ہجرت نبوی کا نواں سال

عمال کاتقرر

وَمُقَاتِلُ بْنُ حَیَّانَ، وَالسُّدِّیُّ: أَنَّ هَذَا السِّیَاقَ نَزَلَ فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عُمَیْرٍ مِنْ ثَقِیفٍ، وَبَنِی الْمُغِیرَةِ مَنْ بَنِی مَخْزُومٍ، كَانَ بَیْنَهُمْ رِبًا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ وَدَخَلُوا فِیهِ، طَلَبَتْ ثَقِیفٌ أَنْ تَأْخُذَهُ مِنْهُمْ، فَتَشَاوَرُوا وَقَالَتْ بَنُو الْمُغِیرَةِ: لَا نُؤَدِّی الرِّبَا فِی الْإِسْلَامِ فَكَتَبَ فِی ذَلِكَ عَتَّابُ بْنُ أَسِیدٍ نَائِبُ مَكَّةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فَكَتَبَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِ:{یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ} فَقَالُوا: نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، وَنَذَرُ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا، فَتَرَكُوهُ كُلُّهُمْ.

مقاتل بن حیان ؒاورسدی ؒسے مروی ہے دورجاہلیت میں  قبیلہ ثقیف بنی عمروبن عمیراوربنومخزوم کے قبیلے بنومغیرہ کاسودی کاروبارتھا،اسلام کے بعدبنوعمرونے مغیرہ سے اپنا سود طلب کیااورانہوں  نے کہاکہ اب ہم اسے اسلام لانے کے بعدادانہیں  کریں  گے اس بات سے جھگڑابڑھ گیا،مکہ مکرمہ کے نائب عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں  لکھااس پریہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں  پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہو،لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘ نازل ہوئی ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھواکرانہیں  بھیج دیااورانہیں  قابل وصول سودلینا حرام قرار دیا،چنانچہ انہوں  نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اوراپناباقی سودبالکل چھوڑ دیا ۔[1]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٢٧٨﴾‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٢٧٩﴾‏ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَیْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَیْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٨٠﴾‏(البقرة)
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو اور اگر ایسا نہیں  کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ، ہاں  اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے، اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تمہیں  علم ہو۔

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسودلوگوں  پرباقی رہ گیاہے اسے چھوڑدواگرواقعی تم ایمان لائے ہو،لیکن اگرتم نے ایسانہ کیا تو آگاہ ہوجاؤکہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایااب بھی وقت ہے توبہ کرلو اورسود چھوڑ دو توتم اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو ،اگراصل زرسے زیادہ وصول کروگے تویہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا، اوراگرتمہیں  اصل زرنہ دیاجائے تویہ تم پر ظلم ہوگا ،زمانہ جاہلیت میں  قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں  اصل زرمیں  سود در سود اضافہ ہی ہوتاچلاجاتاتھا،جس سے معمولی رقم بھی ایک بڑی رقم بن جاتی تھی جس کااداکرناممکن نہ ہوتاتھا،اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاکہ اگر تمہارا قرض دارتنگ دست ہواورقرض کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس مال میسرنہ ہو،توآسانی تک اسے مہلت دو، اور اگر قرض کاکچھ حصہ یا سارے کاسارا ہی معاف کردوتویہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگرتم سمجھو ۔

قَالَ حُذَیْفَةُ وَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا كَانَ فِیمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَتَاهُ المَلَكُ لِیَقْبِضَ رُوحَهُ، فَقِیلَ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَیْرٍ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُ، قِیلَ لَهُ: انْظُرْ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ شَیْئًا غَیْرَ أَنِّی كُنْتُ أُبَایِعُ النَّاسَ فِی الدُّنْیَا وَأُجَازِیهِمْ، فَأُنْظِرُ المُوسِرَ، وَأَتَجَاوَزُ عَنِ المُعْسِرِ، فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ پہلے زمانے میں  ایک شخص کے پاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنے آئے توان سے پوچھاگیاکوئی اپنی نیکی تمہیں  یاد ہے ؟انہوں  نے کہاکہ مجھے یادتونہیں  پڑتی،ا سے دوبارہ کہاگیاکہ یادکرو!انہوں  نے کہامجھے کوئی اپنی نیکی یادنہیں  ،سوااس کے کہ میں  دنیا میں  لوگوں  کے ساتھ خریدوفروخت کیاکرتاتھااورلین دین کیاکرتاتھا،جولوگ خوشحال ہوتے توانہیں  تومیں  (اپناقرض وصول کرتے وقت)مہلت دیاکرتاتھا،اورتنگ دست لوگوں  کومعاف کردیا کرتاتھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں  اسی پرجنت میں  داخل فرمادیا۔[2]

عمال کاتقرر:فتح مکہ کے بعدتمام جزیرة العرب اسلام کے زیرنگیں  ہوگیالہذااب سلطنت اسلامی کے نظم ونسق کی ضرورت تھی،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں  میں  جدا جداوالی اور حاکم مقررفرمائے۔

مِنْهُمْ باذان بن ساسان، من ولد بهرام جور، أَمَّرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْیَمَنِ كُلِّهَا بَعْدَ مَوْتِ كِسْرَى، فَهُوَ أَوَّلُ أَمِیرٍ فِی الْإِسْلَامِ عَلَى الْیَمَنِ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ مُلُوكِ الْعَجَمِ.ثُمَّ أَمَّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِ باذان ابْنَهُ شهر بن باذان عَلَى صَنْعَاءَ وَأَعْمَالِهَا. ثُمَّ قُتِلَ شهر فَأَمَّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَنْعَاءَ خَالِدَ بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ

باذان کسری ٰ کی طرف سے یمن کاوالی تھا،کسریٰ کے ہلاک ہونے کے بعدباذان مسلمان ہوگیاتھا،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان رضی اللہ عنہ بن ساسان کوبددستوریمن کی ولایت پر قائم رکھا، باذان غیر عرب سے اسلام لانے میں  سرفہرست ہے،اس کے انتقال کے بعداس کے بیٹے شہربن باذان کوصنعاء کاوالی مقررفرمایا،اس کے مرجانے کے بعدخالدبن سعیدابن العاص اموی صنعاء کے والی مقررہوئے۔

وَوَلَّى زیاد بن أمیة الأنصاری حَضْرَمَوْتَ،وَوَلَّى أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِیَّ زَبِیدَ وَعَدَنَ وَالسَّاحِلَ،وَوَلَّى مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْجَنَدَ

زیادبن لبیدانصاری رضی اللہ عنہ حضرموت کے حاکم مقررہوئے۔ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو زبید اور عدن وساحل کا حاکم مقررفرمایا۔معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کویمن کے ایک علاقہ جندکاوالی مقرر فرمایا، معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے والی یمن مقررکیے جانے کے سلسلہ میں  ایک روایت ہے۔

عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِیهِ، وَكَانَ أَحَدَ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ تَابَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ قَالَ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ادَّانَ بِدَیْنٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحَاطَ ذَلِكَ بِمَالِهِ، وَكَانَ مُعَاذٌ مِنْ صُلَحَاءِ أَصَحابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ مُعَاذٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا جَعَلْتُ فِی نَفْسِی حِینَ أَسْلَمْتُ أَنْ أَبْخَلَ عَلَى الْإِسْلَامِ بِمَالٍ مَلَكْتُهُ، وَإِنِّی أَنْفَقْتُ مَالِی فِی أَمْرِ الْإِسْلَامِ، فَأَبْقَى ذَلِكَ عَلَیَّ دَیْنًا عَظِیمًا: فَادْعُ غُرَمَائِی، فَاسْتَرْفِقْهُمْ، فَإِنْ أَرْفَقُوا بِی فَسَبِیلُ ذَلِكَ، وَإِنْ أَبَوْا فَاخْلَعْنِی لَهُمْ مِنْ مَالِی قَالَ:فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غُرَمَاءَهُ، فَعَرَضَ عَلَیْهِمْ أَنْ یَرْفُقُوا بِهِ فَقَالُوا: نَحْنُ نُحِبُّ أَمْوَالَنَا،

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عہد رسالت میں  اتنے مقروض ہوگئے کہ ان کاقرض ان پورے مال سے زیادہ ہوگیا معاذ رضی اللہ عنہ بڑے صالح صحابہ رضی اللہ عنہم میں  شمار ہوتے تھے،معاذ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اسلام لانے کے بعدمیں  نے کبھی بخل سے کام نہیں  لیامیں  نے اپنا سارامال اسلام کی نشرواشاعت کے لئے صرف کیاہے اس کے نتیجے میں  میں  مقروض ہوگیا ہوں  ،لہذاآپ میرے قرض خواہوں  کو بلا کر میرے ساتھ نرم رویہ اختیارکرنے کے لئے فرمایئے،اگروہ مان جائیں  توٹھیک ورنہ آپ میرا مال ان کودے دیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قرض خواہوں  کوبلاکران سے نرمی کے لئے فرمایا،وہ بولے ہم اپنامال لیناچاہتے ہیں  ،

فَدَفَعَ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَالَ مُعَاذٍ كُلَّهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا عَلَى بَعْضِ الْیَمَنِ لِیَجْبُرَهُ ، فَأَصَابَ مُعَاذٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ مَرَافِقِ الْإِمَارَةِ مَالًا، فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ بِالْیَمَنِ، فَارْتَدَّ بَعْضُ أَهْلِ الْیَمَنِ، فَقَاتَلَهُمْ مُعَاذٌ وَأُمَرَاءُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَّرَهُمْ عَلَى الْیَمَنِ حَتَّى دَخَلُوا فِی الْإِسْلَامِ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومعاذ رضی اللہ عنہ کاسارا مال دے دیا،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کمی کوپوراکرنے کے لئے معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کویمن کے شہرجندکاوالی مقرر فرمایا،اس منصب کی وجہ سے معاذ رضی اللہ عنہ کویمن سے کچھ مال حاصل ہوا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو معاذ رضی اللہ عنہ اس وقت یمن میں  تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدیمن کے کچھ لوگ اسلام سے پھرگئے معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررکردہ دوسرے عمال ان کے خلاف نبردآزما ہوئے حتی کہ وہ لوگ پھرسے اسلام کے دائرہ میں  داخل ہوگئے،

ثُمَّ قَدِمَ فِی خِلَافَةِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ بِمَالٍ عَظِیمٍ، وَأَتَاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنَّكَ قَدِمْتَ بِمَالٍ عَظِیمٍ، وَإِنِّی أَرَى أَنْ تَأْتِیَ أَبَا بَكْرٍ، فَتَسْتَحِلَّ مِنْهُ، فَإِنْ أَحَلَّهُ لَكَ طَابَ لَكَ، وَإِلَّا دَفَعْتَهُ إِلَیْهِ، فَقَالَ مُعَاذٌ:لَقَدْ عَلِمْتَ یَا عُمَرُ، مَا بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا لِیَجْبُرَنِی حِینَ دَفَعَ مَالِی إِلَى غُرَمَائِی، وَمَا كُنْتُ لِأَدْفَعَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ شَیْئًا مِمَّا جِئْتُ بِهِ إِلَّا أَنْ یَسْأَلَنِیهِ، فَإِنْ سَأَلَنِیهِ دَفَعْتُهُ إِلَیْهِ، وَإِنْ لَمْ یَأْخُذْ أَمْسَكْتُهُ،

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  معاذبن جبل رضی اللہ عنہ بہت سامان لے کر مدینہ منورہ آئے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مل کرکہاتم بہت سامال لائے ہواس لئے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس مال کے بارے میں  دریافت کرو،اگروہ اس مال کو تمہارے لئے حلال قراردیں  توحلال ہے ورنہ یہ مال ان کے تحویل میں  دیدینا،معاذ رضی اللہ عنہ نے کہااے سیدناعمر رضی اللہ عنہ !آپ کواچھی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن اپنے مال کی تلافی کرنے کے لئے بھیجاتھا،جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میراتمام مال قرض خواہوں  کودے دیاتھا،میں  جوکچھ اپنے ساتھ لایاہوں  اس میں  سے کچھ بھی سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کونہیں  دیناچاہتاہوں  الایہ کہ وہ مجھ سے طلب کریں  ،اگروہ طلب کریں  گے تومیں  ان کے حوالے کردوں  گا،اوراگرانہوں  نے نہ لیاتومیں  اسے پاس رکھوں  گا،

فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنِّی لَمْ آلُكَ وَنَفْسِی إِلَّا خَیْرًا، ثُمَّ قَامَ عُمَرُ، فَانْصَرَفَ، فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، فَعَادَ، فَقَالَ: إِنِّی مُطِیعُكَ، وَلَوْلَا رُؤْیَا رَأَیْتُهَا لَمْ أُطِعْكَ، إِنِّی أَرَانِی فِی نَوْمِی غَرِقْتُ فِی حَوْمَةِ مَاءٍ، فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِیَدِی، فَأَنْجَیْتَنِی مِنْهَا، فَانْطَلِقْ بِنَا إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَانْطَلَقَا حَتَّى دَخَلَا عَلَیْهِ، فَذَكَرَ لَهُ مُعَاذٌ كَنَحْوٍ مِمَّا كَلَّمَ بِهِ عُمَرُ فِیمَا كَانَ مِنْ غُرَمَائِهِ، وَمَا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبْرِهِ، ثُمَّ أَعْلَمَهُ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنَ الْمَالِ،

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں  اپنے اورتمہارے لئے صرف بھلائی کاخواہاں  ہوں  ،یہ کہہ کرسیدناعمر رضی اللہ عنہ جانے کے لئے کھڑے ہوئے،معاذ رضی اللہ عنہ نے پھرآپ کوبلایااورکہامیں  آپ کی اطاعت کروں  گا،اس لئے کہ میں  نے خواب دیکھاہےکہ میں  جہنم کے کنارے پر کھڑاہوں  اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ پیچھے سے میری کمرپکڑکرکھینچ رہے ہیں  کہ معاذ رضی اللہ عنہ کہیں  جہنم میں  نہ جاپڑیں  ،معاذ رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضرہوکرساراواقعہ اسی طرح بیان کر دیا جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں  فرمایاتھا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو اجازت دی کہ وہ غلاموں  کواپنے پاس رکھ لیں  ،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سناتھا کہ امیدہے اللہ تعالیٰ تمہارے نقصان کی تلافی کردے گا،چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نے قرض خواہوں  کاباقی ماندہ قرض چکادیا۔[3]

وَوَلَّى عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ الْأَخْمَاسَ بِالْیَمَنِ وَالْقَضَاءَ بِهَا،وَوَلَّى أَبَا سُفْیَانَ صَخْرَ بْنَ حَرْبٍ نَجْرَانَ ، وَوَلَّى ابْنَهُ یزید تَیْمَاءَ،وَوَلَّى عتاب بن أسید مَكَّةَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کویمن کا قاضی مقررفرمایا۔ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نجران کے حاکم مقررہوئے۔ابوسفیان کے بیٹے یزید رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان تیماء کے حاکم مقرر فرمائے۔عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کومکہ کاوالی مقررفرمایا۔[4]

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْیَمَنِ قَالَ: فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْعَثُنِی إِلَى قَوْمٍ أَسَنَّ مِنِّی، وَأَنَا حَدَثٌ لَا أُبْصِرُ الْقَضَاءَ؟ قَالَ: فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَى صَدْرِی وَقَالَ:اللَّهُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَهُ، وَاهْدِ قَلْبَهُ، یَا عَلِیُّ، إِذَا جَلَسَ إِلَیْكَ الْخَصْمَانِ فَلا تَقْضِ بَیْنَهُمَا حَتَّى تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ كَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ، فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ تَبَیَّنَ لَكَ الْقَضَاءُ قَالَ: فَمَا اخْتَلَفَ عَلَیَّ قَضَاءٌ بَعْدُ، أَوْ مَا أَشْكَلَ عَلَیَّ قَضَاءٌ بَعْدُ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کاقاضی بناکربھیجامیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے قاضی بناکربھیج رہے ہیں  جبکہ میں  ایک نوجوان آدمی ہوں  اورمقدمات کے فیصلے کرنے کاطریقہ مجھے نہیں  آتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ دست مبارک میرے سینے پررکھااورفرمایااے علی !اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی کرے گااورتمہاری زبان کوحق پرقائم رکھے گاجب فریقین تمہارے سامنے بیٹھیں  تواس وقت تک فیصلہ نہ کرناجب تک دوسرے فریق کانقطہ نظراس طرح نہ سن لوجیسے تم نے فریق اول کی بات سنی ہے اس طرح فیصلہ کرناتمہارے لیے آسان ہوجائے گا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  اس کے بعدمیں  وہاں  قاضی رہااورفیصلہ کرنے میں  مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی۔[5]

بعض ضعیف العقل معتزلہ اورجہمیہ جودین میں  عقل کومعیاربناتے ہیں  ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے اس قول کوسمجھنے سے قاصررہے ہیں  ، ان کے نزدیک عقل ہی سب کچھ ہے، جوبات عقل کے معیارپرپوری اترتی ہے اس کوقبول کرتے ہیں  ، اورجواس کے خلاف ہواس کوچھوڑدیتے ہیں  ، وہ اس بات کونہ سمجھ سکے کہ شرعی احکام حکمت پرمنبی ہیں  جوبعض اوقات عقل انسانی کی سمجھ میں  آجاتی ہیں  ، اوربعض اوقات وہ اس کے فہم وادراک سے قاصررہتی ہے،اس طرح یہ لوگ خودبھی گمراہ ہوئے اوردوسروں  کی گمراہی کاسبب بھی بنے،اپنے من گھڑت اورگمراہ کن اصولوں  کی بناپرانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاپرجوآپ نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے لیے فرمائی چندشکوک وشہبات واردکیے ہیں  ،ان کے نزدیک سیدناعلی رضی اللہ عنہ کایہ قول بھی محل نظرہے کہ اس کے بعدمجھے فیصلہ کرنے میں  کبھی دشواری پیش نہیں  آئی وہ کہتے ہیں  ۔

یہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کاایسادعوی ہے جوخلاف عقل ہونے کے ساتھ ساتھ خلاف واقعہ بھی ہے،خلاف عقل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعاکیسے کرسکتے تھے ،اللہ تعالیٰ ان کی زبان کوغلط فیصلہ صادرکرنے سے محفوظ رکھے اس لیے کہ خطاونسیان انسانی فطرت ہے،اورخلاف واقعہ اس لیے ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمتعددفیصلے کیے اورپھران سے رجوع کیا،صحابہ کی ایک جماعت ان فیصلوں  کے خلاف تھی، اورفقہااورتابعین نے بھی ان کوسندنہیں  مانا،مثلامندرجہ ذیل فیصلے:

سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے امہات الاولادکے بارے میں  ایک فیصلہ کیااورپھراس سے رجوع کرلیا۔جدکے بارے میں  مختلف قسم کے فیصلے صادرکیے۔سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوجب ابن عباس رضی اللہ عنہما کافتوی پہنچاتوانہوں  نے مرتدین کوآگ میں  ڈالنے کی سزادینے پراظہارمذامت کیا۔آپ نے حاطب کی آزادکردہ لونڈی کورجم کرنے کافیصلہ کیا،لیکن جب سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کایہ قول سناکہ حدشرعی تواس پرلگائی جاتی ہے جواسے جانتاہو،اوریہ لونڈی عجمی ہونے کی وجہ سے اس سے آشنانہیں  ، توآپ نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے موقف کوتسلیم کرلیا۔شراب نوشی کے جرم میں  ایک شخص کواسی کوڑی لگائے تواس کی موت واقع ہوگئی،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اس کی دیت اداکی اورفرمایایہ دیت میں  نے اس لیے اداکی ہے کہ اسی کوڑے میں  نے اپنی مرضی سے مارے تھے۔آپ نے اس قول سے رجوع کرلیاتھاکہ اگرکوئی شخص کہہ دے تومجھ پرحرام ہے توتین طلاقیں  واردہوجائیں  گی ،آپ نے اس سے بھی رجوع کیاکہ چوری کے جرم میں  ہاتھ انگلیوں  تک کاٹاجائے، اوراگرچوری بچہ کرے تواس کی انگلیوں  کورگڑدیاجائے ،آپ نے بچوں  پربچوں  کی گواہی بھی قبول کی۔

ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے ان تمام اعتراضات کے جوابات دیے ہیں  ۔

وَنَحْنُ نَقُولُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ دَعَا لَهُ بِتَثْبِیتِ اللِّسَانِ وَالْقَلْبِ، لَمْ یُرِدْ أَنْ لَا یَزَلَّ أَبَدًا، وَلَا یَسْهُوَ، وَلَا یَنْسَى، وَلَا یَغْلَطَ فِی حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ، لِأَنَّ هَذِهِ الصِّفَاتِ، لَا تَكُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَإِنَّمَا هِیَ مِنْ صِفَاتِ الْخَالِقِ سُبْحَانَهُ جَلَّ وَعَزَّ.وَإِنَّمَا دَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُ، بِأَنْ یَكُونَ الصَّوَابُ أَغْلَبَ عَلَیْهِ، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِی الْقَضَاء أَكثر مِنْهُ.وَمثل هَذَا، دُعَاؤُهُ لِابْنَ عَبَّاسٍ بِأَنْ یُعَلِّمَهُ اللهُ التَّأْوِیلَ، وَیُفَقِّهَهُ فِی الدَّین.

