مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

عربوں کی معاشی،سیاسی حالات اور مالیاتی نظام

قرآن مجیدکے ارشادکے مطابق اللہ کے نبی ابراہیم  علیہ السلام نے اس وادی غیرذی زرع میں اللہ کے حکم سے دنیاکی پہلی مسجدتعمیرکی جس کامقصدیہ تھاکہ ایک عام انسان یہاں آکر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کافریضہ اداکرے اوردنیامیں وحدانیت کی تبلیغ ممکن ہوسکے،دنیاکی اس پہلی مسجدکے پہلے متولی ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام بنے جواس مسجدکے معماروں میں ایک تھے، ابراہیم علیہ السلام نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس غیرآباداورناقابل زراعت زمین کواپنے پوشیدہ خزانوں سے رزق بخشے اوراس میں آبادہونے والوں کواس کی کمی محسوس نہ ہو،ابوالانبیاء کی یہ دعااس طرح قبول ہوئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس غیرآباداورناقابل زراعت علاقے کاایک عجیب وغریب استعمال نکلاجوپہلے شایدکسی انسانی عقل میں نہیں آسکتاتھا،اس علاقے میں تجارتی راستے بنے جواس زمانے کی متمدن اورمہذب دنیاکوتجارتی ،ثقافتی اورتمدنی طور پر باہم ملانے اور مربوط کرنے کاباعث بنے،تاریخ کایہ عجیب وغریب معجزہ کس طرح وقوع پذیرہوااس کاجواب تاریخ کے پاس نہیں لیکن تاریخی اورجغرافیائی حقائق جس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں یہ ہے کہ ایشیا،افریقہ اوریورپ کے درمیان وہ بری تجارتی راستہ جوبحری راستے کی دریافت سے پہلے متمدن دنیاکے دویاتین طریق ہائے ارتباط میں سے ایک تھا ، حجازمیں سے ہوکرگزرتاتھا،یہ راستہ حجازمیں تین راستوں میں بٹاہواتھا۔

xشام سے شروع ہوکرمدینہ میں سے گزرتاہواجدہ پہنچتااوریہاں سے سیدھامکہ معظمہ پہنچ کردوراستوں میں بٹ جاتا،ایک یمن کوچلاجاتاتھااوردوسراخلیج فارس کی منزل اول نجدکو۔

xدوسراراستہ عراق سے شروع ہوتااورخم کھاکرشام کودائیں ہاتھ پرچھوڑتاہوابالآخراسی راستے سے آملتاجوشام سے مکہ اورپھریمن اورنجدکوجاتاتھا۔

xتیسراراستہ شام سے شروع ہوکرپہلے راستے کے مقام اتصال تک آتا،یہاں سے مشترک راستے کوبائیں ہاتھ پرچھوڑتاہوابحراحمرکے کنارے کنارے چلتاہواینبوع میں پہنچتا،یہاں سے جدہ کواپنے دائیں ہاتھ پرچھوڑتاہواسیدھامکہ پہنچتااورپھرنجداوریمن کی طرف جانے والے انہی دوراستوں میں تقسیم ہوجاتا۔

خشکی کے ان راستوں کی تفصیل سے جوچیزواضح طورپرسامنے آتی ہے یہ ہے کہ مکہ جودنیاکی پہلی مسجدکے اردگردآبادتھا،یورپ اورافریقہ پرکھلنے والے دروازے شام اورخلیج فارس کے ذریعے ایشیاپرکھلنے والے دروازے نجدکے درمیان چلنے والے تینوں راستوں کامقام اتصال بنا،اس لئے حجازمیں چلنے والے تمام تجارتی کاروانوں کااہم تین پڑاؤ اورتجارت کی بہت بڑی منڈی بن گیا،مکہ کوبیت اللہ کی سعادت حاصل تھی،اورحجازمیں بسنے والے تمام قبائل اس بات کادعویٰ کرتے تھے کہ وہ اسماعیل علیہ السلام کی اولادہیں ،اس لحاظ سے مکہ پورے حجازکاروحانی مرکزتھا،تجارتی مرکزبن جانے کے بعداس کی اہمیت میں اوراضافہ ہوگیااوریہ شہرپورے حجازاوراس کی وساطت سے پورے عرب کامذہبی مرکزاوراس علاقہ کی تجارت کااعصابی مرکزبن گیا،انہی راستوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تجارت کے ان دوراستوں پرمکہ کے بعدسب سے اہم شہرمدینہ تھا،اورشام سے مکہ کوآنے والے یامکہ سے شام کوجانے والے تجارتی کاروانوں کی حفاظت کادارومداراس بات پرتھاکہ مدینہ والوں کے ساتھ مکہ کی دوستی اورمحالفہ قائم رہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل کی تاریخ میں اس بات کے بے شماروضاحتیں موجودہیں کہ مکہ کے قبیلائی حکمران اکثریت قریش اورمدینہ میں رہنے والے اوس وخزرج کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوشگواررہے اورسرداران قریش ہمیشہ اس علاقے کے سرداروں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات کرتے رہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کے ننہیال مدینہ میں تھے ،خودآپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب اسی شہرسے متعلق تھیں ،اسی طرح دوسری شاخوں میں بھی یہ تعلقات قائم ہوئے تھے جوصدیوں سے چلے آرہے تھے،اس کے بعدحجازکے دوسرے کمتردرجے کے تمام شہرانہی راستوں پرآبادتھے اورکیونکہ راستے ایسے علاقوں میں سے گزرتے تھے جہاں سے انسانوں اورحیوانوں کے لئے سامان خوردونوش مل سکے ،اس لئے اس راستے کے علاوہ تمام ملک بے آب وگیاہ ریگستان تھاجہاں کسی آبادی کاکوئی نشان نہ تھا۔

رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش البطاح یاقریش البطح کے یہ قبائل بنو عبدالدار ، بنوعبدمناف،بنوعبدقصی،بنوزہرہ بن کلاب،بنوتمیم بن مرہ،بنومخزوم بن یقظہ،بنوسہم،بنوجمح،بنوعدی بن کعب،بنوحسل بن عامر بن لوئی،بنوہلال بن اہیب بن ضبہ بن حارث بن فہربن بلال بن مالک بن ضبہ،بنوہاشم بن عبدمناف،بنوحارث بن عبدمناف،بنوالمطلب بن عبدمناف ،بنوامیہ بن عبد شمس،بنونوفل بن عبدمناف اوربنوحارث بن فہر جن کے ہاتھوں میں تجارت اوراقتصادیات کامحکمہ تھا مکہ مکرمہ اوراس کے گردونواح میں آباد تھے،یہ لوگ صاحب ثروت اور رئیس تھے،یہ شہری قریش اشراف اور سردارکہلاتے تھے ،اوربدوی قریش جن کازریعہ معاش گلہ بانی تھا چراہ گاہ اورپانی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے ۔[1]کیونکہ سرزمین عرب وسیع صحراؤ ں اورسنگلاخ پہاڑوں پرمشتمل تھی،اس لئے عرب کی بے آب وگیاہ اورسنگستانی سرزمین کبھی بھی خوراک کے معاملے میں خودکفیل نہیں رہی اورنہ ہی وہاں کسی بڑی صنعت کوفروغ حاصل ہوااس لئے وہاں ہرچیز باہر سے ہی درآمدہوتی تھی ،تاہم ملک میں کہیں کہیں قابل کاشت زمینیں بھی تھیں ،ساحلی مقامات خصوصا ًسرسبزوشاداب تھے ،مثلایمن ،عمان،حضرموت وغیرہ ،یہاں کے لوگ لوبان کی کاشت کرتے ،جسکی وجہ سے صدیوں تک جنوبی عرب کے تاجروں کولوبان کی تجارت کی اجارہ داری حاصل رہی، اس کے علاوہ نجد،خیبراورحجازمیں طائف اوریثرب وہ علاقے تھے جہاں زراعت ہوتی تھی ،یہاں بدویوں کی نسبت کم تعداد لوگ(حضری) گاوں یادیہات کی بنیادڈال کرمقیم بن کررہتے تھے اورفصلیں تیارکرتے تھے، عربوں کے دوسرے گروہ (اہل بادیہ)جوکثیرتعدادمیں تھے کاپیشہ قدیم زمانہ سے گلہ بانی،رہزنی اورسرقہ تھا،وہ بڑی تعدادمیں اونٹ،گائے، بھیڑ بکریاں ، گھوڑے گدھے اورخچر پالتے اورتجارت کرتے تھے،یہ منتشراورمسافرت میں رہنے پرمجبورتھے ، وہ اپنے مویشیوں کے لئے نئی چراگاہوں اورنئے چشموں کی تلاش میں وادیوں اور گھاٹیوں میں سرگرداں رہتے اورسخت نامساعدحالات میں زندگی بسرکرتے ،اکثراوقات خوراک کے وسائل وذرائع آبادی کے اعتبارسے کافی نہ ہوتے توطاقتوارقبیلہ کمزور قبیلہ کے ذرائع و وسائل مثلااونٹ ،مویشی وغیرہ پرقبضہ کرلیتا،بدوی جن کی معاش کاانحصارگلہ بانی تھاچارے اورپانی کی تلاش ان کاسب سے بڑامسئلہ تھا،چراگاہوں اورپانی کے چشموں پر قبضے کے لئے ان میں آئے دن جنگ کابازارگرم رہتاتھا۔[2]

عرب قبل اسلام کی ان قبائلی جنگوں کوایام العرب (عرب کے دن) کہتے ہیں ۔[3]

مورخین نے ۱۳۲ایام العرب کاذکرکیاہے ،

چندمشہورایام العرب میں جنگ بسوس تھی جوربیعہ کے دوقبائل بنوبکراوربنوتغلب کے درمیان ہوئی ، جس کی اصل وجہ چراگاہ میں اونٹ کوچرانے کاحق تھا۔

دوسری مشہورجنگ حرب داحس والغبراء تھی جودوگھوڑوں کی مسابقت اورشرط کی رقوم کی ہارجیت پر اختلاف ہوجانے کے باعث مضرکے دوقبائل عبس اورذبیان کے درمیان ہوئی ۔

تیسری مشہورجنگ فجارتھی جس کے فریق قریش وکنانہ اورہوازن (قیس عیلان)تھے۔

ایام العرب میں چوتھی قابل ذکر جنگ حرب ذی قارکے نام سے مشہورہے جوربیعہ کے قبائل اورایران کی شاہی فوج کے مابین ،شاہان حیرہ کے امانت رکھے ہوئے سامان کی واپسی کے تنازعہ پر ہوئی۔

اگرچہ عرب جاہلیہ کی تمام جنگیں صرف معاشی اسباب کی بناپرہی نہیں لڑی گئیں مگران میں سے بیشترلڑائیوں کامحوریہی چراگاہیں ،پانی کے کنویں ، مویشی اورمال تجارت کی لوٹ تھی ،ان لڑائیوں سے فاتح قبائل کونہ صرف مال غنیمت کی شکل میں معاش کے نئے ذرائع حاصل ہوتے تھے بلکہ مغلوب قبائل کے افرادقتل یا قید کے باعث کم ہوکران کے معاشی دباوکوکم کردیتے تھے ،یہ لوٹ مارصرف چراگاہوں اورچشموں پرقبضہ کی غرض سے ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ تجارتی قافلوں کولوٹ کر اس کے سامان پرقبضہ کرنے اوراس کے معتوب افرادکوغلام بنالینے کوبھی عرب کی معاشرت کاکثیرالوقوع واقعہ خیال کیاجاتاہے ،اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے قریش اور دیگر قبائل عرب نے تجارتی قافلوں کی بسلامت آمدورفت کی غرض سے بیرونی ممالک اوراندرون عرب متعدد معاہدے بھی کیے تھے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ:كَانَ هَاشِمٌ رَجُلا شَرِیفًا. وَهُوَ الَّذِی أَخَذَ الْحِلْفَ لِقُرَیْشٍ مِنْ قَیْصَرَ لأَنْ تَخْتَلِفَ آمِنَةً. وَأَمَّا مَنْ عَلَى الطَّرِیقِ فَأَلَّفَهُمْ عَلَى أَنْ تَحْمِلَ قُرَیْشٌ بَضَائِعَهُمْ وَلا كِرَاءَ عَلَى أَهْلِ الطَّرِیقِ. فَكَتَبَ لَهُ قَیْصَرُ كِتَابًا

عبداللہ بن نوفل بن الحارث کہتے ہیں ہاشم ایک شریف آدمی تھاانہوں قیصرسے قریش کے لیے یہ عہدلیاتھاکہ وہ اس کے ملک میں امن وامان وحفاظت کے ساتھ سفرکرسکیں ، جب وہ سڑکوں اورراستوں پرمال واسباب لے کرگزریں توانہیں چنگی ٹیکس سے معاف رکھاجائے ،قیصرنے یہ اجازت نامہ لکھ دیا ۔[4]

