زمین میں  داخل ہو جاؤ جو   اللہ   نے  تمہارے  لیے  لکھ دی ہے  ،  پیچھے  نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے ۔

مگربنی اسرائیل نے  اس ارض مقدس میں  داخل ہونے  سے  انکارکردیا، مصرمیں  فرعون کے  ظلم وستم سے  نجات حاصل کرنے  کے  بعدبنی اسرائیل کوایک بارپھراس بابرکت زمین کی ملکیت ملی۔

 وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا۝۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ بِمَا صَبَرُوْا۝۰ۭ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ۝۱۳۷ [6]

ترجمہ:اور ان کی جگہ ہم نے  ان لوگوں  کو جو کمزور بنا کر رکھے  گئے  تھے  اس سرزمین کے  مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے  ہم نے  برکتوں  سے  مالا مال کیا تھا اس طرح بنی اسرائیل کے  حق میں  تیرے  رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں  نے  صبر سے  کام لیا تھا اور ہم نے  فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا جو وہ بناتے  اور چڑھاتے  تھے ۔

پانچ سوسال گزرنے  کے  بعدقرآن مجیدایک مرتبہ اورارض مقدس کا ذکر کرتاہے ۔

 وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا۝۰ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ۝۸۱ [7]

ترجمہ:اور سلیمان کے  لیے  ہم نے  تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو اس کے  حکم سے  اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں  ہم نے  برکتیں  رکھی ہیں  ،  ہم ہر چیز کا علم رکھنے  والے  تھے ۔

پھرارض مقدس کاذکر معراج کے  واقعہ میں  ہوتاہے ۔

 سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝۱ [8]

ترجمہ:پاک ہے  وہ جو لے  گیا ایک رات اپنے  بندے  کو مسجدِ حرام سے  دور کی اس مسجد تک جس کے  ماحول کو اس نے  برکت دی ہے  تاکہ اسے  اپنی کچھ نشانیوں  کا مشاہدہ کرائے  حقیقت میں  وہی ہے  سب کچھ سننے  اور دیکھنے  والا۔

یعنی اس سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ ارض مقدس میں  کوئی خاص واقعہ رونما ہوگا ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،  قَالَ: قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِی شَامِنَا،  وَفِی یَمَنِنَا قَالَ: قَالُوا: وَفِی نَجْدِنَا؟ قَالَ: قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِی شَامِنَا وَفِی یَمَنِنَا قَالَ: قَالُوا: وَفِی نَجْدِنَا؟ قَالَ: قَالَ: هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ،  وَبِهَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ

عبد  اللہ   بن عمر رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااے    اللہ  !ہمارے  شام پررحم فرمااورہمارے  یمن پررحم فرما، لوگوں  نے  کہااورہمارے  نجدپر؟نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پھرفرمایااے    اللہ  !ہمارے  شام پررحم فرمااورہمارے  یمن پررحم فرما، لوگوں  نے  کہااورہمارے  نجدپر؟ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاوہاں  زلزلے  آئیں  گے  اورتباہیاں  رونماہوں  گی اوروہیں  سے  شیطان اپناسرنکالے  گا ۔ [9]

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ،  قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، إِذْ بَعَثَ اللهُ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ،  فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَیْضَاءِ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ،  بَیْنَ مَهْرُودَتَیْنِ،  وَاضِعًا كَفَّیْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَیْنِ،  إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ،  وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ،  فَلَا یَحِلُّ لِكَافِرٍ یَجِدُ رِیحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ،  وَنَفَسُهُ یَنْتَهِی حَیْثُ یَنْتَهِی طَرْفُهُ،  فَیَطْلُبُهُ حَتَّى یُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ،  فَیَقْتُلُهُ،