ابن قتیبہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے دل اوران کی زبان کی رہنمائی کے لیے دعافرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقصدیہ نہ تھاکہ کبھی ان سے لغزش سرزدنہ ہوگی نہ یہ کہ ان سے سہوونسیان اورغلطی کسی حالت میں  بھی نہیں  ہوگی ،اس لیے کہ یہ ایسی صفات ہیں  جوکسی مخلوق میں  نہیں  پائی جاتیں  ،یہ صفات تواللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں  ،اس دعاسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقصدیہ تھاکہ حق وصواب ان پرغالب رہے گا،اوران کے اکثرفیصلے عدل وانصاف کے تقاضوں  پرمبنی ہوں  گے، اس قسم کی دعاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں  بھی فرمائی تھی کہ اے اللہ !ان کوتفسیرقرآن کاعلم اوردین کافہم عطافرما،

وَكَانَ بن عَبَّاسٍ مَعَ دُعَائِهِ لَا یَعْرِفُ كُلَّ الْقُرْآنِ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُ حَنَانًا وَلَا الْأَوَّاهُ وَلَا الْغِسْلِینَ وَلَا الرَّقِیمَ، وَعُمَرُ مَعَ هَذَا یَقُولُ فِی قَضِیَّةٍ نَبَّهَهُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ عَلَیْهَا:لَوْلَا قَوْلُ عَلِیٍّ، لَهَلَكَ عُمَرُ،وَیَقُولُ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ كُلِّ مُعْضِلَةٍ، لَیْسَ لَهَا أَبُو حَسَنٍ

مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکے باوجودعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پورے قرآن کے معانی ومطالب سے آگاہ نہ تھے ،وہ خودفرماتے ہیں  مجھے نہیں  معلوم حَنَانًا، الْأَوَّاهُ ، الْغِسْلِینَ والرَّقِیمَ کے کیامعنی ہیں  ،بہرحال یہ حقیقت ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بہت سے مقدمات کے ایسے درست فیصلے صادرکیے کہ ان کوحل کرنے سے بڑے بڑے صحابہ قاصررہے تھے،چنانچہ صحابہ میں  سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدرصحابہ بھی تھے، وہ فرمایاکرتے تھے اگرسیدناعلی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے توعمرتباہ ہوجاتا،ان کادوسراقول یہ ہے کہ میں  ہراس پیچیدہ مسئلے سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں  جس کوحل کرنے کے لیے ابوحسن ( سیدناعلی رضی اللہ عنہ ) موجودنہ ہوں  ،ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی یہ رائے بڑی مناسب ہے۔[6]

ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُصِّدِّقِینَ، قَالُوا: لَمَّا رأى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هِلالَ الْمُحَرَّمَ سَنَةَ تِسْعٍ، بَعَثَ الْمُصَّدِّقِینَ یَصَّدَّقُونَ الْعَرَبَ ، وَبَعَثَ رَجُلا مِنْ سَعْدِ هُذَیْمٍ عَلَى صَدَقَاتِهِمْ وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقِیهِ أَنْ یَأْخُذُوا الْعَفْوَ مِنْهُمْ وَیَتَوَقَّوْا كَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، فَبَعَثَ عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ إِلَى بَنِی تَمِیمٍ یُصَدِّقُهُمْ،وَبَعَثَ یَزِیدَ بْنَ الْحُصَیْنِ إِلَى أَسْلَمَ وَغِفَارٍ،وَبَعَثَ عَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ الأَشْهَلَیَّ إِلَى سُلَیْمٍ وَمُزَیْنَةَ،وَبَعَثَ رَافِعَ بْنَ مَكِیثٍ إِلَى جُهَیْنَةَ، وَبَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ إِلَى بَنِی فَزَارَةَ

ابن سعدکہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوہجری محرم کاچانددیکھ کرعاملین زکوٰة کو زکوٰة وصول کرنے کے لئے مختلف قبائل میں  روانہ فرمایا۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد ہذیم سے بھی ایک آدمی ان کے صدقات پر مبعوث فرمایااور انہیں  تاکیدفرمائی کہ ان سے زکوٰة وصول کرتے وقت ان کے بہترین اموال سے بچیں  ۔

عیینہ رضی اللہ عنہ بن حصن فزاری کوبنوتمیم کی طرف ،یزیدبن حصین رضی اللہ عنہ کواسلم اورغفارکی طرف (ابن سعدمیں  بُرَیْدَةَ بْنَ الْحُصَیْبِ لکھاہواہے)عبادبن بشراشہلی کوسلیم ومزینہ کی طرف ،رافع بن مکیث رضی اللہ عنہ کوجہینہ کی طرف،عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کوبنی فزارہ کی طرف

وَبَعَثَ الضحاك بن سفیان الكلابی إلى بنی كلاب، وَبَعَثَ بُسْرَ بْنَ سُفْیَانَ الْكَعْبِیَّ إِلَى بَنِی كَعْبٍ،وَالْعَلاءَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ عَلَى الْبَحْرَیْنِ، وَبَعَثَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِ إلَى أَهْلِ نَجْرَانَ، لِیَجْمَعَ صَدَقَتَهُمْ وَیَقْدَمَ عَلَیْهِ بِجِزْیَتِهِمْ،وَبَعَثَ عَدِیَّ بْنَ حَاتِمٍ عَلَى طیِّئ وَصَدَقَاتِهَا، وَعَلَى بَنِی أَسَدٍ

ضحاک بن سفیان کلابی رضی اللہ عنہ کوبنی کلاب کی طرف،بسربن سفیان کعبی رضی اللہ عنہ کوبنی کعب کی طرف،علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کوبحرین کی طرف۔[7] سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کونجران کی طرف(زکوٰة اورجزیہ کے لئے)۔[8]

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کوطی وبنی اسدکی طرف

وَبَعَثَ زِیَادَ بْنَ لَبِیدٍ، أَخَا بَنِی بَیَاضَةَ الْأَنْصَارِیَّ، إلَى حَضْرَمَوْتَ وَعَلَى صَدَقَاتِهَا، فَبَعَثَ الزِّبْرِقَانَ بْنَ بَدْرٍ عَلَى نَاحِیَةٍ مِنْهَا، وَقَیْسَ بْنَ عَاصِمٍ عَلَى نَاحِیَةٍ، وَبَعَثَ ابْنَ اللُّتْبِیَّةَ الأَزْدِیَّ إِلَى بَنِی ذُبْیَانَ،وَبَعَثَ مالك بن نویرة عَلَى صَدَقَاتِ بَنِی حَنْظَلَةَ

زیادبن لبید رضی اللہ عنہ کوعلاقہ حضرموت کی طرف۔[9]

زبرقان بن بدر رضی اللہ عنہ کوبنوسعدکی ایک شاخ کی طرف۔[10]

قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کوبنوسعدکی دوسری شاخ کی طرف۔[11]

ابن اللتبیہ ازدی رضی اللہ عنہ کوبنی ذبیان کی طرف۔[12]

مالک بن نویرہ رضی اللہ عنہ کوبنی حنظلہ کی طرف۔[13]

فَبَعَثَ الْمُهَاجِرَ بْنَ أَبِی أُمَیَّةَ ابْن الْمُغِیرَةِ إلَى صَنْعَاءَ، وَبَعَثَ الْوَلِیدُ بْنُ عُقْبَةَ إِلَى بَنُو الْمُصْطَلِقِ

مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کوشہرصنعاء کی طرف۔[14]

ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ کوبنی مصطلق کی طرف۔[15]

اور چندوجوہات کی بناہرمختلف مقامات کی طرف کچھ فوجی دستے روانہ کیے گئے جن کی تفضیل یوں  ہے۔

سریہ عیینہ رضی اللہ عنہ بن حصن فزاری(بنوتمیم کی طرف)محرم نو ہجری

لما بَعَثَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلیهم بِشْرَبْنَ أبی سُفْیَانَ العدوی الكلبی یَأْخُذ منهم الصَدَقَاتِ، ونهاه عن كَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، فجمعوا له ما طلبه، فاستكثره بَنُو تَمِیمٍ، وقالوا: ما لهذا یأخذ أَمْوَالُكُمْ مِنْكُمْ بِالْبَاطِلِ ، فشهروا السیو،فَقَالَ الْخُزَاعِیّونَ: نحن مسلمون وهذا أمر دِینِنَا، فقَالَ التّمِیمِیّونَ: لَا یَصِلُ إلَى بَعِیرٍ مِنْهَا أَبَدًا، هَرَبَ الرسول ورجع فَأَخْبَرَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشربن ابی سفیان عدوی کوبنوکعب بن خزاعہ کی طرف واجب زکوٰة وصدقات کی وصولی کے لئے روانہ فرمایااور یہ وصیت کی کہ ان کے بہترین اموال سے پرہیز کریں  ،بنوکعب نے کہاہم اسلام قبول کرچکے ہیں  اورزکوٰة ہمارااہم مذہبی فریضہ ہے اور ہم اس کے لئے تیارہیں  مگر بنوتمیم جوایک زرعی کنوئیں  پربنوکعب کے شریک تھے انہیں  یہ مطالبہ بہت گراں  گزرا،چنانچہ بنوتمیم جمع ہوگئے اور تلواریں  سونت کرلڑنے مرنے کے لئے تیارہوگئےاورکہنے لگے اللہ کی قسم !یہاں  سے ایک اونٹ بھی نہ جائے گا ، بشربن ابی سفیان رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کرواپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوساری صورت حال سے آگاہ کیا،

بَعَثَهُ إِلَیْهِمْ فِی سَرِیَّةٍ لِیَغْزُوَهُمْ فِی خَمْسِینَ فَارِسًابالسقیا، وهی أرض بنی تمیم،هی قریة عظیمة قریبة من البحر على مسیرة یوم ولیلة، لَیْسَ فِیهِمْ مُهَاجِرِیٌّ وَلَا أَنْصَارِیٌّ،فَكَانَ یَسِیرُ اللیْلَ وَیَكْمُنُ النَّهَارَ،فَلَمَّا رَأَوُا الْجَمْعَ وَلَّوْا، وَأَخَذَ مِنْهُمْ أَحَدَ عَشَرَ رَجُلا، وَوَجَدُوا فِی الْمَحَلَّةِ إِحْدَى وَعِشْرِینَ امْرَأَةً وَثَلاثِینَ صَبِیًّا، فَجَلَبَهُمْ إِلَى الْمَدِینَةِ، فأمر بهم رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحُبِسُوا فِی دَارِ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن فزاری رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابومالک تھی(یہ فتح مکہ کے بعدمسلمان ہوئے ،غزوہ حنین اور طائف میں  شریک ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تالیف قلب کے لئے کافی مال عطافرمایاتھا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدیہ مرتدہوکرطلیحہ اسدی کے ساتھ مل گئے تھے پھر قید ہو کر خلیفہ اول کی سامنے پیش ہوئے اوردوبارہ اسلام قبول کرلیاتھا) کوپچاس سواروں  کے ایک دستہ پرامیرمقررفرماکربنوتمیم کی طرف روانہ کیا،یہ لوگ سقیا جوارض بنی تمیم کے درمیان تھے، خوارزمی کہتے ہیں  یہ سمندرکے قریب رات اوردن کی مسافت پر ایک بڑی بستی ہے۔ [16]اس دستہ میں  کوئی مہاجریاانصار رضی اللہ عنہم شامل نہیں  تھابلکہ اہل عرب شامل تھے،یہ لوگ رازداری کے پیش نظردن میں  چھپے رہتے اوررات کوسفرجاری رکھتے،انہوں  نے رات کے وقت ان پر چھاپہ مارامگروہی لوگ جوعامل زکوٰةبشربن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو اکیلا دیکھ کر تلواریں  سونت کرلڑنے مرنے پرتیارتھے مسلمانوں  کے گھڑسواردستے کودیکھ کرفرار ہوگئے،انہوں  نے ان لوگوں  کے مویشی اور گیارہ مرد،اکیس عورتیں  اورتیس بچے اسیرکر لئے اور انہیں  لے کرمدینہ منورہ واپس آگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب اسیروں  کورملہ رضی اللہ عنہا بنت حارث کے گھر میں  مقید رکھنے کاحکم فرمایا۔ [17]

سریہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ خزرجی(یمن کی طرف) نوہجری

لَمَّا انْصَرَفَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ بَعَثَ بُعُوثًا وَهَیَّأَ بَعْثًا اسْتَعْمَلَ عَلَیْهِ قَیْسَ بْنَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً أَبْیَضَ، وَدَفَعَ إِلَیْهِ رَایَةً سَوْدَاءَ، وَعَسْكَرَ بِنَاحِیَةِ قَنَاةَ فِی أَرْبَعِمِائَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَطَأَ نَاحِیَةً مِنَ الْیَمَنِ كَانَ فِیهَا صُدَاء،فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، وَعَلِمَ بِالْجَیْشِ،فَخَرَجَ سَرِیعًا حَتَّى وَرَدَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: جِئْتُكَ وَافِدًا عَلَى مَنْ وَرَائِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب الْجِعْرَانَةِ سے واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے توآپ نے قیس بن سعدخزرجی رضی اللہ عنہ کوچارسومجاہدین کاسرلشکرمقررفرماکریمن کی طرف روانہ فرمایاان کے لیے سفید جھنڈا عقد کیا لیکن تھمایا سیاہ جھنڈا اورانہیں  حکم فرمایاکہ وہ جاکر یمن کے ایک قبیلہ صداسے جہادکریں  (صدایمن میں  ایک پہاڑی درہ کی آبادی ہے،اس کے اورصنعاء کے درمیان بیالیس فرسخ کافاصلہ ہےاس کایہ نام ایک قبیلہ کے نام پررکھاگیاتھا)ابھی مجاہدین وادی قناة کے سرے پرہی خیمہ زن تھے کہ زیادبن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کو اس لشکرکاعلم ہوگیا،وہ بھاگ کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  اپنے پیچھے والوں  کی طرف سے وفدکے طور پر حاضرہواہوں  ،

فَارْدُدِ الْجَیْشَ، وأنا أتكفل لك بقومی، أن بمجیئهم مسلمین،فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَیْسَ بْنَ سَعْدِ بن صُدُورِ قَنَاةَ،وَخَرَجَ الصُّدَائِیُّ إِلَى قَوْمِهِ فَقَدِمَ مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خمسة عَشَرَ رَجُلا فَأَسْلَمُوا وَبَایَعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَرَجَعُوا إِلَى بِلادِهِمْ

زیادبن حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس لشکرکوواپس بلا لیں  میں  اپنی قوم کے اسلام قبول کرنے اورآپ کی اطاعت اختیارکرنے کاذمہ دار ہوں  ، میں  انہیں  لاکرآپ کی خدمت میں  پیش کردوں  گا،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصدکوبھیج کرقیس بن سعدکووادی قناةسے ہی واپس بلوالیا،پھرزیادبن حارث رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے پاس پہنچے اورانہیں  ترغیب دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوں  ، صدائی اپنی قوم میں  واپس چلے گئے اوران کی مساعی سے ان کی قوم کے پندرہ لوگوں  نے حاضرخدمت اقدس ہوکراسلام قبول کرلیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کے پسماندہ لوگوں  کی طرف سے بیعت کی اوراپنے وطن واپس لوٹ گئے ،

قَالَ الصُّدَائِیُّ: وَكَتَبْتُ إِلَیْهِمْ كِتَابًا، فَقَدِمَ وَفْدُهُمْ بِإِسْلَامِهِمْ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا أَخَا صُدَاءٍ إِنَّكَ لَمُطَاعٌ فِی قَوْمِكَ، فَقُلْتُ: بَلِ اللهُ هَدَاهُمْ لِلْإِسْلَامِ،فَقَالَ: أَفَلَا أُؤَمِّرُكَ عَلَیْهِمْ،لَا خَیْرَ لِلْمُؤْمِنِینَ فِی الْإِمَارَةِ

ایک روایت ہےزیادبن حارث صدائی رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کوخط لکھاتھااس پراس کی قوم کاوفدحاضر ہو کرمشرف باسلام ہوگیا،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے صدا!واقعی آپ اپنی قوم میں  محترم اورواجب الاطاعت شخص ہیں  ،انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !بات یہ نہیں  بلکہ اللہ نے انہیں  ہدایت عطافرمادی،پھرانہوں  نے عرض کیاکیاآپ مجھے ان کاامیر مقرر نہ فرمائیں  گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ضرورلیکن ایک مومن کے لئے امارت میں  کوئی بھلائی نہیں  ہے،یہ سن کرانہوں  نے امارت کاخیال ترک کردیا۔[18]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاطرتواضع کے لئے رئیس الخزرج سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کومامورفرمایا

قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لَنَا بِئْرًا إِذَا كَانَ الشِّتَاءُ كَفَانَا مَاؤُهَا، وَإِذَا كَانَ الصَّیْفُ قَلَّ عَلَیْنَا، فَتَفَرَّقْنَا عَلَى الْمِیَاهِ، وَالْإِسْلَامُ الْیَوْمَ فِینَا قَلِیلٌ، وَنَحْنُ نَخَافُ فَادْعُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَنَا فِی بِئْرِنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَاوِلْنِی سَبْعَ حَصَیَاتٍ،فَنَاوَلْتُهُ فَعَرَكَهُنَّ بِیَدِهِ، ثُمَّ دَفَعَهُنَّ إِلَیَّ وَقَالَ: إِذَا انْتَهَیْتَ، إِلَیْهَا فَأَلْقِ فِیهَا حَصَاةً حَصَاةً، وَسَمِّ اللهَ،قَالَ: فَفَعَلْتُ فَمَا أَدْرَكْنَا لَهَا قَعْرًا حَتَّى السَّاعَةِ

زیادبن حارث رضی اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی میں  عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے ہاں  صرف ایک ہی کنواں  ہے،موسم سرمامیں  اس میں  بہت پانی ہوتاہے اورہمیں  کفایت کرجاتاہے لیکن موسم گرمامیں  یہ خشک ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہمارا قبیلہ پانی کے لئے ادھرادھرکی گھاٹیوں  میں  متفرق ہوجاتاہے ،ابھی ہم مسلمانوں  کی تعدادتھوڑی ہے (ہمارااس طرح پراگندہ ہونا ) خطرے سےخالی نہیں  لہذااللہ عزوجل سے دعافرمائیں  کہ کنوئیں  کاپانی ختم نہ ہواکرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم سات کنکریاں  اٹھالاؤ،چنانچہ میں  کنکریاں  اٹھالایا ، آپ نے ان کواپنے دست مبارک میں  رکھ کرپھرواپس دے دیا،اورفرمایاایک ایک کنکری اس کنوئیں  میں  گرادینا،اورہرایک کنکری پراللہ، اللہ پڑھتے جانا، زیاد رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ میں  نے ایساہی کیاپھراس کنوئیں  میں  اس قدرپانی ہوگیاکہ اس کی گہرائی کاپتہ ہی نہ چلتا تھا اوریہ پانی کبھی ختم ہونے میں  نہ آتاتھا۔[19]

ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ یُقِیمَ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ هُوَ أَذَّنَ وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ یُقِیمُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  نمازفجرکی اذان دینے کاحکم فرمایاتوانہوں  نے اذان دی پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی توتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدانے اذان دی ہے اور جو اذان دے اسے ہی اقامت بھی کہنی چاہیے۔[20]

فَفَشَا فِیهِمُ الإِسْلامُ. فَوَافَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِائَةُ رَجُلٍ مِنْهُمْ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ

پھران لوگوں  نے اپنے قبیلہ میں  جاکروعظ ونصیحت کاکام شروع کردیاجس کے نتیجے میں  وہاں  اسلام پھیل گیا،حجة الوداع کے موقع پراس قبیلہ کے سوآدمیوں  نے شرف باریابی حاصل کیا۔[21]

سریہ ولید رضی اللہ عنہ بن عقبہ(بنی مصطلق کی طرف) نوہجری

بعث رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَةَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ إلَى صَدَقَاتِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَكَانُوا قَدْ أَسْلَمُوا وَبَنَوْا الْمَسَاجِدَ بِسَاحَاتِهِمْ،وكان بینه وبینهم عداوة فى الجاهلیة،فَلَمّا خَرَجَ إلَیْهِمْ الْوَلِیدُ وَسَمِعُوا بِهِ قَدْ دَنَا مِنْهُمْ، خَرَجَ مِنْهُمْ عِشْرُونَ رَجُلًا یَتَلَقّوْنَهُ بِالْجُزُرِ وَالنّعَمِ فَرَحًا بِهِ، وَلَمْ یَرَوْا أَحَدًا یُصَدّقُ بَعِیرًا قَطّ. وَلَا شَاةً،فَلَمّا رَآهُمْ وَلّى رَاجِعًا إلَى الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَقْرَبْهُمْ، فَأَخْبَرَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّهُ لَمّا دَنَا مِنْهُمْ لَقُوهُ. مَعَهُمْ السّلَاحُ یَحُولُونَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الصّدَقَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیدبن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ کوبنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے روانہ کیایہ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے اورانہوں  نے عبادت کے لئے مساجد بھی تعمیر کرلی تھیں  ،دورجاہلیت میں  ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ اوربنومصطلق کے درمیان عداوت تھی،جب بنومصطلق نے زکوٰة وصدقات کی وصولی کے لئے ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبرسنی توان کے بیس آدمی زکوٰة وصدقات اداکرنے کے لئے اونٹ اور بکریاں  ساتھ لے کرولید رضی اللہ عنہ کی آمدپرمسرت اوراللہ اوررسول کی تعظیم کااظہارکرتے ہوئے ان کے استقبال کوبستی سے باہرنکلے،ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں  اپنی طرف ہتھیارلئے ہوئے آتادیکھاتوان کے دل میں  بدگمانی پیدا ہوئی کہ یہ لوگ انہیں  قتل کرناچاہتے ہیں  حالانکہ وہ ہتھیارصرف زینت کے طورپرساتھ لے کرنکلے تھے،چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ ان لوگوں  کے اپنے پاس پہنچنے سے پہلے ہی واپس پلٹ کرمدینہ منورہ پہنچ گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی کہ بنومصطلق مرتدہوگئے ہیں  اوروہ ہتھیاربندہوکران کی طرف آرہے تھے تاکہ انہیں  زکوٰة وصول کرنے سے روک دیں  ،

فَهَمّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبْعَثَ إلَیْهِمْ مَنْ یَغْزُوهُمْ. وَبَلَغَ ذَلِكَ الْقَوْمَ، فَقَدِمَ عَلَیْهِ الرّكْبُ الّذِینَ لَقُوا الْوَلِیدَ، فَأَخْبَرُوا النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ،فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، سَمِعْنَا بِرَسُولِكَ حِینَ بَعَثْتَهُ إلَیْنَا، فَخَرَجْنَا إلَیْهِ لِنُكْرِمَهُ، وَنُؤَدِّیَ إلَیْهِ مَا قِبَلَنَا مِنْ الصَّدَقَةِ، فَانْشَمَرَ رَاجِعًا، فَبَلَغْنَا أَنَّهُ زَعَمَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّا خَرَجْنَا إِلَیْهِ لنقتله، وو الله مَا جِئْنَا لِذَلِكَ

یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کوبنومصطلق کی سرکوبی کے لئے روانہ کرنے کاقصدفرمایاجب یہ خبربنومصطلق کومعلوم ہوئی توان کاوہی بیس رکنی وفدجوولید رضی اللہ عنہ کااستقبال کرنے نکلاتھافوراًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوا،اورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے سناکہ آپ نے اپناپیام بر ہماری طرف بھیجاہے ہم اس کے اکرام وتکریم کے لیے بستی سے باہرکی طرف نکلے اورہم نے انہیں  پکارکرکہاکہ ہمارے صدقات لے کرجاؤمگروہ واپس چلاگیااورآکریہ کہاکہ ہم اپنی بستی سے اس کوقتل کرنے کے لیے نکلے تھے اللہ کی قسم ! ایسی بات ہرگزنہیں  ،اس پریہ آیت نازل ہوئی۔[22]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ ‎﴿٦﴾‏ وَاعْلَمُوا أَنَّ فِیكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ یُطِیعُكُمْ فِی كَثِیرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَیْكُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَهُ فِی قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ‎﴿٧﴾‏ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٨﴾(الحجرات)
اے مسلمانو ! اگر تمہیں  کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں  کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لیے پریشانی اٹھاؤ، اور جان رکھو کہ تم میں  اللہ کے رسول موجود ہیں  اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں  تو تم مشکل میں  پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیاہےاوراسے تمہارے دلوں  میں  زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں  میں  ناپسندیدہ بنادیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں  اللہ کے احسان و انعام سے اور اللہ دانا اور با حکمت ہے ۔[23]

فاسق کی خبرپراعتمادنہ کرو:

 وَرُوِّینَا عَنْ مُجَاهِدٍ فِی نُزُولِ قَوْلِهِ تَعَالَى إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا فِی الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَةَ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  یہ آیت’’اے مسلمانو ! اگر تمہیں  کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔‘‘ ولیدبن عقبہ کے بارے میں  نازل ہوئی۔ [24]

عَنْ مُجَاهِدٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ إِلَى بَنِی الْمُصْطَلِقِ مُصَدِّقًا

مجاہدکہتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیدبن عقبہ کوصدقات کی وصولی کے لیے بنی المصطلق کی طرف بھیجاتھا۔[25]

ولیدبن عقبہ عثمان رضی اللہ عنہ کے ماں  شریک بھائی تھے اورفتح مکہ کے دن اسلام لائے تھےیہ شاعراورسخی مگرشراب نوش تھے،

قَالَ: صَلَّى الْوَلِیدُ بْنُ عُقْبَةَ بِالنَّاسِ الْفَجْرَ أَرْبَعًا وَهُوَ سَكْرَانُ فَالْتَفَتَ إِلَیْهِمْ ،فَقَالَ: أَزِیدُكُمْ؟!فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَشَغَبَ النَّاسُ وحصبوه،فعزله عُثْمَانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

انہوں  نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  کوفہ والوں  کو نشہ کی حالت میں  نمازفجرمیں  چاررکعتیں  پڑھادی تھیں  ، اورپھرکہاتھاکیااورزیادہ پڑھاؤں  ، یہ بات سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کوپہنچائی گئی،جب لوگوں  نے ان کی شراب نوشی پران کے خلاف گواہی دی تو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے انہیں  کوڑے لگائے گئے، اورانہیں  کوفہ سے معزول کردیاگیاتھا۔[26]

گزشتہ آیت میں  یہی مراد ہیں  کیونکہ انہوں  نے آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو مصطلق کے مرتدہونے کی اطلاع دی تھی۔

الْحَارِثَ بْنَ أَبِی ضِرَارٍ الْخُزَاعِیِّ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِی إِلَى الْإِسْلَامِ، فَدَخَلْتُ فِیهِ، وَأَقْرَرْتُ بِهِ، فَدَعَانِی إِلَى الزَّكَاةِ، فَأَقْرَرْتُ بِهَا، وَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْجِعُ إِلَى قَوْمِی، فَأَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَدَاءِ الزَّكَاةِ، فَمَنْ اسْتَجَابَ لِی جَمَعْتُ زَكَاتَهُ، فَیُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا لِإِبَّانِ كَذَا وَكَذَا لِیَأْتِیَكَ مَا جَمَعْتُ مِنَ الزَّكَاةِ، فَلَمَّا جَمَعَ الْحَارِثُ الزَّكَاةَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لَهُ، وَبَلَغَ الْإِبَّانَ الَّذِی أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبْعَثَ إِلَیْهِ، احْتَبَسَ عَلَیْهِ الرَّسُولُ، فَلَمْ یَأْتِهِ، فَظَنَّ الْحَارِثُ أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ فِیهِ سَخْطَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِهِ، فَدَعَا بِسَرَوَاتِ قَوْمِهِ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ وَقَّتَ لِی وَقْتًا یُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولَهُ لِیَقْبِضَ مَا كَانَ عِنْدِی مِنَ الزَّكَاةِ، وَلَیْسَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخُلْفُ، وَلَا أَرَى حَبْسَ رَسُولِهِ إِلَّا مِنْ سَخْطَةٍ كَانَتْ، فَانْطَلِقُوا،

بنی المصطلق کے سردارحارث بن ضرارخزاعی رضی اللہ عنہ (ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد)فرماتے ہیں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دعوت اسلام پیش کی جومیں  نے قبول کرلی اورمسلمان ہوگیا،پھرآپ نے زکوٰة کی فرضیت سنائی میں  نے اس کابھی اقرار کرلیا، اور کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  واپس اپنی قوم کے پاس جاتاہوں  اورانہیں  دعوت اسلام پیش کرتاہوں  ان میں  سے جوایمان لائیں  گے اورزکوٰة دیں  گےمیں  ان سےزکوٰة لے کرجمع کرلوں  گا آپ اتنے دنوں  کے بعدمیری طرف اپناکوئی نمائندہ بھیج دیں  تاکہ میں  زکوٰة آپ کی خدمت میں  بھجوادوں  چنانچہ حارث رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم میں  واپس آکرلوگوں  کودعوت اسلام دی جس پرقبیلہ بنی المصطلق مسلمان ہوگیا،حارث رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ سے زکوٰة وصول کرکے قاصدکاانتظارکرنے لگےجب مقررہ وقت گزرگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصدوہاں  نہ پہنچاتوانہوں  نے اپنی قوم کوجمع کیااوران سے کہاکہ یہ توناممکن ہے کہ اللہ کے رسول وعدے کے مطابق اپناکوئی قاصدنہ بھیجیں  مجھے توڈرہے کہ کہیں  کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں  ؟اوراس بناپرآپ نے اپناکوئی قاصدمال زکوٰة کی وصولی کے لئے نہ بھیجاہواگرآپ لوگ متفق ہوں  توہم خودہی مدینہ منورہ جاکریہ مال ان کی خدمت میں  پیش کردیں  یہ تجویزطے ہوگئی اوریہ اپنامال زکوٰة ساتھ لے کرمدینہ منورہ روانہ ہوگئے،

فَنَأْتِیَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَةَ إِلَى الْحَارِثِ لِیَقْبِضَ مَا كَانَ عِنْدَهُ مِمَّا جَمَعَ مِنَ الزَّكَاةِ، فَلَمَّا أَنْ سَارَ الْوَلِیدُ حَتَّى بَلَغَ بَعْضَ الطَّرِیقِ، فَرِقَ، فَرَجَعَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْحَارِثَ مَنَعَنِی الزَّكَاةَ، وَأَرَادَ قَتْلِی، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبَعْثَ إِلَى الْحَارِثِ، فَأَقْبَلَ الْحَارِثُ بِأَصْحَابِهِ إِذْ اسْتَقْبَلَ الْبَعْثَ وَفَصَلَ مِنَ الْمَدِینَةِ، لَقِیَهُمُ الْحَارِثُ، فَقَالُوا: هَذَا الْحَارِثُ، فَلَمَّا غَشِیَهُمْ، قَالَ لَهُمْ: إِلَى مَنْ بُعِثْتُمْ؟ قَالُوا: إِلَیْكَ، قَالَ: وَلِمَ؟ قَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَعَثَ إِلَیْكَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَةَ، فَزَعَمَ أَنَّكَ مَنَعْتَهُ الزَّكَاةَ، وَأَرَدْتَ قَتْلَهُ قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ، مَا رَأَیْتُهُ بَتَّةً، وَلَا أَتَانِی

ادھرسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولیدبن عقبہ بن ابی معیط کو اپناقاصدبناکرحارث رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کرچکے تھےلیکن یہ ڈرکے مارے راستے سے ہی واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے اورآکرکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حارث رضی اللہ عنہ نے زکوٰة روک لی ہے اوروہ میرے قتل کے بھی درپے ہوگیا،اس رپورٹ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اورکچھ آدمی حارث رضی اللہ عنہ کی گوشمالی کے لئے روانہ فرمائے،مدینہ منورہ کے قریب راستے ہی میں  اس مختصردستہ نے حارث رضی اللہ عنہ کوپاکرگھیرلیاحارث رضی اللہ عنہ نے پوچھاآخربات کیاہے ؟تم کہاں  اورکس کی طرف جارہے ہو؟دستہ کے امیرنے کہاہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں  ،حارث رضی اللہ عنہ نے پوچھامگرتمہیں  میری طرف کیوں  بھیجاگیاہے؟انہوں  نےجواب دیاکہ تونےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدولیدکوزکوٰة دینے سے انکارکیااورانہیں  قتل کرنے کے درپے ہوا ،حارث رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم جس نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورسول بناکربھیجاہے ولیدتونہ میرے پاس آیااورنہ میں  نے اسے دیکھابلکہ میں  تومال زکوٰة لے کرخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہورہاہوں  ،

فَلَمَّا دَخَلَ الْحَارِثُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنَعْتَ الزَّكَاةَ، وَأَرَدْتَ قَتْلَ رَسُولِی؟ قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا رَأَیْتُهُ، وَلَا أَتَانِی، وَمَا أَقْبَلْتُ إِلَّا حِینَ احْتَبَسَ عَلَیَّ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، خَشِیتُ أَنْ تَكُونَ كَانَتْ سَخْطَةً مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَسُولِهِ. قَالَ: فَنَزَلَتِ الْحُجُرَاتُ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ، فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ}۔۔، [27]إِلَى هَذَا الْمَكَانِ: {فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ،[28]

جب حارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو نے زکوٰة بھی روک لی اورمیرے قاصدکوقتل بھی کرنا چاہا،حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہرگزنہیں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم جس نے آپ کو سچارسول بناکربھیجاہے میں  توآپ کے قاصدکاانتظارہی کرتارہا،جب میرے پاس کوئی قاصدنہ آیاتواس ڈرکے مارے کہ کہیں  اللہ اوراس کارسول مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں  اوراسی وجہ سے قاصدنہ بھیجاہومیں  خودحاضرخدمت ہورہاتھاکہ راستے میں  آپ کے دستے سے ملاقات ہوگئی،تواللہ تعالیٰ نے سورۂ الحجرات ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو کہیں  ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو،خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں  تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں  مبتلا ہو جاؤ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنادیا اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیاایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں  اور اللہ علیم و حکیم ہے ۔‘‘ نازل فرمائی۔[29]

وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ : قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَیْهِمْ یَصْدُقُ أَمْوَالَهُمْ، فَلَمَّا سَمِعُوا بِهِ أَقْبَلَ رَكْبٌ مِنْهُمْ فَقَالُوا: نَسِیرُ مَعَ رَسُولِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْمِلُهُ، فَلَمَّا سَمِعَ بِذَلِكَ ظَنَّ أَنَّهُمْ سَارُوا إِلَیْهِ لِیَقْتُلُوهُ فَرَجَعَ فَقَالَ: إِنَّ بَنِی الْمُصْطَلِقِ مَنَعُوا صَدَقَاتَهُمْ یَا رَسُولَ اللهِ، وَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِینَةَ ثُمَّ صَفُّوا وَرَاءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الصَّفِّ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ انْصَرَفُوا، فَقَالُوا: إِنَّا نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، سَمِعْنَا یَا رَسُولَ اللهِ بِرَسُولِكَ الَّذِی أَرْسَلْتَ یَصْدُقُ أَمْوَالَنَا فَسُرِرْنَا بِذَلِكَ وَقَرَّتْ بِهِ أَعْیُنُنَا، وَأَرَدْنَا أَنْ نَلْقَاهُ وَنَسِیرُ مَعَ رَسُولِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَا أَنَّهُ رَجَعَ فَخَشِینَا أَنْ یَكُونَ رَدَّهُ غَضَبٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ، فَلَمْ یَزَالُوا یَعْتَذِرُونَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناقاصدزکوٰة کی وصولی کے لیے بھیجا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصدحارث رضی اللہ عنہ کی بستی کے پاس پہنچاتویہ لوگ خوش ہوکراس کے استقبال کے لئے خاص طورپرتیاری کرکے نکلے، ان کواپنی طرف آتادیکھ کرقاصدکے دل میں  یہ شیطانی خیال پیداہواکہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لئے آرہے ہیں  ،چنانچہ وہ وہیں  سے واپس لوٹ گئے،جب یہ دیکھاکہ قاصدواپس چلاگیاہے توخودہی حاضرہوکرظہرکی نمازکے بعدصف بستہ کھڑے ہوکرعرض کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے زکوٰة وصول کرنے کے لئے اپنا قاصد بھیجا،ہماری آنکھیں  ٹھنڈی ہوئیں  اورہم بے حدخوش ہوئے،لیکن اللہ جانے کیاہواکہ وہ ہم سے ملے بغیرراستے سے ہی واپس لوٹ گیاتواس خوف سے کہ کہیں  اللہ ہم سے ناراض نہ ہوگیاہوہم خودحاضرخدمت ہوئے ہیں  وہ اسی طرح عذرمعذرت کرتے رہےچنانچہ عصرکے وقت جب بلال رضی اللہ عنہ نے آذان دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔[30]

ایک روایت میں  ہے حارث رضی اللہ عنہ کے متعلق ولیدکی اس خبرپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مختصردستہ بھیجنے کاابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ان کا وفد حاضرضدمت ہوگیا،اورانہوں  نے کہاکہ آپ کاقاصدآدھے راستے سے ہی واپس لوٹ گیا،ہم نے خیال کہ کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بناپرانہیں  واپس لوٹ آنے کاحکم فرمایاہوگا،اس لئے ہم خودحاضرخدمت ہوگئے کہ ہم اللہ کے غصے اورآپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہیں  ،اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اورحارث رضی اللہ عنہ کاعذرسچافرمایا۔

بعث علیه الصلاة والسلام الولید بن عقبة بن أبی معیط لأخذ صدقات بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فلمّا علموا بقدومه خرج منهم عشرون رجلا متقلدین سلاحهم احتفالا بقدومه، ومعهم إبل الصدقة، فلمّا نظرهم ظنّهم یریدون حربه لما كان بینه وبینهم من العداوة فی الجاهلیة، فرجع مسرعا إلى المدینة، وأخبر الرَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أنّ القوم ارتدوا ومنعوا الزكاة

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیدبن ابی معیط کوبنی مصطلق سے زکوٰة کی وصولی کے لیے بھیجاجب بنومصطلق نے زکوٰة وصدقات کی وصولی کے لئے ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبرسنی توان کے بیس آدمی زکوٰة کے اونٹ لے کرولید رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لیے بستی سے باہرنکلے،ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں  اپنی طرف ہتھیارلئے ہوئے آتادیکھاتوان کے دل میں  بدگمانی پیدا ہوئی کہ یہ لوگ انہیں  قتل کرناچاہتے ہیں  کیونکہ ولیداوران کے درمیان زمانہ جاہلیت میں  عداوت تھی،چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ ان لوگوں  کے اپنے پاس پہنچنے سے پہلے ہی واپس پلٹ کرمدینہ منورہ پہنچ گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی کہ بنومصطلق مرتدہوگئے ہیں  اوروہ ہتھیاربندہوکران کی طرف آرہے تھے تاکہ انہیں  زکوٰة وصول کرنے سے روک دیں  ۔[31]

وبعث خالد بن الولید فى عسكر خفیة وأمره أن یخفى علیهم قدومه وقال له انظر فان رأیت منهم ما یدل على ایمانهم فخذ منهم زكاة أموالهم وان لم تر ذلك فاستعمل فیهم ما تستعمل فى الكفار، فأتاهم خالد فسمع منهم أذان صلاتى المغرب والعشاء فأخذ صدقاتهم ولم یر منهم الا الطاعة والخیر وانصرف خالد الى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأخبره الخبر ،فأنزل الله تعالى یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکی زیرامارت ایک فوجی دستہ روانہ کردیالیکن انہیں  ہدایت فرمادی کہ کوئی کاروائی کرنے سےپہلے اچھی طرح تحقیق وتفقیش کرلینااگرانہیں  اسلام پرپاؤتوان سے زکوٰة وصول کرلینااگرایسانہ ہوتوان کے ساتھ وہی سلوک کرناجوکفارکے ساتھ کیاجاتاہے،اس ہدایت کے مطابق خالد رضی اللہ عنہ نے وہاں  پہنچ کرخود مغرب اورعشاء کی آذان سنی چنانچہ انہوں  نے ان سے زکوٰة وصول کی اوران میں  اطاعت اورخیرکے سواکچھ نہ پایاپھرخالد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ گئے اوروہاں  پہنچ کرصحیح صورت حال سے باخبرکیا، اس پریہ آیت’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو !اگر فاسق اورمفسدقسم کے لوگوں  کی طرف سے تمہارے پاس کوئی خبر آئے توپہلے اس کی خوب تحقیق وتفقیش کر لیا کرو تاکہ اصل واقعہ صاف طورپرمعلوم ہوجائےکہیں  ایسا نہ ہو کہ تم نادانستگی میں  کسی گروہ کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ نازل ہوئی۔[32]

ولیدبن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں  متامل تھےمگربعض لوگوں  نے اصرارکیاکہ ان پرفوراًچڑھائی کردینی چاہیے،اس پران لوگوں  کو تنبیہ فرمائی کہ تم اس بات کوبھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمیان اللہ کےرسول موجود ہیں  جوتمہاری مصلحتوں  کوتم سےزیادہ بہترجانتے ہیں  ،جیسے فرمایا

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ۔۔۔ ۝۶ [33]

ترجمہ: بلاشبہ نبی مومنین پر خود ان کے نفس سے زیادہ شفقت کرنے والا ہے۔

اس لئےا ن کی تعظیم اوراطاعت کرو اور ان کے پیچھے چلوان کواپنے پیچھے چلانے کی کوشش نہ کرواگر وہ بہت سے معاملات میں  تمہاری بات مان لیا کرے تو بکثرت مواقع پرایسی غلطیاں  ہوں  گی جن کاخمیازہ خودتم کو بھگتنا پڑے گا،جیسے فرمایا

 وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۔۔۔۝۰۝۷۱َّۭ [34]

ترجمہ: اور اگر حق ان کی خواہشوں  کے مطابق ہوتا تو آسمان اور زمین میں  اور جو کچھ ان میں  ہے درہم برہم ہو گیا ہوتا ۔

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کی گواہی دی کہ اللہ نے تم کو ایمان کی محبّت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا اور کُفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفرّ کر دیا،اس میں  ان کی اپنی قوت و اختیار کو کوئی دخل نہیں  بلکہ یہ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں  ،اس کے برعکس وہ لوگ ہیں  جن کے لئے کفر،فسق اور عصیان کوپسندیدہ اورایمان کو ناپسندیدہ بنادیا گیا ہےاوران کی کج روی پراللہ نے ان کے دلوں  پرمہرلگادی،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵ [35]

ترجمہ: جب ان لوگوں  نے کج روی کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے اور اللہ نافرمانوں  کو ہدایت نہیں  دیتا ۔

اللہ جانتاہے کہ کون اس کی نعمت کی قدر کرتا ہے، پس وہ اسے اس نعمت کی توفیق بخش دیتاہے اوراس شخص کوبھی جانتاہے جواس نعمت کی قدرنہیں  کرتا،اوریہ عظیم نعمت اس کے لائق نہیں  ،پس وہ اپنے فضل وکرم کواس مقام پر رکھتا ہے جہاں  اس کی حکمت تقاضاکرتی ہے،غزوہ احدکے دن جب مشرکین مسلمانوں  پرٹوٹ پڑے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادرستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہوجاؤ،تومیں  اپنے رب عزوجل کی ثنابیان کروں  ،پس لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں  باندھ کرکھڑے ہوگئے ،اورآپ نے یہ دعاپڑھی

 اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ،وَلَا هَادِیَ لِمَا أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللهُمَّ ابْسُطْ عَلَیْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ،اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لَا یَحُولُ وَلَا یَزُولُ، اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ النَّعِیمَ یَوْمَ الْعَیْلَةِ وَالْأَمْنَ یَوْمَ الْخَوْفِ، اللهُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ، الهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیمَانَ وَزَیِّنْهُ فِی قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَیْنَا الْكُفْرَ، وَالْفُسُوقَ، وَالْعِصْیَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِینَ، اللهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ، وَأَحْیِنَا مُسْلِمِینَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْرَ خَزَایَا وَلَا مَفْتُونِینَ،اللهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ یُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَیْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَهَ الْحَقِّ