قصی اورہاشم نے قریش کے کاروان تجارت کومزیدمنظم کیاعبدمناف کے بیٹوں میں ہاشم نے شاہان روم اورآل غسان سے ،عبدشمس نے نجاشی الاکبرسے ، مطلب نے ملوک حمیرسے اورنوفل نے الاسرہ ایران سے ،ان کے ممالک میں تجارتی قافلوں کی بحفاظت آمدورفت اورعربوں کی نوآبادیوں کے لئے اجازت حاصل کی اورمعاہدے کیے ، اور سال میں دومرتبہ تجارت کاطریقہ اختیار کیا، ان کے کاروان موسم سرمامیں یمن سے اورگرمیوں میں شام بلکہ ایشیائے کوچک تک تجارت کرتے تھے۔

xاس وقت تجارت کے تین راستے تھے ،ایک راستہ توخشکی کاتھاجو ایران کی طرف سے عراق اورشام سے ہوتاہواجاتا تھا،قرآن مجیدنے اسی راستہ کوامام مبین (ظاہر راستہ ) کہا ہے ،عرب کی تمام بڑی بڑی آبادیاں اس راستہ کے دائیں بائیں واقع تھیں ،اصحاب الایکہ(دوان) اورموتفکہ یعنی لوط  علیہ السلام کاگاؤ ں جو بحر میت کے قریب تھااسی راستے پر آبادتھے ۔

xدوسراخلیج کابحری راستہ تھاجس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی سواحل پراترتا اور دومتہ الجندل یاتدمرسے ہوتا ہوا جاتاتھا۔

x اور تیسرا بحرہند کاراستہ تھااس راستہ سے آنے والاتمام سامان تجارت حضر موت اور یمن سے گزرتاتھا۔

عرب کے آبادحصے تین بحری سواحل پرواقع ہیں ، خلیج فارس پربحرین اورعمان ،شمال میں بحرعرب پرحضر موت اوریمن اورمشرق میں بحراحمرپرحجازومدین واقع ہوئے ہیں ،یہ علاقے دنیاکے بڑے بڑے ممالک کے آمنے سامنے واقع ہوئے ہیں ،عمان وبحرین ایران وعراق سے متعلق ہیں ،یمن اورحضر موت کوافریقہ اورہندوستان سے تعلق ہے ، حجاز کے سامنے مصرہے اورملک شام اس کے بازومیں ہے ،جس کی وجہ سے عربوں کازمانہ قدیم سے بین الاقوامی تجارت کے ساتھ گہرارابطہ رہاہے،ان طبعی سہولتوں کی وجہ سے ان تینوں راستوں پرعرب ہی آبادتھے،اس صورت حال سے فائدہ اٹھاکر عرب کے تاجرحضرات سامان کی نقل وحمل کاکام بھی کرتے ،اوراس کے ساتھ سامان تجارت خریدکردوسری طرف فروخت بھی کردیتے ، اس کے علاوہ جوقافلہ سامان تجارت لے کر ان کے علاقوں سے گزرتاان کواپنے علاقوں سے بحفاظت گزرنے کا ذمہ لے کران پر بھاری ٹیکس بھی لگاتے۔

عربوں کاسامان تجارت عموماتین اقسام پرمشتمل تھا۔

xکھانے کا مصالحہ اور خوشبو دار چیزیں لوبان،زعفران(عطریات وغیرہ) جن کی یمن میں کاشت ہوتی تھی یاان کے باغات تھے،اس کے علاوہ نجدمیں قسم قسم کے پھول ونباتات پیداہوتے تھے۔

xعرب کی بڑی بڑی کانوں سے نکلاہواسونا جس کی یروشلم اوراسکندریہ کے بازاروں میں بڑی شہرت تھی، قریش کی تجارت کا بڑا حصہ چاندی کاسامان تھا، تانبا،عقیق یمن ، موتی (جوبحرین وعمان کے دریاؤ ں سے حاصل ہوتے تھے)جس کی طرف قرآن مجیدنے یوں اشارہ کیا۔

یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۝۲۲ۚ [5]

ترجمہ:ان سمندروں سے موتی اورمونگے نکلتے ہیں ۔

xاہل یمن کھالوں کی بہت عمدہ دباغت ستارہ سہیل جو یمن کے مقابل طلوع ہوتاہے کی روشنی میں کرتے تھے اس لئے بڑی مشہورتھیں ،طائف میں بھی دباغت کافن بہت ترقی کرچکاتھااس لئے چمڑا،کھال،زین پوش وغیرہ بھی عربوں کی تجارت میں نظرآتاہے(مسلمانوں کوحاصل کرنے کے لئے قریش نے شاہ حبشہ کواورچیزوں کے ساتھ یہی کھالیں ہی تحفہ میں دیں تھیں )اوربھیڑ بکریاں ۔

علامہ سیدسلمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ہمارے نزدیک مصالحہ یعنی لونگ سیاہ مرچ الائچی،ڈلی،دارچینی،ناریل اور املی وغیرہ جنوبی ہند اور جزائر ہندکے سواحل سے عرب آتے تھے ، گذشتہ بیانات کے علاوہ آج تک یہ چیزیں انہی مقامات سے ساری دنیامیں جاتی ہیں اوراس دعویٰ کاایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ مصالحہ اورخوشبوکی اکثرچیزوں کے نام عربی میں سنسکرت سے آئے ہیں ، مثلا،مشک ، فلفل، کافور،زنجبیل، صندل ، نارجیل اور قرنفل،بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کے نام کے ساتھ ہندی کالفظ نام کا جزو بن گیا ہے ، مثلاً عود ہندی،قسط ہندی، خوشبودار مصالحوں میں لونگ،الائچی،سیاہ مرچ ، دارچینی،ہلدی وغیرہ سب داخل ہیں اوریہ سب اشیاء جنوبی ہند اورجزائرہندکی پیداوار ہیں ، یمن میں بہت اچھی چادریں تیارہوتی تھیں مگرعرب واپسی میں کچھ کپڑے شاس(ململ)فوطہ(چارخانہ اورتہبند) ہندوستان سے اورکچھ شام سے لاتے تھے ،تھوڑی مقدار میں غلہ یمن سے مگرزیادہ تر شام سے آتا تھا (مدینہ کے ابتدائی ایام میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کاخطبہ ارشادفرمارہے تھے اس وقت شام کے بیوپاریوں کاہی شوراٹھاتھا کیونکہ لوگ غلہ کے ان سوداگروں کے منتظررہتے تھے اس لئے اٹھ کرچل دئے تھے،جس پرسورۂ جمعہ میں تنبیہ فرمائی گئی) شراب، لوہے کی تلواریں جوہندوستان سے بن کر جایا کرتی تھیں ، اور آئینہ وغیرہ آرائشی سامان درآمد کرتے تھے۔

