ہجرت نبوی کا دوسرا سال

 غزوہ بدر

ویسے توبیت کبریٰ سے ہی مسلمانوں  اورمشرکین کے درمیان کشیدگی پیداہوچکی تھی مگرمسلمانوں  اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت کے بعدیہ کشیدگی باقاعدہ حالت جنگ میں  بدل گئی ،مشرکین مکہ نے اپنے موروثی رسم ورواج اورعقائدباطلہ کی سربلندی ،اپنی سیادت وقیادت کوہاتھوں  سے نکل جانے کے خوف اورقبائلی عصبیت کی بناپر اللہ وحدہ لاشریک   کے نام لیواؤں  کوختم کرنے کے لئے آٹھ سال تک جنگ کابازارخوب گرم رکھا،ان معرکوں  میں  سب سے ابتدائی اوراہم معرکہ غزوہ بدرتھا۔

اسلام کی مخالفت اورمسلمانوں  کونیست ونابودکرنے کے لئے قریش مکہ نے ابوسفیان کی سالاری میں  اپنازیادہ سے زیادہ سرمایہ شام کی تجارت میں  لگادیاتھا،سونے پہ سہاگہ سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  میں عمروبن الحضری کے قتل سے ان کی غیض وغضب کی کوئی انتہانہیں  رہی تھی جس کابدلہ اورانتقام لیناان کے لئے ازحدضروری تھا،وہ اس مقصد کو ہر قیمت پرحاصل کرلیناچاہتے تھے تاکہ قریش اوران کے حلیفوں  کی اس واقعہ سے جوہواخیزی ہوئی ہے اس کاداغ مٹ جائے اوران کی دھاک اورساکھ مسلمانوں  پرپھرسے قائم ہوجائے،چونکہ قریش کی تجارتی راستے جومکہ مکرمہ سے شام کوجاتے تھے اب صرف مسلمانوں  کے رحم وکرم پررہ گئے تھے اس لئے قریش کی تجارت کسادبازاری کا شکارہوگئی تھی اوران کااقتصادی مرکزمتزلزل ہوگیاتھا،ساتھ ہی ساتھ دوسراالمیہ یہ بھی تھاکہ مسلمانوں  کے نفوذاورقوت میں  روزبروزاضافہ ہوتاجارہاتھا،دوسرے معنی میں  اس صورت حال کانتیجہ یہ تھاکہ عربوں  پرصرف قریش ہی کی سیادت قائم نہیں  رہ گئی تھی،ان عوامل نے قریش کواضطراب میں  مبتلاکررکھاتھااوروہ تاک میں  تھے کہ جیسے ہی موقعہ ملے مسلمانوں  پرٹوٹ پڑیں  اوران کاخاتمہ کردیں  اوران کے نئے دین پرایسی کاری ضرب لگائیں  کہ وہ پھرسراٹھانے کی جرات نہ کرسکیں حالانکہ جب مسلمان مکہ معظمہ میں  ان کے رحم وکرم پرتھے اس وقت ہرطرح کے ظلم وستم کے باوجودنہ تویہ مسلمانوں  کوختم کرسکے تھے اورنہ ہی دین حق کاکچھ بگاڑسکے تھے،اوراب جبکہ مسلمانوں  کی طاقت بڑھ چکی تھی،ان کوایک مرکزمیسرہوگیاتھاان کومٹانے کا خواب دیکھتے رہتے تھے، اس کے برخلاف مسلمانوں  کوایک طاقتواراوربااثردشمن سے مقابلہ کرنے کاموقع ہی نہیں  ملا تھا کیونکہ پہلے تومسلمانوں  نے اپناسب کچھ چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آوازپرلبیک کہی تھی جس سے ہجرت کے ساتھ ہی بہت سارے پیچیدہ مسائل پیدا ہو گئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کوعارضی طور پر مواخات کے ذریعہ سے حل فرمادیاتھامگرمدینہ منورہ میں مارآستین منافقین بھی موجودتھے،ان فتنہ پروروں  میں میں  اتنی ہمت تونہ تھی کہ کھل کرمیدان میں  آسکیں  لیکن مسلمانوں  کے خلاف سردجنگ میں  عبداللہ بن ابی کے ساتھ مل کر پوری مستعدی کے ساتھ اپنی شرانگیزیوں  میں  مصروف ومنہمک تھے ،اس کے ساتھ سیدالامم   صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطی تدابیرکے طورپرمختلف قبائل سے معاہدے بھی کیے،قریش مجاہدین کے دیکھ بھال کے دستوں  کی وجہ سے ابھی تک اپنی تمناؤں  میں  کامیاب نہیں  ہوپارہے تھے ،مگریہ ساری کاروائی دشمن کے مقابلے میں  بہت کم تھی اس لئے مسلمانوں  کوسب سے آسان صورت یہ نظرآتی تھی کہ ابوسفیان کے قافلہ کوجس کی کامیاب واپسی میں  مسلمانوں  کی تباہی و بربادی کاسامان تھامکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیاجائے۔

جاسوسوں  کوشام روانہ کرنا :

بَعَثَ طَلْحَةَ بْن عُبَیْد الله وَسَعِیدَ بْن زید بن عمرو بن نفیل قبل خُرُوجِهِ مِنَ الْمَدِینَةِ بِعَشْرِ لَیَالٍ یَتَحَسَّبَانِ خَبَرَ الْعِیرِ

چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری ایام میں   سعیدبن زید  رضی اللہ عنہ بن عمروبن نفیل اور طلحہ  رضی اللہ عنہ  بن عبداللہ التیمی کومدینہ منورہ سے روانگی سے قبل ابوسفیان کے قافلے کی سراغ رسانی کے لئے شام روانہ فرمایا۔

تاکہ اس پرحملہ کرکے یاتو اسے منتشرکردیاجائے یااس کے سازوسامان پرقبضہ کرکے مدینہ منورہ پرحملہ کرنے سے قبل ہی ان کی طاقت کاایک بڑا حصہ مفلوج کردیاجائے ۔

 فَخَرَجَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِینَةِ یَوْمَ السَّبْتِ لِاثْنَتَیْ عَشْرَةَ لَیْلَةً خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى رَأْسِ تِسْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا مِنْ مُهَاجَرِهِ

ابن ہشام کے مطابق ان حضرات کو رمضان کے شروع میں  اورابن سعدکے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت کے انیسویں  ماہ کے شروع میں  بارہ رمضان المبارک کومدینہ منورہ سے روانہ ہوئے یہ روانگی طلحہ بن عبیداللہ اورسعدبن زید  رضی اللہ عنہ کے روانہ کرنے کے دس دن بعدہوئی ۔

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بارہ رمضان کوروانہ ہوئے تھے اس لئے ان کی روانگی دورمضان بنتی ہے

بَعَثَ بَسْبَسَ بْنَ عَمْرٍو الْجُهَنِیّ، حَلِیفَ بَنِی سَاعِدَةَ وَعَدِیّ بْنُ أَبِی الزّغْبَاءِ الْجُهَنِیّ

ان دوحضرات کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بسبس بن عمروالجہنی جوبنوساعدہ کاحلیف تھا اورعدی بن ابی الرغبا ئ جوبنوالنجارکے حلیف کوبھی سراغ رسانی کے لئے روانہ فرمایا۔[1]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: بَعَثَ  یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بُسْبَسَةَ عَیْنًا یَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ

ان افراد کے علاوہ انس  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے(غزوہ بدرسے پہلے)بسبسہ کوبطورجاسوس روانہ فرمایاتھاکہ وہ دیکھے کہ ابوسفیان کاقافلہ کس مرحلے میں  ہے۔[2]

ان کی تاریخ روانگی کاتذکرہ نہیں  ملتا۔

ابوسفیان کوتعاقب کی اطلاع:

وَكَانَ بَلَغَ الْمُشْرِكِینَ بِالشَّأْمِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرْصُدُ انْصِرَافَهُمْ

جب ابوسفیان کاقافلہ شام سے واپس مکہ معظمہ آرہاتھامگرابھی شام کی سرحدمیں  ہی تھامشرکین مکہ کوشام میں  یہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی واپسی کی گھات میں  ہیں ۔[3]

وَكَانَ أَبُو سُفْیَانَ حِینَ دَنَا مِنْ الْحِجَازِ یُتَحَسَّسُ  الْأَخْبَارَ وَیَسْأَلُ مَنْ لَقِیَ مِنْ الرُّكْبَانِ تَخَوُّفًا عَلَى أَمْرِ النَّاسِ. حَتَّى أَصَابَ خَبَرًا مِنْ بَعْضِ الرُّكْبَانِ: أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ اسْتَنْفَرَ أَصْحَابَهُ لَكَ وَلِعِیرِكَ فَحَذِرَ عِنْدَ ذَلِكَ،فَاسْتَأْجَرَ ضَمْضَمَ بْنَ عَمْرٍو الْغِفَارِیَّ، بِعِشْرِینَ مِثْقَالًا وَأمره أَنْ یَأْتِیَ قُرَیْشًا فَیَسْتَنْفِرَهُمْ إلَى أَمْوَالِهِمْ، وَیُخْبِرَهُمْ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ عَرَضَ لَهَا فِی أَصْحَابِهِ، فَخَرَجَ ضَمْضَمُ بْنُ عَمْرٍو سَرِیعًا إلَى مَكَّةَ

اورابن سحاق کے مطابق جب ابوسفیان کاقافلہ حجازکے قریب پہنچاتووہ ہرایک آتے جاتے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کےبارے میں  دریافت کرنے لگاکیونکہ اس کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے فکرلگاہواتھاچنانچہ قبیلہ بنی جذام کے کسی شخص نے ابوسفیان کویہ خبرپہنچائی کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ساتھیوں  کے ساتھ تمہیں  روکنے کے لئے مدینہ سے نکلے تھے اور ی العشیرہ میں  ایک ماہ مقیم رہنے اوراطراف قبائل سے بھی معاہدات کے بعدواپس لوٹ گئے ہیں  اب چونکہ تمہارے پاس بہت زیادہ مال ہے اس لئے امید ہے کہ تمہیں  ضرورروکیں  گےاس لئے تم اپنے قافلے کوبچانے کی فکرکرو،بہرحال خطرے کی اطلاع ملتے ہی ابوسفیان نے(سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق مدینہ منورہ پر جو جارحانہ کاروائی کی جارہی تھی اس کوعوام الناس کی نگاہوں  میں  مستحسن قراردینے کے لئے عوامل پیداکرنے کے لئے ) فوراً (اندازاًآٹھارہ یابیس شعبان کے درمیان ) ایک تیز رفتار قاصدضمضم بن عمروالغفاری کوبیس مثقال سونا معاوضہ میں  طے کرکے مکہ مکرمہ روانہ کردیاتاکہ قریش کو خبردے دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ قافلہ کے لیے نکل چکے ہیں  اوروہ فوراًاپنے قافلہ کی حفاظت اورحمایت کے واسطے روانہ ہوں ،چنانچہ ضمضم بن عمروفوراًنہایت سرعت کے ساتھ مکہ روانہ ہوگیا۔[4]

کیونکہ ابوسفیان اب چوکنا ہوچکاتھااس لئے قاصدکو مدد کے لئے روانہ کرنے اور دیگر ضروری امورسے فارغ ہوکرجب قافلہ نے دوبارہ اپناسفرشروع کیاتوابوسفیان اس بات کی سختی سے نگرانی کرتارہاکہ کہیں  مدینہ کے جاسوس اور مخبراس کی ٹوہ میں  نہ ہوں ۔

مدنی جاسوسوں  کی جدوجہد:

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق سعیدبن زید  رضی اللہ عنہ  اور طلحہ بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ مدینہ سے شام روانہ ہوگئے،

فَبَلَغَا التَّجْبَارَ مِنْ أَرْضِ الْحَوْرَاءِ، فَنَزَلَا عَلَى كَشَدٍّ الْجُهَنِیِّ فَأَجَارَهُمَا وَأَنْزَلَهُمَا وَكَتَمَ عَلَیْهِمَا

اورشام کے علاقہ حوران میں  مقام التجبارپر جہاں  سے قافلہ کے واپسی کاامکان تھاایک شخص کشدالجھنی کے پاس خفیہ طورپرمقیم ہوگئے، کشدالجھنی نے بھی پوراپوراتعاون کیا اوران دونوں  کی آمدکوظاہرنہ ہونے دیا۔[5]

وَجَعَلَ أَهْلُ الْعِیرِ یَقُولُونَ: یَا كَشَدُ،هَلْ رَأَیْت أَحَدًا مِنْ عُیُونِ مُحَمّدٍ؟فَیَقُولُ: أَعُوذُ بِاَللهِ، وَأَنّى عُیُونُ مُحَمّدٍ بِالنّخْبَارِ؟فَرَفَعَ طَلْحَةُ وَسَعِیدٌ عَلَى نَشَزٍ مِنْ الْأَرْضِ، فَنَظَرَا إلَى الْقَوْمِ، وَإِلَى مَا تَحْمِلُ الْعِیرُثُمَّ خَرَجَا وَخَرَجَ مَعَهُمَا كَشَدٌّ خَفِیرًا حَتَّى أَوْرَدَهُمَا ذَا الْمَرْوَةِ، وَسَاحَلَتِ الْعِیرُ وَأَسْرَعَتْ

اور جب قافلہ التجبارپہنچاتواہل قافلہ نے بھی کشیدسے بھی پوچھااے کشید!کیاتم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے کسی جاسوس کودیکھاہے؟کیونکہ یہ شخص مکمل تعاون کررہاتھااس لئے اس نے اس امکان کوہی ردکرتے ہوئے کہامیں  اللہ کی پناہ چاہتاہوں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے جاسوس التجبارمیں  آئیں ،جب قافلہ التجبارسے روانہ ہواتودونوں  جاسوسوں  طلحہ اورسعید نے ایک بلند ٹیلے پرچڑھ کرقافلہ کے مال واسباب ،سازوسامان اور موجود افراد کاتخمینہ لگایااوردوروزکے وقفہ سے کشدالجھنی کے ساتھ قافلہ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے،جب یہ لوگ ذاالمروةپہنچے تو  لوگوں  سے معلوم ہواکہ قافلہ ساحل سمندرکے راستے مکہ کی سمت تیزی کے ساتھ روانہ ہوگیاہے۔[6]

فَقَدِمَ طَلْحَةُ وَسَعِیدٌ الْمَدِینَةَ لِیُخْبِرَا رَسُولَ اللهِ صلّى الله علیه وسلم خَبَرَ الْعِیرِ

توطلحہ  رضی اللہ عنہ  اورسعددونوں  راستہ بدل کاٹ کرمدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے تاکہ قافلہ پہنچنے سے پہلے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع کردیں ۔

لیکن قافلہ اتنی تیزی سے آگے بڑھاکہ یہ دونوں  حضرات قافلہ کے بدرپہنچنے سے قبل مدینہ نہ پہنچ سکے اورنہ قافلہ کی رفتارکااندازہ کر سکے ، ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   بارہ رمضان المبارک کومدینہ سے بدرکی طرف روانہ ہوچکے تھے اوریہ حضرات سترہ رمضان المبارک کو مدینہ منورہ پہنچے جس دن معرکہ بدرپیش آیا،

عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ الْبَدْرِیِّ قَالَ:كَانَ یَوْمُ بَدْرٍ یَوْمَ الاثْنَیْنِ لِسَبْعَ عَشْرَةَ مِنْ رَمَضَانَ

عامربن ربیعہ البدری سے مروی ہےغزوہ بدرسترہ رمضان المبارک دوشنبے کے دن واقع ہوا۔[7]

 قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ:وَهَذَا الثَّبْتُ أَنَّهُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ. وَحَدِیثُ یَوْمِ الاثْنَیْنِ شَاذُّ

محمدبن سعدکہتے ہیں  یہی ثابت ہے کہ غزوہ بدرجمعہ کے روزواقع ہوااوردوشنبہ کی روایت شاذہے۔[8]

عَنِ الزُّهْرِیِّ قَالَ:سَأَلْتُ أَبَا بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ لَیْلَةِ بَدْرٍ فَقَالَ: لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ لِسَبْعَ عَشْرَةَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ

زہری سے مروی ہے میں  نے ابوبکربن عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ بن الحارث بن ہشام سے شب بدرکے بارے میں  دریافت کیاتوانہوں  نے کہاوہ شب جمعہ سترہ رمضان المبارک کوہوئی۔[9]

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عن أبیه قال: كانت بَدْرٌ لِسَبْعَ عَشْرَةَ مِنْ رَمَضَانَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

جعفربن محمداپنے والدسے روایت کرتے ہیں  غزوہ بدرسترہ رمضان المبارک کوواقع ہوا۔[10]

عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِی حَبِیبَةَ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ  أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ. فَحَدَّثَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فِی رَمَضَانَ غَزْوَتَیْنِ: یَوْمَ بَدْرٍ. وَیَوْمَ الْفَتْحِ. فَأَفْطَرْنَا فِیهِمَا

ابن ابی حبیبہ سے مروی ہےانہوں  نے ابن المسیب سے سفرکے روزے کے متعلق دریافت کیاتوانہوں  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے حدیث بیان کی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ رمضان میں  دوغزوے کیے ،غزوہ بدراورغزوہ فتح مکہ اورہم نے دونوں  غزووں  میں  روزے نہیں  رکھے۔[11]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَیْدَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  غَزَا غَزْوَةَ بَدْرٍ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ فَلَمْ یَصُمْ یَوْمًا حَتَّى رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ

عبداللہ بن عبیدہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان میں  غزوہ بدرکیاجب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اہل کے پاس واپس نہ پہنچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی دن روزہ نہیں  رکھا۔[12]

مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ یَقُولُ:سُئِلَ أَبُو أَیُّوبَ عَنْ یَوْمِ بَدْرٍ فَقَالَ: إِمَّا لِسَبْعَ عَشْرَةَ خَلَتْ. أَوْ لِثَلاثَ عَشْرَةَ بَقِیَتْ. أَوْ لإِحْدَى عَشْرَةَ بَقِیَتْ. أَوْ لِتِسْعَ عَشْرَةَ خَلَتْ

ابن طلحہ کہتے ہیں ابوایوب سے یوم بدرکے بارے میں  پوچھاگیاتوانہوں  نے کہایارمضان کے سترہ دن گزرے تھے اورتیرہ دن باقی تھی یاگیارہ دن باقی تھے اورانیس دن گزرے تھے۔[13]

قاصدضمضم کی مکہ میں  آمد:

ضمضم نے (بارہ سے پندرہ یوم کے اندر)مکہ مکرمہ پہنچتے ہی(اندازاً دویاتین رمضان المبارک) عرب کے قدیم دستوراورابوسفیان کی ہدایت کے مطابق

وَاقِفًا عَلَى بَعِیرِهِ، قَدْ جَدَّعَ بَعِیرَهُ ، وَحَوَّلَ رَحْلَهُ، وَشَقَّ قَمِیصَهُ، وَهُوَ یَقُولُ :یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، اللطِیمَةَ،اللطِیمَةَ، أَمْوَالُكُمْ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ قَدْ عَرَضَ لَهَا مُحَمَّدٌ فِی أَصْحَابِهِ، لَا أَرَى أَنْ تُدْرِكُوهَا، الْغَوْثَ الْغَوْثَ

اپنے اونٹ کے کان کاٹے اس کی ناک چیردی،کجاوے کوالٹ کررکھ دیااوراپناقمیص آگے پیچھے سے پھاڑکرسرین برہنہ کردیئے اوربطن وادی میں  اونٹ پرکھڑاہوکر شور مچاناشروع کردیاقریش والو!اپنے قافلہ تجارت کی خبرلو،تمہارے مال جوابوسفیان کے ساتھ ہیں  ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے آدمی لیکران کے درپے ہوگیاہے مجھے امیدنہیں  کہ تم انہیں  پا سکو گے ، دوڑو ، دوڑومددکے لئے۔[14]

ابن الحضری کاخون ابھی فیصلہ طلب تھا،اس کے علاوہ اس قافلے کے لٹ جانے کی وجہ سے مکہ مکرمہ کے تمام لوگوں  میں  شدیداعصابیت پائی جاتی تھی ،جنہوں نے اپناسب کچھ اس تجارتی قافلے میں  دے ڈالاتھاجوابوسفیان کی قیادت میں  شام کوروانہ ہواتھااورجس کی واپسی جلدہی متوقع تھی،اس صورت حال میں  یہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ اہل مکہ کے دلوں  پر کیابیت رہی ہوگی اوران کوکیسے کیسے اندیشے اور خدشات لاحق ہوں  گے،اس لئے اس ڈرامائی خبرسے سارے مکہ میں  شدید ہیجان برپاہوگیااورقریش کے تمام بڑے بڑے سردارقافلہ کوبچانے اورمدینہ سے فیصلہ کن جنگ کے لئے تیاریوں  میں  مصروف ہوگئے

وَقَالُوا: أَیَظُنُّ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ أَنْ تَكُونَ كَعِیرِ ابْنِ الْحَضْرَمِیِّ، كَلَّا وَاَللَّهِ لِیَعْلَمُنَّ غَیْرَ ذَلِك

سب کی زبانوں  پرایک ہی بات تھی کہ کیامحمد  صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھی اس قافلے کوبھی ابن الحضرمی کاقافلہ سمجھ رہے ہیں ،اللہ کی قسم ! ان پربہت جلدواضح ہوجائے گاکہ ایسانہیں  ہوسکتا۔

اس کے بعداہل مکہ میں  جسے دیکھوہتھیاربندنظرآنے لگاتھا،اورجملہ اہل مکہ کی تیوریاں  ہروقت چڑھی رہتی تھیں ،مقررین نے پرجوش تقاریرکیں اورعوام جوپہلے ہی ان کے ساتھ تھے مزیدمشتعل کرکے مکمل طور پر اپناہمنوابنالیا جس سے لوگوں  نے حسب توفیق دل کھول کرحصہ لیااورنقدمال کے علاوہ سواریوں  کابندوبست کیا۔

وَقَامَ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فِی رِجَالٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، هَذَا مُحَمّدٌ وَالصّبَاةُ مَعَهُ مِنْ شُبّانِكُمْ، وَأَهْلُ یَثْرِبَ، قَدْ عَرَضُوا لِعِیرِكُمْ فَمَنْ أَرَادَ ظَهْرًا فَهَذَا ظَهْرٌ، وَمَنْ أَرَادَ قُوّةً فَهَذِهِ قُوّةٌ

سہیل بن عمرو نے قریش کومخاطب کرکے کہااے قریش! محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کے ساتھ تمہارے جوانوں  میں  سے چندبے دین اوراہل یثرب تمہارے اموال تجارت پرقبضہ کرنے کے لئے قافلہ کو روکنے کے لئے نکلے ہیں اس لئے ابوسفیان کی مددکے لئے تیارہوجاؤاگرکسی کے پاس جانے کے لئے سواری نہ ہو تووہ میں  اسے مہیاکردوں  گا اور دیگر اخراجات کی بھی کفالت کروں  گا ۔[15]

وقام زمعة بن الأسود فقال: إنه واللّات وَالْعُزّى، مَا نَزَلَ بِكُمْ أَمْرٌ أَعْظَمُ مِنْ هَذَا، إنْ طَمِعَ مُحَمّدٌ وَأَهْلُ یَثْرِبَ أَنْ یَعْتَرِضُوا لِعِیرِكُمْ فِیهَا حَرَائِبُكُمْ فَأَوْعِبُوا ، وَلَا یَتَخَلّفْ مِنْكُمْ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ لَا قُوّةَ لَهُ فَهَذِهِ قُوّةٌ! وَاَللهِ، لَئِنْ أَصَابَهَا مُحَمّدٌ لَا یَرُوعُكُمْ بِهِمْ إلّا وَقَدْ دَخَلُوا عَلَیْكُمْ

زمعہ بن الاسودنے اپنے معبودلات وعزیٰ کی قسم کھاکرکہااے قریش !تمہارے سامنے ایک عظیم مہم درپیش ہے کہ اپنے قافلہ کومحمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کی دست بردسے بچاؤ،تم میں  سے ہرشخص کافرض ہے کہ وہ محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے نکلے اورکوئی شخص مکہ مکرمہ میں  نہ ٹھیرے،اخراجات کی فکرنہ کرویہاں  سے روانہ ہونے کے تمام اخراجات میں  اپنے ذمہ لیتاہوں ،یادرکھواگرمحمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )اوراہل یثرب نے تمہاراقافلہ لوٹ لیاتوان کے حوصلے بڑھ جائیں  گے اورپھروہ بے خوف وخطرمکہ میں  تم پرچڑھائی کردیں  گے۔[16]

وَقَالَ طُعَیْمَةُ بْنُ عَدِیّ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنّهُ وَاَللهِ مَا نَزَلَ بِكُمْ أَمْرٌ أَجَلّ مِنْ هَذَا، أَنْ تُسْتَبَاحَ عِیرُكُمْ وَلَطِیمَةُ قُرَیْشٍ، فِیهَا أَمْوَالُكُمْ وَحَرَائِبُكُمْ . وَاَللهِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا وَلَا امْرَأَةً مِنْ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ لَهُ نَشّ  فَصَاعِدًا إلّا وَهُوَ فِی هَذِهِ الْعِیرِ، فَمَنْ كَانَ لَا قُوّةَ بِهِ فَعِنْدَنَا قُوّةٌ، نَحْمِلُهُ وَنُقَوّیهِ. فَحَمَلَ عَلَى عِشْرِینَ بَعِیرًا، وَقَوّاهُمْ وَخَلَفَهُمْ فِی أَهْلِهِمْ بِمَعُونَةٍ