اے اللہ ! تمام ترتعریف تیرے لئے ہی ہے، توجسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں  کرسکتااورجس پرتوتنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں  کر سکتا،توجسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں  دے سکتااورجسے توہدایت بخش دے اسے کوئی گمراہ نہیں  کرسکتا،جس سے توروک لے اسے کوئی دے نہیں  سکتااورجسے تودے اس کوئی بازنہیں  رکھ سکتا،جسے تودورکردے اسے قریب کرنے والاکوئی نہیں  اورجسے توقریب کرلے اسے دورڈالنے والاکوئی نہیں  ،اے اللہ!ہم پراپنی برکتیں  ، رحمتیں  اوررزق کشادہ فرمادے ،اے اللہ!میں  تجھ سے وہ ہمیشگی کی نعمتیں  چاہتاہوں  جونہ ادھرادھرہوں  نہ زائل ہوں  ،اے میرے رب!فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں  عطافرمانا اورخوف والے دن مجھے امن عطافرمانا،پروردگار! جو تو نے مجھے عطافرمارکھاہے اورجونہیں  دیاہے اب سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتاہوں  ،اے میرے معبود!ہمارے دلوں  میں  ایمان کی محبت ڈال دے اوراسے ہماری نظروں  میں  زینت داربنادے اورکفر ، بدکاری اورنافرمانی سے ہمارے دل میں  دوری اورعداوت پیدافرمادے اورہمیں  راہ یافتہ لوگوں  میں  شامل کردے،اے ہمارے رب!ہمیں  اسلام کی حالت میں  فوت کر اور اسلام پرہی زندہ رکھ اورنیکوکارلوگوں  سے ملا دے،ہم رسوانہ ہوں  ،ہم فتنے میں  نہ ڈالے جائیں  ، پروردگار!ان کافروں  کاستیاناس کرجوتیرے رسولوں  کوجھٹلائیں  اور تیری راہ سے روکیں  توان پراپنی سزااوراپناعذاب نازل فرما ،الٰہی ! اہل کتاب کے کافروں  کوبھی تباہ کراے سچے معبود۔[36]


عام الوفود( نوہجری)

وفدبنی تمیم :

بنوتمیم مشہورعدنانی قبیلہ تھا،ظہوراسلام کے وقت بنوتمیم نجدکے شمال میں  وادی الرمہ کے قریب بریدہ کے شمال میں  آبادتھے ،یہ قبیلہ جاہلیت اوراسلام دونوں  زمانوں  میں  بڑے اہم قبائل میں  شمارکیاگیاہے،

فَقَدِمَ عَلَیْهِ عُطَارِدُ بْنُ حَاجِبِ بْنِ زُرَارَةَ التَّمِیمِیُّ فِی أَشْرَافٍ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ مِنْهُمُ: الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، وَالزِّبْرِقَانَ بْنُ بَدْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَهْتَمِ، وَالْحَبْحَابُ بْنُ یَزِیدَ، وَنُعَیْمُ بْنُ زَیْدٍ، وَقَیْسُ بْنُ الْحَارِثِ، وَقَیْسُ بْنُ عَاصِمٍ فِی وَفْدٍ عَظِیمٍ مِنْ تَمِیمٍ، فِیهِمْ: عُیَیْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِیُّ

نوہجری میں  بنی تمیم کے ستر(۷۰)یااسی(۸۰) آدمیوں  پرمشتمل ایک وفدجن میں  عطاردبن حاجب، زبر قان بن بدر، قیس بن عاصم ،اقرع بن حابس ،قیس بن حارث،نعیم بن زید،عمروبن اہتم اورحبحاب بن یزیدوغیرہ شامل تھے بڑی شان وشوکت اورجاہلی ٹھاٹھ کے ساتھ مدینہ آئے،اس وفدمیں  قبیلے کے بڑے بڑے روساء ،شعلہ بیان خطیب اورسحرالبیان شاعرمیں  سرفہرست عیینہ بن حصن فزاری بھی شامل تھے،

لما رآهم النساء والذراری، وبكوا، فعجلوا ،فَلَمَّا دَخَلَ وَفْدُ بَنِی تَمِیمٍ الْمَسْجِدَ نَادَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرَاءِ حُجُرَاتِهِ: أَنْ اُخْرُجْ إلَیْنَا یَا مُحَمَّدُ فَآذَى ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صِیَاحِهِمْ ، فَخَرَجَ إلَیْهِمْ، فَقَالَ الأَقْرَعُ: یَا مُحَمَّدُ ائذن لی فو الله إِنَّ جَهْدِی لَزَیْنٌ وَإِنَّ ذَمِّی لَشَیْنٌ،فَقَالَ له رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَذَبْتَ ذَلِكَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى،فقالوا: إنا جئناك یا محمد نفاخرك

عورتیں  اوربچے اپنے سرداروں  کودیکھ کررونے لگے،زمانہ جاہلیت میں  عربوں  میں  مفاخرت اورمقابلت کاجذبہ بہت شدیدتھااوروہ لوگ ہروصف میں  ایک دوسرے سے مقابلہ کیاکرتے تھے (اسلام نے مفاخرہ کومذموم قراردیااورفضیلت کی بنیادتقویٰ کو ٹھہرایا )،بنوتمیم کے دماغوں  میں  خاندانی فخروغرور کانشہ سمایاہواتھا،ان لوگوں  نے جلدی کی اورمسجدنبوی میں  گھس پڑے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حجرے کے اندرتھے ، ان لوگوں  کی بیباکی اور اکھڑپن کی یہ کیفیت تھی کہ انہوں  نے نہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے کاانتظارکیا،اورنہ اس بات کالحاظ کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجہ کی شخصیت ہیں  ،بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے پرجاکراونچی آوازسے پکارنے لگےاے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )!باہرآؤتاکہ ہم آپ سے مفاخرت ومشاعرت میں  مقابلہ کریں  گے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان لوگوں  کااکھڑپن ناگوار تو گزرا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے باہر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے توان لوگوں  کوسخت سزادے سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عفووکرم دیکھیے کہ ان سے نہایت خندہ پیشانی سے ملاقات فرمائی، وفد کے ایک رئیس اقرع بن حابس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااےمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!میں  وہ ہوں  کہ اللہ کی قسم میری مدح انسان کی عزت کوبڑھادیتی ہے اورمیری ہجوانسان کوداغ لگادیتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ بات سچ نہیں  ہے کسی کوعزت بخش دینا یاذلیل کر دینایہ تواللہ تبارک وتعالیٰ کاکام ہے ،انہوں  نے کہاہم سب سے زیادہ معززہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم سے زیادہ معززیوسف علیہ السلام بن یعقوب تھے ،اقرع نے کہااے محمد! ہم آپ سے مفاخرت کرناچاہتے ہیں  ،یہ بڑی نامعقول بات تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  فخاری اورشعربازی کے لئے مبعوث نہیں  ہوا لیکن اگرتم اسی کے لئے آئے ہوتوٹھیک ہے تم اپناکمال دکھاؤہم جواب دیں  گے ،آپ تھوڑی دیران کے پاس ٹھہرکرمسجد میں  تشریف لے گئے اس موقع پریہ آیت نازل ہوئی۔

فاسق کی خبرپراعتمادنہ کرو:

إِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٤﴾‏وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٥﴾(الحجرات)
جو لوگ آپ کو حجروں  کے پیچھے سے پکارتے ہیں  ان میں  اکثر (بالکل) بےعقل ہیں  ، اگر یہ لوگ یہاں  تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَقَامَ بلال الصَّلَاةَ وَتَعَلَّقُوا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكَلِّمُونَهُ، فَوَقَفَ مَعَهُمْ ثُمَّ مَضَى فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ جَلَسَ فِی صَحْنِ الْمَسْجِدِ ،قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ ائْذَنْ لِشَاعِرِنَا،فَأَذِنَ لَهُ

جب بلال رضی اللہ عنہ نے ظہرکی نمازکے لئے اقامت کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لئے چلے گئے،ظہرکی نمازسے فارغ ہوکرمسجدکی صحن میں  تشریف فرماہوئے،بنوتمیم کے وفدنے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے شاعراورخطیب کوکچھ کہنے کی اجازت فرمائیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمادی،چنانچہ بنوتمیم کے شعلہ بیاں  خطیب عطاردبن حاجب جوایک دفعہ نوشیرواں  کے دربارمیں  اپنی خطابت کے جوہردکھا کر کمخواب کا خلعة حاصل کرچکے تھے اجازت پاکر کھڑے ہوئے اورمفاخرہ کاآغازاپنی اس تقریرسے کیا۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مُلُوكًا، الَّذِی لَهُ الْفَضْلُ عَلَیْنَا، وَالَّذِی وَهَبَ لَنَا أَمْوَالًا عِظَامًا، نَفْعَلُ بِهَا الْمَعْرُوفَ، وَجَعَلَنَا أَعَزَّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ، وَأَكْثَرَهُ عَدَدًا وَأَیْسَرَهُ عُدَّةً، فَمَنْ مِثْلُنَا فِی النَّاسِ؟ أَلَسْنَا رُءُوسَ النَّاسِ وَأُولِی فَضْلِهُمْ؟ فَمَنْ فَاخَرَنَا فَلْیَعُدَّ مِثْلَ مَا عَدَدْنَا، فَلَوْ شِئْنَا لَأَكْثَرْنَا مِنَ الْكَلَامِ، وَلَكِنَّا نَسْتَحِی مِنَ الْإِكْثَارِ لِمَا أَعْطَانَا، أَقُولُ هَذَا لِأَنْ تَأْتُوا بِمِثْلِ قَوْلِنَا وَأَمْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَمْرِنَا، ثُمَّ جَلَسَ

اس ذات پاک کی حمدہے جس نے ہمیں  فضیلت دی اورسرداربنایا،اورمال ودولت دی،جسے ہم فیاضی سے نیکی اوربھلائی کے کاموں  میں  خرچ کرتے ہیں  ،اورہمیں  اہل مشرق میں  سب سے زیادہ عزت والا،کثرت والااورقوت وشان وشوکت والابنایا،پس لوگوں  میں  ہمارامثل ونظیرنہیں  ،کیاہمارے سرداران کے سرداروں  سے بالاترنہیں  جوہم سے فخرمیں  مقابلہ کرناچاہتے ہیں  توانہیں  چاہیے کہ جس طرح ہم نے اپنے مفاخراورمناقب بیان کیے ہیں  وہ بھی اپنے مفاخرومناقب شمارکرے،اگرہم چاہیں  تواپنے مفاخرومناقب کے بارے میں  لمبی گفتگوکرسکتے ہیں  لیکن ہمیں  اپنی بڑائی اپنے منہ سے بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہےاس لئے میں  نے یہ کہاہے کہ اگرکوئی اس کے مثل یااس سے بہترلاسکتاہے توسامنے بیان کرےپھر بیٹھ گیا۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ: قُمْ فَأَجِبْ خَطِیبَهُمْ! فَقَامَ ثَابِتٌ- وَمَا كَانَ دَرَى مِنْ ذَلِكَ بِشَیْءٍ، وَمَا هَیّأَ قَبْلَ ذَلِكَ مَا یَقُولُ

جب بنوتمیم کاخطیب اپنی تقریرسے فارغ ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس کوجواب دینے کاحکم فرمایا،وہ کھڑے ہوئے اور بغیر کسی استعداد وتیاری کے یوں  فرمایا۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ خَلْقُهُ، قَضَى فِیهِنَّ أَمْرَهُ، وَوَسِعَ كُرْسِیُّهُ عِلْمَهُ، وَلَمْ یَكُنْ شَیْءٌ قَطُّ إِلَّا مِنْ فَضْلِهِ، ثُمَّ كَانَ مِنْ فَضْلِهِ أَنْ جَعَلَنَا مُلُوكًا، وَاصْطَفَى مِنْ خَیْرِ خَلْقِهِ رَسُولًا أَكْرَمَهُ نَسَبًا، وَأَصْدَقَهُ حَدِیثًا، وَأَفْضَلَهُ حَسَبًا، فَأَنْزَلَ عَلَیْهِ الْكِتَابَ، وَائْتَمَنَهُ عَلَى خَلْقِهِ، فَكَانَ خِیرَةَ اللهِ مِنَ الْعَالَمِینَ، ثُمَّ دَعَا النَّاسَ إِلَى الْإِیمَانِ بِاللهِ فَآمَنَ بِهِ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قَوْمِهِ، وَذَوِی رَحِمِهِ أَكْرَمُ النَّاسِ أَحْسَابًا وَأَحْسَنُهُمْ وُجُوهًا، وَخَیْرُ النَّاسِ فِعْلًا، ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ الْخَلْقِ إِجَابَةً وَاسْتَجَابَ اللهُ حِینَ دَعَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَحْنُ، فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ وَوُزَرَاءُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، نُقَاتِلُ النَّاسَ حَتَّى یُؤْمِنُوا، فَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ مَنَعَ مَالَهُ وَدَمَهُ، وَمَنْ نَكَثَ جَاهَدْنَاهُ فِی اللهِ أَبَدًا، وَكَانَ قَتْلُهُ عَلَیْنَا یَسِیرًا. أَقُولُ هَذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ۔

اس ذات کی حمدوثناہے جس نے آسمانوں  اورزمینوں  کوتخلیق فرمایا،اس میں  اپناحکم جاری کیا،اپنی کرسی اورعلم کووسعت دی ،وہ قادرمطلق ہے،جوکچھ ہوتا ہے اسی کی قدرت سے ہوتاہے ،اس کی قدرتوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ اپنی مخلوق میں  سے ہمارے لئے ایک پیغمبرمبعوث کیاجوسب سے زیادہ شریف النفس ہے ، جوتمام مخلوق میں  حسب ونسب میں  سب سے بڑھ کرہے،اللہ نے ان پر ایک کتاب نازل فرمائی اوران کوتمام مخلوق پرامین بنایا،وہ تمام جہانوں  میں  سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں  ،اس کے رسول نے تمام لوگوں  کو دعوت اسلام پیش کی ،پس سب سے پہلے اس رسول پرمہاجرین ایمان لائے جوحسب ونسب میں  افضل ہیں  ،ان کے چہرے سب سے زیادہ روشن ہیں  ، یہ افعال واعمال کے اعتبارسے بھی بہترہیں  ،مہاجرین کے بعدہم انصارنے اسلام قبول کیا اس لئے دوسرے لوگوں  سے مقدم ہیں  ،ہم اللہ کے دین کے مددگارہیں  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیرہیں  ،ہم لوگ اس وقت تک جہادوقتال کرتے ہیں  جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں  لیکن جواللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آئے اس نے اپنی جان ومال کومحفوظ کرلیااورجس نے کفرکیااس سے ہم جہادفی سبیل اللہ کریں  گے اوراس کاقتل ہم پرآسان ہے،مجھے یہی کچھ کہناتھااورمیں  اللہ سے تمام مومن مردوعورت کے لئے مغفرت کے لئے دعا کرتا ہوں  ،والسلام۔[37]

فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ ائْذَنْ لِشَاعِرِنَا، فَأَذِنَ لَهُ، فَأَقَامُوا الزّبْرِقَانَ بْنَ بَدْرٍ فَقَالَ:

تقریریں  ہوچکیں  توانہوں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے شاعروں  کوبولنے کی اجازت فرمائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمادی،بنوتمیم کی طرف سے ان کے سحرالبیان شاعرزبرقان بن بدرکھڑاہوااوراس نے اپنی قوم کے مناقب میں  یہ اشعارکہے۔

نَحْنُ الْكِرَامُ فَلَا حَیٌّ یُعَادِلُنَا ،مِنَّا الْمُلُوكُ وَفِینَا تُنْصَبُ الْبِیَعُ

ہم معززلوگ ہیں  ،کوئی خاندان ہماراہمسرنہیں  ،ہم میں  بادشاہ بھی ہوئے ہیں  اورہمارے علاقوں  میں  عبادت گاہیں  بھی بنائی گئی ہیں

وَكَمْ قَسَرْنَا مِنَ الْأَحْیَاءِ كُلِّهِمُ ،عِنْدَ النِّهَابِ وَفَضْلُ الْعِزِّ یُتَّبَعُ

جنگ کے وقت ہم نے کتنے ہی قبائل کی قوت وشوکت کوکچل دیا،اورعزوشرف ہی کی اتباع کی ہے

وَنَحْنُ یُطْعِمُ عِنْدَ الْقَحْطِ مُطْعِمُنَا ،مِنَ الشِّوَاءِ إِذَا لَمْ یُؤْنَسِ الْقَزَعُ

جب بادل بارش نہ برسائیں  اورقحط سالی ہو،توہمارے لوگ ہی دوسروں  کوبھنے ہوئے گوشت سے تواضع کرتے ہیں  ۔

بِمَا تَرَى النَّاسَ تَأْتِینَا سُرَاتُهُمُ،مِنْ كُلِّ أَرْضٍ هُوَیَّا ثُمَّ نَصْطَنِعُ

آپ دیکھتے ہیں  کہ لوگوں  کے سردارہمارے پاس،ہرعلاقے سے دوڑکرآتے ہیں  ،پھرہم ان سے بہترین سلوک کرتے ہیں

فَنَنْحَرُ الْكَوْمَ عُبْطًا فِی أَرُومَتِنَا،ِلنَّازِلِینَ إِذَا مَا أُنْزِلُوا شَبِعُوا

چنانچہ آنے والے مہمانوں  کے لئے ہم اپنی اصلیت کی بناپر،موٹے تازے اونٹوں  کاگلہ ذبح کردیتے ہیں  ،اورآنے والے شکم سیرہوجاتے ہیں

فَلَا تَرَانَا إِلَى حَیٍّ نُفَاخِرُهُمْ،إِلَّا اسْتَفَادُوا فَكَانُوا الرَّأْسَ یُقْتَطَعُ

توہمیں  جس قبیلے کے لوگوں  کے ساتھ بھی فخرکرتادیکھے گا،وہ سرکٹے ذلیل ہوکررہ جائیں  گے

فَمَنْ یُفَاخِرُنَا فِی ذَاكَ نَعْرِفُهُ،فَیَرْجِعُ الْقَوْمُ وَالْأَخْبَارُ تُسْتَمَعُ

جوشخص اس معاملہ میں  ہم سے فخرکرتاہے،ہم اسے خوب جاتے ہیں  کیونکہ لوگ واپس جاتے ہیں  اورخبریں  سننے میں  آجاتی ہیں

إِنَّا أَبَیْنَا وَلَا یَأْبَى لَنَا أَحَدٌ،إِنَّا كَذَلِكَ عِنْدَ الْفَخْرِ نَرْتَفِعُ

ہم دوسروں  کی باتوں  کوقبول کرنے سے انکارکردیتے ہیں  ،جبکہ ہماری بات کاکوئی انکارنہیں  کرتا۔ فخرکے وقت ہم اسی طرح رفیع المرتبت ثابت ہوتے ہیں  ۔

زبرقان بن بدرکے زوربیان اورفصاحت وبلاغت میں  کوئی کلام نہ تھا

وَلَمَّا دَارَ بَیْنَ عَمْرٍو وَزِبْرِقَانَ،قَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ یَوْمَئِذٍ:إِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا

زبرقان کے اشعارسن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابعض بعض تقریروں  میں  جادوہوتاہے۔[38]

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اقلیم سخن کے بادشاہ تھے،زمانہ جاہلیت میں  شاہان غسان کے درباروں  میں  اپنے حسن کلام اورطلاقت لسانی کالوہامنواچکے تھے ،قبول اسلام کے بعدان کی شاعری کے جوہراوربھی چمک گئے تھے کیونکہ انہوں  نے محض رضائے الٰہی کو اپنامقصودبنالیاتھااوراپنی شاعری کومدحت رسول کے لئے وقف کردیاتھا۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ حَسَّانُ غَائِبًا، فَبَعَثَ إلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَسَّانُ: جَاءَنِی رَسُولُهُ، فَأَخْبَرَنِی أَنَّهُ إنَّمَا دَعَانِی لِأُجِیبَ شَاعِرَ بَنِی تَمِیمٍ، فَخَرَجْتُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ:

ابن اسحاق لکھتے ہیں  حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اس موقع پروہاں  موجودنہیں  تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیجا، فرماتے ہیں  میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقاصد آیااوراس نے آکرمجھے یہ پیغام دیا کہ مجھے بنوتمیم کے شاعرکاجواب دینے کے لئے طلب فرمایا ہے،چنانچہ میں  یہ شعرپڑھتاہواآپ کی طرف روانہ ہوا۔

مَنَعْنَا رَسُولَ اللهِ إذْ حَلَّ وَسْطَنَا ،عَلَى أَنْفٍ رَاضٍ مِنْ مَعَدٍّ وَرَاغِمِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے،توبنومعدکے علی الرغم ہم نے آپ کی حفاظت وحمایت کی ہے

مَنَعْنَاهُ لَمَا حَلَّ بَیْنَ بُیُوتِنَا ،بِأَسْیَافِنَا مِنْ كُلِّ بَاغٍ وَظَالِمِ

جب آپ نے ہمارے گھروں  کے درمیان پڑاؤڈالا،توہم نے اپنی تلواروں  کے ساتھ ہرباغی وظالم سے آپ کادفاع کیا

هَلْ الْمجد إِلَّا السّؤدد الْعَوْدُ وَالنَّدَى ،وِجَاهُ الْمُلُوكِ وَاحْتِمَالُ الْعَظَائِمِ

مجدوشرف صرف،وراثت میں  منتقل ہونے والی قدیم سرداری،سخاوت وفیاضی،بادشاہوں  کے دبدبے اوربڑی بڑی ذمہ داریاں  اٹھانے میں  ہے

وَنَحْنُ ضَرَبْنَا النَّاسَ حَتَّى تَتَابَعُوا ،عَلَى دِینهِ بِالْمُرْهَفَاتِ الصَّوَارِمِ

ہم نے قاطع تلواروں  کے ساتھ لوگوں  کومارا،حتی کہ وہ پے درپے آپ کے دین کی اتباع کرنے لگے

بعض نے ان کے یہ اشعارمزیددرج کیے ہیں  ۔

بَنِی دَارِمٍ لَا تَفْخَرُوا إنَّ فَخْرَكُمْ ،یَعُودُ وَبَالًا عِنْدَ ذِكْرِ الْمَكَارِمِ

بنی دارم کے لوگو!فخرنہ کرواگر فخرکروگے تو، جب مکارم اخلاق کاتذکرہ شروع ہوگاتویہ وبال بن کرلوٹے گا

فَإِنْ كُنْتُمْ جِئْتُمْ لِحَقْنِ دِمَائِكُمْ ،وَأَمْوَالِكُمْ أَنْ تُقْسَمُوا فِی الْمَقَاسِمِ