اس بین الاقوامی تجارت پر دوگروپ چھائے ہوئے تھے ، جن میں ایک گروپ امرائے قریش(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ ،ابوجہل ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ ، ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جن کاتجارتی سامان لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم شام ،دوباریمن کے بازارجرش اور بحرین میں گئے ) اور بنی ثقیف تھا جو اپنے بڑے بڑے قافلوں کے ساتھ سامان تجارت لے کر دوردراز علاقوں کے سفرپر جاتے اورواپسی میں وہاں سے مال لے کرآتے ، اور ذیقعدہ (بیٹھنے کا مہینہ )میں مکہ مکرمہ میں آرام کرتے تھے ، اس کے بعد ذی الحجہ میں ان کا موجود رہنا ضروری تھا،عالمگیربدامنی اور لوٹ مارکے باوجود جہاں بادشاہوں کا تجارتی مال بھی خطرہ سے خالی نہ ہوتاتھا،قریش کے تجارتی کارواں قبائل سے مختلف معاہدات کے تحت اور بیت  اللّٰہ (جس کی عظمت عربوں کے دلوں بسی ہوئی تھی) کے متولی ہونے کے ناطے(جس کی بناپروہ جیران اللہ اللہ کے پڑوسی سمجھے جاتے تھے) ہر طرح کی لوٹ مار ، قتل وغارت سے مامون و محفوظ تھے،بلکہ ان کاخیال رکھا جاتا تھا جس سے قریش کی تجارت کو اور بھی فروغ حاصل ہوا ،قریش کی تجارتی ترقی کی یہ انتہاتھی کہ بیوہ اور لاچار عورتیں تک اپناسرمایہ ان کے حوالے کردیتی تھیں ،قریش مکہ قبائل عرب کے اس حسن طریق کے بدلے میں ان کی ضروریات کی چیزیں ان تک خودہی پہنچادیاکرتے اوران سے خریدوفروخت بھی کرتے تھے ، ہجرت مدینہ کے بعدبھی اکثرمسلمان تجارت ہی کرتے تھے،

 أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ یَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اورمہاجروں کوبازاروں میں معاملہ کرنے سے فرصت نہ تھی۔[6]

ان تاجروں میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جن کامقام سلخ میں اپناکپڑے کاکارخانہ تھااورآپ اپنا تجارتی مال لے کربصری جایا کرتے تھے ، زبیر رضی اللہ عنہ بھی شام کے ساتھ کپڑے کی تجارت کرتے تھے،سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی تجارت کرتے تھے اور ان کی تجارت کاسلسلہ ایران تک پھیلا ہوا تھا ۔[7]

سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ مدینہ میں بنوقینقاع کی منڈیوں میں کھجورکی خریدو فروخت کرتے تھے،

سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ، یَقُولُ:سَمِعْتُ عُثْمَانَ، یَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ یَقُولُ: كُنْتُ أَبْتَاعُ التَّمْرَ مِنْ بَطْنٍ مِنَ الْیَهُودِ یُقَالُ لَهُمْ بَنُو قَیْنُقَاعَ، فَأَبِیعُهُ بِرِبْحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا عُثْمَانُ إِذَا اشْتَرَیْتَ فَاكْتَلْ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ

سعیدبن مسیب سے مروی ہےمیں نےعثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ ! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو ، اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو ۔[8]

عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ بن عوف پنیر اور گھی فروخت کرتے تھے،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: فَأَتَى السُّوقَ فَرَبِحَ شَیْئًا مِنْ أَقِطٍ، وَشَیْئًا مِنْ سَمْنٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےچنانچہ آپ رضی اللہ عنہ بازارآئے اوریہاں آپ نے کچھ پنیر اور کچھ گھی کی تجارت کی اورنفع کمایا۔[9]

ان تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ اہل عرب کے اس وقت کی مہذب دنیاسے سیاسی اورثقافتی رابطے بھی تھے،قریش کے انہیں تجارتی قافلوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو مرتبہ مخاطب کرکے فرمایا۔

لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ۝۱۹۶ۭ [10]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !دنیا کے ملکوں میں اللہ کےنافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔

مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ۝۴ [11]

ترجمہ:اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے ۔

کیونکہ انصارزراعت پیشہ تھے اس لئے دوسراگروپ یہودکا تھاجوقبائل میں منقسم اورایک دوسرے سے دست بگریباں رہتے تھے ،ان کی منظم معیشت تھی اوراپنامعاشرتی نظام تھا،یہ لوگ تجارت پرقابض تھے ان کاسب سے بڑاتاجرابن ابی الحقیق تھاجس کولوگ تاجرالتجارکہتے تھے، یہودی تاجر قافلوں کے ساتھ سفر تونہ کرتے بلکہ سامان تجارت درآمدکرکے تھوک فروشی کرتے، اور اندرون ملک چھوٹی چھوٹی قبائیلی بستیوں میں موجود خوردہ فروش ان سے لاکھوں کا مال ادھار پرجن پرسودبھی لاگوہوتاتھا حاصل کر کے فروخت کرتے تھے۔

اہل بادیہ کے دوگروہ تھے ، ایک گروہ صرف اونٹوں کوپالتاتھااوریہی اصل میں بدوی تھے ،کیونکہ ان کامکمل انحصاراونٹوں پرہی تھااس لئے یہ مجبورتھے کہ صحراکے اندر نفوذ کر کے نہ صرف وہاں کے خس وخارسے اونٹوں کوان کی طبعی غذامہیاکریں بلکہ کھاری پانی بھی انہیں پلائیں ،اونٹوں کی صحت وعافیت کاانحصاراسی پرتھا،چونکہ اونٹ سردی برداشت نہیں کرسکتااس لئے سردیوں میں یہ گروہ سرسبزمقامات چھوڑکرریگستانوں اورصحراؤ ں کی راہ لیتے،جہاں ریتلے اورریگستانی علاقوں میں جہاں گرم ماحول ہوتا اونٹنی آسانی سے بچے دیتی، جبکہ دوسراگروہ بھیڑبکریوں کے ریوڑپرزندگی بسرکرتاتھا، خود سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم معمولی معاوضہ پر محلہ جیادمیں بکریاں چراتے رہے تھے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنے والد کے اونٹ شہرکے قریب قریب چراتے رہے تھے ، اہل بادیہ کے لوگ شہراورقصبات کے باشندوں کوحقارت کی نظرسے دیکھتے تھے اورانہیں غلام سمجھتے تھے ، یہ بدوی آزادی کو انتہائی عزیزرکھتے تھے،ان کے نزدیک کسی خاص مقام کومسکن بناناگویاآزادی کوخیربادکہناتھاکیونکہ جہاں مسکن معین ہووہاں غیرکامحکوم ہونابھی لازمی ہے۔[12]

