مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

عربوں کاسماجی نظام

زمانۂ جاہلیت کے عرب میں معاشرے کی ہئیت ترکیبی قبائلی نوعیت کی تھی اورقبائلی عصبیت کے باعث لوگ اپنی جان ومال کومحفوظ تصورکرسکتے تھے ،عربوں کی اس قبائلی عصبیت کی اساس اتحادنسب تھی ،چنانچہ ایک باپ کی نسل سے تعلق رکھنے والے افرادایک رشتہ اتحادمیں پروے ہوئے تھے،جب کسی قبیلے کی تعدادبڑھ جاتی تووہ کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتااوریہ تمام حصے الگ الگ آزادی کے ساتھ زندگی بسرکرتے اورصرف خاص خاص موقعوں پرمشترکہ مفادوحفاظت کے لئے یاکسی غیرمعمولی فوجی مہم کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحدہوجاتے۔

 قبائل کے داخلی طبقات :

شعب(جمع شعوب)یہ بعیدترین نسبی تعلق ہوتاتھا،اس کی مثال عدنان اورقحطان ہیں ۔

قبیلہ(جمع قبائل)ایک شعب سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلی گروہ الگ الگ شاخوں میں تقسیم ہوجاتے ،ان میں ہرشاخ ایک قبیلہ کہلاتی تھی مثلاعدنان کی نسل سے تعلق رکھنے والے دوبڑے قبائل میں تقسیم ہوئے جن میں ایک مضرتھے اوردوسرے ربیعہ،قبائل کوجماجم کے نام سے بھی پکاراجاتاہے۔

عمارة(جمع عمائریاعمارات)ایک قبیلہ مختلف نسلی سلسلوں میں بٹ جاتاتھاان میں ہرسلسلہ کوعمارہ کہاجاتاتھامثلامضرکاقبیلہ مختلف عمائرمیں تقسیم ہواجن میں سے ایک قریش اوردوسرے بنوغفارتھے۔

بطن(جمع بطون یاابطن)عمارہ کی نسلیں مختلف شاخوں میں پھیل جاتی تھیں ان میں سے ہرشاخ کوبطن کہتے تھے،مثلاقریش کی متعددشاخوں میں سے ایک بنوعبدمناف اور دوسری بنومخزوم وغیرہ تھی۔

فخذ(جمع افخاذ)بطن کے متعددانساب الگ الگ فخذکہلاتے تھے،مثلا بطن عبدمناف میں بنوہاشم اوربنوامیہ کے فخذ تھے۔

فصیلہ(جمع فصائل)فخذکی مزیدتقسیم کوفصیلے کی اصطلاع سے ظاہرکرتے تھے مثلافخذبنوہاشم میں بنوابی طالب اوربنوعباس کے فصیلے تھے۔

اسرہ یاعائلہ۔فصیلہ متعددخاندانوں میں تقسیم ہوتاتھا،ہرخاندان کوایک الگ اسرہ یاعائلہ کے نام سے موسوم کیاجاتاتھامثلاآل ابی طالب کے اسروں میں آل جعفر،آل علی اورآل عقیل کے نام ملتے ہیں ۔

قبائل کی اس تقسیم میں ابن عبدرنے جزوی ترمیم کی ہے ،ان کے مطابق فخذکے بعدفصیلہ نہیں بلکہ عشیرہ ہوتاتھا یعنی کسی شخص کے اہل خاندان مثلاآل عباس وابی طالب،اس کے بعدفصیلہ تھاجوکسی شخص کے اہل خانہ(اہل بیت)سے عبارت تھا۔

قبائل کی درجہ بندی کے سلسلے میں علمائے انساب میں اختلاف ہے لہذااس ضمن میں کوئی بات حتمی طورسے نہیں کہی جاسکتی۔

زمانہ جاہلیت میں عرب کی آبادی بہت کم تھی اورزیادہ سے زیادہ آٹھ ہزارمحاربین کی جماعت فراہم ہوسکتی تھی ،اہل عرب میں لاقانونیت کاچلن تھا،کوئی مربوط سیاسی نظام نہ تھا،اسی لئے ہرقبیلے کی کوشش تھی کہ وہ اپنی قوت وطاقت میں اضافہ کرے،قوت میں اضافہ،کثرت تعدادہی کی صورت میں ممکن تھا،یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک اولادنرینہ کی کثرت انتہائی طمانیت کی بات تھی ،عرب جاہلیہ میں سرداری کے لوازمات میں ایک کثیرالعیال ہونابھی تھا،جماعت کی تعداد،اکثریت کی قوت اوررشتہ داریوں کے زیادہ سے زیادہ پھیلنے کوعرب عزت وغلبہ کاذریعہ سمجھتے تھے ،اس مقصدکے حصول کے لئے فقروفاقہ اورضروری کپڑوں و لباس کی محرومی کی وباعام کے باوجودتعددازواج پرکوئی پابندی نہ تھی کوئی شخص جتنی بیویاں چاہتارکھ سکتا تھا ،چونکہ ان متعددنکاحوں کامقصد زیادہ سے زیادہ بیٹے حاصل کرناتھاجوعزت ،شرف اورطاقت میں اضافے کاباعث تھے،

كَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ هَاشِمٍ قَدْ نَذَرَ حِینَ لَقِیَ مِنْ قُرَیْشٍ فی حَفْرِ زَمْزَمَ ما لقی: لِئَنْ وُلِدَ لَهُ عَشَرَةُ نَفَرٍ ثُمَّ بَلَغُوا مَعَهُ حَتَّى یَمْنَعُوهُ، لَیَنْحَرَنَّ أَحَدَهُمْ للَّه عِنْدَ الْكَعْبَةِ

اس لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کاچاہ زمزم کھودنے کے معاملہ پرقریش سے جھگڑاہوااوران کودبناپڑاتوانہوں نے نذرمانی کہ اگران کے دس بیٹے ہوئے اوروہ ان کی زندگی میں سن بلوغ کوپہنچ کران کی حمایت کے قابل ہوگئے تووہ ان میں سے ایک کوکعبہ میں اللہ کے لئے قربان کردیں گے۔[1]

عرب ان شادیوں کےذریعہ ایک طرف تو بیٹے حاصل کرتے تودوسری طرف اجنبیوں کواپناموالیٰ بنالیتے تھے ،شادی کی بدولت دوقبائل کے مابین الفت ودوستی ہوجایاکرتی تھی ،اس کی ایک بڑی اچھی مثال خالدبن یزیدبن معاویہ کی ہے وہ سخاوت اورفصاحت میں قریش کے اکابرمیں سے تھے،ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعدخالدحج کے لئے گیا وہاں اس نے رملہ بنت زبیربن العوام سے شادی کرلی(رملہ کے علاوہ اس کی دوبیویاں ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفربن ابی طالب اورآمنہ بنت سعیدبن العاص بن امیہ بھی تھیں ،بعدمیں آمنہ بنت سعیدبن العاص کوخالدنے طلاق دے دی تھی تواس نے ولیدبن عبدالملک سے شادی کرلی تھی)خالدکورملہ بنت زبیربن العوام سے بڑی محبت ہوگئی اس کاکہناتھامیرے دل میں جس قدرآل زبیرکے خلاف بغض تھااس قدرکسی کے خلاف نہ تھاحتی کہ میں نے انہی کی ایک دوشیزہ رملہ سے شادی کرلی چنانچہ آل زبیرمیرے لئے محبوب ترین لوگ بن گئے،یوں توعربی معاشرے میں عورتوں کی کوئی خاص عزت ومرتبہ نہیں تھامگرصاحب اولادخواتین کے شرف وعزت میں یقیناًاضافہ ہوجاتا تھا عربوں میں کثیر الاولاد عورت کوناتق کہتے تھے اوریہ عورتوں میں پسندیدہ صفت سمجھی جاتی تھی۔

نکاح وتولیدکے علاوہ افرادی قوت حاصل کرنے کادوسراطریقہ یہ تھاکہ رشتہ ولاء قائم کرکے زیادہ سے زیادہ موالیٰ حاصل کئے جائیں ،خونی رشتہ ہی کے زمرے سے ولاء اور معاہدہ کارشتہ تھاکیونکہ ان دونوں سے بھی قریب قریب وہی خلوص اوروہی محبت پیداہوجاتی تھی جوخونی رشتے سے ہوسکتی ہے،مولیٰ اپنے مولاپراورحلیف اپنے حلیف پرظلم برداشت نہیں کرتا۔[2]

عرب جاہلیہ میں موالیٰ حاصل کرنے کے یہ معروف طریقے تھے۔

حلف:

تحالف یاحلف کسی ایک قبیلے کادوسرے قبیلے کے ساتھ وفاق تھا،اس کی ضرورت کئی وجوہ سے پیش آتی تھی جن میں سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ کمزورقبائل اپنی حفاظت کے لئے طاقتوارقبائل سے منسلک ہوناچاہتے تھے،حلف کاطریقہ عربوں میں زمانہ قدیم سے چلاآتاتھا،اسلام سے پہلے ایک معاہدہ حلف الفضول کے نام سے ہوچکاتھاجومکہ کے اولین آبادکاروں میں طے ہواتھا،جس میں قبیلہ جرہم کے تین سرداروں نے حلف لے کراقرارکیاتھا کہ اگرکسی کمزوروبے بس پرظلم ہواتوہم اپنے خاندان سمیت اس وقت تک مظلوم کی حمایت کریں گے،

والأَخذ لِلضَّعِیفِ مِنَ القویِّ، وَالْغَرِیبِ مِنَ القاطِن

جب تک ظالم ،مظلوم کاحق ادانہ کردے اورضعیف کوقوی سے اور اجنبی کومقامی سے اس کاحق نہ دلادیں ۔[3]

اسی نام کادوسرامعاہدہ ہجرت سے قبل کاہے جومشہورہے،عرب میں قبائل کاڈھانچہ مسلسل بدلتارہتاتھابعض قبائل خوشحال ہوجاتے تھے اورتعدادبڑھ جانے کے باعث جب ایک وحدت سے کام چلانادشوارہوجاتاتودویادوسے زیادہ بطون میں تقسیم ہوجاتے ،دوسری طرف جب ایک قبیلے کوخوشحالی میسرنہ ہوتی تواس کی تعدادمیں کمی واقع ہو جاتی ، اس صورت میں یاتووہ کسی طاقتوارقبیلے کاسہاراڈھونڈتایادوسرے کمزورقبائل کاحلیف بننے کی کوشش کرتا،یہ قبائلی معاشرے میں اس کی بقاکے لئے ازبس ضروری ہوتااسی لئے مکہ کے قریب چندکمزورقبائل زیادہ ترقریش کے دست نگرہوکررہے گئے تھے،

الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ مَنَاةَ بْنِ كِنَانَةَ , وَالْمُصْطَلِقُ وَاسْمُهُ جَذِیمَةُ , وَالْحَیَا وَاسْمُهُ عَامِرٌ ابْنَا سَعْدٍ مِنْ خُزَاعَةَ وَعَضَلَ , وَالْقَارَةُ مِنْ وَلَدِ الْهُونِ بْنِ خُزَیْمَةَ , وَعَضَلُ هُوَ ابْنُ الدِّیشِ بْنِ مُحَلَّمٍ , وَسُمُّوا أَحَابِیشَ؛ لِأَنَّهُمْ تَحَبَّشُوا أَیْ: تَجَمَّعُوا وَهُمْ جَمِیعًا حُلَفَاءُ لِقُرَیْشٍ عَلَى بَنِی بَكْرٍ , وَیُقَالُ: تَحَالَفُوا عَلَى جَبَلٍ یُقَالُ لَهُ حُبْشِیٌّ عَلَى عَشَرَةِ أَمْیَالٍ مِنْ مَكَّةَ فَسُمُّوا بِهِ الْأَحَابِیشَ