اوراگرتم ہمارے پاس اپنے خون کی حفاظت کی غرض سے آئے ہو،تو اپنی جانوں  اورمالوں  کوبطورغنیمت تقسیم ہونے سے بچاسکو

فَلَا تَجْعَلُوا للَّه نِدًّا وَأَسْلِمُوا ،وَلَا تَلْبَسُوا زِیًّا كَزِیِّ الْأَعَاجِمِ

تواللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤاورمسلمان ہوجاؤ،نیزعجمیوں  کاسالباس نہ پہنو

جب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے زبرقان ہی کے بحراورقافیہ میں  فی البدیہہ ایسے فصیح وبلیغ اشعارسنائے توبنی تمیم انگشت بدنداں  ہوگئے لیکن وہ آسانی سے ہارماننے والے نہ تھے ، زبرقان یابنوتمیم کے ایک اورشاعرعطاردنے کھڑے ہوکرچنداشعاراپنی فضیلت میں  پڑھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ ان اشعارکاجواب دیں  ،چنانچہ تعمیل ارشاد میں  کھڑے ہوکران اشعارکابھی برجستہ جواب دیا۔

إِنَّ الذَّوَائِبَ مِنْ فِهْرٍ وَإِخْوَتِهِمْ ،قَدْ بَیَّنُوا سُنَّةً لِلنَّاسِ تُتَّبَعُ

خاندان فہرکے سرداروں  اوران کے بھائیوں  نے ،لوگوں  کے لئے ایساطریقہ جاری کیاہے جس کی اتباع کی جاتی ہے

یَرْضَى بِهَا كُلُّ مَنْ كَانَتْ سَرِیرَتُهُ ،تَقْوَى الْإِلَهَ وَكُلُّ الْخَیْرِ مُصْطَنَعُ

ان طریقوں  سے ہروہ شحض خوش ہے،جس کاباطن اللہ کے خوف سے آشناہواوروہ ہرنیکی کاکام کرتاہو

قَوْمٌ إِذَا حَارَبُوا ضَرُّوا عَدُوَّهُمُ ،أَوْ حَاوَلُوا النَّفْعَ فِی أَشْیَاعِهِمْ نَفَعُوا

یہ لوگ ایسی قوم کے افرادہیں  کہ جب برسرپیکارہوتے ہیں  ،اگرچاہیں  تواپنے دشمن کونقصان پہنچاتے ہیں  ،چاہیں  توفائدہ بھی پہنچادیتے ہیں

سَجِیَّةٌ تِلْكَ فِیهِمْ غَیْرُ مُحْدَثَةٍ ،إِنَّ الْخَلَائِقَ فَاعْلَمْ شَرُّهَا الْبِدَعُ

پھریہ ان کی کوئی نئی عادت نہیں  ،اورجان لوکہ خلائق میں  سے بدترین بدعات(نئی چیز) ہوتی ہے

إِنْ كَانَ فِی النَّاسِ سَبَّاقُونَ بَعْدَهُمُ ،فَكُلُّ سَبْقٍ لِأَدْنَى سَبْقِهِمْ تَبَعُ

اگران کے بعدلوگوں  میں  کچھ سبقت کامظاہرہ کرنے والے ہوں  ،توسبقت کامظاہرہ کرنے والاہرشحض ان میں  سے ادنیٰ ترین آدمی کے تابع ہوگا

لَا یَرْقَعُ النَّاسُ مَا أَوْهَتْ أَكُفُّهُمُ ،عِنْدَ الدِّفَاعِ وَلَا یُوهُونَ مَا رَقَعُوا

دفاع کے وقت ان کی ہتھیلیوں  سے توڑی ہوئی چیزکولوگ جوڑنہیں  سکتے،اورنہ ہی ان کی جوڑی ہوئی چیزکووہ توڑسکتے ہیں

لَا یَبْخَلُونَ عَلَى جَارٍ بِفَضْلِهِمُ ،وَلَا یَمَسُّهُمُ مِنْ مَطْمَعٍ طَبَعُ

یہ لوگ پڑوسی پرخرچ کرنے میں  بخل سے کام نہیں  لیتے،اورلالچ کامیل انہیں  چھوتاتک نہیں

إِذَا نَصَبْنَا لِحَیٍّ لَمْ نَدِبَّ لَهُمْ ،كَمَا یَدِبُّ إِلَى الْوَحْشِیَّةِ الذُّرُعُ

جب ہم کسی قبیلہ کے مقابلہ میں  اٹھ کھڑے ہوتے ہیں  توہم، اس طرح ان کی جانب نہیں  جاتے جیسے بقروحشی کابچہ اپنی ماں  کی طرف جاتاہے

نَسْمُوا إِذَا الْحَرْبُ نَالَتْنَا مَخَالِبُهَا ،إِذَا الزَّعَانِفُ مِنْ أَظْفَارِهَا خَشَعُوا

جب لڑائی ہم پراپنے پنجے گاڑدے توہم سربلندہوتے ہیں  ،جبکہ ذلیل لوگ لڑائی کے ناخنوں  تک سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں

لَا یَفْخَرُونَ إِذَا نَالُوا عَدُوَّهُمُ،وَإِنْ أُصِیبُوا فَلَا جَوْرٌ وَلَا هَلَعُ

جب دشمن پرغلبہ حاصل کرلیں  تومفتخرنہیں  ہوتے،اوراگرشکست سے دوچارہوں  توکمزوری نہیں  دکھاتے نہ جزع فزع کرتے ہیں

كَأَنَّهُمْ فِی الْوَغَى وَالْمَوْتُ مُكْتَنِعٌ،أُسْدٌ بِحِلْیَةَ فِی أَرْسَاغِهَا فَدَعُ

موت قریب ہونے کی حالت میں  وہ لڑائی میں  ،آراستہ شیروں  کی طرح ہوتے ہیں  جن کے ہاتھوں  میں  ٹیڑھاپن ہو

خُذْ مِنْهُمُ مَا أَتَوْا عَفْوًا إِذَا غَضِبُوا،وَلَا یَكُنْ هَمُّكَ الْأَمْرَ الَّذِی مَنَعُوا

جب وہ غضبناک ہوں  توان سے جوچیزفضل ومہربانی سے حاصل ہووہ لے لو۔اوراس کام کاہرگزارادہ نہ کرناجس سے انہوں  نے روکاہو

فَإِنَّ فِی حَرْبِهِمْ فَاتْرُكْ عَدَاوَتَهُمْ،شَرًّا یُخَاضُ عَلَیْهِ السُّمُّ وَالسَّلَعُ

ان کے ساتھ دشمنی کرنے سے الگ بیٹھے رہناکیونکہ ان سے لڑنا،ایک ایساشرہے، جس کی وجہ سے توزہراورایلوے میں  گھس جائے گا

 أَكْرِمْ بِقَوْمٍ رَسُولُ اللهِ شِیعَتُهُمْ،إِذَا تَفَاوَتَتِ الْأَهْوَاءُ وَالشِّیَعُ

یہ کس قدرمعززقوم ہے کہ رسول اللہ جس کاایک فردہیں  ،جبکہ دیگرلوگوں  کی خواہشات اورجماعتیں  متفاوت ومتفرق ہیں

أَهْدَى لَهُمْ مِدْحَتِی قَلْبٌ یُوَازِرُهُ،فِیمَا أَحَبَّ لِسَانٌ حَائِكٌ صَنَعُ

آپ نے لوگوں  کومیری مدحت کایہ تحفہ پیش کیاہے،جس کی نیابت میری پسندیدہ ، اورعمدہ باتیں  کرنے والی زبان کرتی ہے

فَإِنَّهُمْ أَفْضَلُ الْأَحْیَاءِ كُلِّهِم،إِنْ جَدَّ بِالنَّاسِ جِدُّ الْقَوْلِ أَوْ شَمَعُوا

بلاشبہ وہ تمام قبائل میں  سے بہترین لوگ ہیں  ،کیونکہ لوگوں  میں  بانصیب وہ ہوتے ہیں  جوخوش طبع اورجن کی گفتگودلآویزہو

فَلَمَّا فَرَغَ حسان قَالَ أَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ لَمُؤَتَّى لَهُ، لَخَطِیبُهُ أَخْطَبُ مِنْ خَطِیبِنَا، وَلَشَاعِرُهُ أَشْعَرُ مِنْ شَاعِرِنَا، وَلَأَصْوَاتُهُمْ أَعْلَى مِنْ أَصْوَاتِنَا، ثُمَّ أَسْلَمُوا

جب حسان رضی اللہ عنہ اپنے اشعارسناکرفارغ ہوئے تواقرع بن حابس( اہل سیرلکھتے ہیں  یہ فتح مکہ کے بعدمسلمان ہوچکے تھے اورانہوں  نے حنین کی جنگ میں  مال غنیمت حاصل کیا تھا )جوخودبڑے فصیح البیان شاعراورخطیب تھے، اورجن کی اصابت رائے کاساراعرب معترف تھا،یہاں  تک کہ متحارب قبائل اپنے جھگڑوں  میں  ان کوحکم (ثالث) بنایاکرتے تھے نے بے اختیارکہا،باپ کی قسم !یہ آدمی یقیناًاللہ کاپیغمبرمعلوم ہوتاہے،اس کاخطیب ہمارے خطیب سے زیادہ خطیبانہ صلاحتیں  رکھتاہے اوراس کاشاعرہمارے شاعرسے زیادہ قادرالکلام ہے،ان کاکلام ہمارے کلام سے زیادہ فصیح اور ان کی آوازیں  بھی ہماری آوازوں  سے کہیں  بڑھ کرشریں  ہیں  ۔اہل وفدنے ان کی رائے سے اتفاق کیااوربالآخرسب لوگ مسلمان ہوگئے۔

حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ أَخْطَبَ قَالَ:اسْتَسْقَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْتُهُ بِجُمْجُمَةٍ وَفِیهَا مَاءٌ وَفِیهِ شَعْرةٌ فَرَفَعْتُهُا فَنَاوَلْتُهُ فَنَظَرَ إِلَیَّ فَقَالَ:اللَّهُمَّ جَمِّلْهُ

عمرو رضی اللہ عنہ بن اخطب انصاری کہتے ہیں  دوران گفتگورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیاس لگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پانی طلب کیامیں  لپک کراٹھا اورپیالے میں  پانی بھرلایا یکایک میں  نے دیکھاکہ پانی میں  ایک بال پڑاہواہے، میں  نے جلدی سے یہ بال نکال کرباہرپھینک دیا، اور صاف پانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیش کیا ،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اوردعافرمائی اے اللہ!اس کوصاحب جمال کر دے۔[39]

قَالَ:اللهُمَّ جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ

ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ!اس کوصاحب جمال بنادے اوراس کا جمال قائم رکھ ۔[40]

قال:مسح عَلَیْهِ الصّلَاةُ وَالسّلَامُ بِیَدِهِ عَلَى رَأْسِی ولحیتی، ثم قَالَ:اللهُمَّ جَمِّلْهُ،قال الراوی عنه وهو علباء بكسر المهملة، وسكون اللام، بعدها موحدة:فبلغ بضعًا ومائة سنة، وما فی لحیته بیاض ببركة الید المیمونة

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سراورچہرے پردست مبارک پھیرکردعافرمائی اے اللہ!اس کاصاحب جمال کردے، راوی کہتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکایہ اثرہواکہ بڑھاپے میں  بھی ان کے چہرے پرجوانی کی آب وتاب تھی، اورسوسال کی عمرتک ان کے سراورداڑھی کے تمام بال سیاہ تھے۔[41]

أَنَّ عُطَارِدَ بْنَ حَاجِبٍ، جَاءَ بِثَوْبٍ دِیبَاجٍ كَسَاهُ إِیَّاهُ كِسْرَى،فَقَالَ عُمَرُ أَلَا أَشْتَرِیهِ لَكَ یَا رَسُولَ اللهِ،فَقَالَ:إِنَّمَا یَلْبَسُهُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ

عطارد رضی اللہ عنہ بن حاجب اسلام سے اتنے متاثرہوئے کہ انہوں  نے نوشیرواں  سے انعام میں  پایا ہوا کمخواب کاخلعت مدینہ منورہ کے بازارمیں  فروخت کردیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کومعلوم ہواتوانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! عطارداپناخلعت جواس نے نوشیرواں  کے دربارسے حاصل کیاتھافروخت کررہاہے کیا میں  آپ کے لیے خرید لوں  ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ریشم کابناہواہے اسے وہ مرداستعمال کرے جس کاعاقبت میں  کوئی حصہ نہ ہو۔[42]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَى عُمَرُ عُطَارِدًا التَّمِیمِیَّ یُقِیمُ بِالسُّوقِ حُلَّةً سِیَرَاءَ، وَكَانَ رَجُلًا یَغْشَى الْمُلُوكَ وَیُصِیبُ مِنْهُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی رَأَیْتُ عُطَارِدًا یُقِیمُ فِی السُّوقِ حُلَّةً سِیَرَاءَ، فَلَوِ اشْتَرَیْتَهَا فَلَبِسْتَهَا لِوُفُودِ الْعَرَبِ إِذَا قَدِمُوا عَلَیْكَ وَأَظُنُّهُ قَالَ وَلَبِسْتَهَا یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیرَ فِی الدُّنْیَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِی الْآخِرَةِ،

اورصحیح مسلم میں  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عطاردتمیمی کوبازارمیں  ایک ریشمی جوڑابیچتے ہوئے دیکھااوروہ ایک ایساشخص تھاجوبادشاہوں  کے پاس جایا کرتا تھا اوران سے مال حاصل کرتاتھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے عطاردکودیکھاہے اس نے ایک ریشمی جوڑابازارمیں  بیچنے کے لیے رکھاہے اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوخریدلیں  اورجب عرب کے ایلچی آئیں  اس وقت پہناکریں  تومناسب ہے ،راوی کہتے ہیں  میں  سمجھتاہوں  انہوں  نے یہ بھی کہاتھاکہ جمعہ کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہناکریں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی دنیامیں  ریشمی کپڑاپہنے گااس کاآخرت میں  کوئی حصہ نہیں  ۔[43]

ثُمَّ خرجوا إِلَى قومهم، فأعطاهم النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وكساهم،فَرَدّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ علیهم السّبْیَ وَالْأَسْرَى

جب یہ وفدمدینہ منورہ سے رخصت ہواتو سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اراکین کو عمدہ تحائف سے سرفرازفرمایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاحسان فرماتے ہوئے ان قیدیوں  کو رہا فرما دیا۔[44]

وبقوا بِالْمَدِینَةِ مدة یَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ والدین،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ،فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِی،فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَتَمَارَیَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَتْ:

یہ لوگ چنددن مدینہ منورہ میں  قیام پذیررہے اورقرآن اورعقائددین کی تعلیم حاصل کی،مدینہ منورہ میں  بنی تمیم کے دوران قیام میں  اس سوال پرکہ بنوتمیم کاامیرکسے مقرر کیا جائے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف رائے پیداہوگیا، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ قعقاع رضی اللہ عنہ بن معبدبن زرارہ کو امیر بنایاجائے، مگرسیدناعمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھاکہ اقرع رضی اللہ عنہ بن حابس کو امیربنایاجائے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاتم میری مخالفت کرتے ہو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہامیں  نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں  کیا،اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے دونوں  کی آوازیں  بلند ہو گئیں  بعض مفسرین نے لکھاہے کہ اس موقع پریہ آیات نازل ہوئیں  ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿١﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ‎﴿٢﴾‏(الحجرات)
اے ایمان والے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرتے رہا کرو ،یقیناً اللہ تعالیٰ سن نے والا جاننے والا ہے، اے ایمان والو ! اپنی آوازیں  نبی کی آواز سے اوپر نہ کرواور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں  ایک دوسرے سے کرتے ہو،کہیں  (ایسا نہ ہوکہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں  اور تمہیں  خبر نہ ہو۔

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ اوراس کے رسول کے آگے بڑھ کرنہ چلوبلکہ پیچھے چلو،مقدم نہ بنوبلکہ تابع بن کررہو،اپنے معاملات میں  پیش قدمی کرکے بطورخودفیصلے نہ کرنے لگو،بلکہ پہلے یہ دیکھوکہ اللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت میں  ان کے متعلق کیاہدایات ملتی ہیں  ، اوراللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو،اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والاہے،اے لوگوجوایمان لائے ہو!اپنی آواز نبی کی آوازسے بلندنہ کرو،اورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچی آوازسے بات کروجس طرح تم آپس میں  ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں  ایسانہ ہوکہ تمہاراکیاکرایاسب غارت ہوجائے اورتمہیں  خبربھی نہ ہو۔جیسے ایک مقام پرہے

 لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۝۰۝۶۳ [45]

ترجمہ: مسلمانو! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں  ایک دوسرے کا سابلانا نہ سمجھ بیٹھو۔

عَنْ أَبِی بَكْرٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتكُم الْآیَةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ آلَیْتُ أَنْ لَا أُكَلِّمَكَ إِلَّا كَأَخِی السِّرَارِ ، فَكَانَ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا حَدَّثَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِیثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِی السِّرَارِ لَمْ یُسْمِعْهُ حَتَّى یَسْتَفْهِمهُ

سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان آیات کے نزول کے بعدمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے قسم کھائی ہے کہ اب میں  آپ سے اس طرح بات کروں  گاجیسے کوئی (سرگوشی میں  )اپنارازکہتاہے، دوسری طرف نافع رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہ کیفیت تھی کہ بارگاہ رسالت میں  اس قدرپست آوازمیں  گفتگوکرنے لگے کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دوبارہ دریافت نہ فرماتے کچھ سمجھ میں  نہ آتاتھاکہ کیاکہتے ہیں  ۔[46]

لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ قَالَ: قَعَدَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ فِی الطَّرِیقِ یَبْكِی، قَالَ: فَمَرَّ بِهِ عَاصِمُ بْنُ عِدِیٍّ مِنْ بَنِی العَجلان، فَقَالَ: مَا یُبْكِیكَ یَا ثَابِتُ؟قَالَ: هَذِهِ الْآیَةُ، أَتَخَوَّفُ أَنْ تَكُونَ نَزَلَتْ فیَّ وَأَنَا صَیِّتٌ، رَفِیعُ الصَّوْتِ ، قَالَ: فَمَضَى عَاصِمُ بْنُ عَدِیٍّ إلى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَغَلَبَهُ الْبُكَاءُ،

جب یہ آیت’’ اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ اوراس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو نازل ہوئی۔‘‘ توثابت بن قیس رضی اللہ عنہ راستے میں  بیٹھ گئے اوررونے لگے،عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ جب وہاں  سے گزرے اورانہیں  روتے ہوئے دیکھاتوپوچھااے ثابت رضی اللہ عنہ کیوں  رورہے ہو؟ انہوں  نے جواب دیاکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں  یہ آیت میرے ہی بارے میں  نازل نہ ہوئی ہومیری آوازبلندہے؟عاصم رضی اللہ عنہ بن عدی یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے گئے اورثابت رضی اللہ عنہ کی ہچکی بندھ گئی اوردھاڑیں  مارمارکررونے لگے،

فَأَتَى امْرَأَتَهُ جَمِیلَةَ ابْنَةَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ سَلُولَ فَقَالَ لَهَا: إِذَا دخلتُ بَیْتَ فَرَسی فَشُدِّی عَلَیّ الضبَّة بِمِسْمَارٍ فَضَرَبَتْهُ بِمِسْمَارٍ حَتَّى إِذَا خَرَجَ عَطَفَهُ، وَقَالَ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى یَتَوَفَّانِی اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ، أَوْ یَرْضَى عَنِّی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قال: وَأَتَى عَاصِمٌ رسولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ

گھرگئے اوراپنی بیوی جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی ابن سلول سے کہامیں  اپنے گھوڑے کے طویلے میں  جارہاہوں  تم اس کے باہردروازہ باہرسے بندکرکے لوہے کی کیل سے اسے جڑدو،اورکہااللہ کی قسم !میں  اس میں  سے نہ نکلوں  گایہاں  تک کہ مرجاؤں  یااللہ تعالیٰ اپنے رسول کومجھ سے راضی کردے ،عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوکرثابت رضی اللہ عنہ کی کیفیت بیان کی،

فَقَالَ: اذْهَبْ فَادْعُهُ لِی، فَجَاءَ عَاصِمُ إِلَى الْمَكَانِ فَلَمْ یَجِدْهُ، فَجَاءَ إِلَى أَهْلِهِ فَوَجَدَهُ فِی بَیْتِ الفَرَس، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُوكَ، فَقَالَ: اكْسِرِ الضَّبَّةَ، قَالَ: فَخَرَجَا فَأَتَیَاالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا یُبْكِیكَ یَا ثَابِتُ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ تم جاؤاورعاصم رضی اللہ عنہ کومیرے پاس بلالاؤعاصم رضی اللہ عنہ اس جگہ آئے تودیکھاکہ ثابت وہاں  نہیں  توان کے مکان پرگئے تومعلوم ہواکہ وہ توگھوڑے کے طویلے میں  ہیں  ، وہاں  پہنچ کرکہاثابت!چلوتم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یادفرمارہے ہیں  ،ثابت رضی اللہ عنہ نے کہابہت خوب،کیل نکال دواوردروازہ کھول دو،طویلے سے نکل کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااے ثابت رضی اللہ عنہ ! کیوں  رورہے تھے؟

فَقَالَ: أَنَا صَیِّتٌ وَأَتَخَوَّفُ أَنْ تَكُونَ هَذِهِ الْآیَةُ نَزَلَتْ فِیَّ: لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا تَرْضَى أَنْ تَعِیش حَمیدًا ، وَتُقْتَلَ شَهِیدًا، وَتَدْخُلَ الْجَنَّةَ؟ فَقَالَ: رَضِیتُ بِبُشْرَى اللهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَرْفَعُ صَوْتِی أَبَدًا عَلَى صَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.

