ہجرت نبوی کا پہلا سال

عبداللہ بن سلام کاقبول اسلام

یہوداہل کتاب تھے اوراپنی کتاب تورات میں اورانبیاء سابقین کی بشارتوں سے نبی آخرالزماں کے مبعوث ہونے کے منتظرتھے ،وہ جانتے تھے کہ اس نبی کی بعثت کازمانہ قریب آگیاہے ،وہ اپنی کتاب میں اس نبی کے نام احمد اورجگہ سے خوب واقف تھے ،اس لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچ گئے توعلمائے یہودخاص طورپرآپ سے ملاقات کرنے کے لئے حاضرہوئے،اللہ تعالیٰ نے جن کے مقدرمیں خوش بختی،سعادت لکھ دی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے ہی پہچان گیاکہ جس گوہر مقصود کے ہم منتظرتھے وہ یہی ہیں ،پھروہ ہرطرح کے تعصبات کوپھینک کربلاتردداوربلاتوقف مسلمان ہوگیا اورجن کی قسمت میں محرومی تھی وہ اسلام کی روش اورپاکیزہ شاہراہ کودیکھ ہی نہ سکے اور جانتے بوجھتے کہ نازل ہونے والاکلام سچ ہے ،جوسابقہ تمام انبیاء اورکتابوں کی تصدیق کرتاہے ، اوران باتوں اورحقائق کی خبردیتاہے جوانسان کے علم سے باہرہیں ،اور آپ کی صفات جووہ اپنی کتاب میں لکھی ہوئے پاتے تھے اس کے مطابق جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخرالزماں ہیں مگر شومی قسمت اپنے مذہبی تعصبات میں ڈوب کرحق کےمقابلے پرتل گے ،اللہ کاکلام توسربلندرہااورہمیشہ سربلندہی رہے گا۔

۔۔۔ وَكَلِمَةُ اللهِ هِیَ الْعُلْیَا۔۔۔ [1]

ترجمہ: اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے۔

مگرانہوں نے دنیا وآخرت کے گھاٹے کا سوداکرلیا ۔

مدینہ میں بنوقینقاع کے ایک سرداراورتورات کے بڑے عالم حصین تھےجن کی کنیت ابویوسف تھی ،اسلام قبول کرنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ رکھا ،وہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں

قَالَ سَمِعْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَرَفْتُ صِفَتَهُ وَاسْمَهُ فَكُنْتُ مُسِرًّا لِذَلِكَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةَ فَسَمِعْتُ بِهِ

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانام،آپ کی صفات اورحلیہ مبارک جانتاتھامگرکسی پرظاہرنہیں کرتاتھایہاں تک کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔[2]

وَأَنَا عَلَى رَأْسِ نَخْلَةٍ فَكَبَّرْتُ،فَقَالَتْ لِی عَمَّتِی خَالِدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ لَوْ كُنْتَ سَمِعْتَ بِمُوسَى مَا زِدْتَ فَقُلْتُ وَاللهِ هُوَ أَخُو مُوسَى بُعِثَ بِمَا بعث بِهِ،فَقَالَت لی یَا بن أَخِی هُوَ الَّذِی كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُ سَیُبْعَثُ مَعَ نَفْسِ السَّاعَةِ، قُلْتُ نَعَمْ،قَالَتْ فَذَاكَ إِذًا ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَیْهِ فَأَسْلَمْتُ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى أَهْلِ بَیْتِی فَأَمَرْتُهُمْ

فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے میں اس وقت اپنے باغ میں کھجوریں اتاررہا تھامیں نے خوشی میں وہیں سے اللہ اکبرکانعرہ لگایا، میری پھوپی خالدہ بنت حارث نے کہا اگر توموسیٰ علیہ السلام کی خبر سنتاتواس سے زیادہ خوش نہ ہوتا،میں نے کہاہاں اللہ کی قسم یہ بھی موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں اوروہی دین دے کربھیجے گئے ہیں جوموسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے،میری پھوپی نے کہااے میرے بھتیجے !کیایہ وہی نبی ہیں جن کی آمدکی خبریں ہم سنتے چلے آئے ہیں کہ وہ قیامت کی سانس کے ساتھ مبعوث ہوں گے (قیامت کی سانس سے مرادوہ فتنے اورحوادث ہیں جوقیامت سے قبل ظہورپذیرہوں گے )میں نے کہاہاں یہ وہی نبی ہیں ،میں باغ سے نکل کرآپ کی خدمت میں حاضر ہوااوراسلام قبول کرلیاگھرواپس آ کر گھرکے دوسرے افراد کو بھی دعوت اسلام دی جوسب نے قبول کرلی۔[3]