چندقبائل حارث بن عبدالمناة بن کنانہ ،مصطلق جس کا نام جذیمہ، اور حیا جس کا نام عامر جو سعد کے بیٹےاور قبیلہ خزاعہ وعضل،قارہ جوکہ ہون بن خزیمہ کے بیٹے تھے، عضل جوکہ ابن دیش بن محلم کے بیٹے،انہیں احابیس سے موسوم کیا جاتاہے ،کیونکہ ا ن سارے قبائل نے جبل حبشی (یہ مکہ سے دس میل کی دوری پر ہے ) پرایک دوسرے کی مناصرت ومعاونت قسمیں کھائیں تھیں ،اسی مناسبت سے ان کانام احابیش قریش پڑ گیا تھا۔[4]

کسی قبیلے کی عددی اکثریت اس کی قوت اوراس قبائلی نظام میں اس کی حیثیت اورعزت کاسبب بنتی تھی ،اس لئے اپنی عددی قوت میں اضافہ کرنے کے لئے عرب قبائل اجنبیوں کوموالیٰ کی حیثیت سے قبول کر لیا کرتے تھے،حلیف ومولیٰ کی حفاظت کرنااوران کاانتقام لیناکسی بھی قبیلے کی عزت وناموس کا سوال ہواکرتاتھاچونکہ دوسروں پرغلبہ پانے کے لئے اوراپنی تعداد کو بڑھانے کے لئے حلف وولاء کاسہارالیاجاتاتھالہذامعاہدہ کرنے میں اس امرکی تخصیص نہ تھی کہ حلیف قبائل کاتعلق کسی مخصوص نسلی گروہ سے ہومثلادونوں قبائل عدنانی ہوں یادونوں قحطانی ہو یادونوں کاتعلق مضریاربیعہ سے ہو،بلکہ بعض اوقات عربوں نے اس قسم کے معاہدے ان غیر عرب اقوام سے بھی کئے جوسرزمین عرب میں آکربس جاتی تھیں ،جس کی مثال یہودکے قبائل بنوقریظہ،بنونضیراوربنی قینقاع ،عربوں کے قبائل بنواوس و خزرج کے حلیف تھے،بعض اوقات یہ حلف یامعاہدہ دوقبائل کے درمیان ہوتاتھااوربعض حالات میں ایک فرد(یاچندافراد)اورایک پورے قبیلے کے درمیان ہوتاتھا،جب کوئی آزاد شخص کسی قبیلے کی حفاظت میں آناچاہتاتووہ اس کامولیٰ بن جاتاتھا،ایسے میں اس کے لئے دونوں قبائل (یعنی نسبی قبیلہ اورحلفی قبیلہ)کی طرف نسبت کرناجائز سمجھا جاتا مثلاً

فلاں التمیمی ثم الوائلی یافلاں الوائلی ثم التمیمی وغیرہ،

ایسے حلیف جواپنی حفاظت کی غرض سے کسی طاقتوارقبیلے سے معاہدہ کرلیتے تھے یاتوعموماًاسی قبیلے کے اسیر ہوتے تھے اورآزادی کے بعداس کے معاہدبن جاتے تھے یاپھرکسی دوسرے قبیلے کی گرفت میں ہوتے تھے اورمعاہدقبیلے کاکوئی فردانہیں آزادکرادیتاتھا،ان لوگوں میں ایسے آزاد افرادبھی شامل ہوتے تھے جوکسی وجہ سے اپنے قبیلے سے الگ ہوکرکسی دوسرے قبیلے کی پناہ میں آکران کے پاس بس جاتے تھے مثلاً یاسربن عامر[5]جو یمن کے قبیلے کہلان سے تعلق رکھتے تھے ،مکہ مکرمہ آکربنومخزوم کے حلیف ہوگئے تھے اوروہ ان کی اولادبنومخزوم ہی کے افرادمیں شمارہوتی تھی اوریہ بنومخزوم کے حلیف یا مولی کہلاتے تھے ، دراصل معاشرے کے قبائلی نظام کے پیش نظرکوئی شخص اپنی زندگی،مال ودولت اورعزت وآبروکومحفوظ نہیں سمجھ سکتاتھاجب تک کہ وہ کسی نہ کسی قبیلے سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ نہ ہوتا،پھرقبائل میں باہمی جنگ وجدل کاسلسلہ بھی چلتارہتاتھااس لئے بعض اوقات ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے ساتھ یا بعض قبائل آپس میں مل کر تحالف (Confederation) کارشتہ قائم کرلیتے تاکہ دشمن قبائل کی غارت گری کے مقابلے پرحلیف قبائل متحدہ محاذپیش کرسکیں ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف کوممنوع قراردیااورفرمایا :

لا حِلْفَ فِی الْإِسْلامِ

اس کی ممانعت کاباعث بھی یہی تھاکہ اسلام میں کل مسلمان باہم بھائی بھائی ہوگئے،اس لئے قبائل کی جزوی اورمتحاربانہ عہدبندی اسلام کی نظرمیں مذموم ہے،منشاء یہ تھاکہ قبائل کی اندرونی چپقلش کوختم کرکے اسلامی اخوت کومستحکم کیاجائے ۔

استلحاق:

اس کاطریقہ یہ تھاکہ کوئی شخص کسی شخص کواپنے نسب میں داخل کرلیتاتھااس طورسے یہ نیاشخص اس خاندان کافردبن جاتاتھاایسے شخص کومستلحق اوردعی کہتے تھے۔ یہ مستلحق اوردعی کبھی غلام ،قیدی یامولیٰ بھی ہوتاتھا،عہدجاہلیت میں اس کی مثال ذکوان کی ہے جوبنی امیہ کے جدامیہ کاغلام تھا،امیہ نے ذکوان کااپنے نسب سے استلحاق کر لیا اوراس کی کنیت ابوعمررکھی اس طرح ذکوان کانام اباعمروبن امیہ پڑگیااوراسی نام سے وہ مشہورہوا،عرب جاہلیہ میں ایسے ادعیاء کی کمی نہیں تھی ،یہ ادعیاء اس بات کے بھی مجاز ہوتے تھے کہ دوسروں کواپنامستلحق اوردعی بنالیں ،چنانچہ زیرنظردورمیں بنوخلج کابھی پتہ چلتاہے جوقریش کے ادعیاء تھے اورخودبنوخلج کادعی ابن ہرمہ تھا۔[6]یہ استلحاق انفرادی بھی ہوتاتھااوراجتماعی بھی ،آخرالذکرصورت میں پوراقبیلہ بطن یافخذ،رشتہ استلحاق میں منسلک ہوجاتاتھا،استلحاق عموماًاس صورت میں وجود میں آتاکہ ایساگروہ کسی قبیلے میں آکرمقیم ہوجاتاتھایاپھراپنے دشمنوں کے خلاف ان سے مددطلب کرتاتھا،ایسے ادعیاء عموماًاپنے مستلحق کے خاندان کے افرادسمجھے جاتے تھے اورصریح کی طرح اپنے مستلحق کی وفات کے بعدمیراث کے حقدارہوتے تھے۔[7]

استلحاق کے ذریعہ دونوں فریق فائدے میں رہتے تھے ایک طرف تومستلحق یادعی اغیارکی دست بردسے محفوظ ہوجاتے تھے تودوسری طرف استلحاق کرنے والے قبائل کواپنی تعدادمیں اضافے کاموقع ملتاتھا ، استلحاق کی ایک مثال زیاد ابن ابیہ کی ہے جس کوبذریعہ استلحاق امیرمعاویہ نے اپنابھائی قراردیاتھا۔[8]

تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ کے بعد اس قسم کے استلحاق کی کوئی قانونی واخلاقی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔

مستلحق کی ضد خلیع تھی یعنی کسی شخص کوناپسندیدہ امورکی وجہ سے قبیلے سے خارج کردیا جاتا ، ایساشخص خلیع کہلاتاتھااس بات کااعلان خلیع کاباپ ایام حج کے موقع پرکرتاتھاکہ وہ اوراس کاقبیلہ اس شخص سے دست بردارہوتاہے اوراس کے کسی بھی فعل کی ذمہ داری اس پریااس کے قبیلے پرنہیں ہوگی ،ایسے شخص کوقتل کردینے پرقاتل کے اوپرکسی قسم کی دیت لازم نہیں آتی تھی،یہ خلیع آبادی سے دورتنہایاگروہ بناکے رہتے تھے ،کبھی یہ کسی کے ہتھے چڑھ جاتے توغلام بن جاتے اورکبھی یہ لوگ بھی دوسروں کوقتل کردیتے اورسامان تجارت لوٹ لیتے،ایسے عاق شدہ لوگ صحرامیں کسی جگہ جمع ہوکرایک گروہ بنالیتے اورلوٹ مارکرکے اپنا پیٹ پالتے تھے حضریوں کے مقابلے میں بدویوں میں یہ رواج زیادہ تھا۔

مواخاة:

حلف ہی سے مشابہ ایک رواج مواخاة کاتھا،یہ بھائی چارہ کبھی افرادکے مابین اورکبھی قبائل کے درمیان ہوتاتھا،رشتہ مواخاة استوارکرنے کامقصدبھی یہی تھاکہ کمزور افرادقبائل کوحامی اورمحافظ مل جائیں اوراس کے ساتھ ہی ساتھ حامی اورمحافظ قبائل وافرادکی عددی قوت میں اضافہ ہو،یوں اس مواخاة کافائدہ مخصوص سماجی حالات کی وجہ سے دونوں فریقوں کوملتاتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مواخاة مکہ مکرمہ میں کرائی تھی کیونکہ اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے بہت سے مسلمان اپنے قبیلے کی اعانت وامدادسے محروم ہوگئے تھے ،اورہجرت کے بعد مہاجرین وانصارکے مابین دوسری مواخاة قائم کرکے انہیں ایک دوسرے کابھائی بنادیاتھاتاکہ وہ ایک دوسرے کے مدمقابل آنے کے بجائے ایک دوسرے کے دست وبازوبن جائیں ۔

استرقاق(غلامی):

قبل اسلام عرب میں غلامی کااسی طرح رواج تھاجس طرح قرون قدیمہ ووسطیٰ میں اس کارواج باقی دنیامیں پایاجاتاتھا،عرب میں غلاموں کی اکثریت سیاہ فام حبشی الاصل لوگوں پرمشتمل تھی تاہم کچھ غلام سفیدفام اورغیرحبشی النسل بھی ہوتے تھے ،دیگربڑے شہروں کی طرح مکہ مکرمہ کی منڈی میں بھی ان کی خریدوفروخت ہوتی تھی ، اس دورمیں غلاموں کاسب سے مشہورتاجرعبداللہ ابن جدعان تھا جوقبیلہ تیم بن مرہ کاایک ممتازقریشی تھا،اس نے کاروانی تجارت اورغلاموں کی خریدوفروخت سے اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ مکے کے متمول اشخاص میں اس کاشمارہونے لگا،شاندارضیافتیں کھلانے میں اس کی دریادلی ضرب المثل تھی ،وہ اپنے عزووقارکی وجہ سے سیاسی معاملات میں بھی دخل رکھتاتھا[9]مکے کے قبائلی اتحادکاجوحلف الفضول کے نام سے مشہورتھامحرک عبداللہ ابن جدعان تھا۔

اس دورمیں غلام ان تمام معلوم ذرائع سے حاصل کئے جاتے تھے جواس عہدکی متمدن اقوام میں رائج تھے یعنی ۔

xجنگ میں ہاتھ آنے والے مغلوب افرادقیدی بنالئے جاتے تھے۔

xاکادکا،بھولے بھٹکے اورتنہاسفرکرنے والے مسافروں کوبھی اغواکرکے غلام بنالینے کارواج تھا۔

xخلیع اگرچالاک لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے توبلاجوازان کی پیدائشی آزادی کوسلب کرکےانہیں بھی غلام بنالیاجاتاتھا۔

x اس کے علاوہ لوگ اپنے بچوں کوبھی فروخت کردیتے تھے۔

xعرب،حبشہ اورقرب وجوارکے ممالک سے جانوروں کی طرح غلاموں کی خریدوفروخت بھی کرتے تھے،قبیلہ قریش میں بھی یہ تجارت جاری تھی ،جب کوئی شخص کسی غلام کوخریدلیتاتواس کے گلے میں رسی ڈال دیتااوراسے رسی سے پکڑکرگھرلے جاتاتھا۔[10]

