ہجرت نبوی کا نواں سال

غزوہ تبوک(جیش العسرة)   رجب نو ہجری(ستمبر،اکتوبر۶۳۰ء)

فتح مبین صلح حدیبیہ سے مسلمانوں  کودس سال کے لئے امن نصیب ہواتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعوت وتبلیغ کامحاذسنبھال لیا،جس سے اردگردکے کئی قبائل دائرہ اسلام میں  داخل ہوگئے، جس سے مسلمانوں  کی افرادی قوت چندہزارسے بڑھ کردس ہزارتک پہنچ گئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام کوپھیلانے کے لئے مختلف جگہوں  پروفودروانہ فرمائے ،ان میں  سے ایک وفدکعب بن عمیرغفاری رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں  شمال کی طرف سرحدشام سے متصل قبائل میں  بھی پہنچاتھا،یہ عیسائی قبائل رومیوں  کے زیراثرتھے، ان لوگوں  نے ذات الطلح کے مقام پراس وفدکے ۱۵آدمیوں  کوقتل کردیاصرف امیروفد بچ کرمدینہ پہنچ سکے ،اسی طرح ایک وفدحارث بن عمیرازادی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں  بصریٰ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے پاس بھی پہنچاتھا،یہ رئیس بھی عیسائی تھا اورقصرروم کے احکام کے تابع تھا، اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کوقتل کردیا،انہیں  صحابی رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزارمجاہدین کاایک دستہ سرحدشام کی طرف روانہ کیاتھاتاکہ آئندہ کے لئے یہ علاقہ مسلمانوں  کے لئے پرامن ہوجائے، اور یہاں  کے باسی مسلمانوں  کوکمزورسمجھ کران پرزیادتی کی جرات نہ کریں  ،سرفروشوں  کایہ مختصردستہ شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایالیکن رومیوں  کایہ لشکرمجاہدین پرغلبہ نہ پاسکا ،مسلمانوں  کی یہ بہادری اورجرات مندی دیکھ کرشام اوراس سے متصل رہنے والے نیم آزادعربی قبائل ،بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کوجوکسریٰ کے زیراثرتھے اسلام کی طرف متوجہ کیا،اورہزاروں  کی تعدادمیں  لوگ مسلمان ہوگئے ،قبیلہ بنی سلیم جن کاسردارعباس بن مرداس سلمی تھا، اورقبائل اشجع اور غطفان اورذبیان اورفزارہ کے لوگ اسی زمانے میں  داخل اسلام ہوئے، اوراسی زمانے میں  سلطنت روم کی عربی فوجوں  کاایک کمانذرفردہ بن عمروالجذامی مسلمان ہوا،جس نے اپنے ایمان کازبردست ثبوت دیاکہ گردوپیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کردنگ رہے گئے ،قیصرکوجب فردہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع ملی تواس نے انہیں  گرفتارکرکے اپنے دربارمیں  بلوایا،اوران سے کہاکہ دو چیزوں  میں  سے ایک کومنتخب کرلو،یاترک اسلام کے نتیجہ میں  تمہیں  رہاکردیاجائے گابلکہ تمہیں  اپنے عہدے پربھی بحال کردیاجائے گا،یااسلام جس کے نتیجہ میں  تمہیں  سزائے موت دی جائے گی ،انہوں  نے ٹھنڈے دل سے اسلام کوچن لیااورراہ حق میں  جان دے دی ،یہ صورت حال دیکھ کر اس وقت کی سب سے بڑی طاقت قصرروم کواس خطرے کی حقیقی اہمیت کااحساس ہوا جوعرب سے اٹھ کراس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہاتھا،ایک سال کے عرصہ میں  جب تمام عرب علاقہ مسلمانوں  کے زیرنگیں  ہوگیا،تو قصرروم نے ایک قابل ذکر طاقت کواپنے سامنے کھڑاپایاجس کے جھنڈے کے نیچے تمام عرب قبائل جمع ہوچکے تھے،چنانچہ اس سے پہلے کہ مسلمانوں  کارخ اس طرف ہواور یہ عظیم طاقت اس کے لئے کسی خطرے کاباعث بنے ،اس نے اسے کچل دینے کے لئے دوسرے ہی سال سرحد شام پر فوجی تیاریاں  شروع کردیں  ،اوراس کے ماتحت غسانی اوردوسرے عرب سردارفوجیں  اکٹھی کرنے لگے ۔

عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ، وَكَانَتْ نَصَارَى الْعَرَبِ كَتَبُوا إِلَى هِرَقْلَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی خَرَجَ یَنْتَحِلُ النُّبُوَّةَ قَدْ هَلَكَ وَأَصَابَتْهُمْ سُنُونَ فَهَلَكَتْ أَمْوَالُهُمْ، فَإِنْ كُنْتَ تُرِیدُ أَنْ تَلْحَقَ دِینَكَ فَالْآنَ، فَبَعَثَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ یُقَالُ لَهُ: الضَّنَادُ وَجَهَّزَ مَعَهُ أَرْبَعِینَ أَلْفًا،

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عرب کے عیسائیوں  نے ہرقل شاہ روم کوایک خط لکھاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )جس نے اس ملک میں  نبوت کادعویٰ کیاتھااس کا انتقال ہو گیاہے،اس کے پیروکار بدترین قحط سالی کاشکارہیں  ، اور ان کے مال ہلاک ہوگئے ہیں  ، عرب پرحملہ کرنے کایہ ایک سنہری موقعہ ہے ،چنانچہ ہرقل نے فورا ًلشکر کو تیار ہونے کا حکم دیا اورچالیس ہزاررومیوں  کالشکرجرارآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گیا۔[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تیاریوں  سے بے خبرنہ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبرداررہتے تھے جس کااسلامی تحریک پرکچھ بھی موافق یامخالف اثرپڑتاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تیاریوں  کے معنی فوراًسمجھ لئے ،اب اس صورت حال سے نپٹنے کے دو ہی طریقے ہوسکتے تھے ۔

xیا تواس موقعہ پرکمزوری دکھاکر رومی لشکرکومدینہ طیبہ پرحملہ کرنے کاکھلاموقع دے دیاجائے اوراپنے علاقہ میں  ان سے مقابلہ کیا جائے،مگراس میں  سب سے بڑاخطرہ یہ تھا کہ اگرمجاہدین اس بڑی قوت وطاقت کامقابلہ نہ کرسکے تو مسلمانوں  کی ناقابل تسخیر فوجی ساکھ خراب ہوجائے گی، اوروہ دشمن جس پرحنین میں  آخری ضرب لگائی جاچکی تھی ان میں  زندگی کی ایک لہردوڑجاتی،اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی تھاکہ اس مشکل گھڑی میں  منافقین مدینہ جوابوعامرفاسق کے واسطے سے غسان کے عیسائی بادشاہ اورخود قیصر کے ساتھ اندرونی سازبازرکھتے تھے، بنوقریظہ کی طرح مسلمانوں  کی پشت میں  خنجرگھونپ دیں  گے،سامنے سے قیصرجس کادبدبہ ایرانیوں  کوشکست دینے کے بعدتمام دورو نزدیک کے علاقوں  پرچھاگیاتھاحملہ آورہوجاتا،اورتین زبردست خطروں  کی متحدہ یورش میں  اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھاجاتی۔

x یا پھردوسری صورت یہ تھی کہ دشمن کومہلت دیئے بغیراسکے سرحدی علاقہ تبوک پہنچ کران سے دفاعی جنگ لڑی جائے ۔

اس وقت صورت حال یہ تھی کہ گرمی کاموسم پورے شباب پرتھا ،پھل اورفصلیں  پکنے کے قریب تھیں  ، سرمایہ کی شدیدکمی تھی، اس پرصحراؤں  میں  طویل سفرکی صعوبتیں  اورخوراک ،پانی اورسواریوں  کاانتظام سخت مشکل تھا،اوردنیاکی دوسب سے بڑی طاقتوں  میں  سے ایک کا مقابلہ درپیش تھاجس کے پاس باقاعدہ اورسروسامان سے آراستہ فوج تھی ،جس سے نبرد آزما ہونا کوئی کھیل تماشانہیں  تھا،دعوت اسلام کے لئے یہ زندگی اورموت کی فیصلہ کن گھڑی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام خطرات پردقت نظرسے غورفرماکرقوت وغیرت اور عزت والا راستہ اپنایا،اور دشمن کواپنی دیلیز تک لے آنے کے بجائے دشمن کے علاقہ میں  دفاعی جنگ لڑنے کا فیصلہ فرمایا،عام طورپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منافقین اوردشمن کے جاسوسوں  کی موجودگی کی وجہ سے لشکرکی منزل اوراس کے راستے کے متعلق وضاحت نہیں  فرماتے تھے،یہ بات ہمیشہ صیغہ رازمیں  رکھی جاتی اورایسے اشارے کئے جاتے جوذہن کودوسری سمتوں  کی طرف منتقل کرتے، مگر اس جہاد کی روانگی کوکسی سے پوشیدہ نہیں  رکھا ، اس بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہاد پرروانگی کے لئے طلب فرمایا اور انہیں  صراحت کے ساتھ انہیں  اپنی منزل بتادی کہ سرحدپر رومیوں  کے مقابلہ میں  جاناہے، صحراؤں  کاسفرطویل، دشوار گزار اور پیچیدہ ہے ،جس دشمن سے مقابلہ ہے وہ بھاری تعدادمیں  سرحدپرجمع ہے، تاکہ لوگ تیاری میں  کوئی وقیقہ فروگذاشت نہ کریں  جس پر بعدمیں  کف افسوس ملناپڑے ،اورراستے کی محنت ومشقت اورمقابلے کی سختی کے لئے تیار رہیں  ،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إسْحَاقَ الْمُطَّلِبِیِّ، قَالَ: ثُمَّ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ مَا بَیْنَ ذِی الْحَجَّةِ إلَى رَجَبٍ،ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ بِالتَّهَیُّؤِ لِغَزْوِ الرُّومِ، وَذَلِكَ فِی زَمَانٍ مِنْ عُسْرَةِ النَّاسِ، وَشِدَّةٍ مِنْ الْحَرِّ، وَجَدْبٍ مِنْ الْبِلَادِ: وَحِینَ طَابَتْ الثِّمَارُ، وَالنَّاسُ یُحِبُّونَ الْمُقَامَ فِی ثِمَارِهِمْ وَظِلَالِهِمْ وَیَكْرَهُونَ الشُّخُوصَ عَلَى الْحَالِ مِنْ الزَّمَانِ الَّذِی هُمْ عَلَیْهِ،وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا یَخْرُجُ فِی غَزْوَةٍ إلَّا كَنَّى عَنْهَا، وَأَخْبَرَ أَنَّهُ یُرِیدُ غَیْرَ الْوَجْهِ الَّذِی یَصْمُدُ لَهُ ، إلَّا مَا كَانَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَإِنَّهُ بَیَّنَهَا لِلنَّاسِ، لِبُعْدِ الشُّقَّةِ ، وَشِدَّةِ الزَّمَانِ، وَكَثْرَةِ الْعَدُوِّ الَّذِی یَصْمُدُ لَهُ، لِیَتَأَهَّبَ النَّاسُ لِذَلِكَ أُهْبَتَهُ، فَأَمَرَ النَّاسَ بِالْجِهَازِ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ یُرِیدُ الرُّومَ

ابن اسحاق کہتے ہیں  ذو الحجہ سے لے کررجب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں  تشریف فرمارہے پھررجب میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں  کورومیوں  پرجہادفی سبیل اللہ کی تیاری کاحکم فرمایا،یہ ایساوقت تھاجب گرمی اپنے جوبن پرتھی اورلوگوں  کے باغات وغیرہ میں  پھل تیارنہ ہوئے تھےاس سبب سے لوگ اپنے اپنے گھروں  میں  رہناچاہتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ کاارادہ فرماتے تولوگوں  سے اس کے خلاف فرمایاکرتے تھے تاکہ دشمن کواس کی خبرنہ ہو، مگراس غزوہ تبوک کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ سبب مشقت اورتکالیف کے جواس سفرمیں  پیش آنی متوقع تھیں  ظاہرفرمادیا،اوردشمن کی تعدادبھی کثیرتھی اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاظاہرکردیاتاکہ لوگ کثرت کے ساتھ جمع ہوں  ، اوراچھی طرح سے سازوسامان درست کرلیں  ، اور لوگوں  سے صاف طورپرفرمادیاکہ ہماراارادہ رومیوں  پرجہادکرنے کاہے۔[2]

اس کے ساتھ آپ نے اہل مکہ اورعرب کے تمام قبائل کی طرف جو اس وقت حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے پیغام بھیجاکہ وہ جہادفی سبیل اللہ کے لئے لشکرمیں  بھرتی ہوں  ،اس موقعہ کی نزاکت کوعرب میں  سب ہی محسوس کررہے تھے ،دورجاہلیت کے بچے کھچے لوگوں  کے لئے یہ ایک آخری شعاع امیدتھی ،وہ روم واسلام کی اس ٹکرکی نتیجہ پروہ بے چینی کے ساتھ نگاہیں  لگائے ہوئے تھے، کیونکہ وہ خودبھی جانتے تھے کہ اس کے بعدپھرکہیں  سے امیدکی جھلک نہیں  دکھائی دینی ہے ،منافقین نے بھی اپنی آخری بازی اسی پرلگادی تھی اوروہ اپنی مسجدضراربناکراس انتظارمیں  تھے کہ شام کی جنگ میں  اسلام کی قسمت کاپانسہ پلٹے، توادھراندرون ملک میں  وہ اپنے فتنہ کاعلم بلند کریں  ،یہی نہیں  بلکہ انہوں  نے اس مہم کوناکام کرنے کے لئے تمام ممکن تدابیربھی استعمال کرڈالیں  ، مسلمانوں  کوبھی پورااحساس تھاکہ جس تحریک کے لئے ۲۲سال سے وہ سربکف رہے ہیں  اس وقت اس کی قسمت ترازو میں  ہے ،اس موقع پرجرات دکھانے کے معنی یہ ہیں  کہ اس تحریک کے لئے ساری دنیاپرچھاجانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں  کہ عرب میں  بھی اس کی بساط الٹ جائے ،چنانچہ اسی احساس کے ساتھ مجاہدین اسلام نے انتہائی جوش وخروش سے جنگ کی تیاری شروع کردی،

 أنه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حض على النفقة والحملان فی سبیل الله،مَنْ جَهَّزَ جَیْشَ العُسْرَةِ فَلَهُ الجَنَّةُ

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کو راہ اللہ اپنا مال خرچ کرنے کی رغبت اور صدقہ وخیرات کی فضیلت بیان فرمائی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جیش العسرہ(تنگی والے لشکر)کو سازوسامان دے کر تیار کیا اس کے لیے جنت ہے۔[3]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاایثاروقربانی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپیل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عجیب والہانہ اندازسے جہادبالمال میں  حصہ لیا،اورصدقہ وخیرات کرنے میں  ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنے لگے،

فَكَانَ أَوّلَ مَنْ جاء أَبُو بَكْرٍ الصّدّیقُ بِمَالِهِ كُلّهِ أَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هل أَبْقَیْت لأهلك شَیْئًا، قال: أَبْقَیْت لهم اللهُ وَرَسُولُهُ،وَجَاءَ عُمَرُ بِنِصْفِ مَالِهِ ، فسأله:هَلْ أَبْقَیْت لهم شَیْئًا،قَالَ: نَعَمْ، نِصْفَ مالی ، وجاء عَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بمِائَتَیْ أُوقِیّةٍ إلیه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سب سے پہلے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپناکل پونجی جس کی مالیت چالیس ہزار درہم تھی لاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیرکردیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا اہل وعیال کے لئے کچھ چھوڑآئے ہو ؟ انہوں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  اللہ اور اس کے رسول کوچھوڑ آیا ہوں  ،پھرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے نصف مال پیش کیا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کچھ اپنے متعلقین کے لئے بھی چھوڑآئے ہو؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہاں  میں  آدھاسرمایہ ان کے لئے چھوڑآیا ہوں  ،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دوسو اوقیہ (تقریبا پانچ سوتولہ یاساڑھے ۲۹کلو) سونایاچاندی لا کر حاضر کردی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  برکت کی دعا دی ۔[4]

قال: جاء عَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِنِصْفِ مَالِهِ إِلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: یا رَسُول اللهِ، هذا نصف مالی أتیتك به، وتركت نصفه لعیالی، فقال النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بارك الله لك فیما أعطیت، وما أبقیت

ایک روایت میں  ہےعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنانصف مال لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اپنانصف مال لے آیاہوں  اورنصف اپنے اہل وعیال کے لیے چھوڑآیاہوں  ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوتم نے دیاہے اورجوگھرچھوڑآئے ہوئےاللہ اس میں  برکت ڈالے۔[5]

فَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَتَصَدَّقَ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ

ایک روایت میں  ہےعبدالرحمٰن بن عوف چارہزاردرہم لے کرحاضرہوئے۔[6]

تصدق عَاصِمُ بْنُ عَدِیّ بِسَبْعِینَ وسقامِنْ تَمْرٍ

عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے ستروسق(وسق ایک اونٹ کے بار کو کہا جاتاہے) کھجوریں  پیش کر دیں  ۔[7]

وَقَامَ عَاصِمُ بْنُ عدىّ، فتصدّق بِمِائَة وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ

ایک روایت میں  ہےعاصم بن عدی نے ایک سووسق کھجوریں  پیش کیں  ۔ [8]

وكان عثمان قد جهز عیرا إلى الشام فقال:یَا رَسُولَ اللهِ، هذه مائتا بعیر بأقتابها وأحلاسها،ومائتا أوقیة یعنی من ذهب

سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف بھیجنے کے لئے ایک تجارتی قافلہ تیار کیاتھا، انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دوسواونٹ جوپالانوں  اور جلوں  کے ساتھ تیار ہیں  ، اوردوسواوقیہ سونا جہادفی سبیل اللہ کے لئے پیش خدمت ہے ،اس کے بعدپھرایک سواونٹ پالان اورکجاوے سمیت پیش کیے۔ [9]

وعن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قال: جَاءَ عُثْمَانُ بن عفان بِأَلْفِ دِینَارٍ فی كمه حِینَ جَهَّزَ جَیْشِ الْعُسْرَةِ فِی حِجْرِة صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فرأیت رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُهَا فی حجره وَیَقُولُ: مَا ضَرَّ عُثْمَانُ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ،اللهمّ ارْضَ عَنْ عُثْمَانَ، فَإِنِّی عَنْهُ رَاض

عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بن سمرہ روایت کرتے ہیں  کہ جیش عسرہ کی تیاری کے لئے عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار (تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے)کی تھیلی بھرکرلائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں  پلٹ دی ،میں  نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں  کواپنی جھولی میں  پلٹتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس عمل کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کوکوئی عمل ضرر نہیں  پہنچا سکے گا اے اللہ! میں  عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں  تو بھی اس سے راضی ہو۔[10]

اس طرح انہوں  نے نوسواونٹ ،ایک سوگھوڑے اور بہت سی نقدی پیش کی۔

قال عمران:فسمعته صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقول:ولا ضَرَّ عُثْمَانُ مَا عَمِلَ بعدها

عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  آپ نہایت مسرور ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اتنے ایثارکے بعد سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کوکوئی عمل نقصان نہیں  پہنچائے گا۔[11]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَحُثُّ عَلَى جَیْشِ العُسْرَةِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلَیَّ مِائَةُ بَعِیرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِی سَبِیلِ اللهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الجَیْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلَیَّ مِائَتَا بَعِیرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِی سَبِیلِ اللهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الجَیْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلَیَّ ثَلاَثُ مِائَةِ بَعِیرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِی سَبِیلِ اللهِ، فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ یَقُولُ: مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ، مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ

عبدالرحمٰن بن خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  اس وقت حاضرہواجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیش عسرت کے لیے لوگوں  کواللہ کی راہ میں  خرچ کرنے کی ترغیب فرمارہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پرسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوئے اورعرض کیا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  جہادفی سبیل اللہ کے لیےایک سواونٹ پلانوں  اورجلوں  سمیت دینے کاوعدہ کرتاہوں  ، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرتشریف لے گئے اورلوگوں  کو جہادفی سبیل اللہ میں  خرچ کرنے کی ترغیب دی،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے پھرکھڑے ہوئے اورعرض کیا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  جہادفی سبیل اللہ کے لیےدوسواونٹ پلانوں  اورجلوں  سمیت دینے کا وعدہ کرتا ہوں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرلوگوں  کوجہادفی سبیل اللہ میں  خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی،سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے پھرکھڑے ہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  تین سواونٹ پلانوں  اورجلوں  سمیت دینے کاوعدہ کرتاہوں  ،میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ منبرسے نیچے اترے اورفرمارہے تھےاب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر کسی عمل کا کوئی مواخذہ نہیں  ، اب عثمان رضی اللہ عنہ پرکسی عمل کاکوئی مواخذہ نہیں  ۔[12]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهمّ ارْضَ عَنْ عُثْمَانَ، فَإِنِّی عَنْهُ رَاض

