ہجرت نبوی کا تیسرا سال

غزوہ احد پندرہ شوال تین ہجری(جنوری ۶۲۵ء)

جب قریش پرجنگ بدرمیں مصائب کاپہاڑٹوٹاتواس کی ہزیمت اورذلت آمیزشکست کاگہرازخم ویسے توہرمشرک شخص کے دل میں تھامگرجن لوگوں کے باپ ،بیٹے ،بھائی بھتیجے اورعزیزواقارب مارے گئے تھے ان کورہ رہ کرجوش آتاتھا ،عرب میں جہاں ایک آدمی کے قتل پرلڑائیوں کاکبھی نہ ختم ہونے والاسلسلہ چل پڑتاتھاوہاں تو ستربڑے بڑے سردار مارے گئے تھےاس لئے اپنی شکست کابدلہ لینے کے لئے ہرشخص کاسینہ جوش انتقام سے لبریزتھا،غزوہ بدرکاانتقام لینے کے لئے ابوسفیان نے جو قسم کھائی تھی اور دوسوسواروں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہواتھامگرکچھ سفارتی کامیابیوں کے سواکوئی بڑی کاروائی کرنے کے بجائے کھجوروں کے چنددرخت جلانے اورسوئے ہوئے دوافرادکوقتل کرنے کے بعدناکام و نامرادواپس چلاآیاتھا بلکہ واپسی میں بڑی مقدارمیں زادراہ بھی راستہ میں پھینک آیاتھا ، شام جانے کے لئے قریش کا قدیم تجارتی راستہ جومدینہ منورہ کے قریب سے گزرتاتھاوہ تو بندہوہی چکا تھا اور سونے پہ سہاگہ دوسرا متبادل راستہ جوعراق کی طرف سے شام جاتاتھابھی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی کاروائی کی وجہ سے بندہوگیاتھاجس میں ان کاپورامال سے لدا ہوا قافلہ ہی مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا تھا بند ہو چکاتھا ،اب وہ ذلت آمیزشکست کے بعدمعاشی طورپربھی محصور ہو چکے تھے ،چنانچہ اس مسئلہ کوحل کرنے کے لئے ابوسفیان بن حرب، عبداللہ بن ابی ربیعہ ،عکرمہ بن ابی جہل اور صفوان بن امیہ، حویطب بن عبدالعزیٰ ، حارث بن ہشام اور دوسرے معززین قریش ایک مجلس میں جمع ہوئے اوران لوگوں سے گفتگوکی جن کااس تجارتی قافلہ میں سامان تھاجوجنگ بدرکاسبب بناتھااوراس کامنافع ابھی دارالندوہ میں جوں کاتوں محفوظ تھا،قریش کومسلمانوں کے زوربازووں کااچھی طرح اندازہ ہوچکاتھااوراب وہ چاہتے تھے کہ مکمل جنگی تیاریوں ،پوری طاقت اوربڑے لشکرکے ساتھ مقابلہ کرکے اپنے سرداروں کاانتقام لیں اوراپنے ماتھے پرلگے ہزیمت کے داغ کوبھی مٹادیں ،اس لئے ان لوگوں نے اہل قافلہ سے کہاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تم پرظلم کیاہے اورتمہارے بہترین ومنتخب سرداروں کوقتل کیاہے لہذا تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے اپنے مقتولین کابدلہ لینے کے لئے اس مال سے ہماری مددکرو۔

 نحن طیّبو أنفس إن تجهزوا بربح هذه الْعِیرِ جَیْشًا إلَى مُحَمّدٍ

ہم تب خوش ہوں گے جب تم اس مال تجارت سے نفع کی رقم سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے جنگ کے لئے ہمارے لشکر کو مسلح کرو۔

فقال أبو سفیان: فأنا أول من أجاب إلى ذلك، وبنو عبد مناف

یہ سن کر ابو سفیان نے کہاسب سے پہلے میں اس تجویزکوقبول کرتا ہوں اور بنوعبدمناف بھی اس میں میرے ساتھ ہیں ۔

غزوہ بدرمیں کسی نہ کسی کاکوئی عزیزقتل یا اسیرہوا تھا ، ان کے دلوں میں انتقام کاجذبہ شعلہ زن تھا،اس لئے کسی نے اس تجویز کی مخالفت نہیں کی۔

أَلْفَ بَعِیرٍ والْمَالُ خَمْسِینَ أَلْفَ دِینَارٍ

اور سب نے اپنے جذبہ غیظ وغضب کوتسکین دینے کے لئے مال تجارت کامنافع پچاس ہزارمثقال سونااورایک ہزاراونٹ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے منظورکرلیا۔

انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۭ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْــرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ۝۰ۥۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَــرُوْنَ۝۳۶ۙ [1]

ترجمہ:جن لوگوں نے حق کوماننے سے انکارکردیاہے وہ اپنے مال اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے صرف کررہے ہیں اورابھی اورخرچ کرتے رہیں گے مگرآخرکاریہی کوششیں ان کے لئے پچھتاوے کاسبب بنیں گی پھروہ مغلوب ہوں گے پھریہ کافرجہنم کی طرف گھیرلائے جائیں گے ۔

فنڈزملنے کی دیرتھی قریش نے کئی قبائل کوجنگ پرابھارا،کتنے قبائل سے معاہدے کیے ، رضاکاربھرتی ہونے لگے، دن رات سامان حرب اوردیگرسامان اکٹھاہونے لگا ، عرب میں دلوں میں جوش ولولہ پھیلانے کاسب سے بڑاذریعہ جوشیلے شاعراورجوشیلے مقرر تھے ،اس وقت مکہ میں دو مشہور جوشیلے شاعر ابوعزہ جمحی اورمسافع بن عبدمناف جمحی تھے ، صفوان بن امیہ نے ابوعزہ جمحی کوساتھ چلنے کے لئے اکسایااورلالچ دیتے ہوئے کہا

یَا أَبَا عَزَّةَ، إِنَّكَ امْرُؤٌ شَاعِرٌ فَأَعِنَّا بِلِسَانِكَ وَاخْرُجْ مَعَنَا، فَأَعِنَّا بِنَفْسِكَ فَلَكَ اللهُ إِنْ رَجَعْتَ أن أغنیك وَإِنْ قُتِلْتَ أَنْ أَجْعَلَ بَنَاتِكَ مَعَ بَنَاتِی یُصِیبُهُنَّ مَا أَصَابَهُنَّ مِنْ عُسْرٍ وَیُسْرٍ،

اے ابو عزہ! تم ایک شاعرہوتم جنگ میں ہمارے ساتھ چلواوراپنی زبان سے ہماری مددکرو،میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرتم اس جنگ میں زندہ واپس آگئے تومیں تمہیں دولت مندبنادوں گااوراگرتم قتل ہوگئے توتمہاری بیٹیوں کواپنی بیٹیوں کے ساتھ رکھوں گا،اچھے برے ، فراخی وتنگی ہرحال میں وہ ہمارے شریک حال رہیں گی۔

فَقَالَ: إنّی قَدْ أَعْطَیْت مُحَمّدًا مَوْثِقًا أَلّا أُقَاتِلَهُ وَلَا أُكْثِرَ عَلَیْهِ أَبَدًا

اس نے جواب دیاجنگ بدرمیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے مجھ پراحسان کیاتھااوریہ عہدلیکر بغیرکسی فدیئے کے مجھے رہاکردیا تھا کہ میں کبھی ان کے خلاف لب نہیں کھولوں گا، اس لئے اپنے وعدہ کے مطابق میں اس کے خلاف کچھ نہیں کہناچاہتا۔

صفوان بن امیہ نے کہاتمہاری سب باتیں صحیح مگرپھربھی تمہیں ضروراپنی زبان سے ہماری مددکرنی ہوگی۔

فَخَرَجَ أَبُو عَزَّةَ یَسِیرُ فِی تِهَامَةَ وَیَدْعُو بَنِی كِنَانَةَ

چنانچہ ابوعزہ نے لالچ اورقومی عصبیت میں مبتلاہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے عہدوپیمان کوتوڑڈالااورتہامہ میں جاکر قریہ قریہ گھومااوراپنی آتش بیانی اورپرجوش ،ولولہ انگیز اشعار سنا تاپھرا۔

إیهًا بَنِی عَبْدِ مَنَاةَ الرُّزَّامِ ،  أَنْتُمْ حُمَاةٌ وَأَبُوكُمْ حَامْ

لَا تَعْدُونِی نَصَّرَكُمْ بَعْدَ الْعَامِ ۔  لَا تُسْلِمُونِی لَا یَحِلُّ إسْلَامْ

اس تگ ودوکافائدہ یہ ہواکہ کنانہ اورتہامہ کے باشندے جوغزوہ بدرمیں غیرجانب داررہے تھے ان قریش کے لشکرکاجزوبن گئے ۔

وَخَرَجَ مُسَافِعُ بْنُ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ وَهْبِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ جُمَحٍ إلَى بَنِی مَالِكِ بْنِ كِنَانَةَ، یُحَرِّضُهُمْ وَیَدْعُوهُمْ إلَى حَرْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورپھرایک دوسرے شاعر مسافع بن عبدمناف جمحی کے ساتھ لشکرقریش کے ہمراہ انہیں اپنے اشعارسے جوش دلاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف روانہ ہوا۔

فَقَالَ:

یَا مَالُ، مَالُ الْحَسَبَ الْمُقَدَّمِ، أَنْشُدُ ذَا الْقُرْبَى وَذَا التَّذَمُّمْ

مَنْ كَانَ ذَا رَحِمٍ وَمَنْ لَمْ یَرْحَمْ،الْحِلْفَ وَسْطَ الْبَلَدِ الْمُحَرَّمْ

ایسے بے شمار لوگ جوبراہ راست لڑائی میں دلچسپی لینے کی کوئی وجہ نہیں رکھتے تھے خریدلئے گئے۔

وَدَعَا جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ غُلَامًا لَهُ حَبَشِیًّا یُقَالُ لَهُ: وَحْشِیٌّ، یَقْذِفُ بِحَرْبَةِ لَهُ قَذْفَ الْحَبَشَةِ، قَلَّمَا یُخْطِئُ بِهَا ،فَقَالَ لَهُ: اُخْرُجْ مَعَ النَّاسِ، فَإِنْ أَنْتَ قَتَلْتُ حَمْزَةَ عَمَّ مُحَمَّدٍ بِعَمِّی طُعَیْمَةَ بْنِ عَدِیٍّ، فَأَنْتَ عَتِیقٌ

مثلاًجبیربن مطعم نے اپنے حبشی غلام جس کانام وحشی تھا کوبلایایہ نیزہ پھینک کرمارنے میں ماہر تھا (کیونکہ یہ حبشہ والوں کاخاص ہتھیارتھا) اور اس کا نشانہ بہت کم ہی خطا جاتا تھا اوراس سے کہاتوبھی لشکر ساتھ چل، اگرتم نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کومیرے چچا طعیمہ بن عدی کے بدلے میں قتل کردیاتوتم آزاد ہوجاؤ گے (کیونکہ ٖغزوہ بدر کے دن سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے ہی طعیمہ بن عدی کوقتل کیاتھا)۔[2]

یہ بھی روایت ہےطعیمہ بن عدی کی بیٹی نے اس کہا تھا ۔

إنْ قَتَلْت مُحَمّدًا، أَوْ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، أَوْ عَلِیّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، فَإِنّی لَا أَرَى فِی الْقَوْمِ كُفُؤًا لِأَبِی غَیْرَهُمْ

اگر تونے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )یاان کے چچاحمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب یاسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو بدلے میں قتل کرڈالا توبہت قیمتی انعام دوں گی کیونکہ مسلمانوں کی پوری قوم میں میرے باپ کاہم پلہ ان تینوں کے سوا دوسراکوئی نہیں ۔[3]

وحشی غلام نے دونوں سے وعدہ کر لیا۔

اس طرح بھر پور جنگی تیاریاں کرتے ہوئے تقریباًپوراسال ہی گزرگیاجس سے قریش اوران کے حلفاء نے جنگی سازوسامان تیار کرلیا،قریش کے حلیف بنوالمصطلق ( بنو الحرث،بنوالعوف،بنوکعب ) الاحابیش (بنونضر،بنومالک،مطیبین )بنوہون بن خزیمہ اوربنوثقیف سمیت تین ہزار یاپانچ ہزار جنگجوؤں پرمشتمل لشکر تیار ہو گیا۔[4]

جن میں قریش کی تعدادصرف ایک ہزارتھی اورباقی دوہزارفرزندان الیاس بن مضرسے تھے۔

وكان عددهم ثلاثة آلاف رَجُل فیهم سَبْعُمِائَةِ دَارِعٍ. ومعهم مائتا فَرَسٍ وَثَلَاثَةُ آلَافِ بَعِیرٍ

ان کے لشکر کی تعداد تین ہزار تک تھی جبکہ لشکر میں سات سوپیادہ زرہ پوش ، دو سو گھوڑا سوار اور بار برداری وسواری کے لئے تین ہزاراونٹ تھے۔[5]

مِائَةُ فَرَسٍ

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک سوگھوڑے تھے۔[6]

اس کے مقابلے میں مرکزاسلام کی تیاریوں پرپہلی توجہ تجارتی ناکہ بندی پرکی گئی تاکہ مصارف جنگ جمع کرنے کی دشمن کی کوششوں کوزیادہ سے زیادہ محدودکیاجاسکے،اس کے ساتھ ساتھ ان شورشوں کوفردکیاگیاجنہیں ابوسفیان کی جنگی سفارت نے برپاکردیاتھا،اس کے علاوہ افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا،مرکزاسلام پہلے غزوہ میں ۳۱۳سرفروش پیش کرسکاتھاامیدتھی کہ اگرمکہ نے دوبارہ حملہ کیاتولڑنے والوں کی تعدادایک ہزارکے لگ بھگ ہوگی،پہلے غزوہ میں ہزارکے مقابلے میں تین سوتیرہ تھے یعنی ایک اورتین کی نسبت تھی ،دوسرے غزوہ میں امیدکی جاتی تھی کہ یہ نسبت بہرحال قائم رہے۔

مگر قریش کو مدینہ منورہ کرنے کے لئے دومشکلات کا سامناتھا،ایک تویہ کہ مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کے درمیان بنوکنانہ کاعلاقہ پڑتاتھاجن سے قریش کی کئی پشتوں سے مخاصمت چلی آرہی تھیں ، اب قریش اس شش وپنج میں مبتلاتھے کہ آیابنوکنانہ انہیں اپنے علاقہ سے بخیروخوبی گزرنے دیں گے ،دوسرے یہ کہ اگرانہوں نے راستہ دے بھی دیا توکہیں ہمارے عقب سے سلسلہ منقطع کرکے خودمکہ مکرمہ پرہی حملہ نہ کر کے قبضہ نہ کرلیں جہاں کوئی ہتھیاراٹھانے والاہی نہیں ہوگا،جب بنوکنانہ کے سردارسراقہ بن مالک المدلجی الکنانی کو(جسے غزوہ بدرمیں قریش کی مددنہ کرنے کابے حدافسوس تھا)قریش کی اس پریشانی کاعلم ہوا،تووہ اپنی پچھلی تمام مخاصمتوں اورعداوتوں کوبالائے طاق رکھ کرقریش سے ملنے کے لئے مکہ گیا ،اور مسلمانوں کے خلاف قریش سے اتحادکامعاہدہ طے کرلیا۔معاہدہ میں یہ طے پایاکہ جب مکی لشکر مدینہ پرحملہ کے لئے روانہ ہوگاتوبنوکنانہ انہیں محفوظ راستہ مہیاکریں گے ،اور مسلمانوں کے خلاف ہرممکن امدادبھی دیں گے، اورکسی طورپرمکہ مکرمہ پرحملہ نہیں کریں گے۔اب قریش مکہ کے لئے مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کاراستہ صاف تھا،چنانچہ جب وہ اس طرف سے مطمئن ہوگئے توانہوں نے ابوسفیان بن حرب کولشکر کاسپہ سالار مقررکیا۔

وَجعلت قُرَیْش على میمنتهم فِی الْخَیل خَالِد بْن الْوَلِید وعَلى میسرتهم فِی الْخَیل عِكْرِمَة بْن أبی جهل

قریش نے خالدبن ولیدکوگھوڑوں کے ایک دستہ کے ساتھ میمنہ پراورعکرمہ بن ابوجہل کومیسرہ پر مقرر کیا۔[7]

جنگ میں گھوڑوں کوتازہ دم رکھنے کے لئے ان پرسواری نہیں کی گئی ۔جنگ میں مردوں کو مردانہ وارسینہ ٹھوک کرجنگ کرنے ،شکست خوردگی اورراہ فراراختیارنہ کرنے اور جذبہ جان نثاری کے ابھارنے کاایک ذریعہ عورتیں ہوتی تھیں ،جن کی عزت وناموس کی حفاظت کے لئے عرب اپنی جانوں پرکھیل جاتے تھے ، اس لئے سرداران قریش نے یہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ ان مقاصد کے لئے عورتوں کوبھی ساتھ لیاجائے، اس لئے معزز گھرانوں کی پندرہ یاسترہ عورتیں بھی ساتھ تھیں ۔جن میں عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی ام حکیم بنت الحارث بن الہشام،عمروبن عاص کی بیوی ریطہ بنت سہمیہ ، خالدبن ولیدکی بہن فاطمہ بنت الولید،طائف کے رئیس مسعودثقفی کی بیٹی اورصفوان بن امیہ بن خلف کی اہلیہ برزہ،ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن صفوان کی والدہ برہ بنت مسعودبن عمروبن عمیر الثقفیہ بھی نکلیں ،عمروبن العاص بن وائل کی اہلیہ اورعبداللہ بن عمروبن العاص کی والدہ بریطہ بنت منبہ بن الحجاج ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی والدہ خناس بنت مالک بن المغرب،طلحہ کے بیٹے مسافعہ ،الجلاس اورکلاب کی والدہ سلافہ بنت سعد،بنی حارث بن عبدمناف بن کنانہ کی عورتوں میں عمیرہ بنت علقمہ روانہ ہوئی ،ان عورتوں میں ہندبنت عتبہ زوجہ ابی سفیان بھی تھی جس کاباپ غزوہ بدرمیں ماراگیاتھااوراس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک انتقام نہیں لے لیے گی خوشبونہ لگائے گی ،یہ اپنے باپ کابدلہ لینے کے لئے دوسری عورتوں کی سرداربن کر لشکر کے ساتھ نکلی تھی۔

وَجَعَلَ نِسَاءُ الْمُشْرِكِینَ یَضْرِبْنَ بِالدُّفُوفِ وَالْغَرَابِیلِ، ویحرّضن ویذكرنهم قَتْلَى بَدْرٍ، ویقلن شعرا

چنانچہ ان علاوہ دوسری مشرک عورتیں بھی مل کردف اورڈھول بجاتی بدرکے مقتولین پرروتیں ،شکست پرغیرت دلاتیں ،انتقام پر ابھارتیں اورمقابلہ کے وقت مردوں کو مردانہ وار جنگ کرنے ،شکست خوردگی اورراہ فراراختیارنہ کرنے پر ابھارتی ہوئی روانہ ہوئیں ۔[8]

قریش کواپنی کامیابی کاپورایقین تھا،اس لئے کامیابی کے بعدعیاشی کے لئے لشکر کے ساتھ ڈھول ،گانے کے آلات شراب اورفاحشہ عورتیں بھی تھیں ۔

أبو عامر الفاسق، واسمه عبد عمرو بن صیفی، وَكَانَ یُسَمَّى: الرَّاهِبَ، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْفَاسِقَ

اورعامر راہب جس کانام عبدعمروبن صیفی تھا اورجاہلیت میں راہب کے نام سے پکاراجاتاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام راہب کی جگہ فاسق رکھ دیاتھا[9]

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُولُوا: الرَّاهِبَ، وَلَكِنْ قُولُوا: الْفَاسِقَ

ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے راہب نہیں بلکہ اسے فاسق کہو۔[10]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کے کچھ عرصہ بعد مکہ مکرمہ چلاآیاتھا،اورقریش مکہ کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اکساتا رہتاتھا،وہ بھی سترگھوڑسواروں کے ساتھ روانہ ہوا ، اس نے قریش مکہ سے کہاچلواس بارتوخوب مزاآئے گا۔

 وَكَانَ یَعِدُ قُرَیْشًا أَنْ لَوْ قَدْ لَقِیَ قَوْمَهُ لَمْ یَخْتَلِفْ عَلَیْهِ مِنْهُمْ رَجُلَانِ

محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے مقابلہ میں جہاں میں نکلاقبیلہ اوس کے سارے لوگ میرے گرداکٹھاہوجائیں گے ،محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ایک بھی نہ رہے گا۔

اس ساتھی مکہ مکرمہ کے نچلے حصہ میں احابیش حبیش کے پاس جمع ہوئے ،وہاں انہوں نے پختہ عہد کیا کہ جب تک راتوں میں اندھیرااوردن میں روشنی باقی ہے اورجب تک حبیش پہاڑ اپنی جگہ قائم ہے ہم قریش کے ساتھ ان کے دست وبازوبن کررہیں گے ۔

فی شوال سنة ثلاث بالاتفاق

قریش کا یہ لشکر جرارنہایت کروفرسے پانچ یاسات شوال ۳ہجری کومکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔[11]

فَتَعَالَوْا نَنْبُشُ قَبْرَ أُمّ مُحَمّدٍ، فَإِنّ النّسَاءَ عَوْرَةٌ، فَإِنْ یُصِبْ مِنْ نِسَائِكُمْ أَحَدًا قُلْتُمْ هَذِهِ رِمّةُ أُمّك، فَإِنْ كَانَ بَرّا بِأُمّهِ كَمَا یَزْعُمُ، فَلَعَمْرِی لَیُفَادِیَنّكُمْ بِرِمّةِ أُمّهِ

اور جب لشکرمقام ابواء (جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی قبرہے) پرپہنچا تو ابوسفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ نے رائے ظاہرکی کہ موقع اچھاہے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی والدہ کی قبر اکھیڑ دی جائے،ہم میں سے کوئی قیدہواتوجسم کاایک ایک ٹکڑافدیہ میں دے دیں گے ۔

لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی قبرکی بے حرمتی کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی ، قریش اس سنگین نتائج سے اچھی طرح واقف تھے، اس لئے اس رائے کو مستردکر دیاگیا فَقَالُوا:لَا تَذْكُرْ مِنْ هَذَا شَیْئًا، فَلَوْ فَعَلْنَا نَبَشَتْ بَنُو بَكْرٍ وَخُزَاعَةُ مَوْتَانَا

اورکہاایسابھول کربھی نہ کرناورنہ بنی خزاعہ اور بنی بکرہمارے مردوں کی ساری قبریں کھودکھودکررکھ دیں گے۔[12]

لشکرقریش دن رات سفر کرتے ہوئے سات دن بعد بارہ شوال بروزبدھ مدینہ منورہ کے مقابل میدان ذی الحلیفہ میں احد پہاڑکی سمت وادی میں اترے اورتین دن یہاں قیام کیا۔

جبل احد:

جبل احدمدینہ منورہ کی شمالی جانب واقع ایک پہاڑہے جومسجدنبوی سے ساڑھے پانچ کلومیٹردورہے،اس پہاڑکی لمبائی مشرق سے مغرب کی جانب تقریباً چھ کلو میٹر ہے اوراس کارنگ سرخی مائل ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرآخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردے دی تھی کہ مشرکین غزوہ بدرکابدلہ لینے کے لئے جوش وخروش سے مدینہ منورہ پرحملہ کریں گے اورتسلی دیتے ہوئے فرمایامگرگھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،اللہ تمہاری فرشتوں کے ذریعے مددفرمائے گا۔

بَلٰٓى۝۰ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِیْنَ۝۱۲۵ [13]