ایسے اسیران جنگ جوفاتح قبائل کے ہاتھ آتے تھے انہیں گرفتارکرنے والے عموماان کے بال کاٹ کراپنے ترکش میں رکھ لیتے تھے اورجب تک ایسے لوگ اپنی آزادی خریدنہ لیں ان کے بال ان کے گرفتارکنندہ اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔[11]

عرب کےجاہلی معاشرے میں غلاموں کی کثرت تھی،خصوصاامراء اورملوک کے یہاں اس کی کوئی حدنہیں تھی،ان کے غلاموں اورکنیزوں کی تعدادسینکڑوں ،ہزاروں سے متجاوزتھی چنانچہ جب ذوالکلاع حمیری کاوفدخلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیاتواس کے خاندان اورقبیلے کے افرادکے علاوہ ایک ہزارغلام بھی اس کے ہمرکاب تھے۔[12]

الغرض اشراف عرب میں کسی کاگھرغلاموں سے خالی نہ تھا۔

اہل عرب باندیوں سے شادی بھی کرتے تھے اوران سے جواولادہوتی تھی انہیں بھی غلام ہی سمجھا جاتا تھا البتہ اگروہ کوئی بڑاکام انجام دیتے توانہیں آزادکرکے آقا اپنا بیٹا بنا لیتے تھے ،پھرایسے بیٹوں کی حیثیت میں اورآزادماؤ ں کی اولادمیں کوئی فرق نہیں ہوتاتھا،اس کی ایک مثال مشہورجاہلی شاعرعنترہ بن شدادالقبسی کی ہےجس کے باپ شداد نے اسے خاصی بڑی عمرکاہوجانے کے بعداپنابیٹاتسلیم کیاکیونکہ عنترہ ایک سیاہ فام لونڈی زبیبہ کے بطن سے تولدہواتھا،عنترہ کے دوسرے ماں جائے بھائی سب غلام تھے ، اس کی آزادی کاواقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بارایک عربی قبیلے نے بنی عبس کے کچھ لوگوں پرچھاپا مارا اوران کامال لوٹ لیا،بنی عبس کے بعض افرادنے ان کاپیچھاکیااوردونوں میں جنگ شروع ہوگئی،انہی میں عنترہ بھی تھا،اس کے باپ شدادنے اس سے کہاعنترہ حملہ کر،عنترہ نے جواب دیا،غلام کیاحملہ کرے گا وہ تودودھ دوہناجانتاہے ،اس پر اس کے باپ نے کہاحملہ کرتوآزادہے اس پرعنترہ نے ان سے جنگ کی اوران کے قبضے سے تمام مال غنیمت چھڑالیا،اس واقعہ کے بعداس کے باپ نے اسے بیٹاتسلیم کرلیا۔[13]

عرب جاہلیہ میں غلاموں کی حالت بھی لونڈیوں سے کم تکلیف دہ نہ تھی، اہل عرب میں غلاموں کوآزادکرنے کابھی تصورتھاجو فخرومباہات سمجھاجاتاتھا، غلاموں کے مالک ازخودیاکوئی دوسراشخص غلام خریدکر آزاد کردیتامگرحالت یہ تھی کہ آزادہونے کے باوجود غلام پراس کے مالک کاحق ملکیت قائم رہتاجسے وہ کسی اورکوفروخت کرسکتاتھا ۔

مگرغلام کوذیل طریقوں سےاپنی آزادی حاصل کرنے کاحق تھا۔

مکاتبت:

آزادی کاایک طریقہ مکاتبت تھا،کوئی غلام یالونڈی اپنی آزادی کے لئے اپنے آقاکوایک معاوضہ اداکرنے کی پیش کش کرے اورجب آقااسے قبول کرلے تودونوں کے درمیان شرائط طے ہوجائیں ،ضروری نہیں کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو،آقاکے لئے کوئی خدمت انجام دینابھی معاوضہ بن سکتاتھا،بشرطیکہ فریقین اس پرراضی ہوں ۔

تدبیر:

آزادی کاایک طریقہ یہ تھاکہ آقااپنے غلام کی آزادی مرنے سے قبل وصیت کردے توآقاکے مرنے پریہ غلام آزادہوجاتاتھا،یہ طریقہ تدبیراوراس طریقے سے آزادی حاصل کرنے والاغلام مدبرکہلاتاتھا،غلام کومدبرکرنے کے لئے عموماآقااس کونہ اپنی زندگی میں فروخت کرسکتاتھااورنہ ہی بطورہبہ وبخشش کسی کوعطاکرسکتاتھا۔

فدیہ :

آزادی کی ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ غلام زرفدیہ اداکردے اورایک صورت یہ تھی کہ آقااس کی کسی خدمت پرخوش ہوکراسے آزادکردے،حصول آزادی کے بعدیہ آزادکردہ غلام موالی کہلاتے تھے اوران کی نسبت ان کے آزادکنندہ کے قبیلے کی طرف ہوتی تھی اوروہ مثل رشتہ دارکے سمجھے جاتے تھے اوروراثت میں بھی حصہ دارہوتے تھے۔

مولیٰ (آزادکردہ غلام):

مولیٰ القرابت والولادت:

نسب ونسل سے قائم ہونے والی قرابت کادائرہ عرب کے معاشرے میں بڑاوسیع تھا،دنیاکی شایدہی کسی قوم نے اپنے شجرہ نسب کی حفاظت میں اتنااہتمام کیاہوجتناعربوں نے کیاہے ،علم انساب کی یہ اہمیت اس لئے تھی کہ اسی کے ذریعہ نسلی نجابت اورنسبی رشتوں کی حفاظت وصیانت ممکن تھی۔[14]

اسی نسب کے محورپرعرب جاہلیہ کی معاشرتی زندگی گردش کرتی تھی اوریہی رشتے اس کے سماج کے تانے بانے تھے ،چنانچہ بوقت ضرورت اس رشتے کے ناتے عرب ایک دوسرے سے مددطلب کرتے اوربوقت مفاخرت ان تعلقات پرفخرکرتے تھے،وہ محالفت وموالات جواس طورسے وجودمیں آتی تھی دوسری تمام اقسام حلف وولاء سے زیادہ قوی اورموثرہوتی تھی ،اسی لئے چچازادبھائی کومولیٰ کہاجاتاتھاجوافرادکے مابین قریب ترین رشتہ اتحاد سمجھا جاتاتھا۔اس قسم کومزیددودرجوں میں بانٹاجاسکتاہے۔

مولیٰ قرابت،مولیٰ ولادت:

مولیٰ قرابت:یہ قرابت شادی اورنکاح کے ذریعہ قائم ہوتی تھی،عرب جاہلیہ میں یہ طریقہ رائج تھاکہ ایک فردشادی بیاہ کے ناتے سے کسی غیرقبیلہ کامولیٰ بن جاتاتھا،یہ ولاء جوازواج کے تعلق سے وجودمیں آتی تھی اس میں قبیلہ کے صریح اورغیرصریح دونوں ہی افرادشامل ہوتے تھے اس طورسے داماد،خسر،سالے ایک دوسرے کے مولیٰ بن جاتے تھے۔[15]

مولیٰ ولادت:یہ ولاء خون کے رشتے سے وجودمیں آتی تھی ،ایک مورث اعلیٰ کی نسل میں شامل افرادجوابنائے عم ہوتے تھے ایک دوسرے کے مولیٰ کہلاتے تھے مثلابنوہاشم اوربنوامیہ جوعبدمناف کی اولادمیں تھے باہم رشتہ موالات میں منسلک تھے اورایک دوسرے کے مولیٰ کہلاتے تھے،محض دوبھائی کی اولادہی نہیں بلکہ اوپرسے سلسلہ نسب کااتحادبھی ولاء کے انعقادکاباعث ہوتاتھا،چنانچہ قریش اوربنوغفارجن کامورث اعلیٰ کنانہ تھابنواعمام اورمولیٰ ہوئے ،ایسے موالیٰ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے۔

مولیٰ الحلف والیمین :

بعض وجوہ کی بناپرکوئی شخص کسی غیرقبیلہ کے فردسے معاہدہ کرلیتاتھااوراس پیمان بندی کے ذریعہ وہ اس قبیلہ کامولیٰ بن جاتاتھا،ایسے شخص کومولیٰ الحلف یامولیٰ الاصطناع کہاجاتاتھا،یہ موالات متعددطریقوں سے وجودمیں آتی تھی کبھی محالفت یعنی باہمی عہدپیمان سے ،کبھی مخالطت یعنی کسی فردکے کسی قبیلہ میں ایک عرصہ تک قیام کرنے کے باعث،اورکبھی ملازمت یعنی کئی پشتوں سے تعلقات کے نتیجہ میں ایک فردکے کسی قبیلہ کے ساتھ وابستہ ہوجانے کے سبب سے ولاء کا انعقاد ہو جاتا تھا۔[16]

ابوالبکیربن عبدیالیل، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دادانفیل بن عبدالعزیٰ کے حلیف اوراس رشتہ سے ان کے مولیٰ تھے۔[17]

عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے والدمسعودبن غافل ہذلی،عہدجاہلیت میں عبداللہ بن الحارث کے جن کاتعلق بنی زہرہ سے تھا،حلیف تھے۔[18]

مرثد بن ابی مرثدالغنوی اوران کے والدابومرثددونوں حمزہ بن عبدالمطلب کے حلیف تھے۔[19]

یہود یثرب مخالطت و ملازمت کے باعث اوس وخزرج کے موالیٰ بن گئے تھے جوقینقاع اوربنونضیرکے موالیٰ تھے جبکہ بنوقریظہ اوس کے موالیٰ تھے۔[20]

ان موالیٰ کے حقوق کاتعین بھی کیاجاتاتھاچنانچہ ان کی موت کے بعدصلبی وارث نہ ہونے کی صورت میں ان سے موالات کرنے والاان کاوارث بھی ہوتاتھا،اسی طرح اگریہ لوگ مارے جاتے توان کی دیت بھی ان سے موالات کرنے والاوصول کرتاتھا،حقوق وفرائض میں انہیں مساوی سمجھاجاتاتھااوریہ اپنے موالات کنندہ خاندان میں شادی بیاہ بھی کرتے تھے اوریوں مولیٰ الحلف والیمین کے ساتھ ساتھ یہ مولیٰ القرابت بھی بن جاتے تھے،اس کی ایک مثال عبیداللہ ابن حجش کی ہے جوبنوامیہ کے سردارابوسفیان بن حرب کامولیٰ الحلف تھا ، عبیداللہ کانکاح ابوسفیان کی صاحبزادی ام حبیبہ سے ہواتھا۔[21]

اس طرزکی موالات میں نہ مذہب کی قیدتھی نہ نسل کی،اسی لئے رشتہ ولاء میں بت پرست، یہودونصاریٰ سبھی منسلک نظرآتے ہیں ۔[22]

مولیٰ النعمت:

آزادکردہ غلام مولیٰ النعمت کہلاتاتھا،غلاموں کی آزادی کے مختلف طریقے تھے ،غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے افرادکومعاشرے میں شامل کرنے کے لئے یہ طریقہ رائج کیاگیاکہ انہیں اپنے آزادکنندہ یعنی سابق آقاکی ولاء حاصل ہوجاتی تھی اوریوں وہ بے یارومددگارنہیں رہتے تھے بلکہ ان کی پشت پرایک ایسی طاقت ہوتی تھی جوبوقت ضرورت ان کی حامی وناصرہوتی،عمومایہ ولاء جوسابق آقاکواپنے سابق غلام کی ملتی تھی ایک موروثی حق متصورہوتی تھی اورنہ صرف یہ کہ آزادکنندہ اورآزادشدہ افرادایک دوسرے کے مولیٰ کہلاتے بلکہ ان کے خاندان کوپشتہاپشت تک ایک دوسرے کامولیٰ کہاجاتاتھا،چنانچہ صبیح جوابواحیحہ سعید بن عاص بن امیہ کے مولیٰ تھے ، سعید کے بعداس کے بیٹوں کے اوران کی اولادسعیدکے پوتوں کی مولیٰ تھی،یہ بھی قاعدہ تھاکہ سابق آقاایسے موالی کی ولاء کسی دوسرے شخص کی جانب منتقل کردیتے تھے اوریوں موالات ایک نئے خاندان میں قائم ہوجاتی تھی،مکاتبت کی صورت میں اگررقم کتابت ،غلام کے علاوہ کوئی دوسرافرداداکرتاتھاتوآزادی کے بعدولاء آزادکنندہ سابق آقا کے بجائے زرکتابت اداکرنے والے شخص کوحاصل ہوجاتی تھی،اس ضمن میں بریرہ کاواقعہ بہت مشہورہے جن کی زرکتابت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اداکیاتھا،زرکتابت اگرآزادی حاصل کرنے والاشخص اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے اداکرتاتوایسی صورت میں کبھی کبھی وہ سابق آقاسے رشتہ موالات نہ قائم کرتا،کبھی سابق آقاخوداس بات کااعلان کر دیتا تھاکہ وہ حق ولاء سے دستبردارہوتاہے ،ایسے آزادشخص کوسائبہ کہتے تھے اوراسے پیمان ولاء باندھنے کی آزادی ہوتی تھی اوراس کے ترکہ سے سابق آقاکوکچھ نہ ملتاتھا،جیسے سائبہ سالم جو اصطحزکے باشندے تھے ، ابوحذیفہ کی بیوی ثبیہ انصاریہ کے غلام تھے ،انہوں نے سالم کوسائبتہ آزادکردیا،ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنامتنبیٰ اورمولیٰ بنالیاتھااوران کی شادی اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولیدبن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس سے کردی،انہوں نے ابوحذیفہ کے ساتھ ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیاتھا،ہجرت کے بعد قبامیں قیام کیا اور چونکہ وہاں موجودصحابہ میں قرآن مجیدکاعلم سب سے زیادہ انہی کوتھااس لئے مسجدقبامیں امامت نمازکے فرائض یہی انجام دیتے تھے،مدینہ منورہ میں جب مواخاة قائم کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کابھائی بنایا،۱۲ھ میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں مہاجرین کے علم داریہی تھےاسی جنگ یمامہ میں اپنے آقاکے ساتھ شہیدہوئے ،ان کی میراث ان کی سابق مولاة(آقا)کے پاس بھیجی گئی مگرانہوں نے یہ کہہ کرلینے سے انکارکردیاکہ میں نے سالم کوسائبتہ آزاد کر دیا تھا مولیٰ ابوحذیفہ تھے جن کانام ہشیم یامہشم تھا،وہ سردارقریش عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس کے بیٹے اورنہایت قدئم الاسلام تھے ،حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل رہے ، یہ ہجرت انہوں نے اپنی بیوی سہلہ بنت سہیل بن عمروکے ساتھ کی،حبشہ میں ہی ان کابیٹامحمدپیداہوا،مدینہ میں ان کی مواخاة عبادہ بن بشیرانصاری سے کی گئی) تھے۔

ایسے موالیٰ حصول آزادی کے بعدبھی معاشرے میں دیگرآزادافرادسے ایک طبقہ کم ترمحسوب ہوتے تھے اورآزادغلام کے درمیانی طبقے میں شمارکئے جاتے تھے ،وہ اس حیثیت سے آزادتھے کہ انہیں فروخت نہیں کیاجاسکتاتھا،لیکن اس اعتبارسے وہ آزاداشخاص سے فروترتھے کہ نکاح ومیراث میں آزادوں کی طرح انہیں آزادی عمل نہ حاصل تھی،موالی کسی آزادعورت سے شادی نہ کرسکتے تھے،اسی طرح ان کی دیت آزادوں کی دیت کے نصف کے بقدرتھی،گویاآزادی کے بعدبھی انہیں کمترہی سمجھاجاتاتھا،اسی طرح اگران پرقصاص واجب ہوتاتوآزادوں کے مقابلہ میں نصف دیت کی ادائیگی پرپابندکئے جاتے تھے،ایسے موالی کی موت کے بعدان کے سابق آقااورحال موالی ان کے وارث بھی ہوتے تھے ،انہیں موالی النعمت کہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے اگرچہ سابق آقاایسے موالی کے وارث ہوتے تھے مگرخودیہ اپنے آقا ؤ ں کے وارث نہ ہوسکتے تھے۔

حاصل بحث یہ کہ عرب جاہلیہ کامعاشرہ تین طبقات میں منقسم تھا،ایک آزادیاحردوسرے مولیٰ اورتیسرے غلام۔

آزادکایہ طبقہ بھی دوذیلی طبقات میں تقسیم تھا،ایک صریح اوردوسراغیرصریح۔

صریح وہ تھاجس کامتعلقہ قبیلے سے نسلی تعلق ہوتاتھااوربزرگ قبیلہ سے خونی رشتہ رکھنے کی وجہ سے افرادقبیلہ سے اس کاتعلق خون کا ہوتا تھا مثلا ًحرب بن امیہ اورابوسفیان بن حرب ،بنوامیہ کے صریح افرادتھے اوراس خاندان کے مورث اعلیٰ امیہ بن عبدشمس کی اولادمیں تھے،اسی طرح بنوعبدمناف اور قریش سے انہیں خونی رشتے کی بناء پرانتساب تھا،عبداللہ بن حجش اورعبیداللہ بن حجش محالفت کے ناطے سے حرب اورابوسفیان سے وابستہ تھے،اسی لئے بنوامیہ اور بنوعبدمناف وقریش سے ان کی وابستگی ان بنیادوں پرنہ تھی جن پران کے حلفاء حرب وابوسفیان کی تھی اوروہ بنوامیہ ،بنوعبدمناف اورقریش کے غیرصریح افرادتھے،ان قبائل میں ان کی حیثیت صریح افراد سے کم ترتھی گوجملہ حقوق وفرائض میں وہ ان کے مساوی محسوب ہوتے تھے ،صریح وغیرصریح دونوں ہی کی حفاظت ،صیانت مال اورحمایت آبروکی خاطرقبائل کی رگ انتقام پھڑک اٹھتی تھی اوران کی تمام قوت عمل اس نقطہ پرمرکوزہوجاتی تھی کہ اس کاانتقام لینااوراس کی آبروکی حفاظت کرناان کاانفرادی واجتماعی فریضہ ہے،جس طرح افرادقبائل اپنے بھائی ،بھتیجے اورخون کے رشتے سے وابستہ افرادکی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے اسی طرح وہ اپنے موالی کی خاطربھی اپنی جان ومال اورعزت کودا ؤ پرلگانے سے دریغ نہ کرتے تھے مگرفی الجملة صریح کے مقابلہ میں غیرصریح یامولیٰ کوکسی قدرکمترحقوق حاصل تھے ، مثلاًآزادکے مقابلے میں مولیٰ کی دیت نصف ہوتی تھی،ارتکاب جرائم کی صورت میں اس پرجوقصاص لازم آتاتھاوہ بھی آزادکے قصاص سے نصف ہوتاتھا،اگراس کی صلبی اولادنہ ہوتی تواس کے تمام ترکہ کاحقداراس کاسابق آقااورحال مولیٰ ہوتا تھااورصلبی اولادکی موجودگی میں اسے ترکہ کاایک ثلث ملتاتھا،معاشرے کاسب سے کمترطبقہ غلاموں کاتھاجن سے جانوروں سے بڑھ کرکام لیاجاتاتھا،اور حریص مالک اپنی جوان وخوبصورت لونڈیوں کوکھلے عام زناپرمجبورکرتے یاانہیں مواخیر (زناگاہ) میں بٹھاکرمال حرام حاصل کرتے،اسلام سے قبل مکہ میں بھی اس قبیل کی عورتیں موجودتھیں ان میں ایک کانام عناق تھاجس سے مرثدغنوی رضی اللہ عنہ نے نکاح کرنے کے لئے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی جس پر  اللّٰہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی کہ زناکار مرد اور زنا کار عورت نیک مرداورنیک عورت کے کفونہیں ہیں کیونکہ عملی طورپران دونوں میں بڑافرق ہوگااورمیل ملاپ ہونے کی امیدکم ہے۔

اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً۝۰ۡوَّالزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ۝۰ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳ [23]

ترجمہ:زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک ، اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔

شراب ونشہ آوراشیا:

عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں کہ وہاں کوئی قانون یاانسانی حقوق یازندگی گزارنے کاضابطہ اخلاق ہوتاجس کی بناپر کوئی مظلوم شخص کسی ظالم کا گریبان پکڑسکتا وہاں تو بے شمارقبیلے صحرا میں بکھرے ہوئے تھے جن کے حریص سرداراپنی اپنی جگہ خودمختیارتھے جن کے خیالات وعادات میں جاہلیت وحشیت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی جوجنگل کے قانون کی پیروی کرتے جوقبیلہ طاقت ورہوتاوہ کمزورکودبالیتااوراس کے مال واسباب پرقابض و متصرف ہو جاتا اورانہیں اس پرکوئی ندامت یاشرمندگی نہ ہوتی ،ان کے اخلاقی تصورات اور تہذیب وشائستگی کے معیارانتہائی پست تھے،صدیوں سے دنیاسے الگ تھلگ رہنے اوربے کاری کی وجہ سے ان کے ذہن جمودکاشکارتھے،جس کی وجہ سے شراب اورقماربازی جو فسق وفجورکی جڑہے مقبول عام تھی،گنتی کے چندافرادکوچھوڑکرجن میں قصی بن کلاب، عبدالمطلب، ورقہ بن نوفل ولیدبن مغیرہ ،قیس بن عاصم سعدی ، مقیس بن صبابہ سہمی،ابوطالب،شیبہ بن ربیعہ وغیرہ شامل تھے جنہوں نے اس دورمیں ہی ام الخبائث کوحرام قراردے دیاتھا،جبکہ گھر گھر میں ہردرجہ کے لوگ شام سے درآمد شدہ شراب کی باقاعدہ محفلیں سجاتے ،جن میں بدکار عورتیں گانابجانا کرتیں اور اونٹوں پر جوا بازی ہوتی ،کیونکہ اہل عرب کاتمام ترسرمایہ اونٹوں کے گلوں پرہی محدودہوتاتھااس لئے جوابھی انہیں پرہوتاجس کاطریقہ کچھ یوں تھاجوئے کاتیراس طرح ہوتاکہ چندلوگ اکھٹے ہوتے اور ایک اونٹ کوذبح کرکے اس کے دس یا اٹھائیس برابرحصے کرلتے ، مہنت دوتیر پھینکتا ایک پرجیت لکھا ہو اہوتا اور دوسرا خالی ہوتا، جس کے نام پر جیت کا تیر نکلتاوہ کامیاب رہتااورجس پر خالی تیرنکلتاوہ ہارجاتا چنانچہ جو جیت جاتاان اونٹوں کوذبح کرکے اہل محفل کوکھلادیتایااہل خانہ ہی نشے میں سرشار ہوکر ایسا کرڈالتا،اس کااندازہ اس واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو غزوہ بدرکے بعدواقعہ ہوااوراس وقت تک شراب کی حرمت کاحکم نازل نہیں ہواتھا،

أَنَّ عَلِیًّا قَالَ: كَانَتْ لِی شَارِفٌ مِنْ نَصِیبِی مِنَ المَغْنَمِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِیَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِی قَیْنُقَاعَ أَنْ یَرْتَحِلَ مَعِیَ، فَنَأْتِیَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِیعَهُ الصَّوَّاغِینَ، وَأَسْتَعِینَ بِهِ فِی وَلِیمَةِ عُرْسِی، فَبَیْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَیَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ، وَالغَرَائِرِ، وَالحِبَالِ، وَشَارِفَایَ مُنَاخَتَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، رَجَعْتُ حِینَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ، فَإِذَا شَارِفَایَ قَدْ اجْتُبَّ أَسْنِمَتُهُمَا، وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَیْنَیَّ حِینَ رَأَیْتُ ذَلِكَ المَنْظَرَ مِنْهُمَا، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ فَقَالُوا: فَعَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ وَهُوَ فِی هَذَا البَیْتِ فِی شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ،