طعمیہ بن عدی نے بھی اپنی تمام ترخدمات پیش کرتے ہوئے کہااے قریش! تمہارے سامنے ایک بڑاکام ہے اورتم جانتے ہوتم میں  سے ہرایک کامال اس قافلہ کے ساتھ ہے ،اس لئے اپنے مال کوبچانے کے لئے نکلو،اگرکسی کے پاس خرچ اورسواری نہ ہوتووہ میں  فراہم کردوں  گا،اس کے بعداس نے رضاکارانہ طورپرلوگوں  کوسواری کے لئے بیس اونٹ اور ساتھ ہی ان کے سواروں  کوخرچ اورگھرکے اخراجات بھی مہیاکیے۔[17]

وَقَامَ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ، وَعَمْرُو بْنُ أَبِی سُفْیَانَ، فَحَرّضَا  النّاسَ عَلَى الْخُرُوجِ

ابوسفیان کے بیٹے حنظلہ بن ابوسفیان اورعمروبن ابوسفیان سب سے زیادہ پرجوش تھے اوراپنی تقریروں  سے لوگوں  میں  اشتعال دلاتے رہے۔[18]

نَوْفَلُ بْنُ مُعَاوِیَةَ الدّیلِیّ  إلَى أهل القوّةمِنْ قُرَیْشٍ، فَكَلّمَهُمْ فِی بَذْلِ النّفَقَةِ وَالْحُمْلَانِ

نوفل بن معاویہ قریش کے دولت منداشخاص کے پاس گھوم گھوم کررسداورسواریوں  کابندوبست کرتے رہے۔[19]

كلّم عبد الله ابن أبى ربیعة فقال: هذ خَمْسُمِائَةِ دِینَارٍ، فَضَعْهَا حَیْثُ رَأَیْت. وَكَلّمَ حُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزّى فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَتَیْ دِینَارٍ أو ثلاثمائة، ثم قوّى بها السّلَاحَ وَالظّهْرَ

عبداللہ ابن ربیعہ نے پانچ سودیناراورحویطب بن عبدالعزیٰ نے دوسویاتین سودیناردیئےپھر ہتھیار اور سواری تیارکی۔ [20]

أَنَّ أَبَا لَهَبِ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تَخَلَّفَ، وَبَعَثَ مَكَانَهُ الْعَاصِیَ بْنَ هِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَةِ وَكَانَ قَدْ لَاطَ لَهُ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ كَانَتْ لَهُ عَلَیْهِ، أَفْلَسَ بِهَا، فَاسْتَأْجَرَهُ بِهَا عَلَى أَنْ یُجْزِئَ عَنْهُ، بَعَثَهُ فَخَرَجَ عَنْهُ، وَتَخَلَّفَ أَبُو لَهَبٍ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کابدترین دشمن چچاابولہب کسی وجہ سے خودتوشریک قافلہ نہ ہوسکامگر ابوجہل کے مسلسل اصرارپرعاص بن ہشام بن مغیرہ کوجس کے ذمہ ابولہب کے چارہزاردرہم قرض تھااورمفلس ہوجانے کی وجہ سے اداکرنے کے قابل نہ تھااس لئے قرض کے دباؤمیں  ابولہب کے طرف سے جاناقبول کرلیااورابولہب نے اس کے عوض میں  اپنادیا ہوا تمام قرضہ معاف کردیا۔[21]

فَكَانُوا بَیْنَ رَجُلَیْنِ، إمَّا خَارِجٍ وَإِمَّا بَاعِثٍ مَكَانَهُ رَجُلًا. وَأَوْعَبَتْ قُرَیْشٌ، فَلَمْ یَتَخَلَّفْ مِنْ أَشْرَافِهَا أَحَدٌ

الغرض اس جنگ کے لیے تمام قریش نکل پڑے اورجوخودنہیں  گیااس نے اپنے بدلے کسی دوسرے کوروانہ کیااورمکہ مکرمہ میں  کوئی قابل ذکرسردارباقی نہ رہا۔

امیہ بن خلف کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی خوب یادتھی اس لئے طبل جنگ بجنے پراس نے جنگ میں  نہ جانے کامصمم ارادہ کرلیا اس کی بیوی بھی اپنے شوہرکی ہم خیال تھی

فَقَالَ: یَا أَبَا صَفْوَانَ، إِنَّكَ مَتَى مَا یَرَاكَ النَّاسُ قَدْ تَخَلَّفْتَ، وَأَنْتَ سَیِّدُ أَهْلِ الوَادِی، تَخَلَّفُوا مَعَكَ،  أَنَّ أُمَیَّةَ بْنَ خَلَفٍ كَانَ أَجْمَعَ الْقُعُودَ، وَكَانَ شَیْخًا جَلِیلًا جَسِیمًا ثَقِیلًا، فَأَتَاهُ عُقْبَةُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ، وَهُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ بَیْنَ ظَهْرَانَیْ قَوْمِهِ، بِمَجْمَرَةٍ یَحْمِلُهَا، فِیهَا نَارٌ وَمَجْمَرٌ  ، حَتَّى وَضَعَهَا بَیْنَ یَدَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَبَا عَلِیٍّ، اسْتَجْمِرْ، فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ النِّسَاءِ

مگرابوجہل نے کہااے ابوصفوان !تم شرفائے قریش میں  سے ہواگرلوگوں  نے تمہیں  نکلتے ہوئے نہ دیکھاتوکوئی دوسرا بھی نہیں  نکلے گا(اس لئے کم ازکم ایک دوروزتک ہمارے ساتھ ہم سفررہو)امیہ بن خلف ایک جسیم اورلحیم شحیم شخص تھایہ مسجدحرام میں  بیٹھاہواتھااورایک اگرسوزکے اندر خوشبوروشن کررہاتھاکہ عقبہ بن ابی معیط اس کے پاس آیااورکہنے لگا اے ابوعلی(امیہ کی کنیت ہے) تم آگ جلاتے رہوکیونکہ تم توصنف نازک ہوتجھ کوجنگ میں  جانے سے کیاکام ہے۔[22]

اس طرح اسے اشتعال دلاکراسے چلنے پررضامندکیاگیاچنانچہ وہ بھی اپنی قوم کولے کرسب کے ساتھ روانہ ہوا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ عقبہ ابن معیط کوجب امیہ بن خلف کی بابت پتہ چلاتووہ مسجدحرام میں  آیااوراس کوبہت سخت سست کہا،طنزآمیزجملے کہے،اشتعال انگیز گفتگو کرکے امیہ کے پاس خوشبوئیں  بکھیرکرکہنے لگاتوبھی ان خوشبوؤں  سے استفادہ کرکیونکہ توبھی عورتوں  کی خصلت رکھتاہے اورعورتیں  توخوشبوپرجان دیتی ہیں ۔[23]

فَأَتَاهُ عُقْبَةُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ. وَأَبُو جَهْلٍ، وَمَعَ عُقْبَةَ مِجْمَرَةٌ فِیهَا بَخُورٌ، وَمَعَ أَبِی جَهْلٍ مُكْحُلَةٌ وَمِرْوَدٌ، فَأَدْخَلَهَا عُقْبَةُ تَحْتَهُ وَقَالَ: تَبَخّرْ، فَإِنّمَا أَنْتَ امْرَأَةٌ! وَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: اكْتَحِلْ، فَإِنّمَا أَنْتَ امْرَأَةٌ!

ایک روایت میں  ہےعقبہ ابن معیط اورابوجہل دونوں  عوددان اورسرمہ دانی اٹھاکرامیہ بن خلف کے پاس پہنچے اوراس کے سامنے عوددان اورخوشبورکھ کرکہاتم سرمہ اورخوشبو لگاتے رہوکیونکہ تم خاتون خانہ ہو۔[24]

اس طرح ان کے اشتعال دلانے پرامیہ بن خلف ساتھ چلنے پرراضی ہوکرتیاریوں  میں  مصروف ہوگیا مگرکیونکہ اسے معلوم تھامحمد  صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ نہیں  بولتے اس لئے دل میں  خوب ڈراہواتھاچنانچہ اس نے ایک تندرست ، طاقتوار اور ایسا تیز رفتار اونٹ خریداجس کی مثال مکہ میں  مشکل تھی۔

فَقَالَتْ لَهُ: یَا أَبَا صَفْوَانَ، وَقَدْ نَسِیتَ مَا قَالَ لَكَ أَخُوكَ الیَثْرِبِیُّ؟ قَالَ: لَا مَا أُرِیدُ أَنْ أَجُوزَ مَعَهُمْ إِلَّا قَرِیبًا، فَلَمَّا خَرَجَ أُمَیَّةُ أَخَذَ لَا یَنْزِلُ مَنْزِلًا إِلَّا عَقَلَ بَعِیرَهُ

بیوی نے اس سے کہااے ابوصفوان!تمہارے یثربی دوست نے جوکچھ کہاتھاکیاتواس کوبھول گیاہے،توامیہ نے کہامیں  اپنے دوست سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ کاکہنابھولانہیں  ہوں  صرف تھوڑی دورتک ان کے ساتھ جاؤں  گا،جب لشکر روانہ ہواتوجس منزل پربھی ٹھیرنا ہوتایہ اپنااونٹ(اپنے پاس ہی) باندھے رکھتا(تاکہ خطرے کی صورت میں  جلدازجلدنکل جانے کی سہولت رہے)۔[25]

مگرموت کے آگے کس کی تدبیرچلی ہے ابوجہل کی چرب زبانی اورطعنے بدرمیں  اسے موت کے شکنجے میں  پہنچاکرہی رہی۔

وَأَخْرَجَ عُتْبَةُ وَشَیْبَةُ دُرُوعًا لَهُمَا، وَنَظَرَ إلَیْهِمَا عَدّاسٌ  وَهُمَا یُصْلِحَانِ دُرُوعَهُمَا وَآلَةَ حَرْبِهِمَا، فَقَالَ: مَا تُرِیدَانِ؟ قَالَا: أَلَمْ تَرَ إلَى الرّجُلِ الّذِی أَرْسَلْنَاك إلَیْهِ بِالْعِنَبِ فِی كَرْمِنَا بِالطّائِفِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَا: نخرج فنقاتله. فبكى وقال: لا تخرجا، فو الله إنّهُ لَنَبِیّ! فَأَبَیَا فَخَرَجَا، وَخَرَجَ مَعَهُمَا فَقُتِلَ بِبَدْرٍ مَعَهُمَا

عتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ بھی جانے کی تیاریوں  میں  تھے،لشکرقریش روانہ ہونے سے قبل ان کے غلام عداس جوواقعہ طائف کے بعدنصرانیت سے تائب ہوکراسلام قبول کرچکے تھےان کے پیرپکڑلیے اورروتے ہوئے عرض کیامیرے ماں  باپ تم پرفداہوں  اللہ کی قسم ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )بیشک اللہ کے رسول ہیں  اورتم لوگ اپنے مقتل کی طرف ہانکے جارہے ہو،عاص بن شیبہ نے عداس  رضی اللہ عنہ  کوروتے دیکھ کراس کاسبب دریافت کیاتوعداس  رضی اللہ عنہ  نے کہامیں  اپنے آقاؤں  کی وجہ سے روتاہوں  کہ دونوں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ وقتال کے لئے روانہ ہورہے ہیں ،عاص بن شیبہ نے کہاکیاواقعی محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں ، عداس  رضی اللہ عنہ  نے کہاہاں  اللہ کی قسم!  وہ اللہ کے رسول ہیں  اورتمام لوگوں  کی طرف بھیجے گئے ہیں مگراس کے باوجوداپنی قوم کے ساتھ روانہ ہونے سے بازنہ رہے سکے۔[26]

اس طرح تمام قبیلوں  کے لوگ سوائے بنی عدی اوربعض روایتوں  کے بموجب بنی عدی بھی بڑی شان وشوکت سے زرہیں  اورآلات حرب لے کرپوری طرح مسلح ہوکرنکلے،

سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ  میں  عمروبن الحضری کے قتل کاواقعہ تازہ تھااورجوش انتقام میں  شدت تھی ، قافلہ کوبچانے کامعاملہ بھی درپیش تھاجس میں  قریش کےہرشخص کا سرمایا لگاہواتھااس کے علاوہ ان کے اصل ارادہ تھا کہ آئے دن کے خطرے کوہمیشہ کے لئے ختم کردیں  اورمدینہ طیبہ میں  یہ مخالف طاقت جوابھی نئی نئی مجتمع ہونی شروع ہوئی ہے اسے اچھی طرح کچل دیں  اوراس نواح کے قبائل کواس حدتک مرعوب کردیں  کہ آئندہ کے لئے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہوجائے، مسلمانوں  کی بے سروسامانی اورافرادی طاقت کابھی انہیں  اندازہ تھااس لئے قریش نے اپنے تمام حلیفوں  کے جمع ہونے کاانتظاربھی نہیں  کیااورتین دن بعدتیاری کے دوران جوبھی حلیف پہنچ گئے ان کوساتھ لیکر نکل کھڑے ہوئے۔[27]

مگراس جلدی کے باوجودبھی تقریباًایک ہزارمسلح افرادجمع ہوگئے جن میں  اکثرنامورسورمااورآزمودہ کارجنگجوتھے اوران میں  سات سوسے زائدتعدادزرہ پوشوں  کی تھی ، اس کے علاوہ کافی تعداد میں  گھوڑے بھی تھے،

وَمَعَ الْمُشْركین مائَة فَرَسٍ

بعض روایتوں  کے بموجب مشرکین مکہ کے ساتھ سوسواروں  کاایک دستہ تھا۔[28]

وَكَانَ مَعَ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَئِذٍ مِائَةُ فَرَسٍ

اورمشرکین مکہ کے ساتھ اس دن سوسواروں  کاایک دستہ تھا۔[29]

ایک روایت کے مطابق کے مطابق دوسوسواروں  کادستہ تھا۔

وَقَالَ یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ:خَرَجَتْ قُرَیْشٌ عَلَى الصَّعْبِ وَالذَّلُولِ فِی تِسْعِمِائَةٍ وَخَمْسِینَ مُقَاتِلًا مَعَهُمْ مِائَتَا فَرَسٍ  یَقُودُونَهَا وَمَعَهُمُ الْقِیَانُ  یَضْرِبْنَ بِالدُّفُوفِ وَیُغَنِّینَ بِهِجَاءِ الْمُسْلِمِینَ

یونس ا بن اسحاق کے حوالے سے کہتے ہیں قریش مکہ اپنے حلیف قبائل کے لوگوں  کے ساتھ جب مدینہ منورہ پرحملے کے لیے لشکرلے کرروانہ ہوئے توان کے پاس نوسوپچاس جنگ کرنے والے لشکرسپاہیوں  کے علاوہ دوسوحرب وضرب کے ماہرگھوڑسواراورسوایسے پختہ کارتیزاندازتھےجن کے متعلق ان دشمنان اسلام کویقین کامل تھاکہ وہ پہلی بارہی (خدانخواستہ)مسلمانوں  کی پوری جمعیت کاصفایاکردیں  گے۔[30]

خوراک کے لئے سات سواونٹ بھی ساتھ تھے،لشکرکے کھانے کاانتظام بارہ افرادکررہے تھے جن میں ابوجہل ،عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بنی ربیعہ ، حکیم بن حزام،عباس بن عبدالمطلب ،ابوالبختری،زمعہ بن اسود،ابی بن خلف،امیہ بن خلف،نضربن حارث،نبیہ بن حجاج،منبہ بن حجاج تھے،ان میں  سے ہرشخص ایک دن دس اونٹ ذبح کرتاتھا۔

أَنَّ أَوَّلَ مَنْ نَحَرَ لَهُمْ حِینَ خَرَجُوا مِنْ مَكَّةَ أَبُو جَهْلٍ نَحَرَ لَهُمْ عَشْرًا  ثُمَّ نَحَرَ لَهُمْ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ بِعُسْفَانَ تِسْعًا، وَنَحَرَ لَهُمْ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بِقُدَیْدٍ عَشْرًا، وَمَالُوا مِنْ قُدَیْدٍ إِلَى مِیَاهٍ نَحْوَ الْبَحْرِ فَظَلُّوا فِیهَا وَأَقَامُوا بِهَا یَوْمًا فَنَحَرَ لَهُمْ شَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ تِسْعًا، أَصْبَحُوا بِالْجَحْفَةِ فَنَحَرَ لَهُمْ یومئذٍ عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ عَشْرًا، ثُمَّ أَصْبَحُوا بِالْأَبْوَاءِ فَنَحَرَ لَهُمْ نُبَیْهٌ وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الْحَجَّاجِ عَشْرًا،وَنَحَرَ لَهُمْ الحارث بن عامر بن نوفل تسعاً وَنَحَرَ لَهُمْ عَلَى مَاءِ بَدْرٍ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ عشراً، ونحر لهم مقبس الجمحی على ماء بدر تسعاً ثُمَّ أَكَلُوا مِنْ أَزْوَادِهِمْ

اس لشکرکے مکہ مکرمہ سے روانگی کے پہلے ہی روزابوجہل نے بطورنیک فالی دس اونٹ ذبح کیے،اس کے بعدامیہ بن خلف نے عسفان پہنچ کرنواونٹ ذبح کیے،پھرسہیل بن عمرونے قدیدمیں  دس اونٹ ذبح کیےاورجب یہ لوگ ساخل سمندرکے قریب پہنچے اوروہاں  پڑاؤڈالاجوایک روزکے لیے تھاتوشیبہ بن ربیعہ نے نواونٹ ذبح کیے،پھرجب یہ لوگ وہاں  سے رات کے وقت روانہ ہوکرصبح جحفہ پہنچے توعتبہ بن ربیعہ نے دس اونٹ ذبح کیے،اورجب قریش کایہ لشکراگلے روزصبح کے وقت ابواپہنچاتواس کے لیے حجاج کے دوبیٹوں  نبیہ اورمنبہ نے مل کردس اونٹ کاٹے وَنَحَرَ لَهُمُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَشْرًااورساتھ ہی عباس بن عبدالمطلب نے بھی دس اونٹ ذبح کیےاورحارث بن عامرنے نواونٹ ذبح کیےاس کے بعدبدرکے قریب اس مقام پرپہنچ کرجہاں  پانی دستیاب ہے ابوالبختری نے دس اونٹ بح کیےاورمقبس جمعی نے بدرکے مقام پرجہاں  پانی دستیاب ہے نواونٹ ذبح کیے جسے پھر انہوں  نے کھایا۔[31]

قریشی لشکرکی روانگی:

وَكَانَتْ قُرَیْشٌ قَدْ أَرْسَلَتْ فُرَاتَ بْنَ حَیَّانَ الْعِجْلِیَّ، وَكَانَ مُقِیمًا بِمَكَّةَ حِینَ فَصَلَتْ قُرَیْشٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَبِی سُفْیَانَ یُخْبِرُهُ بِمَسِیرِهَا وَفُصُولِهَا فَخَالَفَ أَبَا سُفْیَانَ فِی الطَّرِیقِ، فَوَافَى الْمُشْرِكِینَ بِالْجُحْفَةِ،فَمَضَى مَعَهُمْ فَجُرِحَ یَوْمَ بَدْرٍ جِرَاحَاتٍ وَهَرَبَ عَلَى قَدَمَیْهِ

مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے سے پہلے قریش نے فرات بن حیان العجلی کو لشکرکی روانگی کی خبرکے لئے ابوسفیان کے پاس بھیج دیاتھامگرچونکہ ابوسفیان نے خطرے کے پیش نظر اپناراستہ بدل دیاتھااس لئے یہ قاصداس سے نہ مل سکااورواپس جحفہ پرآکرقریش سے مل گیا اوران کے ہمراہ روانہ ہوا،غزوہ بدرمیں  اسے متعددزخم لگے اوروہ پچھلے پاؤں  بھاگ گیا۔[32]

قریش ضمضم کے مکہ پہنچنے اورتین دن تک تیاریوں  میں  مصروف رہنے کے بعد اندازاًسات رمضان المبارک کو نہایت کروفراورسامان عیش وطرب کے ساتھ گانے بجانے والی عورتوں  اورطبلوں  اورطبلچیوں  کوساتھ لیکر اکڑتے اور اتراتے ہوئے روانہ ہوئے ،ان کاعلم بردارسائب بن یزیدتھا(جوبعدمیں  مسلمان ہوگئے)

وَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ جَهَازِهِمْ، وَأَجْمَعُوا الْمَسِیرَ، ذَكَرُوا مَا كَانَ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ بَنِی بَكْرِ بْنِ عَبْدِ مَنَاةَ بْنِ كِنَانَةَ مِنْ الْحَرْبِ، فَقَالُوا: إنَّا نَخْشَى أَنْ یَأْتُونَا مِنْ خَلْفِنَافَتَبَدَّى لَهُمْ إبْلِیسُ فِی صُورَةِ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ الْمُدْلِجِیِّ، وَكَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِی كِنَانَةَ، فَقَالَ لَهُمْ: أَنَا لَكُمْ جَارٌ مِنْ أَنْ تَأْتِیَكُمْ كِنَانَةُ مِنْ خَلْفِكُمْ بِشَیْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَخَرَجُوا سِرَاعًا

جب قریش اپنے سازوسامان سے درست اورتیارہوگئے اورجنگ کاپختہ ارادہ کرکے نکلے تب ان کویہ خیال آیاکہ ایسانہ ہوکہ بنی کنانہ جو ہمارے دشمن ہیں  پیچھے سے ہم پر آ پڑیں  اورہم نہ ادھرکے رہیں  نہ ادھرکے رہیں ،قریش اسی تذبذب میں  تھے کہ ابلیس سراقہ بن مالک کی شکل میں  ان کے پاس آیا،سراقہ بنی کنانہ کاایک بڑاسردارتھااورکہنے لگاآج تم پرکوئی غالب نہیں  ہوسکتامیں  تمہارے ہمراہ رہوں  گاتاکہ بنی کنانہ تمہیں  کچھ بھی ایذانہ دے سکیں ،وہ ابلیس کے اس وعدے پرتیزی سےنکل پڑے۔[33]

قریش مکہ سے روانہ توہوگئے لیکن انہیں  مکہ مکرمہ پربنی بکرکے حملہ کااندیشہ تھا

وَكَانَ أَشَدّهُمْ خَوْفًا عُتْبَةَ بْنَ رَبِیعَةَ، فَكَانَ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنّكُمْ وَإِنْ ظَفِرْتُمْ بِاَلّذِی تریدون، فإنالَا نَأْمَنُ عَلَى مَنْ تَخَلّفَ

اورسب سے زیادہ اندیشہ عتبہ بن ربیعہ کوتھااس نے قریش کومخاطب ہوکرکہااے قریش!تم جس کی طرف جارہے ہواگراس پرکامیابی حاصل بھی کرلولیکن ہم جنہیں  اپنے پیچھے چھوڑے جارہے ہیں  ان سے مطمئن نہیں  ہوں ۔[34]

أَنَّ قُرَیْشًا لَمَّا تَفَرَّقُوا إِلَى بَدْرٍ فَكَانُوا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ هَبَّ أَبُو جَهْلٍ مِنْ نَوْمِهِ فَصَاحَ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَلا تَبًّا لِرَأْیِكُمْ مَاذَا صَنَعْتُمْ. خَلَّفْتُمْ بَنِی هَاشِمٍ وَرَاءَكُمْ،فَإِنْ ظَفَرَ بِكُمْ مُحَمَّدٌ كَانُوا مِنْ ذَلِكَ بِنَحْوِهِ، وَإِنْ ظَفِرْتُمْ بِمُحَمَّدٍ أَخَذُوا آثَارَكُمْ مِنْكُمْ مِنْ قَرِیبٍ مِنْ أولادكم وأهلیكم ، فلا تدروهم فِی أَخْرِجُوهُمْ مَعَكُمْ وَإِنْ لَمْ یَكُنْ عِنْدَهُمْ غَنَاءٌ  ،فَرَجَعُوا إِلَیْهِمْ فَأَخْرَجُوا الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وطالبا وعقیلا كرها

لشکرقریش مکہ کے قریب ایک مقام الظہرن پرہی پہنچا تھاکہ ابوجہل نے قریش کو مخاطب ہوکرکہااے گروہ قریش!تمہاری عقلوں  کو کیاہوگیاہے کہ تم نے بنوہاشم کواپنے پیچھے چھوڑ دیاہے؟ اگر محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم )نے تم پرفتح پالی تووہ لوگ بھی محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کے ہامی بن جائیں  گےاوراگرتم لوگوں  نے محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کامیابی حاصل کرلی تووہ تم سے تمہاری اولادوں  سے اورتمہارے اعزہ سے انتقام لیتے رہیں  گے،لہذاتم انہیں  اپنے صحن اور اپنے میدان میں  نہ چھوڑو،خواہ ان سے کام لویانہ لو مگرانہیں  اپنے ساتھ ہی لے چلو ، چنانچہ ابوجہل کی بات مان کرلوگ واپس آئے اورعباس بن عبدالطلب،طالب،نوفل اور عقیل کوزبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔[35]

