مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

عرب کے دیگر مذاہب

عرب کے لوگ تاجرتھے ،ان کے اطراف میں جومختلف مذاہب کی بڑی حکومتیں تھی جن سے تعلق کی وجہ سے اورخودمکہ کے مشرک سرداروں کی بناپرجن ہاتھوں میں اقتداراعلیٰ تھا بت پرستوں کے علاوہ کچھ اورمذاہب اورخیال کے لوگ بھی پائے جاتے تھے،جیسے اجسام پرست،ارواح پرست، ستارہ پرست، ،یہودی ،نصرانی ،صائبین،مجوسی ملحد ودہرئے وغیرہ ،اس لئے اختلاف عقائداورکثرت مذاہب کی وجہ سے یہ مقدس سرزمین تخیلات کی برائیوں اور مذاہب باطلہ کاگڑھ بن چکی تھی۔

یہودی:

یہودیوں کے عقائدیہ تھے۔

xیہودیوں کویہ غلط فہمی تھی کہ وہ اللہ کے بیٹے اورچہیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی تردیدفرمائی کہ اگرتم واقعی ہی اللہ کے بیٹے ہوتوپھروہ تمہیں تمہارے اعمالوں پرسزاکیوں دیتاہے ،حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اس دنیامیں دوسرے انسان ہیں تم بھی انہی جیسے ہو۔

 وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ۝۰ۭ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ

 خَلَقَ۝۰ۭ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَلِلهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا۝۰ۡوَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ۝۱۸ [1]

ترجمہ:اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ،ان سے) پوچھو پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہوجیسےاورانسان اللہ نے پیداکیے ہیں ، وہ جسے چاہتاہے معاف کرتاہے اور جسے چاہتاہے سزادیتاہے ،زمین و آسمان اوراس کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔

xیہودی ابراہیم علیہ السلام کویہودی اورعیسائی ان کوعیسائی سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے دونوں اہل کتاب کے اس عقیدے کی تردیدفرمائی اورانہیں سوچنے کے لئے ایک نکتہ پیش فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی یاعیسائی کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ دونوں کتابیں تورات اورانجیل جو موسیٰ  علیہ السلام اور عیسیٰ  علیہ السلام پرنازل کی گئیں تھیں ان کے بعدنازل کی گئیں تھیں ،اس لئے ابراہیم علیہ السلام نہ تویہودی تھے اورنہ ہی عیسائی تھے بلکہ وہ وہ ایک مسلم یکسواوراللہ کے ہرفرمان پرسرجھکادینے والاتھا ۔

یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۶۵ [2]

ترجمہ:اے اہل کتاب تم ابراہیم کے(دین کے) بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ؟ تورات اور انجیل توابراہیمؑ کے بعدہی نازل ہوئی ہیں پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔

مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۶۷ [3]

ترجمہ: ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ توایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔

xیہودونصاری کایہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ تیری اولادمیری اولین اولادہے ،میں اسے آگ میں داخل کروں گااوروہ چالیس دن تک اس میں رہے گی ،حتی کہ آگ اس کادامن اعمال پاک کردے گی اوراس کے گناہوں اورخطاؤ ں کونگل جائے گی،پھرندادی جائے گی کہ بنی اسرائیل میں سے ہرایک مختون کو(آگ سے)نکال دو۔اس لئے یہودیوں کویہ بھی غلط فہمی تھی کہ وہ جنت کے اجارہ دارہیں اوراگروہ جہنم میں ڈالے بھی گئے توچندروزکے لئے ڈالے جائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاان لوگوں نے اللہ سے کوئی عہدلیاہواہے کہ وہ انہیں جہنم میں نہیں ڈالے گایاچندروزکے لئے ہی جہنم میں داخل کرے گا؟ایساہرگزنہیں بلکہ جوشخص بھی ایمان لائے گااورنیک اعمال کرے گاوہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کیاجائے گااورجوگناہ ونافرمانی کرے گااس کے اعمال اس کوگھیرلیں گے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کیاجائے گا۔

وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً۝۰ۭ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللهُ عَهْدَهٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸۰بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْۗــــــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۸۱ [4]

ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے ،ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہےجس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے ؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی ؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکّر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰۠ وَغَرَّھُمْ فِیْ دِیْــنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۴ [5]

ترجمہ: ان کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں آتش دوزخ تو ہمیں مَس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز، ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کے ردمیں فرمایااگریہ لوگ اتنے ہی وثوق سے جنت میں داخل ہونے کااظہارکرتے ہیں توپھرموت کی تمناکیوں نہیں کرتے تاکہ اس دنیاکی پریشانیوں وغیرہ سے نجات حاصل کرکے جلدازجلدجنت الفردوس کے مزے لوٹنے کے لئے آجائیں ،مگرکیوں کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں اس لئے کبھی موت کی تمنانہیں کریں گے بلکہ ہزاروں برس لمبی عمرکی دعاکریں گے ۔

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۹۴وَلَنْ یَّـتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِــمِیْنَ۝۹۵ [6]

ترجمہ:ان سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنّا کرو، اگر تم اس خیال میں سچے ّ ہو، تو یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنّا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کماکر انھوں نے وہاں بھیجا ہے اس کا اقتضا یہی ہے(کہ وہاں جانے کی تمنّا نہ کریں )اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔

xیہودی علماء اللہ تعالیٰ کے غضب سے بے خوف ہوکررسولوں پرنازل شدہ کتابوں کے الفاظ میں ردوبدل کردیتے ،اس میں اپنی من مانی چیزیں داخل کردیتے یااپنی تاویلات سے آیات کتاب کے معنی بگاڑدیتے ،اس طرح اپنی فطری شرارت سے کچھ کاکچھ بناکرلوگوں میں مشہورکردیتے،اوراگرتلاوت تورات کرتے توکتاب کے الفاظ کو الٹ پھیرکر پڑھتے ،تاکہ دوسرے لوگ اسے کتاب ہی کاحصہ سمجھیں ،حالانکہ وہ کتاب کاحصہ نہ ہوتے۔

یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۷۱ۧ [7]

ترجمہ:اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو ؟ ؏۔

مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ۔۔۔ ۝۴۶ [8]

ترجمہ:جن لوگوں نے یہودیت کاطریقہ اختیارکیاہے ان میں کچھ لوگ ہیں جوالفاظ کوان کے محل سے پھیردیتے ہیں ۔

وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَـتَھُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَمِنَ الْكِتٰبِ۝۰ۚ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللهِ وَمَا ھُوَمِنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۚ وَیَـقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۝۷۸ [9]

ترجمہ:ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہےحالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہےحالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی بہتان تراشی کی روش پردھمکی دیتے ہوئے فرمایا۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ۝۰ۤ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللهِ لِــیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ۝۷۹ [10]

ترجمہ:پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں ,ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔

xاللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں پرزبور،تورات اورانجیل نازل فرمائیں ،مگریہودی ان میں اپنی من پسندکی باتوں پرعمل کرتے اورجوانہیں پسندنہ ہوتیں یاجن سے ان کو نقصان کااندیشہ ہوتااس پرسرے سے عمل نہ کرتے،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انسانوں کوجن کے پاس الہامی کتاب ہے ایک قانون بتادیاکہ جوبھی اللہ کی نازل کردہ شریعتوں میں یہ طریقہ کاراختیاکرے گاکہ کچھ پرتوجوان کامن پسندہوعمل کریں اورکچھ کوجوان پربھاری ہوچھوڑدیں ،توایسے لوگوں کو جہنم رسیدکیاجائے گاجہاں ان کے عذاب میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔

۔۔۔ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝۰ۭ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۸۵اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۡفَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۝۸۶ۧ [11]

ترجمہ: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ؟ اللہ ان حرکات سے بےخبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔

xان دونوں گروہوں کااپنااپنایہ بھی خیال تھاکہ یہودی کہتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اورعیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے۔

اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطَ كَانُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ قُلْ ءَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللهُ۝۰ۭ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللهِ۝۰ۭ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۱۴۰ [12]

ترجمہ:یا پھر کیا تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام ) ، اسماعیل ( علیہ السلام ) ، اسحاق ( علیہ السلام ) ، یعقوب ( علیہ السلام ) اور اولاد یعقوب ( علیہ السلام ) سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے ؟ کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے ؟ تمہاری حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے۔

xعرب میں یہودونصاریٰ دونوں ہی اہل کتاب تھے اوردونوں ہی بنی اسرائیل کے نبیوں کومانتے تھے مگراس کے باوجوددونوں ایک دوسرے کے حریف تھے اورایک دوسرے کوگمراہ سمجھتے تھے،اس طرح مشرکین مکہ ومدینہ بھی ان دونوں گروہوں کوگمراہ سمجھتے تھے اوراپنے دیوی دیوتاؤ ں کوسچاسمجھتے تھے۔

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰی شَیْءٍ۝۰۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ۝۰ۙ وَّھُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ۝۰ۚ فَاللهُ یَحْكُمُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۱۳ [13]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے، یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا۔

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۳۵ [14]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے، عیسائی کہتے ہیں عیسائی ہوتو ہدایت ملے گی، ان سے کہو نہیں ، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ( علیہ السلام ) کا طریقہ، اور ابراہیم ( علیہ السلام ) مشرکوں میں سے نہ تھا۔

xبددیانتی میں یہودیوں کی اکثریت کاکوئی ہم پلہ نہ تھا،ان کایہ عقیدہ تھاکہ اگروہ غیریہودی کے مال پرقابض ہوجائیں توبھی اس حق تلفی پراللہ ان سے کسی قسم کی بازپرس نہیں کرے گاحالانکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو حق تلفی کی اجازت نہیں دیتا۔

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖٓ اِلَیْكَ۝۰ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖٓ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَاۗىِٕمًا۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ۝۰ۚ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۝۷۵ [15]

ترجمہ: اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کر دے گا، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا اِلّا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ، ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امّیوں ( ﴿غیر یہودی لوگوں ) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے( کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے)

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ تِلْكَ اَمَانِیُّھُمْ۝۰ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۱۱ [16]

ترجمہ:ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق )عیسائی نہ ہو، یہ ان کی تمنائیں ہیں ، ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرواگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

xعام طور پر یہودی عزیر علیہ السلام کو عیسیٰ  علیہ السلام کامماثل اورہمسرقراردینے کے لئے یہ اعتقادرکھتے تھے کہ عزیر علیہ السلام (نعوذباللّٰہ )  اللّٰہ کے بیٹے ہیں ۔

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللهِ ۝۳۰ [17]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں عزیر رضی اللہ عنہ اللہ کا بیٹا ہے۔

xاللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی طرف پے درپے رسو ل بھیجے ،ان پرصحیفے اورکتابیں ناز ل فرمائیں ، مگران کویہ سمجھ ہی نہ آتی تھی کہ اللہ کا بیٹاکیسے ہوسکتاہے۔

مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۹۱ۙ [18]

ترجمہ: اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے، اور کوئی دوسرا الٰہ اس کے ساتھ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر الٰہ اپنی خلق کو لے کر الگ ہوجاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے، پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ۝۰ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۚ وَهُوَبِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ [19]

ترجمہ: وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں اس عقیدے کے چندلوگ تھے ،ابن حزم نے کہاہے کہ یہودیوں کافرقہ صدوقی جویمن میں تھااس کایہ عقیدہ تھامگر جب مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن مجیدکی یہ ببانگ دھل آوازبلندہوئی تویہودیوں کی طرف سے کسی قسم کی تکذیب اورخلاف واقعیت کی آواز بلند نہ ہوئی ، اگر مدینہ میں چندلوگ ہی اس عقیدے کے تھے توپھراس آیت کی مخالفت میں پرزور آواز بلندہونی چائے تھی جونہیں ہوئی،اس لئے قرآن مجیدکی بات ہی سچ ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کایہ عقیدہ تھا ۔

xا للہ خالق کائنات، مالک الملک جوہرطرح کے خزانوں کامالک ہے ،اوراپنے دونوں ہاتھوں سے ان خزانوں کواپنی مخلوقات میں بانٹتاہی رہتاہے مگران میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی،اگرکسی کے پاس کچھ ہے تواللہ ہی نے اسے اپنی مشیت ورحمت سے عطافرمایاہواہے ، مگریہودی جوتجارت کرتے تھے اوراپنے کاروبارکوہرطرف پھیلا رکھا تھا ، کاروبار کے علاوہ یہ لوگ سودی لین دین بھی کرتے تھے،اوربڑی بے رحمی سے شرح سودمقررکرتے اورقرض لینے والے کے بچوں اورعورتوں تک کوبطوررہن اپنے پاس رکھ لیتے تھے، جس سے مدینہ کی اکثرآبادی ان کی مقروض تھی۔

وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ۝۰ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۶۱ [20]

ترجمہ: اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں ، اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

xاس کے ساتھ ساتھ یہ زمینداربھی تھے اوران زمینوں پرباغات اگارکھے تھے،اس طرح ذرائع معاش کے تنہااجارہ دارتھے اس لئے دولت ان کے گھرکی لونڈی بنی ہوئی تھی،مگراس کے باوجودان کی حرص کایہ عالم تھاکہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کوچندٹکوں کے زیورکے لئے پتھرسے مارڈالتے تھے ،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ یَهُودِیًّا قَتَلَ جَارِیَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا، فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ، فَجِیءَ بِهَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ: أَقَتَلَكِ فُلاَنٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ لاَ، ثُمَّ قَالَ الثَّانِیَةَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ لاَ، ثُمَّ سَأَلَهَا الثَّالِثَةَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ نَعَمْ، فَقَتَلَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَجَرَیْنِ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک یہودی نے ایک لڑکی کواس کے چاندی کے زیورکے لالچ میں مارڈالاتھااس نے لڑکی کوپتھرسے مارا،پھرلڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تواس کے جسم میں جان باقی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے ماراہے؟اس نے سرکے اشارہ سے انکارکیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھاکیاتمہیں فلاں نے ماراہے؟اس مرتبہ بھی اس نے سرکے اشارے سے انکارکیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھاتواس نے سرکے اشارہ سے اقرارکیاچنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دو پتھروں میں کچل کر قتل کردیا۔[21]

مال ودولت کی فراوانی کی وجہ سے ان میں زناوبدکاری عروج پرتھی ،کیونکہ طبقہ امرء اس میں ملوث تھااس لئے انہیں سزانہیں دی جاسکتی تھی جوسنگسارکرناتھی اوران کی شریعت میں لکھی ہوئی تھی ،

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: مُرَّ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَهُودِیٍّ مُحَمَّمًا مَجْلُودًا، فَدَعَاهُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِی فِی كِتَابِكُمْ؟، قَالُوا: نَعَمْ، فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِهِمْ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ الَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى، أَهَكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِی فِی كِتَابِكُمْ قَالَ: لَا، وَلَوْلَا أَنَّكَ نَشَدْتَنِی بِهَذَا لَمْ أُخْبِرْكَ، نَجِدُهُ الرَّجْمَ، وَلَكِنَّهُ كَثُرَ فِی أَشْرَافِنَا، فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِیفَ تَرَكْنَاهُ، وَإِذَا أَخَذْنَا الضَّعِیفَ أَقَمْنَا عَلَیْهِ الْحَدَّ، قُلْنَا: تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلَى شَیْءٍ نُقِیمُهُ عَلَى الشَّرِیفِ وَالْوَضِیعِ، فَجَعَلْنَا التَّحْمِیمَ، وَالْجَلْدَ مَكَانَ الرَّجْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ إِنِّی أَوَّلُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوهُ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْكُفْرِ} [22] إِلَى قَوْلِهِ {إِنْ أُوتِیتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ} [23]، یَقُولُ: ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ أَمَرَكُمْ بِالتَّحْمِیمِ وَالْجَلْدِ فَخُذُوهُ، وَإِنْ أَفْتَاكُمْ بِالرَّجْمِ فَاحْذَرُوا، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى {وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} فِی الْكُفَّارِ كُلُّهَا

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کامنہ کوئلے سے کالاکیاگیاتھااوراسے کوڑے لگائے گئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کوبلایااورفرمایاکیاتم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزاپاتے ہو؟انہوں نے کہاہاں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کوبلایااورفرمایامیں تجھے اللہ کی قسم دیتاہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پرتورات نازل فرمائی کیاتمہاری شریعت میں زناکی یہی حدہے؟وہ بولانہیں ،اگرآپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تومیں انکار کرتاہماری شریعت میں توزناکی حد سنگسار کرنا ہے، لیکن جب ہمارے امراء طبقہ میں زناکی کثرت ہوگئی توجب ہم کسی بڑے آدمی (بااثرشخص)کوزنامیں پکڑتے تواس کوچھوڑدیتے اورجب کوئی عام یہودی پکڑا جاتا تو اس پرحدجاری کرتے(اس تضادکوختم کرنے کے لئے)پھرہم نے کہاآؤ کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جوہم شریف اورکمزورسب پرنافذ کر سکیں چنانچہ سنگسارکرنے کے بدلےہم نے کوئلے سےمنہ کالا کرنا اور کوڑے لگانا مقرر کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ!میں وہ پہلا آدمی ہوں جوتیرے حکم کوزندہ کر رہا ہے جبکہ انہوں نے اس کومردہ کرچھوڑاتھاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیااوروہ یہودی سنگسارکیاگیا،اللہ عزوجل نے سورہ المائدہ کی آیت۴۱ نازل فرمائی ’’اے پیغمبر ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں ،خواہ وہ ان میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل ان کے ایمان نہیں لائے یا ان میں سے ہوں جو یہودی ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں ،اور دوسرے لوگوں کی خاطر ،جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے سن گن لیتے پھرتے ہیں ، کتاب اللہ کے الفاظ کو ان کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں ، اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو،نہیں تو نہ مانو۔‘‘پھراللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ کی آیات۴۴ نازل فرمائی ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔‘‘اورسورہ المائدہ کی آیت ۴۴نازل فرمائی ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔‘‘سورہ المائدہ کی آیت ۴۷نازل فرمائی ’’جو لوگ اللہ کے نا زل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں ۔‘‘یہ سب آیتیں کافروں کے حق میں نازل ہوئیں ۔[24]

یہ جنگ کرناجانتے تھے اورانہوں نے خودکواوراپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لئے مضبوط قلعے بنا کران میں سامان حرب جمع کر رکھا تھا اپنے غروروتکبرمیں اللہ کی رحمت کوبھول چکے تھے اس لئے خودکوسخی اورنعوذباللہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں کہتے کہ عطاکرنے اور بخشش سے اس کاہاتھ رکاہواہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، بَیْتَ الْمِدْرَاسِ، فَوَجَدَ مِنْ یَهُودَ أُنَاسًا كَثِیرًا قَدِ اجْتَمَعُوا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ: فِنْحَاص وَكَانَ مِنْ عُلَمَائِهِمْ وَأَحْبَارِهِمْ، وَمَعَهُ حَبْرٌ یُقَالُ لَهُ: أَشْیَعَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَیْحَكَ یَا فِنْحَاص اتَّقِ اللَّهَ وَأَسْلِمْ، فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ جَاءَكُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِهِ، تَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَكُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِیلِ، فَقَالَ فِنْحَاصُ: وَاللَّهِ -یَا أَبَا بَكْرٍ-مَا بِنَا إِلَى اللَّهِ مِنْ حَاجَةٍ مِنْ فَقْرٍ، وَإِنَّهُ إِلَیْنَا لَفَقِیرٌ. مَا نَتَضَرَّعُ إِلَیْهِ كَمَا یَتَضَرَّعُ إِلَیْنَا، وَإِنَّا عَنْهُ لَأَغْنِیَاءُ، وَلَوْ كَانَ عَنَّا غَنِیًّا مَا اسْتَقْرَضَ مِنَّا كَمَا یَزْعُمُ صَاحِبُكُمْ، یَنْهَاكُمْ عَنِ الرِّبَا ویُعْطناه وَلَوْ كَانَ غَنِیًّا مَا أَعْطَانَا الرِّبَا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن کا واقعہ ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے بیت المدارس میں داخل ہوئے وہاں انہوں نے بہت سے یہودیوں کوموجودپایاجواپنے عالم فخاص کے پاس آئے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے اجتماع کوغنیمت جانتے ہوئے انہیں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہی اورفخاص سے کہنے لگے ، اے فخاص !اللہ سے ڈرواوراسلام لے آؤ ، اللہ کی قسم !تم جانتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اوراسی کی جانب سے تمہارے پاس وہ حق لے کرآئے ہیں جسے تم توریت میں لکھاہواپاتے ہو،یہ سن کرفخاص کے لبوں پر تمسخرآمیزمسکراہٹ نمودارہوئی اوروہ کہنے لگااللہ کی قسم اے ابوبکر!ہمیں اللہ سے کسی چیزکی حاجت نہیں ، خود اسے ہماری حاجت ہے ،ہم اس کی طرف نہیں جھکے بلکہ وہ ہماری طرف جھکنے پرمجبورہے،ہم اس کی مددسے بے پرواہ ہیں لیکن وہ ہماری امداد سے مستغنیٰ نہیں ،اگر وہ ہماری امدادسے مستغنیٰ ہوتاتوکبھی ہمارے مال ہم سے بطورقرض نہ مانگتا ، جس طرح تمہارے رسول کاخیال ہے ،اللہ تمہیں سودلینے سے منع کرتاہے لیکن خودہمیں سوددیتاہے ،اگروہ ہم سے مستغنیٰ ہوتاتوہمیں سودکیوں دیتا ۔

اس ناپاک گفتگوسے فخاص کامقصددراصل اس آیت پرچوٹ کرناتھاجس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۝۰ۭ وَاللهُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ۝۰۠ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵ [25]

ترجمہ:تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حَسَنہ دےتاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے ؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَضَرَبَ وَجْهَ فِنْحَاص ضَرْبًا شَدِیدًا، وَقَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْلَا الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مِنَ الْعَهْدِ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ یَا عَدُوَّ اللَّهِ،

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ میں غیریت ایمانی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ،جب انہوں نے فخاص کواللہ کے قول اوراس کی وحی کامذاق اڑاتے دیکھاتوفخاص کو اتنے زورسے ایک تھپڑماراکہ اس کے حواس بجانہ رہے اوراس کے بعدفرمایااے اللہ کے دشمن !اگرمسلمانوں اوریہودیوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوتاتواللہ کی قسم میں تیری گردن اڑادیتا۔[26]

وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللهِ مَغْلُوْلَةٌ۝۰ۭ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا۝۰ۘ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ۝۰ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۶۴ [27]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ،باندھے گئے ان کے ہاتھ اورلعنت پڑی ان پراس بکواس کی بدولت جویہ کرتے ہیں ،اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں جس طرح چاہتاہے خرچ کرتاہے۔

قَالَ عِكْرِمَةُ: {وَقَالَتِ الْیَهُودُ یَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ} [28]الْآیَةُ , نَزَلَتْ فِی فِنْحَاصٍ الْیَهُودِیِّ

عکرمہ کہتے ہیں یہ آیت یہودی کہتے ہیں ’’اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔‘‘ فنحاص یہودی کے بارے میں نازل ہوئی۔[29]

xیہودیوں کے یہاں سبت کی تعطیل بڑی اہمیت رکھتاہے ،جو جمعہ کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوکرسنیچرکے دن ستاروں کے نمودارہونے پرختم ہوتاہے ،راسخ العقیدہ یہودی دنیاوی کاموں کوچھوڑکرزیادہ سے زیادہ عبادت اورمراقبے میں مشغول رہتے ہیں ۔

xیہودی جواہل کتاب تھے،جودین وشریعت اورآخرت کوجانتے تھے ، جوبے چینی کے ساتھ اس نبی کے منتظرتھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیاء نے کی تھیں ، اور دعائیں مانگاکرتے تھے کہ وہ آخری نبی جلدی سے مبعوث ہوجائے توکفارکاغلبہ مٹ جائے اورہمارے عروج کادورشروع ہولیکن جب وہ رسول مبعوث ہوگیاتواسے اچھی طرح جاننے اورپہچاننے کے باوجود انکارکردیا۔

 وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚۖ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ۝۰ۡفَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۸۹ [30]

ترجمہ:اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئےتو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اللہ کی لعنت ان منکرین پر۔

xمگرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ کے ظلم وستم کی وجہ سے ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لائے اورانہیں دعوت حق پہنچائی توبجائے اس کے کہ فوراًاس دعوت پرلبیک کہتے اپنے بغض وعناد اور غرور و تکبرکی وجہ سے اس پاکیزہ دعوت کے خلاف مشرکین مکہ کے ساتھ سرگرم عمل ہوکرمسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے لگے۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚ ۝۸۲ [31]

ترجمہ:تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ،یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدّنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے۔

xان کے جرائم، اللہ کی آیات کی نافرمانیوں ،فرائض سے کوتاہی ،پیغمبروں کوناحق قتل کرنے ، کتاب اللہ میں من مرضی کی تحریفات،باربارحدوداللہ کوتوڑنے اوروعدہ خلافی کی وجہ اللہ نے انہیں عطاکردہ بلندمرتبے سے گرادیااور ہمیشہ کے لئے ان پرذلت ومسکنت مسلط کردی ۔

لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّآ اَذًى۝۰ۭ وَاِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَار۝۰ۣ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ۝۱۱۱ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّـةُ اَیْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَاۗءَ بِغَیْرِ حَقٍّ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۱۱۲ۤ [32]

ترجمہ:یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں ، اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بےبس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی ،یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے، یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کردی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا، یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔

xعورتوں کے مطابق یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب مقدس میں لکھاہے کہ عورت موت سے زیادہ تلخ ہے، اس لئے یہودیوں کے ایک فرقے کے نزدیک عورت سے ہرقسم کی ہم بستری ناپاکی تھی(میرج اینڈمارلز) ان میں بیٹی کی حیثیت باپ کے نزدیک زرخریدلونڈی سے زیادہ نہ تھی اوروہ اسے فروخت کردینے کامجازتھے یہی اختیاربھائی کوبھی حاصل تھا،بیوہ عورت کے سلسلہ میں ایک حوالہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا،توریت باب استثناء باب ۲۵میں آیت ۵سے آیت ۱۰تک میں مرقوم ہے کہ اگردوبھائی ایک ہی جگہ رہتے ہوں اورایک بے اولادمرجائے تومرنے والے بھائی کی بیوی کانکاح کسی اجنبی سے نہ کیاجائے بلکہ اس کے دیوریاجیٹھ کوچاہئے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنانے اوران کے بھاوج ہونے کاحق یوں اداکرے کہ اس سے پہلوٹھی کی جواولادپیداہواس کاشمارمرنے والے بھائی پرکرے(یعنی وہ اسے متوفی بھائی کی اولادسمجھے)تاکہ اس کانام اسرائیل سے مٹ نہ جائے،اگربیوہ عورت کے مرحوم شوہرکابھائی شادی سے انکارکرے تواس کے بھائی کی بیوی اس کے پاس آئے گی ،بزرگوں کی موجودگی میں اس کے جوتے اتارے گی اوراس کے منہ پرتھوک دے گی،اس آدمی کے ساتھ ایساسلوک اس لئے کیاجائے کہ اس نے اپنے بھائی کاگھرآبادنہیں کیا،اسرائیل میں اس کانام اسی گھرکی نسبت سے لیاجائے گاجہاں اس کے جوتے اتارے گئے۔زرپرستی اورسودخوری کی لعنت کی وجہ سے پوری دنیامیں انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،ان کی عورتیں بھی بدترین اخلاقی رزائل کی حامل تھیں اورہربرے کام میں پیش پیش رہتی تھیں لیکن اس کے باوجوداپنی سوسائٹی میں ان کاکوئی احترام نہیں تھااورمردانہیں جانوروں سے بدترسمجھتے تھے،ان سے انتہائی توہین آمیزسلوک کرتے تھے،اپنے معاشرے اورگھٹیاسیاسی مفادات کے حصول کے لئے جہاں اورجس طرح چاہتے عورت کواستعمال کرنے سے گریزنہیں کرتے تھے،جس کی وجہ سے ان میں زناکاری انتہاکوپہنچ چکی تھی ،حالانکہ دوسری الہامی مذہب کی طرح زناکی سخت ممانعت تھی،ان میں شرم وحیا کاتصورختم ہوچکا تھا ورغیرت ان سے منہ موڑچکی تھی۔

آخرکاران کے جرائم کی بناپرپہلے یہودی قبائل کویکے بعددیگرے مدینہ منورہ سے ذلیل وخوارہوکرنکلناپڑا،پھرشکست کھاکرخیبرسے نکلے،اورپھرخلیفہ دوئم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں انہیں عرب سے ہی باہرنکال دیا اس کے بعداگرکہیں ان کوتھوڑابہت امن چین نصیب بھی ہے تووہ ان کے اپنے بل بوتے پرقائم کیاہواامن وچین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اورمہربانی کا نتیجہ ہے کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کواللہ کے نام پرامان دے دی اورکہیں کسی غیرمسلم حکومت نے اپنے طورپرانہیں اپنی حمایت میں لے لیا،اسی طرح بسااوقات انہیں دنیا میں کہیں زورپکڑنے کاموقع بھی مل گیاہے لیکن وہ بھی اپنے زوربازوسے نہیں بلکہ محض بپائے مردی ہمسایہ ۔یہی حیثیت اس یہودی ریاست کی ہے جواسرائیل کے نام سے محض امریکہ،برطانیہ اورروس کی حمایت سے قائم ہوئی۔

نصرانی :

اہل عرب عیسائیت کوپسندنہیں کرتے تھے اس لئے عیسائیت نے عرب میں فروغ نہیں پایاتھااورجوتھوڑے بہت تھے وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سے ناپیدہوگئے ، خاص یمن میں جہاں عیسائی حبشیوں نے ایک عرصہ تک حکومت کی تھی عیسائیت کی بجائے یہودیت نے فروغ پایاتھاکیونکہشام میں نصرانیوں کی حکومت تھی جن کاشاہی مذہب عیسائیت تھااس لئے شمالی عرب کے قبائل لخم ،جذام، عاملہ اور تنوع جوحدودشام میں آبادہوگئے تھے انہوں نے عیسائیت اختیارکرلی تھے ،قبائل ربیعہ وغسان اور قضاعہ پربھی اس کے اثرات موجودتھے ،مکہ معظمہ میں قریش کے قبیلہ بنو اسدکے ورقہ بن نوفل جو ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچاذاد بھائی تھے کے علاوہ کچھ اورلوگوں نے جنہوں نے شام میں تعلیم پائی تھی عیسائیت اختیارکرلی تھی اوریہ لوگ عبرانی زبان میں انجیل کو پڑھ سکتے تھے ،بنواسدکے عثمان بن حویرث بھی عیسائی تھے ،جنوبی عرب نجران میں بنوحارث ، یمامہ میں بنوحنیف،اور نجدکے قریب قبیلہ بنوطے میں نصرانیت تھی ،اوس وخزرج میں چندآدمی عیسائی تھے، لیکن مسیحیت بہت پہلے اپنی اصل شکل کھوچکی تھی اوراس کی جگہ جس چیزکوآسمانی مذہب کانام دیاجاتاتھاوہ چندغیرعقلی اوہام اورکچھ غیرفطری ریاضتوں کامجموعہ تھا،ان اوہام کے علاوہ ہرنئی فکرارتداد اور ہر نیاخیال کفر سمجھا جاتاتھا،چوتھی صدی تک مسیحیت میں ۸۰،۹۰فرقے پیداہوچکے تھے ،سینٹ آگسٹائن نے اپنے زمانے میں ۸۸ فرقت گنوائے ہیں ،یہ فرقے ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت رکھتے تھے ، اسکندریہ اس فرقہ ورانہ کشمکش کاایک بڑااکھاڑاتھا۔عرب میں مختلف فرقے موجودتھے جیسے فرقہ نسطوری ،فرقہ یعقوبی ،فرقہ مارونی یامریمی، فرقہ ملکانی(کیتھولک)اورایک فرقہ بربرانی ، ان کے عقائدمیں بعض یہودی فرقوں کے عقائد پیوست ہو چکے تھے ، یہ لوگ عیسٰی علیہ السلام کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب مانتے تھے ،یہ عیسیٰ علیہ السلام کے ابن  اللّٰہ ہونے اورتین مستقل الہٰوں میں سے ایک ہونے پر زور دیتے تھے اور یعقوبی فرقہ نے توعیسٰی علیہ السلام کو اللّٰہ کا جسمانی ظہور قراردے کر انہیں عین  اللّٰہ بنادیااور اللّٰہ ہونے کی حیثیت سے اس کی عبادت کی ، ان کاعقیدہ تھا کہ تمام کائنات کی باگ دوڑ بیشک اللہ کے ہاتھ میں ہے مگراسے اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اس لئے وہ انہیں صراط مستقیم بتلانے کے لئے خودانسانی روپ اختیارکرکے دنیامیں آجاتاہے،یااس مقصد کے لئے بندوں میں سے کسی کواپنابیٹا،بیٹی یابیوی بنالیتاہے،ان کایہ بھی عقیدہ تھاکہ بیٹا قیامت کے روزباپ کے داہنے بازو پربیٹھ کرخلق کا عدل و انصاف کرے گا،نسطوری فرقہ اللہ اوراس کے(نَعُوذُ بِاللَّهِ) بیٹے کومانتے تھے اور مریم کولائق پرستش نہیں سمجھتے تھے،فرقہ مارونی یامریمی باپ ،بیٹے اوراس کی ماں کومانتے تھے ،عرب میں ایک فرقہ تھا جو مریم کوالہٰ سمجھ کرپوجتاتھا(برٹانیکا لفظ مریم)بربرانی فرقہ مسیح علیہ السلام اورمریم دونوں کو الہٰ سمجھتاتھا، یہ لوگ اولیاء پرستی اورقبرپرستی میں بزرگوں کے آستانے پوجتے اور ہورس (Horus)اورآئسس (Isis)کے مجسموں کی جگہ عیسٰی علیہ السلام وان کی والدہ مریم اور حواریوں کے مجسمے اپنے گرجوں میں رکھتے اوران کی پوجاکرنے لگے، سیٹرنیلیا (Saturnalia)کی جگہ کرسمس کاتہوارمنایاجانے لگا،عیسائی درویشوں نے قدیم زمانے کے تعویذگنڈے ،عملیات ،فال گیری وغیب گوئی ،جن بھوت بھگانے کے عمل شروع کردیئے ،ان کایہ نظریہ تھاکہ نجات کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ اس زندگی کے بکھیروں سے قطع تعلق کرلیا جائے ، خواہشات نفسی کومٹایاجائے ،لذات سے کنارہ کشی اختیارکی جائے ، جسمانی ضروریات اورنفس کے مطالبات کوپوراکرنے سے انکارکردیاجائے،تمام دینوی اورخونی محبتوں کو دل سے نکال دیاجائے،اوراپنے جسم ونفس کو ریاضیات ومجاہدات کے ذریعہ اتنی تکالیف دی جائیں کہ روح پراس کاتسلط قائم نہ رہ سکے،اس طرح روح ہلکی اورپاک وصاف ہو جائے گی اورنجات کے بلندمقامات پر اڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی ،دوسرے معنوں میں نیک وپاک بازافراددنیاکے کاروبارسے ہٹ کرگوشہ عزلت میں چلے جائیں اوراپنی نجات کی فکرمیں تپسیاکیے جائیں ،جبکہ بدکردارلوگ میدان میں ڈٹے رہیں اوراللہ کی زمین کے متولی بن کرآزادی کے ساتھ فتنہ وفساد کا بازارگرم کرتے رہیں اورانہیں روکنے والا کوئی نہ ہو،چنانچہ یونانی فلسفیوں میں اشراقیت،عیسائیوں میں رہبانیت اورہندؤ ں میں جوگ اسی اعتقادکانتیجہ تھا،کوئی گوشت نہ کھانے کاعہدکرلیتا،کوئی ہفتہ میں یاچالیس دنوں میں ایک مرتبہ غذا استعمال کرتاتھا،کوئی سرتاپابرہنہ رہتااورہرقسم کے لباس کوتقدس کی ذلت سمجھتاتھا،کوئی چلہ کی سردی میں اپنے جسم کوبرہنہ رکھتا تھا ، کوئی عمربھر یا سالہا سال تک اپنے آپ کو کھڑارکھتایابیٹھارہتاتھااورسونے اورلیٹنے سے قطعاًپرہیزکرتاتھا،کوئی اپناایک ہاتھ کھڑارکھتاتھاکہ سوکھ جائے ،کوئی عمربھرتاریک تہہ خانوں میں ،غاروں میں چھپ کراللہ کی روشنی تلاش کرتاتھا،چنانچہ لوگوں کے نزدیک بھی وہ شخص بڑاخدارسیدہ تصور ہوتا تھا جو گندااوربرہنہ ہواورکسی بھٹ یاغارمیں رہے ، ولایت کایہی تصورمقبول ہو گیا،اس کانتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں مردوں اورعورتوں نے زندگی کے اعلیٰ مشاغل ترک کردیئے اوراپنی قوتوں کوانسانیت کے فائدہ کی خاطراستعمال کرنے کی بجائے انہیں بالکل ناکارہ کر دیا اور سخت ریاضتوں اورنت نئے طریقوں سے اپنے جسم کواذیتیں دینے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔

اسکندریہ کاسینٹ مکاریوس ہروقت اپنے جسم پراسی(۸۰)پونڈکابوجھ اٹھائے رکھتاتھا،چھ مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتارہااورزہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کوکاٹتی رہیں ۔