ابن ہشام کہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں  دعافرمائی اے اللہ!میں  عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں  توبھی راضی ہو۔[13]

قَالَ ابْنُ عُمَر لَمَّا جَهَّزَ عُثْمَانُ جَیْشَ الْعُسْرَةِ قَال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسلَّمَ اللَّهُمَّ لا تَنْسَاهَا لِعُثْمَانَ.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب عثمان رضی اللہ عنہ نے جیش العسرہ کے لیےبڑھ چڑھ کر سامان دیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ!عثمان رضی اللہ عنہ کے اس نیک عمل کونہ بھولنا۔[14]

الغرض سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اس کارخیرمیں  حصہ لیا،یہاں  تک کہ اونٹ کی مہار اور پاؤں  کوباندھنے کے لیے رسیاں  تک مہیاکیں  ، اس لئے جب بلوائیوں  نے انہیں  اپنے گھرمیں  محصورکردیاتوانہوں  نے اپنے مکان کی چھت پرکھڑے ہوکراسی بات کو کہا تھا

عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَان بن عَفَّان یَقُول لسعد ابْن أَبِی وَقَّاصٍ وَعَلِیٍّ وَالزُّبَیْرِ وَطَلْحَةَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ جَهَّزَ جَیْشَ الْعُسْرَةِ غَفَرَ اللهُ لَهُ فَجَهَّزْتُهُمْ حَتَّى مَا یَفْقِدُونَ خِطَامًا وَلَا عِقَالًا؟ قَالُوا: اللهُمَّ نَعَمْ

احنف بن قیس کہتے ہیں  میں  نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کوسعدبن ابووقاص رضی اللہ عنہ اورزبیر رضی اللہ عنہ اورطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سناکیاتم اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکون ہے جو جیش عسرت یعنی غزوہ تبوک کے لیے اللہ کی راہ میں  خرچ کرے گااللہ تعالیٰ اس کے گناہوں  کوبخش دے گا،چنانچہ میں  نے اللہ کی راہ میں  خرچ کیاتھا،یہاں  تک کہ لشکرکے لوگوں  کواونٹ کی مہاراوراس کے پاؤں  کوباندھنے کے لیے رسی کی ضرورت باقی نہ رہی،یہ سن کرانہوں  نے کہااے اللہ ! عثمان رضی اللہ عنہ سچ کہہ رہے ہیں  ۔[15]

وَحَمَلَ الْعَبّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ عَلَیْهِ السّلَامُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَالًا، وَحَمَلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَالًا، وَحَمَلَ عَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إلَیْهِ مَالًا، مِائَتَیْ أُوقِیّةٍ، وَحَمَلَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ إلَیْهِ مَالًا، وَحَمَلَ مُحَمّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ إلیه مالا

عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب،طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ،عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف اورسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بہت ساچندہ دیا۔[16]

أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِینَ یُقَالُ لَهُ: الْحَبْحَابُ أَبُو عَقِیلٍ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ بِتُّ أَجُرُّ بِالْجَرِیرِ اللیْلَةَ عَلَى صَاعَیْنِ مِنْ تَمْرٍ، فَأَمَّا صَاعًا فَأَمْسَكْتُهُ لِأَهْلِی، وَأَمَّا صَاعًا فَهُوَ ذَا

قبیلہ بنوانیف کے ابوعقیل(حبحاب،یاعبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ثعلبہ) نے جوبہت غریب تھے رات بھر اپنی پیٹھ پربوجھ ڈھوتے رہے جس کے صلہ میں  دوصاع کھجوریں  ملیں  ، انہوں  نے صبح حاضرہوعرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس کھجوروں  کے دوصاع تھے، ایک میں  نے اپنےبچوں  کے لئے روک لیااورایک لے آیا ہوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی جمع شدہ مال میں  ڈال دینے کوفرمایا۔[17]

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ كُنَّا نَتَحَامَلُ، فَجَاءَ أَبُو عَقِیلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ المُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الآخَرُ إِلَّا رِئَاءً، فَنَزَلَتْ: {الَّذِینَ یَلْمِزُونَ المُطَّوِّعِینَ مِنَ المُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ، وَالَّذِینَ لاَ یَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ} [18]“ الآیَةَ

اورصحیح بخاری میں  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب ہمیں  خیرات کرنے کاحکم ہواتوہم مزدوری پربوجھ اٹھاتے(اوراس کی مزدوری صدقہ میں  دے دیتے)چنانچہ ابوعقیل رضی اللہ عنہ اسی مزدوری سے آدھاصاع خیرات لے کرآئے،اورایک دوسرے صحابی( عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ )اس سے زیادہ لائے،اس پرمنافقوں  نے کہاکہ اللہ کواس (عقیل رضی اللہ عنہ )کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہ تھی اوراس دوسرے(عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف)نے تومحض دکھاوے کے لیے اتنابہت ساصدقہ دیاہے، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسے لوگ ہیں  جوصدقات کے بارے میں  نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں  پرطعن کرتے ہیں  اورخصوصا ً ان لوگوں  پرجنہیں  بجزان کی محنت مزدوری کے لیے کچھ نہیں  ملتا ۔[19]

أَبُو خَیْثَمَةَ الأنصاری اسمه مَالِكِ بْنِ قَیْسِ. قیل: هو أحد من تصدّق بصاع ، فلمزه المنافقون

ابوخیثمہ انصاری جن کانام مالک بن قیس تھانے ایک صاع کھجوریں  لے کرآئےتومنافقین نے ان کامذاق اڑایا۔[20]

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ آیَةُ الصَّدَقَةِ، كُنَّا نُحَامِلُ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِشَیْءٍ كَثِیرٍ، فَقَالُوا: مُرَائِی، وَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ، فَقَالُوا: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَاعِ هَذَا، فَنَزَلَتْ: {الَّذِینَ یَلْمِزُونَ المُطَّوِّعِینَ مِنَ المُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَ یَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ} [21] “ الآیَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب اللہ تعالیٰ نے صدقہ کی آیت نازل فرمائی توجب کوئی شخص ڈھیرسامال لاتاتومنافقین کہتے یہ توریاکاری ،دکھاوا ہےاوراگرکوئی شخص ایک صاع یاکم لاتاتوکہتے اللہ تعالیٰ توغنی ہے اسے اس کے صاع کی کوئی ضرورت نہیں  ہے، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسے لوگ ہیں  جوصدقات کے بارے میں  نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں  پرطعن کرتے ہیں  اورخصوصا ً ان لوگوں  پرجنہیں  بجزان کی محنت مزدوری کے لیے کچھ نہیں  ملتا۔[22]

كان عُلْبَةُ بْنُ زَیْدٍ بن حارثة رجلا من أصحاب النبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فلما حض على الصَّدَقَة جاء كلّ رجل منهم بطاقته وما عنده،فقال عُلْبَةُ بْنُ زَیْدٍ: اللهُمَّ إِنِّی أَتَصَدَّقُ بِعِرْضِی عَلَى مَنْ نَالَهُ مِنْ خَلْقِكَ، فأمر رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ منادیا، فنادى: أین المتصدق بعرضه البارحة؟فقام علبة، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَبِلَ صَدَقَتَكَ

علبہ رضی اللہ عنہ بن زیدبن حارثہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں  سے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کاکہاتوہرکوئی اپنی طاقت کے مطابق لے کرحاضرہوگیامگرعلبہ بن زیدبن حارثہ انصاری کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکربیٹھ گئے انہوں  نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی اے اللہ!میرے پاس کچھ نہیں  جس کاصدقہ کروں  ، اے اللہ!میں  اپنی عزت کاصدقہ کرتاہوں  تیری مخلوق میں  سے جواسے لیناچاہیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کوحکم دیااس نے پکار لگائی رات اپنی عزت کاصدقہ کرنے والاکہاں  ہے؟ علبہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل نے تمہارا صدقہ قبول فرمایاہے۔[23]

حَتّى إنْ كُنّ النساء لیعنّ بكلّ ما قدرن علیه قَالَتْ أُمّ سِنَانٍ الْأَسْلَمِیّةُ: لَقَدْ رَأَیْت ثَوْبًا مَبْسُوطًا بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا فِیهِ مِسْكٌ ، وَمَعَاضِدُ ، وَخَلَاخِلُ وَأَقْرِطَةٌ وَخَوَاتِیمُ، وَخَدَمَاتٌ، مِمّا یَبْعَثُ بِهِ النّسَاءُ یُعِنّ بِهِ الْمُسْلِمِینَ فِی جَهَازِهِمْ

عورتوں  نے بھی بخل سے کام نہ لیا اور اپنی اپنی طاقت کے مطابق کنگن، بازوبند، پازیبیں  ،ڈنڈیاں  اور انگوٹھیاں  بھیجیں  ۔[24]

الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصحابیات رضی اللہ عنہن نے اپنی اپنی ہمت و بساط کے مطابق اس مہم میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،جوناداری کی وجہ سے اس میں  حصہ نہ لے سکے انہیں  مدت العمراس کاقلق رہا۔

منافقین کاکردار:

مگربڑے بڑے مال دار منافقین نے جہادفی سبیل اللہ کے لیے کچھ خرچ نہ کیا اپنے ہاتھ روکے بیٹھے رہے ،بلکہ اپنے ایک ساتھی سویلم یہودی کے گھر کومرکزبناکرجہادفی سبیل اللہ میں  بڑھ چڑھ کرصدقہ وخیرات کرنے والے مسلمان مردوں  اورعورتوں  کو روکنے کے لئے ان پرباتیں  چھاٹنی شروع کردیں  ،اگرکوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یااس سے بڑھ کرکوئی بڑی رقم اللہ کی راہ میں  پیش کرتاتویہ اس پرریاکاری کاالزام لگاتے، اوراگرکوئی مفلس مسلمان اپنااوراپنے بال بچوں  کاپیٹ کاٹ کرکوئی چھوٹی سی رقم حاضرکرتا،یارات بھرمحنت مزدوری کرکے کچھ کھجوریں  حاصل کرتااوروہی لاکرپیش کردیتا،تویہ اس پراوازے کستے کہ لواس کی اس قلیل رقم سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں  ،

قَالَ:بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ نَاسًا مِنْ الْمُنَافِقِینَ یَجْتَمِعُونَ فِی بَیْتِ سُوَیْلِمٍ الْیَهُودِیِّ، وَكَانَ بَیْتُهُ عِنْد جاسوم ، یشبّطون النَّاسَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ ، فَبَعَثَ إلَیْهِمْ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَیْدِ اللهِ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَأَمَرَهُ أَنْ یُحَرِّقَ عَلَیْهِمْ بَیْتَ سُوَیْلِمٍ

بالآخرتبوک روانگی سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی گئی کہ منافقین سویلم یہودی کے گھرمیں  جمع ہوکر جاسوسی کاکام سرانجام دے رہے ہیں  ، اورلوگوں  کوغزوہ تبوک میں  شرکت سےروکنے کی کوشش کررہے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ اس کی طرف بھیجااورانہیں  حکم دیاکہ وہ اس کے گھر کو آگ لگادیں  چنانچہ انہوں  نے اس کے گھرکوجلاکرراکھ کردیا۔[25]

اس موقعہ پربعض لوگوں  کی طرف سے سستی کامظاہرہ ہواتواللہ تعالیٰ نے سب کی طرف منسوب فرماکرسورہ توبہ کی آیات نازل فرمائیں  جس میں  مسلمانوں  کو زجروتوبیخ کی گئی۔

سورہ توبہ آیات ۳۸تا۷۲

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِیلَ لَكُمُ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِیتُم بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ ‎﴿٣٨﴾‏ إِلَّا تَنفِرُوا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَیْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٣٩﴾‏ إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِینَ كَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِینَتَهُ عَلَیْهِ وَأَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِینَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِیَ الْعُلْیَا ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٤٠﴾‏(التوبہ)
اے ایمان والو ! تمہیں  کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں  کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو، کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو، سنو ! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں  کچھ یونہی سی ہے، اگر تم نے کوچ نہ کیا تو تمہیں  اللہ تعالیٰ دردناک سزا دے گا اور تمہارے سوا اور لوگوں  کو بدل لائے گا، تم اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں  پہنچا سکتے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں  کافروں  نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں  سے دوسرا جبکہ وہ دونوں  غار میں  تھےجب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں  سے اس کی مدد کی جنہیں  تم نے حَكِیْمٌ۰۰۴۰(التوبة۳۸تا۴۰)دیکھا ہی نہیں  ، اس نے کافروں  کی بات پست کردی اور بلندو عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں  کی سرزنش فرمائی جولوگ غزوہ تبوک کے موقع پرپیچھے رہ گئے تھے اورجہادمیں  شریک نہ ہوسکے تھے،فرمایا اے لوگو!کیاتم ایمان کے تقاضوں  اوریقین کے داعیوں  کونہیں  جانتے؟ایمان کاتقاضاتویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں  سبقت کی جائے،اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے اللہ کے دشمنوں  اورتمہارے دین کے دشمنوں  کے خلاف جہادکی طرف سرعت سے بڑھاجائے ،تمہیں  کیاہوگیاہے کہ جب تمہیں  کہاجاتاہے کہ اللہ کی راہ میں  کوچ کروتو راحت وآرام کی طرف مائل ہوکرسستی کا مظاہرہ کررہے ہو،کیاتم آخرت کی ابدی اورلازوال انواع واقسام کی نعمتوں  کوچھوڑکردنیاکی چند فانی چیزوں  پرریجھ بیٹھے ہو ،جس دنیاکی طرف تم مائل ہو اس کانفع عارضی اورتھوڑا ہے اورآخرت میں  کام آنے والی چیزنہیں  ،اللہ کے ہاں  تووہ چیزکام آئے گی جسے تم نے اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے قربان کیاہوگا،جس کی محبت پرتم نے اللہ اوراس کے دین کی محبت کوترجیح دی ہوگی، مگراس کے باوجودتم نے عارضی زندگی کے تھوڑے نفع کو آخرت کی ابدی نعمتوں  پرترجیح دے رکھی ہے،جبکہ آخرت تمام نعمتوں  کی جامع ہے جس میں  وہ سب کچھ ہوگانفس جس کی خواہش کریں  گے اورآنکھ جس سے لذت حاصل کریں  گی، اوراس کے انعام یافتہ بندے ہمیشہ اس میں  رہیں  گے ،

قَالَ: سَمِعْتُ الْمُسْتَوْرِدَ، أَخَا بَنِی فِهْرٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللَّهِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ فِی الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ» یَعْنِی الَّتِی تَلِی الْإِبْهَامَ

مستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم!دنیاآخرت کے مقابلے میں  ایسی ہے جیسے تم میں  سےکوئی اپنی انگلی کودریامیں  ڈالے،اور پھردیکھے تووہ کتنی تری دریامیں  سے لاتاہے(توجتناپانی انگلی میں  لگارہتاہے وہ گویادنیاہے اوروہ دریاآخرت ہے ،یہ نسبت دنیاکوآخرت سے ہے اورچونکہ دنیافانی ہے اورآخرت دائمی ہے اس واسطے اس سے بھی کم ہے)۔[26]

عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَبْدَ الْعَزِیزِ بْنَ مَرْوَانَ الْوَفَاةُ قَالَ: ائْتُونِی بِكَفَنِی الَّذِی أُكَفَّنُ فِیهِ أَنْظُرُ إِلَیْهِ فَلَمَّا وُضِعَ بَیْنَ یَدَیْهِ نَظَرَ إِلَیْهِ فَقَالَ: أَمَا لِی مِنْ كَثِیرٍ؟ مَا أَخْلَفُ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا هَذَا؟ ثُمَّ وَلَّى ظَهْرَهُ فَبَكَى وَهُوَ یَقُولُ: أُفٍّ لَكِ مِنْ دَارٍ إِنْ كَانَ كَثِیرُكِ لَقَلِیلٌ وَإِنْ كَانَ قَلِیلُكِ لَقَصِیرٌ وَإِنْ كُنَّا مِنْكِ لَفِی غُرُورٍ

عبدالعزیزبن ابوحازم نے اپنے والدسے روایت کیاہے جب عبدالعزیزبن مروان کی وفات کاوقت قریب آیاتوکہنے لگامیرے پاس وہ کفن لاؤجومجھے پہنایاجائے گاتاکہ میں  اسے دیکھ لوں  ، جب کفن ان کے سامنے رکھ دیاگیاتوانہوں  نے اسے دیکھا،اورکہاکیامیرے لیے اس سے بڑاکفن نہیں  ہے؟کیامجھے دنیاکی چیزوں  میں  سے صرف یہ کفن ہی ملے گا، پھرانہوں  نے رخ پھیرلیااوررونے لگے،اوریہ کہنے لگے !اے دنیاکے گھرتجھ پربہت افسوس!تیرازیادہ مال بھی تھوڑاہے، اورجوتھوڑاہے وہ توبہت ہی تھوڑاہے،مگرہم تیرے بارے میں  دھوکے میں  پڑے ہوئے ہیں  ۔[27]

پھراللہ تعالیٰ نے ترک جہادپرتنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جہادکے عام بلاواپراگرتم جہادفی سبیل اللہ کے لئے نہ نکلوگے توتمہاراایمان معتبرنہیں  ہے،چنانچہ اس جرم میں  اللہ تعالیٰ تم کودنیااورآخرت میں  دردناک عذاب دے گا،اوراس بات کویادرکھواللہ کاکام کچھ تم پرمنحصرنہیں  ہےکہ تم نہیں  کروگے تووہ پورا نہیں  ہوگا ، حقیقتاًیہ تواللہ کافضل وکرم ہے کہ وہ تمہیں  اپنے دین کی خدمت کاموقعہ عطافرمارہاہے،لیکن اگرتم اپنی سستی اورنادانی سے یہ سنہری موقعہ گنوادوگے، تواللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کوجہادفی سبیل اللہ کی توفیق بخش دے گا،اورپھرتم نامرادرہ جاؤگے، اورتم اللہ کاکچھ بھی نہ بگاڑسکوگے، جیسے فرمایا

 وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ [28]

ترجمہ:اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں  گے۔

اللہ مالک الملک ہے اور اس کو ہرچیزپرقدرت حاصل ہے ،اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ فرمایاکہ اگرتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں  کرتے تواللہ تعالیٰ تمہاری مددکامحتاج نہیں  ہے، اس نے اپنے پیغمبرکی اس وقت بھی مدد فرمائی تھی جب کفارنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کاارادہ کیااوراپنے منصوبے کوعلمی جامہ پہنانے کی بھرپورکوشش کی اورآپ کومکہ مکرمہ سے نکلنے پرمجبور دیاتھا ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحکم الٰہی صرف سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوساتھ لے کر مکہ مکرمہ سے کچھ فاصلہ پر غار ثور میں  تین دن تک پناہ گرین ہوئے تھے،اورجب خون کے پیاسے غضب ناک چند کفارآپ کو طرف تلاش کرتے ہوئے غارتک پہنچ گئے جس میں  آپ نے پناہ لے رکھی تھی توسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوسخت خوف لاحق ہواکہ مبادہ کسی دشمن کوعلم نہ ہوجائے اوروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی ایذا نہ پہنچائے،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِی الْغَارِ: وَقَالَ مَرَّةً: وَنَحْنُ فِی الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَى قَدَمَیْهِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْهِ ، قَالَ فَقَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَیْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کی جب ہم غارمیں  تھے،اگران مشرکین نے اپنے قدموں  پرنظرڈالی تو یقیناً ہمیں  دیکھ لیں  گے( مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں  ذرافرق نہ آیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوتسکین دیتے ہوئے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! تمہاراان دوکے بارے میں  کیاخیال ہے جن کا تیسرااللہ ہے، یعنی غم نہ کھاؤاللہ کی مددونصرت اورتائید ہمارے ساتھ ہے۔[29]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مصیبت اورخوف کے اوقات میں  ان پرثابت قدمی، طمانیت اورایساسکون نازل فرمایا جودل کی مضبوطی کاباعث ہوتاہے، اوراپنے رسول کی مددکووہ فوجیں  بھیجیں  جوتم نے نہیں  دیکھیں  (یعنی فرشتوں  کومددکے لیے نازل کیا) اورکفارکوبے یارومددگارچھوڑ دیا اورکلمہ توہمیشہ ہمیشہ اللہ ہی کی بلند ہے ،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ: یُقَاتِلُ حَمِیَّةً، وَیُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَیُقَاتِلُ رِیَاءً، فَأَیُّ ذَلِكَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ؟ قَالَ:مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِیَ العُلْیَا، فَهُوَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضر ہوااورعرض کی ایک شخص حمیت کے لیے لڑتاہے،ایک شخص شجاعت کے لیے لڑتاہے، ایک شخص ریاکاری کے لیے لڑتاہے،ان میں  سے اللہ کی راہ میں  لڑنے والاکون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواس لیے لڑائی کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بات کوسربلندی حاصل ہو تووہ اللہ کے رستے میں  لڑنے والاہے۔[30]