نواس بن سمعان رضی   اللہ   عنہ مروی ہے (لوگ بڑی گھبراہٹ میں  ہوں  گے  تو)  اللہ   تعالیٰ مسیح ابن مریم کومبعوث فرمائے  گا وہ دمشق(شہر)کے  مشرقی جانب سفیدمینارکے  قریب اتریں  گے  انہوں  نے  گیرورنگ کی چادریں  زیب تن کی ہوں  گی اوردونوں  ہاتھ دوفرشتوں  کے  پروں  پررکھے  ہوں  گے ، سرنیچے  کرتے  وقت ان کے  سرسے  (پانی کے )قطرات گریں  گے اورسربلندکرتے  وقت موتیوں  کی مانندقطرات لڑھکتے  ہوئے  دکھائی دیں  گے ، یہ ناممکن ہوگاکہ کوئی کافرعیسیٰ علیہ السلام کے  سانس کی ہواکومحسوس کرے  اوروہ مرنہ جائے ،  مسلمانوں  کے  امیرکہیں  گے  کہ آپ آئیں  اورہمیں  نمازکی امامت کرائیں  ،  عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں  گے  کہ میں  امامت نہیں  کروں  گابیشک تم میں  سے  بعض لوگ بعض پرامیرہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  اس امت کوعزت عطافرمائی ہے ،  وہ دجال کوتلاش کریں  گے  یہاں  تک کہ اسے  لدشہرکے  دروازے  پرپائیں  گے  تواسے  قتل کردیں  گے ۔ [10]

وہ صلیب کوتوڑدیں  گے  ، خنزیرکوہلاک کردیں  گے  اورجزیہ کاخاتمہ کردیں  گے ۔

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ،  لَیُوشِكَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیكُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَكَمًا عَدْلًا،  فَیَكْسِرَ الصَّلِیبَ،  وَیَقْتُلَ الخِنْزِیرَ،  وَیَضَعَ الجِزْیَةَ،  وَیَفِیضَ المَالُ حَتَّى لاَ یَقْبَلَهُ أَحَدٌ،  حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا اس ذات کی قسم جس کے  قبضہ میں  میری جان ہے  کہ عنقریب ابن مریم تمہارے  درمیان نازل ہوں  گے  انصاف کے  ساتھ فیصلہ کرنے  والے  ہوں  گے  صلیب توڑ ڈالیں  گے  خنزیر کو قتل کر ڈالیں  گے  جزیہ ختم کر دیں  گے  (کیونکہ اس وقت سب مسلمان ہوں  گے ) اور مال بہتا پھرے  گا حتیٰ کہ کوئی اس کا لینے  والا نہ ملے  گا اس وقت ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے  بہتر سمجھا جائے  گا۔ [11]

ان کومستردکرنے  والاہر یہودی اورانہیں  خدائی کادرجہ دینے  والاہرعیسائی انہیں    اللہ   کابندہ اوررسول مامورمن   اللہ   مان لے  گا۔

وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ۝۰ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا۝۱۵۹ۚ  [12]

ترجمہ:اور اہل کتاب میں  سے  کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے  پہلے  اس پر ایمان نہ لے  آئے  گا اور قیامت کے  روز وہ ان پرگواہی دے  گا۔

دوسرے  انسانوں  کی طرح وہ بھی موت کاذائقہ چکھیں  گے ۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۱۸۵            [13]

ترجمہ:آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے  اور تم سب اپنے  اپنے  پورے  اجر قیامت کے  روز پانے  والے  ہو،  کامیاب دراصل وہ ہے  جو وہاں  آتشِ دوزخ سے  بچ جائے  اور جنت میں  داخل کر دیا جائے ،  رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [14]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے  فنا ہو جانے  والی ہے ، اور صرف تیرے  رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے  والی ہے ۔

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى۝۵۵  [15]

ترجمہ:اِسی زمین سے  ہم نے  تم کو پیدا کیا ہے  ،  اسی میں  ہم تمہیں  واپس لے  جائیں  گے  اور اسی سے  تم کو دوبارہ نکالیں  گے ۔

اوران کی تدفین رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پہلومیں  ہوگی۔

[1] سنن ابی داودکتاب الصلوٰة بَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۱۱۳۴، مسند احمد ۱۳۶۲۲،مستدرک حاکم ۱۰۹۱

[2] زادالمعاد۵۷؍۱

[3] سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ مَا جَاءَ فِی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۱۳۸۸

[4] الانبیائ۷۱

[5] المائدہ۲۱

[6] الاعراف۱۳۷

[7] الانبیاء ۸۱

[8] بنی اسرائیل۱

[9]صحیح بخار ی كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ مَا قِیلَ فِی الزَّلاَزِلِ وَالآیَاتِ۱۰۳۷

[10] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ۷۳۷۳

[11] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ نُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ۳۴۴۸

[12] النسائ۱۵۹

[13] آل عمران۱۸۵

[14] الرحمٰن۲۶،۲۷

[15] طہ۵۵

Related Articles