ترجمہ:بے شک ، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اُوپر چڑھ کر آئیں گے اُسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں ) پانچ ہزار صاحبِ نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔

كَتَبَ الْعَبّاسُ ابن عَبْدِ الْمُطّلِبِ كِتَابًا وَخَتَمَهُ، وَاسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِی غِفَارٍ وَاشْتَرَطَ عَلَیْهِ أَنْ یَسِیرَ ثَلَاثًا إلى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَدِمَ الْغِفَارِیّ فَلَمْ یجد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالمدینة وَوَجَدَهُ بِقُبَاءَ ،فَدَفَعَ إلَیْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَهُ عَلَیْهِ أُبَیّ بْنُ كَعْبٍ وَاسْتَكْتَمَ أُبَیّا مَا فِیهِ

ادھر عباس نے بھی قریش کی جنگی تیاریوں اورروانگی کی اطلاع پہنچانے کے لئے ایک سربمہر خط لکھ کرقبیلہ غفارکے ایک تیزرفتارقاصدکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا اور اسے تاکیدکی کہ وہ مسلسل سفرکرتے ہوئے یہ خط تین دن کے اندراندررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادے،قاصدنے ایساہی کیا،اورتین دن کے اندراندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ کی بجائے مقام قباءپر پاکر عباس رضی اللہ عنہ کاخط نامہ پہنچادیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط کی مہرکھول کر ابی بن کعب کوپڑھنے کے لئے دیاانہوں نے خط پڑھ کرسنایاجس میں لکھا تھا۔

أَنْ قُرَیْشًا قَدْ أَجْمَعَتْ الْمَسِیرَ إلَیْك فَمَا كُنْت صَانِعًا إذَا حَلّوا بِك فَاصْنَعْهُ. وَقَدْ تَوَجّهُوا إلَیْك ، وَهُمْ ثَلَاثَةُ آلَافٍ، وَقَادُوا مِائَتَیْ فَرَسٍ، وَفِیهِمْ سَبْعُمِائَةِ د ِرَاعٍ وَثَلَاثَةُ آلَافِ بَعِیرٍ، وَأَوْعَبُوا مِنْ السّلَاحِ

قریش مکہ نےاپنے مقتولین کا انتقام لینے کے لئےایک بڑالشکرجمع کیا ہے اپنافکرکریں ،ان کی تعدادتین ہزارہے ،دوسوگھوڑے ہیں ،سات سوزرہیں ہیں ،تین ہزاراونٹ ہیں اورسب اسلحہ سے لیس ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کوصیغہ راز میں رکھنے کی ہدایت فرمائی تاکہ اس اچانک خبرسے اہل مدینہ میں اضطراب نہ پھیل جائے،

فَدَخَلَ مَنْزِلَ سَعْدِ بْنِ الرّبِیعِ فَقَالَ: فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: لَا، فَتَكَلّمْ بِحَاجَتِك. فَأَخْبَرَهُ بِكِتَابِ الْعَبّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، وَجَعَلَ سَعْدٌ یَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنّی لَأَرْجُو أَنْ یَكُونَ فِی ذَلِكَ خَیْر، فَلَمّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرّبِیعِ إلیه فقال: مَا قَالَ لَك رَسُولُ اللهِ؟فَقَالَ: مَا لَك وَلِذَلِكَ، لَا أُمّ لَك؟ قَالَتْ: قَدْ كُنْت أَسْمَعُ عَلَیْك. وَأَخْبَرَتْ سَعْدًا الْخَبَرَ،فقال: یا رسول اللهِ، إنّ امْرَأَتِی سَأَلَتْنِی عَمّا قُلْت، فَكَتَمْتهَا فَقَالَتْ قَدْ سَمِعْت قَوْلَ رَسُولِ اللهِ! فَجَاءَتْ بِالْحَدِیثِ كُلّهِ، فَخَشِیت یَا رَسُولَ اللهِ أَنْ یَظْهَرَ مِنْ ذَلِكَ شَیْءٌ فَتَظُنّ أَنّی أَفْشَیْت سِرّك ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَلّ سَبِیلَهَا

پھرآپ سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھاکیاگھرمیں کوئی ہے؟سعدنے کہانہیں ،پھرانہیں بھی عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے خط کے مضمون سے مطلع فرمایا،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے امیدہے کہ اس میں بہتری ہی ہوگی ،آپ نے انہیں بھی اس بات کورازمیں رکھنے کی ہدایت فرمائی،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے تشریف لے گئے توان کی بیوی نے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہااے ام محمد!بھلاتمہیں اس بات سے کیا واسطہ،اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ فرمایاہے میں نے سن لیاہے اوروہ سب باتیں شوہرسے بیان کردیں ،یہ سن کرانہوں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ پڑھی اوربیوی کاہاتھ پکڑکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے جوکچھ فرمایاتھامیری بیوی نے سن لیاہےاورمجھے اندیشہ ہواکہ کہیں یہ خبرفاش ہوجائے اورآپ یہ خیال فرمائیں کہ میں نے ہی یہ رازفاش کیاہے حالانکہ آپ نے اسے مخفی رکھنے کے لئے فرمایاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کوچھوڑدو۔[14]

فبعث رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَیْنَیْنِ لَهُ: أَنَسًا وَمُؤنسًا ابْنَیْ فَضَالَةَ الظَّفَرِیَّیْنِ، لَیْلَةَ الْخَمِیسِ لِخَمْسٍ مَضَتْ مِنْ شَوَّالٍ، فَأَتَیَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بخبرهم، وَأَنَّهُمْ قَدْ حَلُّوا إِبِلَهُمْ وَخَیْلَهُمْ فِی الزَّرْعِ الذ بِالْعَرِیضِ حَتَّى تَرَكُوهُ لَیْسَ بِهِ خَضْرَاء، ثُمَّ بَعَثَ الْحُبَابَ بْنَ الْمُنْذِرِ بْنِ الْجَمُوحِ إِلَیْهِمْ أَیْضًا، فَدَخَلَ فِیهِمْ فحزرهم، وجاء بعلمهم

جب پانچ شوال تین ہجری(سترہ جنوری ۶۳۵ئ) کو عباس رضی اللہ عنہ کاخط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوملا ،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً دوخبررسا ں انس رضی اللہ عنہ اور مونس رضی اللہ عنہ کوقریش کی خبرلانے لئے روانہ فرمایاکہ وہ معلوم کریں کہ قریش کا لشکرکہاں تک پہنچاہے،انہوں نے واپس آکراطلاع دی کہ قریش کالشکرمدینہ منورہ کے قریب آپہنچاہے اوران کے گھوڑوں نے عریض (مدینہ منورہ کی ایک چراگاہ) کو صاف کردیاہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو لشکرقریش کااندازہ لگانے کے لئے روانہ فرمایا،دشمن کالشکرتین یاچارمیل سے زیادہ دورنہ تھااس لئے حباب رضی اللہ عنہ بن منذراپنے مشن سے جلدفارغ ہوکرلوٹے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوٹھیک اندازہ اورصحیح تخمینہ سے اطلاع دی۔[15]

کوئی تاریخ اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ اس خبرکی وجہ سے مدینہ منورہ میں کسی قسم کی کوئی دہشت ،سراسمیگی یاپریشانی محسوس کی گئی ہو۔

وبات سعید بْنُ مُعَاذٍ وَأُسَیْدُ بْنُ حَضِیرٍ وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فِی عِدَّةٍ لَیْلَة الْجُمُعَةِ عَلَیْهِمُ السِّلاحُ فِی الْمَسْجِدِ بِبَابِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ علیه وسلّم ، وحرمت الْمَدِینَةُ حَتَّى أَصْبَحُوا

خطرے کے پیش نظرمدینہ منورہ کے اطراف میں پہرے لگادیئے گئے اور سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ، سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ اور اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے ہتھیاربند ہوکر تمام رات مسجدنبوی کاپہرہ دیا۔[16]

مجلس شوریٰ کااجلاس :

صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجمع کر انہیں مشرکین کے لشکراوران کے موجودہ قیام کی تمام تر صورت حال سے اگاہ کرکے مشورہ طلب فرمایا اور اپناخواب بیان فرمایا

إنِّی قَدْ رَأَیْتُ وَاَللَّهِ خَیْرًا، رَأَیْتُ بَقَرًا، وَرَأَیْتُ فِی ذُبَابِ سَیْفِی ثَلْمًا، وَرَأَیْتُ أَنِّی أَدْخَلْتُ یَدِی فِی دِرْعٍ حَصِینَةٍ، فَأَوَّلْتُهَا الْمَدِینَةَ، فَأَمَّا الْبَقَرُ فَهِیَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِی یُقْتَلُونَ، وَأَمَّا الثَّلْمُ الَّذِی رَأَیْتُ فِی ذُبَابِ سَیْفِی، فَهُوَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَیْتِی یُقْتَلُ

میں نے خواب میں گائے ذبح ہوتے دیکھی ہے اوراپنی تلوارکی دھارٹوٹتے بھی دیکھی ہے اورمیں نے یہ بھی دیکھاہے کہ میں نے اپناہاتھ ایک مضبوط زرہ میں داخل کیاہے میں نے اس کی تعبیرمدینہ منورہ کی ہے،گائے ذبح ہونے میں اس طرف اشارہ ہے کہ میرے اصحاب میں سے کچھ آدمی شہید ہوں گے، اورمیری تلوار کی دھارٹوٹنے کامطلب یہ ہے کہ میراکوئی عزیزاس جنگ میں شہید ہو گا ۔[17]

 فَإِنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُقِیمُوا بِالْمَدِینَةِ وَتَدْعُوهُمْ حَیْثُ نَزَلُوا، فَإِنْ أَقَامُوا أَقَامُوا بِشَرِّ مُقَامٍ وَإِنْ هُمْ دَخَلُوا عَلَیْنَا قَاتَلْنَاهُمْ فِیهَا

پھر فرمایااگر تمہاری رائے ہوکہ ہم مدینے میں ٹھہریں اورقریش نے جہاں پڑاؤڈالاہے وہیں انہیں رہنے دیاجائے تویہ بات خودان کے لئے ٹھیک نہ ہوگی کیونکہ انہوں نے بہت غلط مقام پرپڑاؤڈالاہے، اوراگروہ مدینہ میں داخل ہوئے توہم ان سے گلی کوچوں میں لڑیں گے اور مکانوں سے ان پرپتھربرسائیں گے۔[18]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أُرَى عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:رَأَیْتُ فِی رُؤْیَایَ أَنِّی هَزَزْتُ سَیْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِیبَ مِنَ المُؤْمِنِینَ یَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ بِهِ اللَّهُ مِنَ الفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ المُؤْمِنِینَ، وَرَأَیْتُ فِیهَا بَقَرًا، وَاللَّهُ خَیْرٌ، فَإِذَا هُمُ المُؤْمِنُونَ یَوْمَ أُحُدٍ

اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایامیں نے خواب دیکھاکہ میں نے تلوارکوہلایااوراس سے اس کی دھارٹوٹ گئی،اس کی تعبیرمسلمانوں کی اس نقصان کی شکل میں ظاہرہوئی جوغزوہ احدمیں اٹھاناپڑاتھا،پھرمیں نے دوبارہ اس تلوارکوہلایاتوپھروہ اس سے بھی زیادہ عمدہ ہوگئی جیسی پہلے تھی،اس کی تعبیراللہ تعالیٰ نے فتح اورمسلمانوں کے ازسرنواجتماع کی صورت میں ظاہرکی،میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی (جوذبح ہورہی تھی)اوراللہ تعالیٰ کے تمام کام خیروبرکت لیے ہوئے ہوتے ہیں ،اس کی تعبیروہ مسلمان تھے (جو)احدکی لڑائی میں شہیدہوئے۔[19]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں مہاجرین وانصارکے اکابرین شامل تھے مشورہ دیاکہ کیونکہ دشمن کالشکرمدینہ کے بالکل قریب پہنچ گیاہے اس لئے حفاظت کے پیش نظر عورتوں کوشہرسے باہرقلعوں میں بھیج دیاجائے اور پھرشہرکے اندررہ کران کامقابلہ کیاجائے۔

وَكَانَ رَأْیُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ ابْنِ سَلُولَ مَعَ رَأْیِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَرَى رَأْیَهُ فِی ذَلِكَ، وَأَلَّا یَخْرَجَ إلَیْهِمْ

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی مجلس میں شریک تھااس سے بھی مشورہ طلب کیاگیاعبداللہ بن ابی سلول کی رائے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے سے موافق تھی اوریہی چاہتاتھاکہ مسلمان شہرسے باہرنکل کر جنگ کرنے کے بجائے شہرپناہ کے اندررہ کرمقابلہ کریں ۔[20]

اوربہتربھی یہی تھالیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ جماعت جوغزوہ بدرسے پیچھے رہ گئی تھی، جنہیں غزوہ بدرمیں شامل نہ ہونے کادکھ تھا،جوغازی کے لقب سے ملقب ہونے یا شہید ہوکراللہ تعالیٰ سے چھ انعامات حاصل کرنے کے لئے بے قرار تھے۔

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ الْكِنْدِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ لِلشَّهِیدِ عِنْدَ اللَّهِ تِسْعَ خِصَالٍ – أَنَا أَشُكُّ – یَغْفِرُ اللَّهُ ذَنْبَهُ فِی أَوَّلِ دُفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ، ویُرَى مِقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَیُحَلَّى بِحِلْیَةِ الْإِیمَانِ، وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُؤَمَّنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، كُلُّ یَاقُوتَةٍ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا، وَیُزَوَّجُ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ زَوْجَةً مِنْ حُورِ الْعِینِ، وَیَشْفَعُ فِی سَبْعِینَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ شہیدکواللہ تعالیٰ پاس نو باتیں ملتی ہیں (بعض روایات میں چھ باتوں کاذکرہے)شہیدکے خون کاقطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی گناہوں کو(سوائے قرض کے)معاف کردیاجاتاہے،شہیدکو جنت کامکان دکھلادیاجاتاہے، شہید حشرکے دن جوبڑی گھبراہٹ ہوگی اس سے محفوظ رہے گا، اس کے سرپروقارکاتاج رکھ دیاجاتاہے جویاقوت سے مرصح ہوتاہے جویہ دنیااورمافیہاسے بہترہے،شہید عذاب قبرسے بچالیاجاتاہے،شہیدکو ایمان کے زیورسے آراستہ کردیا جاتا ہے،ا ورنہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کانکاح کرادیا جاتا ہے، اوراپنے خاندان کے سترشخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔[21]

وہ لوگ بھی مجلس مشاورت میں شامل تھے ،انہوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم تواس دن متمنی اور مشتاق تھے اور اس دن کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے، اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایاہے ،اورمسافت بھی دورنہیں توہمیں دشمن کاکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔

فَقَالَ رِجَالٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، مِمَّنْ أَكْرَمَ اللهُ بِالشَّهَادَةِ یَوْمَ أُحُدٍ وَغَیْرِهِ، مِمَّنْ كَانَ فَاتَهُ بَدْرٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، اُخْرُجْ بِنَا إلَى أَعْدَائِنَا، لَا یَرَوْنَ أَنَّا جَبُنَّا عَنْهُمْ وَضَعُفْنَا؟

مسلمانوں میں سے وہ لوگ جن کوشہادت سے فائزہوناتھااوروہ لوگ بدرکی جنگ میں شریک نہ تھے عرض کرنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کوساتھ لے کرآپ دشمنوں کے مقابلہ پرنکلیں اگرہم نے مدینہ میں رہ کردشمنوں سے مدافعت کی تووہ ہمیں اللہ کی راہ میں بزدل تصور کریں گے۔[22]

فَقَالَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: وَاَلّذِی أَنْزَلَ عَلَیْك الْكِتَابَ، لَا أَطْعَمُ الْیَوْمَ طَعَامًا حَتّى أُجَالِدَهُمْ بِسَیْفِی خَارِجًا مِنْ الْمَدِینَةِ

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اپنے عزم کامظاہرہ کرتے ہوئے کہاقسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پرکتا ب نازل فرمائی ہے میں اس وقت تک کھانانہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ منورہ باہرنکل کردشمنوں کواپنی تلوارسے مقابلہ نہ کر لوں ۔[23]

فَأَتَاهُ النُّعْمَانُ بْنُ مَالِكٍ الأَنْصَارِیُّ، فَقَالَ:یا رسول الله لا تحرمنی الجنه، فو الذى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لأَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ، فَقَالَ لَهُ: بِمَ؟قَالَ: بِأَنِّی أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، وَأَنِّی لا أَفِرُّ مِنَ الزَّحْفِ،قَالَ: صَدَقْتَ

نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ انصاری تشریف لائے اورانہوں نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں جنت سے محروم نہ کریں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کوحق دے کرمبعو ث کیاہے میں ضرور جنت میں داخل ہوکررہوں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکس بناپر؟انہوں نے عرض کیااس لئے کہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوربیشک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، اورمیں لڑائی میں کبھی نہیں بھاگتا،آپ نے فرمایاتونے سچ کہا۔[24]

بِأَنِّی أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا أَفِرُّ یَوْمَ الزَّحْفِ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتَ

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اس وجہ سے کہ میں اللہ اوراس کے رسول کومحبوب رکھتا ہوں اورمیں لڑائی سے کبھی نہیں بھاگتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتونے سچ کہا۔[25]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصارکے نوجوانوں کاشوق شہادت دیکھاکہ وہ راہ للہ جان دینے کوتیاروبے چین ہیں ، تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ شوق شہادت کے پیش نظرمدینہ منورہ سے باہررہ کرلڑنے کافیصلہ فرمایا۔

مگرمیجرجنرل اکبرخاں اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نوخیزصحابہ کے اصرارپراپناارادہ بدلنے پرتیارہوگئے ،ان کاکہناہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے کسی پرظاہرنہ فرمائی البتہ جنگ کے لئے تیارہوجانے کاحکم صادرفرمایا،آپ کے اس سکوت پرلوگوں کوکچھ حیرت ہوئی اورانہوں نے اپنے خیالات میں اس کا اظہار بھی کیا،لیکن جلدہی سب اس ترددپرنادم ہوئے،اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عادت شریفہ کاذہن میں رکھاجائے کہ آپ اپناارادہ ظاہرنہیں فرماتے تھے تو میجر جنرل کایہ خیال بعیدازقیاس معلوم نہیں ہوتا،اس کے علاوہ آنے والے واقعات کی منطقی کڑیاں بھی اسی وقت مربوط ہوتی ہیں جب ہم یہ قبول کرکے چلیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی رائے سنی لیکن اپنی رائے کااظہارنہیں فرمایا،اورصرف جنگ کی تیاری کرنے کاحکم صادرکرنے پرہی اکتفاکیا،میجرجنرل کاخیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپرچہ نویسوں اور جاسوسوں کے ذریعے دشمن کے جنگی منصوبوں کاعلم ہوچکاتھا،مجلس مشاورت میں عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب مدینے کے اندررہ کرجنگ کرنے کامشورہ دیااوراس پر اصرار کیاتوان معلومات کی تصدیق ہوگئی ،اورآپ نے ایک دانشمنداوراعلیٰ پائے کے فوجی جرنیل کی حیثیت سے دشمن کے منصوبے کوخاک میں ملانے کے لئے اس کے بالکل الٹ اقدام فرمایا،اورمدینہ سے باہرنکل کرجنگ لڑنے کافیصلہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فقرہ توجہ طلب ہے

فَإِنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُقِیمُوا بِالْمَدِینَةِ وَتَدْعُوهُمْ حَیْثُ نَزَلُوا، فَإِنْ أَقَامُوا أَقَامُوا بِشَرِّ مُقَامٍ

اگرتمہاری رائے ہوکہ ہم مدینے میں ٹھہریں اورقریش نے جہاں پڑاؤڈالاہے وہیں انہیں رہنے دیاجائے تویہ بات خودان کے لئے ٹھیک نہ ہوگی کیونکہ انہوں نے بہت غلط مقام پرپڑاؤڈالاہے۔[26]

کیایہ سمجھنامشکل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم الشان فوجی جرنیل کی حیثیت سے جنگی نقطہ نظرسے دشمن کی اس غلطی سے فائدہ اٹھانے کوکیوں مناسب نہیں سمجھاہوگا، اور یہ رائے کیوں قائم کی ہوگی کہ اس غلطی سے فائدہ اٹھائے بغیرمدینے کے اندررہ کرحملے کامقابلہ کرناچاہیے۔

فَلَّمَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ وَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، وَأَمَرَهُمْ بِالْجِدِّ وَالْجِهَادِ،وَأَخْبَرَهُمْ أَنّ لَهُمْ النّصْرَ مَا صَبَرُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالتّهَیّؤِ لِعَدُوّهِمْ

یہ جمعہ کادن تھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوپورے سکون واطمینان کے ساتھ نمازجمعہ پڑھائی،اوراپنے خطبہ میں ان کوجہادفی سبیل اللہ کاجوش دلایااورانتہائی جدوجہدکی ضرورت پرزوردیا۔[27]

اورمسلمانوں کوتسلی دی کہ اگرصبرسے کام لوگے اوراللہ سے ڈرتے رہوگے، تواللہ تعالیٰ جس کے ہاتھ میں فتح ونصرت ہے تمہاری مددکے لئے تین ہزارفرشتے نہیں بلکہ پانچ ہزار فرشتے نازل فرمائے گا،اور یہ تمہارے لئے کوئی حیران کن امرنہیں ہوناچاہئے کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ جنگ بدرمیں تمہاری تین ہزارفرشتوں کے ذریعے سے مدد کر چکاہے، حالانکہ اس وقت تم انتہائی کمزوراوربے سروساماں تھے ،لہذاتم کوچاہئے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو ،امیدہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے۔ نیزدشمن کے مقابلے کے لئے پوری تیاری کاحکم دیا۔

فَفَرِحَ النّاسُ بِذَلِكَ حَیْثُ أَعْلَمَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالشّخُوصِ إلَى عَدُوّهِمْ

یہ حکم سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کربہت خوش ہوئےاور انہوں نے رب کی جنتوں میں جانے کاعزم صمیم کرلیا۔

عمروبن جموع رضی اللہ عنہ کاشوق شہادت :

عمروبن جموع رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شامل نہیں ہوسکے تھے مگر اس موقع پرپیچھے نہ رہے جنگ میں شرکت کے لئے تیارہوگئے۔

كَانَ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ رَجُلًا أَعْرَجَ شَدِیدَ الْعَرَجِ،وَكَانَ لَهُ بَنُونَ أَرْبَعَةٌ مِثْلَ الْأُسْدِ، یَشْهَدُونَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَشَاهِدَ،فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ أُحُدٍ أَرَادُوا حَبْسَهُ، وَقَالُوا: إِنَّ اللهَ قَدْ عَذَرَكَ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إنَّ بَنِیَّ یُرِیدُونَ أَنْ یَحْبِسُونِی عَنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْخُرُوجِ مَعَك فِیهِ، فو الله إنِّی لَأَرْجُو أَنْ أَطَأَ بِعَرْجَتِی هَذِهِ فِی الْجَنَّةِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَنْتَ فَقَدْ عَذَرَكَ اللهُ فَلَا جِهَادَ عَلَیْكَ ،وَقَالَ لِبَنِیهِ: مَا عَلَیْكُمْ أَنْ لَا تَمْنَعُوهُ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ یَرْزُقَهُ الشَّهَادَةَ فَخَرَجَ مَعَهُ فَقُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ ،فَأَخَذَ سِلاحَهُ وَوَلَّى، فَلَمَّا وَلَّى أَقْبَلَ عَلَى الْقِبْلَةِ وَقَالَ: اللهُمَّ ارْزُقْنِی الشَّهَادَةَ، وَلا تَرُدَّنِی إِلَى أَهْلِی خَائِبًا،فَخَرَجَ مَعَهُ فَقُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لأَبَرَّهُ، مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یَطَأُ فِی الْجَنَّةِ بِعَرَجَتِهِ