مگریہاں  قریش میں  اختلاف خیال پیدا ہو گیا ایک گروہ جن میں  عتبہ،شیبہ،حارث بن عمرو،امیہ بن خلف،حکیم بن حزام،ابوالبحتری علی بن امیہ اورعاص بن منبہ تھے اس مہم کے سرے سے ہی خلاف تھے،ان لوگوں  نے نہ تو اپنے حلیفوں  کوبلوایاتھااورنہ ہی دوسروں  کی مددکی تھی مگر خود مسلمانوں  کے خلاف لشکرکے ساتھ نکلے،جبکہ دوسراگروہ جوزیادہ باآثرتھاان میں  ابوجہل،عقبہ ابن معیط،نضربن حارث بن کلدہ شامل تھے ان لوگوں  نے اپنے حلیفوں  کوبھی بلوایادوسروں  کی مددبھی کی اورخودبھی نکلے،ابوجہل اوراس کاگروہ لشکرپرحاوی تھامگرمصلحتاً عتبہ بن ربیعہ کوسرداربناکر(تاکہ وہ ان سے علیحدہ نہ ہوسکے )بدرکی جانب روانہ ہوئے مگراختلاف رائے قائم رہا،ابوجہل نے کسی ایک کی نہ سنی اور لشکر قریش کواشتعال دلاتاہوابرابراپنے مقتل کی طرف بڑھتاہی چلاگیا۔

وَأَقْبَلَتْ قُرَیْشٌ، فَلَمَّا نَزَلُوا الْجُحْفَةَ، رَأَى جُهَیْمُ بْنُ الصَّلْتِ ابْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ رُؤْیَافَقَالَ: إنِّی رَأَیْتُ فِیمَا یَرَى النَّائِمُ، وَإِنِّی لَبَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقِظَانِ.  إذْ نَظَرْتُ إلَى رَجُلٍ قَدْ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ حَتَّى وَقَفَ، وَمَعَهُ بَعِیرٌ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: قُتِلَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَأَبُو الْحَكَمِ بْنُ هِشَامٍ، وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَعَدَّدَ رِجَالًا مِمَّنْ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ، مِنْ أَشْرَافِ قُرَیْشٍ ، ثُمَّ رَأَیْتُهُ ضَرَبَ فِی لَبَّةِ بَعِیرِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَهُ فِی الْعَسْكَرِ، فَمَا بَقِیَ خِبَاءٌ مِنْ أَخْبِیَةِ الْعَسْكَرِ إلَّا أَصَابَهُ نَضْحٌ  مِنْ دَمِهِ، قَالَ: فَبَلَّغْتُ أَبَا جَهْلٍ، فَقَالَ: وَهَذَا أَیْضًا نَبِیٌّ آخَرُ مِنْ بَنِی الْمُطَّلِبِ ، سَیَعْلَمُ غَدًا مَنْ الْمَقْتُولُ إنْ نَحْنُ الْتَقَیْنَا

جب لشکرمقام جحفہ پرپہنچاتوجہیم بن صلت بن مخرمہ بن مطلب بن عبدمناف نے ایک خواب دیکھا،اورلوگوں  سے بیان کیاکہ ایک شخص گھوڑے پرسوار ہو کرآیا اورایک اونٹ بھی اس کے ہمراہ ہے وہ آکرکھڑاہوااورکہنے لگاقتل ہواعتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اورامیہ بن خلف اورفلاں  فلاں ،اشراف قریش میں  سے جولوگ غزوہ بدرمیں  قتل ہوئے سب کے نام گنوائے،بعدازاں  اس شخص نے اونٹ کی گردن میں  ایک برچھامارکرہمارےلشکرکی طرف چھوڑدیاہمارےلشکرمیں  کوئی خیمہ ایسانہ رہاجس پراس اونٹ کے خون کے چھنٹے نہ پڑے ہوں ،صبح جب ابوجہل کو اس خواب کی اطلاع ہوئی توبہت برہم ہوااورکہنے لگایہ بنی عبدالمطلب میں  دوسرانبی پیداہواہے،کل جب مقابلہ ہوگاتب اس کومعلوم ہوجائے گاکہ جنگ میں  ہم میں  سے کون قتل ہوگا۔[36]

اہل مکہ جانتے تھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم لکھ پڑھ نہیں  سکتےاورنہ ہی گزشتہ قوموں  کی تاریخ کاعلم حاصل کرنے کے لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں  سفرکیاہے،اس کے باوجودآپ نے ایک جلیل القدرکتاب پیش کی ہے، مگرمشرکین مکہ کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اوراللہ کی نازل شدہ آیات پراپنے بغض وعناداورتعصب کی وجہ سےشک ہی رہا،پچھلی قوموں  کی طرح وہ بھی ظلم وعنادکی بناپر یہی کہتے تھے کہ یہ توصرف پہلوں  کی کہانیاں  ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کومقابلے کی دعوت دی کہ اگرایسی بات ہے تو

 قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [37]

ترجمہ:کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں  تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں  ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں  معبود سمجھنے میں  ) سچے ہو۔

پھرفرمایااچھاایک ہی اس جیسی سورہ بنالے لادو۔

قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸ [38]

ترجمہ:کہو اگر تم اپنے اس الزام میں  سچے ہو تو ایک سورۂ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک اللہ کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔

مگروہ اپنی ہرممکن خواہش اورکوشش کے باوجودیسانہ کرسکے اورنہ رہتی دنیاتک کوئی ایساکرسکے گاجس سے مشرکین کی بے بسی ظاہرہوگئی ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو باربارمختلف پیرایوں  میں  سمجھایا،تباہ شدہ قوموں  کی مثالیں  دیں ،رسالت اورقرآن مجیدکی حقانیت کے مدلل دلائل بیان فرمائے،اللہ کی ہرسوبکھری نشانیاں  دکھائیں  مگرکفروشرک میں ان کے دل اتنے سخت ہوچکے تھے کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اوریہ کہنے کے بجائے کہ اے اللہ! اگرمحمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق ہے توہماری اس طرف راہ نمائی کیجئے انہوں  نے پچھلی قوموں  کی طرح برسرعام اپنے باطل پرڈٹتے ہوئے اورآداب تخاطب سے جہالت کے ساتھ پورے جزم سے اظہارکرتے

  وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [39]

ترجمہ: اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں  نے کہی تھی کہ اے اللہ ! اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

اگراللہ تعالیٰ ان پرعذاب بھیجنے میں  جلدی کرتاتوان میں  سے کوئی بھی باقی نہ رہتا مگراللہ جوغفوررحیم ہے عذاب نازل کرنے میں  جلدی نہیں  کرتابلکہ باربارموقعہ مہیا کرتا ہے کہ انسان سوچے اورسیدھے راستے کی طرف پلٹ آئےتاکہ وہ دردناک عذاب کی جگہ جہنم کے بجائے نعمتوں  بھری جنت میں  داخل ہوجائے ،اس کے علاوہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب تک کسی قوم میں  رسول کاوجودموجودرہااور استغفارکی وجہ سے اپنی قوم کے حفظ وامان کاسبب بنارہااوران پرعذاب استیصال نازل نہ کیاگیااورجب ہلاکت کلی کاوقت آگیا تو رسول اورمومنون کواس بستی سے پہلے باہرنکال دیاگیا،یہی صورت حال مشرکین مکہ کے ساتھ بھی تھی،وہ ناسمجھی میں  اتنی بڑی بات اپنے منہ سے نکال رہے تھے مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورمومنون کی موجودگی جوہرلمحہ اللہ تعالیٰ سے استغفارکرتے رہتے تھے عذاب کوواقع ہونے سے روک رہاتھاحالانکہ اس کے اسباب منعقدہوچکے تھے ، چنانچہ مشرکین مکہ کوبتایاگیاکہ کون سی چیزتم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کودورکرسکتی ہے حالانکہ تمہارے کرتوت ایسے ہیں  جوعذاب کوواجب ٹھیراتے ہیں ،جب ابوجہل لشکرکے ہمراہ مدینہ کی جانب روانہ ہونے لگاتوآخری لمحات میں  اس نے اپنی جذباتی وابستگی اوروالہانہ اندازحقانیت ظاہرکرنے کے لئے کفارکے گروہ کی موجودگی میں  بیت اللہ کے پردے سےلپٹ کر دعامانگی ۔

وَقَدْ كَانَ خُفَافُ بْنُ أَیْمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِیُّ، أَوْ أَبُوهُ أَیْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِیُّ، بَعَثَ إلَى قُرَیْشٍ، حِینَ مَرُّوا بِهِ، ابْنَا لَهُ بِجَزَائِرِهِ  أَهْدَاهَا لَهُمْ، وَقَالَ:إنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ نُمِدَّكُمْ بِسِلَاحِ وَرِجَالٍ فَعَلْنَاقَالَ: فَأَرْسَلُوا إلَیْهِ مَعَ ابْنِهِ:أَنْ وَصَلَتْكَ رَحِمٌ، قَدْ قَضَیْتَ الَّذِی عَلَیْكَ، فَلَعَمْرِی لَئِنْ كُنَّا إنَّمَا نُقَاتِلُ النَّاسَ فَمَا بِنَا مِنْ ضَعْفٍ عَنْهُمْ،وَلَئِنْ كُنَّا إنَّمَا نُقَاتِلُ اللهَ،  كَمَا یَزْعُمُ مُحَمَّدٌ، فَمَا لِأَحَدِ بالله مِنْ طَاقَةٍ

قریش مکہ مکرمہ سے آتے ہوئے جب ایمابن رخصہ الغفاری کے پاس سے گزرے تواس نے اپنے ایک بیٹے کے ذریعہ ذبح کرنے کے چنداونٹ بطورتحفہ دے کرقریش کی طرف بھیجااورکہلابھیجاکہ اگرتم چاہوتوہم ہتھیاروں  اورآدمیوں  سے تمہاری مددکے لئے آئیں ،مگرقریش کے غرورکایہ عالم تھاکہ انہوں  نے ایمابن رخصہ الغفاری کے بیٹے سے کہاتم سے رشتہ داری قائم رہےجوکچھ تم پرلازم تھاتم نے اداکردیااپنی عمرکی قسم!اگرہم ان لوگوں  سے جنگ کررہے ہیں  توہم میں  ان کے مقابل کوئی کمزوری نہیں  ہے   اوراگرہم اللہ سے جنگ کررہے ہیں  جیساکہ محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے تواللہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کسی میں  سکت نہیں  ہے۔[40]

مسلمانوں  کی مدینہ منورہ سے روانگی:

جب (بارہ رمضان المبارک کو) تیسرے جاسوس بسیب بن عمروالجہنی (بسیسہ رضی اللہ عنہ )مدینہ منورہ لوٹ کرآئے اس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  گھرمیں  تھے ،بسیسہ  رضی اللہ عنہ  کاسن کر فوراً باہرتشریف لائے اورتمام حالات معلوم فرمائے (انہوں  نے کہا) کہ قریشی قافلہ آرہاہے۔

وَكَانَتْ الْعِیرُ أَلْفَ بَعِیرٍ، وَكَانَتْ فِیهَا أَمْوَالٌ عِظَامٌ فَكَانَ یُقَالُ: إنّ فِیهَا لَخَمْسِینَ أَلْفَ دِینَارٍكَانَ فِی الْعِیرِ ثَلَاثُونَ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ، فِیهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، ومَخْرَمَةُ بْنُ نَوْفَلٍ، وَقَالَ: هَذِهِ عِیرُ قُرَیْشٍ فِیهَا أَمْوَالُهُمْ فَاخْرُجُوا إِلَیْهَا لَعَلَّ اللهَ یُنَفِّلُكُمُوهَاَ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بھی اطلاع ملی کہ ابوسفیان کےقافلہ میں  ایک ہزاراونٹوں پرمال تجارت لداہواہے اور بھاری  مالیت کاسامان ہے اورکہاجاتاہے کہ وہ پانچ لاکھ درہم مالیت کاسامان ہے(دینارعام طورپر سونے کا اور درہم چاندی کاسکہ ہوتاہے)اور مخرمہ بن نوفل،عمروبن العاص وغیرہ شرفائے قریش دیگرتیس چالیس افرادکے ہمراہ قافلہ کے ساتھ ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب ہوکرفرمایایہ قریش کا قافلہ ہے جنہوں  نے تم کوتمہارے گھروں  سے نکال دیااورتمہارے اموال پرناجائزقابض ومتصرف ہوگئے ہیں ،چلوشایداللہ تعالیٰ تم کواس کابدل دلوادے۔[41]

كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:  لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَیْرَ أَنِّی تَخَلَّفْتُ عَنْ غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ یُعَاتَبْ أَحَدٌ تَخَلَّفَ عَنْهَا، إِنَّمَاخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ عِیرَ قُرَیْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللهُ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَیْرِ مِیعَادٍ

کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  کسی غزوہ میں  پیچھے نہیں  رہاجس میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہوں  ، مگرغزوہ تبوک کے علاوہ غزوہ بدرمیں  بھی پیچھے رہ گیاتھالیکن غزوہ بدرسے تخلف کرنے والوں  پرکوئی عتاب نہیں  ہوااس لئے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم صرف قافلہ قریش کے ارادہ سے نکلے تھے حسب الاتفاق بلاکسی قصدکے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوان کے دشمنوں  سے لڑادیا۔[42]

فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَهُ فِی ظُهْرَانِهِمْ فِی عُلْوِ الْمَدِینَةِ،فَقَالَ:لَا، إِلَّا مَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا

بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اجازت مانگی کہ مدینہ کے بالائی حصوں  سے اپنی سواریاں  لے آئیں  (قافلہ کی اطلاع کیونکہ دیرسے ملی تھی اورقافلہ بہت قریب آ چکا تھا اور بغیرکسی تاخیر کے نکلنانہایت ضروری تھااس لئے آپ نے اجازت نہ دی )آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں صرف وہ لوگ چلیں  جن کی سواریاں  مدینہ میں  موجود ہوں ۔[43]

الغرض(بارہ رمضان المبارک) عجلت میں  جو مسلمان جس حال میں  تھااسی حال میں  کھڑاہو گیااورسب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرکمان بڑی عجلت اور بغیر کسی خاص تیاری کے بدرکی طرف روانہ ہوگئے۔

أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ الْخَیْلِ، فَرَسُ مَرْثَدِ بْنِ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ، وَكَانَ یُقَالُ لَهُ: السَّبَلُ  ، وَفَرَسُ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو الْبَهْرَانِیِّ، وَكَانَ یُقَالُ لَهُ: بَعْزَجَةُ، وَیُقَالُ: سَبْحَةُ، وَفَرَسُ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَكَانَ یُقَالُ لَهُ: الْیَعْسُوبُ

بے سروسامانی کایہ عالم تھاکہ پورے لشکرمیں  صرف تین گھوڑے تھے،ایک مرثدبن ابی المرثدکاجس کانام السبل تھااوردوسرامقدادبن عمروبہرانی کاجس کانام بَعْزَجَةُ تھا اور تیسرازبیربن العوام کاجس کانام الیعسوب تھا۔[44]

بعض روایتوں  میں  صرف دوگھوڑوں  کا ذکر ہے۔

یَوْمَ بَدْرٍ إِلا فَرَسَانِ. فَرَسٌ عَلَیْهِ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو حَلِیفُ الأَسْوَدِ خَالِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَفَرَسٌ لِمَرْثَدِ بْنِ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ حَلِیفِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.

غزوہ بدرمیں  صرف دوگھوڑے تھے ایک مقدادبن عمروکااورایک مرثدبن ابی مرثدالغنوی کا۔[45]

وَكَانَتْ إبِلُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ بَعِیرًا، فَاعْتَقَبُوهَا،فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَمَرْثَدُ بْنُ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیُّ یَعْتَقِبُونَ بَعِیرًا ،  وَكَانَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَأَبُو كَبْشَةَ، وَأَنَسَةُ، مَوْلَیَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْتَقِبُونَ بَعِیرًا، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ یَعْتَقِبُونَ بَعِیرًا

اس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکرمیں کل ستراونٹ تھے اورایک ایک اونٹ پرکئی کئی آدمی باری باری سوارہوتے تھےچنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  اورمرثدبن ابی مرثدغنوی ایک اونٹ پرسوارہوتے تھے،اورحمزہ  رضی اللہ عنہ اورزیدبن حارثہ  رضی اللہ عنہ اورابوکبشہ رضی اللہ عنہ  اورانسہ رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے،اورسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن عوف ایک اونٹ پرسوارہوتے تھے۔[46]

اس طرح تین سوسے کچھ زائدآدمی جو غالباً قافلہ کے محافظ دستے کے مقابلے اورقافلہ پرقبضہ کے لئے کافی سمجھے گئے روانہ ہوئے۔

وَكَانَ  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قد غَزَا إلَى بَدْرٍ بِسَیْفٍ وَهَبَهُ لَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ یُقَالُ لَهُ الْعَضْبُ، وَدِرْعِهِ ذَاتِ الْفُضُولِ

قبیلہ خزرج کے سردار سعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  نے اس موقع پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  ایک تلوارجس کانام عضب تھااورایک زرہ جس کانام ذات الفضول تھاپیش کی۔[47]

وَكَانَ یَتَهَیَّأُ لِلْخُرُوجِ إِلَى بَدْرٍ وَیَأْتِی دُورَ الأَنْصَارِ یَحُضُّهُمْ عَلَى الْخُرُوجِ فَنُهِشَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ فأقام،فقال  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : لَئِنْ كَانَ سَعْدٌ لَمْ یَشْهَدْهَا لَقَدْ كَانَ عَلَیْهَا حَرِیصًا

وہ خودبھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدرکے لیے نکلنے کی تیاری کررہے تھے اور انصارکے محلوں  میں  گھوم گھوم کرلوگوں  کوبھی نکال رہے تھےلیکن عین وقت پرکسی جگہ انہیں  ایک سانپ نے ڈس لیاجس سے وہ بیمارہوگئے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکرمیں  شمولیت اختیارنہ ہو سکے،  رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرچہ سعد  رضی اللہ عنہ غزوہ میں  شریک نہ ہوئے لیکن وہ اس میں  شرکت کے آرزومندتھے۔[48]

إِنَّمَا تَغَیَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مَرِیضَةً

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے نکاح میں  سیدالانام  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی رقیہ  رضی اللہ عنہا  تھیں  ،جب لشکرمدینہ منورہ سے روانہ ہوااس وقت وہ بیمارتھیں (وہ ساتھ چلنے پرراضی تھے مگر) رقیہ  رضی اللہ عنہا  کی تیمارداری کی وجہ سے (کہ ان کے جسم پرخسرہ کی پھنسیاں  نکل آئی تھیں ) ابوعبداللہ عثمان  رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ نہ ہوسکے،

فَأمره رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالتخلف عَلَیْهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  حکم فرمایاکہ وہ ان کی تیمارداری کریں ۔[49]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنَّمَا تَغَیَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مَرِیضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں  شریک نہ ہوسکے تھے ،ان کے نکاح میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک صاحبزادی تھیں  اوروہ بیمارتھیں  ،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے ارشاد فرمایا تمہارے لئے اتناہی اجرہے جتناشرکائے بدرکاہے، تمہیں اتناہی حصہ ملے گاجتناشرکائے بدرکوملے گا۔[50]

عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ خَلَّفَهُ رَسُول اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَتُهُ رُقْیَةُ بِنْت رَسُول اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَكَانَتْ مَرِیضَةً فَأَقَامَ عَلَیْهَا حَتَّى مَاتَتْ

سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی اہلیہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تیمارداری کے لیے پیچھے چھوڑدیاکیونکہ وہ سخت بیمارتھیں  چنانچہ وہ ان کے پاس مقیم رہے یہاں  تک کہ وہ وفات پاگئیں ۔[51]

حُذَیْفَةُ بْنُ الْیَمَانِ، قَالَ:مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی حُسَیْلٌ قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَیْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا؟فَقُلْنَا: مَا نُرِیدُهُ، مَا نُرِیدُ إِلَّا الْمَدِینَةَ،فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللهِ وَمِیثَاقَهُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِینَةِ، وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ،فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ:انْصَرِفَا، نَفِی لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ،وَنَسْتَعِینُ اللهَ عَلَیْهِمْ

حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمجھے غزوہ بدر میں  حاضر ہونے سے کسی بات نے نہیں  روکا سوائے اس کے کہ میں  اور میرا باپ حسیل رضی اللہ عنہ  باہر نکلے ہوئے تھے کہتے ہیں  ہمیں  کفار قریش نے(راستہ میں  ) گرفتار کر لیا،کفارنے کہاتم محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم  )کے پاس جاناچاہتے ہو ؟انہوں  نے جواب دیاکہ ہم ان کے پاس نہیں  جاناچاہتے بلکہ ہم تومدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں ،اس پر مشرکین نے ان دونوں سے اللہ کی قسم کے ساتھ عہدلیاکہ وہ مدینہ توچلے جائیں  مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوکرنہ لڑیں ،جب وہ وہاں  سے روانہ ہو کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوساراواقعہ سنایاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم مدینہ منورہ چلے جاؤہم ان کاعہدپوراکریں  گے اور ان کے مقابلہ میں  اللہ سے مددطلب کریں  گے۔[52]

اہل سیرنے حسیل الیمان رضی اللہ عنہ کانام تین طریقوں  سے لکھاہے حُسَیْلٌ (بروزن حسین)حِسْلٌ (بروزن قتیل)اورحسل،ان کی کنیت ابوحذیفہ پرسب ارباب سیرکااتفاق ہے۔

ابوحذیفہ حسیل رضی اللہ عنہ کاتعلق غطفان کے خاندان عبس سے تھا

حلفاء بنی عَبْد الأشهل ،وقیل لجروة الیمان لانه كان أصاب فی قومه دما فهرب فلحق بالمدینة فحالف بنى عبد الاشهل فسماه قومه الیمان لمحالفته الیمانیة،الربَاب بنت كَعْب بْن عدی بْن كَعْب بْن عَبْد الْأَشْهَل

اوربنی عبدالاشہل کے حلیف تھے، حسیل کے دادایابروایت خودحسیل نے اپنے قبیلے کے ایک شخص کوقتل کردیااوربھاگ کرمدینہ منورہ آگئے یہاں  انہوں  نے بنو عبدالاشہل سے حلیفانہ تعلق قائم کرلیااوراسی خاندان کی ایک خاتون رباب رضی اللہ عنہا بنت کعب بن عدی بن عبدالاشہل سے نکاح کرلیاچونکہ یمنی تھے اس لیے ان کے حلیف انہیں  الیمان کہنے لگے۔[53]

حسیل رضی اللہ عنہ  کے قبول اسلام کے متعلق دوروایتیں  ہیں ، ایک روایت ہے کہ وہ اپنے فرزندحذیفہ  رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت نبوی سے قبل شرف ایمان سے بہرہ ورہوئے ،

وكان حذیفة یقول:خیرنى  رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بین الهجرة والنصرة، فاخترت النصرة

بقول ابن اثیر رحمہ اللہ  حذیفہ  رضی اللہ عنہ  ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ پہنچے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہجرت اور نصرت کے بارے میں  دریافت کیا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لیے ہجرت کے بجائے نصرت تجویزکی۔ [54]

شهد هو، وأبوه، وأخوه صفوان

دوسری روایت میں  یہ ہے  حسیل  رضی اللہ عنہ  اوران کی اہلیہ رباب  رضی اللہ عنہا بنت کعب اوردوفرزندوں  حذیفہ  رضی اللہ عنہ اورصفوان رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے(فوراً) بعداسلام قبول کیا۔[55]

عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ غَزَا بَدْرًا قَالَتْ: تَأْذَنُ لِی فَأَخْرُجُ مَعَكَ أُدَاوِی جَرْحَاكُمْ وَأُمَرِّضُ مَرْضَاكُمْ , لَعَلَّ اللهَ تَعَالَى یُهْدِی لِی شَهَادَةً،قَالَ:قَرِّی فِی بَیْتِكِ، فَإِنَّ اللهَ یَرْزُقُكِ الشَّهَادَةَ

ام ورقہ بنت نوفل  رضی اللہ عنہا صحابیہ فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غزوہ بدرکے لیے نکلے تومیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے بھی جہادفی سبیل اللہ میں  شریک ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ میں  مجاہدین کی مرہم پٹی اور تیمارداری کر سکو اورشایداللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمادے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااپنے گھرمیں  بیٹھی رہوتیرے لیے شہادت لکھ دی گئی ہے۔[56]

بہرحال لیکن کیونکہ باقاعدہ لڑائی کاخدشہ ہی نہیں  تھااس لئے انہیں  ساتھ نہیں  لیاگیا۔