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں آمد کا چرچا سنا اس وقت وہ اپنے باغ سے کھجوریں اتاررہے تھے، انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کرنے کاخیال کیاکہ وہ اللہ کے رسول ہیں یانہیں ،وہ کھجورکے تنے سے نیچے اترے اورکچھ کھجوریں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے ،

قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَیْهِ، وَقِیلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِی النَّاسِ لأَنْظُرَ إِلَیْهِ، فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَیْسَ بِوَجْهِ كَذَّا ب،وَكَانَ أَوَّلُ شَیْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلاَمَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِسَلاَمٍ

فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لائے تولوگ آپ کودیکھنے کے لئے کثرت سے جمع ہوگئے اورمیں بھی انہی لوگوں میں شامل تھالیکن میری نظرجونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرپڑی میں سمجھ گیاکہ اس چہرہ والاشخص کاذب نہیں ہوسکتا،اس کے بعدفرماتے ہیں ،پہلاکلام جوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناوہ یہ تھااے لوگو! آپس میں سلام کو پھیلاؤ،دوسرے اشخاص کوکھانا کھلایا کرواور صلہ رحمی کرو اوررات میں نمازپڑھوجب کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے غافل سورہے ہوں ،تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے۔[4]

فَقَالَ: إِنِّی سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ یَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ یَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمِنْ أَیِّ شَیْءٍ یَنْزِعُ الوَلَدُ إِلَى أَبِیهِ؟ وَمِنْ أَیِّ شَیْءٍ یَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَبَّرَنِی بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِیلُ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ ذَاكَ عَدُوُّ الیَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ

پھرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر عرض کیامیں آپ سے تین باتیں پوچھتاہوں جن کاجواب سوائے ایک نبی کے اورکوئی نہیں جانتامیرا پہلا سوال تویہ ہے کہ قیامت کی اولین نشانی کیاہے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ جنتی جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو سب سے پہلی چیزکیاکھائیں گے ؟میراتیسراسوال یہ ہے کہ بچہ اپنے ماں باپ کے مشابہہ کیوں ہوتاہے (اسی اثناء میں اللہ نے آپ پروحی نازل کردی)،عبداللہ بن سلام کے تینوں سوال سنکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرائیل علیہ السلام ان سوالوں کے بارے میں خبردے گئے ہیں عبداللہ بن سلام نے کہاکیاجبرائیل فرشتے نے آکرآپ کوخبردی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، جبرائیل علیہ السلام نے آکر مجھے خبردی ہے(یہودی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ پر ایمان لانے والوں ہی کوبرانہ کہتے تھے بلکہ اللہ کے برگزیدہ فرشتے جبریل علیہ السلام کوبھی گالیاں دیتے تھے اورکہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے،وہ رحمت کا فرشتہ نہیں عذاب کا فرشتہ ہے )عبداللہ بن سلام بولے وہ تو یہودیوں کادشمن ہے ،عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجیدکی یہ آیت تلاوت فرمائی۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ۝۹۷مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ۝۹۸ [5]

ترجمہ:ان سے کہو کہ جو کوئی جبرائیل سے عداوت رکھتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبرائیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہےجو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ یَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِیَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا الشَّبَهُ فِی الوَلَدِ: فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِیَ المَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاقیامت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ ایک آگ نکلے گی جولوگوں کومشرق سے بھگاتی ہوئی مغرب کی طرف لے جائے گی،جنتی جب جنت میں داخل ہوں گے توسب سے پہلے ان کی ضیافت مچھلی کی کلیجی سے ہوگی،اوربچہ کی مشابہت کاجہاں تک تعلق ہےتومردجب عورت کے قریب جاتاہے اس وقت اگرمردکی منی پہلے گرجاتی ہے توبچہ اسی کی شکل و صورت پرہوتاہے اگرعورت کی منی پہلے گرجائے توپھربچہ عورت کی شکل وصورت پرہوتاہے، تینوں سوالوں کے شافی جواب سنکرکلمہ شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیاکہ اس طرح مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی یہودیوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا

ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ الیَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلاَمِی قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِی عِنْدَكَ، فَجَاءَتِ الیَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللهِ البَیْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،أَیُّ رَجُلٍ فِیكُمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ،قَالُوا أَعْلَمُنَا، وَابْنُ أَعْلَمِنَا، وَأَخْیَرُنَا، وَابْنُ أَخْیَرِنَافَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،أَفَرَأَیْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللهِ، قَالُوا: أَعَاذَهُ اللهُ مِنْ ذَلِكَ،فَخَرَجَ عَبْدُ اللهِ إِلَیْهِمْ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ،فَقَالُوا: شَرُّنَا، وَابْنُ شَرِّنَا، وَوَقَعُوا فِیهِ

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہودانتہاکی جھوٹی قوم ہے اگرآپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہوگیا تو آپ کے سامنے مجھ پرہرطرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے میں چاہتاہوں کہ میری قوم سے میراحال دریافت کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سلام کو چھپا دیااور یہود کوبلابھیجا،جب وہ لوگ آگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھایہ بتاؤتم میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں ؟سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں تورات کا بڑا عالم اورسب سے بڑے عالم کابیٹاہے،ہم میں سے زیادہ بہتراورہم میں سے بہترکے صاحب زادے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایااگرعبداللہ بن سلام مجھ پرایمان لے آئے توپھرمجھے اللہ کاسچانبی تسلیم کرلوگے؟یہودیوں نے کہااللہ تعالیٰ انہیں اس شرسے محفوظ رکھے،اتنے میں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلام کلمہ شہادت اشھدان لاالٰہ الااللہ اشھدان محمد رسول اللہ پڑھتے ہوئے یہود کے سامنے آ گئے (یہودیوں نے جب عبداللہ بن سلام کایہ جواب سناتوہکابکارہے گئے ،انہیں توامیدہی نہیں تھی کہ ہمار ا ایک بڑاعالم بھی مسلمان ہوسکتا ہے) اب وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگےہم میں سب سے بدترین اورسب سے بدترین کا بیٹا ہےوہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔[6]

اللہ تعالیٰ نے یہ آیات

 قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ عَلٰی مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْــقَوْمَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۰ۧ [7]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکبھی تم نے سوچابھی کہ اگریہ کلام اللہ ہی کی طرف ہوااورتم نے انکارکردیا(توتمہاراانجام کیا ہوگا) اور اس جیسے ایک کلام پرتوبنی اسرائیل کاایک گواہ شہادت بھی دے چکاہے،وہ ایمان لے آیااورتم اپنے گھمنڈمیں پڑے رہے،ایسے ظالموں کواللہ ہدایت نہیں دیاکرتا۔

عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل فرمائیں ۔ [8]

یعنی قرآن مجیدجوتعلیم تمہارے سامنے پیش کررہاہے یہ کوئی انوکھی چیزنہیں ہے جودنیامیں پہلی مرتبہ تمہارے ہی سامنے پیش کی گئی اورتم یہ عذرکرسکوکہ ہم نرالی باتیں کیسے مان لیں جونوح انسانی کے سامنے کبھی آئی ہی نہ تھیں ،اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے زریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے تورات اورانجیل اوردوسری آسمانی کتب کی شکل میں آچکی ہیں اوران کاایک عام آدمی ان کومان چکاہے۔

بعض لوگ جونئے نئے مسلمان ہوئے تھے اورابھی ایمان ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہواتھاکہ حکم ہجرت ہواوہ لوگ مدینہ منورہ ہجرت کرکے توچلے آئے تھے مگرابھی دین میں مکمل طورپرداخل ہونے کے بجائے سرحدپر کھڑے تھے جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پرکھڑاہو،اگرفتح ہوتی دیکھے توساتھ آملے اورشکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے ، اگرانہیں کوئی خوشی ملتی جیسے لڑکاپیداہوتایاان کے گھوڑیاں بیاہتیں توکہتے یہ دین اچھاہے لیکن اس کے برعکس ان کے ہاں لڑکاپیدانہ ہوتایاگھوڑیاں نہ بیاہتیں توکہتے تواسلام کوبراسمجھتے،ان لوگوں کے اس رویئے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللهَ عَلٰی حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْهِهٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۝۱۱ [9]

ترجمہ:اورلوگوں میں کوئی ایساہے جوکنارے پررہ کراللہ کی بندگی کرتاہے اگرفائدہ ہواتومطمئن ہوگیااورجوکوئی مصیبت آگئی توالٹاپھرگیااس کی دنیابھی گئی اورآخرت بھی،یہ ہے صریح خسارہ۔