عمروبن جموح رضی اللہ عنہ کی ٹانگ میں اس قدر لنگ تھاکہ وہ لنگڑاکربھی مشکل سے چل سکتاتھے،اوران چاربیٹے تھے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کرشیروں کی طرح جہاد کیا کرتے تھے،جب غزوہ احدکاموقعہ آیاتووہ اس میں شرکت پرمصرتھےاس لئے ان کے چاروں بیٹوں نے اسے یہ کہاکہ معذورں پرجہادمیں شرکت لازمی نہیں ہےلیکن اس نے اصرارکیاکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیاجائے، چنانچہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیاگیاانہوں نےعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے بیٹوں نے مجھے میرے لنگ کی وجہ سے محبوس کردیاہے اورمیں چاہتاہوں کہ آپ کے ساتھ جہادکروں ، اللہ کی قسم مجھے امیدہے کہ اگرمیں لڑائی میں مارا گیا تو اس پاؤں کوگھسیٹتاہواجنت میں جاؤں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے تمہیں جہادمیں شامل نہ ہونے کاعذردیاہے تم پرجہادفرض نہیں ہے،اوران کے بیٹوں سے فرمایاجب تمہارے باپ کی یہی خواہش ہے تب پھرتم ان کوکیوں منع کرتے ہوشایدان کی قسمت میں شہادت ہی لکھی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت ملنے پرخوشی خوشی گھرلوٹے اورجنگ کے لئے ہتھیارسنبھالےاورقبلہ رخ ہوکردعامانگی اے اللہ مجھے شہادت نصیب فرمانااورگھروالوں کی طرف واپس نہ کر نا،پھروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احدپرروانہ ہوئے اورشہیدہوگئے،ان کی شہادت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر کوئی شخص اللہ کی قسم کھالے تو اسے پورا کرلے کیونکہ میں نے عمروبن جموح رضی اللہ عنہ کوجنت میں پروں سے اڑتے ہوئے دیکھاہے۔[28]

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام کاشوق شہادت:

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِی أَبِی مِنَ اللَّیْلِ، فَقَالَ: مَا أُرَانِی إِلَّا مَقْتُولًا فِی أَوَّلِ مَنْ یُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّی لاَ أَتْرُكُ بَعْدِی أَعَزَّ عَلَیَّ مِنْكَ، غَیْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ عَلَیَّ دَیْنًا فَاقْضِ، وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَیْرًا، «فَأَصْبَحْنَا، فَكَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِی قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِی أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الآخَرِ، فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا هُوَ كَیَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَیَّةً غَیْرَ أُذُنِهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب غزوہ احدکاوقت قریب آیاتورات کومیرے والدعبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام نے مجھےاپنے قریب بلایا،اورکہااے بیٹے!مجھے ایسادکھائی دیتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب میں سب سے پہلے مقتول میں ہی ہوں گا، اوردیکھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ میں تم سے زیادہ کسی کوعزیزنہیں جانتا،مجھ پرکچھ قرض ہے اس لئے تم میراقرض اداکردینا،اوراپنی(نو) بہنوں سے اچھی طرح برتاؤ کرنا۔ [29]

 خثیمہ رضی اللہ عنہ کاشوق شہادت:

غزوہ بدرکے موقع پر خثیمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سعد رضی اللہ عنہ سے کہاتھااے بیٹا!ہم میں سے ایک کاعورتوں اوربچوں کی حفاظت کے لئے گھر پر رہناضروری ہےتم میرے لئے ایثارکرواوریہاں رک جاؤ،اورمجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے کی اجازت دے دو، مگر سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے والدکی یہ بات ماننے سے صاف انکارکردیاتھا،اورعرض کیااے میرے باپ!جنت کے سوااگرکوئی اورمعاملہ ہوتاتومیں آپ کے لئے ضرورایثارکرتا،اور آپ کواپنے نفس پرترجیح دیتا،لیکن میں اس سفرمیں اپنے شہیدہونے کی قوی امیدرکھتاہوں ،اس پر خثیمہ رضی اللہ عنہ نے قرعہ اندازی کی تجویزدی جو سعد رضی اللہ عنہ نے تسلیم کرلی ،چنانچہ دونوں باپ بیٹے میں اس سفرکے بارے میں قرعہ اندازی ہوئی، اور قرعہ سعد رضی اللہ عنہ کے نام ہی نکلا،

وَقَالَ خیثمة أبو سعد، وَكَانَ ابْنُهُ اسْتُشْهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمِ بَدْرٍ:لَقَدْ أَخْطَأَتْنِی وَقْعَةُ بَدْرٍ، وَكُنْتُ وَاللهِ عَلَیْهَا حَرِیصًا، حَتَّى سَاهَمْتُ ابْنِی فِی الْخُرُوجِ، فَخَرَجَ سَهْمُهُ، فَرُزِقَ الشَّهَادَةَ

اب سعد رضی اللہ عنہ اپنے والد خثیمہ رضی اللہ عنہ سے خوش قسمت ثابت ہوئے ،وہ اجازت لے کرخوشی خوشی شوق شہادت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بدرکی طرف روانہ ہوئے اورشہیدہوگئے تھے،اس غزوہ کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! افسوس غزوہ بدرمجھ سے رہ گیاحالانکہ میں اس میں شرکت کابڑاہی مشتاق اورحریص تھا،یہاں تک کہ اس سعادت عظیم کو حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنے بیٹے سعد رضی اللہ عنہ سے قرعہ اندازی کی تھی، مگرشہادت میرے بیٹے کی قسمت میں لکھی ہوئی تھی ، اس لئے قرعہ اس کے نام نکلااورمیں پیچھے رہ گیا،

وَقَدْ رَأَیْتُ الْبَارِحَةَ ابْنِی فِی النَّوْمِ فِی أَحْسَنِ صُورَةٍ یَسْرَحُ فِی ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَأَنْهَارِهَا، وَیَقُولُ: الْحَقْ بِنَا تُرَافِقْنَا فِی الْجَنَّةِ، فَقَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقَّا، وَقَدْ وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ أَصْبَحْتُ مُشْتَاقًا إِلَى مُرَافَقَتِهِ فِی الْجَنَّةِ، وَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّی، وَرَقَّ عَظْمِی، وَأَحْبَبْتُ لِقَاءَ رَبِّی

آج رات میں نے اپنے بیٹے کوخواب میں دیکھاہے جونہایت حسین وجمیل شکل وصورت میں جنت باغات اورنہروں میں گھومتاپھرتاہے اورمجھ سے کہتاہے کہ اے میرے باپ تم بھی یہیں میرے پاس آجاؤہم دونوں مل کرجنت میں رہیں گے ، میرے پروردگارنے مجھ سے جووعدہ فرمایا تھا میں نے اسے حق پایا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے بیٹے سے ملنے کامشتاق ہوں اب جبکہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اورمیری ہڈیاں بھی کمزورہوگئی ہیں میری تمناہے کہ کسی طرح اپنے رب سے جاملوں ،

 فَادْعُ اللهَ یَا رَسُولَ اللهِ أَنْ یَرْزُقَنِی الشَّهَادَةَ، وَمُرَافَقَةَ سعد فِی الْجَنَّةِ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقُتِلَ بِأُحُدٍ شَهِیدًا

اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ اللہ مجھے شہادت نصیب کرے اورمجھے جنت میں سعدکے ساتھ کردے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خثیمہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعافرمائی، اوراللہ نے آپ کی دعاکوقبول ومقبول فرمایا اور خثیمہ رضی اللہ عنہ احدمیں شہید ہوئے۔[30]

صحابیات کاجذبہ خدمت :

غزوہ بدرمیں ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں بھی جہادفی سبیل اللہ میں شریک ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ وہ مریضوں کی تیمارداری کر سکیں ، لیکن چونکہ باقاعدہ لڑائی کاخدشہ ہی نہیں تھااس لئے انہیں ساتھ نہیں لیاگیا تھا،لیکن اس غزوہ (اُحد)میں مریضوں وزخمیوں کی تیمارداری کے لئے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ام سلیم رضی اللہ عنہا ، عمروبن جموع کی زوجہ ام سلیط رضی اللہ عنہا ، ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ اوردوسری صحابیات شامل تھیں ،

ثُمّ صَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالنّاسِ،كَانَ مَالِكُ بْنُ عَمْرٍو النّجّارِیّ مَاتَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلَمّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِسَ لَأْمَتَهُ ثُمّ خَرَجَ وَهُوَ مَوْضُوعٌ عِنْدَ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ صَلّى عَلَیْهِ،وَقَدْ حَشَدَ النّاسُ وَحَضَرَ أَهْلُ الْعَوَالِی ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْتَهُ، وَمَعَهُ أَبُو بكر وعمر فعماه وَلَبَّسَاهُ، وَصُفَّ النَّاسُ یَنْتَظِرُونَ خُرُوجَهُ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز عصرپڑھائی، قبیلہ نجار ایک انصاری مالک رضی اللہ عنہ بن عمروکاجمعہ کے دن انتقال ہوگیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ گاہ میں ان کی نمازجنازہ پڑھائی، اس وقت تک صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ اور اردگردکی جگہوں سے جمع ہوگئے تھے، نمازکے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا،برزخ اورآخرت کے ساتھی سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ گھرتشریف لے گئے،انہوں نے آپ کے سرپرپگڑی باندھی اورآپ کو ہتھیار اورنیچے اوپردوزرہ پہنائی،صحابہ رضی اللہ عنہم باہرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کا انتظارکررہے تھے،

فَقَالَ لَهُمْ سَعْد بْنُ مُعَاذٍ وَأُسَیْدُ بْنُ حَضِیرٍ: اسْتَكْرَهْتُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على الْخُرُوجِ فَرُدُّوا الأَمْرَ إِلَیْهِ،فَخَرَجَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ لَبِسَ لأَمْتَهُ، وَأَظْهَرَ الدِّرْعَ وَحزم وَسَطَهَا بِمِنْطَقَةٍ مِنْ أَدَمٍ من حمائل السیف، وَاعْتَمَّ وَتَقَلَّدَ السَّیْفَ، وَأَلْقَى التِّرْسَ فِی ظَهْرِهِ، فَنَدِمُوا جَمِیعًا عَلَى مَا صَنَعُوا، وَقَالُوا: مَا كَانَ لَنَا أَنَّ نُخَالِفَكَ، فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ،فَقَالَ:لا یَنْبَغِی لِنَبِیٍّ إِذَا لَبِسَ لَأْمَتَهُ أَنْ یَضَعَهَا حَتَّى یَحْكُمَ اللهُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ أَعْدَائِهِ

اسی اثنامیں سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی مرضی کے خلاف مدینہ سے باہرجاکرلڑنے پرمجبور کیا ہے جو شاید مناسب نہ ہواس لئے اس معاملہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پرچھوڑدو،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہن کراورگلے میں تلوار لٹکا کر باہرتشریف لائے، اس صورت میں کہ آپ نے جلد کے پٹے سے اپنی تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور ڈھال اپنی کمر پر ڈالے ہوئے تشریف لائے،توسب لوگوں نے اپنے کہے پر ندامت کا اظہارکیا، اور بیک آوازبولے ہم آپ کی رائے سے اختلاف نہیں کرتے ،جس طرح آپ کی رضاہے اسی طرح کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانبی کے واسطے یہ بات لائق نہیں کہ جب وہ سلاح جنگ سے آراستہ ہوجائے توپھران کوبغیرجنگ کے اتاردے، جب تک کہ اللہ اس کے اوراس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔[31]

ثُمّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اُنْظُرُوا مَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَاتّبِعُوهُ، امْضُوا عَلَى اسْمِ اللهِ فَلَكُمْ النّصْرُ مَا صَبَرْتُمْ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب اللہ کے نام پرنکلومیں جوحکم دوں اسے بجالاؤاوریادرکھوجب تک تم ثابت قدم رہوگے اورصبر کرو گے اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت تمہارے ساتھ رہے گی۔[32]

وَاسْتَعْمَلَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الصَّلَاةِ بِمَنْ بَقِیَ فِی الْمَدِینَةِ

مدینہ منورہ پرابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کونمازپڑھانے کے لئےاپنا نائب مقررفرمایااورکچھ لوگ شہرکی حفاظت کے لئے ان کے پاس چھوڑکرباقی لوگوں کومدینہ منورہ سے روانگی کاحکم صادرفرمایا۔[33]

وَعَلَى الْحَرَسِ تِلْكَ اللَّیْلَةِ مُحَمَّد بْنُ مَسْلَمَةَ

اس رات پہرے کافریضہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سرانجام دیا۔[34]

مسلمانوں کی تعداد:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پرسوارہوکراورایک روایت کے مطابق

فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَلْفٍ مِنَ الصَّحَابَةِ

ایک ہزارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جمعیت میں مدینہ منورہ سے پیدل باہرنکلےتھے ۔[35]

 قَالَ ابْنُ عُقْبَةَ: وَلَیْسَ فِی الْمُسْلِمِینَ فَرَسٌ وَاحِدٌ، قَالَ الْوَاقِدِیُّ: لَمْ یَكُنْ مَعَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ مِنَ الْخَیْلِ إِلَّا فَرَس رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفَرَسُ أَبِی بُرْدَةَ

ابن عقبہ کہتے ہیں کسی مسلمان کے پاس کوئی گھوڑانہیں تھااورواقدی کہتاہے غزوہ احدمیں دوگھوڑے تھے، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا،اورایک ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔[36]

أَنَّ الْخَمْسِینَ عَدَدُ الْفَرَسَانِ یَوْمَئِذٍ وَهُوَ غَلَطٌ بَیِّنٌ ، وَقَدْ جَزَمَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ بِأَنَّهُ لَمْ یَكُنْ مَعَهُمْ فِی أُحُدٍ شَیْءٌ مِنَ الْخَیْلِ ، وَوَقَعَ عِنْدَ الْوَاقِدِیِّ كَانَ مَعَهُمْ فَرَسٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفَرَسٌ لِأَبِی بُرْدَةَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس د ن مسلمانوں کے پاس پچاس گھوڑے تھے یہ فاش غلطی ہے مسلمانوں کے پاس کوئی گھوڑانہیں تھا،اور موسی بن عقبہ نے تاکیداً کہا کہ احد والے دن مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہ تھا ،جبکہ واقدی کے بیان کے مطابق دوگھوڑے تھے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھااوردوسراابوبردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔[37]

وَلَیْسَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ فَرَسٌ

مسلمانوں کے پاس کوئی گھوڑا تک بھی نہ تھا۔[38]

وَفِی الْمُسْلِمِینَ مِائَةُ دَارِعٍ، وَخَرَجَ السَّعْدَانِ أَمَامَهُ یَعْدُوَانِ: سَعْد بْنُ مُعَاذٍ، وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ دَارِعَیْنِ،وَالنّاسُ عَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، وعقد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثلاثة ألویة،ولواء للمهاجرین بِیَدِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، وَقِیلَ: بِیَدِ مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ ،وَلِوَاءً لِلْخَزْرَجِ بِیَدِ الْحُبَابِ بْنِ الْمُنْذِرِ، وَقِیلَ: بِیَدِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ،لِوَاءً للأَوْسِ بید أسید بن حضیر

اور صرف ایک سومجاہدین نے زرہ پہن رکھی تھی،سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ زرہ پہنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے دوڑتے ہوئے چل رہے تھے، جبکہ باقی مجاہدین دائیں بائیں چل رہے تھے ،(ان ایک ہزارکے لشکرمیں تین سورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے رفقاء بھی شامل تھے)اس غزوہ میں آپ علیہ السلام نے تین جھنڈے تیار کیے تھے،مہاجرین کاجھنڈاسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ایک قول کے مطابق مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا، خزرج کا جھنڈا حباب بن منذر رضی اللہ عنہ یا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے فرمایا،اوس کا جھنڈا اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔[39]

مسلمانوں کی تعداد:

مسلمانوں کے اس لشکرمیں شوق شہادت میں مخمور کچھ کم سن لڑکے بھی تھے ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر میں کم سن لڑکوں کوشامل نہیں فرماتے تھے۔

وَمَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتّى أَتَى الشّیْخَیْنِ فَعَسْكَرَ بِهِ. وَعُرِضَ عَلَیْهِ غِلْمَانٌ: عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ، وَالنّعْمَانُ بْنُ بَشِیرٍ، وَزَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، وَأُسَیْدُ بْنُ ظُهَیْرٍ، وَعَرَابَةُ بْنُ أَوْسٍ، وَأَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیّ، وَسَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ، وَرَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ

اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام شیخین

وَهُمَا أُطُمَانِ كَانَا فِی الْجَاهِلِیّةِ فِیهِمَا شَیْخٌ أَعْمَى وَعَجُوزٌ عَمْیَاءُ یَتَحَدّثَانِ، فَسُمّیَ الْأُطُمَانِ الشّیْخَیْنِ

شیخین دوٹیلوں کانام ہے جومدینہ اوراحدکے درمیان واقع ہے ،جہاں ایک اندھا اور بوڑھایہودی اوراس کے ساتھ ایک اندھی اوربوڑھی یہودن رہاکرتی تھی اس لئے ان کی وجہ سے شیخین کے نام سے مشہورہوگئے۔

پرپہنچے تو لشکرکا جائزہ لیا تو غزوہ بدر کی طرح اس لشکرمیں بھی کئی کم سن لڑ موجودتھے جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،زید رضی اللہ عنہ بن ثابت ،اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ،نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ،زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ،براء بن عازب رضی اللہ عنہ ، اسیدبن ظہیر رضی اللہ عنہ ، عرابہ بن اوس رضی اللہ عنہ ،ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ ،سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اوررافع بن خدیج رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام خاص طورپرقابل ذکرہیں کو واپس کر دیا ۔[40]

مگر بخاری کی ایک روایت کے مطابق براء بن عازب رضی اللہ عنہ اس دن جنگ میں حاضرتھے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں سترہ صحابہ پیش کیے گئے

قال: لم یرهم بلغوا أربع عشرة سنة

جن کی عمرچودہ سال تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابالغ قرار دے کرواپس فرمادیا۔[41]

وَعُرِضْتُ عَلَیْهِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَأَجَازَنِی

جب ایک سال بعدجب وہ پندرہ برس کے ہوئے توآپ نے انہیں جہاد کی اجازت دے دی۔[42]

مگران لڑکوں کی جانثاری اورجذبہ شہادت کایہ عالم تھا

قَدِ اسْتَصْغَرَ رَافِعًا، فَقَامَ عَلَى خُفَّیْنِ لَهُ فِیهِمَا رِقَاعٌ، وَتَطَاوَلَ عَلَى أَطْرَافِ أَصَابِعِهِ، فَلَمَّا رآه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَجَازَهُ

کہ جب رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کوجن کی عمرپندرہ برس کی تھی کوواپس ہونے کے لئے کہاگیاتووہ اپنے کو بڑا قدآورثابت کرنے کے لئے پیوندزدہ جوتوں میں پاؤں کے انگوٹھوں کے بل تن کرکھڑے ہوگئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کامعائنہ کیاتو(انہیں بڑا سمجھ کر) لشکرمیں شامل کردیاگیا۔ [43]

بعض روایات میں ہے

فَقِیلَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ إنَّ رَافِعًا رَامٍ، فَأَجَازَهُ، فَلَمَّا أَجَازَ رَافِعًا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعرض کیاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رافع مشتاق تیراندازہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کولشکرمیں شامل ہونے کی اجازت فرمائی۔[44]

ان کم سن صحابہ میں سمرہ رضی اللہ عنہ بن جندب بھی تھے جورافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے ہم سن تھےانہوں نے اپنے علاتی والد مری بن سنان رضی اللہ عنہ سے کہا

یَا أَبَتِ، اجاز رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ، وَرَدَّنِی وَأَنَا أَصْرَعُ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ،فَقَالَ: مُرِّیُّ بْنُ سِنَانٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، رَدَدْتَ ابْنِی، وَأَجَزْتَ رَافِعَ بْنَ خدیج وابنى یصرعه!فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لِرَافِعٍ وَسَمُرَةَ: تَصَارَعَا، فَصَرَعَ سَمُرَةُ رَافِعًا، فَأَجَازَهُ

اباجان !رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کوتواجازت دے دی گئی ہے مگرمیں پیچھے رہ گیاہوں ، حالانکہ میں ان سے زیادہ طاقت وارہوں ، اور میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کوکشتی میں گرا دیتاہوں ان والدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے رافع بن خدیج کوتواجازت عطا فرمادی ہے اور میرے بیٹے سمرہ بن جندب کوواپس فرمادیاہے حالانکہ وہ رافع رضی اللہ عنہ کوکشتی میں پچھاڑدیتاہے، اس لئے اگرانہیں رضی اللہ عنہ اجازت عطافرمائی گئی ہے تو میرے بیٹے کوبھی ساتھ چلنے کی اجازت دی جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمری بن سنان رضی اللہ عنہ کی اس دلیل پررافع بن خدیج اور سمرہ رضی اللہ عنہ بن جندب دونوں میں کشتی کا مقابلہ کرایا،اپنے دعویٰ کے مطابق سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کچھ ہی لمحوں میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو اٹھاکر زمین پربچھاڑدیا،اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی لشکرمیں شامل فرمالیا۔[45]

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحَرَسِ مُحَمّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ فِی خَمْسِینَ رَجُلًا،وَغَابَتْ الشّمْسُ فَأَذّنَ بَلَالٌ بِالْمَغْرِبِ، فَصَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ ،ثُمّ أَذّنَ بِالْعِشَاءِ فَصَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ

اب دن ڈھل چکاتھااس لئے رات یہیں قیام کا فیصلہ کر رات کودشمن کے شب خون کے خطرے کے پیش نظرلشکرکی حفاظت کے لئے پچاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوپہرے کے لئے منتخب فرمایا اوران پر محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوکمانڈرمقرر فرمایا،اسی اثنامیں سورج غروب ہوگیااوربلال رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نمازکے لیے اذان کہی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ نمازادا فرمائی ، پھرعشاء کی اذان ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں عشا کی نماز ادافرمائی۔[46]

ذکوان بن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ بطورخاص رات بھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہرہ دیتے رہے۔[47]

عبداللہ بن ابی کی سازش :

آخرشب طلوع فجرسے پہلے سب کم سن نوجوان ،جوان اورادھیڑعمرکے لوگ نشہ شہادت سے مخمورہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں آگے روانہ ہوئے ،اور احدکے بالکل قریب مقام شوط پر جہاں مسلمانوں کو مشرکین کاکیمپ نظرآرہاتھااوروہ مسلمانوں کودیکھ رہے تھے، پہنچ کرنمازفجرادافرمائی، عبداللہ بن ابی کے لئے مسلمانوں کو زک پہنچانے کا یہ بہترین موقعہ تھااورشایدوہ اسی موقعہ کی انتظارمیں تھا،

حَتَّى إذَا كَانُوا بِالشَّوْطِ بَیْنَ الْمَدِینَةِ وَأُحُدٍ، انْخَزَلَ عَنْهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ بن سَلُولَ بِثُلُثِ النَّاسِ، وَقَالَ: أَطَاعَهُمْ وَعَصَانِی، مَا نَدْرِی عَلَامَ نَقْتُلُ أَنْفُسَنَا هَاهُنَا أَیُّهَا النَّاسُ فَرَجَعَ بِمَنْ اتَّبَعَهُ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ وَالرَّیْبِ

چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزارمسلمانوں  لشکرکولے کرمدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر شوط نامی بستی میں پہنچےتوعبداللہ بن ابی ان میں سے ایک تہائی لوگوں کوجومنافقین اوراہل شک تھے لے کرمدینہ منورہ واپس ہوا اور بغیرکسی شرم وحیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا چونکہ آپ نے میری رائے کا حترام نہیں کیا اور غیرصائب الرائے لوگوں کی رائے کو اہمیت دی، اس لئے میں اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس لوٹ رہا ہوں ہم اپنی جانوں کوکیوں ہلاک کریں ، اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی چھوٹی سی ریاست کے حاکم تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ طلب فرمایا اورجس کی جتنی سمجھ بوجھ تھی اس نے اس کے مطابق اپنی رائے کابرملا اظہار کردیاتھامگرفیصلہ کاتمام ترحق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ میں تھا،اور اگروہ اپنی رائے کے بارے میں اتنا ہی دل گرفتہ تھا تو پھراسے مدینہ منورہ سے ہی باہر نہ نکلناچاہیے تھا،اوروہیں اپنی شکررنجی کااظہارکرتا ،میدان جنگ احدکے قریب پہنچ کراپنی دل گیری کااظہارکرنے سے صاف معلوم ہو گیا کہ اس کامقصد صرف مسلمانوں کو زک پہنچاناتھا،ان کے دلوں میں اضطراب اورکھلبلی مچاناتھا،تاکہ مجاہدین اسلام دشمن کی کثیر تعداداورا پنی کم تعداددیکھ کراپنی جان کے خوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ چھوڑ دیں ،یاکم ازکم ان کی حوصلے ہی پست ہوجائیں ،دوسری طرف مشرکین کے لئے یہ کھلاپیغام تھاکہ وہ اپنی بھاری جمعیت سے ان مٹھی بھربے سروساماں مسلمانوں کوکچل دیں ، تاکہ مدینہ منورہ میں اس کی تاج پوشی کی راہ میں کوئی روکاوٹ نہ رہے، اس لئے عین احد کے قریب یہ عذر تراشا،

وَاتَّبَعَهُمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، أَخُو بَنِی سَلِمَةَ، یَقُولُ: یَا قَوْمِ، أذكِّركم اللهَ أَلَّا تَخْذُلُوا قومكم ونبیّكم عِنْد مَا حَضَرَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَقَالُوا: لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكُمْ تُقَاتِلُونَ لَمَا أَسْلَمْنَاكُمْ، وَلَكِنَّا لَا نَرَى أَنَّهُ یَكُونُ قِتَالٌ ،قَالَ: فَلَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَیْهِ وَأَبَوْا إلَّا الِانْصِرَافَ عَنْهُمْ، قَالَ: أَبْعَدَكُمْ اللهُ أَعْدَاءَ اللهِ، فَسَیُغْنِی اللهُ عَنْكُمْ نَبِیَّهُ

جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام نے دشمن کے مقابلے میں اسلام کی دفاعی قوت کواس طرح سبوتاژکرنے سے عبداللہ بن ابی کوبازرکھنے کی کوشش کی، ان منافقین کوجہادکی ترغیب دی ،اورکہااے لوگو!کیاتم اللہ کوبھول گئے جواس کے نبی اوراپنی قوم سے علیحدگی اختیارکرتے ہو،مگرانہوں نے ان کی نصیحت پرکان نہ دھرے،اوران لوگوں نے کہاہم یہ نہ سمجھتے تھے کہ تم جنگ کے لیے نکلے ہواگرہمیں یہ خبرہوتی توہرگزتمہارے ساتھ نہ نکلتے،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام نے جب دیکھا کہ یہ لوگ کوئی بات ماننے کوتیارنہیں ہیں اورواپس جارہے ہیں توکہا،اے اللہ کے دشمنو!اللہ تعالیٰ تم کودورکرے عنقریب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کوتم سے بے پرواہ کردے گا ،پھر واپس لشکرمیں آگئے۔[48]

جب عین وقت پرعبداللہ ابن ابی نے اپنے ساتھیوں سمیت مسلمانوں کاساتھ چھوڑدیاتواس کی بچھائی ہوئی چال کے مطابق مسلمانوں کی دوجماعتوں خزرج کے بنوحارثہ اور اوس کے بنوسلمہ میں بھی جہادپرندامت اوراحساس خطاکاغلبہ ہوااورانہوں نے بھی بزدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے جنگ سے جی چرانے کاارادہ کیا،مگراللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے دلوں کومضبوط کردیااوروہ لشکراسلامی کے ساتھ چلنے پرراضی ہوگئیں ۔

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: “ نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ فِینَا: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ} [49]بَنِی سَلِمَةَ، وَبَنِی حَارِثَةَ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّهَا لَمْ تَنْزِلْ، وَاللَّهُ یَقُولُ: {وَاللَّهُ وَلِیُّهُمَا}[50]

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ آیت ہمارے یعنی بنی حارثہ اوربنی سلمہ بارے میں نازل ہوئی تھی ’’یادکروجب تم میں سے دوگروہ بزدلی دکھانے پرآمادہ ہوگئے تھے ،حالانکہ اللہ ان کی مددپرموجودتھااورمومنوں کو(مادی قوت پربھروسہ رکھنے کے بجائے ) اللہ ہی پر بھروسہ رکھناچاہیے۔‘‘[51]

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، رَجَعَ نَاسٌ مِمَّنْ خَرَجَ مَعَهُ، وَكَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَیْنِ: فِرْقَةً تَقُولُ: نُقَاتِلُهُمْ، وَفِرْقَةً تَقُولُ: لاَ نُقَاتِلُهُمْ، فَنَزَلَتْ {فَمَا لَكُمْ فِی المُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا}[52] وَقَالَ:إِنَّهَا طَیْبَةُ، تَنْفِی الذُّنُوبَ، كَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الفِضَّةِ

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبداللہ بن ابی اوراس تین سوساتھیوں نے عین وقت پرمسلمانوں کودھوکادیاتومنافقین کے بارے میں مسلمانوں میں دوگروہ بن گئے،ایک گروہ کہتاتھاکہ ہم ان منافقین کے ساتھ جوعین جنگ کے وقت دھوکادے کر واپس چلے گئے ہیں جنگ کریں گے، جبکہ دوسرے گروہ کاموقف تھاکہ وہ ہمارے کلمہ گومسلمان بھائی ہیں اس لئے ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے،اس پرباری تعالیٰ نے مسلمانو ں کوتنبیہ فرمائی’’پھر یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دورائیں پائی جاتی ہیں حالانکہ جو برائیاں انہوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انہیں اُلٹا پھیر چکا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اُسے تم ہدایت بخش دو؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے بھٹکا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔‘‘[53]

قَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَلَا نَسْتَعِینُ بِحُلَفَائِنَا مِنْ یَهُودَ؟قَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِیهِمْ

اس وقت انصارنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگر اجازت ہوتوہم اپنے حلیف یہودیوں کومددکے لئے بلالیں ،آپ نے فرمایا اس درخواست کومسترد فرما دیا اور یہودیوں کی مدد لینے سے انکار کر دیا ۔

اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرکمان لشکراسلام جوپہلے ہی کفارکے تین ہزارکے مقابلے میں ایک ہزارتھااوربھی گھٹ کر صرف سات سورہ گیاجن کولیکرآپ آگے روانہ ہوئے،کیونکہ مشرکین کالشکراحدکے درمیان حائل تھا

ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: مَنْ رَجُلٌ یَخْرُجُ بِنَا عَلَى الْقَوْمِ مِنْ كَثَبٍ: أَیْ مِنْ قُرْبٍ، مِنْ طَرِیقٍ لَا یَمُرُّ بِنَا عَلَیْهِمْ؟ فَقَالَ أَبُو خَیْثَمَةَ أَخُو بَنِی حَارِثَةَ بْنِ الْحَارِثِ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایاکوئی ایساآدمی ہے جوہمیں کفارکے پاس سے گزارے بغیرنزدیک ترین راستہ سے لے چلے،اس کام کے لئے بنوحارثہ کے ایک فرد ابوخیثمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں لے کرچلتاہوں ۔

اور لشکراسلام ان کی رہبری میں اس دشوارگزارپتھریلی زمین پرہوکرچلاجواونٹوں کے لئے ناقابل گزرسمجھی جاتی تھی ،مشرکین کے سالارلشکراس سے بے خبرنہیں سمجھے جاسکتے ،اس لئے یہ قیاس غلط نہیں کہ یہ سالاراس طرف سے مطمئن ہوں گے، اوریہ سمجھتے ہوں گے کہ لشکراسلام اس راستے سے ادھرنہیں آئے گا،یہی وہ جنگی منصوبہ تھاجس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اظہارنہیں فرمایاجب تک عبداللہ بن ابی بن سلول اوراس کے ساتھی مقام شوط تک انے کے بعدواپس نہیں چلے گئے، اوریہ اطمینان نہیں ہوگیاکہ لشکراسلام میں دشمن کاکوئی جاسوس یعنی منافق نہیں ہے، اوردشمن کواس منصوبے کے خبرنہیں ہوسکے گی۔

حَتَّى سَلَكَ فِی مَالٍ لِمِرْبَعِ بْنِ قَیْظِیٍّ، وَكَانَ رَجُلًا مُنَافِقًا ضَرِیرَ الْبَصَرِ، فَلَمَّا سَمِعَ حِسَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، قَامَ یَحْثِی فِی وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ،وَیَقُولُ: إنْ كُنْتَ رَسُولَ اللهِ فَإِنِّی لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَدْخُلَ حَائِطِی

اس راستے میں شخص مربع بن قیظی کاباغ بھی پڑتاتھاجواندھااورنہایت بدذات منافق تھا،اسے اسلام سے کوئی دلچسپی اورمسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی،جب اس کوپتہ چلاکہ مسلمان اس کے باغ سے گزرنے لگے ہیں تواٹھ کر مسلمانوں کے چہروں پرمٹی ڈالنے لگا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہوکر کہا اگرتو اللہ کارسول ہے تومیں تجھے اپنے باغ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا،

وَقَدْ ذُكِرَ لِی أَنَّهُ أَخَذَ حَفْنَةً مِنْ تُرَابٍ فِی یَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَاَللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّی لَا أُصِیبُ بِهَا غَیْرَكَ یَا مُحَمَّدُ لَضَرَبْتُ بِهَا وَجْهَكَ ،فَابْتَدَرَهُ الْقَوْمُ لِیَقْتُلُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلُوهُ، فَهَذَا الْأَعْمَى أَعْمَى الْقَلْبِ، أَعْمَى الْبَصَرِ،وَقَدْ بَدَرَ إلَیْهِ سَعْدُ بْنُ زَیْدٍ، أَخُو بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَبْلَ نَهْیِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَضَرَبَهُ بِالْقَوْسِ فِی رَأْسِهِ، فَشَجَّهُ

اوریہ بھی روایت ہے کہ مربع بن قیظی کے ہاتھ میں اس وقت مٹی کاایک ڈھیلاتھا،اوراس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے کہاتھااگرمجھے یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ یہ ڈھیلاکسی اور کے لگ سکتاہے اورمیں تیرامنہ دیکھ سکتاتواسے سیدھاتیرے منہ پرکھینچ مارتا،میں جانتاکہ یہ خاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوااورکسی پرنہیں پڑے گی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرپھینک دوں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نابیناکی گستاخی دیکھی توکچھ لوگ اسے قتل کرنے کے لئے آگے بڑھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کردیا،اورفرمایااس کوقتل نہ کرویہ آنکھوں کی طرح دل کابھی اندھا ہے،مگرسعدبن زیداشہلی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے سے پہلے ہی اپنی کمان سے اس کاسرپھوڑدیا۔[54]

لشکراسلام نے تیزی سے حرکت کرکے دشمن کی توقعات کے خلاف عمل کیااوردونوں متوقع رکاوٹوں پر قابو پاکر دشمن کوخبرہونے سے پہلے جبل عینین پرقبضہ کر لیا،جبل عینین وادی سے پہاڑکی جانب اونچائی پرواقعہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اورلشکرکی پشت بلندوبالا احدپہاڑکی طرف کرکے لشکرکاکیمپ لگوایا ،اوراس پربہہ کرقریش تک جانے والے چشمے لشکراسلام کی زدمیں تھے،گویااس منصوبے کے مطابق وہی بدروالی صورت پیداہوگئی تھی ،کفارکالشکرنشیب میں تھااورپانی کی رسدکے ذرائع مسلمانوں کی زدمیں تھے، قریش لشکراسلام سے دودن پہلے میدان جنگ میں پہنچے تھے، اس مسابقت کی وجہ سے وہ میدان جنگ کابہترین مقام منتخب کرسکتے تھے جوجنگی نقطہ نظرسے اہم ہوتا،لیکن کامل رازداری اورتیزاقدام وحرکت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کواس سبقت سے حاصل ہوسکنے والے فائدے سے محروم کردیا،جنگی نقطہ نظرسے غزوہ احدمیں یہ کفارکی پہلی ناکامی تھی کہ میدان میں جنگ سے پہنچنے میں سبقت کرنے کے باوجودوہ اس سے خاطرخواہ فائدہ نہ اٹھاسکے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کوغلط پڑاؤقراردیاہوگا۔

مسلمانوں کی صف بندی :

دوسرے دن ہفتہ سات شوال تین ہجری کی صبح کی نماز بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کامعائنہ فرمایا،معائنہ کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونچی زمین پر صف بندی کرتے ہوئے لشکرکی پشت بلندوبالاپہاڑکی طرف رکھی تاکہ عقب سے حملہ ہونے کے امکانات معدوم ہوجائیں اس طرح اسلامی لشکر پہاڑکی بلندی کی وجہ سے عقب اوردائیں طرف سے محفوظ ہوگیا، پھر لشکر سے بائیں طرف جنوب مشرق میں تقریباًڈیڑھ سومیٹر دوروادی قناة کے جنوبی کنارے ایک چھوٹی بلند پہاڑی جبل عینین( جبل رماة )میں ایک درہ تھااوریہ وہ کھلامقام تھا جس سے نکل کرمشرکین کارسالہ عقب سے مسلمانوں پرحملہ کرسکتاتھا جواسلامی لشکرکے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتاتھا،

وَجَعَلَ الرّمَاةَ خَمْسِینَ رَجُلًا عَلَى عَیْنَیْنِ، عَلَیْهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ جُبَیْرٍ

وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس ماہرتیر اندازوں کے ایک دستے کو خوات بن جبیرکے بھائی عبداللہ بن جبیر اوسی رضی اللہ عنہ بدری کی قیادت میں درے پرتعینات فرمایا۔

اور انہیں سخت تاکید فرمائی کہ اگردشمن ہمارے عقب سے حملہ آورہوتواپنی بلندی کافائدہ اٹھاکرنیچے سے اوپر چڑھتے دشمنوں کو تیروں کی زدپررکھ لینا،کیونکہ سوارتیروں کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے ، جب تک تم اپنی جگہ پرثابت قدمی سے ڈٹے رہوگے ہم غالب رہیں گے ،اے اللہ میں ان پرتجھے گواہ بناتا ہوں ۔

البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یُحَدِّثُ قَالَ: جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ یَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانُوا خَمْسِینَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَیْرٍ، فَقَالَ:إِنْ رَأَیْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ، هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَیْكُمْ، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا هَزَمْنَا القَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَیْكُمْ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ کوتاکیدفرمائی اگرتم یہ بھی دیکھ لوکہ پرندے ہم پرٹوٹ پڑے ہیں ،پھربھی اپنی اس جگہ سے مت ہٹناجب تک میں تم لوگوں کوکہلانہ بھیجوں ،اسی طرح اگر تم دیکھوکہ ہم نے کفارکوشکست دے دی ہے اوران کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے پھربھی میرے حکم بغیراپنی جگہ سے نہ ہلنا۔[55]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَهُمْ فِی مَوْضِعٍ، ثُمَّ قَالَ: احْمُوا ظُهُور َنَا، فَإِنْ رَأَیْتُمُونَا نُقْتَلُ، فَلا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا قَدْ غَنِمْنَا فَلا تُشْرِكُونَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوایک جگہ کھڑا کر کے تاکیدفرمائی ہمارے پیچھے سے ہماری حفاظت کرنااگرتم ہمیں قتل ہوتے ہوئے دیکھو تواس جگہ سے نہ ہٹنااوراگردیکھوکہ ہم نے دشمن کوشکست دے دی ہے اورغنیمت جمع کرنے لگے ہیں تو ہمارے ساتھ اس میں شریک نہ ہونا ۔[56]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمیمنہ پرمنذ ر رضی اللہ عنہ بن عمروکو،میسرہ پرزبیربن العوام رضی اللہ عنہ کو،اوران کی معاونت لئےمقداد رضی اللہ عنہ بن اسود کو،اورقلب پرسیدالشہداءحمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوامیرمقررفرمایا،ان کی پہلی صفوں میں مسلمانوں کےممتازاورمنتخب دلیروبہادرمجاہدین کوجوہزاروں کےبرابرمانےجاتےتھےکھڑاکیا

وَقَالَ لَا یُقَاتِلُنّ أَحَدٌ مِنْكُمْ حَتّى نَأْمُرُهُ بِالْقِتَالِ

صف بندی کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومنع فرمایاکہ جب تک میں حکم نہ دوں کوئی جنگی اقدام شروع نہ کریں ۔[57]

وَظَاهَرَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ دِرْعَیْنِ یَعْنِی لَبِسَ دِرْعًا فَوْقَ دِرْعٍ

غزوہ احدکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مطہرپرایک کے اوپرایک دوزرہیں تھیں ۔[58]

 میدان جنگ میں خطبہ:

ثُمّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النّاسَ فَقَالَ: یَا أَیّهَا النّاسُ، أُوصِیكُمْ بِمَا أَوْصَانِی اللهُ فِی كِتَابِهِ مِنْ الْعَمَلِ بِطَاعَتِهِ وَالتّنَاهِی عَنْ مَحَارِمِهِ.ثُمّ إنّكُمْ الْیَوْمَ بِمَنْزِلِ أَجْرٍ وَذُخْرٍ لِمَنْ ذَكَرَ الّذِی عَلَیْهِ ثُمّ وَطّنَ نَفْسَهُ لَهُ عَلَى الصّبْرِ وَالْیَقِینِ وَالْجِدّ وَالنّشَاطِ، فَإِنّ جِهَادَ الْعَدُوّ شَدِیدٌ، شَدِیدٌ كَرْبُهُ ،قَلِیلٌ مَنْ یَصْبِرُ عَلَیْهِ إلّا مَنْ عَزَمَ اللهُ رُشْدَهُ،

اس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ ارشادفرمایااے لوگو!میں تمہیں وہی وصیت کرتاہوں جووصیت باری تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کی ہے یعنی یہ کہ تم اس کی اطاعت بجالاتے رہو،اوراس کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرتے رہو،سنوآج تم اجروذکرکی جگہ ہو،جوشخص ذکرپرجم جائے صبرویقین ،پختگی اورخوش نفسی سے جہادکرے وہ اللہ کے ہاں اجروثواب پائے گا،اس کانام دونوں جہان میں بلندہوجائے گا،کیونکہ دشمن سے جہادکرناسخت اورمشکل کام ہے، اس پرصبربہت کم لوگوں سے ہوتاہے، وہی یہاں ثابت قدم رہتے ہیں جنہیں اپنے ہدایت یافتہ ہونے پرپختہ یقین ہوتاہے ،

فَإِنّ اللهَ مَعَ مَنْ أَطَاعَهُ، وَإِنّ الشّیْطَانَ مَعَ مَنْ عَصَاهُ، فَافْتَتِحُوا أَعْمَالَكُمْ بِالصّبْرِ عَلَى الْجِهَادِ، وَالْتَمِسُوا بِذَلِكَ مَا وَعَدَكُمْ اللهُ، وَعَلَیْكُمْ بِاَلّذِی أَمَرَكُمْ بِهِ، فَإِنّی حَرِیصٌ عَلَى رُشْدِكُمْ، فَإِنّ الِاخْتِلَافَ وَالتّنَازُعَ وَالتّثْبِیطَ مِنْ أَمْرِ الْعَجْزِ وَالضّعْفِ مِمّا لَا یُحِبّ اللهُ، وَلَا یُعْطِی عَلَیْهِ النّصْرَ وَلَا الظّفَرَ.

اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتاہے جواس کی اطاعت کرے اورجواس کی نافرمانی کرے اس کے ساتھ شیطان ہوتاہے،اپنے اعمال کوجہادکی سختیوں پرصبرکرنے سے شروع کرو،اس کے ذریعے ان چیزوں کوتلاش کروجن کااللہ نے تم سے وعدہ کررکھاہے ،میرے حکموں کی فرمانبرداری کولازم پکڑے رہو،کیونکہ میں تمہاری ہدایت پرحریص ہوں ، اختلاف جھگڑااورجنگ سے جی چراناعجزاورضعف ایسی چیزیں ہیں جن کواللہ ناپسندکرتاہے، اوران پرفتح ونصرت عطانہیں فرماتا،

یَا أَیّهَا النّاسُ، جُدّدَ فِی صَدْرِی أَنّ مَنْ كَانَ عَلَى حَرَامٍ فَرّقَ اللهُ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ، وَمَنْ رَغِبَ لَهُ عَنْهُ غَفَرَ اللهُ ذَنْبَهُ، وَمَنْ صَلّى عَلَیّ صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَمَلَائِكَتُهُ عَشْرًا، وَمَنْ أَحْسَنَ مِنْ مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ فِی عَاجِلِ دُنْیَاهُ أَوْ آجِلِ آخِرَتِهِ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاَللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَعَلَیْهِ الْجُمُعَةُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ إلّا صَبِیّا أَوْ امْرَأَةً أَوْ مَرِیضًا أَوْ عَبْدًا مَمْلُوكًا، وَمَنْ اسْتَغْنَى عَنْهَا اسْتَغْنَى اللهُ عَنْهُ، وَاَللهُ غَنِیّ حَمِیدٌ.