اس کے مریدیوسپیوس نے اپنے پیرسے بھی بڑھ کرریاضت کی وہ ایک سوپچاس پونڈکابوجھ اٹھاکرپھرتاتھااورتین سال تک ایک خشک کنوئیں میں پڑارہا۔

سینٹ سابیوس صرف وہ مکئی کھاتا جو مہینہ بھرپانی میں بھیگ کربدبودارہوجاتی تھی ۔

سینٹ بیساریون چالیس دن تک خاردارجھاڑیوں میں پڑارہااورچالیس سال تک اس نے زمین کوپیٹھ نہیں لگائی ۔

سینت پاخومیوس نے پندرہ سال اورایک روایت کے مطابق پچاس سال زمین کوپیٹھ لگائے بغیرگزاردیئے ۔

سینٹ جان تین سال تک عبادت میں کھڑارہا،اس پوری مدت میں وہ نہ کبھی بیٹھانہ لیٹا ، آرام کے لئے بس ایک چٹان کاسہارالے لیتاتھا،اس کی غذاصرف وہ تبرک تھاجواتوارکواس کے لئے لایاجاتاتھا۔

سینٹ سیمیون اسٹائلائٹ (۳۹۰ء تا۴۴۹ ء) ہر ایسٹرسے پہلے چالس دن کافاقہ کرتاتھاایک دفعہ وہ پورے ایک سال تک ایک ٹانگ پرکھڑا رہا،بسااوقات وہ اپنی خانقاہ سے نکل کرایک کنوئیں میں جارہتا تھا ، آخر کار اس نے شمالی شام کے قلعہ سیمان کے قریب ۶۰فٹ ایک بلندایک ستون بنوایاجس کابالائی حصہ صرف تین فٹ کے گھیرمیں تھااوراوپرکٹہرابنادیاگیاتھا،اس ستون میں اس نے پورے تیس سال گزار دیئے ،دھوپ،بارش،سردی گرمی سب اس پرسے گزرتی رہتی تھیں اوروہ کبھی ستون سے نہ اترتا تھا ، اس کے مریدسیڑھی لگاکراس کوکھاناپہنچاتے اوراس کی گندگی صاف کرتے تھے،پھراس نے ایک رسی لے کراپنے آپ کواس ستون سے باندھ لیایہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہوگئی،گوشٹ سڑگیااوراس میں کیڑے پڑگئے،جب کوئی کیڑااس کے پھوڑوں سے گرجاتاتووہ اسے اٹھاکرپھرپھوڑے ہی میں رکھ لیتا اور کہتاکھاجوکچھ اللہ نے تجھے دیاہے ۔

سینٹ اینتھنی نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤ ں نہیں دھوئے ۔

سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہواپورے پچاس سال اس نے نہ منہ دھویانہ پاؤ ں ۔

مشہورراہبہ کنواری سلویانے عمربھراپنی انگلیوں کے سوا جسم کے کسی حصے کوپانی نہیں لگنے دیا۔

سینٹ نائلس (St.Nilus)دوبچوں کاباپ تھا،جب اس پررہبانیت کادورہ پڑاتواس کی بیوی روتی رہ گئی اوروہ اس سے الگ ہوگیا ۔

سینٹ امون (St.Ammon)نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن کوازواجی تعلق کی نجاست پروعظ سنایااوردونوں نے بالاتفاق طے کرلیاکہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے ۔

سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کوچھوڑکرفرارہوگیا۔

یہی حرکت سینٹ ایلیکسس نے کی ۔

سینٹ باسل ہنسنے اورمسکرانے تک کوممنوع قرار دیتا تھا ،ان ہی تصورات کی بناپرعورت اورمردکے درمیان شادی کاتعلق ان کے ہاں نجس قراردیاگیاتھا۔

سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتاہے کہ چالیس سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہاحتی کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تواس نے کہا،عورت دورہٹ جا۔

سینٹ تھیوڈورس کی ماں اوربہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کراس خانقاہ میں پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا،اورخواہش کی کہ وہ صرف ایک نظربیٹے اوربھائی کو دیکھ لیں مگربیٹے نے سامنے تک آنے سے انکار کر دیا ۔

سینٹ مارکس (St.Marcus)کی ماں اس سے ملنے کے لئے اس کی خانقاہ میں گئی اورخانقاہ کے شیخ ( Abbot)کی خوشامدیں کرکے اس کوراضی کیاکہ وہ بیٹے کوماں کے سامنے آنے کا حکم دے ،مگربیٹاکسی طرح مان سے نہ ملناچاہتاتھا،آخرکاراس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کرماں کے سامنے گیااورآنکھیں بند کر لیں ، اس طرح نہ ماں نے بیٹے کوپہچانانہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔

سینٹ سیمیون اسٹائلائٹس ماں باپ کوچھوڑکرستائیس سال تک غائب رہا،باپ اس کے غم میں مرگیا،ماں زندہ تھی ،بیٹے کی شہرت کے چرچے جب دورونزدیک پھیل گئے تواس کوپتہ چلاکہ وہ کہاں ہے ،بے چاری اس کوملنے کے لئے اس کی خانقاہ پہنچی مگروہاں کسی عورت کے داخلے کی اجازت نہ تھی ،اس نے بہت منت سماجت کی کہ بیٹااندربلالے یاباہرنکل کراپنی صورت دکھادے مگراس عظیم راہب نے انکارکردیا،تین راتیں اورتین دن وہ خانقاہ کے دروازے پرپڑی رہی اوروہیں لیٹ کرجان دے دی ،تب وہ باہرنکلا،ماں کی لاش پرآنسوبہائے اوردعاکی۔

ایک شخص میوٹیس (Mutius)جوخوشحال آدمی تھا یکایک اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوااوروہ اپنے آٹھ سال کے اکلوتے بیٹے کولے کرایک خانقاہ میں جاپہنچا،روحانی ترقی کے لئے پہلے اس کے بیٹے کواس سے جدا کر دیا گیا پھر ایک مدت تک اس کی انکھوں کے سامنے اس کے معصوم بیٹے پرسختیاں کی جاتی رہیں اوروہ سب کچھ دیکھتارہا،پھرخانقاہ کے شیخ نے اسے کہاکہ وہ اپنے بیٹے کواپنے ہاتھ سے دریامیں پھینک دے ،وہ اس کے لئے تیارہوگیامگرعین وقت پرراہبوں نے اس بچے کی جان بچالی ۔

اس ترک وتجریداورفقرودرویشی کے ساتھ دولت دنیاسمیٹنے میں بھی کمی نہ کی گئی ، پانچویں صدی کے آغازہی میں حالت یہ ہوچکی تھی کہ روم کابشپ بادشاہوں کی طرح اپنے محل میں رہتاتھااوراس کی سواری جب شہرمیں نکلتی تواس کے ٹھاٹھ باٹھ قیصرکی سواری سے کم نہ ہوتے تھے ،سینٹ جیروم اپنے زمانے (چوتھی صدی کے آخری دور)میں شکایت کرتاہے کہ بہت سے بشپوں کی دعوتیں اپنی شان میں گورنروں کی دعوتوں کوشرماتی ہیں ،آخرراہبات کی خانقاہیں بداخلاقی کے چکلے بن گئے ،ان کی چاردیواریوں میں نوزائیدہ بچوں کاقتل عام روزکامعمول بن گیا،پادریوں اورچرچ کے مذہبی کارکنوں میں محرمات تک سے ناجائزتعلقات اورخانقاہوں میں خلاف وضع فطری جرائم پھیل گئے ، کلیساؤ ں میں اعتراف گناہ(Confession)کی رسم بدکاری کاذریعہ بن کررہ گئی ۔

یہ تھااسلام سے قبل نصاریٰ میں خداپرستی کااعلیٰ درجہ ،روحانیت کی سب سے بڑی ترقی یافتہ شکل اور اخلاقیات کی اونچی منزلیں ۔پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکرانسانوں کوان مصیبتوں سے نجات دلائی اوربتایاکہ یہ روحانیت نہیں بلکہ جسمانی تماشے ہیں ،نہ ہماری غمگینی اللہ کی خوشنودی کاباعث ہے اورنہ بندوں کی اس غیرمعمولی تکلیف سے اللہ کوآرام ملتاہے ،نہ اہل وعیال کی نفرت سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے نہ ترک دنیاسے دین کی دولت ملتی ہے،اللہ کادین اتناہی ہے جوبندہ کی استطاعت کے اندرہے۔

لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔۔۔۝۰۝۲۸۶ۧ [33]

ترجمہ:اللہ کسی متنفّس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

اللہ نے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کی واضح تردیدفرمائی کہ عیسٰی علیہ السلام محض ایک انسان تھے،جوایک عورت مریم بنت عمران کے پیٹ سے پیداہوااورانسانی جسم رکھتا تھا اور ایک عام انسان کی طرح سوتاجاگتا کھاتاپیتا تھا،جوسردی و گرمی کومحسوس کرتاتھاکیاکوئی معقول انسان ان کے بارے میں یہ تصوربھی کرسکتاہے کہ ایساشخص اللہ یا اللہ کا شریک ہو سکتاہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی مقامات پر عیسائیوں کے تمام فرقوں کے عقیدوں کی تردیدفرماکروضاحت فرمائی کہ۔

الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَكُنْ لَّهُ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [34]

ترجمہ:وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ هُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ۔۔۔ ۝۱۷ [35]

ترجمہ: یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے۔

وَقَالَ اللهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَیْنِ اثْـنَیْنِ۝۰ۚ اِنَّمَا هُوَاِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۝۵۱ [36]

ترجمہ:اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، اللہ تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو.

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلٰــثَةٍ۝۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۷۳ [37]

ترجمہ:یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اس کو درد ناک سزا دی جائے گی۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭ [38]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کوبیٹا بنا لیا ہے،سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑلائے ہو،قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ،زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گر جائیں ،اس بات پرکہ لوگوں نے رحمان کے لئے اولادہونے کا دعویٰ کیا،رحمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کوبیٹابنائے۔

۔۔۔ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللهِ وَكَلِمَتُهٗ۝۰ۚ اَلْقٰىهَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ۝۰ۡفَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ۝۰ۣۚ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰــثَةٌ۝۰ۭ اِنْـتَھُوْا خَیْرًا لَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا اللهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗٓ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ۔۔۔۝۰۝۱۷۱ [39]

ترجمہ: مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے( جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ تین ہیں ، باز آجاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے، وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔

مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۝۰ۭ وَاُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ۝۰ۭ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ۝۰ۭ اُنْظُرْ كَیْفَ نُـبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ۝۷۵ [40]

ترجمہ: مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں ایک راستباز عورت تھی اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں ۔

نہ معلوم کس وجہ سے قریش کوعیسائیوں سے نفرت تھی،ان کاکہناتھاکہ عیسائیوں کے خداکابیٹاہمارے دیوتاؤ ں سے کس بات میں بہترہے۔

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ۝۵۷وَقَالُوْٓا ءَ اٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ۝۰ۭ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا۝۰ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ۝۵۸ [41]

ترجمہ:اور جوں ہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی، تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غل مچا دیا اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ؟ یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں عیسائیت کوکوئی فروغ حاصل نہ تھابلکہ اہل عرب عیسائیوں کے بجائے پارسیوں کوزیادہ پسندکرتے تھے،اس لئے جب ایران وروم کی جنگ ہوئی جس میں ایرانیوں کوفتح حاصل ہوئی توقریش نے اس پرخوشی کااظہارکیاجبکہ مسلمانوں کورنج ہوا۔

اوراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کومتنبہ فرمادیاکہ اے مسلمانوں !جب تک کہ تم دین اسلام کاسیدھا،صاف اورروشن طریقہ چھوڑکران کے گمراہ کن خیالات وعقائدمیں یہود و نصاریٰ جیسے نہیں ہو جاتے،تم انہیں کبھی بھی راضی نہ کوسکوگے،اوراگرتم انہیں خوش کرنے کے لئے ان کے طریقے اختیارکروگے توتم بھی انہیں کے ساتھ جہنم کی وادیوں میں بھٹکتے پھروگے۔

وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ ۔۔۔ ۝۱۲۰ [42]

ترجمہ:یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہو نگے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔

وَدَّتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ۝۰ۭ وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۶۹ [43]

ترجمہ: (اے ایمان لانے والو) اہل کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹا دے، حالانکہ درحقیقت وہ اپنے سوا کسی کو گمراہی میں نہیں ڈال رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔

صائبین:

صائبین کانام قرآن مجیدکی تین سورتوں میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ کیاگیاہے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ [44]