یہ بدوی کبھی مفتوح نہیں ہوئے،چنانچہ جس زمانے میں فینقیہیہ اورفلسطین سے بیش قرارخراج ایران کے بادشاہوں کوجایاکرتاتھا اس وقت عرب ہی ایسے تھے جوخراج سے متثنیٰ تھے،ان میں وحشت کاعنصرزیادہ تھااورجنگجویانہ اوصاف کے حامل تھے،اسلحہ کااستعمال ان کادن رات کامشغلہ تھا،ریگستانی راہوں پرقافلوں اورمسافروں کولوٹ لیناان کی مجبوری تھی،وہ آرام وآسائش کی متمدن زندگی سے آشناہی نہیں تھے ۔

تجارتی منڈیاں اورمیلے:

بیرون ملک تجارت کے علاوہ خودعرب میں بھی تیرہ مقامات پرتجارتی میلے منعقدکیے جاتے تھے ،جوحجازکی آخری سرحددومتہ الجندل سے شروع ہوکرحجازسے ہوکرشام میں اختتام پذیرہوتے تھے ، جہاں دوردورسے سوداگر اپنا مال واسباب فروخت کرنے کے لئے لاتے تھے۔

دومتہ الجندل:

یہ مقام شام کے پاس حجازکی آخری سرحدپرواقع ہے ،یہاں سے میلے کاآغازہوتاتھا،یہ منڈی یکم ربیع الاول سے ۱۵ ربیع الاول تک منعقد ہوتاتھاجس میں خوب چہل پہل اوررونق رہتی تھی اس کے بعدگھٹناشروع ہوجاتااور آخر ماہ تک جاری رہتاتھا ،قبائل بنوطے،بنوجدیلہ اوربنوکلب اس کے پڑوس میں رہتے تھے،جن کارئیس قابواس بازار کا حاکم تھا،عرب کے علاوہ عراق ،شام کے تاجربھی اس کی اجازت سے بازارلگاتے تھے،رئیس قابوخودبھی تجارت کرتاتھاجب تک اس کامال فروخت نہیں ہو جاتا تھاکسی دوسرے کو مال بیچنے کی اجازت نہیں تھی،یہاں خریدوفروخت کاطریقہ یہ تھاکہ جسے جومال پسندآگیااس پرایک کنکری ڈال دیتا،اس میلے میں شامل ہونے کے لئے جو تاجر یمن یا حجازسے جاناچاہتاتووہ جب تک مضری قبائل کی سرزمین سے گزرتارہتاتوقریشی بدرقے حاصل کرتاکیونکہ کوئی مضری قبیلہ نہ توکسی قریشی تاجرکوستاتااورنہ کسی مضریوں کے حلیف کو،چنانچہ قبیلہ کلب والے کسی ایسے شخص کونہیں ٹوکتے تھے؟کیونکہ قبیلہ بنی الحہشم کے حلیف تھے،اسی طرح قبیلہ طئی والے بھی ان کونہیں ستاتے تھے؟کیونکہ ان کی بنی اسدوالوں سے حلیفی تھی،اگرمسافربنی عمروبن مرثدکاخفارہ حاصل کرلیتے تواس پورے علاقے میں جہاں قبائل ربیعہ بستے تھےانہیں حفاظت حاصل ہوتی تھی،اگربحرین کے سوق مشقرجاناہوتاتوقریشی خفارہ ہی حاصل کرلیاجاتا،اگرجنوبی عرب کے سوق مہرہ کوجاناہوتاتوبنی محارب کابدرقہ حاصل کیاجاتا،حضرموت کے سوق رابیہ کوجانے کے لئے قریش قبیلہ بنی آکل المرارکاخفارہ حاصل کرتے اوردیگرلوگ کندہ کے آل مسروق کااس طرح دونوں ہی قبائل کوعزت حاصل تھی،لیکن قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرارکواپنے حریفوں پرفوقیت حاصل ہوگئی۔

مشقر:

دومتہ الجندل کے بعدمشقراوربحرین میں یہ میلہ جمادی الثانی کے شروع سے آخرماہ تک پورا ماہ جاری رہتاتھاعبدالقیس اورتمیم کے قبائل اس کے ارد گرد مقیم تھے ، اور ان کی رضامندی کے بغیریہاں مال لاناممکن نہ تھاکیونکہ یہ میلہ ایران کی سرحدکے قریب تھااس لئے اس میں ایرانی تاجربھی شامل ہوتے تھے، اس منڈی میں خرید و فروخت کا طریقہ یہ تھاکہ بائع (بیچنے والا)اورمشتری (خریدنے والا)دونوں خاموش رہتے اورصرف اشاروں سے بات چیت ہوتی تھی ۔

صحار(عمان):

یہ میلہ خلیج عمان کے ساحل پرنخلستان بریمی میں اکیس رجب سے پانچ دن کے لئے لگتاتھا،پہلے دومیلوں میں جوتاجرشرکت کرنے سے قاصررہتے وہ یہاں آ جاتے ، اس میں سمندرپارکے تاجربھی شریک ہواکرتے تھے،اس میں خریدوفروخت کاطریقہ پہلے سے بھی مختلف تھا،سامان سے اندازہ لگایاجاتاتھااورگاہک پتھرپھنکتے تھے جس سامان پر پتھرجاپڑااسے اٹھالیتے۔

دبا:

یہ میلہ رجب کی آخری تاریخ کو خلیج عمان کے ساحل پرمنعقدہوتاتھا ،اس میں ہند،سندھ ،چین،افریقہ کے تاجرشرکت کیاکرتے تھے،عرب اوردریاکی چیزیں یہاں فروخت ہوتی تھیں ۔

شحر:

دباسے سوداگرشحرمیں منڈی مہرہ کے شمال میں اس پہاڑ کے سائے میں جس پر حضرت ہود علیہ السلام کی قبرہے، جوعرب کے ساحل پرحضرموت اورعمان کے درمیان واقع ہے میلہ لگانے کے لئے آجاتے جو پندرہ شعبان سے شروع ہوتاتھااس کے اردگردبنومحارب رہتے تھے ،اس منڈی میں چمڑا،کپڑا،جڑی بوٹیاں (نباتاتی دوائیں )اوردیگرضرورت کی اشیاء فروخت کی جاتی تھیں ۔

سوق عدن:

شحرسے فارغ ہوکر سوداگرعدن میں یکم رمضان المبارک سے بیس رمضان المبارک تک ڈیرے ڈال دیتے ،سلاطین یمن بڑی خوش اسلوبی سے اس میلے کابندوبست کرتے تھے ،اس جگہ زیادہ تر دریائی سوداگرجمع ہوتے ،اور عربوں کے دعویٰ کے مطابق کہ ان سے بڑھ کرخوشبوبنانے والے دنیامیں کوئی نہیں ،یہاں سے سوداگر انواع و اقسام کے عطریات اورخوشبوئیں بحری راستے سے ہندوستان اورسندھ تک اوربری راستے سے ایران اورروم تک پہنچاتے ۔