اللہ ہی کالشکرہمیشہ ہی غالب رہتا ہے،اللہ ہی غالب ہے نہ کوئی اس پرغالب آسکتاہے اورنہ کوئی بھاگ کراس سے بچ سکتا ہے ،وہ تمام اشیاء کوان کے مناسب مقام پر رکھتاہے ۔

انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤١﴾‏ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَیَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ یُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ یَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿٤٢﴾‏(التوبة)
نکل کھڑے ہوجاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھرکم ہو تو بھی ، اور راہ رب میں  اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم میں  علم ہو، اگر جلد وصول ہونے والا مال و اسباب ہو یا اور ہلکا سا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑگئی، اب تو یہ اللہ کی قسمیں  کھائیں  گےکہ اگر ہم میں  قوت اور طاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے، یہ اپنی جانوں  کو خود ہی ہلاکت میں  ڈال رہے ہیں  ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے۔

عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ، قَالَ:أَوَّلُ مَا نَزَلَ مِنْ بَرَاءَةَ: {انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا۔،[31]

مسلم بن صبیح کہتے ہیں  سورۂ برات کی پہلی آیت یہی’’نکلوخواہ ہلکے ہویابوجھل۔‘‘نازل ہوئی۔

جس میں  بیماریامجبورکے سوا مسلمانوں  کے ہرفردکوچاہیے وہ جوان ہے یابوڑھا،امیرہے یاغریب سب کوحکم دیا گیاکہ سازوسامان کی کثرت ہے یابے سروسامانی ،سواریاں  موجود ہیں  یافقدان ہے ،حالات موافق ہیں  یاناموافق تمام احوال میں  بلاعذررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جہاد پر کھڑے ہوجائیں  اوردنیاوآخرت کی بھلائی کے لئے اپنے مال بھی اس راہ میں  خرچ کریں  ، اگر تمہیں  علم ہوتوگھرمیں  بیٹھ رہنے کی نسبت جان ومال سے جہادکرناتمہارے لئے بہترہے،اس میں  تمہیں  دینوی فائدہ تویہ ہوگاکہ تم جان ومال سے تھوڑی کوشش کروگے مگرانعام کے طورپراس میں  اللہ تعالیٰ کی رضا،بلنددرجات کاحصول،دین کی نصرت اور غنیمت زیادہ ملے گی اورآخرت کے منافع سے بڑھ کرکوئی نفع نہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ جَاهَدَ فِی سَبِیلِهِ، لاَ یُخْرِجُهُ إِلَّا الجِهَادُ فِی سَبِیلِهِ، وَتَصْدِیقُ كَلِمَاتِهِ بِأَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، أَوْ یَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِی خَرَجَ مِنْهُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواللہ کے کلام(اس کے وعدے )کوسچ جان کراللہ کے راستے میں  جہاد کرے،جہادکی نیت سے نکلے تواللہ تعالیٰ اس کاضامن ہے یاتواللہ تعالیٰ اس کوشہیدکرکے جنت میں  لے جائے گا،یااس کواجروثواب اورمال غنیمت دلاکر سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا لائے گا۔[32]

جیسے فرمایا

كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَكُرْہٌ لَّكُمْ۝۰ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـیْـــًٔـا وَّھُوَخَیْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَشَرٌّ لَّكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۲۱۶ۧ [33]

ترجمہ:تمہیں  جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں  ناگوار ہے، ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں  ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں  پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو، اللہ جانتا ہےتم نہیں  جانتے۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:أَسْلِمْ قَالَ: أَجِدُنِی كَارِهًا. قَالَ:أَسْلِمْ، وَإِنْ كُنْتَ كَارِهًا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایادعوت اسلام قبول کرلو،اس نے کہامجھے یہ ناپسندہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسلام قبول کرلوخواہ یہ تمہیں  ناپسندہی کیوں  نہ ہو۔[34]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جولوگ جھوٹے عذرکے ساتھ تمہارے پاس آرہے ہیں  انہیں  کوئی معذوری لاحق نہیں  ہے، اگرسفرقریب کاہوتااوردینوی نفع سہل الحصول ہوتا تویہ (منافق)لالچ میں  ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب ہوجاتے ،لیکن کھجورکی تیارفصلیں  ،گرمی کی ہولناک شدت ،صحراؤں  میں  لمبے سفرکی پرصعوبتیں  ، اورروم جیسی سپر پاور سے مقابلہ کے خوف نے ان کوحیلے تراشنے پرمجبورکردیاہے، اس لئے یہ آپ کے پاس آکرجھوٹی قسمیں  کھاکر(جوگناہ کبیرہ ہے)اللہ اوراس کے رسول کودھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں  ،مگر حقیقتاً خود اپنے آپ کوہلاکت میں  ڈال رہے ہیں  ،اوراللہ جو علام الغیوب ہے جانتاہے کہ وہ یقیناًجھوٹے ہیں  ۔

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٤٣﴾‏ لَا یَسْتَأْذِنُكَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَن یُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ إِنَّمَا یَسْتَأْذِنُكَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِی رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُونَ ‎﴿٤٥﴾(التوبة)
اللہ تجھے معاف فرما دےتو نے انہیں  کیوں  اجازت دے دی ؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں  اور تو جھوٹے لوگوں  کو بھی جان لے ،اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں  کریں  گے اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں  کو خوب جانتا ہے، یہ اجازت تو تجھ سے وہی طلب کرتے ہیں  جنہیں  نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت کے دن کا یقین ہے جن کے دل شک میں  پڑے ہوئے ہیں  ، اور وہ اپنے شک میں  ہی سرگرداں  ہیں  ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جانتے ہوئے بھی منافقین کواپنے طبعی حلم کی بناپررخصت عطافرمادی تھی ،اس کواللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پسندنہیں  فرمایاچنانچہ بڑے پیارسے تنبیہ فرمائی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے آپ سے درگزرفرمایااورآپ سے جوکچھ صادرہواہے اسے بخش دیا،آپ نے جہادمیں  عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں  کوعجلت میں  پوری طرح تحقیق کیے بغیر اجازت کیوں  دے دی ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: {عَفَا اللهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ} قَالَ: نَاسٌ قَالُوا: اسْتَأْذِنُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ أَذِنَ لَكُمْ فَاقْعُدُوا

مجاہدکہتے ہیں  یہ آیت کریمہ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تمہیں  معاف کرے تم نے کیوں  انہیں  رخصت دے دی؟۔‘‘ان لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ہے جنہوں  نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرلواگراجازت دے دیں  توبیٹھ رہو،اوراگراجازت نہ دیں  توپھربھی بیٹھ رہو۔[35]

مشکل کی اس گھڑی میں  ایسی نرمی مناسب نہیں  تھی ،رخصت دینے کی وجہ سے ان منافقین کواپنے نفاق پرپردہ ڈالنے کاموقعہ مل گیا، اگرآپ انہیں  رخصت نہ دیتے توان کاجھوٹادعویٰ ایمان بے نقاب ہوجاتا،اور آپ کو معلوم ہوجاتاکہ سچاکون ہے اورجھوٹاکون ،نیک وبدمیں  ظاہری تمیزہوجاتی ،پھراللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایاکہ یہ ممکن ہی نہیں  کہ اللہ اورآخرت پرایمان رکھنے والے اپنے جان ومال کے ذریعے سے جہادفی سبیل اللہ ترک کرنے کی اجازت طلب کریں  ،بلکہ بغیرکسی عذرکے جہادترک کرنے کی اجازت مانگناتوکجا،وہ تونہایت ذوق وشوق کے ساتھ اوربڑھ چڑھ کرجہادمیں  حصہ لینے کے آرزومندرہتے ہیں  ،اللہ متقین کوخوب جانتا ہےوہ انہیں  اس بات کی جزادے گاکہ انہوں  نے تقویٰ کوقائم رکھا،آپ سے رخصت توصرف وہی لوگ مانگتے ہیں  جواللہ اورروزآخرت پریقین نہیں  رکھتے،اگران کے دلوں  میں  ایمان کامل اور یقین صادق ہوتاتویہ جہادسے گریزنہ کرتے، اورنہ ان کے دلوں  میں  شکوک وشہبات پیداہوتے،یہ گمراہ لوگ ہلاک ہونے والے ہیں  ۔

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ لَوْ خَرَجُوا فِیكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ یَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِیكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ ‎﴿٤٧﴾‏لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ ‎﴿٤٨﴾‏(التوبة)
اگر ان کا ارادہ جہاد کے لیے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لیے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں  حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں  کے ساتھ بیٹھے ہی رہو، اگر یہ تم میں  مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتےبلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں  فتنے ڈالنے کی تلاش میں  رہتے، ان کے ماننے والے خود تم میں  موجود ہیں  اور اللہ ان ظالموں  کو خوب جانتا ہے، یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے کی تلاش کرتے رہے ہیں  اور تیرے لیے کاموں  کو الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں  ، یہاں  تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب آگیا باوجودیکہ وہ ناخوشی میں  ہی رہے۔

جہادسے جی چراکرپیچھے رہ جانے والے منافقین کی علامات اورقرائن سے ظاہرہوگیاہے کہ جہادکے لئے نکلنے کاان کاارادہ ہی نہ تھا،اوران کی وہ معذرتیں  جوپیش کررہے ہیں  سب باطل ہیں  ،ان کاجھوٹاہونے کے لئے یہی دلیل ہی کافی ہے کہ حکم جہادفی سبیل اللہ اوراعلان کے باوجودان کے اندردین کی سربلندی کے لئے جاں  فشانی کرنے کی کوئی تڑپ و خواہش نہیں  تھی،اورناراضگی وغضب کے طورپرفرمایااللہ ان کی شرانگیزیاں  ،سازشیں  اور نفاق کوجانتاہے، اس لئے اللہ نے ان کوتوفیق ہی نہیں  بخشی کہ یہ جہادفی سبیل کریں  ،اور اللہ تعالیٰ سے انعامات ودرجات حاصل کریں  ،بلکہ انہیں  عورتوں  ،بچوں  ،بوڑھوں  اورمعذوروں  کے ساتھ گھروں  میں  بیٹھادیا،منافقین کوگھروں  میں  بیٹھادینے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگریہ آپ کے نکلتے تواپنی بزدلی کے باعث لشکرمیں  بدلی کاباعث بنتے،غلط رائے اورمشورے دے کرمسلمانوں  میں  فتنہ وفسادبرپاکرنے کی کوشش کرتےاور تمہاری متحد جماعت میں  انتشارکاباعث بنتے ،یہ لوگ تمہارے درمیان اتحادکوپارہ پارہ کرکے باہمی عداوت ونفرت پیداکرنے کے بہت حریص ہیں  اور تمہارے اندرضعیف العقل لوگ موجود ہیں  جو منافقین کے ظاہری اسلام اورچرب زبانی کی وجہ سے ان کواپناخیرخواہ سمجھتے ہیں  ، توکیاآپ اندازہ نہیں  کرسکتے کہ اگروہ جہادکے لئے اہل ایمان کے ساتھ نکلتے توانہیں  کتنازیادہ نقصان پہنچتا؟ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ان منافقین کوجہادکی توفیق ہی نہ دی، اور اپنے مومن بندوں  پررحم اورلطف وکرم کرتے ہوئے ان کے ساتھ جہادفی سبیل اللہ کے لئے نکلنے سے ان کو روک دیا، تاکہ وہ ان کے معاملات میں  دخل اندازی نہ کریں  ، جس سے ان کوکوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچتا،

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ:كَانَ الَّذِینَ اسْتَأْذَنُوهُ فِیمَا بَلَغَنِی مِنْ ذَوِی الشَّرَفِ مِنْهُمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَالْجَدُّ بْنُ قَیْسٍ، وَكَانُوا أَشْرَافًا فِی قَوْمِهِمْ، فَثَبَّطَهُمُ، اللهُ لَعِلْمِهِ بِهِمْ أَنْ یَخْرُجُوا مَعَهُمْ فَیُفْسِدُوا عَلَیْهِ جُنْدَهُ

محمدبن اسحاق نے لکھاہے جیساکہ مجھے روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنے والے عبداللہ بن ابی ابن سلول اورجدبن قیس جیسے لوگ تھے، جواپنی قوم میں  ممتازاورصاحب حیثیت شمارہوتے تھے، مگراللہ تعالیٰ نے انہیں  ہلنے جلنے ہی نہ دیا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کومعلوم تھاکہ اگریہ لوگ آ پ کے ساتھ نکلے توآپ کے لشکرکوخراب کریں  گے۔[36]

اللہ ظالموں  کوخوب جانتاہے ،اوران منافقین کایہ پہلا کام نہیں  ہے، اس سے پہلے بھی ان کی شرانگیزیاں  ظاہرہوچکی ہیں  یعنی جب تم لوگوں  نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تواس وقت بھی انہوں  نے فتنہ اٹھانے کی بھرپورکوشش کی تھی ،انہوں  نے تمہاری دعوت کوناکام کرنے اورتمہیں  تنہاکرنے کی حیلہ سازیاں  کہیں  اوراس میں  انہوں  نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں  کی، یہاں  تک کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغزوہ بدرمیں  فتح وغلبہ عطافرمایاجوان کے لئے بہت ہی ناگوارتھا،غزوہ احدکے موقعہ پربھی ان منافقین نے راستے سے واپس ہو کر مشکلات پیداکرنے اوراس کے بعدبھی ہرموقعہ پربگاڑکی کوشش کرتے رہے حتی کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگیااوراکثرعرب مسلمان ہوگئے جس پرکف حسرت وافسوس مل رہے ہیں  ۔

‏ وَمِنْهُم مَّن یَقُولُ ائْذَن لِّی وَلَا تَفْتِنِّی ۚ أَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْكَافِرِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِیبَةٌ یَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَیَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ قُل لَّن یُصِیبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿٥١﴾(التوبة)
ان میں  سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں  نہ ڈالیے، آگاہ رہو وہ فتنے میں  پڑچکے ہیں  اور یقیناً دوزخ کافروں  کو گھیر لینے والی ہے ،آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں  برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو کہتے ہیں  ہم نے اپنا معاملہ پہلے سے درست کرلیا تھا، مگر وہ تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں  ، آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں  سوائے اللہ کے ہمارے حق میں  لکھے ہوئے کے کوئی چیز پہنچ ہی نہیں  سکتی وہ ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے، مومنوں  کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَهُوَ فِی جِهَازِهِ ذَلِكَ لِلْجَدِّ بْنِ قِیسٍ أَحَدِ بَنِی سَلِمَةَ: یَا جَدُّ، هَلْ لَكَ الْعَامَ فِی جِلَادِ بَنِی الْأَصْفَرِ ؟ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ، أَوْ تَأْذَنُ لِی وَلَا تفتّنى؟ فو الله لَقَدْ عَرَفَ قَوْمِی أَنَّهُ مَا مِنْ رَجُلٍ بِأَشَدَّ عُجْبًا بِالنِّسَاءِ مِنِّی، وَإِنِّی أَخْشَى إنْ رَأَیْتَ نِسَاءَ بَنِی الْأَصْفَرِ أَنْ لَا أَصْبِرَ،فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَقَالَ: قَدْ أَذِنْتُ لَكَ

انہی دنوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق جدبن قیس سے جوبڑاشوم وبخیل تھااورقبیلہ بنوسلمہ کارئیس اعظم تھا فرمایا،اے جد!کیارومیوں  سے جہادکاارادہ رکھتے ہو؟

وہ بولااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھےمعاف رکھیں  اورمجھے فتنہ میں  مبتلا کریں  ،واللہ !میری قوم جانتی ہے کہ میں  حسین وجمیل عورتوں  کودیکھ کربے قابوہوجاتا ہوں  مجھے اندیشہ ہے کہ میں  رومیوں  کی پری جمال نازنینوں  کودیکھ کرصبرنہیں  کرسکوں  گااورگناہ میں  مبتلاہوجاؤں  گااس لئے مجھے اس جہادکی شرکت سے معذوررکھیں  ، یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیرلیااوراس کو پیچھے رہنے کی اجازت دے دی۔[37]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَیِّدُكُمْ یَا بَنِی سَلَمَةَ؟ قَالُوا: الْجَدُّ بْنُ قَیْسٍ إِلَّا أَنَّ فِیهِ بِخُلًا، قَالَ:وَأَیُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ، بَلْ سَیِّدُكُمْ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےبنوسلمہ!تمہاراسردارکون ہے؟انہوں  نے جواب دیاکہ سردارتوجدبن قیس ہے مگروہ بخیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابخل سے بڑھ کراورکیابیماری ہوسکتی ہے ؟لہذاتمہاراسرداربشربن براء بن معرورہے۔[38]

اس کے بارے میں  آیت’’ان میں  سے کوئی ہے جوکہتاہے کہ مجھے رخصت دے دیجئے اورمجھ کوفتنے میں  نہ ڈالیے،سن رکھو!فتنے ہی میں  تویہ لوگ پڑے ہوئے ہیں  اورجہنم نے ان کافروں  کوگھیررکھاہے۔‘‘ نازل ہوئی کہ یہ منافقین کہتے تھے مجھے پیچھے رہنے کی اجازت دیں  اورمجھے گھرسے نکلنے کے باعث فتنے میں  نہ ڈالیں  ، یہی لوگ تودرحقیقت کفرواسلام کی فیصلہ کن کشمکش کے موقع پراسلام کی حمایت سے پہلوتہی کرکے فتنے میں  مبتلاہیں  ، جس سے بڑھ کرکسی فتنے کاتصورنہیں  کیاجاسکتا،اورانہیں  وعید سنائی کہ تقویٰ کاڈھونگ رچاکرتم جہنم سے بچ نہیں  پاؤگے ،مرنے کے بعدجہنم کافروں  کوگھیرلینے والی ہے جس سے فرار یا گلو خلاصی کا کوئی راستہ نہیں  ، کوئی جائے پناہ نہیں  ، اور منافقین کی خبث باطنی اورغایت درجے کی عداوت کے بارے میں  فرمایاکہ جب تمہیں  کسی معرکہ میں  فتح ونصرت ملتی ہے اور مجاہدین غنیمت حاصل کرتے ہوتوانہیں  رنج و تکلیف ہوتی ہے، اورجب تمہیں  کوئی نقصان پہنچتاہے توخوشی کے مارے بغلیں  بجانے لگتے ہیں  ، اوراپنی چالاکی کے افسانے گاتے ہوئے کہتے ہیں  ہم نے اس سے پہلے اپنا بچاؤ کر لیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں  گرفتارہونے سے بچ گئے،اللہ تعالیٰ نے منافقین کے قول کاجواب میں  مسلمانوں  کے صبروثبات اورحوصلے کے لئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ انہیں  فرمادیں  راحت و رنج سب اللہ کی منشاکے ماتحت ہیں  ، ہمارے ہاتھ میں  کوئی اختیارنہیں  ،ہمیں  وہی ملے گا جوکچھ اللہ نے لوح محفوظ میں  ہمارے مقدر میں  لکھ رکھاہے،اللہ ہی ہمارے تمام دینی اوردنیاوی امور کا سرپرست ہے،جوعالم اسباب کاحاکم ہے اورہم اس کی قضاوقدرپرراضی ہیں  اوراہل ایمان کو اپنے مطلوب ومقصودکی تحصیل کی خاطراسی پربھروسہ کرنا چاہیے،جوکوئی اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتاہے وہ کبھی خائب وخاسرنہیں  ہوتااورجوغیروں  پرتکیہ کرتاہے تووہ اپنی امیدوں  کے حصول میں  ناکام رہے گا۔

‏ قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن یُصِیبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَیْدِینَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ ‎﴿٥٢﴾(التوبة)
کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں  جس چیز کا انتظار کر رہے ہو وہ دو بھلائیوں  میں  سے ایک ہےاور ہم تمہارے حق میں  اس کا انتظار کرتے ہیں  کہ یا اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا تمہیں  دے یا ہمارے ہاتھوں  سے، پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں  ۔