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےغزوہ بدرکے دن مال غنیمت میں سے میرے حصہ میں ایک اونٹنی آئی تھی اوراسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے مجھے ایک اونٹنی عطافرمائی،توجب میں نے ارادہ کیاکہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت کروں تومیں نے بنی قینقاع کے ایک سنارسے اپنے ساتھ چلنے کاوعدہ لے لیاتاکہ ہم اذخرگھاس لاکرسناروں کے ہاتھ فروخت کردیں اورپھراس کی رقم سے میں اپنی شادی کاولیمہ کروں تواسی دوران میں اپنی اونٹنیوں کاسامان (یعنی)پالان کے تختے ، بوریاں اوررسیاں جمع کرنے لگااوراس وقت میری دونوں اونٹنیاں انصاری آدمی کے گھرکے پاس بیٹھیں تھیں ،جب میں نے سامان اکٹھا کرلیاتومیں کیادیکھتاہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کٹے ہوئے ہیں اور ان کی کھوکھیں بھی کٹی ہوئی ہیں اوران کے کلیجے نکلے ہوئے ہیں (یہ حیران کن منظر)دیکھ کراپنے آنسووں پرکنٹرول نہ کرسکا،میں نے کہاکہ یہ (اس طرح)کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے ،اور حمزہ رضی اللہ عنہ چندشراب خور انصاریوں کے ساتھ اسی گھرمیں موجودہیں ، حمزہ رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں کوایک گانے والی عورت نے ایک شعرسنایاتھا اے حمزہ ! ان موٹی اونٹنیوں کوذبح کرنے کے لئے اٹھو،(یہ سنکر) حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تلوارلے کر اٹھے اوران اونٹنیوں کے کوہانوں کو کاٹ دیا اوران کی کھوکھوں کوپھاڑڈالا،اوران کے کلیجے نکال دیئے،

 فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَعَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَجْهِی الَّذِی لَقِیتُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا لَكَ؟، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَیْتُ كَالیَوْمِ قَطُّ، عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَیَّ، فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِی بَیْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ، فَارْتَدَى، ثُمَّ انْطَلَقَ یَمْشِی وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ البَیْتَ الَّذِی فِیهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنُوا لَهُمْ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَلُومُ حَمْزَةَ فِیمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ، مُحْمَرَّةً عَیْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِیدٌ لِأَبِی؟ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَیْهِ القَهْقَرَى، وَخَرَجْنَا مَعَهُ

میں نے یہ خطرناک منظر دیکھا تو میں اسی وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیااس وقت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس موجود تھے ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ میں نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے کے آثار سے میرے حالات معلوم کرلئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اے علی رضی اللہ عنہ !)تجھے کیاہوا؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم میں نے آج کے دن کی طرح کبھی کوئی دن نہیں دیکھا، حمزہ رضی اللہ عنہ نےمیری اونٹنیوں پرحملہ کرکے ان کے کوہان کاٹ لیے ہیں اوران کی کھوکھیں پھاڑڈالی ہیں اورحمزہ رضی اللہ عنہ اس وقت گھرمیں موجودہیں اوران کے ساتھ کچھ اورشراب خوربھی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرمنگوائی اوراسے اوڑھ کرپیدل ہی چل پڑے اورمیں اور زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ آپ اس دروازہ میں آئے جہاں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندرآنے کی اجازت مانگی توانہوں نے آپ کو اجازت دے دی (آپ اندرداخل ہوئے) تو دیکھاکہ وہ سب شراب پئے ہوئے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ  رضی اللہ عنہ کوان کے اس فعل پرملامت کرناشروع کی،حمزہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھاپھرآپ کے گھٹنوں کی طرف دیکھاپھرنگاہ بلندکی توآپ کی ناف کی طرف دیکھا،پھرنگاہ بلندکی توآپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھاپھرحمزہ  رضی اللہ عنہ کہنے لگےتم تومیرے باپ کے غلام ہو(اس وقت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواکہ حمزہ رضی اللہ عنہ نشہ میں مبتلاہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤ ں باہرتشریف لائے اورہم بھی آپ کے ساتھ باہرنکل آئے۔[24]

( اس لئے اسلام رقص کے پیشہ کابھی قائل نہیں جوصنفی جذبات کوابھارتاہے اورنہ کسی ایسی چیزکاقائل ہے جوطبیعت میں جنسی ہیجان پیداکرتی ہے ، مثلاًفحش گانے ، حیازسوزایکٹنگ اوراس قسم کے دوسرے بے ہودہ کام ) لگ بھگ انہی ایام میں صحابہ کرام نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب وجوئے کے بارے میں دریافت کیا کیونکہ شراب پی کراورجوئے میں جیت کر خوب سخاوت کرتے تھے اوران کاخیال تھاکہ یہ دونوں چیزیں اچھی ہیں توباری تعالیٰ نے پہلاحکم نازل فرمایا۔

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِیْهِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡوَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا\ ۝۲۱۹ۙ [25]

ترجمہ: پوچھتے ہیں شراب اورجوئے کاکیاحکم ہے؟ کہوان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگران کاگناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

پھرکچھ عرصہ بعداللہ تعالیٰ نے دوسراحکم نازل فرمایا۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔۔۔ ۝۴۳ [26]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ،نمازاس وقت پڑھنی چاہیےجب تم جانوکہ کیاکہہ رہے ہو۔

چنانچہ جیسے ہی شراب کی حرمت کاتیسراحکم نازل ہوااسی وقت شراب کے مٹکے توڑ ڈالے گئے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی اس کے علاوہ زنا، چوری اور قتل وغارت ان کی طبیعت ثانی بن چکی تھی ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ [27]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شراب اور جوااوریہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیزکر،امیدہےکہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔

قماربازی :

بڑے بڑے لوگوں کے گھرقماربازی کے اڈے بنے ہوئے تھے ،اس کے علاوہ گھوڑدوڑپربھی جواہوتاتھا،جواکھیلنے والے اکثر اپنی جیت کی صورت میں حاصل شدہ مال کو غریبوں ،مسکینوں میں بانٹ دیتے ،اوراسے اپنی سخاوت تصورکرتے مگراللہ نے انہیں شیطانی کام قراردے کرحرام کردیا۔

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِیْهِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡوَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا۔۔۔ ۝۲۱۹ۙ [28]

ترجمہ: پوچھتے ہیں شراب اورجوئے کاکیاحکم ہے؟ کہوان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگران کاگناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ۝۰ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱وَاَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۝۹۲ [29]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو! شراب اورجوااوریہ آستانے اورپانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ،ان سے پرہیزکروامیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی ،شیطان تویہ چاہتاہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اوربغض ڈال دے اورتمہیں اللہ کے یادسے اورنمازسے روک دے، پھر کیا تم ان چیزوں سے بازرہوگے؟اللہ اوراس کے رسول کی بات مانواوربازآجاؤ ،لیکن اگرتم نے حکم عدولی کی توجان لوکہ ہمارے رسول پربس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔

سودی لین دین :

جن اہل عرب کے پاس کچھ سرمایہ جمع ہوجاتاوہ اس سرمائے کومزیدبڑھانے کے لئے سوددرسودپرلین دین شروع کردیتے،جن میں یہودیوں کے علاوہ بڑے بڑے سرمایہ دارشامل تھے جیسے عثمان رضی اللہ عنہ ،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیداور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جنہوں نے اپنے سودی کاروبارکوکافی وسیع کررکھاتھااورسودی لین دین میں کافی شہرت رکھتے تھے ،چنانچہ حجة الودع کے موقعہ پررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ان ہی کے سودکوباطل قرارفرمایاتھا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۹وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ۝۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰ۧ [30]

ترجمہ:لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے،اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو ) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے،تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو ، اور جو صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ، اگر تم سمجھو۔

کثرت ازواج :

تعدادازواج کی رسم طلوع اسلام سے صدیوں پہلے کارواج ہے،یہ ہرمعاشرے میں موجودرہی ہے بلکہ انتہائی گھناؤ نی شکلوں میں موجودرہی ہے ،مثلا ً مختلف قوموں یونانی، بابلی، اشوری، اور ہندوستان میں یہ رسم عام تھی اوراکثرقوموں کے ہاں توتعدادکی بھی کوئی قیدنہ تھی ،افریقی معاشرہ میں زیادہ عورتیں رکھنے والے قبائل کوفخرکی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،یہاں تک کہ ایک شخص بارہ سے تین سوعورتوں تک اپنے لئے اختیارکرسکتاتھا،چین میں ایک مردایک بیوی رکھ سکتاتھا مگر اور بہت سی داشتائیں رکھنابھی ثابت ہے ،آریائی قوم میں تعددازواج کی اجازت تھی وہ بیک وقت چارعورتوں سے شادی کرسکتے تھے جبکہ ان کے مہاراجے ہرقسم کی پابندی سے بالآتر تھے ،انہیں ان گنت عورتوں کے ساتھ شادی کی کھلی چھٹی تھی، ایران میں باپ کابیٹی کواوربھائی کابہن کواپنی زوجیت میں لیناکوئی غیراخلاقی بات نہ تھی،شادی کاکوئی معروف قانون نہ تھااگرکوئی تھاتواسے پس پشت ڈال دیاگیاتھا ،ہندوستان میں خاندان یاچندبھائیوں کی مشترکہ بیوی کارواج بھی تھا،منوسمرتی ادھیائے ۹نمبر۵۹کاخلاصہ ہے کہ برہمنوں کے یہاں نیوگ کارواج ہے کہ اولادنہ ہونے کی صورت میں خسروغیرہ کاحکم پاکرعورت رشتہ داریادیورسے اولادحسب دلخواہ حاصل کرے۔[31]جب خاونداولادپیداکرنے کے قابل نہ ہوتب اپنی عورت کواجازت دے کہ اے نیک بخت !اولادکی خواہش کرنے والی عورت !تومجھ سے علاوہ دوسرے خاوندکی خواہش کرکیونکہ اب مجھ سے اولادنہ ہوسکے گی تب عورت دوسرے کے ساتھ نیوگ کرکے اولادپیداکرے لیکن اس بیاہے عالی حوصلہ خاوندکی خدمت میں کمربستہ رہے ۔ ۔۔ویسے ہی عورت بھی جب بیماری وغیرہ میں پھنس کراولادپیداکرنے کے قابل نہ ہوتب اپنے خاوندکواجازت دے ۔۔۔کسی دوسری بیوہ عورت سے نیوگ کرکے اولاد پیدا کیجئے ۔[32]رب معاشرے میں بھی تعددازواج کارواج عام تھااورنکاح کی کوئی تعدادمتعین نہ تھی بلکہ مردوں کاصرف ایک شادی کرنا معیوب اورزیادہ بیویاں رکھنا فخروتکریم کی وجہ گرداناجاتاتھا،اوران کی تعدادسے مردکی شجاعت ،قوت اورثروت کااندازہ لگایاجاتاتھا،عورت کی حیثیت گھرکے مال واسباب کی سی تھی جنہیں خریدا،بیچااوررہن رکھا جاسکتاتھا ، محمدابن مسیلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیااورغلہ قرض دینے کی درخواست کی تو اس نے کہا:

ارْهَنُونِی نِسَاءَكُمْ قَالُوا: كَیْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ العَرَبِ

تم اپنی عورتیں میرے پاس گروی رکھ دو انہوں نے کہاہم آپ کے پاس اپنی عورتیں کیسے گروی رکھ سکتے ہیں جبکہ آپ عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔[33]

عورتوں میں عدل وانصاف کانام ونشان نہ تھااوروہ مردوں کے نکاح میں مظلوم قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارتیں ،مردیہ سمجھتاتھاکہ اس نے مہرکے بدلے عورت کوخریدلیاہے یہی وجہ تھی کہ شوہرکے مرنے کے بعدوہ مال متروکہ بن جاتی تھی اوریوں عورتوں پرکئی مظالم ڈھائے جاتے تھے ۔