سوق صنعا:

عدن کے بعدصنعاء کے میلے کازمانہ آتا،جہاں یہ منڈی ۱۵ رمضان المبارک سے آخررمضان تک جاری رہتی تھی، صنعاء یمن کاپایہ تخت تھا،یہاں روئی ، زعفران ، رنگ ، کپڑے اورلوہے کی تجارت ہوتی تھی ۔

رابیہ(حضرموت):

یہ میلہ ۱۵ذوالقعدہ سے آخرماہ تک عکاظ کی منڈی کے عین ساتھ ملوک کندہ(آکل المرار) کے قریب حضر موت میں ایک ٹیلے کے پاس لگتاتھا،یہاں آکل المراراورآل مسروق بن وائل حضری کے زیرخفارہ مال تجارت لایاجاتاتھا،صنعاء کے بعد لوگ حضرموت چلے جاتے ،مگریہاں زیادہ گہماگہمی نہیں ہوتی تھی ،یہاں سے کچھ تاجرلوٹ کرحضرموت کے میلے میں چلے جاتے مگرزیادہ ترعکاظ کے میلے میں چلے آتے۔

عکاظ:

وكانت عكاظ من أعظم أسواق العرب،

ایام جاہلیت میں عکاظ عرب کاسب سے بڑا میلہ تھا۔[13]

عكاظ مَوضِع بِقرب مَكَّة كَانَ بِهِ سوق عَظِیم

عکاظ کامیلہ مکہ مکرمہ کے نزدیک لگاکرتاتھااوریہ سب سے بڑامیلہ ہوتاتھا۔[14]

جوپندرہ ذوالقعدسے ذی الحجہ کے چاند نظرآنے تک نجداور عرفات کے درمیان جاری رہتاتھا،یہ بازارخفارہ سے پاک تھا،

وكانت قریش تنزلها وهوازن وطوائف من أفناء العرب: غطفان، وأسلم، والأحابیش (وهم بنو الحارث بن عبد مناة بن كنانة، وعضل، والدیش، والحیا، والمصطلق)

اس میلہ میں عرب کے تمام قبائل قریش ،ہوزان ،غطفان ،خزاعہ ، حارث ابن مناة ،عقل اورمصطلق وغیرہ شرکت کرتے تھے۔[15]

جب عرب کے تمام گوشوں سے لوگ اس جگہ جمع ہوجاتے تو قبائلی شعراء اپناکلام سناتے ،جس میں شہوانیت ،عشق بازی ،شراب نوشی،قبائلی منافرت ،جنگ وجدل،مشرکانہ خرافات اورنسلی فخروغرورکاہی ذکرکیاجاتا، اس طرح قبائل ایک دوسرے پرعزت وشرف اور کمالات میں ایک دوسرے پربازی لے جانے کی کوشش کرتے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاعری کے متعلق فرمایاتھا۔

لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا

تم میں سے کسی شخص کاخول پیپ سے بھرجانااس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعرسے بھرے۔[16]

کسی نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیاکہ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تقریروں میں اشعاراستعمال کرتے تھے ،جواب فرمایاکہ شعرسے بڑھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی چیزسے نفرت نہ تھی اسلام نے شاعری کے یہ دنگل بندکردیئے ۔

فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا۔۔۔۝۰۝۲۰۰ [17]

ترجمہ:پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے تھے اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

راگ ورنگ کی مجلسیں منعقدہوتیں ،جس میں ہرقسم کی فحش کاری خوب دھڑلے سے ہوتی تھی ،خطباء تقریریں کرتے ،حکام اپنے فیصلے سناتے اور شیوخ معاہدے کی دفعات طے کرتے تھے ،فیاضی کا مقابلہ ہوتا،ہرقبیلہ اپنی بڑائی جتلانے اوردوسرے قبیلہ کونیچادکھلانے کے لئے اونٹ پراونٹ کاٹتاچلاجاتا،اسلام نے دکھاوے اورناموری کی اس فیاضی کاخاتمہ کردیااور ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کوپھرزندہ کیاکہ محض اللہ کے نام پرجانورذبح کیے جائیں تاکہ خوشحال لوگوں کی قربانی سے غریب حاجیوں کوکھانے کاموقعہ ملے۔

۔۔۔ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۝۳۱ۧ [18]

ترجمہ: اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۔۔۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَیْهَا صَوَاۗفَّ۔۔۔۝۳۶ [19]

ترجمہ:ان جانوروں کوخالص اللہ کے لئے اسی کے نام پرقربان کرو۔

حیات محمدکامصنف تمام میلوں کاذکرکرکے لکھتاہے ،اس طرح مکہ مکرمہ کاتجارتی منڈی بننے کاسبب عکاظ کامیلہ اورحج تھا ، جنگ فجار بھی یہیں برپاہوئی تھی۔

ذوالمجاز:

ذُو الْمجَاز هُوَ سوق من أسواق الْجَاهِلِیَّة

ذوالمجازکامیلہ جاہلیت کے میلوں میں سے ایک میلہ تھا۔[20]

عکاظ کے بعدیہ میلہ یکم ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ(یوم ترویہ)تک عکاظ کے قریب ہی کبکب کی جانب ایک فرسخ کے فاصلے پرمنعقد ہوتاتھا۔[21]

یہاں سے فارغ ہوکرلوگ منیٰ کو چلے جاتے تھے،

وَمِجَنّةٌ سُوقٌ مِنْ أَسْوَاقِ الْعَرَبِ بَیْنَ عُكَاظٍ وَفِی الْمَجَازِ

عربوں کی منڈیوں میں ایک منڈی مجنہ بھی لگتی تھی جوعکاظ اورالمجازکے درمیان تھی۔[22]

نطاة:

یہ میلہ دس محرم سے آخرماہ تک مدینہ کے شمال میں خیبرکی ایک بستی میں ایک قلعہ کانام تھا،جہاں ایک کنواں بھی تھاجاری رہتا تھا۔

حجر:

یہ میلہ دس محرم سے آخرماہ تک یمامہ میں جوبنوحنیفہ کامسکن تھامنعقدہوتاتھا۔

بنوامیہ کے زیراہتمام بصری اوراذرعات میں ایک بڑامیلہ لگتاتھا۔[23]

عرب میں اسلام پھیل جانے کے بعدتقریبا۱۲۵سال تک یہ تمام تجارتی منڈیاں منعقدہوتی رہیں مگر۱۲۹ہجری میں رفتہ رفتہ یہ سب منڈیاں خارجیوں کی لوٹ مارکی وجہ سے بند ہو گئیں ۔