کفرواسلام کی اس کشمکش میں  حصہ لینے کے بجائے منافقین دوربیٹھ کرکمال دانشمندی سے جائزہ لیناچاہتے تھے کہ رومیوں  کی تربیت یافتہ اورکثیر فوج سے ٹکراکربے سروساماں  مسلمانوں  کاانجام کیاہوتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتح یاب ہوتے ہیں  یارومیوں  جیسی سپرپاور سے ٹکراکرنیست ونابود ہوجاتے ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے انہیں  جواب دیاکہ جن دونتیجوں  میں  سے ایک کے ظہورکاتمہیں  انتظارہےاہل ایمان کے لئے تومیدان جنگ میں  کامیابی یاشہادت دونوں  ہی سراسربھلائی ہیں  ،اگروہ دشمنوں  کے مقابلے میں  فتح یاب ہوں  تواس کی بھلائی ہوناتوظاہرہی ہے یعنی غنیمت واجرعظیم ،لیکن اگراپنے مقصدعظیم کی راہ میں  جانیں  لڑاتے ہوئے شہید جائیں  ،شہادت جومخلوق کے لئے سب سے اعلیٰ درجہ اوراللہ کے ہاں  سب سے ارفع مقام ہے تب بھی دنیاکی نگاہ میں  چاہئے یہ انتہائی ناکامی ہو،مگرحقیقت میں  یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے،اس لئے کہ مومن کی کامیابی وناکامی کامعیاریہ نہیں  کہ اس نے کوئی علاقہ فتح کیایانہیں  ،یاکوئی حکومت قائم کردی یانہیں  ، بلکہ اس کامعیاریہ ہے کہ اس نے اپنے رب کے کلمے کو بلندکرنے کے لئے اپنے دل ودماغ اورجسم وجاں  کی ساری قوتیں  ،صلاحتیں  لڑادیں  یانہیں  ،یہ کام اگراس نے کردیاتودرحقیقت وہ کامیاب ہے خواہ دنیاکے اعتبارسے اس کی سعی کانتیجہ صفرہی کیوں  نہ ہو، مگر ہم تمہارے معاملے میں  دوبرائیوں  میں  سے ایک برائی کاانتظارکررہے ہیں  کہ یاتواللہ تعالیٰ آسمان سے تم پرعذاب نازل کردے جس سے تم ہلاک ہوکرجہنم واصل ہوجاؤ، یا ہمیں  تم پرمسلط کرکے ہمارے ہاتھوں  سے تمہیں  قتل کرنے یاقیدی بننے وغیرہ قسم کی سزائیں  دے، وہ دونوں  باتوں  پرقادرہے ،اب تم انتظارکروکہ اللہ تمہارے بارے میں  کیافیصلہ فرماتاہے ہم بھی اللہ کے فیصلے کے منتظرہیں  ،دیکھیں  پردہ غیب سے کیاظاہرہوتاہے۔

قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن یُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا یَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا یُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُعَذِّبَهُم بِهَا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ ‎﴿٥٥﴾(التوبة)
کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہرگز نہ کیا جائے گایقیناً تم فاسق لوگ ہو، کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں  کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں  اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں  اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں  ، پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں  نہ ڈال دیں  اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں  دنیا کی زندگی میں  ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں  ان کی جانیں  نکل جائیں  ۔

منافقوں  کوتنبیہ: منافقین رومیوں  کے مقابلے میں  جانے کے لئے ہرگز تیارنہ تھے، مگریہ بھی نہیں  چاہتے تھے کہ ان کانفاق مسلمانوں  پر ظاہرہوجائے، اس لئے جہادپرنہ جانے کی تورخصت چاہتے تھے مگربادل نخواستہ مالی تعاون کے لئے کہتے تھے،اس پراللہ باری تعالیٰ نے منافقین کو وعیدفرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کے مال قبول کرتاہے جو ایمان و یقین کامل اوردلی رغبت کے ساتھ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں  ،یعنی متقیوں  کے اعمال قبول کیے جاتے ہیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۲۷ [39]

ترجمہ:اس نے جواب دیا اللہ تو متقیوں  ہی کی نذریں  قبول کرتا ہے۔

تمہارے دلوں  میں  توایمان کی تڑپ ،ولولہ ہی نہیں  ، اس لئے چاہئے تم اپنے مال خوشی سے خرچ کرویادل کی تنگی کے ساتھ دکھاوے کے طورپر،بہرحال وہ قبول نہیں  کیے جائیں  گے ،اللہ تعالیٰ نے منافقین کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلں  بیان فرمائیں  ۔

تم نے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفرکیاہے ۔خالق کائنات کی بندگی(نماز)جوافضل ترین بدنی عبادت ہے کی طرف بلایاجاتاہے تو کیونکہ نہ یہ نمازپرثواب کی امیدرکھتے ہیں  اورنہ اس کے ترک پرانہیں  سزاکاخوف ہے، یعنی خوف ورجاسے محروم ہیں  ، اس لئے نشاط قلب سے نہیں  آتے بلکہ یہ بلاواان پرگراں  گزرتا ہے اس لئے سست وکاہل ہوکر آٹھتے ہیں  ۔ان کے دلوں  میں  مال ودولت کی اتنی محبت رسی بسی ہے کہ اگراللہ کی راہ میں  خوچ کرنے کوکہاجائے تو ثبات قلب اورثواب کی امید سے نہیں  بلکہ کراہت ودکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں  ۔چنانچہ ان میں  ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ(صفات حدوث اورسمات نقص وزوال سے) پاک ہے اوروہ پاک(حلال) مال ہی قبول فرماتا ہے۔ [40]

اورفرمایااے مسلمانوں  !کفارکی مال دولت اورکثرت اولادسے دھوکانہ کھانا،جیسے فرمایا

وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ۝۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۝۱۳۱ [41]

ترجمہ:اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں  سے مختلف قسم کے لوگوں  کو دے رکھی ہے، وہ تو ہم نے انہیں  آزمائش میں  ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے ۔

ہم کفارکوجومال ودولت اوراولاد دیتے ہیں  یہ ان کے لئے نعمت نہیں  بلکہ آزمائش ہوتی ہے،کیونکہ وہ مال ودولت اوراولادکی محبت کورب کی رضا و خوشنودی پرترجیح دے کراللہ کی نافرمانی کاارتکاب کرتے ہیں  ، اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ اسی مال ودولت،جاہ وحشمت اوراولاد کے ذریعے سے انہیں  اپنے ذکرسے غافل کر دیتا ہے، اورانہیں  چیزیں  سے اسی دنیامیں  ان پرعذاب مسلط کردیتاہے جس میں  یہ پھنسے رہتے ہیں  ،اورجب ان پرجان کنی کاوقت آجاتاہے توان کا رویہ انکارحق ہی ہوتا ہے اس لئے یہ اپنی دنیا برباد کر لینے کے بعد آخرت کے ابدی اوربہترین ثواب سے بھی محروم رہیں  گے،عِیَاذًا بِاللهِ تعالى من ذلک۔

وَیَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَیْهِ وَهُمْ یَجْمَحُونَ ‎﴿٥٧﴾(التوبة)
یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں  کہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں  حالانکہ وہ دراصل تمہارے نہیں  بات صرف اتنی ہے یہ ڈرپوک لوگ ہیں  ،اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پالیں  تو ابھی اس طرف لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں  ۔

منافقین مدینہ جوزیادہ ترمالداراورسن رسیدہ لوگ تھے،مدینہ منورہ میں  ان کی جائیدادیں  اورپھیلے ہوئے کاروبارتھے ،جہاندیدگی نے ان کومصلحت پرست بنادیاتھا، مسلمانوں  کے مدینہ منورہ پہنچنے اوردین اسلام کی پھیلاؤکے نتیجے میں  انہیں  اپنے مفادکے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظرآئی کہ ایمان کادعویٰ کریں  مگرمخلصانہ ایمان اختیارنہ کریں  ،اللہ نے فرمایاوہ اپنانفاق چھپانے کے لئے قسمیں  کھاتے ہیں  کہ وہ مسلمان ہیں  حالانکہ اللہ جوعلام الغیوب ہے جودلوں  کے بھیدوں  اورآنکھ کی خیانت سے واقف ہے جانتاہے کہ یہ اللہ اوراس کے رسول پر ایمان نہیں  لائے ، انہیں  اللہ کے رسول سے کوئی محبت یاانس نہیں  بلکہ عناد،نفرت اورکرہت ہے، ان کی قسمیں  کھانے کامقصدیہ ہے کہ یہ گردش ایام سے خائف ہیں  کہ اگران کاحال ظاہرہوگیاتوان لوگوں  کی جاہ ومنزلت اورکاروباروغیرہ ختم ہوجائیگا ،ان کے بیوی بچے جومخلصانہ اسلام قبول کرچکے تھے ان سے جداہوجائیں  گے ،اس لئے خودکومسلمان ظاہرکرنے کے لئے بادل نخواستہ نمازیں  پڑھ رہے ہیں  ،زکوٰة کوجرمانہ سمجھ کراداکررہے ہیں  ،آئے روزدشمن کے مقابلے کے لئے قربانیوں  کے مطالبے کی مصیبت میں  پھنسے ہوئے ہیں  ، اللہ نے انہیں  بزدلی کالباس اورجھوٹ کازیورپہنادیاہے ،یہ اس قدربے چین ہیں  کہ اگرانہیں  اپنے بچاؤکے لئے کوئی محفوظ جائے پناہ یا غاریا سر گھسانے کی جگہ پالیں  توجس وقت ان پرمصائب نازل ہوں  تویہ رسیاں  تڑاتے ہوئے تیزی کے ساتھ اس میں  داخل ہوکراپناٹھکانابنالیں  ، اور ایک بھی تمہارے پاس نظرنہیں  آئے گا ۔

 وَمِنْهُم مَّن یَلْمِزُكَ فِی الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَیُؤْتِینَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ ‎﴿٥٩﴾‏(التوبة)
ان میں  وہ بھی ہیں  جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں  آپ پر عیب رکھتے ہیں  ،اگر انہیں  اس میں  مل جائے تو خوش ہیں  اور اگر اس میں  سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے ،اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں  کافی ہےاللہ ہمیں  اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم تو اللہ کی ذات سے ہی توقع رکھنے والے ہیں  ۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تمام اہل ایمان پرمختلف چیزوں  نقدمال،سوناچاندی،اموال تجارت ومویشیوں  وغیرہ پرزکوٰة اورزرعی پیداوارپرعشرایک مقررہ مقدارسے نفاذ کر دیا گیا تھا ،اورانہیں  ایک منظم طریقہ سے وصول اورمنصفانہ طورپرمستحقین پرخرچ کیاجاتاتھا،منافقین جوخودمالداراورصاحب حیثیت تھے مگردولت جمع کرنے کی بھوک ختم ہونے کانام نہیں  لیتی تھی، وہ چاہتے تھے کہ انہیں  کسی طرح یہ دولت سمیٹنے کاموقعہ مل جائے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان صدقات کومنصفانہ اندازسے ان جگہوں  پرخرچ فرماتے جن کا تعین خوداللہ تعالیٰ نے کردیاہے، تویہ لوگ مالی مفادات کے حصول کی خواہش کوچھپاکرچھاتے انہیں  زیادہ حصہ دیاجائے، یاچاہئے وہ مستحق ہوں  یانہ ہوں  انہیں  حصہ ضرور دیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کو(نَعُوذُ بِالله) صدقات وغنائم کی تقسیم میں  غیر منصف باورکراتے کہ آپ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں  بلکہ جانبداری سے کرتے ہیں  ،

عَنْ قَتَادَةَ، وَذُكِرَ لَنَا أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ حَدِیثَ عَهْدٍ بِأَعْرَابِیَّةٍ، أَتَى نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقْسِمُ ذَهَبًا وَفِضَّةً،فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، وَاللهِ لَئِنْ كَانَ اللهُ أَمَرَكَ أَنْ تَعْدِلَ مَا عَدَلْتَ ، فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَیْلَكَ فَمَنْ ذَا یَعْدِلُ عَلَیْكَ بَعْدِی؟ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:احْذَرُوا هَذَا وَأَشْبَاهَهُ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  ہم سے بیان کیاگیاہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونااورچاندی تقسیم فرمارہے تھے ،اس نے کہااے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )!اللہ کی قسم !اللہ نے اگرااپ کوعدل کرنے کاحکم دیاہے توآپ نے عدل نہیں  کیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھ پرافسوس!میرے بعدتجھ سے کون عدل وانصاف کرے گا، پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی خارجیوں  کے بارے میں  فرمایااس شخص سے اوراس جیسے لوگوں  سےبچ کررہو،

فَإِنَّ فِی أُمَّتِی أَشْبَاهَ هَذَا یَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهُمْ ، فَإِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ، وَذُكِرَ لَنَا أَنَّ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا أُعْطِیكُمْ شَیْئًا وَلَا أَمْنَعُكُمُوهُ إِنَّمَا أَنَا خَازِنٌ

میری امت میں  کچھ اس طرح کے لوگ ہوں  گے جوقرآن توپڑھیں  گے مگروہ ان کے حلق سے آگے نہیں  جائے گا،جب اس طرح کے لوگ نکل آئیں  توان سے قتال کرو،پھرجب یہ نکلیں  توان سے لڑائی کرو ، پھرجب یہ نکلیں  توپھران سے لڑائی کرو،ہم سے یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! میں  تمہیں  (اپنی طرف سے)کوئی چیزدیتاہوں  نہ کسی چیزکوتم سے روکتاہوں  کیونکہ میں  توخازن ہوں  ۔[42]

جس طرح ایک نومسلم صحرائی ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں  آتاہے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَیْنٍ، وَفِی ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْبِضُ مِنْهَا، یُعْطِی النَّاسَ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، اعْدِلْ، قَالَ:وَیْلَكَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ؟ لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے لوٹ کر جعرانہ میں  تھے اوربلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں  کچھ چاندی تھی، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مٹھی میں  لے لے کربانٹ رہے تھےاورلوگوں  کودے رہے تھے، تو( بنی تمیم کاایک شخص ذوالخویصرہ جس کانام حرقوص تھا)ایک شخص آیا،اوراس نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )عدل کرو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھ پر افسوس! اگرمیں  ہی انصاف نہیں  کروں  گاتودنیامیں  پھرکون انصاف کرے گا،اگرمیں  ظالم ہوجاؤں  تب تومیری بھی تباہی اوربربادی ہو جائے۔[43]

نَظَرَ إِلَیْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ:(إِنَّهُ یَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ) یَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِیَامَهُ مَعَ صِیَامِهِمْ، یَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ كَمَا یَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ ،فَأَیْنَمَا لَقِیتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ،شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَاءِ

جب یہ شخص واپس جارہاتھاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں  فرمایااس کی نسل سے ایسے لوگ پیداہوں  گے، تم میں  سے ہرایک اپنی نمازکوان کی نمازوں  کے مقابلے میں  ، اوراپنے روزوں  کوان کے روزوں  کے مقابلے میں  حقیرسمجھے گا، وہ قرآن پڑھیں  گے مگروہ ان کے حلقوں  سے آگے نہیں  جائے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں  گے جیسے تیرشکارسے نکل جاتاہے،جب تم ان لوگوں  کوملوتوقتل کردو، آسمان کی چھت تلے قتل ہونے والے یہ بدترین لوگ ہوں  گے۔[44]

تمام احادیث کوجمع کیاگیاہے۔

پس اگراس میں  سے انہیں  کچھ عنایت کردیاجائے توراضی ہوجاتے ہیں  اوراگرنہ دیا جائے تو ناخوش ہوجاتے ہیں  ، حالانکہ بندے کے لئے مناسب نہیں  کہ اس کی رضا اور ناراضگی دنیاوی خواہش نفس اورکسی فاسدغرض کے تابع ہو،بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اپنے رب کی رضاکے تابع ہوں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى یَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ

جیسے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن العاص سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں  ہوسکتاجب تک اس کی خواہشات اس چیزکے تابع نہ ہوں  جومیں  لے کرآیاہوں  ۔[45]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صدقات سے انہیں  کم عنایت کیاتھا یا زیادہ ،اگریہ اس پرقانع رہتے اوراللہ نے انہیں  جوکچھ عطا فرما رکھا ہے اس کواپنے لئے کافی سمجھتے ہوئے عاجزی سے کہتے کہ اللہ نے ہمارے مقدرمیں  جولکھ دیا ہے ہم اس پرراضی ہیں  ،وہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں  اور بہت کچھ عنایت فرمائے گا، اوراس کارسول بھی ہم کوحسب استحقاق زکوة اورغنایم سے استفادہ کاموقع دے گا،ہم اللہ کی خوشنودی اور فضل وکرم کی امیدرکھتے ہیں  ۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۖ فَرِیضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٦٠﴾‏(التوبة)
صدقے صرف فقیروں  کے لیے ہیں  اور مسکینوں  کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں  کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں  اور گردن چھڑانے میں  اور قرضداروں  کے لیےاور اللہ کی راہ میں  اور مسافروں  کے لیے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

زکوٰة وصدقات کامصرف اللہ کے حکم کے تحت ہے :طعن کادروازہ بندکرنے کے لئے صدقات واجبہ کے مستحق لوگوں  کاتذکرہ کیاگیاکہ صدقات وخیرات کی تقسیم پیغمبرکی مرضی پرموقوف نہیں  ،بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے آٹھ مصرف ہیں  جن پریہ رقم خرچ کی جائے گی، جیسے فقیرومسکین یعنی وہ حاجت مندجواپنی حاجات وضروریات کو پوراکرنے کے لئے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں  ،بعض نے فقیرکی یہ تفسیربیان کی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یاجس سے کفایت ہوسکتی ہواس کے پاس اس کے نصف سے بھی کم ہو،

قَالَ عُمَرُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: الْفَقِیرُ لَیْسَ بِالَّذِی لَا مَالَ لَهُ، وَلَكِنَّ الْفَقِیرَ الْأَخْلَقُ الْكَسْبِ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہواسی کوفقیرنہیں  کہتے بلکہ فقیروہ بھی ہے جومحتاج ہو،گراپڑاہوگوکچھ کھاتاکماتابھی ہو۔[46]

ورُوی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمُجَاهِدٍ، وَالْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ، وَابْنِ زَیْدٍ. وَاخْتَارَ ابْنُ جَرِیرٍ وَغَیْرُ وَاحِدٍ أَنَّ الْفَقِیرَ: هُوَ الْمُتَعَفِّفُ الَّذِی لَا یَسْأَلُ النَّاسَ شَیْئًا، وَالْمِسْكِینَ: هُوَ الَّذِی یَسْأَلُ وَیَطُوفُ وَیَتَّبِعُ النَّاسَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،مجاہد رحمہ اللہ ،حسن بصری رحمہ اللہ اورابن زید کہتے ہیں  فقیروہ ہے جونادارہونے کے باوجودسوال سے بچے اورلوگوں  سے کسی چیزکا سوال نہ کرے،اور مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جوگداگرہوگھوم پھرکراورلوگوں  کے پیچھے پڑکر مانگتاہو۔[47]

وَقَالَ قَتَادَةُ: الْفَقِیرُ: مَنْ بِهِ زَمَانَةٌ، وَالْمِسْكِینُ: الصَّحِیحُ الْجِسْمِ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  فقیروہ ہے جوبیماری والاہو، اورمسکین وہ ہے جوصحیح سالم جسم والاہو۔[48]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ المِسْكِینُ الَّذِی یَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَكِنِ المِسْكِینُ الَّذِی لاَ یَجِدُ غِنًى یُغْنِیهِ، وَلاَ یُفْطَنُ بِهِ، فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْهِ وَلاَ یَقُومُ فَیَسْأَلُ النَّاسَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسکین وہ گھومنے پھرنے والانہیں  جوایک ایک یا دو دولقمے یا کھجورکے لئے گھرگھرپھرتاہے، بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنامال بھی نہ ہوجواسے بے نیازکردے ،نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپرطاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پرصدقہ کریں  اورنہ خودلوگوں  کے سامنے دست سوال دراز کرے۔[49]

ان کے علاوہ وہ لوگ جوحکومت کی طرف سے زکوٰة وصدقات کی وصولی وتقسیم اوراس کے حساب کتاب پر مامور ہوں  ،یاصدقات کے مویشیوں  کو چرانے اوران کی نقل وحمل کا انتظام کرنے والے ہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دارجن پرصدقہ حرام ہے اس عہدے پرمعاوضہ پرکام نہیں  کرسکتے ،جیسے عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بن ربیعہ بن حارث اورفضل رضی اللہ عنہ بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کرگئے کہ ہمیں  صدقہ وصولی کا عامل بنادیں