لوگو!ابھی ابھی مجھے وحی کی گئی ہے کہ جوشخص کسی حرام کام میں مبتلاہوپھرثواب حاصل کرنے کی نیت سے اسے چھوڑدے اس گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتاہے، اورجوشخص کسی مومن یاکافرسے نیکی کرے وہ اپنابدلہ ضرورپاتاہے ،جلدی حاصل ہونے والی دنیامیں یادیرسے آنے والی آخرت میں ، اللہ پراورقیامت پرایمان رکھنے والوں پرجمعہ کے دن جمعہ کی نمازفرض ہے ،ہاں بچوں پر،عورتوں پر،بیماروں پراورغلاموں پرفرض نہیں (وہ نمازظہرپڑھ لیں )یادرکھوجوجمعہ کی نمازسے بے پروائی کرے اللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ موڑلے گااوراللہ تعالیٰ (سارے جہان سے)بے نیاز،بے پروااورغنی ہے اوروہی تعریفوں والااورمستحق تعریف ہے۔[59]

مشرکین کی صف بندی:

کفار نے جن کاسالاراعلیٰ ابوسفیان تھانے اس بارباقاعدہ صف بندی کی تھی،اس نے غزوہ بدرکی شکست سے یہ سبق ضرورسیکھ لیاتھاکہ مسلمانوں کوشکست دینااوراسلام کے استیصال کامقصدحاصل کرنااتناآسان نہیں جتنااس کے پیش روسمجھ رہے تھے ،ابوسفیان کے ذہن میں اسلام ایک فوجی قوت بن چکاتھااوراس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مکہ کے اس یقیناًبے حدذہین اورنکتہ رس سیاست دان اورسپہ سالارنے وہ تمام کوششیں کیں جواس زمانے کے حالات کے مطابق ہونی چاہئے تھیں ،میدان جنگ میں اس نے عربوں کی احمقانہ انفرادی بہادری کوضابطے میں پابنداورفوج کومختلف حصوں میں تقسیم کرکے انہیں جنگی اہمیت کے نقطوں پرمستعد (Deploy) کردیا ، ابو سفیان نے لشکرکے قلب کواپنامرکزبنایا

وَاسْتَعْمَلُوا عَلَى الْمَیْمَنَةِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَعَلَى الْمَیْسَرَةِ عِكْرِمَةَ بْنَ أَبِی جَهْلٍ وَلَهُمْ مُجَنَّبَتَانِ مِائَتَا فَرَسٍ وَجَعَلُوا عَلَى الْخَیْلِ صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّةَ

لشکرکے میمنہ (دائیں جانب)پرخالدبن ولیدکواورمیسرہ (بائیں جانب)پرعکرمہ بن ابوجہل کوتعینات کیادونوں کناروں میمنہ ومیسرہ پردوسوگھوڑے تھے،سواروں پرصفیان بن امیہ کومقررکیا۔[60]

جبکہ پیدل لشکرکی قیادت عمرو بن عاص کوسونپی گئی ، تیراندازوں کے دستے الگ تھے جن کاکمانڈرعبداللہ بن ربیعہ تھا

وَقَدْ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ لِأَصْحَابِ اللِّوَاءِ مِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ یُحَرِّضُهُمْ بِذَلِكَ عَلَى الْقِتَالِ، یَا بَنِی عَبْدِ الدَّارِ، إنَّكُمْ قَدْ وَلَّیْتُمْ لِوَاءَنَا یَوْمَ بَدْرٍ، فَأَصَابَنَا مَا قَدْ رَأَیْتُمْ، وَإِنَّمَا یُؤْتَى النَّاسُ مِنْ قِبَلِ رَایَاتِهِمْ إذَا زَالَتْ زَالُوا، فَإِمَّا أَنْ تَكْفُونَا لِوَاءَنَا، وَإِمَّا أَنْ تُخَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَهُ فَنَكْفِیكُمُوهُ، فَهَمُّوا بِهِ وَتُوَاعَدُوهُ ،وَقَالُوا: نَحْنُ نُسْلِمُ إلَیْكَ لِوَاءَنَا، سَتَعْلَمُ غَدًا إذَا الْتَقَیْنَا كَیْفَ نَصْنَعُ! وَذَلِكَ أَرَادَ أَبُو سُفْیَانَ

مشرکین کاجھنڈاحسب دستور بنو عبدالدار کی ایک جماعت ہاتھ میں تھا،ابوسفیان نے اپنے لشکرکے علم برداروں سے کہااوران کوجنگ کی ترغیب دلائی،اے بنی عبدالدار!فتح وشکست کادارومدارجھنڈے پرموقوف ہوتاہے ، جب تک جھنڈا قائم رہتاہے لشکربھی قائم رہتا ہے اورجب جھنڈاگرجاتاہے تولشکرکے پیربھی اکھڑجاتے ہیں ، لہذایاتوتم ثابت قدمی کے ساتھ جھنڈے کو اٹھاؤ اور یاہماراجھنڈاہمارے حوالے کردوانہوں نے کہااے ابوسفیان!مقابلہ کے وقت دیکھ لیناکہ ہم کس طرح جھنڈے کوقائم رکھتے ہیں ،ابوسفیان کابھی یہی مقصدتھاوہ ان کاجواب سن کربہت خوش ہوا[61]اس طرح زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ خالدبن ولیدکے سواردستہ کے سامنے ، منذر رضی اللہ عنہ بن عمروعکرمہ بن ابی کے سواردستہ سامنے اورسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب صفوان بن امیہ کے سامنے تھے۔

مسلمانوں میں دلیری وبہادری کی روح پھونکنا:

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین میں ثابت قدمی وبے خوفی ،دلیری وبہادری کی روح پھونکنے کے لئے ایک تلوار(ذاالفقار) ہاتھ میں لی اورفرمایا

مَنْ یَأْخُذُ هَذَا السَّیْفَ بِحَقِّهِ؟فَقَالَ عُمَرُ زَعَمُوا : أَنَا آخُذُهُ ،فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ عَرَضَهُ الثَّانِیَةَ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ: أَنَا آخُذُهُ،فَأَعْرَضَ عَنْهُ،فَوَجَدَ عُمَرُ وَالزُّبَیْرُ فِی أَنْفُسِهِمَا مِنْ ذَلِكَ حَتَّى قَامَ إلَیْهِ أَبُو دُجَانَةَ سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ، أَخُو بَنِی سَاعِدَةَ، فَقَالَ: وَمَا حَقُّهُ یَا رَسُولَ اللهِ؟

اس کاحق ادا کرنے لئے یہ تلوار کون لے گا ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب فرماتے ہیں میں تلوارلینے کے لئے آگے بڑھا اورکہامیں اس کاحق اداکرنے کے لئے لیتاہوں ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اپنافقرہ دوہرایا،توزبیربن العوام رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اورکہامیں اس کاحق اداکرنے کے لئے لیتاہوں ،مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی تلوارعطانہیں کی ،پھرابودجانہ رضی اللہ عنہ سماک بن خرشہ رئیس خزرج سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ابن عم ،جوبڑے بہادر اور لڑائی کے وقت خوب بہادری کامظاہرہ کرتے تھے اورجنگ کے موقع پر متکبرانہ اندازمیں اکڑکر چلا کرتے تھے نے کھڑے ہوکرعرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس تلوار کاحق کیاہے ؟

تشرب بِهِ الْعَدُوَّ حَتَّى یَنْحَنِیَ، أَنَا آخُذُهُ یَا رَسُولَ اللهِ بِحَقِّهِ، فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ،فَقَامَ أَبُو دُجَانَةَ وَرَفَعَ عَلَى عَیْنَیْهِ عِصَابَةً حَمْرَاءَ تَرْفَعُ حَاجِبَیْهِ عَنْ عَیْنَیْهِ مِنَ الْكِبَرِ،قَالَ: إِنَّهَا لِمِشْیَةٍ یُبْغِضُهَا اللهُ إِلَّا فِی مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کودشمنوں کی گردنوں پراس قدر چلاؤ کہ ٹیڑھی ہو جائے،ابودجانہ رضی اللہ عنہ سماک بن خرشہ کہنے لگے اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس کایہ حق اداکرنے کے لئے اس کو قبول کرتا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں اسے تم کودے دوں توشایدتم اسے آخری صفوف میں استعمال کروگے ،انہوں نے عرض کیانہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًوہ تلوار ان کو عطافرمادی،تلوارلیکروہ اپنے خیمے میں گئے اورسرپر سرخ پٹی باندھے اورتلوارحمائل کئے باہرآئے اوراکڑتے ہوئے مشرکین کی طرف بڑھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھ لیا کہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ اب موت تک لڑتے رہیں گے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو میدان جنگ میں متکبرانہ اندازمیں چلتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس چال کواللہ تعالیٰ ناپسندکرتاہے مگر میدان جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں یہ پسندیدہ عمل ہے۔ [62]چنانچہ ابوداجانہ انصاری نے ایسی شجاعت اورجوانمردی کامظاہرہ کیاکہ کفارکے چھکے چھڑادیئےاورکشتوں کے پشتے لگادیئے ،جدھررخ کرتے صفیں الٹ دیتے تھے،

وَكَانَ شِعَارُ أَصْحَابِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ: أَمِتْ، أَمِتْ

اس جنگ  اصحاب رسول کا شعارأَمِتْ أَمِتْ (یعنی ماردو، ماردو ) تھا،اورمشرکین کایاعزیٰ اور یاہبل تھا۔

مشرکین کی سیاسی چال :

وأول من خرج من المشركین أبو عامر بن أمیة فی الأحابیش،وَكَانَ أَبُو عَامِرٍ یُسَمَّى فِی الْجَاهِلِیَّةِ: الرَّاهِبَ، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْفَاسِقَ ،وَقَدْ كَانَ خَرَجَ حِینَ خَرَجَ إلَى مَكَّةَ مُبَاعِدًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكَانَ یَعِدُ قُرَیْشًا أَنْ لَوْ قَدْ لَقِیَ قَوْمَهُ لَمْ یَخْتَلِفْ عَلَیْهِ مِنْهُمْ رَجُلَانِ،

مشرکین کی طرف سے سب سے پہلے عبدعمروبن صیفی بن مالک بن نعمان(ابوعامر) میدان میں نکلا ،یہ دورجاہلیت میں قبیلہ اوس کا سردار تھا ،بعض کہتے ہیں قبیلہ خزرج میں ایک شخص تھا،اور ابوعامر جو جاہلیت میں راہب کے نام سے پکارا جاتاتھا جومدینہ منورہ میں اسلام کی روشنی کوپسندنہ کرسکاتھا اور کھل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پراترآیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام فاسق رکھ دیا،آخرمدینہ منورہ سے بھاگ کرمشرکین مکہ کے پاس چلاگیا تھا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتارہا،اس نے قریش سے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ جب میری قوم مجھے تم لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھے گی تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کاساتھ چھوڑکرمجھ سے آملے گی،

فَلَمَّا الْتَقَى النَّاسُ، فَنَادَى: یَا مَعْشَرَ الْأَوْسِ، أَنَا أَبُو عَامِرٍ،قالوا: لا أنعم الله بك عینا یا فاسق،فَلَمَّا سَمِعَ رَدَّهُمْ عَلَیْهِ، قَالَ:لَقَدْ أَصَابَ قَوْمِی بَعْدِی شَرٌّثُمَّ قَاتَلَهُمْ قِتَالًا شَدِیدًا، ثُمَّ رَاضَخَهُمْ بِالْحِجَارَةِ

اس لئے سب سے پہلے وہ سامنے آیا اور کہنے لگا،اوراپنی قوم کواپناتعارف کراکرقریش کی مددپرآمادہ کرنے کی کوشش کرنے لگا، مگر اسلامی تعلیمات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نے رنگ ونسل ،قوم وبرداری ،زبان وعلاقہ ،بڑے چھوٹے ہرطرح کی تعصبات کاخاتمہ کردیاتھا،جب ابوعامرفاسق نے اپنی قوم کو پکارا توجواب میں اس کی قوم نے اسے کہااے ابوعامر فاسق!اللہ تیراستیاناس کرے،ہمیں اسلام مقابلہ میں کفروشرک کی دعوت دیتاہے ،توجتنی بھی کوشش کرلے تو اپنے مقصد بدمیں کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا، یہ منہ توڑ جواب سن کروہ قریش کے سامنے کھسیا گیا اورکہنے لگامیرے بعدمیری قوم بگڑگئی ہے،بہرحال وہ مشرکین کی طرف سے جان توڑ کر لڑااورمسلمانوں پرخوب پتھرپھینکے۔[63]

حنظلہ رضی اللہ عنہ (غسیل ملائکہ )نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ قتل کی اجازت چاہی مگرآپ نے انہیں منع فرما دیا ۔ابوعامرکے بعد ابوسفیان نے پکارکرکہااے جمعیت اوس وخزرج !تم ہمارے اورہمارے جدبرادران کے درمیان سے ہٹ جاؤ،ہمارااوران کاراستہ چھوڑکرایک طرف ہو جاؤ، ہم تم لوگوں سے درگزرکریں گے اور ان سے نمٹ لیں گے،ابوسفیان کی قبائل اوس وخزرج کوتوڑنے یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اوران لوگوں نے اسے بہت برا بھلا کہا اورسخت لعن طعن کیا۔

مبارزت :

جنگ کی ابتداعرب دستورکے مطابق مبارزت طلبی سے ہوئی

أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ أَبِی طَلْحَةَ الْعَبْدَرِیَّ حَامِلَ لِوَاءِ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَئِذٍ دَعَا إِلَى الْبِرَازِ ، فَأَحْجَمَ عَنْهُ النَّاسُ فَبَرَزَ إِلَیْهِ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَوَثَبَ حَتَّى صَارَ مَعَهُ عَلَى جَمَلِهِ، ثُمَّ اقْتَحَمَ بِهِ الْأَرْضَ فَأَلْقَاهُ عَنْهُ وَذَبَحَهُ بِسَیْفِهِ

سب سے پہلے مشرکین کا علم بردارطلحہ ابن ابی طلحہ عبدری اونٹ پرسوارہوکرسامنے آیااورمبارزت طلب کی،یہ شخص قریش کاایک نامی شہسوارتھااورمسلمان اسے لشکر کا منڈھا کہتے تھے،اس لئے اس کی مبارزت طلب کرنے پر عام مسلمان اس سے مقابلہ کرنے سے کتراگئے،مگر زبیربن عوام رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ کے لئے بے خوف وخطرمیدان میں نکل آئے،کیونکہ طلحہ ابن ابی طلحہ اونٹ پرسواراونچی جگہ پرتھااوراپنے نیزے سے زمین پراپنے مدمقابل کوگراسکتاتھااس لئے زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک زور دار جست لگائی اوراس کے پیچھے اونٹ پرچڑھ گئے اورپھراس کی کمرکوگرفت میں لیکرزمین پرچھلانگ لگادی اور تلوار سے اسے قتل کرڈالا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کی بہادری ودلیری دیکھ کرنعرہ تکبیربلندکیاآپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بھی زوردارنعرہ تکبیرلگایا۔[64]

مسلمانوں میں سے جنہوں نے غزوہ بدرمیں حصہ لیاتھاانہوں نے بچشم خوداللہ کی مددکامشاہدہ کیاتھا،اور دشمنوں کے بڑے بڑے سردارقتل کرکے ان کے مال غنیمت کوحاصل کیاتھاان کے حوصلے جواں تھے ،انہیں یقین تھاکہ اب بھی اللہ کی مددان کے شامل حال ہی ہے، اوروہ مجاہدین جواس معرکہ میں شامل نہیں تھے مگرشوق شہادت سے مغمورتھے ،اس طرح سارا لشکرجوتعداداورجنگی سامان میں بہت کم تھامگرانہیں اللہ کی غائبانہ مددپریقین کامل تھا، اس لئے جیسے ہی دشمن نے حملہ کیاوہ بے جگری سے ان پرپل پڑے اورمشرکین کوچن چن کرقتل کرتے ہوئے بہت جلدان کے قلب تک پہنچ گئے، جہاں ان کاجھنڈابردارکھڑاتھا(علم بردارہی سوارفوج کاکمانڈرہوتاہے)

ثُمَّ حَمَلَ لِوَاءَهُمْ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ

طلحہ بن ابی طلحہ کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا۔

إنَّ عَلَى أَهْلِ اللِّوَاءِ حَقَّا    أَنْ یَخْضِبُوا الصَّعْدَةَ أَوْ تَنْدَقَّا

علم اٹھانے والوں کایہ فرض ہے کہ نیزہ (خون سے)رنگین ہوجائے یاٹوٹ جائے۔[65]

فَحَمَلَ عَلَیْهِ حَمْزَةُ فَقَطَعَ یَدَهُ وَكَتِفَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مُؤْتَزَرِهِ وَبَدَا سَحْرَهُ ،ثُمَّ حَمَلَهُ أَبُو سَعِید بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، فَرَمَاهُ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، فَأَصَابَ حَنْجَرَتَهُ فَقَتَلَهُ

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اس کے کندھے پرتلوارکااس شدت سے حملہ کیاکہ تلوار اس کاہاتھ اورشانہ کاٹتی ہوئی اس کی ناف تک جاپہنچی اورجھنڈازمین پرگرپڑا،اس کے بعد ان دونوں کے تیسرے بھائی ابوسعیدبن ابی طلحہ نے اٹھالیا، اس پر سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تاک کرتیرچلایاجواس کے حلق میں پیوست ہوگیااوراس کی زبان باہرنکل پڑی ، اوروہ جھنڈے سمیت زمین پرگرکراپنی آخری سانسیں پوری کرنے لگا۔

إنَّ أَبَا سَعْدِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ خَرَجَ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ، فَنَادَى:مَنْ یُبَارِزُ بِرَازًا، فَلَمْ یَخْرَجْ إلَیْهِ أَحَدٌ. فَقَالَ: یَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، زَعَمْتُمْ أَنَّ قَتْلَاكُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَأَنَّ قَتْلَانَا فِی النَّار، كَذبْتُمْ وَاللات! لَوْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ حَقًّا لَخَرَجَ إلَیَّ بَعْضُكُمْ،فَخَرَجَ إلَیْهِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ، فَضَرَبَهُ عَلِیٌّ فَقَتَلَهُ

ایک روایت یہ بھی ہےمشرکوں کے علم بردارابوسعدبن ابی طلحہ نے میدان میں آکرآوازدی کہ کوئی ہے جومیرے مقابل آئے،اسی طرح کئی باردعوت مبارزت دی ،جب مسلمانوں میں سے کوئی اس کے مقابلہ میں نہ آیا،تواس نے کہااے اصحاب محمد!تم کہتے ہوکہ ہم میں سے جوقتل ہوتاہے وہ جنت میں جاتاہے اورہمارے مخالفوں میں سے جو قتل ہوتاہے وہ دوزخ میں جاتاہے پھرکیاوجہ ہے کہ تم میں سے کوئی میرے مقابل نہیں آتامعلوم ہواکہ تم لوگ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہواگراپنے دعویٰ میں سچے ہوتے تو ضرورمیرےمقابل آتے،یہ بات سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اس کے مقابل آئے اوراس کے حملہ کوروک کرایک ہی وارمیں اس کاکام تمام کر دیا۔[66]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: قَتَلَ أَبَا سَعْدِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ

ابن اسحاق کہتے ہیں ابوسعدکوسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قتل کیاتھا۔[67]

ثُمَّ حَمَلَهُ مُسَافِعُ بْنُ طَلْحَةَ، فَرَمَاهُ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ حَمَلَهُ الْحَارِثُ بْنُ طَلْحَةَ، فَرَمَاهُ عَاصِمٌ فَقَتَلَهُ،ثُمَّ حَمَلَهُ كِلابُ بْنُ طَلْحَةَ، فَقَتَلَهُ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ،ثُمَّ حَمَلَهُ الْجلاسُ بْنُ طَلْحَةَ، فَقَتَلَهُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْد اللهِ، ثُمَّ حَمَلَهُ أَرْطَأَةُ بْنُ شُرَحْبِیلَ، فَقَتَلَهُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ،ثُمَّ حَمَلَهُ شُرَیْحُ بْنُ قَارِظٍ، فَلَسْنَا نَدْرِی مَنْ قَتَلَهُ،وَالْقَاسِطُ بْنُ شُرَیْحِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ عَبْدِ الدّارِ قَتَلَهُ قُزْمَانُ

پھراس جھنڈے کومسافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اپنے قابومیں کرلیااسے عاصم رضی اللہ عنہ بن ثابت بن ابی افلح نے تیر چلا کر ٹھنڈا کر دیا،پھر اس جھنڈے کومسافع کے بھائی حارث بن طلحہ نے اٹھالیا مگر اسے بھی عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ہی قتل کرڈالا،اس کے بعدکلاب بن طلحہ نے جھنڈا کھڑا کردیامگر اس کی حسرت بھی دل میں رہ گئی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا تب یہ جھنڈاجلاس بن طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالامگراسے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے نیزے کے وارسے قتل کر دیا ، اس طرح جھنڈے کی حفاظت کرتے کرتے ایک ہی گھرکے چھ اشخاص مارے گئے،پھراس قبیلہ کے ایک شخص ارطاة بن شرحبیل نے سنبھالا اسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے خاک میں ملادیا،پھرشریح بن قارظ نے جھنڈاقائم رکھنے کی کوشش کی مگراسے نا معلوم شخص نے قتل کر دیا ،اور کہا جاتا ہے کہ قزمان جوایک منافق تھا اور قبائلی حمیت کے جوش میں مسلمانوں کاساتھ دے رہاتھا قتل کردیا،اب کے جھنڈاشرجیل بن ہاشم کے بیٹے نے تھامااسےقزمان نے ٹھنڈاکردیا،اس کے بعدابوزیدعمروبن عبدمناف نے جھنڈااٹھایامگراسی لمحے قزمان نے اسے بھی خاک نشین کردیا،پھرشرجیل بن ہاشم کے ایک لڑکے نے جھنڈے کوتھامنے کی کوشش کی مگروہ بھی قزمان کے ہاتھوں انجام کو پہنچا،اس طرح بنوعبالدارکے دس افرادیکے بعددیگرے جھنڈے کوتھامتے لقمہ اجل بن گئے ان کے بعداس قبیلے کاکوئی فردایسا نہ بچاجوجھنڈااٹھانے کافرض منصبی ادا کرتا،

 أَنَّ اللِّوَاءَ لَمْ یَزَلْ صَرِیعًا حَتَّى أَخَذَتْهُ عَمْرَةُ بِنْتُ عَلْقَمَةَ الْحَارِثِیَّةُ، فَرَفَعته لقریش، فَلَا ثَوَابه . وَكَانَ اللِّوَاءُ مَعَ صُؤَابٍ، غُلَامٌ لِبَنِی أَبِی طَلْحَةَ، حَبَشِیٌّ وَكَانَ آخِرُ مَنْ أَخَذَهُ مِنْهُمْ، فَقَاتَلَ بِهِ حَتَّى قُطِعَتْ یَدَاهُ، ثُمَّ بَرَكَ عَلَیْهِ، فَأَخَذَ اللِّوَاءَ بِصَدْرِهِ وَعُنُقِهِ حَتَّى قُتِلَ عَلَیْهِ، وَهُوَ یَقُولُ: اللهمّ هَلْ أَعْزَرْتُ یَقُولُ: أَعَذَرْتُ

مشرکین کانشان گراپڑاہواتھاکہ اتنے میں ایک عورت جس کانام عمرہ بنت علقمہ حارثیہ نے آکراس جھنڈے کواٹھالیااورپھراس عورت سے بنوابی طلحہ کے ایک حبشی غلام صواب نے حق نمک اداکرنے کے لئے اس جھنڈے کواٹھالیا اوربڑی دیرتک مسلسل خوب بہادری ودلیری سے مقابلہ کرتا رہا،یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹ گئے مگرپھربھی اس نے جھنڈے کوزمین پرنہ گرنے دیا،اورگھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے گردن اورٹھوڑی کے ذریعہ سے جھنڈے کو اپنے سینہ سے چمٹا لیا اور اسے کھڑارکھا،آخریہ کہتاہواقتل ہوگیاکہ اے اللہ! میں نے اپنافرض اداکردیا ہے،اوریہ غلام قریش کاآخری علم بردارتھا۔[68]

اس طرح گیارہ علم برداروں  قتل کے بعد بڑی دیرتک مشرکین کایہ جھنڈابغیرکسی علم بردارکے زمین پرہی پڑا رہا ،جان کے خوف سے کسی میں ہمت وجرات ہی نہیں ہو رہی تھی کہ آگے بڑھ کرجھنڈا کھڑا کر دے ،اورنہ ہی مجاہدین انہیں کوئی موقعہ دے رہے تھے ،باربارعلم برداروں کے قتل ہوجانے سے قریش کی سوارجمعیت منتشرومتفرق ہوگئی ، تب مجاہدین نے جن کی غیرت وحمیت قالینوں پرچلنے والیوں کے وصال وفراق کے جذبات پرمبنی نہیں تھی، بلکہ اس کامحورایک ایسی ریاست کاقیام وبقاتھاجوپوری دنیاکومرکزیت اورقانونیت کادرس دینے اوراس طرح بندہ خاکی کومسجودملائک بنانے کے لئے قائم ہوئی تھی، جوش وخروش سے ان پرتابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ، توقع کے مطابق مجاہدین کوخاطرخواہ کامیابی حاصل ہورہی تھی اور مشرکین کے قدم اپنی جگہ سے اکھڑنے لگے تھے ،سیدالاشہدا ئ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی دوتلواروں سے دشمن کے قلب میں اپنی تلوار کے جوہردیکھارہے تھے ،وہ دشمن کے قلب میں اسی طرح دشمنوں کاصفایاکررہے تھے کہ مشرکین مکہ کی طرف سے سباع بن عبدالعزیٰ الغبشانی نامی ایک شخص (جس کی ماں عورتوں کاختنہ کرتی تھی) ان کے مقابلہ کے لئے نکلااورچیلنج دینے لگاهَلْ من مبارز!