حَتّى إنْ كَانَ الرّجُلُ لَیُسَاهِمُ أَبَاهُ فِی الْخُرُوجِ، فَكَانَ مِمّنْ سَاهَمَ سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَةَ وَأَبُوهُ فِی الْخُرُوجِ إلَى بَدْرٍ، فَقَالَ سَعْدٌ لِأَبِیهِ: إنّهُ لَوْ كَانَ غَیْرَ الْجَنّةِ آثَرْتُك بِهِ، إنّی لَأَرْجُو الشّهَادَةَ فِی وَجْهِی هَذَا! فَقَالَ خَیْثَمَةُ: آثِرْنِی، وَقِرْ مَعَ نِسَائِك! فَأَبَى سَعْدٌ، فَقَالَ خَیْثَمَةُ: إنّهُ لَا بُدّ لِأَحَدِنَا مِنْ أَنْ یُقِیمَ. فَاسْتَهَمَا، فَخَرَجَ سهم سعد قتل بِبَدْرٍ

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کاحکم فرمایاتو خثیمہ نے اپنے بیٹے سعد  رضی اللہ عنہ  سے کہااے بیٹاہم میں  سے ایک کا عورتوں  اور بچوں  کی حفاظت کے لئے گھرپررہناضروری ہےتم میرے لئے ایثارکرواوریہاں  رک جاؤاورمجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے کی اجازت دے دو، مگر سعد  رضی اللہ عنہ  نے اپنے والدکی یہ بات ماننے سے صاف انکارکردیااورعرض کیااے میرے باپ!جنت کے سوااگرکوئی اورمعاملہ ہوتاتومیں  آپ کے لئے ضرورایثارکرتااور آپ کواپنے نفس پرترجیح دیتالیکن میں  اس سفرمیں  اپنے شہیدہونے کی قوی امیدرکھتاہوں ،اس پر خثیمہ رضی اللہ عنہ  نے قرعہ اندازی کی تجویزدی جو سعد  رضی اللہ عنہ  نے تسلیم کرلی ،چنانچہ دونوں  باپ بیٹے میں  اس سفرکے بارے میں  قرعہ اندازی ہوئی اورقرعہ سعد  رضی اللہ عنہ  کے نام ہی نکلا، سعد  رضی اللہ عنہ  اپنے والد خثیمہ رضی اللہ عنہ  سے خوش قسمت ثابت ہوئے ،وہ اجازت لے کرخوشی خوشی شوق شہادت میں  رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بدرکی طرف روانہ ہوئے۔[57]

تاریخ روانگی:

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی لَیَالٍ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فِی أَصْحَابِهِ، قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: خَرَجَ (یَوْمَ الِاثْنَیْنِ) لِثَمَانِ لَیَالٍ خَلَوْنَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ

ابن اسحاق کہتے ہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ آٹھ رمضان المبارک کوروانہ ہوئے۔ اورابن ہشام کہتے ہیں بروزدوشنبہ روانہ ہوئے۔[58]

اگریہ روایت تسلیم کی جائے توآٹھ رمضان کوچہارشنبہ ہے دوشنبہ نہیں ۔

ایک روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رمضان المبارک بروز شنبہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔[59]

اگر اس روایت کوتسلیم کیاجائے توبارہ رمضان المبارک یکشنبہ آتاہے شنبہ نہیں ۔

ایک روایت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رمضان المبارک بروزیکشنبہ کوروانہ ہوئے۔[60]

كانت بَدْرٌ لِسَبْعَ عَشْرَةَ مِنْ رَمَضَانَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

تمام اصحاب اسیراوراصحاب الحدیث اس بات پر متفق ہیں معرکہ بدرسترہ رمضان بروزجمعہ پیش آیاتھا۔ [61]

اس لئے اگراس روایت کوتسلیم کیاجائے توبارہ رمضان المبارک کویکشنبہ اورسترہ رمضان کوجمعہ المبارک بنتاہے اس لئے یہ روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

وَاسْتَعْمَلَ عَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ

روانگی سے قبل ابن ام مکتوم  کومدینہ میں  نائب مقررفرمایا۔[62]

وكان رسول رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قد جعله على الساقة یومئذ

لشکر کی روانگی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیس بن صعصعہ المازانی انصاری کوعقبی دستہ پر امیر مقررفرمایا۔[63]

إحداهما مع عَلِیّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، یُقَالُ لَهَا: الْعُقَابُ، وَدَفَعَ اللّوَاءَ إلَى مُصْعَبِ بن عمیر. وَكَانَ أَبْیَضَ، وَالْأُخْرَى مَعَ بَعْضِ الْأَنْصَارِ

لشکرکے تین علم تھےایک سیاہ رنگ کا علم سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں  تھاجسے عقاب کہاجاتاتھا،دوسراعلم مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ نے تھاما ہوا تھا جو سفیدرنگ کاتھا،اورتیسراسیاہ علم کسی انصاری کے ہاتھ میں  تھا۔[64]

وَضَرَبَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَسْكَرَهُ بِبِئْرِ أَبِی عِنَبَةَ، وَهِیَ عَلَى مِیلٍ مِنَ الْمَدِینَةِ فَعَرَضَ أَصْحَابَهُ وَرَدَّ مَنِ اسْتَصْغَرَ

مدینہ منورہ سے ایک میل کی دوری پردرہ بنی دینار(بیرابی عنبہ) پہنچے تومقام  بِالْبُقْعِ ( بُیُوتُ السّقْیَا )پراترے (مدینہ اوراس مقام تک متصل آبادی تھی) تمام لشکرکاجائزہ لیااورکم عمرلڑکوں  کوواپس کردیا۔[65]

عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: اسْتُصْغِرْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ یَوْمَ بَدْرٍ

براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ اورمجھے غزوہ بدرمیں  واپس مدینہ بھیج دیا۔[66]

فَعَرَضَ عَبْدُ الله بن عمر، وأسامة ابن زَیْدٍ، وَرَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ، وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، وَأُسَیْدُ بْنُ ظَهِیرٍ، وَزَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَرَدّهُمْ وَلَمْ یُجِزْهُمْ

اس کے علاوہ اسامہ  رضی اللہ عنہ  بن زید  رضی اللہ عنہ ،رافع ابن خدیج،براء بن عازب،اسید رضی اللہ عنہ  بن حضیر،زیدبن ارقم  رضی اللہ عنہ  اورزیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ کوبھی واپس بھیج دیا۔[67]

کم سن صحابہ  رضی اللہ عنہم میں  سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیربن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کی عمر اس وقت صرف سولہ سالہ سال کی تھی

رَأَیْت أَخِی عُمَیْرَ بْنَ أَبِی وَقّاصٍ قَبْلَ أَنْ یَعْرِضَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَارَى، فَقُلْت: مَا لَك یَا أَخِی؟ قَالَ: إنّی أَخَافُ أَنْ یَرَانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَسْتَصْغِرَنِی فَیَرُدّنِی، وَأَنَا أُحِبّ الْخُرُوجَ، لَعَلّ اللهَ یَرْزُقُنِی الشّهَادَةَ. قَالَ: فَعُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَصْغَرَهُ، فَقَالَ: ارْجِعْ!فَبَكَى عُمَیْرٌ، فَأَجَازَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَكَانَ سَعْدٌ یَقُولُ: كُنْت أَعْقِدُ لَهُ حَمَائِلَ سَیْفِهِ مِنْ صِغَرِهِ

سعد  رضی اللہ عنہ  نے دیکھا کہ وہ ادھرادھرچھپتے پھررہے ہیں  ، سعد  رضی اللہ عنہ  نے ان سے اس اضطراب کی وجہ دریافت کی توکہنے لگے میں  اس معرکے میں  شریک ہوناچاہتاہوں  شایداللہ تعالیٰ شہادت نصیب کر دے،میں  ڈررہاہوں  کہ اگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نگاہ پڑگئی توکم سن سمجھ کرواپس فرمادیں  گے، جب سب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ملاحظہ سے گزرے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیربن ابی وقاص کوبھی واپس لوٹ جانے کاحکم فرمایا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم سن کروہ بے ساختہ روپڑے،ان کی گریہ وزاری سے متاثرہوکرآخر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ساتھ چلنے کی اجازت فرما دی ، اصحاب بدرمیں  آپ  رضی اللہ عنہ  سب سے کم عمرمجاہدتھے۔[68]

فعقدت علیه حمالة سیفه

دفاع ملک وملت میں  پہلاتیرچلانے والے مجاہدیعنی اس کمسن مجاہدکے بڑے بھائی سعد  رضی اللہ عنہ نے بڑھ کررسم شمشیربندی اداکی۔[69]

یہ رسم شمشیربندی قافلہ لوٹنے کی تمہیدنہیں  ہوسکتی تھی ،

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ:خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ بَدْرٍ، فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ یُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجْدَةٌ ، فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ رَأَوْهُ، فَلَمَّا أَدْرَكَهُ قَالَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ ، وَأُصِیبَ مَعَكَ،قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ؟قَالَ: لَا،قَالَ: فَارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِكٍ، قَالَتْ: ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ،فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ،قَالَ: فَارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِكٍ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَیْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ:تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ؟قَالَ: نَعَمْ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَانْطَلِقْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بدرکی طرف نکلے،بدرکے راستے میں  مقام حَرَّةِ الْوَبَرَةِ میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوایک شخص( خبیب بن یساف) آکر ملا جس کی ہمت اورشجاعت کا چرچا تھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب  رضی اللہ عنہم  اسے دیکھ کربہت خوش ہوئے،جب وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاتواس نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں  آپ کے پاس اس لئے آیاہوں  تاکہ آپ کے ساتھ مل کرکفارسے لڑوں  اورآپ کےسا تھ (غنیمت میں  )حصہ پاؤں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اللہ اوراس کے رسول پرایمان رکھتے ہو؟اس نے جواب دیانہیں ،توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایاتم واپس لوٹ جاؤمیں  مشرک سے مددنہیں  لیتا(آپ کاجواب سن کروہ شخص لوٹ گیا) پھر مقام شَّجَرَةِ پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ آملا،رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پھروہی سوال کیےاوراس نے پھرانکارکردیا،تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہی کہاجوپہلے کہاتھاکہ تم واپس لوٹ جاؤمیں  مشرک سے مددنہیں  لیتا، یہ سن کروہ واپس چلا گیا،پھرمقام بَیْدَاءِ پرلوٹ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پھروہی کلمات دوہرائے کیاتم اللہ اوراس کے رسول پرایمان رکھتے ہو؟ اس نے کہامیں  ایمان لاتا ہوں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب تم ہمارے ساتھ)چل سکتے ہو۔[70]

بدرکی طرف مخبروں  کی روانگی :

وَقَدِمَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَهُ عَیْنَیْنِ لَهُ إِلَى الْمُشْرِكِینَ یَأْتِیَانِهِ بِخَبَرِ عَدُوِّهِ وَهُمَا: بَسْبَسُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَدِیُّ بْنُ أَبِی الزَّغْبَاءِ

اسی جگہ پردواصحاب بسبس بن عمروالجہنی اورعدی ابن الرغباء حاضرہوکرمجاہدین میں  شامل ہوگئے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں  سے روانہ ہونے سے قبل ان دونوں  کو مزیدتجسس حال اوردیکھ بھال کے لئے وادی بدرکی طرف روانہ فرمایاتاکہ قافلہ کے آنے کاٹھیک ٹھیک اندازہ لگایاجاسکے اوربروقت صحیح اطلاع فراہم ہو سکے۔[71]

وَكَانَ بَسْبَسُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَدِیُّ بْنُ أَبِی الزَّغْبَاءِ قَدْ مَضَیَا حَتَّى نَزَلَا بَدْرًا، فَأَنَاخَا إلَى تَلٍّ قَرِیبٍ مِنْ الْمَاءِ، ثُمَّ أَخَذَا شَنًّا لَهُمَا یَسْتَقِیَانِ فِیهِ، ومَجْدِیُّ بْنُ عَمْرٍو الْجُهَنِیُّ عَلَى الْمَاءِ. فَسَمِعَ عَدِیٌّ وَبَسْبَسُ جَارِیَتَیْنِ مِنْ جِوَارِی الْحَاضِرِ ، وَهُمَا یَتَلَازَمَانِ عَلَى الْمَاءِ، وَالْمَلْزُومَةُ تَقُولُ لِصَاحِبَتِهَا: إنَّمَا تَأْتِی الْعِیرُ غَدًا أَوْ بَعْدَ غَدٍ، فَأَعْمَلُ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْضِیكَ الَّذِی لَكَ. قَالَ مَجْدِیٌّ:صَدَقْتِ، ثُمَّ خَلَّصَ بَیْنَهُمَا. وَسَمِعَ ذَلِكَ عَدِیٌّ وَبَسْبَسُ، فَجَلَسَا عَلَى بَعِیرَیْهِمَا، ثُمَّ انْطَلَقَا حَتَّى أَتَیَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَاهُ بِمَا سَمِعَا

دونوں  حضرات تیزی سے وادی بدرکی جانب روانہ ہوئے اورتیرہ رمضان المبارک کوبدرپہنچ کربدرکے کنوئیں  کے پاس اترکرآرام کے لئے کچھ دیر بیٹھ گئے،وہاں  انہوں  نے دوعورتوں  کوجھگڑتے ہوئے دیکھاایک عورت دوسری عورت سے اپنے قرض کی واپسی کاتقاضاکررہی تھی جبکہ دوسری عورت کہہ رہی تھی کہ جلدی نہ کرو بس ایک دوروزمیں  وہ قافلہ جوفلاں  کنوئیں  پراتراہواہے یہاں  پہنچ جائے گاتوپھرمیں  اس میں  کام کرکے تیراقرض اداکردوں  گی، اس بات کی تصدیق بدرکے ایک اور بدوی مجددی بن عمرنے بھی کی اورکہاکہ یہ سچ کہہ رہی ہے،بسبس رضی اللہ عنہ  اورعدی  رضی اللہ عنہ  نے ساری گفتگوسن کر قافلہ کے فاصلے اوراس کے پہنچنے کے وقت کااندازہ لگایااوراپنے اونٹوں  کوپانی پلا کر واپس روانہ ہوگئے اوراسی وقت آکررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی۔[72]

بیوت السقیاءسے روانگی:

لشکرکے معائنہ کے بعد بیوت السقیاء میں  ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطارفرمایا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ بِالفِطْرِ فِی غَزْوَةٍ غَزَاهَا

ابوسعیدسے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک غزوہ میں  افطار کا حکم بھی دیا تھا  ۔[73]

وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَصَامَ یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ، ثُمّ رَجَعَ وَنَادَى مُنَادِیهِ: یَا مَعْشَرَ الْعُصَاةِ، إنّی مُفْطِرٌ فَأَفْطِرُوا!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ سے نکلے اورایک یادودن کے روزے رکھے مگرپھرچھوڑدیئے اوراعلان کرادیاکہ اے روزہ دارومیں  نے روزہ افطارکرلیاہے تم بھی افطار کرلو ۔[74]

اسی طرح فتح مکہ کے موقع پربھی روزہ افطارکردیاگیاتھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ حَتَّى أَتَى قُدَیْدًا، فَأُتِیَ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَأَفْطَرَ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ یُفْطِرُوا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر روزہ رکھا، جب قدید نامی جگہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  دودھ کا ایک گلاس پیش کیا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزہ ختم کر دیا اور لوگوں  کو بھی روزہ ختم کر لینے کا حکم دیا (اور بعد میں  قضاء کر لی)۔[75]

اوراسی دن ہی آگے روانہ ہو گئے۔

فَقَالَ: اللهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمُ. اللهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمُ. اللهُمَّ إِنَّهُمْ جِیَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ

اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں  ہاتھ اٹھاکردعافرمائی اے پروردگار!یہ لوگ پیادہ ہیں  ان کوسواری عطافرما،یہ لوگ ننگے ہیں  ان کو کپڑے مہیا کر،یہ لوگ بھوکے ہیں  ان کوسیر کر دے۔[76]

کوچ کے وقت قیس  رضی اللہ عنہ بن صعصعہ المازانی انصاری کوحکم فرمایاکہ تمام صحابہ کی گنتی کریں ،انہوں  نے بئر ابی عینیہ کے پاس لشکرکوروک کرگنتی کی اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کولشکرمیں  شامل کل صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم کی اطلاع دی۔

بدرجانے کے لئے عام راستہ چھوڑکررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم لشکرکو غیر معروف راستوں  سے لے کرچلے تاکہ دشمن کوان کی روانگی کی خبرنہ ہوسکے۔

اگران تمام معروف روایتوں  کولیاجائے جن میں  جملہ اصحاب بدربشمول رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تین سوچودہ بتائے گئے ہیں  تواس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اندازاًتین سوچھ اصحاب ہمراہ تھے،ان کے علاوہ چاراصحاب اورتھے جوحالت غلامی میں  تھےان کواصحاب بدرمیں  شمارنہیں  کیا جاتا ۔

چونکہ سواریوں  کی کمی تھی اس لئے کئی کئی آدمیوں  کے حصہ میں  ایک ایک اونٹ آیاجن پرسب باری باری سب سوارہوتے تھے

كُنَّا یَوْمَ بَدْرٍ كُلُّ ثَلاثَةٍ عَلَى بَعِیرٍ. وَكَانَ أَبُو لُبَابَةَ وَعَلِیُّ زَمِیلَیْ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ،فَكَانَ إِذَا كَانَتْ عُقْبَةُ النَّبِیِّ قَالا: ارْكَبْ حَتَّى نَمْشِیَ عَنْكَ،فَیَقُولُ: مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى عَلَى الْمَشْیِ مِنِّی وَمَا أَنَا أَغْنَى عَنِ الأَجْرِ مِنْكُمَا

اسی طرح جواونٹ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں  تھااس پرتین افرادسوارہوتے تھے،ایک رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم ،دوسرے ابوالبانہ  رضی اللہ عنہ  اورتیسرے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ ، جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری ہوتی تو دونوں  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم عرض کرتے اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اونٹ پرسوارہوجائیں  تاکہ ہم آپ کی جانب سے پیدل چلیں ،مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے نہ توتم دونوں  مجھ سے زیادہ طاقتوار ہواورنہ میں  حصول ثواب میں  تم سے زیادہ بے نیازہوں  (یعنی مجھے ثواب کی ویسی ہی حاجت  ہے جیسی تمہیں  پھرمیں  پیادہ روی کااجرکیوں  چھوڑوں ) ۔[77]

اس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات عامہ کاجواصول پیش کیاتھااس پرعمل کرکے دکھادیا،بیوت السقیاءسے کوچ کرنے کے بعدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بطن عقیق گزرگئے اور مکتمن کی راہ سے ہوتے ہوئے بطحاابی ازھر پہنچ گئے اورترباں  جوحضیرہ اورملل کے درمیان ہے (یا اس کے قریب)منزل فرمائی۔

دوسرے دن تیرہ رمضان المبارک کو

 ثُمَّ مَرَّ عَلَى تُرْبَانَ  ، ثُمَّ عَلَى مَلَلٍ، ثُمَّ غَمِیسِ الْحَمَامِ مِنْ مَرَیَیْنِ، ثُمَّ عَلَى صُخَیْرَاتِ الْیَمَامِ، ثُمَّ عَلَى السَّیَّالَةِ، ثُمَّ عَلَى فَجِّ الرَّوْحَاءِ، ثُمَّ عَلَى شَنُوكَةَ، وَهِیَ الطَّرِیقُ الْمُعْتَدِلَةُ، حَتَّى إذَا كَانَ بِعِرْقِ الظَّبْیَةِ قَالَ ابْنُ هِشَامٍ:الظَّبْیَةُ۔

تربان سے روانہ ہوئے ،وادی ملل ،غَمِیسِ الْحَمَامِ  ، صُخَیْرَاتِ الْیَمَامِ سے ہوتے ہوئے السَّیَّالَةِ اور فَجِّ الرَّوْحَاءِ پرسے گزرکرشَنُوكَةَ سے ہوتے ہوئے جوایک سیدھاراستہ ہے عِرْقِ الظَّبْیَةِ پہنچ گئے اوروہاں  منزل فرمائی

لَقُوا رَجُلًا مِنْ الْأَعْرَابِ، فَسَأَلُوهُ عَنْ النَّاسِ، فَلَمْ یَجِدُوا عِنْدَهُ خَبَرًا

وہاں  ایک بدوی ملااس سے قافلہ قریش کی متعلق پوچھ کچھ کی مگراس کوکچھ معلوم نہ تھا۔[78]

وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَجْسَجَ، وَهِیَ بِئْرُ الرَّوْحَاءِ، ثُمَّ ارْتَحَلَ مِنْهَا، حَتَّى إذَا كَانَ بِالْمُنْصَرَفِ، تَرَكَ طَرِیقَ مَكَّةَ بِیَسَارٍ، وَسَلَكَ ذَاتَ الْیَمِینِ عَلَى النَّازِیَةِ، یُرِیدُ بَدْرًا

تیسرے دن چودہ رمضان المبارک بروزسہ شنبہ کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عِرْقِ الظَّبْیَةِ سے روانہ ہوئے  اورسج سج جو  بِئْرُ الرَّوْحَاءِ کہلاتا ہے پرقیام فرمایا،یہاں  پرکچھ دیرآرام کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کوبائیں  جانب چھوڑتے ہوئے الْمُنْصَرَفِ پہنچے اوروہاں  سے مکہ مکرمہ کاراستہ چھوڑکرسیدھی جانب النَّازِیَةِ سے میدان بدرکارخ فرمایا،

فَلَمَّا اسْتَقْبَلَ الصّفراءوَهِی قریبَة بَیْنَ جَبَلَیْنِ

اورپھر الصّفراء کے قریب پہنچےجودوپہاڑوں  کے درمیان ایک گاؤں  ہے ،یہیں  بسیس بن عمرو  رضی اللہ عنہ  اورعدی ابن الزغبانے وادی بدر سے واپس پہنچ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اطلاع دی کی ابوسفیان کا قافلہ فلاں  کنوئیں  پراتراہواہے۔[79]

فَقَالا: یَا رَسُولَ اللهِ نَزَلَ مَاءَ كَذَا یَوْمَ كَذَا. وَنَنْزِلُ نَحْنُ مَاءَ كَذَا یَوْمَ كَذَا. وَیَنْزِلُ هُوَ مَاءَ كَذَا یَوْمَ كَذَا. وَنَنْزِلُ نَحْنُ مَاءَ كَذَا یَوْمَ كَذَا حَتَّى نَلْتَقِیَ نَحْنُ وَهُوَ عَلَى الْمَاء

اوریہ بھی بتلایااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ قافلہ فلاں  دن فلاں  کنوئیں  پر اترے گااورہم فلاں  دن فلاں  کنوئیں  پراتریں  گے پھر بدرپہنچیں  گےجب وہ بدرکے کنوئیں  پرہوگاتوہم لوگ ان سے مل جائیں  گے۔[80]

ابوسفیان کی بدرمیں  آمد:

ابوسفیان کوشام میں  ہی مسلمانوں  کے تعاقب کے بارے میں  علم ہوچکاتھااورخطرے کے پیش نظراپنے قافلہ کے بچاؤکے لئے مکہ مکرمہ میں  قاصد روانہ کرچکاتھااوراسے جلدازجلد مددپہنچنے کی امیدبھی تھی ،مگراس کے باوجوداہل قافلہ سخت پریشان تھے اورآتے ہوئے راہ گیروں  اورقافلوں  سے مسلمانوں  کے بارے میں  پوچھ گچھ کر رہے تھے مگر انہیں  معلومات نہیں  مل رہی تھیں چنانچہ خطرے والے علاقہ سے جلدازجلد نکلنے کے لئے حجازمیں  داخل ہوتے ہی قافلہ کی رفتارتیزکردی۔[81]

سالارقافلہ ابوسفیان بدرکی گھاٹی سے اچھی طرح واقف تھااسے خوب اندازہ تھاکہ اگراس کے قافلہ پرحملہ ہواتووادی بدرمیں  ہی ہوگا،اس لئے ابوسفیان نے اپنے قافلہ کووادی بدر سے کافی دور الخین کے موڑپر روک کربذات خودمسلمانوں  کاکھوج لگانے اورٹوہ لینے کے لئے نکلا۔[82]

وَأَقْبَلَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، حَتَّى تَقَدَّمَ الْعِیرَ حَذَرًا، حَتَّى وَرَدَ الْمَاءَ، فَقَالَ لِمَجْدِیِّ بْنِ عَمْرٍو: هَلْ أَحْسَسْتَ أَحَدًا، فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَنْكَرَهُ، إلَّا أَنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَاكِبَیْنِ قَدْ أَنَاخَا إلَى هَذَا التَّلِّ، ثُمَّ اسْتَقَیَا فِی شَنٍّ لَهُمَا، ثُمَّ انْطَلَقَا ، فَأَتَى أَبُو سُفْیَانَ مُنَاخَهُمَا، فَأَخَذَ مِنْ أَبْعَارِ بَعِیرَیْهِمَا، فَفَتَّهُ، فَإِذَا فِیهِ النَّوَى، فَقَالَ: هَذِهِ وَاَللَّهِ عَلَائِفُ یَثْرِبَ. فَرَجَعَ إلَى أَصْحَابِهِ سَرِیعًا، فَضَرَبَ وَجْهَ عِیرِهِ عَنْ الطَّرِیقِ، فَسَاحَلَ  بِهَا، وَتَرَكَ بَدْرًا بِیَسَارِ، وَانْطَلَقَ حَتَّى أَسْرَعَ