ثُمَّ قَالَ:إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِی لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایاکہ محمداورآل محمد پر صدقہ حرام ہے،یہ تو لوگوں  کا میل کچیل ہے۔[50]

اوران لوگوں  کے لئے جن کی اپنی قوم میں  اطاعت کی جاتی ہو اور وہ کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہوں  اوران کی امدادکرنے پر یہ امیدہوکہ وہ مسلمان ہوجائیں  گے،

كَمَا أَعْطَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّةَ مِنْ غَنَائِمِ حُنَیْنٍ وَقَدْ كَانَ شَهِدَهَا مُشْرِكًا، وَمِنْهُمْ مَنْ یُعْطَى لیحسُن إِسْلَامُهُ، وَیَثْبُتَ قَلْبُهُ كَمَا أَعْطَى یَوْمَ حُنَیْنٍ أَیْضًا جَمَاعَةً مِنْ صَنَادِیدِ الطُّلَقَاءِ وَأَشْرَافِهِمْ: مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَقَالَ:إِنِّی لَأُعْطِی الرَّجُلَ وَغَیْرُهُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْهُ، مَخَافَةَ أَنْ یَكُبَّه اللهُ عَلَى وَجْهِهِ فِی نَارِ جَهَنَّمَ

جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کوغنیمت حنین کامال دیاتھاحالانکہ وہ اس وقت کفرکی حالت میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلاتھا، دوسرے وہ نومسلم افرادجن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لئے امداددینے کی ضرورت ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم حنین کومکہ مکرمہ کے آزادکردہ لوگوں  کے سرداروں  کوسوسواونٹ عطافرمائے تھے،اورارشادفرمایاکہ میں  ایک کودیتاہوں  دوسرے کوجواس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں  دیتا،اس لئے کہ ایسانہ ہوکہ یہ اوندھے منہ جہنم میں  گرپڑے۔[51]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَعَثَ عَلِیٌّ عَلَیْهِ السَّلَامُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَیْبَةٍ فِی تُرْبَتِهَا مِنَ الْیَمَنِ، فَقَسَمَهَا بَیْنَ أَرْبَعَةٍ: الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِیمِیِّ، وَبَیْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِیِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِی كِلَابٍ، وَبَیْنَ عُیَیْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیِّ، وَبَیْنَ زَیْدِ الْخَیْلِ الطَّائِیِّ،فَقَالَ: إِنِّی أَتَأَلَّفُهُمْ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے یمن سے کچاسونامٹی سمیت آپ کی خدمت میں  بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سوناصرف چاراشخاص اقرع بن حابس ،عیینہ بن بدر،علقمہ بن علاثہ اورزیدالخیر میں  تقسیم فرمادیااورفرمایامیں  ان کی دلجوئی کے لئے انہیں  دے رہاہوں  ۔[52]

وَمِنْهُمْ مَنْ یُعطَى لِمَا یُرْجَى مِنْ إِسْلَامِ نُظَرَائِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یُعطَى لِیَجْبِیَ الصَّدَقَاتِ مِمَّنْ یَلِیهِ،أَوْ لِیَدْفَعَ عَنْ حَوزة الْمُسْلِمِینَ الضَّرَرَ مِنْ أَطْرَافِ الْبِلَادِ

کچھ لوگوں  کواس لیے دیاجاتاہے کہ ان جیسے لوگوں  کے اسلام لانے کی امیدہوتی ہے،کچھ لوگوں  کواس لیے دیاجاتاہے تاکہ وہ اپنے میل جول اورتعلق والے لوگوں  کو صدقہ پہنچائے ، یاجن کوامداددینے کی صورت میں  یہ امیدہوکہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں  کو مسلمانوں  پرحملہ آورہونے سے روکیں  گے اوراس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں  کا تحفظ کریں  ۔

یہ اوراس قسم کی دیگرصورتیں  تالیف قلب کے لئے خرچ کی جاسکتی ہیں  چاہے مذکورہ افرادمال دارہی ہوں  ،اسلام نے غلامی کی لعنت کوختم کیا اور اس سلسلہ میں  ایک مدہرقسم کے غلام کو آزادکراناہے،جنہوں  نے اپنے آقاؤں  سے مکاتبت کے ذریعے سے آزادی خریدرکھی ہواوروہ غلامی سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں  ،اس سلسلہ میں  احادیث میں  بہت فضیلت بیان کی گئی ہے یہاں  تک فرمایا

وَأَنَّ اللهَ یُعْتِقُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنْ مُعتقهاحَتَّى الفَرْج بِالْفَرْجِ

آزادکردہ غلام کے ہرہرعضوکے بدلے آزادکرنے والے کاہرہرعضوجہنم سے آزاد ہو جاتا ہے،یہاں  تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔[53]

وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِأَنَّ الْجَزَاءَ مِنْ جِنْسِ الْعَمَلِ

کیونکہ ہرنیکی کی جزااسی جیسی ہوتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۹ۙ [54]

ترجمہ:تمہیں  وہی جزادی جائے گی جوتم نے کیاہوگا۔

عَنِ الْبَرَاءِ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: دُلَّنِی عَلَى عَمَلٍ یُقَرِّبُنِی مِنَ الْجَنَّةِ وَیُبَاعِدُنِی مِنَ النَّارِ , قَالَ:لَئِنْ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ أَعْتِقِ النَّسَمَةَ وَفُكَّ الرَّقَبَةِ , فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَلَیْسَا وَاحِدًا؟ , فَقَالَ:لَا عِتْقُ النَّسَمَةِ أَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِهَا , وَفَكُّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِینَ فِی ثَمَنِهَا

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااور عرض کیامجھے کوئی ایساعمل بتائیے جومجھے جنت سے قریب ترکردےاوردوزخ سے انتہائی دورکردے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغلام کوآزادکراورگردن خلاصی کر،اس شخص نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دونوں  ایک ہی چیزنہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  غلام کی آزادی یہ ہے کہ تواکیلاہی کسی غلام کوآزادکرے، اورگردن خلاصی یہ ہے کہ توبھی اس میں  جوتجھ سے ممکن ہوسکے مدد کرے۔[55]

یاکوئی مسلمان جوکفارکی قیدمیں  ہیں  انکوآزادکرانے کے لئے بھی زکوٰة کا مال خرچ کیا جاسکتاہے، اورمقروض جواپنے اہل وعیال کے نان ونفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں  لوگوں  کے زیربارہوگئے ،اوران کے پاس تقدرقم بھی نہیں  ہے اور ایساسامان بھی نہیں  ہے جسے بیچ کرقراض اداکرسکیں  ،دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں  جنہوں  نے کسی کی ضمانت دی اورپھروہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دارقرار پا گئے، یا کسی کی فصل تباہ بربادہوگئی، یاکاروبارخسارے کاشکارہوگیااوراس بنیاد پروہ مقروض ہوگیا،ان سب افرادکی زکوٰة کی مدمیں  امدادکرناجائزہے ،جیسے قبیصہ بن مخارق ہلالی کی روایت ہے کہ میں  نے دوسرے کاحوالہ اپنی طرف لیاتھاپھرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا

فَقَالَ:أَقِمْ حَتَّى تَأْتِیَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: یَا قَبِیصة، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تحمَّل حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى یُصِیبَهَا، ثُمَّ یُمْسِكَ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ: أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ،وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى یَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِی الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ،فَیَقُولُونَ: لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ، حَتَّى یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ،مَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ سُحْتٌ، یَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا

توآپ نے فرمایاتم ٹھیروہمارے پاس مال صدقہ آئے گاہم اس میں  سے تمہیں  دیں  گے،پھرفرمایااے قبیصہ سن!تین قسم کے لوگوں  کوہی سوال جائزہےایک تووہ جوضامن پڑےپس اس رقم کے پوراہونے تک اسے سوال کرناجائزہےپھرسوال نہ کرے،دوسراوہ جس کامال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہوجائے اسے بھی سوال کرنادرست ہے یہاں  تک کہ ضرورت پوری ہوجائے،تیسراوہ شخص جس پرفاقہ گزرنے لگے اوراس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہوجائیں  ، کہ ہاں  بیشک فلاں  شخص پرفاقے گزرنے لگے ہیں  اسے بھی مانگ لیناجائزہے تاوقتیکہ اس کاسہاراہوجائے اورسامان زندگی مہیاہوجائے،ان کے سوااوروں  کوسوال کرناحرام ہے اگروہ مانگ کر،کچھ لے کرکھائیں  گے توحرام کھائیں  گے۔[56]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: أُصِیبَ رَجُلٌ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا، فَكَثُرَ دَیْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَصَدَّقُوا عَلَیْهِ، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَیْهِ، فَلَمْ یَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَیْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِغُرَمَائِهِ:خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ، وَلَیْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ

ابوسعید(سعدبن مالک رضی اللہ عنہ )سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  پھل خریدے مگروہ پھل تباہ ہوئے، اوروہ شخص بہت مقروض ہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس پرصدقہ کرو، لوگوں  نے اس پرصدقہ کیامگروہ اس کے قرض کے برابرنہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قرض لینے والوں  سے فرمایاتمہیں  جوملے وہ لے لواوربس تمہارے لیے یہی ہے۔[57]

اور مجاہد پر جو رضاکارانہ جہادمیں  شریک ہوتے ہیں  ان کی سواری ،اسلحہ اوراس کے اہل وعیال کی کفالت پریہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے وہ مالدارہی ہو اورایک حدیث میں  ہے کہ حج وعمرہ بھی فی سبیل اللہ میں  داخل ہے،اسی طرح بعض علماکے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں  داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصدجہادکی طرح اعلائے کلمة اللہ ہے ، اور مسافرجوسفرمیں  مستحق امداد ہو گیا ہوتوچاہے وہ اپنے گھریاوطن میں  صاحب حیثیت ہی ہواس کی امدادزکوٰة کی رقم سے کی جاسکتی ہے،یہ اللہ کی طرف سے مقدرہے،اللہ ظاہر و باطن کاجاننے والاہے وہ اپنے بندوں  کی مصلحتوں  سے خوب واقف ہے۔

وَمِنْهُمُ الَّذِینَ یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَیَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِینَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِینَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٦١﴾‏یَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِیُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن یُرْضُوهُ إِن كَانُوا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٦٢﴾‏ أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن یُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیهَا ۚ ذَٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیمُ ‎﴿٦٣﴾‏(التوبة)
ان میں  سے وہ بھی ہیں  جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں  اور کہتے ہیں  کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لیے ہیں  وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں  کی بات کا یقین کرتا ہےاور تم میں  سے جو اہل ایمان ہیں  یہ ان کے لیے رحمت ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں  ان کے لیے دکھ کی مار ہے، محض تمہیں  خوش کرنے کے لیے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں  کھا جاتے ہیں  حالانکہ اگر یہ ایمان دار ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے،کیا یہ نہیں  جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے یقیناً دوزخ کی آگ ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبردست رسوائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی باربارتنبیہات کے باوجودمنافقین اپنی سازشوں  اورشرارتوں  سے بازنہیں  آتے تھے ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایذاپہنچانے کے لئے آپ کی عقل ودانش میں  عیب نکالتے تھے،آپ کوعدم ادراک اورسچے اورجھوٹے کے درمیان امتیازنہ کرسکنے کی صفات سے متصف کرتے تھے، حالانکہ آپ مخلوق میں  سب سے زیادہ عقل کامل سے بہرہ مند،بدرجہ اتم ادراک کے حامل،عمدہ رائے اورروشن بصیرت رکھنے والے تھے ، ،چنانچہ جب سچے اہل ایمان منافقین کی سازشوں  اوران کی شرارتوں  اوران کی مخالفانہ گفتگووں  کاحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ،تویہ لوگ کہتے کہ آپ ہم جیسے شرفاومعززین کے خلاف ہرایک کی دی ہوئی خبروں  پریقین کرلیتے ہیں  ،اورجب ہم آپ کے پاس آکر قسمیں  کھاتے ہیں  توہمیں  بھی سچامان لیتے ہیں  ،گویامعاذاللہ آپ میں  حق وباطل کے امتیازکی صلاحیت نہیں  ،

قَالَ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ قَالَ: وَاللهِ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَخِیَارُنَا وَأَشْرَافُنَا وَإِنْ كَانَ مَا یَقُولُ مُحَمَّدٌ حَقًّا، لَهُمْ شَرٌّ مِنَ الْحَمِیرِ،قَالَ: فَسَمِعَهَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقَالَ: وَاللهِ إِنَّ مَا یَقُولُ مُحَمَّدٌ لَحَقٌّ، وَلَأَنْتَ أَشَرُّ مِنَ الْحِمَارِقَالَ: فَسَعَى بِهَا الرَّجُلُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَه،فَأَرْسَلَ إِلَى الرَّجُلِ فَدَعَاهُ فَقَالَ:مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِی قُلْتَ؟ فَجَعَلَ یَلْتَعِنُ، وَیَحْلِفُ بِاللهِ مَا قَالَ ذَلِكَ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ یَقُولُ: اللهُمَّ صَدِّقِ الصَّادِقَ وَكَذِّبِ الْكَاذِب، فَأَنْزَلَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ: یَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ۰ۚ وَاللهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۶۲

واقعہ یہ ہواکہ ایک منافق کہہ رہاتھاکہ ہمارے سرداراوررئیس بڑے ہی عقل مند،دانااورتجربہ کارہیں  ، اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں  حق ہیں  تووہ (مسلمان) گدھوں  سے بھی بدترہے،اس منافق کی یہ بات ایک مسلمان نے سن لی، اوراس نے کہااللہ کی قسم !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں  برحق ہیں  اوربلاشبہ توگدھے سے بھی بدترہے،پھراس صحابی رضی اللہ عنہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکرساراواقعہ گوش گزارکیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کوپیغام دے کربلوایا اورفرمایا کیاتم نے یہ بات کیوں  کہی ہے؟لیکن اس نے لعنتیں  اور قسمیں  کھاناشروع کردیں  اس نے ایسی کوئی بات نہیں  کہی یہ شخص مجھ پرتہمت باندھتاہے، یہ صورت حال دیکھ کراس صحابی رضی اللہ عنہ نے دعاکی اے پروردگار!توسچے کو سچا اورجھوٹے کوجھوٹا کردکھا، اس پریہ آیت’’یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں  کھاتے ہیں  تاکہ تمہیں  راضی کریں  حالانکہ اگریہ مومن ہیں  تواللہ اوررسول اس کے زیادہ حق دارہیں  کہ ان کوراضی کرنے کی فکرکریں  ۔‘‘ نازل ہوئی۔[58]

اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ تمہارایہ خیال غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک کی بات پریقین کرلیتے ہیں  اورجھوٹے سچے میں  تمیزنہیں  کرتے ، بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں  توجہ سے سنتے ہیں  اوراس میں  تمہارے لئے خیروبھلائی ہی ہے مگراعتمادصرف سچے مسلمانوں  کی بات کاہی کرتے ہیں  ، اگروہ تمہاری سازشوں  سے صرف نظرنہ کرتے، توایمان کے جھوٹے دعووں  ،خیرسگالی کی نمائشی باتوں  اوراللہ کی راہ میں  عذرات لنگ پرتمہاری خبرلے لیتے ،اور تمہارامدینہ منورہ میں  جینا دشوار ہوجاتا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں  کے لئے سراسر رحمت ہیں  جوتم میں  سے ایمان لائے ہیں  ،اوربے ایمانوں  کے لئے اللہ کی حجت ہیں  ،جولوگ اپنے قول وفعل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودکھ پہنچاتے ہیں  ، ان کے لئے دنیا و آخرت میں  دردناک عذاب ہے،ان کی طرف سے جوآپ کوایذاپہنچی وہ خودکواس سے بری کرنے اورتمہیں  راضی رکھنے کے لئے قسمیں  کھاتے ہیں  ، حالانکہ اگروہ مومن ہوں  تو اللہ اوراس کارسول اس بات کے زیادہ حق دارہیں  کہ وہ ان کوراضی کریں  ، کیونکہ بندہ مومن اپنے رب کی رضاپرکسی چیزکوترجیح نہیں  دیتا،پھروعیدفرمائی کہ جواللہ تعالیٰ کے اوامرکی اہانت وتحقیراوراس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے تواس کے لئے ذلت ورسوائی اورجہنم کی آگ ہے ،جس میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِی قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآیَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِیمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِینَ ‎﴿٦٦﴾‏(التوبة)
منافقوں  کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں  مسلمانوں  پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں  کی باتیں  انہیں  بتلا دے کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو، اگر آپ ان سے پوچھیں  تو صاف کہہ دیں  گے کہ ہم تو یونہی آپس میں  ہنس بول رہے تھے، کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں  اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں  ؟ تم بہانے نہ بناؤیقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے ، اگر ہم تم میں  سے کچھ لوگوں  سے درگزر بھی کرلیں  تو کچھ لوگوں  کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں  گے۔

یہ منافق ڈررہے ہیں  کہ کہیں  مسلمانوں  پرکوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جوان کے بھیدیعنی منافقت کاپردہ چاک کر دے،

عَنْ مُجَاهِدٍ{یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُورَةٌ} قَالَ: یَقُولُونَ الْقَوْلَ بَیْنَهُمْ، ثُمَّ یَقُولُونَ: عَسَى اللهُ أَنْ لَا یُفْشِیَ سِرَّنَا عَلَیْنَا

مجاہد آیت کریمہ’’یہ منافق ڈررہے ہیں  کہ کہیں  مسلمانوں  پرایسی سورت نازل نہ ہوجائے ۔‘‘کے بارے میں  بیان کرتے ہیں  کہ منافق آپس میں  بیٹھے بری باتیں  کرتے تھے پھرکہتے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس رازکوفاش نہیں  کرے گا ۔[59]

جیسے فرمایا

وَاِذَا جَاۗءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِہِ اللہُ۝۰ۙ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللہُ بِمَا نَقُوْلُ۝۰ۭ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۚ یَصْلَوْنَہَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۸ [60]

ترجمہ:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں  تو تمہیں  اس طریقے سے سلام کرتے ہیں  جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں  کیا ہے، اور اپنے دلوں  میں  کہتے ہیں  کہ ہماری باتوں  پر اللہ ہمیں  عذاب کیوں  نہیں  دیتا(اے پیغمبر!) ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے اسی کا وہ ایندھن بنیں  گے بڑا ہی برا انجام ہے ان کا ۔

غزوہ تبوک کے دنوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوزوروشورسے جہاد تیاریاں  کرتے دیکھ کر منافقین اکثراپنی مجلسوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے اوراپنی تضحیک سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہمتیں  پست کرنے کی کوشش کرتے تھے ،اس سلسلہ میں  بہت سے اقوال منقول ہیں  مثلاًایک محفل میں  چندمنافق بیٹھے آپس میں  باتیں  کررہے تھے

أَتَحْسِبُونَ جَلَّادَ بَنِی الْأَصْفَرِ كَقِتَالِ الْعَرَبِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا! وَاَللَّهِ لَكَأَنَّا بِكَمْ غَدًا مُقَرَّنِینَ فِی الْحِبَالِ، إرْجَافًا وَتَرْهِیبًا لِلْمُؤْمِنِینَ، فَقَالَ مُخَشِّنُ بْنُ حُمَیِّرٍ: وَاَللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّی أُقَاضِی عَلَى أَنْ یُضْرَبُ كُلَّ (رجل) منّا مائَة جَلْدَةٍ

ایک نے کہاکیاان مسلمانوں  نے رومیوں  کوبھی عربوں  جیساناتجربہ کار،بے سروساماں  اورقلیل التعداد سمجھاہے ؟ تم دیکھ لینایہ سب جوجہادپرجانے کے لئے تڑپ رہے ہیں  رسیوں  میں  جکڑے ہوئے پڑے ہوں  گےیعنی شکست کھا کر اسیر ہوئے پڑے ہوں  گے،دوسرامنافق مخشن بن حمیر بولااللہ کی قسم !اس پرمزیدیہ ہوکہ انہیں  سوسوکوڑے لگانے کابھی حکم ہوجائے۔[61]

فَقَالُوا: یَظُنُّ هَذَا أَنْ یَفْتَحَ قُصُورَ الرُّومِ وَحُصُونَهَا، هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ

ایک منافق نے کہاکیاآ نکھیں  پھٹ گئی ہیں  کہ اس بے سروسامانی میں  روم وشام کے قلعے اورمحلات فتح کرنے چلے ہیں  ،بھلااس عقلمندی اوردوربینی کوتودیکھیں  ۔[62]