ترجمہ:یقین جانوکہ نبی عربی کوماننے والے ہوں یایہودی ،عیسائی یاصابی،جوبھی اللہ اورروزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گا،اس کااجراس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِـُٔــوْنَ وَالنَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۹ [45]

ترجمہ:(یقین جانوکہ یہاں اجارہ کسی کابھی نہیں ہے)مسلمان ہوں یایہودی ،صابئی ہوں یاعیسائی،جوبھی اللہ اورروزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گا بے شک اس کے لئے نہ کسی خوف کامقام ہے نہ رنج کا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝۰ۤۖ اِنَّ اللهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۷ [46]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے !اورجویہودی ہوئے اورصابئی اورنصاریٰ اورمجوس اورجن لوگوں نے شرک کیا ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روزفیصلہ کردے گا،ہرچیزاللہ کی نظرمیں ہے۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ صابئی ابتدامیں یقیناًکسی دین کے پیروکارتھے ،لیکن بعدمیں ان کے اندرفرشتہ اورستارہ پرستی آگئی یایہ کسی دین کے پیروکارنہ رہے،اس لئے لامذہب لوگوں کوصابئی کہاجانے لگا، عام ستارہ پرست اورصابیوں میں یہ فرق ہے کہ عام ستارہ پرست ستاروں کوخداسمجھتے ہیں جبکہ صائبی خداکے اقرارکے ساتھ ان ستاروں کو اللہ کامظہرسمجھ کران کی عبادت کرتے ہیں ، صائبین کاقدیم وطن بابل تھا جہاں مظاہرقدرت کے ساتھ ارواح اورملائکہ کی پرستش کی جاتی تھی ، وقت کے ساتھ ساتھ بابل پر مختلف اقوام بنی اسرائیل ،ایرانی ،یونانی اور رومی حکمرانی کرتے رہے ، چنانچہ ان اقوام میں بنی اسرائیل کی یہودیت، ایرانیوں کی مجوسیت، یونانیوں کافلسفہ اوررومیوں کی عیسائیت کے کچھ نہ کچھ اجزاان کے اعتقادمیں شامل ہوتے گئے،یہ لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کومانتے تھے مگرشرک کرتے ہوئے ستاروں کی ارواح کواللہ اوربندوں کے درمیان واسطہ سمجھتے تھے،اس لئے یہ تین اوقات میں صبح سے طلوع آفتاب تک ، آفتاب کے عین زوال کے وقت اورشام کو آفتاب ڈوبنے تک ستاروں کی پوجاکرتے تھے، اور نمازکے لئے انہی اوقات میں انہیں تین مرتبہ غسل کرناپڑتاتھا(اسلام نے انہی تین اوقات میں نمازپڑھنے سے منع فرمایاتاکہ مشابہت نہ ہوسکے) ان کے اعتقادمیں یہ بھی شامل تھاکہ تمام ستاروں کامرکزقطب شمالی ہے ،چونکہ تمام ستارے کائنات کے وجود میں آنے سے ہروقت اپنی جگہ سے ہٹتے اوربڑھتے رہتے ہیں ،مگر قطب ستارہ ہمیشہ ایک حال میں اپنی جگہ پرقائم رہتاہے اس لئے وہ قبلہ ہے،چنانچہ وہ قطب ستارہ کی طرف منہ کرکے اپنی دعائیں اور مناجات پڑھتے ہیں ، حافظ ابن کثیرنے سورہ البقرة کی آیت۶۲ وَالصّٰبِـــِٕیْنَ کی تفسیرمیں چنداقوال نقل کیے ہیں جودرج کیے جاتے ہیں ۔

مجاہد،عطار،سعیدبن جبیر،سفیان ثوری:

الصَّابِئُونَ قَوْمٌ بَیْنَ الْمَجُوسِ وَالْیَهُودِ وَالنَّصَارَى، لَیْسَ لَهُمْ دِینٌ

صائبی یہودونصاری اورمجوس کے درمیان میں ایک قوم ہے جس کاکوئی خاص مذہب نہیں ۔

ابوالعالیہ،ربیع بن انس،سدی،جابربن زید:

الصَّابِئُونَ فِرْقَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ یَقْرَؤُونَ الزَّبُورَ

صائبی اہل کتاب کاایک فرقہ تھا جوزبورپڑھتاتھا۔

حسن بصری رحمہ اللہ اورحکم:

إِنَّهُمْ كَالْمَجُوسِ،هُمْ قَوْمٌ یَعْبُدُونَ الْمَلَائِكَةَ

یہ گروہ مجوسیوں کے مشابہ ہیں اوریہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے۔

ابوجعفررازی،قتادہ:

أَنَّ الصَّابِئِینَ قَوْمٌ یَعْبُدُونَ الْمَلَائِكَةَ، وَیَقْرَؤُونَ الزَّبُورَ، وَیُصَلُّونَ إِلَى الْقِبْلَةِ

صائبی فرشتہ پرست ہیں ،زبورپڑھتے ہیں اورقبلہ کی طرف نمازاداکرتے ہیں ۔

ابوالزناد:

الصَّابِئُونَ قَوْمٌ مِمَّا یَلِی الْعِرَاقَ، وَهُمْ بِكُوثَى، وَهُمْ یُؤْمِنُونَ بِالنَّبِیِّینَ كُلِّهِمْ، وَیَصُومُونَ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ ثَلَاثِینَ یَوْمًا وَیُصَلُّونَ إِلَى الْیَمَنِ كُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ صَلَوَاتٍ

یہ لوگ عراقی ہیں ،بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کومانتے ہیں ،ہرسال تیس روزے رکھتی ہیں ،اوریمن کی طرف منہ کرکے ہردن میں پانچ وقت نمازپڑھتے ہیں ۔

وہب بن منبہ:

الَّذِی یَعْرِفُ اللَّهَ وَحْدَهُ، وَلَیْسَتْ لَهُ شَرِیعَةٌ یَعْمَلُ بِهَا وَلَمْ یُحْدِثْ كُفْرًا

یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قائل ہیں لیکن کسی شریعت کے پابندنہیں ،اورکفاربھی نہیں ۔

عبدالرحمٰن بن زید:

الصَّابِئُونَ أَهْلُ دِینٍ مِنَ الْأَدْیَانِ، كَانُوا بِجَزِیرَةِ الْمَوْصِلِ یَقُولُونَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَیْسَ لَهُمْ عَمَلٌ وَلَا كِتَابٌ وَلَا نَبِیٌّ

صابئی دینوں میں سے ایک دین ہے ،جزیرہ موصل میں ایک قوم تھی جولاالہ الااللہ پڑھتی تھی،اورکسی کتاب یانبی کونہیں مانتے تھے اورنہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے۔

خلیل۔

هُمْ قَوْمٌ یُشْبِهُ دِینُهُمْ دِینَ النَّصَارَى، إِلَّا أَنَّ قِبْلَتَهُمْ نحو مهب الجنوب، یزعمون أَنَّهُمْ عَلَى دِینِ نُوحٍ، عَلَیْهِ السَّلَامُ

صائبی مذہب عیسائیوں سے ملتاجلتاتھا ان کاقبلہ جنوب کی طرف تھایہ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کی شریعت پربتاتے تھے ۔

مجاہد،حسن بصری،ابن ابی نجیح :

أَنَّهُمْ قَوْمٌ تَرَكَّبَ دِینُهُمْ بَیْنَ الْیَهُودِ وَالْمَجُوسِ، وَلَا تُؤْكَلُ ذَبَائِحُهُمْ

یہ ایک قوم ہے جس کامذہب یہودومجوس سے مرکب ہے،ان کاذبیحہ کھانااوران کی عورتوں سے نکاح کرناممنوع ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

وَالَّذِی تَحَصَّلَ مِنْ مَذْهَبِهِمْ فِیمَا ذَكَرَهُ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُمْ مُوَحِّدُونَ ویعتقدون تأثیر النجوم

جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ یہ لوگ مواحدتھے لیکن تاروں کی تاثیراورنجوم کے معتقدتھے ۔

ابوسعیداصطخری رحمہ اللہ :

بِكُفْرِهِمْ لِلْقَادِرِ بِاللَّهِ حِینَ سَأَلَهُ عَنْهُمْ

انہوں نے ان پرکفرکافتوی صادرکیاہے۔

امام رازی رحمہ اللہ :

أَنَّ الصَّابِئِینَ قَوْمٌ یَعْبُدُونَ الْكَوَاكِبَ؛ بِمَعْنَى أَنَّ اللَّهَ جَعَلَهَا قِبْلَةً لِلْعِبَادَةِ وَالدُّعَاءِ، أَوْ بِمَعْنَى أَنَّ اللَّهَ فَوَّضَ تَدْبِیرَ أَمْرِ هَذَا الْعَالَمِ إِلَیْهَا، قَالَ: وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الْمَنْسُوبُ إِلَى الْكِشْرَانِیِّینَ الَّذِینَ جَاءَهُمْ إِبْرَاهِیمُ الْخَلِیلُ، عَلَیْهِ السَّلَامُ

صائبی ستارہ پرست قوم تھی جو ستارہ کواس اعتقادسے پوجتی تھی کہ خدانے اس کوعبادت اوردعاکے لئےقبلہ بنایا ہے اورتدبیرعالم اس کے سپردکیاہے، اور کثرانیین کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ ابراہیم  علیہ السلام کوانہی کی طرف بھیجا گیاتھا۔

بعض علماکاقول ہے :

الصَّابِئُونَ الَّذِینَ لَمْ تَبْلُغْهُمْ دَعْوَةُ نَبِیٍّ

صابئی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ :

وَأَظْهَرُ الْأَقْوَالِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَوْلُ مُجَاهِدٍ وَمُتَابِعِیهِ، وَوَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: أَنَّهُمْ قَوْمٌ لَیْسُوا عَلَى دِینِ الْیَهُودِ وَلَا النَّصَارَى وَلَا الْمَجُوسِ وَلَا الْمُشْرِكِینَ، وَإِنَّمَا هُمْ قَوْمٌ بَاقُونَ عَلَى فِطْرَتِهِمْ وَلَا دِینٌ مُقَرَّرٌ لَهُمْ یَتْبَعُونَهُ وَیَقْتَفُونَهُ؛ وَلِهَذَا كَانَ الْمُشْرِكُونَ یَنْبِزُونَ مَنْ أَسْلَمَ بِالصَّابِئِیِّ

حقیقت حال کاعلم تومحض اللہ تعالیٰ کوہے مگربظاہریہی قول مجاہداوران کے پیرووں اوروہب بن منبہ کا درست معلوم ہوتاہے کہ یہ نہ یہودنہ عیسائی نہ مجوس اورنہ مشرکین کے مذہب میں ہیں بلکہ سادہ خلقت پر قائم ہیں کسی خاص مذہب کے متبع نہیں ،اس لئے مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب رضی اللہ عنہ کوصابئی کہتے تھے۔[47]

ابن ندیم:

یہ خود کو نوح  علیہ السلام اورشیث علیہ السلام کاپیروکہتے ہیں ،ایک صحیفہ شیث بھی ان کے پاس ہے جس میں اخلاقی باتیں درج ہیں ۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ :

ان صائبین کاخاص مرکزحران تھا،ابراہیم علیہ السلام سے پہلے یہ سات ستارے زحل،مشتری،مریخ،شمس،زہرہ،عطارد اورقمرکے ہیکل بناکران کی پرستش کرتے تھے،عیسائیت کے بعدان میں عیسائیت پھیلی،یہاں تک کہ اسلام آ گیا،اوروہاں یہ صائبین اورفلاسفہ حکومت اسلامی میں آخروقت تک رہے ،ان ہی میں سے وہ صائبین تھے جو بغدادوغیرہ میں طبیب یامنشی تھے،ان میں سے بعض اسلام نہ لائے،چوتھی صدی میں فارابی جب حران گیا تواس نے انہی سے فلسفہ سیکھاتھا،اہل دمشق وغیرہ کامذہب بھی عیسائیت سے قبل یہی تھا،ان کی نمازکاقبلہ قطب شمالی تھا ، اس لئے دمشق میں بہت سی مسجدیں ہیں جن کاایک قبلہ قطب شمالی کی طرف بھی ہے،دمشق کی جامع مسجد کے نیچے ایک بہت بڑامعبدہے جس کاایک قبلہ قطب شمالی کی طرف ہے یہ ان ہی لوگوں کامعبدہے،صائبین کے دوگروہ ہیں ایک نے ابراہیم  علیہ السلام کی پیروی کی اوردوسرا گروہ مشرک ہی رہا،قرآن مجید نے دونوں گروہوں کاذکرکیاہے۔

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ :

صائیبیت دنیاکاقدیم ترین مذہب ہے،اس کے دوگروہ ہیں پہلاگروہ خداکا قائل اوررسالت کا قطعا منکر ہے، صائیبیت کے مطابق خدااوربندوں کے درمیان بلاواسطہ تعلقات ممنوع ہے۔

قدیم عیسائی:

صائبین کامذہب قدیم کلدانیوں کامذہب ہے،قطب شمالی ان کاقبلہ ہے،تین وقت کی نمازپڑھتے ہیں ،پہلی نمازمیں آٹھ رکعتیں طلوع آفتاب کے آدھ گھنٹہ پہلے سے طلوع آفتاب تک،دوسری نماز عین زوال آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں جس میں پانچ رکعتیں ہیں ،تیسری نماز عین غروب کے وقت پڑھتے تھے جس میں پانچ رکعتیں ہیں اورتینوں نماروں کی ہر رکعت میں تین تین سجدے ہیں ،ایک دفعہ لگاتارروزے رکھنے کے بجائے مختلف مہینوں میں روزے رکھتے ہیں ،پہلے ایک ساتھ تین روزے ، پھر مارچ میں نوروزے اورپھردسمبرمیں سات دن کے روزے رکھتے ہیں ،قربانیاں کثرت سے کرتے ہیں لیکن ان کاگوشت کھانے کے بجائے جلادیتے ہیں ،لہسن ،لوبیا،کرم کلا اوردال مسورنہیں کھاتے ،توحیدکے مسائل ان کے ہاں نہایت مضبوط ہیں ، ان کاعقیدہ ہے کہ گنہگارشخص ۹ ہزاردورہ میں عذاب اٹھا کر آخررحمت الہٰی کے سایہ میں داخل ہو جائے گا۔

علمائے یورپ:

عیسائی راہبوں کی کوششوں سے ایک دوصائبین نے عیسائیت قبول کرکے اپنے پرانے مذہب کے بارے میں کہا،صائبین خودکوماندیین کہتے ہیں ،ان کی بول چال کی زبان فارسی اورعربی ہے لیکن مذہبی زبان ایک قسم کی آرامی ہے جوقدیم تدمری (پالمائرن)خط کے مشابہ ہے،اسی خط اورزبان میں ایک مذہبی صحیفہ ان کے پاس ہے جس کے بعض حصے قدیم ہیں اورکسی پرانے لڑیچرسے ماخوذہیں ،ان میں سے سب سے طویل اوراہم ٹکڑے کانام سدرب(یعنی بڑی کتاب)ہے اوراسی کا دوسرا نام گتر(گنج یاگتر)یعنی خزانہ ہے،اس کے دو حصے ہیں بڑے حصہ کویامین(یمین)داہناہاتھ کہتے ہیں ،یہ حصہ زندگی کے لئے ہے، اورچھوٹے حصہ کوشمال( شمال )یعنی بایاں ہاتھ کہتے ہیں ،جس میں مذہبی عہدہ داروں کی تجہیزوتکفین کی دعائیں ہیں ،یامین کاآخری باب کتاب الملوک ہے جس میں ایرانی اورعرب بادشاہوں کے تذکرے ہیں ،ان کی مذہبی رسوم کچھ زیادہ پرانے یعنی ساسانیوں کے عہدکے معلوم ہوتے ہیں ،ان کے عقائدواصول کلدانیوں کے قدیم مذہب ستارہ پرستی،یونان کے فرقہ ناسٹک اورایران کے مسئلہ نور وظلمات(مجوسی)کاایک مخلوط مجموعہ ہے ،روزے کے دن کے معنی صرف آرام کے دن کے ہیں کیونکہ فاقہ ان کے ہاں سخت ممنوع ہے،روزے کے دنوں میں حکم ہے کہ ان دنوں میں مردوزن سب سفیدکپڑے پہنیں اورتین وقت نہائیں ،کسی جانورکوان دنوں نہ ماریں اورنہ ہی گوشت کھائیں ،سہ شنبہ ان کامقدس دن ہے،مذہبی عقائد کوغیروں سے چھپاناان کااولین اصول ہے ،ان کے مذہبی عقائدبنی اسرائیل کے عقائداوراصول کے بالکل ضدقائم کیے گئے ہیں ، ابراہیم  علیہ السلام سے لیکر آخرتک تمام پیغمبروں کوکاذب اور مفتری سمجھتے ہیں ، موسیٰ  علیہ السلام کے مقابلے میں فرعون کواپنار ہنما اور پیشواجان کراس کی طرفداری کرتے ہیں ،ان کایقین ہے کہ خدا کاصحیح مذہب اسی کے زمانہ میں مصرمیں قائم تھا منادی جب کم ہوجاتے ہیں تووہ آکران کی تعدادبڑھادیتے ہیں ،ابراہیم علیہ السلام جونوح علیہ السلام کے چھ ہزاربرس کے بعد آفتاب کے عہدحکومت میں ہوئے تھے جھوٹے پیغمبرتھے،اسی طرح موسیٰ علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام ،داود علیہ السلام اورعیسیٰ  علیہ السلام بھی جھوٹے پیغمبرتھے،صرف یحییٰ علیہ السلام بن زکریاسچے پیغمبرتھے،جن کویہودیوں نے قتل کردیا اوراسی کی پاداش میں وہ زمین میں پراگندہ کردیے گئے،اور ابراہیم  علیہ السلام کی جائے ولادت دوزخ کانام ہے،یہواجوبنی اسرائیل کے خداکانام ہے وہ یہوشمس کی صورت میں دوسرے درجہ کے خداوں میں شامل ہے ۔[48]

ستارہ پرست:

عرب میں مختلف ستاروں خصوصاسورج اورچاندکی بھی پرستش کی جاتی تھی،ابن صاعداندلسی نے اپنی کتاب طبقات الامم میں صفحہ ۴۳ پر لکھاہے کہ قبیلہ حمیر سورج کو ،کنانہ چاند کو،تمیم وبران کو،لخم وحذام مشتری کو،طی سہیل کو،قیس شعری العبورکو(شعریٰ آسمان کاروشن ترین تاراہے مصراورعرب کے لوگوں کایہ عقیدہ تھاکہ یہ تارا انسانوں کی قسمت پر اثر اندازہوتاہے ،اسی بناپریہ ان کے معبودوں میں شامل تھا)اوراسدعطاردکوپوجتاتھا۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ عرب میں آفتاب ومہتاب پرستی کارواج کس قدرزیادہ تھا ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں سورہ رعد،ملائکہ ، زمر ،عنکبوت اورابراہیم میں اس کی باربارنفی فرمائی اور فرمایاجس کی تم رب جان کرپوجاپاٹ اورمراسم عبودیت بجا لاتے ہووہ توپتھرکے چندٹکڑے ہیں جوتیررہے ہیں اورخودہماری مخلوق ہیں ،خالق کوچھوڑکربے جان مخلوق کی عبادت کرناابلیس کادیاہوادھوکا ہے

وَاَنَّهٗ هُوَرَبُّ الشِّعْرٰى۝۴۹ۙ [49]

ترجمہ:اور یہ کہ وہی شعریٰ(ستارے) کا رب ہے۔

وَمِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۰ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۝۳۷ [50]

ترجمہ:اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند، سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو ۔

مجوس :

ان کاذکرصرف سورہ حج میں کیاگیاہے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝۰ۤۖ اِنَّ اللهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۷ [51]

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابئی اور نصاری اور مجوس اور جن لوگوں نے شرک کیا ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے۔

مجوسیت ایران کاقدیم مذہب تھا جس کابانی زرتشت تھاجس کاصحیح زمانہ پیدائش معلوم نہیں ،البتہ عیسیٰ  علیہ السلام سے ساڑھے پانچ سو برس قبل اس کاوجودملتاہے ،مجوسیوں نے زمانہ قدیم میں ایران میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی مگر اب روم کے ہاتھوں ان کاچراغ گل ہو چکاتھااوران کی مقدس کتاب اوستا گم اور بے نشان ہوچکی تھی، اس لئے مجوسی مذہب کا وجودتواب باقی نہیں رہاتھا مگراس مذہب کے ماننے والے کچھ لوگ اب بھی موجودتھے ،مگر مجوسیت نے عرب میں بہت کم اثر ڈالا تھا، اس لئے بہت قلیل لوگ اس مذہب کو ماننے والے موجودتھے جیسے قبیلہ بنوتمیم زردشت کو ماننے والے مجوسی تھے، جو خیر(روشنی، یزداں ) اور شر(ظلمت،اہرمن) دو خداوں کے قائل اور آگ کی پرستش کرتے تھے ،زرارہ بن عدس تمیمی ،اس کابیٹا حاجب بن زرارہ ،اقرع بن حابس(جوبعدمیں ایمان لاکرصحابہ میں شامل ہوئے) اوروکیع بن حسان کادادا ابوالاسودوغیرہ مجوسی ہی تھے، معاشرتی طورپران کے عقائد میں کوئی رشتہ محرم نہ تھاوہ کہتے تھے بیٹے کوزیادہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ماں کی شہوت پوری کرے ،جب خاوندفوت ہوجائے تواس کابیٹااس کی بیوی کازیادہ حقدارہوتاہے اس لیےوہ اپنی سگی بہن اور بیٹی تک سے نکاح کرلیتے تھے،ان کے بادشاہ یزدگردثانی جس کادورحکومت پانچویں صدی عیسوی کاوسط ہے اس نےاپنی بیٹی سے نکاح کیالیکن پھراسے قتل کردیا۔بہرام چوبیس جوچھٹی صدی عیسوی میں حکمران رہاتھااس نے اپنی بہن سے نکاح کررکھاتھا۔[52]

اسی طرح زرارہ بن عدس تمیمی نے اپنی بیٹی سے نکاح کرلیا تھا مگرپھراس عمل پرنادم ہوا،مجوسیوں کادین مخص چندرسوم کانام تھاجوخاص اوقات میں مخصوص مقامات پرسرانجام دی جاتی تھیں لیکن عبادت گاہوں سے باہراپنے گھروں میں ،کاروبارمیں ،بازارمیں ،سیاست ومعیشت میں اورمعاشرت وغیرہ میں وہ بالکل آزادتھے جوچاہتے تھے کرتے تھے ،کسی قانون اورضابطے کے پابندنہیں تھے جیساکہ ہردورکے مشرکین کایہی دستوررہاہے،یہ لوگ سورج اورآگ کاتقدس تسلیم کرنے پرزوردیتے تھے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ان کے نزدیک اس عظیم قوت کی علامت تھیں جواس دنیامیں رحمت،نور،محبت اورطہارت کامنبع ہےاورجوانسان کومصائب سے بچانے کے لیے کوشاں ہے،

ومذهبه فی الأصول والأركان أنها ثلاثة: الماء والأرض والنار

اس کے ساتھ ساتھ ان کے دین میں مٹی،پانی اورہواکے تقدس کاعقیدہ بھی رائج تھاکیونکہ ان چیزوں کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔[53]

ان میں کئی فرقے ہیں ایک فرقہ کسی کوآگ میں ڈالنے اورآگ سے بدن کوجلانے کوحرام قراردیتاہے ،ایک فرقہ آتش پرستی میں خود اوراپنی اولادکو آگ پرقربان کردینے کاقائل ہے ،کچھ لوگ آگ کے گردروزہ رکھ کربیٹھتے اور چلہ کاٹتے ہیں اورسچ بولنے ،وفا شعاری ،امانت داری ،عفت وعصمت اورعدل وانصاف کی ترغیب دیتے ہیں ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجوسیوں کے اعتقادکا ابطال فرمایا۔

وَقَالَ اللهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَیْنِ اثْـنَیْنِ۝۰ۚ اِنَّمَا هُوَاِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۝۵۱ [54]

ترجمہ:اللہ کا فرمان ہے کہ دو الٰہ نہ بنا لو، اللہ تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔

اوران رشتوں کی حرمت بیان فرمائی جن سے نکاح نہیں ہوسکتا۔

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ وَبَنٰتُكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ وَعَمّٰـتُكُمْ وَخٰلٰتُكُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ۝۰ۡفَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ۝۰ۡ وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ۝۰ۙ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِـیْمًا۝۲۳ۙ [55]

ترجمہ:تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو ، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ، اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہارے گودوں میں پرورش پائی ہے،ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شوہر ہو چکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شوہر نہ ہوا ہو تو (انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں ) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہےاور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہوگیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

مذبذبین :

کچھ قلیل لوگ یہودیت اورعیسائیت کی طرف مائل تھے مگرابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکے تھے کہ سچ کس طرف ہے۔

دہرئے :