اس کے مبارزطلب کرنے پراسداللہ ورسولہ سیدالشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور کہا

یَا سِبَاعُ یَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ أَتُحَادُّ اللهَ وَرَسُولَهُ؟

اے سباع !اے ام انمار کے بیٹے! جوعورتوں کاختنہ کرتی ہے کیاتواللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتاہے؟یہ کہہ کراس پرحملہ آورہوئے اور چند ثانوں (سیکنٹوں ) میں اسے قصہ پارینہ بنادیا۔[69]

عرب میں مردوں کی طرح عورتوں کابھی ختنہ ہوتا تھااورجس طرح مردوں  ختنے مرد کیا کرتے تھے عورتوں کے ختنے عورتیں کیا کرتی تھیں ،یہ طریقہ جاہلیت میں بھی رائج تھااوراسلام نے اسے باقی رکھاکیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی جوبعض سنتیں عربوں میں باقی رہ گئیں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کیونکہ سباع بن عبدالعزیٰ کی ماں عورتوں کے ختنے کیاکرتی تھی اس لیے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اسے اس کی ماں کے پیشے کی عاردلائی، جب آپ اس کے جسم سے زرہ اتارنے کے لئے اس پر جھکے تواسی لمحے وحشی بن حرب نے جو ایک پتھرکے پیچھے چھپا بیٹھا تھا جس کواس مقصد کی خاطرمیدان احد لایاگیا تھا کہ وہ حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوقتل کرے گاتواسے اس کے بدلے میں آزادی مل جائے گی وَهَزَزْتُ حَرْبَتِی حَتَّى إذَا رَضِیتُ مِنْهَا دَفَعْتُهَا عَلَیْهِ، فَوَقَعَتْ فِی ثُنَّتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَیْنَ رِجْلَیْهِ، فَأَقْبَلَ نَحْوِی، فَغُلِبَ فَوَقَعَ، وَأَمْهَلْتُهُ حَتَّى إذَا مَاتَ جِئْتُ فَأَخَذْتُ حَرْبَتِی، ثُمَّ تَنَحَّیْتُ إلَى الْعَسْكَرِ، وَلَمْ تَكُنْ لِی بِشَیْءِ حَاجَةٌ غَیْرَهُ

اس نےموقعہ غنیمت جان کر اپنانیزہ تولااور حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب پراچھال دیا،نیزہ حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی ناف کے نیچے لگااوردونوں پاؤں کے بیچ سے آرپارہوگیا، حمزہ رضی اللہ عنہ نے حملہ آورکی طرف بڑھنا چاہامگرآگے نہ بڑھ سکے اورزمین پرگرپڑے اوراپنی جان اپنے رب کے حوالے کردی ،جس کے نام کی سربلندی کے لئے وہ میدان میں نکلے تھے، جب وہ شہیدہوگئے تو وحشی نے اپنانیزہ جاکر باہر نکال لیا اوراپناطے شدہ کام ختم کرکے اپنے لشکرمیں جاکربیٹھ گیا[70]

وَقَدْ كَانَ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِی عَامِرٍ الْغَسِیلُ، الْتَقَى هُوَ وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَلَمَّا اسْتَعْلاهُ حَنْظَلَةُ رَآهُ شَدَّادُ بْنُ الأَسْوَدِ- وَكَانَ یُقَالُ لَهُ ابْنُ شَعُوبٍ- قَدْ عَلا أَبَا سُفْیَانَ، فَضَرَبَهُ شَدَّادٌ فَقَتَلَهُ،قَالَ رَأَیْت الْمَلَائِكَةَ تُغَسّلُهُ فِی صِحَافِ الْفِضّةِ بِمَاءِ الْمُزْنِ بَیْنَ السّمَاءِ وَالْأَرْضِ ، فَسُئِلَتْ صَاحِبَتُهُ

حنظلہ رضی اللہ عنہ (ابوعامرفاسق بیٹے) بھی دل جمعی اورجوش وخروش سے لڑتے اور دشمنوں کاکام تمام کرتے ہوئے دشمن کے قلب میں سالارلشکرابوسفیان بن حرب تک جاپہنچے اور ابوسفیان کے ساتھ دودوہاتھ کرنے لگے ، حنظلہ رضی اللہ عنہ بن ابی عامراوسی اس پر بھاری پڑ رہے تھے اور قریب تھاکہ اسے قتل کرڈالتے کہ شداد بن اسودلیثی نے بزدلی سے جھٹ ان پر عقب سے حملہ کرکے شہید کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے فرشتوں کودیکھاکہ وہ حنظلہ رضی اللہ عنہ کوچاندی کے برتنوں میں ابرکے پانی سے غسل دے رہے ہیں جاؤان کی بیوی سے دریافت کروکہ یہ کس حال میں تھے؟

فَقَالَتْ خَرَجَ وَهُوَ جُنُبٌ حِینَ سَمِعَ الْهَاتِفَةَ. صَاحِبَتُهُ یَعْنِی امْرَأَتَهُ وَهِیَ جَمِیلَةُ بِنْتُ أُبَیّ ابْنِ سَلُولَ أُخْتُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیّ، وَكَانَ ابْتَنَى بِهَا تِلْكَ اللّیْلَةَ فَكَانَتْ عَرُوسًا عِنْدَهُ فَرَأَتْ فِی النّوْمِ تِلْكَ اللّیْلَ كَأَنّ بَابًا فِی السّمَاءِ فُتِحَ لَهُ فَدَخَلَهُ ثُمّ أُغْلِقَ دُونَهُ فَعَلِمَتْ أَنّهُ مَیّتٌ مِنْ غَدِهِ

ان کی بیوی نے کہاان کونہانے کی حاجت تھی مگرجہادکی آوازسنتے ہی فوراًگھرسے بغیرغسل کئے چلے گئے،اوران کی بیوی جمیلہ بنت ابی سلول تھی جوعبداللہ بن ابی کی بہن تھیں ،یہ واقعہ لیلہ زفاف کا ہے کہ اسی رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان لیے آسمان سے دروازہ کھلا جب اندر داخل ہوئے تو اسے بند کر دیا گیا تو میں پہچان گئی کہ کل جام شہادت نوش فرمائیں گے،

 فَدَعَتْ رِجَالًا مِنْ قَوْمِهَا حِینَ أَصْبَحَتْ فَأَشْهَدَتْهُمْ عَلَى الدّخُولِ بِهَا خَشْیَةَ أَنْ یَكُونَ فِی ذَلِكَ نِزَاعٌ ذَكَرَهُ الْوَاقِدِیّ فِیمَا ذُكِرَ لِی،وَذَكَرَ غَیْرُهُ أَنّهُ اُلْتُمِسَ فِی الْقَتْلَى، فَوَجَدُوهُ یَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَلَیْسَ بِقُرْبِهِ مَاءٌ تَصْدِیقًا لِمَا قَالَهُ الرّسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی هَذَا الْخَبَرِ مُتَعَلّق

لہٰذا انہوں نے اپنے قبیلے والوں کو بلوا بھیجا تو وہ صبح کو سب آپ کے پاس حاضر ہوئے تو سارا ماجرا بیان فرمایا اور اس واقعہ کو واقدی نے ذکر کیاہے، لڑائی ختم ہونے کے بعدجب ان کی لاش تلاش کی گئی توان کے سرسے پانی ٹپک رہاتھا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی بیوی عبداللہ بن ابی کی بہن جمیلہ رضی اللہ عنہا سے حنظلہ رضی اللہ عنہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ حنظلہ رضی اللہ عنہ جنبی تھے انہوں نے جیسے ہی اعلان جہادسنا فورا ہی جنگ میں کودپڑے اورانہیں غسل جنابت کرنے کا موقعہ ہی نہ مل سکا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے انہیں غسل دیا ہے۔[71]

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب، طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ (عشرہ مبشرہ) سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب، نضربن انس رضی اللہ عنہ ،سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ نے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئےاورکئی کفارکوتہ تیغ کیا۔ ابودجانہ رضی اللہ عنہ کفار مجمع پرپل پڑے اوراس زورسے حملہ کیا کہ جو سامنے آتااسے جہنم واصل کردیتے ، جب ان کی تلوارکندہوجاتی توپتھرپراسے تیزکرلیتے اورپھر دشمنوں کی کاٹ میں مشغول ہو جاتے، اسی طرح جاں فروشی سے لڑتے ہوئے کافروں کی صفوں کوچیرتے ہوئے بہادرانہ وار کفارکی عورتوں تک پہنچ گئے ،جہاں دامن کوہ میں عورتوں کی سردارہند بنت عتبہ،ابوسفیان کی بیوی اورامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی ماں دوسری ساتھیوں کے ساتھ کھڑی اپنے لشکرکی ہمت بندھوارہی تھی اورانہیں آگے بڑھارہی تھی ،وہ اور اس کے ساتھ کی عورتیں اس وقت یہ اشعار گا گا کر اپنے مردوں کوغیرت کاجوش دلا رہی تھیں ، اورمیدان چھوڑکربھاگنے سے بازرکھ رہی تھیں ۔

نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقْ ،نَمْشِی عَلَى النَّمَارِقْ

ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ،ہم قالینوں پرچلنے والیاں ہیں

 مَشْیَ الْقَطَا النّوَاتِقْ،وَالْمِسْكُ فِی الْمَفَارِقْ

ہماری چال اورہمارے اندازونازدلبری اوردلکشی لئے ہوئے ہیں   ہمارے جسموں کی مست خوشبوبے نظیرہے

وَالدّرّ فِی المخَانق، إِنْ تُقْبِلُوا نُعَانِقْ

ہم زیورات اورموتیوں سے لدی ہوئی ہیں ،توہم تمہارے گلوں میں باہیں ڈال دیں گی

أَوْ تُدْبِرُوا نُفَارِقْ ، فِرَاقَ غَیْرِ وَامِقْ

اور پیچھے قدم ہٹایا تو ہم تم سے الگ ہوجائیں گی،اور اس فراق کے بعد کبھی ملاقات نہ ہوگی ۔[72]

ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے بے پناہ حملوں کی تاب مشرکین مکہ کے بہادرمردنہ لاسکے تھے توعورتیں کیامقابلہ کرتیں ، ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے جیسے ہی ہندبنت عتبہ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطافرمائی ہوئی تلواراٹھائی وہ اپنی جماعت کے مردوں کومددکے لئے نام بنام پکارتی اورشورمچاتی ہوئی بھاگ کھڑی ہوئی مگراس کی مددکی پکارپرکسی کی ہمت وجرات نہ ہوئی کہ موت کے منہ کی طرف بڑھتا ،

فَلَمَّا حَمَلْتُ عَلَیْهِ السَّیْفَ وَلْوَلَ ، فَأَكْرَمْتُ سَیْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضْرِبَ بِهِ امْرَأَةً

اسی وقت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کوخیال آیاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوارسے ایک عورت پرحملہ کروں ،یہ خیال آتے ہی اپنی تلوارہٹالی اور مشرکین کے لشکرکوکاٹتے ہوئے دوبارہ اپنے لشکرمیں شامل ہوگے ۔[73]

زبیربن العوام رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں تھے جنہوں نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ سے پہلے تلوارذوالفقارلینے کے لئے ہاتھ بڑھایاتھامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ان کے حوالے نہیں کی تھی،

 أَنَّ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ قَالَ:وَجِدْتُ فِی نَفْسِی حِینَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّیْفَ فَمَنَعْنِیهِ وَأَعْطَاهُ أَبَا دُجَانَةَ، وَقُلْتُ: أَنَا ابْنُ صَفِیَّةَ عَمَّتَهِ، وَمِنْ قُرَیْشٍ، وَقَدْ قُمْتُ إلَیْهِ فَسَأَلْتُهُ إیَّاهُ قَبْلَهُ، فَأَعْطَاهُ إیَّاهُ وَتَرَكَنِی، وَاَللَّهِ لَأَنْظُرَنَّ مَا یَصْنَعُ ،فَاتَّبَعْتُهُ، فَأَخْرَجَ عِصَابَةً لَهُ حَمْرَاءَ، فَعَصَبَ بِهَا رَأْسَهُ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: أَخْرِجْ أَبُو دُجَانَةَ عِصَابَةَ الْمَوْتِ

زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کہتے ہیں جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوارمانگی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلوارنہ دی اورابودجانہ رضی اللہ عنہ کوعنایت کردی تومیرے دل میں ایک خیال پیداہوااورمیں نے کہاکہ میں ایک قریشی اورآپ کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا ہوں پھرآپ نے مجھے تلوارکیوں عنایت نہ کی ،آخر ابودجانہ رضی اللہ عنہ میں ایسی کیاصفت ہے کہ ان کوعطاکردی اب میں دیکھوں گاکہ ابودجانہ اس تلوار کاحق کیسے اداکرتے ہیں ؟اس لئے میں ان کے پیچھے پیچھے لگارہاچنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے سرپرسرخ عمامہ نکال کرباندھا، اس کودیکھ کرانصارکہنے لگےکہ اب ابودجانہ رضی اللہ عنہ جنگ کے لئے تیارہے اورانہوں نے موت کاعمامہ نکال کرسرپرباندھ لیاہے ،پھروہ یہ اشعارکہتے ہوئے دشمن کی طرف قدم بڑھے۔

أَنَا الّذِی عَاهَدَنِی خَلِیلِی ،وَنَحْنُ بِالسّفْحِ لَدَى النّخِیلِ

میں نے اپنے خلیل سے وعدہ کیاہے،ہم پہاڑکے دامن میں نخلتان کے قریب تھے

 أَلّا أَقَوْمَ الدّهْرَ فِی الْكَیّولِ، أَضْرِبْ بِسَیْفِ اللهِ وَالرّسُولِ

عہدیہ ہے کہ کبھی پیچھے کی صف میں کھڑانہ ہوں گا،اللہ اوراس کے رسول کی تلوارسے جنگ کروں گا۔[74]

فَجَعَلَ لَا یَلْقَى أَحَدًا إلَّا قَتَلَهُ ،وَكَانَ فِی الْمُشْرِكِینَ رَجُلٌ لَا یَدَعُ لَنَا جَرِیحًا إلَّا ذَفَّفَ عَلَیْهِ، فَجَعَلَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا یَدْنُو مِنْ صَاحِبِهِ فَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ یَجْمَعَ بَیْنَهُمَا، فَالْتَقَیَا، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ، فَضَرَبَ الْمُشْرِكُ أَبَا دُجَانَةَ، فَاتّقَاهُ بِدَرَقَتِهِ، فَعَضّتْ بِسَیْفِهِ، وَضَرَبَهُ أَبُو دُجَانَةَ فَقَتَلَهُ ثُمّ رَأَیْتُهُ قَدْ حَمَلَ السّیْفَ عَلَى مَفْرِقِ رَأْسِ هِنْدِ بِنْتِ عُتْبَة، ثُمّ عَدَلَ السّیْفَ عَنْهَا،قَالَ الزَّبِیرُ فَقُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،ثُمَّ عَدَلَ السَّیْفَ عَنْهَا

پھرتوجوبھی ان کے مدمقابل ہواوہ قتل ہوگیا،اسی طرح مشرکین میں بھی ایک شخص تھاجومسلمانوں کے زخمیوں کوقتل کررہاتھا،دونوں اپنااپناکام کرتے قریب ترہوتے جارہے تھے ،میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ان دونوں کامڈبھیڑہوجائے اورپھرایساہی ہوااوردونوں مقابلے پر آگئے اورتلواربازی ہونے لگی،اس مشرک شخص نے اپنی تلوارابودجانہ رضی اللہ عنہ پر چلائی مگرانہوں نے اس کاواراپنی ڈھال پرروک لیااورتلواراس میں پھنس گئی،اب ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے اس پروارکیااوراسے ڈھیرکردیااور میں نے دیکھا کہ ابو دجانہ اپنی تلوار ہند بنت عتبہ کے سر پر لیئے ہوئے کھڑے ہیں لیکن بہر حال ان سے اپنی تلوار کو ہٹا لیا، زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس وقت میں نے اپنے دل میں کہابے شک اللہ اوررسول ہی خوب جانتے ہیں ، واقعی ابودجانہ ہی اس تلوارکاحق اداکرنے کے قابل تھے۔[75]

اس طرح دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ،مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر،طلحہ بن عبیداللہ ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھیرے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ، سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ،سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ سعدبن ربیع رضی اللہ عنہ ،نضر رضی اللہ عنہ بن انس وغیرہ نے بھی اس جواں مردی اورثابت قدمی سے لڑائی کی کہ مشرکین کوپاؤں جمانے کاموقعہ ہی نہ مل سکا،

وَحَمَلَتْ خَیْلُ الْمُشْرِكِینَ فَنَضَحَتْهُمُ الرُّمَاةُ بِالنَّبْلِ ثَلَاثَ مَرَّات فَدخل الْمُسلمُونَ عَسْكَر الْمُشْركین فانتبهوهم فَرَأَى ذَلِكَ الرُّمَاةُ فَتَرَكُوا مَكَانَهُمْ

خالدبن ولیدجومکی لشکرکے میمنہ پرمقررتھے نے مسلمانوں کے بائیں بازوپرجس کی قیادت زبیربن العوام رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ بن اسودکررہے تھے مسلمانوں کی صفوں کوپلٹنے کے لئے تین بارپرزورحملے کیے تاکہ ان کاگھیراتوڑکرمسلمانوں کی پشت تک پہنچ جائیں اورعقب سے حملہ کرکے شکست سے دوچارکردیں مگردرے پرتعینات ماہر تیراندازوں نے ان کی ہرکوشش ناکام بنا دی ۔[76]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی تیر چلارہے تھے ،

 قَالَ قَتَادَةُ بْنُ النّعْمَانِ:وَبَاشَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْقِتَالَ، فَرَمَى بِالنّبْلِ حَتّى فَنِیَتْ نَبْلُهُ وَتَكَسّرَتْ سِیَةُ قَوْسِهِ، فَأَخَذَهَا قَتَادَةُ بْنُ النّعْمَانِ وَكَانَتْ عِنْدَهُ

قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتال میں شامل تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان سے اتنے تیرچلائے کہ اس کاکنارہ ٹوٹ گیا،پھراس کمان کوقتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے ہی لے لیااوروہ انہیں کے پاس رہی۔[77]

ان رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَمَى عَنْ قَوْسِهِ حَتَّى انْدَقَّتْ سِیَتُهَا، فَأَخَذَهَا قَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی کمان سے اتنے تیرچلائے کہ اس کاکنارہ ٹوٹ گیاپھراس کمان کوقتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے ہی لے لیااوروہ انہیں کے پاس رہی[78]

مشرکین کی عبرتناک شکست :

اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لڑائی کے بعدمسلمانوں کومشرکین پرواضح غلبہ حاصل تھا،جب مکی لشکرنے مسلمانوں کے دلیرانہ اورجان بازانہ تابڑتوڑحملوں کوروکنے کے لئے پوری کوشش کرڈالی مگراس کے باوجودوہ خودکوبے بس اورمجبورمحسوس کرنے لگے، ان کے پیراکھڑنے لگے توآخران کے حوصلے جواب دے گئے ، ان کے کیمپ میں کھلبلی اورگھبراہٹ کے آثارپیداہوئے اوروہ مقابلے کے تاب نہ لاکرمنہ چھپاکراورپشت دکھاکربھاگ کھڑے ہوئے،ان کی عورتیں بھی جوان کی حوصلہ افزائی کررہی تھیں بھی پریشان اوربدحواس ہوکرپہاڑوں کی طرف بھاگنے لگیں اورمکی لشکرکی ہزیمت اورپسپائی کاسبب بن گئیں ۔

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا لَقِینَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَیْتُ النِّسَاءَ یَشْتَدِدْنَ فِی الجَبَلِ، رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ، قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ

برا رضی اللہ عنہ بن عازب سے مروی ہے جب زورکارن پڑاتودشمن بھاگ کھڑاہوا،میں نے ان کی عورتوں کوبھاگتے دیکھاہے ،انہوں نے (تیزی سے بھاگنے کے لئے ) اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اوران کی پازیبیں نظرآرہی تھیں ۔[79]

عَنْ الزُّبَیْرِ، أَنَّهُ قَالَ: وَاَللَّهِ لَقَدْ رَأَیْتنِی أَنْظُرُ إلَى خَدَمِ هِنْدِ بِنْتِ عُتْبَةُ وَصَوَاحِبُهَا مُشَمَّرَاتٌ هَوَارِبُ، مَا دُونِ أَخْذِهِنَّ قَلِیلٌ وَلَا كَثِیرإذْمَالَتْ الرُّمَاةُ إلَى الْعَسْكَرِ، حِینَ كَشَفْنَا الْقَوْمَ عَنْهُ وَخَلَّوْا ظُهُورَنَا لِلْخَیْلِ، فَأُتِینَا مِنْ خَلْفِنَا، وَصَرَخَ صَارِخٌ: أَلَا إنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ،فَانْكَفَأْنَاوَانْكَفَأَ عَلَیْنَا الْقَوْمُ بَعْدَ أَنْ أَصَبْنَا أَصْحَابَ اللِّوَاءِ حَتَّى مَا یَدْنُو مِنْهُ أَحَدٌ مِنْ الْقَوْمِ.

زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب کفارکوشکست ہوئی تومیں نے دیکھا ہند بنت عتبہ اوراس کے ساتھ دوسری عورتیں اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے بے تحاشا بھاگ رہی تھیں اورکسی چیزکی طرف مڑکرنہ دیکھتی تھیں ،اس شکست کودیکھ کروہ تیراندازجن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑکے درہ میں بٹھایاتھاوہاں سے اٹھ کرلشکرکی طرف مال غنیمت کے لوٹنے کی لالچ سے چلے آئے، اوراسی وقت شیطان نے آوازدی کہ محمدقتل ہوگئے،پس اس آوازکوسن کرمشرکین اسی درہ میں جواب خالی ہوگیاتھامسلمانوں پرپلٹ پڑے ،جس کے نتیجے میں ہماری فتح شکست میں بدل گئی۔[80]

وَنَادَى إبْلِیسُ وَتَصَوّرَ فِی صُورَةِ جُعَالِ بْنِ سُرَاقَةَ: إنّ مُحَمّدًا قَدْ قُتِلَ! ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ

ابلیس(لَعْنَةُ اللهِ عَلَیْهِ) نے جوجعال بن سراقہ کی صورت میں ظاہرہوا تین بارزور آوازلگائی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل ہوگئے۔[81]

ونادى إبلیس عند جبل عینین وقدتَصَوّرَ فِی صُورَةِ جُعَالِ بْنِ سُرَاقَةَ: إنّ مُحَمّدًا قَدْ قُتِلَ! ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ

ابلیس جبل عینین پرجعال بن سراقہ کی صورت میں ظاہرہوااورتین بارچیخ کربولامحمدقتل ہوگئے۔[82]

دوزخی مجاہد:

وَفِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لاَ یَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلاَ فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا یَضْرِبُهَا بِسَیْفِهِ، فَقِیلَ: مَا أَجْزَأَ مِنَّا الیَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلاَنٌ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ،فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ

مسلمانوں کے لشکرمیں ایک ایساشخص(قزمان) بھی تھاجوبہت بے جگری ،دلیری اورسرفروشی کے ساتھ(اپنی قومی غیرت سے) جنگ کررہاتھا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکرکیاکہ مشرکین کاجوآدمی اسے ملتاہے وہ اس کاپیچھاکرکے اسے قتل کیے بغیرنہیں رہتے،کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے (اس کواس طرح لڑتادیکھ کر)کہاآج توفلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اورہمت سے لڑاشایداتنی بہادری سے کوئی نہیں لڑاہوگا،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ شخص دوزخی ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک نے کہامیں اس شخص کے ساتھ رہوں گا(تاکہ اس کے دوزخی ہونے کامعلوم کرسکوں )الغرض وہ صحابی رضی اللہ عنہ اس شخص کے ساتھ ساتھ رہا،جہاں وہ ٹھہرتایہ بھی وہیں ٹھہرجاتااورجب وہ دوڑتاتویہ بھی اس کے ساتھ دوڑتا،

قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِیدًا،فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ سَیْفَهُ بِالأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَیْنَ ثَدْیَیْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَیْفِهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ،فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ،قَالَ:وَمَا ذَاكَ؟

آخرلڑتے لڑتے وہ شخص شدیدزخمی ہوگیااورچاہاکہ جلدی موت آجائے،(اورزخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے،اپنی زندگی کاخاتمہ کرنے کے لئے)اپنی تلوارزمین پررکھی اوراس کی دھارکواپنی چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اپنا سارابوجھ اس پردے دیااورخودکشی کرلی،وہ صحابی رضی اللہ عنہ جواس شخص کے پیچھے پیچھے لگاہواتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورکہنے لگامیں گواہی دیتاہوں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے ؟

قَالَ: الرَّجُلُ الَّذِی ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِی طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِیدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَیْفِهِ فِی الأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَیْنَ ثَدْیَیْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَیْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ، فِیمَا یَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، فِیمَا یَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ،وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِیمِ

اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ آپ نے ایک شخص کے متعلق فرمایاتھاکہ وہ دوزخی ہے ،لوگوں پریہ بات ناگوارگزری تو میں نے کہااے ساتھیوں میں اس معاملہ میں تمہارااطمنان کرائے دیتاہوں ،میں اس شخص کا پیچھا کرتارہا،وہ شخص شدیدزخمی ہوگیااوراس نے چاہاکہ جلدی موت آجائےتو(زخموں کی تکلیف برداشت نہ کر کے ) اس نے اپنی تلوار زمین پرگاڑدی اوراس کی نوک کواپنے سینے کے سامنے کرکے اس پرگرپڑے اوراس طرح انہوں نے خودکشی کرلی،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانسان زندگی بھرلوگوں کی نظروں میں جنتیوں کی طرح عمل کرتاہے حالانکہ درحقیقت وہ دوزخی ہوتاہے ، اسی طرح دوسراانسان لوگوں کی نظروں میں دوزخیوں جیسے عمل کرتاہے حالانکہ فی الحقیقت وہ جنتی ہوتاہے،بے شک تمام اعمال کادارومدارخاتمہ پرہے۔[83]

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الكِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ فَیَدْخُلُ الجَنَّةَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ، حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فَیَدْخُلُ النَّارَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااورآپ سچوں کے سچے تھے ۔۔۔پس انسان(زندگی بھر)دوزخیوں کے کام کرتارہتاہے اورجب اس کے اوردوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتاہے تواس کی تقدیرسامنے آتی ہے اوروہ جنتیوں کے کام کرنے لگتاہے اورجنت میں چلاجاتاہے،اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتارہتاہے اورجب اس کے اورجنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتاہے تواس کی تقدیرسامنے آتی ہے اوروہ دوزخیوں کے کام شروع کردیتاہے اوردوزخ میں چلاجاتاہے۔[84]

ہدایت کے باوجودتیراندازوں کی فاش غلطی:

غزوہ بدرکے بعدمسلمانوں کی مشرکین مکہ پریہ دوسری واضح فتح تھی، مگرعین اس وقت تیراندازوں کی اکثریت سے ایک فاش غلطی ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں جنگ کاپانسہ میدان جنگ سے فرارہوتے مشرکین کے حق میں ہوگیا،اورمسلمان اپنی بقاکی جنگ لڑنے لگے ،ہوایہ کہ عربوں میں معاشی ضروریات کے لئے غنیمت سے بڑھ کرکوئی چیزپسندیدہ نہ تھی،شکست کھاکربھاگتے دشمن کی چیزوں کولوٹنا،دشمن مردوں کوگرفتارکرکے انہیں غلام بنانا،یادل لگی کے لئے ان کی زبان اورآنکھوں میں کانٹے چھوکریاجسم کاکوئی عضوکاٹ کرقیدکرنا،تاکہ وہ تکلیف کی شدت سے تڑپ تڑپ کرمرجائے اوروہ اس سے محظوظ ہوں ،میدان جنگ میں عورتوں اوربچوں کوقتل کرنا، یا انہیں آگ میں جلادینا،حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کردینا،میدان جنگ میں برسرعام عورتوں کوبے آبروکردینا،مردوں کامثلہ کرنا،کی رسم صدیوں سے ان کے رگ وریشے میں پڑی ہوئی تھی ، مشرکین کافرار،اوراپنے ساتھیوں کومشرکین کے لشکر کو لوٹنے اوران کے مال غنیمت جمع کرتے دیکھ کرعبداللہ بن جبیرکے زیادہ تر تیر اندازساتھی جنہیں ایک اہمیت کے حامل بلند درہ پر تعینات کیاگیاتھا،اورفتح یاشکست کسی بھی حالت میں وہاں سے نہ ہٹنے کاحکم فرمایاگیاتھا،مال غنیمت کے لالچ میں مبتلاہوگئے،حالانکہ غزوہ بدرمیں کفار و مشرکین کوقتل کرنے کے بجائے اسی مال غنیمت کوسمیٹنے پراللہ تعالیٰ کی تنبیہ نازل ہوچکی تھی۔

لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۶۸ [85]

ترجمہ:اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔

مگروہ سب بھول کرسوچنے لگے کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کونہ مل جائے جواسے لوٹ رہے ہیں ،اورہم تقسیم کے موقع سے محروم نہ رہ جائیں ،

ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟

چنانچہ وہ کہنے لگے اے قوم ! مشرکین شکست کھاچکے ہیں ، اور تمہارے ساتھیوں نے فتح حاصل کرلی ہے، اب تم یہاں کس انتظارمیں کھڑے ہو،

فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: عَهِدَ إِلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَ تَبْرَحُوا،فَأَبَوْا،قَالُوا: وَاللهِ لَنَأْتِیَنَّ النَّاسَ، فَلَنُصِیبَنَّ مِنَ الغَنِیمَةِ،فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِینَ

ان امیر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا(اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے کے لیے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے اپنے موجودہ قائد عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور کمانڈااعلیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کونظر انداز کر دیااورکہنے لگے واللہ! ہم ضرور دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر غنیمت جمع کریں گے، چنانچہ وہ غنیمت جمع کرنے کے لئے مورچہ چھوڑکرنیچے اتر آئے،جب یہ لوگ(اکثریت)اپنی جگہ چھوڑکرچلے آئے توان کے منہ کافروں نے پھیردیئے اور(مسلمانوں کو )شکست زدہ پاکربھاگتے ہوئے آئے۔[86]

فَقَالَ لهم النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لم أَعْهَدْ إِلَیْكُمْ أَنْ لَا تَتْرُكُوا الْمَرْكَزَ حَتَّى یَأْتِیَكُمْ أَمْرِی؟قَالُوا: تَرَكْنَا بَقِیَّةَ إِخْوَانِنَا وُقُوفًا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنَّا نَغُلُّ وَلَا نَقْسِمُ لَكُم

جنگ ختم ہونے کے بعدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے توآپ نے ان لوگوں کوبلاکرفرمایا کیا میں نے تمہیں تاکیدنہیں کی تھی کہ جب تک میں حکم نہ دوں اس جگہ کونہ چھوڑنا،انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جونہایت کمزورتھے،اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااصل بات یہ ہے کہ تم کوہم پراطمینان نہ تھاتم نے یہ گمان کرلیاکہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اورتم کوحصہ نہیں دیں گے۔[87]

 عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اوران کے دس رفقاء رضی اللہ عنہ کی شہادت :

 وَنَظَرَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ إِلَى خَلاءِ الْجَبَلِ وَقِلَّةِ أَهْلِهِ، فَكَرَّ بِالْخَیْلِ، وَتَبِعَهُ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ، فَحَمَلُوا عَلَى مَنْ بَقِیَ مِنَ الرُّمَاةِ فَقَتَلُوهُمْ، وَقُتِلَ أَمِیرُهُمْ عبد الله بن جبیر [رحمه الله] وانتقضت صفوف المسلمین

خالدبن ولیدجوایک گھوڑ سوار دستہ کے ساتھ درے کی اوٹ میں کھڑے میدان جنگ کا بغور مشاہدہ کررہے تھے،اورتین بارپشت پر پہنچنے کے لئے کوشش کرچکے تھے مگرناکام رہے تھے، جب انہوں نے دیکھاکہ سوائے چندلوگوں کے درہ خالی ہوگیا ہےاور مسلمانوں کی پشت خالی ہوگئی ہے، تو انہوں نے اس زریں موقعہ سے فائدہ اٹھایااورتیزی کے ساتھ چکرکاٹ کر درے کے پیچھے سے چڑھ کران لوگوں پر بھر پورحملہ کردیا،اسی اثنامیں عکرمہ بن ابی جہل بھی اپنا دستہ لے آیااوردرہ پرتعینات عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور باقی چندتیراندازوں کو جومال غنیمت کے لالچ میں گرفتار نہ ہوئے اورآخروقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنے مورچے پرڈٹے رہے، قتل کرکے پشت سے مسلمانوں پرٹوٹ پڑے اورسب کوقتل کردیا۔[88]

نافرمانی کی سزا:

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں سے اپنی مددکاوعدہ فرمایاتھامگریہ اس چیزسے مشروط تھاکہ اگرتم صبرکروگے اوراللہ سے ڈرتے ہوئے کام کروگے ،مگردرے پرمتعین زیادہ تعدادنےمال غنیمت کے لالچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی صریح خلاف ورزی کی، اوراپنے امیرکی ہدایت کوبالائے طاق رکھ کر پہاڑی سے نیچے اترآئے، جس سے میدان جنگ کاپانسہ پلٹ گیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ہمیشہ سے اصول رہاہے کہ چندلوگ ہی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں مگراس کاوبال سب ہی کوبھگتناپڑتاہے، اسی اصول پراللہ تعالیٰ نے چندلوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی، اورمادی لالچ، کی وجہ سے بطورسزا مسلمانوں کوکافروں کے مقابلہ میں پسپاکردیا،اورسترصحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہیدہوگئے،اورخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدیدزخمی ہوگئے،

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَكَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے پہلے میرے والدشہیدہوگئے۔[89]

عن محمود بن لبید، قال:لَمّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى أُحُدٍ، رَفَعَ حُسَیْلُ بْنُ جَابِرٍ وَهُوَ الْیَمَانِ أَبُو حُذَیْفَةَ بْنِ الْیَمَانِ، وَثَابِتُ بْنُ وَقْشٍ فِی الْآطَامِ مَعَ النّسَاءِ وَالصّبْیَانِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ وَهُمَا شَیْخَانِ كَبِیرَانِ لَا أَبَا لَك، مَا تَنْتَظِرُ؟ فَوَاَللهِ لَا بَقِیَ لِوَاحِدِ مِنّا مِنْ عُمُرِهِ إلّا ظِمْءُ حِمَارٍ إنّمَا نَحْنُ هَامَةُ الْیَوْمِ أَوْ غَد، أَفَلَا نَأْخُذُ أَسْیَافَنَا، ثُمّ نَلْحَقُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَعَلّ اللهُ یَرْزُقُنَا شَهَادَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟

محمود بن لبیدسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد لیے نکلے تو حسیل رضی اللہ عنہ بن جابراورایک دوسرے ضعیف العمربزرگ ثابت رضی اللہ عنہ بن وقش کاضعف دیکھا تو انہیں عورتوں اوربچوں کے پاس ایک بلندٹیلے پربٹھادیاجب میدان کارزارگرم ہواتو دونوں بزرگوں کوجوش جہادنے بے تاب کردیاایک نے دوسرے سے کہا(کلمہ غیرت یعنی تیراباپ مرے)ہم یہاں کیوں ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ،اب ہماری عمرہی کیارہی ہےآج نہ مرے کل مرے، چلواللہ کی راہ میں لڑیں شایداللہ تعالیٰ شہادت نصیب کردے،

 فَأَخَذَا أَسْیَافَهُمَا ثُمّ خَرَجَا، حَتّى دَخَلَا فِی النّاسِ وَلَمْ یُعْلَمْ بِهِمَا، فَأَمّا ثَابِتُ بْنُ وَقْشٍ فَقَتَلَهُ الْمُشْرِكُونَ وَأَمّا حُسَیْلُ بْنُ جَابِرٍ فَاخْتَلَفَتْ عَلَیْهِ أَسْیَافُ الْمُسْلِمِینَ فَقَتَلُوهُ وَلَا یَعْرِفُونَهُ

چنانچہ دونوں بزرگ تلواریں سونت کرمیدان وغامیں پہنچ گئے ، ثابت رضی اللہ عنہ بن وقش کومشرکین نے شہیدکردیااورحسیل رضی اللہ عنہ کومسلمان افراتفری کے عالم میں پہچان نہ سکے اور ان پرتلواریں مارنے لگے۔[90]

 شیطان کافریب :

پھرمسلمانوں کی پسپائی کچھ اس طرح شروع ہوئی ۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: “ لمَّا كَانَ یَوْمَ أُحُدٍ هُزِمَ المُشْرِكُونَ، فَصَرَخَ إِبْلِیسُ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَیْهِ: أَیْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ، فَرَجَعَتْ أُولاَهُمْ فَاجْتَلَدَتْ هِیَ وَأُخْرَاهُمْ، فَبَصُرَ حُذَیْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِیهِ الیَمَانِ، فَقَالَ: أَیْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِی أَبِی، قَالَ: قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، فَقَالَ حُذَیْفَةُ: یَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےغزوہ احد کے شروع میں مشرکین کھلی شکست کھاچکے تھے اورمسلمان ان کا تعاقب کررہے تھے، ابلیس،اللہ کی اس پرلعنت ہودھوکادینے کے لئے بلند آواز سے چلا چلا کر کہنے لگا اے اللہ کے بندو! پچھلوں کی خبر لو(تعاقب کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھاکہ شایدمشرکین کی کوئی جماعت عقب سے حملہ کر رہی ہے) اس لئے تعاقب چھوڑ کر واپس مڑے اوراپنے پیچھے آتے دوسرے ساتھیوں سے(پہچان نہ کر) گتھم گتھاہوگئے ،حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والدحسیل رضی اللہ عنہ یمان بن جابر رضی اللہ عنہ بھی مشرکین کاتعاقب کرنے والوں کے ساتھ تھے جب آگے والے پلٹے توانہوں نے اپنے پیچھے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد یمان رضی اللہ عنہ کونہ پہچان کرگھیرلیاحذیفہ رضی اللہ عنہ بہت پکارے اے اللہ کے بندو!یہ میرا والد ہے،مگر پلٹنے والوں نے اپنے ہاتھ اس وقت روکے جب وہ انہیں قتل کرچکے تھے،یہ دیکھ کر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہااللہ تمہیں معاف فرمائے۔[91]

قَالَ عُرْوَةُ: فَوَاللهِ مَا زَالَتْ فِی حُذَیْفَةَ بَقِیَّةُ خَیْرٍ، حَتَّى لَحِقَ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ

عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واللہ !جب تک حذیفہ رضی اللہ عنہ زندہ رہے اپنے باپ کے قاتلوں کے حق میں دعائے خیرکرتے رہے۔[92]

فَأَرَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَدِیَهُ، فَتَصَدَّقَ حُذَیْفَةُ بِدِیَتِهِ عَلَى الْمُسْلِمِینَ، فَزَادَهُ ذَلِكَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کوان کے والدکی دیت دینے کا ارادہ فرمایا مگر انہوں نے دیت لینے سے انکار کردیااورعرض کیاکہ میں اپنے باپ کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کرتاہوں ،اس طرز عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی قدرو منزلت بڑ ھ گئی۔[93]

 مسلمان چکی کے دوپاٹ میں :

درہ پردس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوشہیدکرکے خالدبن ولیداورعکرمہ بن ابی جہل نے اپنانعرہ بلندکیاتوابوسفیان اوردوسرے لوگوں کوبھی علم ہوگیاکہ اب جنگ کارخ بدل گیا ہے

فَرَفَعته عمْرَة بنت عَلْقَمَة الحارثیة للْمُشْرِكین فَاجْتمعُوا إِلَیْهِ

چنانچہ عمرہ بنت علقمہ جارثیہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا اٹھاکرکھڑا کردیا، اورقریش اس کے گردجمع ہوکر سامنے سے مسلمانوں پرٹوٹ پڑے،

اس طرح مسلمان دو طرف سے گھرگئے ،پیچھےسے خالدبن ولیداورعکرمہ بن ابی جہل تھے، توسامنے سے ابو سفیان نے انہیں گھیر رکھا تھا ،مشرکین اس ناگہانی اوریکبارگی حملہ سے مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں ،اوربڑے بڑے دلیروں کے پاؤں اکھڑگئے ،اوروہ جواللہ سے عہدکئے ہوئے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے، پیٹھ پھیرگئے، اوراس بدحواسی میں درے پرمتعین کچھ مسلمانوں کے علاوہ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ،عثمان رضی اللہ عنہ بن عقبہ انصاری ،ولیدبن عقبہ رضی اللہ عنہ ،خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ اوررفاعہ بن معلی شامل تھے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے، اوراعوص کے قریب مقام حلوب پرجاکردم لیا، اورکچھ لوگ احد پر چڑھ گئے، اورمشرکین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچنے کاموقعہ مل گیا، یہ دن مسلمانوں کے لئے بڑی مصیبت اورسختی کاتھا،اس افراتفری میں مسلمان اپناعلامتی جملہ بھول کر اپنوں اور دشمنوں کاامتیازکھوبیٹھے، اوربدحواسی میں ایک دوسرے کو مارنے لگے، جس سے بہت سے مسلمان اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرگئے، مگر اس یکبارگی اورناگہانی حملہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ثبات اورقدم استقلال میں زرہ برابر تزلزل نہیں آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہٹے،دشمنوں کاچاروں طرف ہجوم تھااور مٹھی بھرجماعت پاس رہ گئی تھی،اگرکوئی کمتردرجے کاجرنیل ہوتاتوموقع کی نزاکت دیکھ کراس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے، اوروہ لشکرکے لئے ناقابل تلافی نقصان کاباعث بن جاتا،مگراللہ کارسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نازک ترین موقع پر بھی پہاڑکی طرح اپنی جگہ جماہواتھااوربھاگنے والوں کوپکاررہاتھا۔

إِلَیَّ عِبَادَ اللهِ، إِلَیَّ عِبَادَ اللهِ

ترجمہ:اللہ کے بندومیری طرف آؤ،اللہ کے بندومیری طرف آؤ۔

مگربھاگنے والوں پراتنی دہشت طاری تھی کہ میدان جنگ سے تیزی کے ساتھ فرارہوتے ہوئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازبھی نہ سنی جوان کوآوازدے رہے تھے۔اس افراتفری اوربدحواسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب حالات کے مطابق کبھی چودہ،کبھی بارہ،کبھی گیارہ ،کبھی نو،کبھی سات اورکبھی دو آدمی رہ گئے،

فَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَیْرُ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ صحابہ کے سوااورکوئی بھی باقی نہ رہ گیا۔[94]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُفْرِدَ یَوْمَ أُحُدٍ فِی سَبْعَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں غزوہ احد دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات انصاراوردوقریش کے (نو)آدمیوں کے ساتھ تنہارہ گئے۔ [95]

الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی( ایک مختصرمگرجاں نثار)جماعت میدان کے ایک کنارے پر ثابت قدم رہی ،واقدی اورابن سعدکہتے ہیں

وَثَبَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا هُوَ فِی عِصَابَةٍ صَبَرُوا مَعَهُ، أَرْبَعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، سَبْعَةٌ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَسَبْعَةٌ من الأنصار

ہمراہ اصحاب میں سےچودہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت ثابت قدم رہی،جن میں سات مہاجرین بشمول سیدنا ابوبکرصدیق تھے، اور سات انصارمیں سے تھے۔

مہاجرین کے نام یہ ہیں ۔

أبو بكر، وَعَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَعَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ، وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ، وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرّاحِ، وَالزّبَیْرُ بْنُ الْعَوّامِ

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، زبیربن عوام رضی اللہ عنہ اورابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ،

انصاریوں کے نام یہ ہیں

وَمِنْ الْأَنْصَارِ: الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ، وأبو دجانة، وعاصم بْنُ ثَابِتٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ الصّمّةِ، وَسَهْلُ بْنُ حُنَیْفٍ، وَأُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ. ویقال ثبت سعد بن عبادة، ومحمّد ابن مَسْلَمَةَ، فَیَجْعَلُونَهُمَا مَكَانَ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ وَسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ

سات انصاریوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں ابودجانہ رضی اللہ عنہ ، حباب بن منذر رضی اللہ عنہ ، عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ ، حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ ، سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ ، سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ

وَبَایَعَهُ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ عَلَى الْمَوْتِ- ثَلَاثَةٌ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَخَمْسَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: عَلِیّ، وَالزّبَیْرُ، وَطَلْحَةُ عَلَیْهِمْ السّلَامُ، وَأَبُو دُجَانَةَ، وَالْحَارِثُ بن الصّمّة، وحباب ابن المنذر، وعاصم بن ثابت، وَسَهْلُ بْنُ حُنَیْفٍ، فَلَمْ یُقْتَلْ مِنْهُمْ أَحَدٌ

اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ سعد بن عبادہ ، محمد بن مسلمہ نے اسید بن حضیر وسعد بن معاذکا مورچہ سنبھالا، اور اس دن آٹھ صحابہ نے موت پر بیعت کی، جن میں تین مہاجرین اور پانچ انصار میں سے، ان میں سیدنا علی، زبیر، طلحہ ، ابو دجانہ ، حارث بن صمہ ، حباب بن منذر ، عاصم بن ثابت ، سہل بن حنیف ان میں سے کوئی بھی شہید نہ ہوا ۔[96]

 مسلمانوں کے علم کاگرنا:

اس انتشار میں مزیداضافہ اس وقت ہوگیاجب ابن قمیہ لیثی کامقابلہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے ہواجن کے ہاتھوں میں اسلامی لشکر کا جھنڈاتھا، دوران لڑائی ابن قمیہ لیثی نے ان کے داہنے ہاتھ پرجس میں انہوں نے جھنڈاپکڑاہواتھااس زورکی تلوارچلائی کہ ان کاہاتھ کٹ گیا،مگرانہوں نے جھنڈے کوگرنے نہیں دیابلکہ اسے بائیں ہاتھ میں تھام کر مقابلے پرٖڈٹے رہے، ابن قمیہ لیثی نے ان کابایاں ہاتھ بھی کاٹ ڈالامگراب بھی انہوں نے جھنڈے کونہ گرنے دیااورجھنڈے پرٹیک لگاکراسے اپنے سینے اورگردن کے سہارے لہراتے رہے،اوراب جبکہ مقابلے کے لئے ہاتھ نہ رہے تھے تودشمن کوانہیں شہیدکرنے میں کیاروکاوٹ تھی چنانچہ وہ شہیدکردیئے گئے،اس وقت ان کی عمر۴۰سال کی تھی ،ان کی شہادت سے مسلمانوں کاعلم زمین پر گرپڑا، ابن قمیہ لیثی انہیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سمجھ رہا تھا کیونکہ جب وہ زرہ پہن کر نکلتے تھے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ لگتے تھے،