انہوں  نے عرض کیامجھے یہ آیت ’’اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ اوراس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔‘‘سن کرخوف ہواکہ کہیں  یہ میرے بارے تونازل نہیں  ہوئے ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اس بات سے خوش نہیں  ہوکہ تم قابل تعریف زندگی جیو،اورشہیدہوکرمرواورجنت میں  جاؤ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بشارت سن کرثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں  اللہ تعالیٰ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پربہت خوش ہوں  ،اوراب آئندہ کبھی بھی اپنی آوازآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسے اونچی نہیں  کروں  گا ۔[47]

ایک روایت میں  ہےثابت بن قیس رضی اللہ عنہ انصارکے خطیب تھے ان کی آوازبہت بلندتھی،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَیْسٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ، فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِی بَیْتِهِ، مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: شَرٌّ، كَانَ یَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى: فَرَجَعَ إِلَیْهِ المَرَّةَ الآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِیمَةٍ، فَقَالَ: “ اذْهَبْ إِلَیْهِ فَقُلْ لَهُ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں  کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے بولنے سے منع کیاگیاتواتنے غم زدہ ہوئے کہ گھرسے باہرنہیں  نکلتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں  کئی دن تک انہیں  اپنی مجلس میں  نہیں  دیکھا تو ان کے متعلق پوچھا،ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ کے لئے ان کی خبرلاتاہوں  ،چنانچہ وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے گھرآئےدیکھاکہ گھرمیں  سرجھکائے بیٹھے ہیں  ، پوچھا کیاحال ہے؟انہوں  نے جواب دیاکہ برا حال ہے،میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازکے مقابلہ میں  بلندآوازسے بولاکرتاتھا،اب سارے نیک اعمال اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں  سے قراردے دیا گیا ہوں  ،وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے جوکچھ کہاتھااس کی اطلاع دے دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کے پاس جاؤ اوراسے کہو کہ تم اہل دوزخ میں  سے نہیں  ہوبلکہ تم اہل جنت میں  سے ہو۔[48]

إِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿٣﴾‏(الحجرات)
بیشک جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حضور میں  اپنی آوازیں  پست رکھتے ہیں  یہی وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے، ان کے لیے مغفرت اور بڑا ثواب ہے ۔

چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس طرزعمل کے بارے میں  یہ آ یت نازل ہوئی کہ جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبات کرتے ہوئے ان کی عظمت وجلالت کاخیال رکھتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں  وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں  جن کے دلوں  کواللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے،اللہ کے ہاں  ان کے لئے مغفرت اوراجرعظیم ہے ۔

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّىٰ تَفِیءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ‎﴿٩﴾‏ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿١٠﴾(الحجرات)
اور اگر مسلمانوں  کی دو جماعتیں  آپس میں  لڑ پڑیں  تو ان میں  میل ملاپ کرا دیا کرو، پھر اگر ان دونوں  میں  سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑویہاں  تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے،اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دواور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں  سے محبت کرتا ہے(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں  پس اپنے دو بھائیوں  میں  ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

معاشرتی زندگی :اوراللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحتیں  فرمائیں  کہ اگر ان میں  سے دو چھوٹے گروہ آپس میں  لڑ جائیں  توان کواللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کی طرف بلاؤاور ان کے درمیان صلح کراؤ،

أَبَا بَكْرَةَ یَقُولُ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ یُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَیْهِ أُخْرَى وَیَقُولُ:إِنَّ ابْنِی هَذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ یُصْلِحَ بِهِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیمَتَیْنِ مِنَ المُسْلِمِینَ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنبرپردیکھااورحسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں  تھے ، آپ کبھی لوگوں  کی طرف دیکھتے اورکبھی ان کی طرف اورپھر فرمایامیرایہ بیٹاسردارہے، اورشایداللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں  کی دوعظیم جماعتوں  میں  صلح کرادے۔[49]

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی ،چنانچہ طویل جنگوں  اورہولناک واقعات کے بعداللہ تعالیٰ نے آپ کواہل شام اوراہل عراق میں  صلح کرادینے کی توفیق عطافرمائی۔ اور اگر کوئی اللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق اپنااختلاف دورکرنے پرآمادہ نہ ہوبلکہ بغاوت کی روش اختیارکرے، تودوسرے مسلمانوں  کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کربغاوت کرنے والے گروہ کے خلاف طاقت کااستعمال کریں  ، یہاں  تک کہ وہ اللہ کے حکم کوماننے کے لئے تیارہوجائے، پھر اگر وہ باغی گروہ بغاوت سے بازآجائے تواللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کے مطابق دونوں  گروہوں  کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ صلح کرا دو،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَیْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَیْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ:تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمْنَعُهُ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مددکر،ظالم ہوتوبھی اورمظلوم ہوتوبھی،انس رضی اللہ عنہ نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مظلوم ہونے کی حالت میں  توظاہرہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں  کیسے مددکروں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے ظلم سے بازرکھویہی اس کی اس وقت کی مددہے۔[50]

اور یاد رکھو ہر معاملے میں  انصاف کی روش اختیار کرو اس لئے کہ اللہ انصاف کرنے والوں  کو پسند کرتا ہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْمُقْسِطِینَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ یَمِینِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا یَدَیْهِ یَمِینٌ، الَّذِینَ یَعْدِلُونَ فِی حُكْمِهِمْ وَأَهْلِیهِمْ وَمَا وَلُوا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انصاف کرنے والے رحمن کے دائیں  جانب اور اللہ کے نزدیک نور کے منبروں  پر ہوں  گے اور اللہ کے دونوں  دائیں  ہاتھ ہیں  یہ وہ لوگ ہوں  گے جو اپنی رعایا اور اہل وعیال میں  عدل وانصاف کرتے ہوں  گے۔[51]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْمُقْسِطِینَ فِی الدُّنْیَا عَلَى مَنَابِرَ مِنْ لُؤْلُؤٍ بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمَنِ بِمَا أَقْسَطُوا فِی الدُّنْیَا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًدنیامیں  عدل وانصاف کرنے والے ، دنیامیں  اس انصاف کی وجہ سے رحمان عزوجل کے سامنے موتیوں  سے بنے ہوئے منبروں  پرجلوہ افروزہوں  گے۔[52]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِیقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللهِ، یَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَیَتَدَارَسُونَهُ بَیْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْهِمِ السَّكِینَةُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِیمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی نے کسی مومن سے دنیا میں  مصبیتوں  کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں  کو دور کرے گا، اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا میں  اور آخرت میں  آسانی کرے گا، جس نے کسی مسلمان کاعیب چھپایااللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں  اس کاعیب چھپائے گا، اور اللہ اس بندے کی مدد میں  ہوتے ہیں  جو اپنے بھائی کی مدد میں  لگا ہوتا ہے، اور جو ایسے راستے پر چلا جس میں  علم کی تلاش کرتا ہو اللہ تعالیٰ اسکے لئے ذریعہ جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں  ، اور جو لوگ اللہ کے گھروں  میں  سے کسی گھر میں  اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کی تعلیم میں  مصروف ہوتے ہیں  ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں  ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں  گھیر لیتے ہیں  اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں  میں  کرتے ہیں  ، اور جس شخص کو اس کے اپنے اعمال نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں  بڑھا سکتا۔[53]

أُمُّ الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: حَدَّثَنِی سَیِّدِی أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ دَعَا لِأَخِیهِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِینَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے جب کوئی مسلمان اپنے غیرحاضرمسلمان بھائی کے لئےاس کی پس پشت دعاکرتاہے توفرشتہ آمین کہتاہے اورکہتاہے تجھے بھی اللہ ایساہی دے۔[54]

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ صَفْوَانَ، قَالَ:، وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ، قَالَ: أَتَیْتُ الشَّامَ فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِی الدَّرْدَاءِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، فَقَالَتْ: تُرِیدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: فَادْعُ لَنَا بِخَیْرٍ، فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ: إِنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِیهِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِیهِ بِخَیْرٍ قَالَ: آمِینَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ، فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ، فَأَلْقَى أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ لِی مِثْلَ ذَلِكَ، یَأْثُرُهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

صفوان بن عبداللہ جن کے نکاح میں  درداء تھیں  کہتے ہیں  کہ ایک مرتبہ میں  شام آیا اور ابودرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضر ہوا لیکن وہ گھر پر نہیں  ملے البتہ ان کی اہلیہ موجود تھیں  انہوں  نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس سال تمہارا حج کا ارادہ ہے؟ میں  نے اثبات میں  جواب دیا، انہوں  نے فرمایا کہ ہمارے لیے بھی خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں  اس کی پیٹھ پیچھے جو دعاء کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے لئے مقرر ہوتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعاء مانگے تو وہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تمہیں  بھی یہی نصیب ہو۔پھر میں  بازار کی طرف نکلا تو ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات ہوگئی انہوں  نے بھی مجھ سے یہی کہا اور یہی حدیث انہوں  نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سنائی۔[55]

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَرَى المُؤْمِنِینَ فِی تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مومنوں  کوآپس میں  ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کامعاملہ کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ لطف ونرم خوئی میں  ایک جسم جیساپاؤگے کہ جب اس کاکوئی ٹکڑابھی تکلیف میں  ہوتاہے توساراجسم تکلیف میں  ہوتاہے،ایسی کہ نینداڑجاتی ہے اورجسم بخارمیں  مبتلاہوجاتا ہے۔[56]

أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْیَانِ، یَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَیْنَ أَصَابِعِهِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لئے اس طرح ہے جیسے عمارت کہ اس کاایک حصہ دوسرے حصے کوتھامے رہتاہے،پھرآپ نے اپنی انگلیوں  کوقینچی کی طرح کرلیا۔[57]

مشرق ومغرب کے تمام مومن جواللہ تعالیٰ،اس کے فرشتوں  ،اس کی کتابوں  ،اس کے رسولوں  اورروزقیامت پرایمان رکھتےہیں  چاہے وہ عربی ہوں  یاعجمی،کالے ہوں  یاگورے سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں  ،جیسےفرمایا

 وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۔۔۔ ۝۷۱ [58]

ترجمہ:اور مومن مرد اور مومن عورتیں  ایک دوسرے کے دوست ہیں  کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں  سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوة دیتے اور ا للہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں  ۔

عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى یُحِبَّ لِأَخِیهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کوئی شخص ایمان دارنہ ہوگاجب تک اپنے بھائی کے لئے وہ نہ چاہے جواپنے نفس کے لئے چاہتاہے۔[59]

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:بَایَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ

جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں  نے نماز قائم کرنے اورزکوٰة اداکرنے اور ہرمسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔[60]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا یَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَیْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُهُ وَلَا یَخْذُلُهُ، وَلَا یَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا وَیُشِیرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو،اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو، اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو،اور تم میں  سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ،مسلمان مسلمان کابھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں  ہے، کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو[61]

لہذا اپنے بھائیوں  کے درمیان تعلقات کو درست کروتاکہ وہ ایک دوسرے کے دست وبازو،ہمدردوغم گساراورمونس وخیرخواہ بن کررہیں  اور ہرمعاملے میں  اللہ سے ڈرو ،یہی وہ اوصاف ہیں  جن کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرارپاجاؤ گے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن یَكُونُوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن یَكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿١١﴾‏یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن یَأْكُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٢﴾‏ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ ‎﴿١٣﴾‏(الحجرات)
اے ایمان والو ! مرد دوسرے مردوں  کا مذاق نہ اڑائیں  ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہواور نہ عورتیں  عورتوں  کا مذاق اڑائیں  ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں  ، اور آپس میں  ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں  وہی ظالم لوگ ہیں  ، اے ایمان والو ! بہت بد گمانیوں  سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں  گناہ ہیں  ، اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں  کوئی کسی کی غیبت کرےکیا تم میں  سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟ تم کو اس سے گھن آئے گی ، اور اللہ سے ڈرتے رہوبیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے، اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہےاور اس لیے کہ تم آپس میں  ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں  ، اللہ کے نزدیک تم سب میں  با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔

معاشرے میں  پھیلی ہوئی بڑی بڑی برائیوں  کے سدباب کاحکم فرمایاکہ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو !کوئی مردخودکوبہتراوردوسرے مردوں  کواپنے سے حقیراورکمترسمجھ کران کی تذلیل وتحقیر نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہترہے اورکون نہیں  ؟اس کاعلم صرف اللہ ہی کوہے،اس لئے خودکوبہتراوردوسروں  کو حقیرسمجھنے کاکوئی جوازنہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کوحقیرسمجھے۔[62]

کیونکہ عورتوں  میں  یہ ملعون خصلت عام ہے اس لئے عورتوں  کاالگ ذکرکرکے انہیں  بھی بطورخاص اس حرکت سے روک دیاگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں  کوکمتر اور حقیر سمجھنے کوکبرسے تعبیرفرمایاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَكَانَ رَجُلًا جَمِیلًا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی رَجُلٌ حُبِّبَ إِلَیَّ الْجَمَالُ، وَأُعْطِیتُ مِنْهُ مَا تَرَى، حَتَّى مَا أُحِبُّ أَنْ یَفُوقَنِی أَحَدٌ، إِمَّا قَالَ: بِشِرَاكِ نَعْلِی، وَإِمَّا قَالَ: بِشِسْعِ نَعْلِی، أَفَمِنَ الْكِبْرِ ذَلِكَ؟ قَالَ لَا، وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ بَطِرَ الْحَقَّ، وَغَمَطَ النَّاسَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا وہ ایک خوبصورت شخص تھا اس نے کہا کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں  ایک ایسا آدمی ہوں  کہ مجھے خوبصورتی پسند اور محبوب ہے اور آپ دیکھ ہی رہے ہو جو مجھے دیا گیا ہے حد یہ ہے کہ میں  نہیں  پسند کرتا کہ کوئی مجھ سے (خوبصورتی میں  ) جوتے کے تسمے کے برابر بھی برتر ہوجائے کیا یہ بات تکبر کی وجہ سے ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں  بلکہ متکبر وہ ہے جو حق کو (واضح ہوجانے کے بعد) چھپائے اور لوگوں  کو حقیر سمجھے۔[63]

جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

 قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللهِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۝۰ۭ قُلْ هِىَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۝۳۲ [64]

ترجمہ:اے نبی! اِن سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں  کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں  ممنوع کر دیں  ؟ کہو یہ ساری چیزیں  دنیا کی زندگی میں  بھی ایمان لانے والوں  کے لیے ہیں  اور قیامت کے روز تو خالصتہً انہی کے لیے ہوں  گی، اس طرح ہم اپنی باتیں  صاف صاف بیان کرتے ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں  ۔

اورکبراللہ کوسخت ناپسندہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:الْكِبْرِیَاءُ رِدَائِی، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی، فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِی النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل نے فرمایاکبرمیری چادرہے اورعظمت میری ازارہے ،سوجوکوئی ان دونوں  میں  میراشریک ہوناچاہے تومیں  اس کودوزخ میں  داخل کروں  گا۔[65]

اور ایک دوسرے پر طعن وتشنیع مت کرو ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے آئے تویہاں  ہرشخص کے دودوتین تین نام تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کوکسی نام سے پکارتے تولوگ کہتے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اس نام سے چڑتاہے،اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ کسی کی تحقیروتنقیص کے لئے ان کے اچھے خاصے ناموں  کوبگاڑکر بُرے القاب سے مت پکاروجوانہیں  ناپسندہوں  ،ایک مومن کے لئے یہ سخت شرمناک بات ہے کہ وہ مومن ہونے کے باوجودبدزبانی اورشہدپن میں  نام پیدا کرے ، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں  وہ ظالم ہیں  ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو !اہل خیرواہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں  بلاسبب بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں  ،اورکسی کے پوشیدہ حالات اورخانگی زندگی کےمعاملات میں  کوئی خامی یاعیب یا راز معلوم کرنے کے لئے تجسُّس نہ کرو،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ رَأَى عَوْرَةً فَسَتَرَهَا، كَانَ كَمَنْ أَحْیَا مَوْءُودَةً

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گااسے اتناثواب ملے گاجیسے کسی نے زندہ درگورلڑکی کوبچالیا۔[66]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ، وَلَمْ یَدْخُلِ الْإِیمَانُ قَلْبَهُ، لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِینَ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ یَتَّبِعُ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ یَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ یَفْضَحْهُ فِی بَیْتِهِ

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگوجوزبان سے ایمان لے آئے ہومگرابھی تمہارے دلوں  میں  ایمان نہیں  اترا ہےمسلمانوں  کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو،کیونکہ جوشخص مسلمانوں  کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگاتواللہ اس کے عیوب کے درپے ہوجائے گا،اوراللہ جس کے درپے ہوجائے اسے اس کے گھرمیں  رسوا کر کے چھوڑتاہے۔[67]

اور تم میں  سے کوئی دوسرے لوگوں  کے سامنےکسی کی برائیوں  اورکوتاہیوں  کاذکر نہ کرے جسے وہ برا سمجھے، یااس کی طرف ایسی باتیں  منسوب کی جائیں  جواس کے اندرموجودہی نہ ہوں  ،جیسےفرمایا

وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ۝۱ۙ [68]

ترجمہ:تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو(منہ درمنہ)لوگوں  پرطعن اور(پیٹھ پیچھے) برائیاں  کرنے کاخوگرہے ۔

پس تمہیں  اس میں  پوری احتیاط برتنی چاہیے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِیَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابدگمانی سے بچوبدگمانی اکثرتحقیق کے بعدجھوٹی ثابت ہوتی ہے،اورکسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑجاؤ،کسی کاعیب خواہ مخواہ مت ٹٹولواورکسی کے بھاؤ پر بھاؤنہ بڑھاؤاورحسدنہ کروبغض نہ رکھوکسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کروبلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں  بھائی بھائی بن کررہو۔ [69]

حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَیَّامٍ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآپس میں  بغض نہ رکھوحسدنہ کروپیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کروبلکہ اللہ کے بندے آپس میں  بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لئے جائزنہیں  کہ ایک مسلمان بھائی کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑکررہے۔[70]

غیبت کوانتہائی گھناؤنےفعل کاتصوردلانے کے لئے فرمایاکسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی کرناایسے ہی ہے جیسے مرداربھائی کا گوشت کھانا،تو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، جَاءَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ حَتَّى قَالَهَا أَرْبَعًا، فَلَمَّا كَانَ فِی الْخَامِسَةِ قَالَ:زَنَیْتُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ:وَتَدْرِی مَا الزِّنَى؟ قَالَ: نَعَمْ. أَتَیْتُ مِنْهَا حَرَامًا مَا یَأْتِی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِهِ حَلَالًا. قَالَ:مَا تُرِیدُ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ قَالَ: أُرِیدُ أَنْ تُطَهِّرَنِی. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَدْخَلْتَ ذَلِكَ مِنْكَ فِی ذَلِكَ مِنْهَا كَمَا یَغِیبُ الْمِیلُ فِی الْمُكْحُلَةِ وَالْعَصَا فِی الشَّیْءِ؟ قَالَ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ماغر رضی اللہ عنہ بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواوراس نے کہااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے زناکرلیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض فرمایاحتی کہ اس نے یہ بات چارمرتبہ کہی، جب اس نے یہ بات پانچویں  مرتبہ کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتونے زناکیاہے؟اس نے کہاجی ہاں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جانتے ہوزناکیاہوتاہے؟اس نے عرض کی جی ہاں  ،آدمی اپنی عورت سے جوکام حلال طریقے سے کرتاہے میں  نے اس کاارتکاب حرام طریقے سے کیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس بات سے تمہاراکیاارادہ ہے؟اس نے جواب دیاکہ میراارادہ یہ ہے کہ آپ مجھے پاک کردیں  ،راوی نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم نے اپنے عضوخاص کواس کے مقام مخصوص میں  اس طرح داخل کردیاتھاجس طرح سلائی سرمہ دانی میں  یاڈول کنوئیں  میں  غائب ہوجاتا ہے ؟اس نے جواب دیاجی ہاں  ،اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !

قَالَ: فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ فَرُجِمَ، فَسَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَیْنِ یَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَلَمْ تَرَ إِلَى هَذَا، سَتَرَ اللَّهُ عَلَیْهِ، فَلَمْ تَدَعْهُ نَفْسُهُ حَتَّى رُجِمَ رَجْمَ الْكَلْبِ؟ فَسَارَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا، ثُمَّ مَرَّ بِجِیفَةِ حِمَارٍ، فَقَالَ:أَیْنَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ انْزِلَا فَكُلَا مِنْ جِیفَةِ هَذَا الْحِمَارِ قَالَا: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ یُؤْكَلُ هَذَا؟ قَالَ:فَمَا نِلْتُمَا مِنْ أَخِیكُمَا آنِفًا أَشَدُّ أَكْلًا مِنْهُ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّهُ الْآنَ فِی أَنْهَارِ الْجَنَّةِ یَتَقَمَّصُ فِیهَا

راوی کہتے ہیں  پھرآپ نے اسے رجم کرنے کاحکم دے دیا تو اسے رجم کردیاگیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں  کوباتیں  کرتے ہوئے سناان میں  سے ایک اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہاتھاکیاتونے اس شخص کونہیں  دیکھاجس پراللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالاتھا،مگراس نے اپنے آپ کواس وقت تک نہ چھوڑاجب تک اسے کتے کی طرح رجم نہ کردیاگیا،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک گدھے کی لاش کے پاس سے گزرہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافلاں  اورفلاں  شخص کہاں  ہیں  ؟اترواورتم اس گدھے کی لاش کوکھاؤ،وہ بولے کہ اللہ آپ کومعاف فرمائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیایہ چیزبھی کھائی جاتی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے اپنے بھائی کی جوابھی ابھی غیبت کی تھی وہ تواس کے کھانے سے بھی زیادہ سخت ہے،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے!وہ تواس وقت جنت کی نہروں  میں  غوطے لگارہاہے۔[71]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَفَعَتْ رِیحُ جِیفَةٍ مُنْتِنَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ الرِّیحُ؟ هَذِهِ رِیحُ الَّذِینَ یَغْتَابُونَ الْمُؤْمِنِینَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک بدبودارلاش کی بدبوبلندہوئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم جانتے ہوکہ یہ بدبوکیسی ہے؟ یہ ان کی بدبوہے جومومنوں  کی غیبت کرتے ہیں  ۔[72]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّهُ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْغِیبَةُ؟ قَالَ:ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا یَكْرَهُ» قِیلَ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ كَانَ فِی أَخِی مَا أَقُولُ؟قَالَ إِنْ كَانَ فِیهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ یَكُنْ فِیهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم غیبت کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے بھائی کا اس طرح ذکرکرناکہ اگروہ سنے تو اسے ناگوارہو،کسی نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیرے بھائی میں  وہ عیب موجود ہو جو میں  ذکرکروں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراس میں  وہ عیب ہے جب ہی تو یہ غیبت ہے، اوراگراس میں  وہ عیب نہ ہوتوتونے اس پر بہتان باندھا۔[73]

وَقَالَ النَّوَوِیُّ: فِی الْأَذْكَارِ تَبَعًا لِلْغَزَالِیِّ ذِكْرُ الْمَرْءِ بِمَا یَكْرَهُ سَوَاءً كَانَ فِی بَدَنِ الشَّخْصِ أَوْ دِینِهِ أَوْ دُنْیَاهُ أَوْ نَفْسِهِ أَوْ خُلُقِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ وَالِدِهِ أَوْ وَلَدِهِ أَوْ زَوْجِهِ أَوْ خَادِمِهِ أَوْ حَرَكَتِهِ أَوْ طَلَاقَتِهِ أَوْ عَبُوسَتِهِ أَوْ غَیْرِ ذَلِكَ مِمَّا یَتَعَلَّقُ بِهِ ذِكْرُ سُوءٍ سَوَاءً ذُكِرَ بِاللفْظِ أَوْ بِالرَّمْزِ أَوْ بِالْإِشَارَةِ

امام نووی رحمہ اللہ نے کتاب الاذکارمیں  امام غزالی رحمہ اللہ کی پیروی کرتے ہوئے کہاہے کہ غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کاتذکرہ اس طورپرکیاجائے جواسے ناپسندہوخواہ اس کاتعلق بدن انسان سے ہویااس کے دین اس کی دنیااس کے نفس، اس کے اخلاق وعادات، اس کے مال اس کے والداولادبیوی خادم، اس کی حرکات اس کی خندہ پیشانی یااس کی خشک مزاجی وغیرہ سے یہ ساری چیزیں  اس کے برے ذکرمیں  شمارہوں  گی خواہ یہ ذکرالفاظ میں  ہویااشارہ وکنایہ میں  ۔[74]

دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو لہذااللہ کی گرفت سے ڈرو اوران گناہوں  سے بازآجاؤ،اوراللہ سے اپنے صغیرہ وکبیرہ گناہوں  کی بخشش ومغفرت چاہو،اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے،لوگو ! تم کس چیز پر نسب،رنگ،زبان،وطن اورقومیت پرفخرکرتے ہوحالانکہ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ،اور پھر تمہاری پہچان کے لئے قومیں  اور برادریاں  بنا دیں  تاکہ آپس میں  صلہ رحمی کرسکو،اللہ کے ہاں  فضیلت و برتری کامعیار نسب،رنگ،زبان،وطن اورقومیت نہیں  ہے بلکہ اللہ کے نزدیک تم میں  سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟ قَالَ:أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاانسانوں  میں  کون سب سے زیادہ شریف ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جوسب سے زیادہ متقی ہو ۔[75]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ لَا یَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ یَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں  اورتمہارے مالوں  کونہیں  دیکھے گالیکن تمہارے دلوں  اوراعمال کودیکھے گا۔[76]

عَنْ أَبِی نَضْرَةَ، حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَى عَجَمِیٍّ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلَى عَرَبِیٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى

ابونضرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں  نے ایام تشریق کے درمیانی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں  یہ فرماتے ہوئے سناہے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہاراباپ بھی ایک ہے یاد رکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو کسی سرخ کو سوائے تقویٰ کے اور کسی وجہ سے فضیلت حاصل نہیں  ہے۔[77]

یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا یَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَیْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ‎﴿١٥﴾‏ قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِینِكُمْ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١٦﴾(الحجرات)
دیہاتی لوگ کہتے ہیں  کہ ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں  لائے لیکن تم یوں  کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑکرمطیع ہوگئے) حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں  میں  ایمان داخل ہی نہیں  ہوا، تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں  برداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں  سے کچھ بھی کم نہ کرے گا،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے، مومن تو وہ ہیں  جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں  پھر شک و شبہ نہ کریں  اور اپنے مالوں  سے اور اپنی جانوں  سے جہاد کرتے رہیں  (اپنے دعوائے ایمان میں  )یہی سچے اور راست گو ہیں  ، کہہ دیجئے! کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری سے آگاہ کر رہے ہو، اللہ ہر چیز سے جو آسمانوں  میں  اور زمین میں  ہے بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔

بادیہ نشین اعراب جونئے نئے مسلمان ہوتے تھے اورپھر اپنے ایمان کا بڑھاچڑھا کردعوی کرنے لگتے تھےحالانکہ ان کے دل میں  اب تک ایمان کی جڑیں  مضبوط نہیں  ہوئی تھیں  ،اس پراللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردیدفرمائی اورفرمایایہ بدو کہتے ہیں  ہم ایمان لائے،اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوتم اپنے لئے ظاہری اورباطنی طورپرکامل ایمان کا دعویٰ نہ کرو بلکہ یوں  کہوکہ ہم مخالفت چھوڑکراسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں  آ گئے ہیں  ،جہاں  تک کامل ایمان کاتعلق ہے تویہ کسی شعوری عمل کے ذریعہ یاغوروفکرکے نتیجے میں  یاتحریک اسلامی کے ساتھ مل کرجدوجہدکرنے کے نتیجے میں  ابھی تمہارے دل کی گہرائیوں  میں  راسخ نہیں  ہواہے،اورایمان کودل میں  راسخ کرنے کاذریعہ یہ ہے کہ تم اللہ کے احکام اوراس کے رسول کی سنت کاکامل اتباع کرو تووہ تمہارے اعمال کے اجرمیں  کوئی کمی نہ کرے گابلکہ تمہارے اعمال کاپورہ پورہ بدلہ دے گا،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّــتُهُمْ بِـاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ۔۔۔۝۰۝۲۱ [78]

ترجمہ:اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں  ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں  ملا دیں  گے اور ان کے عمل میں  سے کچھ بھی کم نہ کریں  گے۔

جوہرطرف سے منہ موڑکراللہ کی طرف رجوع کرے اوربرائیوں  سے بازآجائے تویقینااللہ اپنے بندوں  کے گناہوں  سے بڑا درگزر کرنے والااوررحم فرمانے والا ہے،حقیقت میں  تومومن وہ ہیں  جواللہ اوراس کے رسول پرایمان لائے پھرانہوں  نے کوئی شک نہ کیااوراپنی جانوں  اور مالوں  سے اللہ کی راہ میں  جہادکیاوہی سچے اور راست گو لوگ ہیں  ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان (مدعیان ایمان)سے کہوکیاتم اللہ کواپنے دین اوراپنے دلوں  کی کیفیت کی اطلاع دے رہے ہو ؟ حالانکہ اللہ زمین اورآسمانوں  کی ہر چیز کو جانتاہے اوروہ ہرشے کاعلم رکھتاہے،کیاوہ تمہارے دلوں  کی کیفیت اورتمہارے ایمان کی حقیقت سے آگاہ نہیں  ہے۔

یَمُنُّونَ عَلَیْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَیَّ إِسْلَامَكُم ۖ بَلِ اللَّهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِیمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٧﴾‏ إِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٨﴾‏(الحجرات)
اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں  ، آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں  ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو، یقین مانو کہ آسمانوں  اور زمین کی پوشیدہ باتیں  اللہ خوب جانتا ہےاور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِی اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَتْ بَنُو أَسَدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیه وَسَلَّم فَقَالُوا: یَا رَسولَ اللهِ أَسْلَمْنَا وَقَاتَلَتْكَ الْعَرَبُ وَلَمْ نُقَاتِلْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: إِنَّ فِقْهَهُمْ قَلِیلٌ، وَإن الشَّیْطَانَ یَنْطِقُ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {یَمُنُّونَ عَلَیْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ إسلامكم} الآیة.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بنواسدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم مسلمان ہوئے ،عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں  لڑے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان میں  بہت کم سجھ بوجھ ہے ، شیطان ان کی زبان پربول رہاہے، اوریہ آیت نازل ہوئی یہ لوگ تم پراحسان جتاتے ہیں  کہ انہوں  نے اسلام قبول کرلیاان سے کہواپنے اسلام کااحسان مجھ پرنہ رکھوبلکہ اللہ تم پراپنااحسان رکھتاہے کہ اس نے تمہیں  ایمان کی ہدایت دی اگرتم واقعی اپنے دعوائے ایمان میں  سچے ہو۔[79]

فرمایایہ لوگ تم پراحسان جتاتے ہیں  کہ انہوں  نے اسلام قبول کرلیاان سے کہواپنے اسلام کااحسان مجھ پرنہ رکھوبلکہ اللہ تم پراپنااحسان رکھتاہے کہ اس نے تمہیں  ایمان کی ہدایت دی اگرتم واقعی اپنے دعوائے ایمان میں  سچے ہو،اللہ زمین اورآسمانوں  کی ہرپوشیدہ چیزکاعلم رکھتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [80]

ترجمہ: زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسا نہیں  جس سے وہ باخبر نہ ہو، خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھا ہوا ہے۔ اوراللہ تمہارے ان اعمال کودیکھتاہے جن کاتم ارتکاب کرتے ہو۔

وفدبنی اسدبن خزیمہ:

بنواسد مشہورعدنانی مضری قبیلہ ہے ،یہ لوگ جبال طے کے جنوب مشرق میں  آبادتھے ،بنواسدبڑاجنگجوقبیلہ تھااورکفرواسلام کے معرکوں  میں  قریش کاحلیف رہاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف کوئی مبلغ نہیں  بھیجاتھا،

وَقَدِمَ عَلَیْهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِی أَسَدٍ عَشَرَةُ رَهْطٍ،فِیهِمْ حَضْرَمِیُّ بْنُ عَامِرٍ. وَضِرَارُ بْنُ الأَزْوَرِ. وَوَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ. وَقَتَادَةُ بْنُ الْقَایِفِ. وَسَلَمَةُ بْنُ حُبَیْشٍ،وَطَلْحَةُ بْنُ خُوَیْلِدٍ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ مَعَ أَصْحَابِهِ فِی الْمَسْجِدِ،یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا شَهِدْنَا أَنَّ اللهَ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّكَ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ،فَقَالَ حَضْرَمِیُّ بْنُ عَامِرٍ: أَتَیْنَاكَ نَتَدَرَّعُ اللیْلَ الْبَهِیمَ. فِی سَنَةٍ شَهْبَاءَ. وَلَمْ تَبْعَثْ إِلَیْنَا بَعْثًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ {یَمُنُّونَ عَلَیْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِیمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ}،[81]

حالات سے مجبور ہوکرنوہجری کے اوائل میں  اس قبیلہ کاایک دس رکنی وفدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا، وفدمیں  حضرمی بن عامر، ضراربن الازور،وابصہ بن معبد،قتادہ بن القائف،سلمہ بن حبیش اورطلحہ بن خویلدجیسے مشہورلوگ شامل تھے،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرماتھے، اراکین وفدنے آکرکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں  کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اورآپ اللہ کے بندے اوررسول ہیں  (یعنی کلمہ شہادت پڑھ کراسلام قبول کیا)،اور وفدکے سردارحضرمی بن عامر نے فخریہ لہجے میں  کہاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوگ سخت اندھیری رات اورسخت خشک سالی میں  دوردرازکی مسافت طے کرکےآپ کے پاس آئے ہیں  حالانکہ آپ نے کوئی مہم یاتبلیغی جماعت ہماری طرف نہیں  بھیجی،اللہ عزوجل کوان کی یہ تعلی پسندنہ آئی اوریہ آیت نازل ہوئی،یہ لوگ تم پراحسان جتاتے ہیں  کہ انہوں  نے اسلام قبول کرلیا،ان سے کہواپنے اسلام کااحسان مجھ پرنہ رکھوبلکہ اللہ تم پراپنااحسان رکھتاہے کہ اس نے تمہیں  ایمان کی ہدایت دی اگرتم واقعی اپنے (دعوائے ایمان میں  )سچے ہو۔

اراکین وفدنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جانوروں  کی بولیوں  سے شگون لیناکیساہے؟آپ نے فرمایاناجائزہے،پھرانہوں  نے پوچھا خط کشی(رمل)کے بارے میں  کیاارشادہے؟

قَالَ:عَلِمَهُ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَاءِ فَمَنْ صَادَفَ مِثْلَ عِلْمِهِ عُلِّمَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کاایک نبی یہ علم جانتا تھا جواس نبی کے علم کے مطابق لیکرکھینچ لے وہ درست ہے۔[82]

كان فارسًا شجاعًا شاعرًا، ولما قدم عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كان له ألف بعیر برعاتها، فأخبره بما خلف

رکن وفدضرار رضی اللہ عنہ بن الازور شہسوار،دلیر وبہادرشاعراوراپنے قبیلے کے ارباب ثروت میں  سے تھے،ان کے پاس ایک ہزاراونٹوں  کاگلہ تھا،دولت اسلام سے بہرہ یاب ہوئے تو جہاں  ہرقسم کے لہوولعب سے توبہ کرلی وہاں  سب مال مویشی بھی اللہ کی راہ میں  دے دیئے اورخالی ہاتھ بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے،انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  یہ شعرپڑھے۔

تركت الْخُمُور وَضرب القداح ،وَاللهْو تعللة وانتهالا

میں  نے بادہ نوشی ترک کردی اورظروف بادہ توڑڈالے،اوراس ذات کی طرف آیاجوبہت بلندہے۔

فیا رب لَا تغبن صفقتی ،فقد بِعْت أَهلِی وَمَالِی بدالا

اے میرے رب،میری تجارت کوخسارہ میں  نہ کر،میں  نے اپنامال اوراقرباء ہمیشہ کے لئے تیری راہ میں  بیع کردیئے ہیں  ۔

فقال النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ ما غبنت صفقتك یا ضرار

سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ضرار!تمہاری تجارت خسارے میں  نہیں  رہی۔[83]

ان لوگوں  نے اپنے قبیلہ میں  جاکربڑے جوش وخروش اوراخلاص کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی،

ثم توفی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فعظم أمر طلیحة، وأطاعه الحلیفان أسد وغطفان ،وكان یزعم أَنَّهُ یأتیه جبریل بالوحی، فأرسل إلیه أَبُو بكر رضی الله عنه، خَالِد بْن الْوَلِید،ولما انهزم طلیحة لحق بنواحی الشام،وأسلم طلیحة إسلامًا صحیحًا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیاسے تشریف لے گئے تو طلیحہ بن خویلد فتنہ ارتداد میں  مبتلاہوگیااورنبوت کادعویٰ کردیا،اس کے حلیف اسداورغطفان نے اس کی تصدیق اوراطاعت کی،اسے یہ زعم پیداہواکہ جبریل اس کے پاس اللہ کی وحی لاتے ہیں  ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکواس کی طرف روانہ کیاجنہوں  نے لڑائی میں  اس کی کمرتوڑشکست دی ، جب شکست کے آثار رونما ہوئے تووہ شام کی طرف بھاگ گیا، سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  اللہ نے اسے دوبارہ قبول اسلام اورتوبہ کی توفیق بخشی اوراس نے دوبارہ دربارخلافت میں  حاضرہوکربیعت کی اوراس کااسلام اچھارہا،اس کے بعداس نے اپنی زندگی کا بیشترحصہ میدان جہادمیں  گزارا اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔[84]

وشهد القادسیة ونهاوند مع المسلمین

وہ جنگ قادسہ اورنہاوندمیں  مجاہدین اسلام کے ساتھ تھے۔[85]

وتاب طلیحة ومات على الإسلام على الصحیح فی خلافة عمر

ارتدادسے تائب ہوکرطلیحہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  اسلام کی حالت میں  وفات پائی ۔[86]

وفدبنی ثمالہ:

یہ قبیلہ ازدشنواة کی ایک شاخ تھی ،یہ لوگ طائف کے نزدیک آبادتھے،

قدم عبد الله بن عبس الثمالى ومسلمة بن هزان الحدانى على رَسُول الله فِی رَهْطٍ مِنْ قَوْمِهِمَا بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَأَسْلَمُوا وَبَایَعُوا عَلَى قَوْمِهِمْ، وَكَتَبَ لَهُمْ كِتَابًا بِمَا فُرِضَ عَلَیْهِمْ مِنَ الصَّدَقَةِ فِی أَمْوَالِهِمْ، كَتَبَهُ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَشَهِدَ فِیهِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ رضى الله عَنْهُم

فتح مکہ کے بعدبنوثمالہ کاایک وفدعبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبس ثمالی اور مسلمہ بن ہزان الحدانی کی قیادت میں  بارگاہ رسالت میں  حاضرہوااوراسلام قبول کرلیااوراپنی قوم کی جانب سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس انصاری سے ایک تحریرلکھوائی جس میں  ان کے اموال پرفرض زکوٰة کے بارے میں  ہدایات تھیں  اوراس پرسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اورمحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی لکھی گئی۔[87]

وفدبنی حدان:

بنوحدان ازدکاایک بطن تھاجو حجازمیں  جبال السراة کی وادیوں  میں  آبادتھا،بنوثمالہ کے وفدکے ساتھ ہی بنوحدان کاوفدبھی پیش خدمت ہواان کے امیرمسلمہ رضی اللہ عنہ بن ہزان الحدانی تھے،اس وفدنے بھی اسلام قبول کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی،آپ نے جوتحریربنوثمالہ کے لئے لکھوائی تھی وہ بنی حدان کے لئے بھی تھی گویادونوں  قبیلوں  کی یہ مشترک تحریرتھی۔[88]

وفدبنی ثعلبہ:

بنوثعلبہ کانام متعددعدنانی اورقحطانی قبائل کے لئے بولاجاتاہے جن کی تعدادبیس تک پہنچتی ہے،

قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ سَنَةَ ثَمَانٍ قَدِمْنَا عَلَیْهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ وَقُلْنَا: نَحْنُ رُسُلُ مَنْ خَلْفَنَا مِنْ قَوْمِنَا. وَنَحْنُ وَهُمْ مُقِرُّونَ بِالإِسْلامِ، فَأَمَرَ لَنَا بِضِیَافَةٍ وَأَقَمْنَا أَیَّامًا ثُمَّ جِئْنَاهُ لِنَوَدِّعَهُ،فَقَالَ لِبِلالٍ: أَجِزْهُمْ كَمَا تُجِیزُ الْوَفْدَ. فَجَاءَ بِنَقَرٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَعْطَى كُلَّ رَجُلٍ مِنَّا خَمْسَ أَوَاقٍ، قَالَ لَیْسَ عِنْدَنَا دَرَاهِمُ. فَانْصَرَفْنَا إِلَى بِلادِنَا

فتح مکہ کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ ہجری مدینہ منورہ تشریف لائے توبنوثعلبہ(معلوم نہیں  کہ عدنانی تھے یاقحطانی) کے چارآدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اپنی قوم کے پسماندہ لوگوں  کے قاصد ہیں  ہم نے اورہمارے قبیلے نے اسلام قبول کرلیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضیافت کرنے کاحکم فرمایاوہ لوگ چنددن مدینہ منورہ میں  مقیم رہےپھررخصت کی اجازت حاصل کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے،جب یہ رخصت ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوفرمایاان کوبھی اسی طرح انعام دوجس طرح تم وفدکودیتے ہو،وہ چاندی کےچندٹکڑے لائے اوروفدکے ہرایک آدمی کوپانچ اوقیہ چاندی مرحمت فرمائی،کہتے ہیں  ہمارے پاس درہم(روپیہ) نہیں  تھااورہم اپنے وطن واپس آگئے۔[89]

وفدبنی اسلم:

بنواسلم بنوخزاعہ کاایک بطن تھے ،بعض کہتے ہیں  کہ یہ مدینہ منورہ کے نواح میں  آبادتھے ،اوربعض کہتے ہیں  کہ ان کی سکونت مرالظہران کے قرب وجوارمیں  تھی اور بعض کہتے ہیں  کہ مکہ مکرمہ کے قریب آبادتھے ،اصل میں  بنوخزاعہ کی بہت سی شاخیں  تھیں  جومختلف مقامات پرآبادتھیں  ،اسی طرح بنواسلم کانام بھی مختلف قبائل پربولاجاتاہے جو مختلف مقامات پرآبادتھے ،ایک قبیلہ بنی اسلم بھی تھامگروہ بنوقضاعہ کی شاخ تھا،

قَالُوا: قَدِمَ عَمِیرَةُ بْنُ أَقْصَى فِی عِصَابَةٍ مِنْ أَسْلَمَ ،فَقَالُوا

فتح مکہ کے بعدبنواسلم کاایک وفد عمیر رضی اللہ عنہ بن افصی کی سرکردگی میں  بارگاہ رسالت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا۔

قَدْ آمَنَّا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّبَعْنَا مِنْهَاجَكَ فَاجْعَلْ لَنَا عِنْدَكَ مَنْزِلَةً تَعْرِفُ الْعَرَبُ فَضِیلَتَهَا، فَإِنَّا إِخْوَةُ الْأَنْصَارِ وَلَكَ عَلَیْنَا الْوَفَاءُ وَالنَّصْرُ فِی الشِّدَّةِ وَالرَّخَاءِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللهُ، وَغِفَارُ غَفَرَ اللهُ لَهَا

اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اللہ اوراس کے رسول پرایمان لائے ہیں  اورآپ کے طریقے کی پیروی اختیارکی ہے آپ ہمیں  ایسامقام عطافرمائیں  کہ ہم دوسرے قبائل کے سامنے اپنا سرعزت کے ساتھ بلندکرسکیں  ،ہم انصارکے بھائی ہیں  ہم ہرسختی اورآسائش میں  آپ کی پیروی کریں  گے اورآپ کی امدادکریں  گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااللہ قبیلہ اسلم کوسلامت رکھے اورقبیلہ غفارکی مغفرت فرمائے۔[90]

ابن اثیر رحمہ اللہ کابیان ہے کہ عمیر رضی اللہ عنہ بن افصٰی نے بارگاہ نبوی میں  حاضرہوکرعرض کیا۔

یا رَسُول الله، إنا من أَرُومَةِ الْعَرَبِ، نكافئ العدو بأسنة حداد وأدرع شداد، ومن ناوانا أوردناه السامة وذكر حدیثًا طویلًا فِی فضل الأنصار

اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوگ سرداران عرب میں  سے ہیں  اوردشمن کامقابلہ تیر،نیزوں  اورمضبوط زرہوں  کے ساتھ کرتے ہیں  ،جوہم سے لڑتاہے ہم اس کوموت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں  پھرانہوں  نے انصارکے بہت سے فضائل بیان کیے۔[91]

وَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْلَمَ وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ مِمَّنْ یَسْكُنُ السَّیْفَ وَالسَّهْلَ كِتَابًا فِیهِ ذِكْرُ الصَّدَقَةِ وَالْفَرَائِضِ فِی الْمَوَاشِی، وَكَتَبَ الصَّحِیفَةَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَشَهِدَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ

اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں  کوایک تحریرعطافرمائی جس میں  صدقہ اورچوپایوں  کے فرض صدقات کاذکرتھا،یہ تحریر سمندر کے کنارے اورہموارزمین کے رہنے والے قبیلہ اسلم سمیت سب مسلم قبائل کے لئے تھی،یہ تحریرثابت رضی اللہ عنہ بن قیس بن شماس نے لکھی اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اورابوعبیدہ بن الجراح نے اپنی گواہی ثبت کی ۔[92]

وفدبنی ہلال بن عامر:

یہ قبیلہ بنی عامربن صعصعہ کاایک بطن تھااوریہ لوگ نجداورحجازمیں  آبادتھے،طائف کے علاقے میں  بیشہ اورتربہ کی اراضی پربنوہلال کاتصرف تھا ،

قالوا: وَقَدِمَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نفر من بنی هلال فیهم عبد عوف بن أصرم،فسأله عن أسمه فأخبره،فقال: أنت عبد الله،وأسلم،ومنهم قبیصة بن المخارق،فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْهِ وَرَحَّبَ بِهِ،وَقَالَ: یَا قَبِیصَةُ، جِئْتَ حَیْثُ كَبُرَتْ سِنُّكَ وَرَقَّ عَظْمُكَ، وَاقْتَرَبَ أَجَلُكَ ؟!