پچھلی قوموں کی طرح کچھ قلیل التعداد دنیاپرست، دہریت پسند جواپنے آپ کودوسروں کے مقابلے میں زیادہ ترقی پسند،سمجھداراوراعلیٰ پائے کے مفکرسمجھتے تھے جنہوں نے  اللّٰہ تعالیٰ کے وجودپرشک وشبہ کیااور گمراہی میں مبتلاہوکراپنے قیاس وگمان کی ایک عمارت کھڑی کرکے  اللّٰہ اورآخرت کاانکار کر دیا تھا،ان کی نظرمیں یہ کائنات مادے کے ہیجان کی وجہ سے محض ایک اتفاقی طورپر خودبخودوجودمیں آگئی ہے،جس کے پیچھے کوئی حکمت ومصلحت اور کوئی مقصدکارفرمانہیں ،یہ عظیم کارخانہ یونہی بن گیاہے ، یونہی چل رہا ہے اوریونہی بے نتیجہ ختم بھی ہوجائے گا ،اس میں جوتنظیم یاترتیب نظرآتی ہے وہ بھی اتفاقی ہے ،ورنہ بہ حیثیت کل نہ اس کاکوئی مقصدہے اورنہ اس میں ہمہ گیرنظم پایا جاتا ہے ، وہ اپنی جہالت کاپرچارکرتے ہوئے کہتے کہ اس کاکوئی خالق نہیں جس کی حکمت یاصناعی اس میں کارفرماہو اور اگرہوبھی تواس کے ہونے یانہ ہونے سے انسانی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ان کے نزدیک انسان محض گائے بھینس اوربندرکی طرح کاایک حیوان ہے جو دوسری چیزوں کی طرح اتفاقا ًپیداہوگیاہے ،انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کاسر چشمہ موجودنہیں ہے جہاں سے اس کواپنی زندگی گزارنے کاقانون مل سکتاہے لہذااسے اپنے گردوپیش کے آثارواحوال اوراپنے تجربات سے خودہی ایک قابل عمل قانون اخذکر لینا چاہیے،انسان ایک غیرذمہ دارہستی ہے اوروہ اپنے سواکسی اورکے سامنے جواب دہ نہیں ،وہ اپنی زندگی میں جوبھی اعمال کرتاہے وہ اس دنیاوی زندگی تک محدود ہیں ، چوں کہ کائنات مکمل نظم وانتظام سے عاری ہے اس لئے کبھی زندگی کے قیام کے بجائے زندگی کے اختتام کاسبب بنتی ہے ،کبھی وہ طوفانوں کے زریعے انسانی بستیوں کوتباہ کرتی ہے ،کبھی زلزلوں کے ذریعہ زندگی کونیست ونابودکرتی ہے اورکبھی آتش فشانی کے ذریعہ انسانی آبادیوں کوخاکسترکرتی ہے یعنی زمانے کے حوادث ہمیں ہلاک کرتے ہیں ،اس لئے اس زندگی میں جومزے اڑاسکتے ہو اڑالو، یہی دنیازندگی کی معراج ہے اس کے بعدکوئی زندگی نہیں جس میں کسی طرح کا حساب کتاب ہوآخرت ،حیات بعدالموت ، جنت ودوزخ دقیانوسی باتیں تھیں یعنی

بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ۝۰ۚ وَمَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۚ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ۝۲۴ [56]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو، درحقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں ۔

اِنْ هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۝۳۷۠ۙ [57]

ترجمہ:زندگی کچھ نہیں ہے مگربس یہی دنیاکی زندگی یہیں ہم کومرنااورجیناہے اورہم ہرگزاٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔

مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ اگردنیاکوایک اتفاقی واقعہ تسلیم کرلیاجائے کہ یہ آپ سے آپ وجودمیں آگئی ہے توکیااس کے مختلف اجزاکاارتقاء بھی آپ سے آپ ہورہاہے ،اس کے اجزائے مختلفہ کے اندرتوافق وسازگاری کاپیداہوجانابھی ایک اتفاقی واقعہ ہے ،اس کا حسن وجمال بھی محض ایک حادثہ ہے،کیانتائج کی یکسانی اورنظام کی وحدت بھی بلامنصوبہ ہیں ،کیاانسانی عقل اس قسم کے حیرت انگیزاتفاقات کوایک لمحے کے لئے بھی تسلیم کرسکتی ہے؟

اسلام کے نقطہ نظرسے یہ ساری کائنات جوانسان کے گردوپیش پھیلی ہوئی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ نہیں ،بلکہ منظم ،باضابطہ سلطنت ہے ،اللہ نے اس رنگ وبووالے عظیم کارخانے کوانسان کے لئے تخلیق فرمایاہےاوروہی اس کامالک اوروہی اس کاحاکم ہے،یہ ایک نظام کلی ہے جس میں تمام اختیارات مرکزی اقتدارکے ہاتھ میں ہیں ،اس مقتدراعلیٰ کے سوایہاں کسی اورکاحکم نہیں چلتا،طبیعی طورپرتمام قوتیں جواس نظام عالم میں کام کررہی ہیں اسی کے زیرحکم ہیں اورکسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم سے سرتابی کرسکے،اس ہمہ گیرنظام میں کسی کی خودمختاری اورغیرذمہ داری کے لئے کوئی جگہ نہیں اورنہ فطرتاہوسکتی ہے،اللہ نے انسان کویہاں خلیفہ بناکربھیجاہے ،اس نے جہاں انسان کی مادی اورجسمانی ضروریات کی تکمیل کاسامان کیاہے وہیں اس کی روحانی ،اخلاقی اورتمدنی ضروریات کی تکمیل کابھی پوراخیال رکھاہے ،اسی مقصدکے لئے اللہ تعالیٰ نے باربارانبیاء ورسل بھیجے کہ وہ الہامی ہدایت کی روشنی میں انسانوں کوصحیح راستہ دکھائیں ،قرآن مجیدمیں اس کواللہ تعالیٰ کاسب سے بڑااحسان کہاگیاہے ۔

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۶۴ [58]

ترجمہ: درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

پیغمبرکاکام ایک طرف تویہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب لوگوں تک پہنچائیں اوردوسری طرف یہ کہ وہ خودان تعلیمات کواپنی زندگی میں اپناکرلوگوں کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کریں ،اسی لئے اسلامی نظام حیات کے اولین ماخذدوہیں ایک قرآن مجیداوردوسراسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،قرآن ہمارے پاس کتاب کی شکل میں موجودہے اورسنت کوہم احادیث اورعمل صحابہ کے ذریعے سے معلوم کرتے ہیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاکیاتم اس بڑی کائنات کے خالق کے بارے میں شک کرتے ہو۔

قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ یَدْعُوْكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُؤَخِّرَكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۰۝۱۰ [59]

ترجمہ:ان کے رسولوں نے کہا ، کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کوایک مدت مقررہ تک مہلت دے؟

خالق ارض وسماوات نے فرمایاکوئی چیزخالق کے بغیروجودمیں نہیں آتی ،نہ توانسان نے خودکوتخلیق کرلیاہے ،اورنہ ہی آسمان وزمین کاوہ خالق ہے ،یہ دونوں صورتیں باطل ہیں ،نہ آپ سے آپ کوئی چیزبن سکتی ہے اورنہ کوئی مفعول اپنافاعل آپ ہوسکتاہے ،اصل بات یہ ہے کہ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت واختیاراورروزآخرت پریقین نہیں ہے۔

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ۝۳۵ۭاَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ۝۳۶ۭ [60]

ترجمہ:کیایہ کسی خالق کے بغیرخودپیداہوگئے ہیں ؟یایہ خوداپنے خالق ہیں ؟یازمین اورآسمان کوانہوں نے پیدا کیاہے؟اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دلفریب،رنگارنگ کائنات کے بارے میں فرمایا۔

اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓااِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَزَیَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ۝۶وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَهِیْجٍ۝۷ۙتَبْصِرَةً وَّذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۝۸ [61]

ترجمہ:اچھا تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے،اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے ؟ اور اس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اُگا دیں ،یہ ساری چیزیں ، آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ،ہر اس بندے کے لیے ، جو (حق کی طرف ) رجوع کرنے والا ہو۔

اللہ تعالیٰ نےیہ نیل گوں تہ بہ تہ آسمان کی چھت کے بارے میں فرمایا۔

اَللهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۝۲ [62]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے، اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے،وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّهُوَحَسِیْرٌ۝۴وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ۝۵ [63]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے، تم رحمان کی تخلیق میں کسی قِسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے، پھر پلٹ کر دیکھوکہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟پھر باربار نگاہ دوڑا و تیری نگاہ تھک کر ناکام تیری طرف لوٹ آئے گی،ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشّان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نےبے جان زمین سے انواع اقسام کی چیزیں پیداکرنے کے بارے میں فرمایا۔

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙلِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۝۰ۙ وَمَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۳۵ [64]

ترجمہ: ان لوگوں کے لیے بےجان زمین ایک نشانی ہے ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ، ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ، یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟۔

اللہ تعالیٰ نےسورج کاروشن چراغ اورچمکتے چاندکی خوش نماقندیل کے بارے میں فرمایا۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیْرًا۝۶۱ [65]

ترجمہ:بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔

اللہ تعالیٰ نے زمین کے بارے میں فرمایا۔

وَهُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَاَنْهٰرًا۝۰ۭ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۳ [66]

ترجمہ:اور وہ ہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے ، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں ، اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں ، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے ، ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔

هُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ۝۰ۭ وَاِلَیْهِ النُّشُوْرُ۝۱۵ [67]

ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے؟ چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ اللہ کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔

اللہ تعالیٰ معاش کے لئے روشن دن اورسکون کے لئے تاریک رات بنائی۔

یُقَلِّبُ اللهُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ۝۴۴ [68]

ترجمہ:رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے، اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے ۔

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ۝۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝۳۷ۙ [69]

ترجمہ:ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم نے اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔

وَهُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُـبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا۝۴۷ [70]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون موت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔

وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝۶۲ [71]

ترجمہ:وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہےیا شکر گزار ہونا چاہے۔

اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّـقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۸۶ [72]

ترجمہ:کیا ان کو سُجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اس میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ گردش شمس وقمر کے بارے میں فرمایا۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭوَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [73]

ترجمہ:اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے،اور چاند ، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اِن سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے،نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ، سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نےپانی سے لدی ہوئی ہواؤ ں کے بارے میں فرمایا۔

وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ۝۲۲ [74]

ترجمہ:بار آور ہواؤ ں کو ہم ہی بھیجتے ہیں ، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں ، اس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔

اَللهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَاۗءِ كَیْفَ یَشَاۗءُ وَیَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ۝۰ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۸ۚ [75]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں ٹپکے چلے آتے ہیں ،یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے کڑکتی ہوئی بجلیوں کے بارے میں فرمایا۔

هُوَالَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَـمَعًا وَّیُنْشِیُٔ السَّحَابَ الثِّقَالَ۝۱۲ۚ [76]

ترجمہ:وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں ، وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والی زمین کی مختلف ذائقوں والی پیداوارکے بارے میں فرمایا۔

وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۴ [77]

ترجمہ:اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں ، انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر، ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی غذاکے بارے میں فرمایا۔

فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ۝۲۴ۙاَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا۝۲۵ۙثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۝۲۶ۙفَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا۝۲۷ۙوَّعِنَبًا وَّقَضْبًا۝۲۸ۙوَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا۝۲۹ۙوَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا۝۳۰ۙوَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا۝۳۱ۙمَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ۝۳۲ۭۙ [78]

ترجمہ:پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے ہم نے خوب پانی لُنڈھایا ،پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا ،پھراس کے اندراگائےغلے اورانگور اور ترکاریاں اورزیتون اورکھجوریں اورگھنے باغ اورطرح طرح کے پھل اورچارے تمہارے لیے اورتمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طورپر۔

اللہ تعالیٰ نےدودھ دینے والے جانوروں کے بارے میں فرمایا۔

وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً۝۰ۭ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۶۶ [79]

ترجمہ:اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے، ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں ، یعنی خالص دودھ ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔

اللہ تعالیٰ نےشہدکی مکھی کے بارے میں فرمایا۔

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ۝۶۸ۙثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُــكِیْ سُـبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا۝۰ۭ یَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۶۹ [80]

ترجمہ:اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں ، اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ، اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے، یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ہواؤ ں میں اڑتے چھوٹے بڑے پرندوں کے بارے میں فرمایا۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ۝۰ۭؔۘ مَا یُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝۰ۭ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍؚبَصِیْرٌ۝۱۹ [81]

ترجمہ:کیا یہ لوگ اپنے اُوپر اُڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو، وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