وفد سعد العشیرہ :

بت پرستی نے کسی نہ کسی صورت میں پوری دنیاکواپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا،لوگ معبودحقیقی کوچھوڑکرخودساختہ معبودوں کی پرستش میں مگن تھے ،یمن کا علاقہ بھی اسی گرداب میں پھنساہواتھا،یمن کے ایک قبیلہ بنوسعدالعشیرہ نے بھی اپنا ایک معبودگھڑرکھاتھاجس کی وہ دل وجان سے پرستش کرتے تھے،اس کی خوشنودی کے لئے مراسم عبودیت ادا کرتے تھے

لَمَّا سَمِعُوا بِخُرُوجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَثَبَ ذُبَابٌ. رَجُلٌ مِنْ بَنِی أَنَسِ اللهِ بْنِ سَعْدِ الْعَشِیرَةِ. إِلَى صَنَمٍ كَانَ لِسَعْدِ الْعَشِیرَةِ یُقَالُ لَهُ فَرَّاضٌ فَحَطَّمَهُ، ثُمَّ وَفَدَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – فَأَسْلَمَ وَقَالَ:

جب مسلمان مہاجرین کی یہ مختصر جماعت یمن پہنچی تواس قبیلہ کے ایک شخص ذباب رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے اوراسلام کی تعلیمات کاعلم ہوا اورجب آپ کی ہجرت کی خبرعام ہوئی توقبیلہ بنی انس اللہ بن سعد العشیرہ کے ذباب رضی اللہ عنہ نے سعدالعشیرہ کے بت کوجس کانام فراض تھا اسے ریزہ ریزہ کردیااورپھروہ بطوروفد یمن سے ایک لمباسفرطے کرکے بارگاہ نبوت میں حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیا اور یہ شعر کہے۔

تَبِعْتُ رَسُولَ اللهِ إِذْ جَاءَ بِالْهُدَى ،وَخَلَّفْتُ فَرَّاضًا بِدَارِ هَوَانٍ

میں نے رسول اللہ کی پیروی اختیارکرلی جب آپ ہدایت لائے، اورفراض کومیں نے ذلت کے مقام پرچھوڑدیا

شَدَدْتُ عَلَیْهِ شِدَّةً فَتَرَكْتُهُ ، كَأَنْ لَمْ یَكُنْ وَالدَّهْرُ ذُو حِدْثَانِ

میں نے اس پرحملہ کیااوراسے اس حالت میں چھوڑا،کہ گویاوہ تھاہی نہیں زمانہ توانقلاب والاہے ہی

فَلَمَّا رَأَیْتُ اللهَ أَظْهَرَ دِینَهُ ، أَجَبْتُ رَسُولَ اللهِ حِینَ دَعَانِی

جب میں نے دیکھاکہ اللہ نے اپنے دین کوغالب کردیا،توجب مجھے رسول اللہ نے دعوت دی تومیں نے قبول کرلی

فَأَصْبَحْتُ لِلإِسْلامِ مَا عِشْتُ نَاصِرًا ،وَأَلْقَیْتُ فِیهَا كُلْكُلِی وَجِرَانِی

میں جب تک زندہ رہوں گااسلام کامددگاررہوں گا،اوراسی میں اپناتمام ترزورلگاؤں گا

فَمَنْ مُبَلِّغٌ سَعْدَ الْعَشِیرَةِ أَنَّنِی ،شَرَیْتُ الَّذِی یَبْقَى بِآخَرَ فَانِ؟

ہے کوئی جوسعدالعشیرہ کویہ خبرپہنچادے کہ میں نے، فانی چیزکے بدلے باقی رہنے والی چیزخریدی ہے؟۔[10]

[1] التوبة۴۰

[2] فتح الباری ۲۵۲؍۷،دلائل النبوة للبیہقی۵۳۰؍۲ ،البدایة والنہایة۲۵۷؍۳

[3] فتح الباری ۲۵۲؍۷

[4] جامع ترمذی ابواب القیامةباب ۱۵۱۴،ح۲۴۸۵،مستدرک حاکم ۴۲۸۳،البدیة والنہایة۲۵۹؍۳

[5] البقرة۹۷،۹۸

[6] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۲۹، البدایة والنہایة۲۵۶؍۳

[7] الاحقاف ۱۰

[8]صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلاَمٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۸۱۲

[9] الحج ۱۱

[10] ابن سعد۲۵۷؍۱

Related Articles