اورتیرہ رمضان المبارک ہی کو بسبس رضی اللہ عنہ  اورعدی  رضی اللہ عنہ  کے بدرروانہ ہونے کے بعدوادی بدرمیں  پہنچاجہاں اسے مجدی بن عمرو بدوی ملا،ابوسفیان نے اس سے پوچھ گچھ کی ،مجدی بن عمرودوسانڈنی سواروں  کوتودیکھ چکاتھامگرنہ انہیں  جانتاتھااورنہ ہی ان کے بدرمیں  آمدکے مقصدسے واقف تھااس لئے کوئی واضح بات تونہ کرسکاالبتہ اس نے دوسانڈنی سواروں  کاحال بتایاکہ وہ یہاں  آئے تھے اورکچھ دیرکنوئیں  پرآرام کرنے اوراونٹوں  کوپانی پلاکرواپس چلے گئے،ابوسفیان کے لئے یہ خبربھی کافی تھی ،تجسس حال کے لئے وہ اس جگہ پہنچاجہاں  دوسانڈنی سواروں  نے کچھ دیرآرام کیاتھا ،اس جگہ سے وہ اس طرف روانہ ہواجدھرسوارگئے تھے ،کچھ دوران کے راستہ پرچل کراس نے اونٹوں  کی تازہ مینگنیاں  دیکھیں  ، اس نے انہیں  اٹھاکر ہاتھوں  سے چوراچوراکردیا،ایک مینگنی کے اندرکھجورکی گھٹلی یااس کاٹکڑادیکھ کروہ فوراًبھانپ گیاکہ یہ یثرب کے آب پاشی کے اونٹ ہیں  اور ضرور باضرور مدینہ کے مخبرہوں  گے خطرے کااندازہ کرکے وہ تیزی کے ساتھ اپنے قافلہ میں  پہنچااورمسلمانوں  کی دسترس سے باہر ہونے کے لئے راستہ کاٹ کربدرکو چھوڑتے ہوئے ساحل کے قریب سے بڑی تیزی سے قافلہ کولے چلا۔[83]

رات دن مسلمل چلتے اورمنزل پربرائے نام آرام کرتے ہوئے آگے بڑھتاچلاگیااس طرح مسلمانوں  کوابوسفیان کے دوسرے راستے سے نکل جانے کی خبرہی نہ ملی۔

وَلَمَّا رَأَى أَبُو سُفْیَانَ أَنَّهُ قَدْ أَحْرَزَ عِیرَهُ، أَرْسَلَ إلَى قُرَیْشٍ:إنَّكُمْ إنَّمَا خَرَجْتُمْ لِتَمْنَعُوا عِیرَكُمْ وَرِجَالَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، فَقَدْ نَجَّاهَا اللهُ، فَارْجِعُوا، فَقَالَ أَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ:وَاللهِ لَا نَرْجِعُ حَتَّى نَرِدَ بَدْرًا، وَكَانَ بَدْرٌ مَوْسِمًا مِنْ مَوَاسِمِ الْعَرَبِ یَجْتَمِعُ لَهُمْ بِهِ سُوقٌ كل عَام، فنقیم عَلَیْهِ ثَلَاثًا فننحر الْجَزُور  وَنُطْعِمَ الطَّعَامَ وَنَسْقِیَ الْخَمْرَ وَتَعْزِفَ عَلَیْنَا الْقِیَانُ وَتَسْمَعَ بِنَا الْعَرَبُ وَبِمَسِیرِنَا وَجَمْعِنَا، فَلَا یَزَالُونَ یَهَابُونَنَا أَبَدًا، فَامْضُوا

جب ابوسفیان کو اچھی طرح یقین ہوگیاکہ وہ مسلمانوں  کی دسترس سے دورہوگیاہے تواس نے قریش کوفوری طورپرقیس بن امراء القیس کے ذریعہ پیغام بھیجاتم صرف اس لئے نکلے تھے کہ قافلہ کو اوراپنے آدمیوں  کواوراپنے اموال کوبچالوتواللہ نے سب کوبچالیاہے لہذاتم سب مکہ واپس لوٹ چلو،جب (اندازاًتیرہ،چودہ رمضان المبارک کو) مقام الہدیٰ پر ابوجہل کو یہ پیغام ملاتواس نے کہااللہ کی قسم !ہم ابھی مکہ نہ جائیں  گے،ہم بدرمیں  جاکرخوب اونٹ ذبح کریں  گے اورتین روزوہاں  رہ کرخوب کھانے کھائیں  گے اور شرابیں  اڑائیں  گے اورناچ رنگ دیکھیں  گے تاکہ ہمارے اس کروفرکے ساتھ آنے کودیکھ کرتمام عرب ہم سے ہیبت زدہ رہیں  اورجان جائیں  کہ ہاں  قریش ایسے ہیں  ۔[84]

ابوجہل نے یہ گفتگوکرکے اپنے ساتھیوں  کی ہمدردیاں  حاصل کرنے کی کوشش کی۔

ہرلشکرکی ترکیب وترتیب کرتے وقت دنیاکاہرسمجھ دارفوجی جرنیل اس بات کونگاہ میں  رکھتاہے کہ فوج کی ڈویژنیں  ہم قوم ،ہم مزاج اورہم طبع سپاہیوں  پرمشتمل ہوں  تاکہ ان کے درمیان کسی قسم کی رقابت راہ نہ پاسکے،لیکن لشکراسلام دنیاکاوہ واحدلشکرتھاجورنگ ونسل،زبان اورقومیت وغیرہ کے اصولوں  پرقائم نہیں  ہواتھا،نہ ہی اس کی ترتیب اور تشکیل قبل ازاسلام لشکروں  کی طرح خاندانوں  اورحلیفوں  کے خاندانوں  کے افرادسے کی گئی تھی،تین سوتیرہ افرادکے اس لشکرمیں  قریش کے تیرہ خاندان شامل تھے اورمدینہ منورہ کے اوس وخزرج کے دوقبائل کے ۳۳خاندان حاضرتھے،گویادونوں  شہروں  کے ۴۶خاندان اسلام کی طرف سے اس غزوہ میں  حصہ لے رہے تھے،اسلام سے پہلے ان میں  سے اکثرخاندان ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے مثلاًبنی عبدشمس اوربنی عبدمناف یااوس وخزرج،لیکن اب یہ ایک اللہ ،ایک رسول اورایک قرآن یعنی ایک مرکزاورایک قانون کے زیرسایہ ایک لشکربن گئے تھے جس کے اختلاف رائے کوغیرمشروط اوربے چوں  وچراوفاداری کے عہدسے دورکردیاگیاتھا،جسے گزشتہ کئی سال سے جسمانی مشقت،نمازکے ذریعے نظم وضبط،اطاعت امیراورصف بندی،بلنداخلاقی کی تلقین اوربے مثال اسوہ کے اتباع نے بڑی سے بڑی مشکل کوبرداشت کرلینے اورراضی برضا رہنے کے عظیم ہتھیاروں  سے لیس کردیاتھا،اس لشکرکوگزشتہ دوسال سے اس علاقے میں  خوب گھمایاپھرایاگیاتھااورجنگی اہمیت کے اکثرمقام میں  سے اکثرنے توجہ اور غور سے دیکھ لئے تھے  ،  گردونواح کے اہم قبائل غیرجانبداری کے پیمان کرچکے تھے اس طرح سیاسی طورپراس لشکرکی پوزیشن مضبوط تھی،اس کے مقابلے میں  کفار کا لشکر تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے نکلاتھااورمکہ سے نکلتے وقت اس کاجوش وخروش اس کی خبرکی بناپرتھاجسے ضمضم کی ڈرامائی اداکاری نے ممکن خطرے سے حقیقی خطرے میں  بدل دیا تھا ،یہاں  آکرجب معلوم ہواکہ خطرہ ٹل گیاہے توگویالشکرکی ترتیب اورترکیب کے پاؤں  نکل گئے اوروہ قوت باقی نہ رہی جواس جوش وخروش کوبرقراررکھ سکتی،اس صورت حال سے لشکرکی ذہنی اوراخلاقی حالت نے جوکیمیائی تبدیلیاں  کیں  وہ اس روایت میں  صاف نظرآتی ہیں ۔

خطرے کے ٹل جانے کی خبرسن کربنی زہرہ (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کاخاندان)کے حلیف اخنس بن شریق نے لوٹنے کامشورہ دیامگرکسی نے نہ مانا،

یَا بَنِی زُهْرَةَ، قَدْ نَجّى اللهُ عِیرَكُمْ، وَخَلّصَ أَمْوَالَكُمْ، وَنَجّى صَاحِبَكُمْ مَخْرَمَةَ بْنَ نَوْفَلٍ، وَإِنّمَا خَرَجْتُمْ لِتَمْنَعُوهُ وَمَالَهُ. وَإِنّمَا مُحَمّدٌ رَجُلٌ مِنْكُمْ، ابْنُ أُخْتِكُمْ، فَإِنْ یَكُ نَبِیّا فَأَنْتُمْ أَسْعَدُ بِهِ، وَإِنْ یَكُ كَاذِبًا یَلِی قَتْلَهُ غَیْرُكُمْ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَلُوا قَتْلَ ابْنِ أُخْتِكُمْ، فَارْجِعُوا وَاجْعَلُوا جُبْنَهَا  بِی، فَلَا حَاجَةَ لَكُمْ أَنْ تَخْرُجُوا فِی غَیْرِ مَنْفَعَةٍ  ، لَا مَا یَقُولُ هَذَا الرّجُلُ، فَإِنّهُ مُهْلِكٌ قَوْمَهُ،فَلَمْ یَشْهَدْهَا أَحَدٌ مِنْ بَنِی زُهْرَةَ. قَالُوا: وَكَانُوا مِائَةً أَوْ أَقَلّ مِنْ الْمِائَةِ، وَهُوَ أَثْبَتُ، وَقَدْ قَالَ قَائِلٌ كَانُوا ثلاثمائة

اس نے کہااے بنی زہرہ!تم فقط اپنے اموال کی حفاظت کے لئے نکلے تھے سواللہ نے تمہارے اموال بچالئےاورتمہارے ساتھی مخرمہ بن نوفل بھی رہاہوگئے ہیں اب ہمیں  لڑنے کی ضرورت نہیں ،محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )تمہارے بھانجے ہیں  ،اگروہ نبی ہیں  تو تم بھی ان کے سبب نیکی حاصل کروگے اور اگر ان کادعویٰ غلط ہے توان کے اعمال ان کوکفایت کریں  گے ،اپنے بھانجے کے قتل پرمستعدہونے سے بہتریہ ہے کہ تم سب یہاں  سے واپس لوٹ چلواور اس نامردی کاالزام میرے سرپررکھ دو،اس خطرناک قافلہ کاساتھ مت دواورایسامت کروجیساکہ ابوجہل کہہ رہاہے ،وہ اپنی قوم کولے ڈوبے گا،یہ بات بنی زہرہ کی سمجھ میں  آگئی چنانچہ اخنس بن شریق کے کہنے پرقبیلہ بنی زہرہ کے تمام لوگ ،ایک روایت کے مطابق ایک سواوردوسری کے مطابق تین سوواپس ہوگئے اور کوئی شخص بھی غزوہ بدرمیں  شریک نہیں  ہوا۔[85]

فَلَمْ یَشْهَدْ بَدْرًا مِنَ الْمُشْرِكِینَ أَحَدٌ مِنْ بَنِی زُهْرَةَ وَلَا مِنْ بَنِی عَدِیٍّ

ابن سعدکہتے ہیں  قبیلہ بنی زہرہ کے مشرکین اور قبیلہ بنی عدی بن کعب( سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کا قبیلہ ) کے افرادبھی آئے تھے وہ بھی لوٹ گئے ،اورغزوہ بدرمیں  کوئی بھی شریک نہ ہوا۔[86]

وَكَانَ بَیْنَ طَالِبِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَكَانَ فِی الْقَوْمِ وَبَیْنَ بَعْضِ قُرَیْشٍ مُحَاوَرَةٌ، فَقَالُوا: وَاَللَّهِ لَقَدْ عَرَفْنَا یَا بَنِی هَاشِمٍ، وَإِنْ خَرَجْتُمْ مَعَنَا، أَنَّ هَوَاكُمْ لَمَعَ مُحَمَّدٍ،فَرَجَعَ طَالِبٌ إلَى مَكَّةَ مَعَ مَنْ رَجَعَ

طالب ابن ابی طالب بھی قریش کے ساتھ تھاان کاکسی سے کسی بات پرتکرارہوگئی توقریش نے کہاکہ اللہ کی قسم! ہم خوب جانتے ہیں  کہ تم بن ہاشم اگرچہ ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے نکلے ہومگردل سے تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہی کے ساتھ ہیں ، چنانچہ وہ بھی واپس جانے والوں  کے ساتھ چلاگیا۔[87]

اس کے بعدنہ ان کاقیدیوں  میں  پتہ چلا،نہ مقتولین میں  اورنہ ہی وہ واپس گھرلوٹے۔

بعض دیگرلوگوں  نے بھی یہی کہاکہ جب ہماراقافلہ صحیح وسالم بچ گیاہے تواب جنگ کی کیاضرورت رہی ہےمگرابوجہل نے کسی کی ایک نہ سنی اور وادی بدرکی طرف گامزن رہا۔

بنی ہاشم نے بھی لوٹ جانے کاارادہ کیاتھامگرابوجہل نے واپس نہ جانے دیا ،عتبہ اورشیبہ نے بھی واپسی کاارادہ کیاتھا مگرابوجہل کے طعنوں  اوردباؤنے واپس نہ ہونے دیااورباقی تمام قریش بدرکی جانب روانہ ہوئے اوربدرپہنچ کر

نَزَلُوا بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى مِنْ الْوَادِی، خَلْفَ الْعَقَنْقَلِ

عدوة القصویٰ میں  عقنقل کے پیچھے وادی یلیل میں جاکراترے۔[88]

فَلَمَّا اسْتَقْبَلَ الصّفراء، وَهِی قریبَة بَیْنَ جَبَلَیْنِ سَأَلَ عَنْ جَبَلَیْهِمَا مَا اسْمَاهُمَا؟فَقَالُوا: یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا، هَذَا مُسْلِحٌ، وَلِلْآخَرِ: هَذَا مُخْرِئٌ، وَسَأَلَ عَنْ أَهْلِهِمَا؟ فَقِیلَ: بَنُو النَّارِ وَبَنُو حُرَاقٍ، بَطْنَانِ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَكَرِهَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُرُورُ بَیْنَهُمَا، وَتَفَاءَلَ بِأَسْمَائِهِمَا وَأَسْمَاءِ أَهْلِهِمَا، فَتَرَكَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفْرَاءَ بِیَسَارِ، وَسَلَكَ ذَاتَ الْیَمِینِ عَلَى وَادٍ یُقَالُ لَهُ: ذَفِرَانَ، فَجَزَعَ فِیهِ، ثُمَّ نَزَلَ وَأَتَاهُ الْخَبَرُ عَنْ قُرَیْشٍ بِمَسِیرِهِمْ لِیَمْنَعُوا عِیرَهُمْ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّفْرَاءَ کے قریب پہنچے جودوپہاڑوں  کے درمیان میں  ایک گاؤں  ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایاکہ ان دونوں  پہاڑوں  کے کیانام ہیں ؟   صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم نے عرض کیاایک پہاڑ کانام مُسْلِحٌ  ہے اوردوسرے کاجوپرلی طرف ہے مُخْرِئٌ  ہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایایہاں  کون لوگ رہتے ہیں ؟عرض کیا گیا کہ بنی غفارکے دوقبیلے رہتے ہیں  جن میں  ایک کانام بنوالناراوردوسرے کابنوحراق ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دونوں  پہاڑوں  اورقبیلوں  کے مکروہ نام سن کران کے درمیان سے گزرنا پسندنہ کیا، وہاں  مکے کی طرف دوراستے جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےاس راستے کوچھوڑکراس کے دائیں  جانب سے وادی ذفران کوعبورکرکے اترپڑے اوریہیں  آپ کومخبروں  سے اطلاع ملی کہ قریش پوری تیاریوں  کے ساتھ قافلے کی حفاظت کے لئے چلے آ رہے ہیں ۔[89]

وادی ذفران کوطے کرنے کے بعدآپ چہارشنبہ رات کوروحاپہنچے اورآرام کے لئے اترپڑے۔[90]

اس صورت حال میں  مسلمانوں  کے سامنے تین امکان تھےپہلایہ کہ قافلہ سے مڈبھیڑہوسکتی تھی کیونکہ قافلہ کے نکل جانے کی ابھی تک کوئی خبرہی نہ تھی،دوسرے یہ کہ کیل کانٹے سے لیس لشکرقریش سے زوردار مقابلہ ہوگااورتیسرے یہ کہ قافلہ اورلشکرقریش دونوں سے آمناسا مناہوسکتاہے،اب رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ فیصلہ کی گھڑی آپہنچی ہے اوریہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ اگرایک جسورانہ اقدام نہ کرڈالاگیا توتحریک اسلامی ہمیشہ کے لئے بے جان ہوجائے گی بلکہ بعیدنہیں  کہ اس تحریک کے لئے سراٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے ،مدینہ منورہ میں  آئے ابھی پورے دوسال بھی نہیں  ہوئے ہیں  ،مہاجرین بے سروسامان ،انصارابھی ناآزمودہ ،یہودی قبائل برسرمخالفت ،خودمدینہ میں  منافقین ومشرکین کاایک اچھاخاصا طاقتوارعنصرموجود،اوراگرگروپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اورمذہباًان کے ہمدردبھی ،ایسے حالات میں  اگرقریش مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں  توہوسکتاہے کہ مسلمانوں  کی مٹھی بھرجماعت کاخاتمہ ہوجائے ،لیکن اگروہ حملہ نہ کریں  اورصرف اپنے زور بازو سے قافلے کوبچاکرہی نکال لے جائیں  اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں  تب بھی یک لخت مسلمانوں  کی ایسی ہوااکھڑے گی کہ عرب کابچہ بچہ ان پردلیرہوجائے گااوران کے لئے ملک بھرمیں  پھرکوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی ،آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں  پرکام کرناشروع کردیں  گے ،مدینہ کے یہودی اورمنافقین ومشرکین علی الاعلان سراٹھائیں  گے اورمدینہ منورہ میں  جینا مشکل کردیں  گے ،مسلمانوں  کاکوئی رعب واثرنہ ہوگاکہ اس کی وجہ سے کسی کوان کی جان ،مال اورآبروپرہاتھ ڈالنے میں  تامل ہو،اس بناپرنبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرمالیاکہ جوطاقت بھی اس وقت میسرہے اسے لے کرنکلیں  اورمیدان میں  فیصلہ کریں  کہ جینے کابل بوتاکس میں  ہے اورکس میں  نہیں  ۔

چنانچہ(ذفران یا مقام روحاءمیں ،جوقریب قریب ہیں  ) اس فیصلہ کن اقدام کاارادہ کرکے آپ نے انصارومہاجرین کوجمع کیااوران کے سامنے تمام واقعات کا اظہار فرما کران کی رائے طلب فرمائی۔[91]

حَتَّى إِذَا كَانَ بالرَّوْحاء، خَطَبَ النَّاسَ

ابن کثیر کہتے ہیں  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام روحائپرپہنچے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو خطبہ ارشادفرمایا۔ [92]

ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے کے اظہارکے طورپر فرمایاکہ ابوسفیان کے قافلہ کی بہ نسبت لشکر قریش کوشکست دے کرکفرکی شان وشوکت کومٹانازیادہ بہتر ہے۔[93]

مشاورت :

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوحاشیہ خیال بھی نہیں  آیاتھاکہ قافلہ کے بجائے وہ اپنے دشمنوں  کے خلاف لڑیں  گےمگر اللہ تعالیٰ کی تدبیرکے آگے کس کی تدبیرچل سکتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے حق کی سربلندی اورمشرکین کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کے لئے جومعرکہ مقدرکررکھاتھا اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومدینہ منورہ سے باہرنکالاتھا،چنانچہ جب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اب معرکہ حق وباطل ہوکررہے گاتومومنوں  میں  سے ایک بڑے گروہ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ کسی باقاعدہ جنگ کے ارادے سے نہیں  نکلے ہیں  ، مقابلہ کے لئے نہ توکافی تعدادمیں  لشکر ساتھ ہے اورنہ ہی ضروری سامان جنگ اورسواریاں  ،جبکہ دشمن کثیرتعدادمیں  جنگی سازوسامان کی پوری تیاری،آزمودہ کار گھوڑ سواروں  اورپیادوں  کے ساتھ بڑھا چلا آرہاتھا ، اس بے سروسانی وتنگ دامنی میں  اپنے طاقت وردشمن سے مقابلہ کرنا جان بوجھ کر خودکوموت کے منہ میں  دینے کے برابر ہے اس لئے مقابلہ سے گریز کرناچاہیے ،اپنے ان خیالات کے مطابق انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جھگڑناشروع کردیا کہ کفارکے لشکرکی طرف بڑھنامناسب نہیں  رہے گا بلکہ جس مقصدکے لئے مدینہ سے نکلے تھے اس کے لئے قافلہ کی طرف بڑھناچاہیے تاکہ ناکامی کاخطرہ بھی نہ رہے ،جہادکاثواب بھی مل جائے اور مال غنیمت بھی ہاتھ لگ جائے، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیش نظرکچھ اورتھااس لئے یہ بات آپ کوپسندنہ آئی اورچہرہ مبارک سے تکدرکااظہارہوااس لئے آپ نے اپناسوال دہرایا،اکابرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جنہوں  نے آپ کے چہرہ سے ناراضگی محسوس کی تھی اس کوزائل کرنے کے لئے پرجوش تقاریرکیں ،سب سے پہلے سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوئے اوراپنے خطاب میں  مستعدی کا اظہارکیااورقریش سے لڑنے پرپوراپورازوردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی تقریر سے اعراض کیا،ان کے بعدسیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوئے اورانہوں  نے بھی سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی طرح خوبصورتی سے دل وجاں  سے اپنی اطاعت کا اظہارفرمایااور قریش کی مذمت کی اورمنکرین اللہ ورسول سے لڑنے ہی پرزوردیااورکہاکہ قریش سے ضرور لڑنا چاہیے ۔[94]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی تقریرسے بھی اعراض فرمایا،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھرمشورہ طلب فرمایامہاجرین نے پھرلشکرقریش سے لڑنے کامشورہ دیا۔

ثُمّ قَامَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، امْضِ لِأَمْرِ اللهِ فَنَحْنُ مَعَك، وَاَللهِ لَا نَقُولُ لَك كَمَا قَالَتْ بَنُو إسْرَائِیلَ لِنَبِیّهَا: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقاتِلا إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ان کے بعد مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ

(مقداد رضی اللہ عنہ  بن عمرو،الاسودنے انہیں  متنبیٰ بنالیاتھااس لئے مقدادبن الاسودکہلانے لگے۔[95]

کھڑے ہوئے اوراپنی جان نثارانہ تقریر میں فرمایااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !جس چیزکا اللہ نے آپ کوحکم دیاہے اس کوانجام دیجئے،ہم سب آپ کے ساتھ ہیں  ،واللہ ہم بنی اسرائیل کی طرح ہرگزیہ نہیں  کہیں  گے’’ اے موسیٰ! تم اورتمہارارب جاکرلڑوہم تویہیں  بیٹھے ہیں ۔‘‘

وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبّك فَقَاتِلَا إنّا مَعَكُمَا مُقَاتِلُونَ، وَاَلّذِی بَعَثَك بِالْحَقّ لَوْ سِرْت بِنَا إلَى بِرْكِ الْغِمَادِ لَسِرْنَا مَعَك،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا، وَدَعَا لَهُ بِهِ

بلکہ ہم بنی اسرائیل کے خلاف یہ کہیں  گے کہ آپ اورآپ کاپروردگارجہادوقتال کرے ہم بھی آپ کے ساتھ جہادوقتال کریں  گے، اللہ کی قسم! اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  برک غمادکی طرف جائیں  گے توہم بھی آپ کے ساتھ ہوں  گے،ہم ہرگزآپ کاساتھ نہ چھوڑیں  گے،یہ فدیانہ تقریرسن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقداد رضی اللہ عنہ  کے لئے دعائے خیرفرمائی۔[96]

وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ یَمِینِكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ، وَبَیْنَ یَدَیْكَ وَخَلْفَكَ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْهُهُ وَسَرَّهُ

صحیح بخاری میں  ہے مقداد رضی اللہ عنہ  بن اسودنے فرمایاہم آپ کے دائیں  اوربائیں  آگے اور پیچھے سے لڑیں  گے،عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں  میں  نے اس وقت دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاچہرہ انورفرط مسرت سے چمک اٹھا۔[97]

مگرلڑائی کافیصلہ انصار(جوگنتی میں  بھی زیادہ تھے )کی رائے معلوم کیے بغیرنہیں  کیاجاسکتاتھا

ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَشِیرُوا عَلَیَّ أَیُّهَا النَّاسُ. وَإِنَّمَا یُرِیدُ الْأَنْصَارَ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ عَدَدُ النَّاسِ، وَأَنَّهُمْ حِینَ بَایَعُوهُ بِالْعَقَبَةِ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ: إنَّا بُرَاءٌ مِنْ ذِمَامِكَ حَتَّى تَصِلَ إلَى دِیَارِنَا، فَإِذَا وَصَلْتَ إلَیْنَا، فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِنَا نَمْنَعُكَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا،  فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَخَوَّفُ أَلَّا تَكُونَ الْأَنْصَارُ تَرَى عَلَیْهَا نَصْرَهُ إلَّا مِمَّنْ دَهَمَهُ بِالْمَدِینَةِ مِنْ عَدُوِّهِ، وَأَنْ لَیْسَ عَلَیْهِمْ أَنْ یَسِیرَ بِهِمْ إلَى عَدُوٍّ مِنْ بِلَادِهِمْ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَشِیرُوا عَلَیَّ أَیُّهَا النَّاسُ. وَإِنَّمَا یُرِیدُ الْأَنْصَارَ، قَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ: وَاَللَّهِ لَكَأَنَّكَ تُرِیدُنَا یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ أَجَلْ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب کی طرف مخاطب ہوکرفرمایااے لوگو!جوجس کی رائے ہووہ بیان کرےاوراس سے آپ کامنشاانصارکی رائے لیناتھا،چونکہ انصارنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے صرف بیعت عقبہ میں  اس بات کاعہد کیا تھاکہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بری ہیں  جب تک کہ آپ ہمارے پاس نہ پہنچیں  اورجس وقت آپ ہمارے پاس پہنچیں  گے تب جو دشمن آپ پرحملہ آور ہوگا اس وقت ہم آپ کے حامی وناصرہوں  گے ،ہم آپ کی حفاظت ہراس چیزسے کریں  گے جس سے اپنی اولاداورعورتوں  کی حفاظت کرتے ہیں ، پس انصارکی اس وقت کی گفتگوسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ اندیشہ تھاکہ انصارشایدمیری اس مددپرکفایت کریں  کہ جودشمن میرے اوپرمدینہ منورہ میں  چڑھ کرآئے اس سے میری حفاظت کریں  گے اورجب میں  اپنے دشمنوں  پرحملہ کرنے کے لیے نکلوں  تویہ اس میں  شریک نہ ہوں  گے۔کیونکہ اس بیعت میں مدینہ منورہ  سے باہر جاکر آپ کے ساتھ جنگ کرنے کاوعدہ نہ تھا اس لئے ابھی تک فوجی اقدامات میں  ان سے کوئی مددنہیں  لی گئی تھی اوران کے لئے یہ آزمائش کاپہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں  نے اول روزکیاتھااسے وہ کہاں  تک نباہنے کے لئے تیارہیں ،اس لئے آپ باربارانصارکی طرف دیکھتے تھے،مقداد رضی اللہ عنہ  کے شاندار اور فدیانہ جواب کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تیسری بارپھربراہ راست انصارکومخاطب کیے بغیر اپناسوال پھر دوہرایااے لوگو! مجھے مشورہ دو،آپ کی مرادصرف انصارسے تھی،اب انصار کے سردار سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ  اس دقیق نکتہ کوسمجھ گئے اورفوراًعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاآپ کااشارہ ہماری طرف ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔[98]

اس پر سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ  نے بڑی لمبی اورجانثارانہ گزارش کی

قَالَ:فَقَدْ آمَنَّا بِكَ وَصَدَّقْنَاكَ  وَشَهِدْنَا أَنَّ مَا جِئْتَ بِهِ هُوَ الْحَقُّ، وَأَعْطَیْنَاكَ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَنَا وَمَوَاثِیقَنَا، عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَامْضِ یَا رَسُولَ اللهِ لِمَا أَرَدْتَ فَنحْن مَعَك،وَصِلْ مَنْ شِئْت، وَاقْطَعْ مَنْ شِئْت،سالم من شِئْت، وعاد من شِئْت،وَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا مَا شِئْت، وَمَا أَخَذْت مِنْ أَمْوَالِنَا أَحَبّ إلَیْنَا مِمّا تَرَكْت،فو الّذی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَوْ اسْتَعْرَضْتَ بِنَا هَذَا الْبَحْرَ فَخُضْتَهُ لَخُضْنَاهُ ،مَعَكَ، مَا تَخَلَّفَ مِنَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَمَا نَكْرَهُ أَنْ تَلْقَى بِنَا عَدُوَّنَا غَدًا، إنَّا لَصُبُرٌ فِی الْحَرْبِ، صُدُقٌ فِی اللِّقَاءِ. لَعَلَّ اللهَ یُرِیكَ مِنَّا مَا تَقَرُّ بِهِ عَیْنُكَ، فَسِرْ بِنَا عَلَى بَرَكَةِ اللهِ، فَسُرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِ سَعْدٍ، وَنَشَّطَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: سِیرُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى قَدْ وَعَدَنِی إحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ، وَاَللَّهِ لَكَأَنِّی الْآنَ أَنْظُرُ إلَى مَصَارِعِ الْقَوْمِ

اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ پرایمان لائے اورآپ کی تصدیق کی،اوراس بات کی گواہی دی کہ آپ جو کچھ لائے ہیں  وہی حق وسچ ہے،اوراطاعت اورجانثاری کے بارے میں  ہم آپ کوپختہ عہد و میثاق دے چکے ہیں ،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مدینہ سے کسی اورارادہ سے نکلے تھے مگراللہ تعالیٰ نے دوسری صورت پیدافرمادی ہے،آپ کاجومنشامبارک ہواس پرچلئے،آپ جس سے چاہیں  تعلقات قائم فرمائیں  اورجس سے چائیں  تعلق قطع کریں  ، جس سے چاہیں  صلح کریں  جس سے چاہیں  دشمنی کریں  ہم ہرحال میں  آپ کے ساتھ ہیں ،ہمارے مال میں  سے جس قدر چاہیں  لیں  اورجس قدرچاہیں  ہم کوعطافرمائیں  اور مال کاجوحصہ آپ لیں  گے وہ اس حصہ سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہوگاکہ جوآپ ہمارے پاس چھوڑدیں  گے، اللہ کی قسم !جس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہےوراگرآپ ہم کوبرک الغماد (یمن میں  سمندرکے کنارے ایک مقام ہے)جانے کاحکم فرمائیں  گے توضروربالضرورہم آپ کے ساتھ جائیں  گے(مرادیہ کہ اگرانتہائے دنیاتک لے چلیں  توبھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ) قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجاہے اگرآپ ہم کوسمندرمیں  کودپڑنے کاحکم فرمائیں  گے توہم اسی وقت سمندرمیں  کودپڑیں  گے اورہم میں  سے کوئی شخص پیچھے نہیں  رہے گا،ہم دشمنوں  سے مقابلہ کرنے کو مکروہ نہیں  سمجھتے البتہ تحقیق ہم لڑائی کے وقت بڑے صابراور مقابلے کے سچے ہیں  ،اللہ تعالیٰ سے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے آپ کووہ چیز دکھائے گاجس کودیکھ کرآپ کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں  گی ،پس اللہ کے نام پرہم کولے چلیے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کواس طرح مستعد اور ان کے ایسے فدایانہ وجانثارانہ کلمات سن کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے،چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھا اورآپ نے امرالہی کوظاہر فرمایاکہ اللہ کے نام پرآگے بڑھو اورتم کو بشارت ہو،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دوجماعتوں  میں  سے کسی ایک جماعت پرضرورفتح ونصرت عطا کروں  گااورواللہ مجھ کوکفارقوم کے پچھاڑنے کی جگہیں  دکھلادی گئی ہیں  کہ فلاں  شخص فلاں  جگہ اورفلاں  شخص فلاں  جگہ ماراجائے گا۔[99]

فَقَالَ: لَا نَقُولُ لَكَ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى،وَلَكِنْ نُقَاتِلُ عَنْ یَمِینِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ، وَمِنْ بَیْنِ یَدَیْكَ وَمِنْ خَلْفِكَ

جس پرسب اصحاب رسول نے متفقہ طورپرکہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم بنی اسرائیل کی طرح نہ کہیں  گے بلکہ ہم آپ کے دائیں  بائیں  اورآگے پیچھے لڑیں  گے۔[100]

چونکہ یہودیوں  کی طرف سے مدینہ منورہ میں  امن کے قائم رہنے کااطمینان نہ تھاجبکہ قریش کے نکلنے کی خبرپھیل چکی تھی ،دشمنوں  کی نگاہیں  مدینہ منورہ پرلگی ہوئی تھیں اوراس کے دفاع کونظراندازنہیں  کیاجاسکتاتھا

ثُمَّ رَدَّ أَبَا لُبَابَةَ مِنْ الرَّوْحَاءِ، وَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْمَدِینَةِ

اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام روحاءسے ابوالبابہ  رضی اللہ عنہ  بن منذرکومدینہ پرحاکم بناکرواپس بھیج دیا۔[101]

وَعَاصِمُ بْنُ عَدِیٍّ الْعَجْلَانِیُّ خَلَّفَهُ عَلَى أَهْلِ الْعَالِیَةِ

اسی طرح عاصم بن عدی  رضی اللہ عنہ  کومدینہ کی بالائی آبادی عالیہ پرحاکم بناکرروانہ فرمایا۔[102]

اس موقع پرجبکہ قریش کے نکلنے کی خبریں  پھیل چکی تھیں  اوراندیشہ تھا کہ اس قبیلے کے غیرمسلم افراداس موقع پربدامنی پیداکرنے کی کوشش کریں  گے ، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ  کوان کی جانب روانہ کیا

وَالْحَارِثُ بْنُ حَاطِبٍ الْعُمَرِیُّ رَدَّهُ مِنَ الرَّوْحَاءِ إِلَى بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِشَیْءٍ بَلَغَهُ عَنْهُمْ

ایک اورصحابی حارث بن حاطب کوروحاءسے واپس بھیج دیااورانہیں  بنی عمرو بن عوف کی طرف روانہ کیا۔[103]

وَالْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّةِ كُسِرَ بِالرَّوْحَاءِ، وهو من بنی مالك بن النجار ،وَخَوَّاتُ بْنُ جُبَیْرٍ،كُسِرَ من بنی عمرو بن عوف

ان کے علاوہ دواورصحابیوں  حارث بن الصمہ رضی اللہ عنہ  جوبنی مالک بن النجارسے تھے اورخوات بن جبیر  رضی اللہ عنہ کو جو عمرو بن عوف سے تھے جوتھک گئے تھے یابیمارہوگئے تھے یاکسی حادثہ میں  ان کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ گئی تھی واپس فرمادیا۔[104]

وَدَفَعَ اللِّوَاءَ إلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ عَبْدِ الدَّارِ. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَكَانَ أَبْیَضَ،وَكَانَ أَمَامَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَایَتَانِ سَوْدَاوَانِ،إحْدَاهُمَا مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، یُقَالُ لَهَا: الْعُقَابُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَفَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ بَدْرٍ إِلَى عَلِیٍّ وَهُوَ ابْنُ عِشْرِینَ سَنَةً

تمام اصحاب کوواپس کرنے کے بعدلشکرکے سب سے بڑے جھنڈالواء مہاجرین کاعلم بردار مصعب بن عمیرکومقررفرمایا،ابن ہشام کے مطابق علم سفیدرنگ کاتھا،اس کے علاوہ دوسفیدیاسیاہ جھنڈیاں  بھی تھیں  ،ان میں  سے ایک جس کا نام عقاب تھا سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کودی گئی،عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اس وقت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بیس سال کے جوان تھے۔[105]

اوردوسری جھنڈی سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کودی گئی۔

كَانَ لِوَاءُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبْیَضَ، وَكَانَتْ رَایَتُهُ سَوْدَاءُ مِنْ مِرْطٍ لِعَائِشَةَ مُرَحَّلٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاجھنڈاسفیدتھااوردوچھوٹی جھنڈیاں  تھیں  جو عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے کپڑے سے بنائی گئی تھیں ۔[106]

كَانَ لِوَاءُ الْمُهَاجِرِینَ مَعَ مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ، وَلِوَاءُ الْخَزْرَجِ مَعَ الْحُبَابِ بْنِ الْمُنْذِرِ، وَلِوَاءُ الأَوْسِ مَعَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، كَذَا قَالَ: وَالْمَعْرُوفُ أَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ كَانَ یَوْمَئِذٍ عَلَى حَرَسِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْعَرِیشِ، وَإِنَّ لِوَاءَ الْمُهَاجِرِینَ كَانَ بِیَدِ عَلِیٍّ

ابن سعدکہتے ہیں مہاجرین کاعلم مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ نے تھاماہواتھااورقبیلہ خزرج کاعلم حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے اٹھایاہواتھااورقبیلہ اوس کےعلم بردار سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ تھےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے تیارکردہ جھونپڑی کے باہرگھوڑالے کرکھڑے تھےاورمہاجرین کے علم بردارسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  تھے۔[107]

وَجَعَلَ عَلَى السَّاقَةِ قَیْسَ بْنَ أَبِی صَعْصَعَةَ أَخَا بَنِی مَازِنِ بْنِ النَّجَّارِ

عقبی دستہ (ساقہ)پرحرت قیس بن صعصعہ المازنی  رضی اللہ عنہ  کو امیر مقرر فرمایا۔[108]

ان تمام امورسے فارغ ہوکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شمال مغرب کے راستے کی طرف جانے کے بجائے جدھرسے ابوسفیان کاقافلہ آرہاتھاسیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کالشکرچلا آرہا تھا ،اگراس وقت مسلمان مردانہ وارمقابلے کے لئے نہ نکلتے تواسلام کے لئے زندگی کاکوئی موقع باقی نہ رہتا،بخلاف اس کے مسلمانوں  کے نکلنے اور پہلے ہی بھرپوروارمیں  قریش کی طاقت پر کاری چوٹ لگادینے سے وہ حالات پیداہوئے جن کی بدولت اسلام کوقدم جمانے کاموقع مل گیااورپھراس کے مقابلے میں  نظام جاہلیت پہیم شکست کھاتا ہی چلاگیا۔

پندرہ رمضان المبارک کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  روحائسے روانہ ہوئے،چونکہ قریش کے قریب آنے کی اطلاع مل چکی تھی اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں  چاہتے تھے کہ بدرپہنچنے میں  قریش آپ پر سبقت لے جائیں  اس لئے رات میں  بغیرکہیں  منزل کیے چلتے رہے

ثُمَّ ارْتَحَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَفِرَانَ، فَسَلَكَ عَلَى ثَنَایَا. یُقَالُ لَهَاالْأَصَافِرُ، ثُمَّ انْحَطَّ مِنْهَا إلَى بَلَدٍ یُقَالُ لَهُ: الدَّبَّةُ، وَتَرَكَ الْحَنَّانَ بِیَمِینٍ وَهُوَ كَثِیبٌ عَظِیمٌ كَالْجَبَلِ الْعَظِیمِ، ثُمَّ نَزَلَ قَرِیبًا مِنْ بَدْرٍ

پھر ذفران سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روانہ ہوکرچندٹیلوں  پرسے گزرے جن کانام الْأَصَافِرُ ہے،پھر ایک موضع الدَّبَّةُ پہنچے اوروہاں  نمازپڑھی اور دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے، پھرحنان کوجوایک زبردست ٹیلہ ہے دائیں  جانب چھوڑدیااوراس کے بعدسولہ رمضان المبارک(یعنی شب جمعہ وشب سترہ رمضان المبارک)شام اورعشاکے درمیان بدرمیں  بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا پراترے،

فَرَكِبَ هُوَ وَرَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ:قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: الرَّجُلُ هُوَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ. حَتَّى وَقَفَ عَلَى شَیْخٍ مِنْ الْعَرَبِ، فَسَأَلَهُ عَنْ قُرَیْشٍ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ، وَمَا بَلَغَهُ عَنْهُمْ، فَقَالَ الشَّیْخُ: لَا أُخْبِرُكُمَا حَتَّى تُخْبِرَانِی مِمَّنْ أَنْتُمَا؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إذَا أَخْبَرْتنَا أَخْبَرْنَاكَ. قَالَ: أَذَاكَ بِذَاكَ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ الشَّیْخُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِی أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ خَرَجُوا یَوْمَ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كَانَ صَدَقَ الَّذِی أَخْبَرَنِی، فَهُمْ الْیَوْمَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا، لِلْمَكَانِ الَّذِی بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَبَلَغَنِی أَنَّ قُرَیْشًا خَرَجُوا یَوْمَ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كَانَ الَّذِی أَخْبَرَنِی صَدَقَنِی فَهُمْ الْیَوْمَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا لِلْمَكَانِ الَّذِی فِیهِ قُرَیْشٌ،فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ خَبَرِهِ، قَالَ: مِمَّنْ أَنْتُمَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ. قَالَ یَقُولُ الشَّیْخُ: مَا مِنْ مَاءٍ، أَمِنْ مَاءِ الْعِرَاقِ؟ قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: یُقَالُ: ذَلِكَ الشَّیْخُ: سُفْیَانُ الضَّمَرِیُّ

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرکووادی کے شمالی سرے پرچھوڑااورآرام کرنے کے ہرخیال کوتج کرگردونواح کے حالات کامطالعہ کرنے کی غرض سے سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  اورچندساتھیوں کے ہمراہ فوراًنکل کھڑے ہوئے ،آپ کی ملاقات ایک بوڑھے شیخ سے ہوئی ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخ کواپنی ذات سے مطلع کیے بغیرپوچھاقریش کہاں  ہیں  اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے اصحاب کہاں  ہیں ؟بوڑھے شیخ نے کہاجب تک تم دونوں  یہ نہیں  بتلاؤگے کہ تم کون ہومیں  تمہیں  کچھ نہیں  بتلاؤں  گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب تم ہمارے سوال کاجواب دوگے توہم بھی تمہیں  اپنے بارے میں  بتلادیں  گے، شیخ نے جواب میں  کہاٹھیک ہے،بوڑھے شیخ نے کہامجھے ایک شخص نے خبردی ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے اصحاب فلاں  روزمدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ہیں  اگریہ اطلاع درست ہے توان کے لشکرکوآج فلاں  جگہ ہوناچاہیے اوربوڑھے شیخ نے جس جگہ کانام لیاتھاٹھیک وہی جگہ تھی جہاں  لشکراسلام خیمہ زن تھا، پھرشیخ نے بتایاکہ مجھے خبرملی ہے کہ قریش فلاں  دن مکہ سے نکلے ہیں  اگریہ اطلاع درست ہے توآج وہ لوگ فلاں  جگہ ہوں  گے اوریہ ٹھیک وہی جگہ تھی جہاں  کفارکالشکرپڑاؤڈالے پڑاتھا،جب وہ اپنی خبریں  بتلاچکاتواس نے پوچھااب تم بتلاؤتم دونوں  کون ہو؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہم پانی سے ہیں اورفوراًپلٹ گئے،وہ بوڑھاشیخ کہنے لگاکون سے پانی سے ؟کیاعراق کے پانی سے،  ابن ہشام کہتے ہیں  یہ بوڑھاشیخ سفیان ضمری تھا۔[109]

ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا أَمْسَى بَعَثَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، وَالزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ، فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، إلَى مَاءِ بَدْرٍ، یَلْتَمِسُونَ الْخَبَرَ لَهُ عَلَیْهِ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم واپس لشکرمیں  تشریف لے آئے اور فوراً زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ ، سعدبن ابی وقاص اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو زبیربن العوام کی سرگردگی میں  وادی بدرکی چھان بین کرنے اوروہاں  کی خبریں  لانے کے لئے روانہ فرمایا۔[110]

وَأَشَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى ظُرَیْبٍ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ تَجِدُوا الْخَبَرَ عِنْدَ هَذَا الْقَلِیبِ الّذِی یَلِی الظّرَیْبَ وَالْقَلِیبُ بِئْرٌ بِأَصْلِ الظّرَیْبِ، وَالظّرَیْبُ جَبَلٌ صَغِیرٌ

اورروانہ ہونے سے پہلے ہدایت فرمائی کہ ظریب( بدرمیں  ایک چھوٹی سی پہاڑی یاٹیلہ ہے جس کے قریب پانی کے چشمے یاکنوئیں  تھے) کی طرف جاؤامیدہے کہ اس کے نزدیک خبرپاؤگے۔[111]

میدان بدر:

بدرکامیدان جہاں  یہ معرکہ وقوع پذیرہواتھابیضوی شکل کاہے ،جسے چاروں  طرف سے بلندپہاڑیاں  گھیرے ہوئی ہیں  ،یہ میدان تقریباًپانچ میل طویل اور چارمیل عریض ہے،مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے یامکہ مکرمہ سے شام جانے کے قدیم راستے بدرپرملتے ہیں  ،یہ میدان سنگلاخ ہے یاریتیلا،سوائے جنوب مشرقی حصہ کے جہاں  کی زمین نرم ہے ،اس کے بعدٹیلہ غفنقل ہے اوراس کے پیچھے قریش کاکیمپ تھا،بدرکے اطراف پہاڑکے مختلف حصوں  کے مختلف نام ہیں ،ریت کے دوتودوں  میں  سے ایک کا نام الْعُدْوَةِ الدُّنْیَا ہے اوردوسرے کاالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی۔ الْعُدْوَةِ الدُّنْیَا کا قدیم نام العدوة الشامیة  اورالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کا العدوة الیمانیة تھااور دونوں  کے درمیان اونچاپہاڑجبل اسفل کہلات اتھا، سطح زمین  الْعُدْوَةِ الدُّنْیَا سےالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کی طرف بتدریج نشیب میں  چلی گئی ہے ،اس کے عقب میں  دس بارہ میل کے فاصلہ پر سمندر ہے

وَكَانَتْ بَدْرٌ مَوْسِمًا مِنْ مَوَاسِمِ الْجَاهِلِیَّةِ یَجْتَمِعُ بِهَا الْعَرَبُ بِهَا سُوقٌ

بدردورجاہلیت میں تماشگاہوں  میں  سے ایک تماشگاہ تھی جہاں  عرب جمع ہوتے تھے، یہاں  ہر سال ایک میلہ لگاکرتاتھا۔[112]

جوذی القعدہ کی پہلی رات سے آٹھ ذی القعدہ تک منعقد ہوا کرتا تھا اورعرب کے ہرشہر کے لوگ یہاں  آکرجمع ہوتے تھے اور خریدوفروخت کرتے تھے۔

وَبَیْنَ بَدْرٍ وَالْمَدِینَةِ ثَمَانِیَةُ بُرُدٍ وَمِیلَانِ

بدراورمدینہ منورہ کے درمیان آٹھانوےمیل کافاصلہ ہے،بدراورمکہ مکرمہ کے درمیان دوسوپچاس میل کا فاصلہ ہے ۔

وَكَانَ الطَّرِیقُ الَّذِی سَلَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَدْرٍ عَلَى الرَّوْحَاءِ وَبَیْنَ الرَّوْحَاءِ وَالْمَدِینَةِ أَرْبَعَةُ أَیَّامٍ ثُمَّ بَرِیدٌ بِالْمُنْصَرَفِ، ثُمَّ بَرِیدٌ بِذَاتِ أَجْذَالً، ثُمَّ بَرِیدٌ بِالْمَعْلَاةِ وَهِیَ: خَیْفُ السَّلَمِ، ثُمَّ بَرِیدٌ بِالْأَثِیلِ، ثُمَّ مِیلَانِ إِلَى بَدْرٍ

وہ راستہ جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بدرکی طرف روانہ ہوئے الرَّوْحَاءِ کاتھا،مدینہ منورہ اورالرَّوْحَاءِ کے درمیان چارروزکاراستہ تھاپھروہاں  سے بِالْمُنْصَرَفِ تک بارہ میل کا،ذات جذال تک بارہ میل کاپھرالمعلات تک جواللم کا سیلابی میدان ہے بارہ میل کااوروہاں  سے الاشیل تک بارہ میل اورپھر بدر تک دومیل کافاصلہ تھا۔[113]

 میدان بدرکی چھان بین:

قریش نے(سولہ رمضان المبارک کو)رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے کچھ پہلے الْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کی جانب الْعَقَنْقَلِ کے پیچھے پڑاو ڈالا اور اپنی طاقت کے گھمنڈمیں  میدان جنگ کا جائزہ ،چھان بین کرنے کے بجائے خیمہ زن ہوکراونٹ ذبح کرنے اورناؤونوش میں  مشغول ہوگئےاور اپنے غلاموں  کوبدرکے کنوئیں  پرپانی لانے کے لئے آب رسانی کے اونٹوں  کے ساتھ روانہ کیا،ادھرسے زبیربن العوام  رضی اللہ عنہ  کی سرکردگی میں  مسلمانوں  کی ٹکڑی چھان بین،دیکھ بھال اوردشمن کی ٹوہ لینے کے لئے نکلی ان لوگوں  کواس بات کاوہم وگمان بھی نہ تھاکہ قریش بدرآئے ہوئے ہیں ،انہوں  نے وفقتاًدیکھاکہ قریش کے چندآدمی کنوئیں  پرآئے ہوئے ہیں  اوران کے ساتھ پانی بھرنے والے غلام اورآب رسانی کے لئے اونٹ بھی موجودہیں ،