اللہ تعالیٰ نےبلندقامت کشتیوں کے بارے میں فرمایا۔

وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّــتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۴۱ۙوَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ۝۴۲وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ یُنْقَذُوْنَ۝۴۳ۙاِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ۝۴۴ [82]

ترجمہ:ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا،اور پھر اِن کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ،ہم چاہیں تو اِن کو غرق کر دیں کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں ،پس ہماری رحمت ہی ہے جو انہیں پار لگاتی ہے اور ایک وقتِ خاص تک زندگی سے متمتع ہونے کا موقع دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نےہرے بھرے کھیتوں کے بارے میں فرمایا۔

اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ۝۶۳ۭءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ۝۶۴لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ۝۶۵اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ۝۶۶ۙبَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۶۷ [83]

ترجمہ:کبھی تم نے سوچایہ بیج جوتم بوتے ہو،اس سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں تو اِن کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو اُلٹی چٹی پڑ گئی،بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نےمیٹھےپانی کے بارے میں فرمایا۔

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [84]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا یہ پانی جو تم پیتے ہواسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟،ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں ، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟۔

اللہ تعالیٰ نے آگ کے بارے میں فرمایا۔

اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ۝۷۱ۭءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۝۷۲ [85]

ترجمہ:کبھی تم نے خیال کیا یہ آگ جو تم سلگاتے ہو،اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟۔

اللہ تعالیٰ نےایک حقیربوندسے تخلیق کا عظیم کارنامہ بیان فرمایا۔

اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْـنُوْنَ۝۵۸ۭءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ۝۵۹ [86]

ترجمہ:کبھی تم نے غور کیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو،اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں ؟۔

اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں انسانی تخلیق کے مراحل کاذکرفرمایا۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۱۳۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۝۱۴ۭ [87]

ترجمہ:ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ،پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا،پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ۔

اللہ تعالیٰ نےماؤ ں کے پیٹ میں بہترین صورت گری کے بارے میں ارشادفرمایا۔

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ۝۰ۭ یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ۝۰ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ۝۶ [88]

ترجمہ:اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے، وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے، یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟ ۔

اللہ تعالیٰ نےحقیر بوندسے عظیم الشان صلاحیتوں والی مخلوق کی تخلیق کے بارے میں فرمایا۔

الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۝۷ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۸ۚثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۹ [89]

ترجمہ: جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی، اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے، تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے مختلف جنس کی مخلوق کے بارے میں فرمایا۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙوَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۝۱۵ۚ [90]

ترجمہ:انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سُوکھے سڑے گارے سے بنایااور جِّن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کوجوبہترین صلاحیتیں عطافرمائی ہیں ان صلاحیتوں کامقصدبیان فرمایا۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۝۲ [91]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔

اللہ تعالیٰ نےرنگوں اورزبانوں کےاختلاف کے بارے میں فرمایا۔

وَمِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْعٰلِمِیْنَ۝۲۲ [92]

ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔

اللہ تعالیٰ نےانسان کی بے بسی کے بارے میں فرمایا۔

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝۸۳ۙوَاَنْتُمْ حِیْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۝۸۴ۙوَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۝۸۵فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْـنِیْنَ۝۸۶ ۙ تَرْجِعُوْنَهَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۸۷ [93]

ترجمہ :اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے ، اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟۔

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [94]

ترجمہ:اے گروہِ جِنّ و انس ! اگر تم زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو،نہیں بھاگ سکتےاس کے لیے بڑا زور چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے ان مختصر حوالوں میں اپناتعارف کراتے ہوئے فرمایاکہ اے انسان !ہماری ان چندنشانیوں پر غور و فکرکرواورفیصلہ کرو کیایہ سب انتظام کسی خالق کی قدرت کے بغیرہورہاہے،اورکیاوہ قدرتوں والارب تمہیں دوبارہ اپنے حضور جمع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا،اگرتم دیکھنے والی آنکھ اورسوچنے والادماغ رکھتے ہوتوکائنات کے حقائق کودیکھ کربے اختیارپکاراٹھوگے کہ یہ کارخانہ رنگ وبوایک ذی شعور،صاحب ارادہ ،حکیم وداناخالق اورفرماں روا کے بغیرنہ تووجودمیں آسکتااورنہ قائم رہ سکتاتھا،زمین سے لے کرآسمان تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اوریہ پورانظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہاہے،جس میں ہرطرف ایک ہمہ گیراقتدار،ایک بے عیب حکمت،ایک بے خطاعلم کے آثارنظرآتے ہیں ،جواس بات پردلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کاایک فرماں رواہے ،یہ کائنات جس میں حسن وتوازن، ایک ہمہ گیر اخلاقی قانون کارفرماہے ایک منصوبے کے تحت کام کررہی ہے ،جس میں ہرشے اپنی خلقت،اپنی محکم روش اوراپنے قانون فطرت سے اس کی گواہی دیتی ہے کہ

۔۔۔ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ ۔۔۔ [95]

ترجمہ:یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ اُستوار کیا ہے۔

یہ دنیا دارالجزا نہیں بلکہ دارالامتحان ہے،یہ کائنات جس طرح ایک دھماکے کے ساتھ وجودمیں آئی تھی ویسے ہی ایک مقرر ہ دن دھماکے کے ساتھ ختم ہوجائے گی، پھراللہ تعالیٰ اعمال کی جزا و سزا کے لئے انسان کوقبروں سے جسم وجان کے ساتھ زندہ کرے گااور ہرشخص کواس کے اعمال کے صلے میں نعمتوں بھری جنت یادھکتی ہوئی آگ والی دوزخ میں داخل کرے گا۔

مولاناالطاف حسین حالی رحمہ اللہ نے جزیرة العرب کی حالت کے بارے میں یوں لکھاہے۔

قبیلے قبیلے کا بت جدا تھا،کسی کاہبل کسی کاصفاتھا

یہ عزٰیٰ پہ وہ نائلہ پرفداتھا،اسی طرح گھرگھراک خداتھا

نہاں ابرظلمت میں تھامہرانور

اندھیراتھافاران کی چوٹیوں پر

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ ، ہراک لوٹ اورمارمیں تھایگانہ

فسادوں میں کٹتا تھاان کا زمانہ ، نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

نہ ٹلتے تھے ہرگزجواڑبیٹھتے تھے،سلجھتے نہ تھے جب جھگڑبیٹھتے تھے

جودوشخص آپس میں لڑبیٹھتے تھے  ، توصدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلندایک ہوتاتھا گرواں  شرارا

تواس سے بھڑک اٹھتاتھاملک سارا

وہ بکراورتغلب کی باہم لڑائی، صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی

قبیلوں کی کردی تھی جس نے صفائی ،  تھی اک آگ ہرسو عرب میں لگائی

نہ جھگڑاکوئی ملک ودولت کاتھاوہ

کرشمہ اک ان کی جہالت کاتھاوہ

اسی طرح اک اورخون ریزبیدا،عرب میں لقب حرب داحس ہے جس کا

رہاایک مدت تک آپس میں برپا،بہا خون کا ہر طرف جس میں دریا

سبب اس کالکھاہے یہ اصمعی نے

کہ گھوڑدوڑمیں چنیدکی تھی کسی نے

کہیں تھامویشی چرانے پہ جھگڑا،کہیں پہلے گھوڑابڑھانے پہ جھگڑا

لب جوکہیں آنے جانے پہ جھگڑا،کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روزہوتی تھی تکراران میں

یونہی چلتی رہتی تھی تلواران میں

جوہوتی تھی پیداکسی گھرمیں دختر،توخوف شماتت سے بے رحم مادر

پھرے دیکھتی جب تھی شوہرکے تیور، کہیں زندہ گاڑآتی تھی اس کوجاکر

وہ گودایسی نفرت سے کرتی تھی خالی

جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

جواان کی دن رات کی دل لگی تھی،شراب ان کی گھٹی میں گویاپڑی تھی

تعیش تھاغفلت تھی دیوانگی تھی،غرض ہرطرح ان کی حالت بری تھی

بہت اس طرح گزری تھیں ان کوصدیاں

کہ چھائی ہوئی نیکیوں پرتھیں بدیاں

[1] المائدة۱۸

[2] آل عمران ۶۵

[3] آل عمران ۶۷

[4]البقرة ۸۰،۸۱

[5] آل عمران ۲۴

[6] البقرة ۹۴،۹۵

[7] آل عمران ۷۱

[8] النساء۴۶

[9] آل عمران ۷۸

[10] البقرة ۷9

[11]البقرة ۸۵،۸۶

[12] البقرة ۱۴۰

[13] البقرة ۱۱۳

[14] البقرة ۱۳۵

[15] آل عمران ۷۵

[16] البقرة ۱۱۱

[17]التوبة ۳۰

[18] المومنون۹۱

[19]الانعام ۱۰۱

[20] النسائ۱۶۱

[21] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ إِذَا قَتَلَ بِحَجَرٍ أَوْ بِعَصًا ۵۲۹۵،۶۸۷۹،۶۸۷۷،صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ ثُبُوتِ الْقِصَاصِ فِی الْقَتْلِ بِالْحَجَرِ وَغَیْرِهِ مِنَ الْمُحَدَّدَاتِ، وَالْمُثَقَّلَاتِ، وَقَتْلِ الرَّجُلِ بِالْمَرْأَةِ ۴۳۶۱،سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ یُقَادُ مِنَ الْقَاتِلِ۴۵۲۹،سنن نسائی کتاب القسامة باب الْقَوَدُ مِنَ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ ۴۷۴۶ ،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ یُقْتَادُ مِنَ الْقَاتِلِ كَمَا قَتَلَ۲۶۶۷،السنن الکبری للبیہقی۱۵۹۸۴

[22] المائدة: 41

[23] المائدة: 41

[24] صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ الْیَهُودِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِی الزِّنَى۴۴۴۰،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابٌ فِی رَجْمِ الْیَهُودِیَّیْنِ ۴۴۴۷،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ رَجْمِ الْیَهُودِیِّ وَالْیَهُودِیَّةِ۲۵۵۹

[25]البقرة ۲۴۵

[26] تفسیرابن کثیر۱۷۶؍۲،تفسیرطبری۴۴۲؍۷

[27] المائدة۶۴

[28] المائدة: 64

[29] تفسیرطبری۴۵۳؍۱۰

[30] البقرة۸۹

[31] المائدة ۸۲

[32] آل عمران۱۱۱، ۱۱۲

[33] البقرة۲۸۶

[34] الفرقان ۲

[35] المائدة ۱۷

[36] النحل ۵۱

[37] المائدة ۷۳

[38] مریم ۸۸تا۹۲

[39] النساء ۱۷۱

[40] المائدة ۷۵

[41]الزخرف۵۷،۵۸

[42] البقرة ۱۲۰

[43] آل عمران ۶۹

[44] البقرة۶۲

[45] المائدة۶۹

[46] الحج۱۷

[47] تفسیرابن کثیر۲۸۷،۲۸۸؍۱

[48] انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ۵۵۵؍۱۷

[49] النجم ۴۹

[50] حم السجدة ۳۷

[51] الحج۱۷

[52] تاریخ طبری۱۷۸؍۲

[53] الملل والنحل ۵۴؍۲

[54]النحل۵۱

[55] النساء ۲۳

[56] الجاثیة ۲۴

[57] المومنون۳۷

[58] آل عمران ۱۶۴

[59] ابراہیم ۱۰

[60] الطور۳۵،۳۶

[61] ق ۶تا۸

[62] الرعد۲

[63] الملک ۳تا۵

[64] یٰسین ۳۳تا۳۵

[65] الفرقان۶۱

[66] الرعد۳

[67] الملک۱۵

[68] النور۴۴

[69] یٰسین ۳۷

[70] الفرقان ۴۷

[71] الفرقان ۶۲

[72]ا لنمل ۸۶

[73] یٰسین۳۸تا۴۰

[74] الحجر ۲۲

[75] الروم ۴۸

[76] الرعد۱۲

[77] الرعد ۴

[78] عبس ۲۴تا۳۲

[79] النحل ۶۶

[80] النحل۶۸،۶۹

[81] الملک۱۹

[82] یٰسین۴۱تا۴۴

[83] الواقعة ۶۳تا ۶۷

[84] الواقعة ۶۸تا۷۰

[85] الواقعة ۷۱، ۷۲

[86] الواقعة ۵۸تا۵۹

[87] المومنون ۱۲تا۱۴

[88] الزمر۶

[89] السجدة ۷تا۹

[90] الرحمٰن۱۴،۱۵

[91] الدہر۲

[92]الروم ۲۲

[93] الواقعة ۸۳تا۸۷

[94] الرحمٰن۳۳

[95] النمل ۸۸

Related Articles