ایک منافق نے ایک مسلمان نوجوان سے گفتگوکرتے ہوئے کہا

لَئِنْ كَانَ هَذَا الرّجُلُ صَادِقًا لَنَحْنُ شَرّ مِنْ الْحُمُرِ

اگرواقعی وہ سب کچھ برحق ہے جویہ شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم )پیش کرتاہے توہم سب گدھوں  سے بھی برترہیں  ۔(الروض الانف۲۰۸؍۴)

َٔنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ قَالَ لِعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ: مَا لِقُرَّائِنَا هَؤُلَاءِ أَرْغَبَنَا بُطُونًا وَأَكْذَبَنَا أَلْسِنَةً وَأَجَبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ ، فَقَالَ لَهُ عَوْفٌ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ مُنَافِقٌ، لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ! فَذَهَبَ عَوْفٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَهُ، فَوَجَدَ الْقُرْآنَ قَدْ سَبَقَهُ، فَقَالَ زَیْدٌ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ مُتَعَلِّقًا بِحَقَبِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَنْكُبُهُ الْحِجَارَةُ، یَقُولُ:إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ! فَیَقُولُ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَبِاللهِ وَآیَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ مَا یَزِیدُهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،محمدبن کعب،زیدبن اسلم اورقتادہ رحمہ اللہ سے مختلف الفاظ سے مروی ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پرایک منافق نے کہاہم نے پیٹ کے پجاری،زبان کے جھوٹے اورمیدان جنگ میں  سب سے زیادہ بزدل ان علم والوں  سے بڑھ کراورکوئی نہیں  دیکھا،اس کی مرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قراء صحابہ رضی اللہ عنہم تھے،عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس سے کہاتوجھوٹاہے اور(پکا)منافق ہے میں  تیری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوضروربتاؤں  گا، چنانچہ عوف رضی اللہ عنہ بتانے کی غرض سے آپ کے پاس گئے مگران کے آنے سے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی(وہ منافق بھی آپ کی خدمت میں  معذرت کے لیےآپہنچاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پرسوارہوکرروانہ ہوچکے تھے، وہ بولااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوگ تومحض دل بہلانے کے لیے ایسی بات چیت اورسواروں  کی سی باتیں  کررہے تھے تاکہ سفرکی مشقت ہلکی کرسکیں  (اور بوریت نہ ہو)عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  وہ منظراب بھی میرے سامنے ہے کہ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی کے ساتھ چمٹاہواہے اورپتھراس کے پاؤں  سے ٹکرارہے ہیں  ، اوروہ کہہ رہاہے ہم تومحض بات چیت اوردل لگی کررہے تھے، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں  کیااللہ تعالیٰ اس کی آیات اوراس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مزاق کے لیے رہ گئے ہیں  ، تم بہانے نہ بناؤیقیناًتم نے ایمان لانے کے بعد(یہ بات کرکے)کفرکاارتکاب کیاہے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف التفات فرمارہے تھے نہ اس پرکچھ مزیدفرمارہے تھے۔[63]

منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرسچا ایمان تونہیں  رکھتے تھے، لیکن وہ یہ ضرورسمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسافوق الفطری ذریعہ ضرورہے جس سے آپ کوپوشیدہ رازوں  ،سازشوں  اور شرارتوں  کی خبرپہنچ جاتی ہے، اس لئے وہ اپنی کہی ہوئی باتوں  کے وبال سے گھبراتے بھی تھے کہ کہیں  مسلمانوں  پرایسی کوئی سورت نازل نہ ہوجائے جس سے ان کابھانڈا پھوٹ جائے،اس کے علاوہ یہ لوگ مسجدضرارمیں  بیٹھ کر آیات الٰہی کامذاق اڑاتے،مومنین کااستہزاء اورتمسخراڑاتے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں  گستاخانہ کلمات کہنے سے گریزنہ کرتے،جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں  کواورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہوجاتی تھی، لیکن جب ان سے پوچھاجاتا تو صاف مکرجاتے اورکہتے ہم تویوں  ہی آپس میں  ہنسی مذاق کررہے تھے ،اللہ تعالیٰ نےفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہہ دیں  کہ ہمارے فرامین اورہمارے رسول کااورمذاق اڑاؤ،جس راز کے کھل جانے کاتم کودھڑکا لگا ہواہے اللہ تعالیٰ وہ رازافشاء کردے گا اورتم ذلیل ورسواہوجاؤگے ،جیسے فرمایا

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللہُ اَضْغَانَہُمْ۝۲۹ وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَیْنٰكَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیْمٰہُمْ۝۰ۭ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْـقَوْلِ۝۰ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ۝۳۰ [64]

ترجمہ:کیا وہ لوگ جن کے دلوں  میں  بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ اللہ ان کے دلوں  کے کھوٹ ظاہر نہیں  کرے گا ؟ہم چاہیں  تو انہیں  تم کو آنکھوں  سے دکھا دیں  اور ان کے چہروں  سے تم ان کو پہچان لو مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لو گے،اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپناوعدہ پوراکردیا،اوریہ سورت نازل فرمائی جوان کے کرتوت بیان کرکے ان کورسواکرتی اوران کے رازوں  پرسے پردہ اٹھاتی ہے،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ:سُورَةُ التَّوْبَةِ، قَالَ:التَّوْبَةُ هِیَ الفَاضِحَةُ، مَا زَالَتْ تَنْزِلُ، وَمِنْهُمْ وَمِنْهُمْ، حَتَّى ظَنُّوا أَنَّهَا لَنْ تُبْقِیَ أَحَدًا مِنْهُمْ إِلَّا ذُكِرَ فِیهَا،

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورہ توبہ کے متعلق پوچھاتوانہوں  نے کہا سورۂ التوبہ رسواکرنے والی سورت ہے،اس سورت میں  برابریہی نازل ہوتارہابعض لوگ ایسے ہیں  اوربعض ایسے ہیں  یہاں  تک کہ لوگوں  کوگمان ہواکہ یہ سورت کسی کاکچھ بھی نہیں  چھوڑے گی بلکہ سب کے بھیدکھول دے گی۔ [65]

اگران سے پوچھوکہ کیاباتیں  ہورہی تھیں  تو جھٹ سے قسم کھاکر کہہ دیں  گے ہم توآپس میں  ہنسی مذاق کررہے تھے ،ہمارامقصدکسی کو نشانہ بنانا،طعن کرنایاعیب جوئی نہیں  تھا،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاتمہاری دل لکی،ہنسی مذاق، ٹھٹھے اللہ اوراس کی آیات اوراس کے رسول ہی کے لئے ہے،یہ یقیناًتمہارے خبث اورنفاق کااظہارہے جوآیات الٰہی اورہمارے پیغمبرکے خلاف تمہارے دلوں  میں  موجود ہے ،اللہ اوررسول کے استہزاء وتمسخرکے بعداب تمہارے ظاہری ایمان کی بھی کوئی حیثیت نہیں  رہ گئی،تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیاہے کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ ، اس کے دین اوراس کے رسول کی تعظیم پرمبنی ہے، ان میں  سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنااس اساس کے منافی اورسخت متناقض ہے، اگراللہ نے جوستارہے اور اپنے بندوں  کے گناہوں  کی پردہ پوشی کوپسندکرتاہے، کچھ لوگوں  کو جنہوں  نے توبہ واستغفاراورندامت کرلی اورمخلص مسلمان بن گئے معاف کربھی دیا تویہ اس کا رحم وکرم ہے، مگر جو لوگ اپنے کفرونفاق پراڑے رہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے لائے ہوئے دین کواپنے دعوئے ایمان کے باوجودایک مضحکہ سمجھتے رہے اورجن کی خواہش رہی کہ اہل ایمان کی ہمتیں  پست ہو جائیں  اوروہ پوری دل جمعی اورتن دہی سے جہادکی تیاری نہ کرسکیں  ، ان لوگوں  کوہرگزمعاف نہیں  کیاجائے گاکیونکہ وہ مجرم ہیں  اورانہیں  سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی۔

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ یَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ أَیْدِیَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِیَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ هِیَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیمٌ ‎﴿٦٨﴾‏الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِینَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِی خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ أَلَمْ یَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِیمَ وَأَصْحَابِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٧٠﴾(التوبة)
’’تمام منافق مرد اور عورت آپس میں  ایک ہی ہیں  یہ بری باتوں  کا حکم دیتے ہیں  اور بھلی باتوں  سے روکتے ہیں  اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں  ، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں  بھلا دیا بیشک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں  ، اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں  ، عورتوں  اور کافروں  سے جہنم کی آگ کا وعدہ کرچکا ہے جہاں  یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں  وہی انہیں  کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان ہی کے لیے دائمی عذاب ہے، مثل ان لوگوں  کے جو تم سے پہلے تھے تم سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال اولاد والے تھےپس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں  نے کی تھی، ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں  غارت ہوگئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں  ، کیا انہیں  اپنے سے پہلے لوگوں  کی خبریں  نہیں  پہنچیں  ، قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل موتفکات (الٹی ہوئی بستیوں  کے رہنے والے) کی، ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں  لے کر پہنچے، اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں  نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔

منافقین جوقسمیں  کھاکرمسلمانوں  کویہ یقین دہانی کراتے تھے کہ وہ انہیں  میں  سے ہیں  ، اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کی تردیدفرمائی کہ منافق مردوں  اورمنافق عورتوں  میں  کفرو نفاق قدرمشترک ہے اس لئے یہ باہم دوست ہیں  ،ان کی وصف یہ ہے کہ یہ اللہ کی زمین پراللہ کارزق کھاکر،اللہ کی نعمتوں  سے فائدہ اٹھاکرلوگوں  کو کفر،فسق اورمعصیت کا حکم دیتے ہیں  ، اورلوگوں  کوایمان،اخلاق فاضلہ،اعمال صالحہ اورآداب حسنہ سے روکتے ہیں  ،اوراللہ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں  جوکچھ عنایت کیاہے اپنی بخیلی کی وجہ سے اللہ کی راہ میں  خرچ نہیں  کرتے،یہ اپنی مال ودولت،مرتبہ وحیثیت اوراولادکودیکھ کراپنے خالق اوررازق کوبھول گئے،اللہ کے احکامات کوچھوڑے رکھا اوراگرکچھ عمل کرتے بھی ہیں  توبہت کم،چنانچہ اپنے کفراوراللہ تعالیٰ کے رسول کے ساتھ عداوت کے سبب انہوں  نے اللہ کی یادکوبھلادیاتواللہ تعالیٰ نے بھی انہیں  بھلادیا ،جیسے فرمایا

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَـمَا نَسِیْتُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۔۔۔۝۳۴ [66]

ترجمہ:اور ان سے کہہ دیا جائے گا آج ہم بھی اسی طرح تمہیں  بھلائے دیتے ہیں  جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے ۔

بیشک منافق ہی نافرمان اورحق کے راستے سے خارج ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی بارگاہ سے دھتکاردیاہے اس لیےقیامت کے دن یہ اللہ کے فضل وکرم سے محروم رہیں  گے ،اللہ ان منافق مردوں  اورعورتوں  کواپنی نعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل کرنے کے بجائے جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں  ہمیشہ کے لئے ڈال دے گا،ان منافقین کاحال بھی ان لوگوں  یعنی یہودونصاریٰ جیساہی ہے جنہوں  نے ان سے پہلے نفاق وکفرکاارتکاب کیاتھا،وہ ان لوگوں  سے زیادہ طاقتوار،دولت مند اورزیادہ اولادوالے تھے،اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدرمیں  جولکھ دیاتھااس سے انہوں  نے خوب فائدہ اٹھایا، ان لوگوں  کی طرح تم نے بھی جوتمہاری تقدیرمیں  لکھ دیاتھاخوب فائدہ اٹھایااور دنیاکے اسباب اورلہوولعب میں  مگن رہے، جس طرح وہ کذب وافتراء میں  ڈوبے رہے اسی طرح تم بھی باطل اورمنکرات میں  ڈوبے ہوئے ہو،تم بھی پہلوں  کی طرح باطل اورجھوٹ پراڑے ہوئے ہواورحق کوناکام کرنے کے لئے جھگڑتے ہو،تمہارے اعمال بھی ان لوگوں  کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہیں  ،چنانچہ جس طرح وہ خاسر و نامراد رہے تم بھی اسی طرح رہوگے ،جس طرح وہ عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے اسی طرح تم بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکوگے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:{كَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ}الْآیَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا أَشْبَهُ اللیْلَةِ بِالْبَارِحَةِ {كَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ} هَؤُلَاءِ بَنُو إِسْرَائِیلَ شُبِّهْنَا بِهِمْ لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَتَتَّبِعُنَّهُمْ حَتَّى لَوْ دَخَلَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمُوهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ’’۔۔تم لوگوں  کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں  جوتمہارے پیش روؤں  کے تھے۔‘‘ پڑھ کرفرمایاآج کی رات کل کی رات سے کس قدرمشابہت رکھتی ہے ہمیں  بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے!تم ان(بنی اسرائیل)کی ضروراتباع کروگے، حتی کہ اگران میں  سے کوئی شخص سانڈے کے بل میں  داخل ہواتوتم بھی اس میں  ضرورداخل ہوگے۔[67]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، وَبَاعًا فَبَاعًا، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ دَخَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَمَنْ هُمْ؟ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلُ الْكِتَابِ؟ قَالَ:فَمَهْ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے تم اپنے سے پہلے لوگوں  کے طریقوں  کی ضرورمتابعت کروگے ، بالشت بہ بالشت،ذراع بہ ذراع اورہاتھ بہ ہاتھ یہاں  تک کہ اگروہ کسی گوہ کے بل میں  گھسے ہوں  گے توتم بھی ضرورگھسوگے،لو گوں  نے پوچھاکیااس سے آپ کی مراداہل کتاب ہیں  ؟آپ نے فرمایا اور کون۔[68]

یعنی تم اندھادھندیہودونصاریٰ کی تقلیدکرنے لگوگے ،فکروتامل کامادہ تم سے نکل جائے گا۔چنانچہ امت مسلمہ تفریق درتفریق ہوتے ہوئے سینکڑوں  فرقوں  تک نوبت پہنچ چکی ہے، اورکتاب وسنت کاصرف نام ہی باقی رہ گیاہے۔اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس عذاب سے ڈرایا جوان سے پہلے جھٹلانے والی قوموں  پرنازل ہواتھایعنی قوم نوح علیہ السلام جوطوفان میں  غرق کردی گئی ،قوم عادجوقوت وطاقت میں  ممتازہونے کے باوجودکفروشرک کے باعث بادتندسے ہلاک کر دی گئی ،قوم ثمود یعنی صالح علیہ السلام کوان کی قوم نے جھٹلایا،اللہ کی نشانی اونٹنی کوکاٹ ڈالاجس کے نتیجہ میں  ایک جگردوزکڑاکے کی آواز سے ہلاک کیاگیا،قوم ابراہیم جس کوابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد مٹادیاگیا،اصحاب مدین یعنی شعیب علیہ السلام کی قوم جنہیں  کفرکے بدلے زلزلے اوربادلوں  کے سائے کے عذاب سے تہہ بالاکردیا گیا،اوراہل موتفکات یعنی قوم لوط جنہوں  نے اپنے نبی کاکفرکیااوراپنی بدفعلی چھوڑنے پرتیارنہ ہوئے آخران کی بستی سدوم کواوپراٹھاکرنیچے پھینکاگیاجس سے پوری بستی اوپرنیچے ہوگئی ،جیسے فرمایا

وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَہْوٰى۝۵۳ۙ [69]

ترجمہ:اور اوندھی گرنے والی بستیوں  کو اٹھا پھینکا۔

پھران پرآسمان سے پتھر برسائے گئے ،جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ۔۔۔ ۝۸۳ۧ [70]

ترجمہ:پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے،جن میں  سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں  نشان زدہ تھا ۔

فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۷۴ۭ [71]

ترجمہ: اور ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بارش برسا دی۔

ان سب قوموں  کے پاس ان کے پیغمبرجوان ہی کی قوم کاایک فردہوتاتھاواضح اورروشن نشانیاں  لے کرآئے، مگر انہوں  نے ان کی دعوت حقہ کوقبول کرنے کے بجائے جھٹلایا ، انہوں  نے اللہ کے ذکراوراس کے تقویٰ سے روگرانی کی،انبیاء کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کے ساتھ نہایت حقارت کاسلوک کیااوران کا تمسخر اڑایا،وہ اللہ کی نافرمانیوں  کی جسارت کرتے ہوئے ہرسرکش اورجبارکی بات کے پیچھے لگ گئے،اللہ نے ان کی فہمائش کے لئے رسول بھیجے مگرانہوں  نے رسول پرایمان اوراس کی اطاعت کے بجائے تکذیب اورعنادکاراستہ اختیارکیا،ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے کتاب نازل فرمائی ،انہیں  سوچنے اورسنبھلنے کاپوراپوراموقع دیا،جب انہوں  نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اٹھایا،اورہلاکت وبربادی کی راہ چلنے پرہی اصرار کیا تو لامحالہ ان لوگوں  کومٹادیاگیا ،ورنہ اللہ توغفوررحم ہے ،وہ بخش دینے کوپسندفرماتاہے وہ کسی پرظلم نہیں  کرتا۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ۚ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَیُطِیعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٧١﴾‏ وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَمَسَاكِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٧٢﴾‏(التوبة)
مومن مرد و عورت آپس میں  ایک دوسرے کے( مددگار و معاون اور) دوست ہیں  ، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں  اور برائیوں  سے روکتے ہیں  ،نمازوں  کی پابندی بجا لاتے ہیں  ،زکوة ادا کرتے ہیں  ، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں  ،یہی لوگ ہیں  جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا، بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے ،ان ایمان دار مردوں  اور عورتوں  سے اللہ نے ان جنتوں  کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں  لہریں  لے رہی ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں  اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں  میں  ہیں  اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔

منافقین کی صفات مذمومہ کے تذکرے کے بعدتقابل کے لئے مسلمانوں  کی صفات محمودہ کاذکرفرمایااوران کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون وغم خوارہیں  ،

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن،مومن کے لئے ایک دیوارکی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کاذریعہ ہے ۔[72]

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَرَى المُؤْمِنِینَ فِی تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومنوں  کی مثال آپس میں  ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اوررحم کرنے میں  ایک جسم کی مانند ہے، جب جسم کے ایک عضوکو تکلیف ہوتی ہے توساراجسم تپ کاشکارہوجاتاہے اوروہ بیدار رہتا ہے۔[73]

دوسری صفت بیان فرمائی کہ وہ بھلائی کاحکم دیتے ہیں  مثلاًعقائدحسنہ،اعمال صالحہ اوراخلاق فاضلہ وغیرہ اورسب سے پہلے خوداس میں  داخل ہوتے ہیں  اور برائی مثلاًعقائدباطلہ،اعمال خبیثہ اوراخلاق رذیلہ وغیرہ سےروکتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴ [74]

ترجمہ:تم میں  کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیں  جو نیکی کی طرف بلائیں  بھلائی کا حکم دیں  اور برائیوں  سے روکتے رہیں  جو لوگ یہ کام کریں  گے وہی فلاح پائیں  گے۔

ان کی تیسری صفت میں  دوچیزوں  کاتذکرہ فرمایاکہ وہ حقوق اللہ میں  نمایاں  ترین عبادت فرض اورنفلی نمازقائم کرتے ہیں  ،اورحقوق العبادکے لحاظ سے امتیازی حیثیت فرض اورنفلی زکوٰة اداکرتے ہیں  ،اورہرمعاملے میں  اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں  ،یہی لوگ ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں  رحمت کے سائے میں  داخل کرے گا اورانہیں  اپنے احسان سے نوازے گا،بیشک اللہ طاقتوار، غالب ہے اورحکمت والاہے،پھراللہ تعالیٰ نے اس ثواب کاذکرفرمایاجواس نے اہل ایمان کے لئے تیارکررکھاہے کہ وہ انہیں  انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھرپورجنتوں  میں  داخل فرمائے گا، جس میں  ان کے لئے موتی ویاقوت سے تیارکردہ صاف ستھرے پاکیزہ محلات ہوں  گے ،ان کے محلات اوردرختوں  کے نیچے مختلف اقسام کی نہریں  بہہ رہی ہیں  جو خوبصورت باغات کو سیراب کرتی ہیں  ،وہ ان میں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے،یہ جنتیں  سونے اورچاندی کے دیدہ زیب عمارتوں  پرمشتمل ہیں  ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا، وَمَا بَیْنَ القَوْمِ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ

ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایادوبہشتیں  چاندی کی ہوں  گی،ان کے برتن اور دیگر ساراسازوسامان بھی چاندی کابناہوگا،دوبہشتیں  سونے کی ہوں  گی،ان کے برتن اوردیگرساراسازوسامان بھی سونے کابناہوگا، جنت عدن میں  ان کے اوررب تعالیٰ کے دیدارکے مابین صرف کبریائی کی چادرہوگی جواللہ رب ذوالجلال کے چہرہ اقدس پرہوگی۔[75]

عَبْدِ اللهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّةِ لَخَیْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ، طُولُهَا سِتُّونَ مِیلًا، لِلْمُؤْمِنِ فِیهَا أَهْلُونَ، یَطُوفُ عَلَیْهِمِ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا

عبداللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک مومن کے لیے جنت میں  ایک خیمہ ہوگاجوایک جوف دارموتی سے بناہوگا،اس کاطول آسمان میں  ساٹھ میل ہوگا،اسی خیمے میں  مومن کے اہل وعیال ہوں  گے،وہ ان کے پاس جائے گالیکن وہ ایک دوسرے کودیکھ نہیں  سکیں  گے۔[76]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، هَاجَرَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ؟ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِهِ، كُلُّ دَرَجَتَیْنِ مَا بَیْنَهُمَا كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایااور نماز پڑھی، اور روزہ رکھا،تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں  داخل کر دے،اس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  ہجرت کی ہو یا جس زمین میں  پیدا ہوا وہیں  رہ جائے،لوگوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم لوگوں  کو اس بات کی خبر نہ دیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں  سو درجے ہیں  ،جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں  جہاد کرنے والوں  کے لئے تیار کر رکھے ہیں  ، ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے،پس جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو یہ جنت کا درمیانی درجہ ہےاور بلند ترین درجہ ہے، اور اس کے اوپر عرش الٰہی ہے اور اس سے جنت کی نہریں  پھوٹ کر نکلتی ہیں  ۔[77]

أَبَا هُرَیْرَةَ،قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِّثْنَا عَنِ الْجَنَّةِ، مَا بِنَاؤُهَا؟ قَالَ:لَبِنَةُ ذَهَبٍ وَلَبِنَةُ فِضَّةٍ، وَمِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ، وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ، وَتُرَابُهَا الزَّعْفَرَانُ، مَنْ یَدْخُلُهَا یَنْعَمُ وَلَا یَبْأَسُ، وَیَخْلُدُ وَلَا یَمُوتُ، لَا تَبْلَى ثِیَابُهُ وَلَا یَفْنَى شَبَابُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں  جنت کے بارے میں  بتائیں  اسے کس طرح بنایاگیاہے؟فرمایااس کی ایک اینٹ سونے کی اورایک اینٹ چاندی کی ہے،اس کاگاراانتہائی خوشبودارکستوری، اس کے کنکرموتی اوریاقوت ہیں  ،اس کی مٹی زعفران ہے،جواس میں  داخل ہوگاوہ شاداں  وفرحاں  ہوگااورکبھی پریشان نہ ہوگااورہمیشہ ہمیشہ رہے گا،اسے کبھی موت نہ آئے گی، نہ اس کالباس کبھی بوسیدہ ہوگااورنہ اس کاشباب کبھی ختم ہوگا۔[78]

تمناکرنے والے اس سے بڑھ کرکسی چیزکی تمنا نہیں  کرسکتے، مگران سب سے بڑی چیزتوزمین وآسمان کے رب کی رضامندی ہے، اوریہی سب سے بڑی کامیابی ہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ یَقُولُ لِأَهْلِ الجَنَّةِ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ، فَیَقُولُونَ: لَبَّیْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْكَ وَالخَیْرُ فِی یَدَیْكَ، فَیَقُولُ: هَلْ رَضِیتُمْ؟ فَیَقُولُونَ: وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَى یَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَیَقُولُ: أَلاَ أُعْطِیكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، فَیَقُولُونَ: یَا رَبِّ وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ، فَیَقُولُ: أُحِلُّ عَلَیْكُمْ رِضْوَانِی فَلاَ أَسْخَطُ عَلَیْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے جنت والوں  ! وہ لوگ عرض کریں  گے اے پروردگار لبیک و سعد یک، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم لوگ خوش ہو، وہ لوگ کہیں  گے ہم کیوں  نہ راضی ہوں  کہ جب تو نے وہ چیز عطاء کی ہے جو اپنے مخلوق میں  سے کسی کو نہیں  دی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں  اس سے بہتر چیز عطاء کروں  گا، وہ لوگ پوچھیں  گے اے رب اس سے بہتر کیا چیز ہے ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں  تم پر اپنی رضا نازل کروں  گا، اس کے بعد میں  تم پر کبھی ناراض نہ ہوں  گا۔ [79]

وَلَا عَلَى الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ ‎﴿٩٢﴾‏(التوبة)
ہاں  ان پر بھی کوئی حرج نہیں  جو آپ کے پاس آتے ہیں  کہ آپ انہیں  سواری مہیا کردیں  ، تو آپ جواب دیتے ہیں  کہ میں  تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں  پاتا ،تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں  سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں  کہ شانہیں  خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں  ۔

اعلان جہادفی سبیل اللہ کے بعدسرفروشوں  کے لشکرکے لشکرہرطرف سے امنڈامنڈکرآنے شروع ہوئے اوران میں  سے حاجتمندوں  نے تقاضاکیاکہ اسلحہ اورسوریوں  کاانتظام ہوتوہماری جانیں  قربان ہونے کوحاضرہیں  ،

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: ثُمَّ إنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ الْبَكَّاءُونَ، وَهُمْ سَبْعَةُ نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَغَیْرِهِمْ مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ: سَالِمُ ابْن عُمَیْرٍ، وَعُلْبَةُ بْنُ زَیْدٍ، أَخُو بَنِی حَارِثَةَ، وَأَبُو لَیْلَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبٍ، أَخُو بَنِی مَازِنِ بْنِ النَّجَّارِ، وَعَمْرُو بْنُ حُمَامِ بْنِ الْجَمُوحِ، أَخُو بَنِی سَلِمَةَ، وَعَبْدُ اللهِ ابْن الْمُغَفَّلِ الْمُزَنِیُّ وَبَعْضُ النَّاسِ یَقُولُ: بَلْ هُوَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو الْمُزَنِیُّ وَهَرَمِیُّ ابْن عَبْدِ اللهِ، أَخُو بَنِی وَاقِفٍ، وَعِرْبَاضُ بْنُ سَارِیَةَ الْفَزَارِیُّ. فَاسْتَحْمَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا أَهْلَ حَاجَةِ، فَقَالَ: لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ، فَتَوَلَّوْا وَأَعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنْفِقُونَ

چنانچہ ابن اسحاق کہتے ہیں  ان میں  سے سات یااس سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روتے ہوئے آپ کی خدمت میں  حاضرہوئے،ان میں  بنوعمروبن عوف سے سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ ، بنوحارثہ سے علبہ بن زید رضی اللہ عنہ ،بنومازن بن نجارسے ابولیلیٰ عبدالرحمان بن کعب رضی اللہ عنہ ،بنوسلمہ سے عمرو رضی اللہ عنہ بن حمام بن جموح،عبداللہ بن معقل المزنی بعض راوی انہیں  عبداللہ بن عمروالمزنی کہتے ہیں  ، بنوواقف سے ہرمی رضی اللہ عنہ بن عبداللہ اورعرباض رضی اللہ عنہ بن ساریہ شامل تھے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم بالکل نادرہیں  اگرسواری کاہمیں  سہارا ہو جائے توہم اس سعادت سے محروم نہ رہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے پاس تمہارے لئے سواری کاانتظام نہیں  ہے،اس پروہ روتے ہوئے واپس چلے جاتے کہ ہمارے پاس جہادفی سبیل اللہ کے لیے خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں  ۔[80]

جب وہ حضرات روتے اور اپنے اخلاص کی بے تابیوں  کااظہار کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادل بھرآتا تھا،یہ موقع ایمان اورنفاق کے امتیازکی کسوٹی بن گیاتھاحتی کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہوجائے،

فَبَلَغَنِی أَنَّ ابْنَ یَامِینَ بْنِ عُمَیْرِ بْنِ كَعْب النّضرى لفی أَبَا لَیْلَى عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ كَعْبٍ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ مُغَفَّلٍ وَهُمَا یَبْكِیَانِ، فَقَالَ: مَا یُبْكِیكُمَا؟قَالَا: جِئْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَحْمِلَنَا، فَلَمْ نَجِدْ عِنْدَهُ مَا یَحْمِلُنَا عَلَیْهِ، وَلَیْسَ عِنْدَنَا مَا نَتَقَوَّى بِهِ عَلَى الْخُرُوجِ مَعَهُ، فَأَعْطَاهُمَا نَاضِحًا لَهُ، فارتحلاه، وزوّدهما شَیْئًا مِنْ تَمْرٍ، فَخَرَجَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

چنانچہ عبداللہ مغفل اورابولیلی عبدالرحمان بن کعب جب آپ کے پاس سے روتے ہوئے واپس ہوئے توراستہ میں  یامین بن عمرونضری مل گئے،اس نے پوچھاتم لوگ کیوں  رورہے ہو؟ انہوں  نے کہاہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کیاکہ ہمیں  سواری عنایت فرمادیں  مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی سواری کاکوئی بندوبست نہیں  ہے اورنہ ہم میں  استطاعت ہے کہ سفرکاسامان مہیاکرسکیں  ،اب اس بات پر حسرت اور افسوس ہے کہ ہم اس غزوہ میں  شرکت سے محروم رہ جائیں  گے ،یہ سن کر یامین کادل بھی بھرآیا،اس نے اسی وقت ایک اونٹ خریدااوران کے زادراہ کا انتظام کیااوریہ دونوں  اس پرسوارہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں  گئے۔[81]

ان کی شان میں  یہ آیتیں  نازل ہوئیں  ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَنِی أَصْحَابِی إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ الحُمْلاَنَ لَهُمْ، إِذْ هُمْ مَعَهُ فِی جَیْشِ العُسْرَةِ، وَهِیَ غَزْوَةُ تَبُوكَ فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابِی أَرْسَلُونِی إِلَیْكَ لِتَحْمِلَهُمْ، فَقَالَ وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَیْءٍ وَوَافَقْتُهُ، وَهُوَ غَضْبَانُ وَلاَ أَشْعُرُ وَرَجَعْتُ حَزِینًا مِنْ مَنْعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ یَكُونَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ فِی نَفْسِهِ عَلَیَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِی فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِی قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَیْعَةً، إِذْ سَمِعْتُ بِلاَلًا یُنَادِی: أَیْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَیْسٍ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُوكَ، فَلَمَّا أَتَیْتُهُ قَالَ: خُذْ هَذَیْنِ القَرِینَیْنِ، وَهَذَیْنِ القَرِینَیْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ ابْتَاعَهُنَّ حِینَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ ، فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ: إِنَّ اللَّهَ، أَوْ قَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلاَءِ فَارْكَبُوهُنَّ .

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرے ساتھیوں  نے جنگ تبوک کے موقع پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  بھیجا تاکہ میں  ان سے سواری طلب کروں  میں  نے آکر خدمت مبارک میں  عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے میرے ساتھیوں  نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں  آپ سے سواری طلب کروں  ، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں  تمہیں  کوئی سواری کے جانورنہیں  سے سکتا،میں  جب آپ کی خدمت میں  حاضرہواتھاتو آپ اس وقت غصہ میں  تھے اور میں  اسے معلوم نہ کرسکاتھا،یہ خوف تھاکہ کہیں  آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفانہ ہوگئے ہوں  ، میں  اپنے ساتھیوں  کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ فرمایاتھااپنے ساتھیوں  سے بیان کردیا،تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ میں  نےبلال رضی اللہ عنہ کی آوازسنی وہ پکاررہے تھےاے عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ ! میں  نے جواب دیاتو انہوں  نے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں  بلارہے ہیں  ، میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ دوجوڑے اوریہ دوجوڑے اونٹ لے جاؤ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ اونٹ عنایت فرمائے،ان اونٹوں  کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سےخریداتھا،اورفرمایاانہیں  اپنے ساتھیوں  کودے دواورانہیں  بتاؤکہ اللہ تعالیٰ نے یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں  دیاہے ان پرسوارہوجاؤ۔[82]

ایک اورروایت میں  ہے کہیں  سے غنیمت آگئی تھی اس میں  سے پانچ اونٹ انہیں  دے دیئے،

إِنَّا أَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنَ الأَشْعَرِیِّینَ فَاسْتَحْمَلْنَاهُ، فَأَبَى أَنْ یَحْمِلَنَا، فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَحَلَفَ أَنْ لاَ یَحْمِلَنَا، ثُمَّ لَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُتِیَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ،

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم قبیلہ اشعرکے چندلوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (غزوہ تبوک کے لیے )سواری کے جانورمانگے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سواری نہیں  ہے،ہم نے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگاتوآپ نے اس مرتبہ قسم کھائی کہ آپ ہم کوسواری نہیں  دیں  گے، لیکن ابھی کچھ زیادہ دیرنہیں  ہوئی تھی کہ غنیمت میں  کچھ اونٹ آئے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں  سے پانچ اونٹ ہم کودلائے ۔[83]

قالوا:بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الرُّومَ قَدْ جَمَعَتْ جُمُوعًا كَثِیرَةً بِالشَّامِ، وَأَنَّ هرقل قَدْ رَزَقَ أَصْحَابَهُ لِسَنَةٍ، وَأَجْلَبَتْ مَعَهُ لَخْمٌ، وَجُذَامُ، وَعَامِلَةُ، وَغَسَّانُ، وَقَدَّمُوا مُقَدِّمَاتِهِمْ إِلَى الْبَلْقَاءِ

مسلمان لشکرکی تیاریاں  ہوہی رہیں  تھیں  کہ شام کے نبطی سوداگرجوزیتون کاتیل فروخت کرنے مدینہ طیبہ آیا کرتے تھے، ان کے ذریعہ یہ خبرمعلوم ہوئی کہ ہرقل نے ایک عظیم لشکرآپ کے مقابلہ کے لئے تیارکیاہے جس میں  قبائل خم ، جذام،عاملہ اورغسان بھی شامل ہوگئے ہیں  جس سے اس کامقدمة الجیش بلقاء تک پہنچ گیاہےاورہرقل نے تمام فوج کو سال بھرکی تنخواہیں  بھی تقسیم کردی ہیں  ۔[84]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ چلاکہ رومیوں  نے جنوبی شام میں  لشکرکثیرجمع کرلیاہے جن کے ساتھ کچھ عربی قبائل خم ، جذام،عاملہ اورغسان بھی مل گئے ہیں  حتی کہ رومیوں  کے کچھ دستے تو بلقاء (اردن) تک پہنچ گئے ہیں  ،اورخود شہنشاہ ہرقل حمص میں  ہے، تواب مسلمانوں  کوہردم خطرہ لاحق ہواکہ کب آل غسان اپنے آزمودہ کار لشکرجرارکے ساتھ مدینہ پریورش کردیں  ، صورت حال انتہائی سنگین تھی مگر ایسے نازک وقت میں  اسی (۸۰)سے زائد منافقین انصار جوخودکومسلمان کہتے تھے مگرسمجھتے تھے کہ اللہ ان کے دلوں  کے چھپے بھیدنہیں  جانتا، جو غزوہ بدرسے مسلمانوں  کوہر سازش وطاقت کے خلاف کامیاب وکامران دیکھتے چلے آرہے تھے،جواللہ کی طرف سے باربارتنبیہات کے باوجوداپنے نفاق سے توبہ نہیں  کر رہے تھے، انہوں  نے بغیرکسی معقول وجہ کے جہادپرنہ جانے کی اجازت چاہی، اورانہیں  اس سعادت سے محروم رہنے کی اجازت مل گئی ،ان رہ جانے والوں  میں  رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا،

وجاء المعذرون من الأعراب لیؤذن لهم فَلَمْ یَعْذِرْهُمْ. قَالَ ابْنُ سَعْدٍ: وَهُمُ اثْنَانِ وَثَمَانُونَ رَجُلا، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولٍ قَدْعَسْكَرَ عَلَى ثَنِیَّةِ الْوَدَاعِ فِی حُلَفَائِهِ مِنَ الْیَهُودِ وَالْمُنَافِقِینَ، فَكَانَ یُقَالُ: لَیْسَ عَسْكَرُهُ بِأَقَلِّ الْعَسْكَرَیْن

اسی طرح قبائل بنواسد،بنی غفاراورغطفان کے منافقین جن کی تعدادبیاسی تھی جہادپرنہ جانے کا عذرپیش کرنے کے لئے حاضر ہوئےمگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذرقبول نہ فرمایا،عبداللہ بن ابی سلول نے اپنے منافقین خلفاء کے ہمراہ ثَنِیَّةِ الْوَدَاعِ میں  لشکرقائم کیاتھا،کہاجاتاہے کہ دونوں  لشکروں  میں  اس کالشکرکم نہیں  تھا۔ [85]

ان منافقین نے خود توجہادسے رغبت نہ ہونے،حق وصداقت میں  شک وشبہ کرنے کی وجہ پہلوتہی کی ہی تھی، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غلط پروپیگنڈاکی غرض سے دوسرے راسخ العقیدہ مسلمانوں  کو گرمی کی شدت کا کہہ کر بہکانے لگے۔

وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِی الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا یَفْقَهُونَ ‎﴿٨١﴾‏(التوبة)
اور انہوں  نے کہہ دیا اس گرمی میں  مت نکلو۔

مگران تمام مشکلات کے باوجودمخلص مسلمان دل وجان سے جہادکی تیاریوں  میں  مصروف رہے۔

مسجدضرارکی تعمیر:

قبیلہ بنوعمروبن عوف میں  بھی ایک شخص(غزوہ احدمیں  شہید ہونے والے ممتازصحابی حنظلہ(غسیل الملائکہ) کاوالدابوعامرعبدبن عمروبن صیفی بن نعمان تھا،اس نے توراة وانجیل کااتنامطالعہ کیاتھاکہ اس کاشمارعلماء اہل کتاب میں  ہوتاتھا، اس نے بھی جاہلیت میں  رہبانیت اختیارکرلی تھی اورٹاٹ کا یا موٹا کپڑا پہنا کرتا تھااس لئے راہب کے نام سے مشہورتھا، رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقارکے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کاسکہ بھی مدینہ اوراطراف کے جاہل عربوں  کے دلوں  پر بیٹھا ہوا تھا،علماء اہل کتاب اور فقراء ودرویشوں  کی صحبت سے اسے دین کے ذریعہ دنیاکمانے کے راستے خوب معلوم ہوگئے تھے ،اس کو اپنی قوم میں  عزت ومنزلت حاصل تھی اور اس کے ہرحکم کوتسلیم کیا جاتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ پہنچے تواس کی مشیخت وہاں  خوب چل رہی تھی، مگریہ علم اوریہ درویشی اس کے اندرحق شناسی اورحق جوئی پیداکرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی، جس کانتیجہ یہ نکلاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعدنعمت ایمان ہی سے محروم رہا،بلکہ آپ کواپنی مشیخت کاحریف اوراپنا کاروباردرویشی کادشمن سمجھ کرآپ کی اوردعوت اسلام کی مخالفت پرکمربستہ ہوگیا،پہلے دوسال تک تواسے یہ امید رہی کہ کفارقریش کی طاقت ہی اسلام کومٹانے کے لئے کافی ثابت ہوگی ،لیکن غزوہ بدرمیں  قریش نے عبرتناک شکست کھائی تواسے یارائے ضبط نہ رہا،اور تواس نے مدینہ طیبہ میں  رہنے کے بجائے قوم سے جدائی کی راہ اختیارکی اوردس سے زائدآدمی لے کرمکہ مکرمہ چلاگیا،