وَفِیمَنْ وَرَدَ مِنَ الرَّوَایَا غُلَامٌ لِبَنِی الْحَجَّاجِ أَسْوَدُ، فَأَخَذَهُ النَّفَرُ الَّذِینَ بَعَثَهُمْ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الزُّبَیْرِ إِلَى الْمَاءِ

ان غلاموں  میں  بنی حجاج کاغلام اسودبھی تھا،اصحاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اچانک ان پرٹوٹ پڑے ، اسود اور دوسرے غلاموں  کوپکڑلیاباقی لوگ بھاگ کراپنے کیمپ پہنچ گئے۔[114]

فَأَصَابُوا رَاوِیَةً  لِقُرَیْشٍ فِیهَا أَسْلَمَ، غُلَامُ بَنِی الْحَجَّاجِ، وَعَرِیضٌ أَبُو یَسَارٍ، غُلَامُ بَنِی الْعَاصِ بْنِ سَعِیدٍ

ابن ہشام کے مطابق ایک غلام کانام اسلم جوبنوالحجاج کاغلام تھا اوردوسرے کا نام ابو یسارتھاجوبنی عاص بن سعید کاغلام تھا۔[115]

ابن خلدون نے دوسرے غلام کانام عریض بتایاہے ۔

یَسَارٌ غلام عبیدة ابن سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ،وَأَسْلَمَ غُلَامُ مُنَبّهِ بْنِ الحجّاج،وأبو رافع غلام أمیّة ابن خَلَفٍ

واقدی کے مطابق تین غلام پکڑے گئے یسارجو عبیدہ ابن سعدبن العاص کاغلام تھا اوراسلم جومنبہ بن الحجاج کاغلام تھا اورابورافع جو امیہ بن خلف کاغلام تھا۔[116]

فاتوا بهما رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ورَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی، فَسَأَلُوهُمَا، فَقَالَا:نَحْنُ سُقَاةُ قُرَیْشٍ، بَعَثُونَا لِنُسْقِیَهُمْ مِنَ الْمَاءِ، فَكَرِهَ الْقَوْمُ خَبَرَهُمَا، وَرَجَوْا أَنْ یَكُونَا لأَبِی سُفْیَانَ، فَضَرَبُوهُمَا، فَلَمَّا أَذْلَقُوهُمَا قَالَا: نَحْنَ لأَبِی سُفْیَانَ،وَرَكَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَیْهِ، ثُمَّ سَلَّمَ، وَقَالَ: إذَا صَدَقَاكُمْ ضَرَبْتُمُوهُمَا، وَإِذَا كَذَبَاكُمْ تَرَكْتُمُوهُمَا،صَدَقَا، وَاَللَّهِ إنَّهُمَا لِقُرَیْشِ

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم غلاموں  کوپکڑکراپنے پڑاؤپرلائے ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نمازمیں  مصروف تھے،صحابہ  رضی اللہ عنہم نے ان غلاموں  سے ابوسفیان اوراس کے قافلے کاحال معلوم کرنا چاہامگرانہوں  نے کہاکہ وہ قریش کے ساتھ ہیں  اورپانی بھرنے پر مامور ہیں  اورابوسفیان کے متعلق ہمیں  کوئی علم نہیں البتہ عتبہ ،شیبہ اورامیہ بن خلف تویہاں  موجود ہیں  ، مگر صحابہ  رضی اللہ عنہم نے ان پریقین نہیں  کیااورتفتیش کی خاطر غلاموں  کومارا ،مارکے ڈرسے غلاموں  نے جھوٹ بول دیاکہ وہ ابوسفیان کے ساتھ ہیں ،جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ماجرادیکھاتوجلدی سے نمازسے فارغ ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں  میری جان ہے ،جب انہوں  نے سچ بولا توتم نے انہیں  مارااورجب جھوٹ بولاتب چھوڑدیا،اللہ کی قسم!یہ ضرورقریش کے غلام ہیں ۔[117]

أَخْبِرَانِی عَنْ قُرَیْشٍ؟قَالَا: هُمْ وَاَللَّهِ وَرَاءَ هَذَا الْكَثِیبِ الَّذِی تَرَى بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى- وَالْكَثِیبُ: الْعَقَنْقَلُ،فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَمْ الْقَوْمُ؟قَالَا: كَثِیرٌ،قَالَ: مَا عِدَّتُهُمْ؟قَالَا: لَا نَدْرِی،قَالَ: كَمْ یَنْحَرُونَ كُلَّ یَوْمٍ؟قَالَا: یَوْمًا تِسْعًا، وَیَوْمًا عَشْرًا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْقَوْمُ فِیمَا بَین التسع مائَة وَالْأَلْفِ

اس کے بعدغلاموں  سے دریافت کیاکہ قریش کہاں  ہیں  ؟ انہوں  نے کہایہ جوٹیلہ جس کی طرف دیکھتے ہیں  اس کی پس پشت ہیں اوراس ٹیلہ کانام الْعَقَنْقَلِ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قریش کی تعداد دریافت فرمائی؟ توانہوں  نے کہابہت ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایاان کی تعدادکیاہے؟انہوں  نے کہاکہ تعدادمعلوم نہیں ،اس پرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ روزکتنے اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں ؟غلاموں  نے کہاکہ ایک روزنواورایک روزدس،تب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نو سو اور ہزارکے درمیان ہیں ۔[118]

ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: فَمَنْ فِیهِمْ مِنْ أَشْرَافِ قُرَیْشٍ؟قَالَا: عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَأَبُو الْبَخْتَرِیِّ بْنُ هِشَامٍ، وَحَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ، وَنَوْفَلُ بْنُ خُوَیْلِدٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ، وَطُعَیْمَةُ بْنُ عَدِیِّ بْنِ نَوْفَلٍ، وَالنَّضْرُ بْنِ الْحَارِثِ، وَزَمَعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ، وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَنُبَیْهُ، وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الْحَجَّاجِ، وَسُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ وُدٍّ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَذِهِ مَكَّةُ قَدْ أَلْقَتْ إلَیْكُمْ أَفْلَاذَ كَبِدِهَا

پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاشرفائے قریش میں  سے کون کون موجودہیں ؟غلاموں  نے بتلایاکہ عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ، زمعہ بن الاسود،ابوجہل بن ہشام ، ابوالبختری بن ہشام،حکیم بن حزام،نوفل بن خویلد،حارث بن عامربن نوفل،نضربن حارث، امیہ بن خلف،نبیہ اور منیہ بن حجاج،سہیل بن عمرو،عمروبن عبدوو وغیرہ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ  رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایامکہ نے اپنے جگرپاروں  کوتمہاری طرف ڈال دیا ہے۔[119]

حباب رضی اللہ عنہ  بن منذرکامشورہ:

وَبَعَثَ اللهُ السَّمَاءَ، وَكَانَ الْوَدْیُ دَهْسًا ، فَأَصَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنْهَا مَا  لَبَّدَ لَهُمْ الْأَرْضَ وَلَمْ یَمْنَعْهُمْ عَنْ السَّیْرِ وَأَصَابَ قُرَیْشًا مِنْهَا مَا لَمْ یَقْدِرُوا عَلَى أَنْ یَرْتَحِلُوا مَعَهُ. فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یبادرهم إِلَى المَاء، حَتَّى إذَا جَاءَ أَدُنَى مَاءٍ مِنْ بَدْرٍ نَزَلَ بِهِ

اسی اثنامیں  وادی بدرمیں  ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی جوبتدریج تیزہوتی چلی گئی،بارش جوالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا کی طرف کم اورالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کی جانب نسبتاًزیادہ تھی،چونکہ الْعُدْوَةِ الدُّنْیَا کی جانب سخت زمین یاریت پرمشتمل تھی،ریت میں  پاؤں  دھنس جاتے تھے اورجس پر چلنا دشوار تھابارش کی وجہ سے اس پرچلنا  پھرنا نسبتاً آسان ہوگیا، الْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی کیونکہ نشیب میں  تھااوراس طرف زمین بھی نرم تھی ،بارش کازوربھی اس طرف زیادہ تھااس لئے وہ علاقہ کیچڑیادلدل بن گیا اور دشوار گزار اور ناقابل عبورہوگیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ تبدیل کرنے کے لئے وسط وادی میں  بدرکے چشموں  اورکنوؤں  کی طرف پیش قدمی کی،بارش ہی میں  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم آگے بڑھتے چلے گئے اورسب سے پہلے جوکنواں  ملتاگیااس پرقابض ہوگئے۔[120]

اور عماربن یاسر رضی اللہ عنہ  اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کومزیدمخبری کے لئے دشمن کے کیمپ کی طرف روانہ فرمایا ،

أَنَّ الْحُبَابَ بْنَ الْمُنْذِرِ بْنِ الْجَمُوحِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ هَذَا الْمَنْزِلَ، أَمَنْزِلًا أَنْزَلَكَهُ اللهُ لَیْسَ لَنَا أَنْ نَتَقَدَّمَهُ، وَلَا نَتَأَخَّرَ عَنْهُ، أَمْ هُوَ الرَّأْیُ وَالْحَرْبُ وَالْمَكِیدَةُ؟قَالَ: بَلْ هُوَ الرَّأْیُ وَالْحَرْبُ وَالْمَكِیدَةُ؟

حباب بن المنذرالجموح انصاری جوبدرکے جغرافیہ سے زیادہ بہترواقف تھے اوربائیس سال کے ہونے کے باوجود فنون جنگ میں  مہارت رکھتے تھےانہوں  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرآپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس مقام پرفروکش ہوئے ہیں  توہمیں  اس میں  چوں  وچراکی مجال ہی نہیں  ،ہمیں  اس مقام سے نہ آگے بڑھناچاہیے اورنہ پیچھے ہٹنا چاہیے لیکن اگرآپ نے حربی نقطہ نگاہ سے یہ مقام منتخب فرمایاہے تویہ علیحدہ بات ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اپنی صواب دید اور حربی چال ہے۔[121]

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنَّ هَذَا لَیْسَ بِمَنْزِلِ، فَانْهَضْ بِالنَّاسِ حَتَّى نَأْتِیَ أَدْنَى مَاءٍ مِنْ الْقَوْمِ، فَنَنْزِلَهُ، ثُمَّ نُغَوِّرُ مَا وَرَاءَهُ مِنْ الْقُلُبِ،  ثُمَّ نَبْنِی عَلَیْهِ حَوْضًا فَنَمْلَؤُهُ مَاءً، ثُمَّ نُقَاتِلُ الْقَوْمَ، فَنَشْرَبُ وَلَا یَشْرَبُونَ

اس پرحباب  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااگرایساہے تواے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ جگہ پڑاؤکے لئے موزوں  نہیں  ہے ،آپ سب کولیکراس کنوئیں (یاچشمہ)پرقبضہ کرلیجئے جودشمن کے قریب ترہے،میرامشورہ یہ ہے کہ ایک چشمہ کے علاوہ جو ہمارے قبضہ میں  رہے گا،ہم سب کنوئیں  بے کارکردیں  گےاورایک حوض بناکر وضواورغسل کے لئے پانی بھر لیں  گے اوران لوگوں  سے جنگ کریں  گے تاکہ ہمیں  پانی ملتارہے اورانہیں  نہ ملے،اس طرح وہ پانی کی کمی کی وجہ سے پیاسے ہوکرجلدشکست قبول کرلیں  گے۔[122]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ أَشَرْتَ بِالرَّأْیِ،قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ عَلَى  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّأْیُ مَا أَشَارَ بِهِ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ، فَقَالَ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا حُبَابُ، أَشَرْتَ بِالرَّأْیِ

کیونکہ یہ پختہ وعمدہ جنگی اہمیت کامشورہ تھااس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے صحیح مشورہ دیا،اس کے بعدجبرائیل  صلی اللہ علیہ وسلم  حاضرخدمت ہوئے اورفرمایاحباب بن المنذرنے جومشورہ دیاہے وہ صحیح ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے حباب  رضی اللہ عنہ !تم نے عقل کامشورہ دیا۔[123]

چنانچہ اس کے بعد حباب بن المنذرالجموح انصاری کو صاحب الرائے کہاجانے لگا۔

بہرحال آپ نے ان کی رائے کوپسندفرمایااوربارش میں  ہی اس پرفوراًعمل کیاگیااورمطلوبہ چشمہ پراترنے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام کنوئیں جوچشمے کے آگے تھے ناکارہ کردیئے گئےیاچھپادیئے گئے ، بدرکے کنوئیں مدینہ کی جانب تھےاورمجاہدین اسلام نے چشمہ کے قریب ایک عارضی حوض بنالیاجس میں  پانی جمع ہونے لگا۔

سخت ضعیف روایت ہے۔اس روایت کی سندساقط ہے ،اس میں  مجہول راوی ہے۔

قریش کے کیمپ میں  کھلبلی :

لشکراسلام کے برعکس مکی لشکرکاماحول پرسکون نہ تھا،اس لشکرمیں  وحدت کمان کاوجود ہی نہ تھا،اس لشکرمیں  کئی سردارتھے اورہرایک اپنے آپ میں  اس قدرمگن تھاکہ لڑائی کاکوئی محکم منصوبہ بنانامشکل تھا،البتہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غم وغصہ کے جذبات اوراپنی جرات وبہادری کی داستانیں  سنانے میں  ان میں  یگانیت تھی،یعنی ان کااتفاق نفرت اورفخروغرورپرمبنی تھا،وہ اپنے فخروغرورمیں  پھولے نہیں  سماتے تھے کہ وہ ایک بڑے لشکراوربہتراسلحہ کے ساتھ میدان میں  پہنچے ہیں  جبکہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ صرف افرادی قوت ہی کم ہے اورآلات جنگ بھی وہ ان کی برتری کامقابلہ نہیں  کرسکتے،وہ بے حدخوش تھے کہ انہوں  نے اپنے منصوبہ کے مطابق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے قلیل التعداد اصحاب کومیدان جنگ میں  لاکھڑاکیاہے ،اب ہم ان بے دین لوگوں کوباآسانی موت کے گھات اتارکراپنے نظام زندگی کوقائم رکھ سکیں  گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام وسکون کی زندگی بسرکریں  گے ،چنانچہ اپنی کامیابی کی خوشی میں  رات بھرلشکرمیں ناچ گاناہوتارہا۔

قَالَ حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ: وَكُنّا فِی خِبَاءٍ لَنَا عَلَى جَزُورٍ نَشْوِی مِنْ لَحْمِهَا، فَمَا هُوَ إلّا أَنْ سَمِعْنَا الْخَبَرَ، فَامْتَنَعَ الطّعَامُ مِنّا، وَلَقِیَ بَعْضُنَا بَعْضًا ،وَلَقِیَنِی عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ فَقَالَ: یَا أَبَا خَالِدٍ، مَا أَعْلَمُ أَحَدًا یَسِیرُ أَعْجَبَ مِنْ مَسِیرِنَا، إنّ عِیرَنَا قَدْ نَجَتْ، وَإِنّا جِئْنَا إلَى قَوْمٍ فِی بِلَادِهِمْ بَغْیًا عَلَیْهِمْ. فَقَالَ عُتْبَةُ لِأَمْرٍ حُمّ: وَلَا رَأْیَ لِمَنْ لَا یُطَاعُ، هَذَا شُؤْمُ ابْنِ الْحَنْظَلِیّةِ! یَا أَبَا خَالِدٍ، أَتَخَافُ أَنْ یُبَیّتَنَا الْقَوْمُ؟ قُلْت: لَا آمَنُ ذَلِكَ. قَالَ: فَمَا الرّأْیُ یَا أَبَا خَالِدٍ؟قَالَ: نَتَحَارَسُ حَتّى نُصْبِحَ وَتَرَوْنَ مَنْ وَرَاءَكُمْ، قَالَ عُتْبَةُ: هَذَا الرّأْیُ! قَالَ: فَتَحَارَسْنَا حَتّى أَصْبَحْنَا

حکیم بن حزام(جوبعدمیں  مسلمان ہوگئے تھے)سے مروی ہے کہ ہم خیموں  میں  اونٹوں  کاگوشت بھون رہے تھے کہ ناگاہ ہم نے یہ خبرسنی کہ محمد (  صلی اللہ علیہ وسلم )یہاں  وادی بدرمیں  موجودہیں  اورانہوں  نے ہمارے غلاموں  کوپکڑلیاہے ، اس خبرسے ہمارا کھانا چھوٹ گیااورلوگ جمع ہوگئے،عقبہ بن ربیعہ نے حکیم بن حزام سے مخاطب ہوکرکہااے ابوخالد! میں  یہاں  آکرسب سے زیادہ پریشان ہوگیا ہوں  ، ہمارا قافلہ بچ گیاہے اورہم ایک ایسے علاقہ میں ہیں  جہاں  خون ریزی عام ہے ،یہ شایدامر تقدیرہے اورجوبھی ابوجہل کی پیروی کرے وہ بے عقل ہے،اے ابوخالد! کیا تمہیں اندیشہ نہیں  کہ وہ لوگ شب خوں  ماریں  گے ،اس سلسلہ میں  تمہاری کیارائے ہے،حکیم بن حزام نے کہاکہ ہم سب کو فجر تک جاگتے رہناچاہیے اور پیچھے سے دیکھتے رہنا،عتبہ نے کہا یہ صحیح مشورہ ہے اور کہتے ہیں  کہ ہم نے صبح تک چوکیداری کی،

قَالَ أَبُو جَهْلٍ: مَاهَذَا؟ هَذَا عَنْ أَمْرِ عُتْبَةَ، قَدْ كَرِهَ قِتَالَ مُحَمّدٍ وَأَصْحَابِهِ! إنّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ، أَتَظُنّونَ أَنّ مُحَمّدًا وَأَصْحَابَهُ یَعْتَرِضُونَ لِجَمْعِكُمْ؟ وَاَللهِ لَأَنْتَحِیَن نَاحِیَةً بِقَوْمِی، فَلَا یَحْرُسُنَا أَحَدٌ . فَتَنَحّى نَاحِیَةً، وَالسّمَاءُ تُمْطِرُ عَلَیْهِ ، یَقُولُ عُتْبَةُ: إنّ هَذَا لَهُوَ النّكَدُ، وَإِنّهُمْ قَدْ أَخَذُوا سُقّاءَكُمْ. وَأُخِذَ تِلْكَ اللّیْلَةَ یَسَارٌ غلام عبیدة ابن سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، وَأَسْلَمَ غُلَامُ مُنَبّهِ بْنِ الحجّاج، وأبو رافع غلام أمیّة ابن خَلَفٍ

جب ابوجہل نے یہ سنا کہ کیمپ میں  رات بھرجاگنے کی تجویزیں  ہورہی ہیں توفوراًبول اٹھاکہ یہ عتبہ کی تجویزمعلوم ہوتی ہے جومحمد (  صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے اصحاب سے لڑنامکروہ سمجھتاہے،میں  اس لشکر سے الگ رہوں  گامیرے ساتھ میرے قبیلہ کے افرادہیں  کوئی ہماری نگہبانی نہ کرے ،یہ کہہ کرلشکرکی دوسری جانب چلاگیااور آسمان سے بارش ہورہی تھی،عتبہ نے کہایہ شخص ناقص العقل ہے اوروہ ہمارے پانی بھرنے والے لے گئے ہیں ،اورآج رات عبیدہ ابن سعدکاغلام یسار،منبہ بن الحجاج کاغلام اسلم اورامیہ بن خلف کاغلام ابورافع پکڑکرلے جاچکے ہیں ۔[124]

وَبَعَثَ اللهُ السَّمَاءَ، وَكَانَ الْوَدْیُ دَهْسًا ، فَأَصَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنْهَا مَا  لَبَّدَ لَهُمْ الْأَرْضَ وَلَمْ یَمْنَعْهُمْ عَنْ السَّیْرِ وَأَصَابَ قُرَیْشًا مِنْهَا مَا لَمْ یَقْدِرُوا عَلَى أَنْ یَرْتَحِلُوا مَعَهُ

اس وقت باران رحمت نازل ہواجس سے ریتلی زمین سخت ہوگئی اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوچلناآسان ہوگیا اور قریش پر اس زورکامینہ برساکہ وہ نقل وحرکت نہ کرسکے اس طرح مسلمانوں  اورقریش کے درمیان ایسی زمین حائل ہوگئی جوکیچڑبن گئی تھی اور اس کا عبور کرناد شوار تھا۔[125]

عریش کی تیاری :

أَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ، أَلَا نَبْنِی لَكَ عَرِیشًا  تَكُونُ فِیهِ، وَنُعِدُّ عِنْدَكَ رَكَائِبَكَ، ثُمَّ نَلْقَى عَدُوَّنَا، فَإِنْ أَعَزَّنَا اللهُ وَأَظْهَرَنَا عَلَى عَدُوِّنَا، كَانَ ذَلِكَ مَا أَحْبَبْنَا وَإِنْ كَانَتْ الْأُخْرَى، جَلَسْتَ عَلَى رَكَائِبِكَ، فَلَحِقْتَ بِمَنْ وَرَاءَنَا، فَقَدْ تَخَلَّفَ عَنْكَ أَقْوَامٌ،یَا نَبِیَّ اللهِ، مَا نَحْنُ بِأَشَدَّ لَكَ حُبًّا مِنْهُمْ، وَلَوْ ظَنُّوا أَنَّكَ تَلْقَى حَرْبًا مَا تَخَلَّفُوا عَنْكَ، یَمْنَعُكَ اللهُ بِهِمْ،  یُنَاصِحُونَكَ وَیُجَاهِدُونَ مَعَكَ،فَأَثْنَى عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا، وَدَعَا لَهُ بِخَیْرِ

رات ہی کولشکرکی ترتیب کے بعد سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ کے لئے ایک بلندٹیلہ پرجہاں  سے آپ کومعرکہ کار زار نظر آسکے ایک عریش(جھونپڑی یاجھگی یاسائبان)بنائے دیتے ہیں  آپ اس میں  تشریف رکھیں  اورہم آپ کے لئے سواریاں  بھی فراہم رکھیں  گے،پھرہم دشمنوں  سے مقابلہ کریں  گے اگر اللہ تعالیٰ نے عزت عطافرمائی اوردشمنوں  پرہمیں  غلبہ دیاتویہ عین ہماری تمناہے اوراگرخدانخواستہ کوئی دوسری صورت پیش آئے توآپ اپنی سواری پرسوارہوکرمدینہ تشریف لے جائیں ،اے اللہ کےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم !وہاں  جولوگ رہ گئے ہیں  ہم ان سے زیادہ آپ سے محبت کادعویٰ نہیں  کرسکتے،اگرانہیں  زراسابھی گمان ہوتاکہ آپ کوجنگ کا سامنا کرنا پڑے گا تووہ کبھی پیچھے نہ رہتے،اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ آپ کی حفاظت فرمائے گااور وہ آپ کی خیرخواہی کریں  گے اورآپ کی معیت میں  جہادکریں  گے، یعنی مدینہ میں  کچھ مسلمان موجودتھے جنہیں  کسی وجہ سے لشکرکے ساتھ نہیں  لایاگیاتھا،سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ  کی باتیں  سن کررسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی تعریف فرمائی اورانہیں  دعائے خیردی ۔[126]

اس روایت سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ یہ سواریاں  اس خیال سے رکھی گئی تھیں  کہ اگرجنگ کاانجام مسلمانوں  کے حق میں  نہ ہوتوداعی اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم  تیزی کے ساتھ کسی محفوظ مقام پرپہنچ سکیں  اورتحریک اسلام کی ترویج واشاعت میں  کمی نہ ہو،مگرمیجرجنرل اکبرخاں  کاقیاس ہے کہ یہ سواریاں  جنگ کے گھمسان میں  مصروف دستوں  تک مناسب اور ضروری ہدایات پہنچانے کے کام بھی آسکتی تھیں  اور ہمارے خیال میں  یہی بات ٹھیک ہے کیونکہ جنگ کافیصلہ افرادی قوت یااسلحہ کاوافرذخیرہ نہیں  کرتا،فتح ونصرت اللہ کے اختیارمیں  ہے اوروہ اس گروہ کوفتح ونصرت سے ہمکنارکرتاہے جواپنے رب پرتوکل کرکے اس کانام بلندکرنے کے لئے کھڑاہوتاہے اوراس طرح کی بے شمارمثالیں  تاریخ میں  بکھری پڑی ہیں ، چنانچہ رات ہی میں  ایک بلندٹیلے پرجہاں چشمہ کا منبع تھااور جہاں  سے پانی جنوب مشرقی جانب نشیب میں  بہہ رہاتھا کھجور کی ٹہنیوں  سے عریش تیارکرلی گئی اوررسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے سکنڈان کمانڈسیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے ہمراہ عریش میں  قیام فرمایا،شب خون کے خطرے کے پیش نظریادشمن کاکوئی جاسوس یا تخریب کاررات کی تاریکی اورغفلت میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر حملہ کی جسارت نہ کر بیٹھے

فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ عَلَى بَابِ الْعَرِیشِ مُتَوَشّحَ السّیْفِ

اس لئے سعدبن معاذ  رضی اللہ عنہ چندصحابہ کے ہمراہ برہنہ شمشیرعریض سے لٹکاکرعریش کے سامنے بیٹھ گئے اور ساری رات پہرہ دیتے رہے۔[127]