وَهُوَ یَظُنُّ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَ إلَى قُرَیْشٍ فَقَالَ: قَتَلْتُ مُحَمَّدًا

جس سے اس نے خیال کیاکہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوشہیدکردیاہے ،چنانچہ اسی خیال میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کوشہیدکرنے کے بعداپنے کیمپ کی طرف بھاگتے ہوئے اس نے چلاچلا کر کہامیں نےمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل کردیاہے۔[97]

بِأَبْعَدِ صَوْتٍ: أَلَا إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ

اورشیطان نے بھی بلندآوازسے کہاکہ محمدقتل ہوگئے ہیں ۔[98]

یہ غلط خبر فوراً ہی جنگل کی آگ کی طرح مشرکین اورمسلمانوں کے پورے لشکر میں پھیل گئی، جس سے مسلمان حیران وسراسیمہ ہوگئے اوراکثرلوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے،ان کےعزائم سرد پڑ گئے، اورکچھ لوگوں نے ہتھیار پھینک دیے ، جبکہ مشرکین سمجھے کہ انہوں نے بازی جیت لی ہے اب فکرکرنے کی کوئی بات ہی نہیں ،جب مسلمانوں نے اپنے ہتھیارپھینک دیئے تومشرکین کے حملوں میں بھی کمی واقع ہوئی۔

اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی :

بعض(نومسلم) لوگوں کوبس اپنی جان کی پڑی ہوئی تھی اوراللہ تعالیٰ کے متعلق دورجاہلیت کاساگمان کررہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی افواہ سن کرایک منافق نے کہا کہ اگرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نبی ہوتے تو شہیدنہ کیے جاتے ،پس بہتریہی ہے کہ تم اپنے پہلے دین پرواپس پلٹ آؤ، ایک منافق بولاکاش !کوئی شخص ہمارا قاصدبن کر عبداللہ بن ابی کے پاس جاتااوراس سے کہتاکہ وہ ہمارے لئے ابوسفیان سے امن طلب کرے ،ایک بولااے لوگو!محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )قتل ہوچکے پس بہترہے کہ تم اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤ تاکہ وہ تمہیں پناہ دے سکیں اس سے قبل کہ کفار یہاں پہنچ کرتمہیں قتل کرڈالیں کیونکہ وہ توہمارے گھروں کے اندرتک داخل ہوجائیں گے ،موسی بن عقبہ نے بیان کیاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور سب گڈمڈہوگئے توانہوں نے سناکہ ایک منافق چیخ چیخ کرکہہ رہاتھا کہ اگر ہمیں ذرابھی اختیار ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے ۔

حارث رضی اللہ عنہ بن عقبہ بن قابوس کااسلام قبول کرنا

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالحَدِیدِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قَالَ: أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَمِلَ قَلِیلًا وَأُجِرَ كَثِیرًا

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اسی حالت میں ایک شخص (حارث بن عقبہ بن قابوس ) جس نے جنگی ہتھیارپہنے ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااوراس نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسلام قبول کروں یالڑوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپہلے اسلام قبول کروپھرلڑو، چنانچہ وہ شخص مسلمان ہوگیا اور پھر میدان جنگ میں کودپڑایہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہیدہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے عمل کم کیاہے اوراجربہت زیادہ پایاہے۔[99]

مسلمانوں کے حوصلوں کاجواں ہونا:

لوگوں کی اس طرح کی باتیں سن کر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن سقریا نضر رضی اللہ عنہ نے کہااے قوم !اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر ڈالے گئے ہیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب توقتل نہیں ہوا،پس تم اس کے نام پر جنگ جاری رکھو،ان کے اس قول پر سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دی تھی ، انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جواہل صدق ویقین تھے ،جن کے قلوب میں ایمان راسخ ہوچکاتھانے اتفاق کیا۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: قَالَ: انْتَهَى أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ، عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، إلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ، فِی رِجَالٍ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ، وَقَدْ أَلْقَوْا بِأَیْدِیهِمْ، فَقَالَ: مَا یُجْلِسُكُمْ؟ قَالُوا: قُتِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَاذَا تَصْنَعُونَ بِالْحَیَاةِ بَعْدَهُ؟ (قُومُوا)فَمُوتُوا عَلَى مَا مَاتَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقَوْمَ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ.

ابن اسحاق سے مروی ہےانس بن نضر رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ، طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور مہاجرین وانصارکی ایک جمعیت کے پاس سے گزرے،یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے،انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاتم لوگ کیوں بیٹھے ہو؟انہوں نے کہارسول اللہ توقتل ہوگئےاب ہم کیاکریں ؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہااگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی شہیدکردیئے گئے ہیں تو پھر تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدزندہ رہ کر کیا کرو گے، اٹھواوراس دین کے لئے جان دے دوجس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے،پھر ان کو متنبہ کرکے کفار کے لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔[100]

فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ یَا قَوْمُ إِنْ كَانَ مُحَمَّدٌ قَدْ قُتِلَ فَإِنَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ لَمْ یُقْتَلْ فَقَاتِلُوا عَلَى مَا قَاتَلَ عَلَیْهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں ہےانس رضی اللہ عنہ بن نضیرنے کہااے میری قوم کے لوگو! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوگئے ہیں توتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارب تو زندہ ہے اس دین پرلڑکرمروجس پرتمہارے پیغمبرلڑے، یہ کہہ کرانس بن النضر رضی اللہ عنہ کافروں کی صف میں گھس گئے اورلڑتے رہے یہاں تک کہ شہیدہوگئے۔[101]

فَقَالَ:اللهُمَّ إِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلاَءِ، یَعْنِی المُسْلِمِینَ وَأَبْرَأُ إِلَیْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ المُشْرِكُونَ ،فَتَقَدَّمَ بِسَیْفِهِ فَلَقِیَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ، فَقَالَ: أَیْنَ یَا سَعْدُ، إِنِّی أَجِدُ رِیحَ الجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ، فَمَضَى فَقُتِلَ،فَمَا عُرِفَ حَتَّى عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ أَوْ بِبَنَانِهِ، وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْیَةٍ بِسَهْمٍ

پھرکہا اے اللہ !میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کارگزاریوں کی وجہ سے ان کی طرف سے تجھ سے معذرت چاہتاہوں اورمشرکوں کے اعمال سے تیری بارگاہ میں اپنی برات پیش کرتاہوں یہ کہہ کراپنی تلوارلے کر آگے بڑھے جہاں ان کی ملاقات سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے ہوئی ،انہوں نے دریافت کیا اے ابوعمر! کہاں جارہے ہو؟ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے جواب دیااے سعد!میں احدکی طرف سے جنت کی خوشبومحسوس کر رہاہوں ،پھروہ دشمن پرجھپٹے اوران سے نبزدآزماہوئے حتی کہ شہیدکردیئے گئے، جنگ کے بعد ان کی لاش کوئی نہ پہچان سکا صرف ان کی بہن ہی انہیں ان کی انگلیوں کے پوروں کودیکھ کرانہیں پہچان سکیں ،انہیں تلوار،نیزے اورتیرکے اسی(۸۰)سے زیادہ زخم لگے تھے۔[102]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ، فَقَالَ: غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَئِنْ أَشْهَدَنِی اللَّهُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیَرَیَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ جنگ بدرمیں حاضرنہ ہوس تھے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں پہلے معرکہ جہادمیں غیرحاضررہاتھاورنہ اللہ تعالیٰ دیکھتا کہ میں کیاکرکے دکھاتاہوں ۔[103]

فَقَالَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ: فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، مَا اسْتَطَعْتُ مَا اسْتَطَاعَ

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بیان نہیں کرسکتا کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کیا اعلیٰ کارگزاری دکھائی۔[104]

قَالَ:أَقْبَلَ ثَابِتُ بْنُ الدّحْدَاحَةِ یَوْمَئِذٍ وَالْمُسْلِمُونَ أَوْزَاعٌ، قَدْ سَقَطَ فِی أَیْدِیهِمْ، فَجَعَلَ یَصِیحُ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، إلَیّ! إلَیّ! أَنَا ثَابِتُ بْنُ الدّحْدَاحَةِ، إنْ كَانَ مُحَمّدٌ قَدْ قُتِلَ فَإِنّ اللهَ حَیّ لَا یَمُوتُ! فَقَاتِلُوا عَنْ دِینِكُمْ، فَإِنّ اللهَ مُظْهِرُكُمْ وَنَاصِرُكُمْ!

انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے قول کی طرح ثابت بن دحداح رضی اللہ عنہ نے بھی کہاتھاجس وقت مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے تو زور سے چلاتے ہوئے کہا ، اے جماعت انصار! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئے توبلاشبہ باری تعالیٰ توزندہ ہے جومرنے والانہیں ،تم لوگ اپنے دین کی حمایت میں جنگ کرواللہ تمہیں فتح وظفرعطافرمائے گا،

فَنَهَضَ إلَیْهِ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَجَعَلَ یَحْمِلُ بِمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، وَقَدْ وَقَفَتْ لَهُمْ كَتِیبَةٌ خَشْنَاءُ، فِیهَا رُؤَسَاؤُهُمْ: خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، وَعِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ، وَضِرَارُ بْنُ الْخَطّابِ، فَجَعَلُوا یُنَاوِشُونَهُمْ. وَحَمَلَ عَلَیْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِالرّمْحِ، فَطَعَنَهُ فَأَنْفَذَهُ فَوَقَعَ مَیّتًا

اس پرانصارکی ایک جماعت جنگ پرآمادہ ہوگئی جسے لے کر انہوں نے مشرکین کے سوار دستہ پر جس میں خالدبن ولید،عمروبن عاص ،عکرمہ بن ابی جہل اورضراربن خطاب وغیرہ شامل تھے حملہ کردیا جوابی حملہ میں دشمنوں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کونیزہ کے وارسے شہیدکردیا۔[105]

قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ یَوْمَ أُحُدٍ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ یَتَشَحَّطُ فِی دَمِهِ.فَقَالَ لَهُ: یَا فُلَانُ، أَشْعَرْتَ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: إِنْ كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِلَ فَقَدْ بَلَّغَ الرِّسَالَةَ فَقَاتِلُوا عَنْ دِینِكُمْ!

مہاجرخون میں لت پت ایک زخمی انصاری صحابی کے پاس سے گزرے اوراس کو یا فلان کہا جاتا تھا تمہیں معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوگئے ہیں ؟ اس زخمی انصاری نے کہااگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے ہیں توکیاہواوہ اپناکام یعنی اللہ کادین اسلام تم تک پہنچاچکے، لہذااب یہ تمہاراکام ہے کہ اس دین کی حفاظت کے لئے مشرکین سے لڑو۔[106]

اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کے ٹوٹے حوصلے اورگم شدہ ہوش وحواس بحال ہوگئے،چنانچہ انہوں نے دشمنوں کے رحم وکرم پررہنے کے بجائے اپنے ہتھیاردوبارہ اٹھالئے ،اورمشرکین کا گھیرا توڑنے اوراپنے مرکزی پڑاؤ تک پہنچنے کے لئے سرپرکفن باندھ لیا۔

[1] الانفال ۳۶

[2]ابن ہشام۶۱؍۲ ،الروض الانف۲۹۹؍۵،تاریخ طبری۵۰۱؍۲،البدایة والنہایة۱۲؍۴

[3] مغازی واقدی۲۸۵؍۱

[4]ناسخ التواریخ

[5] ابن سعد۲۸؍۲،تاریخ طبری۵۰۵؍۲،مغازی واقدی۲۰۴؍۱

[6] فتح الباری ۳۴۶؍۷

[7] جوامع السیرة۱۵۶؍۱،الدرر فی اختصار المغازی والسیر۱۴۷؍۱

[8] ابن ہشام۶۲؍۲،الروض الانف۳۰۰؍۵،تاریخ طبری ۵۰۱؍۲،البدایة والنہایة ۱۲؍۴، مغازی واقدی۲۰۳؍۱

[9] زادالمعاد ۱۷۵؍۳

[10] ابن ہشام۵۸۵؍۱

[11] ابن سعد۲۸؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۸۹؍۲،تاریخ طبری ۴۹۹؍۲

[12] مغازی واقدی۲۲۳؍۱

[13] آل عمران ۱۲۵

[14] مغازی واقدی۲۰۴؍۱

[15] عیون الآثر۱۳؍۲

[16] عیون الآثر۱۴؍۲،ابن سعد۲۹؍۲،مغازی واقدی۲۰۸؍۱

[17] دلائل النبوة للبیہقی۲۲۴؍۳،عیون الاثر۸؍۲،البدایة والنہایة۱۳؍۴،شرح زرقانی علی المواھب ۳۹۲؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۲۱؍۳

[18] ابن ہشام ۶۲،۶۳؍۲، الروض الانف ۳۰۱؍۵،عیون الاثر۸؍۲،تاریخ طبری۵۰۲؍۲،البدایة والنہایة۱۵؍۴

[19] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ المُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ۴۰۸۱

[20] ابن ہشام۶۲؍۲ ،الروض الانف ۳۰۱؍۵،عیون الآثر۸؍۲،تاریخ طبری ۵۰۲؍۲

[21] مصنف عبدالرزاق ۹۵۵۹، مسند احمد ۱۷۱۸۲،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۲۹،شعب الایمان ۳۹۴۹،سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۰۰،زادالمعاد۷۹؍۳

[22] ابن ہشام۶۳؍۲

[23] مغازی واقدی ۲۱۱؍۱،امتاع الاسماع ۱۳۴؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۱۸۵؍۴

[24] تاریخ طبری۵۰۲؍۲

[25] السیرة النبویة لابن کثیر۲۱؍۳

[26] ابن ہشام ۶۲،۶۳؍۲، الروض الانف ۳۰۱؍۵،عیون الاثر۸؍۲،تاریخ طبری۵۰۲؍۲،البدایة والنہایة۱۵؍۴

[27] شرح زرقانی علی المواھب۳۹۵؍۲،السیرة الحلبیة۲۹۸؍۲،ابن سعد۲۹؍۲،امتاع الاسماع۲۵۱؍۹

[28] السنن الکبری للبیہقی ۱۷۸۲۱،دلائل النبوة للبیہقی ۲۴۶؍۳،ابن ہشام ۹۰؍۲،الروض الانف ۱۵؍۶، عیون الآثر ۲۷؍۲، زادالمعاد۱۸۷؍۳، سیرة النبویة لابن کثیر۷۳؍۳

[29]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ هَلْ یُخْرَجُ المَیِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللحْدِ لِعِلَّةٍ عن جابر ۱۳۵۱

[30] زادالمعاد۱۸۶؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۴۹؍۳،مغازی واقدی۲۱۳؍۱

[31] ابن سعد۲۹؍۲،عیون الآثر۱۴؍۲،شرح زرقانی علی المواھب ۳۹۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۲؍۳،البدایة والنھایة۱۳؍۴، زادالمعاد۱۷۳؍۳

[32] مغازی واقدی۲۱۳؍۱

[33] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۸۶؍۴

[34] عیون الأثر۱۴؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۳۹۸؍۲

[35] زادالمعاد۱۷۳؍۳

[36] عیون الآثر۱۳؍۲

[37] فتح الباری ۳۵۰؍۷

[38] فتح الباری ۳۴۵؍۷

[39] عیون الآثر۱۴؍۲،ابن سعد ۲۹؍۲، شرح الرقانی علی المواھب ۳۹۶؍۲

[40] مغازی واقدی۲۱۶؍۱، البدایة والنہایة۱۷؍۴

[41] السیرة الحلبیة۲۹۴؍۲

[42] فتح الباری ۲۷۸؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۳۹۵؍۳،ابن سعد۱۰۷؍۴، البدایة والنہایة۱۶؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۹؍۳

[43] تاریخ طبری ۵۰۵؍۲

[44] ابن ہشام۶۶؍۲،البدایة والنہایة ۱۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۳۰؍۳، عیون الاثر۱۲؍۲

[45] تاریخ طبری۵۰۶؍۲

[46] مغازی الوقدی۲۱۶؍۱

[47] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۸۷؍۴

[48] ابن ہشام ۶۴؍۲،الروض الانف ۳۰۳؍۵،عیون الآثر۹؍۲،البدایة والنہایة۱۶؍۴،تاریخ طبری۵۰۴؍۲،تاریخ الحمیس۴۲۳؍۱، سیرت النبویة لابن کثیر۲۷؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۴۰۱؍۲

[49] آل عمران: 122

[50] آل عمران: 122

[51] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ۴۰۵۱

[52] النساء: 88

[53] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۵۰

[54] ابن ہشام۶۵؍۲،الروض الانف ۳۰۴؍۵، البدایة والنہایة۱۶؍۴

[55] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۳، وکتاب كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۹، مسنداحمد۱۸۵۹۳

[56] مسنداحمد۲۶۰۹، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۷۳۱،مستدرک حاکم ۳۱۶۳ ،فتح الباری۴۰۴۳،۳۵۰؍۷

[57] ابن ہشام۶۵؍۲،الروض الانف۳۰۴؍۵،عیون الآثر۱۱؍۲،تاریخ طبری۵۰۷؍۲،البدایة والنہایة ۱۷؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۲۹؍۳

[58] البدایة والنہایة۱۷؍۴

[59] مغازی واقدی۲۲۲؍۱،امتاع الاسماع ۱۳۸؍۱، سبل الھدی والرشدفی سیرة خیرالعباد۱۸۹؍۴،لسیرة النبویة والدعوة فی العهد المدنی۳۳۶؍۱،السِّیرةُ النّبویة عرضُ وقائع وَتحلیل أحدَاث۴۸۰؍۱

[60] ابن سعد۳۰؍۲

[61] ابن ہشام۶۶؍۲،تاریخ طبری۵۱۳؍۲

[62] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی دُجَانَةَ سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ۶۳۵۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۰۶؍۳،مجمع الزوائد ۱۰۰۷۱، ۱۰۹؍۶، ابن ہشام ۶۶؍۲،عیون الآثر۱۵؍۲،البدایة والنہایة۱۷؍۴، شرح زرقانی علی المواھب ۴۰۴؍۲

[63] شرح الزرقانی علی المواھب ۴۰۸؍۲،ابن ہشام ۶۷؍۲،تاریخ طبری۵۱۲؍۲،عیون الاثر۱۵؍۲،البدایة والنہایة۱۶؍۴

[64] البدایة والنہایة۲۳؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۰؍۳

[65] شرح الزرقانی علی المواھب۴۱۰؍۲،ابن ہشام۷۴؍۲،البدایة والنھایة۱۷؍۴

[66] ابن ہشام ۷۴؍۲،الروض الانف۳۱۲؍۵،عیون الآثر۱۱؍۲

[67] ابن ہشام۷۴؍۲،الروض الانف ۳۱۹؍۵

[68] ابن ہشام ۷۸؍۲،عیون الآثر۱۸؍۲،الروض الانف ۳۲۵؍۵، البدایة والنہایة ۲۵؍۴، تاریخ طبری ۵۱۳؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۴۳؍۳

[69] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۴۰۷۲

[70] ابن ہشام۶۹؍۲،عیون الاثر۱۷؍۲، تاریخ طبری ۵۱۶،۵۱۷؍۲، البدایة والنھایة۱۷؍۴

[71] الروض الانف۳۲۰؍۵، زادالمعاد ۱۷۹؍۳، مغازی واقدی۲۷۴؍۱

[72] مجمع الزوائد ۱۰۰۶۹،۱۰۹؍۶ 

[73] البدایة والنہایة۱۹؍۴، عیون الاثر۱۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۳۳؍۳

[74] الروض الانف۳۱۰؍۵

[75] ابن ہشام ۶۸،۶۹؍۲،الروض الانف۳۱۰؍۵،عیون الآثر۱۶؍۲

[76] فتح الباری۳۴۶؍۷

[77] المغازی واقدی ۲۴۲؍۱

[78]۔تاریخ طبری۵۱۶؍۲

[79] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۳،صحیح ابن حبان۴۷۳۸،البدایة والنہایة۲۸؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۴۸؍۳

[80] ابن ہشام ۷۷؍۲

[81] مغازی واقدی۲۳۲؍۱

[82] امتاع الاسماع۱۴۵؍۱

[83] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۰۲،وکتاب القدربَابٌ العَمَلُ بِالخَوَاتِیمِ عن سہل ۶۶۰۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ قَتْلِ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ، وَأَنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَیْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِی النَّارِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ۳۰۶، مسند احمد ۲۲۸۱۳،۲۲۸۳۵

[84] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۳۲

[85] الانفال۶۸

[86]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۳، وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۹

[87] تفسیرالثالبی۱۹۶؍۳،تفسیرالبغوی۱۲۶؍۲، تفسیر الزمخشری ۴۳۴؍۱، تفسیر الخازن ۳۱۳؍۱، اللباب فی علوم الکتاب۲۵؍۶،تفسیرالنیساپوری۳۰۰؍۲،روح البیان۱۱۸؍۲

[88] عیون الآثر۱۹؍۲،المواھب الدینة ۲۴۵؍۱، شرح الزرقانی علی المواھب۴۱۲؍۲

[89] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ هَلْ یُخْرَجُ المَیِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللحْدِ لِعِلَّةٍ۱۳۵۱

[90] الروض الانف ۱۰؍۶،سیراعلام النبلائ۴۲۳؍۱،معرفة الصحابة لابن مندہ۳۳۸؍۱،اسدالغابة۴۵۸؍۱

[91] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ ۴۰۶۵، وکتاب بداالخلق بَابُ صِفَةِ إِبْلِیسَ وَجُنُودِهِ۳۲۹۰، وکتاب الدیات بَابُ العَفْوِ فِی الخَطَإِ بَعْدَ المَوْتِ۶۸۸۳

[92] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّهُمَا وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ عن عائشہ ۴۰۶۵

[93] ابن ہشام۸۸؍۲ ,الروض الانف ۱۱؍۶،تاریخ طبری۵۳۰؍۲،عیون الاثر۲۵؍۲

[94] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۹ ، و کتاب التفسیرسورہ آل عمران بَابُ قَوْلِهِ وَالرَّسُولُ یَدْعُوكُمْ فِی أُخْرَاكُمْ عن براء ۴۵۶۱،سنن نسائی کتاب الجہادباب مَا یَقُولُ مَنْ یَطْعَنُهُ الْعَدُوُّ عن جابر ۳۱۵۱

[95] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ ۴۶۴۱

[96]مغازی واقدی۲۳۷؍۱،ابن سعد۳۲؍۲

[97] ابن ہشام۷۳؍۲،عیون الاثر۱۷؍۲،الروض الانف ۳۱۷؍۵،تاریخ طبری ۵۱۶؍۲،البدایة والنھایة۲۰؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۳۸؍۳

[98] السیرة النبویة لابن کثیر۶۰؍۳

[99] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ القِتَالِ۲۸۰۸، مسنداحمد۱۸۵۶۵، صحیح ابن حبان۴۶۰۱

[100] ابن ہشام ۸۳؍۲،زادامعاد۱۸۷؍۳،الروض الانف ۳۳۲؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۶۸؍۳

[101] البدایة والنہایة ۲۶؍۴،تاریخ طبری۵۲۰؍۲

[102] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ عن انس ۴۰۴۸،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِ۴۹۱۸،مسنداحمد۱۳۶۵۸،دلائل النبوة للبیہقی ۲۴۴؍۳،ابن ہشام۸۳؍۲،عیون الآثر۳۴؍۲

[103] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۴۸

[104] مسند احمد ۱۳۶۵۸

[105] مغازی واقدی ۲۸۱؍۱،السیرة الحلبیة۳۰۹؍۲

[106] السیرة النبویة لابن کثیر۶۱؍۳،زادالمعاد۱۸۶؍۳

Related Articles