أَنَّ أَبَا عَامِرٍ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَةَ، قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إلَى مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا هَذَا الدِّینُ الَّذِی جِئْتَ بِهِ؟فَقَالَ: جِئْتُ بِالْحَنِیفِیَّةِ دِینِ إبْرَاهِیمَ،قَالَ: فَأَنَا عَلَیْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنَّكَ لَسْتَ عَلَیْهَا،قَالَ: بَلَى قَالَ: إنَّكَ أَدَخَلْتَ یَا مُحَمَّدُ فِی الْحَنِیفِیَّةِ مَا لَیْسَ مِنْهَا، قَالَ: مَا فَعَلْتُ، وَلَكِنِّی جِئْتُ بِهَا بَیْضَاءَ نَقِیَّةً،قَالَ: الْكَاذِبُ أَمَاتَهُ اللهُ طَرِیدًا غَرِیبًا وَحِیدًا یُعَرِّضُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیْ أَنَّكَ جِئْتَ بِهَاكَذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ، فَمَنْ كَذَبَ فَفَعَلَ اللهُ تَعَالَى ذَلِكَ بِهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ طیبہ میں  تشریف لائے توابوعامر نےمکہ مکرمہ جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتم یہ کیادین لائے ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  ابراہیم علیہ السلام کادین حنیف لایاہوں  ،وہ بولااس دین پرتومیں  ہوں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایانہیں  ، تم اس دین پر نہیں  ہو، بولاکیوں  نہیں  !اے محمد!تونے دین ابراہیمی میں  بدعات داخل کردی ہیں  جواس میں  نہیں  ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  نے ایسانہیں  کیابلکہ میں  توابراہیم علیہ السلام کاصاف ستھرااور بدعتوں  سے پاک دین لایاہوں  ، ابوعامر بولا جھوٹے کواللہ تعالیٰ اپنی قوم اورملک سے دورذلت کی موت مارے گا(اس کااشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا)،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے تحمل سے فرمایاہاں  یہ ٹھیک ہے جوجھوٹاہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایساہی سلوک کرے گاچنانچہ اس کویہی سزاملی۔(ابن ہشام ۵۸۵؍۱، الروض الانف۲۵؍۵،عیون الآثر۲۵۵؍۱) جب تک وہ مدینہ منورہ میں  رہاکھل کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا رہا، مگرجب اس سے کچھ بن نہ پڑاتوقریش اوردوسرے عرب قبائل میں  اسلام کے خلاف تبلیغ کے لئے مکہ مکرمہ بھاگ گیا،غزوہ احدجن لوگوں  کی سعی سے برپاہوئی ان میں  یہ بھی شامل تھا،اورکہاجاتاہے کہ غزوہ احدمیں  یہ بھی ان کے ساتھ لشکرمیں  شریک ہوکرآیا تھا،اورموقعہ پاکرمیدان جنگ میں  دونوں  صفوں  کے درمیان گڑھے کھوددیئے تھے، اسی کے کھودے ہوئے ایک گڑھے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرپڑے تھے،جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنے قبیلہ کے لوگوں  کواپنی مددکے لئے مائل کرنے لگا،جب انصارنے اس کوپہچان کردھتکاردیااوراس کوکہنے لگے اے فاسق !اللہ کے دشمن!اللہ تعالیٰ کبھی تیری آنکھیں  ٹھنڈی نہیں  کرے گااورتواپنے بدنیتی میں  کبھی بھی کامیاب نہیں  ہوسکے گا ،اس طرح کے اوربہت سے سخت وسست جملے کہے ،اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے ایساسخت جواب سن کرمایوسی کی حالت میں  واپس چلاگیا،اورکہنے لگامیرے بعدمیری قوم بگڑگئی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعافرمائی تھی کہ گھرسے دوررانداہواموت سے ہمکنارہو،چنانچہ اس کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعالگ گئی ،پھرغزوہ احزاب میں  جولشکرہرطرف سے مدینہ منورہ پرچڑھ آئے تھے ان کوچڑھالانے میں  بھی اس کاحصہ نمایاں  تھا،اس کے بعدغزوہ حنین تک جتنی لڑائیاں  مشرکین عرب اورمسلمانوں  کے درمیان برپاہوئیں  ان سب میں  یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کاسرگرم حامی رہا،

فَلَمّا أَسْلَمَ أَهْلُ الطّائِفِ لَحِقَ بِالشّامِ

جب اہل طائف بھی اسلام لے آئے تو آپ کے خلاف مددلینے کے لئے روم کی طرف چلاگیا،

تاکہ قیصرکواس خطرے سے اگاہ کرے جوعرب سے سراٹھارہاتھا،قیصرنے اسے مدددینے کاوعدہ کیایہ وہی موقع تھاجب مدینہ طیبہ میں  یہ اطلاعات پہنچیں  کہ قیصرعرب پر چڑھائی کی تیاریاں  کررہاہے ،وہ کچھ عرصہ اس کے پاس رہااوراپنے منافق دوستوں  کوجواس کے ساتھ شریک سازش تھے لکھاکہ میں  بہت جلدایک لشکرجرارلے کراوں  گا،اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوراس کے ساتھیوں  کومدینہ سے نکال دوں  گا،اورانہیں  تجویزبھیجی کہ وہ ایک الگ مسجدبنائیں

x تاکہ عام مسلمانوں  سے بچ کرمسلمانوں  میں  تفرقہ اندازی کی جاسکے۔

x تاکہ منافق مسلمانوں  کی علیحدہ جتھ بندی اس طرح کی جاسکے کہ اس پرمذہب کاپردہ پڑارہے، اورآسانی سے اس پرکوئی شبہ نہ کیاجاسکے۔

x اوروہاں  نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہوسکیں  اورآئندہ کاروائیوں  کے لئے مشورے کرسکیں  ،بلکہ ابوعامرکے پاس سے جوایجنٹ خبریں  اورہدایات لے کرآئیں  وہ بھی غیرمشتبہ فقیروں  اورمسافروں  کی حیثیت سے اس مسجدمیں  ٹھہرسکیں  ۔

مدینہ میں  اس وقت دومسجدیں  تھیں  ، ایک مسجدقباجوشہرکے مضافات میں  تھی اوردوسری مسجدنبوی جوشہرکے اندرتھی ان دوکی موجودگی میں  تیسری مسجدبنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی،

فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إنَّا قَدْ بَنَیْنَا مَسْجِدًا لِذِی الْعِلَّةِ وَالْحَاجَةِ وَاللیْلَةِ الْمَطِیرَةِ وَاللیْلَةِ الشَّاتِیَةِ،وَكَانَ الَّذین بنوه اثنى عَشَرَ رَجُلًا،خِذَامُ بْنُ خَالِدٍ، مِنْ بَنِی عُبَیْدِ بْنِ زَیْدٍ، أَحَدِ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَمِنْ دَارِهِ أُخْرِجَ مَسْجِدُ الشِّقَاقِ، وَثَعْلَبَةُ بْنُ حَاطِبٍ مِنْ بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ زَیْدٍ،وَمُعَتِّبُ بْنُ قُشَیْرٍ، مِنْ بَنِی ضُبَیْعَةَ بْنِ زَیْدٍ، وَأَبُو حَبِیبَةَ بْنِ الْأَزْعَرِ، مِنْ بَنِی ضُبَیْعَةَ بْنِ زَیْدٍ، وَعَبَّادِ بْنِ حُنَیْفٍ، أَخُو سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَجَارِیَةُ بْنُ عَامِرٍ، وَابْنَاهُ مُجَمِّعُ بْنُ جَارِیَةَ، وَزَیْدُ بْنُ جَارِیَةَ، وَنَبْتَلُ بْنُ الْحَارِثِ، مِنْ بَنِی ضُبَیْعَةَ، وَبَحْزَجُ، مِنْ بَنِی ضُبَیْعَةَ، وَبِجَادُ بْنُ عُثْمَانَ، مِنْ بَنِی ضُبَیْعَةَ، وَوَدِیعَةُ بْنُ ثَابِتٍ، وَهُوَ مِنْ بَنِی أُمَیَّةَ (بْنِ زَیْدٍ) رَهْطُ أَبِی لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ.

مگر انہوں  نے اس مسجدکی ضرورت یہ کہہ کرپیش کی کہ بارش میں  اورجاڑے کی راتوں  میں  عام لوگوں  کواورخصوصاًضعیفوں  اورمعذوروں  کوجوان دونوں  مسجدوں  سے دوررہتے ہیں  پانچوں  وقت حاضری دینامشکل ہوتی ہے، لہذاہم محض نمازیوں  کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجدتعمیرکرناچاہتے ہیں  ، جن منافقین نے یہ مسجدبنائی تھی وہ بارہ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں  ،خذام بن خالداسی نے اپنے گھرمیں  سے جگہ نکال کر یہ مسجدشقاق تعمیرکی تھی، بنو امیہ بن زید سے ثعلبہ بن حاطب،بنو ضبیعہ بن زید سے معتب بن قشیر اور ابوحبیبہ بن الازعر،بنو عمر بن عوف سے عبادبن حنیف(سہیل بن حنیف کابھائی)،جاریہ بن عامر، اس کے دونوں  بیٹے مجمع بن جاریہ اور زید بن جاریہ ،بنو ضبیعہ سے نبتل بن حارث اور بجادبن عثمان اوربنو امیہ بن زید سے ودیعہ بن ثابت اور ابی لبابہ بن عبد المنذر کی جماعت۔[86]

عمروبن مالک بن عوف،قردہ بن فیظی،بشیربن زید،رافع بن زید،مالک بن قوقل۔[87]

رَافِعُ بْنُ وَدِیعَةَ، وَزَیْدُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَمْرُو بْنُ قیس، وقیس بن عمرو ابن سَهْلٍ، وَالْجَدُّ بْنُ قَیْسٍ

ان منافقین میں  رافع بن ودیعہ ، زید بن عمرو، عمرة بن قیس ، قیس بن عمرو بن سہل اور الجد بن قیس شامل تھے۔[88]

چنانچہ زیدبن اسید،بشربن رافع،اوس بن قینظی،مربع بن قینظی،رفاعہ بن زیدبن تابوت، اوس بن خولی،سعدبن حنیف ، عمربن حرام،رافع بن بدلعیہ،زیدبن عمرو،قیس بن عمرو،عمروبن قیس ابوعماروائلی ،ھودہ بن قیس اورعزیزبن ابی عزیز نے ابوعامرکی ہدایت کے مطابق مسجدبناناشروع کردی، جب ان پاکیزہ ارادوں  کی نمائش کے ساتھ مسجدضراربن کرتیارہوئی تویہ اشرارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اوردرخواست کی،

وَإِنَّا نُحِبُّ أَنْ تَأْتِیَنَا، فَتُصَلِّی لَنَا فِیهِ ، فَقَالَ:إنِّی عَلَى جَنَاحِ سَفَرٍ، وَحَالِ شُغْلٍ، أَوْ كَمَا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ قَدْ قَدِمْنَا إنْ شَاءَ اللهُ لَأَتَیْنَاكُمْ، فَصَلَّیْنَا لَكُمْ فِیهِ

آپ اس میں  ایک مرتبہ ہمیں  نمازپڑھادیں  تاکہ وہ مقبول ہوجائے اورنمازپڑھ کرہمارے حق میں  برکت کی دعا کریں  ،مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کرٹال دیاکہ اس وقت میں  پابہ رکاب ہوں  اس مہم سے واپسی پرآکردیکھوں  گااوراپنے سفرپرروانہ ہوگئے ،

اس طرح منافقین اپنے مقصد بد میں  کامیاب نہ ہوسکے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یہ لوگ اس مسجدمیں  اپنی جتھ بندی اور سازشیں  کرتے رہے، حتی کہ انہوں  نے یہاں  تک طے کرلیاکہ ادھررومیوں  کے ہاتھوں  مسلمانوں  کاقلع قمع ہو،ا ور ادھر یہ فوراًہی عبداللہ بن ابی کے سرپرتاج شاہی رکھ دیں  ۔مگرتبوک میں  جومعاملہ پیش آیااس نے ان کی ساری امیدوں  پرپانی پھیردیا۔

[1] مجمع الزوائد۱۰۳۱۱،المعجم الکبیرللطبرانی۵۷۷،شرح الزرقانی علی المواھب۶۸؍۴

[2] ابن ہشام۵۱۶؍۲،الروض الانف ۳۸۴؍۷،تاریخ طبری۱۰۱؍۳، البدایة والنہایة۶؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۴؍۴

[3] صحیح بخاری كِتَابُ الوَصَایَا بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا، وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ المُسْلِمِینَ۲۷۷۸

[4] شرح الزرقانی علی المواھب۶۹؍۴

[5] اسدالغابة۶۶۷؍۱

[6] ابن ہشام۵۵۱؍۲

[7]شرح الزرقانی علی المواھب ۶۸؍۴،مغازی واقدی۹۹۱؍۳

[8] ابن ہشام۵۵۱؍۲

[9]شرح الزرقانی علی المواھب ۶۸؍۴

[10] شرح الزرقانی علی المواھب ۶۸؍۴

[11] شرح الزرقانی علی المواھب ۶۹؍۴

[12] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَلَهُ كُنْیَتَانِ، یُقَالُ: أَبُو عَمْرٍو، وَأَبُو عَبْدِ اللهِ ۳۷۰۰ ،مسندابی داودالطیالسی۱۲۸۵،دلائل النبوة للبیہقی ۲۱۴؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۶۹؍۴،البدایة والنہایة۷؍۵، اسدالغابة۴۳۷؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۷؍۴

[13] ابن ہشام۵۱۸؍۲،الروض الانف ۳۸۶؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب ۷۱؍۴،البدایة والنہایة ۷؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۶؍۴

[14] الكامل فی ضعفاء الرجال۴۶۶؍۴،تاریخ دمشق لابن عساکر۶۷؍۳۹

[15] سنن نسائی کتاب الخیل بَابُ وَقْفِ الْمَسَاجِدِ۳۶۰۷ ،مسند ابی داودالطیالسی۸۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۱۵؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۷۱؍۴،البدایة والنہایة ۸؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۷؍۴

[16] مغازی واقدی۹۹۱؍۳

[17]اسدالغابة۶۶۷؍۱،الإصابة فی تمییز الصحابة۲۳۳؍۷،معجم الصحابة للبغوی ۱۶۶؍۲،معرفة الصحابة لابن مندہ۴۰۸؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم۸۷۵؍۲

[18] التوبة: 79

[19] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ المُطَّوِّعِینَ مِنَ المُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ۴۶۶۸

[20] الإصابة فی تمییز الصحابة۹۳؍۷

[21] التوبة: 79

[22] صحیح بخاری كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِیلِ مِنَ الصَّدَقَةِ۱۴۱۵

[23] اسد الغابة ۷۷؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۵۰؍۴

[24] مغازی واقدی۹۹۱؍۳

[25] ابن ہشام۵۱۷؍۲،الروض الانف۳۸۵؍۷،البدایة والنہایة۷؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۷۲؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۶؍۴

[26] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۱۹۷، مسنداحمد۱۸۰۰۹،ابن سعد۱۲۷؍۶

[27] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۹۷؍۶

[28] محمد۳۸

[29] مسنداحمد۱۱،صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ مَنَاقِبِ المُهَاجِرِینَ وَفَضْلِهِمْ ۳۶۵۳، وکتاب التفسیر سورة التوبة بَابُ قَوْلِهِ ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا۴۶۶۳ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۱۶۹، مسنداحمد۱۱،زادالمعاد۴۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۴۸۰؍۲

[30] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِینَ ۷۴۵۸

[31]التوبة: 41 “.

[32] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ ۳۱۲۳ ، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضْلِ الْجِهَادِ وَالْخُرُوجِ فِی سَبِیلِ اللهِ۴۸۶۱

[33] البقرة۲۱۶

[34] مسنداحمد۱۲۰۶۱

[35] تفسیرطبری۲۷۳؍۱۴

[36] تفسیرطبری۲۷۷؍۱۴

[37] ابن ہشام۵۱۶؍۲ ،الروض الانف۳۸۴؍۷،عیون الاثر۲۶۷؍۲ ،زادالمعاد۴۶۱؍۳،البدایة والنہایة۶؍۵،تاریخ طبری ۱۰۱؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۱۳؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۵؍۴

[38] مستدرک حاکم۴۹۶۵،المعجم الکبیرللطبرانی۱۶۳

[39] المائدة۲۷

[40] صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا

[41] طہ۱۳۱

[42] تفسیرطبری۳۰۲؍۱۴

[43] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ عن ابی سعیدخدری ۳۶۱۰،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ۲۴۴۹

[44] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۰،وكِتَابُ المَغَازِی بَابُ بَعْثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۳۵۱،و كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّینَ وَالمُعَانِدِینَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِینَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَیْهِمْ۶۹۳۰،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ ۲۴۶۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۳۰۰۰

[45] شرح السنة للبغوی ۲۱۳؍۱

[46] تفسیرطبری۳۰۸؍۱۴

[47] تفسیرابن کثیر۱۶۵؍۴

[48]تفسیرطبری۳۰۶؍۱۴

[49] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى لاَ یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۱۴۷۹ ، صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ الْمِسْكِینِ الَّذِی لَا یَجِدُ غِنًى، وَلَا یُفْطَنُ لَهُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْهِ۲۳۹۳

[50] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ تَرْكِ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِیِّ عَلَى الصَّدَقَةِ۲۴۸۱

[51] تفسیرابن کثیر ۱۶۷؍۴

[52] شرح مشكل الآثار۴۷۷۴،صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۳۳۴۴،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ۲۴۵۱

[53] صحیح بخاری کتاب کفارات الایمان بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَةٍ ۶۷۱۵،صحیح مسلم کتاب العتق بَابُ فَضْلِ الْعِتْقِ۳۷۹۶، شرح السنة للبغوی۲۴۱۶

[54] الصافات۳۹

[55]سنن الدارقطنی۲۰۵۵

[56] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ۲۴۰۴،سنن الدارمی۱۷۲۰

[57] صحیح مسلم كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ بَابُ اسْتِحْبَابِ الْوَضْعِ مِنَ الدَّیْنِ۳۹۸۱،سنن ابوداودأَبْوَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِی وَضْعِ الْجَائِحَةِ۳۴۶۹، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ تَفْلِیسِ الْمُعْدَمِ وَالْبَیْعِ عَلَیْهِ لِغُرَمَائِهِ ۲۳۵۶،جامع ترمذی كتاب الزكاة بَابُ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ مِنَ الْغَارِمِینَ وَغَیْرِهِمْ ۶۵۵،السنن الکبری للنسائی۶۰۷۶

[58] تفسیرطبری ۳۲۹؍۱۴

[59] تفسیرطبری۳۳۱؍۱۴

[60] المجادلة۸

[61] ابن ہشام۵۲۵؍۲

[62] تفسیرابن کثیر۱۷۲؍۴

[63] تفسیرطبری۱۶۹۱۱،۱۶۹۱۲،۱۶۹۱۴،۱۶۹۱۵،۱۶۹۱۶،تفسیرابن ابی حاتم۱۸۲۹۶،الدر المنثورفی التفسیربالماثور۲۳۱؍۴

[64] محمد۲۹،۳۰

[65]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشر باب باب۴۸۸۲

[66] الجاثیة۳۴

[67] تفسیر طبری ۳۴۲؍۱۴

[68] مسنداحمد۸۳۴۰،صحیح بخاری کتاب الاعتصام بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۷۳۲۰،وکتاب احادیث الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۴۵۶،صحیح مسلم کتاب العلم بَابُ اتِّبَاعِ سُنَنِ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى۶۷۸۱

[69] النجم۵۳

[70] ھود۸۲،۸۳

[71] الحجر۷۴

[72] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ تَشْبِیكِ الأَصَابِعِ فِی المَسْجِدِ وَغَیْرِهِ۴۸۱،صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ۶۵۸۵

[73] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ۶۰۱۱، صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ ۶۵۸۶

[74] آل عمران۱۰۴

[75] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۴۴، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى۴۴۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ غُرَفِ الجَنَّةِ۲۵۲۸،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۸۶،مسنداحمد۱۹۶۸۲

[76] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابٌ فِی صِفَةِ خِیَامِ الْجَنَّةِ وَمَا لِلْمُؤْمِنِینَ فِیهَا مِنَ الْأَهْلِینَ۷۱۵۸

[77]صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۳

[78] مسنداحمد۸۰۴۳

[79]صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَهْلِ الجَنَّةِ۷۵۱۸،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَابَابُ إِحْلَالِ الرِّضْوَانِ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلَا یَسْخَطُ عَلَیْهِمْ أَبَدًا۷۱۴۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ باب۲۵۵۵

[80] ابن ہشام۵۱۸؍۲

[81] ابن ہشام ۵۱۸؍۲،الروض الانف۳۸۶؍۷،تاریخ طبری ۱۰۲؍۳،البدایة والنہایة۹؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۷۵؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۱۸؍۵،مغازی واقدی۹۹۴؍۳

[82] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِیَ غَزْوَةُ العُسْرَةِ ۴۴۱۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْأَیْمَانِ بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۶۴

[83] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ قُدُومِ الأَشْعَرِیِّینَ وَأَهْلِ الیَمَنِ۴۳۸۵

[84] ابن سعد۱۲۴؍۲، زادالمعاد۴۶۲؍۳،عیون الآثر۲۶۷؍۲

[85] زادالمعاد۴۶۳؍۳، عیون الآثر۲۶۸؍۲،ابن سعد۱۲۵؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۷۸؍۴

[86] ابن ہشام۵۳۰؍۲

[87] ابن ہشام۱۰۷؍۱

[88] البدایة والنہایة۲۳۹؍۳

Related Articles