عرب میں لاقانونیت کے چلن کی وجہ سے ہرقبیلے کی کوشش تھی کہ وہ اپنی قوت وطاقت میں اضافہ کرے،قوت میں اضافہ،کثرت تعدادہی کی صورت میں ممکن تھا ،اس مقصدکے حصول کے لئےفقروفاقہ اورضروری کپڑوں و لباس کی محرومی کی وباعام کے باوجود تعدادازواج پرکوئی پابندی نہ تھی کوئی شخص جتنی بیویاں چاہتارکھ سکتا تھا ،یعنی عورتیں انسان اورحیوان کے درمیان ایک مخلوق سمجھی جانے لگی تھی،جن کامقصدنسل انسانی کی ترقی اورمردکی خدمت کرناتھا، جب کثرت ازواج سے مصارف بڑھ جاتے تو مجبورا ًاپنے یتیم بھتیجوں ، بھانجوں اوردوسرے عزیزوں کے حقوق پردست درازی کرتے ،تما م عورتیں سوت کاٹ کرمردوں کاہاتھ بٹانے کی کوششیں کرتیں مگرمختلف حالات میں ان کوششوں سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا اور بعض اوقات تو کپڑوں تک کی محتاجی لاحق رہتی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کایہ قول ہے کہ مکہ میں ہم لوگ عورتوں کابالکل ناقابل التفات سمجھتے تھے مدینہ میں نسبتاًعورتوں کی قدرتھی لیکن نہ اس قدرجس کی وہ مستحق تھیں ،اہل کتاب یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات میں بھی تعددازواج کی اجازت ہے اورتعدادکی کوئی قیدنہیں ،اس لئے ان کے ہاں بھی کئی کئی عورتیں نکاح میں تھیں مگراب اس پرپابندی ہے ،عیسائی مذہب میں کوئی ایساواضح حکم موجودنہیں جس سے تعدادسے روکاگیاہواس لئے عیسائیت میں بھی سترھویں صدی تک تعدادازواج کادستورتھا۔

خاندان کی تنظیم کادارومدارمردوعورت کے باہمی تعلق پرہے ،کسی معاشرے میں یہ تعلق جتنامنظم،مضبوط اورمنضبط ہوگاوہ معاشرہ اتناہی پرامن اورخیروبرکت کاحامل ہوگا چنانچہ اسلام دنیاکاسب سے پہلامذہب ہے جس نے مردوعورت دونوں کی حیثیتوں کاتعین کیا، عورتوں کی حق رسی کی اورعزت ومنزلت کے دربارمیں ان کومردوں کے برابر جگہ دی،اسلام کے علاوہ کسی مذہب نے تعددازواج کی بیج کنی کی کوشش نہیں کی،یہ شرف صرف اسلام کوہی جاتاہے کہ اس نے اس رسم کی تمام قبیح شکلوں کوممنوع قراردے دیا جن سے فردیامعاشرہ کاسکون بربادہوسکتاتھایاجن سے مقاصدزوجیت فوت ہوجانے کااندیشہ تھا۔اسلام نے تعددازواج کی رسم کوکلیتہ ختم نہیں کیابلکہ اس کوایسی شرائط اور ضوابط کاپابندبنادیاکہ ان کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ بہت کم معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ یہ قوانین بے شمارمعاشرتی مسائل کاحل بھی بن جاتے ہیں ، اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت میں جہاں بہت سی انفرادی اوراجتماعی مصلحتیں ہیں وہاں ایک بڑی مصلحت معاشرہ کے اخلاقی تحفظ کی بھی ہے ،اسلام نے عفت وعصمت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اوراسی مقصدکی تکمیل کے لئے قوانین اورضابطے وضع کیے، عورت کی حیثیت متعین کی اورمردوں پرواضح کیا کہ عورت تمہارے پاؤ ں کی جوتی نہیں بلکہ مرد و عورت ایک ہی سرچشمہ کی دوموجیں ہیں ۔

 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً۔۔۔۝۰۝۱ [34]

ترجمہ:لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔

اوراس حقیقت کوواشکاف طورپراشکارہ کیاکہ عورت کوئی جداگانہ مخلوق نہیں بلکہ مردوں کی طرح وہ بھی انسان ہی ہے،جب مردوزن کامخرج ایک ہی ہے،توپھردونوں میں ذاتی تفاوت کیونکرہوسکتاہے،اورمردکوکیاحق حاصل ہے کہ وہ مردوں کوباعزت اورعورتوں کوحقیروذلیل سمجھے۔

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰىكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۳ [35]

ترجمہ: لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

اورمردکواجازت دی کہ اگرتم انصاف کرسکتے ہوتو بیک وقت چارعورتوں کوحق مہراداکرکے اپنے نکاح میں رکھ سکتاہو اوراگرایسانہیں کرسکتے توپھر ایک ہی عورت پراکتفاکرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اپنے ارشادواحکام سے ان کے حقوق قائم کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتاونے اورزیادہ اسی کوقوی اور نمایاں کردیا،

عَنْ أَبِیهِ لَقِیطِ بْنِ صَبْرَةَ، قَالَ: وَلَا تَضْرِبْ ظَعِینَتَكَ كَضَرْبِكَ أُمَیَّتَكَ

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی شریک حیات کولونڈی کی طرح ہرگزنہ ماروپیٹو۔[36]

عَنْ إِیَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللَّهِ

ایاس بن عبداللہ بن ابی ذباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی بندیوں کومت ماراکرو۔[37]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ یَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ العَبْدِ، ثُمَّ یُجَامِعُهَا فِی آخِرِ الیَوْمِ

عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کوغلاموں کی مانندکوڑے نہ لگائے بعدازاں دن کے آخری حصہ میں اس سے مجامعت کرے۔[38]

عَنْ حَكِیمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الْقُشَیْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَیْهِ؟قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَیْتَ، أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ

حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ اپنے والدسے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم پربیوی کے کیا حقوق ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم کھاواس کوکھلاواورجب تم پہنواس کوپہناؤ اور اس کے چہرہ پرمارواورنہ برابھلاکہواورسوائے گھرکے ناراض ہوکرعلیحدگی اختیارنہ کرو۔[39]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَهُمَا، جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَشِقُّهُ سَاقِطٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کے پاس دوعورتیں ہوں اوروہ ان دونوں کے درمیان عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کاایک پہلو گرا ہوا ہو گا ۔[40]

وَقَالَ وَهْبٌ: الْأَسَدِیِّ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی ثَمَانُ نِسْوَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا

قیس بن حارث بن عمیرہ الاسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میں نے اسلام قبول کیا تومیرے نکاح میں اٹھ بیویاں تھیں ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا کہ اب کیا کیاجائے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان میں سے چارکوپسندکرلو۔[41]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَسْلَمَ غَیْلَانُ بْنُ سَلَمَةَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ ایمان کی دولت سے بہرہ مندہوئے اس وقت ایک کی نوبیویاں تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےفرمایاان میں سے چارپسندکرلو ۔[42]

عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الدِّیلِیِّ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَتَحْتِی خَمْسُ نِسْوَةٍ فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:فَارِقْ وَاحِدَةً، وَأَمْسِكْ أَرْبَعًافَعَمَدْتُ إِلَى أَقْدَمِهِنَّ عِنْدِی عَاقِرٍ مُنْذُ سِتِّینَ سَنَةً فَفَارَقْتُهَا

نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں جب اسلام لایاتومیرے پاس پانچ بیویاں تھیں ،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے ایک کو طلاق دے دو اورچارکواپنے پاس رکھو، تومیں ان میں سے سب سے پرانی بیوی کے پاس آیاجوایک بانجھ بڑھیاتھی اورساٹھ سال سے میرے ساتھ تھی ،چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔[43]

چنانچہ نسوانی حقوق کے سلسلہ میں اعلان کیاگیا۔

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۝۳ۭ [44]

ترجمہ: اور اگر تم کواندیشہ ہوکہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیّت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ، بےانصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ۔۔۔۝۰۝۱۲۹ [45]

ترجمہ:لہذا(قانون الہٰی کامنشاپوراکرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کوادھرلٹکتا چھوڑدو۔

ایک مردکے نکاح میں دوبہنیں :

اسی طرح دوبہنیں بھی ایک شخص کے نکاح میں آسکتی تھیں ،جس سے دوبہنوں کاباہمی رشتہ محبت جس کواسلام دائمی طورپربرقرار رکھنا چاہتاہے ختم ہوجاتااورسوکنوں کی دشمنی شروع ہوجاتا جس سے ایک بہن دوسری کونیچادیکھانے کے لئے جوڑتوڑکرتی رہتی اورقطع رحمی ہوجاتی،قرآن مجیدنے دوبہنوں کوجمع کرنے کی حرمت صراحت کے ساتھ بیان کی ہے۔

۔۔۔ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۔۔۔۝۰۝۲۳ۙ [46]

ترجمہ:اوریہ بھی تم پرحرام کیاگیاہے کہ ایک نکاح میں دوبہنوں کوجمع کرو،مگرجوپہلے ہوگیاسوہوگیا۔

عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ فَیْرُوزَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی أَسْلَمْتُ وَتَحْتِی أُخْتَانِ؟قَالَ:طَلِّقْ أَیَّتَهُمَا شِئْتَ

فیروز رضی اللہ عنہ (دیلمی)سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اسلام قبول کیاہے اورمیری زوجیت میں دوبہنیں ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان میں سے کسی ایک کوطلاق دے دو۔[47]

بھتیجی ،پھوپھی اوربھانجی ،خالہ انتہائی قریبی رشتے ہیں ایسے قریبی رشتوں کوسوکناپے میں بدلناظلم عظیم ہے جبکہ یہ رشتے انتہائی محبت اورخلوص کے متقاضی ہیں لہذاانہیں بھی دوبہنوں والاحکم دیاگیاہے کیونکہ دوبہنوں سے بیک وقت نکاح بھی اسی بناپرحرام ہے،یہ بھی یادرہے کہ ان سے بھی یکے بعددیگرے نکاح جائزہے جیساکہ دوبہنوں سے جائز ہے بیک وقت نکاح کرنامنع ہے۔

جَابِرًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا جس کی پھوپھی یاخالہ اس کے نکاح میں ہو۔[48]

أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِی أُخْتِی؟ قَالَ:فَأَصْنَعُ مَاذَا؟ قَالَتْ: تَزَوَّجْهَاقَالَ:فَإِنَّ ذَلِكَ أَحَبُّ إِلَیْكِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِیَةٍ، وَأَحَبُّ مَنْ یَشْرَكُنِی فِی خَیْرٍ أُخْتِی، قَالَ: إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِی،قَالَتْ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ،قَالَ:بِنْتُ أَبِی سَلَمَةَ،قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ:وَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِیبَتِی مَا حَلَّتْ لِی، إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَیَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ

ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاآپ کومیری بہن کی طرف کچھ رغبت ہے یانہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اس کوکیاکروں ؟میں نے کہاآپ اس سے نکاح کرلیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ نکاح تجھ کوکیسامعلوم ہوتاہے،اورتیرے دل کواس کام میں خوشی ہے؟میں نے کہا ہاں ،اس میں میری خوشی ہے کیونکہ میں اس میں اکیلی نہیں ہوں ،اورمیں خوش ہوں کہ میری بہن بھی اس بھلائی میں شامل ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ میرے لیے حلال نہیں ہے، میں نے کہامیں نے سناہے کہ آپ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاوہی درہ جوام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہے؟ میں نے کہاہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگروہ میری ربیبہ بھی نہ ہوتی تو بھی وہ مجھ پرحلال نہ تھی کیونکہ وہ میری رضاعی بھائی کی بیٹی ہے،آپ نے فرمایامیرے سامنے اپنی بیٹیوں اوربہنوں کاذکرنہ کرنا۔[49]

طلاق درطلاق :

الطَّلَاقُ فِی اللُّغَةِ حَلُّ الْوَثَاقِ مُشْتَقٌّ مِنَ الْإِطْلَاقِ وَهُوَ الْإِرْسَالُ وَالتَّرْكُ قَالَ إِمَامُ الْحَرَمَیْنِ هُوَ لَفْظٌ جَاهِلِیٌّ وَرَدَّ الشَّرْعُ بِتَقْرِیرِه