( عریش کی جگہ مسجدبدرکے قریب تھی جومشہورہے ،یہ نخلستان کے قریب ہے اوراس کے قریب ہی پانی کاچشمہ بھی ہے ) اس دوران عماربن یاسر رضی اللہ عنہ  اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ  قریش کے گرد چکر لگاکرواپس آئے اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  دشمن گھبرایاہواہے یہاں  تک کہ اگران کاگھوڑابھی ہنہناتاہے تووہ اس کے منہ پرمارتے ہیں  اور شب خون کااندیشہ رکھتے ہیں  حالانکہ بارش ہورہی ہے،دوسری طرف قریش میں  نبیہ بن حجاج نے جونقش پاسمجھنے میں  ماہرتھازمین پر عماربن یاسر  رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کے پیروں  کے نشانات دیکھ کرکہایہ ابن سمیہ (عماربن یاسر رضی اللہ عنہ )اورابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ )کے پیروں  کے نشانات ہیں  اورمیں  نے پہچان لیاہے کہ محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )ہماری قوم اور یثرب کے چندبے وقوفوں  کواپنے ساتھ لائے ہیں ۔[128]

لشکراسلام کے لوگوں  نے نمازعشاء کمانڈرانچیف محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ باجماعت اداکی اورپھراللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتے ہوئے سوگئے۔

فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یُرِینَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ یَقُولُ هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَائَ اللهُ ، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِی حَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک دفعہ رات کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  عریش سے نکل کرآئے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ میدان جنگ کاچکرلگایااوران کو کفار کے سرداروں  کی لاشیں  گرنے کی ایک ایک جگہ دکھائی ،آپ نشاندہی کرتے تھے اورفرماتے تھے انشااللہ یہاں  فلاں  گرے گا،انشااللہ یہاں  فلاں  گرے گا،سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  اللہ کی قسم!جس نے آپ کوسچانبی بناکربھیجاہے آپ نے جس کافرکی کسی جگہ گرنے کی نشاندہی فرمائی تھی وہ ان جگہوں  سے ذرہ بھربھی ادھرادھرنہیں  ہوئے بلکہ اسی جگہ ہی گرے۔[129]

امیہ بن خلف کاقتل :

 كَاتَبْتُ أُمَیَّةَ بْنَ خَلَفٍ كِتَابًا، بِأَنْ یَحْفَظَنِی فِی صَاغِیَتِی بِمَكَّةَ، وَأَحْفَظَهُ فِی صَاغِیَتِهِ بِالْمَدِینَةِ،فَلَمَّا ذَكَرْتُ الرَّحْمَنَ قَالَ: لاَ أَعْرِفُ الرَّحْمَنَ، كَاتِبْنِی بِاسْمِكَ الَّذِی كَانَ فِی الجَاهِلِیَّةِ،فَكَاتَبْتُهُ: عَبْدَ عَمْرٍو،فَلَمَّا كَانَ فِی یَوْمِ بَدْرٍ، خَرَجْتُ إِلَى جَبَلٍ لِأُحْرِزَهُ حِینَ نَامَ النَّاسُ،فَأَبْصَرَهُ بِلاَلٌ فَخَرَجَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَجْلِسٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ: لاَ نَجَوْتُ إِنْ نَجَا أُمَیَّةُ، فَخَرَجَ مَعَهُ فَرِیقٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِی آثَارِنَا

عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں  نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اوراس کے درمیان لکھوایاکہ وہ میرے بال بچوں  یامیری جائیدادکی جومکہ میں  ہے حفاظت کرے اورمیں  اس کی جائیدادکی جومدینہ میں  حفاظت کروں ،جب میں  نے اپنانام لکھتے وقت رحمٰن کاذکرکیاتواس نے کہاکہ میں  رحمٰن کوکیاجانوں تم اپناوہی نام لکھواؤجوزمانہ جاہلیت میں  تھا،چنانچہ میں  نے عبدعمرولکھوایا،غزوہ بدرکے موقع پرمیں  ایک پہاڑکی طرف گیاتاکہ لوگوں  سے آنکھ بچاکراس کی حفاظت کرسکوں لیکن بلال  رضی اللہ عنہ  نے اپنے سابق ظالم آقاامیہ بن خلف کودیکھ لیااورفوراًہی انصارکی ایک مجلس میں  آئے اورانہوں  نے مجلس والوں  سے کہاکہ یہ دیکھو کفارکاامام امیہ بن خلف ادھرموجودہےاگرآج امیہ بن خلف بچ گیاتومیری ناکامی ہوگی،بلال  رضی اللہ عنہ  کااتناکہناتھاکہ انصارکی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہولی ،

فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَلْحَقُونَا، خَلَّفْتُ لَهُمُ ابْنَهُ لِأَشْغَلَهُمْ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَبَوْا حَتَّى یَتْبَعُونَاوَكَانَ رَجُلًا ثَقِیلًا، فَلَمَّا أَدْرَكُونَا، قُلْتُ لَهُ:ابْرُكْ،فَبَرَكَ، فَأَلْقَیْتُ عَلَیْهِ نَفْسِی لِأَمْنَعَهُ، فَتَخَلَّلُوهُ بِالسُّیُوفِ مِنْ تَحْتِی حَتَّى قَتَلُوهُ،وَأَصَابَ أَحَدُهُمْ رِجْلِی بِسَیْفِهِ

جب مجھے خوف ہواکہ اب یہ لوگ ہمیں  آلیں  گے تومیں  نے اس کے ایک لڑکے کوآگے کردیاتاکہ اس کے ساتھ (آنے والی جماعت)کوالجھالے، لیکن لوگوں  نے اسے قتل کردیااورپھردوبارہ امیہ بن خلف کاپیچھاکرنے لگے،اورامیہ بن خلف بھاری جسم کامالک تھا (اس لئے تیزبھاگ نہ سکا) آخر جب جماعت انصارنے ہمیں  آلیاتومیں  نے اس سے کہازمین پرلیٹ جا،امیہ بن خلف زمین پرلیٹ گیا، تومیں  نے اسے بچانے کے لئے خودکواس پرڈال دیا،لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوارکی ضربات لگائیں  اوراسے قتل کرکے ہی چھوڑا،ایک صحابی نے اپنی تلوارسے میرے پاؤں  کوبھی زخمی کردیاتھا۔[130]

فَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ یَقُولُ: یَرْحَمُ اللهُ بِلَالًا، ذَهَبَتْ أَدْرَاعِی وَفَجَعَنِی بِأَسِیرَیَّ

عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  فرمایاکرتے تھےاللہ بلال  رضی اللہ عنہ  پررحم فرمائے میری زرہیں  بھی گئیں  اورمیرے قیدی بھی ہاتھ سے گئے۔[131]

صحابہ کرام پانچ دن مسلسل پاپیادہ سفرکرتے ہوئے آئے تھے اورتھکے ماندے تھے ،ان کے اجسام گردوغبارآلودہ تھے ، نہانا اور جسموں  کادھوناضروری تھامگرنہ نہانے کاوقت تھااورنہ ہی موقع مگرمسلمان جنگی اہمیت کے ضروری کاموں  میں  تقریباًآدھی رات تک مصروف رہے،دشمن کے شب خون کابھی خطرہ تھا،ان تفکرات اور اندیشوں  کی وجہ سے بعض اصحاب نے جاگتے ہی رہنے کاارادہ کرلیا

ثُمَّ إِنَّهُ أَصَابَنَا مِنَ اللیْلِ طَشٌّ مِنَ الْمَطَرِ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَهَا مِنَ الْمَطَرِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللهِ ص یَدْعُو رَبَّهُ

اوربعض بارش کے باوجود تکان کی وجہ سے پڑتے ہی سوگئے مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات بابرکات تمام شب نمازاورگریہ وزاری میں  مصروف رہے۔[132]

وَكَانَ ذَلِكَ فِی مَنَامِهِ تِلْكَ اللیْلَةَ وَقِیلَ إِنَّهُ نَامَ فِی الْعَرِیشِ وَقَدْ أَرَاهُ اللهُ إِیَّاهُمْ فِی مَنَامِهِ قَلِیلًا

اسی رات کوکچھ دیرکے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواونگھ آگئی جس میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں  ایک لشکر دیکھاجس دیکھ کرآپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اندازہ لگایاکہ اس لشکرکی تعدادکچھ زیادہ نہیں  (حالانکہ آپ نے کفارکی تعداد کا اندازہ نوسوپچاس اورایک ہزار کے درمیان لگایاتھا)۔[133]

آپ عریش سے نکل کرآئے اور اپنا خواب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو سنایاجس سے مسلمانوں  کے حوصلے بلندہوگئے ان کی ہمت بڑھ گئی(یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ اس نے کفارکی تعداد کوکم دکھایا اگرکفارکی تعدادزیادہ دکھائی جاتی توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اپنی بے سروسامانی اورقلت تعدادکی وجہ سے ہمت ہارجاتے )

فَلَمَّا أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَى: الصَّلاةَ عِبَادَ اللهِ! فَجَاءَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ، فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ الله وَحَرَّضَ عَلَى الْقِتَالِ

طلوع فجرہوتے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آوازلگائی اے اللہ کے بندونمازکاوقت آگیا  نمازکاسنکرسب صحابہ کرام جمع ہوگئے ،اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی جڑمیں  کھڑے ہوکرنمازپڑھائی ،نمازسے فارغ ہوکرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو جہادفی سبیل اللہ میں  جانبازی اورسرفروشی کی ترغیب دی۔[134]

عَنْ عَائِشَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْأَجْرَاسِ أَنْ تُقْطَعَ مِنْ أَعْنَاقِ الْإِبِلِ یَوْمَ بَدْرٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہ بدرکے موقع پراونٹوں  کے گلوں  سے گھنٹیاں  کاٹ پھینکنے کاحکم دیا۔[135]

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: حَدَّثَنِی أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا:أَنَّهُمْ كَانُوا عِدَّةَ أَصْحَابِ طَالُوتَ،  الَّذِینَ جَازُوا مَعَهُ النَّهَرَ

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وادی بدرمیں  پہنچے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین سودس سے کچھ زائدصحابہ کرام   رضی اللہ عنہم زیرکمان تھےان کی تعدادبالکل اتنی ہی تھی جتنی اصحاب طالوت کی تھی جنہوں  نے طالوت کے ساتھ نہرکوعبورکیاتھا۔[136]

عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ:كَانَتْ عِدَّةُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  یَوْمَ بَدْرٍ ثَلاثَمِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ. وَكَانُوا یَرَوْنَ أَنَّهُمْ عَلَى عِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ یَوْمَ جَالُوتَ الَّذِینَ جَازُوا النَّهَرَ. قَالَ: وَمَا جَازَ مَعَهُ النَّهَرَ یَوْمَئِذٍ إِلا مُؤْمِنٌ

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبدرکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب کی تعدادتین سودس سے کچھ زائدتھی وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ان کی تعداداتنی ہی تھی جتنی جنگ جالوت کے دن اصحاب طالوت کی تھی جنہوں  نے نہرکوعبورکیاتھااس روزسوائے مومن کے ان کے ساتھ کسی نے نہرکوعبورنہیں  کیا[137]

(چھوٹے بڑے سب ملاکر) تین سوانیس صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم زیرکمان تھے جن میں  ساٹھ سے کچھ زائدمہاجرین ،دوسوچالیس سے کچھ زائدانصارتھے۔

[1] ابن سعد۹؍۲

[2] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی بَعْثِ الْعُیُونِ ۲۶۱۸

[3] ابن سعد۹؍۲

[4] ابن ہشام۶۰۷؍۱

[5] ابن سعد۸؍۲

[6] مغازی واقدی۱۹؍۱

[7] ابن سعد۱۵؍۲

[8] ابن سعد۱۵؍۲

[9] ابن سعد۱۵؍۲

[10] ابن سعد۱۵؍۲

[11] ابن سعد۱۵؍۲

[12] ابن سعد۱۵؍۲

[13] ابن سعد۱۵؍۲

[14] ابن ہشام۶۰۹؍۱،تاریخ طبری۴۳۰؍۲،البدایة والنھایة۵۹؍۵،عیون الاثر۲۸۴؍۱

[15] مغازی واقدی۳۲؍۱

[16] مغازی واقدی۳۲؍۱

[17] مغازی واقدی۳۲؍۱

[18] مغازی واقدی۳۲؍۱

[19] مغازی واقدی۳۲،۳۳؍۱

[20] مغازی واقدی۳۳؍۱

[21] ابن ہشام۶۱۰؍۱

[22] ابن ہشام ۶۱۰؍۱

[23] ابن اسحاق ۳۹۴

[24] مغازی واقدی۳۶؍۱

[25] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ ذِكْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ یُقْتَلُ بِبَدْرٍ۳۹۵۰

[26] مغازی واقدی۳۳؍۱

[27] عہدنبوی کے میدان جنگ  ۱۹

[28] ابن ہشام ۶۶۶؍۱

[29]ابن سعد۱۸؍۲

[30] البدایة والنہایة ۳۱۷؍۳

[31] البدایة والنہایة۳۱۷؍۳،مغازی واقدی۴۵؍۱

[32] ابن سعد۹؍۲

[33] ابن ہشام۶۱۰؍۱،الروض الانف۶۴؍۵،عیون الآثر ۲۸۵؍۱

[34] مغازی واقدی ۳۷؍۱

[35] ابن سعد۶؍۴

[36] البدایة والنہایة۲۶۶؍۳،عیون الاثر۳۹۲؍۱،ابن ہشام۶۱۸؍۱

[37] ھود۱۳

[38] یونس۳۸

[39] الانفال۳۲

[40] ابن ہشام۶۲۱؍۱،تاریخ طبری۴۴۱؍۲،عیون الآثر۲۹۴؍۱

[41] ابن سعد۸؍۲، ابن ہشام۶۰۷؍۱

[42] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قِصَّةِ غَزْوَةِ بَدْرٍ   ۳۹۵۱

[43] صحیح مسلم کتاب الامارة  بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِعن  انس ۴۹۱۵

[44] ابن ہشام۶۶۶؍۱

[45] ابن سعد۱۷؍۲

[46] ابن ہشام ۶۱۳؍۱،ابن سعد۸؍۲،الروض الانف ۶۷؍۵،عیون الآثر۲۸۷؍۱

[47] مغازی واقدی۱۰۳؍۱،شرف المصطفی۲۷۹؍۳،امتاع الاسماع۱۱۳؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۴؍۴،السیرة الحلبیة۴۶۱؍۳

[48] ابن سعد۴۶۱؍۳، مغازی واقدی۱۰۱؍۱

[49] ابن ہشام۲۵۰؍۱

[50] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ إِذَا بَعَثَ الإِمَامُ رَسُولًا فِی حَاجَةٍ، أَوْ أَمَرَهُ بِالْمُقَامِ هَلْ یُسْهَمُ لَهُ عن ابن عمر ۳۱۳۰

[51] ابن سعد۸؍۲

[52] صحیح مسلم کتاب الجہاد  بَابُ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ۴۶۳۹

[53] المنتخب من ذیل المذیل۱۵۸؍۱،اسدالغابة۷۰۶؍۱

[54] امتاع الاسماع۱۲۹؍۹

[55] مستعذب الاخبارباطیب الاخبار۳۴۶؍۱

[56] دلائل النبوة للبیہقی۳۸۱؍۶،معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم۲۷۲؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۷۴؍۹

[57] مغازی واقدی ۱۹؍۱

[58] ابن ہشام۶۱۳؍۱،الروض الانف ۶۷؍۵

[59] ابن سعد۹؍۲

[60] مغازی واقدی  ۱۱،۱۳

[61] ابن ہشام۱۵؍۲،ابن سعد۱۴؍۲

[62] ابن ہشام۶۱۲؍۱،البدایة والنھایة۲۶۰؍۳،الروض الانف ۶۷؍۵،تاریخ ابن خلدون۴۲۷؍۲

[63] ابن ہشام۴۵۸؍۱، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۲۹۴؍۳، اسدالغابة۱۲۹؍۴

[64] ابن ہشام ۸۸؍۵، الروض الانف ۶۷؍۵،عیون الآثر۲۸۶؍۱،امتاع الاسماع ۹۵؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۴؍۴،تاریخ الخمیس ۳۷۲؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر ۳۸۸؍۲

[65] ابن سعد۸؍۲

[66] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عِدَّةِ أَصْحَابِ بَدْرٍ۳۹۵۶

[67] مغازی واقدی۲۰؍۱

[68] ابن سعد۱۱۰؍۳، مغازی واقدی ۲۰؍۱

[69] کنزالعمال ۴۱۱؍۱۰

[70] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ كَرَاهَةِ الِاسْتِعَانَةِ فِی الْغَزْوِ بِكَافِرٍ۴۷۰۰

[71] ابن سعد۹؍۲

[72]ابن ہشام۶۱۷؍۱

[73] جامع ترمذی  أَبْوَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ لِلْمُحَارِبِ فِی الإِفْطَارِ۷۱۴

[74] مغازی واقدی۴۷؍۱

[75] مسند احمد ۲۱۸۵

[76] ابن سعد۱۵؍۲

[77] ابن سعد۱۵،۱۶؍۲

[78] ابن ہشام۶۱۳؍۱

[79] ابن ہشام۶۱۷؍۱

[80] ابن سعد۱۸؍۲

[81] ابن سعد ۹؍۲

[82] عہدنبوی کے میدان جنگ  ۱۸،۱۹

[83] تفسیرابن کثیر۶۶؍۴،ابن اسحاق۴۰۰،ابن ہشام۶۱۸؍۱،ابن سعد۹؍۲

[84] الروض الانف ۷۵؍۵،ابن ہشام۶۱۹؍۱، ابن اسحاق۴۰۱،تاریخ طبری۴۳۸؍۲،السیرة النبویة لابن  کثیر۳۹۹؍۲،عیون الاثر۲۹۲؍۱،مغازی واقدی ۴۴؍۱

[85] مغازی واقدی۴۴؍۱

[86] ابن سعد۹؍۲

[87] ابن ہشام۶۱۹؍۱،الروض الانف۷۶؍۵، عیون الآثر ۲۹۲؍۱

[88] ابن ہشام۶۱۹؍۱

[89] ابن سعد۱۰؍۲،ابن ہشام۶۱۴؍۱،سیرةابن اسحاق ۳۹۶

[90] سیرةابن اسحاق ۲۹۳

[91] ابن سعد۱۰؍۲،ابن ہشام۶۱۴؍۱

[92] تفسیرابن کثیر ۱۵؍۴

[93] مغازی واقدی

[94] ابن اسحاق ۳۹۶

[95] ابن سعد ۱۱۹؍۳

[96] ابن سعد۱۲۰؍۳،ابن اسحاق۳۹۶،ابن ہشام۶۱۵؍۱، تاریخ طبری ۴۳۴؍۲، البدایة والنھایة۲۷۹؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر  ۳۹۵؍۲

[97] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّی مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ المَلاَئِكَةِ مُرْدِفِینَ  ۳۹۵۲

[98] البدایة والنہایة ۳۲۰؍۳، عیون الاثر ۲۸۹؍۱،ابن سعد۱۰؍۲

[99] شرح الزرقانی علں  المواہب۲۶۸؍۲، ابن ہشام۶۱۵؍۱، ابن اسحاق۳۹۷، تاریخ طبری ۴۳۵؍۲، البدایة والنھایة۱۲۸؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۳۹۲؍۲،امتاع الاسماع۹۴؍۱،السیرة الحلبیة۲۰۶؍۲

[100] مسند احمد ۴۰۷۰

[101] ابن سعد۳۴۸؍۳،ابن ہشام۶۱۲؍۱،البدایة والنہایة۳۱۸؍۳،تاریخ ابن خلدون ۴۲۷؍۲

[102] ابن سعد۸؍۲

[103] ابن سعد۸؍۲،ابن ہشام ۶۸۸؍۱ ، تاریخ طبری ۴۷۸؍۲

[104] ابن سعد۸؍۲،ابن ہشام۷۰۳؍۱، البدایة والنہایة ۳۹۵؍۳،تاریخ طبری ۴۷۸؍۲

[105]  البدایة والنھایة۲۲۳؍۷

[106] أخلاق النبی وآدابه لابی الشیخ الأصبهانی ۴۰۸؍۲،امتاع الاسماع۱۶۳؍۷

[107] عیون الآثر۲۸۶؍۱

[108] ابن ہشام۶۱۳؍۱، البدایة والنہایة۳۱۸؍۳،تاریخ ابن خلدون ۴۲۷؍۲

[109] ابن ہشام۶۱۵؍۱،الروض الانف۷۳؍۵،عیون الآثر۲۹۰؍۱

[110] البدایة والنہایة۳۲۳؍۳،ابن اسحاق۳۹۷،ابن ہشام۶۱۶؍۱

[111] مغازی واقدی۵۱؍۱،امتاع الاسماع۹۶؍۱

[112] ابن سعد۹؍۲،عہدنبوی کے میدان جنگ ۱۶،ابن ہشام۶۱۹؍۱

[113] ابن سعد۱۳؍۲

[114] تاریخ طبری ۴۲۲؍۲

[115] ابن ہشام۶۱۶؍۱

[116] مغازی واقدی ۵۲

[117] ابن ہشام۶۱۷؍۱،ابن اسحاق ۳۹۹،تاریخ طبری۴۳۶؍۲، البدایة النھایة ۲۶۵؍۳، تاریخ ابن خلدون۴۲۷؍۲

[118] ابن سعد۱۰؍۲،ابن ہشام۶۱۷؍۱، الروض الانف ۷۴؍۵،عیون الآثر۲۹۰؍۱،تاریخ طبری ۴۳۶؍۲، البدایة والنہایة۳۲۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۲۹۷؍۲

[119]  ابن ہشام۶۱۷؍۱،ابن اسحاق ۳۹۹،تاریخ طبری ۴۳۷؍۲،الروض الانف ۷۴؍۵،عیون الآثر۲۹۱؍۱، مغازی واقدی ۵۳؍۱، السیرة النبوة لابن کثیر۳۹۸؍۲،تفسیرابن کثیر ۶۳؍۴

[120] ابن ہشام۶۲۰؍۱،ابن اسحاق ۲۹۶،تاریخ طبری ۴۳۹؍۲،البدایةوالنہایة۳۲۵؍۳

[121] ابن ہشام۶۲۰؍۱،الروض الانف ۷۷؍۵،عیون الآثر۲۹۳؍۱،ابن اسحاق ۲۹۷

[122] ابن ہشام ۶۲۰؍۱، الروض الانف ۷۷؍۵،تاریخ طبری۴۴۰؍۲،البدایة والنہایة۳۲۷؍۳

[123] ابن سعد۴۲۷؍۳،عیون الآثر۲۹۴؍۱

[124] مغازی واقدی ۵۲؍۱

[125] ابن ہشام ۶۲۰؍۱،تاریخ طبری ۴۳۹؍۲

[126] ابن ہشام۶۲۱؍۱،الروض الانف ۷۸؍۵،عیون الآثر۲۹۴؍۱،ابن اسحاق ۴۰۳،تاریخ طبری۴۴۰؍۲،تفسیرابن کثیر۱۷؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۴۰۴؍۲

[127] ابن سعد۱۱؍۲،مغازی واقدی ۵۵؍۱،تاریخ طبری ۴۴۹؍۲،عیون الآثر۳۰۰؍۱،الروض الانف ۹۰؍۵،السیرة النبوة لابن کثیر۴۱۰؍۲،البدایة والنہایة۳۳۱؍۳،تاریخ ابن خلدون۴۲۹؍۲

[128] عہدنبوی کے میدان جنگ  ۲۰

[129] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ غَزْوَةِ بَدْرٍعن انس ۴۶۲۱، وکتاب الجنتہ بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ  عن عمر ۷۲۲۲ ،سنن نسائی کتاب الجنائز باب أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِینَ۲۰۷۶

[130] صحیح بخاری کتاب الوکالتہ بَابُ إِذَا وَكَّلَ المُسْلِمُ حَرْبِیًّا فِی دَارِ الحَرْبِ، أَوْ فِی دَارِ الإِسْلاَمِ جَازَ۲۳۰۱

[131] ابن ہشام۶۳۲؍۱ ،الروض الانف ۹۳؍۵، عیون الآثر۳۰۲؍۱،تاریخ طبری ۴۵۳؍۲

[132] تاریخ طبری ۴۲۵؍۲، مصنف ابن ابی شیبة۳۶۶۷۹

[133] البدایة والنہایة۳۲۸؍۳

[134] مصنف ابن ابی شیبة ۳۶۶۷۹،مسنداحمد۹۴۸، تفسیر الطبری ۶۲؍۱۱،  تاریخ طبری ۴۲۵  ؍۲، البدایة والنھایة۲۷۸؍۳

[135] مسنداحمد۲۵۱۶۶،البدایة والنہایة۳۱۹؍۳

[136] صحیح بخاری کتاب المغازیبَابُ عِدَّةِ أَصْحَابِ بَدْرٍ۳۹۵۷،مسنداحمد۱۸۵۵۵،صحیح ابن حبان۴۷۹۶، فتح الباری ۳۹۵۷

[137]۔ابن سعد۱۴؍۲

Tags:
Related Articles