عربوں کے سیاسی حالات

مکہ مکرمہ کے غیرمہذیب اورغیرتعلیم یافتہ باشندے معاشی اورسیاسی استحکام کے حصول کی غرض سے جزیرہ نماعرب کے معاشی وفاق سے منسلک تھے جووہاں کے سالانہ میلے اور تجارتی قافلوں کاانتہائی ترقی یافتہ نظام تھا،پورے عرب میں ایک زبان بولنا،ایک طرزسے فال دیکھنا،مختلف بتوں اوردیوی دیوتاوں کی مشترک طورپرعبادت کرنااوران کے رسم ورواج میں یکسانیت کاپایاجانایہ تمام چیزیں ان کے سیاسی اتحاداورملی یگانگت کامظہرتھیں ،مکہ پرپہلی حکومت جرہم نے قائم کی اورپانچ سوسال تک حکومت کرتے رہے ،ان کے بعد خزاعہ نے ان سے بزورشمشیرحکومت چھین کرتین سوسال تک حکومت کی ،پھرکسی دورمیں پھرجرہم کواقتدارحاصل ہوگیاجس کاآخری حکمران خلیل بن حبشیہ تھاجس کی بیٹی سے قصیٰ نے شادی کرلی ،اس طرح قصیٰ کوایک دوعہدے مل گئے ،لیکن بعدمیں اس نے بزورشمشیرحکومت پرقبضہ کرلیااورپندرہ مختلف مذہبی،عدالتی،سیاسی اور جنگی عہدے بناکرلوگوں کوان پر تعینات کیاجن کی عمرکم ازکم چالیس سال ہوناضروری تھا،البتہ حاکم شہرکے بیٹے اعزازی طورپرعمرکی اس شرط سے مستثنیٰ تھے،لیکن قریش نے اپنے دور حکومت میں ان شرائط کوکافی نرم کردیاتھا،اورابوجہل کی اصابت رائے اوراعلیٰ صلاحیت کے پیش نظراسے تیس سال کی عمرمیں مجلس شوریٰ کاممبربنالیاگیاتھا،اسی طرح حکیم بن حزام کوپندرہ یابیس سال کی عمرمیں یہ اعزازحاصل ہوگیاتھا،علاوہ ازیں ہرقبیلہ میں ایک پنچائیت ہوتی تھی جومقدمات اورتنازعات کافیصلہ کرتی تھی ،البتہ جب کبھی دوقبائل کے مابین فیصلہ کرناہوتاتوکسی اجنبی ثالث کی طرف رجوع کرتے تھے،ایسے مقدمات مختلف معبدوں کی دیوبانی یامشہورپنچوں کے پاس لے جاتے تھے، کاہن ، ہاتف ، عالئف،ازلام اورایساروغیرہ سے فیصلہ کرانے کاعام رواج بھی تھا،قصیٰ کی وفات کے بعدعدلیہ کانظام تارتارہوگیا اورمختلف قبائل کی باہمی رقابتوں نے قتل وغارت کا بازار گرم کردیاان حالات میں ہی حلف الفضول کامعاہدہ ہوا تھا ، مورخ شہیراحمدبن ابراہیم الشریف لکھتے ہیں ،مکہ میں ہمیشہ جمہوری حکومت رہی خواہ خزاعہ کا دور حکومت ہو یا قصی بن کلاب کا ،شورائی طرزسے تنازعات کافیصلہ کیاجاتاتھا، کوئی باقاعدہ مسودہ قانون تونہیں تھالیکن مجلس عرف اورعلاقائی عادات کے مطابق فیصلہ کرتی تھی۔ [24]

علامہ فریدوجدی لکھتے ہیں قدیم زمانہ میں اشراف مکہ ہرروزعصر سے قبل کچھ دیرکے لئے دارالامارہ میں جمع ہوتے اورعوام کی شکایات ومسائل سن کر انہیں حل کرتے تھے۔[25]

ملک عرب جوبراعظم ایشیا،یورپ اور افریقہ کے وسط میں واقع ہے اورخشکی وسمندری دونوں راستوں سے جڑاہو ا ہے جس کی وجہ سے یہاں سے اٹھنی والی آوازان براعظموں میں جلدپہنچ جانے کے ذرائع موجودتھے۔

عرب کے صحراہوں یاشہرطرززندگی بہرحال قبائلی تھااورجہاں قبائلیت ہوتی ہے وہاں سیاسی لامرکزیت ہوتی ہے،عرب اندرونی طورپربے شمارقبائل میں تقسیم تھاہرقبیلہ کا سردار ایک چھوٹا سا خود مختیار بادشاہ ہوتاتھاجومنظم حکومت نہ ہونے کے باعث کسی کے آگے جواب دہ نہیں تھا،اس کے مخصوص قسم کے امتیازی حقوق ہوتے تھے اوراس کا قبیلہ اس کی رعایاہوتے تھے، قبیلہ کے ہرشخص پرلازم تھاکہ وہ اپنے سردار کے صحیح یاغلط فیصلے کے آگے اپنی گردن جھکادے ، سرداربھی دوسروں سے ممتازرہنے کے لئے اپنی رعایا پراپناجودوکرم نچھاورکرتے رہتے تھے ،اس لئے قبائل کومن مانی کرنے کی یک گونہ آزادی تھی ،چاروں طرف سے بڑی طاقتوارحکومتوں ایران وروم کے درمیان گھیر ا ہوا تھا ، عرب کے مشرقی اورجنوبی سواحل اورعراق عرب کا علاقہ نجدکی حدودتک ایران کے پاس تھایمن جوعرب کاسب سے زرخیزصوبہ تھااس پر۵۲۵ء میں پہلے حبشیوں نے قبضہ کیا لیکن ۵۷۵ء میں معدیکرب نے جوذی یزن حمیری کا بیٹا تھافارس کی مددسے حبشیوں سے اقتدارچھین کراپنی خودمختیارحکومت قائم کرلی،لیکن کچھ حبشیوں کواپنی خدمات کے لئے روک لیاجنہوں نے موقعہ پاکرایک دن معد یکرب کو قتل کر ڈالا،کسریٰ نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یمن کوفارس کاایک صوبہ بنالیا اور صنعاء پرایرانی گورنر مقرر کر دیا تھا ،۶۲۸ ئکوتقریباًپچاس برس بعدایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کرلیااس طرح یمن دوبارہ اسلامی اقتدارکے زیرنگیں آگیا، عرب کے شمال میں تبوک تک رومی سلطنت کے اثرات پہنچے ہوئے تھے ،حجازکی شامی حدود پرقیصرکاقبضہ تھاجو کئی مرتبہ مکہ کی چھوٹی سی حکومت میں مداخلت کرچکا تھایہ بڑی حکومتیں اندرون ملک اپنے اپنے اغراض ومقاصد اور اثرات پھیلانے کے لئے قبائل عرب کوآپس میں لڑاکر استعمال کرتی تھیں ،کوئی باضابطہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اندرون عرب آبادقبائل آپس میں متحدنہ تھے بلکہ ہروقت کی معمولی معمولی باتوں پر قتل وغارت ،ڈاکہ زنی اور لوٹ مارکی وجہ سے ان کاشیرازہ بکھرچکاتھااسی طرح عرب کے تینوں سرحدی علاقوں میں آباد قبائل سیاسی طور پر سخت خلفشار کا شکار رہتے تھے ،وہ اپنی اغراض وضروریات کے لئے کبھی عراقیوں کے اورکبھی شام کے ہمنوابن جاتے تھے،اس وقت تجارت کے تین راستے تھے جن پریہ حکومتیں قابض ہوناچاہتی تھیں ،یمن کاگورنرابرہہ اسی مقصدکوحاصل کرنے کے لئے خدائی عذاب کاشکارہوچکاتھا،دوسرا مقصدفوج کے لئے بہادرنفری کی بھرتی تھی، اہل عرب کاصدیوں سے صحرامیں آزاد زندگی گزارنے کی وجہ سے ان میں جرات ، شجاعت وغیرت اور پختگی عزم کا جوہرپیداہوچکاتھاوہ نہ تو وہ کسی کوخاطر میں لاتے اورنہ ہی مرعوب ہوتے اورنہ ہی مصائب وتکلیف میں ہمت ہارتے تھے ،قول کے ایسے پکے اور سچے تھے کہ جان توچلی جائے مگرزبان نہ جائے ، مہمان نواز ایسے کہ کوئی مہمان ان کے گھرسے بھوکا نہیں جاسکتاتھاکیونکہ فوجی مقاصد کے لئے اس سے بہترنفری اورکہیں سے نہیں مل سکتی تھی اسلئے ہر ملک کی یہ کوشش تھی کہ اس بنجرعلاقہ پر اپنا قبضہ جماکر اپنی فوج کومضبوط بنائے۔