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطرازہیں لغت میں طلاق کامعنی بندھن کوکھول دیناہے،یہ لفظ اطلاق سے مشتق ہے جس کامعنی چھوڑدینااورترک کردیناہے،امام الحرمین کاکہناہے کہ جاہلیت میں بھی اس کے لئے لفظ طلاق ہی مستعمل تھاپھرشریعت نے بھی اسی کو برقرار رکھا۔[50]

اسلام سے پہلے پوری دنیامیں طلاق کاطریقہ رائج تھا بجز ایک دوقوموں کے مردکسی معقول وجہ سے یاناحق جب عورت پرغصہ ہو جاتا تواسے اس کے مکان سے باہرنکال دیتااورعورت اپنی مدافعت میں کچھ نہ کرسکتی ،نہ اس سے اس کاکوئی معاوضہ لے سکتی تھی اورنہ اس کواورکسی قسم کاحق حاصل تھاجس زمانہ میں یونانیوں نے شہرت حاصل کی اوران کی تہذیب کاڈنکابج رہاتھااس وقت ان میں بھی طلاق کسی قیداورشرط کے بغیررائج تھی ،اوررومانیوں کے نزدیک طلاق نکاح کے وجودمیں آنے ہی سے معتبرسمجھی جاتی تھی یہاں تک کہ اگرزوجین عدم طلاق کی شرط لگاتے تومنصف نکاح کے باطل ہونے کافیصلہ دے دیتا،رومانیوں کے قدیم قبائل کے نزدیک مذہبی نکاح کی صورت میں طلاق حرام ہوجاتی تھی البتہ شوہرکواپنی بیوی پر لامحدوداختیارات حاصل ہوجاتے تھے،یہاں تک کہ بعض حالات میں بیوی کوقتل کرنابھی اس کے لئے رواہو جاتا ، بعدمیں ان کے مذہب نے طلاق کواسی طرح مباح قراردیاجس طرح کہ شہری قانون کی روسے مباح تھی،یہودی مذہب نے بیوی کی حالت کوبہتربنانے کاسامان کیالیکن طلاق کوجائزقراردے کراس کے جوازمیں بڑی وسعت پیداکردی ،شوہر عورت پرفسق کاجرم ثابت ہوجانے کی صورت میں شرعاًطلاق دینے کے لئے مجبورتھایہاں تک کہ اگر شوہراس کے جرم کومعاف کردیتاتب بھی اس کے لئے طلاق دیناضروری تھانیزقانون کی روسے بھی اگردس سال گزرجانے کے باوجود عورت کواولادنہیں ہوئی ہے توطلاق دیناضروری تھا۔[51]مسیح مذہب نے یہویوں مذہب کی مخالفت کی اورانجیل نے مسیح  علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے طلاق کوحرام قراردیانیزطلاق دینے والے مرداورمطلقہ عورت کانکاح حرام ٹھہرایا،عرب میں بھی مردوں کی حکومت تھی ،عورت کوعلیحدگی کاکوئی حق حاصل نہ تھا،طلاق کاحق صرف مردکو حاصل تھاجس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی جس سے بڑی معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتیں ،ایک شخص اپنی بیوی کوباربارجس کی کوئی حدمقررنہیں تھی طلاق دیتا مگر اسے خودسے الگ کرنے کے بجائے باربار رجوع بھی کرتارہتاتاکہ نہ تووہ اس کے ساتھ رہ سکے اورنہ آزادہوکرکسی دوسرے سے شادی کرسکے ، مرد طلاق دیتانہ تھااورعورت کوخلع کاکوئی حق حاصل نہ تھا،مگراسلام مردوعورت کے تمام جذبات واحساسات کوسامنے رکھ کرہرفریق کوایک ایسانظام بتلانے کے لئے آیاجن پر عمل کرکے انسان کاگھردنیامیں جنت کاگوشہ بن سکتاہے اورگھریلوتلخیاں محبت وراحت میں بدل جاتی ہیں ،اوراگردل نہیں ملتاتوپھرخوش اسلوبی کے ساتھ بغیرکسی لڑائی جھگڑے ،الزامات کے طلاق دے کراسے آزاد کر دے تویہ اس کے لئے افضل واعلیٰ اورموجب ثواب عظیم ہے ،چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس ناانصافی کوختم فرمایااورایک مردوعورت کے لئے ایک مستقل قانون بناکر نازل فرمایااورعورتوں نے آزادی کی سانس لی ۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۝۰۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ۝۰ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ۝۰ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ۝۰ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۝۰ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲۹فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ۝۰ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ۝۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۝۲۳۰ [52]

ترجمہ:طلاق دوبارہے پھریاتوسیدھی طرح عورتوں کوروک لیاجائے یابھلے طریقے سے اس کورخصت کردیاجائے اوررخصت کرتے ہوئے ایساکرناتمہارے لئے جائزہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہواس میں سے کچھ واپس نہ لو،البتہ یہ صورت مستثنی ہے کہ زوجین کو اللّٰہ کے حدودپرقائم نہ رہ سکنے کااندیشہ ہوایسی صورت میں اگرتمہیں یہ خوف ہوکہ وہ دونوں حدودالہٰی پرقائم نہ رہیں گے توان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہرکوکچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے،یہ  اللّٰہ کی مقررکردہ حدودہیں ان سے تجاوزنہ کرواورجولوگ حدودالہٰی سے تجاوزکریں وہی ظالم ہیں ،پھر اگر (دوبارطلاق دینے کے بعدشوہرنے عورت کو تیسری بار)طلاق دے دی تووہ عورت پھراس کے لئے حلال نہ ہوگی الایہ کہ اس کانکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اوروہ اسے طلاق دے دے تب پہلاشوہراوریہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودالہٰی پرقائم رہیں گے توان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،یہ  اللّٰہ کی مقررکردہ حدیں ہیں جنہیں وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہاہے جو(اس کی حدوں کوتوڑنے کاانجام) جانتے ہیں ۔

عورتوں پرایک اورظلم :

اہل عرب کی نظر میں عورت کی حیثیت ایک لونڈی کی طرح تھی جوان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی تھی اس کے فرائض تو تھے مگرحقوق کچھ نہیں تھے ، اس طرح عورتوں کی زندگی جہنم سے کم ہرگزنہ تھی ،ہاں اشراف طبقہ میں عورتوں کوکچھ آزادی حاصل تھی ،اس کاتحفظ اور احترام کیاجاتااوراس کی بات مانی جاتی تھی ،وہ تجارت کرتی اوراپنے رشتہ کوپسندیاناپسندکرسکتی تھی مگر اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتی تھی اس لئے اس کانکاح اس کے ولی کے زیرنگرانی مہراداکرکے سرانجام پاتاجیسے اسلام میں رائج ہے ،مگریہ مہرعورت کوملنے کے بجائے عورت کاباپ وصول کرتا،بعض شوہروں کی اپنی بیویوں سے لڑائی ہوجاتی توشوہرغصہ میں آکرقسم اٹھالیتے اوربیوی کو ماں بہن بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے اورشوہراپنی بیوی سے کہتاکہ أَنْتِ عَلَیَّ كَظَهْرِ أُمِّی  تومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ،یعنی اب تجھ سے مباشرت کرنامیرے لئے ایساہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں (اسے ظہارکہاجاتاہے)جب یہ بات کسی کے منہ سے نکل جاتی توسمجھاجاتاتھاکہ اب یہ عورت اس پرحرام ہوگئی ہے کیونکہ وہ اس کواپنی ماں جیساکہہ چکاہے ،اصلاح معاشرت کے ذیل میں قرآن نے ان غلط خیالات کی بھی اصلاح فرمائی اوربتایاکہ بیوی کوماں کہنے یاماں کے ساتھ تشبیہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی،ماں توبس وہی ہے جس سے آدمی پیداہواہے ،محض زبان سے کسی کوماں کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی کہ جوبیوی تھی اب وہ محض تمہاری تشبیہ کے اثرسے ماں بن جائے۔

 وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ۔۔۔۝۰۝۴ [53]

ترجمہ:نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کوجن سے تم ظہارکرتے ہوتمہاری ماں نہیں بنادیاہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کواس ظلم پرسرزنش فرمائی اور اس ظلم سے بھی عورت کوچھٹکاراعنایت فرمایا۔

لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ۝۰ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۲۲۶ [54]

ترجمہ:جولوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں ان کے لئے چارمہینے کی مہلت ہے اگرانہوں نے رجوع کرلیاتو اللّٰہ معاف کرنے والااورحیم ہے۔

بیوی کوماں کہنے یاماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے سے بیوی کی حقیقت نہیں بدل جاتی ،بیوی توبہرحال بیوی ہی ہے ،ظہارسے اس کے نکاح پرکوئی اثرنہیں پڑتاالبتہ یہ ایک نامعقول اورناپسندیدہ بات ہے،اورپھرایسابھی نہیں ہے کہ ظہارکے بعد شوہرچپکے سے گھرچلاآئے اورکفارہ اداکیے بغیرحسب سابق زوجیت کے تعلقات استوارکرلے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایاچاہے دنیامیں کسی کوبھی اس کی خبرنہ ہواللہ کوتوبہرحال اس کوخبرہے،اوراللہ کے مواخذہ سے بچ نکلناان کے لئے کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔

وَالَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّـتَـمَاۗسَّا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۳ [55]

ترجمہ:جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر یں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی توقبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

میعادعدت:

كَانَتِ المَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّیَ عَنْهَا زَوْجُهَا، دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِیَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِیبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ، حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ، فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَیْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً، فَتَرْمِی، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِیبٍ أَوْ غَیْرِهِ

بیوہ عورت کی توزندگی ہی حرام تھی،زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کاشوہرمرجاتاتووہ ایک نہایت تنگ کوٹھری میں داخل ہوجاتی ،سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبوکا استعمال ترک کردیتی یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک پورا سال گزرجاتااس کے بعدکسی چوپائے گدھے یا بکری یاکسی پرندے کواس کے پاس لایاجاتااوروہ عدت سے باہرآنے کے لیے اس پرہاتھ پھیرتی ،ایساکم ہوتاتھاکہ وہ کسی جانورپرہاتھ پھیردے اورمرنہ جائے،اس کے بعدوہ نکالی جاتی اوراسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی ، اب وہ خوشبووغیرہ کوئی بھی چیزاستعمال کرسکتی تھی۔[56]

اللہ نے اس غیرمحدودسوگ کے زمانے کو محدود کیا صرف اس قدر مدت رکھی تاکہ عورت کاطبعی غم ختم ہوجائے اوریہ بھی معلوم ہوجائے کہ اسے حمل تونہیں ہے،چنانچہ اللہ نے عدت(شمارکے دن) کی میعادچارماہ دس دن مقرر فرمائی اور ساتھ ہی عورت کو دوسری شادی کی اجازت بخشی کہ جہاں وہ چاہئے شادی کرسکے۔

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۲۳۴ [57]

ترجمہ:تم میں سے جولوگ مرجائیں ان کے پیچھے اگران کی بیویاں زندہ ہوں تووہ اپنے آپ کوچارمہینے دس دن روکے رکھیں پھرجب عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیارہے اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقہ سے جوچاہیں کریں تم پراس کی کوئی ذمے داری نہیں ، اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ۔

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ۔۔۔۝۰۝۶ۭ [58]

ترجمہ:اُن عورتوں کو (زمانۂ عدت میں ) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسرہواور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ ۔

زبردستی کے شوہر:

اگربیوہ عورت پراس کے شوہرکاکوئی قریبی عزیزچادرڈال دیتاتووہ بیوہ اس شخص کی بیوی بن جاتی، چاہے اس کی مرضی ہوتی یانہ ہوتی،اللہ نے اس ظلم سے بھی روکاکہ عورت کی مرضی کے بغیرکوئی نکاح نہیں ہوسکتا۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْهًا۔۔۔۝۰۝۱۹ [59]

ترجمہ :اے لوگوجوایمان لائے ہوتمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔

سوتیلی والدہ سے نکاح:

رینے گوگان (ReneGugan)اپنی کتاب جنسی آزادی میں لکھتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ان ممالک میں جواب اسلام کے زیرتسلط ہیں عورت کی حیثیت کنیزوں سے زیادہ نہ تھی اورانہیں کوئی تحفظ حاصل نہ تھا،ان کی زندگی مردکے اشارہ ابروسے وابستہ تھی ،ان کی حیثیت مال واسباب سے زیادہ نہ تھی ،بیوہ عورت مرحوم خاوندکے خیمے اورگھوڑے کی طرح اس کی جائیدادتھی چنانچہ باپ کے مرنے کے بعدسوتیلی ماں مال وراثت کی طرح طاقتوار وارث کے حصہ میں آجاتی،اپنی حقیقی ماں کو چھوڑکرباقی سوتیلی ماؤ ں سے وہ جنسی تعلقات قائم کرسکتاتھا ،اللہ نے اس فعل قبح سے منع فرمایا کیونکہ مجوسی اپنی بیٹی تک سے شادی کرناروارکھتے تھے باقی رشتے تودورکی بات تھی اس لئے اللہ نے واضح طورپر مائیں ،بیٹیاں ،بہنیں ، پھوپھیاں ،خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، رضاعی مائیں ،رضاعی بہنیں اورسوتیلی بیٹیوں سے نکاح کرنا بھی حرام قرار فرمایا ۔

وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا۝۲۲ۧ [60]

ترجمہ: اورجن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے ہرگزنکاح نہ کرو،مگرجوپہلے ہوچکاسوہوچکا،درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے ، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔

اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم اورقابل دست اندازی پولیس ہے،سنن ابوداؤ د،سنن نسائی اورمسنداحمدمیں روایات ملتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کوموت اورضبطی جائیدادکی سزادی ہے،سنن ابن ماجہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جوروایت نقل ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ کلیہ ارشادفرمایاہے کہ جوشخص محرمات میں سےکسی کے ساتھ زناکرے اسے قتل کردو،فقہاء کے درمیان اس مسلئے پراختلاف ہے امام احمد رحمہ اللہ تواسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کوقتل کیاجائے اوراس کامال ضبط کرلیاجائے ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگراس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زناکیاہوتواس پرحدجاری ہوگی اوراگرنکاح کیاہوتواسے سخت عبرتناک سزادی جائے گی۔

پھراسلام نے عورتوں کی حرمت وعزت بڑھائی اورماں کی تعظیم وتکریم کاحکم فرمایااورحکم دیاکہ ماں باپ کے سامنے کبھی ہوں اوراف تک کہ کہوظاہروباطن دونوں طرح ماں کی عزت کرو،زبان بھی نرم اورشریں ہواورقلب میں بھی جھکاوہو۔

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَـمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۝۲۴ۭ [61]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ، مگر صرف اس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اورنرمی اوررحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کررہواوردعاکیاکروکہ پروردگاران پررحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن سے پالا تھا۔

عورتوں کی گواہی :

عورتوں کوکسی قسم کے معاملے میں گواہی کاکوئی حق حاصل نہ تھامگراللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی گواہی کوتسلیم فرماکرعورت کوایک مقام عطاکیا۔

۔۔۔وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى۔۔۔ ۝۲۸۲ [62]

ترجمہ: پھراپنے مردوں میں سے دوآدمیوں کی اس پرگواہی کرالو،اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے ۔

عورت کاجانوروں کادودھ دوھنا:

جانورکادودھ دودھنامردوں کاکام تھااگرکسی گھرانے کی کوئی عورت جانورکادودھ دوھ لیتی تواس کاپوراخاندان ہی حقیرسمجھاجاتا۔

وراثت کاایک رواج :

لوگ ایک دوسرے سے دوستی اوربھائی چارہ کرتے توآپس میں حقیقی بھائی کہلاتے اسی طرح اگرکوئی شخص کسی کواپنا متبنیٰ بنالیتاتووہ سگے بیٹے ہی کی طرح تصورکیاجاتاتھا اوریہ وراثت میں حقدار سمجھے جاتے تھے مگرعورتوں کاوراثت میں کوئی حق نہیں تھا،یہ صورت حال صرف مکہ مکرمہ ہی میں نہیں تھی ،مدینہ منورہ اوراس کے اردگردرہنے والےیہودی جواہل کتاب تھے وہ بھی عورتوں کووراثت میں کوئی حصہ نہیں دیتے تھے، مگراللہ تعالیٰ نے دوستی،بھائی چارہ اورمتبنیٰ ٰ کاوراثت میں حصہ ختم فرما کر عورت کو وراثت میں مرد کے ادھے کے برابرمقررفرماکرعورت پرایک اوراحسان فرمایا اسی طرح ماں ،بیٹا،بیٹی ،بہن بھائی ،بیوہ ،کلالہ وغیرہ کاوراثت میں جتنی بھی صورتیں ہو سکتیں تھیں سب بیان فرمائیں کہ ملکیت کااقتدارمردوں ہی کامخصوص امتیازنہیں ہے بلکہ اس اقتدارمیں مردکی شریک ہے ،اس طرح عورت نے لڑکی ہونے کی حیثیت سے بھی حصہ لیااورماں ہونے کی حیثیت سے بھی اورشایدپہلی مرتبہ عورت کوموقع دیاگیاکہ اپنے مملوکہ مال وجائداد کی بدولت چاہے تومردوں کی دستگیری کے بغیرہی راحت وآرام کی زندگی بسرکرسکتی ہے۔

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ۝۰ۭ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۷ [63]

ترجمہ:مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جوماں باپ اورقریبی رشتہ دارنے چھوڑاہواورعورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جوماں باپ اورقریبی رشتہ دار نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑاہویابہت،اوریہ حصہ (اللہ کی طرف سے)مقررہے۔

یُوْصِیْكُمُ اللهُ فِیْٓ اَوْلَادِكُمْ۝۰ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔۔۔ ۝۱۱ [64]

ترجمہ:تمہاری اولادکے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتاہےکہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۝۳۳ۧ [65]

ترجمہ:اور ہم نے ہر اس ترکے کے حقدار مقرر کردیئے ہیں جو والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ یں ۔

[1] تاریخ الرسل والملوک ۲۶۴؍۱،سیرة ابن اسحاق۳۲؍۱،ابن ہشام۱۵۱؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۹۸؍۱،الروض الانف۸۴؍۲

[2] مقدمہ ابن خلدون ۱۰۸

[3] لسان العرب ۵۲۷؍۱۱

[4] ابن سعد۵۷؍۵

[5] ابن سعد ۱۳۶؍۴

[6] تاریخ التمدن الاسلامی ۲۵؍۴

[7] تاریخ التمدن الاسلامی۲۵؍۴

[8] تاریخ ابن خلدون ۷؍۳

[9] ابن ہشام ۱۴۱؍۱

[10] تاریخ التمدن اسلامی ۲۷؍۴

[11] بلوغ الارب ۱۵؍۳،تاریخ التمدن اسلامی ۲۷؍۴

[12] تاریخ التمدن اسلامی ۲۷؍۴

[13] بلوغ الارب ۱۲۶؍۲،عرب جاہلیہ میں  موالیٰ ۷۳

[14] بلوغ الارب ۱۸۲؍۳، تاریخ التمدن الاسلامی۳۵؍۳،عرب جاہلیہ میں  موالی ۱۵۵

[15] کتاب الاغانی ۱۵۶؍۱۴

[16] کتاب الاغانی ۹۷؍۱۹

[17] ابن سعد ۳۸۸؍۳، الاستیعاب ۷۸۸؍۲

[18] الاستیعاب ۹۸۷؍۳

[19] الاستیعاب ۱۳۸۳؍۳، ۱۷۵۵؍۴

[20] ابن ہشام ۱۸۹؍۲

[21] ابن سعد۸۹؍۳،ابن ہشام ۳۴۶؍۱،الاستیعاب ۸۷۷؍۳

[22] ابن ہشام ۹۱،۹۳؍۱،المعارف۱۱۹

[23] النور۳

[24] صحیح بخاری كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ باب فَرْضِ الخُمُسِ ۳۰۹۱ ،وکتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا ۴۰۰۳، وکتاب البیوع بَابُ مَا قِیلَ فِی الصَّوَّاغِ ۲۰۸۹،صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ، وَبَیَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِیرِ الْعِنَبِ، وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِیبِ، وَغَیْرِهَا مِمَّا یُسْكِرُ ۵۱۲۹

[25] البقرة ۲۱۹

[26] النساء ۴۳

[27] المائدة ۹۰

[28] البقرة ۲۱۹

[29] المائدة ۹۰تا۹۲

[30] البقرة۲۷۹،۲۸۰

[31] حاشیہ اسلام کے معاشی نظرئیے ۲۱۸

[32]ستارتھ پرکاش باب ۳ ص ۱۵۲،۱۵۳ع

[33] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ۴۰۳۷

[34] النساء ۱

[35] الحجرات ۱۳

[36] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الِاسْتِنْثَارِ ۱۴۲

[37] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی ضَرْبِ النِّسَاءِ ۲۱۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابٌ ضَرْبِ النِّسَاءِ۱۹۸۴

[38] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ ۵۲۰۴

[39] سنن ابوداود کتاب النکاح بَابٌ فِی حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا۲۱۴۲

[40] مستدرک حاکم ۲۷۵۹،جامع ترمذی ابواب النکاح  بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْوِیَةِ بَیْنَ الضَّرَائِرِ  ۱۱۴۱، مشکوٰة المصابیح ۳۲۳۶

[41] سنن ابن جاجہ کتاب النکاح بَابُ الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ ۱۹۵۳، سنن ابوداودکتاب الاطلاق بَابٌ فِی مَنْ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعٍ أَوْ أُخْتَانِ ۲۲۴۱

[42]سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ ۱۹۵۴،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ۱۱۲۸

[43] مسندالشافعی۲۷۴؍۱ ،شرح السنة للبغوی۲۲۸۹،السنن الکبری للبیہقی۱۴۰۵۷

[44] النساء ۳

[45] النساء ۱۲۹

[46] النساء ۲۳

[47]سنن ابوداودکتاب الاطلاق بَابٌ فِی مَنْ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعٍ أَوْ أُخْتَانِ۲۲۴۳

[48]صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ لاَ تُنْكَحُ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا ۵۱۰۸،صحیح مسلم کتاب انکاح بَابُ تَحْرِیمِ الْجَمْعِ بَیْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا فِی النِّكَاحِ۳۴۳۶،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْجَمْعُ بَیْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا۳۲۹۰،جامع ترمذی ابواب انکاح بَابُ مَا جَاءَ لاَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَلاَ عَلَى خَالَتِهَا۱۱۲۵

[49] سنن نسائی کتاب النکاح باب تَحْرِیمُ الْجَمْعِ بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ ۳۲۸۷،سنن ابوداودکتاب النکاحبَابُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۲۰۵۶،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ تَحْرِیمِ الرَّبِیبَةِ، وَأُخْتِ الْمَرْأَةِ۳۵۸۶، مسنداحمد ۲۶۴۹۳، المعجم الکبیرللطبرانی۴۱۷،معرفة السنن والآثار۱۳۴۴۱،مسندابی یعلی۷۰۰۱،مصنف عبدالرزاق۱۳۴۴۷

[50] فتح الباری۳۴۶؍۹

[51]الاسلام د ین عام خائد ازفریدوجدی۱۷۲

[52] البقرة۲۲۹،۲۳۰

[53] الاحزاب۴

[54] البقرة ۲۲۶

[55] المجادلة ۳

[56] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ الكُحْلِ لِلْحَادَّةِ۵۳۳۷،صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ وُجُوبِ الْإِحْدَادِ فِی عِدَّةِ الْوَفَاةِ، وَتَحْرِیمِهِ فِی غَیْرِ ذَلِكَ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ۳۷۲۸،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۲۲۹۹

[57]البقرة ۲۳۴

[58] الطلاق ۶

[59] النساء ۱۹

[60] النساء ۲۲

[61] بنی اسرائیل ۲۳،۲۴

[62] البقرة ۲۸۲

[63] النساء ۷

[64] النساء ۱۱

[65] النساء ۳۳

Related Articles