فتح مکہ کے بعدبنوہلال کے چندافرادایک وفدکی صورت میں  بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئےوفدکے ایک رکن کانام عبدعوف بن اصرم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھاتمہارانام کیا ہے؟ اس نے عرض کیاعبدعوف بن اصرم،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوعبداللہ ہے،انہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطاکیے ہوئے نام کوبسروچشم قبول کرلیااور مشرف بہ اسلام ہوگئے،اس وفدکاایک رکن قبیصہ رضی اللہ عنہ بن مخارق تھےوہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے، انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیاآپ نے سلام کاجواب دیا،اورفرمایااے قبیصہ!تم اب آئے ہو جب تمہاری عمر زیادہ ہوگئی ہےہڈیاں  پتلی ہوگئی ہیں  اورموت تمہارے قریب آگئی ہے،

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُكَ وَمَا كِدْتُ أَنْ أَجِیئَكَ، كَبُرَتْ سِنِّی، وَرَقَّ عَظْمِی، وَاقْتَرَبَ أَجَلِی، وَافْتَرَقَتُ وَهُنْتُ عَلَى النَّاسِ، فَجِئْتُكَ تُعَلِّمُنِی شَیْئًا یَنْفَعُنِی اللهُ بِهِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَلا تُكْثِرْ عَلَیَّ، فَإِنِّی شَیْخٌ نَسِیٌّ

انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اب میں  آپ کی خدمت میں  حاضر ہوا مگر حاضر ہونے کی طاقت مجھ میں  نہ تھی،میری عمربہت زیادہ ہوگئی ہے،ہڈیاں  پتلی ہوگئی ہیں  ،موت کا وقت قریب ہے اورمیں  محتاج ہوں  اورلوگوں  کی نظروں  میں  ذلیل ہوں  آپ کے پاس آیاہوں  کہ آپ مجھے کچھ تعلیم فرمائیں  جس سے اللہ مجھے دنیاوآخرت میں  فائدہ پہنچائے اوربہت باتیں  نہ بتلائے گاکیونکہ میں  بوڑھاہوں  اورمجھ پرنسیان کاغلبہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  چندمختصردعاؤں  کی تلقین فرمائی،

قَالَ: یَا قَبِیصَةُ، إِذَا أَصْبَحْتَ وَصَلَّیْتَ الْفَجْرَ، فَقُلْ: سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِهِ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ، أَرْبَعًا، یُعْطِكَ اللهُ بِهِنَّ أَرْبَعًا لِدُنْیَاكَ وَأَرْبَعًا لآخِرَتِكَ، فَأَمَّا الأَرْبَعَةُ لِدُنْیَاكَ: فَأَنْ تُعَافَى مِنَ الْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَالْبَرَصِ، وَالْفَالِجِ، وَأَمَّا الأَرْبَعَةُ لآخِرَتِكَ، فَقُلِ: اللهُمَّ اهْدِنِی مِنْ عِنْدِكَ، وَأَفْضِ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِكَ، وَانْشُرْ عَلَیَّ مِنْ رَحْمَتِكَ، وَأَنْزِلْ عَلَیَّ مِنْ بَرَكَتِكَ

اے قبیصہ! جب صبح اٹھے اور نماز فجر پڑھ لے تو چار مرتبہ ان کلمات کا ورد کیا کر سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِهِ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ ، تو اللہ تعالیٰ انہی کلمات کی وجہ سے تجھے چارانعام دنیا میں  اورچارانعام آخرت میں  فرمائے گا،پس جن چار انعامات کا تعلق دنیا سے وہ یہ کہ تجھے جنون، جذام، برص اور فالج سے عافیت میں  رہے گا، اور جن چار کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے وہ یہ کہ تو کہہ اے اللہ! مجھے اپنی طرف سے ہدایت عطا فرما، اپنا فضل میرے اوپر انڈیل دے، اپنی رحمت میرے اوپر بکھیر دے اور میرے اوپر اپنی برکت نازل فرما۔[93]

ایک اورروایت میں  ہے کہ قبیصہ رضی اللہ عنہ پرکچھ قرض تھا(یہ قرض ان پراپنی قوم کاضامن ہونے کی وجہ سے ہوگیاتھا)

قال:یا رَسُولَ الله إنی حملت عن قومی حمالة فأعنی فیها، فَقَالَ: أَقِمْ حَتَّى تَأْتِیَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا

انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یہ قرض اتارنے میں  میری مددفرمائیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،تم یہاں  رہوجب صدقات آئیں  گے توتمہاراقرضہ اداکردیاجائے گا،اس کے بعدآپ نے فرمایا۔

یَا قَبِیصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ، تَحَمَّلَ حَمَالَةً، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى یُصِیبَهَا، ثُمَّ یُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى یَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِی الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ: لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ یَا قَبِیصَةُ سُحْتًا یَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا

اے قبیصہ!سوال کرناصرف تین آدمیوں  کے لئے جائزہے،ایک وہ جس پرقرض ہوتواس کواس حدتک سوال کرناحلال ہے کہ اس کاقرضہ اداہوجائے ،قرضہ ادا ہونے کے بعدسوال نہ کرے،دوسراوہ جس کامال کسی ناگہانی آفت سے تلف ہوگیاہو،تواسے سوال کرناحلال ہے حتی کہ اسے اتنی رقم مل جائے کہ اس سے اس کی گزراوقات ہوجائے ،تیسراوہ جوفاقہ میں  مبتلاہواوراس کی قوم کے تین ذی عقل آدمی گواہی دیں  کہ واقعی یہ شخص فاقہ میں  مبتلاہے،پھراس کوبھی اتناہی سوال درست ہے کہ جس سے اس کی گزرہوجائے بس ان تین شخصوں  کے سوااے قبیصہ رضی اللہ عنہ کسی اورکو سوال کرناجائزنہیں  اورسوال کرنے والاحرام کھاتا ہے ۔[94]

وفدکاایک نوجوان رکن زیاد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بھی تھے جوام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے،

فَلَمَّا دَخَلَ الْمَدِینَةَ تَوَجَّهَ إِلَى مَنْزِلِ مَیْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ خَالَةُ زِیَادٍ أُمَّهُ غُرَّةَ بِنْتِ الْحَارِثِ. وَهُوَ یَوْمَئِذٍ شَابٌّ،فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عِنْدَهَا. فَلَمَّا أَتَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ فَرَجَعَ ، فَقَالَتْ:یَا رَسُولَ اللهِ هَذَا ابْنُ أُخْتِی!

جب و فدمدینہ میں  داخل ہواتوزیاد رضی اللہ عنہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں  چلے گئے اوروہ ان دنوں  جوان تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے حجرہ میں  تشریف لائے توزیاد رضی اللہ عنہ کوان کے پاس دیکھاچونکہ آپ ان سے واقف نہیں  تھے اس لئے ناراضگی کا اظہار فرمایا،ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرا بھانجا ہے (یہ میری بہن غرہ بنت الحارث کابیٹا ہے)

فَدَخَلَ إِلَیْهَا ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ وَمَعَهُ زِیَادٌ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَدْنَى زِیَادًا فَدَعَا لَهُ وَوَضَعَ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ ثُمَّ حَدَرَهَا عَلَى طَرَفِ أَنْفِهِ، فَكَانَتْ بَنُو هِلالٍ تَقُولُ: مَا زِلْنَا نَتَعَرَّفُ الْبَرَكَةَ فِی وَجْهِ زِیَادٍ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیاد رضی اللہ عنہ کواپنے ساتھ لیکرمسجدتشریف لے گئے اورظہرکی نمازادافرمائی،پھرآپ نے زیاد رضی اللہ عنہ کواپنے قریب کیااوران کے لئے دعافرمائی اوراپنادست مبارک ان کے سر پر پھیرا اور پھیرتے ہوئے ان کی ناک تک لے آئے،بنوہلال کے لوگ کہاکرتے تھے کہ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کادست مبارک پھر جانے کی وجہ سے)ہم زیاد رضی اللہ عنہ کے چہرے پرہمیشہ برکت دیکھتے تھے۔[95]

وفدبکربن وائل:

یہ لوگ بنی ربیعہ بن نزاربن معدبن عدنان کاایک عظیم بطن تھے ،ان سے بہت بطون متفرع ہوئے ،بکربن وائل عرب کے وسیع علاقوں  پرقابض تھے جویمامہ سے بحرین تک پھیلے ہوئے تھے ،بنوبکربن وائل کاشمارعرب کے بڑے جنگجوقبیلوں  میں  ہوتاتھا،۳۳۰ء میں  انہوں  نے پہلی مرتبہ ایران کی حکومت سے ٹکرلی تھی،

قدم وفد بَكْر بْن وائل عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وكان فِی الوفد بشیر بْن الخصاصیة. وَعَبْد الله بْن مرثد. وحسان بْن حوط، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ: هَلْ تَعْرِفُ قُسَّ بْنَ سَاعِدَةَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ هُوَ مِنْكُمْ هَذَا رَجُلٌ مِنْ إِیَادٍ تَحَنَّفَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ فَوَافَى عُكَاظًا وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ فَیُكَلِّمُهُمْ بِكَلَامِهِ الَّذِی حُفِظَ عَنْهُ

فتح مکہ کے بعدقبیلہ بکربن وائل کاایک وفدآپ کی خدمت اقدس میں  حاضرہوا، وفدکے اراکین میں  بشیر رضی اللہ عنہ بن الخصاصیہ،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مرثد اور حسان رضی اللہ عنہ بن حوط شامل تھے،تمام اراکین نے اسلام کی دعوت قبول کرلی اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی،وفدکے ایک رکن نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاآپ قس بن ساعدہ کوجانتے ہیں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تم میں  سے نہیں  تھابلکہ قبیلہ ایادسے تھا،وہ زمانہ جاہلیت میں  موحدہوگیاتھاوہ عکاظ آیاتھااورلوگوں  کے ہجوم کے سامنے گفتگوکی تھی یایہ کہ وہ عکاظ میں  لوگوں  کے اجتماع کواپنی (حکیمانہ)باتیں  سنایا کرتا تھا ، حسان کی اولادمیں  سے کسی نے یہ شعرکہاہے۔

أَنَا ابن حسان بْن حوط وَأَبِی ، رسول بَكْر كلها إلى النَّبِیّ

میں  حسان بن حوط کابیٹاہوں  ،میرے والدتمام قبیلہ بکرکی طرف سے قاصدبن کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے

اراکین وفدمیں  سے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن اسودکے متعلق بیان کیاگیاہے

فباع ما كَانَ لَهُ مِن مال بِالْیَمَامَةِ وهاجر وَقَدِمَ عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بجراب مِن تمر ،فدعا لَهُ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالبركة

انہوں  نے یمامہ میں  اپنامال فروخت کیااورہجرت فرماکرمدینہ منورہ چلے آئےجب بارگاہ نبوت میں  حاضرہوئے توکھجوروں  کی ایک تھیلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  ہدیتہ پیش کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعافرمائی۔[96]

[1] تفسیرابن کثیر۷۱۶؍۱،توفیق الرحمن فی دروس القرآن۳۵۵؍۱، التفسیر الوسیط للقرآن الكریم۶۳۹؍۱

[2] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ۳۴۵۱،صحیح مسلم کتاب المساقاة بَابُ فَضْلِ إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ۳۹۹۳

[3] معجم الاوسط۳۲۵۰

[4] زادالمعاد۱۲۲؍۱

[5] فضائل الصحابة لاحمدبن حنبل۱۱۹۵،مسنداحمد۸۸۲، الجامع الصحیح للسنن والمسانید۲۴۶؍۳۶،مستدرک حاکم۴۶۵۸، المسند الموضوعی الجامع للكتب العشرة۴۷۷؍۱۶

[6] تاویل مختلف الحدیث۲۳۷؍۱

[7] عیون الآثر۲۵۲؍۲

[8] عیون الآثر۲۵۲؍۲،ابن ہشام۶۰۰؍۲

[9] ابن ہشام۶۰۰؍۲

[10] ابن ہشام۶۰۰؍۲

[11] ابن ہشام۶۰۰؍۲

[12] ابن سعد۱۲۲؍۲

[13] زادالمعاد۴۴۵؍۳

[14] زادالمعاد۴۴۵؍۳،ابن ہشام۶۰۰؍۲

[15] ابن ہشام۲۹۶؍۲،الروض الانف۲۸؍۷

[16]معجم البلدان ۲۲۸؍۳

[17] عیون الآثر۲۵۳؍۲،ابن سعد ۱۲۲؍۲، زادالمعاد۴۴۵؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۳۱؍۴

[18] البدایة والنہایة۹۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۶۲؍۴

[19] زادالمعاد۵۸۲؍۳،عیون الآثر۳۲۰؍۲،البدایة النہایة۹۸؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۲؍۵، امتاع الاسماع ۱۳۵؍۵،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۴۵۷؍۹

[20] دلائل النبوة للبیہقی۱۲۷؍۴

[21] ابن سعد۲۴۷؍۱، زادالمعاد۵۸۰؍۳،عیون الآثر۳۱۸؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۹؍۴

[22] مغازی واقدی۹۸۰؍۳

[23] مغازی واقدی ۹۸۰؍۳،ابن ہشام ۲۹۶؍۲،الروض الانف۲۹؍۷

[24] دلائل النبوة للبیہقی ۳۹۸؍۶

[25] المعجم الکبیرللطبرانی۴۰۴

[26] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۸؍۶،تاریخ خمیس۱۲۰؍۲،البدئ والتاریخ۲۰۱؍۵

[27] الحجرات: 6

[28] الحجرات: 8

[29]مسند احمد ۱۸۴۵۹

[30] المعجم الکبیرللطبرانی۹۶۰

[31] نور الیقین فی سیرة سید المرسلین۲۱۴؍۱

[32] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۱۱۹؍۲

[33] الاحزاب۶

[34]المومنون ۷۱

[35] الصف۵

[36] مسند أحمد۱۵۴۹۲

[37] دلائل النبوة للبیهقی ۳۱۳؍۵،مغازی واقدی۹۷۶؍۳

[38] عیون الآثر۲۵۵؍۲، اسدالغابة ۳۰۳؍۲،فتح الباری۲۰۲؍۹

[39] شرف المصطفی۴۹۲؍۳،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۴۵۸؍۱،دلائل النبوة للماوردی۱۳۳؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۲۱۱؍۶،امتاع الاسماع۳۴۶؍۱۱،الخصائص الکبری۱۳۹؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۰۸؍۱۰

[40] دلائل النبوة للبیہقی۲۱۱؍۶،معجزات النبی صلى الله علیه وسلم۲۰۵؍۱

[41]شرح الزرقانی على المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة۴۵۹؍۵،المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة۶۶؍۲

[42] المعجم الکبیرللطبرانی۳۹۵

[43] صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِیرِ عَلَى الرَّجُلِ، وَإِبَاحَتِهِ لِلنِّسَاءِ، وَإِبَاحَةِ الْعَلَمِ وَنَحْوِهِ لِلرَّجُلِ مَا لَمْ یَزِدْ عَلَى أَرْبَعِ أَصَابِعَ۵۴۰۳

[44] زادالمعاد۴۴۸؍۳،ابن ہشام۵۶۲؍۲ ، الروض الانف ۴۴۶؍۷، تاریخ طبری ۱۱۵؍۳،البدایة والنہایة۵۱؍۵، اسدالغابة۱۸۴؍۴ ، شرح الزرقانی علی المواھب ۷۸؍۵

[45] النور۶۳

[46] فتح الباری ۵۹۰؍۸

[47] تفسیرطبری ۲۷۹؍۲۲،تفسیرالقرطبی ۳۰۵؍۱۶،تفسیرابن کثیر۳۶۷؍۷

[48] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الحجرات بَابُ لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۴۸۴۶

[49] صحیح بخاری كِتَابُ الصُّلْحِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا ۲۷۰۴

[50] صحیح بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل صاحبہ انہ اخوہ۶۹۵۲

[51] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضِیلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ۴۷۲۱،السنن الکبری للنسائی۵۸۸۵

[52] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۰۴؍۱۰

[53] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ ۶۸۵۳

[54] مسلم صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ لِلْمُسْلِمِینَ بِظَهْرِ الْغَیْبِ ۶۹۲۸

[55] مسنداحمد۲۱۷۰۷

[56] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ ۶۰۱۱،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ ۶۵۸۶

[57] صحیح بخاری کتاب الادب باب تعاون المومنین بعضھم بعضا۶۰۲۶

[58] التوبة۷۱

[59] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ مِنَ الإِیمَانِ أَنْ یُحِبَّ لِأَخِیهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِهِ۱۳

[60] صحیح بخاری کتان الایمان بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الدِّینُ النَّصِیحَةُ: لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ المُسْلِمِینَ وَعَامَّتِهِمْ۵۷

[61] ۔ صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ ۶۵۴۱

[62] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ۶۵۴۱

[63] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ ۴۰۹۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ ۹۱

[64] الاعراف۳۲

[65] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ۴۰۹۰،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ ۶۶۸۰

[66] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ۴۸۹۱

[67] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ۴۸۸۰ ،مسنداحمد۱۹۷۷۶

[68] الہمزة۱

[69] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا۶۰۶۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلةبَابُ تَحْرِیمِ الظَّنِّ، وَالتَّجَسُّسِ، وَالتَّنَافُسِ، وَالتَّنَاجُشِ وَنَحْوِهَا۶۵۳۷

[70] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَا یُنْهَى عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ ۶۰۶۵،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ النَّهْی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّبَاغُضِ وَالتَّدَابُرِ ۶۵۲۶، جامع ترمذی کتاب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَسَدِ۱۹۳۵

[71] مسندابی یعلی۶۱۴۰

[72] مسند احمد۱۴۷۸۴

[73] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الْغِیبَةِ۴۸۷۴،جامع ترمذی کتاب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی الغِیبَةِ۱۹۳۴

[74] سبل السلام۶۶۹؍۲

[75] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة یوسف بَابُ قَوْلِهِ لَقَدْ كَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ ۴۶۸۹، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ یُوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَامُ۶۱۶۱

[76]صحیح مسلم کتاب البر و الصلة بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ۶۵۴۳،مسنداحمد۷۸۲۷

[77] مسنداحمد۲۳۴۸۹

[78] الطور۲۱

[79] مسند البزار۵۱۴۱

[80] الانعام۵۹

[81] الحجرات: 17

[82] عیون الاثر۳۱۳؍۲،زادالمعاد۵۷۲؍۳،البدایة والنہایة۱۰۲؍۵،ابن سعد۲۲۳؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۷۰؍۴

[83] اسد الغابة ۵۲؍۳، سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۶۰؍۱۱

[84] اسدالغابة۹۴؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۲۱۱؍۵

[85] شرح الزرقانی علی المواھب۴۷۲؍۲

[86] شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۳؍۱۰

[87] ابن سعد۲۶۵؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۶۷۲؍۴

[88] ابن سعد۲۶۵؍۱

[89] ابن سعد۲۲۷؍۱

[90] ابن سعد۲۶۵؍۱

[91] اسدالغابة ۲۷۳؍۴

[92] اسدالغابة ۲۷۳؍۴ ،ابن سعد ۳۵۴؍۱

[93] اسدالغابة۳۶۶؍۴

[94] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ عن قبیصہ ۲۴۰۴،اسدالغابة۳۶۵؍۴

[95] ابن سعد۲۳۵؍۱،البدایة والنہایة۱۰۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۸؍۴

[96] ابن سعد۲۳۹؍۱، البدایة والنہایة ۱۰۸؍۵،شرف المصطفی۲۱۵؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۷۸؍۴

Related Articles