مالیاتی نظام

xحکومت اوراہل مکہ کی آمدنی کے متعددذرائع تھے ،جب دوقبائل جرہم اورقطورانے مکہ میں وفاقی حکومت قائم کی توانہوں نے شہرکودوحصوں میں تقسیم کرلیا،جس حصہ سے کوئی تاجر شہر میں داخل ہوتااسی حصہ کے قبیلہ کومحصول یاعشراداکرتاتھا،لیکن قصیٰ نے اپنے عہدحکومت میں اس تقسیم کوختم کردیاتھااورخودمطلق العنان حکمران بن گیا،محصول کاطریقہ عمالقہ کے ہاں بھی رائج تھاجوآمدن کاسب سے بڑاذریعہ تھا،مگرمکہ کے باشندے اس سے مستثنیٰ تھے،قصیٰ نے ایک اورسالانہ فنڈ(رفادہ)بھی قائم کیاتھااس نے اپنی قوم کوترغیب دی کہ حجاج کی خدمت اورضیافت ہمارااخلاقی فرض ہے لہذاتمام اہل مکہ اپنی آمدنی سے سالانہ کچھ رقم اس فنڈمیں جمع کرائیں تاکہ حج کے ایام میں غریب حجاج کاتعاون کیاجائے اوربلدیہ کی طرف سے ان کی ضیافت بھی ہوتی رہے ۔

xعرب میں یہ عام دستورتھاکہ رؤ سااورامراء بڑی عالی شان ضیافتوں کااہتمام کیاکرتے تھے ،لیکن سب اہل مکہ مل کران مصارف کابوجھ برداشت کرتے تھے اورجورقم بچ جاتی وہ حاکم وقت کے خزانہ کومعمورکرتی تھی۔

xکوئی اجنبی زائریامسافرمکہ میں فوت ہوجاتاتواس کامال بھی حاکم وقت کودے دیاجاتاتھا۔

xآمدن کاایک انفرادی ذریعہ یہ بھی تھاکہ باہرکے لوگ جب حج کے لئے مکہ میں آتے تووہ اہل مکہ سے کرایہ پرلباس حاصل کرتے تھے،اگرکسی وجہ سے لباس دستیاب نہ ہوتا تو پھر اپنے غیرمقدس اورگناہ آلودلباس کواتارکرمردوعورتیں سب کامل برہنگی کی حالت میں بیت اللہ کاطواف کرتے تھے ،اس طرح قریش مکہ کے لئے یہ بھی ایک معقول زریعہ آمدن بن گیاتھا۔

xپہلے پہل حجاج کرایہ کے مکان میں نہیں بلکہ بطورمہمان کسی کے ہاں ٹھہرجاتے تھے ،اگرچہ وہ کرایہ کے بوجھ سے سبکدوش تھے مگرمیزبان کی خاطرمدارت کے لئے وہ کپڑوں کا جوڑا،قربانی کاجانور یاکوئی اورچیزبطورمعاوضہ اداکرتے تھے۔

[1]قلب جزیرہ العرب فوائدحمزہ صفحہ ۱۶۰

[2] دیوان الحماسہ ۳۲۹؍۱

[3] دیوان الحماسة ۳۲۹؍۱

[4] ابن سعد۶۴؍۱

[5] الرحمٰن ۲۲

[6] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی هُرَیْرَةَ الدَّوْسِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۷ ۶۳۹

[7] مسنداحمد

[8] مسنداحمد۴۴۴

[9] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِأَخِیهِ: انْظُرْ أَیَّ زَوْجَتَیَّ شِئْتَ حَتَّى أَنْزِلَ لَكَ عَنْهَا؟ ۵۰۷۲

[10] آل عمران ۱۹۶

[11] المومن۴

[12] تمدن عرب ، مترجم سیدعلی بلگرامی صفحہ ۱۶۱

[13] الإملاء المختصر فی شرح غریب السیر۶۲؍۱

[14] فتح الباری ۱۵۹؍۱

[15] المحبرباب اسواق العرب۲۶۷؍۱

[16] مسنداحمد۱۵۶۹

[17] البقرة ۲۰۰

[18] الاعراف ۳۱

[19] الحج ۳۶

[20] فتح الباری ۱۲۰؍۱

[21] تاریخ یعقوبی ۳۱۴؍۱

[22] الروض الأنف۳۲؍۵

[23] فتح الباری ۴۷۳؍۳

[24]تاریخ مکہ و مدینہ

[25] دائرة المعارف ۳۲۵؍۹ لفظ مک

Related Articles